ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

ایک سو پچاس جعلی اصحاب21%

ایک سو پچاس جعلی اصحاب مؤلف:
زمرہ جات: متن تاریخ
صفحے: 273

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 273 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 123642 / ڈاؤنلوڈ: 4389
سائز سائز سائز
ایک سو پچاس جعلی اصحاب

ایک سو پچاس جعلی اصحاب جلد ۴

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

٦٥واں جعلی صحابی خلید بن منذربن سا وی عبدی

ابن حجر کی ''اصابہ '' میں اس صحابی کا یوں تعارف کیا گیا ہے :

خلیدبن منذربن ساوی عبدی:

طبری نے لکھا ہے کہ علاء حضرمی نے ١٧ھمیں ''خلیف بن منذر'' کو ایک فوجی دستہ کی کمانڈ سونپ کر سمندر ی راستے سے ایران کی طرف روانہ کیا ۔ خلید کا باپ ''منذر بن ساوی '' رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی وفات کے بعد ہی اس دنیا سے چلاگیا تھا۔

ہم نے اس سے پہلے بھی کہا ہے کہ قدماجنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالارنہیں بناتے تھے ۔یہی ا مراس بات کی دلیل ہے کہ خلیدرسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں شرف یاب ہوا ہے ،اورخدابہتر جانتا ہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

سیف کے اس صحابی کا نسب:

منذر بن ساوی ،اخنس تمیمی داری عبدی اسبذی کا نواسہ ہے ۔

لیکن ''عبدی '' '' عبداﷲبن دارم '' سے نسبت ہے ۔ یہ غلط ہے اگر یہ گمان کیا جائے کہ یہ نسبت''عبدالقیس'' تک پہنچتی ہے ۔

اور،''اسبذی ''جیسے کہ ابن حزم کی '' جمہرہ '' اور بلا ذری کی ''فتوح البلدان میں لکھاگیا ہے کہ ''اسبذی'' ،''ہجر '' میں ایک قصبہ تھا ۔

بلاذری لکھتاہے :

''اسبذی '' بحرین میں کچھ لوگ تھے جو گھوڑے کی پوجا کرتے تھے ۔''

اور خود بحر ین کے بارے میں لکھتاہے :

٨ھمیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''علاء بن عبداﷲ''حضرمی ''کو بحرین بھیجا تاکہ وہاں کے باشندوں کو اسلام کی دعوت دے اور قبول نہ کرنے کی صورت میں ان پر جزیہ مقرر کرے ۔اس کے علاوہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ''منذر بن ساوی '' اور ''ہجر''کے سرحد بان ''سیبخت ''کے نام خط مرقوم فرمایا اور انھیں اسلام قبول کرنے یا جزیہ دینے کی دعوت دی۔ منذر اور سپخت اسلام لائے اور ان کے ہمراہ اس علاقہ کے تمام عرب زبان اور بعض غیر عرب بھی مسلمان ہو گئے' لیکن آتش پرست زمیندار یہودی اور عیسائی اسلام نہیں لائے اور انہوں نے جزیہ کی بناء پر علاء حضرمی سے صلح کی اور علاء نے اس سلسلے میں اپنے اور ان کے درمیان ایک عہد نامہ لکھا۔

۸۱

پیغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رحلت کے تھوڑے ہی دنوں کے بعد منذر فوت ہوگیا۔ (بلاذری کی بات کا خاتمہ)

''منذربن ساوی '' کی داستان کی حقیقت یہی تھی جو ہم نے اوپر ذکر کی ۔لیکن سیف بن عمر اسی منذرکے لئے ایک بیٹا خلق کرتا ہے اور اس کا نام ''خلید بن کاس '' کے نام پر ، ''خلید''رکھتاہے ۔''خلید بن کاس کو امیرالمومنین علی نے خراسان کے حاکم کے طور پر منصوب فرمایا تھا۔سیف اپنے اس خلید کا اپنی روایتوں میں ''خلید بن منذربن ساوی ''کے عنوان سے تعارف کراتاہے۔!!

ابن حجرنے اس تعارف کے تشریح کرتے ہوئے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں خلید کے لئے ''عبدی''کا بھی اضافہ کیا ہے کیونکہ منذربن ساوی کو ''عبدی 'سے نسبت دی گئی ہے ۔

خلید کا افسانہ:

طبری نے ١٧ھ کے حوادث کے ضمن میں سیف سے نقل کر کے لکھاہے :

علاء بن حضرمی جو بحرین پر حکومت کرتاتھا ،سعد بن ابی وقاص سے رقابت رکھتا تھا اور اپنے آپ کو اس سے کم تر نہیں سمجھتا تھا ۔لہذا سے جب سعد بن وقاص کو قادسیہ کی جنگ میں فتح نصیب ہوئی اور جو جنگی غنائم اسے حاصل ہوئے تھے وہ ارتداد کی جنگوں میں علاء کے ذریعہ حاصل کئے گئے غنائم سے کافی زیادہ تھے اس لحاظ سیسعد کا نام زبان زد عام ہو چکا توعلاء کے ذہن میں حسادت کی وجہ سے یہ خیال آیاکہ ایرانیوں کے ساتھ جنگ میں ایسا کارنامہ دکھائے جس سے شہرت حاصل کر سکے۔ علاء نے اپنی اس فکر کے تحت لوگوں کو سمندری راستے سے ایرانیوں پر حملہ کرنے کی دعوت دیدی ۔لوگوں نے بھی اس کی تجویز کو قبول کیا اور اس کے پرچم تلے جمع ہوگئے ۔

علاء نے جمع ہوئے سپاہیوں کو مختلف گروہوں میں تقسیم کیا فوج کے ایک حصہ پر ''جارود بن معلی '' دوسرے حصہ پر ''سوار بن ھماّم'' اور تیسرے حصہ پر ''خلید بن ساوی ''کو سپہ سالار مقرر کیا اور یہ حکم دیا کہ کمانڈ ر انچیف ''خلید '' ہوگا۔ اس کے بعد خلافت اور خود خلیفہ سے اجازت حاصل کئے بغیر اور خلیفہ عمر کی فرمانبرداری یا نافرمانی کے انجام کی فکر کئے بغیر خود سرانہ سمندر ی راستے سے ایرانیوں پر حملہ کیا۔

۸۲

عمر ، خودایرانیوں پر اس راستے سے حملہ کرنے سے آگاہ تھے ،لیکن رسول اﷲاور خلیفہ اول ابوبکر کی سنت کی پیروی کے پیش نظر اور بے جا خود خواہی اور غرور کے خوف سے ایسے حملہ کو جائز نہیں جانتے تھے اور سپاہ سالار وں کو پہلے سے ہی ایسے حملہ سے پرہیز کرنے کاحکم دے چکے تھے ۔

بالآخر علاء کے سپاہیوں نے سمندر سے گزر کر ''استخر فارس '' نام کے مقام سے ایران کی سرزمین پر قدم رکھا ۔ ''ھیر بد '' نامی اس علاقہ کے سرحد بان نے ایک تدبیر سوچی کہ اسلامی سپاہیوں اور ان کی کشتیوں کے درمیان ایسی رکاوٹ پیدا کرے کہ ان کا اپنی کشتیوں تک پہنچنا ناممکن بن جائے ۔اس تدبیر کے پیش نظر اگر علاء کے سپاہی فاتح نہ ہوتے تو انھیں قطعی طور پر موت یا اسارت میں سے ایک کا سامنا کر نا پڑتا !

'' خلید حالات کو بھانپ چکا تھا ،اس لئے اٹھ کر اپنے ساتھیوں سے مخاطب ہو کر بولا:

اما بعد ، خدائے تعالیٰ جب کسی امر کو مقرر فرماتاہے تو کام اس طرح ایک دوسرے کے پیچھے مرتب ہوتے ہیں تاکہ منشائے الٰہی پورا ہو جائے ۔

تمہارے دشمنوں نے جو کچھ تمہارے بارے میں انجام دیا ہے وہ اس سے زیادہ قدرت نہیں رکھتے ہیں ۔انہیں اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے کہ تم سے جنگ و مبارزہ طلب کریں ،اورتم لوگوں نے بھی اسی مقصد کے پیش نظر اتنا لمبا سفر کیا ہے ۔

اب سر زمینوں اور کشتیوں پر قبضہ کرنا تمہاری فتحابی پرمنحصر ہے ،صبر و شکیبائی اور نماز ادا کرکے بارگاہ خداوند ی میں خضنوع و خشوع کرو کہ یہ کام خوف خدا رکھنے والوں کے علاوہ دوسروں کے لئے مشکل ہے ۔

لوگوں نے خلید کی باتوں کی تائید کی اور ہر کام کے لئے اپنی آمادگی کا اعلان کیا اس کے بعد انہوں نے ظہر کی نماز ادا کی ۔خلید نے انھیں ایرانیوں سے لڑنے کے لئے للکارااور ''طائووس''کے مقا م پر جنگ چھڑ گئی۔ مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی۔

۸۳

''سوار بن ھمام '' نے اپنے گھوڑے کی لگام کھینچ لی اورحسب ذیل رجز خوانی کی :

اے آل عبدقیس ! جبکہ اس وقت سب ساتھی اس ناہموار زمین پر جمع ہوئے ہیں تم پہلوان !دلاوروں سے لڑنے کے لئے اٹھو!

یہ سب اہل رزم اورمردان ِ جنگ ہیں اور تیز تلوار وں کو چلانے کے فن سے اچھی طرح آگاہ ہیں اوران سے پورا پورا استفادہ کرتے ہیں اس کے بعد اس نے اس قدر جنگ کی کہ آخر کار قتل ہوگیا۔

اس کے بعد ''جارود'' نے میدان میں آکر یوں رجز خوانی کی:

اگر کوئی آسان چیز میرے دسترس میں ہوتی تو اسے راستے سے ہٹا دیتا یا اگر گندہ اور کھڑا پانی ہوتا تو اسے میں زلال اورجاری پانی میں تبدیل کردیتا ۔لیکن کیا کروں یہ فوج کا ایک سمندر ہے جو ہماری طرف موجیں مارتا ہوا آرہا ہے۔

اس کے بعد اس نے جنگ کی اور قتل ہوگیا۔

اس دن ''عبداﷲسوار '' اور منذر جارود نے انتہائی اضطراب و بے چینی کے باوجود بہت ہاتھ پائوں مارے لیکن آخر جنگ کرتے ہوئے قتل ہوئے ۔

اس وقت ''خلید نے میدان کا راز میں قدم رکھا اور خود ستائی کے رجز پڑھتے ہوئے بولا:

اے تمیمیو !سب گھوڑوں سے نیچے اُترائو ،اور دشمن سے پیدل جنگ کرو.

اس کے بعد سب اپنے گھوڑوں سے اتر کر جان ہتھیلی پر لے کر دشمن کے ساتھ پیدل جنگ میں مشغول ہوئے اور اس قدر ان کو قتل کیا جن کا کوئی حساب نہیں تھا.

اس کے بعد بصرہ کی طرف واپس لوٹے ۔لیکن دیکھا کہ ان کی کشتیوں کو غرق کر دیا گیا ہے اور ان کے لئے دریا کے راستے واپس لوٹنا ناممکن بنادیا گیا ہے !

اس حالت معلوم ہوا کہ ''شہرک ''کے مقام پر بھی دشمن نے راستہ بند کر دیا ہے اس طرح وہ سمندر کے علاوہ دیگر تین اطراف سے بھی مکمل طور پر محاصرہ میں پھنس گئے ہیں ۔ آخر کار وہ تمام سر گرمیوں سے ہاتھ کھینچ کر انتظار میں بیٹھے !

۸۴

دوسری جانب علاء حضرمی کی سمندری راستے سے ایرانیوں پر لشکر کشی کی خبر خلیفہ عمر کو پہنچی اورجو کچھ مسلمانوں پر گزری تھی وہ سب ان پرالہام ہوا ۔خلیفہ نے علاء کو غصہ کی حالات میں ایک خط لکھا جس میں اسے سخت سر زنش تھی اور اس کے بعد اسے برطرف کردیا!

عمر نے اس قدر تنبیہ پر اکتفانہ کی بلکہ اس کے غرور کو توڑ کے رکھدیا اور اس شانوں پر ایک طاقت فرسابار ڈالدیا ،یعنی حکم دیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت ''سعد وقاص '' کی خدمت میں حاضر ہو کر اس کے ماتحت فریضہ انجام دے !!

علاء نے مجبور ہو کر خلیفہ کے حکم کی تعمیل کی اور اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ عزمیت کر کے سعد کی خدمت میں پہنچ گیا

اس کے بعد عمر نے مسلمانوں کو ایرانیوں کے چنگل سے نجات دلانے کے لئے چارہ جوئی کی اور ''عتبہ بن غزوان ''کو ایک خط میں یوں لکھا :

علاء حضرمی نے خود سرانہ طور پر مسلمانوں کے لشکر کو ایران لے جاکر انھیں ایرانیوں کے چنگل میں پھنسادیا ہے ۔چونکہ علاء نے اس کام میں ہماری نافرمانی کی ہے ،اس لئے خدا بھی اس سے ناراض ہے ۔ مجھے اس بات کا ڈر ہے کہ علاء کے گناہوں کا نتیجہ اسلام کے سپاہیوں کو بھگتنا نہ پڑے ۔لہذا اس سے قبل کہ وہ اس سے زیادہ بدحال ہوں ان کی مدد کے لئے اپنے لوگوں کو آمادہ کرؤ اور فوراً خود ان کے پاس پہنچو۔

عتبہ نے لوگوں کو خلیفہ کے خط سے آگاہ کیا اور انھیں محاصرہ میں پھنسے اسلام کے سپاہیوں کی مدد کے لئے آمادہ کیا ۔لوگوں نے بھی اپنی رضامندی اور آمادگی کا اعلان کیا اوراس کی لشکر گاہ میں جمع ہو گئے ۔

ا س کے بعد عتبہ نے ،''عاصم بن عمرو تمیمی ''،''احنف بن قیس تمیمی ''اور''ابوسبرہ '' کے علاوہ ان جیسے چند دیگر دلاوروں کا انتخاب کیا اور بارہ ہزار سپاہیوں کو ان کی کمانڈ میں دیا ۔ ان سب کے کمانڈر انچیف کا عہدہ ''ابوسبرہ ''کوسونپ کر محاصرہ میں پھنسے مسلمانوں کی مدد کے لئے بھیجدیا ۔

مسلمانوں کی فوج نے ساحل پر اترنے کے بعد بے درنگ خود کو ''خلید'' اور اس کے ساتھیوں تک پہنچایا اور ایرانیوں سے زبردست لڑائی چھیڑ دی اور اس کے باوجود کہ ابھی ایرانیوں کی کمک ان تک پہنچ رہی تھی انہوں نے مشرکوں کے کشتوں کے پشتے لگا دئیے۔ سر انجام خدا وند عالم نے انھیں فتح و کامیابی عطا کی اور سارے ایرانی موت کے گھاٹ اتار دئیے گئے۔

۸۵

مسلمانوں نے اس فتح و کامیابی کے نتیجہ میں اپنے کھوئے ہوئے مال کے علاوہ کا فی مقدار میں غنائم جنگی پر بھی قبضہ کیا اور فاتحانہ طور پر صحیح و سالم بصرہ لوٹے کیونکہ عتبہ نے انہیں تاکید کی تھی ایرانیوں کا کام تمام کرنے کے بعد وہاں پر مت ٹھہرنا بلکہ فوراً واپس آجانا۔ (طبری بات کا خاتمہ)

خلید کے افسانہ کے راویوں کی پڑتال :

سیف نے اپنی اس روایت کے راویوں کے طور پر مندرجہ ذیل نام لئے ہیں :

١۔محمد ،یامحمد بن عبداﷲ بن سواد نویرہ ۔

٢۔مہلب ،یا مہلب بن عقبہ اسدی ۔

ہم نے گزشتہ بحثوں میں کہاہے کہ محمد ومھلب دونوں سیف کے خیالی راوی تھے اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ہیں سیف سے نقل کر کے طبری نے جو کچھ بیان کیا ہے حموی نے سیف سے نقل کرنے کے علاوہ کچھ اضافات اور اشعار بھی درج کئے ہیں ، ملاحظ فرمایئے :

حموی نے اپنی کتاب ''معجم البلدان '' میں لفظ طائووس '' کے سلسلے میں طبری سے نقل کر کے لکھاہے :

سیف بن عمر سے روایت ہے کہ علاء خضرمی نے خلافت اورخود حضرت عمر سے اجازت لئے بغیر ایک فوج کو سمندر ی راستے سے ایران کی طرف بھیجدیا ۔عمر علاء کے اس نامناسب کا م کی وجہ سے اس پر ناراض ہو اور اسے اپنے عہدے سے برطرف کر دیا۔ علاء ، برطرف ہونے کے بعد سعد وقاص کے پاس کوفہ گیا ،جس نے اس کی مدد کی تھی۔اور سرانجام ''ذی قار'' کے مقام پر فوت ہوگیا ۔خلید بن منذر نے جنگ ''طائووس'' کے بارے میں یوں کہا ہے :

ہم جس شب میں پادشاہوں کے تاج چھین کے لائے تھے ، ہمارے گھوڑوں نے شہر '' شہرک'' کی بلندیوں اور ناہموار زمین پر قبضہ کرلیا۔

ہمارے شہسوار ایرانیوں کو گروہ گروہ پہاڑوں کی بلندیوں سے ایسے نیچے گرا دیتے تھے کہ دیکھنے والا بادل کے ٹکڑوں کو گرتے دیکھتا تھا۔

خداوند عالم! ہمارے گروہ میں سے ان لوگوں کو اپنی رحمت سے محروم نہ کرے جنہوں نے دشمن کے خون سے اپنے نیزوں کو رنگین کیا تھا۔

۸۶

بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے جو اول سے آخر تک یہ جنگ اور اس میں مسلمانوں اور ایرانیوں کے درمیان لڑائی اور جنگ کی تفصیلات لکھی ہیں سب کی سب اس کی خود ساختہ داستان ہے اور حقیقت سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔

سیف نے علاء حضرمی یمانی قحطانی صحابی کے سعد و قاص عدنان مضری صحابی کے ساتھ حسد کی داستان کو گڑھا ہے اور ان کیلئے جھوٹ کے پلندے بناکر تہمت لگائی ہے۔ سیف نے علاء کی لام بندی کو جعل کرکے ان کیلئے فرضی کمانڈر معین کئے ہیں ۔ سیف نے اسلام کے سپاہیوں کا عمر منع کرنے کے باوجود سمندر سے عبور کرکے ایرانیوں پر حملہ کرنے کی داستان اپنے ذہن سے گڑھ لی ہے ، اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ سیف نے '' طاؤوس'' کے میدان جنگ اور وہاں پر اسلام کے دلاوروں کے قتل ہونے کا قصہ اپنے ذھن سے گڑھ لیا ہے اور یہ سراسر جھوٹ ہے۔

سیف نے سپہ سالاروں کے نام پر خود رزمیہ اشعار اور رجز خوانیاں جعل کرکے ان کے نام پر درج کئے ہیں !

سیف نے عمر کے الہام کا موضوع ، ایران کی سرزمین پر مسلمانوں کے حالات اور ان کی شکست کے بارے میں الہام کے ذریعہ حضرت عمر کا مطلع ہونا ، خود گڑھ لیا ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے!

سیف کی یہ داستان کہ عمر نے علاء کی تنبیہ کرکے اسے اپنے عہدے سے اس لئے برطرف کیا ہے کہ اس نے یہ کام نافرمانی کی بناء پر کیا تھا اور خلیفہ کے حکم سے اس کا سعد و قاص کے تحت جانا سب سیف کا گڑھا ہوا ہے اور حقیقت سے دور ہے۔

عتبہ بن غزوان '' کی ایرانیوں کے ہاتھوں محاصرہ شدہ مسلمانوں کو نجات دلانے کیلئے عمر کی طرف سے مموریت اور بارہ ہزار سپاہیوں کو ایران بھیجنا سیف کا گڑھا ہوا افسانہ اور سراسر جھوٹ ہے ۔

سیف نے ایک ایسی رزم گاہ خلق کی ہے جہاں پر عتبہ کے سپاہیوں نے ایرانیوں سے جنگ کی ہے ، حقیقت میں اس میدان کارزار کا کہیں وجود نہیں ہے۔

سیف نے '' طاؤوس'' نامی ایک جگہ کو خلق کیا ہے اور اسے اسلام کے دلیرمردوں کا میدان کارزار قرار دیا ہے اور بالاخر اس نے چند راویوں کو خلق کرکے خلید کے افسانے اور جنگی وقائع ان کی زبان سے بیان کئے ہیں ۔

جی ہاں ، ان سب چیزوں اور ان کے علاوہ اور بھی افسانوں کو سیف نے خلق کیا ہے اور ان کی تخلیق میں سیف کا کوئی شریک نہیں تھا۔

۸۷

افسانہ خلید سے سیف کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں خلید کے افسانہ میں سیف کا ان سب باتوں کو گڑھنے کا کیا مقصد تھا اور اس نے اس سے کیا حاصل کیاہے :

١۔سیف نے اس افسانہ میں علاء حضرمی ،یمانی قحطانی صحابی پر سعد وقاص عدنانی مضری کے ساتھ مکر ،ریا،حسدو رقبت کے علاوہ خلیفہ عمر کے حکم کی نافرمانی کی تہمت لگائی ہے اور اس طرح ارتداداور دوسری جنگوں میں اس کی تمام خدمات اور زحمتوں پر پانی پھیر دیا ہے۔

٢۔ سیف بن عمر تمیمی نے ''خلید ''نامی ایک دوسرے افسانوی سورما کو خلق کر کے اپنے خاندان تمیم کو چار چاند لگانے کی ایک اور کوشش کی ہے ۔ کیونکہ اس کے قبیلہ کا نام اس افسانہ میں واضح ہے ۔

٣۔سیف نے تاریخ اسلام کو اپنی قدرو قیمت اور اعتبار سے گرادیا ہے ، اس کے نے بہت سی جنگوں کو مسلمانوں سے نسبت دی ہے اور ان کے ہاتھوں خون کی ہولیا ں کھیلنے کے ساتھ ،ایک اور جنگ کا اس میں اضافہ کیا ہے اور اس میں بھی بے حد وحساب کشتیوں کے پشتے لگا کر اسے مسلمانوں کے نام پر درج کیا ہے۔ اس طرح اپنے رندیقی ہونے کا ثبوت پیش کیا ہے ۔

٤۔ان واقعات اور دیگر ایسے ہی وقائع کو تاریخ اسلام میں ایسے داخل کیا ہے کہ اکثر محققین تاریخی حقائق کے روبرو حیرت اور گمراہی سے دوچار ہوتے ہیں ۔

خلید کا افسانہ نقل کر نے والے علما:

١۔ امام المورخین ،محمد بن جریر طبری ،جس نے افسانہ خلید کو بلاواسطہ سیف سے نقل کیا ہے ۔

٢۔ابن اثیر ، جس نے خلید کے افسانہ کو طبری سے نقل کر کے اپنی کتاب میں درج کیا ہے ۔

٣۔ابن کثیر ،جس نے داستان خلید کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں درج کیا ہے ۔

٤۔ابن خلدون ، جس نے خلید کی داستان کو طبری سے نقل کر کے اپنی تاریخ میں ثبت کیا ہے۔

٥۔حموی ،جس نے سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے خلید کے افسانہ کو سیف سے نقل کر کے لفظ ''طاوئو س '' کے سلسلے میں ''معجمم البلدان ''میں درج کیا ہے ۔

۸۸

٦۔حمیری نے بھی لفظ ''طاوئوس ''کے سلسلے میں اسی داستان کو اپنی کتاب ''روض المعطار'' میں نقل کیا ہے ۔

٧۔عبدالمؤمن نے بھی حموی سے نقل کر کے اس داستان کو اپنی کتاب '' مراصد الاطلاع ''میں درج کیا ہے

٨۔سرانجام ابن حجر نے بھی سیف کی روایتوں پر اعتماد کر کے ،خلید کو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی جان کر اپنی کتاب ''اصابہ کے حصۂ اول میں نمبر ٢٢٨٥کے تحت اس کے حالات درج کئے ہیں !

وہ مشکل جسے ابن حجر نے حل کیا ہے !!

چونکہ ''منذر بن ساوی عبدی '' اہل ِ بحرین تھا اور وہیں پر زندگی بسر کر تا تھا اور وہیں پر فوت ہواہے ، اس لئے جس ''خلید '' کو سیف بن عمر نے اس کے بیٹے کے طور پر خلق کیا ہے اور علاء کی سپاہ کے کمانڈر کی حیثیت سے بحرین میں اسے ماموریت دی ہے ،وہ بھی بحرینی ہونا چاہیئے ،لیکن یہ خلید کے صحابی ہونے کی نفی کرتا ہے ، کیونکہ صحابی کو کم از مدینہ میں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچ کر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہونا چاہئے ۔ اب چونکہ خلید بن منذر بحرین میں پیدا ہوا ہے اور وہیں پر رہایش پذیر تھا کہ علاء حضری نے اسے ایرانیوں کے ساتھ جنگ پر بھیجدیا ہے ، اس لئے ابن حجر اس مشکل کوحل کرنے کی فکر میں پڑتا ہے اور خلید کا تعارف کرانے اوراس کے حالات بیان کرنے کے بعد علاء کی سپاہ میں اس کے سپہ سالار کے طور پر منتخب ہونے کے سلسلے میں لکھتاہے :

ہم نے اس سے پہلے کہا ہے کہ قدماء کی رسم یہ تھی کہ وہ جنگوں میں صحابی کے علاوہ کسی اور کو سپہ سالار کے عہدہ پر منتخب نہیں کرتے تھے ۔خلید کی سپہ سالاری اس امر کی دلیل ہے کہ وہ قطعاًمدینہ گیا ہوگا اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یاب ہوا ہوگا۔اور خدا بہتر جانتا ہے ۔

موضوع اس طرح ہے کہ علامہ ابن حجر سیف کی اس روایت سے کہ خلید بن منذر ''طاوئوس''کی جنگ میں سپہ سالارتھا یہنتیجہ حاصل کرتا ہے کہ صحابی کی شناخت کے لئے جو قاعدہ وضع کیا گیا ہے یعنی ''قدماء صحابی کے علاوہ کسی کو سپہ سالار منتخب نہیں کرتے تھے '' ،اس کے تحت خلید بھی پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کا صحابی ہونا چاہئے ۔

۸۹

لیکن خلید بحرینی کی مدینہ منورہ میں پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مصاحبت اس کی بحرین میں سکونت کے ساتھ سخت ٹکراؤ رکھتی ہے ، کیونکہ یہ ممکن نہیں ہے کہ کوئی شخص ایک وقت میں زمین کے ایک دوسرے سے دور دو نقطوں پر وجود رکھتا ہو ۔لیکن سیف نے کہا ہے کہ خلید سپہ سالار تھا اور ِ صحابی کے علاوہ کوئی اور سپہ سالار نہیں بن سکتاتھا !

لہذا علامہ ابن حجر اس کی چارہ جوئی کرتے ہیں تاکہ اس واضع اور آشکا ر تناقص کو دور کریں اور سرانجام اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ خلید نے بحرین سے مدینہ سفر کیا ہوگا اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مصاحبت سے شرف یا ب ہوا ہو گا اوراس کے بعد واپس بحرین آیا ہوگا ۔ چونکہ وہا ں پر تھا اسلئے علاء حضرمی کے حکم سے سپہ سالاری کی ذمہ داری کو قبول کیا ہے ۔اس لئے لکھتاہے :

فدلّ علی انّ للخلید وفادة

یعنی سپہ سالار ی کے عہدہ پر فائز ہونا اس بات کی دلیل ہے کہ خلید مدینہ گیا ہے اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی خدمت میں پہنچا ہے ۔

علامہ ابن حجر کی اس تحقیق سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مکتبِ خلفاء کے علماء اپنی تا لیفات میں کس قدر استدلالی اور منطقی تھے !!

گزشتہ حصہ میں ہم نے سیف کے جعلی اصحاب کے ایک گروہ کا تعارف کرایا ،جن میں علماء نے سیف کی روایت پر بھروسہ کرتے ہوئے کہ وہ سپہ سالارتھے ، انھیں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے صحابی کے طور پر شمار کیا ہے ۔اب ہم خدا کی مدد سے سیف کے جعلی اصحاب کے ایک اور گروہ کا تعارف کراتے ہیں جنھیں اس نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حقیقی اصحاب کی فہرست میں قراردیا ہے ۔

۹۰

مصاررو مآخذ

خلید ابن منذر ساوی کے حالات:

١۔''اصابہ'' ابن حجر (١/٤٥٠) حصہ اول نمبر: ٢٢٨٥اور منذر کے حالات (٣/ ٤٩٣)

منذر بن ساوی کا نسب:

١۔''جمھر ہ انساب '' ابن حزم (٢٣٢)

٢۔ ''فتوح البلدان '' بلاذری (٩٥۔١٠١) کہ اس میں اسپذیوں کی گھوڑے کی پرشش بھی بیان ہوئی ہے ۔

خلید بن منذر کے بارے میں سیف کی روایت :

١۔''تاریخ طبری '' (١/٢٥٤٥۔٢٥٤٨)

٢۔''تاریخ ابن اثیر'' باب غزو فارس من البحر اومن البحرین (٢/٤١٩۔٤٢١)

٣۔ ''تاریخ ابن کثیر '' (٧/٨٣۔٨٥)

٤۔ ''تاریخ ابن خلدون '' (٢/٣٤٠۔٣٤١)

''طائووس'' کی تشریح :

١۔''معجم البلدان '' حموی۔ طبع یورپ (٣/٤٩٤)

٢۔''مراصدالاطلاع'' ، لفظ ''طائووس''

٣۔ ''روض المعطار''، لفظ (طاؤوس)

۹۱

والی خرسان ''خلید بن کاس '' کی روایت :

١ ۔ کتاب ''صفین'' نصر مزاحم (١٥)

٢۔''اخبار الطوال'' دینوری (١٥٣۔١٥٤)

٦٦واں جعلی صحابی حارث بن یزید

مسلمانوں کو اذیتیں پہنچانے والا:

مؤرخین نے لکھا ہے کہ ''حارث بن یزید عامری قرشی '' (بنی لو ء ی بن عامرسے )وہ شخص تھا جو مکہ میں مسلمانوں کو جسمانوں کو جسمانی اذیتیں پہنچانے میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتاتھا ۔

بلا ذری اپنی کتاب ''النساب الا شر اف '' میں لکھتا ہے :

حارث بن یزید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے سخت دشمنوں میں سے تھا ، اس نے مکہ میں ''عیاش بن ابی ربیعہ ''، جو مسلمان ہوگیا تھا،کو زنجیرو ں میں جکڑ کر جسمانی اذیت پہنچانے میں اس قدر بے رحمی وبر بریت کا مظاہرہ کیا تھاکہ ''عیاش نے قسم کھائی تھی کہ اگر کسی دن اس پر قابو پا سکا تو اسے مارڈالے گا،

ایک زمانہ کے بعد مشرکین کی اذیت و آزار اور جسمانی اذیتوں سے تنگ آکر اصحاب نے ہجرت کرنے کافیصلہ کیا اور مشرکین سے چھپ کے چند اشخاص کے گرو ہوں کی صورت میں راہی مدینہ ہوئے۔

جب مکہ ،مسلمانوں سے خالی ہوا ، حارث اپنے کر توت پشیمان ہوکر مسلمان ہوا اور دوسرے مسلمانوں کی طرح مدینہ روانہ ہوا جبکہ کسی کو اس کے مسلمان ہونے کی خبر تک نہیں تھی ۔

۹۲

تازہ مسلمان حارث جنگِ''احد ''کے بعد مسلسل دن رات پیدل چلنے اور بیابانوں سے گزرنے کے بعد ''حرّہ'' یا ''بقیع''کے نزدیک پہنچا تھا کہ ''عیاش بن ربیعہ''سے اس کا آمنا سامناہو گیا!

جوں ہی عیاش کی نظر حارث پر پڑی ، اس نے اس گمان سے کہ وہ ابھی کفرو شرک پر باقی ہے ، فوراً تلوار کھینچ کراس سے پہلے حارث کچھ کہے اس کا کام تمام کر دیا!

عیاش کے ہاتھوں حارث کے قتل ہونے کے بعد مندرجہ ذیل آیہ شریفہ نازل ہوئی اور اس نے غلطی سے انجام دئے گئے کام کے بارے میں عیاش کے مریضہ کو واضح کر دیا :

( وَماَکاَنَ لِمُؤمِنٍ اَن یَّقتُلَ مُؤمِنًا اِلاَّ خَطَ ً ومَن قَتَلَ مُؤمِنًا خَطًَ فَتَحرِیرُ رَقَبَةٍ مُومِنَةٍ وَّدِیَة مُسَلَّمَة اِلیٰ َهلِهِ،ِلَّا اَن یَّصَّدَّقُوْا ) (۱)

اس آیہ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عیاش سے مخاطب ہو کر فرمایا: اٹھو! اور خدا کی راہ میں ایک غلام آزاد کرو۔

____________________

١۔سورہ نسائ/٩٢،اور کسی مؤمن کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ کسی مؤمن کو قتل کردے مگر غلطی سے اور جو غلطی سے قتل کر دے اسے چاہئے کہ ایک غلام آزاد کرے ا ور مقتول کے وارثوں کو دیت دے مگر یہ کہ وہ معاف کر دیں

۹۳

حارث بن یزید عامری قرشی کی پوری داستان یہی تھی ۔

لیکن سیف نے اپنے افسانوں میں ایک اورشخص کو اس حارث کے ہم نام خلق کر کے ''ھیت '' کی جنگ میں مسلمانوں کے سپہ سالار کے عنوان سے اس کا تعارف کرایا ہے اور کچھ کارنامے بھی اس سے منسوب کئے ہیں

ابن حجر نے بھی سیف کی روایت پر اعتماد کر کے اس کے حارث کو صحابی جانا ہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔ وہ اپنی کتاب ''اصابہ ''میں لکھتاہے :

حارث بن یزید عامری دیگر:

سیف بن عمر نے اس کا نام لیا ہے اور لکھاہے کہ خلیفہ عمر نے ایک خط کے ذریعہ ''سعد وقاص'' کو حکم دیا کہ ''وہیب کے پوتے عمر و بن مالک بن عتبہ '' کو ایک ہر اول دستے کی سرپرستی سونپ کر ''ھیت '' کی طرف روانہ کرے تاکہ اس شہر کو اپنے محاصر ہ میں لے لے ۔

عمرونے خلیفہ کے حکم کی تعمیل کرتے ہوئے ''ھیت ''کا محاصرہ کیا ۔ لیکن کچھ دنوں کے بعد ہی ''حارث بن یزید عامری '' کو آدھی فوج کی کمانڈ سونپ کر باقی سپاہیوں کے ہمراہ خود قر قیسیا پر حملہ کیا ....(داستان کے آخر تک)

اس کے بعد ابن حجر اپنے کلام کوجاری رکھتے ہوئے کہتا ہے :

اس سے پہلے ہم نے کہا ہے کہ قدما کی رسم یہ تھی کہ وہ صحابی کے علاوہ کسی اور کوسپہ سالار کے عہدہ پر فائز نہیں کرتے تھے ۔اس صحابی کو ابن فتحون نے بھی ابن عبدالبر کی کتاب ''استیعاب'' سے دریافت کیاہے ۔(ابن حجر کی بات کا خاتمہ)

مذکورہ داستان کو طبری نے فتح ''جزیرہ ''کے موضوع کے تحت سیف بن عمر سے تفصیل کے ساتھ نقل کر کے یوں بیان کیا ہے :

رجب ١٦ھ میں سعد وقاص نے خلیفہ عمر کے حکم سے '' نوفل بن عمر مناف ''کے پوتے ''عمر بن مالک بن عتبہ '' کو سپہ سالارمنتخب کیا اور اسے پورے '' جزیرہ '' کا مأ مور مقرر کیا اور سپاہ کے اگلے دستہ کی کمانڈ ''حارث بن یزید عامری '' کو سونپی ۔

''عمر بن مالک نے ''ھیت ''کی طرف حرکت کی ۔لیکن ''ھیت ''کے باشندوں نے قبل ازوقت مسلمانوں سے مقابلہ کرنے کے لئے اپنے آپ کو آمادہ کر لیا تھا اور مورچے سنبھال لئے تھے ۔

۹۴

جب عمر نے یہ حالت دیکھی تو اس نے ''حارث ''کو اپنی جگہ پر کمانڈ ر مقرر کر کے حکم دیا کہ ''ھیت''کو اپنے محاصرہ میں لے لے اورخود آدھی فوج لے کر ''قر قیسیا '' پر حملہ کر کے بجلی کی طرح وہاں کے ساکنوں ٹوٹ پڑا اور ان پر اتنا دبائو ڈالا کہ انہوں نے مجبور ہو کر ہتھیار ڈال دیے اور جزیہ دینے پر آمادہ ہوگئے۔

عمر نے اس فتحیابی کے بعد حارث کو سارا ماجرا خط میں لکھا اور حکم دیا کہ اگر ''ھیتیوں '' نے جزیہ دینا قبول کیا تو جنگ سے ہاتھ کھینچ لینا اور اگر ایسا نہ کیا تو ان کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا ۔ان کے قلعہ کے گرد ایسی خندق کھودنا کہ اس سے نکلنے کا راستہ تمہارے روبرو ہو ۔

عمر کے اس صریح اور فیصلہ کن حکم کے نتیجہ میں ''ھیت ''کے باشندے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوگئے اور جزیہ دینا قبول کر لیا اور حارث نے بھی ان سے ہاتھ کھینچ لیا اور خود عمر کے پاس پہنچ گیا۔

افسانہ حارث کے راویوں کی پڑتال :

سیف نے ''حارث بن یزید عامری '' کے افسانہ میں درج ذیل افراد کو بعنوان راوی پیش کیا ہے:

١۔ محمد ، یامحمد بن عبداﷲبن سواد نویرہ

٢۔مہلب ، یا ممہلب بن عقبہ اسدی ، یہ دونوں سیف کے جعلی راوی ہیں اور حقیقت میں وجود نہیں رکھتے ۔

٣۔ بعض نامعلوم اور مجہول افراد ، کہ ہمیں معلوم نہ ہو سکا کہ ان سب سے سیف کی مراد کون سے لوگ ہیں ۔ ہم نے اس قسم کے نامعلوم راوی سیف کی روایتوں اور گزشتہ بحثوں میں بہت زیادہ پائے ہیں ۔

۹۵

فتح جزیرہ کی داستان کی حقیقت :

بلاذری نے اپنی کتاب '' فتوح البلدان '' میں لکھا ہے :

١٨ھمیں طاعون '' عمواس '' کے سبب ''ابوعبیدہ '' کی وفات کے بعد عمر بن خطاب نے ایک فرمان کے تحت ''قنسرین'' '، '' حمص'' اور جزیرہ '' کے حکمران کے طور پر ''عیاض بن غنم '' کو منصوب کیا۔

عیاض نے اسی سال ١٥ شعبان کو ''جزیرہ'' پر لشکر کشی کی اور وہاں کے شہروں کو یکے بعد دیگرے صلح و مفاہمت سے فتح کیا ، لیکن ان کی زمینوں کو زبردستی اپنے قبضہ میں لے لیا۔

اس کے بعد بلاذری لکھتا ہے :

عیاض نے حبیب بن مسلمہ فہری کو ''قرقیسیا'' کو فتح کرنے پر مأمور کیا ۔ حبیب نے اس جگہ کو صلح کے ذریعہ معاہدہ کر کے فتح کیا ۔

اس کے بعد بات کو جاری رکھتے ہوئے لکھتا ہے :

اور ''عمیر بن سعد بن عبید '' کو'' رأس العین ''فتح کرنے پر مأمور کیا کیونکہ اپنی فتوحات کے دوران وہ اس جگہ کو فتح نہ کر سکا تھا ۔ عمیر نے رأس العین کو فتح کیا اور دریائے '' خابور ''کے ساحل کی طرف بڑ ھا اور بدستور پیش قدمی کرتارہایہاں تک کہ قرقیسیا پہنچ گیا ۔چونکہ قرقیسیاکے باشندوں نے حبیب کے ساتھ پہلا عہد و پیمان توڑ دیا تھا ، اس لئے عمیر کے ساتھ پھرسے اسی عہدو پیمان پر پابند ہونے کا عہد کیا اور اس کے حکم کی اطاعت کی ۔

عمیر کو جب قرقیسیا کے معاملات سے اطمینان حاصل ہوا تو اس نے فرات کے اطراف میں واقع قلعو ں کی طرف رخ کیا اور یکے بعد دیگر ے قلعوں کو فتح کر کے قرقیسیا کے پیمان کے مطابق ان سیمعاہدہ کیا ۔

۹۶

اس کے بعد عمیر نے ''ھیت '' پر چڑھائی کا قصد کیا لیکن راستے میں متوجہ ہوا کہ ''عمار یا سر ،جو خلیفہ عمر کی طرف سے کوفہ کے گورنر تھے، نے ''سعد بن حرام انصاری '' کی سرکردگی میں ایک فوج کو ''انبار''کے بالائی علاقوں کے باشندوں سے جنگ کرنے کے لئے بھیجا ہے ۔ اس علاقہ اور وہاں کے قلعوں کے باشندے امان چاہتے ہوئے سعد بن حرام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سعد نے انھیں ان کی خواہش کے مطابق امان دیدی ۔لیکن ''ھیت''کے باشندوں کو کنیسوں کا نصف مال وصول کرنے کی بنیا د پر مستثنیٰ قرار دیا ۔

بعض نے کہا ہے کہ سعد بن حرام نے ''مد لاج بن عمرو سلمی '' کو ''ھیت '' کے لئے مامور کیا ہے اور اسی نے اس جگہ کو فتح کیا ہے ۔(بلاذری کی بات کا خاتمہ )

یا قوت حموی نے لفظ ''ھیت '' اور ''قر قیسیا'' کے بارے میں لکھا ہے :

''ھیت''بغداد کے نزدیک دریا ئے فرات کے کنارہ پر ایک شہر ہے ۔ ''قرقیسیا'' دریائے ''خابور '' اور ''فرات'' کے ڈیلٹا پر واقع ایک شہر ہے ۔

یہ شہر ایک مثلث کے درمیان واقع ہے اور تین جانب سے پانی میں گھرا ہوا ہے :

اس کے بعد حمووی مزید کہتا ہے :

جب ''عیا ض بن غنم '' نے ١٩ھ میں ''جزیرہ '' کو فتح کیا تو ''حبیب بن مسلمئہ فہری '' کو قرقیسیا کی فتح پر مأ مور کیا حبیب نے مذکورہ شہر کو ''رقہ '' کے باشندوں سے کئے گئے پیمان کی بنیاد پر فتح کیا (.....آخر تک )

البتہ یاقوت حموئی نے ان مطالب سے پہلے سیف کی جعلی روایتوں کے کچھ حصّے بھی اس سلسلے میں نقل کئے ہیں ۔

۹۷

بحث و تحقیق کا نتیجہ

سیف نے ''ھیت '' اور ''قرقیسیا'' کے شہروں کی فتح کو ١٦ھ بتایا ہے جبکہ دوسروں نے اسے ١٩ھ ذکر کیا ہے ۔

سیف لکھتا ہے کہ ''جزیرہ '' کی جنگ میں سپہ سالار اعظم سعد وقاص تھا اور اس نے ''عمر بن مالک '' یا ''عمرو بن مالک '' کو سپہ سالار اور '' حارث بن یزید عامری ' کو فوج کے ہر اول دستہ کاکمانڈر منتخب کیا ہے ۔ عمر بن مالک نے قرقیسیا اورحارث بن یزید نے شہر ھیت کو فتح کیا ہے ۔

جبکہ دوسرے لکھتے ہے کہ '' جزیرہ '' کی فتوحات میں سپہ سالار اعظم عیاض بن غنم تھا اور اسی نے ''حبیب بن مسلمہ فہری '' کو قرقیسیا کی فتح کے لئے مأمور کیا تھا ۔اس نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا لیکن بعد میں انہوں نے پیان شکنی کی تھی ۔اور ''عمیربن سعد'' پھر سے ان کے ساتھ نبرد آزما ہوا اور اسی گزشتہ معاہدہ کو پھر سے لاگو کیا ہے ۔

اور یہ کہ خلیفہ عمر کے زمانے میں کوفہ کے گورنر ''عمار یاسر '' نے ''سعدبن حزام کو '' انبار '' و ''ھیت'' اور ان کے اطراف میں موجود قلعوں کو فتح کرنے پر مأمور کیا ہے اور اسی نے وہاں کے قلعوں کے باشندوں سے معاہدہ کیا ہے ،لیکن ''ھیت '' کے باشندوں کو کنیسوں کے اموال کا نصف حصہ اداکرنے کی بنیاد پر مستثنیٰ قراردیا ہے ۔ یایہ کہ چند علاقے عمیر بن سعد کے حکم سے ''مدلاج بن عمرو'' کے ہاتھوں فتح ہوئے ہیں ۔

نتیجہ کیا ہوگا؟

یہ کہ ''ھیت '' کی فتح سیف کے جعل کردہ ''حارث بن یزید''کے نام پر اور قرقیسیا کی فتح ''عمر و بن مالک ''کے نام پر سیف کی کتاب '' فتوح ''میں ثبت ہوئی ہے اور ان سب کو طبری نے اپنی معتبر اور گراں قدر کتاب تاریخ کببرمیں نقل کیا ہے اور ابن اثیر نے بھی طبری کے مطالب کو اپنی کتاب میں ثبت کیا ہے ۔

یا قوت حموی نے بھی سیف کے جھوٹ کے بعض حصوں اور اس کے خیالی پہلوانوں کی دلاوریوں کو اپنی کتاب معجم البلدان میں درج کر کے سیف کی خدمت کی ہے ۔

۹۸

آخر میں ، علامہ ابن حجر سیف کی باتوں سے متثر ہوکہ''حارث عامری '' کو ''حارث بن یزید عامری دیگر'' کے عنوان سے،اور سیف کی طرف سے اسے عطا کئے گئے سپہ سالاری کے عہدہ کو سند بناتے ہوئے''ابن ابی شیبہ'' کی روایت کہ ''قدما صرف صحابی کو سپہ سالار منتخب کرتے تھے ۔'' کی بناء پر اسے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا صحابی قرار دیاہے اور اس کے حالات پر روشنی ڈالی ہے ۔

ابن اثیر نے بھی سیف کی جعلی روایت کو ایک بار ''تاریخ ابن عسا کر '' سے نقل کرکے ''عمر بن مالک بن عتبہ '' کے حالات میں اور دوسری بار ''عمر بن مالک بن عقبہ ،کے حالات میں لکھا ہے ۔ اس کے بعد آخر میں احتیاط سے لکھتا ہے:

''عمربن مالک بن عتبہ '' نے دمشق کی جنگ میں شرکت کی ہے اور ''جزیرہ '' پر قبضہ کرنے کے دوران فوج کی کمانڈ اس کے ہاتھ میں تھی اس کے باوجود اس قسم کا کوئی شخص پہچانا نہیں گیا ہے

ابن اثیرنے یہی مطالب دونوں کے حالات کی تشریح کے آخر میں ذکر کئے ہیں ۔ہم دیکھتے ہیں کہ سیف کے خلق کئے گئے دوچہرے حقیقت میں ایک ہی شخص ہے اور عمر کے جد کے نام میں تحریف کی گئی ہے اور دونوں خبروں کا سر چشمہ بھی سیف عمر اور اس کی کتاب ''فتوح ''ہے ۔

بہر حال ، ہم پورے اطمینان اور قاطعیت کہتے ہیں کہ ''حارث بن یزید عامری دیگر'' سیف کی تخلیق ہے اور اس نے اس کے نام کو ''حارث قرشی '' سے لے لیا ہے جو غلطی سے عیاش کے ہاتھوں قتل ہوا ہے ۔ ہم قطعی طور سے نہیں کہہ سکتے ہیں کہ '' عمر بن مالک '' اس کی تخلیق ہے ، اگر چہ سیف صحابی اورتاریخ کے حقیقی چہروں کے ہم نام جعلی افراد خلق کر نے میں یدطوئی رکھتا ہے ، جیسا کہ :

''حزیمہ بن ثابت '' '' غیرذ و شہادتین '' کو ''حزیمہ بن ثابت ذو شہادتین '' کے ہم نام خلق کیا ہے ۔

اور ''سماک بن خرشہ ''، انصاری غیر ابودجانہ کو '' مسماک بن خرشہ انصاری ابودجانہ''کے ہم نام جعل کیا ہے ۔

۹۹

حارث کے افسانہ کو نقل کرنے والے علما:

١۔ طبری نے اپنی تاریخ میں بلاواسطہ سیف بن عمر سے نقل کیا ہے ۔

٢۔ ابن عساکرنے اپنی تاریخ میں ، سیف بن عمر سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٣۔ ابن حجر نے اپنی کتاب ''اصابہ ''میں کتاب '' فتوح ''سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٤۔ ابن فتحون نے '' استیعا ب کے ضمیمہ میں کتاب ''فتوح '' سے نقل کر کے درج کیا ہے ۔

٥۔ابن اثیر نے اپنی تاریخ میں تاریخ طبری سے نقل کر کے درج کیاہے ۔

٦۔ ابن اثیر نے کتاب ''اسدالغابہ ''میں ابن عساکر سے نقل کر کے

' 'عمر بن مالک ''کے حالات کی تشریح میں بیان کیا ہے ۔

یہاں پر سیف کے ان جعلی اصحاب کا حصہ اختتام کو پہنچا ہے ،جنھیں اس نے عراق کی جنگ میں سعد وقاص کے ہمراہ افسراور سپہ سالار کے عنوان سے خلق کیا ہے ۔ اگلی بحث میں ہم سیف کے ان جعلی اصحاب پر روشنی ڈالیں گے جنہوں نے افسر اور سپہ سالار کی حیثیت سے ارتداد کی جنگوں میں شرکت کی ہے ۔ یہ مقدمہ و مؤخر ( یعنی اصولاً تاریخی وقائع کی ترتیب کے مطابق ارتداد کی جنگوں کو باہر کی جنگوں اور فتوحات سے پہلے لانا چاہئے تھا،اس لئے پیش آیا ہے کہ مکتب خلفاء کے پیرو علماء نے ،جیساکہ ہم نے کتاب کی ابتداء میں ذکر کیا ہے ، دوسرے حصوں کی نسبت اس حصہ سے زیادہ استفادہ کیا ہے ۔

بہرحال ہم خدائے تعالےٰ سے دعا کرتے ہیں کہ ہمیں اس مشکل علمی بحث کو آگے بڑھانے اور تکمیل میں مدد فرمائے۔

مصادر و مآخذ

حارث بن یزید عامری قرشی کی داستان:

١۔''استیعاب '' ابن عبدالبر (١/١١٦) نمبر : ٤٧٢

٢۔''اسدالغابہ '' ابن اثیر (١/٣٥٣)

٣۔''اصابہ '' ابن حجر (١/٢٩٥)

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ھ: جہالت کا اعتراف

1064۔ امام علی (ع): عقلمندی کی انتہاء ، اپنی جہالت کا اعتراف ہے۔

1065۔ امام علی (ع): یہ دنیا اسی حالت میںبر قراررہ سکتی ہے جس میں مالک نے قرار دیا ہے یعنی نعمت ، آزمائش ، آخرت کی جزا یاوہ بات جو تم نہیںجانتے ہو، اب اگر اس میں سے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو اسے اپنی جہالت سمجھوکہ تم ابتدا میں جب پیدا ہوئے ہو تو جاہل ہی پیدا ہوئے ہوبعد میں تمہیںعلم دیا گیاہے اور اسی بنا پر مجہولات کی تعداد زیادہ ہے جس میںتمہاری رائے متحیر رہ جاتی ہے اور نگاہ بہک جاتی ہے ، اور بعد میں صحیح حقیقت نظر آتی ہے ۔

1066۔ امام علی (ع): اور یہ یاد رکھو کہ راسخون فی العلم وہی افراد ہیں جنہیں غیب الہی کے سامنے پڑتے ہوئے پردوں کے اندر درانہ داخل ہونے سے اس امر نے بے نیاز بنا دیاہے کہ وہ اس پوشیدہ غیب کا اجمالی اقرار رکھتے ہیں اور پروردگار نے ان کے اسی جذبہ کی تعریف کی ہے کہ جس چیز کو ان کا علم احاطہ نہیںکر سکتا اس کے بارے میں اپنی عاجزی کا اقرار کر لیتے ہیں اور اسی صفت کو اس نے رسوخ سے تعبیر کیا ہے کہ جس بات کی تحقیق ان کے ذمہ نہیںہے اسکی گہرائیوں میں جانے کا خیال نہیں رکھتے ہیں۔

1067۔ امام باقر(ع): جو جانتے ہو بیان کرو اور جو نہیں جانتے کہو(اللہ بہتر جانتا ہے)

۱۸۱

و: جہالت پر معذرت

1068۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں اپنی نادانی کے سبب تجھ سے معذرت چاہتا ہوں اور اپنے برے اعمال کے لئے تجھ سے بخشش طلب کرتا ہوں۔

ز: جہالت سے خدا کی پناہ چاہنا

1069۔ ام سلمہ: رسول خدا(ص) جب بھی گھر سے بر آمد ہوتے تھے تو فرماتے تھے: خدا کے نام سے، پروردگارا میں تیری پناہ چاہتا ہوں اس سے کہ پھسلوں یا گمراہ ہو جاؤں، ستم کروںیا مجھ پرستم کیا جائے، جاہل رہوں یا مجھ پر کوئی چیز مخفی رہے۔

1070۔ امام علی (ع):نے جنگ صفین میں یوم الھریر کی دعا میں فرمایا: خدایا! بیشک میں...جہالت ،بیہودگی اور قول و فعل کی برائیوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔

1071۔ امام علی (ع): پروردگارا!...میں تیری پناہ چاہتاہوں اپنی قوت سے، اور تیری پناہ میں آنا چاہتا ہوں اپنی جرات سے ، اپنی جہالت کے سبب تیری پناہ کاطلبگار ہوں اور اپنے گناہوںکے باعث تیرے اسباب کی رسیوں کو پکڑنا چاہتا ہوں ۔

1072۔ امام علی (ع): پروردگارا! تیری پناہ چاہتا ہوں کہ علم کے عوض جہالت خریدوں جیسا کہ دوسروںنے کیاہے ، یا یہ کہ بردباری کے بدلہ حماقت خریدوں۔

1073۔ امام صادق(ع): صبح و شام کی دعا میں فرماتے ہیں؛ خدایا! ہم تیری مدد سے شام کرتے ہیں اور صبح بھی ، تیری بدولت زندہ رہتے ہیں اور مرتے بھی ہیں، اور تیری طرف پلٹے ہیں، اور میں تیری پناہ چاہتا ہوںکہ میںکسی کو رسوا کروں یا رسوا کیا جاؤں، گمراہ کروں یا گمراہ ہو جاؤں، ظلم کروںیا مجھ پرظلم کیا جائے، میں جاہل رہوں یا مجھ پر مخفی رہے۔

۱۸۲

1074۔ عبد الرحمن بن سیابہ: کابیان ہے کہ امام صادق(ع) نے یہ دعا مجھے دی: حمد اس خدا کے لئے جو صاحب حمد اور اس کا اہل ہے ، اسکی نہایت اور اس کا محل ہے ،...میںپناہ چاہتا ہوں کہ علم کے بدلہ جہالت ، بردباری کے عوض بدسلوکی، عدل کے بدلہ ستم ، نیکی کے بدلہ قطع تعلقی اور صبر کے عوض بیتابی کو خریدوں۔

ح: جہالت سے توبہ

1075۔ رسول خدا(ص):۔آپ ؐ اس طرح دعا فرماتے تھے۔بار الہا: میری خطا و جہالت، اور اپنے کام میں حد سے تجاوز کرنے اور جسکوتو مجھ سے بہتر جانتا ہے اس سے مجھکو معاف کر دے۔ پروردگارا! میرے مذاق او رسنجیدگی ، میری خطا اور دانستہ طور پر ہو جانے والے کاموں اور بقیہ میرے گناہوں سے مجھکو بخش دے۔

5/2

جاہل کے لئے حرام چیزیں

الف: علم کے بغیر لب کشائی

قرآن

(اور اپنے منہ سے وہ بات نکال رہے تھے جس کا تمہیں بھی علم نہیں تھا)

۱۸۳

حدیث

1076۔رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتوے دیتا ہے وہ اصلاح سے زیادہ دین کو برباد کرتا ہے ۔

1077۔ رسول خدا(ص): جو شخص علم کے بغیر لوگوںکو فتویٰ دیتاہے وہ ناسخ و منسوخ اورمحکم و متشابہ میں فرق نہیں کر پاتا، لہذا وہ ہلاک ہے اور دوسروں کو ہلاک کردیتا ہے ۔

1078۔ رسول خدا(ص): جو بغیر علم کے فتوے دیتاہے اس پر آسمان و زمین کے ملائکہ لعنت بھیجتے ہیں۔

1079۔ رسول خدا(ص): وہ شخص جس کو بغیر تحقیق کے فتویٰ دیا جاتا ہے اس کا گناہ فتویٰ دینے والے کے سر ہے ۔

1080۔ امام علی (ع): جس کے بارے میں آگاہی نہیںرکھتے ہو، اطلاع نہ دو۔

1081۔ امام علی (ع): جو نہیںجانتے اس کو زبان پر جاری نہ کرو چوں کہ بیشترحق ان چیزوں میں ہے جن کا تم انکار کرتے ہو۔

1082۔ امام زین العاب دین (ع): خدایا! میں تیری پناہ چاہتا ہوں...کہ ظالم کی مدد کروں...یا بغیر علم کے علمی گفتگو کروں۔

1083۔ امام باقر(ع): جو علم اور الہی ہدایت کے بغیر فتویٰ دیتا ہے اس پر رحمت اور عذاب کے فرشتے لعنت کرتے ہیں اور اس کے فتوے پر عمل کرنے والے کا عقاب اسی کو ملیگا۔

۱۸۴

ب: نامعلوم چیز کا انکار

قرآن

(در حقیقت ان لوگوںنے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

حدیث

1084۔ امام علی (ع): نے- اپنے بیٹے امام حسن ؑ: کو وصیت کرتے ہوئے - فرمایا: بیشک نادان وہ ہے جو نامعلوم چیزوں میں خود کو عالم شمار کرتا ہے اور اپنی ہی فکر و رائے پر اکتفا کرتا ہے ، ہمیشہ علماء سے دوری اختیار کرتا ہے اور انہیں برا بھلا کہتا ہے جو اسکی مخالفت کرتاہے اس کو خطا کا ر سمجھتا ہے اور جو شخص کچھ بھی نہیں جانتااسے گمراہ کرتا ہے ، پس جب اس کے سامنے کوئی امرآتا ہے جسے وہ نہیںجانتاتو اس سے انکار کر دیتا ہے اور اسے جھوٹ تصور کرتا ہے اور اپنی جہالت کی بدولت کہتا ہے : میں اس کو نہیں جانتا ہوںاور نہ اس سے پہلے کبھی اس کو دیکھا ہے اور گمان نہیں کرتا کہ بعد میںیہ وجود پذیربھی ہوگا۔ یہ ساری باتیں اس کا اپنی رائے پر اعتماد اور جہالت و کم علمی کے سبب ہیں۔ اور ہر وہ چیز جس کا وہ قائل ہے اور یا عدم علم کی بنیاد پر جس چیز کا غلط معتقد ہے اس سے دستبردار نہیںہوتا، اپنی نادانی سے استفادہ کرتا ہے اور حقیقت کا انکار کرتا ہے ، نیز اپنی جہالت و نادانی میں حیران و سرگرداں ہوتاہے اور تحصیل علم سے باز رہتاہے ۔

1085۔ امام علی (ع): جو کسی چیز سے ناواقف ہوتاہے اس کا دشمن ہو جاتا ہے ۔

۱۸۵

1086۔ اما م علی (ع): میں نے چار چیزیں کہیں کہ جنکی خدا نے اپنی کتاب میں تصدیق کی ، میں نے کہا: انسان اپنی زبان کے نیچے چھپا ہوتا ہے جب کلام کرتا ہے تو ظاہر ہو جاتا ہے ، پس خدا نے یہ آیت:(اور آپ ان کی گفتگو کے انداز سے انہیں بہر حال پہچان لیں گے)نازل کی، میں نے کہا: جو کسی چیز سے جاہل ہوتاہے اسکاد شمن ہوجاتاہے ، خدا نے فرمایا:( در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی ہے جس کا مکمل علم بھی نہیںہے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے) میں نے کہا: ہر شخص کی قدر و قیمت اسکی دانائی کے مطابق ہے ، خدا نے قصہ طالوت میں فرمایا:( انہیں اللہ نے تمہارے لئے منتخب کیاہے اور علم و جسم میں وسعت عطا فرمائی ہے)میں نے کہا: قتل، قتل کو کم کرتاہے ، خدا نے فرمایا:(صاحبان عقل تمہارے لئے قصاص میں زندگی ہے )

1087۔ امام علی (ع): جو کچھ میں نے زبان رسول سے سنا ہے اگر تمہارے سامنے بیان کردوں تو تم میرے پاس سے اٹھکر چلے جاؤ گے اور کہوگے ، یقینا علی سب سے بڑا جھوٹا اور سب سے بڑا فاسق ہے ، خدا فرماتا ہے :(بلکہ در حقیقت ان لوگوں نے اس چیز کی تکذیب کی جس کا مکمل علم بھی نہیں ہے)

1088۔ اما م صادق(ع): خدا نے اپنی کتاب میں دو آیتیں اپنے بندوں سے مخصوص کی ہیں : وہ لوگ جب تک نہیںجانتے لب کشائی نہیںکرتے اور جب تک علم نہیں رکھتے تردید نہیںکرتے ، خدا ارشاد فرماتا ہے :(کیا ان سے کتاب کا عہد نہیںلیا گیا کہ خبردار خدا کے بارے میں حق کے علاوہ کچھ نہ کہیں)نیز فرماتا ہے (یقینا ان لوگوں نے اس چیز کو جھٹلایا جس کا مکمل علم بھی نہیں رکھتے اور اسکی تاویل بھی ان کے پاس نہیں آئی ہے)

۱۸۶

5/3

ممدوح جہالت

1089۔ امام علی (ع): کتنے جاہلوں کی نجات ان کی جہالت میں ہے ۔

1090۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصارمیں ہے۔ دو گروہوںپر ہر چیز آسان ہے ؛ وہ عالم جو کام کے انجام سے واقف ہو، اور وہ جاہل جو اپنی حیثیت سے بے خبر ہو۔

1091۔ اما م علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے، اگر عقل کے نو حصے ہوتے تو جہالت کے ایک حصہ کی طرف محتاج ہوتی تاکہ عقلمند اپنے امور پر اسے مقدم کرے ،کیوں کہ عاقل ہمیشہ سہل انگار،نگراں اور خوفزدہ ہوتا ہے ۔

1092۔ امام علی (ع): بسا اوقات نادانی ، بردباری سے زیادہ مفید ہوتی ہے ۔

1093۔ ابراہیم بن محمد بن عرفہ: احمد بن یحیٰ ثعلب نے مجھے یہ اشعار سنائے اور بتایا کہ یہ اشعار علی (ع) بن ابی طالب کے ہےں:

اگر مجھے بردباری کی ضرورت ہے تو بیشک بعض اوقات مجھے جہالت کی زیادہ ضرورت ہے ۔ میں نادانی کو ندیم و ہمنشیں کے عنوان سے پسند نہیںکرتا لیکن ضرورت کے وقت پسند کرتاہوں میرے پاس بردباری کا مرکب ہے کہ جس کی لجام بھی بردباری ہی ہے ، اور میرے پاس جہالت کا مرکب ہے کہ جس کی زین نادانی ہے ۔

1094۔ امام حسین ؑ: اگر لوگ غور و فکر کرتے اور موت کو اسکی صورت میں تصور کرتے تو دنیا ویرانہ ہوجاتی۔

1095۔ امام عسکری ؑ: اگر تمام اہل دنیا عقلمند ہوتے تو دنیا ویران ہو جاتی۔

۱۸۷

1096۔ اما م صادق(ع)ـ: نے ۔ مفضل بن عمر۔ سے فرمایا: اے مفضل ! ان چیزوںکے بارے میں غور وفکر کرو کہ جن میں انسان کو اپنی مدت حیات کے متعلق آگاہی نہیں ہے ؛ اس لئے کہ انسان اگر اپنی عمر کی مقدار سے باخبر ہو جائے اور (بالفرض) اسکی زندگی کم ہو تو موت کے خوف سے کہ جس کا وقت معلوم ہے اسکی زندگی تلخ ہو جائیگی؛ بلکہ اس شخص کے مانند ہوگا کہ جس کا مال تباہ ہو گیا یابرباد ہونے کے قریب ہے ؛ گویا یہ شخص فقر اور مال و ثروت کی بربادی اور خوف فقر کے اندیشہ سے نہایت خوفزدہ رہتا ہے ۔

جبکہ یہ تلخی جو انسان کی فنائے عمرکے تصور سے پیدا ہوتی ہے انسان کے فنائے مال سے کہیں زیادہ تلخ ہے ؛ چونکہ جب کسی شخص کی ثروت کم ہو جاتی ہے تو وہ اسکی جگہ پر ثروت کے آنے کی امید رکھتا ہے ، جس کے سبب اس کو سکون حاصل ہوتا ہے ؛ لیکن جو عمرکی فنا کا یقین رکھتا ہے اس کے لئے صرف مایوسی ہوتی ہے ۔ اور اگر اسکی عمر طولانی ہوتی ہے اور وہ اس سے آگاہ ہو جاتاہے تو بقا کا اعتماد پیدا کرکے لذات اور معصیتوں میں غرق ہو جاتا ہے اور اس خیال سے عمل کرتاہے کہ اپنی لذتوںکو حاصل کرے اور آخیر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ ایسی روش ہے کہ خدا پنے بندوں سے نہ پسند کرتا ہے اورنہ قبول۔

اگر تم کہو! کیا ایسا نہیں ہے کہ انسان ایک عرصے تک گناہ کرتاہے پھر توبہ کرتا ہے اور اسکی توبہ قبول ہوتی ہے۔؟!

ہم جواب دیں گے : ایسا اس لئے ہے کہ شہوت انسان پر غالب آجاتی ہے تونہ وہ کوئی منصوبہ بناتا ہے اور نہ ہی اس کے مطابق کوئی کام انجام دیتاہے ، لہذا خدا اس سے درگذر کریگا اور مغفرت کے ذریعہ اس پر فضل و احسان کریگا۔

لیکن وہ شخص جس نے اپنی زندگی کی بنا اس بات پر رکھی ہے کہ گناہ کرے گااور آخر عمر میں توبہ کرلیگا؛ یہ اس ذات کو دھوکا دینا چاہتاہے کہ جو دھوکا نہیںکھاتا اور کوشش کرتا ہے کہ جلد لذت اندوزہو اور اپنے نفس سے وعدہ کرتا رہتا ہے۔

۱۸۸

کہ بعد میں توبہ کر لیگا۔ حالانکہ اپنے وعدہ کو پورا نہیںکرتا؛ اس لئے کہ آسائش اور لذات سے چھٹکاراپانا اور توبہ کرنا، خصوصاً جب بوڑھا اور ناتواںہو جائے، نہایت دشوار کام ہے ، انسان توبہ کرنے میں ٹال مٹول کرکے امان نہیں پا سکتاچونکہ اسکی موت آپہنچتی ہے اور وہ توبہ کے بغیر دنیا سے چلا جاتا ہے ، اسکی مثال اس شخص کی سی ہے کہ جس کی گردن پر قرض ہو کہ جس کی میعاد آئندہ آئیگی اور وہ قرض کی ادائیگی کی قدرت ہونے کے باوجود ٹال مٹول کرتا رہتاہے یہاں تک کہ اسکی ادائیگی کا وقت آجاتاہے لیکن اب اس کے پاس مال نہ ہونے کی وجہ سے اسکی گردن پر قرض باقی رہ جاتاہے۔

لہذاا نسان کے لئے بہتر ہے کہ اپنی عمر کی مقدار سے واقف نہ ہو اور اپنی ساری زندگی موت سے خوفزدہ رہے تاکہ گناہوں سے پرہیز کرے اور نیک عمل بجالاتا رہے۔

اگر تم کہو: ایسے بھی لوگ ہیںجو اپنی زندگی کی مقدار سے با خبر نہیں ہیں اور ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہیں لیکن ہمہ وقت بدکرداری اور محرمات کا ارتکاب کرتے ہیں۔

ہم جواب دیں گے: بیشک اس سلسلہ میں بہترین تدبیر وہ ہے جو اب جاری ہوئی ہے ؛ اگر انسان الہی تدبیر کے باوجود بدکرداری اور گناہوں سے دستبردار نہ ہو تو یہ اسکی عیش و نشاط اور سنگدلی کا نتیجہ ہے نہ کہ تدبیر میں کوتاہی کا، جیسے ڈاکٹر کبھی کوئی مفید دوا بیمار کے لئے تجویز کرتا ہے ؛ لیکن اگر مریض ڈاکٹر کے حکم کی مخالفت کرے اور اسکی پابندیوں پر عمل نہ کرے تو وہ ڈاکٹر کی تجویز سے بہرہ مند نہیں ہوتاا ور اس نقصان کا تعلق ڈاکٹر سے نہیںہے چونکہ اس نے بیماری کی شناخت کر لی ہے لیکن مریض نے اسکی بات قبول نہیںکی۔

۱۸۹

اگر انسان ہر لمحہ موت کے انتظار میں ہونے کے باوجود گناہوںسے دستبردار نہیں ہوتا تو اگر طولانی زندگی کا اطمینان ہو تو کہ بڑے گناہوں کا اور زیادہ ارتکاب کریگا، بہر حال موت کے انتظار میں رہنا، اس کے لئے دنیا میں اطمینان بقا سے بہترہے ، اور اس سے قطع نظر اگر موت کا انتظار ایک گروہ کے لئے مفید نہ ہو اور وہ لہو و لعب میں مصروف ہو اور اس سے نصیحت حاصل نہ کرے تو دوسرا گروہ نصیحت حاصل کریگا اور گناہوں سے گریز کریگااور نیک عمل بجالائیگا۔ اور اپنے اموال و گر انبہا اجناس کو فقراء و مساکین کوصدقہ دینے میںدریغ نہیں کریگا ۔ لہذا یہ انصاف نہیں ہے کہ یہ گروہ اس فضیلت سے بہرہ مند نہ ہوتو دوسرا گروہ بھی بہرہ مندنہ ہو۔

5/4

جاہل سے مناسب برتاؤ

الف: گفتگو کے وقت سلام کرنا

قرآن

(اور اللہ کے بندے وہی ہیں جو زمین پر آہستہ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دے دیتے ہیں)

(اور جب لغویات سنتے ہیں تو کنارہ کشی اختیاکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارے لئے ہمارے اعمال ہیں اور تمہارے لئے تمہارے اعمال ہیں ، تم پر ہمارا سلام کہ ہم جاہلوںکی صحبت پسند نہیںکرتے )

۱۹۰

حدیث

1097۔ نعمان بن مقرِّن : رسول خدا کے سامنے ایک شخص نے ایک شخص کو گالیاں دیں، اور اس نے اس کے جواب میں کہا: تم پر سلام ہو! رسول خدا(ص) نے فرمایا: یاد رکھو! تم دونوں کے درمیان ایک فرشتہ ہے جو تم سے دفاع کرتا ہے ، جب وہ تم کو گالی دیتا ہے اور کہتا ہے : تم ایسے ہو، تووہ(فرشتہ) اس سے کہتا ہے : بلکہ تم اور تم اس کے زیادہ مستحق ہو اور جب اس کے جواب میںکہتا ہے؛ تم پر سلام ہو! تو وہ (فرشتہ )کہتاہے : نہیں ، بلکہ تم(درود و سلام) کے مستحق ہو۔

1098۔ امام علی (ع): نے ۔ اپنے چاہنے والوں کی توصیف میں ۔ فرمایا: اگر تم انہیں دنوں میں دیکھو گے تو ایسی قوم پاؤ گے جو(زمین پر آہستہ چلتے ہیں) اور لوگوں سے اچھی باتیں کرتے ہیں:(اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) اور(اور جب لغو کاموںکے قریب سے گذرتے ہیں تو بزرگانہ انداز سے گذر جاتے ہیں)

1099۔ امام صادق(ع): نے۔ شیعوں کی توصیف میں۔ فرمایا: جب کوئی جاہل انہیں مخاطب کرتا ہے تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں اور جب کوئی حاجت مند ان کی پناہ میں آتا ہے تو اس پر رحم کرتے ہیں اور موت کے وقت غمگین نہیںہوتے۔

1100۔ اغانی: خلیفہ عباسی کا بیٹا ابراہیم، علی بن ابی طالب کا شدید دشمن تھا، ایک روز مامون سے کہا کہ میں نے خواب میں علی کو دیکھا ہے اور ان سے پوچھا: تم کون ہو؟ جواب دیا کہ علی ابن ابی طالب ہوں ، ابراہیم نے کہا: ہم دونوں کچھ دور گئے اور ایک پل نظر آیا انہوںنے چاہا کہ مجھ سے پہلے پل سے گذر جائیں۔ میںنے ان کو ؛پکڑا اور کہا: آپ امیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیںجبکہ ہم اس کے زیادہ مستحق ہیں ، تو انہوںنے ایسا فصیح و بلیغ جواب نہ دیا جیسا کہ ان کی شہرت ہے، مامون نے کہا انہوںنے کیا جواب دیا؟ ابراہیم نے کہا: فقط سلاماً سلاماً کہا ہے۔مامون نے کہا: خدا کی قسم بلیغ ترین جواب تم کو دیا ہے ؛ ابراہیم نے کہا: کس طرح ؟ مامون نے کہا: تم کو یہ سمجھا دیا کہ تم جاہل ہو اور قابل گفتگو نہیںہو، خدا کا ارشاد ہے:(جب ان سے جاہل خطاب کرتے ہیں تو سلامتی کا پیغام دیتے ہیں) پس ابراہیم شرمندہ ہوا اور کہا: کاش کہ یہ واقعہ آپ کو نہ سنایا ہوتا۔

۱۹۱

ب: جھگڑے کے وقت خاموشی

1101۔ رسول خدا(ص): جناب موسیٰ ؑ نے جناب خضر سے ملاقات کی اور کہا: مجھکو نصیحت کیجئے! جناب خضر نے کہا: اے علم کے طلب کرنے والے.... اے موسیٰ ! اگر علم چاہتے ہو تو خود کو اس کےلئے وقف کر دو؛ اس لئے کہ علم اس شخص کےلئے ہے جو خود کو اس کےلئے وقف کر دیتا ہے...اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کرو اور احمقوںکے مقابل میں بردبار رہو، اس لئے کہ یہ بردباروںکےلئے فضیلت ہے اور علماء کیلئے زینت، اگر جاہل تم کو گالی دے تو تم نرمی کا برتاؤ کرتے ہوئے خاموش ہو جاؤ، اور دور اندیشی کےساتھ اس سے دوری اختیار کرو: چوں کہ تمہارے لئے جو نادانی و گالی باقی ہے وہی زیادہ ہے ۔

1102۔ امام علی (ع): آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کے ساتھ جھگڑانہ کرو۔

1103۔ امام علی (ع): بیوقوفوں سے جھگڑا نہ کرو، اور عورتوں پر فریفتہ نہ ہو اس لئے کہ یہ خصلتیں عاقلوںکوبدنام کرتی ہیں۔

1104۔ امام باقر(ع): مرد دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو، اور جاہل کو جاہل نہ سمجھو ورنہ اس کے مانند ہو جاؤگے۔

ج: بردباری

1105۔ رسول خدا(ص): جس میں یہ تین چیزیں نہ ہونگی اسکاکوئی عمل صحیح نہیں ہوگا: پرہیزگاری جو اسے خدا کی نافرمانی سے باز رکھے ، اخلاق کہ جسکے سبب لوگوں کےساتھ مہربانی سے پیش آئے اور بردباری کہ جسکے ذریعہ جاہل کی جہالت کا جواب دے۔

1106۔ امام علی (ع): اپنے غیظ و غضب کو دور کروتاکہ رسوائی سے محفوظ رہو، اگر کوئی جاہل تمہارے ساتھ نادانی کرے تو ضروری ہے کہ تمہاری بردباری اس پر حاوی ہو۔

۱۹۲

1107۔ امام علی (ع):نے ۔ اپنے بیٹے اما م حسن ؑکو وصیت میں۔ فرمایا: میں تم کو وصیت کرتا ہوںکہ دوسروں کے گناہوںکو بخش دینا، غصہ کو پی جانا، صلہ رحم کرنا اور جاہل کے ساتھ بردباری کا مظاہرہ کرنا۔

1108۔ امام علی (ع): جاہل کو برداشت کرنا صدقہ ہے ۔

1109۔ امام علی (ع): مومن بردبار ہوتا ہے اور نادانی نہیں کرتا اور جب اس کے ساتھ کوئی نادانی کرتا ہے تو وہ بردباری کا ثبوت پیش کرتاہے ۔

1110۔ موسیٰ ؑ بن محمد محاربی : ایک شخص سے نقل کرتے ہیں: مامون نے امام رضا(ع) سے کہا: کیا آپ شعر نقل کرتے ہیں؟ فرمایا: مجھے بہت سارے اشعار یاد ہیں۔ اس نے کہا: بردباری کے متعلق کوئی بہترین شعر مجھے سنائےںامام (ع) نے فرمایا:

میں اپنے سے پست انسان کی جہالت کا شکار ہوں، میں نے اپنے نفس کو روک رکھا ہے کہ اس کا جواب جہالت سے دے، اگر عقلمندی میں اپنے مانند کسی کو پاؤں تو بردباری کاثبوت دوں؛ تاکہ میں اپنے مثل سے بلند ہو جاؤں؛ اور اگر علم و عقل میں ، میں اس سے کمتر ہوں تو اس کے لئے حق تقدم کا قائل ہوں۔

مامون نے کہا: کیا خوب شعر ہے؛ کس نے کہاہے؟! امام رضا(ع) نے فرمایا:ہمارے بعض جوانوں نے۔

۱۹۳

د: تعلیم

1111۔ امام کاظم (ع): نے ۔ ہشام بن حکم ۔ سے فرمایا: اے ہشام! جو کچھ نہیں جانتے اسے سیکھو؛ اور جو سیکھ لیا ہے اسے جاہل کو سکھاؤ، عالم کو اس کے علم کے سبب عظیم سمجھو اور اس سے جھگڑا نہ کرو اور جاہل کو اسکی نادانی کے سبب چھوٹا سمجھو، اس کو جھڑکو نہیں بلکہ خود سے قریب کرو اور تعلیم دو۔

1112۔ اما م صادق(ع): میںنے علی (ع) کی کتاب میں پڑھا ہے کہ خدا نے جاہلوں سے علم سیکھنے کا عہد و پیمان اس وقت تک نہیں لیا جب تک کہ علماء سے انہیں سکھانے کا عہد نہیں لے لیا، اس لئے کہ علم کا وجود جہالت سے پہلے ہے ۔

ھ: عدم اعتماد

1113۔ امام علی (ع): اپنے عقلمند دشمن پر اپنے نادان دوست سے زیادہ اعتماد کرو۔

1114۔ امام علی (ع):جو عاقل نہیں ہے اس کے عہد و پیمان پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا۔

و: نافرمانی

1115۔امام علی (ع): جاہل کی نافرمانی کرو تاکہ محفوظ رہو۔

۱۹۴

ز: اعراض

قرآن

(آپ عفو کا راستہ اختیار کریں نیکی کا حکم دیں اور جاہلوں سے کنارہ کشی کریں)

حدیث

1116۔ رسول خدا(ص): سب سے بڑا حکیم وہ ہے جو جاہل انسانوںسے فرار کرتا ہے ۔

1117۔ رسول خدا(ص):لوگ دو طرح کے ہوتے ہیں: مومن اور جاہل ، مومن کو اذیت نہ دو اور جاہل کی ہمنشینی اختیار نہ کرو۔

1118۔ امام علی (ع): نے ۔ امام حسن ؑسے اپنی وصیت میں ۔ فرمایا: کفر ان نعمت پستی ہے اور جاہل کی ہمنشینی نحوست ہے ۔

1119۔ امام علی (ع): ۔ آپ سے منسوب کلمات قصار میں ہے ۔ جاہل کی قربت اور اسکی ہمسائیگی تم کو اپنے شر سے محفوظ نہیںرکھتی، چوںکہ آگ سے جتنا زیادہ قریب ہوگے جلنے کا خطرہ اتنا ہی زیادہ ہوگا۔

1120۔ اما م علی (ع): جو عقل سے محروم ہے اسکی صحبت اختیار نہ کرو اورجو صاحب حسب و نسب نہیں ہے اس کو اپنا خاص نہ بناؤ کیوں کہ جو عقلمند نہیںہے وہ تم کو اپنے خیال میں فائدہ پہنچانے کے بجائے ضرر پہنچا ئیگا، اور جو صاحب حسب و نسب نہیںہے وہ اس کے ساتھ بھی برائی کرتا ہے جو اس کے ساتھ نیکی کرتا ہے ۔

1121۔ امام علی (ع):جو عقل سے محروم ہے اس سے نیکی کی امید نہ رکھواور جو بے نسب ہے اس پر اعتماد نہ کرو اس لئے کہ جو عقلمند نہیں ہے وہ اپنے خیال میں خیر خواہی کرتا ہے حالانکہ اس سے نقصان پہنچتا ہے اور بے نسب اصلاح کرنے کے بجائے تباہ کرتا ہے ۔

۱۹۵

1122۔ امام علی (ع): بدترین شخص کہ جس کی تم ہمنشینی اختیار کرتے ہو وہ جاہل ہے ۔

1123۔ امام علی (ع): بدترین دوست جاہل ہے ۔

1124۔ امام علی (ع): جاہل سے قطع تعلق ہونا عقلمند سے وابستہ ہونے کے برابر ہے ۔

1125۔ امام علی (ع): عاقل سے بچو جب تم اس کو غضبناک کردو، کریم سے بچو جب تم اسکی اہانت کرو، حقیر و پست سے بچو جب تم اس کا احترام کرو اور جاہل سے بچو جب تم اس کے ہمنشیں ہو جاؤ۔

1126۔ امام علی (ع): نادان کا دوست معرض ہلاکت میں ہوتا ہے ۔

1127۔ امام علی (ع): نادان کا دوست تباہی کے دہانے پر ہوتا ہے ۔

1128۔ امام عسکری:ؑ نادان کا دوست غمگین رہتا ہے ۔

1129۔ اما م کاظم (ع): عالم سے مزبلہ پر گفتگو ، جاہل سے گرانبہافرش پر گفتگو کرنے سے بہترہے ۔

1130۔ امام رضا(ع): نے ۔ محمد بن سنان کو ایک خط میں۔ تحریر فرمایا: خدا نے ہجرت کے بعد بادیہ نشینی کو حرام کر دیا تاکہ کوئی دین سے نہ پھرے ، انبیاء اور پیشواؤں کی نصرت کرنے سے گریز نہ کرے اس لئے کہ یہ (حرمت) تباہی و بربادی اور صاحبان حق کے حقوق کی پامالی کی وجہ سے ہے نہ اس جہت سے کہ بادیہ نشینی ناروا ہے ، لہذا اگر کوئی شخص دین سے مکمل طور پر آگاہ ہو تو اس کے لئے مناسب نہیں ہے کہ جاہلوںکے درمیان سکونت پذیر ہو اور اس چیز کا بھی خوف ہے کہ وہ کہیں علم کو چھوڑ کر جاہلوںکے جرگے میں پھنس جائے اور اس میں بہت آگے بڑھ جائے۔

۱۹۶

چھٹی فصل پہلی جاہلیت

6/1

مفہوم جاہلیت

قرآن

( اور پہلی جاہلیت جیسا بناؤ سنگار نہ کرو)

( اور ہم نے انہیں ایسی کتابیں نہیں عطا کی ہیں جنہیں یہ پڑھتے ہوں اور نہ ان کی طرف آپ سے پہلے کوئی ڈرانے والا بھیجا ہو)

( اور آپ طور کے کسی جانب اس وقت نہیں تھے جب ہم نے موسیٰ کو آواز دی لیکن یہ آپ کے پروردگار کی رحمت ہے کہ آپ اس قوم کو ڈرائیںجسکی طرف آپ سے پہلے کوئی پیغمبر نہیں آیا ہے کہ شاید وہ اس طرح عبرت و نصیحت حاصل کر لیں)

حدیث

1131۔رسول خدا(ص): اعمال میں ضعف اور لوگوں کی جہالت کی بنا پر جاہلیت کہا گیا ہے ...بیشک اہل جاہلیت غیر خدا کی عبادت کرتے تھے ، ان کے لئے آخرت میں ایک مدت ہوتی تھی جہاں تک وہ پہنچتے تھے اور اسکی ایک انتہا ہوتی تھی جہاں تک وہ جاتے تھے اور ان کے عقاب روز قیامت تک ٹال دیا گیا تھا، خدا نے ان کواپنی قدرت و بزرگی اور عزت کی بنا پر مہلت دے دی تھی لہذا قدرتمند ، کمزوروں پر مستلط ہوئے اور بڑے ، چھوٹوں کو اس دوران کھا گئے ۔

۱۹۷

1132۔ جعفر بن ابی طالب نے ۔ اپنی قوم کی حبشہ کے بادشاہ نجاشی سے اسطرح تعریف کی: اے بادشاہ! ہم لوگ جاہل تھے ، بتوںکی پرستش کرتے تھے مردار کھاتے تھے، برائیوںکا ارتکاب کرتے تھے ، قطع رحم کرتے تھے۔ اور پڑوسیوںکےساتھ بدسلوکی کرتے تھے، ہم میں سے قدرتمند کمزور کو کھاجاتا تھا، ہماری یہی کیفیت تھی کہ اللہ نے ہماری طرف ہمیں میں سے رسول بھیجا کہ ہم جسکے نسب، صداقت، امانت اور پاکدامنی سے واقف ہیں، اس نے ہمیں اللہ کیطرف دعوت دی تاکہ ہم اسکی وحدانیت کے قائل ہو جائیںاور اسکی عبادت کریں، اورجن چیزوںجیسے پتھر اور بت وغیرہ کی ہم اور ہمارے آباء و اجداد پرستش کیا کرتے تھے، انہیں چھوڑ دیں اور ہمیں سچ بولنے، ادائے امانت، صلہ رحم، پڑوسی کےساتھ نیکی، محرمات اور خونریزی سے پرہیز کرنے کا حکم دیا، ہمیں برائیوں، باطل کلام ،یتیم کا مال کھانے اور پاکدامن پر بہتان لگانے سے منع فرمایا۔ہمیں حکم دیا کہ ہم صرف اللہ کی عبادت کریں اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیں، ہمیں نماز و زکات اور روزہ کا حکم دیا...پس ہم نے اسکی تصدیق کی اور اس پر ایمان لے آئے، وہ جو کچھ لیکر آئے تھے ہم نے اسکی اتباع کی، ہم نے صرف خدا کی عبادت کی اور اسکے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا اور ہم پر جو حرام کیا تھا ہم نے اسے حرام جانا اور جو حلال کیاتھا ہم نے اسے حلال جانا، لہذا ہماری قوم نے ہم پر ستم کیا، ہمیں عذاب دیا اور ہمیں ہمارے دین سے پلٹانے کےلئے شکنجے دئے، تاکہ ہم خدا کی عبادت سے بت پرستی کی طرف پلٹ آئیں اور جن بری چیزوںکو حلال جانتے تھے انہیں دوبارہ حلال سمجھیں۔

1133۔ امام علی (ع): اما بعد! اللہ نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کو اس دور میں بھیجا ہے جب عرب میں نہ کوئی کتاب پڑھنا جانتا تھا اور نہ نبوت اور وحی کا ادعاء کرنے والا تھا۔

1134۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت بھیجا جب انبیاء کا سلسلہ موقوف تھا اوربد عملی کا دور دورہ تھا اور امتیں غفلت میں ڈوبی ہوئی تھیں۔

۱۹۸

1135۔ امام علی (ع): میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد اﷲکے بندہ اور رسول ہیں۔ انہیںاس وقت بھیجا جب ہدایت کے نشانات مٹ چکے تھے، دین کے راستے بے نشان ہوچکے تھے، انہوںنے جنکا واشگاف اندازسے اظہار کیا، لوگوںکو نصیحت کی ۔

1136۔ امام علی (ع): خدا نے انہیں اس وقت مبعوث کیاجب نہ کوئی نشان ہدایت تھا نہ کوئی منارئہ دین روشن تھا اور نہ کوئی راستہ واضح تھا۔

1137۔ امام علی (ع): اسکے بعد مالک نے آنحضرؐت کو حق کےساتھ مبعوث کیا جب دنیا فنا کی منزل سے قریب تر ہوگئی اور آخرت سر پر منڈلانے لگی دنیا کا اجالا اندھیروں میں تبدیل ہونے لگا اور وہ اپنے چاہنے والوںکےلئے ایک مصیبت بن گئی، اسکا فرش کھردرا ہوگیا اور وہ فنا کے ہاتھوں میں اپنی مہاردینے کےلئے تیار ہوگئی، اسطرح کہ اسکی مدت خاتمہ کے قریب پہنچ گئی اسکی فنا کے آثار قریب آگئے ،اسکے اہل ختم ہونے لگے اسکے حلقہ ٹوٹنے لگے، اس کے اسباب منتشر ہونے لگے، اسکے نشانات مٹنے لگے ، اسکے عیب کھلنے لگے ، اور اسکے دامن سمٹنے لگے۔

1138۔ امام علی (ع): اللہ نے انہیں اس وقت بھیجا جب لوگ گمراہی میں متحیر تھے اور فتنوں میں ہاتھ پاؤں مار رہے تھے ، خواہشات نے انہیں بہکا دیا تھا اور غرور نے ان کے قدموںمیں لغزش پیدا کر دی تھی جاہلیت نے انہیں سبک سر بنا دیاتھا، اور وہ غیر یقینی حالات اور جہالت کی بلاؤں میں حیران و سرگرداں تھے ، آ پ نے نصیحت کا حق ادا کر دیا ، سید ھے راستہ پر چلے اور لوگوںکو حکمت اور موعظہ حسنہ کی طرف دعوت دی۔

۱۹۹

1139۔ امام علی (ع): اے لوگو! اللہ نے تمہاری طرف رسول بھیجا اور ان پرحق کےساتھ کتاب نازل کی، حالانکہ اس وقت تم کتاب اور جو کچھ اس نے نازل کیا ہے اور رسول اور اسکے بھیجنے والے سے بیگانہ تھے اس وقت جبکہ ابنیاء کا سلسلہ موقوف تھااور امتیں خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں، جہالت کا دور دورہ تھا، فتنے چھائے ہوئے تھے، محکم عہد و پیمان توڑے جارہے تھے، لوگ حقیقت سے اندھے تھے، جور و ستم کے سبب منحرف تھے، دینداری زیر پردہ تھی، جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے باغات دنیا کے گلستان پژمردہ ہوگئے تھے، انکے درختوں کی شاخیں خشک ہو چکی تھیں، باغ زندگی کے پتوں پر خزاں تھی، ثمرات حیات سے مایوسی پیدا ہو چکی تھی، پانی بھی تہ نشیںہو چکا تھا، ہدایت کے پرچم بھی سرنگوںہوچکے تھے اور ہلاکت کے نشانات بھی نمایاں تھے۔

یہ دنیا اپنے اہل کو ترش روئی سے دیکھ رہی تھی اور ان کی طرف پیٹھ کئے ہوئے تھی اور منہ بگاڑ کر پیش آرہی تھی اس کا ثمرہ فتنہ تھا اور اسکی غذا مردار ، اس کا اندرونی لباس خوف تھا اور بیرونی لباس تلوار، تم لوگ ٹکڑے ٹکڑے ہو چکے تھے ، اہل دنیا کی آنکھیں اندھی ہو چکی تھیں، ان کی تمام زندگی تاریک ہو چکی تھی، اپنے عزیز و رشتہ دار سے قطع تعلق کر چکے تھے، ایک دوسرے کا خون بہاتے تھے، اپنی نو زاد بچیوں کو زندہ در گور کر دیتے تھے، خوشحال زندگی اور عیش و آرام ان کے درمیان سے رخت سفر باندھ چکا تھا نہ خدا سے ثواب کی امید رکھتے تھے اور نہ ہی اس کے قہر و غضب سے ڈرتے تھے، ان کے زندہ اندھے اور ناپاک تھے، اور مردے آگ کے اندر لڑھک رہے تھے، پھر اس کے بعد رسول خدا اولین کی کتابوں سے ایک نسخہ لیکر آئے اور جو کچھ اس کے پاس حق و حقیقت تھی اسکی تصدیق کی اور حلال و حرام کو اچھی طرح سے جداکیا۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273