النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد0%

النص و الاجتہاد مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

النص و الاجتہاد

مؤلف: سید شرف الدین العاملی
زمرہ جات:

مشاہدے: 10761
ڈاؤنلوڈ: 2330

تبصرے:

النص و الاجتہاد
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 10761 / ڈاؤنلوڈ: 2330
سائز سائز سائز
النص و الاجتہاد

النص و الاجتہاد

مؤلف:
اردو

مورد تشدد برجبلہ بن ایہم :۔

واقعہ یہ ہے کہ حضرت عمر کے پاس قبیلہ مک و جفنہ کے ۵۰۰ سوار جبلہ کی سرکردگی میں سبک رو گھوڑوں پر سوار ہوکر آئے جن پر زر ہفت کے زین کسے ہوئے تھے ۔ اور انہوں نے اسلام قبول کیا۔ ان کے اسلام سے مسلمانو ںمیں مسرت کی ایک لہر دوڑ گئی۔ پھر وہ لوگ اسی سال حج کے لیے گئے۔ اتفاقاً اثناء طواف میں ایک شخص کا یپر جبلہ کی چادر پر پڑگیا اور وہ کھل گئی۔ انہوں نے ایک طمانچہ مار دیا تو اس نے حضرت عمر سے فریاد کی ۔ آپ نے حکم دیا کہ یا تو اسے راضی کرو یا قصاص پر تیار ہوجاؤ ۔ اور پھر اس حکم پر اتنی شدت سے کام لیا کہ رات ہوتے ہی وہ سب بھاگ کر قسطنطنیہ ہر قل کی پناہ میں چلے گئے ۔ اور اسلام سے مرتد ہوگئے۔ جبلہ اس امر پر گریاں تھے کہ مجھ سے اسلام ترک ہوگیا۔ لیکن حالات نے اسے مجبور کردیا تھا۔

اقول :۔

کاش خلیفہ نے اس شخص کو خود ہی راضی کرلیا ہوتا اور اتنی شدت نہ فرماتے۔ کہ قوم کو اسلام سے روگردانی کرنا پڑے۔ لیکن آپ کا واضح مقصد یہ تو تھا کہ ہر صاحب عزت کو ذلیل کر دیا جائے اور اس طرح اپنا وقار قائم کیا جائے ۔ چنانچہ خالد کے سلسلے میں آپ کا موقف واضح ہوچکا ہے ۔ البتہ یہ ضرورت ہے کہ جوآپ کے تابع رہا اس پر آپ نے یہ سختیاں نہیں فرمائیں۔ جیسا کہ مغیرہ کے واقعہ میں ذکر کیا جاچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آپ کے سیاست کا اعلیٰ نمونہ یہی حرکات تھے جن سے آپ نے قلوب عامہ میں جگہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی کبھی ابو ثمہ و ام فردہ کی مرمت کردی اور کبھی جعدہ و منبیلح و نصر و ابوذدیب و ابوہریرہ جیسے مساکین پر ہاتھ صاف کر دیا تاکہ عوام کے دلوں پر رعب چھا جائے اور کسی کو دم مارنے کی جرات نہ ہوسکے۔ اس کے علاوہ طعام و شرب لباس و مکان میں اتنی سادگی سے کام لیا کہ دنیا آج تک آپ کے زہد کاکلمہ پڑھ رہی ہے حالانکہ اس زہد کے باوجود معاویہ کو اس کے افعال و کردار میں مکمل آزادی دے رکھی تھی جس کا سبب اہل نظر پر واضح ہے۔ اس واقعہ کو عقدالفرید ج ۱ ص ۲۶۰ اور اغانی میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

مورد تشدد بر ابوہریرہ :۔

سنہ ۲۱ ہجری میں ابوہریرہ کو آپ نے والی بحرین بنایا۔ اور پھر سنہ ۲۳ ہجری میں معزول کرکے حضرت عثمان بن ابوالعاس کو حاکم بنایا۔ ابوہریرہ سے مزید دس ہزار کا مطالبہ اس بنیاد پر کیا کہ یہ تم نے بیت المال سے چرائے ہیں ۔ چنانچہ بقول عقدالفرید ج ۱ ص ۳۴ ان کو بلا کر کہا میں نے تم کو اس وقت والی بنایا تھا جب تمہارے پیر میں جوتیاں نہ تھیں اور اب سنا ہے کہ ۱۶۰۰ دینار کے گھوڑے خرید لیے ہیں یہ سب کہاں سے آئے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کچھ جانورو ںکی پیدائش کا نتیجہ ہے اور کچھ مومین کا عطیہ فرمایا تمہیں یہ سب رکھنے کا حق نہیں ہے واپس کرو۔ انہوں عرض کیا کہ جناب کو مانگنے کا بھی حق نہیں ہے ۔ آپ کو غصہ آگیا۔ اور تازیانہ سے اس زور سے مارا کہ خون نکل آیا۔ اور اس کے علاوہ ماں کی گالی سے بھی سرفراز فرمایا۔ دوسری روایت کی بنا پر آپ نے دشمن خدا و قرآن کے لقب سے بھی نوازا ۔ اور ان تمام حوادث کے بعد بھی ابوہریرہ نے آپ کے لیے نماز میں استغفار کیا۔ (ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۰۴ طبقات ج ۴ ص ۹۰ اصابہ ج ۴ ص ۲۰۷ حالات ابوہریرہ )

مورد تشدد برسعد بن ابی وقاص :۔

آپ نے حضرت سعد کو کوفہ کا حاکم بنایا اور جب آپ کو اطلاع ملی کہ وہ عوام سے الگ رہتا ہے تو آپ نے محمد بن مسلمہ کو بلا کر حکم دیا کہ سعد کے گھر کو آگ لگا دو اور اسے گرفتار کرکے لاو ۔ محمد نے ایسا ہی کیا سعد نے گھر سے نکل کر پوچھا یہ کیا ہے ؟ کہا یہ امیرالمومنین کی احتیاط و دانشمندی ہے۔ (الطرق الحکمتیہ ص ۱۶)

مورد تشدد بر خالد :۔

جس زمانہ میں حضرت خالد تنسرین کا حکم تھا اشعت بن قیس نے اس سے رقم کا مطالبہ کیا۔ اس نے ۱۰ ہزار کی اجازت دے دی جب آپ کو خبر ہوئی تو آپ نے ابو عبیدہ حاکم حمص کو لکھا کہ خالد کو معزول کردو اور اسے ایک پیر پر کھڑا کرکے مجمع میں اس سے رقم کے بارے میں سوال کرو۔ اگر اس نے یہ رقم اپنے پاس سے دی تو اسراف ہے اور اگر بیت المال سے ہے تو خیانت۔ دونوں صورتوں میں وہ مستحق عتاب ہے ابوعبیدہ نے حضرت خالد کو بلا کر جامع مسجد میں یہ عمل انجام دیا۔ جب اس نے اپنے ذاتی مال کا حوالہ دیا تو اس کی ٹوپی واپس کر دی پیر کھول دیئے اور اس کا احترام کیا۔ لیکن اسے معزولی کا حکم نہیں سنایا وہ چند روز متحیر رہا آخر کار حضرت عمر کا خط پہنچا کہ تم معزول کردے گئے ہو لہذا وہاں سے ہٹ جاؤ ( عبقریتہ عمر عقاد ص ۲۴۵)

مورد ضرب ضییع تمیمی :۔

ایک شخص نے آپ کو خبر دی کہ ضییع تمیمی لوگوں سے آیات قرآن کی تفیسر پوچھتا ہے آپ نے دعا کی خدایا مجھ سے ملادے اتفاقاً وہ آگیا اور اس نے آپ سے بھی والذاریات ذروا کی تفسیر معلوم کرلی ۔ آپ نے تازیانہ سے اتنی مرمت کی کہ اس کا عمامہ گرگیا ۔ اس کے بعد گرفتار کرایا اور روزانہ اس کو ۱۰۰ تازیانہ لگائے کا دستور قائم کر دیا۔ یہا تک کہ ان دن اونٹ بٹھا کر بصرہ روانہ کردیا اور ابو موسی کو حکم دیا کہ لوگوں سے کہہ دو کہ اس کا بائیکاٹ کردیں۔ یہ غلط طریقہ سے علم طلب کرتا ہے چنانچہ وہ تمام عمر اسی قوم میں ذلیل رہا جس کا پہلے سردار تھا۔ (ابن ابی الحدید ج ۳ ص ۱۲۲ الطرق الحکمتیہ ص ۱۶)

مورد شہر بدری نصر بن حجاج

عبداللہ برید راوی ہے کہ ایک شب حضرت عمر نے اثناء گردش میں ایک گھر سے کسی مغنیہ کی آواز سنی جو اپنے خاص لہجہ میں گنگنارہی تھی ""اے کاش شراب کا رسائی ہوجاتی یا نصر بن حجاج تک "" آپ نے فرمایا کہ یہ تو زندگی بھر نہ ہوسکے گا۔ اور صبح ہوتے ہی نصر کو طلب کرلیا۔ کیا دیکھا کہ نہایت ہی شکیل و جمیل انسان ہے ۔فرمایا کہ اس کے بال سر پر الٹ دیے جائیں۔ بالوں کے الٹنے سے پیشانی کھل گئی تو چہرہ اور باوجاہت ہوگیا۔ اب فرمایا کہ سر پر عمامہ رکھا جائے۔ ظاہر ہے کہ اس عمل سے رونق اور بڑھ گئی ۔ تو فرمایا کہ اسی حسن پر عورتیں مرتی ہیں ۔ تو اب تمجھے اس شہر میں رہنے ہی نہ دوں گا۔ یہ کہہ کر اس کو بصرہ کی طرف روانہ کردیا۔ اس نے وہاں سے خط لکھا جس کا مضمون یہ تھا ""کہ اس کے شعر کا ذمہ دار میں نہیں ہوسکتا میرے آباد اجداد بزرگ اور میں ایک پاکباز انسان ہوں"" لیکن آپ نے کوئی عذر قبول نہ فرمایا۔ یہاں تک کہ جب آپ نے رحلت فرمائی تب وہ دوبارہ مدینہ میں داخل ہوا۔ (اب ابی الحدید ۳ ص ۹۹ الطرق الحکمتیہ ص ۱۶)

مورد ضرب ابو ثمہ :۔

آپ کی بیٹے ابو ثمہ نے عمرو بن العاص کے زمانہ حکومت میں شراب پی انہوں نے بلاکر بال ترشوا کر حد جاری کرائی جس کے شاہد خود عبداللہ بن عمر تھے۔ اس کے بعد حضرت عمر کو لکھا کہ میں نے بلا رعایت تمام شرائط کے ساتھ عبداللہ کے سامنے حد جاری کر دی ہے لیکن حسب الحکم ابو ثمہ کو بلا کجاوہ اونٹ پر بٹھا کر روانہ کر رہا ہوں چنانچہ ابن عمر بھائی کو لے کرباپ کے پاس پہنچے اب ابو ثمہ کی حالت مرض تازیانہ اور تکان سفر سے غیر ہوچکی تھی۔ لیکن آپ نے دیکھتے ہی بگڑنا شروع کردیا اور تازیانہ طلب کر لیا۔ ابن عوف نے عرض کیا کہ حضور اس پر حد جاری ہوچکی ہے۔ آپ نے اس کی ایک نہ سنی اور تازیانوں کا سلسلہ شروع کر دیا۔ ابو ثمہ نے فریاد کی ابا ! آپ تو مجھے مارے ڈال رہے ہی۔ میں بیمار ہوں آپ نے بلاتامل و اتمام کرکے اسے ایک مہینہ تک قید کر دیا یہاں تک کہ وہ راہی عدم ہوگیا۔

سوال یہ ہے کہ عمروعاص اگر احکام خداوندی کے بارے میں قابل و ثوق و اعتماد شخص تھا تو آنجناب نے دوبارہ کیوں رحمت فرمائی اور اگر اس کی بات یا قسم کا اعتبار نہ تھا تو اسے اتنے مسلمانوں کا حاکم اور حدود الہیہ کا مالک و مختار کیسے بنا دیا۔ کیا شریعت اسلامیہ میں مریض پر حد جاری ہوسکتی ہے؟ کیا حد جاری ہونے کے بعد بھی انسان مستحق قید رہتا ہے ۔ ہیہات ہیہات

درحقیقت یہ ہے خدا پرستی کے مقابلے میں نفس پرستی (شرح الہج ج ۳ ص ۱۲۳ و ۱۲۷ استیعاب ج ۲ ص ۳۹۵ حیوہ الحیوا ج ۱ ص ۳۴۶ ابن الجوزی باب ۷۷)

مورد قطع شجر حدیبیہ :۔

یہ وہ درخت تھا جس کے نیچے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں سے وہ بیعت رضواں لی تھی کہ جس کے اثر سے اسلام کو فتح مبین نصیب ہوئی تھی۔ چنانچہ اسی بنا پر اکثر مسلمان تبر کا اس مقام پر نماز پڑھنے لگے تھے۔ یہاں تک کہ آپ کو خبر لگ گئی فرمانے لگے اب اگر کوئی نماز پڑھے گا تو اس کی گرد قلم کردوں گا۔

سبحا اللہ ! کل جب رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ذوالخو بصرہ کے قتل کا حکم دیا تھاتوآپ نے فرمایا تھا کہ نمازی کا قتل جائز نہیں ہے اور آج نمازیوں پر تلوار علم ہو رہی ہے ۔ آہ ! آہ یہی وہ تخم ریزی تھی جس کا نتیجہ آج اہل نجد حاصل کر رہے ہیں۔ چنانچہ اب ہر جگہ نماز حرام ہورہی ہے کل آپ نے حجر اسود سے فرمایا تھا کہ تیرے بو سے کوئی فائدہ نہیں ہے آج اہل حجاز ضریحوں کے بو سے کو حرام کر رہے ہیں اور اس طرح شعائر اللہ کی تعظیم کا عظیم ثواب مسلمانوں کے ہاتھوں سے جارہا ہے ۔ کاش آپ کی نظر اس شعر پر ہوتی۔

فماحب الدیار شغفن قلبی

ولکن حب من سکن الدیار

(شرح النہج جلد ۱ ص ۵۹)

مورد شکایت ام ہانی :۔

طبرانی نے کبیر میں نقل کیا ہے کہ ایک مرتبہ جناب ام ہانی نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے شکایت کی کہ حضرت عمر کہتے ہیں کہ محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تمہارے کام نہ آئیں گے تو آپ غصہ میں بھر آئے اور بااعلان فرمانے لگے ان لوگوں کو کیا ہوگیا ہے کہ میری شفاعت کا میرے اقرباء کے بارے میں انکار کرتے ہیں، حالانکہ میری شفاعت صاء و حکم کو جو مجھ سے بعید النسب قبائل ہیں انہیں بھی فائدہ دے گی۔ بعیہنہ یہی واقعہ جناب صفیہ کا بھی ہے ان سے بھی حضرت عمر نے یہی کہہ دیا تھا تو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے نماز کے اجتماع میں لوگوں کو تنبیہہ کی تھی اور فرمایا تھا کہ میری قرابت دنیا و آخرت دونوں میں کام آئے گی۔ (ذخائر العقبی الطبری)

مورد یوم نجوی :۔

یہ وہ فضیلت ہے کہ جس میں امیرالمومنین کا شریک نہ کوئی فاروق ہے نہ صدیق نہ فقیر ہے نہ غنی جس کا اعتراض تمام مفسرین نے کیا ہے چنانچہ حاکم نے مستدرک میں بھی حضرت امیر کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اس آیت نجوی پر مجھ سے پہلے کسی نے عمل کیا ہے اور نہ میرے بعد انداز آیت بتایا ہے کہ لوگ صدرقہ سے ڈر گئے تھے اور اس طرح آیت کو ان کے گاہ کی معافی دینا پڑی۔ مگر افسوس کہ فخر رازی نے امیرالمومنین ؑ کی عداوت میں یہاں تک لکھ ڈالا کہ صدقہ دینے سے غرب کی دل شکنی تھی اور امیر کے لیے مشقت پھر باہمی چشمک کا بھی اندیشہ تھا اس لیے صدقہ نہ دینا ہی بہتر تھا۔ تاکہ اسلامی اتحاد و مساوات برقرار رہ سکے۔

اے کاش یہی معیار زکوہ و حج کے بارے میں بھی فرمایا ہوتا تاکہ تمام مسلمانوں کو فرصت مل جاتی بلکہ کاش یہ بھی فرما دیا ہوتا کہ دین سے انسانوں میں اختلاف عقائد پھیلتا ہے۔ لہذا بے دین ہونا ہی بہتر ہے ۔لاحول ولا قوه الا بالله العلی العظیم

مورد امارت معاویہ :۔

یہی وہ رعایت تھی کہ جس نے دین خدا کو تماشہ اور بندگان خد کو غلام بنا دیا۔ اسلام کو قیصریت و کسرویت کا دوسرا روپ اور شریعت محمدی کو بازیچہ اطفال قرار دے دیا۔ آزادی اور ایسی آزادی کہ کسروی جارہ و جلال کو بھی دیکھ کر فرما دیا کہ میں کوئی امرونہی نہیں کرتا ہوں تجھے اختیار ہے چنانچہ اسی اختیاط کا نتیجہ تھا کہ بنی امیہ حکام اسلام بنے اور امیرالمومنین ؑ نفس رسول پر حملہ کیا گیا اناالله و انا الیه راجعون

مورد غفلت و جہالت رجم حاملہ :۔

محمد بن مخلد عطار نے موائد میں اس واقعہ کو نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک زن حاملہ کو زنا کے جرم میں سنگسار کا حکم دیدیا۔ تو معاذ نے ٹوکا کہ اگر اس نے خطا کی ہے تو اسکے بچہ کی کیا خطا ہے ؟ چنانچہ آپ نے اپنے حکم کو باطل کر دیا اور فرمایا کہ عورتیں معاذ کا مثل پیدا کرنے سے قاصر ہیں۔ اگر معاذ نہ ہوتے تو عمر ہلاک ہوجاتا ۔

۲ ۔ مستدرک حاکم میں یہ واقعہ درج ہے کہ حضرت عمر نے ایک مجنون عورت کے سنگسار کا حکم دے دیا۔ تو حضرت علی ؑ نے ٹوکا کہ شرع اسلام میں مجنون و نابالغ و نائم سے احکام مرتفع ہیں چنانچہ انہوں نے حکم ترک کر دیا ظاہر ہے کہ یہ واقعہ پہلے حادثہ سے مختلف ہے ۔ اس لیے کہ وہاں جنون کا کوئی ذکر نہ تھا اور یہاں سارا اعتراض جنون ہی پر ہے۔ اس موضوع پر قاضی عبدالجبار ""صاحب المغنی اور علم الہدی سید مرتضیٰ ""صاحب الشافی"" میں کافی بحثیں ہوئی ہیں۔ جنہیں ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ج ۳ ص ۵۰ پر نقل کیا ہے۔

۳ ۔ امام احمد نے مسند میں یہ واقعہ نقل کیا ہےکہ حضرت عمر کے پاس ایک زاینہ عورت لائی گئی۔ تو آپ نے سنگسار کا حکم دے دیا۔ جناب امیر نے لوگوں سے چھڑالیا حضرت عمر کے پاس شکایت گئی تو آپ کو طلب کیا۔ آپ غصے میں تشریف لائے اور فرمایا کہ کیا بقول رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم صغیر و مجنون و نائم احکام سے مستثنیٰ نہیں ہیں؟ انہوں نے اعتراف کیا۔ فرمایا کہ اس کا جنون تو مشہور ہے۔ ممکن ہے کہ وقت عمل بھی رہا ہوتو حد کیسے جاءز ہوگی؟

۴ ۔ ابن قیم نے ""الطریق الحکمیہ فی السیاستہ الشرعیہ "" میں نقل کیا ہے کہ حضرت عمر کے پاس ایک زانیہ کو لایا گیا تو انہوں نے سنگسار کا حکم دے دیا۔ جناب امیر ؑ نے ٹوکا کہ شائد اس کے پاس کوئی عذر ہو لہذا تحقیق کرو۔ چنانچہ اس سے سوال کیا گیا تو اس نے بیان کیا کہ میں پیاسی تھی۔ ایک شخص سے پانی طلب کیا۔ اس نے بدنیتی کا مظاہرہ کیا میں نے حتی الامکان صبر کیا جب صبر سے مجبور ہوگئی تو اس عمل پر تیار ہوگئی۔ آپ نے فرمایا ۔ اللہ اکبر تو تو بنص قرآن مستثنیٰ ہے۔ اسی واقعہ کو بہیقی نے سنن میں درج کیا ہے۔

۵ ۔ ابن قیم نے یہ واقعہ بھی درج کیا ہے کہ ایک عورت حضرت عمر کے پاس آئی اور اس نے زنا کا اقرار کیا پھر اس کے شواہد ذکر کئے اور پھر اقرار کیا۔ یہ سنتے ہی حضرت امیر نے فرمایا کہ اس کا انداز بیان ظاہر کر رہا ہے ۔ کہ یہ حرمت زنا سے واقف نہ تھی۔ چنانچہ اس بیان پر حد ختم کر دی گئی۔ (انب قیم کہتے ہیں کہ یہ حضرت علی کی کمال فراست و دانش مندی پر دال ہے)

۶ ۔ احمد امین نے فجر الاسلام ص ۲۳۷ میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر کے پاس ایک شخص کے قتل کا معاملہ پیش ہوا کہ جس میں ایک عورت اور ایک مرد کا ہاتھ تھا انہوں نے اظہار تردد کا ۔ حضرت علی نے فرمایا کہ اگر ایک سرقہ میں دو شریک ہوں تو کیا ہاتھ قطع نہ ہوں گے؟ بولے ہاں ۔ فرمایا۔ بس یہی حکم یہاں بھی جاری ہوگا چنانچہ حضرت عمر نے اپنے عامل کو یہ حکم لکھ کر روانہ کردیا۔

۷ ۔ ابن ابی الحدیدہ وغیرہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر نے ایک عورت کو بعض سوالات کے لیے طلب کیا تو شدت رعب سے اس کےیہاں اسقاط ہوگیا۔ آپ کو تردد پیدا ہوا۔ اور آپ نے فقہاء سے مسئلہ پوچھا سب نے کہہ دیا کہ کوئی حرج نہیں ہے ۔ جناب امیر نے فرمایا کہ اگر یہ حکم رعایتا صادر ہوا ہے تو دھوکا ہے ۔ اور اگر اجتہادی ہے تو غلط ہے لہذا ایک غلام آزاد کرنا فرض ہے ۔ چنانچہ سب نے اس پر عمل کیا۔ (شاید صدر اسلام میں وضع حمل کا اس سے بہتر نسخہ نہ رہا ہوگامترجم)

۸ ۔حاکم نے مستدرک میں نقل کیا ہے کہ قدامہ بن مظعون نے شراب پی تو اسے حضرت عمر کے پاس حاضر کیا گیا ۔ انہوں نے حد جاری کرنے کا قصد کیا اس نے کہا کہ یہ خلاف قرآن ہے وہاں تو یہ حکم ہے کہ ایمان و عمل صالح والوں کے لیے کھانے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے میں مومن متقی اور مجاہد ہوں یہ سن کر حضرت عمر خاموش ہوگئے اور لوگوں سے مشورہ کرنے لگے۔ ابن عباس نے حرمت شراب کی آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا کہ کیا مرتکب حرام متقی ہوسکتا ہے؟ اس پر حضرت عمر نے استفتاء کیا انہوں نے ۸۰ کوڑوں کو فتوی دیا اور وہ لگائے گئے۔

۹ ۔ ابن قیم نے یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ ایک عورت کو انصار کے ایک جوان سے عشق ہوگیا۔ اس نے ہزار سعی کی لیکن وہ راضی نہ ہوا۔ اس عورت نے ایک انڈا لے کر اس کی زردی نکال کر سفیدی اپنے جسم و لباس پر مل لی اور حضرت عمر کے پاس فریاد لیکر آئی کہ فلاں نے میری آبروریزی کی ہے۔ حضرت عمر نے اس پر حد جاری کرنے کا قصد کیا۔ اس نے فریاد شروع کر دی اور تفتیش حال کی خواہش کی۔ مسئلہ حضرت علی کے پاس پیش ہوا۔ آپ نے گرم پانی منگا کر لباس کو اس میں ڈال دیا سفیدی جم گئی اور بدبو سے اندازہ لگالیا گیا کہ انڈا ہے پھر اس کی تنبہیہ پر اس نے خو بھی اعتراف کرلیا (الطرق الحکمیہ ص ۴۸)

۱۰ ۔ ابن قیم ہی نے یہ واقعہ بھی نقل کیا ہے کہ دو آدمیوں نے ایک عورت کے پاس ۱۰۰ دینار امانت اس شرط پر رکھے کہ کسی ایک کو تنہا واپس نہ کرے۔ ایک سال کے بعد ان سے ایک آیا اور اس نے دوسرے کی موت کا بہانہ کرکے رقم طلب کی اس نے حسب شرائط انکار کیا لیکن اس شخص نے مختلف وسائل و ذرائع سے حیلہ حوالہ کرکے حاصل کرلیا۔ دوسرے سال دوسرا آیا۔ اس نے واقعہ بیان کر دیا تو اس شخص نے حضرت عمر کے پاس محاکمہ کی درخواست دے دی۔ انہوں نے حکم کرنا چاہا۔ عورت نے عرض کیا کہ مجھے حضرت علی کے پاس لے چلو۔ چنانچہ وہاں پہنچا۔ آپ نے فرمایا کہ تیری شرط یہ تھی کہ مال تنہا نہ لے گا۔ لہذا اپنے ساتھی کو لے آ اور مال واپس لے لے۔

۱۱ ۔ امام احمد نے مسند میں یہ واقعہ نقل کیا ہے کہ حضرت عمر کو شکیات نماز کے مسئلہ میں شک ہوگیا۔ انہوں نے اپنے غلام سے سوال کیا۔ ابھی یہ گفتگو ہوہی رہی تھی کہ ابن عوف آگئے آپ نے ان سے بھی دریافت کرلیا۔ انہوں نے برجستہ ایک فتوی دے دیا۔ (جس کا شریعت اسلام سے کوئی تعلق نہ تھا)

اقول :۔

تاریخ اسلام میں اس قسم کے بے شمار واقعات موجود ہیں کہ جن سے آپ کی نرم دلی کا اندازہ ہوتا ہے کہ جب آپ کو اپنی غلطی کا علم ہوگیا تو فوراً بات بدل دی اور کبھی ضد سے کام نہیں لیا۔ لیکن افسوس یہ ہےکہ اسی کے ساتھ سیاست میں آپ کی روشن اسقدر متشددانہ تھا کہ جس سے تمام صحابہ لرزاں رہتے تھے ۔ چنانچہ کبھی آپ نے سعد بن ابی وقاص کے قصر میں آگ لگادی کبھی اپنے والیوں کی تذلیل و تحقیر کی ۔ اور ان سے سخت محاسبہ کیا اور کبھی ابی ب کعب کو چند آدمیوں کے ساتھ کیوں ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ آپ کے تازیانہ کو حجاج کی تلوار سے کم نہ سمجھتے تھے ۔ (شرح حمیدی ج ۱ ص ۶۰)

یہی وہ تازیانہ تھا جس سےجناب امر فروہ خواہر ابوبکر کو زخمی کیا گیا۔ صرف اس بات پر کہ وہ اپنے بھائی کو کیوں روتی ہیں۔ اور یہی وہ تازیانہ تھا کہ جس کے آگے نہ ام المومنین کا لحاظ کیا گیا نہ خلیفہ وقت کا اور نہ خلیفہ وقت کی خواہر کی عزت و آبرو کا۔

آپ کی زندگی اس قسم کے حوادث کا ایک شاہکار ہے ۔ حد ہوگئی کہ آپ کی یہ تشدد آمیز روشن بیت رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تک پہنچ گئی۔ اور آپ نے اہل بیت رسالت سے یہ کہہ کر مطالبہ بیعت کیا کہ اگر بیعت کے لیے نہ نکلے تو گھر میں آگ لگا دی جائے گی۔

حقیقت امر یہ ہے کہ آپ کے طبیعت کی صحیح اور جامع تعریف وہی ہے کہ جو جناب امیر ؑ نے نہج البلاغہ کے خطبہ شقشقیہ میں فرماءی ہے۔

مورد شوری :۔

جب زخم کھانے کے بعد حضرت عمر اپنی زندگی سے مایوس ہوگئے تو ان سے خواہش کی گئی کہ اے کاش آپ کسی کو خلیفہ بنا دیتے۔ انہوں نے فرمایا کہ اگر ابو عبیدہ زندہ ہوتے تو انہیں بنا دیتا۔ اس لیے کہ وہ امین امت تھے اور اگر سالم ہوتے تو انہیں ہی بنا دیتا۔ اس لیے کہ وہ بے حد خدا دوست تھے۔ لوگوںنے عبداللہ کے متعلق ذکر کیا تو آپ نے انکار کر دیا لوگ باہر چلے گئے۔ تھوڑی دیر کے بعد دوبارہ فرمائش کی گئی تو فرمایا کہ میری بھی خواہش یہ تھی کہ ایک ایسے آدمی کو حاکم بنا دوں کے جو تمہیں سیدھے راستہ پر چلائے (یعنی حضرت علی) لوگوں نے عرض کیا پھر حضور مانع کیا ہے ؟ فرمایا میں اس منصب کا بار مرنے کے بعد نہیں اٹھا سکتا۔ البتہ تم لوگ علی ؑ، عثمان، عبدالرحمن ، سعد، زبیر اور طلحہ کی طرف رجوع کرو یہ کسی ہ کسی کو مقرر کردیں گے تو تم اسی کی اطاعت کرنا۔ پھر فرمایا کہ میرے بعد امام جماعت کے فرائض صہیب انجام دیں گے اور تین دن مشورہ ہوگا۔ چوتھے روز حاکم کا تعین لازمی ہے۔ اس کے بعد ابو طلحہ انصاری کو حکم دیا کہ پچاس افراد کو لے کر ان چھ افراد کے سر پر مسلط ہوجائیں یہاں تک کہ تین دن کے اندر خلافت کا فیصلہ ہوجائے۔ حضرت صہیب کو حکم دیا کہ خود نماز جماعت پڑھائیں اور اس جماعت کو ایک گھر میں بند کر دیں۔ تلواریں ان کے سروں پر علم رہیں۔ اگر پانچ افراد متفق ہوجائیں اور ایک مخالفت کرے تو اس کا قتل کر دیا جائے۔ اور اگر چار متفق ہوں اور دو مخالف ہوں تو بھی اسی طرح ، ہاں اگر برابر کا معاملہ و تو اسے مقدم کیا جائے جس کی طف عبدالرحمن ہوں۔ پھر اگر باقی افراد مخالفت کریں تو ان کی سزا بھی قتل ہے۔ بلکہ اگر تین دن میں فیصلہ نہ ہوسکے تو سب کی گردن زدنی۔ پھر معاملہ مسلمانوں کے حوالے ہوگا وہ جسے چاہیں گے انتخاب کرلیں گے۔ اس واقعہ کو تفصیل کے ساتھ کامل ج ۳ ص ۴۳ طبری ج ۳ ص ۲۹۲ ابن ابی الحدید ج ۱ ص ۶۱ شرح خطبہ شقشقیہ میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔

نقط و نظر :۔

سوال یہ ہے کہ اگر اس بار کو اٹھانے سے خائف تھے تو پھر دوبارہ کیو اٹھالیا؟ اور پھر وہ بھی اس طرح کی زعماء ملت کے خون بہانے کا بھی سامان ہوگیا؟ پھر ان چھ افراد کو کیونکہ منتخب کیا گیا کہ جن میں اکثریت کو چند لمحہ قبل بڑے معقول مناسب اوصاف سے متصف کرچکے تھے (شرح النہج ج ۱ ص ۶۳ ) پھر اس ترتیب کا مقصد کیا تھا؟ کہ جس کا نتیجہ آخر کار خلافت حضرت عثما تھی۔ کاش شروع سے انہی بنا دیتے تو کم از کم مسلمانوں کا خون تو محفوظ رہ جاتا۔

کاش حضرت صہیب جیسے غلام کو امام نہ بنایا ہوتا؟ کاش ابو طلحہ کی تلوار سروں پر علم نہ ہوتی کاش ابو عبیدہ و سالم کا تذکرہ کرکے اپنے نمائندوں کی توہین نہ کی ہوتی! کاش ابن عم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہارو امت باب حکمت و علم کو ان افراد کے برابر قرار نہ دیا ہوتا پھر طرہ یہ ہے کہ سالم نہ قریش سے تھا نہ عرب وہ ایک عجمی غلام تھا کہ جو حذیفہ کی زوجہ کی ملکیت تھا ایسے شخص کو خلیفہ بنانا اجماع مسلمین کے خلاف ہے اس لیے کہ مسلمانوں میں خلیفہ کے لیے عربیت وضعی شرط ہے۔

شوری کا ایک فائدہ یہ بھی ہوا کہ ان چھ افراد میں بامہی چشمک کی بنیاد پڑگئی اور ہر شخص اپنے کو منصب کا اہل تصور کرنے لگا۔ وہ عبدالحمن کو جو تابع عثمان اور وہ سعد کہ جو تابع عبدالرحمن تھا سب برابر ہوگئے حد ہوگئی کہ وہ حضرت زبیر کو جو کل حضرت علیؑ کے فدائیوں میں سے تھے جس نے جناب فاطمہ ؑ کے جنازہ میں شرکت کی جس نے یہاں تک کہہ دیا تھا کہ اگر حضرت عمر مرگئے تو میں حضرت علی ؑ کی بیعت کرلوں گا اب اپنے آپ کو حضرت علی کا ہمسر تصور کرنے لگے جس کا نتیجہ روز جمل واضح ہوا۔ پھر حضرت عبدالرحمن کو اپنے انتخاب پر شرمندہ ہونا پڑا ۔ اور انہوں نے حضرت عثمان کو معزولی کی فکریں شروع کر دیں۔ ادھر حضرت طلحہ و زبیر نے ان کے خلاف آواز بلند کرکے حضرت عائشہ کی تائید حاصل کرلی۔ اور انہوں نے بھی اسے نقل کہہ کر ان کے قتل کا فتوی دے دیا۔

قتل حضرت عثمان کے بعد طلحہ و زبیر نے حضرت علی ؑ کی بیعت تو کرلی لیکن اس توہم کے ساتھ کہ ہم بحکم حضرت عمر ان کے برابر ہیں۔ چنانچہ اس کے اثر میں ان لوگوں نے بغاوت پھیلا دی۔ اور حضرت کو جمل و صفین کے میدانوں سے دوچار ہونا پڑا۔

اس شوری اور اس کے امیدواروں کی ترتیب کا ایک اثر یہ بھی ہوا کہ حضرت معاویہ جیسے افراد کو بھی خلافت کی طمع پیداہوگئی۔ اور یہ لوگ حضرت علی کی راہ میں یوں حائل ہوگئے کہ آپ امت کو صراط مستقیم پر نہ چلاسکے۔

پھر اس شوری میں قتل حضرت عثمان کے جراثیم بھی پوشیدہ تھے۔ جیسا کہ حضرت عمر نے حضرت عثمان سے اشارتا کہا تھا کہ خلافت ملنے کے بعد تم بنی امیہ کو غلبہ و اقتدار دو گے اور اس طرح عرب تمہی قتل کردیں گے۔ جس کا ذکر ابن ابی الحدیہ نے حضرت عمر کی دو اندیشی میں کیا ہے۔ ج ۱ ص ۶۲ ۔

میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ اس واقعہ سے جہا حضرت عمر کی دور اندیشی کا اندازہ ہوتا ہے وہاں ان کا حقیقی مقصد بھی کھل کر سامنے آجاتا ہے۔

""فصل""

بخاری و مسلم کے روایات معتبرہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ امامت صرف قریش کا حق ہے چنانچہ علامہ نودی نے شرح مسلم ج ۱۲ ص ۱۹۹ میں تحریر فرمایا ہے کہ ""احادیث مذکورہ سے واضح ہوتا ہے کہ امارت قریش کا حق ہے اب جو اہل بدعت اس سے اختلاف کرے گا اس کا جواب اجماع امت سے دیا جائیگا قاضی عیاض نے اس شرط کو تمام علماء رائے کا مذہب قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت ابوبکر و عمر نے سقیفہ میں ذکر کیا اور سب نے سکوت اختیار کیا۔ قاضی صاحب فرماتے ہیں کہ اس سلسلہ میں سوائے نظام اور خوارج کے کوئی اور مخالف نہیں ہے۔ اور ان کا کوئی اعتبار نہیں ہے۔ بلکہ ضرار بن عمرو کا یہ قول کہ غیر قریش قریش سے اس لیے بہتر ہے کہ اسے جلدی معزول کرسکتے ہیں خلاف اجماع المسلمی اور خراجات ہے""۔

مذہب اثناء عشریہ کا مسلک یہ ہے کہ امامت قریش کو بارہ معین افراد کا حق ہے جس کا تعداد کی طرف احادیث میں اشارہ موجود ہے۔ (شرح مسلم ۱۲ ۱۹۹ بخاری ابوداؤد، احمد بن حنبل ، بزاز ، حاکم طبرانی وغیرہ )

تاویلات حضرت عثمان

مورد کنبہ پروری :۔

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ آپ کنبہ پروری میں اس طرح استاد تھے کہ اپنی رائے کے آگے کسی انقلاب و ملامت بلکہ کسی آیت اور روایت و سیرت کی بھی پرواہ نہ کرتے تھے۔ چنانچہ ابن ابی الحدید کا کہنا ہے کہ حضرت عمر کی دور اندیشی اس وقت ظاہر ہوگئی ۔ جب حضرت عثمان نے بنی امیہ کو حکومتیں ریاستیں اور جائیدادیں تقسیم کیں بلکہ خمس کا سارا مال مروان کو دے دیا۔ جن میں عبدالرحمن بن حنبل نے احتجاجی اشعار بھی کہے۔ ابن ابی الحدید کے منقولات کی با پر آپ سے خالد بن اسید کے بیٹے عبداللہ نے صلہ رحم کی درخواست کی تو آپ نے چار لاکھ درہم دے دے ۔ حکم طرید رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو واپس بلا کر ایک لاکھ درہم عطا فرمائے۔ صدقہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بازار مدینہ کو حارث بن حکم کے حوالہ کردیا۔ فدک کو مردان کی جائیداد بنادیا۔ چراگاہوں کو نبی امیہ کے ساتھ مخصوص کر دیا۔ عبداللہ بن ابی سرح کو فتح افریقہ کی جملہ آمدنی عطا فرمادی ۔ ابوسفیان کو دو لاکھ درہم اس دن عطا کئے جس د مروا کے لیے ایک لاکھ کا آرڈر صادر فرمایا۔ چونکہ مروان آپ کا داماد تھا۔ اس لیئے داروغنہ بیت المال زید بن ارقم نے اگر فریاد کی کہ آپ ان تمام اموال کو واپس لے رہے ہیں جو حیات رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں صرف کئے تھے۔ مروان کے لیے ایک سو درہم کافی ہیں۔ آپ نے حکم دیا کہ کنجی رکھ دو۔ مجھے دوسرا آدمی مل جائے گا۔ ابو موسی عراق سے کافی اموال لے آیا سب کو بنی امیہ پر تقسیم کردیا۔ حارث بن حکم کو اپنی لڑکی عائشہ دے کر ایک لاکھ اور بھی عطا کیے۔ ان عطایا کے علاوہ آ پ کے کارناموں میں حسب ذیل امور بھی ہیں۔ ابوذر کا شہر بدر کرانا ابن مسعود کی پسلیاں توڑ دینا، غلط حدود جاری کرنا۔ ظالم کی روک تھام میں خلاف سیرت حضرت عمر اختیار کرنا وغیرہ۔ ان کارناموں کی انہتا اس وقت ہوگئی جب آپ نے معاویہ کو بعض مسلمانوں کے قتل کا حکم بھیجا اور اس کے نتیجہ میں خود قتل ہوگئے۔ ابن ابی الحدید کا قول ہے کہ اس واقعہ سے امیرالمومنی کا کوئی تعلق نہ تھا۔ ان وقائع کی تفصیل الملل والنحل شہرستانی میں بھی مل سکتی ہے۔

اقول :۔

آپ کے کارنامے ایسی متواتر حیثیت رکھتے ہیں جن کو تماما یا اجمالا مورخ نے اپنی کتاب میں جگہ دی ہے۔ اور آپ کے ان اعمال و افعال کی شہادت حضرت علی کے اس خطبہ سے بھی ہوئی ہے کہ جو خطبہ شقشقیہ کے نام سے معروف ہے۔

مورد ""اتمام در سفر""

کتاب و سنت اجماع سے یہ امر ثابت ہے کہ سفر میں نماز قصر ہوجاتی ہے خواہ خوف ہو یا اطمینان چنانچہ قرآن کے علاوہ حسب ذیل احادیث بھی اس امر پر دلالت کرتی ہیں ، یعلی بن امیہ نے حضرت عمر سے پوچھا کہ ہم لوگ امن میں کیوں قصر کریں انہوں نے فرمایا کہ مجھے بھی یہ تعجب تھا لیکن میں نے سرکار رسالتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا تو آپ نے فرمایا کہ قصر صدقہ خدائی ہے اسے قبول کرو۔ ""مسلم""

ابن عمر کہتے ہیں کہ میں نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت ابوبکر و عمر و عثمان سب کے ساتھ سفر کیا۔ لیکن کسی نے تمام نماز نہیں پڑھی۔ (یہ واقعہ ابتداء خلافت حضرت عثمان کا ہے)

ابن ابی شیبہ کی روایت ہے کہ حضرت نے اخیار امت کے علائم میں قصر کو بھی ذکر فرمایا ہے انس کہتے ہیں کہ میں مدینہ سے مکہ اور مکمہ سے مدینہ تک حضرت کے ساتھ رہا۔ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم برابر قصر پڑھتے رہے (بخاری و مسلم) حضرت ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مکہ میں ۱۹ دن تک قصر نماز پڑھی (بظاہر قصد اقامت عشرہ نہ تھا)

یہ بھی روایت ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بعد ہجرت اہل مکہ کے کے ساتھ نماز پڑھتے تھے تو سلام دے کر انہیں اتمام کا حکم فرمایا کرتے تھے۔ حضرت انس کہتے ہیں کہ میں حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ مدینہ میں ظہر تمام اور ذی الحلیفہ میں عصر قصر پڑھی۔ (مسلم)

اقول :۔ آیت کریمہ سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ حالت خوف میں قصر رکھا گیا ہے لیکن روایات کثیرہ سے مطلق سفر میں بھی قصر ثابت ہوتا ہے بلکہ اسی طرح اجماع امت بھی ہے ۔ اور اس میں سوائے حضرت عثمان و حضرت عائشہ کے کوئی تیسرا مخالفت نہیں ہے۔

یہی وہ مسئلہ ہے کہ جس سے حضرت عثمان کی مخالفت کا آغاز سنہ ۲۹ ہجری سے ہوا۔ چنانچہ ابن عمر کہتے ہیں کہ منی میں رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و حضرت ابوبکر و حضرت عمر سب نے قصر کیا اور حضرت عثمان نے اتمام کیا (مسلم ) عبدالرحمن بن یزید کہتے ہیں کہ حضرت عثمان نے منی میں نماز تمام پڑھی تو اس کی اطلاع ابن مسعود کو کی گئی۔ انہوں نے نے اناللہ کہا اور فرمایا کہ یہ خلاف عمل رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و شیخین ہے۔ (بخاری و مسلم) حارثہ ب وہب کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ منی میں انتہائی سکون کے عالم میں نماز پڑھی ہے۔ (بخاری و مسلم) عروہ نے حضرت عائشہ سے روایت کی ہے کہ نماز شروع میں دو رکعت تھی۔ بعد میں حضرت کے لیے دو رکعت کا اضافہ ہوگیا ۔ زہری کہتے ہیں کہ عروہ سے پوچھا کہ پھر خود حضرت عائشہ کیوں اتمام کرتی تھیں۔ اس نے کہا کہ انہوں نے حضرت عثمان کی طرح تاویل کرلی ہے۔ (مسلم ) فاضل نودی نے اس مقام پر اس تاویل کے معافی بیان کئے ہیں کہ بعض کا خیال ہے کہ حضرت عثمان مکہ میں مع اہل و عیال آئے تھے۔ لیکن ظاہر ہے کہ حضرت نے ایسی حالت میں بھی قصر فرمایا ہے بعض کا قول ہے کہ حضرت عثمان نےعربوں کو بتانے کے لیے ایسا کیا تھا کہ نماز چار رکعت ہے لیکن ظاہر ہے کہ اس کی ضرورت عصر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم میں زیادہ تھی بعض کا کہنا ہے کہ حضرت عثمان و حضرت عائشہ نے قصد اقامہ کر لیا تھا۔ لیکن ظاہر ہے کہ مہاجر پر مکہ میں تین دن سے زیادہ اقامہ حرام ہے ۔ بعض کا اندازہ ہے کہ کہ منی میں حضرت عثمان کی اراضیات تھیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس کا اقامہ سے کیا رابطہ ہے؟ خلاصہ یہ ہے کہ حضرات کی نظر میں قصر و اتمام دونوں جائز تھے۔ انہوں نے ایک ایک کو اختیار کرلیا۔

اقول :۔

حقیقت یہ ہے کہ ان حضرات کی تاویل اسی حد تک محدود نہ تھی بلکہ اس کا دائرہ بہت زیادہ وسیع تھا۔ ہم اس موضوع میں زیادہ محاسبہ اس لیے نہیں کرتے کہ اس سے کسی مسلمان کا خون نہیں بہایا گیا۔ کسی کی ہتک حرمت نہیں ہوئی ۔ یہ حضرات تو ایسے مقامات پر بھی تاویل کے قائل تھے یہ بھی یاد رہے کہ امام احمد کی روایت کے مطابق معاویہ نے نماز ظہر قصر پڑھی تھی لیکن جب اسے اطلاع ملی کہ حضرت عثما نے حکم بدل دیا تو اس نے نماز عصر تمام پڑھادی۔