منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)0%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی (گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 114872
ڈاؤنلوڈ: 4327

تبصرے:

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114872 / ڈاؤنلوڈ: 4327
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

اس سے قریش کو شکست ہوئی اور جب جنگ کے بعد مشرکین کی لاشوں کو بدر کے کنویں میں ڈال دیا گیا تو رسول(ص) اس پر کھڑے ہوئے اور ان میں سے ایک ایک کا نام لیکر فرمایا:'' هل وجدتم ماوعدکم ربکم حقاً؟ فانی وجدت ما وعدن رب حقاً'' ۔

کیا تم نے اس چیز کو بر حق پایا جس کا تمہارے رب نے تم سے وعدہ کیا تھا؟ میں نے تو اس چیز کو بر حق پایا ہے جس کا میرے رب نے مجھ سے وعدہ کیا تھا۔ بعض مسلمانوں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! آپ(ص) ان لوگوں کو آواز دے رہے ہیں جو مر چکے ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: یہ ایسے ہی سن رہے ہیں جیسے تم سنتے ہو لیکن انہیں جواب سے روک دیا گیا ہے ۔( ۱ )

جنگ کے نتائج

جنگ بدر کے عظیم نتائج سامنے آئے مشرکین ذلت و نقصان اٹھا کر مکہ کی طرف فرار کر گئے۔ ان کے ستر آدمی قتل ہوئے ستر قید ہوئے اور بہت سا مال مسلمانوں کو غنیمت میں ملا، غنیمت تقسیم کرنے کے سلسلہ میں فتح یاب مسلمانوں کے درمیان اختلاف ہو ا تو رسول(ص) نے سارے مال کو جمع کرنے کا حکم دیا تاکہ اس کے بارے میں آپ(ص) غور کریں۔ سورۂ انفال میں مال غنیمت اور خمس کے احکام کے سلسلہ میں حکم خدا نازل ہوا پس رسول(ص) نے ہر غازی کو مساوی طور پر حصہ دیا۔( ۲ )

اسیروں کے بارے میں آپ(ص) نے یہ اعلان کیاکہ اسیروں میں جو بھی مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھائے گا وہ اس کا فدیہ قرار پائے گا اس طرح اسلامی عقیدہ کی بلندی ، علم حاصل کرنے کے سلسلہ میں اس کی ترغیب اور انسان کو مہذب بنانے کا اظہار بھی ہو گیا۔ باقی اسیروں میں سے ہر ایک کی آزادی کے لئے چار ہزار درہم کا فدیہ مقرر کیا اس حکم میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو رسول(ص) سے کسی طرح کی قرابت رکھتے تھے۔ چنانچہ جب زینب-ربیبہ رسول(ص)-نے اپنے شوہر ابو العاص کے فدیہ کے لئے اپنا گلو بند بھیجا تو رسول(ص)

____________________

۱۔اعلام الوریٰ ج۱ ص ۱۷۱، سیرت نبویہ ج۱ ص ۶۳۸۔

۲۔ مغازی ج۱ ص ۱۰۷، سیرت نبویہ ج۱ ص ۶۴۲۔

۱۴۱

نے اس گلوبند کو دیکھا اور اپنی زوجہ خدیجہ کو یاد کرکے رونے لگے پھر مسلمانوں کو مخاطب کر کے فرمایا: ''اگر مناسب سمجھو تو اس کے قیدی کو رہا کر دو اور اس کا یہ مال واپس کر دو، مسلمانوں نے ایسا ہی کیا''( ۱ )

نبیِ رحمت کی اس خواہش کو پورا کرنا مسلمانوں کے لئے کتنا آسان تھا ابو العاص دوڑتا ہوا مدینہ پہنچا تاکہ زینب کو مدینہ بھیجے کیونکہ اس نے رسول(ص) سے وعدہ کیا تھا۔ اس کھلی فتح کی خوشخبری مدینہ پہنچی تو یہودیوں اورمنافقین کے دل خوف سے دہلنے لگے انہوں نے اس خبر کو جھٹلانے کی کوشش کی حالانکہ اس وقت مسلمان فرحت و مسرت سے جھوم رہے تھے اور فتحیاب قائد، اللہ کے رسول(ص) کے استقبال کیلئے، نکل پڑے تھے۔

اہل مکہ پر غم و الم کی گھٹا چھا گئی پوری فضا میں سوگ کی کیفیت طاری تھی ، مشرکین غم و الم سے چلا رہے تھے، مکہ کے گھروںمیں کہرام بپا تھا۔ اس جنگ کے بارے میں قرآن کی آیتیں صریح نص کی حیثیت رکھتی ہیں، یہ آیتیں اور اس جنگ کے واقعات کی تفصیل اورامت مسلمہ کے لئے خدائی امداد کو بیان کرتی ہیں یہ امت نشر و تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں اپنے رب کی مخلص تھی( ۲ ) ۔ حضرت علی ابن ابی طالب نے اس جنگ میںدفاع کے لئے سر فروشانہ کردار ادا کیا۔ اپنے مد مقابل ولید بن عتبہ کو قتل کیا پھر اپنے چچا جناب حمزہ اور عبیدہ بن حارث کے مد مقابل شیبہ و عتبہ کے قتل میں ان کی مدد کی۔ شیخ مفید کی روایت کے مطابق اس جنگ میں حضرت علی نے چھتیس ۳۶ آدمیوں کو قتل کیا تھا( ۳ ) اور باقی کے قتل میں بھی آپ شریک تھے؛ ابن اسحاق کہتے ہیں: جنگِ بدر میں اکثر مشرکین علی کے ہاتھوں سے قتل ہوئے تھے۔( ۴ ) اس شکست کی وجہ سے قریش مجبور ہوئے کہ وہ اپنی تجارت کا راستہ بدلیں اور شام سے عراق کی طرف جائیں کیونکہ مسلمانوں کی طاقت بڑھ گئی تھی جزیرةالعرب کے معاشرہ کی تشکیل پر اس کا اثر ضروری تھا جو بالتدریج

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۶۵۲ بحار ج۱۹ ص ۳۴۸۔

۲۔ انفال ۹،۱۱،۱۲،۴۲،۴۴، ال عمران ۱۳، ۱۲۳،۱۲۷۔

۳۔ ارشاد مفید ۳۹و ۴۰۔

۴۔ مناقب ج۳ ص ۱۲۰۔

۱۴۲

ظاہر ہو رہا تھا ، قبیلوں کے درمیان سے قریش کی ہیبت کم ہو رہی تھی اور رسول(ص) سے مسلمانوں کے تعلقات میں پختگی آ رہی تھی۔

۲۔ فاطمہ زہرا کی شادی

قلبِ رسول(ص) میں فاطمہ زہرا کی بڑی قدر و منزلت تھی کیونکہ آپ(ص) کو ان سے تسلی ملتی تھی پھر وہ جناب خدیجہ کی تنہا یاد گار تھیں، رسالت کے امور ،اس سلسلہ کے رنج و غم میں فاطمہ (ص) آپ(ص) کی شریک تھیںوہ آپ(ص) کے اکثر بوجھ کوہلکا کر دیتی تھیں اسی لئے آپ(ص) نے فرمایا تھا:''انها ام ابیها...''

جب فاطمہ (ص) زہرا خانۂ نبوت میں مرحلۂ بلوغ کو پہنچیں نبوت و رسالت کے سایہ میں پروان چڑھیں تو قریش میں سے صاحب فضل و شرف ، مال داراور اسلام میں سبقت رکھنے والوں کی طرف سے ان کے پیغام آئے لیکن نبی (ص) نے بحسن و خوبی ان کو یہ کہہ کر رد کر دیاکہ اس کے بارے میں خدا کے فیصلہ کا منتظر ہوں یا فرماتے تھے کہ آسمانی حکم کا انتظار ہے۔( ۱ )

جب علی بن ابی طالب نے فاطمہ کا پیغام دیا تو رسول(ص) خوش ہو گئے اور فرمایا:

''ابشّرک یا علی فان اللّٰه عزّ و جلّ قد زوجّکها فی السّماء من قبل ان ازوجکها فی الارض، و قد هبط علّ من قبل ان تاتینی ملک من السماء فقال: یا محمّد ان اللّه - عزّ وجلّ-اطلع الیٰ الارض اطلاعة فاختارک من خلقه فبعثک برسالته، ثم اطّلع الیٰ الارض ثانیة فاختار لک منها اخاً وزیراً و صاحباً و ختناً فزوّجه ابنتک فاطمة، و قد احتفلت بذلک ملائکة السّمائ یا محمّد ان اللّه - عز و جل-امرنی ان آمرک ان تزوج علیاً ف الارض فاطمة، و تبشرهما بغلامین زکیین نجیبین طاهرین خیرین فاضلین فی الدنیا و الآخرة'' ( ۲ )

____________________

۱۔حیات النبی و سیرتہ ج ۱ص۳۰۹۔

۲۔کشف الغمة: ج۱ص۳۵۶-۳۵۸۔

۱۴۳

اے علی !میں تمہیں خوشخبری دیتا ہوں کہ خدا نے اس کے ساتھ تمہارا نکاح آسمان پر اس سے پہلے کردیا تھا کہ میں زمین پر اس کے ساتھ تمہارا نکاح کروں، تمہارے آنے سے پہلے مجھ پر آسمان سے ایک فرشتہ نازل ہوا اور اس نے کہا: اے محمد(ص)! خدا نے زمین کو دیکھا اور اپنی مخلوق میں سے آپ(ص) کو منتخب کیا اور آپ(ص) کو اپنا رسول(ص) مقرر کیا۔ پھر دوبارہ زمین پر نظر ڈالی تو آپ کے بھائی، وزیر، جا نشین اور داماد کو منتخب کیا پس تم اپنی بیٹی فاطمہ کو ان کی زوجیت میں دیدو، اس موقعہ پر آسمان کے فرشتوں نے جشن مسرت منایا ۔ اے محمد(ص)! بیشک مجھے خدا نے یہ حکم دیا ہے کہ میں آپ تک یہ پیغام پہنچا دوں کہ آپ زمین پر علی کا نکاح فاطمہ سے کر دیں۔ اور ان دونوں کودو بیٹوں کی بشارت دے دیں جو دنیا و آخرت میں زکی، نجیب، طاہر، خیر اورصاحب فضل وشرف ہوںگے۔

مہاجرین و انصار کے مجمع میںآپ(ص) نے عقد نکاح پڑھا، مختصر سا مہر لیا تاکہ امت کے لئے سنت قرارپائے اور وہ اس کا اتباع کریں۔ جناب فاطمہ زہرا کا جہیز رسول(ص) کے سامنے رکھا گیا، جس میں زیادہ برتن مٹی کے تھے، تو آپ(ص) کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے آپ نے فرمایا:''الّلهمّ بارِکْ لاهل بیت جُلَّ آنیتهم من الخزف'' ۔( ۱ )

اے اللہ! ان گھر والوں کو برکت عطا کر کہ جن کے مختصر برتن مٹی کے ہیں۔ رسول(ص) نے اپنی بیٹی کی شادی کے ہر کام کو بہت زیادہ اہمیت دی جیسا کہ اس دعا سے معلوم ہوتا ہے جو آپ(ص) نے دولہا و دلہن کے حق میں ان کے زفاف کے دن کی تھی :''اللّهمّ اجمع شملهما و الّف بین قلبیهما و اجعلهما و ذریتهما من ورثة جنة النعیم و ارزقهما ذریة طاهرة طیبة مبارکة و اجعل فی ذریتهما البرکة و اجعلهم ائمة یهدون بامرک الیٰ طاعتک و یامرون بما رضیت''

اے اللہ ان کے بکھرے ہوئے کاموںکومجتمع کر ان دونوں کے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دے اور ان کی ذریت کو جنت نعیم کا وارث قرار دے اور انہیں طیب و طاہر اور مبارک ذریت عطا کر، ان کی

____________________

۱۔کشف الغمہ ج۱ ص ۳۵۹۔

۱۴۴

ذریت میں برکت عطا کر اور انہیں ائمہ قرار دے جو تیرے حکم سے تیری اطاعت کی طرف ہدایت کریں اور اس چیز کا حکم دیں جس سے تو خوش ہو۔

نیز یہ دعا کی :''یا ربِّ انک لم تبعث نبیاً الا و قد جعلت له عترة اللّهم فاجعل عترت الهادیة من علی و فاطمة''

پروردگار! تونے کوئی نبی(ص) نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس کے لئے عترت قرار دیا ، میری عترت کو علی و فاطمہ (ص) کی نسل سے قرار دے اس کے بعد فرمایا:''طهر کما اللّٰه و نسلکما انا سلم لمن سالمکما و حرب لمن حاربکما ۔( ۱ )

خدا تم دونوںکو اور تمہاری نسل کو پاک رکھے۔ میں اس سے صلح کرونگاجس نے تم سے صلح کی اور اس سے جنگ کرونگا جس نے تم سے جنگ کی۔

۳۔یہود اور بنی قینقاع سے ٹکرائو

مدینہ میں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے یہودی اپنے تئیں خطرہ محسوس کر رہے تھے، نیا نظام مضبوط و مستحکم ہو گیا۔امت مسلمہ اتنی طاقت بن گئی کہ حکومت کی زمام سنبھال سکتی ہے۔ بدر سے پہلے کا معاہدۂ صلح و امان کاضامن تھا جس کے سبب ٹکرائو اور تنائو نہیں ہوتا تھا لیکن مسلمانوں کی فتح کی وجہ سے یہودیوں کے دلوں میں دشمنی اور شر پیدا ہو گیا اور انہوں نے منافقانہ چال چلنا شروع کر دی، وہ مسلمانوں کی مذمت اور ان کے خلاف سازش کے جال بننے لگے اور نئے مذہب و نئی حکومت والے مسلمانوں کے خلاف غلط پروپیگنڈہ کرنے لگے۔

ان کی خبریں رسول(ص) سے مخفی نہیں تھیں۔ دوسری طرف مسلمانوں کے دلوں میں رسول(ص) اور اسلام کے دفاع کا جذبہ موجزن تھا چنانچہ جب سالم بن عمیر نے- جو کہ ایک فدائی مسلمان تھے-بنی عوف کے مشرک ابو عفک

____________________

۱۔کشف الغمہ ج۱ ص ۳۶۲، مناقب ال ابی طالب ج۳ ص ۳۵۵۔

۱۴۵

کی زبان سے رسول(ص) کی برائی سنی تو وہ اپنے اوپر قابو نہ رکھ سکے اور اسے قتل کر دیا۔( ۱ ) پھر ایسا ہی ایک واقعہ کینہ توز مشرکہ عورت عصماء بنت مروان کے ساتھ ہوا( ۲ ) اسی طرح مسلمانوں نے کعب بن اشرف کا قصہ بھی تمام کر دیا جو مسلمانوں کا مذاق اڑاتا تھااور ان کی قوانین کی بے عزتی کرتا تھا۔( ۳ ) یہودی باطل کی نشر و اشاعت ، جھوٹے پروپیگنڈے، مسلمانوں کی اہانت اور لوگوں کو مسلمانوں کے خلاف بھڑکانے سے باز نہیں آئے اس طرح انہوں نے رسول(ص) کے ساتھ کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا رسول(ص) نے چاہا کہ ان سے نجات حاصل کی جائے چنانچہ آپ(ص) بنی قینقاع کے پاس گئے انہیں نصیحت کی اور انہیںسازشوں سے باز رکھنے کی کوشش کی۔ وہ اپنے بازار میں جمع تھے اس وقت رسول(ص) نے ان سے فرمایا:

''یا معشر الیهود احذروا! من اللّٰه مثل ما نزل بقریش من النقمة، و اسلموا فانّکم قد عرفتم انی رسول اللّه تجدون ذلک فی کتابکم و عهد اللّه الیکم'' ۔

اے یہودیو!خدا سے ڈرو! کہیں تم پر قریش جیسی مصیبت نازل نہ ہو جائے، اسلام قبول کر لو۔ تم جانتے ہو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں یہ بات تم اپنی کتابوں میں دیکھتے ہو اور خدا نے تم سے اس کا عہد لیا ہے ۔

لیکن ان کا تکبر اور ان کی سرکشی بڑھتی ہی گئی کہنے لگے: اے محمد! قریش پر فتحیابی آپ کو دھوکہ نہ دے کیونکہ جس قوم پر آپ نے فتح پائی ہے وہ جاہل اور بے تجربہ تھی۔ خدا کی قسم! ہم فن حرب و ضرب سے واقف ہیںاگر آپ ہم سے جنگ کریں گے تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ ہم جیسے لوگوں سے آپ کا پالا نہیں پڑا ہے۔( ۴ )

یہودیوں کی رذالت اس وقت اور واضح ہو گئی جب انہوں نے ایک مسلمان عورت کے ساتھ ناروا سلوک کیا اور اس کی بے حرمتی کی یہ بات اتنی بڑھی کہ ایک مسلمان اور یہودی مارا گیا۔ نتیجہ میں رسول(ص) مسلمانوں کے

____________________

۱۔ مغازی ج۱ ص ۱۷۴۔

۲۔ ایضاً ص ۱۷۲۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۵۱۔

۴۔ مغازی ج۱ س ۱۷۶۔

۱۴۶

ساتھ نکلے اور ۱۵ دن تک ان کے گھروں کا محاصرہ کئے رہے ۔ اس مدت میں نہ ان میں سے کوئی نکلا اور نہ کوئی ان کے پاس گیا آخر کار وہ سب رسول(ص) کے حکم کے سامنے جھک گئے اور مال و اسلحہ چھوڑ کر مدینہ سے چلے گئے اس طرح مدینہ شرپسندعناصر سے پاک ہو گیا اور شہر میں سیاسی امن و امان قائم ہو گیااسی کے ساتھ وہاں سے غیر مسلموں کا رسوخ ختم ہو گیا، کیونکہ وہ مسلمانوں کی طاقت، ان کے ادارتی نظم و نسق، ترقی اوراس اسلامی حکومت کے استقلال کو اچھی طرح سمجھ چکے تھے جو کہ ایک حکیم و دانا کے دستورکے مطابق چل رہی تھی۔

۴۔ مسلمانوں کی فتح کے بعد قریش کا رد عمل

ابو سفیان نے قریش کے کچھ بہادروں کو جمع کیا اور انہیں مدینہ کی طرف لے گیا، ان کی غلط خواہشیں انہیں مسلمانوں سے جنگ اور قریش کی عظمت کو واپس لوٹانے پر اکسارہی تھیں جو کہ بدر میں ہاتھ سے چلی گئی تھی۔ مدینہ کے قریب انہیں زمین پر فساد برپا کیا اور پھر اس خوف سے بھاگ کھڑے ہوئے کہ کہیں مسلمانوں کی تلواریں نہ ٹوٹ پڑیں۔

نبی(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ مشرکین کا تعاقب کیا انہیں ان کے دین کی محبت ایسا کرنے پر مجبور کر رہی تھی تاکہ یہ ثابت ہو جائے کہ وہ نئی حکومت کے اقتدار کا دفاع اور بد خواہوں سے اس کی حفاظت کرتے ہیں...۔

مشرکین نے فرار کرنے میں ہر چیز سے مدد لی یہاں تک کہ انہوں نے اپنے بوجھ (سویق) کو بھی پھینک دیا جو ان کے کھانے کے کام آ سکتا تھا وہ ستو مسلمانوں کے ہاتھ آیا اسی لئے اس غزوہ کو غزوہ سویق کہا جاتا ہے۔ قریش نے ایک مرتبہ پھر رسوائی و ذلت کا منہ دیکھا اور جن قبیلوں تک اس واقعہ کی خبرپہنچی ان پر یہ بات ثابت ہو گئی کہ اسلام کی طاقت ایک منظم طاقت ہے اور اب ایک ناقابل انکار حقیقت ہے ۔ اس مرحلہ پر رسول(ص) کے لئے اہم کام یہ تھا کہ مدینہ میں مسلمان معاشرہ کے لئے امن و امان فراہم کریںاور ہر ممکنہ خطرہ کا سد باب کریں۔ بعض قبیلے اسلام قبول کرنے پر تیار نہیں تھے

۱۴۷

اور اسلام کے دشمن تھے ابھی ان کی اس بات کی طرف ہدایت نہیں ہوئی تھی کہ وہ رسول(ص) کے ساتھ مناسب طریقہ سے پیش آئیں۔ وہ مدینہ پر حملہ کرنے کی سازش کیا کرتے تھے اور جب نبی(ص) ان سے مقابلہ کے لئے نکلتے تھے تووہ بھاگ جاتے تھے۔

ایک فوجی دستہ جناب زید بن حارثہ کی قیادت میں روانہ ہوا رسول خدا(ص) نے ان سے یہ فرمایا کہ تم قریش کے اس راستہ کو روکو جس سے وہ عراق ہوتے ہوئے تجارت کے لئے جاتے ہیں۔ یہ دستہ اپنے مشن میں کامیاب ہوا۔

۵۔ جنگ احد( ۱ )

جنگ بدر کے بعد کا زمانہ قریش اور مشرکین کے لئے بہت سخت تھا۔ ادھر مدینہ میں رسول(ص) انسانی اصلاحات اور حکومت بنانے کی کوششوں میں منہمک تھے، اس سلسلہ میں مسلسل قرآن کی آیتیں نازل ہو رہی تھیں جو انسان کے چال چلن اور اس کی زندگی کے قانون کی حیثیت رکھتی تھیں، رسول(ص) ان قوانین کی وضاحت کرتے، احکام نافذ کرتے اور خدا کی اطاعت کی طرف ہدایت کرتے تھے۔

مشرکین مکہ اور ان کے طرف داروں کی نظروں میں اسلام کے خلاف جنگ چھیڑنے کے بہت سے اسباب تھے۔ وہ اپنے دامن سے بدر کی شکست کا دھبہ چھڑانے اور اپنے حسد کی آگ بجھانا چاہتے تھے اموی خاندان کے سردار اور بدر میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانے والے ابو سفیان نے انہیں بھڑکا رکھا تھا۔ دوسری طرف ان تاجروں کی طمع تھی کہ جن کی تجارت کے لئے کوئی محفوظ راستہ نہیں بچا تھا اس کے علاوہ جنگ کے دوسرے اسباب بھی تھے۔

یہ جنگ مسلمانوں کو کمزور کرنے اور تجارت کے لئے شام جانے والے راستہ کی حفاظت کی خاطر ایک کوشش تھی اصل چیز مکہ کو تسلط سے بچانا اور شرک کی نگہبانی کرنا تھی اس کے علاوہ مدینہ میں قریش کے پٹھو اوریہودیوں کی ریشہ دوانیاں بھی جنگ کو بھڑکانے کا سبب تھیں تاکہ مدینہ کو تاراج اور اسلام کو نیست و نابود کر دیا جائے۔

____________________

۱۔ جنگ احد ماہ شوال ۲ھ میں ہوئی۔

۱۴۸

مکہ سے عباس بن عبد المطلب نے جناب رسول(ص) خدا کو یہ خبر دی کہ قریش جنگ کی تیاری اور اسلحہ و فوج کی جمع آ وری میں مشغول ہیں ان کے ساتھ دوسرے قبائل بھی ہیں انہوں نے جنگ کی آگ بھڑکانے اور لوگوں کو قتال پر آمادہ کرنے کے لئے متعدد طریقے اختیار کئے ہیں چنانچہ ان کے ساتھ عورتیں بھی ہونگی۔

یہ خط خفیہ طریقہ سے رسول(ص) کے پاس پہنچ گیا لیکن رسول(ص) نے اس خبر سے مسلمانوں کو اس وقت تک مطلع نہیں کیا جب تک صحیح صورت حال معلوم نہیں ہوئی اور جنگ کے لئے ضروری تیاری نہیں ہوگئی۔

افواج شرک جب مدینہ کے قریب پہنچ گئیں تو رسول(ص) نے حباب بن منذر کو بھیجا تاکہ دشمن کے بارے میں اطلاع فراہم کریں- اس سے قبل آپ بنی فضالہ کے دو اشخاص ، انس و مونس کو بھیج چکے تھے-ان لوگوں نے جو خبر دی اور مشرکین کی فوجوں کے جو حالات بیان کئے وہ عباس کے خط کے مطابق تھے چنانچہ جن لوگوںنے رسول(ص)کو اس صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا ان میں سے کچھ مسلمانوںنے مشرکین کے شب خون مارنے کے خوف سے پہرہ دیا۔

رسول(ص) نے ، یہ اعلان کرنے کے بعد کہ قریش جنگ کرنے آئے ہیں، اپنے اصحاب سے مشورہ کیا تو ان کی مختلف رائیں سامنے آئیں بعض نے کہا کہ اہل ِمدینہ اپنے گھروں ہی میں رہیں ، بعض نے کہا: مدینہ سے باہر نکل کر دشمن کا مقابلہ کیا جائے، رسول(ص) کے لئے یہ کام دشوار نہیں تھا کہ آپ (ص) پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیں ،لیکن آپ یہ چاہتے تھے کہ مسلمانوں کو ان کی ذمہ داری سے آگاہ کر دیں۔ پھر اس بات پر اتفاق ہو گیا کہ دشمن کا مقابلہ مدینہ سے باہر نکل کر کیا جائے۔ رسول(ص) نے نماز جماعت پڑھائی۔ خطبہ دینے کے لئے منبر پر تشریف لے گئے اور ہتھیار لگا کر بر آمد ہوئے اس سے آپ کی امت کو شدید جھٹکا لگا ۔ انہوں نے یہ گمان کیا کہ وہ رسول(ص) کو مدینہ سے باہر نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ لہذا عرض کی: ہم آپ کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں جو آپ بہتر سمجھیں انجام دیں رسول(ص)نے فرمایا:ما ینبغی لنبی اذا لبس لا مته ان یضعها حتی یقاتل ( ۱ ) کسی بھی نبی(ص) کی شان یہ نہیں ہے کہ وہ ہتھیار لگانے کے بعد جنگ سے پہلے ہتھیارر کھدے۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۳، مغازی ج۱ ص ۲۱۴۔

۱۴۹

رسول(ص) ایک ہزار مسلمان سپاہیوں کے ساتھ جنگ کے لئے نکلے اور مشرکین کے خلاف یہودیوں کی مدد لینے سے انکار کر دیا ، فرمایا:

''لا تستنصروا باهل الشرک علیٰ اهل الشرک'' ۔( ۱ )

مشرکوں سے مشرکوں کے خلاف مدد نہ لو۔

اس موقعہ پر منافقین اپنا کینہ و عداوت چھپا نہ سکے چنانچہ تین سو آدمیوں کے ساتھ عبد اللہ بن ابی رسول(ص) سے الگ ہو گیا اس طرح رسول(ص) کے ہمراہ سات سو آدمی باقی بچے جبکہ مشرکین کی تعداد تین ہزار سے زیادہ تھی۔( ۲ )

کوہِ احد کے پاس رسول(ص) نے ایک محکم منصوبہ تیار کیاتاکہ فتح یقینی ہو جائے، پھر آپ(ص) خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اورفرمایا:

''یا ایها الناس اوصیکم بما اوصانی اللّه فی کتابه من العمل بطاعته و التناهی عن محارمه ثم انکم الیوم بمنزل اجر و ذخر لمن ذکر الذی علیه ثم وطن نفسه علیٰ الصبر و الیقین و الجد و النشاط فان جهاد العدو شدید کریه، قلیل من یصبر علیه الا من عزّ اللّه رشده فان اللّه مع من اطاعه و ان الشیطان مع من عصاه، فافتحوا اعمالکم بالصبر علیٰ الجهاد و التمسوا بذالک ما وعدکم اللّه و علیکم بالّذی امرکم به فانی حریص علیٰ رشدکم فان الاختلاف و التنازع و التثبیط من امر العجز و الضعف مما لا یحب اللّه ولا یعطی علیه النصر ولا الظفر'' ۔

اے لوگو!میں تمہیں اسی چیز کی وصیت کرتا ہوں جس کی خدا نے مجھے اپنی کتاب میں وصیت کی ہے ، اس کی اطاعت کرو اور اس کی حرام کی ہوئی چیز سے باز رہو۔

دشمن کے ساتھ جہاد کرنا بہت دشوار ہے اس میں بہت کم لوگ ثابت قدم رہ پاتے ہیں، مگر یہ کہ خدا نے جس

____________________

۱۔ طبقات ابن سعد ج۲ ص ۳۹ ۔

۲۔ طبری ج۳ ص ۱۰۷۔

۱۵۰

کی ہدایت و رہنمائی کا عزم کر لیا ہے، بیشک خدا اس کے ساتھ ہے جو اس کی اطاعت کرتا ہے اور جو اس کی نافرمانی کرتا ہے اس پر شیطان سوار رہتا ہے پس تم اپنے اعمال کا دروازہ جہاد پر صبر کے ذریعہ کھولو اور اس کے ذریعہ اس چیز کو حاصل کرو جس کا خدا نے تم سے وعدہ کیا ہے، تم اسی چیز کو انجام دو جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے ۔ مجھے تمہاری ہدایت کی فکر ہے۔ بیشک اختلاف، نزاع، تفرقہ و پراگندگی، عجز و ضعف کی دلیل ہے جس کو خدا دوست نہیں رکھتا ہے اس کے ذریعہ فتح وظفر نہیں مل سکتی۔( ۱ )

مشرکوں نے جنگ کے لئے اپنی صفیں مرتب کیں، دیکھتے ہی دیکھتے گھمسان کا رن پڑا، لیکن تھوڑی دیر نہ گذری تھی کہ مشرکین کی فوجیں پیٹھ دکھا کر بھاگ گئیں، قریب تھا کہ ان کی عورتیں مسلمانوں کے ہاتھ اسیر ہو جائیں میدانِ معرکہ میں مسلمانوں کی فتح کے آثار نمایاں ہو گئے تھے کہ ان تیر اندازوں میں سے کہ جن کو رسول(ص) نے درّہ پر مقرر کیا تھا اور انہیں یہ حکم دیا تھاکہ تم اپنی جگہ سے اس وقت تک نہ ہٹنا جب تک تمہارے پاس میرا دوسرا حکم نہ پہنچ جائے، خواہ جنگ کا نتیجہ کچھ بھی ہو، بعض کے دل میں شیطان نے وسوسہ پیدا کر دیا چنانچہ انہوں نے اپنی جگہ کو چھوڑ دیا اور مال غنیمت کے پیچھے دوڑ پڑے ، نتیجہ میں خالد بن ولید کی سر کر دگی میں مشرکین کی فوجیں اسی درّے سے لوٹ آئیں جس کو چھوڑ نے سے رسول(ص) نے منع کیا تھا۔

اس سے مسلمانوں کے اوسان خطا ہو گئے، ان میں بھگدڑ مچ گئی اور شکست خوردہ قریش جنگ میں لوٹ آئے اور بہت سے مسلمان قتل ہو گئے اور مشرکوںنے قتل رسول(ص) کی افواہ پھیلا دی۔ اگر علی بن ابی طالب، حمزہ بن عبد المطلب، سہل بن حنیف نہ ہوتے تو مشرکین کی فوج رسول(ص) تک پہنچ جاتی کیونکہ میدان معرکہ میںمسلمانوںمیں سے بہت کم لوگ ثابت قدم رہے تھے، اکثریت بھاگ گئی تھی ان میں بڑے بڑے صحابہ بھی شامل تھے۔( ۲ )

بعض نے اسلام سے ہی برأت کی سوچ لی اور کہا کاش ہمارے پاس کوئی قاصد ہوتا جو عبد اللہ بن ابی ّکے

____________________

۱۔مغازی ج۱ ص۲۲۱۔

۲۔ مغازی ج۱ ص ۳۳۷، سیرت نبویہ ج۲ ص ۸۳، شرح نہج البلاغہ ۱۵ ص ۲۰۔

۱۵۱

پاس چلا جاتا اور وہ ابو سفیان سے ہمارے لئے امان لے لیتا۔( ۱ )

اس جنگ میں رسول(ص) کے چچا جناب حمزہ بن عبد المطلب شہید ہو گئے رسول(ص) پر بھی حملے ہوئے نیچے کے چار دانت شہید ہو گئے، ہونٹ زخمی ہو گیا ، چہرہ پر خون بہنے لگا آپ(ص) اسے صاف کرتے تھے اور فرماتے تھے:

وہ قوم کیسے فلاح پا سکتی ہے جس نے اپنے نبی (ص) کے چہرہ کو خون سے رنگین کر دیا ہے جبکہ وہ انہیں خدا کی طرف بلا رہا ہے ۔( ۲ )

رسول(ص) جنگ کرتے رہے یہاں تک کہ آپ(ص) کی کمان ٹوٹ گئی۔ ابی بن خلف پر حملہ کرکے آپ نے اسے زخمی کر دیا وہ آپ(ص)کو قتل کرنا چاہتا تھا اسی زخم میں ابی مر گیا۔ اس جنگ میںحضرت علی نے بے نظیر بہادری کا ثبوت دیا۔ جو گروہ بھی آنحضرت (ص) کی طرف بڑھتا تھا علی اسی کو بھگادیتے اور اپنی تلوار سے خوف زدہ کر دیتے تھے۔ یہ حال دیکھ کر جبریل نازل ہوئے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) ! یہ ہے مواسات-یعنی محبت و رفاقت کی انتہا-۔رسول(ص) نے فرمایا: وہ مجھ سے ہیں اور میں ان سے ہوں جبریل نے کہا: میں آپ دونوں سے ہوں۔ لوگوں نے اس وقت یہ آواز سنی :

لا سیف الا ذو الفقار

ولا فتیٰ الا علی( ۳ )

ذو الفقار کے علاوہ کوئی تلوار نہیں اور علی کے علاوہ کوئی جوان نہیں۔

مسلمانوں میں سے جو لوگ باقی رہ گئے تھے رسول(ص) ان کے ساتھ پہاڑ کی طرف چلے گئے ، جنگ بند ہو گئی ، تو ابو سفیان آیا اور مسلمانوں کا مذاق و مضحکہ اڑاتے ہوئے کہنے لگا: ''اعل ھبل'' ہبل بلند رہا۔ رسول(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ کفر کو منہ توڑ جواب دیا جائے ۔ میدان جنگ میں شکست کھانے کے باوجود عقیدہ میں استحکام رہنا چاہئے۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۰، سورۂ آل عمران کی آیات ۱۲۱ سے۱۸۰ تک میں اس جنگ کی وضاحت موجود ہے ۔

۲۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۱۱۷، بحار الانوار ج۲۰ ص ۱۰۲۔

۳۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۱۱۶، مجمع الزوائد ج۶ ص ۱۱۴، بحار الانوار ج ۲۰ ص ۷۱۔

۱۵۲

اس کے بعد کافر ابو سفیان نے جب یہ نعرہ لگایا:''نحن لنا العزی ولا عزی لکم'' -یعنی ہمارے پاس عزیٰ نام کا بت ہے ،تمہارے پاس عزی نہیں ہے-رسول(ص) نے مسلمانوں سے فرمایا: تم اس کے جواب میں یہ نعرہ لگائو:''اللّه مولٰنا ولا مولیٰ لکم'' ( ۱ ) اللہ ہمارا مولا ہے اورتمہارا کوئی مولیٰ نہیں ہے ۔

مشرکین مکہ لوٹ گئے نبی (ص) مسلمانوں کے ساتھ اپنے مقتولین کو دفن کرنے میں مشغول ہوئے، قریش نے کتنا دلخراش و دردناک منظر چھوڑا تھا انہوں نے شہیدوں کی لاشوںکو مثلہ کر دیا تھا اور جب رسول(ص) نے وادی کے بیچ میںاپنے چچا جناب حمزہ بن عبد المطلب کو دیکھا، کہ جن کا جگر نکال لیا گیا تھا اور درندگی و دشمنی میں ان کی لاش کو مثلہ کر دیا گیا تھا، تو آپ(ص) کو بہت دکھ ہوا۔ فرمایا:''ما وقفت موقفاً قط اغیظ الی من هذا '' اس سے زیادہ دردناک منظر میں نے نہیں دیکھا تھاآج مجھے جتنا غم ہوا ہے اتنا زندگی میں کبھی نہیںہوا۔

اس جنگ میں اگر چہ مسلمانوںکا کافی جانی نقصان ہوا تھا لیکن یہ چیز توحید کا عقیدہ رکھنے والوں کودولت اسلام رکھنے والوں کو اسلام اور حکومت اسلامی کے دفاع سے باز نہیں رکھ سکتی تھی۔ دوسرے دن جب مسلمان مدینہ واپس لوٹ آئے تو رسول(ص) نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے آمادہ ہونے کا حکم دیا تاکہ دشمن کا تعاقب کریںاور اس کی تلاش میں نکلیں، اسے بھگائیں اور صرف وہی لوگ گھروں سے نکلیںجو جنگ میں شریک ہوئے تھے چنانچہ مسلمانوںکے پاس جو کچھ تھا اسی کے ساتھ حمراء الاسد کی طرف روانہ ہو گئے دشمن کو مرعوب کرنے کے لئے رسول(ص) نے یہ نیا طریقہ اختیار کیا اور دشمن پر خوف طاری ہو گیا وہ سر پر پائوں رکھ کر مکہ کی طرف بھاگ گیا( ۲ ) رسول(ص) اور مسلمان مدینہ واپس لوٹ آئے یقینا اس طرح انہیں بہت سی معنوی اور روحانی طاقتیں واپس مل گئیں۔

۶۔ مسلمانوں کو دھوکا دینے کی کوشش

جس معاشرہ پر تلوار و غلبہ کے زور پر حکومت ہوتی ہو اس کے لحاظ سے یہ بات طبیعی تھی کہ احد میں مسلمانوں

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۹۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۱۰۲ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۴۹۔

۱۵۳

کی پسپائی کے بعد مشرکین ان پر جری ہو جائیں۔ لیکن رسول(ص) آگاہ اور ہر انقلاب و تغیر سے واقف تھے ، دل و جان سے رسالت کی حفاظت کرتے تھے حکومت کی تشکیل اور اس کی محافظت میں کوشاں رہتے تھے ، خبر اور نیتوں سے مطلع رہتے تھے اور قبل اس کے کہ مشرک اپنے مقصد میں کامیاب ہوں، ان کے منصوبوںکو ناکام کر دیتے تھے۔ بنی سلمہ کا ایک دستہ نکلا اور مدینہ میں بنی اسد کے مکر کو ناکام کیا اور یہ دستہ اپنی مہم میں کامیاب رہا اسی طرح مسلمانوںنے مشرکوں کے مدینہ پر حملہ کو بھی ناکام بنا دیا۔

مشرکین کی ایک جماعت مسلمانوں کو دھوکا دینے میں کامیاب ہو گئی قبیلۂ ''عضل و قارہ'' کے کچھ لوگ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی: ہمارے یہاں ایسے افراد کو بھیجئے جو ہمیں دین کے احکام سکھائیں رسول(ص) نے رسالت اسلامیہ کی نشر و اشاعت کی غرض سے کچھ لوگوں کو ان کے ساتھ روانہ کر دیا مسلمان مبلغین کو ان لوگوںنے: ماء الرجیع پر قتل کر ڈالا، ان مسلمانوںکے قتل کی خبر پہنچنے سے پہلے ہی ابو براء عامری نے رسول(ص) سے التماس کی کہ کچھ مبلغین اہل نجد کے لئے بھیج دیجئے جبکہ پہلے انہوںنے اسلام قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا رسول(ص) نے فرمایا: ''انی اخشیٰ علیہم اھل نجد...''مجھے اہل نجد کی طرف سے ان کی جان کا خطرہ ہے ۔ ابو براء نے عرض کی: ڈرئیے نہیں میں ان کوپناہ دینے والا اوران کا ضامن ہوں، پناہ دینے والے کا اعتبار ہونا چاہیے اس اعتبار کی اتنی اہمیت ہے کہ جزیرة العرب میں اسے نسب کے برابرسمجھا جاتا ہے، اس کی بات سن کر رسول(ص) مطمئن ہو گئے اور تبلیغ کے لئے ایک وفد روانہ کر دیا لیکن اس وفد کے ساتھ بھی دھوکا کیا گیا، عمر بن طفیل اور بنی سلیم کے قبیلوں نے ان پر زیادتی کی اور ''بئر معونہ'' کے علاقہ میں انہیں قتل کر دیا گیا، چنانچہ عمرو بن امیہ کے علاوہ ان میں سے کوئی بھی باقی نہ بچا، اسے انہوں نے چھوڑ دیا تھا رسول(ص) کے پاس وہی اس حادثہ کی خبر لے کر آئے لیکن عمرو بن امیہ نے راستہ میں دو آدمیوں کو یہ سوچ کر قتل کر ڈالا کہ یہ عامری ہیں، رسول(ص) کو اس کا دکھ ہوا اور عمرو سے فرمایا: تم نے بہت برا کیا، دو آدمیوں کو قتل کر دیا، ان کے لئے میری طرف سے امان تھی وہ میری پناہ میں تھے میں ضروران کی دیت ادا کروںگا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۱۹۳ تا ص ۱۹۵۔

۱۵۴

۷۔ غزوۂ بنی نضیر( ۱ )

مسلمانوں پر پے در پے مصائب پڑ رہے تھے یہاں تک منافقین اور یہودیوںپر بھی یہ بات واضح ہو گئی تھی کہ مسلمانوں کی ہیبت ختم ہو گئی ہے رسول(ص) نے اپنی سیاسی سوجھ بوجھ کے تحت بنی نضیر کے یہودیوں سے معاملات صحیح رکھنے کا ارادہ کیا اور ان دونوں مقتولوں کی دیت دینے میں ان سے مدد طلب کی۔ اسی اثناء میں یہودیوں نے آپ(ص) کو اپنے محلہ میں دیکھا آپ(ص) کے ساتھ کچھ مسلمان بھی تھے انہوںنے آپ(ص) کو خوش آمدید کہا ان کا ارادہ نیک نہیں تھا انہوں نے کہا تشریف رکھئے تاکہ آپ(ص) کا مطالبہ پورا کر دیا جائے۔ آپ ان کے گھر کی دیوار سے ٹیک لگا کر بیٹھ گئے۔ یہودیوں نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ سوچا کہ پتھر گرا کر آپ(ص) کو قتل کر دیں۔ اتنے میں آپ(ص) پر وحی نازل ہوئی او ر آپ(ص) کو ان کے منصوبہ سے خبر دار کیا آپ(ص) صحابہ کو وہیں چھوڑکر ان کے درمیان سے نکل آئے۔ اس صورت حال سے بنی نضیر کو پریشانی لاحق ہوئی انہیں اس بات پر حیرت ہوئی اوراپنی کارستانی پر بہت پشیمان ہوئے۔ وہاں سے صحابہ بھی جلدی سے مسجد میں رسول(ص) کے پاس پہنچ گئے، تاکہ آپ(ص) کے لوٹنے کا راز معلوم ہو جائے۔ رسول(ص) نے فرمایا:''همّت الیهود بالغدر بی فاخبرنی اللّه بذالک فقمت'' ۔( ۲ )

یہودیوں نے مجھے دھوکے سے نقصان پہنچا نا چاہا لیکن میرے خدا نے مجھے آگاہ کر دیا۔

چونکہ یہودیوں نے رسول(ص) سے کئے ہوئے عہد کو توڑ دیا تھا اس لئے خدا نے ان کے خون کو مباح کر دیا۔ انہوںنے دھوکا دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی لہذا مدینہ سے جلا وطنی کے علاوہ ان کے لئے اور کوئی چارہ نہیں تھامنافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی وغیرہ نے بنی نضیر سے کہا: تم رسول(ص) کے حکم کو تسلیم نہ کرو بلکہ ان کا مقابلہ کرو، میں اور میری جماعت تمہاری مدد کرے گی تمہیں تنہا نہیں چھوڑا جائیگا۔ بنی نضیر اپنے قلعوں میں رسول(ص) کے حکم کو ماننے یا نہ ماننے کے سلسلہ میں متردد تھے۔

____________________

۱۔غزوۂ بنینضیر ماہ ربیع الاول ۴ھ میںہوا۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۵۷، متاع الاسماع ج۱ ص ۱۸۷۔

۱۵۵

رسول(ص) کو منافقین کی ریشہ دوانیوں کی خبر ہوئی توآپ(ص) نے مدینہ میں ابن ام مکتوم کو چھوڑ ااور بنی نضیر کا محاصرہ کرنے کے لئے روانہ ہوئے اور ان کے ساتھ نیک سلوک کرتے ہوئے کہا کہ وہ سپر انداختہ ہو جائیں اور ذلت کے ساتھ صرف اتنا مال و اسباب لیکر مدینہ سے چلے جائیں جتنا ان کے اونٹ لے جا سکیں۔( ۱ )

مسلمانوں کو بہت سا مال و اسلحہ غنیمت میں ملا، رسول(ص) نے مسلمانوں کو جمع کیا اور ان کے سامنے یہ بات رکھی کہ یہ مال غنیمت مہاجرین کو دیدئے جائیں تاکہ انہیں اقتصادی خود مختاری حاصل ہو جائے اور انصار میں سے سہل بن دجانہ اور ان کے والد دجانہ کو بھی دیدیا جائے -یہ دونوں انصار میں زیادہ غریب تھے۔ چنانچہ نبی (ص) نے اس غنیمت میں سے ان کو بھی عطا کیا۔( ۲ )

۸۔احد کے بعد فوجی حملے

مدینہ کی فضا سازگاراور پر امن ہو گئی لیکن منافقین اپنی غداریوں کے انکشاف کی وجہ سے پریشان تھے اور انہیں یہ یقین ہو گیا تھا کہ آنے والے زمانہ میں ان کی خبر لی جائے گی، اسی دوران رسول(ص) کو یہ اطلاع ملی کہ بنی غطفان مدینہ پر چڑھائی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں لہذا رسول(ص) اور مسلمانوں نے ان کے مقابلہ میںجانے کے لئے جلدی کی جب دشمن سے ان کا سامنا ہوا تو دیکھا کہ وہ مقابلہ کے لئے پوری طرح تیار ہے یہ بھی تیار ہو گئے جس سے دونوں ایک دوسرے سے مرعوب ہو گئے، اور جنگ و قتال کی نوبت نہیں آئی، اس غزوہ میں رسول(ص) نے نمازِ خوف پڑھی تھی تاکہ مسلمانوں کو یہ سکھایا جائے کہ دشمن سے چند لمحوں کے لئے بھی غفلت نہیں کی جا سکتی ۔ مختصر یہ کہ مسلمان بغیر جنگ کئے مدینہ واپس آ گئے( ۳ ) اس غزوہ کو، ذات الرقاع بھی کہتے ہیں۔

بدرِ موعد(بدر الصغریٰ)

مسلمانوں کی تنگی کا زمانہ تیزی سے گذر رہا تھا۔ اب انہیں فن حرب و ضرب- یعنی جنگی امور-میں کافی

____________________

۱۔ سورۂ حشر میں بنی نضیر کی جلا وطنی بیان ہوئی ہے ۔

۲۔ ارشاد ص ۷۴۔

۳۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۰۴۔

۱۵۶

مہارت ہو گئی تھی ان کے لئے شریعت کے احکام نازل ہو رہے تھے، ان کے تعلقات میں شائستگی آ رہی تھی، ان کی زندگی کے امور منظم ہو رہے تھے ثبات و پختگی کے لحاظ سے ان کے ایمان میں اضافہ ہو رہا تھا، دین ِاسلام اور ملت اسلامیہ کی حفاظت کے سلسلہ میں ثابت قدمی، قربانی، فداکاری اور اخلاص کے بہت سے قابل قدر نمونے سامنے آچکے تھے۔ قریب تھا کہ جنگ احد کی خفت کے آثار محو ہو جائیں لیکن اب اس دھمکی کا وقت آ گیا تھا جو کفر کے سر غنا ابو سفیان نے جنگ احد میں اس طرح دی تھی: ہماری اور تمہاری وعدہ گاہ بدر ہے ، اس جملہ سے اس کی مراد بدر میں ہلاک ہونے والے مشرکین کا انتقام لینا تھا۔ رسول(ص) اپنے اصحاب میں سے پندرہ سو سپاہیوں کے ساتھ مدینہ سے نکلے اور بدر میں آٹھ دن تک خیمہ زن رہے مگر مسلمانوں کو خوف زدہ کرنے کے لئے مشرکین کی کوششیں کامیاب نہیں ہوئیں نہ یہ کہ وہ مقابلہ کے لئے نہیں نکلے بلکہ جب انہیں رسول(ص) کے عزم و ارادہ کا علم ہوا تو ان پر شدید خوف طاری ہو گیا اس بنا پر ابو سفیان مجبورا ًوعدہ گاہ کی طرف روانہ ہوا لیکن یہ بہانہ بنا کر واپس لوٹ گیا کہ قحط و خشکی نے فوجی تیاری کو متاثر کیا ہے اس اقدام سے ایک طرف قریش کے دامن پر شکست و بزدلی کا داغ لگ گیا اور دوسری طرف مسلمانوںکے حوصلے و معنویت میں اضافہ ہوا، اس طرح انہوں نے اپنی عافیت و سر گرمی کو دوبارہ حاصل کر لیا۔

تھوڑے ہی عرصہ کے بعد رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ دو مة الجندل کے باشندوںنے راہزنی شروع کر دی ہے اور وہ مدینہ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں چنانچہ ان سے مقابلہ کیلئے رسول(ص) ایک ہزار مسلمانوں کے ساتھ روانہ ہوئے، دشمن کو جب یہ اطلاع ملی کہ رسول(ص) مقابلہ کے لئے آ رہے ہیں تو اس نے فرار ہی میں عافیت سمجھی چنانچہ وہ بہت سا مال چھوڑ گیا جو جنگ و قتال کے بغیر مسلمانوں کے ہاتھ آیا۔( ۱ )

۹۔ غزوۂ بنی مصطلق اور نفاق کی ریشہ دوانیاں

اس کے بعدکچھ نئی خبریں گشت کرنے لگیں معلوم یہ ہوا کہ حارث بن ابی ضرار-بنی مصطلق کا سردار-مدینہ پر فوج کشی کرنے کا منصوبہ بنا رہا ہے ۔ رسول(ص) نے-جیسا کہ آپ(ص) کی عادت تھی-پہلے خبر کی تحقیق کرائی جب اس

____________________

۱۔سیرت نبویہ ، ابن کثیر ج۳ ص ۱۷۷، الطبقات الکبریٰ ج۲ ص ۶۲۔

۱۵۷

کی صداقت کا علم ہوا تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو جنگ کے لئے جمع کیا وہ دشمن سے مقابلہ کے لئے نکلے''المریسیع'' کے مقام پر لشکر اسلام کا اس سے مقابلہ ہوا۔ گھمسان کا رن پڑا لیکن جب مشرکین کے دس آدمی مارے گئے تو وہ بھاگ کھڑے ہوئے اور مسلمانوں کو بہت سا مال غنیمت ملا اور بنی مصطلق کی بہت سی عورتیں اسیر ہوئیں ان میں حارث کی بیٹی جو یریہ بھی تھی ، رسول(ص) نے اسے آزاد کرنے کے بعد اس سے عقد کر لیا اس رشتہ کے اکرام و احترام میں مسلمانوں نے سارے اسیروں کو آزاد کر دیا۔( ۱ ) اس جنگ میں قریب تھا کہ مہاجرین و انصار کے درمیان پہلی کی بنا پرفتنہ بپا ہو جائے رسول(ص) کو اس کی خبر ہوئی تو آپ(ص) نے فرمایا:''دعوها فانها فتنة'' ( ۲ ) جانے دو یہ فتنہ ہے ، منافقین کے سردار عبد اللہ بن ابی نے فتنہ بپا کرنے اور اختلاف ڈالنے کی کوشش کی اور اہل مدینہ کو مخاطب کرکے کہنے لگا: اگر ہم مدینہ واپس گئے تو ہم عزت والے ان ذلیل لوگوں کو مدینہ سے نکال دیں گے۔ اگر رسول عبد اللہ بن ابی کے قتل کے سلسلہ میں عمر بن خطاب کی رائے کو یہ کہہ کر رد نہ کرتے ، کہ جانے دو:ائے عمر لوگ یہ کہیں گے کہ محمد اپنے ہی ساتھیوں کو قتل کر رہے ہیں اور دوسری طرف( ۳ ) جلدی سے مدینہ واپس جانے کا حکم نہ دیا ہوتا تو وہ اپنی نفاق پروری اور فتنہ پردازی میں کامیاب ہو جاتا۔ رسول(ص) نے راستہ بھر مسلمانوں کوآرام کرنے کی بھی اجازت نہیں دی رات دن مسلمانوں کے ساتھ چلتے ہی رہے جب آپ نے انہیں آرام کی اجازت دی تو شدید تکان کی وجہ سے لوگ سوتے ہی رہے ان کو بات کرنے اور بال کی کھال نکالنے کی فرصت ہی نہیں ملی۔ مدینہ کے دروازہ پرعبد اللہ بن عبد اللہ بن ابی نے رسول(ص) سے گزارش کی کہ اس کے باپ کو کوئی مسلمان قتل نہ کرے ہو سکتا ہے اس سے اس کی رگ،حمیت پھڑک اٹھے اور باپ کے خون کا انتقام لینے پر آمادہ ہو جائے لہذا وہ اپنے ہاتھ سے اپنے باپ کو قتل کرنا چاہتا ہے ، نبی(ص) نے فرمایا: ''بل نترفق بہ نحن صحبتہ ما بقی معنا''ہم اس کے ساتھ نرمی سے پیش آئیں گے اور جب تک وہ ہمارے ساتھ ہے ، ہم اس رفاقت کی قدر کریں گے ۔

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۲۰۴، امتاع الاسماع ج۱ ص ۱۹۵۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۹۰۔

۳۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۲۰۲۔

۱۵۸

اس کے بعدعبد اللہ ابن ابی کا بیٹا دروازہ پر کھڑا ہو گیا تاکہ اپنے باپ کو رسول(ص) کی اجازت کے بغیر مدینہ میں داخل نہ ہونے دے۔( ۱ ) اسی موقع پر سورۂ منافقون نازل ہوا تاکہ ان کی غداری و مکاری طشت از بام ہو جائے۔

۱۰۔رسوم جاہلیت کی مخالفت

ایک دن نبی (ص) اپنی فیاض طبیعت اور انسانیت کی محبت سے لبریز دل کے ساتھ کھڑے ہوئے اور فرمایا:''یامن حضر اشهدوا ان زیداً هذا ابنی'' ( ۲ ) حاضرین گواہ رہنا یہ زید میرا بیٹا ہے اس طرح زید غلامی سے آزاد ہو کر محبوب خدا کے بیٹے بن گئے اور ابتدائے بعثت میں رسول(ص) پر سچے دل سے ایمان لائے۔ اسی طرح زمانہ گزرتا رہا یہاں تک کہ زید رسول(ص) کی سر پرستی میں بالغ اور بڑے ہو گئے تو مصلح اعظم رسول(ص) اکرم نے زید کی شادی کے لئے اپنی پھوپھی کی بیٹی زینب بنت جحش کو منتخب کیا۔ زینب نے یہ بات پسند نہ کی کہ وہ اپنی سماجی و اجتماعی حیثیت اور عالی نسبی سے نیچے اتر کر اس شخص سے شادی کریں جو کہ پہلے غلام تھا لیکن ان کے سچے ایمان نے انہیں خدا کا حکم تسلیم کرنے پرمجبور کیاکیونکہ خدا فرماتا ہے :

( وما کان لمومن ولا مومنة اذا قضی اللّه و رسوله امراً ان یکون لهم الخیرة فی امرهم ) ( ۳ )

اور جب خدا اور اس کا رسول(ص) کسی امر کا فیصلہ کر دیں تو پھر کسی مومن مرد اورمومن عورت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنے امرمیں خود مختار بن جائے۔

اس طرح رسول(ص) نے جاہلیت کی فرسودہ رسم پر خط بطلان کھینچ دیا اور دائمی رسالت کے اقدار کو بروئے کار لا کر بہترین مثال قائم کر دی ۔ لیکن تہذیب کے اختلاف اور طبیعتوں کے فرق کی وجہ سے یہ رشتہ کامیاب

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۹۲ ۔

۲۔ احزاب : ۳۶۔

۳۔ اسد الغابہ ج۲ ص ۲۳۵، استیعاب مادہ زید۔

۱۵۹

ثابت نہ ہوا۔ پھر معاشرہ میں کچھ جاہلیت کی بو تھی ، دونوں کے درمیان جو اختلافات ہو گئے تھے انہیں رفع کرنے کے لئے رسول(ص) نے کوشش کی تاکہ معاملہ کے تمام راستے بند نہ ہو جائیں چنانچہ زید سے فرمایا: اپنی زوجہ کو رکھ لو اور خدا سے ڈرو ! مگر زینب بنت جحش سے زید کا شکوہ بڑھتا ہی گیا نتیجہ میں طلاق ہو گئی۔

عرب میں یہ رسم ہو گئی تھی کہ وہ متبنیٰ(جس کو پالا ہے )کو بھی اپنا حقیقی بیٹا سمجھتے تھے اس رسم کو باطل قرار دینے کے لئے خدا کی طرف سے یہ حکم ہوا:

( وما جعل ادعیائکم ابنائکم ذلکم قولکم بافواهکم و اللّٰه یقول الحق و هو یهدی السبیل) (۱)

اور خدا نے تمہاری منھ بولی اولاد کو تمہارا بیٹا نہیں قرار دیا ہے یہ تمہاری زبانی باتیں ہیں خدا تو بس حق کہتا ہے اور سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔

ہاں وہ دین میں تمہارے بھائی اور تمہارے دوست ہیں۔ خدا نے اس رسم کو باطل قرار دینے کے لئے اپنے نبی (ص) کو حکم دیا کہ ۔ زید کے طلاق دینے اور عدت کے ختم ہونے کے بعد آپ(ص) زینب بنت جحش سے نکاح کر لیں۔ اس سلسلہ میں کچھ آیتیں نازل ہوئیں جن میں نبی (ص) کو اس بات پر ابھارا گیا کہ آپ جاہلیت کی اس رسم کو باطل کریں۔ لوگوں سے نہ ڈریں بلکہ پوری جرأت و شجاعت کے ساتھ خدا کے احکام کو نافذ کریں۔( ۲ )

____________________

۱۔ احزاب:۴۔

۲۔ احزاب: ۳۷، تا ۴۰، تفسیر المیزان ج۱۶ ص ۲۹۰ ، مفاتیح الغیب ج۲۵ ص ۲۱۲، روح المعانی ج۲۲ ص ۲۳۔

۱۶۰