منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140795 / ڈاؤنلوڈ: 6501
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

کے دعوائے نبوت کے صحیح ہونے میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ یہ سمجھے تھے کہ رسول(ص) پر یہ حالت مرض کی بنا پر طاری ہوتی ہے لہذا اس کا علاج کرایا جائے، رسول(ص) نے انہیں ایسا جواب دیا جس میں ان کے لئے سراسر بھلائی، عزت و شرف اور نجات تھی۔ فرمایا:''کلمة واحدة تقولونها تدین لکمبها العرب و تؤدی الیکم بها العجم الجزیة...'' وہ ایک بات کہہ دو جس کے ذریعہ عرب تمہارے قریب آجائیں گے اور اسی سبب غیر عرب تمہیں جزیہ دیں گے...آپ کی اس بات سے وہ ہکا بکا رہ گئے انہوں نے یہ سمجھا یہی آخری حربہ ہے ، کہنے لگے: ہاں خدا آپ کا بھلا کرے۔

آپ(ص) نے فرمایاکہہ دو:''لاالٰه الا اللّه...'' اس دو ٹوک جواب نے انہیں رسوا کر دیا چنانچہ وہ ناک بھوں چڑھاکر اٹھ گئے۔ اور کہنے لگے: ''اجعل الالٰھة الٰھاً واحداً ان ھذا لشیء عجاب '' کیا انہوں نے سارے خدائوں کو ایک خدا قرار دیدیا ہے یہ تو عجیب بات ہے ۔( ۱ )

اب قریش نے یہ طے کیا کہ وہ رسول(ص) اور ان کا اتباع کرنے والوں کی اہانت کریں گے، جن کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے ، وہ ان کی دعوت کو اپنے اندر راسخ کر رہے ہیں، چنانچہ ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپ(ص) کے دروازہ پر کانٹے ڈالدیتی تھی کیونکہ آپکا گھر اس کے گھر کے پاس ہی تھا( ۲ ) ابوجہل آپ(ص) کو پریشان کرتا تھا، آپ(ص) کو برا کہتا تھا۔ لیکن خدا ظالموںکی گھات میں ہے جب آنحضرت(ص) کے چچا جناب حمزہ کو یہ معلوم ہوا کہ ابو جہل نے رسول(ص) کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہوں نے قریش کے سربرآوردہ لوگوں کے سامنے ابو جہل کو اس کی گستاخی کا جواب دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اوران کے مجمع کو دھمکی دی کہ اب تم رسول(ص) کو پریشان کر کے دکھانا۔( ۳ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۳۰۳، تاریخ، طبری ج۲ ص ۴۰۹۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۸۰۔

۳۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۶۔

۱۰۱

کفر عقل کی بات نہیں سنتا

قریش نے یہ سوچا کہ ہم چالاکیوں کے باوجود محمد(ص) کو تبلیغ رسالت سے باز نہیں رکھ سکے، اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ لوگ اسلام کی طرف آپ(ص) کی دعوت کو قبول کر رہے ہیں تو اس وقت قریش کے سربرآوردہ افراد کے سامنے عتبہ بن ربیعہ نے یہ بات رکھی کہ میں محمد(ص) کے پاس جاتا ہوں اور انہیں دعوت اسلام سے باز رکھنے کے سلسلہ میں گفتگو کرتا ہوں۔ عتبہ آنحضرت (ص) کے پاس گیا ۔اس وقت آپ مسجد الحرام میں تنہا بیٹھے تھے، عتبہ نے پہلے تو آپ(ص) کی تعریف کی اور قریش میں جو آپ(ص) کی قدر و منزلت تھی اسے سراہا پھر آپ(ص) کے سامنے اپنا مدعابیان کیا نبی(ص) خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔ عتبہ نے کہا: بھتیجے اگر تم اس طرح (نئے دین کی تبلیغ کے ذریعہ) مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیں گے کہ ہم میں سے اتنا مال کسی کے پاس نہ ہوگا اور اگر اس سے تمہارا مقصد عزت و شرف حاصل کرنا ہے تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور تمہارے کسی حکم کی مخالفت نہیں کریں گے اور اگرتمہیں بادشاہت چاہئے تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور اگرتم کوئی ایسی چیز دکھائی دیتی ہے کہ جس سے خودکو نہیں بچا سکتے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے تمہاراعلاج کرادیں یہاں تک کہ تم اس سے شفاپا جائو۔ جب عتبہ کی بات ختم ہو گئی تو رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو ولید! کیاتمہاری بات پوری ہو گئی؟ اس نے کہا: ہاں! آپ(ص) نے فرمایا تو اب میری سنو! پھر آپ(ص) نے خدا وند عالم کے اس قول کی تلاوت کی:

( حم تنزیل من الرحمن الرحیم ، کتاب فصّلت آیاته قراناً عربیاً لقوم یعلمون،بشیراً و نذیراً فاعرض اکثرهم فهم لا یسمعون، قالوا قلوبنا فی اکنّة مما تدعوننا الیه ) ( ۱ )

حم۔ یہ رحمن رحیم خدا کی نازل کی ہوئی ہے ۔ اس کتاب کی آیتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں یہ سمجھنے والی قوم کے لئے عربی کا قرآن ہے ۔ اس قرآن کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر نازل کیا گیا ہے لیکن اکثریت نے اس سے رو گردانی کی ہے۔ کیا وہ کچھ سنتے ہی نہیں ہیں اور کہتے ہیںکہ ہمارے دل ان

____________________

۱۔ فصلت ۴۱ آیت ۱ تا ۵۔

۱۰۲

باتوں سے پردے میں ہیں جن کی تم دعوت دے رہے ہو۔

رسول(ص) آیتیں پڑھتے رہے عتبہ سنتا رہا اس نے اپنے ہاتھ پشت کی طرف کئے اور ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا، سجدہ کی آیت آئی تو رسول (ص) نے سجدہ کیا پھر فرمایا: اے ابو ولید جو تم نے سنا سو سنا اب تم جانو۔

عتبہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی قوم کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: خدا کی قسم !میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک ایسا کلام نہیں سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ وہ کلام نہ شعر ہے ۔ نہ سحر ہے اور نہ کہانت ہے ۔ اے قریش والو! میری پیروی کرو اور اسے میرے اوپر چھوڑ دو اور اس کی تبلیغ رسالت اور اس شخص کو درگذر کرو۔

لیکن یہ مردہ دل لوگ اس بات کو کہاں قبول کرنے والے تھے۔ کہنے لگے اے ابو ولید خدا کی قسم! محمد(ص) نے تم پر اپنی زبان سے جادو کر دیا ہے ۔ عتبہ نے کہا: ان کے بارے میں یہ میری رائے ہے اب تم جو چاہو کرو۔( ۱ )

سحر کی تہمت

قریش نے اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے اور تبلیغ رسالت سے ٹکرانے والے اپنے محاذ کو محفوظ رکھنے اور لوگوں میں رسول(ص) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کا منصوبہ اس وقت بنایا جبکہ حج کا زمانہ قریب تھا۔ قریش نے ایسا حربہ استعمال کرنے کے بارے میں غور کیا کہ جس سے ان کی بت پرستی بھی متاثر نہ ہو اور رسول(ص) کے کردار کو - معاذ اللہ-داغدار بنا دیا جائے لہذا وہ سن رسیدہ و جہاں دیدہ ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے لیکن ان کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہو گیا کہ رسول(ص) پر کیا تہمت لگائی جائے کسی نے کہا: کاہن کہا جائے ، کسی نے کہا: مجنون کہا جائے کسی نے کہا: شاعرکہا جائے کسی نے کہا جادوگر کسی نے کہا: وسوسہ کا مریض کہا جائے جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو انہوں نے ولید سے مشورہ کیا اس نے کہا:

خدا کی قسم! ان کے کلام میں چاشنی و شیرینی ہے ۔ ان کے کلام کی اصل مٹھاس اور اس کی فرع چنے ہوئے پھل کی مانند ہے اور ان چیزوں کو تم بھی تسلیم کرتے ہو تہمتوں سے بہتر ہے کہ تم یہ کہو کہ وہ ساحر و جادوگرہیں،

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۹۳۔

۱۰۳

ان کے پاس ایسا جادو ہے کہ جس سے یہ باپ بیٹے میں، بھای بھائی اور میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے ہیں ۔ ولید کی یہ بات سن کر قریش وہاں سے چلے گئے اور لوگوں کے درمیان اس ناروا تہمت کا پروپیگنڈہ کرنے لگے۔( ۱ )

اذیت و آزار

رسول(ص) اور حق کے طرف داروں کوتبلیغ رسالت سے روکنے میں کفار و مشرکین اسی طرح ناکام رہے جیسے ان کی عقلیں توحید اور ایمان کو سمجھنے میں ناکام رہی تھیں، تبلیغ رسالت کو روکنے میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی لیکن انہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد (ص) کی رسالت پر عقیدہ رکھنے والوں کو اذیت و آزار پہنچائیں اور سنگدلانہ موقف اختیار کریں چنانچہ ہر قبیلہ نے ان لوگوں کو دل کھول کر ستانا شروع کر دیا جولوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ انہیں قید کر دیا، زد و کوب کیا، نہ کھانا دیا نہ پانی ، ان کی یہ کوشش اس لئے تھی تاکہ مسلمان اپنے دین اور خدا کی رسالت کا انکار کر دیں۔

امیہ بن خلف ٹھیک دو پہر کے وقت جناب بلال کو مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا ہے تاکہ انہیں عبرت آموز سزادے سکے۔ عمر بن خطاب نے اپنی کنیز کو اس لئے زد و کوب کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسے مارتے مارتے عاجز ہو گئے تو کہنے لگے میں نے تجھے اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ میں تھک گیا ہوں۔ قبیلہ مخزوم عمار یاسر اور ان کے ماں، باپ کو مکہ کی شدید گرمی میں کھینچ لائے، ادھر سے رسول(ص) کا گزر ہوا تو فرمایا:صبراً آل یاسر موعدکم الجنة ۔ یاسر کے خاندان والو! صبر سے کام لو تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے ان لوگوں نے ان مظلوموں کو اتنی سخت سزا دی کہ جناب عمار کی والدہ سمیہ شہید ہو گئیں( ۲ ) ، عالم اسلام میں یہ پہلی شہید عورت تھیں ۔

اگر ہم رسول(ص)، رسالت اور پیروانِ رسول(ص) سے قریش کے ٹکرانے کے عام طریقوں کو بیان کرناچاہیں تو خلاصہ کے طور پر انہیں اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷و ص ۳۲۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷ تا ص ۳۲۰ ۔

۱۰۴

۱۔ نبی(ص) کا مضحکہ اڑانا اور لوگوں کی نظر میں آپ(ص) کی شان گھٹانا ان کے لئے آسان طریقہ تھا اس کام میں ولید بن مغیرہ-خالد کا باپ-عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ اور ابو جہل پیش پیش تھے لیکن خدا ئی طاقت نے ان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ قرآن کہتا ہے:

( انا کفیناک المستهزئین (۱) ولقد استهزیٔ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا منهم ما کانوا به یستهزئون ) ( ۲ )

آپ(ص) کا مذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔ آپ(ص) سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے ، نتیجہ میں وہ مذاق، مذاق اڑانے والوں ہی کے گلے پڑ گیا۔

۲۔ نبی(ص) کی اہانت، تاکہ آپ(ص) کمزور ہو جائیں، روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مرتبہ آپ پر گندگی اور کوڑا ڈالدیا اس پر آپ(ص) کے چچا جناب ابوطالب کو بہت غصہ آیا اور قریش کو ان کی اس حرکت کا جواب دیا اور ابو جہل کی حرکت کا جواب جناب حمزہ بن عبد المطلب نے دیا۔

۳۔ آپ(ص) کو اپنا بادشاہ وہ سردار بنانے اور آپ(ص) کو کافی مال و دولت دینے کی پیشکش کی۔

۴۔ جھوٹی تہمتیں لگائیں:

جھوٹا، جادوگر مجنون اور شاعر و کاہن کہا۔ ان تمام باتوں کو قرآن نے بیان کیا ہے ۔

۵۔ قرآن مجید میں شک کیا، رسول(ص) پر یہ تہمت لگائی کہ آپ(ص) خدا پر بہتان باندھتے ہیںکہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے تو قرآن نے انہیں چیلنج کیا کہ اس کا جواب لے آئو۔ واضح رہے کہ رسول(ص) نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہیں کے درمیان گزارا تھا۔ قریش نے جن چیزوں کی نسبت آپ کی طرف دی تھی وہ آپ(ص) میں دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔

۶۔ آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے والے مومنوں کو ستانا اور قتل کرنا۔

۷۔ اقتصادی و سماجی بائیکاٹ۔

____________________

۱۔ حجر: ۹۵۔

۲۔حجر: ۹۴ و ۹۵۔

۱۰۵

۸۔ رسالتمآب(ص) کے قتل کا منصوبہ( ۱ )

نبی (ص) نے وہ طریقہ اختیار فرمایا جس سے رسالت اور اس کے مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی۔

حبشہ کی طرف ہجرت

علیٰ الاعلان تبلیغ رسالت کے دو سال بعد رسول(ص) نے یہ محسوس فرمایا کہ آپ(ص) مسلمانوں کو ان مصائب و آلام سے نہیں بچا سکتے جو قریش کے سرکش اور بت پرستوں کے سرداروں کی طرف سے ڈھائے جاتے ہیں۔

مستضعف و کمزور مسلمانوں کے حق میں مشرکین اور ان کے سرداروںکا رویہ بہت سخت ہو گیا تھا لہذا رسول(ص) نے ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ حبشہ چلے جائو۔

ظلم سے کچلے ہوئے مسلمانوں کو آپ سکون و آرام حاصل کرنے کی غرض سے حبشہ بھیجنا چاہتے تھے تاکہ واپس آنے کے بعد وہ اسلامی رسالت و تبلیغ میں سرگرم ہو جائیں یا جزیرہ نما عرب سے باہر قریش پردبائو ڈالیں اور ان سے جنگ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ قائم کریں ، اور ممکن ہے اس زمانہ میںخدا کوئی دوسری صورت پیدا کر دے۔ رسول(ص) نے ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر دی تھی حبشہ کا بادشاہ عادل ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا قبول کر لیا چنانچہ ان میں سے بعض لوگ خفیہ طریقہ سے ساحل کی طرف روانہ ہو گئے قریش نے ان کا تعاقب کیا لیکن وہ سمندر پا رجا چکے تھے؛ اس کے بعد بھی مسلمان تنہا یا اپنے خاندان کے ساتھ حبشہ جاتے رہے یہاں تک کہ حبشہ میں ان کی تعداد بچوں سے قطع نظر اسّی سے زیادہ ہو گئی، لہذا رسول(ص) نے جعفر بن ابی طالب کو ان کا امیر مقرر کر دیا۔( ۲ )

حبشہ کو ہجرت کے لئے منتخب کرنا یقینا رسول(ص) کے قائدانہ اقدامات میں سے بہترین اقدام تھا۔ رسول(ص) سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آپ(ص) نے حبشہ کے بادشاہ کی تعریف کی ہے ۔ پھر وہاں کا سفر کشتیوں کے ذریعہ ہو گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نصرانیت سے اچھے مذہبی روابط استوارکرنا چاہتا ہے۔

____________________

۱۔ انفال:۳۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۲۱، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۹، بحار الانوار ج۱۸ ص ۴۱۲۔

۱۰۶

مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے سے قریش کو بہت دکھ ہوا، ہجرت کے نتیجہ سے انہیں خوف لاحق ہوا انہوں نے یہ خیال کیا کہ اسلامی تبلیغ کرنے والوں کو کہیں وہاں امان نہ مل جائے لہذا قریش نے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا اور نجاشی کے لئے ان کے ہاتھ تحفے بھیجے، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ نجاشی انہیں اپنے ملک سے نکال دے اور ان کے سپرد کر دے قریش کے ان دونوں نمائندوں نے نجاشی کے بعض سپہ سالاروں سے بھی ملاقات کی اور ان سے رسم و راہ پیدا کی اور ان سے یہ گزارش کی کہ مسلمانوں کو واپس لو ٹانے میں آپ لوگ ہماری مدد کر یں چنانچہ انہوں نے بھی ان کی سفارش کی مگر نجاشی نے ان کے مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب تک میں تمہاری اس تہمت کے بارے میں خود مسلمانوںسے یہ معلوم نہیں کرلونگاگا کہ انہوں نے کیسا نیا دین بنا لیا ہے اس وقت تک انہیں واپس نہیں لوٹا ئوںگا۔

مسلمانوں کی بادشاہ سے اس ملاقات میں خدا کی رحمت ان کے شامل حال رہی جعفر بن ابی طالب نے ایسے دلچسپ انداز میں دین کے بارے میں گفتگو کی کہ جو نجاشی کے دل میں اتر گئی اس کے نتیجہ میں وہ مسلمانوں کی اور زیادہ حمایت کرنے لگا۔ جعفر بن ابی طالب کی یہ گفتگو قریش کے نمائندوں کے سروں پر بجلی بن کر گری۔ ان کے تحفے بھی ان کے کسی کام نہ آ سکے اپنے موقف میں نجاشی کے سامنے ذلیل ہو گئے اور مسلمان اپنے مسلک و موقف میں سرخ رو اور سربلند ہو گئے ان کی حجّت مضبوط تھی جس سے اس تربیت کی عظمت کا پتہ چلتا تھا جو رسول(ص) نے انسان کو فکر و اعتقاد اور کردار کے لحاظ سے بلند کرنے کے لئے کی تھی چنانچہ جب قریش کے وفد نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظر یہ بیان کرکے فتنہ بھڑکانے کی کوشش کی تو اس کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ جب نجاشی نے جعفر بن ابی طالب سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظریہ معلوم کیا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ کے متعلق قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی نجاشی نے ان آیتوں کو سن کر کہا: جائو تم لوگ امان میں ہو۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۳۵، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۹۔

۱۰۷

جب قریش کا وفدناکام حبشہ سے واپس لوٹ آیا تو انہیں اپنی کوششوں کے رائیگاں جانے کا یقین ہو گیا اب انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کا کھانا پانی بند کر دیں گے اور اجتماعی امور میں ان کا بائیکاٹ کریں گے اس سے ابو طالب اور بنی ہاشم نبی (ص) کی امداد سے دست بردار ہو جائیںگے۔

مقاطعہ اور بنی ہاشم

جب ابو طالب نے قریش کی ہر پیشکش کو مسترد کر دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ میں رسول(ص) کی حمایت کر ونگا چاہے انجام کچھ بھی ہو تو قریش نے ایک دستاویز لکھی جس میں بنی ہاشم کے ساتھ خرید و فروخت، نشست و برخاست اور بیاہ شادی نہ کی جانے کی بات تھی۔

یہ دستاویز قریش کے چالیس سرداروں کی طرف سے تحریر کی گئی تھی۔

جناب ابو طالب اپنے بھتیجے، بنی ہاشم اور اولادِ مطلب کو لے کر غار میں جانے پر تیار ہو گئے اور فرمایا: جب تک ہم میں سے ایک بھی زندہ ہے اس وقت تک رسول(ص) پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ابو لہب قریش کے پاس چلا گیا اور اولاد مطلب کے خلاف ان کی مدد کی ان لوگوں میں سے ہر ایک غار میں داخل ہو گیا خواہ وہ مومن تھا یا کافر۔( ۱ )

اس زمانہ میں اگر کوئی شخص ترس کھا کر عصبیت کی بنا پر بنی ہاشم کی مدد کرنا چاہتا تھا تو وہ قریش سے چھپا کر ہی کوئی چیز ان تک پہنچا تا تھا۔ اس زمانہ میں بنی ہاشم اور رسول(ص) نے بہت سختی برداشت کی ، بھوک ، تنہائی اور نفسیاتی جنگ جیسی تکلیف دہ سختیاں تھیں خدا نے قریش کی اس دستاویز پرجس کو انہوں نے خانہ کعبہ میں لٹکا رکھا تھا دیمک کو مسلط کر دیا چنانچہ دیمک نے باسمک اللھم کو چھوڑ کر ساری عبارت کو کھا لیا۔

خدا نے اپنے نبی (ص) کو خبر دی کہ دستاویز کو دیمک نے کھا لیا، رسول(ص) نے اپنے چچا ابو طالب سے بتایا۔ جناب ابو طالب رسول(ص) کو لیکر مسجد الحرام میں آئے قریش نے انہیں دیکھ کر یہ خیال کیا کہ ابو طالب اب

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۵۰، اعیان الشیعہ ج۱ ص ۲۳۵۔

۱۰۸

رسالت کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں لہذا اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کرنے کے لئے آ رہے ہیں، لیکن ابو طالب نے ان سے فرمایا: میرے اس بھتیجے نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ خدا نے تمہاری دستاویز پر دیمک کو مسلط کر دیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ ساری دستاویز کو کھا لیا ہے اگر یہ قول سچا ہے تو تم اپنے غلط فیصلہ سے دست بردار ہو جائو اور اگر یہ (معاذ اللہ) جھوٹا ہے تو میں اسے تمہارے سپرد کر دونگا....انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ انہوں نے دستاویز کو کھولا تو اسے ویسا ہی پایا جیسا کہ رسول(ص) نے خبر دی تھی شرم و حیا سے ان کے سر جھک گئے۔( ۱ )

یہ بھی روایت ہے کہ قریش میں سے کچھ بزرگوں اور نوجوانوں نے بنی ہاشم سے اس قطع تعلقی پر ان کی مذمت کی اور غارمیں ان پر گزرنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دینے اور بائیکاٹ کو ختم کرنے کا عہد کیا انہوںنے اس دستاویز کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسے دیمک نے کھا لیا ہے۔( ۲ )

عام الحزن

بعثت کے دسویں سال قریش شعب ابی طالب سے باہر آئے اب وہ اور زیادہ سخت ، تجربہ سے مالا مال اور اپنے اس مقصد کی طرف بڑھنے میں اور زیادہ سخت ہو گئے تھے کہ جس کو انہوں نے جان سے عزیز سمجھ رکھا تھا اور یہ طے کر رکھا تھا کہ ہر مشکل سے گزر جائیں گے لیکن اس مقصد کو نہیں چھوڑ یں گے۔ اس اقتصادی پابندی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت شہرت ملی، اسلام جزیرہ نما عرب کے گوشہ گوشہ میں مشہور ہو گیا، رسول(ص) کے سامنے بہت سی دشواریاں تھیں ان میں سے ایک یہ بھی دشواری تھی کہ مکہ سے باہر دوسرے علاقوں میں اپنے مقاصد کو سمجھایا جائے ،اور دوسرے علاقوں میں محفوظ مراکز قائم کئے جائیں تاکہ وہاںسے اسلام کی تحریک آگے بڑھ سکے۔

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۲۱، طبقات ابن سعد ج۱ ص ۱۷۳، سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۷۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص۳۷۵ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۳۔

۱۰۹

جب ابو طالب کا انتقال ہو گیا تومکہ میں اسلام کی تبلیغ کی راہ میں بہت زیادہ دشوار یاں پیش آئیں کیونکہ رسول(ص) اور رسالت کا طاقتور محافظ اور رسالت کا وہ نگہبان اٹھ گیا تھا جس کی اجتماعی حیثیت تھی ان کے بعد رسول(ص) کا سہارا ام المومنین جناب خدیجہ تھیں ان کابھی انتقال ہوگیا چونکہ ان دونوں حوادث کی وجہ سے تبلیغ کی راہ شدید طور پر متاثر ہوئی تھی لہذا رسول(ص) نے اس سال کا نام''عام الحزن'' یعنی غم کا سال رکھا۔

''مازالت قریش کاعة منی حتی مات ابو طالب'' ( ۱ )

جب تک ابو طالب زندہ تھے قریش میرے قریب نہیں آتے تھے۔

رسول(ص) کے خلاف قریش کی جرأت اس وقت سے زیادہ بڑھ گئی تھی جب قریش میں سے کسی نے رسول(ص) کے سر پر اثنائے راہ میں خاک ڈال دی تھی۔ جناب فاطمہ(ص) نے روتے ہوئے اس مٹی کو صاف کیا۔ آنحضرت (ص)نے فرمایا:

''یا بنیة لا تبکی فان الله مانع اباک'' ( ۱ )

بیٹی رؤئو نہیں بیشک خدا تمہارے باپ کی حفاظت کرے گا۔

معراج

اسی عہد میں رسول(ص) کو معراج ہوئی تاکہ رسول(ص) مقاومت کے طویل راستہ کو طے کر سکیں اور آپ(ص) کی گذشتہ محنت و ثابت قدمی کی قدر کی جاسکے اور شرک و ضلالت کی طاقتوں کی طرف سے جو آپ(ص) نے تکلیفیں اٹھائی تھیں ان کا بھی مداویٰ ہو جائے۔ لہذا خدا آپ(ص) کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گیا تاکہ آپ(ص) کو وسیع کائنات میں اپنے ملک کی عظمت دکھائے اور اپنی خلقت کے اسرار سے آگاہ کرے اور نیک و بد انسان کی سر گذشت سے مطلع کرے۔

یہ رسول(ص) کے اصحاب کا امتحان بھی تھا کہ وہ اس تصور و نظریہ کو کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کہ جس کے

____________________

۱۔ کشف الغمہ ج۱ ص ۶۱، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۲۔

۱۱۰

تحت و اپنے رسول(ص) وقائد کے دوش بدوش ہو کر اس لئے لڑ رہے ہیں تاکہ پیغامِ خدا لوگوں تک پہنچ جائے اور صالح و نیک انسان وجود میں آجائے یقینا یہ آپ(ص) کے ان اصحاب کے لئے سخت امتحان تھا جن کے نفس کمزور تھے۔

قریش معراج کے بلند معنی و مفہوم کو نہیں سمجھ سکے چنانچہ جب رسول(ص) نے انہیں معراج کا واقعہ بتایا تو وہ معراج کی مادی صورت ، اس کے ممکن ہونے اور اس کی دلیلوں کے بارے میں سوال کرنے لگے کسی نے کہا: قافلہ ایک مہینے میں شام سے لو ٹتا ہے اور ایک مہینہ میں شام جاتا ہے ۔ اور محمد ایک رات میں گئے بھی اور لوٹ بھی آئے؟! رسول(ص) نے ان کے سامنے مسجد اقصی کی تعریف و توصیف بیان کی اور یہ بتایا کہ آپ(ص) کا گزر ایک قافلہ والوں کی طرف سے ہوا جو اپنے گمشدہ اونٹ کو ڈھونڈ رہے تھے ان کے سامان سفر میں پانی کا ظرف تھا جو کھلا تھا آپ(ص) نے اسے ڈھانک دیا۔

انہوں نے دوسرے قافلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: میں اس کے پاس سے تنعیم میں گذرا تھا، آپ(ص) نے انہیں اس قافلہ کے اسباب اور ہیئت کے بارے میں بھی بتایا، نیز فرمایا: تمہاری طرف ایک قافلہ آ رہا ہے جو صبح تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جس چیز کی آپ(ص) نے خبر دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۱۶، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۹۶۔

۱۱۱

چوتھی فصل

کشائش و خوشحالی ہجرت تک

طائف والوں نے اسلامی رسالت کو قبول نہیں کیا( ۱ )

رسول(ص) کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اب قریش کی ایذا رسانیوں میں روز بروز اضافہ ہوگا اور رسالت کو ختم کرنے کے لئے مشرکین کی کوششیں موقوف نہیں ہوںگی۔ ابو طالب کی رحلت سے آپ کا امن و امان ختم ہو چکا تھا دوسری طرف اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت وسیع پیمانہ پر ہونا چاہئے تھی ۔ جس وقت رسول(ص)، اسلام کے مبلغین کی تربیت کر رہے تھے اسی وقت ایک ایسا مرکز قائم کرنے کے لئے بھی غور کر رہے تھے کہ جس میں استقلال و خود مختاری کے نقوش واضح ہوں اور معاشرہ کا نظام ایسا ہو کہ جس میں فرد اپنی زندگی بھی گزارے اور خدا کے ساتھ اپنی صنف کے دوسرے افراد سے بھی اس کا رابطہ رہے تاکہ رفتہ رفتہ آسمانی قوانین کے مطابق اسلامی و انسانی تہذیب قائم ہو جائے۔ اس مرکز کی تشکیل کے لئے آپ(ص) کی نظر طائف پر پڑی جہاں قریش کے بعد عرب کاسب سے بڑا قبیلہ ''ثقیف'' آباد تھا۔ جب آپ(ص) تنہا، یا زید بن حارثہ یا علی بن ابی طالب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے( ۲ ) اور قبیلۂ ثقیف کے بعض شرفاء و سرداروں سے گفتگو کی اور انہیں خدا کی طرف بلایا اور ان کے سامنے وہ چیز بیان کی جس کے لئے آپ (ص) کو نبی (ص) بنا کر بھیجا گیا تھا کہ آپ(ص) کی تبلیغ میں وہ مدد کریں اور آپ(ص) کو قریش وغیرہ سے بچائیں توانہوں نے آپ(ص) کی یہ بات تسلیم نہ کی

____________________

۱۔ آپ(ص) نے بعثت کے دسویں سال طائف کا سفر کیا تھا۔

۲۔نہج بلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۴ ص ۲۷ ۱ ص ج۱۴ ص ۹۷۔

۱۱۲

بلکہ آپ(ص) کا مذاق اڑاتے ہوئے ان میں سے کسی نے کہا: اگر خدا نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں خانہ کعبہ کا پردہ پھاڑ ڈالوںگا دو سرے نے کہا: اگرآپ خدا کی طرف سے رسول(ص) ہیں تو میں آپ سے ہرگز کلام نہیں کروںگا کیونکہ اس صورت میں آپ کی بات کا جواب دینا خطرہ سے خالی نہیں ہے ہاں اگر آپ(ص) نے خدا پر بہتان باندھا ہے تو میرے لئے ضروری نہیں کہ آپ(ص) سے گفتگو کروں تیسرے نے کہا: کیا خدااس سے عاجز تھا کہ تمہارے علاوہ کسی اور کو بھیج دیتا۔( ۱ )

اس سوکھے اور سپاٹ جواب کو سن کر رسول(ص) ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے یہ کہا: تمہارے اور میرے درمیان جو بھی گفتگو ہوئی ہے اس کو کسی اور سے بیان نہ کرنا کیونکہ آپ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ واقعہ قریش کو معلوم ہواورآپ(ص) کے خلاف ان کی جرأت بڑھ جائے ۔ لیکن ثقیف کے سرداروں نے آپ(ص) کی اس بات کو قبول نہ کیا بلکہ اپ(ص) کے خلاف اپنے لڑکوں اور غلاموں کو اکسایا تو وہ آپ(ص) کوبر بھلا کہنے لگے آپ(ص) کو ڈھیلے پتھر مارنے لگے، آپ(ص) کے پیچھے شور مچانے لگے۔ ان لوگوں نے اتنا پتھرائو کیا تھا کہ آپ کا جو قدم بھی پڑتا تھا وہ پتھر پر پڑتا تھا۔ بہت سے تماشائی اکھٹا ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے آپ(ص) کو ربیعہ کے بیٹوں، عتبہ و شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، وہ دونوں باغ میں موجود تھے، انہوں نے ان لوگوں کو بھگایا، آپ کے دو نوںپیروں سے خون بہہ رہا تھا آپ انگور کی بیل کے سایہ میں بیٹھ گئے اور اس طرح شکوہ کیا:

''الّلهم الیک اشکو ضعف قوّتی و قلّة حیلت و هوان علیٰ الناس یا ارحم الرحمین انت رب المستضعفین و انت رب الیٰ من تکلن؟ الیٰ بعید یتجهمن ام الیٰ عدو ملکته امری؟ ان لم یکن بک غضب علّ فلا ابال ولکن عافیتک هی اوسع''

اے اللہ! میں اپنی ناتوانی، بے سرو سامانی اور اپنے تئیں لوگوں کی اہانت کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں،اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے! عاجز و در ماندہ لوگوں کا مالک تو ہی ہے ۔ میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس پر چھوڑا ہے کیا اس بندے پر جو مجھ پر تیوری چڑھائے؟ یا اس دشمن پر جو میرے کام پر

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶ و ۱۷ اور ص ۲۲، اعلام الوریٰ ج۱ ص ۱۳۳۔

۱۱۳

پردسترسی رکھتا ہے؟ لیکن جب مجھ پرتیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ تیری عطا کی ہوئی عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے ۔

رسول(ص) ابھی خدا کی بارگاہ میں اسی طرح شکوہ کناںتھے کہ ایک نصرانی آپ(ص) کی طرف متوجہ ہوا اس نے آپ میں نبوت کی علامتیں دیکھیں۔( ۱ )

جب رسول(ص) قبیلۂ ثقیف کی نجات و بھلائی سے مایوس ہو کر طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹ رہے تھے اس وقت آپ کو اس بات پر بہت افسوس تھا کہ کسی نے بھی ان کی بات نہ مانی، مکہ و طائف کے درمیان آپ نخلہ میں ٹھہرے، رات میں جب نماز میں مشغول تھے، اس وقت آپ کے پاس سے جناتوں کا گذرہوا، انہوں نے قرآن سنا آپ نماز پڑھ چکے تو وہ اپنی قوم میں واپس آئے وہ خود رسول(ص) پر ایمان لا چکے تھے اب انہوں نے اپنی قوم والوں کو ڈرایا، خداوند عالم نے ان کے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

( واذا صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن...و یجرکم من عذاب الیم ) ( ۲ )

اور جب ہم نے جنوںمیں سے ایک گروہ کو آپ کی طرف پلٹایا تاکہ وہ غور سے قرآن سنیں لہذا جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ہو گی تو فوراً اپنی قوم کی طرف پلٹ کر ڈرانے والے بن کر آگئے ،کہنے لگے اے قوم والو! ہم نے آیات کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنی سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور حق و انصاف اور سیدھے راستے کی جانب ہدایت کرنے والی ہے ،قوم والو! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آئو تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے ۔

____________________

۱۔طبری ج۲ ص ۴۲۶، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۲۷، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۶، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰۔

۲۔طبری ج۲ ص ۳۴۶، سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۶۳، الطبقات الکبریٰ ص ۳۱۲، ملاحظہ ہو سورۂ احقاف: ۲۹ تا ۳۱۔

۱۱۴

مکہ میں راہ رسالت میں رکاوٹیں

رسول(ص) کی تحریک ایک ترقی پذیر و تعمیری جہاد تھا۔ آپ کا قول و فعل اورحسن معاشرت؛ فطرت سلیم اور بلند اخلاق کا پتہ دیتا تھا آپ نفوس میں حق کو اجاگر کرتے تھے تاکہ انہیں زندہ کر سکیں اور انہیں فضائل کی طرف بلاتے تھے تاکہ بشریت ان سے آراستہ ہو سکے یہی وجہ ہے کہ قریش کی ایذا رسانیوں ،ان کی سنگدلی اور طائف والوں کے ظلم و ستم کے باوجود رسول(ص) مایوس نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دیتے رہے۔ خصوصاً عمرہ وحج کے زمانہ میں کیونکہ اس وقت تبلیغ کا بہترین موقعہ ملتا تھاآپ قبائل کی قیام گاہ پر جاتے اور ان سب کو دینِ خدا قبول کرنے کی دعوت دیتے اور فرماتے تھے:

''یا بنی فلان انی رسول الله الیکم یا مرکم ان تتعبدوا الیه ولا تشرکوا به شیئاً و ان تومنوا بی و تصدقونی و تمنعونی حتی ابین عن الله ما بعثنی به'' ۔( ۱ )

اے فلاں خاندان والو! مجھے تمہاری طرف رسول(ص) بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ خدا تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو، میرے اوپر ایمان لائو، میری تصدیق کرو اور میری حفاظت کرتے رہو یہاں تک کہ میں تمہارے سامنے اس چیز کو کھول کر بیان کر دوں جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔

رسول(ص) نے قبیلوں سے ملاقات کرنے کا سلسلہ جاری رکھا بعض نے سنگدلی سے آپ کی دعوت کو رد کر دیا اور بعض نے معذرت کر لی ،کچھ لوگوں کے اندر آپ(ص) نے اسلام کی طرف سیاسی رجحان پایا وہ اسلام کے ذریعہ حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اسی کے مطابق کوشش کرنا شروع کی لیکن رسول(ص) نے سختی سے ان کو ٹھکرا دیا اور انہیں موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا رسول(ص) نے فرمایا:''الامر الیٰ اللّٰه یضعه حیث یشاء'' یہ معاملہ خدا کے ہاتھ ہے وہ جہاں چاہتا ہے قرار دیتا ہے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۹، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۴ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۱۔

۱۱۵

اکثر ابو لہب رسول(ص) کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ(ص) کی متابعت کرنے سے منع کرتا تھا اور کہتا تھا: اے فلاں خاندان والو! یہ تو بس تمہیں لات و عزی کو ٹھکرانے اور بدعت و ضلالت کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے پس تم اس کی اطاعت نہ کرنا اور اس کی بات نہ سننا۔( ۱ )

دوسری طرف ام جمیل عورتوں کے بیچ میں کھڑی ہوتی اور رسول(ص) اور آپ(ص) کی تبلیغ کا مذاق اڑاتی تاکہ عورتیں آپ(ص) کی متابعت نہ کریں۔

نبی(ص) قبائل کو اسلامی رسالت کے ذریعہ مطمئن نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قریش کو دوسرے قبائل کے درمیان دینی اعتبار سے فوقیت حاصل تھی اور خانۂ کعبہ کی خدمت و دربانی بھی قریش ہی کے پاس تھی اور جزیرہ نما عرب کی تجارت و اقتصاد کا مرکزبھی مکہ ہی تھاپھر جن قبائل کو رسول(ص) نے اسلام کی دعوت دی تھی قریش سے ان کے تعلقات اور معاہدے بھی تھے ان کے لئے ان معاہدوں اور پابندیوںکو توڑنا بہت مشکل تھا۔ پس اسلام قبول کرنے میں لوگوں کا متردد ہونا یقینی تھا اس کے باوجود قریش کو رسول(ص) کی تحریک اور آپ کی تبلیغ رسالت سے خوف لاحق تھا لہذا انہوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ ممکن ہے بت پرستوں کی عقلیں اس کو قبول کر لیں انہوں نے بالاتفاق لوگوں کے درمیان یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کیاکہ محمد اپنے بیان کے ذریعہ جادو کر دیتا ہے اور مرد سے عورت کو بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتا ہے لیکن جب لوگ رسول(ص) سے ملاقات کرتے اور ان پر رسول(ص) و رسالت کی عظمت آشکار ہوتی تھی تو قریش کا یہ پروپیگنڈہ ناکام ثابت ہوتا تھا۔( ۱ )

عقبۂ اولیٰ کی بیعت

تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا بلکہ آپ (ص)مکہ میں آنے والے ہر اس شخص کو دعوت اسلام دیتے تھے جس میں بھلائی و بہتری دیکھتے یا اس کا اثر و نفوذ محسوس کرتے تھے۔ مدینہ میں دو قوی ترین قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان مدتوں سے سیاسی و فوجی معرکہ آرائی چلی آ رہی تھی یہود اپنی خباثت و مکاری سے اس ماحول میں ان کی جنگ کو مستقل ہوا دیتے تھے تاکہ اسلامی قانون کا نفاذ نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۷۰۔

۱۱۶

یثرب سے جو لوگ حلیف بنا کراپنی طاقت بڑھانے کے لئے مکہ آتے تھے ان میں سے بعض سے رسول(ص) نے ملاقات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے رسالت کا اثر اور نبوّت کی صداقت ان کے نفوس میں جا گزیں ہو گئی۔ ایک ملاقات میں رسول(ص) نے بنی عفراء کی ایک جماعت سے گفتگو کی یہ جماعت خزرج سے منسوب تھی ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کے ایک حصہ کی تلاوت کی تو ان کی آنکھوں اور دلوں میں مزید آیتوں کے سننے کا اشتیاق پایا...رسول(ص) کی گفتگو سے وہ سمجھ گئے کہ یہ وہی نبی(ص) ہے کہ جس کا ذکر یہود ،مشرکین سے نزاع کے وقت انہیں ڈرانے کے لئے کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ایک نبی کی بعثت ہو گی اور اس کا زمانہ قریب ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اورپھر ہم تمہیں ارم و عاد والوں کی طرح قتل کریں گے۔( ۱ )

ان چھہ اشخاص نے اسی وقت اپنے اسلام کا اعلان کر دیا،رسول(ص) کی خدمت میںعرض کی: ہم نے اپنی قوم کو اس حال میں چھوڑ ا ہے کہ کسی قوم میں اتنی عداوت و دشمنی نہیں ہے جتنی ان کے درمیان ہے امید ہے کہ خدا آپ(ص) کے ذریعہ ان کے درمیان صلح کرادے۔ ہم ان کے سامنے اسلام پیش کریں گے اور انہیں آپ(ص) کے دین کی طرف بلائیں گے اس دین کی طرف جو آپ(ص) نے ہم سے قبول کرایا ہے ۔

اس کے بعد وہ یثرب کی طرف لوٹے ؛ نبی(ص) اور رسالت کے بارے میںآپس میں گفتگو کرتے ہوئے اور آنے والی امن و امان کی زندگی سے متعلق اظہار خیال کرنے لگے ان کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پیغام پھیل گیا، یثرب میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں رسول کا ذکر نہ پہنچا ہو۔( ۲ )

دن گزرتے دیر نہیں لگتی پھر گیارہویں بعثت کو جب حج کا زمانہ آ گیا یثرب سے اوس و خزرج کا ایک وفد آیا جو بارہ افراد پر مشتمل تھا ان میں چھہ افراد وہ تھے جو عقبہ اولیٰ میں خفیہ طریقہ سے رسول(ص) سے ملاقات کرکے اسلام قبول کر چکے تھے-عقبہ وہ جگہ ہے جہاں سے یثرب والے مکہ پہنچتے ہیں-اس مرتبہ ان لوگوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے اس بات پر رسول(ص) کی بیعت کر لی ہے کہ کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیں گے چوری نہیں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۸، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۵۔

۲۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۷ و ص۳۸، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۳۔

۱۱۷

کریں گے۔ زنا نہیں کریں گے ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے اوراز خود گڑھی ہوئی باتوں کے ذریعہ بہتان نہیں باندھیںگے اور نیک کاموں میں آپ(ص) کی نافرمانی نہیں کریں گے۔( ۱ )

رسول(ص) ان پر اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالنا چاہتے تھے ان کے ساتھ آپ(ص) نے جوان مسلمان مصعب بن عمیر کو یثرب بھیجا تاکہ وہ ان کے درمیان عقائد کی تبلیغ کریں۔ عقبۂ اولیٰ کی بیعت اسی پر تمام ہوئی۔

عقبۂ ثانیہ

مصعب یثرب کے گلی کوچوں میں اور ان کے مجامع میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کے ذریعہ ان کے دلوں اور عقلوں کو جھنجھوڑتے رہے یہاں تک کہ بہت سے لوگ رسالت اسلامیہ پر ایمان لے آئیے۔

اسلام نے لوگوں کے دلوں میں رسول(ص) سے ملنے کا بڑا اشتیاق پیدا کر دیا انہوں نے والہانہ انداز میں رسول(ص)سے گزارش کی کہ آپ(ص) ہمارے یہاں تشریف لائیں۔

بعثت کے بارہویں سال جب حج کا زمانہ آیا تو یثرب سے حاجیوں کے قافلہ چلے ان میں ۷۳ مسلمان مرد اور دو عورتیں بھی تھیں رسول(ص) نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ آپ(ص) ان سے عقبہ میں ایام تشریق میں رات کے وقت ملاقات کریں گے؛ یثرب کے مسلمان اس وقت تک اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھے۔

جب تین حصہ رات گذر گئی اور آنکھوں سے نیند اچٹ گئی تو مسلمان چھپ کراپنے خیموں سے نکلے اور رسول(ص) کے انتظار میں جمع ہو گئے رسول(ص) آئے آپ(ص) کے ساتھ آپ(ص) کے اہل بیت (ص) میں سے بھی کچھ لوگ تھے، سب جمع ہو گئے، ان لوگوں نے گفتگو شروع کی، پھر رسول(ص) نے گفتگو کا آغاز کیا، قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت کی اس کے بعد انہیں خدا کی طرف بلایا اور اسلام کی ترغیب دلائی۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۶۔

۱۱۸

اس بار اسلام کے ہر پہلو، اس کے احکام اور جنگ و صلح کے بارے میں صریح طور پر بیعت ہوئی؛ رسول(ص) نے فرمایا:

''ابایعکم علیٰ ان تمنعونی مما تمنعون منه نسائکم و ابنائکم''

میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم ہر اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر ان لوگوں نے رسول(ص) کی بیعت کی۔

اس موقعہ پر یثرب کے مسلمانوں کی طرف سے خدشہ کا اظہار ہوا، ابو الہیثم ابن تیہان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اگرہم انہیں توڑ دیں تو کیا ایسا کرنے سے ہم گناہگار ہونگے اور اگر خدا آپ(ص) کو کامیاب کر دے توکیاآپ اپنی قوم کی طرف پلٹ جائیں گے ؟اس پر رسول(ص) مسکرائے اور فرمایا:''بل الدم الدم و الهدم الهدم احارب من حاربتم و اسالم من سالمتم'' ( ۱ ) بلکہ خون کا بدلہ خون اور مباح کئے ہوئے خون کا عوض مباح ہے ۔ میں اس سے جنگ کرونگا جس سے تم جنگ کروگے میں اس سے صلح کرونگا جس سے تم صلح کروگے۔

اس کے بعد رسول(ص) نے فرمایا: تم میں سے بارہ افراد میرے پاس آئیں تاکہ وہ اپنی قوم میں میرے نمائندے قرار پائیں چنانچہ ان میں سے نو افراد خزرج میں سے اور تین اوس میں سے نکلے ان سے رسول(ص) نے فرمایا:

''انتم علیٰ قومکم بما فیهم کفلاء ککفالة الحواریین لعیسیٰ بن مریم و انا کفیل علیٰ قوم'' ۔( ۲ )

تم اپنی قوم کے درمیان ان کے معاملات کے ایسے ہی ذمہ دار و ضامن ہو جیسے حضرت عیسیٰ کے حواری ضامن و ذمہ دار تھے اور میں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۸، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۱، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۱۔

۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۲، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۴۳، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲۔

۱۱۹

رسول(ص) نے ہرکام کے لئے حکیمانہ راہنمائی پختہ اور عمدہ تدبیر ، گہری سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیا اور اس مقصد کی طرف رسالت کو لیکر بڑھے جس کی وحی ِ الٰہی نے تائید کی تھی اور بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ تم اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹ جائو مشرکین سے نہ ٹکرانا کہ خدا نے قتال و خونریزی کا حکم نہیں دیا۔

قریش نے جب یہ محسوس کیا کہ یثرب کے مسلمان نبی(ص) کی مدد کر رہے ہیں توانہوں نے اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھا اور وہ غیظ وغضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور چاہا کہ نبی(ص) اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو جائیں لیکن عقبہ کے اجتماع میں جناب حمزہ و علی پاسبان و محافظ تھے لہذا قریش ناکام واپس لوٹ گئے۔( ۱ )

ہجرت کی تیاری

قریش غفلت سے بیدار ہو چکے تھے جبکہ مسلمانوں میں کامیابی کی امید جاگ اٹھی تھی جس کی وجہ سے مشرکوں کی طرف سے ایذا رسانی میں بھی اضافہ ہو گیا اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ سخت و سنگدلی کا رویہ اختیار کیا ان پر شدید ظلم کئے اور یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کا شیراز ہ بننے سے پہلے ہی ان کا صفایاکر دیں،مسلمانوں نے رسول(ص) سے اس ظالمانہ سلوک کی شکایت کی اور آنحضرت سے مکہ چھوڑنے کے لئے اجازت چاہی آپ(ص) نے ان سے چند روز کی مہلت طلب کی پھر فرمایا:''لقد اخبرت بدار هجرتکم و هی یثرب فمن اراد الخروج فلیخرج الیها'' ( ۲ ) مجھے تمہارے جس دار ہجرت کی خبر دی گئی ہے وہ مدینہ ہے پس جو تم میںسے مکہ چھوڑنا چاہتا ہے وہ مدینہ چلا جائے۔

دوسری روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے :''ان اللّٰه قد جعل لکم دارا تامنون بها و اخوانا'' ( ۳ ) بیشک خدا نے تمہارے لئے ایک جگہ مقرر کر دی ہے جہاں تم امن و اخوت کی زندگی گزار وگے۔

بعض مسلمانوں نے خفیہ طریقہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی تاکہ قریش کو شک نہ ہو۔

____________________

۱۔ تفسیر قمی ج۱ ص۲۷۲۔

۲۔ الطبقات الکبریٰ ج۱ ص۲۲۶۔

۳۔مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲، السیرة النبویہ ج۱ ص ۴۶۸۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سیف کی روایت کا دوسروں سے موازنہ

سیف نے جو داستان فتح ابلہ کے بارے میں جعل کی ہے وہ پوری کی پوری اس کے بر خلاف ہے جو آگاہ افراد اور مؤرخین نے اس سلسلے میں لکھا ہے اس کے علاوہ صحیح کتابوں میں درج شدہ چیزوں کے خلاف بھی ہے ،کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ ابلہ عمر کے زمانے میں ١٤ھ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں فتح ہوا ہے ۔ہم بعد میں مناسب جگہ پر اس کی وضاحت کریں گے ۔

طبری ١٤ھ کے واقعات کی وضاحت کرتے ہوئے جہاں شہر بصرہ کی بنا کا ذکر کرتے ہوئے ،فتح ابلہ کے بارے میں دئے گئے اپنے وعدہ پر عمل کرتا ہے اور ابلہ کی جنگ کی حقیقت

اور اس کی فتح کا ذکر کرتا ہے ۔جس میں سیف کی بیان کردہ چیزوں میں سے کوئی ایک بھی نہیں

پائی جاتی ہے ۔ ٢

سند کی پڑتال

سیف کی اس داستان کے دو راوی محمد اور مہلب ہیں کہ ان کے بارے میں پہلے معلوم ہوا کہ ان کا حقیقت میں کوئی وجود نہیں ہے اور یہ سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ مقطع بن ہیثم بکائی ہے ،اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی تین روایتوں میں آیا ہے ۔ایک اور راوی حنظلہ بن زیاد بن حنظلہ ہے اس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی دوروایتوں میں آیاہے ۔ایسا لگتا ہے کہ سیف نے حنظلہ کے نام سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ''اپنے جعلی صحابی '' زیاد بن حنظلہ کا ایک بیٹا بھی جعل کیا ہے ۔لہٰذا جعلی صحابی زیاد اور اس کا بیٹا حنظلہ سیف کے تخیلات کے جعلی راوی ہیں ۔

اس طرح عبد الرحمن احمری بھی ایک راوی ہے جس کا نام تاریخ طبری میں سیف کی سات روایتوں میں ذکر ہو ا ہے ۔

بہر حال ہم نے بحث و تحقیق کی کہ ان راویوں کے ناموں کو طبقات ،راویوں کی سوانح حیات حتی حدیث کی کتابوں میں کہیں پا سکیں لیکن ان میں سے کسی ایک کانام سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور جگہ پر نہیں پایا ۔ لہٰذا ہم نے موخر الذکر تین راویوں یعنی مقطع ،جنظلہ اور عبدالرحمن کو بھی محمد و مہلب کی طرح سیف کے جعلی اصحاب کی فہرست میں درج کیا ہے ۔

۱۴۱

جانچ پڑتال کا نتیجہ

سیف کہتا ہے کہ خالد بن ولید نے اپنے سپاہیوں کے تتربتر ہونے کی وجہ سے ابوبکر سے مدد طلب کی اور خلیفہ نے قعقاع بن عمر وتمیمی کی مختصر ،لیکن با معنی تعریف کرکے قعقاع کو اکیلے ہی خالد کی مدد کے لئے بھیجا۔اس قصہ کو صرف سیف نے جعل کیا ہے اور اس کے علاوہ کسی اور نے اس قسم کی کوئی چیز نہیں کہی ہے۔

سیف نے شہر آبلہ کی فتح کو ١٢ ھ میں خلافت ابوبکر کے زمانے میں خالد بن ولید مضری سے نسبت دی ہے جب کہ حقیقت یہ ہے کہ شہر ابلہ کی فتح عمر کے زمانے میں ١٤ میں عتبہ بن غزوان کے ہاتھوں انجام پائی ہے۔ہم اس تحریف کے سبب کو بعد میں بیان کریں گے۔

سیف وہ تنہا قصہ گو ہے جوخالد بن ولید کو ایرانی فوج کے سپہ سالار جس کانام سیف نے ہرمز رکھا ہے کے مقابلے میں پیدل دست بدست جنگ کے لئے میدان کارزار کی طرف روانہ کرتاہے نیز ایرانیوں کی چالبازی کی حیرت انگیز داستان بیان کرتاہے اور اپنے ہم قبیلہ قعقاع بن عمرو وتمیمی کو ہر مشکل حل کرنے والے کے طور پر ظاہر کرتاہے اور اسے ایک دانا،ہوشیار ،جنگی ماہر،ناقابل شکست پہلوان،لشکر شکن بہادر اور خلفاء واصحاب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی منظور نظر شخصیت کی حیثیت سے پہچنواتاہے اور اسے قحطانی یمنیوں کے مقابلے میں فخرو مباہات کی ایک قطعی دلیل وسند کے طور پر پیش کرتاہے۔

اس کے بعد ،سیف اپنی داستان کو ایسے راویوں کے ذریعہ نقل کرتاہے کہ وہ سب کے سب اس کے اپنے تخیلات کی مخلوق اور گڑھے ہوئے ہیں اور حقیقت میں ان کا کوئی وجود نہیں ہے۔

۱۴۲

سیف کی حدیث کے نتائج :

اب ہم دیکھتے ہیں کہ سیف نے فتح ابلہ کی داستان کو گڑھ کر کیا ثابت اور کیا حاصل کیاہے:

١۔سیف ،داستان کے مقدمہ کو ایسے مرتب کرتاہے تاکہ خلیفہ ابوبکر کی زبانی قعقاع بن عمرو تمیمی کی تعریف وستائش کرائے اور اسے ایک عظیم ،شجاع اور بہادر کی حیثیت سے پیش کرے۔

٢۔قعقاع کے ناقابل شکست پہلوان ہونے کی خلیفہ کی پیشینگوئی اور خلیفہ سے یہ کہلوانا کہ جس فوج میں قعقاع موجود ہو وہ ہرگز شکست سے دوچار نہیں ہوگی۔

٣۔عراق کے ایک شہر کوخاندان مضر کے ایک پہلوان خالد کے ہاتھوں فتح کرانا تاکہ خاندان مضر کے فضائل میں ایک اور فضیلت کااضافہ ہوجائے۔

٤۔خاندان تمیم کے ناقابل شکست پہلوان قعقاع کے ذریعہ خالد بن ولید کو ایرانیوں کی سازش اور چالبازی سے نجات دلاکر اس کی فضیلت بیان کرنا۔

٥۔اپنے خود ساختہ راویوں میں تین جعلی راویوں ،یعنی مقطع ،حنظلہ اور عبد الرحمان کااضافہ کرنا۔انشاء اللہ آنے والی بحثوں میں اس موضوع پر مزید وضاحت کریں گے۔

۱۴۳

قعقاع ،حیرہ کی جنگوں میں

و بلغت قتلاهم فی ''الیس '' سبعین الفا

'' الیس'' کی جنگ میں قتل ہوئے ایرانی سپاہیوں کی تعداد ستر ہزار تک پہنچ گئی۔

( سیف بن عمر)

مذار اور ثنی کی جنگ

طبری نے فتح ''ابلہ'' کی تفصیلات بیان کرنے کے بعد سیف سے یہ روایت نقل کی ہے : ١

''ہرمزنے'' ابلہ کی جنگ سے پہلے ایران کے بادشاہ سے مدد طلب کی ۔بادشاہ نے اس کی درخواست منظور کرکے ''قارن بن قریانس'' کی کمانڈ میں ایک فوج اس کی مدد کے لئے روانہ کی۔

جب'' ہرمز '' مارا گیا اور اس کی فوج تتر بتر ہوئی ،اس وقت قارن اپنی فوج کے ہمراہ ''المذار '' پہنچا تھا ۔قارن نے ہرمز کی منتشر اور بھاگی ہوئی فوج کو دریائے ''الثنی'' کے کنارے پر جمع کیا اور لشکر اسلام سے مقابلہ کے لئے آگے بڑھا ۔دونوں سپاہیوں کے درمیان کھمسان کی جنگ چھڑ گئی ۔

سر انجام '' قارن '' اس جنگ میں مارا گیا اور اس کی فوج منتشر ہو گئی ۔اس جنگ میں دریا میں غرق ہوئے افراد کے علاوہ ایرانی فوج کے تیس ہزار سپاہی کام آئے ۔اس طرح ایرانیوں کو زبردست شکست کا سامنا ہوا''

۱۴۴

ولجہ کی جنگ

سیف نے جنگ ''ولجہ '' کے بارے میں یوں بیان کیا ہے :

''جب ''المذار ''(۱) اور ''الثنی'' میں ایرانیوں کی شکست کی خبر ایران کے بادشاہ کو پہنچی تو اس نے ''اندرزگر'' کو کہا کہ اس علاقہ کے عرب سپاہیوں اور ایرانی کسانوں کو جمع کرکے نئی فوج تشکیل دے اور خالد بن ولید سے جنگ کرنے کے لئے جائے اس کے علاوہ ''بہمن جادویہ '' کو بھی اس کی مدد کے لئے بھیجا ۔جب یہ خبر خالد کو پہنچی تو وہ فوری طور پر ''ولجہ'' پہنچا اور ایرانی فوج سے بنرد آزما ہوا ۔یہ جنگ ''الثنی'' کی جنگ سے شدید تر تھی اس نے اس جنگ میں ایرانی سپاہیوں کو تہس نہس کرکے رکھ دیا ''اندرزگر '' میدان جنگ سے بھاگ گیا اور فرار کے دوران پیاس کی شدت سے مرگیا''

سیف کہتا ہے :

'' خالد نے اس جنگ میں ایک ایسے ایرانی سپاہی سے جنگ کی جو تنہا ایک ہزار سپاہیوں کا مقابلہ کر سکتا تھا ۔اس ایرانی پہلوان کو خالد نے قتل کر ڈالا!اسے قتل کرنے کے بعد اس کی لاش کے ساتھ ٹیک لگا کر اسی جگہ ،یعنی میدان جنگ میں اپنے لئے کھانا منگوایا ۔یہ جنگ ١٢ھ کے ماہ صفر میں واقع ہوئی کہا گیا ہے کہ ''ولجہ'' خشکی کے راستے ''کسکر '' کے نزدیک ہے ''

____________________

۱)۔ حموی لکھتا ہے : ''قصبہ ''المذار'' ''میسان'' کے علاقہ میں واقع ہے یہ قصبہ ''واسط'' اور ''بصرہ'' کے درمیان ہے ۔بصرہ سے وہاں تک چاردن کا سفر ہے ۔یہاں پر عبداللہ بن علی بن ابیطالب کی قبر ہے ۔یہاں کے لوگ شیعہ ،احمق اور حیوان صفت تھے عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے بصرہ کے فتح کرنے کے بعد اس جگہ پر بھی قبضہ کر لیا تھا۔

۱۴۵

یہ مطلب حموی کے شیعوں کی نسبت تعصب کا ایک نمونہ ہے ۔

'' الیس'' کی جنگ

سیف نے ''الیس '' کی جنگ کی تشریح کرتے ہوئے یوں لکھا ہے :

''عرب عیسائی اور دیگر عرب سپاہی '' ولجہ'' کی جنگ میں اپنے مقتولین کی تعداد کو لے کر سخت غصہ میں آگئے تھے ۔اس شکست کی وجہ سے انھوں نے اپنے غم و غصہ کا اظہار ایرانیوں سے کیا نتیجہ کے طور پر '' جابان'' اپنے سپاہیوں کے ساتھ ان کی مدد کے لئے نکلا اور ''الیس '' میں ان سے ملحق ہوا ۔دونوں فوجوں کے درمیان گھمسان کی جنگ ہوئی اس دوران ایران سے مزید مدد آنے کی امید میں ''جابان'' کے سپاہیوں کی مزاحمت میں جب شدت پیدا ہوئی تو خالد نے غصہ میں آکر قسم کھائی کہ اگر ان پر غلبہ پائے تو ان میں سے ایک شخص کو بھی زندہ نہیں چھوڑے گا اور دریائے ''الیس '' کو ان کے خون سے جاری کردے گا ۔سر انجام جب خالد نے ان پر فتح پائی تو حکم دیا کہ تما اسیروں کو ایک جگہ جمع کریں اور کسی ایک کو قتل نہ کریں ۔خالد کے سپاہی فراریوں کو پکڑ نے اور اسیر وں کو جمع کرنے کے لئے ہر طرف دوڑ پڑے ۔سوار وں نے اسیروں کو گروہ گروہ کی صورت میں جمع کرکے خالد کی خدمت میں پیش کیا ۔اس کے بعد خالد نے حکم دیا کہ کچھ مرد معین کئے جائیں اور اسیروں کو دریامیں لے جاکر ان کے سر تن سے جدا کریں تاکہ خون کا دریا جاری ہو جائے ۔ ایک دن اور ایک رات گزری دوسرا اور تیسرا دن بھی یوں ہی گزرا ۔اسیروں کو لا کر دریا میں سر تن سے جد اکرنے کا سلسلہ جاری رہا ۔لیکن پھر بھی خون کا دریا جاری نہیں ہو ا اس موقع پر قعقاع اور اس کے جیسے بعض پہلوانوں نے خالد سے کہا : جب سے آدم کے بیٹے کا خون زمین پر گر کر جم گیا تھا تب سے اس خون کا زمین پر جاری ہونا بند ہو گیا ہے ۔اب اگر آپ انسانی خون کا دریا جاری کرکے اپنی قسم پوری کرنا چاہتے ہیں تو اس خون پر پانی جاری کر دیجئے تاکہ خون نہ جمنے پائے ۔اس واقعہ سے پہلے بند باندھ کر دریا کا پانی روک دیا گیاتھا ۔لہٰذا مجبورا ًبند کو ہٹادیا گیا پانی خون پر جاری ہوا اور اس طرح خونی دریا وجود میں آگیا ۔اس خونی دریا کے ذریعہ پن چکیاں چلیں جس کے ذریعہ خالد کے اٹھارہ ہزار سے زائد سپاہیوں کے لئے حسب ضرورت آٹا مہیا کیا گیا تین دن ورات یہ پن چکیاں خون کے دریا سے چلتی رہیں ۔اس لئے اس دریا کو دریائے خون کہا گیا''

۱۴۶

قابل غور بات یہ ہے کہ یہ خونی دریا ستر ہزار انسانوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح ذبح کرنے کے نتیجہ میں وجود میں آیا تھا ،تاکہ ایک ہٹ دھرم سپہ سالار ،خالد مضری کی قسم پوری ہو جائے !!

حیرہ کی دوسری جنگیں

اس کے بعد طبری حیرہ کے اطراف میں خالد کی کمانڈمیں واقع ہوئی بعض بڑی جنگوں کے بارے میں نقل کرتے ہوئے سیف کی بات کو یوں تمام کرتا ہے : ٢

اور سیف نے لکھا ہے کہ قعقاع نے حیرہ کی جنگوں کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

''خدائے تعالیٰ دریائے فرات کے کنارے پر قتل شدہ اور نجف میں ابدی نیند سوئے ہوئے ہمارے افراد پر اپنی رحمت نازل کرے ''

'' ہم نے سرزمین ''کاظمین '' میں '' ہرمزان '' کو شکست دے دی اور دریائے ثنی کے کنارے پر ''قارن '' کے سینگ اپنے چپو سے توڑ دئے ۔جس دن ہم حیرہ کے محلوں کے سامنے اترے ان پر شکست طاری ہو گئی ۔اس دن ہم نے ان کو شہر بدر کر دیا اور ان کے تخت و تاج ہمارے ڈر سے متزلزل ہو گئے ۔ہم نے اس دن جان لیوا تیروں کو ان کی طرف چھوڑا اور رات ہوتے ہی انھیں موت کے گھاٹ اتار دیا ۔یہ سب اس دن واقع ہو ا جب وہ دعویٰ کرتے تھے کہ : ہم وہ جواں مرد ہیں جو عربوں کی زرخیز زمین پر قابض ہیں ''

سیف کاا ن اشعار کو بیان کرنے کا مقصد یہ دکھانا ہے کہ قعقاع بن عمرو تمیمی ،خالد بن ولید کے ہمراہ علاقہ ''حیرہ'' کے میدان جنگ میں اپنی شجاعت و بہادری پر ناز کرتا ہے ،اور فخر کرتا ہے کہ اس نے ''کاظمین '' کی جنگ میں ''ہرمز '' سے ''الثنی'' میں ''قارن'' سے اور حیرہ میں عرب کے عیسائیوں اور کسریٰ کے محلوں کے محافظوں سے جنگ کی ہے اور عربوں کی زرخیز زمینوں کو ان کے تسلط سے آزاد کیا ہے ۔

۱۴۷

یہ روایتیں کہاں تک پہنچی ہیں ؟

یہ وہ مطالب تھے جن کی روایت طبری نے علاقہ ''حیرہ'' میں خالد بن ولید کی جنگوں کے سلسلے میں سیف بن عمر سے نقل کی ہے اور طبری کے بعد ابن اثیر اور ابن خلدون نے ان مطالب کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیا ہے ۔اس کے علاوہ ابن کثیر نے بھی طبری اور براہ راست سیف بن عمر سے نقل کرکے اس کی اپنی تاریخ میں تشریح کی ہے ۔

حموی نے بھی الثنی کے بارے میں اپنی معلومات کو براہ راست سیف سے لیا ہے ۔وہ لغت ''الثنی'' کی تشریح میں لکھتا ہے :

'' الثنی کی جنگ ایک مشہور جنگ ہے جو خالد بن ولید اور ایرانیوں کے درمیان بصرہ کے نزدیک واقع ہوئی اور یہی جنگ تھی جس میں قعقاع بن عمر و نے درج ذیل

شعر کہا ہے :

سقی الله قتلی بالفرات مقیمه تا

وبالثنی قرنی قارن بالجوارف

اس کے علاوہ سیف سے ''الولجہ'' کے بارے میں نقل کرتے ہوئے تشریح کرتا ہے :

''ولجہ سر زمین کسکر اور صحرا کے کنارے پر واقع ہے خالد بن ولید نے ایرانی فوج کو وہاں پر شکست دی تھی یہ مطلب کتاب '' فتوح'' میں ١٢ھ کے حوادث میں درج ہو ا ہے اور قعقاع بن عمر و نے اس جنگ میں کہا:

''میں نے شجاعت اور بہادری میں اس قوم سے بڑھ کر کسی کو نہیں دیکھا جس قوم کو میں نے صحرائے ولجہ میں دیکھا ۔میں نے اس قوم کے مانند کسی کو نہیں دیکھا جس نے اپنے دشمن کو ذلیل و خوار کرکے رکھ دیا ہو اور ان کے مامور پہلونوں کو ہلاک کر دیا ہو''

یہ مطالب تھے جن میں حموی نے اپنی کتاب '' معجم البلدان'' میں لکھا ہے اور عبد المؤمن نے ''ثنی '' اور ''ولجہ'' کی تشریح میں اس سے نقل کرکے اپنی کتاب ''مراصد الاطلاع'' میں درج کیا ہے ۔

۱۴۸

سیف کی روایت کا دوسروں کی روایت سے موازنہ

بلاذری '' المذار '' کے بارے میں لکھتا ہے :

'' مثنی بن حارثہ نے ابوبکر کی خلافت کے زمانہ میں ''المذار '' کے سرحد بان سے جنگ کی اور اسے شکست دے دی ۔عمر کی خلافت کے زمانہ میں عتبہ بن غزوان نے ''المذار '' پر حملہ کیا اور وہاں کے سرحدبان نے اس کا مقابلہ کیا اس جنگ کے نتیجہ میں خدا نے سرحدبان کی فوج کو شکست دے دی اور وہ سب کے سب دریا میں غرق ہو گئے اور عتبہ نے سرحدبان کا سر تن سے جدا کیا'' ٣

ولجہ اور الثنی کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کی کوئی روایت نہیں پائی کہ اس کا سیف کی روایت سے موازنہ کرتے:

''الیس ''کے بارے میں بلاذری لکھتا ہے :

'' خالد بن ولید اپنی فوج کو '' الیس '' کی طرف لے گیا اور ایرنیوں کا سردار ''جابان '' چوں کہ خالد کے اندیشہ سے آگاہ ہوا ،اس لئے خود خالد کے پاس حاضر ہوا اور اس کے ساتھ اس شرط پر جنگ نہ کرنے کا معاہدہ کیا کہ ا لیس کے باشندے ایرانیوں کے ساتھ مسلمانوں کی جنگ میں مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے'' ٤

خون کے دریا کا قصہ

دریائے خون کا قصہ اور خالد بن ولید کی قسم کے بارے میں ابن درید نے اپنی کتاب اشتقاق میں یوں لکھا ہے :

''منذر اعظم جس دن خاندان بکر بن وائل کے افراد کو بے رحمی سے اور دردناک طریقہ سے قتل کر رہا تھا اور انھیں ایک پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکر ان کا سر تن سے جدا کرتا تھا ،اس نے قسم کھائی تھی کہ اس خاندان کے اتنے افراد کو قتل کرے گا کہ ان کا خون بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچ جائے !لیکن بہت سے لوگوں کو قتل کرنے کے باوجود خون پہاڑ کے نصف راستہ تک بھی نہیں پہنچا اس امر نے منذر کو سخت غضبناک کر دیا آخر حارث بن مالک نے منذر سے کہا : آپ سلامت رہیں !اگر آپ زمین پر موجود تمام لوگوں کو بھی قتل کر ڈالیں گے جب بھی ہرگز خون پہاڑ کے دامن تک نہیں پہنچے گا۔ خون پر پانی ڈالنے کا حکم دیجئے تاکہ خون آلود پانی پہاڑ کے دامن

۱۴۹

تک بہنچ جائے ۔

حارث کی راہنمائی مؤثر ثابت ہوئی اور پانی ڈالنے کے بعد خون آلود پانی بہہ کر پہاڑ کے دامن تک پہنچا اور منذر کی قسم پوری ہو گئی ۔اس پر حارث کو '' وصاف '' کا لقب ملا'' ٥

سیف زمانہ جاہلیت کی اس بھونڈی اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی داستان کو پسند کرتا ہے اور اسی کے مانند ایک داستان کو قبیلۂ مضر کے فخر ومباہات کی سند کے طور پر جعل کرنے کے لئے موزوں سمجھتاہے لہذاخالد بن ولید مضری کواس داستان کاکلیدی رول اداکرنے کے لئے مناسب سمجھتا ہے اور منذر اعظم کے ہاتھوں خاندان بکر بن وائل کے بے گناہ افراد کے قتل عام کی داستان کو بنیاد بنا کر ''الیس''میں ستر ہزار اسیر انسانوں کا قتل عام کرکے خون کا دریا بہانے کی ایک داستان جعل کرتا ہے تاکہ اس لحاظ سے بھی مضر ونزار کے خاندان منذر اعظم سے پیچھے نہ رہیں !!

سند کی جانچ پڑتال :

سیف نے عبدالرحمان بن سیاہ محمد بن عبداللہ اور مہلب کو جنگ''الیس ''کے راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے ان کے بارے میں پہلے ہی معلوم ہو چکا ہے کہ یہ تینوں راوی سیف کے ذہن کی تخلیق ہیں اور حقیقت میں ان کا کہیں وجود نہیں ہے ۔

اس کے علاوہ زیاد بن سر جس احمری بھی اس کا ایک راوی ہے سیف کے اس راوی سے ٥٣احادیث تاریخ طبری میں ذکر ہوئی ہیں چوں کہ ہم نے اس زیاد کا نام بھی سیف کی روایتوں کے علاوہ کسی اور کتاب میں نہیں پایا اس لئے اس کو بھی سیف کے جعلی راوی کی فہرست میں شامل کرتے ہیں ۔

اس کے علاوہ سیف نے بعض دیگر مجہول اور غیر معروف اشخاص کا نام بھی بعنوان راوی ْْْْذکر کیا ہے اور بعض مشتر ک ناموں کو بھی راویوں کے طور پر ذکر کیا ہے جن کی تحقیقات

کرنا ممکن نہیں ہے ۔

۱۵۰

تحقیقات کا نتیجہ :

سیف بن عمر تنہا شخص ہے جس نے ''الثنی'' اور ''الولجہ '' کی جنگوں کی روایت کی ہے اور طبری نے ''الثنی ''اور ''الولجہ '' کی جنگوں کے مطالب اسی سے لئے ہیں اور طبری کے بعد والے تمام مؤرخین نے ان مطالب کو تاریخ طبری سے نقل کیا ہے۔

یا قوت حموی نے سیف کی داستان کا ایک مختصر حصہ الثنی کی تشریح میں مصادر کا ذکر کئے بغیر اپنی کتاب '' معجم البلدان '' میں درج کیا ہے لیکن الولجہ کی تشریح میں سیف کی کتاب '' فتوح'' کا اشارہ کرتے ہوئے اس داستان کا ایک حصہ اپنی کتاب میں نقل کیا ہے لگتا ہے ابن خاضیہ کے ہاتھ کی لکھی ہوئی سیف ابن عمر کی کتاب ''فتوح '' کا ایک حصہ حموی کے پاس تھا انشاء اللہ مناسب موقع پر ہم اس کی وضاحت کریں گے ۔

''المذار ''اور ''الیس'' نامی جگہوں کی تاریخی حقیقت سے انکار نہیں ہے لیکن سیف نے ان دو جگہوں کے فتح کئے جانے کے طریقہ میں تحریف کی ہے جس شخص نے سب سے پہلے ''المذار '' میں جنگ کرکے فتح حاصل کی وہ '' المثنی '' تھا اور دوسری بار ''المذار'' ''عتبہ بن غزوان'' کے ہاتھوں فتح ہوا اور اس نے وہاں پر سر حد بان کا سر تن سے جد ا کیا تھا ۔

ہم نے ''الیس'' کی جنگ میں دیکھا کہ خالد نے وہاں کے باشندوں کے ساتھ اس شرط پر صلح کا معاہدہ کیا کہ وہاں کے باشندے مسلمانوں کے لئے مخبری اور راہنمائی کا کام انجام دیں گے اور ایرانیوں کے خلاف جنگ میں ان کی مدد کریں گے لیکن سیف نے اس صلح کو ایک خونین تباہ کن اور رونگٹے کھڑے کر دینے والی جنگ میں تبدیل کرکے اس میں تحریف کی ہے اور صرف اس جنگ میں ستر ہزار اسیروں کا سر تن سے جدا کرتے ہوئے دکھایا ہے تاکہ انسانی خون کا دریا بہے اور تین دن و رات تک اس خونی دریا سے پن چکیاں چلیں تاکہ ١٨ہزار سے زائد اسلامی فوج کے لئے آٹا مہیا ہو سکے ۔

سیف کا ایسا افسانہ گڑھنے سے کیا مقصد تھا ؟ کیا اس کا مقصد صرف یہ تھا کہ خاندان مضر کے فخر و مباہات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرے ؟ یا اس کے علاوہ اور بھی کوئی مقصد تھا تاکہ اس کے ذریعہ دوسروں کو یہ سمجھائے کہ اسلام تلوار کی دھار سے خون کے دریا بہا کر پھیلا ہے، ملتوں کی طرف سے اپنی مرضی کے مطابق اسلام قبول کرنے اور اپنے ظالم و جابر حکمرانوں کے خلاف بغاوت کے نتیجہ میں نہیں پھیلا جب کہ حقیقت یہی ہے ۔

۱۵۱

سیف کی حدیث کا نتیجہ

١۔ '' قارن بن قریانس''نام کے ایک سپہ سالار کو جعل کرنا ۔

٢۔'' الثنی '' اور '' الولجہ'' نام کی جگہیں جعل کرنا تاکہ مقامات کی تشریح کرنے والی کتابوں میں یہ جگہیں درج ہو جائیں ۔

٣۔ مہلب ، ابو عثمان بن زید زیاد بن سرجس اور عبد الرحمن بن سیاہ نام کے چار اصحاب جعل کرکے اسلام کے راویوں میں ان کا اضافہ کرنا ۔انشا اللہ ہم اسی کتاب میں ان کی تفصیلات بیان کریں گے۔

٤۔ ادبی آثار کو زینت بخشنے والے ایک قصیدہ کی تخلیق ۔

٥۔ ایک ہزار سوار کی طاقت کے برابر ایک ایرانی پہلوان کا خالد کے ہاتھوں قتل ہونا اور خالدکا اس کی لاش سے ٹیک لگا کر میدان جنگ میں کھانا کھانا تاکہ اس افسانے کے حیرت انگیز منظر کے بارے میں سن کر اپنے اسلاف و اجداد کے فضائل ومناقب سننے کا شوق رکھنے والوں کو خوش کر سکے ۔

٦۔ اسیر ہونے والے تمام انسانوں کا مسلسل چند دن ورات تک سر تن سے جدا کرکے قتل عام کرنا ۔

٧۔ خون کے دریا سے تین دن ورات تک چلنے والی پن چکیوں کے ذریعہ اسلام کے ١٨ہزار سے زیادہ فوجیوں کے لئے گندم پیس کر آٹا تیار کرنا۔

٨۔''الثنیٰ'' کے میدان میں تیس ہزار اور ''الیس''میں ستر ہزار اور سب ملاکر غرق ہوئے افراد کے علاوہ اسلامی فوج کے ہاتھوں ایک لاکھ انسانوں کا قتل عام ہونا۔

٩۔قعقاع جیسے ناقابل شکست پہلوان کی کرامت دکھانا کہ اگر وہ اور اس جیسے افراد نہ ہوتے اور مداخلت نہ کرتے تو سیف کے کہنے کے مطابق خدابہتر جانتا ہے کہ خالد انسانوں کے سر تن سے جد ا کرنے کا سلسلہ کب تک جاری رکھتا !! حقیقت میں یہ وہی چیز ہے جس کو سننے کے لئے اسلام کے دشمنوں کے کان منتظر رہتے ہیں ، اور وہ یہ سننے کی تمنا رکھتے ہیں کہ اسلام اپنے دشمنوں سے جنگ کے دوران بے رحمی سے قتل عام کرنے کے بعد پھیلا ہے تاکہ وہ اعلان کریں کہ اسلام کو تلوار کے سایہ میں کامیابی نصیب ہوئی ہے اور ملتوں کا اپنی مرضی سے اسلام کی طرف مائل ہونا اسلام کے پھیلنے کا سبب نہیں بنا ہے کیا اس غیر معمولی افسانہ ساز سیف نے اپنے افسانوں کے ذریعہ اسلام کے دشمنوں کی اور اپنی دیرینہ آرزوکو پورا نہیں کیا ہے ؟

۱۵۲

قعقاع ،حیرہ کے حوادث کے بعد

مفخرة تضاف الی مفاخر بطل تمیم القعقاع

سقعقاع کے افتخارات میں ایک اور فخر کااضافہ

(مولف)

صلح '' بانقیا'' کی داستان

طبری نے ''حیرہ کے بعد کے حوادث ''کے عنوان کے تحت سیف سے حسب ذیل روایت نقل کی ہے:

''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں نے خالد ابن ولید کے ساتھ ایک صلح کے تحت معاہدہ کیا کہ مسلمان اس شرط پر ان سے جنگ نہ کریں گے کہ وہ دربار کسریٰ کو اد اکئے جانے والے خراج کے علاوہ خالد کو دس ہزار دینار ادا کریں گے۔خالد نے مذکورہ باشندوں کے ساتھ معاہدہ کیا اور قعقاع بن عمرو تمیمی اور چند دیگر افراد کو اس پر گواہ قرار دیا''۔

اس کے بعد طبری نے یوں لکھاہے:

''جب خالد ''حیرہ''سے فارغ ہوا توعراقی علاقوں سے ہرمز دگرد تک سرحد بانوں نے بھی ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کی طرح ،دربار کسریٰ کو ادا کئے جانے والے خراج کے علاوہ بیس لاکھ درہم اور سیف کی ایک دوسری روایت کے مطابق دس لاکھ درہم خالد کو ادا کرنا قبول کئے ۔خالد نے اس پر ایک معاہدہ نامہ لکھا اور قعقاع وچند دیگر اشخاص کو گواہ قرار دیا ۔

اس کے بعد سیف کہتاہے :

''خالد بن ولید اسلامی فوج کاسپہ سالار تھا ۔اس نے دیگر شخصیتوں کو مختلف عہدوں پر فائز کرنے کے ضمن میں قعقاع بن عمرو کو سرحدوں کی حکمرانی اور کمانڈسونپی ۔خالد نے خراج دینے والوں کے لئے لکھی گئی رسید میں قعقاع کو گواہ کے طور پر مقرر کیا''

۱۵۳

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

ان تمام روایتوں کو طبری نے سیف کے حوالے سے ذکر کیاہے ،اس کے بعد ابن اثیر ،ابن کثیر ،اور ابن خلدون جیسے مؤرخوں نے ان کو طبری سے نقل کرکے اپنی تاریخ کی کتابوں میں درج کیاہے۔اسی طرح کتاب ''الوثائق السیاسة''کے مؤلف نے مذکورہ تین عہد ناموں کو اسلامی سیاسی اسناد کے طور پر اپنی مذکورہ کتاب میں درج کیاہے ۔ ١

لیکن سیف کے علاوہ دیگر تاریخ دانوں نے ''بانقیا''اور ''بسما''کے باشندوں کے صلح نامہ کو ہزار درہم کی بنیاد پر لکھاہے،نہ کہ دس ہزار دینار!اور قعقاع کے نام اور اس کی گواہی کا ذکر تک نہیں کیاہے۔اس کے علاوہ عراقی علاقوں سے ہر مزدگرد تک کی سرزمینوں کے بارے میں صلح کانام ونشان تک نہیں ملتا،بلکہ اس کے برعکس لکھا گیاہے ۔

'' ''حیرہ''،''الیس''اور ''بانقیا''کے علاوہ کسی اور شہر کے باشندوں سے کوئی معاہدہ نہیں ہواہے ۔اسی طرح سرحدوں پر سرداروں کو معین کرنے یاخراج دینے والوں کو بری کئے جانے پر قعقاع کی گواہی کا کوئی ذکر نہیں ملتا ''٢

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھاہے:

''ابوبکر نے خالد بن ولید کو عراق کے جنوبی علاقوں کا مأمور مقرر کیا اور عیاض بن غنم کو شمالی علاقوں کی ماموریت دی۔خالد نے اپنی مأموریت میں عراق کے جنوبی علاقوں کو وسعت بخشی۔لیکن عیاض ایرانیوں کے محاصرہ میں آگیا اور مجبور ہوکر خالد سے مدد کی درخواست کی ۔خالد نے حیرہ میں قعقاع کو اپنا قائم مقام بنایا اور خود عیاض کی مدد کے لئے عراق کے شمال کی طرف روانہ ہوا ۔دوسری طرف ایرانیوں اور قبائل ربیعہ کے عربوں نے مسلمانو ں سے نبرد آزما ہونے کے لئے ''حصید''کے مقام پر اپنی فوج کی لام بندی کی تھی۔ اس علاقہ کے مسلمانوں نے ان سے نجات پانے کے لئے قعقاع سے مدد کی درخواست کی اور قعقاع نے ان کی مدد کے لئے ایک فوج روانہ کی ۔جب خالد واپس''حیرہ''پہنچا تو اس نے قعقاع کو ''حصید''میں مسلمانوں سے بر سر پیکار ایرانیوں اور جزیرہ کے عربوں سے لڑنے کے لئے روانہ کیا۔قعقاع نے ان سے ڈٹ کر جنگ کی ۔یہ جنگ دشمنوں کی شکست پر تمام ہوئی ۔ ''روز مہر''نام کا ایرانی سپہ سالار ماراگیااور ''روز بہ''بھی عصمة بن عبد اللہ کے ہاتھوں قتل ہوا''

۱۵۴

طبری اور سیف سے نقل کرنے والے مؤرخین

طبری نے ان مطالب کو سیف سے نقل کرکے لکھا ہے ۔اس کے بعد ''ابن اثیر،ابن کثیر'' اور ابن خلدون نے ان روایتوں کو طبری کے حوالے سے اپنی کتابوں میں درج کیاہے۔

ہم نے اپنی کتاب '' عبد اللہ ابن سبا'' میں طبری اور اس کی تاریخ کے بارے میں عالم اسلام کے مذکورہ تین عظیم مورخوں کے نظریات بالترتیب حسب ذیل ذکر کئے ہیں :

١۔ ابن اثیر اپنی بات یوں شروع کرتا ہے :

'' جو کچھ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب کی تاریخ سے متعلق ہے ،ہم نے اسے کچھ گھٹائے بغیر نقل کیا ہے ''

٢۔ ابو الفدایوں کہتا ہے :

'' ہم نے ابن اثیر کی بات کو نقل کیا ہے اور اس کی تاریخ کوخلاصہ کے طور پر پیش کیا ہے''

٣۔ ابن خلدون لکھتا ہے :

'' خلافت اسلامیہ سے متعلق مطالب اور جو کچھ ارتداد کی جنگوں اور فتوحات سے مربوط ہے مختصر طور پر تاریخ طبری سے نقل کیا گیا ہے ''

٤۔لیکن ابن کثیر ،اکثر اپنی روایتوں کے مآخذ یا مآخذ کے بارے میں کہ طبری ہے کا صراحتا ذکر کرتا ہے یا بعض مواقع پر براہ راست سیف کا نام لیتا ہے اور اسے اپنی داستان کی سند کے طور پر پیش کرتا ہے ۔

حموی ،سیف کی اس داستان پر اعتبار کرتا ہے اور ''حصید '' کا نام لیتے ہوئے لکھتا ہے :

'' حصید '' کوفہ و شام کے درمیان ایک صحراہے ،یہاں پر ١٣ھ میں قعقاع بن عمر و نے ایرانی فوجوں اور ربیعہ وتغلب کے عربوں کے ساتھ گھمسان کی جنگ کی اور ایرانی فوج کے دو سردار ''روزمہر '' اور ''روزبہ'' مارے گئے اور قعقاع نے اس جنگ میں رزم نامہ اس طرح کہا ہے :

'' اسماء(۱) کو خبر دو کہ اس کا شوہر ایرانی سردار'' روزمہر '' کے بارے میں اس دن

____________________

۱)۔عربوں میں رسم تھی کہ جنگوں میں رزم نامہ پڑھتے ہوئے اپنی بہن یا بیوی کا نام لیتے تھے اور اپنے افتخارات بیان کرتے تھے ۔

۱۵۵

اپنی آرزو کو پہنچا ،جب ہم ہندی تلواروں کو نیام سے نکال کر ان کی فوج پر حملہ آور ہوکر ان کے سر تن سے جدا کر رہے تھے ''

یہ سب کچھ سیف نے کہا ہے اور طبری نے اس سے نقل کیا ہے اور دوسروں نے بعد میں طبری سے نقل کیا ہے ۔

سیف کے علاوہ کسی نے یہ نہیں کہا ہے کہ عیاض ،خالد کے ساتھ عراق کی ماموریت پر تھا بلکہ اس کے بر خلاف اس کا ابوعبید کے ساتھ شام میں ہونا ذکر کیا گیا ہے ۔ دوسری طرف ''حصید'' نامی مقام اور وہاں پر جنگ کے بارے میں ہم نے سیف کے علاوہ کسی اور کے ہاں نام ونشان تک نہیں پایا۔

سند کی پڑتال

سیف نے مذکورہ حدیث ،محمد مہلب اور زیاد سے روایت کی ہے ۔ان کے بارے میں پہلے معلوم ہو چکا ہے کہ تینوں راوی سیف کے جعلی راویوں میں سے ہیں ۔

اس کے علاوہ غصن بن قاسم نام کے ایک اور راوی سے بھی روایت کی ہے کہ تاریخ طبری میں سیف کے ذریعہ اس سے ١٣،احادیث نقل ہوئی ہیں ۔

اسی طرح ابن ابی مکنف نام کے ایک اور شخص کا نام بھی لیا ہے ۔

موخّر الذکر دونوں راویوں کے نام بھی ہم نے طبقات اور راویوں کی فہرست میں کہیں نہیں پائے ۔

آخر میں سیف نے اس داستان کے بانچویں راوی کے طور پر بنی کنانہ کے ایک شخص کو پیش کیا ہے لیکن ہمیں یہ معلوم نہ ہو سکا کہ سیف نے اپنے خیال میں اس شخص کا نام کیا رکھا تھا تاکہ ہم اس کی بھی تلاش کرتے !۔

اس اصول کے تحت ہمیں حق پہنچتا ہے کہ مذکورہ بالا راویوں کو بھی سیف کے جعلی راویوں کی فہرست میں شامل کریں ۔

۱۵۶

اس حدیث کے نتائج

١۔تین فوجی معاہدوں اور ایک صلح نامہ کو سیاسی اسناد کے طور پر پیش کرنا۔

٢۔ ''حصید'' نام کی ایک جگہ کو تخلیق کرکے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کرانا۔

٣۔ ایسے اشعار کی تخلیق کرنا جو ادبیات کی کتابوں درج ہو جائیں ۔

٤۔خاندان تمیم کے سورما ،قعقاع بن عمرو کے افتخارات میں ایک اور فخر کا اضافہ کرنا ۔

یہ سب اپنی جگہ پر لیکن وہ کون سا سبب تھا جس نے سیف کو یہ کام انجام دینے پر مجبور کیا کہ ابو عبیدہ کے ہمراہ شام میں جنگ میں مصروف '' عیاض'' کو خالد کے ساتھ عراق پہنچادے ؟!اگر زندیقی ہونے کے سبب یا کسی اور چیز نے اسے ایسا کرنے پر مشتعل نہیں کیا کہ وہ اسلام کی تاریخ میں تحریف کرے ،تو اور کیا سبب ہو سکتا ہے ؟!

۱۵۷

قعقاع ،مصیخ اور فراض میں

وبلغ قتلاهم فی المعرکة والطلب مائة الف

''جنگ فراض میں مقتولین کی تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی''

(سیف)

مصیخ کی جنگ

طبری نے سیف سے روایت کی ہے کہ :

'' ایرانی اور مختلف عرب قبیلوں نے ''حصید '' میں شکست کھانے کے بعد '' احنافس'' سے پسپائی اختیار کرکے ''حوران '' و ''قلت'' کے درمیان واقع ایک جگہ '' مصیخ'' میں اپنی منتشر فوج کو پھر سے منظم کیا جب اس فوج کے ''مصیخ '' میں دوبارہ منظم ہونے کی خبر خالد کو ملی ،تو اس نے قعقاع ،ابی لیلیٰ بن فدکی ا عبد بن فدکی اور عروہ بن بارقی کو ایک خط لکھا اور اس خط میں ذہن نشین کرایا کہ فلاں شب فلاں وقت پر اپنی فوج کو لے کر '' مصیخ '' کے فلاں مقام پر پہنچ جائیں وہ بھی وعدہ کے مطابق مقررہ وقت پر اس جگہ حاضر ہوئے انھوں نے تین جانب سے دشمن پر شب خون مارا اور ان کے کشتوں کے پشتے لگادیئے ۔ لوگوں نے اس قتل عام کے مناظر کی بھیڑ بکریوں کی لاشوں پر لاشیں گرنے سے تشبیہ دی ہے !!''

وہ مزید لکھتا ہے :

'' دشمن کی سپاہ کے کیمپ میں عبد الغزی نمری اور ولید بن جریر بھی موجود تھے انھوں نے اسلام قبول کیا تھا اور ان کے اسلام قبول کرنے کی گواہی کے طور پر ابوبکر کا خط بھی ان کے پاس موجود تھا یہ دونوں بھی اس جنگ میں قتل کئے گئے ۔ان کے مارے جانے کی خبر ابوبکر کو پہنچی اور خاص کر یہ خبر کہ عبد الغزی نے اس شب تین جانب سے ہونے والے حملہ کو دیکھ کر فریاد بلند کی تھی کہ : اے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خدا تو پاک و منزہ ہے !'' چوں کہ یہ دونوں بے گناہ مارے گئے تھے اس لئے ابوبکر نے ان کی اولاد کو ان کا خون بہا ادا کیا ۔ عمر نے ان کے مارے جانے اور اسی طرح مالک بن نویرہ کے قتل کے بارے میں خالد پر اعتراض کیا اور اس سے ناراض ہو گئے اور ابوبکر ،عمر کی تسلی کے لئے یہی کہتے تھے '' جو بھی فوج کے درمیان رہے گا اس کا یہی انجام ہوگا!''

۱۵۸

یہ داستان کہاں تک پہنچی؟

حموی نے سیف کی روایت کو اعتبار کی نگاہ سے دیکھا ہے اور '' مصیخ'' کے بارے میں سیف کا حوالہ دیتے ہوئے اس کی تشریح کی ہے اور اسے ایک واقعی جگہ کے طور پرپیش کیاہے اور لکھتاہے :

'' مصیخ '' حوران اور قلت'' کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں پر خالد بن ولید اور خاندان تغلب کے درمیان جنگ ہوئی تھی ''

اسی کے بعد لکھتا ہے :

'' قعقاع نے اس جنگ کے بارے میں یہ اشعار کہے ہیں :

'' مصیخ کی جنگ میں خاندان تغلب کے کارناموں کے بارے میں ہم سے پوچھو !کیا عالم اور جاہل برابر ہوتے ہیں ؟ جب ہم نے ان پر شب خون مارا تو اس کے نتیجہ میں ان کا صرف نام ہی باقی رہا ۔ ''ایاد''اور ''نمور''(۱) کے قبیلے بھی خاندان تغلب کے دوش بدوش تھے اور وہ بھی ان باتوں کو جوان کے وجود کو لرزہ بر اندام کئے دے رہی تھیں سن رہے تھے''

آپ ان مطالب کو صرف سیف کے افسانوں میں پاسکتے ہیں ۔دیگر لوگوں نے ''مصیخ '' اور اس جنگ کے بارے میں کسی قسم کا اشارہ تک نہیں کیاہے ۔کیوں کہ وہ حقیقت لکھنے کی فکر میں تھے نہ کہ افسانہ سازی میں ۔

سند کی پڑتال:

''مصیخ بنی البرشائ'' کے بارے میں سیف کی حدیث ''حیرہ'' کے واقعات کے بعد اور ان ہی حوادث کا سلسلہ ہے ۔اس لحاظ سے اس کی سند بھی وہی ہے جو ''حیرہ'' کے بارے میں بیان ہوئی ہے اور ہم نے ثابت کیا ہے کہ اس کے تمام راوی سیف کے خیالات کی تخلیق ہیں ۔

جانچ پڑتال کا نتیجہ

جیسا کہ ہم نے کہا کہ تاریخ دانوں نے اس قصہ کے بارے میں کچھ نہیں لکھا ہے تاکہ ہم ان کے اور سیف کے بیان کے درمیان موازنہ و بحث کریں ،بلکہ یہ تنہا سیف ہے جس نے یہ روایت جعل کی ہے ،اور انشاء اللہ ہم جلد ہی اس کے جھوٹ اور افسانہ نویسی کے سبب پر بحث و تحقیق کریں گے ۔

____________________

۱)۔ سیف نے ایسا خیال کیا ہے کہ ایاد ،نموراور تغلب کے قبیلوں نے ایک دوسرے کے دوش بدوش جنگ میں شرکت کی ہے ۔

۱۵۹

داستان مصیخ کے نتائج :

١۔ '' مصیخ بنی البرشائ'' نام کی ایک جگہ کی تخلیق کرنا تاکہ اسے جغرافیہ کی کتابوں میں درج کیا جاسکے ۔

٢۔ عبد ابن فدکی اور اس کے بھائی ابو لیلیٰ نام کے دو صحابی جعل کرنے کے علاوہ '' نمری'' نام کے ایک اور صحابی کو جعل کرنا جسے ابوبکر نے عبداللہ نام دیا ہے تاکہ ان کی زندگی کے حالات سیف کے افسانوں کے مطابق درج ہوں ۔

٣۔ افسانوی سورما قعقاع کے اشعار بیان کرنا۔

٤۔ ایک خونیں اور رونگٹے کھڑے کرنے والی جنگ کی تخلیق کرنا تاکہ میدان میں بھیڑ بکریوں کی طرح انسانی کشتوں کے پشتے لگتے دکھائے جائیں جس سے ایک طرف اپنے اسلاف کے افسانے سننے کے شوقین اور دوسری طرف اسلام کے دشمنوں کے دل شاد کئے جائیں اور اس قسم کی چیزیں سیف کے افسانوں کے علاوہ کہیں اور نہیں پائی جاتیں !

فراض کی جنگ

طبری نے سیف سے نقل کرتے ہوئے لکھا ہے:

''واقع مصیخ کے بعد تغلب کے بھگوڑ ے''دارالثنی''اور ''زمیل''میں جمع ہوئے اور خالد بن ولید نے قعقاع کے ہمراہ ان پر وہی مصیبت توڑی جو مصیخ میں رو نما ہوچکی تھی۔''

اس کے بعد لکھتاہے:

''خالد ،شام اور عراق کی سرحد پر واقع ''فراض ''کی طرف روانہ ہوا ۔سیف کہتاہے :رومی مشتعل ہوئے اور انہوں نے ایرانی سرحد بانوں سے اسلحہ اور مدد حاصل کی اور مختلف عرب قبیلوں ،جیسے تغلب ،ایاد اور نمر سے بھی مدد طلب کی اس طرح ایک عظیم فوج جمع کر کے خالد بن ولید کے ساتھ ایک لمبی مدت تک خونیں جنگ لڑی ۔ سرانجام اس جنگ میں رومیوں نے شکست کھائی اور سب کے سب میدان جنگ سے بھاگنے پر مجبور ہوئے ۔خالد نے حکم دیا کہ بھاگنے والوں کے سر تن سے جدا کئے جائیں ۔ خالد کے سوار ،فراریوں کو گروہ گروہ کی صورت میں ایک جگہ جمع کرکے ان کا سر تن سے جدا کرتے تھے ۔اس طرح مقتولین کی کل تعداد ایک لاکھ تک پہنچ گئی۔''

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296