منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137297 / ڈاؤنلوڈ: 6243
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

ہو۔ رفتہ رفتہ مکہ کے راستوں ، گھروں اور اجتماع میں رسول(ص) کے اصحاب کم نظر آنے لگے خود رسول(ص)، حکم خدا کے منتظر تھے اور یہ بھی چاہتے تھے کہ مسلمان صحیح و سالم ہجرت کر جائیں۔ ادھر قریش کو بھی رسول(ص) کے عزم کا علم ہو گیا لہذا انہوں نے مسلمانوں کو مکہ چھوڑ کرہجرت کرنے سے روکنے کی سعی کی اور مدینہ میں جاکر مسلمانوں کو لالچ و دھمکی کے ذریعہ مکہ لوٹانے کی کوشش کی۔

قریش مکہ میں امن برقرار رکھنا چاہتے تھے اسی وجہ سے مسلمان مہاجروں کو قتل نہیں کرتے تھے بلکہ قید میں ڈال دیتے تھے سزا دیتے تھے کیونکہ انہیں خوف تھا کہ مسلمانوں اور مشرکوں کے درمیان جنگ ہو جائے گی۔

ہاں قریش یہ بات بخوبی جانتے تھے کہ رسول(ص) کی مدینہ ہجرت سے مسلمانوں کی بڑی طاقت بن جائے گی اور جب آپ(ص) ان سے ملحق ہو جائیں گے تو چونکہ آپ ثابت قدمی حسن رائے، قوت و شجاعت میں مشہور ہیں، اس لئے اس وقت مشرکین عام طور سے اور قریش خاص طور سے مصیبتوں میں مبتلا ہوجائیں گے ۔

قریش کے سرداروں نے اپنے سامنے عظیم خطرے سے نمٹنے کے لئے دار الندوہ میں جلدی سے ایک جلسہ کیا، اس میں مختلف رائیں سامنے آئیں ایک رائے یہ تھی کہ محمد کو قید کر دیاجائے، ان کے پیروں میں زنجیر ڈال دی جائے یا انہیں مکہ سے دور صحرا ء میں جلا وطن کر دیا جائے لیکن رسول(ص) کو قتل کرنے اور ان کے خون کو قبائل میں اس طرح تقسیم کرنے والی رائے سب کو پسند آئی، کہ بنی ہاشم انتقام نہ لے سکیں( ۱ ) کیونکہ اگر انہوں نے رسول(ص) کو قتل کر دیا ہوتاتوابتداء ہی میں اسلامی رسالت کا خاتمہ ہو جاتا۔

رسول(ص) کو خدا کا حکم ہوا کہ یثرب-مدینہ-ہجرت کر جائیں اس حکم کا رسول(ص) کوبڑی شدت سے انتظار تھاتاکہ اس سر زمین پر پہنچ جائیں جہاں آپ (ص)تقوے اور آسمانی قوانین کے مطابق ایک حکومت قائم کر سکیں اور ایک صالح انسانی معاشرہ کی تشکیل کر سکیں۔

جب مشرکوں نے قتل رسول(ص) کا منصوبہ بنا کر اسے آخری شکل دیدی تو امینِ وحی جبریل رسول(ص) پر نازل ہوئے

____________________

۱۔ السیرة النبویہ ج۱ ص ۴۸۰، الطبقات الکبری ج۱ ص ۲۲۷، تفسیر العیاشی ج۲ ص ۵۴۔

۱۲۱

اور آپ(ص) کو مشرکوں کی اس سازش کی خبر دی جو انہوں نے آپ کے خلاف بنا رکھی تھی اور آپ کے سامنے اس آیت کی تلاوت کی :

( و اذ یمکربک الذی کفروا لیثبتوک او یقتلوک او یخرجوک و یمکرون و یمکر اللّه و اللّه خیر الماکرین ) ( ۱ )

اور اے رسول(ص)! آپ(ص) اس وقت کو یاد کریں جب کفار آپ کو قید کرنے یا قتل کرنے یا شہر بدر کرنے کی تدبیر کر رہے تھے اور اسی کے ساتھ خدا بھی ان کی تدبیروں کے خلاف بند و بست کر رہا تھا اور اللہ بہترین تدبیر کرنے والا ہے ۔

چونکہ رسول(ص) کو مکمل یقین تھا کہ خدا آپ(ص) کی حفاظت کرے گا اور غیبی امداد آپ(ص) کے شاملِ حال ہو گی اس لئے آپ اپنی تحریک میں عجلت سے کام نہیں لے رہے تھے اور نہ ہی جلد بازی میں قدم اٹھا رہے تھے بلکہ آپ بہت سوچ سمجھ کر اور نہایت ہی احتیاط کے ساتھ قدم اٹھاتے تھے۔

ہجرت سے پہلے مہاجرین کے درمیان مواخات

ہجرت سے پہلے مہاجرین کے درمیان اخوت قائم کی گئی تاکہ ایک ایسا اسلامی معاشرہ وجود میں آجائے کہ جس کے ا فراد اسلام کے مفاد اور اعلاء کلمة اللہ کے لئے ایک جسم کے اعضاء کی مانند ایک دوسرے سے تعاون کریں کیونکہ مسلمانوں کے سامنے بڑی مشکلیں آنے والی تھیںجن سے گزرنے کے لئے ایک دوسرے کاتعاون اور ایک دوسرے کی مددضروری تھی ۔

رسول(ص) نے گویا اس طرح اپنی ہجرت کا آغاز کیا کہ مہاجرین کے درمیان ایمانی اور خدائی رشتہ کی بنا پر اخوت قائم کی اور مالی مدد کرنے میں بھی انہیں ایک دوسرے کا بھائی بنا دیا اس طرح وہ نفسی نفسی کو چھوڑ کرایک مضبوط ومحکم معاشرہ تشکیل دیں چنانچہ رسول(ص) نے ابو بکر کو عمر کا، حمزہ کو زید بن حارثہ کا، زبیر کو ابن مسعود کا اور

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲ تا ۱۸۳، انفال:۸،۳۔

۱۲۲

عبید بن حارث کو بلال کا بھائی بنا دیا۔

اور علی کوخود اپنا بھائی بنایا اور حضرت علی سے فرمایا: کیا تم اس بات سے راضی نہیں ہو کہ میں تمہارا بھائی بن جائوں؟ حضرت علی نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) میں اس سے خوش ہوں۔ اس وقت آپ نے فرمایا: اے علی تم دنیا و آخرت میں میرے بھائی ہو۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۲ ص ۲۰، مستدرک حاکم ج۳ ص ۱۴۔

۱۲۳

چوتھا باب

پہلی فصل

اوّلین اسلامی حکومت کی تشکیل

دوسری فصل

نئی حکومت کا دفاع

تیسری فصل

مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی جواب

۱۲۴

پہلی فصل

اوّلین اسلامی حکومت کی تشکیل

۱۔ مدینہ کی طرف ہجرت

رسالت کی تحریک کی تکمیل اور نبوت کے خدائی اغراض و مقاصد کی تشکیل کے لئے ضروری تھا کہ معاشرہ کے افراد کی مدد کی جائے اور انہیں عقیدہ کے یقین مطلق سے سرشار کر دیا جائے تاکہ عقیدے کے سامنے وہ خودکو بھول جانے اور ہلاکتوں سے بچتے ہوئے ہمیشہ قربانی دینے کے لئے تیار رہیں ۔

ان افراد میں علی بن ابی طالب ایک فولادی انسان تھے کہ جن سے رسول(ص) نے فرمایا تھا: اے علی ! قریش نے میرے خلاف سازش کی ہے وہ مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں اورمجھ پر میرے رب کی طرف سے وحی ہوئی ہے کہ میں ایک قوم کی طرف ہجرت کر جائوں، پس تم میرے بسترپر سوجائو اور میری سبز چادر اوڑھ لو تاکہ تمہارے سونے سے انہیں یہ نہ معلوم ہو کہ میں چلا گیا، بتائو تم کیا کہو گے اور کیا کروگے؟

حضرت علی نے فرمایا: اے اللہ کے رسول(ص) کیا میرے سوجانے سے آپ محفوظ رہیں گے؟

رسول(ص) نے فرمایا: ہاں جب اللہ کے رسول(ص) نے علی کو اپنے محفوظ و سلامت رہنے کی خبر دی تو علی خوش ہوئے، مسکرائے ،شکرِ خدا کرنے کے لئے سجدہ میں گئے اور پھر فرمایا: میری بصارت و سماعت اور دل آپ پر قربان جو آپ(ص) کو حکم دیا گیا ہے اسے کر گذریے ۔( ۱ )

____________________

۱۔ ملاحظہ فرمائیں احقاق الحق ج۳ ص ۳۳ تا ۴۵ تعلیقہ مرعشی نجفی، اس سے تاریخی حادثہ اور علما اہل سنت کے نزدیک حضرت علی کا موقف واضح ہو جائے گا نیز ملاحظہ ہو مسند امام احمد ج۱ ص ۳۳۱ طبع اولیٰ مصر، تفسیر طبری ج۹ ص ۱۴۰، طبع میمینہ مصر، مستدرک حاکم ج۳ ص ۴، طبع حیدر آباد دکن۔

۱۲۵

رسول(ص) اپنے بستر پر حضرت علی کو لٹا کر نصف شب میں رحمت و حصارِ ایزدی کے سایہ میں ان مشرکوں کو چیرتے ہوئے نکل گئے جو آپ(ص) کے گھر کا محاصرہ کئے ہوئے تھے۔

جب صبح کے وقت خدا کے دشمن خون آشام شمشیر برہنہ لئے ہوئے رسول(ص) کے گھر میں داخل ہوئے تو ان کی ساری تمنائیں خاک میں مل گئیں۔ ان کے چہروں سے دشمنی کے آثار نمایاں تھے۔ خالد بن ولید ان میں پیش پیش تھا۔ حضرت علی بے نظیر شجاعت کے ساتھ اپنے بستر سے اٹھے تو خانۂ رسول(ص) میں داخل ہونے والے الٹے پائوں لوٹے وہ حیرت و دہشت میں ڈوب گئے ، وہ دیکھ رہے تھے کہ خدا نے ان کی کوششوں کو ناکام کر کے اپنے نبی(ص) کو بچا لیا ہے۔

قریش نے اپنی ضائع شدہ ہیبت کو پلٹانے کے لئے ہر قسم کا حربہ استعمال کیا تاکہ محمد(ص) ہاتھ آجائیں ۔ چنانچہ انہوں نے جاسوس چھوڑے، آپ(ص) کی تلاش میں انہوں نے عام اور غیر معروف راستوں کو چھان ڈالا یہاں تک کہ انہوں نے یہ اعلان کیا کہ جو بھی محمد (ص) کو زندہ یا مردہ لائے گا اسے سو اونٹ انعام دئیے جائیںگے۔ ایک ماہر راہنما نے آپ(ص) کے نقش قدم کو ڈھونڈکر انہیں غار ثور تک پہنچا دیا-رسول(ص) ابوبکر کے ساتھ اسی غار میں چھپے ہوئے تھے- اس کے بعد اسے آپ(ص) کے نقش قدم نظر نہ آئے تو اس نے کہا: محمد اور ان کے ساتھی یہاں سے آگے نہیں بڑھے، یا تو آسمان پر پہنچ گئے یا زمین میں اتر گئے۔

ادھر غار میں ابوبکر پر شدید خوف طاری تھا وہ قریش کی یہ آواز سن رہے تھے: اے محمد! نکلو ابو بکر ان کے بڑھتے ہوئے قدم دیکھ رہے تھے اور رسول(ص) انہیں سمجھا رہے تھے:( لا تحزن ان اللّٰه معنا ) ڈرو نہیں خدا ہمارے ساتھ ہے ۔

قریش واپس لوٹ گئے وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ محمد (ص) غار میں موجود ہیں کیونکہ انہوں نے غار کے دہانے پر مکڑی کا جالا اور کبوتر کا آشیانہ دیکھا تھا کہ جس میں اس نے انڈے دے رکھے تھے۔

شام کے وقت حضرت علی اور ہند بن ابی ہالہ نے آپ(ص) سے ملاقات کی ۔ انہیں معلوم تھا کہ آپ(ص) فلاں غار میں ہیں رسول(ص) نے حضرت علی سے کچھ ایسی چیزوں کی نشاندہی فرمائی جن کی حفاظت آپ(ص) کے ذمہ تھی اور جو امانتیں آپ(ص) کے پاس تھیں ان کو ادا کرنے کا حکم دیا-

۱۲۶

عرب کی امانتیں رسول(ص) ہی کے پاس رکھی جاتی تھیںاوران کو یہ حکم دیا کہ اپنے اور خواتین خاندان کے لئے سواریاں خریدیں اور میرے پاس آجائیںپھراطمینان کے ساتھ فرمایا:''انّهم لن یصلوا من الآن الیک یا علی بامرتکرهه حتی تقدم علی فاد امانتی علیٰ اعین الناس ظاهرا ثم انی مستخلفک علی فاطمة ابنتی و مستخلف رب علیکما و مستحفظه فیکما'' ۔( ۱ )

اے علی وہ اس وقت تک تمہارے ساتھ کوئی ناروا سلوک نہیں کریں گے یہاں تک کہ تم میرے پاس پہنچ جائوگے۔ اے علی ! لوگوں کی امانتوں کو سب کے سامنے واپس کرنا میں تمہیں اپنی بیٹی فاطمہ کا محافظ و نگہبان اور تم دونوں کا محافظ و نگہبان خدا کو قرار دیتا ہوں۔

تین روز کے بعد رسول(ص) کو یہ اطمینان ہو گیا کہ لوگ آپ(ص) کو ڈھونڈنے سے مایوس ہو گئے ہیںتو غار سے باہر نکلے اور مدینہ کی طرف روانہ ہو ئے اور خدا کی مدد پر بھروسہ کرتے ہوئے کسی تکان کی پروانہ کی۔

جب آپ قبا کے علاقہ میں پہنچے تو وہاں حضرت علی بن ابی طالب اورخواتین خاندان کی آمد کے انتظار میںچند دن گذارے تاکہ سب ایک ساتھ یثرب میں داخل ہوں جس وقت رسول(ص) کے ساتھی آپ(ص) کو قبا میں چھوڑ کر یثرب پہونچے تو اس وقت یثرب میں نبی (ص) کی آمد کی وجہ سے خوشی و مسرت کی لہر دوڑ گئی۔

حضرت علی راستہ کی مشقت و خطرات سے تھک کر نبی (ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے تو رسول(ص) نے آپ کو گلے سے لگایا اور آپ کی حالت دیکھ کر رونے لگے۔( ۲ ) اصل میں قریش کو یہ معلوم ہو گیا تھا کہ علی خواتین کو لیکر جا رہے ہیں تو انہوں نے ان کا تعاقب کیا تھا جس سے خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔

چند روز رسول(ص) خدا نے قبا ہی میں قیام کیا، سب سے پہلا کام آپ(ص) نے یہ کیا کہ بتوں کو توڑا( ۳ ) پھر مسجد تعمیر

____________________

۱۔ اعیان الشیعہ ج۱ ص ۲۳۷۔

۲۔ تاریخ کامل ج۲ ص ۱۰۶۔

۳۔ البدء والتاریخ ج۴ ص ۱۷۶ تا ص۱۷۷۔

۱۲۷

کی۔ اس کے بعد جمعہ کے روز آپ وہاں سے روانہ ہو ئے وادی رانوناء میں پہنچے تو نماز ظہر کا وقت ہو گیا عالم اسلام میں یہ سب سے پہلی نماز جمعہ تھی۔ یثرب کے مسلمان اپنے اسلحوں اور آرائش کے ساتھ رسول(ص) کے استقبال کے لئے نکلے آپ(ص) کی سوار ی کو اپنے حلقہ میں لے لیا ہر شخص یہی چاہتا تھا کہ رسول(ص) اس کے علاقہ میں داخل ہوں اور اس ذات گرامی کی پہلے وہ زیارت کرے جس پر وہ ایمان لایا ہے اور جس سے وہ محبت کر تا ہے ۔( ۱ )

جس مسلمان کے گھر کی طرف سے رسول(ص) کا گزر ہوتا تھا وہی آپ(ص) کے ناقہ کی مہار پکڑ لیتا تھا اور اپنے یہاں قیام کرنے کی درخواست کرتا تھا لیکن رسول(ص) مسکراتے ہوئے ہر ایک سے یہی فرماتے تھے میرے ناقہ کا راستہ چھوڑ دو یہ خود مامور ہے ۔ آخر میں آپ کا ناقہ ابو ایوب انصاری کے گھر کے سامنے اس سر زمین پر بیٹھا جو بنی نجار کے دو یتیموں کی تھی ابو ایوب انصاری کی زوجہ نے رسول(ص) کے اسباب سفر کو اپنے گھر میں رکھ لیا۔ رسول(ص) انہیں کے گھر میں رہے یہاں تک کہ مسجد نبوی(ص) اور آپ(ص) کے گھرکی تعمیر مکمل ہو گئی۔( ۲ )

یثرب کا نام بدل کر رسول(ص) نے طیبہ رکھا آپ(ص) کی ہجرت کو اسلامی تاریخ کا مبداء آغازسمجھا جاتا ہے۔( ۳ )

۲۔ مسجد کی تعمیر

یقینا رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ اس انفرادیت کے دائرہ سے نکل گئے اور مدینہ پہنچنے پر آپ(ص) نے ایک ایسی حکومت قائم کرنے کا منصوبہ بنایا جوآسمانی قوانین اور شریعت اسلامیہ کے حکم کے مطابق چلے اور جس کے نتیجہ میں اسلامی تہذیب وجود میں آجائے جواس حکومت کے بعد پوری انسانیت کوفیضیاب کرے۔

اسلامی حکومت کی تشکیل میں اس سے پہلے کا نظام بہت بڑی رکاوٹ تھا جزیرہ نما عرب کے معاشرہ پر یہی

____________________

۱۔رسول(ص) ۱۲ ربیع الاول کو مدینہ میں وارد ہوئے۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۹۴۔

۳۔مقدمۂ ابن خلدون ص ۲۸۳ تاج العروس ج۲ ص ۸۵۔

۱۲۸

غالب تھا دوسری طرف مسلمانوں کی کمزوری کا صحیح معنوں میں علاج بھی ضروری تھا۔ مسجد کی تعمیر اس لئے بھی ضروری تھی تاکہ مسجد سے متعددا ہم سرگرمیوں کا آغاز کیا جائے اور یہ اس مرکزی خود مختار کمیٹی کا مرکز قرار پائے جس کے ذریعہ حکومت کے امور انجام پذیر ہونا ہیں۔ مسجد کے لئے زمین کا تعین ہو گیا مسجد کے تعمیری کاموں کو مسلمانوں نے بڑے شوق و ہمت سے انجام دیا۔ اور اپنے نمونہ و اسوہ اور کاموں کے ذریعہ مسلمانوں کی طاقت کو حرکت میں لانے والا رسول(ص) خود مسجد کے تعمیری کاموں کو انجام دینے میں شریک تھا وہ خود پتھر اٹھا کر لاتے تھے ایک بار آپ(ص) ایک پتھر اٹھائے ہوئے لا رہے تھے کہ اسید بن حضیر نے دیکھ لیا عرض کی؛ اے اللہ کے رسول(ص) ! یہ پتھر آپ(ص) مجھے دے دیجئے میں لے جائونگا آپ(ص) نے فرمایا: نہیں۔ تم دوسرا اٹھا لائو۔ مسجد کے ساتھ ہی رسول(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت کا گھر بھی بن گیا۔ آپ(ص) کا گھر پُرتکلف نہیں تھا بلکہ ان کی زندگی کی مانند سادہ تھا۔ اس موقع پر رسول(ص) نے ان ناداروں کو فراموش نہیں کیا کہ جن کا کوئی گھر نہیں تھا اور انہوں نے آپ(ص) کے پاس پناہ لے رکھی تھی بلکہ مسجد کے ایک گوشہ میں ان کے لئے بھی ایک مکان بنا دیا۔( ۱ )

اس طرح مسجد مسلمانوں کے انفرادی و اجتماعی اور عبادی حیات بخش امور کی انجام دہی کا مرکز بن گئی۔

۳۔ مہاجرین و انصار کے درمیان مواخات

نئی حکومت کی تشکیل اور پہلے نظام کو ختم کرنے کے لئے کسی قبیلہ سے تعرض کئے بغیر ایک اور قدم اٹھایا جس سے آپسی محبت اور ایمان کی حرارت وجود میں آئی آپسی محبت اور حرارتِ ایمان مسلمانوں سے وجود میں آئی تھی پس رسول(ص) نے خاندانی اور خونی رشتہ سے آگے بڑھکر عقیدہ اور دین کو لوگوں کے رابطہ کی بنیاد قرار دیا اور فرمایا:'' تاخوا فی الله اخوین اخوین '' تم راہِ خدا میں بھائی بھائی بن جائو۔ پھر آپ(ص) نے حضرت علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑا اور فرمایا:''هذا اخی'' ( ۲ ) یہ میرے بھائی ہیں، اس طرح انصار میں سے ہر ایک

____________________

۱۔بحا ر الانوار ج۱۹ ص ۱۱۲، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۹۶۔

۲۔ سیرت نبوی ج۱ ص ۵۰۴۔

۱۲۹

نے مہاجرین میں سے ایک ایک کو اپنا بھائی بنا لیا اور اسے امور زندگی میں اپنا شریک بنا لیا اس طرح مدینہ نے اپنی تاریخ کا صفحہ پلٹ دیا کیونکہ ابھی تک مدینہ میں اوس و خزرج کے درمیان جنگ ہوتی رہتی تھی جسے یہود اپنی خباثت اور منافقت سے ہوا دیتے رہتے تھے، اب دنیا میں ترقی پذیرحیات انسانی کے عہد نوکا آغاز ہوا اور وہ اس طرح کہ رسول(ص) نے امت کی بقا اور اس کی ایمانی سرگرمی کا بیج بو دیا۔

مسلمانوں کے بھائی بھائی بننے کے نتائج

اقتصادی پہلو

۱۔ مہاجرین کی عائلی زندگی کو اقتصادی لحاظ سے بہتر بنایا تاکہ وہ اپنی طبعی زندگی کو جاری رکھ سکیں۔

۲۔ فقر و ناداری کو ختم کرنے کے لئے طبقاتی امتیازات کو ختم کیا۔

۳۔ غیر شرعی و ناجائز دولت سے دور رہتے ہوئے اقتصادی استقلال کے لئے کوشش کی تاکہ سود خور یہودیوں کے ہاتھ کٹ جائیں۔

۴۔آمدنی کے ذرائع پیدا کرنا۔ کھیتی کے ساتھ تجارتی میدان میں سر گرم عمل رہنا اور مہاجرین و انصار کے افکار اور ان کی کوششوں کے سایہ میں مدینہ کے حالات کے مطابق بھر پور فائدہ اٹھانا۔

اجتماعی پہلو

۱۔معاشرہ میں موجود ہلاکت خیز اجتماعی امراض کو ختم کیا اور پہلے سے چلے آ رہے لڑائی جھگڑوں کی جگہ محبت و مودت کی روح پھونکی تاکہ تمام فاصلے اور رخنے ختم ہو جائیں اور اسلام کے خلاف سازش کرنے والے ان سے کوئی فائدہ نہ اٹھا سکیں اور آئندہ کے مراحل میں اسلام کی زیادہ سے زیادہ خدمت کی جا سکے۔

۲۔پہلے نظام کو لغو کرکے اس کی جگہ روز مرہ کے معاملات میں اسلامی نظام و اقدار کو نافذ کیا ۔

۳۔ مسلمانوں کو باطنی طور پر آمادہ کیا اور اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت کے لئے انہیں ایثار وقربانی کی تربیت دی۔

۱۳۰

سیاسی پہلو

۱۔مسلمانوں کا ایک ایسا متحدہ محاذ قائم کیا جو رسول(ص) و رسالت کے احکام پر ایک فرد کی طرح لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتا رہے وہ بھی ایسے حالات میں کہ جب مختلف سمتوں سے مخالفت اور سازشوں کا سلسلہ جاری تھا ۔

۲۔انصار و مہاجرین کے درمیان تنظیمی علوم و اخبار، استقامت و ثبات کے وسائل، ایمانی تجربہ اور تحرک کے طریقوں کی ترویج کی کیونکہ انصار، مہاجرین کے تجربوں اور ان آزمائشوں سے واقف نہیں تھے جن کا انہیں سامنا نہیں ہوا تھا۔

۳۔ حکومت کی تشکیل اور اس کے ادارتی دھانچے کے لئے پہلے قدم کے طور پر افراد کی تعلیم و تربیت کی۔

۴۔مسلمانوں میں اسلام کے اقدار کے مطابق نسلی و خاندانی حمیت سے الگ رہتے ہوئے اپنے اندر دفاع کی روح پھونکی۔

۴۔معاہدۂ مدینہ

مسلمانوں کو جنگ و جدال کی حالت سے نکال کر تعمیری اور شریعت اسلامیہ کے مطابق ڈھالنے کے لئے ضروری تھا کہ امن و سکون کی فضا قائم ہو -خواہ یہ امن و سکون نسبی ہی ہو-اس لئے خلفشار و نزاع ،عام لوگوں میں انتشار کا سبب تھا۔

یثرب میں بہت سی طاقتیں مسلمانوں کو نیست و نابود کرنے کے در پے تھیں، اقتصادی اور سیاسی جوڑ توڑ کے لحاظ سے یہودی بہت مضبوط تھے اگر چہ ان کی تعداد قابل اعتناء نہیں تھی۔ دوسری طاقت مشرکوں کی تھی اگر چہ رسول(ص) اور مہاجرین کے آجانے سے ان کی طاقت کم ہو گئی تھی لیکن ان کا بالکل صفایا نہیں ہوا تھا لہذا نبی(ص) نے ان سے شائستہ طریقہ سے مقابلہ کیا۔

نبی(ص) کے لئے یہ بھی ضروری تھا کہ آپ منافقوں پر نظر رکھیں۔

مدینہ کے باہر قریش اور دوسرے مشرک قبیلے نئے اسلامی نظام کے لئے حقیقی خطرہ بنے ہوئے تھے رسول(ص) کے لئے لازمی تھا کہ آپ(ص) ان سے مقابلہ اور ان کے شر کو دفع کرنے کے لئے تیار رہیں۔

۱۳۱

یہاں رسول(ص) کی عظمت اور متعدد طاقتوں سے مقابلہ کرنے کے لئے آپ کی سیاسی بصیرت آشکار ہوئی۔ اسی کے ساتھ آپ(ص) دوسروں کے ساتھ نیکی سے پیش آئے اور انہیں امن سلامتی، صلح و آشتی کی دعوت دی۔

ایک ایسی حکومت کی تشکیل کے لئے آپ(ص) نے یہودیوںسے صلح و تعاون کا معاہدہ کیا جس کے مدار المہام آپ(ص) ہی تھے اورآپ ہی کے ذریعہ انسانی حقوق ہر ایک کو مساوی طور پر ملتے تھے۔

اس معاہدہ کو اس حکومتِ اسلامی کی تشکیل کا اولین دستور کہا جا سکتا ہے جو پہلے شہر مدینہ میں قائم ہوئی اورپھر عرب معاشرہ میں پھیل گئی اس کے بعدپوری دنیا میں نافذ ہوگئی۔ یہ معاہدہ درج ذیل اہم چیزوں پر مشتمل تھا:

۱۔مسلمان معاشرہ کی تشکیل اور ہر مسلمان کو اس کی قوت ارتقاء کا احساس دلایا۔

۲۔حکومت پر دبائو کو کم کرنے کے لئے پہلے معاشرے میں اصلاح کر کے اور اس کی بعض اجتماعی سرگرمیوں میں شرکت اور کچھ مسائل کے حل کے لئے اس سے مدد لے کر اسے باقی رکھا۔

۳۔ عقیدہ کی آزادی، یہودیوں کو اپنے دین و مذہب پر باقی رہنے اور تہوار منانے کی اجازت ہے وہ نئی اسلامی حکومت میں اقلیت کے عنوان سے رہیں گے۔

۴۔ مدینہ کو جائے امن قرار دیا جائے گا اور وہاں امن و امان بر قرار رکھا جائے گا۔ مدینہ میں قتل و خونریزی جائز نہیں ہوگی۔

۵۔ اسلامی حکومت و نظام کی زمام اور لڑائی جھگڑوںکے فیصلوں کا اختیار صرف رسول (ص) کو ہوگا۔

۶۔ سیاسی سوسائٹی کی توسیع، وہ اس طرح کہ مسلمان اور یہودی ایک سیاسی نظام کے تحت زندگی گذاریں گے اور دونوں اس نظام کا دفاع کریں گے۔

۷۔ مسلمان معاشرہ کے افراد کے درمیان تعاون کے جذبہ کو فروغ دیا جائے گا تاکہ وہ ہر قسم کے بحران سے محفوظ رہے۔

۱۳۲

۵۔مدینہ میں قیام اور نفاق

رسول(ص) نے مسلمان معاشرہ کی تشکیل کو اہمیت دی اور ہر مسلمان پر ہجرت کو واجب قرار دیا سوائے معذورافراد کے۔ یہ اس لئے کیا تھا تاکہ تمام طاقتوں اور صلاحتیوں کو مدینہ میں جمع کر لیا جائے۔

اس عہدِ نو میں مدینہ امن و امان کی زندگی سے مالا مال تھا۔ مسلمانوں کی ساری طاقتوں کے یکجا ہو جانے سے وہ ساری طاقتیں خوف زدہ تھیں جنہوں نے پہلے رسول(ص) کی دعوت کا انکار کر دیا تھا اور اس دعوت کا عقیدہ رکھنے والوں کو دھمکی دی تھی آج ایسا نظام بن گیا جو انسان کوفضائل و کمالات کی طرف بڑھانے والا تھا۔ اب انہیں تبلیغِ رسالت سے کوئی بھی نہیں روک سکتاتھا، چنانچہ بہت سے لوگوں نے اسلام قبول کر لیا ، بعض اسلامی رسالت سے دور رہے یا آپ(ص) سے مصالحت کر لی۔

دوسری طرف رسول،(ص) منافقین کی تحریک اور یہود کی کینہ توزی پر مبنی ان ریشہ دوانیوں پر نظر رکھے ہوئے تھے کہ جس کے ذریعے وہ مسلمانوں میں تفرقہ اندازی کرکے اسلام کے نئے نظام کو برباد کرنے کی کوشش کرتے تھے۔

تھوڑا ہی عرصہ گذرا تھا کہ مدینہ کے ہر گھر میں اسلام داخل ہو گیا( ۱ ) اور اجتماعی نظام اسلام کے حکم اور رسول(ص) کی قیادت کے تحت آگیا۔ اسی زمانہ میں زکات، روزہ، حدود کے احکام فرض ہوئے اسی طرح نماز کے لئے اذان و اقامت کا حکم آیا۔ اس سے پہلے رسول(ص) نے ایک منادی کو مقرر کر رکھا تھا جو نماز کے وقت ندا دیتا تھا۔ رسول(ص) پر وحی نازل ہوئی کہ انہیں اذان کے کلمات تعلیم دیجئے( ۲ ) رسول(ص) نے جناب بلال کو بلایا اور انہیں اذان کی تعلیم دی۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۵۰۰۔

۲۔کافی ج۱ ص ۸۳، تہذیب الاحکام ج۱ ص ۲۱۵۔

۱۳۳

۶۔ تحویلِ قبلہ

جب تک رسول(ص) مکہ میں تھے تو بیت المقدس کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے ہجرت کے بعد بھی آپ(ص) سترہ ماہ تک بیت المقدس ہی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھتے تھے اس کے بعد خدا نے آپ(ص) کو یہ حکم دیا کہ کعبہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھیں۔

دین اسلام سے یہودیوں کی دشمنی اور زیادہ بڑھ گئی وہ رسول(ص) اور رسالت کا مذاق اڑانے لگے پہلے تو وہ یہ فخر کرتے تھے کہ مسلمان یہودیوں کے قبلہ کی طرف رخ کرتے ہیں، اس سے رسول(ص) کو تکلیف ہوتی تھی لہذا تحویلِ قبلہ کے سلسلہ میں رسول(ص) کو وحی کا انتظار تھا ایک رات کا واقعہ ہے کہ رسول(ص) گھر سے نکلے اور آسمان کی وسعتوں کا جائزہ لیتے رہے یہاں تک کہ صبح ہو گئی،ظہر کا وقت آ یا تو آپ(ص) مسجد بنی سالم میں نمازِ ظہرمیں مصروف ہوئے دو رکعت پڑھ چکے تھے کہ جبریل نازل ہوئے اور آپ کے دونوں شانوں کو پکڑ کر کعبہ کی طرف موڑ دیا اور آپ(ص) کو خدا کا یہ قول سنایا:

( قد نریٰ تقلب وجهک فی السّماء فلنولّینّک قبلةً ترضاها فولِّ وجهک شطر المسجد الحرام ) ( ۱ )

ہم دیکھتے ہیں کہ آپ کی توجہ آسمان کی طرف ہے تو ہم آپ کا رخ اس قبلہ کی طرف موڑ دیں گے جسے آپ پسند کرتے ہیں لہذا اپنا رخ مسجد الحرام کی طرف موڑ لیجئے ۔

تحویل قبلہ ایک لحاظ سے مسلمانوں کا بھی امتحان تھا تاکہ معلوم ہو جائے کہ وہ حکم رسول(ص) کی کس حد تک اطاعت کرتے ہیں اوردوسری طرف یہودیوں کے عناد و استہزاء کے لئے چیلنج تھا اور ان کے مکرکا جواب تھا اور ایک مسلمان کے لئے یہ نیا راستہ تھا۔

____________________

۱۔بقرہ:۱۴۴۔

۱۳۴

۷۔ فوجی کاروایوں کی ابتدائ

طاقت ہی ایک ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ لوگوں پر حکومت کی جاتی ہے اور اسی کے وسیلہ سے ان کی قیاد ت کی جاتی ہے ۔ انہیں حالات میں -جب رسول(ص) مدینہ میںمقیم ہو گئے تو-آپ(ص) نے اور مسلمانوں نے یہ طے کیا کہ جزیرہ نما عرب بلکہ اس کے باہر کی طاقتوں -جیسے روم و فارس-کو یہ جتا دیا جائے کہ تبلیغِ رسالت اور آسمانی قوانین کے مطابق ایک تہذیب قائم کرنے کے لئے جد و جہد کا سلسلہ جاری رہے گا ظاہر ہے کہ مسلمانوں کے علاوہ کوئی دوسرا اس کام کو انجام نہیں دے سکتا تھا کیونکہ ان کا ایک محکم عقیدہ تھا اور ان کی ایک آزاد فکر تھی وہ حق و عدل کے طالب تھے وہ امن و امان قائم کرنے والے اور صاحب شمشیر و مرد میدان تھے۔

رسول(ص) کو یہ اندیشہ تھا کہ قریش اور آپ(ص) سے عداوت رکھنے والے ،مسلمانوں کو تباہ کرنے کی کوشش کریں گے خواہ کچھ مدت کے بعد ہی کریں۔ چنانچہ آپ(ص) نے عقبہ ثانیہ کی بیعت میں انصار سے یہ مطالبہ کیا کہ اگر قریش ظلم و تعدی کریں یا رسول(ص) اور مسلمانوں پر چڑھائی کریں تو تمہیں میری مدد کرنا ہوگی۔ مکہ میںمسلمانوں کی ملکیت ضبط کر لی گئی تھی اور ان کے گھروںکو لوٹ لیا گیا تھا۔رسول(ص) اور مسلمانوں-خصوصاً مہاجرین-کی یہی خواہش تھی کہ قریش اپنی خوشی سے اسلام میں داخل ہو جائیں یا کم از کم انہیں ان کی گمراہی پر نہ چلنے دیا جائے۔

اسی بنا پر رسول(ص) نے چھوٹے چھوٹے دستے بھیجے تاکہ وہ اپنی خود مختاری(مستقل وجود)اور کسی کی تا بعداری نہ کرنے کا اعلان کریں جب ہم ان دستوں کے افراد کو دیکھتے ہیں تو معلوم ہو تا ہے وہ صرف ساٹھ آدمی تھے اور سب مہاجر تھے ان میں وہ انصار شامل نہیں تھے جنہوں نے رسول(ص) کی مدد اورآپ(ص) کی طرف سے جنگ کرنے کے لئے بیعت کی تھی، یہ لوگ جنگ کے طلبگار بھی نہیں تھے یہ دستے صرف قریش پر اقتصادی دبائو ڈالنے کا وسیلہ تھے( ۱ ) ہو سکتا ہے اس طرح وہ کھلے کان اور دل سے حق کی آواز سن لیں یا مسلمانوں سے صلح کرلیں اور ان سے چھیڑچھاڑ نہ کریں تاکہ دوسرے علاقوں میں بھی اسلام پھیل جائے۔ اسی کے ساتھ یہود

____________________

۱۔ اس لئے کہ(قریش کے پاس) پیسہ تجارت کے ذریعہ آتا تھا اوران قافلوں کے ذریعے جس کی آمدو رفت مکہ ، شام اور یمن سے ہوتی تھی۔

۱۳۵

و منافقین کو طاقت ِ اسلام اور مسلمانوں کی ہیبت سے آگاہ کرنا بھی ضروری تھا۔

ہجرت کے سات ماہ بعد پہلا دستہ روانہ ہوا، اس میں تیس مرد شامل تھے اور اس کی قیادت رسول(ص) کے چچا جناب حمزہ کر رہے تھے۔ اس کے بعد دوسرا دستہ عبیدہ بن حارث کی سر کردگی میں روانہ ہوا، تیسرا دستہ سعد بن ابی وقاص کی قیادت میں روانہ ہوا۔

۲ھ میں رسول(ص) قریش کے قافلہ کو روکنے کے لئے ایک دستہ کے ساتھ روانہ ہوئے لیکن ابواء و بواط کی طرف آپ(ص) کے سفر سے طرفین میں ٹکرائونہیں ہوا۔ اسی لئے آپ(ص) نے ذو العشیرۂ بنی مدلج اور ان کے حلیفوں سے بھی صلح کا معاہدہ کیا۔

رسول(ص) اپنے اوپر اعتماد کو محفوظ رکھنے اور ظلم و تعدی کرنے والوں کو درس عبرت دینے کے لئے چلے کیونکہ کرز بن جابر فہری مدینہ کے اطراف سے (اہل مدینہ کے) اونٹ اور مویشی پکڑکر لے گیا تھا ۔رسول(ص) نے زید بن حارثہ کو مدینہ میں چھوڑا اور خود اس کے تعاقب میں نکلے۔( ۱ )

رسول(ص) نے اپنی فوجی تحریک سے یہ واضح کر دیا کہ دین کے لئے جہاد کیا جاتا ہے عصبیت و خون خواہی کے لئے نہیں۔آپ نے حرمت والے مہینوں کے احترام کو ملحوظ رکھا اور صلح و آشتی کے روایات کو محترم سمجھا۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۵۹۸ ، مغازی ج۱ ص ۱۱و ۱۲۔

۱۳۶

دوسری فصل

نئی حکومت کے نظام کا دفاع

۱۔ غزوۂ بدر

جنگ کے بارے میں حکمِ خدا کے نازل ہونے سے امت مسلمہ کفر و ضلالت سے ٹکرائو والے مرحلہ سے نکل کر دوسرے مرحلہ میں داخل ہو گئی اور مسلمانوں کے دلوں میں اپنے ان حقوق کو واپس لینے کا جذبہ پیدا ہوا جو غصب کر لئے گئے تھے، ان حقوق کو قریش نے صرف اس لئے غصب کر لیا تھا کہ یہ لوگ خدائے واحد پر ایمان لے آئے تھے۔

غزوہ ذو العشیرہ میں نبی (ص) قریش کے اس قافلہ کی گھات میں تھے جو شام جا رہا تھا اس وقت آپ (ص) معمولی ، ہلکے پھلکے اسلحے اور مختصر تعداد کے ساتھ نکلے تھے، امید یہی تھی کہ اس قافلہ سے ٹکرائو ہوگا جس میں اکثرتجّار مکّہ تھے۔ رسول(ص) کا یہ اقدام مخفیانہ نہیں تھا لہذا اس کی خبر مکہ پہنچ گئی اور وہاں سے قافلہ کے سربراہ ابو سفیان تک پہنچی چنانچہ اس نے اپنا راستہ بدل دیا تا کہ مسلمانوں کے ہاتھ نہ لگے ادھر قریش اپنے مال کے تحفظ اور مسلمانوں کی عداوت میں مکہ سے نکل پڑے مگر ان کے بزرگوں نے غور و فکر سے کام لیا اور یہ طے کیا کہ وہ مسلمانوں سے جنگ کے لئے نہیں جائیں گے خصوصاً یہ ارادہ اس وقت بالکل ترک کر دیا جب انہیں یہ معلوم ہوا کہ ابو سفیان اپنے تجارتی قافلہ سمیت بچ نکلا ہے ۔

قریش تقریباً ایک ہزار سپاہیوں اور بھاری اسلحہ کے ساتھ نکلے تھے جس سے ان کا مقصدتکبر اور عربوں کے درمیان اپنی حیثیت کا اظہار واضح تھا، ان کی نصرت کے لئے کچھ دوسرے قبیلے بھی جمع ہو گئے تھے جو مسلمانوں سے اس لئے جنگ کرنا چاہتے تھے تاکہ مسلمان یہ سمجھ لیں کہ وہ تنہا نہیں ہیںکیونکہ قریش عزت پانے کے بعد ابھی تک ذلیل نہیں ہوئے تھے۔

۱۳۷

اس بات سے رسول(ص) کے بعض افراد نے اس وقت پر دہ اٹھایا جب قریش سے پہلی بار ان کا مقابلہ ہوا۔( ۱ )

قریش بدر کے کنوئوں سے کچھ فاصلہ پراترے اور جنگ کے لئے اپنی صفوں کو مرتب کیا ۔مسلمان ان سے پہلے کنو ئوں پر پہنچ چکے تھے۔ مسلمانوں کی تعداد تین سو تیرہ تھی خدا نے مسلمانوں کی فتح کے اسباب فراہم کر دئیے تھے۔ ان کے لئے میدان قتال میں پہنچنا آسان ہو گیا تھا۔ ان کے دلوں میں سکون و اطمینان ڈال دیا تھا اور ان سے یہ وعدہ کیاگیا تھا کہ خدا انہیں ان کے دشمنوں پر فتح دے گااور دینِ حق کو غلبہ عطا کرے گا۔

باوجودیکہ مسلمانوںکو یہ توقع نہیں تھی کہ قریش ان سے مقابلہ کے لئے آئیں گے لیکن جب قافلہ ان کے ہاتھ نہ آیا اور جنگ کی نوبت آ گئی تو رسول(ص) نے مہاجرین و انصار کی نیتوںکو آزمانا چاہا اور فرمایا:''اشیروا عل ایّها النّاس'' ۔

اے لوگو!تم مجھے مشور ہ دو!

اس پر بعض مہاجرین کھڑے ہوئے اور انہوں نے کچھ ایسی باتیں کہیں جن سے یہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ دشمن کا مقابلہ کرنے سے ڈر رہے ہیں۔ اس کے بعد مقداد بن عمرو کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! آپ(ص) حکم خدا پر عمل کیجئے ہم آپ (ص)کے ساتھ ہیں؛ ہم آپ(ص) سے ویسے نہیں کہیں گے جیسے بنی اسرائیل نے اپنے نبی سے کہا تھا:( فاذهب انت و ربک فقاتلا انا ها هنا قاعدون ) ( ۲ ) آپ اور آپ کا رب جائیں اور جنگ کریں ہم تو یہاں بیٹھے ہیں۔

بلکہ ہم تو آپ(ص) سے یہ کہتے ہیں کہ ہم بھی آپ(ص) کے ساتھ ہو کر جنگ کریں گے اس ذات کی قسم کہ جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ(ص) ہمیں سمندر کے کنارے بھی لے جائیں گے تب بھی ہم جائیں گے۔

____________________

۱۔ ملاحظہ فرمائیں : مغازی واقدی ج۱ ص ۴۸، سیرت حلبیہ ج۲ ص ۱۶۰، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۱۷۔

۲۔ انفال : ۷ تا ۱۶۔

۱۳۸

اس کے بارے میں رسول(ص) نے نیک جذبات کا اظہار کیا پھر آپ(ص) نے وہی جملہ''اشیروا علی ایها الناس'' دہرایااس جملہ سے آپ انصار کی رائے معلوم کرنا چاہتے تھے کیونکہ عقبۂ اولیٰ میں انہوں نے اس بات پر بیعت کی تھی کہ وہ آپ کا دفاع کریں گے۔

اس پر سعد بن معاذ کھڑے ہوئے اور کہا: تمام انصار کی طرف سے میں جواب دیتا ہوں۔ اے اللہ کے رسول(ص)! گویا آپ کی مراد ہم ہیں؟ رسول(ص) نے فرمایا: ہاں، سعد بن معاذ نے کہا: ہم آپ(ص) پر ایمان لائے ہیں، ہم نے آپ(ص) کی تصدیق کی ہے اور یہ گواہی دی ہے کہ جو آپ(ص) لائے ہیں وہ بر حق ہے ، ہم نے آپ(ص) سے یہ عہد و میثاق کیا ہے کہ ہم آپ(ص) کی بات سنیں گے اورا طاعت کریں گے ۔تو پھر آپ جوارادہ کر چکے ہیں اس پر عمل کیجئے۔ اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے اگر آپ(ص) ہمیں اس دریا میں کودنے کا حکم دیں گے اورآپ (ص) اس میں داخل ہونگے تو ہم بلاتامل داخل ہو جائیں گے۔ ہم میں سے کوئی بھی باقی نہیں رہے گا اور ہم دشمن سے مقابلہ کرنے میں کراہت محسوس نہیں کرتے ہیں، ہم جنگ میں صبر و تحمل سے کام لیں گے ۔ ہم اپنی جاں نثاری کے جوہر دکھا کر آپ کی آنکھیں ٹھنڈی کر دیں گے۔

اس کے بعد رسول(ص) نے فرمایا: خدا کی برکتوں کے ساتھ چلو کیونکہ خدا نے مجھ سے دو گروہوں میں سے ایک گروہ کا وعدہ کیا ہے خدا کی قسم گویا میں اس قوم کو پسپا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہوں۔( ۱ )

جب مسلمان جنگ کے لئے تیار ہو گئے اور ضروری تیاری میں مشغول ہوئے اور پڑائو کے لئے مناسب جگہ کا انتخاب کیا، پانی فراہم کیا اور دشمنوں سے محاذ لینے کے لئے جگہ کا تعین کیاتورسول(ص) مستقل طور پر ان کے نفوس میں صبر و ثبات کی روح پھونک رہے تھے اور انہیں جنگ و جہاد کا شوق دلارہے تھے اور انہیں خدا کی طرف سے آنے والی مدد کی خبر دے رہے تھے اور خدا سے ان کی فتح کی دعا کر رہے تھے۔( ۲ )

مسلمان، رسول(ص) کو حلقہ میں لئیے ہوئے تھے وہ اپنے عقیدہ کے لئے بہترین طریقہ سے قربانی دینے کا اظہار کر رہے تھے انہیں یہی فکر تھی کہ اگر جنگ ہمارے خیال و تصورکے مطابق نہ ہو ئی تو اس وقت کیا طریقۂ کار

____________________

۱۔مغازی ج۱ ص ۴۸ و ۴۹۔

۲۔مغازی ج۱ ص ۵۰۔

۱۳۹

اختیار کیا جائے گا، انہوں نے رسول(ص) کے لئے ایک مچان بنا یا کہ جس سے معرکہ کا معائنہ کریں۔ اطلاع فراہم کرنے والا گروہ، قریش کے حالات کا سراغ لگانے کے لئے نکلا اور رسول(ص) کے پاس ضروری اطلاعات لے کر آیا ۔اس گروہ نے قریش کے جنگجو افراد کی تعدادکا اندازہ ۹۵۰ سے ۱۰۰۰ تک لگایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے مسلمانوں کی صفیں درست کیں اور بڑا علم حضرت علی بن ابی طالب کو عطا کیا اور قریش کی طرف بھیجانیز فرمایا کہ پہلے ان سے واپس پلٹ جانے کے لئے کہنا کہ ہم قتال و خونریزی کو پسند نہیں کرتے ہیں اس سے مشرکوںکے درمیان اختلاف ہو گیا بعض صلح و آشتی کے طرفدار تھے اور بعض سر کشی پر مصر تھے۔( ۲ )

رسول(ص) نے حکم دیا کہ مسلمان جنگ کی ابتداء نہ کریں اور آپ(ص) نے خدا سے اس طرح دعا کی :''اللهم ان تهلک هذه العصابة فلن تعبد بعد الیوم'' اے اللہ اگر آج یہ جماعت ہلاک ہو گئی تو آج کے بعد تیری عبادت نہیں ہوگی ۔

قدیم جنگوں کی رسموں کے مطابق مشرکین کی صفوں سے عقبہ بن ربیعہ ، اس کا بھائی شیبہ اور اس کا بیٹا ولید نکلا اور کہا: ہمارے مقابلہ کے لئے قریش سے ہمارے ہی جیسا بھیجیں، چنانچہ رسول(ص) نے عبیدہ بن حارث، حمزہ بن عبد المطلب اور علی بن ابی طالب سے فرمایا:''یابنی هاشم قوموا فقاتلوا بحقِّکم الّذی بعث به نبیّکم اذ جاؤوا بباطلهم لیطفئوا نور اللّٰه''

اے بنی ہاشم اٹھو! اور اپنے اس حق کے ساتھ جنگ کرو جس کے ساتھ تمہارے نبی کو بھیجا گیا ہے اور وہ اپنے باطل کے ساتھ آئے ہیں تاکہ نورِ خدا کو خاموش کر دیں۔

قریش میں سے جو بھی مقابلہ میں آیا وہ مارا گیا ، دونوں لشکروں میں خونریزجنگ ہوئی، رسول(ص) مسلمانوں کو جنگ و جہاد پر ابھار رہے تھے۔ اس کے بعد آپ(ص) نے ایک مشت کنکریاں اٹھائیں اور''شاهت الوجوه'' کہتے ہوئے قریش کی طرف پھینک دیں۔

____________________

۱۔انفال: ۶۵۔

۲۔مغازی ج۱ ص ۶۱، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۵۲۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

جناب ابوبکر کی اس حدیث کی تائید کردی ((ص) )_

جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں کہ اس مباحثے میں بھی حضرت زہراء (ع) غالب آئیں اور دلائی و برہان سے ثابت کردیا کہ وہ حدیث جس کا تم دعوی کر رہے ہو وہ صریح قرآنی نصوص کے خلاف ہے اور جو حدیث بھی قرآن کی صریح نص کے خلاف ہو وہ معتبر نہیں ہوا کرتی جناب ابوبکر مغلوب ہوئے اور آپ کے پاس اس کے سوا کوئی علاج نہ تھا کہ جناب فاطمہ (ع) کے جواب میں اسی سابقہ جواب کی تکرار کریں_

یہاں پر قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ یہی جناب عائشےہ جنہوں نے اس جگہ اپنے باپ کی بیان کردہ وضعی حدیث کی تائید کی ہے جناب عثمان کی خلافت کے زمانے میں ان کے پاس گئیں اور پیغمبر (ص) کی وراثت کا ادعا کیا_ جناب عثمان نے جواب دیا کیا تم نے گواہی نہیں دی تھی کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا کہ ہم پیغمبر ارث نہیں چھوڑتے؟ اور اسی سے تم نے جناب فاطمہ (ع) کو وراثت سے محروم کردیا تھا، اب کیسے آپ خود رسول (ص) کی وراثت کا مطالبہ کر رہی ہیں(۲) _

خلیفہ سے وضاحت کا مطالبہ

جناب زہراء (ع) پہلے مرحلہ میں کامیاب ہوئیں اور اپنی منطق اور برہان سے اپنے مد مقابل کو محکوم

____________________

۱) کشف الغمہ، ج ۲ س ۱۰۴_

۲) کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۵_

۱۸۱

کردیا قرآن مجید کی آیات سے اپنی حقانیت کو ثابت کیا اور اپنے مد مقابل کو اپنے استدلال سے ناتواں بنادیا، آپ نے دیکھا کہ _ مد مقابل اپنی روش کو صحیح ثابت کرنے کے لئے ہر قسم کے عمل کو بجالانے کے لئے حتی کہ حدیث بناکر پیش کرنے کی بھی پرواہ نہیں کرتا اور دلیل و برہان کے مقابلے میں قوت اور طاقت کا سہارا ڈھونڈتا ہے_

آپ نے تعجب کیا اور کہا عجیب انہوں نے میرے شوہر کی خلافت پر قبضہ کرلیا ہے_ یہ آیات قرآن کے مقابل کیوں سر تسلیم خم نہیں کرتے؟ کیوں اسلام کے خلاف فیصلہ دیتے ہیں؟ کیوں جناب ابوبکر تو مجھے تحریر لکھ کر دیتے ہیں لیکن جناب عمر اسے پھاڑ ڈالتے ہیں؟ اے میرے خدا یہ کسی قسم کی حکومت ہے اور یہ کسی قضاوت ہے؟ تعجب در تعجب: جناب ابوبکر رسول خدا(ص) کی جگہ بیٹھتے ہیں، لیکن حدیث از خود بناتے ہیں تا کہ میرے حق کو پائمال کریں؟ ایسے افراد دین اور قرآن کے حامی ہوسکتے ہیں؟ مجھے فدک اور غیر فدک سے دلچسپی نہیں لیکن اس قسم کے اعمال کو بھی تحمل نہیں کرسکتی بالکل چپ نہ رہوں گی اور مجھے چاہیئے کہ تما لوگوں کے سامنے خلیفہ سے وضاحت طلب کروں اور اپنی حقانیت کو ثابت کروں اور لوگوں کو بتلادوں کہ جس خلیفہ کا تم نے انتخاب کیا ہے اس میں صلاحیت نہیں کہ قرآن اور اسلام کے دستور پر عمل کرے اپنی مرضی سے جو کام چاہتا ہے انجام دیتا ہے_ جی ہان مسجد جاؤں گی اور لوگوں کے سامنے تقریر کروں گی_

یہ خبر بجلی کی طرح مدینہ میں پھیل گئی اور ایک بم کی طرح پورے شہر کو ہلاک رکھ دیا، فاطمہ (ع) جو کہ پیغمبر(ص) کی نشانی ہیں چاہتی ہیں کہ تقریر کریں؟ لیکن

۱۸۲

کس موضوع پر تقریر ہوگی؟ اور خلیفہ اس پر کیا رد عمل ظاہر کرے گا؟ چلیں آپ کی تاریخی تقریر کو سنیں_

مہاجر اور انصار کی جمعیت کا مسجد میں ہجوم ہوگیا، بنی ہاشم کی عورتیں جناب زہراء (ع) کے گھر گئیں اور اسلام کی بزرگ خاتون کو گھر سے باہر لائیں، بنی ہاشم کی عورتیں آپ کو گھیرے میں لئے ہوئے تھیں، بہت عظمت اور جلال کے ساتھ آپ چلیں، پیغمبر(ص) کی طرح قدم اٹھا رہی تھیں، جب مسجد میں داخل ہوئیں تو پردہ آپ کے سامنے لٹکا دیاگیا، باپ کی جدائی اور ناگوار حوادث نے جناب فاطمہ (ع) کو منقلب کردیا کہ آپ کے جگر سے آہ و نالہ بلند ہوا اور اس جلا دینے والی آواز نے مجمع پر بھی اثر کیا اور لوگ بلند آواز سے رونے لگے_

آپ تھوڑی دیر کے لئے ساکت رہیں تا کہ لوگ آرام میں آجائیں اس کے بعد آپ نے گفتگو شروع کی، اس کے بعد پھر ایک دفعہ لوگوں کے رونے کی آوازیں بلند ہوئیں آپ پھر خاموش ہوگئیں یہاں تک کہ لوگ اچھی طرح ساکت ہوگئے اس وقت آپ نے کلام کا آغاز کیا اور فرمایا:

جناب فاطمہ (ع) کی دہلا اور جلادینے والی تقریر

میں خدا کی اس کی نعمتوں پر ستائشے اور حمد بجالاتی ہوں اور اس کی توفیقات پر شکر ادا کرتی ہوں اس کی بے شمار نعمتوں پر اس کی حمد و ثنا بجالاتی ہوں وہ نعمتیں کہ جن کی کوئی انتہانہیں اور نہیں ہوسکتا کہ

۱۸۳

ان کی تلافی اور تدارک کیا جاسکے ان کی انتہا کاتصور کرنا ممکن نہیں، خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکریہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا ہم سے چاہتا ہے کہ ہم اس کی نعمتوں کو جانیں اور ان کا شکرہ ادا کریں تا کہ اللہ تعالی مقامی نعمتوں کو اور زیادہ کرے_ خدا نے ہم سے حمد و ثنا کو طلب کیا ہے تا کہ وہ اپنی نعمتوں کو ہمارے لئے زیادہ کرے_

میں خدا کی توحید اور یگانگی گواہی دیتی ہوں توحید کا وہ کلمہ کہ اخلاص کو اس کی روح اور حقیقت قرار دیا گیا ہے اور دل میں اس کی گواہی دے تا کہ اس سے نظر و فکر روشن ہو، وہ خدا کہ جس کو آنکھ کے ذریعے دیکھا نہیں جاسکتا اور زبان کے ذریعے اس کی وصف اور توصیف نہیں کی جاسکتی وہ کس طرح کا ہے یہ وہم نہیں آسکتا_ عالم کو عدم سے پیدا کیا ہے اور اس کے پیدا کرنے میں وہ محتاج نہ تھا اپنی مشیئت کے مطابق خلق کیا ہے_ جہان کے پیا کرنے میں اسے اپنے کسی فائدے کے حاصل کرنے کا قصد نہ تھا_ جہان کو پیدا کیا تا کہ اپنی حکمت اور علم کو ثابت کرے اور اپنی اطاعت کی یاد دہانی کرے، اور اپنی قدرت کا اظہار کرے، اور بندوں کو عبادت کے لئے برانگیختہ کرے، اور اپنی دعوت کو وسعت دے، اپنی اطاعت کے لئے جزاء مقرر کی اور نافرمانی کے لئے سزا معین فرمائی_ تا کہ اپنے بندوں کو عذاب سے نجات دے اور بہشت کی طرف لے جائے_

میں گواہی دیتی ہوں کہ میرے والد محمد(ص) اللہ کے رسول اور اس کے بندے ہیں، پیغمبری کے لئے بھیجنے سے پہلے اللہ نے ان کو چنا اور قبل

۱۸۴

اس کے کہ اسے پیدا کرے ان کا نام محمّد(ص) رکھا اور بعثت سے پہلے ان کا انتخاب اس وقت کیا جب کہ مخلوقات عالم غیب میں پنہاں اور چھپی ہوئی تھی اور عدم کی سرحد سے ملی ہوئی تھی، چونکہ اللہ تعالی ہر شئی کے مستقبل سے باخبر ہے اور حوادث دہر سے مطلع ہے اور ان کے مقدرات کے موارد اور مواقع سے آگاہ ہے ، خدا نے محمّد(ص) کو مبعوث کیا تا کہ اپنے امر کو آخر تک پہنچائے اور اپنے حکم کو جاری کردے، اور اپنے مقصد کو عملی قرار دے_ لوگ دین میں تفرق تھے اور کفر و جہالت کی آگ میں جل رہے تھے، بتوں کی پرستش کرتے تھے اور خداوند عالم کے دستورات کی طرف توجہ نہیں کرتے تھے_

پس حضرت محمّد(ص) کے وجود مبارک سے تاریکیاں چھٹ گئیں اور جہالت اور نادانی دلوں سے دور ہوگئی، سرگردانی اور تحیر کے پردے آنکھوں سے ہٹا دیئے گئے میرے باپ لوگوں کی ہدایت کے لئے کھڑے ہوئے اور ان کو گمراہی سے نجات دلائی اور نابینا کو بینا کیا اور دین اسلام کی طرف راہنمائی فرمائی اور سیدھے راستے کی طرف دعوت دی، اس وقت خداوند عالم نے اپنے پیغمبر کی مہربانی اور اس کے اختیار اور رغبت سے اس کی روح قبض فرمائی_ اب میرے باپ اس دنیا کی سختیوں سے آرام میں ہیں اور آخرت کے عالم میں اللہ تعالی کے فرشتوں اور پروردگار کی رضایت کے ساتھ اللہ تعالی کے قرب میں زندگی بسر کر رہے ہیں، امین اور وحی کے لئے چتے ہوئے پیغمبر پر درود ہو_

آپ نے اس کے بعد مجمع کو خطاب کیا اور فرمایا لوگو تم اللہ تعالی

۱۸۵

کے امر اور نہی کے نمائندے اور نبوت کے دین اور علوم کے حامل تمہیں اپنے اوپر امین ہونا چاہیئےم ہو جن کو باقی اقوام تک دین کی تبلیغ کرنی ہے تم میں پیغمبر(ص) کا حقیقی جانشین موجود ہے اللہ تعالی نے تم سے پہلے عہد و پیمان اور چمکنے والانور ہے اس کی چشم بصیرت روش اور رتبے کے آرزومند ہیں اس کی پیروی کرنا انسان کو بہشت رضوان کی طرف ہدایت کرتا ہے اس کی باتوں کو سننا نجات کا سبب ہوتا ہے اس کے وجود کی برکت سے اللہ تعالی کے نورانی دلائل اور حجت کو دریافت کیا جاسکتا ہے اس کے وسیلے سے واجبات و محرمات اور مستحبات و مباح اور شریعت کے قوانین کو حاصل کیا جاسکتا ہے_

اللہ تعالی نے ایمان کو شرک سے پاک ہونے کا وسیلہ قرار دیا ہے___ اللہ نے نماز واجب کی تا کہ تکبر سے روکاجائے_ زکوة کو وسعت رزق اور تہذیب نفس کے لئے واجب قرار دیا_ روزے کو بندے کے اخلاص کے اثبات کے لئے واجب کیا_ حج کو واجب کرنے سے دین کی بنیاد کو استوار کیا، عدالت کو زندگی کے نظم اور دلوں کی نزدیکی کے لئے ضروری قرار دیا، اہلبیت کی اطاعت کو ملت اسلامی کے نظم کے لئے واجب قرار دیا اور امامت کے ذریعے اختلاف و افتراق کا سد باب کیا_ امر بالمعروف کو عمومی مصلحت کے ماتحت واجب قرار دیا، ماں باپ کے ساتھ نیکی کو ان کے غضب سے مانع قرار دیا، اجل کے موخر ہونے اور نفوس کی زیادتی کے لئے صلہ رحمی کا دستور دیا_

۱۸۶

قتل نفس کو روکنے کے لئے قصاص کو واجب قرار دیا_ نذر کے پورا کرنے کو گناہوں گا آمرزش کا سبب بنایا_ پلیدی سے محفوظ رہنے کی غرض سے شراب خوری پر پابندی لگائی، بہتان اور زنا کی نسبت دینے کی لغت سے روکا، چوری نہ کرنے کو پاکی اور عفت کا سبب بتایا_ اللہ تعالی کے ساتھ شرک، کو اخلاص کے ماتحت ممنوع قرار دیا_

لوگو تقوی اور پرہیزگاری کو اپناؤ اور اسلام کی حفاظت کرو اور اللہ تعالی کے اوامر و نواحی کی اطاعت کرو، صرف علماء اور دانشمندی خدا سے ڈرتے ہیں_

اس کے بعد آپ نے فرمایا، لوگو میرے باپ محمد(ص) تھے اب میں تمہیں ابتداء سے آخر تک کے واقعات اور امور سے آگاہ کرتی ہوں تمہیں علم ہونا چاہیئےہ میں جھوٹ نہیں بولتی اور گناہ کا ارتکاب نہیں کرتی_

لوگو اللہ تعالی نے تمہارے لئے پیغمبر(ص) جو تم میں سے تھا بھیجا ہے تمہاری تکلیف سے اسے تکلیف ہوتی تھی اور وہ تم سے محبت کرتے تھے اور مومنین کے حق میں مہربان اور دل سوز تھے_

لوگو وہ پیغمبر میرے باپ تھے نہ تمہاری عورت کے باپ، میرے شوہر کے چچازاد بھائی تھے نہ تمہارے مردوں کے بھائی، کتنی عمدہ محمّد(ص) سے نسبت ہے_ جناب محمد(ص) نے اپنی رسالت کو انجام دیا اور مشرکوں کی راہ و روش پر حملہ آور ہوئے اور ان کی پشت پر سخت ضرب وارد کی ان کا گلا پکڑا اور دانائی اور نصیحت سے خدا کی طرف دعوت دی، بتوں کو توڑا اور ان کے سروں کو سرنگوں کیا کفار نے شکست کھائی اور شکست کھا کر

۱۸۷

بھاگے تاریکیاں دور ہوگئیں اور حق واضح ہوگیا، دین کے رہبر کی زبان گویا ہوئی اور شیاطین خاموش ہوگئے، نفاق کے پیروکار ہلاک ہوئے کفر اور اختلاف کے رشتے ٹوٹ گئے گروہ اہلبیت کی وجہ سے شہادت کا کلمہ جاری کیا، جب کہ تم دوزخ کے کنارے کھڑے تھے اور وہ ظالموں کا تر اور لذیذ لقمہ بن چکے تھے اور آگ کی تلاش کرنے والوں کے لئے مناسب شعلہ تھے_ تم قبائل کے پاؤں کے نیچے ذلیل تھے گندا پانی پیتے تھے اور حیوانات کے چمڑوں اور درختوں کے پتوں سے غذا کھاتے تھے دوسروں کے ہمیشہ ذلیل و خوار تھے اور اردگرد کے قبائل سے خوف و ہراس میں زندگی بسر کرتے تھے_

ان تمام بدبختیوں کے بعد خدا نے محمد(ص) کے وجود کی برکت سے تمہیں نجات دی حالانکہ میرے باپ کو عربوں میں سے بہادر اور عرب کے بھیڑیوں اور اہل کتاب کے سرکشوں سے واسطہ تھا لیکن جتنا وہ جنگ کی آگ کو بھڑکاتے تھے خدا سے خاموش کردیتا تھا، جب کوئی شیاطین میں سے سر اٹھاتا یا مشرکوں میں سے کوئی بھی کھولتا تو محمد(ص) اپنے بھائی علی (ع) کو ان کے گلے میں اتار دیتے اور حضرت علی (ع) ان کے سر اور مغز کو اپنی طاقت سے پائمال کردیتے اور جب تک ان کی روشن کی ہوئی آگ کو اپنی تلوار سے خاموش نہ کردیتے جنگ کے میدان سے واپس نہ لوٹتے اللہ کی رضا کے لئے ان تمام سختیوں کا تحمل کرتے تھے اور خدا کی راہ میں جہاد کرتے تھے، اللہ کے رسول کے نزدیک تھے_ علی (ع) خدا دوست تھے، ہمیشہ جہاد کے لئے آمادہ تھے، وہ تبلیغ اور جہاد کرتے تھے اور تم اس حالت میں آرام اور خوشی میں خوش و خرم زندگی گزار

۱۸۸

رہے تھے اور کسی خبر کے منتظر اور فرصت میں رہتے تھے دشمن کے ساتھ لڑائی لڑنے سے ا جتناب کرتے تھے اور جنگ کے وقت فرار کرجاتے تھے_

جب خدا نے اپنے پیغمبر کو دوسرے پیغمبروں کی جگہ کی طرف منتقل کیا تو تمہارے اندرونی کینے اور دوروئی ظاہر ہوگئی دین کا لباس کہنہ ہوگیا اور گمراہ لوگ باتیں کرنے لگے، پست لوگوں نے سر اٹھایا اور باطل کا اونٹ آواز دیتے لگا اور اپنی دم ہلانے لگا اور شیطان نے اپنا سرکمین گاہ سے باہر نکالا اور تمہیں اس نے اپنی طرف دعوت دی اور تم نے بغیر سوچے اس کی دعوت قبول کرلی اور اس کا احترام کیا تمہیں اس نے ابھارا اور تم حرکت میں آگئے اس نے تمہیں غضبناک ہونے کا حکم دیا اور تم غضبناک ہوگئے_

لوگو وہ اونٹ جو تم میں سے نہیں تھا تم نے اسے با علامت بناکر اس جگہ بیٹھایا جو اس کی جگہ نہیں تھی، حالانکہ ابھی پیغمبر(ص) کی موت کو زیادہ وقت نہیں گزرا ہے ابھی تک ہمارے دل کے زخم بھرے نہیں تھے اور نہ شگاف پر ہوئے تھے، ابھی پیغمبر(ص) کو دفن بھی نہیں کیا تھا کہ تم نے فتنے کے خوف کے بہانے سے خلافت پر قبضہ کرلیا، لیکن خبردار رہو کہ تم فتنے میں داخل ہوچکے ہو اور دوزخ نے کافروں کا احاطہ کر رکھا ہے_ افسوس تمہیں کیا ہوگیا ہے اور کہاں چلے جارہے ہو؟ حالانکہ اللہ کی کتاب تمہارے درمیان موجود ہے اور اس کے احکام واضح اور اس کے اوامر و نواہی ظاہر ہیں تم نے قرآن کی مخالفت کی اور اسے پس پشت ڈال دیا، کیا تمہارا ارادہ ہے کہ قرآن سے اعراض اور روگردانی

۱۸۹

کرلو؟ یا قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعے سے قضاوت اور فیصلے کرتا چاہتے تو؟ لیکن تم کو علم ہونا چاہیئے کہ جو شخص بھی اسلام کے علاوہ کسی دوسرے دین کو اختیار کرے گا وہ قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ خسارہ اٹھانے والوں میں سے ہوگا، اتنا صبر بھی نہ کرسکے کہ وہ فتنے کی آگ کو خاموش کرے اور اس کی قیادت آسان ہوجائے بلکہ آگ کو تم نے روشن کیا اور شیطان کی دعوت کو قبول کرلیا اور دین کے چراغ اور سنت رسول خدا(ص) کے خاموش کرنے میں مشغول ہوگئے ہو_ کام کو الٹا ظاہر کرتے ہو اور پیغمبر(ص) کے اہلبیت کے ساتھ مکر و فریب کرتے ہو، تمہارے کام اس چھری کے زخم اور نیزے کے زخم کی مانند ہیں جو پیٹ کے اندر واقع ہوئے ہوں_

کیا تم یہ عقیدہ رکھتے ہو کہ ہم پیغمبر(ص) سے میراث نہیں لے سکتے، کیا تم جاہلیت کے قوانین کی طرف لوٹنا چاہتے ہو ؟ حالانکہ اسلام کے قانون تمام قوانین سے بہتر ہیں، کیا تمہیں علم نہیں کہ میں رسول خدا(ص) کی بیٹی ہوں کیوں نہیں جانتے ہو اور تمہارے سامنے آفتاب کی طرح یہ روشن ہے_ مسلمانوں کیا یہ درست ہے کہ میں اپنے باپ کی میراث سے محروم ہوجاؤں؟ اے ابوبکر آیا خدا کی کتاب میں تو لکھا ہے کہ تم اپنے باپ سے میراث لو اور میں اپنے باپ کی میراث سے محروم رہوں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں کہتا کہ سلیمان داود کے وارث ہوئے_

''ورث سلیمان داؤد''

کیا قرآن میں یحیی علیہ السلام کا قول نقل نہیں ہوا کہ خدا سے انہوں نے عرض کی پروردگار مجھے فرزند عنایت فرما تا کہ وہ میرا وارث

۱۹۰

قرار پائے او آل یعقوب کا بھی وارث ہو_

کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ بعض رشتہ دار بعض دوسروں کے وارث ہوتے ہیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ اللہ نے حکم دیا کہ لڑکے، لڑکیوں سے دوگنا ارث لیں؟ کیا خدا قرآن میں نہیں فرماتا کہ تم پر مقرر کردیا کہ جب تمہارا کوئی موت کے نزدیک ہو تو وہ ماں، باپ اور رشتہ داروں کے لئے وصیت کرے کیونکہ پرہیزگاروں کے لئے ایسا کرنا عدالت کا مقتضی ہے_

کیا تم گمان کرتے ہو کہ میں باپ سے نسبت نہیں رکھتی؟ کیا ارث والی آیات تمہارے لئے مخصوص ہیں اور میرے والد ان سے خارج ہیں یا اس دلیل سے مجھے میراث سے محروم کرتے ہو جو دو مذہب کے ایک دوسرے سے میراث نہیں لے سکتے؟ کیا میں اور میرا باپ ایک دین پر نہ تھے؟ آیا تم میرے باپ اور میرے چچازاد علی (ع) سے قرآن کو بہتر سمجھتے ہو؟

اے ابوبکر فدک اور خلافت تسلیم شدہ تمہیں مبارک ہو، لیکن قیامت کے دن تم سے ملاقات کروں گی کہ جب حکم اور قضاوت کرنا خدا کے ہاتھ میں ہوگا اور محمد(ص) بہترین پیشوا ہیں_

اے قحافہ کے بیٹھے، میرا تیرے ساتھ وعدہ قیامت کا دن ہے کہ جس دن بیہودہ لوگوں کا نقصان واضح ہوجائے گا اور پھر پشیمان ہونا فائدہ نہ دے گا بہت جلد اللہ تعالی کے عذاب کو دیکھ لوگے آپ اس کے بعد انصار کی طرف متوجہ ہوئیں اور فرمایا:

اے ملت کے مددگار جوانو اور اسلام کی مدد کرنے والو کیوں حق

۱۹۱

کے ثابت کرنے میں سستی کر رہے ہو اور جو ظلم مجھ پر ہوا ہے اس سے خواب غفلت میں ہو؟ کیا میرے والد نے نہیں فرمایا کہ کسی کا احترام اس کی اولاد میں بھی محفوظ ہوتا ہے یعنی اس کے احترام کی وجہ سے اس کی اولاد کا احترام کیا کرو؟ کتنا جلدی فتنہ برپا کیا ہے تم نے؟ اور کتنی جلدی ہوی اور ہوس میں مبتلا ہوگئے ہو؟ تم اس ظلم کے ہٹانے میں جو مجھ پر ہوا ہے قدرت رکھتے ہو اور میرے مدعا اور خواستہ کے برلانے پر طاقت رکھتے ہو_ کیا کہتے ہو کہ محمد(ص) مرگئے؟ جی ہاں لیکن یہ ایک بہت بڑی مصیبت ہے کہ ہر روز اس کا شگاف بڑھ رہا ہے اور اس کا خلل زیادہ ہو رہا ہے_ آنجناب(ص) کی غیبت سے زمین تاریک ہوگئی ہے سورج اور چاند بے رونق ہوگئے ہیں آپ کی مصیبت پر ستارے تتربتر ہوگئے ہیں، امیدیں ٹوٹ گئیں، پہاڑ متزلزل اور ریزہ ریزہ ہوگئے ہیں پیغمبر(ص) کے احترام کی رعایت نہیں کی گئی، قسم خدا کی یہ ایک بہت بڑی مصیبت تھی کہ جس کی مثال ابھی تگ دیکھی نہیں گئی اللہ کی کتاب جو صبح اور شام کو پڑھی جا رہی ہے آپ کی اس مصیبت کی خبر دیتی ہے کہ پیغمبر(ص) بھی عام لوگوں کی طرح مریں گے، قرآن میں ارشاد ہوتا ہے کہ محمد(ص) بھی گزشتہ پیغمبروں کی طرح ہیں، اگر آپ(ص) مرے یا قتل کئے گئے تو تم دین سے پھر جاوگے، جو بھی دین سے خارج ہوگا وہ اللہ پر کوئی نقصان وارد نہیں کرتا خدا شکر ادا کرنے والوں کو جزا عنایت کرتا ہے(۱) _

اے فرزندان قبلہ: آیا یہ مناسب ہے کہ میں باپ کی میراث سے محروم

____________________

۱) سورہ آل عمران_

۱۹۲

رہوں جب کہ تم یہ دیکھ رہے ہو اور سن رہے ہو اور یہاں موجود ہو میری پکار تم تک پہنچ چکی ہے اور تمام واقعہ سے مطلع ہو، تمہاری تعداد زیادہ ہے اور تم طاقت ور اور اسلحہ بدست ہو، میرے استغاثہ کی آواز تم تک پہنچتی ہے لیکن تم اس پر لبیک نہیں کہتے میری فریاد کو سنتے ہو لیکن میری فریاد رسی نہیں کرتے تم بہادری میں معروف اور نیکی اور خیر سے موصوف ہو، خود نخبہ ہو اور نخبہ کی اولاد ہو تم ہم اہلبیت کے لئے منتخب ہوئے ہو، عربوں کے ساتھ تم نے جنگیں کیں سختیوں کو برداشت کیا، قبائل سے لڑے ہو، بہادروں سے پنجہ آزمائی کی ہے جب ہم اٹھ کھڑے ہوتے تھے تم بھی اٹھ کھڑے ہوتے تھے ہم حکم دیتے تھے تم اطاعت کرتے تھے اسلام نے رونق پائی اور غنائم زیادہ ہوئے اور مشرکین تسلیم ہوگئے اور ان کا جھوٹا وقار اور جوش ختم ہوگیا اور دین کا نظام مستحکم ہوگیا_

اے انصار متحیر ہوکر کہاں جارہے ہو؟ حقائق کے معلوم ہو جانے کے بعد انہیں کیوں چھپانے ہو؟ کیوں ایمان لے آنے کے بعد مشرک ہوئے ہو؟ برا حال ہو ان لوگوں کا جنہوں نے اپنے ایمان اور عہد اور پیمان کو توڑا ڈالا ہو اور ارادہ کیا ہو کہ رسول خدا(ص) کو شہر _ بدر کریں اور ان سے جنگ کا آغاز کریں کیا منافقین سے ڈرتے ہو؟ حالانکہ تمہیں تو صرف خدا سے ڈرنا چاہیئے تھا_ لوگو میں گویا دیکھ رہی کہ تم پستی کی طرف جارہے ہو، اس آدمی کو جو حکومت کرنے کا اہل ہے اسے دور ہٹا رہے ہو اور تم گوشہ میں بیٹھ کر عیش اور نوش

۱۹۳

میں مشغول ہوگئے ہو زندگی اور جہاد کے وسیع میدان سے قرار کر کے راحت طلبی کے چھوٹے محیط میں چلے گئے ہو، جو کچھ تمہارے اندر تھا اسے تم نے ظاہر کردیا ہے اور جو کچھ پی چکے تھے اسے اگل دیا ہے لیکن آگاہ رہو اگر تم اور تمام روئے زمین کے لوگ کافر ہوجائیں تو خدا تمہارا محتاج نہیں ہے_

اے لوگو جو کچھ مجھے کہنا چاہیئے تھا میں نے کہہ دیا ہے حالانکہ میں جانتی ہوں کہ تم میری مدد نہیں کروگے_ تمہارے منصوبے مجھ سے مخفی نہیں، لیکن کیا کروں دل میں ایک درد تھا کہ جس کو میں نے بہت ناراحتی کے باوجود ظاہر کردیا ہے تا کہ تم پر حجت تمام ہوجائے_ اب فدک اور خلافت کو خوب مضبوطی سے پکڑے رکھو لیکن تمہیں یہ معلوم ہونا چاہیئے کہ اس میں مشکلات اور دشواریاں موجود ہیں اور اس کا ننگ و عار ہمیشہ کے لئے تمہارے دامن پہ باقی رہ جائے گا، اللہ تعالی کا خشم اور غصہ اس پر مزید ہوگا اور اس کی جزا جہنم کی آگ ہوگی اللہ تعالی تمہارے کردار سے آگاہ ہے، بہت جلد ستم گار اپنے اعمال کے نتائج دیکھ لیں گے_ لوگو میں تمہارے اس نبی کی بیٹی ہوں کہ جو تمہیں اللہ کے عذاب سے ڈراتا تھا_ جو کچھ کرسکتے ہو اسے انجام دو ہم بھی تم سے انتقام لیں گے تم بھی انتظار کرو ہم بھی منتظر ہیں(۱) _

____________________

۱) احتجاج طبرسی، طبع نجف ۱۳۸۶ ھ ج ۱ ۱۳۱_۱۴۱ _ شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۱۱_ کتاب بلاغات النسائ، تالیف احمد بن طاہر، متولد ۲۰۴ ہجری ص ۱۲_ کشف الغمہ، ج ۲ ص ۱۰۶_

۱۹۴

خلیفہ کا ردّ عمل

حضرت زہرا (ع) نے اپنے آتشین بیان کو ہزاروں کے مجمع میں جناب ابوبکر کے سامنے کمال شجاعت سے بیان کیا اور اپنی مدلل اور مضبوط تقریر میں جناب ابوبکر سے فدک لینے کی وضاحت طلب کی اور ان کے ناجائز قبضے کو ظاہر کیا اور جو حقیقی خلیفہ تھے ان کے کمالات اور فضائل کو بیان فرمایا_

لوگ بہت سخت پریشان ہوئے اور اکثر لوگوں کے افکار جناب زہراء (ع) کے حق میں ہوگئے_ جناب ابوبکر بہت کشمکش__ _ میں گھر گئے تھے، اگر وہ عام لوگوں کے افکار کے مطابق فیصلہ دیں اور فدک جناب زہراء (ع) کو واپس لوٹا یں تو ان کے لئے دو مشکلیں تھیں_

ایک: انہوں نے سوچاگہ اگر حضرت زہراء (ع) اس معاملے میں کامیاب ہوگئیں اور ان کی بات تسلیم کرلی گئی تو ''انہیں اس کا ڈر ہوا کہ'' کل پھر آئیں گی اور خلافت اپنے شوہر کو دے دینے کا مطالبہ کریں گی اور پھر پر جوش تقریر سے اس کا آغاز کریں گے_

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں کہ میں نے علی بن فاروقی سے جو مدرسہ غربیہ بغداد کے استاد تھے عرض کی آیا جناب فاطمہ (ع) اپنے دعوے میں سچی تھیں یا نہ، انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود کہ جناب ابوبکر انہیں سچا جانتے تھے ان کو فدک واپس کیوں نہ کیا؟ استاد ہنسے اور ایک عمدہ جواب دیا اور کہا اگر اس دن فدک فاطمہ (ع) کو واپس کردیتے تو دوسرے دن وہ واپس آتیں اور خلافت کا اپنے شوہر کے لئے مطالبہ کردیتیں اور جناب ابوبکر

۱۹۵

کو خلافت کے مقام سے معزول قرار دے دیتیں کیونکہ جب پہلے سچی قرار پاگئیں تو اب ان کے لئے کوئی عذر پیش کرنا ممکن نہ رہتا(۱) _

دوسرے: اگر جناب ابوبکر جناب فاطمہ (ع) کی تصدیق کردیتے تو انہیں اپنی غلطی کا اعتراف کرنا پڑتا اس طرح سے خلافت کے آغاز میں ہی اعتراض کرنے والوں کا دروازہ کھل جاتا اور اس قسم کا خطرہ حکومت اور خلافت کے لئے قابل تحمل نہیں ہوا کرتا_

بہرحال جناب ابوبکر اس وقت ایسے نظر نہیں آرہے تھے کہ وہ اتنی جلدی میدان چھوڑ جائیں گے البتہ انہوں نے اس قسم کے واقعات کے رونما ہونے کی پہلے سے پیشین گوئی کر رکھی تھی آپ نے سوچا اس وقت جب کہ موجودہ حالات میں ملت کے عمومی افکار کو جناب زہراء (ع) نے اپنی تقری سے مسخر کرلیا ہے یہ مصلحت نہیں کہ اس کے ساتھ سختی سے پیش آیا جائے لیکن اس کے باوجود اس کا جواب دیا جانا چاہیئے اور عمومی افکار کو ٹھنڈا کیا جائے، بس کتنا___ اچھا ہے کہ وہی سابقہ پروگرام دھرایا جائے اور عوام کو غفلت میں رکھا جائے اور دین اور قوانین کے اجراء کے نام سے جناب فاطمہ (ع) کو چپ کرایا جائے اور اپنی تقصیر کو ثابت کیا جائے، جناب ابوبکر نے سوچا کہ دین کی حمایت اور ظاہری دین سے دلسوزی کے اظہار سے لوگوں کے دلوں کو مسخر کیا جاسکتا ہے اور اس کے ذریعے ہر چیز کو یہاں تک کہ خود دین کو بھی نظرانداز کرایا جاسکتا ہے_ جی ہاں دین سے ہمدردی کے مظاہرے سے دین کے ساتھ دنیا میں مقابلہ کیا جاتا ہے_

____________________

۱) شرح ابن ابی الحدید، ج ۱۶ ص ۲۸۴_

۱۹۶

جناب ابوبکر کا جواب

رسول اللہ (ص) کی بیٹی کے قوی اور منطقی اور مدلل دلائل کے مقابلے میں جناب ابوبکر نے ایک خاص رویہ اختیار کیا اور کہا کہ اے رسول خدا(ص) کی دختر آپ کے باپ مومنین پر مہربان اور رحیم اور بلاشک محمّد(ص) آپ کے باپ ہیں اور کسی عورت کے باپ نہیں اور آپ کے شوہر کے بھائی ہیں اور علی (ع) کو تمام لوگوں پر ترجیح دیا کرتے تھے، جو شخص آپ کو دوست رکھے گا وہی نجات پائے گا اور جو شخص آپ سے دشمنی کرے گا وہ خسارے میں رہے گا، آپ پیغمبر(ص) کی عترت ہیں، آپ نے ہمیں خیر و صلاح اور بہشت کی طرف ہدایت کی ہے، اے عورتوں میں سے بہترین عورت اور بہتر پیغمبر(ص) کی دختر، آپ کی عظمت اور آپ کی صداقت اور فضیلت اور عقل کسی پر مخفی نہیں ہے_ کسی کو حق نہیں پہنچتا کہ وہ آپ کو آپ کے حق سے محروم کرے، لیکن خدا کی قسم میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے فرمان سے تجاوز نہیں کرتا جو کام بھی انجام دیتا ہوں آپ کے والد کی اجازت سے انجام دیتا ہوں قافلہ کا سردار تو قافلے سے جھوٹ نہیں بولتا خدا کی قسم میں نے آپ کے والد سے سنا ہے کہ فرما رہے تھے کہ ہم پیغمبر(ص) سوائے علم و دانش اور نبوت کے گھر اور جائیدار و وراثت میں نہیں چھوڑتے جو مال ہمارا باقی رہ جائے وہ مسلمانوں کے خلیفہ کے اختیار میں ہوگا، میں فدک کی آمدنی سے اسلحہ خریدتا ہوں اور کفار سے جنگ کرونگا، مبادا آپ کو خیال ہو کہ میں نے تنہا فدک پر قبضہ کیا ہے بلکہ اس اقدام میں تمام مسلمان میرے

۱۹۷

موافق اور شریک ہیں، البتہ میرا ذاتی مال آپ کے اختیار میں ہے جتنا چاہیں لے لیں مجھے کوئی اعتراض نہیں، کیا یہ ہوسکتا ہے کہ میں آپ کے والد کے دستورات کی مخالفت کروں؟

جناب فاطمہ (ع) کاجواب

جناب فاطمہ (ع) نے جناب ابوبکر کی اس تقریر کا جواب دیا_ سبحان اللہ، میرے باپ قرآن مجید سے روگردانی نہیں کرسکتے اور اسلام کے احکام کی مخالفت نہیں کرتے کیا تم نے اجماع کرلیا ہے کہ خلاف واقع عمل کرو اور پھر اسے میرے باپ کی طرف نسبت دو؟ تمہارا یہ کام اس کام سے ملتا جلتا ہے جو تم نے میرے والد کی زندگی میں انجام دیا_ کیا خدا نے جناب زکریا کا قول قرآن میں نقل نہیں کیا جو خدا سے عرض کر رہے تھے،

فهب لی یرثنی و یرث من آل یعقوب (۱) _

خدایا مجھے ایسا فرزند دے جو میرا وارث ہو اور آل یعقوب کا وارث ہو_ کیا قرآن میں یہ نہیں ہے_

ورث سلیمان داؤد (۲) _

سلیمان داؤد کے وارث ہوئے_ کیا قرآن میں وراثت کے احکام موجود نہیں ہیں؟ کیوں نہیں، یہ تمام مطالب قرآن میں موجود ہیں اور تمہیں بھی اس

____________________

۱) سورہ مریم آیت۶_

۲) سورہ نمل آیت ۱۶_

۱۹۸

کی اطلاع ہے لیکن تمہارا ارادہ عمل نہ کرنے کا ہے اور میرے لئے بھی سواے صبر کے اور کوئی چارہ نہیں_

جناب ابوبکر نے اس کا جواب دیا کہ خدا رسول (ص) اور تم سچ کہتی ہو، لیکن یہ تمام مسلمان میرے اور اپ کے درمیان فیصلہ کریں گے کیونکہ انہوں نے مجھے خلافت کی کرسی پر بٹھایا ہے اور میں نے ان کی رائے پر فدک لیا ہے(۱) _

جناب ابوبکر نے ظاہرسازی اور عوام کو خوش کرنے والی تقریر کر کے ایک حد تک عوام کے احساسات اور افکار کو ٹھنڈا کردیا اور عمومی افکار کو اپنی طررف متوجہ کرلیا_

جناب خلیفہ کا ردّ عمل

مجلس در ہم برہم ہوگئی لیکن پھر بھی اس مطلب کی سر و صدا خاموش نہ ہوئی اور اصحاب کے درمیان جناب زہراء (ع) کی تقریر کے موضوع پر گفتگو شروع ہوگئی اور اس حد تک یہ مطلب موضوع بحث ہوگیا کہ جناب ابوبکر مجبور ہوگئے کہ ملت سے تہدید اور تطمیع سے پیش آئیں_

لکھا ہے کہ جناب زہراء (ع) کی تقریر نے مدینہ کو جو سلطنت اسلامی کا دارالخلافة تک منقلب کردیا_ لوگوں کے اعتراض اور گریہ و بکا کی آوازیں بلند ہوئیں لوگ اتنا روئے کہ اس سے پہلے اتنا کبھی نہ روئے تھے_

____________________

۱) احتجاج طبرسی، ج ۱ ص ۱۴۱_

۱۹۹

جناب ابوبکر نے جناب عمر سے کہا تم نے فدک فاطمہ (ع) کو دے دینے سے مجھے کیوں روکا اور مجھے اس قسم کی مشکل میں ڈال دیا؟ اب بھی اچھا ہے کہ ہم فدک کو واپس کردیں اور اپنے آپ کو پریشانی میں نہ ڈالیں_

جناب عمر نے جواب دیا _ فدک کے واپس کردینے میں مصلحت نہیں اور یہ تم جان لو کہ میں تیرا خیرخواہ اور ہمدرد ہوں_ جناب ابوبکر نے کہا کہ لوگوں کے احساسات جو ابھرچکے ہیں ان سے کیسے نپٹا جائے انہوں نے جواب دیا کہ یہ احساسات وقتی اور عارضی ہیں اور یہ بادل کے ٹکڑے کے مانند ہیں_ تم نماز پڑھو، زکوة دو، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو، مسلمانوں کے بیت المال میں اضافہ کرو اور صلہ رحمی بجالاؤ تا کہ خدا تیرے گناہوں کو معاف کردے، اس واسطے کہ خدا قرآن میں فرماتا ہے، نیکیاں برائیوں کو ختم کردیتی ہیں_ حضرت ابوبکر نے اپنا ہاتھ جناب عمر کے کندھے پر رکھا اور کہا شاباش تم نے کتنی مشکل کو حل کردیا ہے_

اس کے بعد انہوں نے لوگوں کو مسجد میں بلایا اور ممبر پر جاکر اللہ تعالی کی حمد و ثنا کے بعد کہا، لوگو یہ آوازیں اور کام کیا ہیں ہر کہنے والا آرزو رکھتا ہے، یہ خواہشیں رسول(ص) کے زمانے میں کب تھیں؟ جس نے سنا ہو کہے اس طرح نہیں ہے بلکہ یہ اس کا مطالبہ اس لومڑی جیسے ہے کہ جس کی گواہ اس کی دم تھی_

اگر میں کہنا چاہوں تو کہہ سکتا ہوں اور اگر کہوں تو بہت اسرار واضح کردوں، لیکن جب تک انہیں مجھ سے کوئی کام نہیں میں ساکت رہوں گا، اب لڑی سے مدد لے رہے ہیں اور عورتوں کو ابھار رہے ہیں_

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296