منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)26%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137236 / ڈاؤنلوڈ: 6240
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

چند مسائل :

مسئلہ ۸۲ _ اگر ان مواقيت اور انكى بالمقابل جگہ كا علم نہ ہو تو يہ بينہ شرعيہ كے ساتھ ثابت ہو جاتے ہيں يعنى دو عادل گواہ اسكى گواہى دے ديں يا اس شياع كے ساتھ بھى ثابت ہو جاتے ہيں جو موجب اطمينان ہو اور جستجو كركے علم حاصل كرنا واجب نہيں ہے اور اگر نہ علم ہو نہ گواہ اور نہ شياع تو ان مقامات كوجاننے والے شخص كى بات سے حاصل ہونے والا ظن و گمان كافى ہے _

مسئلہ ۸۳ _ ميقات سے پہلے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے مگر يہ كہ ميقات سے پہلے كسى معين جگہ سے احرام باندھنے كى نذر كرلے جيسے كہ مدينہ يا اپنے شہر سے احرام باندھنے كى نذر كرے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۸۴ _ اگر جان بوجھ كر يا غفلت يا لا علمى كى وجہ سے بغير احرام كے ميقات سے گزر جائے تو اس پر واجب ہے كہ احرام كيلئے ميقات كى طرف پلٹے _

۶۱

مسئلہ ۸۵_ اگر غفلت ، نسيان يا مسئلہ كا علم نہ ہونے كى وجہ سے ميقات سے آگے گزر جائے اور وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے ميقات تك پلٹ بھى نہ سكتا ہو ليكن ابھى تك حرم ميں داخل نہ ہوا ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ جس قدر ممكن ہو ميقات كى سمت كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر حرم ميں داخل ہو چكا ہو تواگر اس سے باہر نكلنا ممكن ہو تو اس پر يہ واجب ہے اور حرم كے باہر سے احرام باندھے گا اور اگر حرم سے باہرنكلنا ممكن نہ ہو تو حرم ميں جس جگہ ہے وہيں سے احرام باندھے _

مسئلہ ۸۶_ اپنے اختيار كے ساتھ احرام كو ميقات سے مؤخر كرنا جائز نہيں ہے چاہے اس سے آگے دوسرا ميقات ہو يا نہ _

مسئلہ ۸۷ _ جس شخص كو مذكورہ مواقيت ميں سے كسى ايك سے احرام باندھنے سے منع كرديا جائے تو اس كيلئے دوسرے ميقات سے احرام باندھنا جائز ہے _

مسئلہ ۸۸_ جدہ مواقيت ميں سے نہيں ہے اور نہ يہ مواقيت كے

۶۲

بالمقابل ہے لذا اختيار ى صورت ميں جدہ سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے بلكہ احرام باندھنے كيلئے كسى ميقات كى طرف جانا ضرورى ہے مگر ي ۴ہ كہ اس پر قدرت نہ ركھتا ہو تو پھر جدہ سے نذر كركے احرام باندھے_

مسئلہ ۸۹_ اگر ميقات سے آگے گزر جانے كے بعد مُحرم متوجہ ہو كہ اس نے صحيح احرام نہيں باندھا پس اگر ميقات تك پلٹ سكتا ہو تو يہ واجب ہے اور اگر نہ پلٹ سكتا ہو مگر مكہ مكرمہ كے راستے سے تو '' ادنى الحل'' سے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ كر مكہ ميں داخل ہو اور اعمال بجا لانے كے بعد عمرہ تمتع كے احرام كيلئے ، كسى ميقات پر جائے _

مسئلہ ۹۰_ ظاہر يہ ہے كہ اگر حج كے فوت نہ ہونے كا اطمينان ہو تو عمرہ تمتع كے احرام سے خارج ہونے كے بعد اور حج بجا لانے سے پہلے مكہ مكرمہ سے نكلنا جائز ہے اگر چہ احوط استحبابى يہ ہے كہ ضرورت و حاجت كے بغير نہ نكلے جيسے كہ اس صورت ميں احوط يہ ہے كہ نكلنے سے پہلے مكہ ميں حج كا احرام باندھ لے مگر يہ كہ اس كام ميں اس كيلئے حرج ہو تو پھر اپنى

۶۳

احتياج كيلئے بغير احرام كے باہر جا سكتا ہے اور جو شخص اس احتياط پر عمل كرنا چاہے اور ايك يا چند مرتبہ مكہ سے نكلنے پر مجبور ہو جيسے كاروانوں كے خدام وغيرہ تو وہ مكہ مكرمہ ميں داخل ہونے كيلئے پہلے عمرہ مفردہ كا احرام باندھ ليں اور عمرہ تمتع كو اس وقت تك مؤخر كرديں كہ جس ميں اعمال حج سے پہلے عمرہ تمتع كو انجام دينا ممكن ہو پھر ميقات سے عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھيں پس جب عمرہ سے فارغ ہو جائيں تو مكہ سے حج كيلئے احرام باندھيں _

مسلئہ ۹۱_ عمرہ تمتع اور حج كے درميان مكہ سے خارج ہونے كا معيار موجودہ شہر مكہ سے خارج ہونا ہے پس ايسى جگہ جاناكہ جو اس وقت مكہ مكرمہ كا حصہ شمار ہوتى ہے اگر چہ ماضى ميں وہ مكہ سے باہر تھى مكہ سے خارج ہونا شمار نہيں ہو گا _

مسئلہ ۹۲_ اگر عمرہ تمتع كو انجام دينے كے بعد مكہ سے بغير احرام كے باہر چلا جائے تو اگر اسى مہينے ميں واپس پلٹ آئے كہ جس ميں اس نے عمرہ كو انجام ديا ہے تو بغير احرام كے واپس پلٹے ليكن اگر عمرہ كرنے والے مہينے كے

۶۴

غير ميں پلٹے جيسے كہ ذيقعد ميں عمرہ بجالاكر باہر چلا جائے پھر ذى الحج ميں واپس پلٹے تو اس پر واجب ہے كہ مكہ ميں داخل ہونے كيلئے عمرہ كا احرام باندھے اور حج كے ساتھ متصل عمرہ تمتع ، دوسرا عمرہ ہو گا _

مسئلہ ۹۳_ احوط وجوبى يہ ہے كہ عمرہ تمتع اور حج كے درميان عمرہ مفردہ كو انجام نہ دے ليكن اگر بجا لائے تو اس سے اسكے سابقہ عمرہ كو كوئي نقصان نہيں ہوگا اور اس كے حج ميں بھى كوئي اشكال نہيں ہے _

۶۵

دوسرى فصل :احرام

مسئلہ ۹۴_ احرام كے مسائل كى چار اقسام ہيں:

۱_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں يا احرام كيلئے واجب ہيں_

۲_ وہ اعمال جواحرام كى حالت ميں مستحب ہيں_

۳_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں حرام ہيں _

۴_ وہ اعمال جو احرام كى حالت ميں مكروہ ہيں_

۱_ احرام كے واجبات

اول : نيت

اور اس ميں چند امور معتبر ہيں :

۶۶

الف : قصد،يعنى حج يا عمرہ كے اعمال كے بجالانے كا قصد كرنا پس جو شخص مثلاً عمرہ تمتع كا احرام باندھنا چاہے وہ احرام كے وقت عمرہ تمتع كو انجام دينے كا قصد كرے_

مسئلہ ۹۵_ قصد ميں اعمال كى تفصيلى صورت كو دل سے گزارنا معتبر نہيں ہے بلكہ اجمالى صورت كافى ہے پس اس كيلئے جائز ہے كہ اجمالى طور پر واجب اعمال كو انجام دينے كا قصد كرے پھر ان ميں سے ايك ايك كو ترتيب كے ساتھ بجالائے _

مسئلہ ۹۶_ احرام كى صحت ميں محرمات احرام كو ترك كرنے كا قصد كرنا معتبر نہيں ہے بلكہ بعض محرمات كے ارتكاب كا عزم بھى اسكى صحت كو نقصان نہيں پہنچاتا ہاں ان محرمات كے انجام دينے كا قصد كرنا كہ جن سے حج يا عمرہ باطل ہو جاتا ہے جيسے جماع _ بعض موارد ميں _تو وہ اعمال كے انجام دينے كے قصد كے ساتھ جمع نہيں ہو سكتا بلكہ يہ احرام كے قصد كے منافى ہے_

۶۷

ب : قربت اور اللہ تعالى كيلئے اخلاص ،كيونكہ عمرہ ، حج اور ان كا ہر ہر عمل عبادت ہے پس ہر ايك كو صحيح طور پر انجام دينے كيلئے ''قربةً الى اللہ ''كا قصد كرنا ضرورى ہے _

ج _ اس بات كى تعيين كہ احرام عمرہ كيلئے ہے يا حج كيلئے اور پھر يہ كہ حج ، حج تمتع ہے يا قران يا افراد اور يہ كہ اس كا اپنا ہے يا كسى اور كى طرف سے اور يہ كہ يہ حجة الاسلام ہے يا نذر كا حج يا مستحبى حج _

مسئلہ ۹۷_ اگر مسئلہ سے لاعلمى يا غفلت كى وجہ سے عمرہ كے بدلے ميں حج كى نيت كرلے تو اس كا احرام صحيح ہے مثلاً اگر عمرہ تمتع كيلئے احرام باندھتے وقت كہے '' حج تمتع كيلئے احرام باندھ رہا ہو ں ''قربةً الى اللہ '' ليكن اسى عمل كا قصد ركھتا ہو جسے لوگ انجام دے رہے ہيں يہ سمجھتے ہوئے كہ اس عمل كا نام حج ہے تو اس كا احرام صحيح ہے _

مسئلہ ۹۸_ نيت ميں زبان سے بولنا يا دل ميں گزارنا شرط نہيں ہے بلكہ صرف فعل كے عزم سے نيت ہو جاتى ہے_

۶۸

مسئلہ ۹۹_ نيت كا احرام كے ہمراہ ہونا شرط ہے پس سابقہ نيت كافى نہيں ہے مگر يہ كہ احرام كے وقت تك مستمر رہے _

دوم : تلبيہ

مسئلہ ۱۰۰_ احرام كى حالت ميں تلبيہ ايسے ہى ہے جيسے نماز ميں تكبيرة الاحرام پس جب حاجى تلبيہ كہہ دے تو مُحرم ہو جائيگا اور عمرہ تمتع كے اعمال شروع ہو جائيں گے اور يہ تلبيہ در حقيقت خدائے رحيم كى طرف سے مكلفين كو حج كى دعوت ، كا قبول كرنا ہے اسى لئے اسے پورے خشوع و خضوع كے ساتھ بجالانا چاہيے اور تلبيہ كى صورت على الاصح يوں ہے _ ''لَبَّيكَ اَللّهُمَّ لَبَّيكَ لَبَّيكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ ''

اگر اس مقدار پر اكتفا كرے تو اس كا احرام صحيح ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ مذكورہ چا رتلبيوں كے بعديوں كہے : ''انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ''

۶۹

اور اگر مزيد احتياط كرنا چاہے تو يہ بھى كہے :

''لَبَّيْكَ اللّهُمَّ لَبَّيْكَ انَّ الْحَمْدَ وَ النّعْمَةَ لَكَ وَ الْمُلْكَ لَا شَريكَ لَكَ لَبَّيكَ

اور مستحب ہے كہ اسكے ساتھ ان جملات كا بھى اضافہ كرے جو معتبر روايت ميں وارد ہوئے ہيں :

لَبَّيْكَ ذَا الْمَعارج لَبَّيْك لَبَّيْكَ داعياً الى دار السَّلام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ غَفَّارَ الذُنُوب لَبَّيْكَ لَبَّيكَ ا َهْلَ التَّلْبيَة لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ ذَا الْجَلال وَالإكْرام لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ تُبْديُ ، وَالْمَعادُ إلَيْكَ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ تَسْتَغْنى وَ يُفْتَقَرُ إلَيْكَ لَبَّيْك، لَبَّيْكَ مَرْهُوباً وَ مَرْغُوباً إلَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ إلهَ الْحَقّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ ذَا النَّعْمَائ وَالْفَضْل: الْحَسَن الْجَميل لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ كَشّافَ الْكُرَب الْعظام لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ عَبْدُكَ وَ ابْنُ عَبْدَيْكَ لَبَّيْكَ، لَبَّيْكَ يا كَريمُ لَبَّيْكَ

مسئلہ ۱۰۱_ ايك مرتبہ تلبيہ كہنا واجب ہے ليكن جتنا ممكن ہو اس كا تكر ار كرنا مستحب ہے _

۷۰

مسئلہ ۱۰۲_ تلبيہ كى واجب مقدار كو عربى قواعد كے مطابق صحيح طور پر ادا كرنا واجب ہے پس صحيح طورپر قادر ہو تے ہوئے اگر چہ سيكھ كر يا كسى دوسرے كے دہروانے سے _غلط كافى نہيں ہے پس اگر وقت كى تنگى كى وجہ سے سيكھنے پر قادر نہ ہو اور كسى دوسرے كے دہروانے كے ساتھ بھى صحيح طريقے سے پڑھنے پر قدرت نہ ركھتا ہو تو جس طريقے سے ممكن ہو ادا كرے اور احوط يہ ہے كہ اسكے ساتھ ساتھ نائب بھى بنائے_

مسئلہ ۱۰۳_ جو شخص جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كردے تو اس كا حكم اس شخص والا حكم ہے جو جان بوجھ كر ميقات سے احرام كو ترك كردے جو كہ گزرچكا ہے _

مسئلہ ۱۰۴_ جو شخص تلبيہ كو صحيح طور پر انجام نہ دے اور عذر بھى نہ ركھتا ہو تو اس كا حكم وہى ہے جو جان بوجھ كر تلبيہ كو ترك كرنے كا حكم ہے _

مسئلہ ۱۰۵_ مكہ مكرمہ كے گھروں كو ديكھتے ہى _ اگر چہ ان نئے گھروں كو جو اس وقت مكہ كا حصہ شمار ہوتے ہيں _ تلبيہ كو ترك كردينا واجب ہے على الاحوط

۷۱

اور اسى طرح روز عرفہ كے زوال كے وقت تلبيہ كو روك دينا واجب ہے _

مسئلہ ۱۰۶_ حج تمتع ، عمرہ تمتع ، حج افراد اور عمرہ مفردہ كيلئے احرام منعقد نہيں ہو سكتا مگر تلبيہ كے ساتھ ليكن حج قران كيلئے احرام تلبيہ كے ساتھ بھى ہو سكتا ہے اور اشعار يا تقليد كے ساتھ بھى اور اشعار صرف قربانى كے اونٹ كے ساتھ مختص ہے ليكن تقليد اونٹ كو بھى شامل ہے اور قربانى كے ديگر جانوروں كو بھى _

مسلئہ ۱۰۷_ اشعار ہے اونٹ كى كہان كے اگلے حصے ميں نيزہ مار كر اسے خون كے ساتھ لتھيڑنا تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے اور تقليد يہ ہے كہ قربانى كى گردن ميں دھاگہ يا جوتا لٹكا دياجائے تا كہ پتا چلے كہ يہ قربانى ہے_

سوم : دو كپڑوں كا پہننا

اور يہ تہبند اور چادر ہيں پس محرم پر جس لباس كا پہننا حرام ہے اسے اتار كر انہيں پہن لے گا پہلے تہبند باندھ كر دوسرے كپڑے كو شانے پر ڈال

۷۲

لے گا _

مسئلہ ۱۰۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو احرام اور تلبيہ كى نيت سے پہلے پہن لے _

مسئلہ ۱۰۹_ تہبند ميں شرط نہيں ہے كہ وہ ناف اور گھٹنوں كو چھپانے والا ہو بلكہ اس كا متعارف صورت ميں ہونا كافى ہے _

مسئلہ ۱۱۰_ تہبند كا گردن پر باندھنا جائز نہيں ہے ليكن اسكے بكسوا (پن) اورسنگ و غيرہ كے ساتھ باندھنے سے كوئي مانع نہيں ہے اسى طرح اسے دھاگے كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _ (اگر چادر كے اگلے حصے كو باندھنا متعارف ہو) اسى طرح اسے سوئي اور پن كے ساتھ باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۱_ احوط وجوبى يہ ہے كہ دونوں كپڑوں كو قربةًالى اللہ كے قصد سے پہنے _

مسئلہ ۱۱۲_ ان دو كپڑوں ميں وہ سب شرائط معتبر ہيں جو نمازى كے

۷۳

لباس ميں معتبر ہيں پس خالص ريشم، حرام گوشت جانور سے بنا يا گيا ، غصبى اور اس نجاست كے ساتھ نجس شدہ لباس كافى نہيں ہے كہ جو نماز ميں معاف نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۳_ تہبند ميں شرط ہے كہ اس سے جلد نظر نہ آئے ليكن چادر ميں يہ شرط نہيں ہے جبتك چادر كے نام سے خارج نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۴_ دو كپڑوں كے پہننے كا وجوب مرد كے ساتھ مختص ہے اور عورت كيلئے اپنے كپڑوں ميں احرام باندھنا جائز ہے چاہے وہ سلے ہوئے ہوں يا نہ ،البتہ نمازى كے لباس كے گذشتہ شرائط كى رعايت كرنے كے ساتھ _

مسئلہ ۱۱۵_ شرط ہے كہ عورت كے احرام كا لباس خالص ريشم كا نہ ہو _

مسئلہ ۱۱۶_ دونوں كپڑوں ميں يہ شرط نہيں ہے كہ وہ بُنے ہوئے ہوں_ اور نہ بُنے ہوئے ميں يہ شرط ہے كہ وہ كاٹن يا اُون و غيرہ كا ہو بلكہ چمڑے ، نائلون يا پلاسٹك كے لباس ميں بھى احرام باندھنا كافى ہے البتہ اگر ان پر

۷۴

كپڑا ہونا صادق آئے اور ان كا پہننا متعارف ہو اسى طرح نمدے و غيرہ ميں احرام باندھنے سے بھى كوئي مانع نہيں ہے _

مسئلہ ۱۱۷_ اگرا حرام باندھنے كے ارادے كے وقت جان بوجھ كرسلا ہوا لباس نہ اتارے تو اسكے احرام كا صحيح ہونا اشكال سے خالى نہيں ہے پس احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے اتارنے كے بعد دوبارہ نيت كرے اور تلبيہ كہے_

مسئلہ ۱۱۸_ اگر سردى و غيرہ كى وجہ سے سلا ہوا لباس پہننے پر مجبور ہو تو قميص و غيرہ جيسے رائج لباس سے استفادہ كرنا جائز ہے ليكن اس كا پہننا جائز نہيں ہے بلكہ اسكے اگلے اور پچھلے حصے يا اوپرى اور نچلے حصے كو الٹا كركے اپنے اوپر اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۱۹_ محرم كيلئے حمام ميں جانے ، تبديل كرنے يا دھونے و غيرہ كيلئے احرام كے كپڑوں كا اتارنا جائز ہے _

مسئلہ ۱۲۰_ محرم كيلئے سردى و غيرہ سے بچنے كيلئے دوسے زيادہ كپڑوں كا

۷۵

اوڑھنا جائز ہے پس دو يا زيادہ كپڑوں كو اپنے شانوں كے اوپر يا كمركے ارد گرد اوڑھ لے _

مسئلہ ۱۲۱_ اگر احرام كا لباس نجس ہوجائے تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اسے پاك كرے يا تبديل كرے _

مسئلہ ۱۲۲_ احرام كى حالت ميں حدث اصغر يا اكبر سے پاك ہونا شرط نہيں ہے پس جنابت يا حيض كى حالت ميں احرام باندھنا جائز ہے ہاں احرام سے پہلے غسل كرنا مستحب مؤكد ہے اور اس مستحب غسل كو غسل احرام كہاجاتا ہے اور احوط يہ ہے كہ اسے تر ك نہ كرے_

۲_ احرام كے مستحبات

مسئلہ ۱۲۳_ مستحب ہے احرام سے پہلے بدن كا پاك ہونا ،اضافى بالوں كا صاف كرنا ،ناخن كاٹنا _ نيز مستحب ہے مسواك كرنا اور مستحب ہے احرام سے پہلے غسل كرنا ، ميقات ميں يا ميقات تك پہنچنے سے پہلے_ مثلاً مدينہ

۷۶

ميں _ اور ايك قول كے مطابق احوط يہ ہے كہ اس غسل كو ترك نہ كيا جائے اور مستحب ہے كہ نماز ظہر يا كسى اور فريضہ نماز يا دوركعت نافلہ نماز كے بعد احرام باندھے بعض احاديث ميں چھ ركعت مستحب نماز وارد ہوئي ہے اور اسكى زيادہ فضيلت ہے اور ذيقعد كى پہلى تاريخ سے اپنے سر اورداڑھى كے بالوں كو بڑھانا بھى مستحب ہے _

۳_ احرام كے مكروہات

مسئلہ ۱۲۴_ سياہ ،ميلے كچيلے اور دھارى دار كپڑے ميں احرام باندھنا مكروہ ہے اور بہتر يہ ہے كہ احرام كے لباس كا رنگ سفيد ہو اور زرد بستر يا تكيے پر سونا مكروہ ہے اسى طرح احرام سے پہلے مہندى لگانا مكروہ ہے البتہ اگر اس كا رنگ احرام كى حالت ميں بھى باقى رہے _اگر اسے كوئي پكارے تو ''لبيك'' كے ساتھ جواب دينا مكروہ ہے اور حمام ميں داخل ہونا اور بدن كو تھيلى و غيرہ كے ساتھ دھونا بھى مكروہ ہے _

۷۷

۴_ احرام كے محرمات

مسئلہ ۱۲۵_ احرام كے شروع سے لے كر جبتك احرام ميں ہے محرم كيلئے چند چيزوں سے اجتناب كرنا واجب ہے _ ان چيزوں كو '' محرمات احرام '' كہا جاتا ہے _

مسئلہ ۱۲۶_ محرمات احرام بائيس چيزيں ہيں _ان ميں سے بعض صرف مرد پر حرام ہيں _ پہلے ہم انہيں اجمالى طور پر ذكر كرتے ہيں پھر ان ميں سے ہر ايك كو تفصيل كے ساتھ بيان كريں گے اور ان ميں سے ہر ايك پر مترتب ہونے والے احكام كو بيان كريں گے_

احرام كے محرمات مندرجہ ذيل ہيں:

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

۲_ ايسى چيز كا پہننا جو پاؤں كے اوپر والے سارے حصے كو چھپالے

۳_ مرد كا اپنے سر كو اور عورت كا اپنے چہرے كو ڈھانپنا

۴_ سر پر سايہ كرنا

۷۸

۵_ خوشبو كا استعمال كرنا

۶_ آئينے ميں ديكھنا

۷_ مہندى كا استعمال كرنا

۸_ بدن كو تيل لگانا

۹_ بدن كے بالوں كو زائل كرنا

۱۰_ سرمہ ڈالنا

۱۱_ ناخن كاٹنا

۱۲_ انگوٹھى پہننا

۱۳_ بدن سے خون نكالنا

۱۴_ فسوق ( يعنى جھوٹ بولنا ، گالى دينا ، فخر كرنا)

۱۵_جدال جيسے ''لا واللہ _ بلى واللہ ''كہنا

۱۶_ حشرات بدن كومارنا

۱۷_ حرم كے درختوں اور پودوں كواكھيڑنا

۱۸_ اسلحہ اٹھانا

۷۹

۱۹_ خشكى كا شكار كرنا

۲۰_ جماع كرنا اور شہوت كو بھڑ كانے والا ہر كام جيسے شہوت كے ساتھ

ديكھنا بوسہ لينا اور چھونا

۲۱_نكاح كرنا

۲۲_استمنا كرنا

مسئلہ ۱۲۷_ ان ميں سے بعض محرمات ويسے بھى حرام ہيں اگر چہ محرم نہ ہو ليكن احرام كى حالت ميں ان كاگناہ زيادہ ہے_

محرمات احرام كے احكام :

۱_ سلے ہوئے لباس كا پہننا

مسئلہ ۱۲۸_ احرام كى حالت ميں مردپر سلے ہوئے كپڑوں كا پہننا حرام ہے اور اس سے مراد ہر وہ لباس ہے كہ جس ميں گردن ، ہاتھ يا پاؤں داخل

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تیسری فصل

مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی طاقت کی طرف سے جواب

جنگ خندق میں مشرک کی طاقتوں کا اتحاد

۵ھ ختم ہوا چاہتا ہے، پورا سال بحران اور فوجی کاروائیوں میں گذرا ، مسلمان ان حالات سے گذر گئے ان جنگوں کا مقصد نئی اسلامی حکومت کے نظام کا دفاع کرنا اور مدینہ میں امن و امان قائم کرنا تھا۔ دین اور اسلامی حکومت کی دشمنی میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات کے مختلف پہلو اوران کی جداگانہ نوعیت تھی ان چیزوں سے اور اپنی یکجہتی و اتحاد کے ذریعہ یہودیوں نے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لہذاانہوں نے دشمنی کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ جزیرة العرب سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے چنانچہ جب مشرکین نے ان یہودیوں سے یہ معلوم کیا کہ دین اسلام افضل ہے یا شرک؟ تو انہوںنے کہا: بت پرستی دین اسلام سے بہتر ے( ۱ ) اس طرح وہ مشرک قبیلوں کو جمع کرنے، انہیں جنگ پر اکسانے اور حکومت اسلامی کے پائے تخت مدینہ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہو گئے؛ دیکھتے ہی دیکھے یہ خبر معتبر و موثق لوگوں کے ذریعہ رسول(ص) تک پہنچ گئی جو کہ ہر سیاسی تحریک کواچھی طرح سمجھتے تھے اوربہت زیادہ بیدار و تیز بیں تھے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے رسول(ص) نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا، مشورہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدینہ کے میدانی رقبہ میں خندق کھود دی جائے، رسول(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کام تقسیم کر دیا ،

____________________

۱۔ جیسا کہ سورۂ نساء آیت ۵۱ میں بیان ہوا ہے ۔

۱۶۱

خندق کھودنے میں آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے اور انہیں اس طرح ابھارتے تھے:

''لا عیش الا عیش الآخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرة'' ۔( ۱ )

زندگی تو بس آخرت ہی کی ہے اے اللہ انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔

اگر چہ اس کام میں مخلص مسلمانوں نے ہمت و ثابت قدمی کا اظہار کیا تھا لیکن کام چور اور منافقین نے اس موقعہ پر بھی اپنا ہاتھ دکھا دیا۔

مختصر یہ کہ دس ہزار سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل مشرکین کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا لیکن خندق کی وجہ سے وہ باہر ہی رہے ۔ اس دفاعی طریقہ کار کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں تھے۔ رسول(ص) تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ نکلے اور سلع پہاڑ کے دامن میں پڑائو ڈالا۔ اور کسی بھی اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے لوگوں میںذمہ داری اور کام تقسیم کر دئیے۔

مشرکین کی فوجیں تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہیں مگر مدینہ میں داخل نہیں ہو سکیں یہ مسلمانوں کے لئے بہترین جگہ تھی۔ ان کے پاس ایک ہی سورما تھا اور وہ تھے علی بن ابی طالب جب علی بن ابی طالب عرب کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبد ودسے مقابلہ کے لئے نکلے اور کوئی مسلمان اس کے مقابلہ میں جانے کے لئے تیار نہ ہوا تو رسول(ص) نے حضرت علی کی شان میں فرمایا:

''برز الایمان کله الیٰ الشرک کله'' ( ۲ )

آج کل ایمان کل شرک کے مقابلہ میں جا رہا ہے ۔

مشرکین نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے مدد مانگی حالانکہ انہوںنے رسول(ص) سے یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہونگے، رسول(ص) کو یہود کے جنگ میں شریک ہونے اورمسلمانوں

____________________

۱۔ البدایة و النہایة ، ابن کثیر ، ج۴ ص ۹۶، مغازی ج۱ ص ۴۵۳۔

۲۔ احزاب: ۱۲تا ۲۰۔

۱۶۲

مسلمانوں کے خلاف داخلی محاذ کھولنے کا یقین ہو گیا لہذا آپ(ص) نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس خبر کی تحقیق کریں انہوںنے بتایا کہ خبر صحیح ہے اس پر رسول(ص) نے تکبیر کہی :''اللہ اکبر ابشروا یا معاشر المسلمین بالفتح''،( ۱ ) اللہ بزرگ و برتر ہے اور اے مسلمانو! تمہیں فتح مبارک ہو۔

مسلمانوں کے مشکلات

محاصرہ کے دوران مسلمان یقینا بہت سی مشکلوں سے دوچار ہوئے تھے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

۱۔ کھانے کی اشیاء کی قلت تھی بلکہ مسلمانوں پر بھوک کے سائے منڈلانے لگے تھے۔( ۱ )

۲۔موسم بہت سخت تھا، سردی کی طویل راتوں میںشدید ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔

۳۔منافقوںنے مسلمانوںکی صفوں میں نفسیاتی جنگ بھڑکادی تھی وہ انہیںجنگ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں ثابت قدم رہنے سے انہیں ڈراتے تھے ۔

۴۔ محاصرہ کے زمانہ میںمسلمان اس خوف سے سو نہیں سکتے تھے کہ حملہ نہ ہو جائے، اس سے وہ جسمانی طور پر کمزور ہو گئے تھے اس کے علاوہ مشرکین کی فوجوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بھی کم تھی۔

۵۔ بنی قریظہ کی غداری، اس سے مسلمانوں کے لئے داخلی خطرہ پیدا ہو گیاتھا اورچونکہ ان کے اہل و عیال مدینہ میں تھے اس لئے وہ ان کی طرف سے فکر مند تھے۔

دشمن کی شکست

مشرکین کی فوجوں کے مقاصد مختلف تھے، یہودی تو یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں ان کا جو اثر و رسوخ تھا وہ واپس مل جائے جبکہ قریش کو رسول(ص) اور آپ(ص) کی رسالت ہی سے عداوت تھی، غطفان،فزارہ وغیرہ کو خیبر کی

____________________

۱۔المغازی ج۱ ص ۴۵۶، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۲۲۔

۲۔مغازی ج۲ ص ۴۵۶،۴۷۵، ۴۸۹۔

۱۶۳

پیداوار کی طمع تھی ، یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ دوسری طرف محاصرہ کی مدت درازہونے کی وجہ سے مشرکین فوجیںبھی اکتا گئی تھیں وہ مسلمانوں کے طرز تحفظ اور ان کی ایجاد سے بھی محو حیرت تھیں، اس وقت مشرکین کی فوجوں اور یہودیوں کی حالت کو نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیان کیا تھا وہ خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ(ص) جو چاہیں مجھے حکم دیں: رسول(ص) نے فرمایا: ہمارے درمیان تم ایک ہی آدمی ہو لہذا جہاں تک تم سے ہو سکے انہیں جنگ میں پسپا ہوجانے کی ترکیب کرنا کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے ۔

خدا کی طرف سے مشرکین کی فوجوں کو شدید آندھی نے آ لیا جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان کی دیگوں کو الٹ دیا، اس صورت حال کو دیکھ کر قریش پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ابو سفیان نے قریش سے کہا بھاگ چلو چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ لے گئے ان کے ساتھ دوسرے قبیلے بھی کوچ کر گئے صبح تک ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔

( و کفٰی اللّه المومنین القتال ) ( ۱ )

غزوۂ بنی قریظہ اور مدینہ سے یہودیوں کا صفایا

جنگ خندق کے دوران قریظہ کے یہودیوں نے اپنے دل میں چھپی ہوئی اسلام دشمنی کو آشکار کر دیا اگر مشرکین فوجوں کو خدا نے ذلیل و رسوا نہ کیا ہوتا تو بنی قریظہ کے یہودیوں نے مسلمانوں کی پشت میں چھرا بھونک دیا ہوتاتھا اب رسول(ص) کے لئے ضروری تھا کہ ان کی خیانت کا علاج کریں ۔ لہذا رسول(ص) نے قبل اس کے کہ مسلمان آرام کریں، یہ حکم دیا کہ مسلمان یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کریں، اس سے نئی فوجی کاروائی کی اہمیت کو بھی ثابت کرنا تھا چنانچہ منادی نے مسلمانوں کو ندا دی جو مطیع سامع ہے اسے چاہئے کہ نمازِ عصر بنی قریظہ میں پڑھے۔( ۲ )

____________________

۱۔ اس موقعہ پر سورة احزاب نازل ہوا جس میں جنگ خندق کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔

۲۔ طبری ج۳ ص ۱۷۹۔

۱۶۴

رسول(ص) نے پرچم حضرت علی کو عطا کیا مسلمان بھوک و بیداری اور تکان کے ستائے ہوئے تھے اس کے باوجود وہ حضرت علی کی قیادت میں روانہ ہو گئے...یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ ان کا محاصرہ کر رہے ہیں تو ان پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ نبی (ص) جنگ کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔

یہودیوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو بلایا-وہ ان کے حلیفوں میں سے ایک تھاتاکہ اس سلسلہ میں اس سے مشورہ کریں لیکن جب اس نے ان سے وہ بات بتائی جو ان کے سامنے آنے والی تھی تو چھوٹے بڑے یہودی رونے لگے( ۱ ) اور یہ پیشکش کی کہ انہیں ان کی گذشتہ خیانت کی سزا نہ دی جائے بلکہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے رسول(ص) نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ خدا اور اس کے رسول(ص) کے حکم کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔

اوس نے رسول(ص) کی خدمت میں یہودیوں کی سفارش کی توآپ(ص) نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں اپنے اور تمہارے حلیف-یہودیوں کے درمیان تمہیںمیں سے ایک شخص کو حکم بنا دوں؟ انہوں نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول(ص) ہمیں یہ منظور ہے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان -یہودیوں-سے کہہ دو کہ اوس میں سے جس کوچاہیں منتخب کر لیں چنانچہ یہودیوںنے سعد بن معاذ کواپنا حکم منتخب کیا۔( ۲ ) یہ یہودیوں کی بد قسمتی تھی کیونکہ جب مشرکین کی فوجوںنے مدینہ کا محاصرہ کیا تھا اس وقت سعد بن معاذ یہودیوں کے پاس گئے تھے اور ان سے یہ خواہش کی تھی کہ تم غیر جانب دار رہنا لیکن یہودیوںنے ان کی بات نہیں مانی تھی۔ اس وقت سعد بن معاذزخمی تھے۔ انہیں اٹھا کر رسول(ص) کی خدمت میں لایا گیا رسول(ص) نے ان کا استقبال کیا اور موجود لوگوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کا استقبال اور ان کی تعظیم کرو انہوںنے بھی استقبال کیا اس کے بعد سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں ، بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۹، ارشاد ص ۵۰۔

۱۶۵

کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے وہی فیصلہ کیا ہے جو خدا نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے ۔( ۱ )

پھر رسول(ص) نے بنی قریظہ کا مال خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مسلمانوں کے سپرد کردیا، سواروں کو تین حصے اور پیادوں کو ایک حصہ دیا، خمس زید بن حارثہ کو عطا کیا اور یہ حکم دیا کہ اس سے گھوڑا، اسلحہ اور جنگ میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدلو تاکہ آئندہ مہم میں کام آئے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۰، مغازی ج۲ ص ۵۱۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۱۔

۱۶۶

پانچواں باب

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

دوسری فصل

اسلام کی تبلیغ جزیرة العرب سے باہر

تیسری فصل

جزیرة العرب سے بت پرستی کا خاتمہ

چوتھی فصل

حیات رسول(ص) کے آخری ایام

پانچویں فصل

اسلامی رسالت کے آثار

چھٹی فصل

خاتم الانبیاء (ص) کی میراث

۱۶۷

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

۱۔ صلح حدیبیہ

ہجرت کا چھٹا سال ختم ہونے والا ہے ۔ مسلمانوںکا یہ سال مسلسل جہاد اور دفاع میں گذرا ہے ، مسلمانوں نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت ، انسان سازی ، اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اسلامی تہذیب کی داغ بیل ڈالنے کے لئے بہت جانفشانی کی ہے ۔ جزیرة العرب کا ہر شخص اس دین کی عظمت سے واقف ہو گیا ہے اور یہ جانتاہے کہ اسے مٹانا آسان کام نہیں ہے ۔سیاسی و فوجی اعتبار سے قریش جیسی عظیم طاقت-یہود اور دوسرے مشرکین سے جنگ میں الجھنا بھی اسلام کی نشر و اشاعت اوراس کے مقاصد میں کامیابی کو نہیں روک سکا ۔

خانۂ کعبہ کسی ایک کی ملکیت نہیں تھا اور نہ کسی مذہب سے مخصوص تھا نہ خاص عقیدہ رکھنے والوں سے متعلق تھا ہاں اس میں کچھ بت و صنم رکھے ہوئے تھے ان کے ماننے والے ان کی زیارت کرتے تھے۔ مگر قریش کے سر کشوںکو یہ ضد تھی کہ رسول اور مسلمانوں کو حج نہیں کرنے دیں گے ۔

اس زمانہ میں رسول(ص) نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام کے خلاف قریش کا جو موقف تھا اب اس میں پہلی سی شدت نہیں رہی ہے لہذا آپ(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ عمرہ کے دوران اسلام کی طرف دعوت دی جا ئے ، اسلامی عقائد کی وضاحت کی جا ئے اور یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام خانۂ کعبہ کو مقدس و محترم سمجھتا ہے ۔ اس مرحلہ میںرسول(ص) دفاعی صورت سے نکل کر حملہ و ہجوم کی صورت میں آنا چاہتے تھے۔

۱۶۸

رسول(ص) اور آپ(ص) کے اصحاب نے دشوار راستہ سے سفر کیا۔ پھر حدیبیہ نامی ہموار زمین پر پہنچے تو رسول(ص) کاناقہ بیٹھ گیا آپ(ص) نے فرمایا:''ماهذا لها عادة ولکن حبسها حابس الفیل بمکة'' ۔( ۱ ) اس کی یہ عادت نہیں ہے لیکن اسے اسی ذات نے بٹھایا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا۔ پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو سواریوں سے اترنے کا حکم دیا اور فرمایا:''لاتدعونی قریش الیوم الیٰ خطة یسالوننی فیها صلة الرحم الا اعطیهم ایاها'' ۔( ۲ )

اگر آج قریش مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں اسے ضرور پورا کر دوںگا۔ مگر قریش مسلمانوںکی گھات ہی میںرہے اوران کے سواروںنے مسلمانوں کا راستہ روک دیا اس کے بعد قبیلۂ خزاعہ کے کچھ افراد پر مشتمل ایک وفد رسول(ص) کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ نبی(ص) کی آمد کا مقصد کیا ہے اس وفد کی سربراہی بدیل بن ورقاء کر رہا تھاان لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں۔ یہ وفد واپس آیا اور قریش کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نبی (ص) کا مقصد خیر سگالی اور عمرہ بجالانا ہے لیکن قریش نے اس کی بات پر کان نہ دھرے بلکہ حلیس کی سرکردگی میں ایک اور وفد روانہ کیا۔ جب رسول(ص) نے اس وفد کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ خدا پرست قوم سے تعلق رکھتا ہے ، چنانچہ حلیس قربانی کے اونٹوں کو دیکھتے ہی رسول(ص) سے ملاقات کئے بغیر واپس چلا گیا تاکہ قریش کو اس بات سے مطمئن کر ے کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کرنے آئے ہیں۔ مگر قریش ان کی بات سے بھی مطمئن نہ ہوئے اور مسعود بن عروہ ثقفی کو بھیجا اس نے دیکھا کہ مسلمان رسول(ص) کے وضو کے پانی کا قطرہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے بلکہ اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے ہیں وہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے قریش کے لوگو! میں نے کسریٰ کو اس کے ملک(ایران)میں اور قیصر کو اس کے ملک(روم)میں اور نجاشی کو اس کے ملک حبشہ میں دیکھا ہے خدا کی قسم !میں نے کسی بادشاہ کو اپنی قوم میں اتنا معزز نہیں پایا جتنے معزز اپنے اصحاب میں محمد ہیں، میں نے ان کے پاس ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کسی بھی طرح ان سے جدا نہیں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۰ص ۲۲۹ ۔

۲۔طبری ج۳ ص ۲۱۶۔

۱۶۹

ہونگے۔ اب تم غور کرو۔( ۱ )

رسول(ص) نے حرمت کے مہینوں کے احترام میںمسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اپنے اس عبادی سفر میں اپنے ساتھ اسلحہ نہ لے جانا ہاںمسافر جیسا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو۔ اسی طرح مدینہ کے آس پاس بسنے والے قبائل سے یہ فرمایا: اس سفر میں تم بھی مسلمانوں کے ساتھ چلو، حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے، تاکہ دنیا کو یہ بتا دیں کہ دوسری طاقتوں سے اسلام کے روابط جنگ کی بنیاد پر ہی استوار نہیں ہیں۔

رسول(ص) نے -کم سے کم-چودہ سو مسلمان سپاہی جمع کئے اور قربانی کیلئے ستر اونٹ بھیجے۔ قریش کو بھی یہ خبر ہو گئی کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کی غرض سے روانہ ہو چکے ہیں، اس سے قریش میں بے چینی بڑھ گئی۔ ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیدیں ، کہ اس سے مسلمانوں کی آرزو پوری ہو جائیگی وہ خانہ ٔ کعبہ کی زیارت کر لیں گے اور وہ اپنے خاندان والوں سے ملاقات کر لیں گے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ یا قریش مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں، لیکن اس سے قریش کی وضعداری کو دھچکا لگے گا اور دوسری قومیں انہیں اس بات پر ملامت کریں گی کہ تم نے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کیا جو مناسک عمرہ بجالانا اور کعبہ کی تعظیم کرنا چاہتے تھے۔

قریش نے سرکشی اور مخاصمت کا راستہ اختیار کیا، رسول(ص) اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے خالد بن ولید کی سرکردگی میں دو سو سواربھیجے جبکہ رسول(ص) احرام کی حالت میں نکلے تھے نہ کہ جنگ کرنے کی غرض سے اس صورت حال کو دیکھ کر آنحضرت (ص) نے فرمایا:

''یا ویح قریش لقد اکلتهم الحرب ماذا علیهم لو خلوا بینی و بین العرب فان هم اصابونی کان الذی ارادوا و ان اظهرنی الله علیهم دخلوا فی الاسلام وافرین وان لم یفعلوا قاتلوا بهم قوة فما تظن قریش؟ فوالله لا ازال اجاهد علیٰ الذی بعثنی اللّٰه به حتی یظهره اللّٰه او تنفرد هذه السالفة''

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۵۹۸۔

۱۷۰

افسوس ہے قریش کے اوپر کہ جنگ نے انہیں تباہ کر دیا، اگر وہ مجھے دوسرے اعراب کے درمیان چھوڑ دیتے اور وہ مجھ پر کامیاب ہو جاتے تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا اوراگر میں ان پر فتحیاب ہوتا تو یا وہ اسلام قبول کرتے یا اپنی محفوظ طاقت کے ساتھ مجھ سے جنگ کرتے لیکن نہ جانے قریش کیا سمجھے ہیں؟ خدا کی قسم میں اس اسلام کے لئے ہمیشہ جنگ کرتارہونگا جس کے لئے خدا نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ خدا مجھے کامیاب کرے ، میں اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔

پھر آپ(ص) نے جنگ سے احتراز کرتے ہوئے قریش کے سواروں سے بچ کر نکلنے کا حکم دیا۔ اس راستہ پر چلنے سے قریش کے سواروں کے ہاتھ ایک بہانہ آجاتا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خراش بن امیہ خزاعی کو قریش سے گفتگو کے لئے روانہ کیا لیکن قریش نے ان کے اونٹ کو پے کر دیا قریب تھا کہ انہیں قتل کر دیتے، قریش نے کسی رواداری اور امان کا لحاظ نہیں کیا۔ کچھ دیر نہ گذری تھی کہ قریش نے پچاس آدمیوں پر یہ ذمہ داری عائد کر دی کہ تم مسلمانوں کے اطراف میں گردش کرتے رہو اور ممکن ہو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرلو، حالانکہ یہ چیز صلح کے منافی تھی اس کے باوجود ان کا وہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا،لیکن رسول(ص) نے انہیں معاف کر دیا اور اپنی صلح پسندی کو ظاہر و ثابت کر دیا۔( ۱ )

آنحضرت (ص) نے سوچا کہ قریش کے پاس دوسرا نمائندہ بھیجا جائے، حضرت علی بن ابی طالب کو نمائندہ بنا کر نہیں بھیج سکتے تھے کیونکہ اسلام سے دفاع کے سلسلہ میں ہونے والی جنگوں میں علی نے عرب کے سورمائوں کو قتل کیا تھالہذا اس مہم کو سر کرنے کے لئے عمر بن خطاب سے فرمایا لیکن انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ قریش انہیں قتل کر دیں گے حالانکہ عمر نے قریش میں سے کسی ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کیا تھا پھر بھی انہوں نے رسول(ص) سے یہ درخواست کی کہ عثمان بن عفان کو بھیج دیجئے( ۲ ) کیونکہ وہ اموی ہیں اور ابو سفیان سے ان کی قرابت بھی ہے ۔ عثمان نے لوٹنے میں تاخیر کی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس سے مکہ میں داخل ہونے

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۲۲۳ ۔

۲۔ سیرت نبیویہ ج۲ ص ۳۱۵۔

۱۷۱

کی جو مصالحت آمیز کوششیں ہوئی تھیں وہ سب ناکام ہو گئیں۔ رسول(ص) نے دیکھا کہ جنگ کی تیاری بھی نہیں ہے اسی موقعہ پر بیعت رضوان ہوئی ، آنحضرت (ص) ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے اور اصحاب نے اس بات پر آپ(ص) کی بیعت کی کہ جو بھی ہوگا ہم ثابت قدمی و استقامت سے کام لیں گے۔ عثمان کے واپس آنے سے مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور قریش نے رسول(ص) سے گفتگو کے لئے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔

صلح کے شرائط

صلح کے شرائط کے سلسلہ میں سہیل چونکہ سخت تھا اس لئے قریب تھا کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں مگرآخر میں درج ذیل شرائط صلح پر فریقین متفق ہو گئے:

۱۔ فریقین عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس عرصہ میں لوگ امان میں رہیں گے اور کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا۔

۲۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد(ص) کے پاس آئیگا تو اسے واپس لوٹایا جائیگا لیکن اگر کوئی شخص محمد (ص) کی طرف سے قریش کے پاس آئیگا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

۳۔ جو شخص محمد کے معاہدہ میں شامل ہونا چاہے وہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور جو قریش کے معاہدہ میں داخل ہونا چاہئے وہ اس میں داخل ہو سکتا ہے ۔

۴۔ اس سال محمد اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ واپس جائیں گے مکہ میں داخل نہیں ہونگے ہاں آئندہ سال مکہ میں داخل ہونگے اور تین دن تک قیام کریں گے ،اس وقت ان کے پاس صرف مسافر کا اسلحہ تلوار ہوگی کو بھی نیام میں رکھیں گے۔( ۱ )

۵۔ کسی پر یہ دبائو نہیں ڈالا جائیگا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دے اور مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے، مکہ میں اسلام ظاہر و آشکار ہوگا نہ کوئی کسی کو اذیت دے گا اور نہ برا کہے گا۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۳ ص۲۱۔

۲۔بحار الانوارج۲۰ص۳۵۲۔

۱۷۲

۶۔چوری اور خیانت کا ارتکاب نہیں کیا جائیگا بلکہ فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کے اموال کو محترم سمجھے گا۔( ۱ )

۷۔قریش محمد(ص) اور ان کے اصحاب پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔( ۲ )

بعض مسلمان صلح کے شرائط سے راضی نہیں ہوئے چنانچہ انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ نبی (ص) قریش سے ڈرگئے ہیں آپ(ص) پر اعتراض کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ نبی (ص) خدا کی طرف سے خیر پر ہیں اور اسی رسالت اور اس کے عظیم فوائد کو مستقبل سے آگاہ نظر سے دیکھتے ہیں رسول(ص) نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:''انا عبد اللّٰه و رسوله لن اخالف امره و لن یضیعنی'' میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول(ص) ہوں میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرونگا اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ رسول(ص) نے انہیں شرائط کو برقرار رکھا جو مسلمانوں کو پسند نہیں تھے۔ ابو جندل کو قریش کے حوالے کرنے سے( ۳ ) کشیدگی پیدا ہو گئی، بعض تونفسیاتی الجھن میں مبتلا ہو گئے۔

لیکن یہ صلح ،ان لوگوں کے نظریہ کے بر خلاف جو صلح کے شرائط کا دوسرا مفہوم سمجھ رہے تھے، مسلمانوں کے لئے کھلی اور عظیم فتح تھی کیونکہ صلح کے شرائط تھوڑی ہی مدت کے بعد مسلمانوں کے حق میں ہو گئے تھے ۔

جب آپ(ص) مدینہ واپس آ رہے تھے اس وقت قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل ہوئیں( ۴ ) جن سے بت پرستوں کے سردار سے کی گئی صلح کے حقیقی پہلو آشکار ہوئے اور مستقبلِ قریب میں مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔

____________________

۱۔مجمع البیان ج۹ ص ۱۱۷۔

۲۔ بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۵۲۔

۳۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱، سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۵۲۔

۴۔ فتح ۱،۱۸،۲۸۔

۱۷۳

صلح کے نتائج

۱۔ قریش نے مسلمانوں کے نظام کو ایک فوجی ، منظم سیاسی اور نئی حکومت کے عنوان سے تسلیم کر لیا۔

۲۔ مشرکوں اور منافقوں کے دل میں رعب بیٹھ گیا، ان کی طاقت گھٹ گئی اور ان میں مقابلہ کی طاقت نہ رہی۔

۳۔صلح و آرام کے اس زمانہ میں اسلام کی نشر و اشاعت کی فرصت ملی جس کے نتیجہ میں بہت سے قبیلے اسلام میں داخل ہو گئے؛ رسول(ص) کی اسلامی رسالت کے آغاز ہی سے یہ آرزو تھی کہ قریش آپ کو اتنی مہلت و فرصت دیدیں کہ جسمیں آپ(ص) آزادی کے ساتھ اپنا راستہ طے کر سکیں اور اطمینان کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے اسلام کی وضاحت کر سکیں۔

۴۔ مسلمانوںکو قریش کی طرف سے سکون مل گیا تو یہودیوں اور دوسرے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ہمہ تن تیار ہوئے۔

۵۔قریش سے صلح کے بعد ان کے حلیفوں کے لئے یہ آسان ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے موقف کو سمجھیں اور ان کے پاس آئیں۔

۶۔ صلح ہو جانے سے نبی(ص) کو یہ موقع ملا کہ آپ(ص)دیگر ممالک کے بادشاہوں اورسربراہوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور غزوہ موتہ کی تیاری کریں تاکہ جزیرةالعرب سے باہر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔

۷۔ صلح کی وجہ سے آنے والے مرحلے میں فتحِ مکہ کا راستہ ہموار ہو گیا ،مکہ اس زمانہ میں بت پرستی کا اڈہ تھا۔

۲۔اسلامی رسالت کی توسیع

زمانہ ٔماضی میں قریش اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ رسول(ص) اور مسلمان دفاعی جنگوں، اپنی حفاظت اور اسلامی حکومت اور اس کے معاشرہ کی تشکیل میں چند سال تک مشغول رہے ۔

۱۷۴

اس عہد میں آپ (ص) اپنی آسمانی عالمی اور تمام ادیان کو ختم کرنے والی رسالت کی آزادی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکے تھے لیکن صلح حدیبیہ کے صلح نامہ پر دستخط ہو جانے کے بعد رسول(ص) قریش کی طرف سے مطمئن ہو گئے اور اس صلح سے رسول(ص) کو یہ موقع مل گیا کہ آپ(ص) جزیرة العرب کے اطراف میں بسنے والی بڑی طاقتوں اور خطۂ عرب کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندے بھیجیں تاکہ وہ ان کے سامنے الٰہی قوانین کو بیان کریں اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔

روایت ہے کہ آپ(ص) نے اپنے اصحاب کے در میان فرمایا:

''ایها النّاس ان اللّٰه قد بعثنی رحمة و کافة فلا تختلفوا علّ کما اختلف الحواریون علیٰ عیسیٰ بن مریم'' ۔

اے لوگو! مجھے خدا نے رحمت بنا کر بھیجا ہے پس مجھ سے اس طرح اختلاف نہ کرو جس طرح حواریوں نے عیسیٰ سے کیا تھا اصحاب نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ فرمایا:

''دعاهم الیٰ الذی دعوتکم الیه فاَما من بعثه مبعثا قریباً ترضی و سلّم و اما من بعثه مبعثا بعیداً فکره وجهه و تثاقل'' ۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ نے انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف میں نے تمہیں دعوت دی ہے جس کو انہوں نے قریب کی ذمہ داری سپرد کی تھی وہ تو خوش ہو گیا اور اس ذمہ داری کوتسلیم کر لیا اور جس کے سپرد دور کی ذمہ داری کی تھی وہ ناخوش رہا اور اسے بوجھ محسوس ہوا۔

ہدایت و دعوت کے نمائندے رسول(ص) کے امر کو دنیا کے مختلف گوشوں میں لے گئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۶۰۶، طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۲۶۴۔

۲۔اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے بادشاہوں کو جو خطوط روانہ کئے تھے علماء اسلام نے ان کی تعداد ۱۸۵ بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسول(ص)، از علی بن حسین احمدی۔

۱۷۵

۳۔ جنگ خیبر( ۱ )

اپنی حقیقی جد و جہد، اعلیٰ تجربہ ، بے مثال شجاعت اور تائید الٰہی کے سبب رسول(ص) نے مسلمانوں کو آزاد خیالی ، ثبات و نیکی کے بام عروج پر پہنچا دیا، ان کے اندر صبر اور ایک دوسرے سے ربط و ضبط کی روح پھونک دی...اس طرح رسول(ص) نے اپنے قرب و جوار کے سرداروں کے پاس خطوط اور نمائندے بھیج کر جزیرة العرب سے باہر بھی لوگوں تک اپنی آسمانی رسالت پہنچا دی۔

رسول(ص) اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ آپ(ص) کے اس اقدام کے مختلف رد عمل ہونگے ان میں سے بعض مدینہ میں موجود یہو دو منافقین ، جن کی خیانتوں اور غداریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،کی مدد سے مدینہ پر فوجی حملے ہوںگے ۔

خیبر یہودیوں کا مضبوط قلعہ اور عظیم مرکز تھا لہذا رسول(ص) نے یہ طے کیا کہ اس باقی رہ جانے والے سرطان کا صفایا کر دیا جائے چنانچہ حدیبیہ سے لوٹنے کے کچھ دنوں کے بعد سولہ سو افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک لشکر تیار کیا اور یہ تاکید فرمائی کہ غنیمت کے لالچ میں ہمارے ساتھ کوئی نہ آئے ۔ فرمایا:''لا یخرجن معنا الا راغب فی الجهاد'' ( ۲ ) ہمارے ساتھ وہی آئے جو شوقِ جہاد رکھتا ہو۔

رسول(ص) نے کچھ لوگوں کو یہودیوں کے حلیفوں کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں ان کی مدد کرنے سے روکیں تاکہ مزید جنگ و خونریزی نہ ہو مسلمانوں نے بہت جلد یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا ۔ علی بن ابی طالب ان میں سب سے پیش پیش تھے آپ ہی کے دست مبارک میں پرچم رسول(ص) تھا۔

یہودی اپنے مضبوط قلعوں میں جا چھپے اس کے بعد کچھ معرکے ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بعض اہم مقامات پر قبضہ کر لیا، لیکن جنگ نے شدت اختیار کر لی اور محاصرہ کا زمانہ طویل ہو گیا۔ مسلمانوں کے سامنے خوراک کا مسئلہ آ گیا اور مسلمان مکروہ چیزیں کھانے کے لئے مجبور ہو گئے۔

____________________

۱۔ جنگ خیبر ماہ جمادی الاخریٰ ۷ھ میں ہوئی ، ملاحظہ ہو طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۷۷۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۶۔

۱۷۶

رسول(ص) نے بعض صحابہ کو علم دیا کہ انہیں کے ہاتھ پر فتح ہو جائے لیکن وہ میدان سے بھاگ آئے جب مسلمان عاجزآگئے تو رسول(ص) نے فرمایا:

''لاعطینّ الرّایة غداً رجلاً یحب اللّه و رسوله و یحبه اللّه و رسوله کراراً غیرا فرار لا یرجع حتی یفتح اللّه علیٰ یدیه'' ( ۱ )

میں کل اس مرد کو علم دونگا جو خد اور رسول(ص) سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کے حملہ کرے گا، میدان سے نہیں بھاگے گا، وہ اسی وقت میدان سے پلٹے گا جب خدا اس کے دونوں ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔

دوسرے روز رسول(ص) نے علی کو بلایا اور آپ کو علم عطا کیا اور آپ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئی ، رسول(ص) اور سارے مسلمان خوش ہو گئے اور جب باقی یہودسپر انداختہ ہو گئے تو رسول(ص) نے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ آپ کو اپنے باغوں اور کھیتوں کا نصف محصول بطور جزیہ دیا کریں گے ظاہر ہے فتح کے بعد وہ باغات اور کھیت رسول(ص) کی ملکیت بن گئے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ رسول(ص) نے بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریظہ جیسا سلوک نہیں کیا کیونکہ مدینہ میں یہودیوں کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہ گئی تھی ۔

۴۔ آپ(ص) کے قتل کی کوشش

ایک گروہ نے خفیہ طریقہ سے رسول(ص) کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تاکہ وہ اپنی دشمنی کی آگ کو بجھائیں اور چھپے ہوئے کینہ کو تسکین دے سکیں لہذا-سلام بن مشکم یہودی کی زوجہ- زینب بنت حارث نے رسول(ص) کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری ہدیہ کی جس میں اس نے زہر ملا دیا تھا اور چونکہ وہ جانتی تھی کہ رسول(ص) کو ران کا گوشت پسند تھا لہذا اس میں زیادہ زہر ملایاتھا۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، صحیح مسلم ج۱۵ ص ۱۷۶ و ۱۷۷، فضائل الصحاب ج۲ ص ۶۰۳، مسند امام احمد ج۳ ص ۳۸۴، مواہب اللّدنیہ ج۱ ص ۲۸۳، استیعاب ج۳ ص ۲۰۳، کنز العمال ج۱۳ ص ۱۲۳۔

۱۷۷

آنحضرت(ص) کے سامنے یہ بھنی بکری پیش کی گئی اور آپ(ص) نے اس کی اگلی ران اٹھائی اور ایک بوٹی چبائی لیکن اسے نگلا نہیں، بلکہ تھوک دیا جبکہ بشر بن براء بن معرور بوٹی نگلتے ہی مر گیا۔

یہودی عورت نے اپنے اس جرم کا یہ کہہ کر اعتراف کر لیا کہ میں آپ(ص) کا امتحان لینا چاہتی تھی کہ آپ(ص) بنی ہیں یا نہیں رسول(ص) نے اسے معاف کر دیا اور جو مرد اس سازش میں شریک تھے ان سے رسول(ص) نے کوئی تعرض نہ کیا۔( ۱ )

۵۔ اہل فدک کی خود سپردگی

حق و عدالت کے دبدبے سے خیانت کاری کے مرکز تباہ ہو گئے جب خدا نے رسول(ص) کو خیبر میں فتح عطا کی تو اس کے بعد خدانے فدک والوں کے دلوں میں آپ کا رعب پیدا کر دیا چنانچہ انہوںنے رسول(ص) کی خدمت میں ایک وفد روانہ کیا تاکہ وہ رسول(ص) سے اس بات پر صلح کرے کہ اہل فدک اسلامی حکومت کے زیر سایہ اطاعت کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور اس کے عوض وہ فدک کا نصف محصول ادا کیاکریں گے، ان کی پیشکش کو رسول(ص) نے قبول کر لیا۔

اس طرح فدک ، قرآن کے حکم کے بموجب خاص رسول(ص) کی ملکیت قرار پایا کیونکہ اس سلسلہ میں نہ گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ اسلحہ استعمال ہوا بلکہ انہوں نے دھمکی اور جنگ کے بغیرہی اپنی خود سپردگی کا اعلان کیا تھا۔ لہذا رسول(ص) نے فدک اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائ(ص) کو ہبہ کر دیا۔( ۲ )

جزیرة العرب کی سر زمین خیانت کاروں کے ٹھکانوں سے پاک ہو گئی اورمسلمانوں کو یہودیوں کے فتنوں سے نجات مل گئی ،یہودیوںنے ہتھیار ڈال دئیے اور اسلامی حکومت و قوانین کے سامنے سر جھکا دیا ۔

جس روز خیبر فتح ہوا اسی دن جناب جعفر بن ابی طالب حبشہ سے واپس آئے تو رسول(ص) نے ان کا استقبال کی

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، مغازی ج۲ ص ۶۷۷۔

۲۔ مجمع البیان ج۳ ص۴۱۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶، ص ۲۶۸، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۷۷۔

۱۷۸

ان کی پیشانی کو چوما اور فرمایا:''بایهما اسر بفتح خیبر او بقدوم جعفر '' ( ۱ )

میں کس چیز کی زیادہ خوشی منائوں، فتح خیبر کی یا جعفر بن ابی طالب کی آمد کی ؟

۶۔ عمرة القضا

آرام و سکون کا زمانہ گذرتارہا لیکن رسول(ص) اور مسلمان اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعیٔ پیہم میں مشغول رہے ، فتحِ خیبر کے بعد تبلیغی یا تادیبی مہموں کے علاوہ کوئی فوجی معرکہ نہیں ہوا۔

صلح حدیبیہ کو ایک سال گذر گیا، طرفین نے جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا، ان کے پابند رہے اب وہ وقت آ گیا کہ رسول(ص) اور مسلمان خانۂ خد ا کی زیارت کے لئے جائیں۔ لہذا رسول(ص) کے منادی نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان عمرة القضا کی ادائیگی کے لئے تیاری کریں چنانچہ دو ہزار مسلمان رسول(ص) کے ساتھ روانہ ہوئے ان کے پاس تلوارکے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔ وہ بھی نیام میں تھی لیکن رسول(ص) اپنی فراست سے مشرکوں کی غداری کو محسوس کر چکے تھے۔

اس لئے آپ(ص) نے ایک گروہ کو اس وقت مسلح ہونے کا حکم دیا-جب آپ ظہران سے گذرے-تاکہ یہ گروہ اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہے۔

جب رسول(ص) ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ (ص) نے اور اصحاب نے احرام باندھا۔ آپ(ص) کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، ایک دستہ آپ نے آگے روانہ کر دیا تھا اس دستہ میں تقریباً سو آدمی تھے جس کی قیادت محمد بن مسلمہ کر رہے تھے ۔ مکہ کے سردار اور ان کے تابع افراد یہ سوچ کر مکہ کے اطراف میں واقع پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے کہ وہ نبی (ص) اور ان کے اصحاب کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن رسول(ص) کا جلال اور ان مسلمانوں کی ہیبت، جو کہ رسول(ص) کو اپنے حلقہ میں لئے ہوئے تلبیہ کہہ رہے تھے ، ایسی تھی کہ جس سے مکہ والوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں وہ حیرت واستعجاب میں نبی (ص) کو دیکھتے ہی رہ گئے حالانکہ رسول(ص) اور مسلمان حج کے اعمال انجام دے رہے تھے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۸، سنن الکبریٰ بیہقی ج۷ ص۱۰۱، سیرت نبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۳۹۸۔

۱۷۹

رسول(ص) اپنی سواری پر سوار خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ آپ(ص) کی سواری کی مہار عبد اللہ بن رواحہ پکڑے ہوئے تھے، رسول(ص) نے یہ حکم دیا کہ مسلمان بلند آواز سے یہ نعرہ بلند کریں۔

''لا اله الا اللّه وحده، صدق وعد ه و نصر عبده و اعز جنده و هزم الاحزاب وحده'' ۔

سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے ،اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی ،اپنی فوج کی مدد کی ہے اور سپاہ دشمن کو شکست دی ہے ،وہ یکتا ہے ۔

پھر کیا تھا مکہ کی فضائوں میں یہ آواز گو نجنے لگی خوف سے مشرکوں کا زہرہ آب ہونے لگا اور خدا کی طرف سے نبی (ص) کو ملنے والی فتح پر وہ پیچ و تاب کھانے لگے یہ وہی رسول(ص) ہے جس کو انہوں نے سات سال قبل وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ مسلمانوں نے رسول(ص) کی معیت میں عمرہ کے مناسک انجام دئیے۔ قریش اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کو مان گئے اور انہیں اس شخص کی دروغ گوئی کا یقین ہو گیا جس نے، انہیں یہ خبر دی تھی کہ رسول(ص) اور ان کے اصحاب مدینہ ہجرت کر جانے کی وجہ سے بہت تنگی و پریشانی میں ہیں۔ بلال خانۂ کعبہ پر گئے اور نما زظہر کے لئے اذان دیتے ہوئے ندا ئے توحید بلند کی جو کہ روحانی مسرت کا سبب ہے اس سے کفر کے سرداروں کو مزید افسوس ہوااس وقت پورا مکہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔

مہاجرین اپنے بھائی انصار کے ساتھ مکہ میں پھیل گئے تاکہ اپنے ان گھروں کو دیکھیں جن کو راہ خدا میں چھوڑنا پڑا تھا اور طولانی فراق کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملاقات کریں۔

تین روز تک مسلمان مکہ میں رہے اور پھرقریش سے کئے ہوئے اس معاہدہ کے بموجب ، مکہ چھوڑ دیا، رسول(ص) نے قریش سے یہ فرمایا کہ وہ میمونہ سے عقد کے رسوم یہیں ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن قریش نے اس کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر رسول(ص) مکہ میں زیادہ دن ٹھہریں گے تو اس سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو گا او رمکہ میں اسلام کو مقبولیت ملے گی۔

ابو رافع کو رسول(ص) نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ سرشام آپ(ص) کی زوجۂ میمونہ، کو لے کر آئیں کیونکہ مسلمانوںکونمازِظہر سے پہلے مکہ چھوڑنا تھا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۲۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296