منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137301 / ڈاؤنلوڈ: 6243
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

مشورہ دیا کرتا تھا_ اسی عبداللہ بن سلام نے حضرت عثمان کے محاصرے کے وقت اس کی زبانی کلامی حمایت پر اکتفا کیا اور اس کی کوئی عملی مدد نہیں کی(۱) حالانکہ اس نے جناب عثمان کی عملی مدد کا وعدہ بھی کیا تھا_ اور جب جناب عثمان کا گھیراؤ کرنے والے لوگوں نے عبداللہ بن سلام کے متعلق اسے کہا کہ یہ ابھی تک بھی اپنی یہودیت پر ڈٹا ہوا ہے تو وہ اپنی یہودیت کی نفی کرنے لگا(۱) نہ صرف یہ بلکہ ابن سلام ، کعب الاحبار اور یہود و نصاری کے دوسرے زعماء و بزرگان جنہوں نے اسلام کا اظہار کیا تھا وہ اسلامی حکومت کے بہت سے اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز تھے ، یہ دونوں اشخاص بہت سے اہم امور میں ا س وقت کے حکمرانوں کے مشیر اور معاون ہوتے تھے_

ہم بارگاہ خداوندی میں دعاگو ہیں کہ وہ ہمیں اہل کتاب کی سیاہ کاریوں اور مسلمانوں کی سیاست ،عقائد، تفسیر، حدیث ، فقہ اور تاریخ میں ان کی ریشہ دوانیوں اور اثر گذاریوں کے متعلق ایک مستقل کتاب لکھنے کی توفیق عطا فرمائے_

____________________

۱)مندرجہ ذیل کتب میں اس کے اقوال ملاحظہ ہوں : المصنف صنعانی ج۱۱ ص ۴۴۴، ص ۴۴۵و ۴۴۶ نیز اسی کے حاشیہ میں از طبقات ابن سعد ج ۳ ص ۸۳ ، حیاة الصحابہ ج ۳ ص ۵۴۰ ، مجمع الزوائد ج ۹ ص ۹۲ و ۹۳ و الاصابہ ج ۲ ص ۳۲۱ _

۲)ملاحظہ ہو: الفتوح ابن اعثم ج ۲ ص ۲۲۳و ۲۲۴_

۲۱

۲۳

دوسری فصل :

غیر جنگی حوادث و واقعات

۲۲

حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے بعض مہاجرین کی واپسی :

جب حبشہ میں موجود مسلمانوں کو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی مدینہ کی طرف ہجرت کی خبر پہنچی تو ان میں سے (۳) مرد اور آٹھ عورتیں واپس آئیں_ جن میں سے دو مرد مکہ میں فوت ہوگئے اور سات آدمیوں کو قید کر لیا گیا لیکن باقی مدینہ میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں پہنچے جن میں سے چوبیس افراد جنگ بدر میں بھی موجود تھے(۱) _

اور(حبشہ سے) مدینہ کی طرف ہجرت کا یہ سلسلہ جاری رہا(۲) یہاں تک کہ حضرت جعفرعليه‌السلام ہجرت کے ساتویں سال فتح خیبر کے موقع پر باقی ماندہ افراد کو لے کر پہنچے _ جسکا ذکر انشاء اللہ بعد میں آئے گا_

مذکورہ بالا تیس اشخاص ان افرادکے علاوہ ہیں جو بعض کے بقول بعثت کے پانچویں برس اور ہجرت مدینہ سے آٹھ سال پہلے مکہ میں واپس آئے تھے_ لیکن ان کا مکہ سے گزرنے کا سبب(حالانکہ وہ اسی شہر سے ہی بھاگ کرگئے تھے) بظاہر یہ ہے کہ چونکہ مدینہ کی طرف جانے والا راستہ مکہ کے قریب سے گزر تا تھا(۳) تو شاید وہ مکہ میں موجود ا پنے اموال کو لینے، اقربااور رشتہ داروں سے ملنے اور بیت اللہ کی زیارت سے مشرف ہونے کے بعد پھر مدینہ جانے کے ارادے سے مخفیانہ یا علانیہ طور پر مکہ میں داخل ہوئے_

لیکن قریش ان کے ساتھ قساوت قلبی اور سنگدلی کے ساتھ پیش آئے، ان کے لئے کسی قسم کے

____________________

۱) طبقات ابن سعد ج/ حصہ۱ص ۱۳۹_

۲) طبقات ابن سعد ج/۱حصہ۱ ص ۱۳۹،زاد المعاد ج/ ۱ ص ۲۵ و ج/ ۲ ص ۲۴ ، ۴۵ ، البدء والتاریخ ج/ ۴ ص ۱۵۲ و فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵_

۳) اور اس پر المصنف ج/۵ ص ۳۶۷ کی یہ عبارت دلالت کرتی ہے کہ ''جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کفار قریش سے برسرپیکارہوئے تو وہ مہاجرین حبشہ کے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے پاس پہنچنے سے مانع ہوئے_یہاں تک کہ وہ لوگ جنگ خندق کے موقع پر مدینہ میں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آملے''_ البتہ ان کا '' جنگ خندق کے مو قع پر '' کہنا ، ناقابل تائید ہے اور شاید خندق ، خیبر کی جگہ لکھا گیا ہے_

۲۳

احترام ، غریب الوطنی اور رشتہ داری کا لحاظ بھی نہیں کیا اور یہ بات واضح ہے کہ حبشہ کے مہاجرین کے اس گروہ کا مدینہ میں پہنچنا نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مدینہ پہنچنے کے چند مہینے بعد تھا کیونکہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ہجرت کی خبر کاان تک پہنچنا پھر ان کا مکہ کی طرف آنا اور وہاں پر رشتہ داروں سے ملاقات کرنا اور قریش کا وہ سلوک کرنا اور پھر ان کا مدینہ کی طرف ہجرت کرنا یہ سب چیزیں ایک طولانی مدت کے گزرنے کی متقاضی ہیں، یہاں تک کہ عسقلانی کہتا ہے :'' ابن مسعود مکہ کی طرف اور پھر مدینہ کی طرف ہجرت کرنے والے تیس آدمیوں میں سے تھے اور وہ مدینہ میں اس وقت پہنچے جب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جنگ بدر کی تیاریوں میں مصروف تھے''(۱) _

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌ کے گھر میں :

ہجرت کے پہلے سال (اور کہا گیا ہے کہ دوسرے سال )حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں آئیں اور یہ ماہ شوال کی بات ہے، مورخین نے کہا ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے علاوہ کسی دوسری کنواری عورت سے شادی نہیں کی لیکن ہم اس بات کے صحیح ہونے پر اطمینان نہیں رکھتے اور اس کی وجہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے حضرت خدیجہعليها‌السلام کے ساتھ ازدواج کی بحث میں گزر چکی ہے کہ حضرت خدیجہع ليها‌السلام کی رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے علاوہ کسی دوسرے آدمی سے شادی کا مسئلہ نہایت مشکوک ہے_ ہو سکا تو انشاء اللہ ہم آئندہ بھی اس کی طرف اشارہ کریںگے_

رخصتی کی رسم

اور ہمیں معلوم نہیں ہوسکا کہ کس وجہ سے حضرت عائشہ کی رخصتی کی رسم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اہمیت نہیں رکھتی تھی کیونکہ روایت کی گئی ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کے لئے ولیمہ نہیں کیا حالانکہ اس دور میں لوگوں کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ولیمہ کھانے کی توقع بھی تھی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کی طاقت بھی رکھتے تھے_ صر ف یہی کچھ نقل کیا گیا ہے کہ دودھ کاایک پیالہ سعد بن عبادہ کے گھر سے آیا اور اس میں سے کچھ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے پیا اور باقی حضرت عائشہ(۲)

____________________

۱) فتح الباری ج/۷ ص ۱۴۵ _

۲) تاریخ الخمیس ج/۱ ص ۳۵۸ ، السیرة الحلبیة ج/۲ ص ۱۲۱ _

۲۴

نے_اسی کو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس شادی کا ولیمہ قرار دینا بھی صحیح نہیں کیونکہ یہ طبعی بات ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو اپنے پاس بیٹھنے والے کو کھانا پیش کرنے سے غفلت نہیں فرماسکتے تھے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زوجہ کی تو بات ہی اور ہے_

انوکھا استدلال :

حضرت عائشہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک اپنی منزلت اورشان پر اس طرح استدلال فرماتی تھیں کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان کے ساتھ ماہ شوال میں ازدواج کیا تھا _ وہ کہتی تھیںکہ :

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ماہ شوال میں مجھے شرف زوجیت بخشا پس رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ازواج میں سے کون سی زوجہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک مجھ سے زیادہ منزلت رکھتی ہے؟(۱) _

حقیقتاً یہ انوکھا استدلال ہے _ اس لئے کہ کب ماہ شوال کی اتنی عظیم فضیلت تھی جو حضرت عائشہ کی منزلت و فضیلت پر دلالت کرتی ؟_

جبکہ بلاشک و شبہہ حضرت خدیجہ اور حضرت ام سلمہ اوردیگر ازواج ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک ان کی نسبت زیادہ منزلت و عظمت رکھتی تھیں اسی وجہ سے تو یہ ان سے حسد کرتیں، ان کو اذیت دیتیں اور اکثر خودنبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے بھی ان کے ساتھ بد اخلاقی کا مظاہرہ کرتی تھیں ہمارے اس دعوے کے بعض دلائل ہجرت سے پہلے حضرت عائشہ کے عقد سے بحث کے دوران ذکر ہو چکے ہیں_

اور اس سے بھی عجیب تربات یہ ہے کہ بعض حضرات نے ماہ شوال میں عقد کے استحباب کا حکم صادر کیا ہے(۲) _

لگتا یہی ہے کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کریم کی رحلت کے بعد آنے والی حکومت وقت کی دست راست اور حکومت وقت اور ان کے حامیوں کی آنکھوں کے کانٹے حضرت علیعليه‌السلام کی اچھائی کے ساتھ نام تک نہ لے سکنے والی(۳)

____________________

۱) تاریخ طبری مطبوعہ الاستقامة ج ۲ ص ۱۱۸ ، السیرة الحلبیہ ج ۲ ص ۱۲۰، تاریخ الخمیس ج ۱ ص ۳۵۸_

۲) نزھة المجالس صفوری الشافعی ج/۲ ص ۱۳۷_

۳)فتح الباری ج ۲ ص ۱۳۱، مسند احمد ج ۶ ص ۲۲۸ ،و الغدیر ج ۹ ص ۳۲۴_

۲۵

حضرت عائشہ سے کچھ لوگوں کی محبت و عقیدت ، اور ان کی خواہشات کو اہمیت دینا ہی ان لوگوں کی اس طرح کی شریعت سازی کا موجب بنا_حالانکہ خود ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے حضرت جویریہ اورحضرت حفصہ کے ساتھ ماہ شعبان میں اور زینب بنت خزیمہ کے ساتھ ماہ مبارک رمضان میں اور زینب بنت جحش کے ساتھ ذی القعدہ میں رشتہ ازدواج استوار فرمایا_ پس اس صورت میں نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس مستحب کو ترک کیا ہے اور اس پر صرف اور صرف اکیلی حضرت عائشہ کے لئے عمل کیا ہے_ یہ بات حقیقتاًتعجب آور ہے اور نہایت ہی عجیب ہے

ایک نئے دور کی ابتداء

بہر حال نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بیت الشرف میں حضرت عائشہ کے آنے سے امن و آشتی اور عظمت و وقار کے نمونہ اس گھر میں خاص قسم کی تبدیلیاں رونما ہونا شروع ہوگئیں اوریہ گھر بہت سے ایسے اختلافات اور جھگڑوں کی جولانگاہ بن گیا جو اکثر اوقات نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے غم و غصّہ کے موجب بنتے تھے اوراکثر جھگڑوں میں حضرت عائشہ کا کردار بنیادی ہوتا تھا_

ہمارے اس مدعا پر تاریخ اور متواتر احادیث گواہ ہیں بلکہ بعض منابع کے مطابق خود حضرت عائشہ نے تصریح کی ہے کہ : ''نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بیت الشرف میں رونما ہونے والے تما م اختلافات کا سبب میں ہی تھی''_

مومنین کے درمیان صلح والی آیت:

بعض مورخین نے غزوہ بدر سے پہلے کے حالات میں لکھا ہے(۱) کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ایک مرتبہ خزرج کے قبیلہ بنی حرث میں سعدبن عبادہ کی عیادت کے لئے تشریف لے گئے _ یہ واقعہ عبداللہ بن ابی بن سلول کے اسلام لانے سے پہلے کاہے_

____________________

۱)سیرہ حلبیہ ج۲ ص ۶۴_

۲۶

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنی سواری پرسوارعبداللہ بن ابی کی ایک محفل کے قریب سے گذرے جس میں مسلمان، مشرکین، اور یہودی ملے جلے بیٹھے تھے _ ان میں عبداللہ بن رواحہ بھی موجود تھا_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سواری کی ٹاپوں سے گرد و غبار اڑا تو ابن ابی نے اپنی چادر سے ناک ڈھاپنتے ہوئے کہا:'' ہم پر گرد و غبار نہ اڑاؤ''_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سواری سے نیچے اترے اور اسے مسلمان ہونے کی دعوت دی تو ابن ابی کہنے لگا : '' بھلے مانس اگر تیری باتیں سچ ہیں تو یہ سب سے بہترین باتیں ہیں لیکن تیرے کہنے کا انداز بالکل بھی صحیح نہیں ہمیں محفل میں آکر پریشان مت کرو ،جاؤ اپنی سوار ی کا رخ کرواور جو تمہارے پاس آئے تم اسے یہ باتیں سنانا''_ ابن رواحہ نے کہا:'' جی ہاں یا رسول اللہ آپ ہمارے پاس آکر ہمیں اطمینان سے یہ باتیں سنائیں کیونکہ ہمیں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ فرمائشےات پسند ہیں '' _ پھر تو مسلمانوں اور مشرکوںکے درمیان ایسی گالی گلوچ شروع ہوگئی کہ مارکٹائی تک نوبت پہنچنے والی تھی _ لیکن رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا انہیں خاموش رہنے کی برابر تلقین کرتے رہے ، یہاں تک کہ وہ خاموش ہوگئے_

اس کے بعد آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سعد بن عبادہ کے پاس تشریف لے گئے اور سارا ماجرا اسے سنایا_ سعد نے عرض کی کہ آپ ابن ابی کو چھوڑ دیں کیونکہ جلد ہی ہم اس پر ہلہ بولیں گے _ لیکن جب وہ ان کے حملے سے پہلے اسلام لے آیا تو سعد بن عبادہ کے قبیلہ والے اس پر چڑھائی سے باز رہے _

دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ رسول کریمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور کچھ مسلمان آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ ابن ابی کی طرف تشریف لے گئے تا کہ ا س کے قبیلے سے روابط برقرار کریں _جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس کے پاس پہنچے تو اس نے کہا: ''دور ہو جاؤ مجھ سے بخدا تمہاری سواری کی بد بو سے مجھے بہت تکلیف ہوئی ہے ''_ اس پرایک انصاری صحابی بولے:'' اللہ کی قسم تیرے وجود کی بوسے رسول اللہ کی سواری کی بو کہیں زیادہ پاکیزہ ہے''_ ابن ابی کے قبیلے کے آدمی کو غصہ آیا اس نے اسے گا لیاں دیں_ اب طرفین غضبناک ہوگئے اور پھر دونوں میں چھڑیوں اورجوتوں سے لڑائی ہوئی _

۲۷

اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی:

( و ان طائفتان من المومنین اقتتلوا فاصلحوا بینهما ) (حجرات _۹)

اگر مومنین کے دو گروہوں میں لڑائی ہوجائے تو ان میں صلح کرادو_(۱)

تفسیر مجمع البیان میں مذکورہے کہ جس نے ابن ابی سے مذکورہ بات کی وہ عبداللہ بن رواحہ تھے اور لڑائی ابن رواحہ کے قبیلے اوس اور ابن ابی کے قبیلے خزرج کے درمیان ہوئی_

البتہ دونوں روایات قابل اعتراض ہیں _کیونکہ:

اولاً: آیت صلح پہلی روایت پہ منطبق نہیں ہوتی کیونکہ اس روایت کی روسے جھگڑا مشرکوں اور مسلمانوں کے درمیان تھادو مسلمان گروہوں کے درمیان نہیں _بلکہ دوسری روایت سے بھی ظاہر نہیں ہوتا کہ یہ جھگڑا مومنین کے دوگروہوں میں تھا _اگر دونوں روایات کو ایک روایت قرار دیں کیونکہ دونوں کا سیاق و سباق اور مضمون ایک ہی ہے تو پھر بھی یہ اطمینان حاصل نہیں ہوتا کہ یہ آیہ مجیدہ اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہو_

ثانیاً : آیہ مجیدہ سورہ مبارکہ حجرات میں ہے جو ہجرت کے چند سال بعد نازل ہوئی _کیونکہ اس سورت کا نزول سورہ مجادلہ ، اور جنگ خندق کی مناسبت سے نازل ہونے والی سورت احزاب اور دیگر سورتوں کے نزول کے بعد ہوا_ جبکہ یہ بات گزر چکی ہے کہ مذکورہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کاہے_ ان ساری باتوں کے علاوہ روایات کے مضامین میں بھی اختلاف و تناقض پایا جاتاہے جو واضح ہے_

البتہ ایسا بھی نہیں کہ روایت سرے سے ہی ناقابل قبول اور جعلی ہو_ تا ہم ہو سکتا ہے یہ واقعہ ہجرت کے چند سال بعد سورہ حجرات کے نزو ل اور ابن ابی کے اسلام لانے کے بعد رونما ہوا ہو اور جھگڑا مومنین کے دو گروہوں کے درمیان ہو_ اس اعتبار سے دوسری روایت مضمون کے زیادہ قریب اور مناسب ہے_

____________________

۱)السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۶۳و۶۴،درمنثورج/۶ص۹۰از مسلم، بخاری، احمد، بیہقی کی سنن ، ابن مردویہ ، ابن جریر اور ابن منذر ، حیاة الصحابہ ج/۲ ص ۵۷۸ ،۵۷۹ ، ۵۶۰از البخاری ج/۱ص ۳۷۰ ، ج/۳ ص ۸۴۵_

۲۸

سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاقبول اسلام :

پہلی ہجری میں اوربقولے اسی سال کے ماہ جمادی الاولی(۱) میں سلمان محمدیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم المعروف سلمان فارسی (حشر نا الله معه و فی زمرته )نے اسلام قبول کیا_ یہی وہ شخصیت ہیں جن کے بارے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ائمہ اہل بیت علیھم السلام نے فرمایا:''سلمان منا اهل البیت'' (۲) _

یہی وہ سلمان ہیں جنہوں نے دین حق کی تلاش میں اپنے علاقے سے ہجرت کی اور اس را ہ میں انہوں نے بہت ساری مصیبتیں اور مشکلات برداشت کیں _ یہاں تک کہ غلام ہوئے اور پھر نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں آزاد ہوئے(۳) _

کہتے ہیں کہ مدینہ میں ''قبا'' کے مقام پر حضرت سلمان فارسی نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی خدمت میں حاضری دی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے سامنے یہ کہہ کہ کھجوریں پیش کیں کہ یہ صدقہ ہے _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خودتو کھانے سے انکار فرمایالیکن اصحاب سے امر فرمایا کہ کھالیں تو انہوں نے یہ کھجوریں کھالیں_ حضرت سلمان نے اسے پہلی نشانی شمار کیا _

اگلی مرتبہ پھر جناب سلمان کی ملاقات آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مدینہ میں ہوئی_ اس نے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں کھجوریں یہ کہہ کر پیش کیں کہ یہ تحفہ ہے _آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قبول فرمایا اور کھجوریں کھالیں پس حضرت سلمان نے اسے دوسری نشانی شمار کیا _

____________________

۱)تاریخ الخمیس ج/ ۱ ص ۳۵۱_

۲)قاموس الرجال ج/۴ ترجمہ سلمان_

۳) المصنف ج / ۸ ص ۴۱۸ میںان کے اسلام لانے کا واقعہ مذکور ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ سلمان فارسی کے علاقے میں ایک راہب تھا _ آپ نے بعض خاص قسم کی تعلیمات اس سے سیکھیں اور علاقے کے لوگوں کو بتائیں تو انہوں نے راہب کو اپنے علاقے سے نکال باہر کیا_ آپ اپنے اہل و عیال سے چھپ کر اس کے ساتھ وہاں سے نکلے اور موصل پہنچ گئے _ وہاں انکی ملاقات چالیس۴۰راہبوں سے ہوئی _ چند ماہ بعد ایک راہب کے ہمراہ آپ بیت المقدس گئے وہاں ایک راہب کی سخت عبادت و ریاضت اور انکی بے چینی کو دیکھا لیکن پھر جلد ہی اس کا دل اس سے بھر گیا _ وہاں انصار کے سواروں کے ایک دستے نے ان راہبوںسے حضرت سلمان کے بارے سوال کیا توانہوںنے جواب دیا کہ یہ ایک بھگوڑا غلام ہے _پس انہوں نے اسے مدینے لے جاکر ایک باغ میں کام پر لگادیا_ اس راہب نے جناب سلمان کو بتایا تھا کہ عرب سے ایک نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عنقریب ظہور کرناہے جو صدقہ نہیں کھائے گا، ہدیہ قبول کرے گا اور اسکے شانوں پر نبوت کی مہر ہوگی _ اس راہب نے آپ سے کہا تھا کہ اسکی اتباع کرنا_

۲۹

اسکے بعد حضرت سلمان کی ملاقات آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے بقیع کے ایک نشیب میں ہوئی جہاں آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے بعض اصحاب کی تشیع جنازہ میں شریک تھے پس قریب آئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر سلام کیا اور پیچھے پیچھے چل دیئے_ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی پشت مبارک سے چادر ہٹائی تو دیکھا کہ شانوں پر نبوت کی مہر موجود ہے_ پس اب وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی طرف جھکے ،شانوں پر بوسہ دیا اور گریہ کرنا شروع کیا_ اس کے بعد اسلام قبول کیا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں اپنا سارا واقعہ بیان کیا _ اسکے بعد حضرت سلمان نے اپنے مالک سے اپنی آزادی کا معاہدہ کیا اور اپنی آزادی کی رقم ادا کرنے کے لئے محنت مزدوری کرنے لگا اور آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اس کی مالی امداد فرمائی _ اور پھر حضرت سلمان نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی غلامی میں اپنی ساری زندگی گذاردی تا کہ اس آزادی کا حق ادا کرسکیں_

اس نے پہلی مرتبہ جنگ خندق میں حصہ لیا اور پھر اس کے بعد کئی جنگوں میں حصہ لیا_ ابن عبدالبر کا کہنا ہے کہ انہوں نے پہلے پہل جنگ بدر میں حصہ لیا اور یہ نظریہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کی مالی امداد کے تناظر میں زیادہ مناسب ہے _ اسکے لئے حدیث و تاریخ کی کتابوں کی طرف رجوع کیا جائے _(۱) نیز ہماری کتاب''سلمان الفارسی فی مواجهة التحدی'' ( سلمان فارسی چیلنجوںکے مقابلے میں) بھی ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

ایک اہم بات :

یہاں قابل ملاحظہ ایک اہم نکتہ یہ ہے کہ حضرت سلمان نے ذاتی احساسات یا مفادات کی بناء پر اسلام قبول نہیں کیا اور نہ ہی کسی مجبوری یا کسی کے دباؤ یا کسی سے متاثر ہونے کی بنا پر اسلام قبول کیا بلکہ خالصتاً اپنی عقل و فکر اور سوچ و بچار کے ساتھ دائرہ اسلام میں داخل ہوئے_ دین حق تک پہنچنے کے لئے انہوں نے بہت سعی و کوشش کی اور اس راہ میں بہت سی رکاوٹوں، مشکلات اور پریشانیوں کا سامنا کیا _ اور یہ بات اس دین کے فطری ہونے نیز عقل کے احکامات اور سالم فطرت کے تقاضوں کے مطابق ہونے کی تائید کرتی

____________________

۱)بطور مثال قاموس الرجال ج/۴ ، الاصابہ ج/ ۲ ص ۶۲ ، الاستیعاب اور دیگر کتابیں_

۳۰

ہے_ اسی طرح کی باتیں ہم حضرت ابوذرکے اسلام قبول کرنے کے واقعات میں بیان کرچکے ہیں، وہاں ملاحظہ فرماسکتے ہیں_

رومہ کا کنواں حضرت عثمان کے صدقات میں :

بعض نے حضرت عثمان کے فضائل میں لکھاہے کہ جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو سوائے رومہ کے کنویں کے کوئی اور ایسا کنواں نہ تھا جس سے صاف اور میٹھا پانی پیا جاتا_ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:'' کون ہے جو اپنے ذاتی مال سے اس کنویں کو خریدے اور اپنی بالٹی اور دیگر مسلمانوںکی بالٹیاں اس میں قرار دے (یعنی سب مسلمانوں کے لئے وقف کردے ) تو اسے جنت میں اپنی پسند کا اس سے بھی اچھا کنواں ملے گا؟ ''پس حضرت عثمان نے اپنے خالص مال سے اس کنویں کو خریدا اور اس کنویں میں اپنی اور مسلمانوں کی بالٹیاں ڈال دیں_ لیکن جب حضرت عثمان کا محاصرہ ہو اتو لوگوں نے انہیں اس کنویں سے سخت پیاس کی صورت میں بھی پانی نہیں پینے دیا تھا حتی کہ وہ مجبور ہوکر سمندر کا پانی پینے لگے تھے _

لیکن ان روایات میں شدید اختلاف پایا جاتاہے_ہم بعدمیں مدارک و مصادر کی طرف اشارہ کریں گے_ انہی اختلافات کی وجہ سے ہمیں ان کے صحیح ہونے کے بارے شک ہے_یہ اختلافات مندرجہ ذیل ہیں:_

اولاً : روایات میں اتنا تناقض و اختلاف ہے کہ کوئی ایک روایت بھی دوسری سے نہیں ملتی _مثلاً کہتے ہیں کہ جب حضرت عثمان کے خلاف بغاوت ہوئی توانہوں نے باغیوں کو رومہ کے کنویں والے واقعہ کا واسطہ دیا لیکن یہاں روایتوں میں اختلاف پیدا ہوجاتا ہے _ ایک روایت تو یہ کہتی ہے کہ جب وہ اپنے گھر میں محاصرے میں تھے تو تب انہوں نے لوگوں کے سامنے آکر یہ بات کی تھی جبکہ ایک اور روایت کہتی ہے کہ اس وقت وہ مسجد میں تھے _ ایک روایت میں ہے کہ انہوں نے آدھا کنواں سو اونٹنیوں کے عوض اور باقی آدھا ایک آسان نرخ پہ خریدا_دوسری روایت کہتی ہے کہ چالیس ہزار کا کنواں خریدا ایک اور روایت میں

۳۱

ہے کہ ۳۵ اونٹینوں کے عوض خریدا_ چوتھی روایت ہے کہ آدھا کنواں بارہ ہزار درہم میںاور باقی آدھا آٹھ ہزار میں خریدا_

ایک اور روایت اس بارے میں یہ ہے کہ یہ کنواں ایک یہودی کا تھا_ کوئی بھی قیمت ادا کئے بغیر اس سے پانی کا ایک قطرہ تک نہیں پی سکتا تھا_ایک اور روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں قبیلہ مزینہ کے ایک شخص کا تھا_ تیسری روایت کہتی ہے کہ یہ کنواں بنی غفار کے ایک شخص کی ملکیت تھا_ یہاں ایک روایت یہ کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے کنواں خریداجبکہ دوسری یہ کہتی ہے کہ انہوں نے کنواں کھودا _ لوگ دونوں روایتوں کو جمع کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ انہوں نے پہلے کنواں خریدا لیکن اسکے بعداسے دوبارہ کھودنے کی ضرورت پڑ گئی_(۱) لیکن یہ بات صحیح نہیں ہے کیونکہ وہ خود کہتے ہیں کہ اس کا ذکر حضرت عثمان نے اس وقت کیا تھا جب اصحاب کو اس کی قسم دی تھی اور یہ واقعہ صرف ایک ہی مرتبہ ہواتھا_

ایک روایت یہ کہتی ہے کہ یہ چشمہ تھا جو زمین پر جاری تھا جبکہ دوسری کہتی ہے کنواں تھا_ ایک روایت کہتی ہے کہ حضرت عثمان نے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور مسلمانوں کے مدینہ پہنچنے پر کنواں خریدا _ لیکن دوسری روایت کی حکایت یہ ہے کہ جب خلیفہ تھے تب یہ کنواں خریدا تھا_

ایک روایت میں ہے کہ خود آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے کنواں خریدنے کو فرمایا _دوسری روایت یہ کہتی ہے کہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مسلمانوں میں اعلان کرایا کہ کوئی ہے جو کنواں خریدے_ تیسری روایت کا کہناہے کہ اس غفاری (کنویں کے مالک ) نے جنت میں دو چشموں کے بدلے بھی پاک پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہاتھوں اسے بیچنا گوارا نہ کیا _جب یہ بات حضرت عثمان کو معلوم ہوئی تو انہوں نے اسے ۳۵ ہزار میں خریدا(۲) _

____________________

۱)اس توجیہ کو سمہودی نے وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۷۰ میں ذکر کیا ہے_

۲)ان روایات کا مطالعہ فرمائیں اور ان کا آپس میں تقابل کریں_وفاء الوفاء للسمھودی ج / ۳ ص ۹۶۷ _ ۹۷۱ ، سنن نسائی ج/۶ ص ۲۳۴، ۲۳۵ ، ۲۳۶ ، منتخب کنز العمال ج/۵ ص۱۱ ، حیات الصحابہ ج/۲ ص ۸۹ از طبرانی وابن عساکر ، مسند احمد ج /۱ ص۷۰ ، ۷۵ ، السیرة الحلبیہ ج/۲ ص۷۵ ، اسی طرح بغوی، ابن زبالہ، ابن شبة، ابن عبدالبر، الحازمی، ابن حبان، ابن خزیمہ سے بھیروایت کی گئی ہے ، الترمذی ص ۶۲۷ ، حلیة الاولیاء ج/۱ ص ۵۸ ، البخاری حاشیہ فتح الباری ج/۵ ص ۳۰۵ ، فتح الباری ج ۵ ص ۳۰۵ ، ۳۰۶ ، سنن بیہقی ج/ ۶ ص ۱۶۷ ، ۱۶۸نیز التراتیب الاداریہ _

۳۲

اختلافات اور تناقضات کی فہرست طولانی ہے جن کے ذکر کا موقع نہیں _اگر کوئی چاہے تو ان کتابوں کی طرف رجوع کرسکتاہے جن کے ہم نے حوالے دیئے ہیں_

ثانیاً : نسائی، مسند احمد اور ترمذی جیسی کتب میں ایک روایت مذکور ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب مدینہ تشریف لائے تووہاں میٹھا اور پینے کے قابل پانی نہ تھا_ یہ بات کسی طرح بھی درست نہیں ہے کیوں کہ جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مدینہ تشریف لائے تو میٹھے پانی کے کافی سارے کنویں تھے_ جن کنوؤں سے حضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی بھر پانی استعمال فرمایا_ ان کنوؤں میں سے اسقیا، بضاعہ، جاسوم اور دار ا نس کے کنویں تھے جن میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنا لعاب دین پھینکا تو اسکے بعد مدینے میں ان سے زیادہ میٹھے پانی کا کوئی اور کنواں نہ تھا(۱) اس کے علاوہ بہت سارے کنویں تھے اس سلسلے میں وفاء الوفاء کے باب '' آبار المدینہ'' کا مطالعہ کرسکتے ہیں _

ثالثاً : اگر رومہ کے کنویں والی حدیث صحیح مان لی جائے تو پھر مندرجہ ذیل جواب طلب سؤالات سامنے آتے ہیں_

۱_حضرت عثمان جو حبشہ سے تازہ آئے تھے اور انکے پاس کوئی مال و متاع بھی نہ تھا تو پھر چالیس ، پینتیس یا بیس ہزار درہم اور سو اونٹنیاں کہاں سے آگئیں _ انہوں نے کب اور کس طرح یہ مال کمایا؟_

۲ _ حضرت عثمان نے جنگ بدر کے موقع پر اتنی بڑی رقم کے ہوتے ہوئے مدد کیوں نہ کی ؟ یا ان اونٹیوں میں کوئی چیز کیوں خرچ نہ کی جو روایات کے بقول یہ ان کا خالص ذاتی مال تھا؟ حالانکہ اس وقت مسلمانوں کو چھوٹی سے چھوٹی چیز کی بھی اشد ضرورت تھی _کیونکہ دو یا تین افراد ایک ہی اونٹ پر بیٹھتے تھے اوران کے پاس صرف ایک ہی گھوڑا تھا _ مسلمانوں کے پاس صرف چھ عدد زر ہیں اور آٹھ عدد تلواریں تھیں جبکہ باقیوں نے ڈنڈوں اور کھجور کی چھڑیوں کے ساتھ جنگ کی _ اسکا اور اس کے منابع کا ذکر آئے گا_

حضرت عثمان نے اپنے اموال سے بالکل بھی مدد نہ کی ؟ کیا پھر بھی یہ بات درست اور معقول ہے کہ انہوں نے اپنے پاس موجود سب کچھ لٹا دیا اور خالی ہاتھ ہوگئے؟

____________________

۱) وفاء الوفاء للسمھودی ج/ ۳ ص ۹۵۱ ، ۹۵۶ ، ۹۵۸ ، ۹۵۹ ، ۹۷۲_

۳۳

حضرت عثمان نے کیونکر غریب مسلمانوں کو کھانا نہ کھلایا ، انکی ضروریات کو پورا نہ کیا اور انصار کی مدد نہ کی ؟ خود پیامبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مدد کیوں نہ کی _ جبکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شدید اقتصادی بحران کا شکار تھے اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور مسلمانوں کی معاشی حالت ہجرت کے چند سال بعدجاکے کہیں ٹھیک ہوئی؟

۳_ بعض روایات کہتی ہیں کہ حضرت عثمان کو اس کنویں کا پانی پینے سے منع کردیا گیا جس سے وہ سمندر کا پانی پینے پر مجبور ہوگئے_ یہ بات واقعاً بہت عجیب ہے پس اگر حضرت عثمان پانی حاصل کرسکتے تھے تو انہوں نے مدینہ میں دسیوں کی تعدا میں موجود دیگر کنوؤں کا میٹھا پانی کیوں استعمال نہیں کیا ؟_

کیونکہ جس شخص نے پانی پینے سے منع کیا تھا وہ تو چاہتا تھا کہ ان تک کسی طرح کا کوئی پانی ، کہیںسے بھی نہ پہنچے_ کیونکہ بقول ان کے حضرت عمار یاسر اس تک پانی پہنچانے لگے تو طلحہ نے انہیں منع کردیا _(۱)

پس جب تک حضرت علیعليه‌السلام نے اپنے بچوں کے ہمراہ پانی نہیں پہنچایا تب تک انہیں پانی میسر نہیں آیا اور واضح ہے کہ آپعليه‌السلام نے اس کام سے اپنے خاندان کو خطرات میں جھونک دیا_ کیا یہ درست ہے کہ انہوں نے واقعا سمندر کا پانی پیا تھا؟_ جبکہ سمندر کا فاصلہ مدینہ سے بہت زیادہ دور ہے _ یا یہ نمکین اور کھارا پانی استعمال کرنے سے کنایہ ہے ؟ ؟

۴_ اگر حضرت عثمان نے یہ سارا مال صدقہ کیاتھا تو کیوں ان کی مدح میں ایک آیت بھی نازل نہیں ہوئی جو اس عمل کی تعریف کرتی جبکہ حضرت علیعليه‌السلام نے مختلف اوقات میں '' جو کی تین روٹیاں'' ، '' انگوٹھی'' ، '' چاردرہم'' اسی طرح '' نجوی'' کے واقعہ میں صدقے دیئے تو مختلف آیات کے نزول سے تعریف کے مستحق بنے لیکن حضرت عثمان کئی ہزار درہم اورایک سو اونٹنیاں صدقہ دینے پر بھی کسی تعریف کے مستحق نہیں ٹھہرے بلکہ خدا نے ان کے متعلق ایک کلمہ یا ایک حرف تک بھی ارشاد نہیں فرمایا ؟ اس کے برعکس وہ روایت جو اس عظیم فضیلت کو بیان کرتی ہے اس میں بہت زیادہ تناقض پایا جاتاہے اور وہ علمی اور آزاد تنقید کے سامنے بالکل نہیں ٹھہرتی _ اس کے علاوہ انہوںنے بھی دوسرے صحابہ کی طرح ایک درہم کا صدقہ دے کر ''آیت

____________________

۱)وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۴۵_

۳۴

نجوی'' پر عمل کیوں نہیں کیا ؟ یہاں تک کہ اصحاب کی مذمت میں آیت نازل ہوئی_ اور رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے گفتگو سے قبل صدقہ دینے سے کترانے پر ان کی بھی دوسرے صحابہ سمیت مذمت کی ہے _

'' اریس'' کا کنواں

بالا خر ہم یہ نہیں جان سکے کہ صرف '' رومہ'' کے کنویں کو اتنی عزت و عظمت کیسے ملی اور اریس کے کنویں کے ساتھ ایسا کیوں نہ ہوا ؟ _ جبکہ دعوی یہ ہے کہ یہ کنواں بھی حضرت عثمان نے ہی ایک یہودی سے خریدا تھا_ پھر اسے وقف بھی کردیا تھا _(۱) اللہ تعالی حضرت عثمان کو کنوؤں کے معاملے میں برکت دے لیکن یہودیوں کو تو اس غم اور غصہ سے مرجانا چاہئے تھا کیونکہ کنویں تو وہ کھودتے تھے لیکن ان سے حضرت عثمان خرید خرید کر وقف کردیتے تھے اور یہ سب فضیلت ، کرامت اور عظمت حاصل کرتے جاتے تھے _

مسئلے کی حقیقت

ظاہراً صحیح بات وہی ہے جو '' عدی بن ثابت '' کے ذریعہ سے ابن شبہ کی روایت میں آئی ہے کہ مزینہ قبیلے کے ایک شخص کو '' رومہ '' نامی کنواں ملاتو اس نے اس کا ذکر حضرت عثمان (جو اس وقت خلیفہ تھے) سے کیاتو انہوں نے یہ کنواں بیت المال سے ۳۰ ہزار درہم کا خریدکر اسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیا(۲) _

لیکن سمہودی نے اس روایت کی سند کو ضعیف قرار دیا ہے کیونکہ ان کے نزدیک یہ روایت متروک ہے اور زبیر بن بکار نے اپنی کتاب ''عتیق'' میں اس روایت کو بیان کیا ہے_لیکن وہ اسے رد کرتے ہوئے کہتاہے:'' یہ درست نہیں کیونکہ ہمارے نزدیک ثابت یہ ہے کہ حضرت عثمان نے یہ کنواں رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے زمانے میں اپنے مال سے خریدکر اسے وقف کردیا تھا''(۳) _

____________________

۱) وفاء الوفاء ج ۳ ص ۹۶۸_

۲)وفاء الوفاء ج/ ۳ ص ۹۶۷ از ابن شبة _اس روایت کو زبیر بن بکار نے بھی روایت کیاہے_

۳)گذشتہ حوالہ_

۳۵

جبکہ ہم یہ کہتے ہیں کہ وہ روایات جن کی طرف زبیر بن بکار نے اشارہ کیا ہے کسی بھی لحاظ سے صحیح نہیں ہیں _خصوصاً جبکہ ان روایات میں بہت اختلاف اور تناقض پایا جاتاہے اور ان روایات پہ ایسے اعتراضات بھی گزر گئے ہیں کہ جن کا کوئی جواب نہیں نیز ان روایات کی اسنا د و مدارک میں بھی بہت سے اعتراضات ہیں _ ایسے حالات میں روایت مذکور کی سند میں متروک شخص کے ہونے میں کوئی حرج نہیں _ اور اسے ماننا ہی پڑے گا کیونکہ یہ روایت اس زمانے کے حالات اور تاریخی واقعات سے مطابقت بھی رکھتی ہے_ اور بقیہ روایات بھی صحیح نہیں ہوسکتیں کیونکہ یہ ساری کی ساری حضرت عثمان کی فضیلت بنانے کے لئے گھڑی گئی ہیں_

البتہ مذکورہ بالا روایت کا یہ جملہ ہم نہیں سمجھ سکے '' انہوں نے بیت المال مسلمین سے ۳۰ ہزار درہم کا کنواں خریدا اور پھر مسلمانوں کے لئے اسے وقف کردیا ...'' _اگر یہ کنواں مسلمانوں کے اموال سے خریدا گیا تھا تو پھر مسلمانوں ہی کے لئے وقف کرنے کا کیا معنی ہے؟ہاں اس صورت میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ در حقیقت بیت المال کو اپنی ذاتی ملکیت سمجھتے تھے اس لئے اسے وقف کہتے تھے _ اور ہم نے ان کے اس نظریئے پر کچھ دلائل اور قرائن بھی بیان کئے ہیں اس لئے آپ ملاحظہ فرماسکتے ہیں(۱)

کھجور کی پیوندکاری

کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم جب مدینہ تشریف لائے اور کھجوروں کی پیوند کاری کر نے والے کچھ افراد کے قریب سے گذرے ( یا ان کا شور سنا ) تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ان سے فرمایا اگر تم اس کام کو چھوڑ دو تو بہتر ہوگا _ ان لوگوں نے اس کام کو چھوڑ دیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کھجوریں نرم گٹھلی والی اور خراب نکل آئیں _ پھر ایک روز ان کے قریب سے گزرے یا ان سے یہ بات ذکر کی گئی، تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے استفسار فرمایا کہ کیا ہوا تمہاری کھجوروں کو ؟ انہوں نے جواب دیا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ہی تو ایسا کرنے کو کہاتھا (لہذا اس کا نتیجہ واضح ہے)_آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

____________________

۱) ملاحظہ ہو ہماری کتاب : دراسات و بحوث فی التاریخ و الاسلام ، بحث ''ابوذر ، سوشلسٹ ، کیمونسٹ یا مسلمان ؟''_

۳۶

نے فرمایا:'' تم لوگ دنیاوی امور کو مجھ سے بہترجانتے ہو'' _ یا یہ فرمایا : ''اگر مفید تھا تو انہیں ویساہی کرنا چاہئے تھا میں نے تو یوں ہی ایک گمان کیا تھا_ لہذا تم لوگ اس گمان کی وجہ سے میرا مؤاخذہ نہیں کرسکتے _ البتہ میں جب اللہ تعالی کی کوئی بات تمہیں بتاؤں تو تم اس پر ضرور عمل کرو کیونکہ میں خدا پر ہرگز جھوٹ نہیں بولتا''_(۱)

ہمیں اس روایت کے صحیح ہونے میں شک ہے _کیونکہ اس روایت کی نصوص میں بھی اختلاف پایا جاتاہے _اس کے علاوہ مندرجہ ذیل چند سوالات کا پوچھنا ضروری ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ایسے کاموں میں مداخلت کیوں کرتے تھے جن سے آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا کوئی واسطہ ہی نہ تھا اور نہ ہی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو ان میں کوئی مہارت حاصل تھی ؟

کیا آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نہیں جانتے تھے کہ لوگ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی باتوں کو اہمیت دیتے ہیں _ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے نکلے ہوئے ہرلفظ پر عمل کرتے اور اس سے متاثر ہوتے ہیں ؟ ؟_

لوگ اتنے بڑے نقصان پر کیسے راضی ہوگئے؟ پھرآپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے مشور ے کے نتیجہ میں ہونے والے نقصان کا ذمہ دار کون تھا؟ پھر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا یہ کہنا کیسا ؟ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم تو وہ ہیں جنہوں نے عبداللہ بن عمرو بن العاص کو حکم دیا کہ وہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ بھی سن رہاہے سب تحریر کرے کیونکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی زبان مبارک سے سوائے حق کے کوئی چیز نہیں نکلتی ؟ یہ روایت بہت مشہور و معروف ہے _ یہ روایت اپنے مآخذو مدارک کے ساتھ پہلی جلد میں بیان ہوچکی ہے ، وہاں ملاحظہ فرمائیں_

اسی طرح آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا سن مبارک اس وقت (۳۳ تینتیس) سال سے زیادہ تھا اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم عرب خطے کے مرکزی حصے کے رہنے والے تھے_ کیا ہم اس بات کی تصدیق کرسکیں گے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پیوند کاری اور اس کے فوائد کو نہیں جانتے تھے اور یہ کہ کھجور اسکے بغیر کوئی نتیجہ نہیں دیتی؟ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے زندگی کا

____________________

۱)صحیح مسلم ج/۷ ص ۹۵، سنن ابن ماجہ ج/۲ ص ۸۲۵ کتاب الرھون باب ۱۵، مسنداحمد ج/۶ ص۱۲۳نیز ج ۳ ص ۱۵۲، البر صان والعرجان ص ۲۵۴، مشکل الآثارج/۲ص۲۹۴، کشف الاستار عن مسند البزار ج ۱ ص ۱۱۲ ، مسند ابویعلی ج ۶ ص ۱۹۸و ۲۳۸ و صحیح ابن حبان مطبوعہ مؤسسة الرسالہ ج ۱ ص ۲۰۱_

۳۷

ایک بڑا عرصہ اس کے متعلق کچھ بھی نہ سنا ہو حالانکہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم انہی عربوں کے درمیان اور ان کے ساتھ رہتے تھے یا کم از کم ان کی ہمسائیگی میں تو تھے؟

بالآخر کیا یہ صحیح ہے کہ دنیاوی امور میں لوگوں پر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اطاعت واجب نہ تھی؟ اور یہ کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنی رائے بیان فرمائی تھی؟ کیا یہ درست ہے کہ اسلام، دین اور دنیا میں فاصلے کا قائل ہو اور اس دین مقدس کا کل ہم و غم دنیاوی امور نہ ہوں بلکہ صرف اخروی امور ہوں ؟ کیا یہ اسلام پر بہتان اور تہمت نہیں ہے ؟ کیا یہ سب کچھ اسلام اور قرآن و سنت کی تعلیمات کے برخلاف نہیں ؟اور کیا یہ سیکو لرازم کی طرف اشارہ نہیں ؟ اور اسلام کو صرف عبادت گا ہوں میں منحصر کرنے کی ابتداء نہیں ؟

۳۸

۴۱

تیسری فصل :

ابتدائے ہجرت میں بعض اساسی کام

۳۹

تمہید:

مدینہ پہنچنے کے فوراً بعد رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بہت سے ایسے بنیادی کام انجام دیئے جو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اسلامی دعوت کے مستقبل سے مربوط تھے، یہ کام مختلف نوعیت کے تھے ذیل میں ہم اختصار کے ساتھ ان کی طرف اشارہ کرتے ہیں_

۱: نماز جمعہ کا انعقاد_

۲ : مسجد قبا کی تعمیر،ان دونوں کا موں کے متعلق ہم پہلے بحث کرچکے ہیں_

۳ : مدینہ میں مسجد کی تعمیر _اس بارے میں ایک علیحدہ فصل میں بات کریں گے_

۴ : ہجری تاریخ کا آغاز _اس کے لئے بھی ایک علیحدہ فصل مخصوص کی گئی ہے_

۵ : مہاجرین و انصار کے درمیان بھائی چارہ_

۶ : مسلمانوں کے آپس میں آئندہ تعلقات نیز غیر مسلم اقوام کے ساتھ ان کے روابط

کی نوعیت اور حدود کا تعین_

۷ : علاقے میں بسنے والے یہودیوں سے صلح :

اور ان مؤخر الذکر تین امور کے لئے بھی علیحدہ فصل رکھی گئی ہے_

اس سلسلے میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کچھ اور کام بھی انجام دیئے ، آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی سیرت طیبہ پر روشنی ڈالتے ہوئے ہم ان کی طرف اشارہ کریں گے ، یہاں ہم مؤخر الذکر آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پانچ کاموں کی وضاحت کرتے ہیں اور ابتدا ہجری تاریخ کے آغاز سے کرتے ہیں_

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

کے دعوائے نبوت کے صحیح ہونے میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ یہ سمجھے تھے کہ رسول(ص) پر یہ حالت مرض کی بنا پر طاری ہوتی ہے لہذا اس کا علاج کرایا جائے، رسول(ص) نے انہیں ایسا جواب دیا جس میں ان کے لئے سراسر بھلائی، عزت و شرف اور نجات تھی۔ فرمایا:''کلمة واحدة تقولونها تدین لکمبها العرب و تؤدی الیکم بها العجم الجزیة...'' وہ ایک بات کہہ دو جس کے ذریعہ عرب تمہارے قریب آجائیں گے اور اسی سبب غیر عرب تمہیں جزیہ دیں گے...آپ کی اس بات سے وہ ہکا بکا رہ گئے انہوں نے یہ سمجھا یہی آخری حربہ ہے ، کہنے لگے: ہاں خدا آپ کا بھلا کرے۔

آپ(ص) نے فرمایاکہہ دو:''لاالٰه الا اللّه...'' اس دو ٹوک جواب نے انہیں رسوا کر دیا چنانچہ وہ ناک بھوں چڑھاکر اٹھ گئے۔ اور کہنے لگے: ''اجعل الالٰھة الٰھاً واحداً ان ھذا لشیء عجاب '' کیا انہوں نے سارے خدائوں کو ایک خدا قرار دیدیا ہے یہ تو عجیب بات ہے ۔( ۱ )

اب قریش نے یہ طے کیا کہ وہ رسول(ص) اور ان کا اتباع کرنے والوں کی اہانت کریں گے، جن کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے ، وہ ان کی دعوت کو اپنے اندر راسخ کر رہے ہیں، چنانچہ ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپ(ص) کے دروازہ پر کانٹے ڈالدیتی تھی کیونکہ آپکا گھر اس کے گھر کے پاس ہی تھا( ۲ ) ابوجہل آپ(ص) کو پریشان کرتا تھا، آپ(ص) کو برا کہتا تھا۔ لیکن خدا ظالموںکی گھات میں ہے جب آنحضرت(ص) کے چچا جناب حمزہ کو یہ معلوم ہوا کہ ابو جہل نے رسول(ص) کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہوں نے قریش کے سربرآوردہ لوگوں کے سامنے ابو جہل کو اس کی گستاخی کا جواب دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اوران کے مجمع کو دھمکی دی کہ اب تم رسول(ص) کو پریشان کر کے دکھانا۔( ۳ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۳۰۳، تاریخ، طبری ج۲ ص ۴۰۹۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۸۰۔

۳۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۶۔

۱۰۱

کفر عقل کی بات نہیں سنتا

قریش نے یہ سوچا کہ ہم چالاکیوں کے باوجود محمد(ص) کو تبلیغ رسالت سے باز نہیں رکھ سکے، اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ لوگ اسلام کی طرف آپ(ص) کی دعوت کو قبول کر رہے ہیں تو اس وقت قریش کے سربرآوردہ افراد کے سامنے عتبہ بن ربیعہ نے یہ بات رکھی کہ میں محمد(ص) کے پاس جاتا ہوں اور انہیں دعوت اسلام سے باز رکھنے کے سلسلہ میں گفتگو کرتا ہوں۔ عتبہ آنحضرت (ص) کے پاس گیا ۔اس وقت آپ مسجد الحرام میں تنہا بیٹھے تھے، عتبہ نے پہلے تو آپ(ص) کی تعریف کی اور قریش میں جو آپ(ص) کی قدر و منزلت تھی اسے سراہا پھر آپ(ص) کے سامنے اپنا مدعابیان کیا نبی(ص) خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔ عتبہ نے کہا: بھتیجے اگر تم اس طرح (نئے دین کی تبلیغ کے ذریعہ) مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیں گے کہ ہم میں سے اتنا مال کسی کے پاس نہ ہوگا اور اگر اس سے تمہارا مقصد عزت و شرف حاصل کرنا ہے تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور تمہارے کسی حکم کی مخالفت نہیں کریں گے اور اگرتمہیں بادشاہت چاہئے تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور اگرتم کوئی ایسی چیز دکھائی دیتی ہے کہ جس سے خودکو نہیں بچا سکتے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے تمہاراعلاج کرادیں یہاں تک کہ تم اس سے شفاپا جائو۔ جب عتبہ کی بات ختم ہو گئی تو رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو ولید! کیاتمہاری بات پوری ہو گئی؟ اس نے کہا: ہاں! آپ(ص) نے فرمایا تو اب میری سنو! پھر آپ(ص) نے خدا وند عالم کے اس قول کی تلاوت کی:

( حم تنزیل من الرحمن الرحیم ، کتاب فصّلت آیاته قراناً عربیاً لقوم یعلمون،بشیراً و نذیراً فاعرض اکثرهم فهم لا یسمعون، قالوا قلوبنا فی اکنّة مما تدعوننا الیه ) ( ۱ )

حم۔ یہ رحمن رحیم خدا کی نازل کی ہوئی ہے ۔ اس کتاب کی آیتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں یہ سمجھنے والی قوم کے لئے عربی کا قرآن ہے ۔ اس قرآن کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر نازل کیا گیا ہے لیکن اکثریت نے اس سے رو گردانی کی ہے۔ کیا وہ کچھ سنتے ہی نہیں ہیں اور کہتے ہیںکہ ہمارے دل ان

____________________

۱۔ فصلت ۴۱ آیت ۱ تا ۵۔

۱۰۲

باتوں سے پردے میں ہیں جن کی تم دعوت دے رہے ہو۔

رسول(ص) آیتیں پڑھتے رہے عتبہ سنتا رہا اس نے اپنے ہاتھ پشت کی طرف کئے اور ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا، سجدہ کی آیت آئی تو رسول (ص) نے سجدہ کیا پھر فرمایا: اے ابو ولید جو تم نے سنا سو سنا اب تم جانو۔

عتبہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی قوم کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: خدا کی قسم !میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک ایسا کلام نہیں سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ وہ کلام نہ شعر ہے ۔ نہ سحر ہے اور نہ کہانت ہے ۔ اے قریش والو! میری پیروی کرو اور اسے میرے اوپر چھوڑ دو اور اس کی تبلیغ رسالت اور اس شخص کو درگذر کرو۔

لیکن یہ مردہ دل لوگ اس بات کو کہاں قبول کرنے والے تھے۔ کہنے لگے اے ابو ولید خدا کی قسم! محمد(ص) نے تم پر اپنی زبان سے جادو کر دیا ہے ۔ عتبہ نے کہا: ان کے بارے میں یہ میری رائے ہے اب تم جو چاہو کرو۔( ۱ )

سحر کی تہمت

قریش نے اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے اور تبلیغ رسالت سے ٹکرانے والے اپنے محاذ کو محفوظ رکھنے اور لوگوں میں رسول(ص) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کا منصوبہ اس وقت بنایا جبکہ حج کا زمانہ قریب تھا۔ قریش نے ایسا حربہ استعمال کرنے کے بارے میں غور کیا کہ جس سے ان کی بت پرستی بھی متاثر نہ ہو اور رسول(ص) کے کردار کو - معاذ اللہ-داغدار بنا دیا جائے لہذا وہ سن رسیدہ و جہاں دیدہ ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے لیکن ان کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہو گیا کہ رسول(ص) پر کیا تہمت لگائی جائے کسی نے کہا: کاہن کہا جائے ، کسی نے کہا: مجنون کہا جائے کسی نے کہا: شاعرکہا جائے کسی نے کہا جادوگر کسی نے کہا: وسوسہ کا مریض کہا جائے جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو انہوں نے ولید سے مشورہ کیا اس نے کہا:

خدا کی قسم! ان کے کلام میں چاشنی و شیرینی ہے ۔ ان کے کلام کی اصل مٹھاس اور اس کی فرع چنے ہوئے پھل کی مانند ہے اور ان چیزوں کو تم بھی تسلیم کرتے ہو تہمتوں سے بہتر ہے کہ تم یہ کہو کہ وہ ساحر و جادوگرہیں،

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۹۳۔

۱۰۳

ان کے پاس ایسا جادو ہے کہ جس سے یہ باپ بیٹے میں، بھای بھائی اور میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے ہیں ۔ ولید کی یہ بات سن کر قریش وہاں سے چلے گئے اور لوگوں کے درمیان اس ناروا تہمت کا پروپیگنڈہ کرنے لگے۔( ۱ )

اذیت و آزار

رسول(ص) اور حق کے طرف داروں کوتبلیغ رسالت سے روکنے میں کفار و مشرکین اسی طرح ناکام رہے جیسے ان کی عقلیں توحید اور ایمان کو سمجھنے میں ناکام رہی تھیں، تبلیغ رسالت کو روکنے میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی لیکن انہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد (ص) کی رسالت پر عقیدہ رکھنے والوں کو اذیت و آزار پہنچائیں اور سنگدلانہ موقف اختیار کریں چنانچہ ہر قبیلہ نے ان لوگوں کو دل کھول کر ستانا شروع کر دیا جولوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ انہیں قید کر دیا، زد و کوب کیا، نہ کھانا دیا نہ پانی ، ان کی یہ کوشش اس لئے تھی تاکہ مسلمان اپنے دین اور خدا کی رسالت کا انکار کر دیں۔

امیہ بن خلف ٹھیک دو پہر کے وقت جناب بلال کو مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا ہے تاکہ انہیں عبرت آموز سزادے سکے۔ عمر بن خطاب نے اپنی کنیز کو اس لئے زد و کوب کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسے مارتے مارتے عاجز ہو گئے تو کہنے لگے میں نے تجھے اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ میں تھک گیا ہوں۔ قبیلہ مخزوم عمار یاسر اور ان کے ماں، باپ کو مکہ کی شدید گرمی میں کھینچ لائے، ادھر سے رسول(ص) کا گزر ہوا تو فرمایا:صبراً آل یاسر موعدکم الجنة ۔ یاسر کے خاندان والو! صبر سے کام لو تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے ان لوگوں نے ان مظلوموں کو اتنی سخت سزا دی کہ جناب عمار کی والدہ سمیہ شہید ہو گئیں( ۲ ) ، عالم اسلام میں یہ پہلی شہید عورت تھیں ۔

اگر ہم رسول(ص)، رسالت اور پیروانِ رسول(ص) سے قریش کے ٹکرانے کے عام طریقوں کو بیان کرناچاہیں تو خلاصہ کے طور پر انہیں اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷و ص ۳۲۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷ تا ص ۳۲۰ ۔

۱۰۴

۱۔ نبی(ص) کا مضحکہ اڑانا اور لوگوں کی نظر میں آپ(ص) کی شان گھٹانا ان کے لئے آسان طریقہ تھا اس کام میں ولید بن مغیرہ-خالد کا باپ-عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ اور ابو جہل پیش پیش تھے لیکن خدا ئی طاقت نے ان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ قرآن کہتا ہے:

( انا کفیناک المستهزئین (۱) ولقد استهزیٔ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا منهم ما کانوا به یستهزئون ) ( ۲ )

آپ(ص) کا مذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔ آپ(ص) سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے ، نتیجہ میں وہ مذاق، مذاق اڑانے والوں ہی کے گلے پڑ گیا۔

۲۔ نبی(ص) کی اہانت، تاکہ آپ(ص) کمزور ہو جائیں، روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مرتبہ آپ پر گندگی اور کوڑا ڈالدیا اس پر آپ(ص) کے چچا جناب ابوطالب کو بہت غصہ آیا اور قریش کو ان کی اس حرکت کا جواب دیا اور ابو جہل کی حرکت کا جواب جناب حمزہ بن عبد المطلب نے دیا۔

۳۔ آپ(ص) کو اپنا بادشاہ وہ سردار بنانے اور آپ(ص) کو کافی مال و دولت دینے کی پیشکش کی۔

۴۔ جھوٹی تہمتیں لگائیں:

جھوٹا، جادوگر مجنون اور شاعر و کاہن کہا۔ ان تمام باتوں کو قرآن نے بیان کیا ہے ۔

۵۔ قرآن مجید میں شک کیا، رسول(ص) پر یہ تہمت لگائی کہ آپ(ص) خدا پر بہتان باندھتے ہیںکہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے تو قرآن نے انہیں چیلنج کیا کہ اس کا جواب لے آئو۔ واضح رہے کہ رسول(ص) نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہیں کے درمیان گزارا تھا۔ قریش نے جن چیزوں کی نسبت آپ کی طرف دی تھی وہ آپ(ص) میں دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔

۶۔ آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے والے مومنوں کو ستانا اور قتل کرنا۔

۷۔ اقتصادی و سماجی بائیکاٹ۔

____________________

۱۔ حجر: ۹۵۔

۲۔حجر: ۹۴ و ۹۵۔

۱۰۵

۸۔ رسالتمآب(ص) کے قتل کا منصوبہ( ۱ )

نبی (ص) نے وہ طریقہ اختیار فرمایا جس سے رسالت اور اس کے مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی۔

حبشہ کی طرف ہجرت

علیٰ الاعلان تبلیغ رسالت کے دو سال بعد رسول(ص) نے یہ محسوس فرمایا کہ آپ(ص) مسلمانوں کو ان مصائب و آلام سے نہیں بچا سکتے جو قریش کے سرکش اور بت پرستوں کے سرداروں کی طرف سے ڈھائے جاتے ہیں۔

مستضعف و کمزور مسلمانوں کے حق میں مشرکین اور ان کے سرداروںکا رویہ بہت سخت ہو گیا تھا لہذا رسول(ص) نے ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ حبشہ چلے جائو۔

ظلم سے کچلے ہوئے مسلمانوں کو آپ سکون و آرام حاصل کرنے کی غرض سے حبشہ بھیجنا چاہتے تھے تاکہ واپس آنے کے بعد وہ اسلامی رسالت و تبلیغ میں سرگرم ہو جائیں یا جزیرہ نما عرب سے باہر قریش پردبائو ڈالیں اور ان سے جنگ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ قائم کریں ، اور ممکن ہے اس زمانہ میںخدا کوئی دوسری صورت پیدا کر دے۔ رسول(ص) نے ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر دی تھی حبشہ کا بادشاہ عادل ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا قبول کر لیا چنانچہ ان میں سے بعض لوگ خفیہ طریقہ سے ساحل کی طرف روانہ ہو گئے قریش نے ان کا تعاقب کیا لیکن وہ سمندر پا رجا چکے تھے؛ اس کے بعد بھی مسلمان تنہا یا اپنے خاندان کے ساتھ حبشہ جاتے رہے یہاں تک کہ حبشہ میں ان کی تعداد بچوں سے قطع نظر اسّی سے زیادہ ہو گئی، لہذا رسول(ص) نے جعفر بن ابی طالب کو ان کا امیر مقرر کر دیا۔( ۲ )

حبشہ کو ہجرت کے لئے منتخب کرنا یقینا رسول(ص) کے قائدانہ اقدامات میں سے بہترین اقدام تھا۔ رسول(ص) سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آپ(ص) نے حبشہ کے بادشاہ کی تعریف کی ہے ۔ پھر وہاں کا سفر کشتیوں کے ذریعہ ہو گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نصرانیت سے اچھے مذہبی روابط استوارکرنا چاہتا ہے۔

____________________

۱۔ انفال:۳۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۲۱، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۹، بحار الانوار ج۱۸ ص ۴۱۲۔

۱۰۶

مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے سے قریش کو بہت دکھ ہوا، ہجرت کے نتیجہ سے انہیں خوف لاحق ہوا انہوں نے یہ خیال کیا کہ اسلامی تبلیغ کرنے والوں کو کہیں وہاں امان نہ مل جائے لہذا قریش نے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا اور نجاشی کے لئے ان کے ہاتھ تحفے بھیجے، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ نجاشی انہیں اپنے ملک سے نکال دے اور ان کے سپرد کر دے قریش کے ان دونوں نمائندوں نے نجاشی کے بعض سپہ سالاروں سے بھی ملاقات کی اور ان سے رسم و راہ پیدا کی اور ان سے یہ گزارش کی کہ مسلمانوں کو واپس لو ٹانے میں آپ لوگ ہماری مدد کر یں چنانچہ انہوں نے بھی ان کی سفارش کی مگر نجاشی نے ان کے مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب تک میں تمہاری اس تہمت کے بارے میں خود مسلمانوںسے یہ معلوم نہیں کرلونگاگا کہ انہوں نے کیسا نیا دین بنا لیا ہے اس وقت تک انہیں واپس نہیں لوٹا ئوںگا۔

مسلمانوں کی بادشاہ سے اس ملاقات میں خدا کی رحمت ان کے شامل حال رہی جعفر بن ابی طالب نے ایسے دلچسپ انداز میں دین کے بارے میں گفتگو کی کہ جو نجاشی کے دل میں اتر گئی اس کے نتیجہ میں وہ مسلمانوں کی اور زیادہ حمایت کرنے لگا۔ جعفر بن ابی طالب کی یہ گفتگو قریش کے نمائندوں کے سروں پر بجلی بن کر گری۔ ان کے تحفے بھی ان کے کسی کام نہ آ سکے اپنے موقف میں نجاشی کے سامنے ذلیل ہو گئے اور مسلمان اپنے مسلک و موقف میں سرخ رو اور سربلند ہو گئے ان کی حجّت مضبوط تھی جس سے اس تربیت کی عظمت کا پتہ چلتا تھا جو رسول(ص) نے انسان کو فکر و اعتقاد اور کردار کے لحاظ سے بلند کرنے کے لئے کی تھی چنانچہ جب قریش کے وفد نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظر یہ بیان کرکے فتنہ بھڑکانے کی کوشش کی تو اس کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ جب نجاشی نے جعفر بن ابی طالب سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظریہ معلوم کیا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ کے متعلق قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی نجاشی نے ان آیتوں کو سن کر کہا: جائو تم لوگ امان میں ہو۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۳۵، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۹۔

۱۰۷

جب قریش کا وفدناکام حبشہ سے واپس لوٹ آیا تو انہیں اپنی کوششوں کے رائیگاں جانے کا یقین ہو گیا اب انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کا کھانا پانی بند کر دیں گے اور اجتماعی امور میں ان کا بائیکاٹ کریں گے اس سے ابو طالب اور بنی ہاشم نبی (ص) کی امداد سے دست بردار ہو جائیںگے۔

مقاطعہ اور بنی ہاشم

جب ابو طالب نے قریش کی ہر پیشکش کو مسترد کر دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ میں رسول(ص) کی حمایت کر ونگا چاہے انجام کچھ بھی ہو تو قریش نے ایک دستاویز لکھی جس میں بنی ہاشم کے ساتھ خرید و فروخت، نشست و برخاست اور بیاہ شادی نہ کی جانے کی بات تھی۔

یہ دستاویز قریش کے چالیس سرداروں کی طرف سے تحریر کی گئی تھی۔

جناب ابو طالب اپنے بھتیجے، بنی ہاشم اور اولادِ مطلب کو لے کر غار میں جانے پر تیار ہو گئے اور فرمایا: جب تک ہم میں سے ایک بھی زندہ ہے اس وقت تک رسول(ص) پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ابو لہب قریش کے پاس چلا گیا اور اولاد مطلب کے خلاف ان کی مدد کی ان لوگوں میں سے ہر ایک غار میں داخل ہو گیا خواہ وہ مومن تھا یا کافر۔( ۱ )

اس زمانہ میں اگر کوئی شخص ترس کھا کر عصبیت کی بنا پر بنی ہاشم کی مدد کرنا چاہتا تھا تو وہ قریش سے چھپا کر ہی کوئی چیز ان تک پہنچا تا تھا۔ اس زمانہ میں بنی ہاشم اور رسول(ص) نے بہت سختی برداشت کی ، بھوک ، تنہائی اور نفسیاتی جنگ جیسی تکلیف دہ سختیاں تھیں خدا نے قریش کی اس دستاویز پرجس کو انہوں نے خانہ کعبہ میں لٹکا رکھا تھا دیمک کو مسلط کر دیا چنانچہ دیمک نے باسمک اللھم کو چھوڑ کر ساری عبارت کو کھا لیا۔

خدا نے اپنے نبی (ص) کو خبر دی کہ دستاویز کو دیمک نے کھا لیا، رسول(ص) نے اپنے چچا ابو طالب سے بتایا۔ جناب ابو طالب رسول(ص) کو لیکر مسجد الحرام میں آئے قریش نے انہیں دیکھ کر یہ خیال کیا کہ ابو طالب اب

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۵۰، اعیان الشیعہ ج۱ ص ۲۳۵۔

۱۰۸

رسالت کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں لہذا اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کرنے کے لئے آ رہے ہیں، لیکن ابو طالب نے ان سے فرمایا: میرے اس بھتیجے نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ خدا نے تمہاری دستاویز پر دیمک کو مسلط کر دیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ ساری دستاویز کو کھا لیا ہے اگر یہ قول سچا ہے تو تم اپنے غلط فیصلہ سے دست بردار ہو جائو اور اگر یہ (معاذ اللہ) جھوٹا ہے تو میں اسے تمہارے سپرد کر دونگا....انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ انہوں نے دستاویز کو کھولا تو اسے ویسا ہی پایا جیسا کہ رسول(ص) نے خبر دی تھی شرم و حیا سے ان کے سر جھک گئے۔( ۱ )

یہ بھی روایت ہے کہ قریش میں سے کچھ بزرگوں اور نوجوانوں نے بنی ہاشم سے اس قطع تعلقی پر ان کی مذمت کی اور غارمیں ان پر گزرنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دینے اور بائیکاٹ کو ختم کرنے کا عہد کیا انہوںنے اس دستاویز کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسے دیمک نے کھا لیا ہے۔( ۲ )

عام الحزن

بعثت کے دسویں سال قریش شعب ابی طالب سے باہر آئے اب وہ اور زیادہ سخت ، تجربہ سے مالا مال اور اپنے اس مقصد کی طرف بڑھنے میں اور زیادہ سخت ہو گئے تھے کہ جس کو انہوں نے جان سے عزیز سمجھ رکھا تھا اور یہ طے کر رکھا تھا کہ ہر مشکل سے گزر جائیں گے لیکن اس مقصد کو نہیں چھوڑ یں گے۔ اس اقتصادی پابندی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت شہرت ملی، اسلام جزیرہ نما عرب کے گوشہ گوشہ میں مشہور ہو گیا، رسول(ص) کے سامنے بہت سی دشواریاں تھیں ان میں سے ایک یہ بھی دشواری تھی کہ مکہ سے باہر دوسرے علاقوں میں اپنے مقاصد کو سمجھایا جائے ،اور دوسرے علاقوں میں محفوظ مراکز قائم کئے جائیں تاکہ وہاںسے اسلام کی تحریک آگے بڑھ سکے۔

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۲۱، طبقات ابن سعد ج۱ ص ۱۷۳، سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۷۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص۳۷۵ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۳۔

۱۰۹

جب ابو طالب کا انتقال ہو گیا تومکہ میں اسلام کی تبلیغ کی راہ میں بہت زیادہ دشوار یاں پیش آئیں کیونکہ رسول(ص) اور رسالت کا طاقتور محافظ اور رسالت کا وہ نگہبان اٹھ گیا تھا جس کی اجتماعی حیثیت تھی ان کے بعد رسول(ص) کا سہارا ام المومنین جناب خدیجہ تھیں ان کابھی انتقال ہوگیا چونکہ ان دونوں حوادث کی وجہ سے تبلیغ کی راہ شدید طور پر متاثر ہوئی تھی لہذا رسول(ص) نے اس سال کا نام''عام الحزن'' یعنی غم کا سال رکھا۔

''مازالت قریش کاعة منی حتی مات ابو طالب'' ( ۱ )

جب تک ابو طالب زندہ تھے قریش میرے قریب نہیں آتے تھے۔

رسول(ص) کے خلاف قریش کی جرأت اس وقت سے زیادہ بڑھ گئی تھی جب قریش میں سے کسی نے رسول(ص) کے سر پر اثنائے راہ میں خاک ڈال دی تھی۔ جناب فاطمہ(ص) نے روتے ہوئے اس مٹی کو صاف کیا۔ آنحضرت (ص)نے فرمایا:

''یا بنیة لا تبکی فان الله مانع اباک'' ( ۱ )

بیٹی رؤئو نہیں بیشک خدا تمہارے باپ کی حفاظت کرے گا۔

معراج

اسی عہد میں رسول(ص) کو معراج ہوئی تاکہ رسول(ص) مقاومت کے طویل راستہ کو طے کر سکیں اور آپ(ص) کی گذشتہ محنت و ثابت قدمی کی قدر کی جاسکے اور شرک و ضلالت کی طاقتوں کی طرف سے جو آپ(ص) نے تکلیفیں اٹھائی تھیں ان کا بھی مداویٰ ہو جائے۔ لہذا خدا آپ(ص) کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گیا تاکہ آپ(ص) کو وسیع کائنات میں اپنے ملک کی عظمت دکھائے اور اپنی خلقت کے اسرار سے آگاہ کرے اور نیک و بد انسان کی سر گذشت سے مطلع کرے۔

یہ رسول(ص) کے اصحاب کا امتحان بھی تھا کہ وہ اس تصور و نظریہ کو کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کہ جس کے

____________________

۱۔ کشف الغمہ ج۱ ص ۶۱، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۲۔

۱۱۰

تحت و اپنے رسول(ص) وقائد کے دوش بدوش ہو کر اس لئے لڑ رہے ہیں تاکہ پیغامِ خدا لوگوں تک پہنچ جائے اور صالح و نیک انسان وجود میں آجائے یقینا یہ آپ(ص) کے ان اصحاب کے لئے سخت امتحان تھا جن کے نفس کمزور تھے۔

قریش معراج کے بلند معنی و مفہوم کو نہیں سمجھ سکے چنانچہ جب رسول(ص) نے انہیں معراج کا واقعہ بتایا تو وہ معراج کی مادی صورت ، اس کے ممکن ہونے اور اس کی دلیلوں کے بارے میں سوال کرنے لگے کسی نے کہا: قافلہ ایک مہینے میں شام سے لو ٹتا ہے اور ایک مہینہ میں شام جاتا ہے ۔ اور محمد ایک رات میں گئے بھی اور لوٹ بھی آئے؟! رسول(ص) نے ان کے سامنے مسجد اقصی کی تعریف و توصیف بیان کی اور یہ بتایا کہ آپ(ص) کا گزر ایک قافلہ والوں کی طرف سے ہوا جو اپنے گمشدہ اونٹ کو ڈھونڈ رہے تھے ان کے سامان سفر میں پانی کا ظرف تھا جو کھلا تھا آپ(ص) نے اسے ڈھانک دیا۔

انہوں نے دوسرے قافلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: میں اس کے پاس سے تنعیم میں گذرا تھا، آپ(ص) نے انہیں اس قافلہ کے اسباب اور ہیئت کے بارے میں بھی بتایا، نیز فرمایا: تمہاری طرف ایک قافلہ آ رہا ہے جو صبح تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جس چیز کی آپ(ص) نے خبر دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۱۶، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۹۶۔

۱۱۱

چوتھی فصل

کشائش و خوشحالی ہجرت تک

طائف والوں نے اسلامی رسالت کو قبول نہیں کیا( ۱ )

رسول(ص) کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اب قریش کی ایذا رسانیوں میں روز بروز اضافہ ہوگا اور رسالت کو ختم کرنے کے لئے مشرکین کی کوششیں موقوف نہیں ہوںگی۔ ابو طالب کی رحلت سے آپ کا امن و امان ختم ہو چکا تھا دوسری طرف اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت وسیع پیمانہ پر ہونا چاہئے تھی ۔ جس وقت رسول(ص)، اسلام کے مبلغین کی تربیت کر رہے تھے اسی وقت ایک ایسا مرکز قائم کرنے کے لئے بھی غور کر رہے تھے کہ جس میں استقلال و خود مختاری کے نقوش واضح ہوں اور معاشرہ کا نظام ایسا ہو کہ جس میں فرد اپنی زندگی بھی گزارے اور خدا کے ساتھ اپنی صنف کے دوسرے افراد سے بھی اس کا رابطہ رہے تاکہ رفتہ رفتہ آسمانی قوانین کے مطابق اسلامی و انسانی تہذیب قائم ہو جائے۔ اس مرکز کی تشکیل کے لئے آپ(ص) کی نظر طائف پر پڑی جہاں قریش کے بعد عرب کاسب سے بڑا قبیلہ ''ثقیف'' آباد تھا۔ جب آپ(ص) تنہا، یا زید بن حارثہ یا علی بن ابی طالب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے( ۲ ) اور قبیلۂ ثقیف کے بعض شرفاء و سرداروں سے گفتگو کی اور انہیں خدا کی طرف بلایا اور ان کے سامنے وہ چیز بیان کی جس کے لئے آپ (ص) کو نبی (ص) بنا کر بھیجا گیا تھا کہ آپ(ص) کی تبلیغ میں وہ مدد کریں اور آپ(ص) کو قریش وغیرہ سے بچائیں توانہوں نے آپ(ص) کی یہ بات تسلیم نہ کی

____________________

۱۔ آپ(ص) نے بعثت کے دسویں سال طائف کا سفر کیا تھا۔

۲۔نہج بلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۴ ص ۲۷ ۱ ص ج۱۴ ص ۹۷۔

۱۱۲

بلکہ آپ(ص) کا مذاق اڑاتے ہوئے ان میں سے کسی نے کہا: اگر خدا نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں خانہ کعبہ کا پردہ پھاڑ ڈالوںگا دو سرے نے کہا: اگرآپ خدا کی طرف سے رسول(ص) ہیں تو میں آپ سے ہرگز کلام نہیں کروںگا کیونکہ اس صورت میں آپ کی بات کا جواب دینا خطرہ سے خالی نہیں ہے ہاں اگر آپ(ص) نے خدا پر بہتان باندھا ہے تو میرے لئے ضروری نہیں کہ آپ(ص) سے گفتگو کروں تیسرے نے کہا: کیا خدااس سے عاجز تھا کہ تمہارے علاوہ کسی اور کو بھیج دیتا۔( ۱ )

اس سوکھے اور سپاٹ جواب کو سن کر رسول(ص) ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے یہ کہا: تمہارے اور میرے درمیان جو بھی گفتگو ہوئی ہے اس کو کسی اور سے بیان نہ کرنا کیونکہ آپ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ واقعہ قریش کو معلوم ہواورآپ(ص) کے خلاف ان کی جرأت بڑھ جائے ۔ لیکن ثقیف کے سرداروں نے آپ(ص) کی اس بات کو قبول نہ کیا بلکہ اپ(ص) کے خلاف اپنے لڑکوں اور غلاموں کو اکسایا تو وہ آپ(ص) کوبر بھلا کہنے لگے آپ(ص) کو ڈھیلے پتھر مارنے لگے، آپ(ص) کے پیچھے شور مچانے لگے۔ ان لوگوں نے اتنا پتھرائو کیا تھا کہ آپ کا جو قدم بھی پڑتا تھا وہ پتھر پر پڑتا تھا۔ بہت سے تماشائی اکھٹا ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے آپ(ص) کو ربیعہ کے بیٹوں، عتبہ و شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، وہ دونوں باغ میں موجود تھے، انہوں نے ان لوگوں کو بھگایا، آپ کے دو نوںپیروں سے خون بہہ رہا تھا آپ انگور کی بیل کے سایہ میں بیٹھ گئے اور اس طرح شکوہ کیا:

''الّلهم الیک اشکو ضعف قوّتی و قلّة حیلت و هوان علیٰ الناس یا ارحم الرحمین انت رب المستضعفین و انت رب الیٰ من تکلن؟ الیٰ بعید یتجهمن ام الیٰ عدو ملکته امری؟ ان لم یکن بک غضب علّ فلا ابال ولکن عافیتک هی اوسع''

اے اللہ! میں اپنی ناتوانی، بے سرو سامانی اور اپنے تئیں لوگوں کی اہانت کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں،اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے! عاجز و در ماندہ لوگوں کا مالک تو ہی ہے ۔ میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس پر چھوڑا ہے کیا اس بندے پر جو مجھ پر تیوری چڑھائے؟ یا اس دشمن پر جو میرے کام پر

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶ و ۱۷ اور ص ۲۲، اعلام الوریٰ ج۱ ص ۱۳۳۔

۱۱۳

پردسترسی رکھتا ہے؟ لیکن جب مجھ پرتیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ تیری عطا کی ہوئی عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے ۔

رسول(ص) ابھی خدا کی بارگاہ میں اسی طرح شکوہ کناںتھے کہ ایک نصرانی آپ(ص) کی طرف متوجہ ہوا اس نے آپ میں نبوت کی علامتیں دیکھیں۔( ۱ )

جب رسول(ص) قبیلۂ ثقیف کی نجات و بھلائی سے مایوس ہو کر طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹ رہے تھے اس وقت آپ کو اس بات پر بہت افسوس تھا کہ کسی نے بھی ان کی بات نہ مانی، مکہ و طائف کے درمیان آپ نخلہ میں ٹھہرے، رات میں جب نماز میں مشغول تھے، اس وقت آپ کے پاس سے جناتوں کا گذرہوا، انہوں نے قرآن سنا آپ نماز پڑھ چکے تو وہ اپنی قوم میں واپس آئے وہ خود رسول(ص) پر ایمان لا چکے تھے اب انہوں نے اپنی قوم والوں کو ڈرایا، خداوند عالم نے ان کے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

( واذا صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن...و یجرکم من عذاب الیم ) ( ۲ )

اور جب ہم نے جنوںمیں سے ایک گروہ کو آپ کی طرف پلٹایا تاکہ وہ غور سے قرآن سنیں لہذا جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ہو گی تو فوراً اپنی قوم کی طرف پلٹ کر ڈرانے والے بن کر آگئے ،کہنے لگے اے قوم والو! ہم نے آیات کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنی سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور حق و انصاف اور سیدھے راستے کی جانب ہدایت کرنے والی ہے ،قوم والو! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آئو تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے ۔

____________________

۱۔طبری ج۲ ص ۴۲۶، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۲۷، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۶، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰۔

۲۔طبری ج۲ ص ۳۴۶، سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۶۳، الطبقات الکبریٰ ص ۳۱۲، ملاحظہ ہو سورۂ احقاف: ۲۹ تا ۳۱۔

۱۱۴

مکہ میں راہ رسالت میں رکاوٹیں

رسول(ص) کی تحریک ایک ترقی پذیر و تعمیری جہاد تھا۔ آپ کا قول و فعل اورحسن معاشرت؛ فطرت سلیم اور بلند اخلاق کا پتہ دیتا تھا آپ نفوس میں حق کو اجاگر کرتے تھے تاکہ انہیں زندہ کر سکیں اور انہیں فضائل کی طرف بلاتے تھے تاکہ بشریت ان سے آراستہ ہو سکے یہی وجہ ہے کہ قریش کی ایذا رسانیوں ،ان کی سنگدلی اور طائف والوں کے ظلم و ستم کے باوجود رسول(ص) مایوس نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دیتے رہے۔ خصوصاً عمرہ وحج کے زمانہ میں کیونکہ اس وقت تبلیغ کا بہترین موقعہ ملتا تھاآپ قبائل کی قیام گاہ پر جاتے اور ان سب کو دینِ خدا قبول کرنے کی دعوت دیتے اور فرماتے تھے:

''یا بنی فلان انی رسول الله الیکم یا مرکم ان تتعبدوا الیه ولا تشرکوا به شیئاً و ان تومنوا بی و تصدقونی و تمنعونی حتی ابین عن الله ما بعثنی به'' ۔( ۱ )

اے فلاں خاندان والو! مجھے تمہاری طرف رسول(ص) بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ خدا تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو، میرے اوپر ایمان لائو، میری تصدیق کرو اور میری حفاظت کرتے رہو یہاں تک کہ میں تمہارے سامنے اس چیز کو کھول کر بیان کر دوں جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔

رسول(ص) نے قبیلوں سے ملاقات کرنے کا سلسلہ جاری رکھا بعض نے سنگدلی سے آپ کی دعوت کو رد کر دیا اور بعض نے معذرت کر لی ،کچھ لوگوں کے اندر آپ(ص) نے اسلام کی طرف سیاسی رجحان پایا وہ اسلام کے ذریعہ حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اسی کے مطابق کوشش کرنا شروع کی لیکن رسول(ص) نے سختی سے ان کو ٹھکرا دیا اور انہیں موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا رسول(ص) نے فرمایا:''الامر الیٰ اللّٰه یضعه حیث یشاء'' یہ معاملہ خدا کے ہاتھ ہے وہ جہاں چاہتا ہے قرار دیتا ہے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۹، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۴ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۱۔

۱۱۵

اکثر ابو لہب رسول(ص) کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ(ص) کی متابعت کرنے سے منع کرتا تھا اور کہتا تھا: اے فلاں خاندان والو! یہ تو بس تمہیں لات و عزی کو ٹھکرانے اور بدعت و ضلالت کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے پس تم اس کی اطاعت نہ کرنا اور اس کی بات نہ سننا۔( ۱ )

دوسری طرف ام جمیل عورتوں کے بیچ میں کھڑی ہوتی اور رسول(ص) اور آپ(ص) کی تبلیغ کا مذاق اڑاتی تاکہ عورتیں آپ(ص) کی متابعت نہ کریں۔

نبی(ص) قبائل کو اسلامی رسالت کے ذریعہ مطمئن نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قریش کو دوسرے قبائل کے درمیان دینی اعتبار سے فوقیت حاصل تھی اور خانۂ کعبہ کی خدمت و دربانی بھی قریش ہی کے پاس تھی اور جزیرہ نما عرب کی تجارت و اقتصاد کا مرکزبھی مکہ ہی تھاپھر جن قبائل کو رسول(ص) نے اسلام کی دعوت دی تھی قریش سے ان کے تعلقات اور معاہدے بھی تھے ان کے لئے ان معاہدوں اور پابندیوںکو توڑنا بہت مشکل تھا۔ پس اسلام قبول کرنے میں لوگوں کا متردد ہونا یقینی تھا اس کے باوجود قریش کو رسول(ص) کی تحریک اور آپ کی تبلیغ رسالت سے خوف لاحق تھا لہذا انہوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ ممکن ہے بت پرستوں کی عقلیں اس کو قبول کر لیں انہوں نے بالاتفاق لوگوں کے درمیان یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کیاکہ محمد اپنے بیان کے ذریعہ جادو کر دیتا ہے اور مرد سے عورت کو بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتا ہے لیکن جب لوگ رسول(ص) سے ملاقات کرتے اور ان پر رسول(ص) و رسالت کی عظمت آشکار ہوتی تھی تو قریش کا یہ پروپیگنڈہ ناکام ثابت ہوتا تھا۔( ۱ )

عقبۂ اولیٰ کی بیعت

تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا بلکہ آپ (ص)مکہ میں آنے والے ہر اس شخص کو دعوت اسلام دیتے تھے جس میں بھلائی و بہتری دیکھتے یا اس کا اثر و نفوذ محسوس کرتے تھے۔ مدینہ میں دو قوی ترین قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان مدتوں سے سیاسی و فوجی معرکہ آرائی چلی آ رہی تھی یہود اپنی خباثت و مکاری سے اس ماحول میں ان کی جنگ کو مستقل ہوا دیتے تھے تاکہ اسلامی قانون کا نفاذ نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۷۰۔

۱۱۶

یثرب سے جو لوگ حلیف بنا کراپنی طاقت بڑھانے کے لئے مکہ آتے تھے ان میں سے بعض سے رسول(ص) نے ملاقات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے رسالت کا اثر اور نبوّت کی صداقت ان کے نفوس میں جا گزیں ہو گئی۔ ایک ملاقات میں رسول(ص) نے بنی عفراء کی ایک جماعت سے گفتگو کی یہ جماعت خزرج سے منسوب تھی ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کے ایک حصہ کی تلاوت کی تو ان کی آنکھوں اور دلوں میں مزید آیتوں کے سننے کا اشتیاق پایا...رسول(ص) کی گفتگو سے وہ سمجھ گئے کہ یہ وہی نبی(ص) ہے کہ جس کا ذکر یہود ،مشرکین سے نزاع کے وقت انہیں ڈرانے کے لئے کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ایک نبی کی بعثت ہو گی اور اس کا زمانہ قریب ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اورپھر ہم تمہیں ارم و عاد والوں کی طرح قتل کریں گے۔( ۱ )

ان چھہ اشخاص نے اسی وقت اپنے اسلام کا اعلان کر دیا،رسول(ص) کی خدمت میںعرض کی: ہم نے اپنی قوم کو اس حال میں چھوڑ ا ہے کہ کسی قوم میں اتنی عداوت و دشمنی نہیں ہے جتنی ان کے درمیان ہے امید ہے کہ خدا آپ(ص) کے ذریعہ ان کے درمیان صلح کرادے۔ ہم ان کے سامنے اسلام پیش کریں گے اور انہیں آپ(ص) کے دین کی طرف بلائیں گے اس دین کی طرف جو آپ(ص) نے ہم سے قبول کرایا ہے ۔

اس کے بعد وہ یثرب کی طرف لوٹے ؛ نبی(ص) اور رسالت کے بارے میںآپس میں گفتگو کرتے ہوئے اور آنے والی امن و امان کی زندگی سے متعلق اظہار خیال کرنے لگے ان کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پیغام پھیل گیا، یثرب میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں رسول کا ذکر نہ پہنچا ہو۔( ۲ )

دن گزرتے دیر نہیں لگتی پھر گیارہویں بعثت کو جب حج کا زمانہ آ گیا یثرب سے اوس و خزرج کا ایک وفد آیا جو بارہ افراد پر مشتمل تھا ان میں چھہ افراد وہ تھے جو عقبہ اولیٰ میں خفیہ طریقہ سے رسول(ص) سے ملاقات کرکے اسلام قبول کر چکے تھے-عقبہ وہ جگہ ہے جہاں سے یثرب والے مکہ پہنچتے ہیں-اس مرتبہ ان لوگوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے اس بات پر رسول(ص) کی بیعت کر لی ہے کہ کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیں گے چوری نہیں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۸، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۵۔

۲۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۷ و ص۳۸، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۳۔

۱۱۷

کریں گے۔ زنا نہیں کریں گے ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے اوراز خود گڑھی ہوئی باتوں کے ذریعہ بہتان نہیں باندھیںگے اور نیک کاموں میں آپ(ص) کی نافرمانی نہیں کریں گے۔( ۱ )

رسول(ص) ان پر اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالنا چاہتے تھے ان کے ساتھ آپ(ص) نے جوان مسلمان مصعب بن عمیر کو یثرب بھیجا تاکہ وہ ان کے درمیان عقائد کی تبلیغ کریں۔ عقبۂ اولیٰ کی بیعت اسی پر تمام ہوئی۔

عقبۂ ثانیہ

مصعب یثرب کے گلی کوچوں میں اور ان کے مجامع میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کے ذریعہ ان کے دلوں اور عقلوں کو جھنجھوڑتے رہے یہاں تک کہ بہت سے لوگ رسالت اسلامیہ پر ایمان لے آئیے۔

اسلام نے لوگوں کے دلوں میں رسول(ص) سے ملنے کا بڑا اشتیاق پیدا کر دیا انہوں نے والہانہ انداز میں رسول(ص)سے گزارش کی کہ آپ(ص) ہمارے یہاں تشریف لائیں۔

بعثت کے بارہویں سال جب حج کا زمانہ آیا تو یثرب سے حاجیوں کے قافلہ چلے ان میں ۷۳ مسلمان مرد اور دو عورتیں بھی تھیں رسول(ص) نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ آپ(ص) ان سے عقبہ میں ایام تشریق میں رات کے وقت ملاقات کریں گے؛ یثرب کے مسلمان اس وقت تک اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھے۔

جب تین حصہ رات گذر گئی اور آنکھوں سے نیند اچٹ گئی تو مسلمان چھپ کراپنے خیموں سے نکلے اور رسول(ص) کے انتظار میں جمع ہو گئے رسول(ص) آئے آپ(ص) کے ساتھ آپ(ص) کے اہل بیت (ص) میں سے بھی کچھ لوگ تھے، سب جمع ہو گئے، ان لوگوں نے گفتگو شروع کی، پھر رسول(ص) نے گفتگو کا آغاز کیا، قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت کی اس کے بعد انہیں خدا کی طرف بلایا اور اسلام کی ترغیب دلائی۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۶۔

۱۱۸

اس بار اسلام کے ہر پہلو، اس کے احکام اور جنگ و صلح کے بارے میں صریح طور پر بیعت ہوئی؛ رسول(ص) نے فرمایا:

''ابایعکم علیٰ ان تمنعونی مما تمنعون منه نسائکم و ابنائکم''

میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم ہر اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر ان لوگوں نے رسول(ص) کی بیعت کی۔

اس موقعہ پر یثرب کے مسلمانوں کی طرف سے خدشہ کا اظہار ہوا، ابو الہیثم ابن تیہان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اگرہم انہیں توڑ دیں تو کیا ایسا کرنے سے ہم گناہگار ہونگے اور اگر خدا آپ(ص) کو کامیاب کر دے توکیاآپ اپنی قوم کی طرف پلٹ جائیں گے ؟اس پر رسول(ص) مسکرائے اور فرمایا:''بل الدم الدم و الهدم الهدم احارب من حاربتم و اسالم من سالمتم'' ( ۱ ) بلکہ خون کا بدلہ خون اور مباح کئے ہوئے خون کا عوض مباح ہے ۔ میں اس سے جنگ کرونگا جس سے تم جنگ کروگے میں اس سے صلح کرونگا جس سے تم صلح کروگے۔

اس کے بعد رسول(ص) نے فرمایا: تم میں سے بارہ افراد میرے پاس آئیں تاکہ وہ اپنی قوم میں میرے نمائندے قرار پائیں چنانچہ ان میں سے نو افراد خزرج میں سے اور تین اوس میں سے نکلے ان سے رسول(ص) نے فرمایا:

''انتم علیٰ قومکم بما فیهم کفلاء ککفالة الحواریین لعیسیٰ بن مریم و انا کفیل علیٰ قوم'' ۔( ۲ )

تم اپنی قوم کے درمیان ان کے معاملات کے ایسے ہی ذمہ دار و ضامن ہو جیسے حضرت عیسیٰ کے حواری ضامن و ذمہ دار تھے اور میں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۸، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۱، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۱۔

۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۲، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۴۳، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲۔

۱۱۹

رسول(ص) نے ہرکام کے لئے حکیمانہ راہنمائی پختہ اور عمدہ تدبیر ، گہری سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیا اور اس مقصد کی طرف رسالت کو لیکر بڑھے جس کی وحی ِ الٰہی نے تائید کی تھی اور بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ تم اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹ جائو مشرکین سے نہ ٹکرانا کہ خدا نے قتال و خونریزی کا حکم نہیں دیا۔

قریش نے جب یہ محسوس کیا کہ یثرب کے مسلمان نبی(ص) کی مدد کر رہے ہیں توانہوں نے اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھا اور وہ غیظ وغضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور چاہا کہ نبی(ص) اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو جائیں لیکن عقبہ کے اجتماع میں جناب حمزہ و علی پاسبان و محافظ تھے لہذا قریش ناکام واپس لوٹ گئے۔( ۱ )

ہجرت کی تیاری

قریش غفلت سے بیدار ہو چکے تھے جبکہ مسلمانوں میں کامیابی کی امید جاگ اٹھی تھی جس کی وجہ سے مشرکوں کی طرف سے ایذا رسانی میں بھی اضافہ ہو گیا اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ سخت و سنگدلی کا رویہ اختیار کیا ان پر شدید ظلم کئے اور یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کا شیراز ہ بننے سے پہلے ہی ان کا صفایاکر دیں،مسلمانوں نے رسول(ص) سے اس ظالمانہ سلوک کی شکایت کی اور آنحضرت سے مکہ چھوڑنے کے لئے اجازت چاہی آپ(ص) نے ان سے چند روز کی مہلت طلب کی پھر فرمایا:''لقد اخبرت بدار هجرتکم و هی یثرب فمن اراد الخروج فلیخرج الیها'' ( ۲ ) مجھے تمہارے جس دار ہجرت کی خبر دی گئی ہے وہ مدینہ ہے پس جو تم میںسے مکہ چھوڑنا چاہتا ہے وہ مدینہ چلا جائے۔

دوسری روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے :''ان اللّٰه قد جعل لکم دارا تامنون بها و اخوانا'' ( ۳ ) بیشک خدا نے تمہارے لئے ایک جگہ مقرر کر دی ہے جہاں تم امن و اخوت کی زندگی گزار وگے۔

بعض مسلمانوں نے خفیہ طریقہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی تاکہ قریش کو شک نہ ہو۔

____________________

۱۔ تفسیر قمی ج۱ ص۲۷۲۔

۲۔ الطبقات الکبریٰ ج۱ ص۲۲۶۔

۳۔مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲، السیرة النبویہ ج۱ ص ۴۶۸۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296