النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد18%

النص و الاجتہاد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

النص و الاجتہاد
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 12859 / ڈاؤنلوڈ: 3905
سائز سائز سائز
النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

تاویلات حضرت خالد

مورد فتح مکہ :۔

اہل سیر و مسانید کا اتفاق ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر قتل و غارت کی شدید ممانعت فرمادی تھی۔ بالخصوص خالد و زبیر کو آپ نے تبہیہ بھی فرمادی تھی۔ لیک اس کے باوجود حضرت خالد نے ۲۰ سے زیادہ قریش اور ۴ بنی ہذیل کو نہ تیغ کر دیا۔ چنانچہ جب حضرت داخل مکہ ہوئے اور آپ نے ایک عورت کو مقتول پایا تو آپ نے قاتل کے بارے میں سوال کیا۔ لوگوں نے حضرت خالد کا نام بتایا۔ آپ نے فرمایا کہ خالد کو فوراً منع کردو کہ عورتوں اور بچوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ (عبقریہ عمر عقاد ص ۲۶۶)

مورد یوم جذیمہ :۔

فتح مکہ کے بعد حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت خالد کو بنی جذیمہ کے پاس دعوت اسلام کی غرض سے روانہ کیا۔ لیکن چونکہ انہوں نے جاہلیت میں خالد کے چچا خاکہ بن مغیرہ کو قتل کر دیا تھا۔ اس لیے اس نے بلا تکلف ان لوگوں سے اسلحہ رکھوا کر انہیں زبردستی تہ تیغ کر دیا۔ جب حضرت کو اس کی خبر ملی تو آپ نے بارگاہ احدیت میں خالد کے عمل سے برات و بیزاری کا اظہار فرمایا۔ (بخاری ج ۳ ص ۴۸ مسند احمد)

اس کے بعد حضرت علی کو بھیج کر ایک مال کثیر سے ان سب کی دیت ادا کرائی ۔ آپ نے بھی صغیر و کبیر شریف و حقیر سب کی دیت ادا کی اور پھر باقی ماندہ مال بھی انہیں کے حوالہ کر دیا۔ جب آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اس کی اطلاع ملی تو آپ نے اس عمل کو اتحسان کیا، طبری کامل استیعاب۔

عقاد نے اس واقعہ کو بھی عبقریہ عمر میں نقل کیا ہے جس کا تتمہ یہ ہے کہ حضرت نے سوال کیا کہ خالد کو کسی نے اس عمل سے روکا یا نہیں ؟ تو بنی حذیمہ کے ایک مغرور آدمی نے دو شخصوں کا حوالہ دیا جس سے مراد بقول حضرت عمر عبداللہ بن عمر اور سالم تھے۔ حضرت خالد کی حکم کے مطابق جملہ اسیر قتل کئے گئے لیکن ان دونوں نے اپنے اسیروں کو رہا کر دیا۔ حضرت نے اس خبر کے بعد حضرت خالد سے برات کی اور حضرت علی ؑ کے ذریعہ سب کی دیت ادا کرائی۔

اقول :۔

دیت کی علت شاید یہ تھی کہ ان لوگوں کا اسلام بالکل واضح نہ تھا ورنہ مسلمان کے مقابلہ میں مسلمان سے قصاص ہوتا نہ کہ دیت حضرت خالد کے کارنامے بطاح کے سلسلے میں ذکر ہوچکے ہیں۔ ناظرین بغور مطالعہ کریں۔ اور یہ دیکھیں کہ خلیفہ اول نے کن بنیادوں پر اس کی موافقت کی تھی اور خلیفہ ثانی کا معیار موافقت کیا تھا؟ اور انہوں نے خلافت کے بعد فوراً ہی اسے کیوں معزول کر دیا تھا؟ حضرت عمر کی مخالفت کا تو یہ عالم تھا کہ آپ نے حضرت خالد کو کبھی کوئی درجہ نہیں دیا۔ البتہ ایک مرتبہ تنسرین پر حاکم بنا دیا تو وہاں اس نے اشعت بن قیس کو ۱۰ ہزار کی اجازت دے دی اور جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ نے حمص کے حاکم ابو عبیدہ کو لکھا کہ خالد کو ایک پیر پر کھڑا کرو اور دوسرا پیر عمامہ سے باندھ دو۔ اور پھر سب کے سامنے اس کی کلاہ اتار لوتا کہ اس کو اس عمل کی برائی کا اندازہ ہوسکے۔ اس لیے کہ یہ مال اگر اپنے پاس سے دیا ہے تو اسراف ہے اور اگر امت کا مال ہے تو خیانت ہے۔ ان تمام باتوں کے بعد اسے معزول کردو اور تم حکومت کرو۔ حضرت ابوعبیدہ نے حضرت خالد کو طلب کیا اور مسجد میں یہ سوال کیا،۔ اس نے سکوت اختیار کیا حضرت ابو عبیدہ بھی چپ ہوگئے۔ لیکن بلال فی جب حسب نصیحت حضرت عمر اسے باندھ دیا اور پھر سوال ہوا۔ اس نے کہا کہ میں نے اپنے مال سے دیا ہے ۔ یہ سنکر حضرت ابوعبیدہ نے اسے چھوڑ دیا۔ اور پھر اپنے ہاتھ سے عمامہ باندھ دیا لیکن معزولی کی اطلاع نہ دی۔ پھر جب ایک عرصہ تک حضرت خالد واپس نہ ہوئے تو حضرت عمر نے براہ راست لکھ کر اسے معزول کر دیا اور پھر کوئی عہدہ نہیں دیا۔ اس واقعہ کو اسی طرح عقاد نے عبقریہ عمر میں نقل کیا ہے۔

اقول :۔

ایسا ہی ایک واقعہ حضرت ابوبکر کے زمانہ کا ہے ۔ جب حضرت خالد نے مرتدین کو جلادیا تھا تو حضرت عمر نے اعتراض کیا تھا کہ یہ عذاب خدا ہے ۔ تو حضرت ابوبکر نے یہ کہا تھا کہ یہ اللہ کی تلوار ہے ۔ (کنز العمال طبقات سنن ابن ابی شیبہ )

حضرت عمر کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے صاف واضح ہوجاتا ہے ۔ کہ آپ نے اپنی زندگی میں کبھی کسی باوقاری آدمی کو سر اٹھانے کی رخصت نہیں دی جس کی تفصیل سابق میں گزر چکی ہے۔

تاویلات حضرت معاویہ

موردالحاق زیاد :۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت معاویہ نے زیاد کو اپنے نسب میں اس دعویٰ سے شامل کرلیا کہ میرے باپ حضرت ابوسفیان نے سمیہ کے ساتھ زنا کیا تھا۔ اس کے نتیجہ میں زیاد کی ولادت ہوئی تھی اور اس پر ابو حریم نے شہادت بھی دی تھی۔ حالانکہ حدیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صراحتاً اس امر پر دلالت کی رہی ہے کہ لڑکا صاحب فراش کا ہوتا ہے اور زانی کی قسمت میں صرف پتھر ہیں۔

یہ وہ جاہلی عمل تھا کہ جس پر مسلم اکثریت نے اعتراض بھی کیا لیکن حضرت معاویہ نے کوئی پرواہ نہ کی۔ بلکہ اس شخص سے نفرت شروع کردی جس نے زیاد کو اس کا بھائی تسلیم نہ کیا۔ جیسا کہ شاعر نے کہا ہے اسے معاویہ اپنے باپ کی عفت سے نالاں ہے اور اس کے زنا سے راضی۔

مورد خلافت یزید :۔

حضرت معاویہ باوجودیکہ یزید کی حیثیت اور اس کے گردار سے واقف تھا لیکن اس نے یزید کو اپنا خلیفہ بنا دیا جبکہ اس وقت سبط رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت امام حسین ؑ کے علاوہ اکثر مہاجرین و انصار علماء و قراء بھی موجود تھے ۔ کہ جو جمہوری قانون کی بناء پر مستحق خلافت تھے۔ اس استخلاف کا نتیجہ یہ ہوا کہ یزید نے کربلا میں وہ واقعہ ایجاد کیا کہ جس نے انبیاء مرسلین کے ساتھ پتھروں کو بھی خون کے آنسو رلایا۔ اور پھر اپنے باپ کی وصیت کی بناء پر (مسلم ) بن عقبہ کے ذریعہ مدینہ طیبہ کو تاراج کرادیا۔ یہاں تک کہ مورخین کے بیان کے مطابق ایک ہزار خو بھی حلال کر لیا گیا۔ اور بعض روایات کی بنا پر سپاہیوں نے شیر خوار بچوں کو ماں کی گود سے لے کر دیوار پر اس طرح مار دیا کہ اس کا دماغ پاش پاش ہوگیا ۔ پھر ان تمام مظالم کے بعد اہل مدینہ سے غلامی کی بیعت لیکر ان کے سر امیر کے پاس روانہ کر دیئے گئے ۔ اور جب اس نے سر دیکھے تو مارے خوشی کے اشعار گنگنانے لگا۔ یہی نہیں بلکہ اس کے بعد مجرم نے مکہ کا رخ کیا۔ تاکہ ابن زبیر سے مقابلہ کرے ۔ اتفاقاً اثناء راہ میں واصل جہنم ہوگیا۔ تو حصین بن نمیر نے قیادت سنبھالی ۔ اور اس نے بھی مکہ معظمہ کو تباہ کرکے خانہ کعبہ کا غلاف جلادیا۔ اس پر منجنیق سے پتھراو کیا۔ یہ وہ کارنامے ہیں کہ جو صفحہ کاغذ پر لکھنے کے قابل نہیں ہیں۔ بلکہ یہ تو قلب تاریخ اور سینہ گیتی پر نقش ہیں۔

افسوس کہ حضرت معاویہ نے باوجود اس علم کے یزید شراب خواد قمار باز زنا کار اور فاسق و فاجر ہے اسے تخت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا وارث بنا دیا جبکہ حدیث رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صراحتا اعلان کر رہی تھی کہ جو حاکم رعیت کے ساتھ خیانت کرے گا اس پر جنت حرام ہے (بخاری ج ۴ ص ۱۵۰) جو حاکم دوسرے کو بلاوجہ شرعی حاکم بنادے گا اس پر اللہ کی لعنت اور وہ جہنمی ہے۔ (مسند احمد) جو رعیت کا نگران ہوگا اور ان کو نصحیت نہ کرے گا وہ بوئے جنت سے محروم رہے گا (بخاری)

مورد مظالم یمن :۔

سنہ ۴۰ ہجری میں حضرت معاویہ نے بسر بن ارطاہ کو یمن روانہ کیا تاکہ وہ وہاں تباہی و بربادی برپا کرے ۔ چنانچہ وہ لشکر لے کر وہاں پہنچا ۔ عبیداللہ بن عباس وہاں جناب امیر کی طرف سے حاکم تھے۔ یہ دیکھ کر انہوںنے اپنے بچو کو نانا کے سپرد کیا اور خود فرار ہوگئےء ادھر اس منحوس لشکر نے قتل و غارت کے ساتھ ہمدان کی لڑکیوں کو گرفتار کرکے انہیں سربازار فروخت کرنا شروع کیا۔ (استیعاب) اس کے بعد ابن عباس کی خسر کو قتل کرکے ان کے بچوں کو تلاش کیا ۔ وہ ایک شخص کے پاس ملے۔ ان لوگوں نے انہیں قتل کرنا چاہا۔ اس نے مدافعت کی تو پہلے اسے قتل کیا۔ اس کے بعد بچوں کو ماں کے سامنے یہ تیغ کر دیا۔ جس کے زیر اثر زوجہ ابن عباس کا دماغ مختل ہوگیا۔ (استیعاب ) یہاں تک کہ یہ منظر دیکھ کر ایک عورت نے بسر سے کہا کہ ایسا عمل تو جاہلیت میں بھی نہ تھا خدا کی قسم جس سلطنت کی بنیاد ان مظالم پر ہو وہ بدترین سلطنت ہے۔ (فصول مہمہ)

مورد قتل صالحین :۔

معاویہ کے مظالم کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس نے فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو زہر سے شہید کرا دیا جیسا کہ ابوالحسن ( ۱) ( شرح النہج ج ۴ ص ۴ ) مدائینی لکھتا ہے ۔ امیر شام معاویہ نے جعدہ بنت اشعت سے یہ وعدہ کیا کہ اگر وہ امام حسن علیہ السلام کو قتل کر دے تو ایک لاکھ انعام دے گا اور یزید سے عقد بھی کر دیگا۔ اس نے آپ کو زہر دے دیا ۔ لیکن امیر شام معاویہ نے مال تو دے دیا البتہ عقد سے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ مجھے یزید کی جان پیاری ہے حصین بن منذر کا کہنا ہے کہ حضرت معاویہ نے حضرت حسن ؑ کے ساتھ کسی ایک شرط پر بھی عمل نہیں کیا ۔چنانچہ حجر اور ان کے اصحاب کو قتل کیا۔ یزید کو خلافت دی۔ اور خود امام حسن ؑ کو زہر دلادیا۔ ابوالفرح اصفہانی مقاتل الطالسین میں لکھتا ہے کہ امیر شام معاویہ کے سامنے یزید کے مقابل دو قوتیں تھیں ۔ امام حسن ؑ سعد بن ابی وقاص اس نے دونوں کو زہر دلادیا۔

صاحب استیعاب نے لکھا ہے کہ امام حسن کو بنت اشعث نے زہر دیا ہے اور بعض کا خیال ہے کہ اس کا محرک معاویہ تھا۔

اس حادثہ کے بعد دوسرا اہم حادثہ وہ ہی کہ جس میں حجر بن عدی اور ان کے اصحاب کو سنہ ۵۱ ہجری میں تہ تیغ کیا گیا۔ صرف اس جرم می کہ ان حضرات نے حضرت علیؑ پر لعنت نہیں کی۔ یہی وہ واقعہ تھا کہ جس پر تمام اصحاب و تابعین نے اس کی مذمت کی ہے اور تمام مورخین نے اسے نقل کیا ہے ۔ اس کے بعد ایک ظلم یہ ہوا کہ عمر بن الحمق الخزاعی کو صرف حضرت علی کی محبت کے جرم میں قتل کرکے ان کا سر نیزہ پر بلند کر دیا کہ جو تاریخ اسلام کا پہلا واقعہ تھا۔

یہ سلسلہ اسی مقام پر ختم نہیں ہوا بلکہ تاریخ میں یہاں تک موجود ہے کہ اگر کسی سے یزید کی خلافت کے سلسلہ میں اندیشہ پیدا ہوگیا تو اس کا فوراً خاتمہ کر دیا۔ خواہ وہ اپنا خاص دوست اور ہمدرد ہی کیوں نہ رہا ہو۔ جس کا شاہد عبدالرحمن بن خالد قتل ہے کہ جو تاریک میں آج تک نمایاں ہے۔

مورد افعال قبیحہ :۔

حقیقت امر یہ ہے کہ اگر معاویہ کے افعال قبیحہ اور اعمال شنیعہ کی فہرست تیار کی جائے تو شاید سمندروں کی سیاہی ختم ہوجائے انسانوں کے ہاتھ تھک جائیں اور یہ سلسلہ ختم نہ ہوسکے۔ یہی کیا کم ہے کہ اس شخص نے امت اسلامیہ کی گرد پر ابن شعبہ، ابن عاص ، ابن سعد، ابن ارطاہ ، ابن جذب ، مردا ، ابن اسمط، زیاد، ابن مرجانہ اور ولید جیسے اراذل و اوباش کو حاکم بنا دیا جس کی وجہ سے اسلامی احکام کی علی الاعلان ہتک حرمت ہوئی۔

مورد بغض علی ؑ :۔

امیر شام معاویہ کا بغض امیرالمومنین ؑ کے ساتھ اپنی شہرت و حقیقت میں وہی حیثیت رکھتا ہے کہ جو قضیہ شیطان و آدم کی ہے ۔ دنیا کا کون مورخ سیرت نگار تاریخ دان بلکہ اہل نظر ایسا ہے کہ جسے اس بغض و حسد کی خبر نہ ہو۔ حالانکہ ادھر احادیث صحیحہ میں امیر المومنین کی محبت و عداوت کے آثار و احکام صراحتا مذکور ہیں چنانچہ حضرت سلیمان فارسی پر اعتراض کیا گیا کہ آپ حضرت علی ؑ کو زیادہ دوست رکھتے ہیں تو انہوں نے فرمایا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے ۔ ان کا دوست میرا دوست اور ان کا دشمن میرا دشمن ہے ۔ حضرت عمار نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ دوست علی ؑ کے طوبی اور دشمن علی ؑ کے لیے ویل ہے ۔ (مستدرک ۳ ص ۱۳۵)

حضرت ابو سعید خدری نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ ہم اہل بیت کا دشمن صرف جہنمی ہوسکتا ہے (مستدرک ) حضرت ابوذر فرماتے ہیں کہ ہمارے نزدیک منافقین کے علامات میں انکار رسول ترک نماز اور بغض علی تھا۔ (مستدرک ) ابن عباس کہتے ہی کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ؑ کو دیکھ کر فرمایا کہ تم دنیا و آخرت کے سردار ہو۔ تمہارا دوست میرا دوست اور تمہارا دشمن میرا دشمن ہے ۔ عمرو بن شاس اسلمی کہتا ہے کہ میں حضرت علی کے ساتھ یم جارہا تھا راستہ میں آپ نے مجھے تکلیف دی۔ میں نے پلٹ کر مسجد میں ذکر کر دیا۔ ادھر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبر مل گئی۔ آپ نے بلا کر فرمایا کہ تم نے مجھے اذیت دی ہے ۔ اس لیے کہ حضرت علیؑ کی اذیت میری اذیت ہے۔ (مستدرک ) حضرت ابوذر کہتے ہیں کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا جو علی سے جدا ہوا وہ مجھ سے جدا ہوا اور جو مجھ سے الگ ہوا وہ اللہ سے الگ ہوگیا ۔ صاحب استیعاب نے آپ کے حالات می یہ حدیث نقل کی ہے کہ بقوول پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا محب حضرت کا محب اور آپ کا دشمن حضرت کا دشمن ہے ۔ جس نے آپ کو اذیت دی اس نے خدا و رسول کو اذیت دی۔

طبرانی وغیرہ نے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قول نقل کیا ہے کہ اقوام کو کیا ہوگیا ہے کہ جو حضرت علی سے بغض رکھتے ہیں حالانکہ اس سے بغض مجھ سے بغض ہے۔ وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں ہم دونوں طینت ابراہمبی سے خلق ہوئے ہیں اے بریدہ یاد رکھ کہ علی میرے بعد تم سب کا ولی ہے ایک مرتبہ چند لوگوں نے آپ کی شکایت آنحضرت سے کی تو حضرت نے فرمایا کہ تم سب علی سے کیا چاہتے ہو؟ وہ مجھ سے ہے اور میں اس ہوں ۔ وہ تم سب کا ولی ہے استیعاب میں یہ بھی مذکور ہے کہ آنحضرت نے دوست علی ؑ کو مومن اور دشمن علی کو مناف سے تعبیر فرمایا ہے ۔

اقول :۔

ان روایات کے علاوہ مسلم نے بھی محبت امیر کی روایت نقل کی ہے۔جس کے تفصیلات کی گنجائش نہیں ہے بلکہ اس سلسلے میں من کنت ومولا کے ساتھ اللہم و ال من والا کا کلمہ اثبات مطلب کے لیے بہت کافی ہے۔

مورد لعنت معاویہ :۔

وہ اہل بیت جنہیں اللہ نے ہر رجس ظاہری و باطنی سے پاک کیا جن کی محبت و اطاعت فرض قرار دی جن کو قرآن کا عدیل قرار دیا۔ جن کا ایک محبوب و محب خدا و رسول وزیر وصی نبی تو ایک نصعتہ الرسول اور بنت النبی دو سردار جوانان جنت مگر افسوس کہ معاویہ نے اان مقدس ہستیوں کو اپنے قنوت میں مورد لغت بنادیا۔ اور ان کسیاتھ ابن عباس کو بھی شامل کر دیا۔ حالانکہ اسے ضرورتا معلوم تھا کہ یہ مرکز وحی معدن علم اہل بیت نبوت اور موضح رسالت ہیں ۔ یہی نہیں بلکہ امیرالمومنین برادر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر لغت کو ایک رسمی امر بنا کر تمام اعمال پر لازم قرار دے دیا۔ اور اس کے طرح جمعہ و عیدین کے خطبوں میں لغت جاری ہوگئی۔ اور یہ سلسلہ سنہ ۹۹ ہجری تک جاری رہا یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اس سلسلہ کو بند کیا اور ارواح طاہرہ کو یک گونہ سکون نصیب ہوا امام حسن ؑ نے باوجود یکہ شرائط صلح میں یہ طے کیا تھا کہ امام پر لغت کا سد باب ہوجائے۔ لیکن طبری کامل ابوالفداء ابن شحنہ سب نے نقل کیا ہے کہ حضرت معاویہ نے اس شرط پر وفا نہیں کی۔ بلکہ امام حسن ؑ کے منبر کوفہ پر موجود ہوتے ہوئے امام پر سب و شتم کیا۔ اور جب امام حسین ؑ نے روکنا چاہا تو امام حسن نے منع کیا جیسا کہ مقاتل الطالیبین وغیرہ میں مذکور ہے حد ہوگئی کہ امیر شام معاویہ نے اس سب و شم کا حکم احنف بن قیس اور عقیل کو بھی دیا۔ لیکن انہوں نے قبول نہ کیا (ابوالفداء) عامر بن سعد بن ابی وقاص کہتے ہی کہ حضرت معاویہ نے میرے باپ کو سب و شتم کا حکم دیا تو انہوں نے کہا کہ اگر علی ؑ کے لیے یہ تین فضائل نہ ہوتے تو خیر اس لے کہ یہ ایک ایک فضل میری نظر میں ایک عالم سے بہتر ہے اول یہ کہ وہ نبص رسول مثل ہارو موسیٰ ہیں ۔ ثانیا یہ کہ انہیں خیبر میں ہم سب پر فوقیت حاصل ہوئی۔ اور ثالثا یہ کہ وہ مباہلہ میں نفس و اہل بیت قرار پائے۔ (مسلم) اہل نظر یہ بھی جانتے ہیں کہ معاویہ نے حجر بن عدی وغیرہ کو خون بھی اس جرم میں بہایا ہے کہ انہوں نے لغت سے انکار کر دیا تھا ۔ (آغانی طبری کامل) ان کتابوں میں یہاں تک مذکور ہے کہ عبدالرحمن بن حسان نے جب لغت سے انکار کیا تو انہیں زیاد کے پاس روانہ کرکے یہ لکھ دیا کہ ان کو اس طرح قتل کرو جس طرح آج تک کوئی قتل نہ ہوا ہو اس نے انہیں زندہ دفن کرادیا۔ ابن ابی الحدید نے نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ ایک اموی نے پوچھ لیا کہ اے امیر یہ سلسلہ کب تک ؟ تو کہا کہ جب تک کہ بچے جوان اور ضعیف قریب مرگ نہ ہوجائیں۔ تاکہ کسی کو حضرت علی ؑ کی فضیلت یاد نہ رہے۔ یہ تمام باتیں اس وقت تھیں جبکہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی پر سہ و شتم کو اپنے سب و شتم کے برابر قرار دیا تھا۔ (حاکم احمد)

استیعاب میں بھی حضرت علی کے حالات میں اس قسم کے روایت مذکور ہیں اس کے علاوہ اسلام کا بدیہی مسئلہ ہے کہ مسلمان کو گالی دینا فسق ہے جیسا کہ صحیح مسلم میں مذکور ہے (الالعنت اللہ علی الکافرین)

مورد حرب باعلی :۔

امیرالمومنین ؑ کے لیے بیعت تمام ہونے کے باوجود امیر شام معاویہ نے شام کے اوباشوں کا لشکر تیار کرکے آپ کے مقابلہ کا قصد کیا اور جس کے نتیجہ میں اپنی شقادت اور خباثت کا مظاہرہ کرکے لاتعداد صالحین و اصحاب و تابعین کو تہ تیغ کر دیا۔ حالانکہ قتال مسلم کفر ہے (بخاری و مسلم) تفریق جماعت مستوجب قتل ہے (مسلم) حضرت علیؑ ناکثین و قاسطین و مارقین کے جہاد پر مامود تھے (استیعاب) اور خود فرماتے تھے کہ اب سوائے جنگ یا کفر کے کوئی راہ باقی نہیں ہے ۔ امام کے لیے قرآن مجید کا صریحی حکم کافی تھا کہ اولاً مومنین میں اصلاح کی کوشش کرو اور اگر کوئی تعدی کرے تو اس سے جہاد کرو۔ پھر یہ کہ معاویہ کی بغاوت تو عصر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی سے مسلمانوں کو معلوم ہوچکی تھی۔ جب کہ براویت حضرت ابوسعید خدری حضرت عمار تعمیر مسجد میں زیادہ حصہ لے رہے تھے ۔ اور حضرت نے فرمایا تھا کہ عمار کا قاتل ایک باغی فرقہ ہوگا جو لوگوں کو جہنم کی دعوت دے رہا ہوگا۔ قرآن مجید کے دوسرے حکم کے مطابق جہنم کی دعوت دینے والا امام دار دنیا میں لعنت کا حقدار ہو جاتا ہے افسوس کہ ان بدبخت نام نہاد مسلمانوں نے ان تمام نصوص کو نظر انداز بالخصوص یا جملہ اہل بیت سے جنگ کو اپنے قتال کے برابر قرار دیا تھا۔

مورد وضع احادیث :۔

ابن ابی الحدید ابو جعفر اسکانی سے نقل کیا ہے کہ امیر شام معاویہ نے حضرت ابوہریرہ ، عمروالعاص ، مغیرہ اور عروہ بن بن زبیر کے قسم کے لوگوں کو اس امر پر آمادہ کیا کہ وہ حضرت علی ؑ کی منقصت میں روایات وضع کرے اور اس طرح حضرت معاویہ کی حکومت میں یہ کاروباری جاری ہوگیا۔ چنانچہ زہری کہتا ہے کہ مجھ سے عروہ نے حضرت عائشہ کے حوالے سے بیان کیا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علیؑ اور حضرت عباس ؑ کو د یکھ کر فرمایا تھا کہ یہ دونوں غیردین اسلام پر مریں گے۔ (نعوذ باللہ)

عبدالرزاق نے معمر سے نقل کیا ہے کہ عروہ کی دو روایات زہری کے پاس تھے ایک وہی جو ابھی ذکر ہوئی اور ایک کا مضمون یہ تھا کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان دونوں بزرگوں کے ناری ہونیکی خبر دی ہے۔ (العباذ اللہ)

عمروالعاص نے اپنے فریضہ کے مطابق یہ روایت تیار کی کہ آل ابو طالب میرے دوست نہیں ہیں میرا دوست اللہ ہے اور عباد صالحین (بخاری و مسلم ) ابوہریرہ نے یہ روایت وضع کی کہ حضرت امیر نے ابوجہل کی لڑکی کو پیغام دیا تو رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غصہ میں منبر پر اعلان فرمایا کہ میری لڑکی دشمن خدا کی لڑکی کے ساتھ جمع نہیں ہوسکتی ۔ فاطمہ کو اذیت دینا مجھے اذیت دینا ہے۔ اگر حضرت علی کا قصد عقد ثانی کا ہے تو میری لڑکی کو چھوڑ دیں۔ (بخاری و مسلم)

سید مرتضیٰ نے بیان کی ہے کہ یہ روایت حسین کو بیسی کی ہے جس کا بغض و حسد معروف ہے۔ ابو جعفر نے اعمش سے یہ روایت نقل کی ہے کہ جب معاویہ کے ساتھ ابوہرہ عراق آیا تو مسجد کوفہ میں اس نے اعلان کیا کہ لوگ مجھے کاذب خیال کرتے ہیں حالانکہ خدا کی قسم میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص حرم نبی میں کوئی حادثہ واقع کرے گا اس پر خدا و رسول اور تمام انسانوں کی لعنت ہے اور میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ حضرت علی نے ایسا کیا ہے اس کے عوض میں معاویہ نے ابوہریرہ کو انعام کثیر دے کر مدینہ کا حاکم بنادیا حضرت سفیان ثوری نے عمر بن عبدالغفار سے نقل کیا ہے کہ جب ابوہریرہ کوفہ آیا تو اس نے روزانہ شام کے وقت اپنی نشست قائم کرلی ایک دن ایک شخص ( ۱ صبغ بن نباتہ) نے اس سے پوچھا کہ خدا کو حاضرو ناظر جان کر یہ بیان کرو کہ تم نے رسول اکرم ص سے یہ سنا ہے یا نہیں کہ حضرت علی ؑ کا دوست دوست خدااور علی ؑ کا دشمن دشمن خدا ہے اس نے اعتراف کیا تو آپ نے فرمایا کہ خدا کی قسم تو حبیب کے خدا دشمن کا دوست ہے اور یہ کہہ کر روانہ ہوگئے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ معاویہ نے امیرالمومنین ؑ پر ظلم کی کوئی ترکیب باقی نہیں رکھی۔ وسیعلم الذین ظلمو ا ای منقلب ینقلبون

مورد نقص عہد :۔

جب امیر شام معاویہ نے امام حسن ؑ کو دعوت صلح دی اور آپ کی نظر میں بھی اس میں مصلحت نظر آئی تو آپ نے چند مخصوص شرائط کے ساتھ اسے منظور فرمالیا۔ جس کا واقعہ یہ ہے کہ معاویہ نے ایک سفید کاغذ مہرلگا کر روانہ کر دیا کہ آپ جو چاہیں تحریر کردیں۔ (طبری کامل) آپ نے بجائے اپنے دست مبارک سے لکھنے کے معاویہ کے قاصد عبداللہ بن عامر سے لکھوایا اور کاغذ روانہ کر دیا۔ حضرت معاویہ نے اس کی نقل امام حسن کے پاس روانہ کی جس کے آخر میں یہ ذکر تھا کہ اس قرار دار پر عمل عہد خدائی ہے کہ جس پر وفالازم ہے اس کے بعد اس امر کا تمام شام میں کبھی اعلان کرادیا۔ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت معاویہ کی نظر میں وفائے عہد سے زیادہ اہم استخلاف تھا۔ اس لیے اس نے تمام شرائط کو زیر قدم ڈال کر امام حسن کے سامنے امیرالمنومین ؑ پر سب و شتم کیا۔ جبکہ مسلمان صلح کا جشن منارہے تھے ۔ (صلح الحسن شیخ راضی آل یسین) اور اس طرح معاویہ کے مظالم قتل و غارت غصب و نہب ہتک و تذلیل وغیرہ سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس کے آثار اہل تاریخ سے مخفی نہیں ہیں۔ اور پھر ان مصائب و مظالم کا سلسلہ بظاہر اس دن ختم ہوا کہ جبکہ امام حسن کو زہر سے شہید کر دیا اور در پردہ اس کی خبریں اس وقت تک پھیلتی رہیں جب تک کہ سبط اصغر فرزند رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا قتل نہ ہوگیا اور حرم خدا و رسول کی ہتک حرمت ظہور میں نہ آگئی۔

(یہی وہ مظالم ہیں کہ جن سے آسمان کے شگاف اور زمین کے انقلاب کے آثار پیدا ہوجاتے ہیں)

تاویلات جمہور مسلمین

مورد صحابیت :۔

جمہوری مسلمین کا یہ دستور رہا ہے کہ وہ صحابی کہ خبر بلا تحقیق و تفیتش عمل کرتے رہے ہیں اس لیے کہ ان کی نظر میں نبی کا ہر صحابی عادل بے گناہ ہوتا ہے ۔ حالانکہ ظاہر ہے کہ یہ بات عقل و نقل دونوں کے معیار سے ساقط ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ صحابیت شرف ہے لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں ہے کہ صحابیت دلیل عصمت نہیں ہے۔بنابریں خبر کی قبولیت کے لیے راوی کی جانچ ضروری ہے ۔ اگر وہ عادل ہے تو خبر پر عمل کیا جائے اور اگر فاسق ہے تو اس کی خبر سے اعتاض کیا جائے۔ اور اگر مجہول الحال ہے تو اس کی تفتیش کی جائے۔ عام مسلمانوں کا خیال ہے کہ صحابی کی تقدیس و تعظیم سے منزل نبوت کی تقدیس ہوتی ہے اس لیے صحابہ سے حسن ظن ضروری ہے حالانکہ یہ بات صریح قرآن و سنت کے خلاف ہے قرآن کریم نے مختلف آیات میں صحابہ کے نفاق کی خبر دی ہے بلکہ یہاں تک بیان کیا ہے کہ وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ان کے کفر کا احتمال قوی پایا جاتا ہے تو کیا یہ کہ جائے کہ وجود رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی وجہ نفاق تھا؟ کہ آپ کے دنیا سے اٹھتے ہی سب عادل و بے گناہ ہوگئے؟ یا یہ تسلیم کر لیا جائے کہ وفات رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی منجملہ اسباب عدالت و وثاقت ہے کلا ولا۔

خود صحیح بخاری میں صحابہ کے ارتداد و کفر کی آٹھ روائتیں مختلف مقامات پر موجود ہی جس میں مشہور ترین روایت یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم روز محشر حوض کوثر پر چند اصحاب کو دیکھ کر مسرور ہوں گے۔ تو حکم ہوگا کہ یہ سب ناری ہیں ۔ اس لیے کہ تمہارے بعد کافری ہوگئے تھے۔ کیا ان حالات میں ہر صحابی کا قول قابل عمل ہوسکتا ہے حاشاد کلا۔

مورد اعراض از عترت :۔

جمہور کا ایک امتیاز یہ بھی ہے کہ وہ اصول دین کو ابوالحسن اشعی اور ابوالحسن تریدی سے اور فروع دین کو فقہاء اربعہ سے اخذ کرتے ہیں ۔ ان حضرات نے عترت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو کسی مقام پر کوئی جگہ نہیں دی ہے ۔ حالانکہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عترت کو امان ارض باب حطہ احدثقلین اور سفینہ نوح قرار دیا تھا ۔ اگر کوئی شخص تفتیش کرے تو اسے معلوم ہوجائے گا۔ کہ جمہور نے اہل بیت ؑ کو عام خوراج و نواصب سے زیادہ اہمیت نہیں دی ۔ چنانچہ تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے ۔ کہ کتب جمہوری تمام عترت کے روایات صرف عکرمہ خارجی کے روایات کے برابر ہوں ہوں گے ۔ اور اس سے بدتر یہ ہے کہ بخاری نے اپنی کتاب میں امام صادق کاظم و رضا و جواد عسکری علیہم السلام سے کوئی روایت نقل نہیں کی بلکہ اسی طرح حسن بن حسن زید بن علیؑ یحیی بن زید نفس زکیہ محمد بن عبداللہ ابراہیم بن عبداللہ حسین فخی ہے یحی بن عبداللہ محمد بن جعفر الصادق محمد بن ابراہیم قاسم ارتسی محمد بن محمد زید بن علی محمد بن قاسم صاحب الطالقان اور دیگر اشراف عترف اور اعیان امت کے کے روایات کو ترک کر دیا ہے ۔ حالانکہ اسی کے مقابل میں عمران بن حطاں خارجی مداح ابن بلجم کے بیانات کو درج کیا ہے آہ ! آہ!

بات کسی منزل پر پہنچ گئی جمہوری کے ان اسرار کی ترجمانی ابن خلدون نے اس وقت کی ہے کہ جب اپنے مقدمہ میں علم فقہ وغیرہ کے ذیل میں تحریر کیا ہے کہ اہل بیت ؑ کے بعض جدید مسائل ہیں۔ جن کی بنا پر وہ صحابہ کی قدح کرنا چاہتے تھے۔ حالانکہ یہ سب واہیات اصول ہیں۔ پھر فرماتے ہیں۔

کہ یہ مسائل خوارج کے آراء و انکار سے مشابہ ہیں جن کو جمہور نے کوئی درجہ نہیں دیاہے ۔ اور نہ ہم نے کبھی ان کی ظرف اعتناء کی ہے ۔ چنانچہ کتب شیعہ صرف ان کے بلاوتک محدود ہیں برخلاف اس کے مذہب حنفی عراق میں اور مذہب مالک حجاز میں مذاہب احمد شام و بغداد میں اور مذاہب شافعی مصر میں مشہور ہے۔

روافض کی وجہ سے فقہ شافعی کا زوال ہوگیا اور وہاں فقہ اہل بیت علیہم السلام رائج ہوگئی۔ لیکن تھوڑے ہی عرصہ میں صلاح الدین کے ہاتھوں ان کا زوال ہوگیا اور قصہ شافعی اپنی منزل پر آگئی

حیف صد حیف یہ گندہ دہن اور خاک بسر انسان اہل بیت کو اہل بدعت شاذ اور مثل خوارج قرار دے کر ان کی توہین کرے اور خدائے کریم ان کی طہارت مووت عظمت کا اعلان کرکے انہیں سفینہ نجات امان امت باب حطہ عروہ الوتقے احد الثقلین قرار دے۔ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی محبت کو وجہ مغفرت اور ان کے پروانہ کو باعث امان از عذاب جہنم قرار دیں۔

کاش ان ارباب مذہب نے اہل بیت علیہم السلام کے اقوال کو کتابوں میں شاذ و ضعیف ہی کی جگہ دی ہوتی۔ مگر افسوس ""بیس تفاوت رہ از کجا تا کجا""

مورد دعوت تصفیہ : ۔

اے برادران اسلام ! و فرزندان توحید ! آخر یہ نزاح تابہ کے ۔ اور یہ اختلاف کب تک ؟ کیا خدائے وحدہ لاشریک ہم سب کا رب اور رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم سب کے نبی ہیں ہیں؟ کیا کعبہ ہمارا قبلہ اور قرآن ہماری کتاب نہیں ہے؟ کیا فرائض اسلامیہ ہمارے فرائض اور محرمات ہمارے متروکات نہیں ہیں؟ کیا قیامت و حشر و نشر کا ایمان ہم میں ایک مشترک شئے نہیں ہے؟ تو پھر اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ہم میں قانون کوئی اختلاف نہیں ہے سارا اختلاف انطباقی ہے جس طرح سے ہم میں کسی شے کے وجوب و حرمت صحت و بطلان جزئیت و شرطیت کی نزاع ہوتی ہے۔ اس طرح کسی شخص کے عدالت و فسق ایمان و نفاق محبت و عداوت کا اختلاف ہے دونوں کا مرجع کتاب و سنت و اجماع و عقل کو ہونا چاہیے اگر کوئی محب خدا ثابت ہوجائے تو سب اس سے محبت کریں اور اگر دشمن اسلام ثابت ہو تو سب اس سے برات کریں ۔خود بخاری نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ مجتہد اگر مطابق واقعہ کہے گا تو وہ اجر اور اگر اتفاقاً خطا کرگیا تو ایک اجرا اسے ضرور ملے گا۔ ابن حزم نے تو یہاں تک کہہ دیا ہے کہ خطائے اجتہادی موجب فسق و کفر نہیں ہے ۔ وہ فروع دین میں ہو یا اصول میں اور یہی رائے ابن ابی لیلی ابو حنیفہ شافعی سفیان ثوری اور داود بن علی وغیرہ کی ہے۔

ان تصریحات کی روشنی میں آخر باہمی تکفیر و تفسیق کا سبب کیا ہے ؟ کیا مسلمان آپ میں بھائی بھائی نہیں ہیں؟ کیا اختلاف موجب ضعف نہیں ہوتا ؟ کیا تفرقہ انداز لوگوں کے لیے عذاب عظیم نہیں ہے ؟ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ حدیث متواتر و مشہور ہے کہ مسلمان آپس میں متحد ہیں اگر کوئی ان میں اختلاف پیدا کرے گا تو اس پر خدا اور رسول و ملا مکہ و جمیع انسان سب کی لعنت ہوگی

اللهم اهد قومی فانهم لایعلمون

فہرست

مقدمہ ۴

تاویلات حضرت ابی بکر ۵

مورد سقیفہ ۵

انکار حدیث :۔ ۵

نبی ہاشم سے اعراض:۔ ۵

بیعت پر اصرار:۔ ۵

نزاع مہاجری و انصار:۔ ۶

امام ؑ کی قربانی:۔ ۶

امام ؑ کا احتجاج:۔ ۶

ناگہانی بیعت:۔ ۶

مورد استخلاف :۔ ۷

مورد جنگ موتہ:۔ ۷

موقف جعفر:۔ ۷

موقف زید و عبداللہ:۔ ۷

مورد سریہ اسامہ بن زید ۸

مقصد رسول صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :۔ ۹

معاذیر:۔ ۹

مورد سہم مولفتہ القلوب :۔ ۱۰

اقول :۔ ۱۱

مورد سہم ذوی القربی :۔ ۱۳

مورد وراثت ابنیاء:۔ ۱۳

مورد عطیئہ زہرا :۔ ۱۵

اقول :۔ ۱۶

تنقید:۔ ۱۶

مورد ایذاء زہراسلام اللہ علیہا:۔ ۱۷

اقول :۔ ۱۷

مورد قتل ذوالثدیہ:۔ ۱۸

مورد قتل ذوالثدیہ:۔ ۱۸

مورد قتال اہل قبلہ:۔ ۱۸

اقول :۔ ۱۹

مورد یوم سطاح:۔ ۱۹

خالد اور سطاح:۔ ۲۰

تلاش مالک :۔ ۲۰

اقول :۔ ۲۱

اقول :۔ ۲۲

خاتمہ کلام :۔ ۲۲

مورد منع کتابت حدیث :۔ ۲۳

مورد شفاعت مشرکین :۔ ۲۴

تاویلات حضرت عمر ۲۵

مورد تیمم :۔

قرآن مجید میں دو آیتوں میں صریحی طور پر یہ حکم موجود ہے کہ اگر کسی محدث کو پانی نہ مل سکے تو اس کا فریضہ ہے کہ وہ تیمم کرکے نماز ادا کرے اس کے علاوہ اس باب میں بکثرت روایات بھی موجود ہیں بلکہ تمام امت اسلامیہ کا اجماع و اتفاق ہے لیکن اس کے باوجود قسطلانی نے ارشاد الساری میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے ایسے شخص کو ترک صلوہ کا حکم دیا تھا ۔ بخاری و مسلم دونوں میں یہ روایات موجود ہے ۔ کہ ایک شخص نے حضرت عمر سے اس مسئلہ کا سوال کیا تو انہوں نے ترک صلوۃ کا حکم دے دیا۔ عمار یاسر موجود تھے ۔ انہوں نے ٹوک دیا ۔ کیا یاد نہیں ہے کہ ایسے ہی موقع پر ہم نے زمین پر لوٹ کر نماز پڑھ لی تھی ۔ اور تم نے ترک کر دی تھی۔ تو حضرت پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہماری بات پسند فرما کر تیمم کا طریقہ تعلیم فرمایا تھا ۔ حضرت عمر نے کہا عمار خدا سے ڈرو انہوں نے فرمایا کہ اگر تمہاری مرضی نہیں تو میں نہیں بیان کروں گا۔ حضرت عمر نے دھمکی دی ۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ ابن مسعود حضرت عمر کی رائے سے متفق تھے۔ چنانچہ بخاری وغیرہ نے شفیق سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے کہ میں ابن مسعود اور ابو موسی کے پاس تھا کہ ایک مرتبہ ابو موسی نے یہی مسئلہ چھیڑ دیا ابن مسعود نے ترک نماز کا فتوی دیا تو اس نے کہا کہ پھر عمار کی روایت کا کیا حشر ہوگا انہوں نے کہا کہ عمر نے قبول نہیں کیا۔ اس نے کہا کہ اچھا آیت کا کیا انجام ہوگا۔ یہ سنکر ابن مسعود چپ ہوگئے! میرا خیال ہے کہ ابن مسعود اس اس فتوی میں حضرت عمر سے خائف تھے۔

مورد ""نافلہ بعد عصر""

(صحیح مسلم سنن نسائی ج ۱ ص ۲۸۱ مختصر کنزالعمال ج ۳ ص ۱۵۹ بخاری ج ۱ ص ۱۱۸ طبع مکہ) میں حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ سرکار رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عصر کے بعد دو رکعت نماز زندگی بھر ترک نہیں کی دوسری روایت میں ہے کہ دو رکعت قبل فجر اور دو بعد عصر تیسری روایت میں حضرت عائشہ کی گواہی مذکور ہے لیکن ان تمام روایات کے باوجود حضرت عمر نے اسے ممنوع کر دیا۔ اور اس پر لوگوں کی مرمت شروع کر دی۔ امام مالک نے موطاء میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے مکندر کو اسی نماز پر مارا عبدالرزاق کی روایت کی بنا پر حضرت عمر نے زید بن خالد کو مارا تو اس نے حدیث پیش کی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں اس لیے مارتا ہوں کہ کہیں یہ سلسلہ نماز شب تک نہ پہنچ جائے۔ (زرقانی) تمیم رازی کی روایت میں یہ علت مذکور ہے۔ کہ اس طرح لوگ عصر سے مغرب تک نماز پڑھیں گے جس کا نتیجہ ہو ہوگا کہ اس ساعت میں نماز ہونے لگے گی جس سے سرکار دو عالمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے منع فرمایا ہے ۔ یعنی وقت غروب۔

کاش خلیفہ نے اس احتیاط کو منع تک محدود رکھا ہوتا اور اس طرح نماز گزار مسلمان آپ کے تازیانہ سے محفوظ رہ سکتے۔

کاش خلیفہ نے اس احتیاط کو منع تک محدود رکھا ہوتا اور اس طرح نماز گزار مسلمان آپ کے تازیانہ سے محفوظ رہ سکتے۔

مورد تاخیر مقام ابراہیم:۔

قرآن حکیم کا صریحی حکم ہے کہ مقام ابراہیم مصلی بناؤ۔ جس کی بنا پر حاجی حضرات آج تک اس کی قریب ہی نماز ادا کرتے ہیں ، مقام ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر آپ کعبہ کی دیواریں بلند کر رہے تھے آپ کے زمانہ میں یہ پتھر دیوار سے متصل تھا لیکن بعد میں عرب نے اسے الگ کر دیا۔ حضرت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پھر ملادیا۔ لیکن حضرت عمر نے زمانہ خلافت میں الگ کرکے پھر وہیں رکھ دیا۔ جہاں آج تک موجود ہے۔ (طبقات ابن سعد تاریخ الخلفاء ص ۵۳ ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۱۳) ( دمیری مادہ دیک ۱ ص ۳۴۶ ابن جوزی تاریخ عمر ص ۶۰)

۱۷ ہجری میں حضرت عمر نے مسجد حرام میں توسیع کرائی اور اس سلسلے میں کچھ مکانات خریدنے کا قصد کیا۔ ان لوگوں نے بیچنے سے انکار کر دیا۔ تو آپ نے مکانات گروائے اور قیمت بیت المال میں جمع کرادی ۔ آخر کار وہ لوگ آکر لے گئے۔

مورد گریہ برمیت :۔

کسی عزیز کی ومت پر گریہ وزاری ان لوازم بشریت اور متقضیات رحمت میں ہے کہ جن سے ممانعت کرنا عقلا غیر مناسب ہے۔ جب تک کہ ان میں کوئی ناپسندیدہ فعل یا غیر مناسب قول کی آمیزش نہ ہو چنانچہ خود سرکارسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ فرمایا کہ چشم و دل کے آثار کا تعلق اللہ سے ہے اور دست و زبان کی فریاد کا تعلق شیطان سے (مسند احمد ج ۱ ص ۳۳۵) مسلمانوں کی سیرت مستمرہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ اہل اسلام میں مرنے والے پر گریہ ایک عام امر تھا یہاں تک کہ خود حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی مختلف مواقع پرگریہ فرمایا ہے ۔ ابن عبدالبر نے استیعاب میں تحریر کیا ہے کہ حضراتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت حمزہ کی لاش کی بے حرمتی دیکھ کر اتنا گریہ فرمایا کہ ہچکیاں بندھ گئیں۔

واقدی نے نقل کیا ہے کہ جیسے جیسے حضرت صفیہ کا گریہ بڑھتا تھا حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حالت متغیر ہوتی جاتی تھی۔ حضرت فاطمہ ؑ کا گریہ دیکھ کر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مسلم روتے تھے۔

انس راوی ہیں کہ جب جنگ موتہ میں اسلامی علمدار شہید ہورہے تھے تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس خبر کو مسلمانوں میں اس حالت سے نقل کر رہے تھے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے (بخاری ج ۲ ص ۱۱ طبع مکہ)

(استیعاب ج ۱ ص ۵۲۹) میں زید کے حالات میں یہ فقرہ درج ہے ہے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زید و جعفر پر گریہ فرما کر یہ ارشاد فرمایا ہے کہ یہ دونوں میرے بھائی اور میرے مونس تھے۔ بخاری جلد ۲ ص ۸۳ میں انس سے دوسری روایت ہے کہ ہم لوگ حضرت کی خدمت میں اس وقت حاضر ہوئے جب ابراہیم کا دم اکھڑا ہو ا تھا ۔ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔ ابن عوف نے عرض کیا یا حضرت آپ اور یہ حالت ؟ فرمایا کہ یہ لازمہ انسانیت ہے! آنکھ گریاں ہوگی دل محزون ہوگا یہ اور بات ہے کہ ہماری زبان شکایت سے آشنا نہ ہوگی۔ اسامہ بن زید کہتے ہیں کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ایک صاحبزادی نے یہ کہلا بھیجا کہ میرا فرزند عالم احتضار میں ہے۔ حضرت سعد بن عبادہ معاذ بن جبل ابی بن کعب اور زیب بن ثابت کے ہمراہ تشریف لائے کیا دیکھا کہ بچہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے ۔ یہ دیکھ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی چشم مبارک سے آنسو جاری ہوگئے۔ حضرت سعد نے ٹوک دیا۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ علامت رحمت ہے۔ اور اللہ بھی رحم دلوں ہی پر رحم کرتا ہے۔ (بخاری ج ۲ ص ۸۴ مسلم ج ۱ ص ۳۶۷)

ابن عمر راوی ہے کہ سعد بن عبادہ کسی مرض میں مبتلا ہوئے ۔ جب حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کی عیادت کو تشریف لے گئے تو آپ کے ہمراہ ابن عوف ابن وقاص اور ابن مسعود بھی تھے ۔ حالات کو دیکھ کر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سوال کیا کیا سعد کا انتقال ہوگیا؟ لوگوں نے عرض کیا نہیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے گریہ شروع کر دیا۔ اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ سب رونے لگے ۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا دیکھو آنکھوں کے آنسو اور دلوں کے حزن والم پر کوئی عتاب نہیں ہوسکتا ۔ عذاب تو صرف زبان کی زیادتی پر ہوتا ہے۔

استیعاب ج ۱ ص ۱۱۲ میں حضرت جعفر کے حالات میں مذکور ہے کہ جب حضرت جعفر کی شہادت کی اطلاع آئی تو حضرت اسماء کو تعزیت دینے تشریف لے گئے۔ ادھر حضرت فاطمہ زہراؑ بھی آگئیں اور آکر انہوں نے رونا شروع کر دیا ۔ ابن اثیر جلدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ۱۱۳ ابن کثیر ابن عبدربہ ج ۳ ص ۱۶۸ وغیرہ نے اس روایت کا ذکر کیا ہے کہ جنگ احد کے بعد تمام عورتوں نے اپنے وارثوں پر گریہ شروع کیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا ہائے افسوس حمزہ کا رونے والا کوئی نہیں ہے۔ چنانچہ اس کے بعد یہ عالم تھا کہ ہر رونے والی عورت پہلے حضرت حمزہ ؑ کا ذکر کرتی تھی تب اپنے وارثوں پر روتی تھی ۔ استیعاب ج ۱ ص ۲۷۴ نے واقدی سے نقل کیا ہے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس فرمان کے بعد سے کوئی عورت حضرت حمزہ ؓ پر روئے بغیر کسی دوسرے پر نہیں روئی۔ (البدایہ والنہایہ ج ۴ ص ۴۷ )

نقد و نظر :۔

ان تمام اقوال کی روشنی میں یہ بات بڑی حد تک واضح ہوجاتی ہے کہ گریہ و بکا مسلمانوں میں ایک سنت جاریہ اور سیرت مستمرہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ یہاں تک کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نہ رونے پر تنبہیہ کی ہے اور اظہار افسوس فرمایا ہے کہ بلکہ حضرت جعفر کی شہادت پر رونے کا حکم بھی دیا ہے ۔ لیکن افسوس کہ ان تمام روایات کے باوجود خلیفہ ثانی کو رائے یہی تھی کہ مردہ پر گریہ نہ کیا جائے۔ یہاں تک کہ وہ رونے والوں کو عصا اور پتھر سے تنبہیہ فرماتے تھے۔ (بخاری ج ۲ ص ۸۴)

امام احمد نے ابن عباس کے حوالے سے حضرت رقیہ کے انتقال کا ذکر کیا ہے اور اس میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر رونے والوں کی تنبہیہ تازیانہ سے فرما رہے تھے تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا انہیں رونے دو اور پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قبر کے کنارے بیٹھ گئے ادھر حضرت فاطمہ ؑ نے رونا شروع کر دیا ۔ آپ اپنے رومال سے آنسو خشک کرتے جاتے تھے ۔ دوسری روایت میں ابوہریرہ سے مروی ہے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کےسامنے سے ایک جنازہ گزرا جس میں عورتیں رو رہی تھیں۔ حضرت عمر نے انہیں جھڑک دیا تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ٹوک کر فرمایا ''رونے دو! ان پر مصیبت پڑی ہے لہذا آنکھ سے آنسو ضرور جاری ہوں گے""

اس مسئلہ میں حضرت عاءشہ اور حضرت عمر متضاد رائے کے حامل تھے۔ حضرت عمر اور ابن عمر کی رائے تھی کہ رونے سے مرنے والے پر عذاب ہوتا ہے ۔ اور حضرت عائشہ کا خیال تھا کہ ان دونوں نے اشتباہ کیا ہے خود قرآن کریم کا اعلان ہے ایک شخص کا بار دوسرا نہیں اٹھائے گا۔ تو کیا وجہ ہے کہ زندہ کے رونے سے مردہ پر عذاب ہو۔ ان دونوں کا یہ اختلاف شدت پکڑتا گیا۔ یہاں تک کہ جب حضرت ابوبکر کا انتقال ہوا تو حضرت عائشہ نے حسب دستور عرب رونے والیاں مقرر کر دیں ۔ جب حضرت عمر کو معلوم ہوا تو انہوں نے دروازہ پر آکر روکا ۔جب کسی نے سماعت نہ کی تو ہشام بن ولید کو حکم دیا کہ تم منع کرو۔ حضرت عائشہ نے اسے گھر میں داخل ہونے سے منع کیا۔ حضرت عمر نے حکم دیا کہ زبردستی گھر میں گھس جاو۔ چنانچہ وہ گھس کر ام فروہ کو پکڑ لایا اور حضرت عمر نے تازیانہ سے ان کی مرمت کر دی (طبری ج ۲ ص ۱۶۴) ۔

ہمارا دل چاہتا ہے کہ اس مقام پر ناظرین کو اس نکتہ کی طرف بھی متوجہ کردیں جس کی بنا پر حضرت فاطمہ ؑ کے انتقال کے بعد آبادی سے باہر بقیع می جاکر گریہ فرمایا کرتی تھیں۔ یہاں تک کہ جب لوگوں نے درخت کاٹ ڈالا تو جناب امیر ؑ نے آپ کے لیے ایک بیت الحزان تعمیر کر دیا اور آپ نے اسی میں تا عمر گریہ فرمایا اور یہ عمارت مسلمانوں کے لیے جائے زیارت بنی رہی ۔ یہاں تک کہ ۸ شول سنہ ۱۳۴۴ ہجری کو ابن مسعود نے اسے منہدم کرادیا۔ اور اس طرح صدر اسلام کا مدعی حاصل ہوگیا۔

مورد قضیہ حاطب :۔

بخاری ج ۵ ص ۷۷ نے روایت کی ہے کہ ابو عبدالرحمن اور حبان ب عطیہ میں نزاح واقع ہوئی۔ ابو عبدالرحمن نے حبان سے کہا کہ میں جانتا ہوں کہ تمہارے ساتھ خونریزی پر اتنے جری کیوں تھے؟ اس نے کہا خدا تمہیں غارت کرے وہ کیا ہے ؟ جواب دیا کہ ایک بات ہے جو کہ میں نے ان سے سنی ہے ۔ پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا واقعہ یہ ہے کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زیبر ابو مرشد اور مجھے حکم دیا کہ فلاں باغ میں جاکر ایک عورت کے پاس حاطب کا خطہ ہے اسے لے آؤ ۔ چنانچہ ہم لوگ پہنچے۔ ہم نے اس عورت سے سوال کی جب اس نے انکار کیا تو ہم نے تلاشی بھی لی لیکن جب کچھ برآمد نہ ہوا تو اس کو برہنہ کرنے کی دھمکی دی۔ اس نے وہ کاغذ دے دیا۔ ہم اسے لیے ہوئے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدمت میں پہنچے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حاطب سے مواخذہ کیا اس نے جواب دیا کہ میں نے یہ خط صرف اس لیے لکھا تھا کہ مشرکین پر میرا احسان ہوجائے اور وہ مجھے اذیت نہ کریں۔ حضرت عمر نے کہا کہ یہ خیانت ہے ہم اسے قتل کریں گے۔ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حاطب کے عذر کو قبول فرمالیا۔ لیکن حضرت عمر نے دوبارہ قتل کی دھمکی دی (البدیہ و النہایہ ۴ ص ۲۸۳)

سوال صرف یہ ہے کہ کیا رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ارشاد کے بعد بھی قتل کی دھمکی ضروری تھی؟ کیا فیصلہ رسالت پر سکوت لازم نہ تھا؟

مورد شرائط قاصد :۔

امام مالک اور بزاز نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت کی ہے کہ حضرت نے اپنے امراء کو دستور عنایت فرمایا کہ جب کوئی قاصد روانہ کیا کریں تو ایسا شخص ہو جس کا نام اچھا ہو اور صورت کے لحاظ سے بھی وجیہہ ہو۔ حضرت عمر کو غصہ آگیا بولے کہہ دوں کہ نہ کہوں۔ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہو ۔ کہنے لگے ہم کو فعال سے منع کرتے ہیں اور خود بد شگونی کے قائل ہیں ۔ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا یہ بدشگونی کی بات نہیں ہے حسن انتخاب کی بات ہے۔ (حیوہ الحیوا دمیری مادہ ج ۲ ص ۳۱۸)

مورد تقسیم صدقہ :۔

امام احمد نے سلمان بن ربیعہ سے روایت کی ہے کہ ہم نے حضرت عمر سے یہ سنا ہے کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ایک موقع پر صدقہ تقسیم کیا تو میں نے ٹوکا کہ ان لوگوں سے زیادہ حقدار افراد موجود ہیں۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا مجھے بخل و تعدی سے متہم نہ کرو۔ میں بخیل نہیں ہوں پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی مثبت اور الہٰی مصلحت کے مطابق تقسیم فرمایا۔

مور ستر اسلام :۔

ابن عربی نے نقل کیا ہے کہ جب حضرت عمر اسلام لائے تو سرکار رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے انہیں اطہار سے منع کیا۔ لیکن انہوں نے زبردستی اعلان کر دیا۔ (تاریخ فلسفہ اسلام لطفی ص ۳۰۱) اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ اس دور میں اسلام کا پوشیدہ رکھنا ہی زیادہ مناسب تھا اور مخفی دعوت ہی اسلام کے حق میں زیادہ مفید تھی لیکن اسے کیا کیا جائے کہ حضرت عمر کی شجاعت اس سے راضی نہ تھی۔

مورد حلیت مباشرت :۔

اسلام میں روزہ کے متعلق یہ حکم تھا کہ غروب کے بعد تمام مضطرات حلال ہوجاتے تھے۔ یہاں تک کہ نماز عشا ادا کرلی جائے یا اسان سوجائے اس کے بعد پھر تمام چیزیں دوسری شام تک کے لیے حرام ہوجاتی تھی لیکن حضرت عمر نے نماز عشا کے بعد اپنی محترمہ سے جماع کرکے غسل کیا اور پھر پشیمان ہوکر حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے جب واقعہ بیان کیا تو بہت سے اصحاب نے ایسی ہی حرکت کا اعتراف کیا۔ اس وقت حکم نازل ہوا کہ اس امر میں کوئی مضائقہ ہیں ہے۔ عورتی تمہارا لباس ہیں اور تم ان کے لیے لباس ہو۔ طلوع فجر تک جملہ لذات مباح ہیں۔ اس کے قبل کی خطاوں کو معاف کیا جاتا ہے اگرچہ آیت نے معافی کا ذکر کر دیا ہے لیکن ہمارا موضوع تو مخالفت حکم الہٰی کا بیان کرنا ہے۔

(اسباب النزول ص ۳۳)

مورد تحریم خمر :۔

قرآن حکیم نے شراب کی حرمت کا ذکر تین مرتبہ نافذ کیا ہے پہلے پہل یہ آیت نازل ہوئی ۔ ""اے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان سے کہہ دو کہ شراب میں منافع ہیں لیکن اس کا گناہ زیادہ ہے"" اس کے بعد مسلمانوں نے شراب ترک کر دی لیکن بعض پیتے رہے۔ یہاں تک کہ ایک شخص نے حالت نشہ میں نماز می بکواس شروع کر دی تو دوسری ایک آیت نازل ہوئی کہ حالت نشہ میں نماز جائز نہیں ہے۔ اس کے بعد بھی بعض لوگ اپنی عادت پر باقی رہے چنانچہ بعض اخبار میں وارد ہوا ہے کہ حضرت عمر نے شراب پی اور حالت نشہ میں ابن عوف کو زخمی کر دیا۔ اور اس کے بعد کفار بدر کا نوحہ پڑھنا شروع کر دیا۔ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر حضرت عمر نے رسالت کے غصہ سے پناہ مانگی اور آیت نازل ہوئی کہ شیطان شراب و قمار کے ذریعہ مسلمانوں میں عداوت پھیلانا چاہتا ہے ۔ اور اس کا مقصد ہے کہ لوگ ذکر خدا سے غافل ہوجائیں کیا واقعتاً تم لوگ غافل ہوجاو گے یہ سنکر حضرت عمر نے کہا بس بس (مستطرف ج ۲ ربیع الابرار ز فحشری تفسیر رازی اشارہ )

مورد قتل عباس :۔

جنگ بدر کے موقع پر عین عالم حرب میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اشارہ فرمایا کہ بہت سے لوگ کفار کی ساتھ مجبوراً شریک ہوگئے ہیں لہذا تم لوگ بنی ہاشم ابوالجنتری اور عباس کو قتل مت کرنا یہ لوگ مجبور کرکے میدان میں لائے گئے ہیں ۔ ظاہر ہے کہ بنی ہاشم کے ذکر کے بعد حضرت عباس کا تذکرہ اس امر کی اہمیت کو ظاہر کرتا ہے کہ حضرت عباس بالکل مجبور تھے۔ جب حضرت گرفتار ہوکر آئے تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی نیند اڑ گئی۔ لوگوں نے سوال کیا۔ فرمایا کہ چچا قید میں رہے اور میں سو جاوں۔ یہ سنکر لوگوں نے حضرت عباس کو رہا کر دیا۔ کنزالعمال سے یہ روایت نقل ہے کہ جب حضرت عباس گرفتار ہوئے تو حضرت عمر نے انہیں باقاعدہ کس کر باندھنا چاہا۔ انہوں نے کہا کہ یہ اس طمانچہ کا جواب ہے جو تم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بارے میں کھا چکے ہو۔ لیکن انہوں نے کوئی توجہ نہ کی۔ جب حضرت کو حضرت عباس کے کراہنے کی آواز پہنچی تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سونا ترک کر دیا یہاں تک کہ حضرت عباس کو چھوڑ دیا گیا۔ اصحاب رسول پر یہ بات بالکل واضح تھی کہ حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت عباس کا بے حد خیال رکھتے تھے۔ یہاں تک کہ جب ابو حذیفہ کی یہ گفتگو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچی کہ ہم اپنے آباو اقرباء کو قتل کریں اور حضرت عباس کو چھوڑ دیں یہ نہیں ہوسکتا تو حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو غیظ آگیا۔ اور آپ نے حضرت عمر کو غیرت دلائی کہ تمہاری موجودگی میں میرا چچا قتل ہوگا۔ (البدیہ النہایہ ج ۳ ص ۲۸۵) ادھر جنگ کا خاتمہ ہوا ادھر ستر آدمی گرفتار کرکے لائے گئے ۔ یہ دیکھنا تھا کہ حضرت عمر کو غیظ آگیا اور کہنے لگے یا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم انہیں قتل کریں گے۔ انہوں نے آپ کی مخالفت کی ہے۔ آپ مجھے فلاں شخص کے بارے میں اور حضرت علی ؑ کو عقیل کے بارے میں اور حضرت حمزہ کو حضرت عباس کے بارے میں اجازت دیجے کہ ہم ان سب کو قتل کردیں۔

اقول :۔

اے سبحان اللہ ! ابھی تو مخالفین کے قتل کی تحریک تھی اور اب حضرت عقیل و باس کی نوبت آگئی جنہوں نے حضرت ص کے ساتھ شعب ابوطالب کی زحمتیں برداشت کیں اور میدان بدر میں زبردستی لائے گئے۔ تعجب تو یہ ہے کہ حالت حرب میں ان کے قتل کی ممانعت ہوگئی تھی ۔ اور اب بعد جنگ ان کے قتل کا تقاضا ہورہا ہے جبکہ حضرت عباس کا اسلام قبل ہجرت تاریخی مسلمات میں سے ہے۔


7

8

9

10

11