منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140531 / ڈاؤنلوڈ: 6492
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

۱

نام کتاب: منارۂ ہدایت،جلد ۱

(سیرت رسول خدا(ص))

تالیف:

سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی

(گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )

ترجمہ: نثار احمد زین پوری

تطبیق اورتصحیح : قمر عباس آل حسن

نظر ثانی : سید محمد جابر جوراسی

پیشکش : ادارہ ترجمہ معاونت فرہنگی ،مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

طبع اول : ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ئ

تعداد: ۳۰۰۰

۲

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافوراور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی(ص) غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔اگرچہ رسول(ص) اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی،

۳

پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کے سامنے پیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت پر ٹکی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینے کو وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت(ص)و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر(عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۴

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،جس کو فاضل جلیل مولانا نثار احمد زین پوری صاحب نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

و السلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

عرض مؤلف

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد للّٰه الّذی اعطیٰ کلّ شیئٍ خَلْقَه ثم هدیٰ ثم الصلوٰة و السلام علیٰ من اختارهم هداة لعباده لا سیِّما خاتم الانبیاء و سید الرسل و الاصفیاء ابی القاسم المصطفیٰ محمد و علیٰ آله المیامین النجباء

حمد ہے بس اس اللہ کے لئے جس نے انسان کو عقل و ارادہ جیسی قوت عطا کی ہے، عقل کے ذریعہ وہ حق کا سراغ لگاتا ہے ،اسے دیکھتا ہے اور اسے باطل سے جدا کر لیتا ہے وہ ارادہ کے وسیلہ سے اس چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کا باعث اور اس کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔

بھلے برے کو پہچاننے والی عقل کو خدا نے اپنی مخلوق پر حجّت قرار دیا ہے اور اپنی ہدایت کے ذریعہ اس کی مدد کی ہے ، اس نے انسان کو وہ چیز سکھائی جس کا اسے علم نہیں تھا اور اس کے مناسب حال، کمال کی طرف اسکی ہدایت کی اور اسے اس غرض ومقصد سے آگاہ کیا جس کے لئے اسے پیدا کیا اور جس کے لئے وہ اس دنیا میں آیا ہے ۔

قرآن مجید نے اپنی صریح آیتوںکے ذریعہ ربّانی ہدایتوں کے مناروں، اس کے آفاق ، اس کے لوازم اور اس کے راستوں کو واضح کیا اور پھر ایک طرف تو ہمارے لئے اس کے علل و اسباب کو بیان کیا اور دوسری طرف اس کے نتائج پرسے پردہ ہٹایا۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( قل انّ الهُدیٰ هو الهُدیٰ ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ ہدایت، بس اللہ کی ہدایت ہے ۔

( و اللّٰه یهدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم ) ( ۲ )

اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت کردیتا ہے ۔

___________________

۱۔انعام : ۷۱۔

۲۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۶

( واللّٰه یقول الحقّ و هو یهدی السّبیل ) ( ۳ )

اور خدا حق ہی کہتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔

( و من یعتصم باللّه فقد هدی الیٰ صراط مستقیم ) ( ۴ )

جو خدا سے وابستہ ہو جاتا ہے اسے صراط مستقیم کی ہدایت ہو جاتی ہے ۔

( قل اللّٰه یهدی للحق افمن یهدی الیٰ الحق احقّ ان یتّبع امّن لا یهدی الّا ان یُهدیٰ فما لکم کیف تحکمون ) ( ۵ )

کہدیجئے کہ خدا حق کی ہدایت کرتا ہے سپس جو حق کی طرف ہدایت کرے وہ قابل اتباع ہے یاپھر وہ لائق اتباع ہے کہ جو ہدایت نہیں کرتا ہے ،بلکہ خود محتاجِ ہدایت ہے ؟تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟

( و یری الّذین اوتوا العلم الذی انزل الیک من ربّک هو الحق و یهدی الیٰ صراط العزیز الحمید ) ( ۶ )

اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ اس چیز کوحق سمجھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور وہی عزیز و حمید کے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتی ہے ۔

____________________

۳۔ احزاب: ۴۔

۴۔آل عمران: ۲۱ ۔

۵۔یونس: ۳۵۔

۶۔ سبائ: ۶ ۔

۷

( و من اضلّ ممّن اتّبع هواه بغیر هدی من اللّٰه ) ( ۱ )

اور اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا جس نے خدا کی ہدایت سے سروکار رکھے بغیربس اپنی خواہش کی پیروی کی۔

ہدایت کا سرچشمہ صرف خدا ہے۔ اس کی ہدایت ، حقیقی ہدایت ہے وہی انسان کو صراط مستقیم اور حق کی راہ پر لگاتا ہے ۔

علم بھی انہیں حقائق کی تائید کرتا ہے اور علماء بھی انہیں کو تسلیم کرتے ہیں۔ بیشک خدا نے انسان کی فطرت میں یہ صفت ودیعت کر دی ہے کہ و ہ کمال و جمال کی طرف بڑھتا رہے ۔ پھر اس کمال کی طرف اس کی راہنمائی کی جو اس کے شایان شان ہے اس کو ایسی نعمتوں سے نوازا جن کے ذریعہ وہ کمال کے راستوں کو پہچان سکتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا ہے :( وما خلقتُ الجنَّ و الانسَ الا لیعبدون ) ( ۲ ) میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

واضح ہو کہ عبادت، معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور معرفت و عبادت ہی ایسا راستہ ہے جو معراجِ کمال تک پہنچاتا ہے ۔

انسان کے اندر خدا نے غضب و شہوت جیسی دو طاقتیں رکھی ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعہ کمال کی طرف بڑھے لیکن اس پر غضب و شہوت غالب آسکتی ہے اور ان دونوں سے عشق و ہوس کی آگ بھڑک سکتی ہے اس لئے عقل اور معرفت کے دیگر اسباب کے علاوہ انسان کو ایسی چیز کی ضرورت ہے جو اس کی فکر و نظر کو محفوظ رکھ سکے اس پر خدا کی حجّت تمام ہو جائے اور اس کے لئے نعمت ہدایت کی تکمیل ہو جائے مختصر یہ کہ اس کے پاس ایسے تمام اسباب جمع ہو جائیں کہ جو اسے خیر و سعادت یا شر و بدبختی کا راستہ کامنتخب کرنے کااختیار دیدیں(کہ جس پر چاہے گامزن ہو جائے)۔

اس لئے ہدایت ربّانی کا تقاضاہوا کہ وحی اور خدا کے ان برگزیدہ ہادیوں کے ذریعہ عقل انسان کی مدد کی

____________________

۱۔قصص :۵۰۔

۲۔ذاریات: ۵۶۔

۸

جائے کہ جن کے دوش پر بندوں کی ہدایت کی ذمہ داری ہے اور یہ کام معرفت کی تفصیلوں اور زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی رہبری ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے ۔

ہدایت ربانیہ کی مشعل آغاز تاریخ ہی سے انبیاء اور ان کے اوصیاء کے ہاتھ میں رہی ہے خدا نے اپنے بندوں کو ، ہادی و حجت، ہدایت کرنے والے مناروں اور نور درخشاںچمکتے نور کے بغیرنہیں چھوڑا ہے جیسا کہ عقلی دلیلوں کی تائید کرتے ہوئے وحی کی نصوص نے بیان کر دیا ہے : زمین حجتِ خدا سے اس لئے خالی نہیں رہ سکتی تاکہ خدا پر لوگوں کی حجّت تمام ہو جائے، بلکہ خدا کی حجّت خلق سے پہلے بھی تھی، خلق کے ساتھ بھی ہے اور خلق کے بعد بھی رہے گی اگر روئے زمین پر دو انسان رہیں گے تو ان میں سے ایک حجّت ہوگا۔ اس چیز کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جس سے شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی؛ ارشاد ہے:

( انما انت منذر و لکل قوم هاد ) ( ۱ )

آپ تو بس ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔

انبیاء اور ان کے ہدایت یافتہ اور ہدایت کرنے والے اوصیاء نے ہدایتوں کی ذمہ داری اپنے دوش پر لی تھی ان کی صلاحیتوں کاخلاصہ درج ذیل شقوں میں ہوتا ہے:

۱۔ وحی کو مکمل طور سے درک کریں اورپیغامِ رسالت کو گہرائی سے حاصل کریں، رسالت و پیغام کے حصول کے لئے صلاحیت کامل ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ رسولوں کا انتخاب خدا نے اپنے ہاتھ میںرکھا ہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:

( اللّٰه اعلم حیث یجعل رسالته ) ( ۲ )

خد ابہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔

( واللّٰه یجتبی من رسله من یشائ ) ( ۳ )

____________________

۱۔رعد:۷۔

۲۔انعام: ۱۲۴۔

۳۔ آل عمران ۱۷۹ ۔

۹

اور خدا اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے ۔

۲۔ خدائی پیغام کو بندوں تک اور ان موجودات تک پہنچانا جن کی طرف انہیں مبعوث کیا گیا ہے اور صحیح پیغام اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ جب پیغام کو مکمل اور صحیح طریقہ سے حاصل کیاگیا ہو،وہ رسالت اور اسکے تقاضوں سے واقف ہو اور خطا و لغزش سے معصوم و محفوظ ہو۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

( کان النّاس امة واحدة فبعث اللّٰه النبیین مبشّرین و انزل معهم الکتاب بالحق لیحکم بین النّاس فیما اختلفوا فیه ) ( ۱ )

سارے لوگ ایک امت تھے پس خدا نے بشارت دینے والے نبی بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کریں۔

۳۔الٰہی پیغام کی روشنی میں مومن امت کی تشکیل، اور رہبر و ہادی کی مدد کے لئے امت کو آمادہ کرناتاکہ رسالت کے مقاصد پورے ہو جائیں اور زندگی میں اس کے قوانین نافذ ہو جائیں، اس مشن کو قرآن مجید میں دو عنوان سے یاد کیا گیا ہے''تزکیہ و تعلیم'' خدا وند عالم فرماتا ہے:

( یزکّیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة ) ( ۲ )

رسول(ص) ان کو پاک کرتا ہے انہیںکتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔

تزکیہ یعنی اس کمال کی طرف راہنمائی کرنا جو انسان کے شایان شان ہے، تربیت کے لئے ایسا نمونہ چاہئے کہ جس میں کمال کا ہر عنصر موجود ہو، چنانچہ خدا نے ایسا نمونہ بھی پیش کر دیا:

( لقد کان لکم فی رسول اللّٰه اسوة حسنة ) ( ۳ )

بیشک رسول(ص) میں تمہارے لئے اچھا نمونہ ہے ۔

____________________

۱۔بقرہ: ۲۱۳۔

۲۔ جمعہ: ۲ ۔

۳۔ احزاب:۲۱۔

۱۰

۴۔اور اس پیغام کو اپنی معینہ مدت میں تحریف و تبدیلی اور زمانہ کی دست برد سے محفوظ رہنا چاہئے اس مشن کے لئے بھی نفسانی اور علمی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی نفسانی و علمی صلاحیت کو عصمت کہتے ہیں۔

۵۔ معنوی رسالت کے مقاصد کی تکمیل اور لوگوں کے نفسوں میں اخلاقی اقدار کے نفوذ و رسوخ کے لئے کام کیا جائے اور یہ ربّانی مسائل کے نفوذ کے ساتھ (خدائی حکم کے نفوذ ہی سے ہو سکتا ہے) یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب معاشرہ میں ایک سیاسی نظام کے تحت دین حنیف کے قوانین نافذ ہوں اور امت کے مسائل و معاملات کو ان قوانین کے مطابق رواج دیاجائے جو خدا نے انسان کے لئے معین کئے ہیں ظاہر ہے کہ ان کے نفاذ کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو حکیم شجاع ، ثابت قدم، لوگوں کے مزاج اور معاشرہ کے طبقوں سے آشنا، فکری رجحان، سیاسی و سماجی دھارے سے آگاہ، نظم و نسق کے قانون اور زندگی کے طریقوں سے با خبر ہو، ایک عالمی اوردینی حکومت چلانے کے لئے مذکورہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے ، چہ جائیکہ عصمت جو کہ ایک نفسانی کیفیت ہے۔ یہ قائد کو کجروی اور ایسا غلط کام کرنے سے باز رکھتی ہے کہ جس کا خود قیادت پر منفی اثر ہوتا ہے اوراس صورت میں امت اپنے رہبر کی اطاعت بھی نہیں کرتی ہے اوریہ چیز رسالت کے اغراض و مقاصد کے منافی ہے۔

گذشتہ انبیاء اور ان کے برگزیدہ اوصیاء دائمی ہدایت کے راستہ پر گامزن ہوئے اور تربیت کی دشوار راہوں کو اختیار کیا اور رسالت کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے ،الٰہی رسالت کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں انہوں نے ہر اس چیز کی قربانی دی کہ ایک سر فروش اپنے عقیدہ کے لئے جس کی قربانی دے سکتا ہے ، وہ لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے موقف سے نہیں ہٹے اور چشم زدن کے لئے بھی بہانہ سے کام نہیں لیا چنانچہ ان کی صدیوں کی مسلسل کوشش و جانفشانی کے سلسلہ میں خدا نے محمد(ص) بن عبد اللہ کے سر پر ختم نبوت کا تاج رکھا عظیم رسالت اور ہر قسم کی ہدایت کی ذمہ داری ان ہی کے سپرد کر دی اور آپ(ص) سے کار رسالت کی تکمیل کی فرمائش کی چنانچہ آنحضرت (ص) نے اس پر خطر راہ میں حیرت انگیز قدم اٹھائے اور مختصر مدت میں انقلابی دعوت کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور یہ آپ(ص) کی دن رات کی کوشش و جانفشانی کا ثمرہ دو عرصوں کی دین ہے:

۱۱

۱۔ بشر کے سامنے ایک ایسا مشن پیش کیا جو اپنے دامن میں دوام و بقا کی دولت لئے ہوئے تھا۔

۲۔ بشریت کو ایسی چیزوں سے مالا مال کیا جو اسے کجروی و انحراف سے محفوظ رکھیں۔

۳۔ایسی امت کی تشکیل کی جو اسلام پر ایمان رکھتی ہے، رسول(ص) کو اپنا قائد سمجھتی ہے اور شریعت کو اپنا ضابطۂ حیات تسلیم کرتی ہے ۔

۴۔ اسلامی حکومت بنائی،اورایسے سیاسی نظام کی تشکیل کی جو پرچم اسلام کو بلند کئے ہوئے ہے اور آسمانی قانون کو نافذ کرتا ہے ۔

۵۔ ربّانی قیادت کے لئے صاحب حکمت اور ایسا جانا پہچاناانسان پیش کیا جو رسول(ص) کی قیادت میں جلوہ گر ہوا۔

رسالت و مشن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ:

الف۔ ایسی قیادت کا سلسلہ جاری رہے جو رسالت کے احکام نافذ کر سکے اور اسے ان لوگوں سے بچا سکے جو اسے مٹانے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔

ب۔ صحیح تربیت کا سلسلہ نسلوں تک جاری رہے اس کی ذمہ داری اس شخص پر ہو جو علمی اور نفسانی لحاظ سے انسان کامل ہو جو اخلاق و کردار میں رسول(ص) جیسا نمونہ ہو، جس کی حرکت و سکون میں رسالت کا عکس نظر آئے۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ خدائی منصوبہ تھا ۔ اس نے رسول(ص) پر یہ فرض کیا کہ رسول اپنے اہل بیت میں سے منتخب افراد کو تیار کریں اور ان کے نام اور کردار کو بیان کریں تاکہ وہ حکم خدا سے نبی(ص) کی تحریک اور خدائی ہدایت کی ذمہ داری کو قبول کر لیں رسالت الٰہیہ کو(جس کے لئے خدا نے دوام لکھدیا ہے-) جاہلوں کی تحریف سے اور خیانت کاروں کی دست برد سے بچائیں اور نسلوں کی تربیت اس شریعت کی رو سے کریں جس کی نشانیوں کو بیان کرنے اور ہر زمانہ میں جس کے اسرار و رموز کو واضح کرنے کی ذمہ داری اپنے دوش پرلی ہے یہاں تک کہ خدا انہیں زمین اور اس کی تمام چیزوںکا وارث بنا دے ۔

۱۲

یہ خدائی اور الٰہی منصوبہ رسول(ص) کی اس حدیث سے واضح ہوتا ہے:

''انّی تارک فیکم الثّقلین ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ، کتاب اللّٰه و عترتی و انّهما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض''

میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں سے وابستہ رہے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میری عترت یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) پر پہنچیں گے۔

امت کی قیادت و رہبری کے لئے نبی(ص) نے حکمِ خدا سے جن لوگوں کا تعارف کرایا تھا ان میں ائمہ اہل بیت سب سے افضل ہیں۔

بیشک اہل بیت میں سے بارہ اماموں نے رسول(ص) کے بعد اسلام کے حقیقی راستہ کی نشاندہی کی ۔ ان کی زندگی کی مکمل تحقیق و مطالعہ سے خالص اسلام کی تحریک کی پوری تصویرسامنے آتی ہے اب اس کے نقوش امت میں گہرے ہو رہے ہیں حالانکہ رسول(ص) کی وفات کے بعد اس کا جوش و ولولہ ماند پڑ گیا تھا۔ ائمہ معصومین نے امت کی روشن فکری اور اس کی طاقت کو صحیح سمت دینے کی کوشش کی اور شریعت و تحریک اور انقلاب رسول(ص) سے متعلق امت کے اندر بیداری پیدا کی حالانکہ وہ دنیا کی اس روش سے بھی نہیں ہٹے جو امت اور رہبر کے طرز عمل پر حاکم ہے۔

ائمہ معصومین کی پوری حیات اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی سنتِ رسول(ص) سے جدا نہیں ہوئے اور امت نے بھی ان سے اسی طرح استفادہ کیا جس طرح منارۂ ہدایت سے استفادہ کیا جاتا ہے یا جیسے اس چراغ سے استفادہ کیا جاتا ہے جس کو راستہ چلنے والوں کے لئے سر راہ رکھ دیا جاتا ہے پس وہ خدا اور اس کی رضا کی طرف راہنمائی کرنے والے، اس کے حکم پر ثابت و پابند ، اس کی محبت میں کامل اور اس کی ملاقات کے شوق میں گھلنے والے اور کمالِ انسانی کی چوٹیوں پر پہنچنے کے لئے سبقت لے جانے والے ہیں۔

۱۳

ان کی زندگی جفا کاروں کی جفا سے اورا طاعتِ خدا میں صبر و جہاد سے معمور ہے ۔ احکام خدا کے نفاذ کے سلسلہ میں انہوں نے بے مثال ثابت قدمی اور استقلال کا ثبوت دیا اور پھر ذلت کی زندگی قبول نہ کرتے ہوئے عزت کی موت قبول کر لی یہاں تک کہ ایک عظیم جنگ اور جہاد اکبر کے بعدخدا سے جا ملے۔

مورخین اور صاحبان قلم ان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بیان نہیں کر سکتے اور یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم نے ان کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کر لیاہے ظاہر ہے کہ ہماری یہ کاوش بھی ان کی زندگی کے بعض درخشاں پہلوئوں ہی کو پیش کرے گی۔ ہم نے ان کی سیرت و کردار اور موقف کے انہیں گوشوں کو بیان کیا ہے جو مورخین نے تحریر کئے ہیں۔

ہاں ہم نے ان کے منابع و مصادر کا مطالعہ کیا ہے ۔امید ہے کہ خدا اس کے ذریعہ فائدہ پہنچائے گا وہی تو فیق دینے والا ہے۔

اہل بیت کی رسالتی تحریک خاتم النبیین رسول(ص) اسلام محمد بن عبد اللہ سے شروع ہوتی ہے اور خاتم الاوصیاء محمد بن حسن العسکری حضرت مہدی منتظر (خدا ان کے ظہور میں تعجیل کرے اور ان کے عدل سے زمین کو منورکرے)پر منتہی ہوتی ہے۔

یہ کتاب رسول مصطفیٰ حضرت محمد(ص) بن عبد اللہ کی حیات سے مخصوص ہے کہ جنہوں نے اپنی فردی اور اجتماعی زندگی کے ہر موڑ پر اور حالات کی سیاسی و اجتماعی پیچیدگی میں اسلام کے ہر پہلو کو مجسم کر دکھایا اور اسلام کے مثالی اقدار کی بنیادوں کو فکر و عقیدہ کی سطح پر بلند کیا اور اخلاق و کردار کے آفاق پر اونچا کیا۔

ہم یہاں جناب حجة الاسلام و المسلمین سید منذر الحکیم حفظہ اللہ کی زیر نگرانی کام کرنے والی ہیئت تحریریہ اور ان تمام برادران کا شکریہ ادا کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لیاہے ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس مجموعے کی تکمیل کی توفیق مرحمت فرمائی وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین مددگار ہے ۔

مجمع عالمی اھل البیت علیہم السلام

قم المقدسہ

۱۴

پہلا باب

مقدمہ

سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

پہلی فصل

خاتم النبیین (ص) ایک نظر میں

دوسری فصل

بشارت

تیسری فصل

خاتم النبیین (ص)کے اوصاف

۱۵

مقدمہ

سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

قرآن مجید نے انبیاء کی سیرت کو پیش کرنے پر خاص توجہ دی ہے ان کی سیرت کو پیش کرنے میں قرآن کا اپنا خاص اسلوب ہے ۔

ان برگزیدہ افراد کی سیرت کو پیش کرنے کے لحاظ سے قرآن مجید کا یہ اسلوب کچھ علمی اصولوں پر قائم ہے ۔

قرآن مجید لہجۂ ہدایت میں بات کرتا ہے ، جو انسان کی اس کے شایان شان کمال کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، اور تاریخی حوادث کے ایک مجموعہ کے لئے کچھ حقیقت پر مبنی مقاصد کو مد نظر رکھتا ہے ، یہ حوادث فردی و اجتماعی زندگی میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ممکن ہے یہ علوم و معارف کے ان دروازوں کے لئے کلید بن جائیں جو انسان کے تکاملی سفر میں کام آتے ہیں۔

ان مقاصد تک پہنچنے کے لئے قرآن مجید نے وسیلے معین کئے ہیں چنانچہ وہ عقل اور صاحبان عقل کو مخاطَب قرار دیتا ہے اور انسان کے سامنے نئے آفاق کھول دیتا ہے،وہ فرماتا ہے:

۱۔( فاقصص القصص لعلهم یتفکرون ) ( ۱ )

آپ قصے بیان کر دیجئے ہو سکتا ہے یہ غور کریں۔

____________________

۱۔اعراف: ۱۷۶ ۔

۱۶

۲۔( لقد کان فی قصصهم عبرة لاولی الالباب ) ( ۱ )

یقینا ان کے قصوں میں صاحبان عقل کے لئے عبرت ہے ۔

بیشک گذشتہ قوموں کی تاریخ اور راہبروں کی سیرت کے بارے میں غور کرکے عبرت حاصل کرنا چاہئے یہی دونوں تاریخ کے بارے میں قرآنی روش کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔

واضح رہے کہ سارے مقاصد انہیں دونوں میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دوسرے مقاصد ہیں جن کی طرف خدا کے اس قول میں اشارہ ہوا ہے:

( ما کان حدیثا یفتریٰ ولکنّ تصدیق الّذی بین یدیه و تفصیل کل شیء و هدی و رحمة لقومٍ یومنون ) ( ۲ )

یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو گڑھ لیا جائے قرآن گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میں مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

( وکلاً نقص علیک من انباء الرسل ما نثبت به فواد و جائک فی هذه الحق و موعظة و ذکریٰ للمومنین ) ( ۳ )

ہم آپ سے پہلے رسولوں کے قصے بیان کرتے رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط رکھیں، اور ان قصوں میں حق، نصیحت اور مومنین کے لئے عبرت ہے ۔

انبیاء و مرسلین کی خبروں کو پیش کرنے اور ان کے واقعات کو بیان کرنے کے لئے ہر آیت میں چار مقاصد بیان ہوئے ہیں۔

____________________

۱۔ یوسف:۱۱۱۔

۲۔ یوسف:۱۱۱ ۔

۳۔ہود:۱۲۰۔

۱۷

قرآن مجید اپنے منفرد تاریخی اسلوب میں مذکورہ چار اصولوں پر اعتماد کرتا ہے :

۱۔ حق

۲۔ علم

۳۔گردش زمانہ کا ادراک

۴۔ اس پر پورا تسلط

قرآن مجید جن تاریخی مظاہر اور ماضی و حال کے اجتماعی حوادث کو بیان کرتا ہے ان میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ قرآن نے ان کو حق اور علم کے ساتھ بیان کیا ہے ، خیال و خرافات کی بنیاد پر نہیں۔

خدا نے اس قول کے ذریعہ ان دونوں اصولوں کی تاکید کی ہے ،( ان هذا لهو القصص الحق... ) ( ۱ )

بیشک یہ برحق قصے ہیں۔

اور سورۂ اعراف کے آغاز میں فرماتا ہے :

( فلنقصّنّ علیهم بعلم وما کنا غائبین ) ( ۲ )

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ ہم جن واقعات کو بیان کر رہے ہیں وہ ہمارے سامنے رونما ہوئے ہیں۔

ان تمام باتوں کے علاوہ واقعات کے تجزیہ و تحلیل اور اس سے بر آمد ہونے والے نتیجہ میں قرآن مجید کا ایک علمی نہج ہے ایک طرف تووہ تحقیق و استقراء پر اعتماد کرتا ہے دوسری طرف استدلال کا سہارا لیتا ہے ۔

جب قرآن مجید عام طریقہ سے انبیاء کی حیات کو پیش کرتا ہے تو انہیں ایک صف میں قرار دیتا ہے ، سب کو

____________________

۱۔ آل عمران: ۶۲۔

۲۔ اعراف:۷۔

۱۸

ایک دوسرے کے برابر کھڑا کرتا ہے ، یہ اسلام کی عام روش ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( ان الدّین عند اللّه الاسلام ) ( ۱ )

پھر اولوالعزم انبیاء میں سے ہر ایک کی سیرت کی گہرائی میں جاتا ہے تاکہ ان کی سیرت کے ان پہلوئوں کو بیان کر دے جن میں وہ ایک دوسرے سے جدا ومنفرد ہیں اور ان کو پہلے والوں سے متصل کر دے اور ان کی سیرتوں سے ملحق ان حوادث کو پہچان لے جو حیات انسانی کے ساتھ جاری روش رسالت سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاریخی بحث کا فطری یہ خاصہ ہے ، اس میں تحریف ہو جاتی ہے ، کہیں ایہام و چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے کبھی تاریخی حقائق پر پردے ڈال دئے جاتے ہیں یا دھیرے دھیرے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور پھر اتنی واضح ہو جاتی ہے کہ جس سے انسانی معاشرہ تغافل نہیں کر پاتا ہے اور حقائق سے آنکھیں بند کر کے آگے نہیں بڑھ پاتا ہے ۔

سورۂ یوسف کی ۱۱۱ویں آیت میںاسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا کہ تاریخی حقائق میں مبالغہ آرائی، افتراء اور بغیر علم کے بحث و تحقیق کا امکان ہے ، لیکن جس حق پر، پردہ ڈال دیا گیاہے وہ کسی نہ کسی زمانہ میں ضرور ظاہر ہوگا۔

یہاں سے قرآنی مکتب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کے جو یا انسان کو ایسے متعلقہ اسلحہ سے لیس کر دے جو مکمل طریقہ سے حقیقت کا انکشاف کر دے۔

یقینا قرآن نے ایسا محکم و ثابت نظر یہ پیش کیاہے کہ جس سے فکر انسانی کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھ سکتی اس نظریہ کو محکمات اور امُّ الکتاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہی فکرِ انسانی کے لئے ثابت ،ناقابل تغیراور واضح حقائق ہیں؛ ان میں کسی شک و تردیدشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

یہی محکم و ثابت حقائق فکر انسان کے لئے ہمیشہ وسیع زاوئیے اور بنیادی چیزیں پیش کرتے ہیں یہ حقائق ایسی چیزوں پر مشتمل ہیں کہ جو مادہ کی گرفت اور اس کی حد سے باہر ہیں۔ کیونکہ قرآن مبہم اورمتنازعہ پذیر

____________________

۱۔عمران:۱۹۔

۱۹

پذیرچیزوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے کو بھی جائز نہیں سمجھتا ہے ۔

قرآن مجید اپنے ذہین قاریوںکو دو ر استوں کی طرف ہدایت کرتا ہے ایک یہ کہ وہ مبہم اور متنازعہ چیزوں کے بارے میں کیا کرے تاکہ انسان ایسے واضح نتیجہ پر پہنچ جائے جو معیار قرار پائے دوسرے فکر انسانی کے سامنے آنے والی ہر چیز سے نمٹنے کے لئے ایک قاعدہ پیش کرتا ہے یہ اصل و قاعدہ ہر نئی چیز سے نمٹنے کے لئے جداگانہ صورت پیش کرتا ہے اور ذہنِ انسان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پیش آنے والی چیز کے لحاظ سے وہ اپنا موقف اختیار کرے۔

خداوند عالم نے اس جانب اشارہ کرنے کے بعد کہ قرآن وہ فرقان ہے جسے اللہ نے اپنے امین رسول(ص) پر نازل فرمایا ہے ۔یہ ارشاد فرمایا ہے:

( هو الّذی انزل علیک الکتاب منه آیات محکمات هن امُّ الکتاب و أُخَرُ متشابهات فامّا الّذین فی قلوبهم زیغ فیتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاویله وما یعلم تاویله اّلا اللّٰه و الرّاسخون فی العلم یقولون آمنا به کل من عند ربنا و ما یذکر الا اولوا الالباب ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هدیتنا و هب لنا من لدنک رحمة انک انت الوهاب ) ( ۱ )

وہ خدا وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کی آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہے اور کچھ متشابہہ ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تاکہ فتنے بھڑکائیںاور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا اور ان لوگوں کو ہے جو علم میں رسوخ رکھتے ہیں وہ تو یہی کہتے ہیں: ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ سب آیتیں تو خدا ہی کی طرف سے آئی ہیں، (لیکن)نصیحت تو صاحبان عقل ہی اخذ کرتے ہیں، پروردگارا ہم سب کو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوںکو کج نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر بیشک تو بڑا فیاّض ہے ۔

____________________

۱۔ آل عمران: ۷ و ۸۔

۲۰

بِجِهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِینَ >(۱)

لیکن کوفہ کا حاکم ہونے کی وجہ سے اس کا احترام کیا گیا ہے ۔

یا ایک اور شخص ،” مروان حکم “(۲) جسے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے اس کے باپ کے ساتھ طائف جلا وطن کیا تھا ، بعد میں ایک حاکم واقع ہونے کی وجہ سے عزت وا حترام کا مستحق بن جاتا ہے اور تاریخ میں اس کا نام عظمت کے ساتھ لیا جاتا ہے ۔

قریش کے بزرگوں اور حکمراں ، فرماں روا اور امراء طبقے کے ایسے لوگوں کےلئے ضروری ہے کہ ان کی عزت و احترام محفوظ رہے اورہم ان کی شخصیت کی حرمت کے محافظ بنیں ، لیکن اس کے مقابلے میں پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے متقی و پرہیزگار تہی دست صحابی ” ابو ذر غفاری“ یا باتقویٰ اور خدا ترس صحابی ” سمیہ “ نامی کنیز کے بیٹے ”عمار یاسر “ یا ” عبدا لرحمان بن عدیس بلوی “ نامی نیک و پارسا صحابی جو اصحاب بیعت شجرہ میں سے تھے اور ان کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی :

لَقَد رَضِیَ اللّٰه عَنِ المُؤمِنِینَ اِذْ یُبَایِعُونَکَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَافِی قُلُوبِهِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِینَةَ عَلَیْهِمْ وَ اَثَابَهُمْ فَتْحاً قَرِیباً >(۳)

یا رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دوسرے صحابی جیسے ، ” صوحان عبدی “ کے بیٹے زید اور ”صعصعہ“ اور ان جیسے دسیوں صحابی اور تابعین جو ریاست و حکومت کے عہدہ دار نہ تھے اور قریش کے سرداروں میں سے بھی نہ تھے ، انھیں اہمیت نہ دی جائے بلکہ ان کی ملامت اور طعنہ زنی کی جائے اور یمن کے صنعا سے ایک یہودی کو خلق کرکے اس خیالی اور جعلی شخص کو فرضی طور پر ان مقدس اشخاص میں قرار دیگر صاحبان قدرت اور حکومت سے ان کو ٹکرایا جائے اور

____________________

۱۔ اے ایمان والو! اگر کوئی فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ، ایسا نہ ہو کہ ایسی قوم تک ناواقفیت میں پہنچ جاؤ کہ جس کے بعد اپنے اقدام پر شرمندہ ہونا پڑے ( حجرات /۶۰)

۲۔ اسی کتاب کی فصل ” پیدائش افسانہ شیبہ “ اور دیگر فصلو ں میں اس کے حالات کے بارے میں دی گئی تشریح کی طرف رجوع کیا جائے۔

۳۔ یقینا خدا صاحبان ایمان سے اس وقت راضی ہوگیا ، جب وہ درخت کے نیچے آپ کی بیعت کررہے تھے پھر اس نے وہ سب کچھ دیکھ لیا جو ان کے دلو ں میں تھا تو ان پر سکون نازل کردیا اور انھی ں اس کے عوض قریبی فتح عنایت کردی ( فتح / ۱۸)

۲۱

اس طرح سیف کی جعلی روایتیں شہرت پاکر رائج ہوجاتی ہیں اور ان کے بارے میں کسی قسم کی چھان بین اور تحقیق نہیں ہوتی ہے ۔

اس قسم کی داستانوں اور افسانوں (جنھیں جعل کرنے والوں نے صاحبان قدرت و حکومت کے دفاع اور ان کے مخالفوں کی سرکوبی کےلئے گڑھ لیا ہے) کی اشاعت ہوئی اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ رائج ہوگئی ہیں ۔ یہاں تک کہ ان میں سے بعض افسانے اس حد تک مسلم تاریخی حقائق میں تبدیل ہوگئے ہیں کہ کوئی شک و شبہہ باقی نہیں رہا ہے اور بعض دانشورحضرات اس کے تحفظ کو اپنا دینی فریضہ سمجھتے ہیں ۔

جبکہ یہ اس حالت میں ہے کہ جسے انہوں نے دین کا نام دیا ہے وہ حکمراں طبقے اور ان سے مربوط افراد کی عزت و احترام کے تحفظ کے علاوہ کچھ نہیں ہے ۔

لیکن اصحاب و تابعین سے مربوط وہ لوگ جو مجبور ہوکر قدرت و حکومت سے دور رہ کر کمزور واقع ہوئے ہیں ، ان دانشوروں کی نظروں میں قابل اہمیت و موردتوجہ قرار نہیں پائے ہیں ، کیونکہ انہوں نے صاحبان قدرت و دولت کی پیروی نہیں کی ہے بلکہان کے موافق نہیں تھے ۔

یہاں پر میں ایک بار پھر خداوند عالم کو شاہد قرار دیکر کہتا ہوں کہ جس چیز نے مجھے پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کی زندگی کے حالات کے بارے میں مطالعہ و تحقیق کرنے کی ترغیب دی، وہ یہ ہے کہ مجھے بچپنے ہی سے اسلام ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اوران کے اصحاب کے متعلق جاننے و پہچاننے کی دلچسپی تھی اور میں نے اپنی اکثر زندگی اسی راہ میں گزاری ہے ، تب جاکر اس زمانے کے وقائع اور روئدادوں کو پہچاننے اور ان کی طرف بڑھنے کی راہ کو آسان کرنے کیلئے اپنی تحقیقات کے نتیجہ کو شائع کیا ہے اور اس امید میں بیٹھا ہوں کہ محققین اس کام کو آگے بڑھائیں گے اور اس چھان بین کو دقیق اور مضبوط تر صورت میں انجام دیں گے، میں اس کتاب کے قارئین کو اطمینان دلاتا ہوں کہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اصحاب کے تئیں میری محبت اور وفاداری ان سے کم نہیں ہے جو اس سلسلے میں تظاہر کرتے ہیں ، البتہ اس سلسلہ میں اصحاب کے وہ افراد جن کا تاریخ میں اسلام کی نسبت نفاق اور دو رخی ثابت ہوچکی ہے ، اس کے علاوہ میں احترام اور ان کی پرستش میں فرق کا قائل ہوں ، کیونکہ میں مشاہدہ کررہا ہوں کہ ان دانشوروں نے اصحاب کی عزت و احترام کو تقدیس و ستائش کی اس حد تک آگے بڑھایا ہے کہ ان میں سے بعض افراد اپنے شائستہ اسلاف کی (خدا کی پنا ہو) غیر شعوری طور پر پرستش کرنے لگے ہیں ، خداوند ہمیں ، ان کو اور تمام مسلمانوں کو اس غلطی سے نجات دے ۔

۲۲

بعض لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبر خدا کو دیکھا ہے اور اس دیدار کے دوران اگر ایک لمحہ(۱) کےلئے بھی مسلمان ہوگیا ہے ، وہ صحابی ہے اور ان کے اعتقاد کے مطابق صحابی فرشتہ جیسا ہے جس کی فطرت میں خواہشات اور غریزے کا دخل نہیں ہوتا ، لہذا وہ جب اس کے برعکس کچھ سنتے ہیں تو برہم ہوجاتے ہیں اور ایسی باتوں کو پسند نہیں کرتے ہیں اور اس طرز تفکر کی وجہ سے یہ لوگ کافی مشکلات سے دوچار ہوئے ہیں فی الحال ان پر بحث کرنے کی گنجائش نہیں ہے ۔

آخر کلام میں امید رکھتا ہوں کہ باریک بین اور تیز فہم حضرات ، اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں چھپے ہوئے میرے اس جملہ کو پڑھ لیں :

” جو لوگ تاریخ میں لکھی گئی چیزوں کو بوڑھی عورتوں کے خرافات اور بیہودگیوں کی نسبت تعصب کے مانند اعتقاد رکھتے ہیں ، وہ اس کتاب کو نہ پڑھیں “

اس کے علاوہ بھی چندتنقید یں ہوئی ہیں ، مثلاً اعتراض کیا گیا ہے کہ کیوں اس کتاب کا نام ” عبدا للہ بن سبا“ رکھا گیا ہے جبکہ اس میں ”عبدا للہ بن سبا “ کی بہ نسبت دوسری داستانیں زیادہ ہیں ؟

اس سوال کا ہم نے اس کتاب کی پہلی طباعت کے مقدمہ میں جواب دیدیا ہے اور اس کے علاوہ کتاب کے سرورق پر واضح طور پر لکھا گیا ہے کہ یہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ اور دیگر تاریخی داستانوں پر مشتمل ہے مزید ہم نے پہلی طباعت کے مقدمہ میں کہا ہے :

____________________

۱۔ کتاب الاصابہ، ( ۱/۱۰) الفصل الاول ” فی تعریف الصحابی “ کی طرف رجوع کیا جائے ۔

۲۳

” قارئین کرام جلدی ہی سمجھ لیں گے کہ یہ کتاب صرف عبد اللہ بن سبا اور اس کی داستان سے مربوط نہیں ہے بلکہ بحث کا دامن اس سے وسیع تر ہے “

ہم نہیں سمجھتے کہ اس کے باوجود تنقید کرنے والوں کےلئے یہ مطلب کیونکر پوشیدہ رہ گیا ؟!

ضمناً ہم نے کتاب کے آخر میں مصر کے معاصر دانشور جناب ڈاکٹر احسان عباس کی عالمانہ تنقید اور ان کے سوالات درج کرنے کے بعد ان کا جواب لکھا ہے ۔

و مَا توفیقی الا بالله علیه توکلت و الیه انیب

اس تحریر کو میں نے ذی الحجة ۱۳۸۷ ھ ء عید قربان کے دن منی کے خیمون میں مکمل کیا ہے خداوند عالم مسلمانوں کےلئے ایسی عیدیں باربار لائے اور وہ خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے احکام الہی کو انجام دینے میں تلاش و جستجو کریں تا کہ خداوندعالم ان کی حالت کو بدل دے ۔

اِن َّ اللهَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقُومٍ حَتَّی یُغَیِّرُوا مَا بِاَنْفُسِهِمْ (۱)

صدق الله العلیّ العظیم

سید مرتضی عسکری

____________________

۱۔ خدا کسی قوم کی حالت کو اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے کو تبدیل نہ کرے رعد/ ۱۱

۲۴

مباحث پر ایک نظر

کتاب کی دوسری طباعت پر مصنف کا مقدمہ

میں نے حدیث اور تاریخ اسلام کی چھان بین اور تحقیق کے دوران حاصل شدہ نتیجہ کو چار حصوں میں تقسیم کیا ہے اور فیصلہ کرچکا ہوں کہ ہر حصے میں اپنی تحقیق کے نتائج کو براہ راست شائع کروں ، یہ چار حصے حسب ذیل ہیں :

اول : حدیث و تاریخ پر اثر ڈالنے والے تین بنیادی اسباب کی تحقیق۔

الف۔پوجا اور پرستش کی حد تک بزرگوں کی ستائش کا اثر

ب۔وقت کے حکام کا حدیث اور تاریخ پر اثر

ج۔حدیث اور تاریخ پر مذہبی تعصب کا اثر

اس بحث میں مذکورہ تین مؤثر کی وجہ سے حدیث اور تاریخ میں پیدا شدہ تحریف اور تبدیلیوں پر چھان بین ہوئی ہے لیکن آج تک اسے نشر کرنے کی توفیق حاصل نہیں ہوئی ہے۔

دوم : ام المؤمنین عائشہ کی احادیث

یہ بحث دو حصوں میں تقسیم ہوئی ہے ، اس کا پہلا حصہ حضرت عائشہ کی حالات زندگی سے متعلق ہے، جو عربی زبان میں ۳۱۴ صفحات پرمشتمل ۱۳۸۰ ء ھ میں تھران میں شائع ہوا ہے اور اس کا دوسرا حصہ ام المؤمنین کی احادیث کے تجزیہ و تحلیل پر مشتمل ہے یہ حصہ ابھی تک شائع نہیں ہوا ہے ۔

سوم : صحابہ کی احادیث

اس حصہ میں بعض اصحاب کی احادیث ، جن میں ابو ہریرہ کی احادیث اہم تھیں ، جمع کی گئی ہیں اور میں اس کو شائع کرنے کا ارادہ رکھتا تھا ، لیکن جب میں نے آیت اللہ سید عبدا لحسین شرف الدین کی کتاب ” ابو ہریرہ“ دیکھی تو اسے اس سلسلے میں کافی سمجھ کر اپنی کتاب کو شائع کرنے سےمنصرف ہوگیا۔

چہارم : سیف کی احادیث:

اس حصہ میں سیف بن عمیر کی روایتوں کی چھان بین کی گئی ہے جن میں اس نے ۱۱ ھء سے ۳۷ ھ ء تک کے تاریخی وقائع نقل کئے ہیں ۔

۲۵

سیف نے پہلے سقیفہ ، پھر مرتدوں سے جنگ اور اس کے بعد خلفائے ثلاثہ کے دوران مسلمانوں کی فتوحات کے بارے میں لکھا ہے اور آخر میں اسلامی شہروں میں حضرت عثمان کی حکومت اور بنی امیہ کے خلاف بغاوتوں کو عثمان کے قتل تک کے واقعات کی وضاحت کی ہے پھر امیر المؤمنین کی بیعت اور جنگ جمل کی بات کی ہے ، اور ان وقائع میں بنی امیہ کی بدکرداریوں کی پردہ پوشی کرنے کےلئے عبد الله بن سبا اور سبائیوں کا افسانہ گڑھ لیا ہے ، اس طرح ان تمام وقائع کو بنی امیہ اور قریش کے تمام اشراف کے حق میں خاتمہ بخشتا ہے ۔

میں نے اس حصہ میں سیف کے چند افسانوں کو تاریخ کی ترتیب سے درج کرکے ” احادیث سیف“ کے عنوان سے طباعت کےلئے آمادہ کیا ،مرحوم شیخ راضی آل یاسین کو میر ی تصنیف کے بارے میں اطلاع ملی اور انہوں نے فرمایا کہ : سیف بن عمیر ناشناختہ ہے لہذا ” احادیث سیف “ کا عنوان جذابیت نہیں رکھتا ہے ، چونکہ سیف کا سب سے بڑا افسانہ ” عبد اللہ بن سبا “ اور سبائی ہے ، لہذا بہتر ہے اس کتاب کا نام ”’ عبدا للہ بن سبا “ رکھا جائے ، اس لئے اس کتاب کا نام بدل کر ” عبدا للہ ابن سبا “ رکھا اور اسے طباعت کے لئے پیش کیا ۔

اس کتاب کی طباعت کے دوران مجھے معلوم ہوا کہ سیف کے افسانوں کے بہت سے سورما پیغمبر خدا کے اصحاب کے طور پر پیش کئے گئے ہیں لہذا اس کتاب کی پہلی جلد کے آخر میں اس کے بارے میں اشارہ کرنے کے بعد اس سلسلے میں اصحاب پیغمبر کے بارے میں حالات درج کئے گئے منابع اور کتابوں کی تحقیق کی، اور مطالعہ کرنے لگا اس تحقیق کے نتیجہ میں ” ایک سو پچاس جعلی اصحاب “ کے عنوان سے ایک الگ کتاب تالیف کی اور طباعت کے حوالے کی ۔ لہذا سیف کی احادیث کے بارے میں بحث تین حصوں میں انجام پائی :

۱ ۔ عبدا للہ بن سبا اور چند دیگر افسانے ۔

۲ ۔ عبدا لله بن سبا اورسبائیوں کا افسانہ۔

۳ ۔ ایک سو پچاس جعلی اصحاب ۔

پہلے حصہ میں سیف کی پندرہ قسم کی روایتوں کی حیات پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم سے عثمان کی خلافت تک ان کے واقع ہونے کے سالوں کی ترتیب سے چھان بین کی گئی ہے ۔ یہ حصہ کتاب ” عبدا للہ بن سبا “ کی پہلی جلد پر مشتمل ہے ، جس میں درج ذیل دو موضوعات پر بحث کی گئی ہے:

۲۶

۱ ۔ اسامہ کا لشکر

۲ ۔ سقیفہ اور ابو بکر کی بیعت

اس کتاب کی دوسری جلد میں مندرجہ ذیل موضوعات پر بحث کی گئی ہے ۔

۳ ۔ اسلام میں ارتداد ۔

۴ ۔ مالک بن نویرہ کی داستان۔

۵ ۔ علاء حضرمی کی داستان۔

۶ ۔ حواب کی سرزمین اور وہاں کے کتے۔

۷ ۔ نسلِ زیاد کی اصلاح۔

۸ ۔ مغیرہ بن شعبہ کے زنا کی داستان ۔

۹ ۔ ابو محجن کی شراب نوشی ۔

۱۰ ۔ سیف کے ایام ۔

۱۱ ۔ شوریٰ اور عثمان کی بیعت ۔

۱۲ ۔ ہرمزان کے بیٹے قماذبان کی داستان۔

۱۳ ۔ تاریخ کے سالوں میں سیف کی دخل اندازی۔

۱۴ ۔ سیف کے افسانوی شہر

۱۵ ۔ خاتمہ

کتاب کی اس جلد کو عربی متن کے ساتھ مطابقت کرنے کے بعد اس میں روایتوں کے مآخذ کی چھان بین اور جعلی اصحاب کو مشخص کرنے کے سلسلے میں چند اہم حصوں کا اضافہ کرکے طباعت کےلئے پیش کیا گیا ۔ خدائے تعالی سے استدعا ہے کہ ہمیں اس کتاب کی دوسری جلد اور کتاب ” ۱۵۰ جعلی اصحاب“ کو طبع کرنے کی توفیق عنایت فرمائے

سید مرتضی عسکری

تہران جمعہ ۱۴/ ۴/ ۱۳۸۶ ھ

۲۷

آغاز بحث

پہلی طباعت کا مقدمہ

میں ۱۳۶۹ ھء میں حدیث و تاریخ کے بارے میں چند موضوعات کا انتخاب کرکے ان پر تحقیق و مطالعہ کررہا تھا، منابع و مآخذ کا مطالعہ کرنے کے دوران میں نے حدیث اور تاریخ کی قدیمی ، مشہور اور معتبر ترین کتابوں میں موجود بعض روایتوں کے صحیح ہونے میں شک کیا، اس کے بعد میں نے شک وشبہہ پیدا کرنے والی راویتوں کو جمع کرکے انھیں دوسری روایتوں سے موازنہ کیا اس موازنہ نے مجھے ایک ایسی حقیقت کی راہنمائی کی جو فراموشی کی سپرد ہوچکی تھی اور تاریخ کے صفحات میں گم ہو کر زمانے کے حوادث کی شکار ہوچکی تھی ۔

جب اس قسم کی روایتوں کی تعداد قابل توجہ حد تک بڑھ کر ایک مستقل کتاب کی شکل اختیار کرگئی تو میں نے اخلاقی طور پر اس ذمہ داری کا احساس کیا کہ اس ناشناختہ حقیقت کے چہرہ سے پردہ اٹھاؤں ۔

اس کے بعد میں نے اس سلسلے میں لکھی گئی یادداشتوں کو چند فصلوں میں تقسیم کیا اور انھیں ”احادیث سیف “ کا نام دیا، میرے اس کام سے ” کتاب صلح حسن “ کے مؤلف جناب شیخ راضی یاسین طاب ثراہ آگاہ ہوئے اور انہوں نے مجھے اس بحث کو جاری رکھنے کی حوصلہ افزائی فرمائی اور یہ تجویز پیش کی کہ اس کتاب کا نام ” عبد اللہ بن سبا “ رکھوں ، اور میں نے بھی ان کی تجویز سے اتفاق کیا۔

۲۸

میری تحقیق کا یہ کام سات سال تک یوں ہی پڑا رہا اور اس دوران گنے چنے چند دانشوروں کے علاوہ اس سلسلے میں کوئی اورآگاہ نہ ہو ا، جس چیز نے مجھے اس مدت کے دوران اس کتاب کی طباعت سے روکا ، وہ یہ تھا کہ میں اس امر سے ڈرتا تھا کہ بعض مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس نہ پہنچے ، کیونکہ احادیث اور روایات کا یہ مجموعہ ان واقعات کے بارے میں تھا جو رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد ۳۷ ھ ء تک گزرے ہیں ،اس مدت کے بارے میں لکھی گئی تاریخ، عام مسلمانوں کےلئے امر واقعی کے طور پر ثبت ہوچکی تھی اور ان کے اعتقادات کے مطابق اس میں کسی قسم کے اختلاف کی گنجائش نہیں تھی عام لوگ یہ تصور کرتے ہیں کہ اس زمانے کے بارے میں لکھی گئی تاریخ ان کے دینی عقائد کا جزہے اور پسماندگان کو کسی قسم کے چون، چرا کے بغیر اسے قبول کرنا چاہئے ۔

یہ مباحث ، تاریخ کی بہت سی ایسی بنیادوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیتے ہیں ، جنھیں تاریخ دانوں نے بنیاد قرار دیگر ناقابل تغیر سمجھا ہے ۔ اس کے علاوہ یہ مباحث اسلام کی بہت سی تاریخی داستانو ں کو غلط ثابت کرتے ہیں اور بہت سے قابل اعتماد منابع و مآخذکے ضعیف ہونے کا ثبوت بھی پیش کرتے ہیں ۔(۱)

قارئین کرام ملاحظہ فرمائیں گے کہ یہ بحث ” عبد اللہ بن سبا“ اور اس کے افسانوں تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اس کا دامن کافی وسیع اور عمیق تر ہے ۔

____________________

۱۔اس لئے ” پیرزال “ کے مانند تاریخ میں لکھے گئے خرافات و توہمات پر ایمان و اعتقاد رکھنے والے حضرات کو یہ کتاب پڑھنی چاہئے ۔

۲۹

اس سبب اور چندد یگر اسباب کی بنا پر اس کتاب کو شائع کرنے کے سلسلے میں میرے دل میں خوف پیدا ہوا تھا ، لیکن جب میں نے اس موضوع کے ایک حصہ کو تاریخ پر تحقیقاتی کام انجام دینے والے دو عالیمقام دانشوروں کی تحریروں میں پایا تو میرے حوصلے بڑھ گئے اور میں نے ان مباحث کو شائع کرنے کا فیصلہ کیا ۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ میں نے ان مباحث میں قدیمی ترین تاریخی منابع و مآخذسے استفادہ کیا ہے اور پانچویں صدی کے بعد والے کسی شخص سے کوئی بات نقل نہیں کی ہے مگر یہ کہ پانچویں صدی کے بعد نقل کی گئی کسی بات کی بنیاد متقدمین سے مربوط ہو اور صرف اس کی شرح و تفصیل اس کے بعد والوں کسی نے کی ہو۔

ولله الحمد و منہ التوفیق

بغداد ۱۵ رمضان ۱۳۷۵ ھ

مرتضی عسکری

۳۰

پہلا حصہ : عبدا للہ بن سبا کا افسانہ

افسانہ کی پیدائش

افسانہ کے روایوں کا سلسلہ

سیف بن عمر ۔ عبد الله بن سبا کے افسانہ کو گڑھنے والا۔

عبد الله بن سبا کے افسانہ کی پیدائش

هٰذه هی اسطورة ابن سَبا بإیجاز

یہ افسانہ عبد الله بن سبا اور اس کی پیدائش کا خلاصہ ہے۔

ایک ہزار سال سے زائد عرصہ پہلے مؤرخین نے ” ابن سبا“ کے بارے میں قلم فرسائی کرکے اس سے اور سبائیوں (اس کے ماننے والوں) سے حیرت انگیز اور بڑے بڑے کارنامے منسوب کئے ہیں ۔ لہذا دیکھنا چاہئے کہ

یہ ابن سبا کون ہے ؟ اور

سبائی کون ہیں ؟

ابن سبا نے کونسے دعوے کئے ہیں اور کیا کارنامے انجام دئے ہیں ؟

۳۱

مؤرخین نے جو کچھ ” ابن سبا “ کے بارے میں لکھا ہے ، اس کا خلاصہ حسب ذیل ہے

صنعا ، یمن کے ایک یہودی نے عثمان کے زمانے میں بظاہر اسلام قبول کیا ، لیکن خفیہطور پر مسلمانوں کے درمیان اختلاف و افتراق پھیلانے میں مصروف تھا اور مسلمانوں کے مختلف بڑے شہروں جیسے ، شام ،کوفہ ، بصرہ اور مصر کا سفر کرکے مسلمانوں کے اجتماعات میں شرکت کرتا تھا اور لوگوں میں اس امر کی تبلیغ کرتا تھا کہ پیغمبر اسلام کےلئے بھی حضرت عیسی کی طرح رجعت مخصوص ہے اور دیگر پیغمبروں کی طرح حضرت محمد مصطفی کےلئے بھی ایک وصی ہے اور وہ حضرت علی علیہ السلام ہیں وہ خاتم الاوصیاء ہیں جیسے کہ حضرت محمد خاتم الانبیاء ہیں ۔ عثمان نے اس وصی کے حق کو غصب کرکے اس پر ظلم کیا ہے ، لہذا شورش اور بغاوت کرکے اس حق کو چھین لینا چاہئے ۔

مؤرخیں نے اس داستان کے ہیرو کا نام ” عبد الله بن سبا “ اور اس کا لقب ” ابن امة السوداء “ (سیاہ کنیز کا بیٹا)رکھا ہے اور دعویٰ کیا ہے کہ اسی عبد الله بن سبا نے اپنے مبلغین کو اسلامی ممالک کے مختلف شہروں میں بھیج کر انھیں حکم دیا تھا کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے بہانے، وقت کے حاکموں کو کمزور بنادیں ، نتیجہ کے طور پر مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت اس کی گرویدہ بن گئی اور انہوں نے اس کے پروگرام پر عمل کیا ،حتی ابوذر، عمار بن یاسر اور عبدا لرحمان بن عدیس جیسے پیغمبر کے بزرگ صحابی اور مالک اشتر جیسے بزرگ تابعین اور مسلمانوں کے دیگر سرداروں کو بھی ان میں شمار کیا ہے ۔

کہتے ہیں کہ سبائی جہاں کہیں بھی ہوتے تھے ، اپنے قائد کے پروگرام کو آگے بڑھانے کی غرض سے لوگوں کو علاقہ کے گورنروں کے خلاف بغاوت پر اکساتے تھے او روقت کے حکام کے خلاف بیانات اور اعلانیہ لکھ کر مختلف شہروں میں بھیجتے تھے ۔ اس تبلیغات کے نتیجہ میں لوگوں کی ایک جماعت مشتعل ہوکر مدینہ ک طرف بڑھی اور عثمان کو ان کے گھر میں محاصرہ کرکے انھیں قتل کر ڈالا ۔ کہ سب کام سبائیوں کی قیادت میں اور انھیں کے ہاتھوں سے انجام پاتے تھے ۔

اس کے علاوہ کہتے ہیں کہ جب مسلمانوں نے علی علیہ السلام کی بیعت کی اور عائشہ، عثمان کی خونخواہی کیلئے طلحہ و زیبر کے ہمراہ، راہی بصرہ ہوئی تو شہر بصرہ کے باہر علی علیہ السلام اور عائشہ کی سپاہ کے سرداروں ، طلحہ و زبیر کے درمیان گفت و شنید ہوئی ۔ سبائی جان گئے کہ اگر ان میں مفاہمت ہوجائے تو قتل عثمان کے اصلی مجرم ، جو سبائی تھے ، ننگے ہوکر گرفتار ہوجائیں گے ۔ اس لئے انہوں نے راتوں رات یہ فیصلہ کیا کہ ہر حیلہ و سازش سے جنگ کی آگ کوبھڑکا دیں ۔

۳۲

اس فیصلہ کے تحت خفیہ طور پر ان کاہی ایک گروہ علی علیہ السلام کے لشکر میں اور ایک گروہ طلحہ و زبیر کے لشکر میں گھس گیا ۔ جب دونوں لشکر صلح کی امید میں سوئے ہوئے تھے تو ، علی علیہ السلام کے لشکر میں شامل ہوئے گروہ نے مقابل کے لشکر پر تیر اندازی کی اور دوسرے لشکر میں موجود گروہ نے علی علیہ السلام کے لشکر پر تیر اندازی کی ۔ نتیجہ کے طور پر دونوں فوجوں میں ایک دوسرے کے خلاف بدگمانی اور بے اعتمادی پید اہوگئی جس کے نتیجہ میں جنگ بھڑک اٹھی ۔

کہتے ہیں کہ اس بنا پر بصرہ کی جنگ ، جو جنگ جمل سے معروف ہے چھڑ گئی ورنہ دونوں لشکروں کے سپہ سالاروں میں سے کوئی ایک بھی اس جنگ کےلئے آمادہ نہ تھا اور وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ اس جنگ کا اصلی عامل کون تھا۔

اس افسانہ ساز نے داستان کو یہیں پر ختم کیا ہے اور سبائیوں کی سرنوشت کے بارے میں کوئی اشارہ نہیں کیا ہے ۔

یہ تھا ” سبائیوں “ کے افسانہ کا ایک خلاصہ ، اب ہم اس کی بنیاد پر بحث کرنے سے پہلے مناسب سمجھتے ہیں کہ ” سبائیوں “ میں شمار کئے گئے بزرگوں میں سے بعض کے بارے میں جانکاری حاصل کریں

۱ ۔ ابوذر

۲ ۔ عمار بن یاسر

۳ ۔ عبد الرحمان بن عدیس

۴ ۔ صعصعہ بن صوحان

۵ ۔ محمد بن ابی حذیفہ

۶ ۔ محمد بن ابی بکر ، خلیفہ اول کے بیٹے ۔

۷ ۔ مالک اشتر

۳۳

۱ابوذر

ان کا نام جندب بن جنادہ غفاری تھا ، وہ اسلام لانے میں سبقت حاصل کرنے والے پہلے چار افراد میں چوتھے شخص تھے ، وہ جاہلیت کے زمانے میں بھی خدا پرست تھے اور بت پرستی کو ترک کرچکے تھے ، جب انہوں نے اسلام قبول کیا تو مکہ مکرمہ میں بیت الله الحرام کے اندر اپنے اسلام کا اظہار کیا اس لئے قریش کے بعض سرداروں نے انھیں پکڑ کر اس قدر ان کی پٹائی کی کہ وہ لہو لہان ہوکر زمین پر بیہوش گر پڑے، وہ اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ کر چلے گئے ، ہوش میں آنے کے بعد وہ پیغمبر خدا کے حکم سے واپس اپنے قبیلہ میں چلے گئے اور بدر و احد کے غزوات کے اختتام تک وہیں مقیم رہے ۔

اس کے بعد مدینہ آئے او رآنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی رحلت کے بعد انھیں شام بھیجا گیا ، لیکن عثمان کے زمانے میں معاویہ نے ان کے بارے میں خلیفہ کے یہاں شکایت کی اور عثمان نے انھیں مکہ و مدینہ کے درمیان ”ربذہ “ نام کی ایک جگہ پر جلا وطن کردیاا ور آپ ۳۲ ھ میں وہیں پر وفات پاگئے ۔

ابوذر کی مدح و ستائش میں رسول خد ا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی بہت سی احادیث موجود ہیں من جملہ آپ نے فرمایا:

مَا اظلّت الخضراء و لا اقلّت الغبراء علی ذی لهجة اصدق من ابی ذر

آسمان اور زمین نے ابوذر جیسے راستگو شخص کو نہیں دیکھا ہے(۱)

____________________

۱۔ ابو ذر کی تشریح ، طبقات ابن سعد، ج ۴ ص ا۱۶ ۔ ۱۷۱، مسند احمد، ج ۲/ ۱۶۳و ۱۷۵، ۲۶۳، ج۵/ ۱۴۷ و ۱۵۵، ۱۵۹، ۱۶۵، ۱۶۶، ۱۷۲، ۱۷۴، ۳۵۱، ۳۵۶، و ج ۶/ ۴۴۲، اور صحیح بخاری و صحیح ترمذی اور صحیح مسلم کتاب مناقب میں ملاحظہ ہو۔

۳۴

۲ عمار بن یاسر

ان کی کنیت ابو یقظان تھی اور قبیلہ بنی ثعلبہ سے تعلق رکھتے تھے، ان کی والدہ کا نام سمیہ تھا ، ان کا بنی مخزوم کے ساتھ معاہدہ تھا۔

عمار اور ان کے والدین اسلام کے سابقین میں سے تھے ، وہ ساتویں شخص تھے جس نے اپنے اسلام قبول کرنے کا اعلان کیا ، عمار کے والد اور والدہ نے اسلام قبول کرنے کے جرم میں قریش کی طرف سے دی گئےں جسمانی اذیتوں کا تاب نہ لا کر جان دیدی ہے۔

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی طرف سے عمار کی ستائش میں کئی صحیح احادیث روایت ہوئی ہیں ، من جملہ آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا:

عمار کی سرشت ایمان سے لبریز ہے(۱) ۔

انہوں نے جنگِ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی رکاب میں شرکت کی ہے اور جمعرات ۹ صفر ۳۷ ھ کو ۹۳ سال کی عمر میں شہید ہوئے ہیں ۔(۲)

____________________

۱۔”ان عماراً ملیء ایماناً الی مشاشه

۲۔ ملاحظہ ہو : مروج الذہب ، مسعودی، ج /۲۱ ۔ ۲۲، طبعی و ابن اثیر میں حوادث سال ۳۶ ۔ ۳۷ ھ ، انساب الاشراف بلاذری، ج۵ ، ص ۴۸ ۔ ۸۸ ، طبقات ابن سعد، ج ۳، ق ۱ ، ۱۶۶۔ ۱۸۹، مسند احمد، ج ۱/ ۹۹ و ۱۲۳، ۱۲۵، ۱۳۰، ۱۳۷، ۲۰۴، اور ج ۲/ ۱۶۱ ، ۱۶۳، ۲۰۶، و ج ۳/ ۵،۲۲، ۲۸ ۔

۳۵

۳ محمد بن ابی حذیفہ

ان کی کنیت ابو القاسم تھی ۔ وہ عتبہ بن ربیعہ عبشمی کے فرزند تھے، ان کی والدہ سہلہ بنت عمرو عامریہ تھیں ، محمد بن ابی حذیفہ ، رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں حبشہ میں پیدا ہوئے ہیں ، ان کے باپ ابو حذیفہ یمامہ میں شہید ہو ئے تو عثمان نے اسے اپنے پاس رکھ کر اس کی تربیت کی ابن ابی حذیفہ کے بالغ ہونے اور عثمان کے خلافت کے عہدے پر پہنچنے کے بعد اس نے عثمان سے مصر چلے جانے کی اجازت چاہی ۔ عثمان نے بھی اجازت دیدی ، جب مصر پہنچے تو دوسروں سے زیادہ لوگوں کو عثمان کے خلاف اکسانے پر معروف ہوئے ، جب ۳۵ ھ میں عبدالله بن ابی سرح اپنی جگہ پر عقبہ بن عامرکو جانشین قرار دے کر مدینہ چلا گیا تو محمد بن ابی حذیفہ نے اس کے خلاف بغاوت کی اور عقبہ بن عامر کو مصر سے نکال باہر کیا اس طرح مصر کے لوگوں نے محمد بن ابی حذیفہ کی بیعت کی اور عبد الله بن ابی سرح کو مصر سے واپس آنے نہ دیا ، اس کے بعد محمد بن ابی حذیفہ نے عبد الرحمان بن عدیس کو چھ سو سپاہیوں کی قیادت میں عثمان سے لڑنے کیلئے مدینہ روانہ کیا ، جب حضرت علی علیہ السلام خلیفہ ہوئے تو آپ نے محمد بن ابی حذیفہ کو مصر کی حکمرانی پر بدستور برقرار رکھا ، وہ اس وقت تک مصر کے حاکم رہے جب معاویہ صفین کی طرف جاتے ہوئے محمد بن ابی حذیفہ کی طرف بڑھا، محمد مصر سے باہر آئے اور معاویہ کو ” قسطاط “ میں داخل ہونے سے روکا، آخر کا ر نوبت صلح پر پہنچی اور طے یہ پایا کہ محمد بن ابی حذیفہ تیس افراد من جملہ عبد الرحمان بن عدیس کے ہمراہ مصر سے خارج ہوجائیں او رمعاویہ کی طرف سے انھیں کسی قسم کا نقصان نہیں پہنچایا جائے گا، لیکن ان کے مصر سے خارج ہونے کے بعد معاویہ نے انھیں مکر و فریب سے گرفتار کرکے دمشق کے زندان میں مقید کر ڈالاکچھ مدت کے بعد معاویہ کے غلام ” رشدین“ نے محمد بن ابی حذیفہ کو قتل کر ڈالا ،

۳۶

محمد بن ابی حذیفہ ان افراد میں سے ایک تھے جنہیں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کےصحابی ہونے کا شرف حاصل ہوا تھا(۱)

۴ عبد الرحمان بن عدیس بلوی

وہ صاحب بیعت شجرہ تھے ۔ مصر کی فتح میں شریک تھے اور وہاں پر ایک زمین کو آبادکرکے اس کے مالک بن گئے تھے ، مصر سے عثمان کے خلاف لڑنے کیلئے روانہ ہوئے لشکر کی سرپرستی اور کمانڈری ان کے ذمہ تھی، معاویہ نے محمد بن ابی حذیفہ سے صلح کا عہد و پیمان باندھنے کے بعد مکرو فریب سے عبد الرحمان بن عدیس کو پکڑ کر فلسطین کے ایک جیل میں ڈالدیا، ۳۶ ھ میں اس نے جیل سے فرار کیا لیکن اس کو دوبارہ پکڑ کر قتل کردیاگیا(۲)

۵ محمد بن ابی بکر

ان کی والدہ کا نام اسماء تھا اور وہ عمیس خثعمیہ کی بیٹی تھی ، جعفر ابن ابیطالب کی شہادت کے بعد ان کی بیوی اسماء نے ابو بکر سے شادی کی تھی اور حجة الودادع میں مکہ اور مدینہ کے درمیان ایک جگہ

____________________

۱۔ اصابہ ، حرف میں ق ۱/ ج۳/ ۵۴، اسد الغابہ، ج ۴/ ص ۳۱۵، الاستیعاب ،ج ۳/ ۳۲۱۔۳۲۲۔

۲۔ اصابہ، ج ۴/ ۱۷۱ ق ۱، حرف عین ، استیعاب حرف عین کی طرف مراجعہ کری ں ۔

۳۷

پیدا ہوئے پھر ابوبکر کی وفات کے بعد حضرت علی علیہ السلام کی آغوش تربیت میں پروان چڑھے، اور جنگ جمل میں آنحضرت کے ہمرکاب رہے اور پیادہ لشکر کی کمانڈری بھی کی۔

حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں تلوار چلائی اور اس جنگ میں پیدل فوج کی کمانڈر تھے ۔ انہوں نے جنگ صفین میں بھی شرکت کی ہے اور اس جنگ کے بعد امیر المؤمنین کی طرف سے مصر کے گورنر مقرر ہوئے اور ۱۵ رمضان المبارک ۳۷ ھ کو مصر پہنچ گئے ،معاویہ نے ۳۸ ھ کو عمرو عاص کی سرکردگی میں مصر پر فوج کشی کی ، عمرو عاص نے مصر پر قبضہ جمانے کے بعد محمد بن ابو بکر کو گرفتار کرکے اسے قتل کر ڈالا پھران کی لاش کو ایک مردار خچر کی کھالمیں ڈال کر نذر آتش کیا(۱)

۶ صعصعہ بن سوہان عبدی

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانے میں اسلام قبول کیا ہے ، وہ فصیح تقریر کرنے والا ایک شخص تھا انہوں نے جنگ صفین میں حضرت علی علیہ السلام کی حمایت میں معاویہ سے جنگ کی ہے ، جب معاویہ نے کوفہ پر تسلط جمایا تو صعصعہ کو بحرین جلا وطن کردیااور انہوں نے وہیں پر وفات پائی(۲)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ، سال ۳۷۔۳۸ ھ کے واقعات کے ذیل میں ، اصابہ، ج ۳/۴۵۱ق، حرف میم ، استیعاب ،ج ۳/ ۳۲۸ و ۳۲۹ ملاحظہ ہو

۲۔ اصابہ، ج۳/ ۱۹۲ حرف ص ، استیعاب، ج۲/ ۱۸۹۔

۳۸

۷ مالک اشتر

انہوں نے رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو درک کیا ہے ، تابعین کے ثقات میں شمار ہوتے

تھے ، مالک اشتر اپنے قبیلے کے سردار تھے ، چونکہ یرموک کی جنگ میں ان کی آنکھ زخمی ہوگئی تھی اس لئے انہیں ” اشتر“ لقب ملا تھا ،انہوں نے جنگ جمل اور صفین میں حضرت علی علیہ السلام کے رکاب میں آپ کے دشمنوں سے جنگ لڑی اور نمایاں کامیابی حاصل کی ، ۳۸ ھ میں حضرت علی علیہ السلام نے انھیں مصر کا گورنر مقرر کیا ور وہ مصر کی طرف بڑھ گیے ، جب وہ قلزم (بحر احمر) پہنچے تو معاویہ کی ایک سازش کے تحت انھیں زہر دیا گیا جس کے نتیجہ میں وہ وفات پاگئے(۱) یہ تھا صدر اسلام کے بزرگ مسلمانوں کے ایک گروہ کے حالات کا خلاصہ لیکن افسوس کا مقام ہے کہ مؤرخین کی ایک جماعت نے انھیں ایک نامعلوم یہودی کی پیروی کرنے کی تہمت لگائی ہے ؟!!!

اب جب کہ ہمیں معلوم ہوا کہ عبد الله بن سبا کا افسانہ کیاہے ، تو اب مناسب ہے اس افسانہ کے سر چشمہ اور آغاز کی تلاش کریں تا کہ یہ معلوم ہو سکے کہ اس کو کس نے گڑھ لیا ہے اور اس کے راوی کون ہیں ۔

____________________

۱۔ استیعاب ، ابی بکر کے ترجمہ کے ذیل میں ج ۳/ ۳۲۷، اصابہ ج ۳/ ۴۶۹، اور

افسانہ عبدا للہ بن سبا کے راوی

اکثر من عشرة قرون و المؤرّخون یکتبوں هذه القصة

دس صدیو ں سے زیادہ عرصہ سے مورخین اس افسانہ کو صحیح تاریخ کے طورپر لکھتے چلے آئے ہیں ۔

” مولف“

۳۹

بارہ صدیاں گزر گئیں کہ مؤرخین ” عبدا للہ بن سبا “ کے افسانہ کو لکھتے چلے آ رہے ہیں ۔ جتنا بھی وقت گزرتا جارہاہے ، اس افسانہ کو زیادہ سے زیادہ شہرت ملتی جارہی ہے ، یہاں تک کہ آج بہت کم ایسے قلم کار دکھائی دیتے ہیں جنہوں نے اصحاب کے بارے میں قلم فرسائی کی ہو اور اپنی تحریرات میں ا س افسانہ کو لکھنا بھول گئے ہوں ! بے شک گزشتہ اور موجودہ قلم کاروں میں یہ فرق ہے کہ قدیمی مؤلفین نے اس افسانہ کو حدیث اور روایت کے روپ میں لکھا ہے اور اس افسانہ کو اپنی گڑھی ہوئی روایتوں کی صورت میں بیان کیا ہے جبکہ معاصر مؤلفین نے اس کو علمی اور تحقیقاتی رنگ سے مزین کیا ہے ۔

اس لحاظ سے اگر ہم اس موضوع کی علمی تحقیق کرنا چائیں تو ہم مجبور ہیں پہلے اس افسانہ کے سرچشمہ اور اس کے راویوں کی زندگی کے بارے میں ابتداء سے عصر حاضر تک چھان بین کریں تا کہ یہ معلوم ہوسکے کہ کن لوگوں اور کن منابع کی بنا پر اس داستان کی روایت کی گئی ہے اس کے بعد اصلی داستان پر بحث کرکے اپنا نظریہ پیش کریں ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296