منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)13%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140535 / ڈاؤنلوڈ: 6492
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تیسری فصل

مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی طاقت کی طرف سے جواب

جنگ خندق میں مشرک کی طاقتوں کا اتحاد

۵ھ ختم ہوا چاہتا ہے، پورا سال بحران اور فوجی کاروائیوں میں گذرا ، مسلمان ان حالات سے گذر گئے ان جنگوں کا مقصد نئی اسلامی حکومت کے نظام کا دفاع کرنا اور مدینہ میں امن و امان قائم کرنا تھا۔ دین اور اسلامی حکومت کی دشمنی میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات کے مختلف پہلو اوران کی جداگانہ نوعیت تھی ان چیزوں سے اور اپنی یکجہتی و اتحاد کے ذریعہ یہودیوں نے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لہذاانہوں نے دشمنی کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ جزیرة العرب سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے چنانچہ جب مشرکین نے ان یہودیوں سے یہ معلوم کیا کہ دین اسلام افضل ہے یا شرک؟ تو انہوںنے کہا: بت پرستی دین اسلام سے بہتر ے( ۱ ) اس طرح وہ مشرک قبیلوں کو جمع کرنے، انہیں جنگ پر اکسانے اور حکومت اسلامی کے پائے تخت مدینہ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہو گئے؛ دیکھتے ہی دیکھے یہ خبر معتبر و موثق لوگوں کے ذریعہ رسول(ص) تک پہنچ گئی جو کہ ہر سیاسی تحریک کواچھی طرح سمجھتے تھے اوربہت زیادہ بیدار و تیز بیں تھے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے رسول(ص) نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا، مشورہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدینہ کے میدانی رقبہ میں خندق کھود دی جائے، رسول(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کام تقسیم کر دیا ،

____________________

۱۔ جیسا کہ سورۂ نساء آیت ۵۱ میں بیان ہوا ہے ۔

۱۶۱

خندق کھودنے میں آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے اور انہیں اس طرح ابھارتے تھے:

''لا عیش الا عیش الآخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرة'' ۔( ۱ )

زندگی تو بس آخرت ہی کی ہے اے اللہ انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔

اگر چہ اس کام میں مخلص مسلمانوں نے ہمت و ثابت قدمی کا اظہار کیا تھا لیکن کام چور اور منافقین نے اس موقعہ پر بھی اپنا ہاتھ دکھا دیا۔

مختصر یہ کہ دس ہزار سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل مشرکین کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا لیکن خندق کی وجہ سے وہ باہر ہی رہے ۔ اس دفاعی طریقہ کار کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں تھے۔ رسول(ص) تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ نکلے اور سلع پہاڑ کے دامن میں پڑائو ڈالا۔ اور کسی بھی اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے لوگوں میںذمہ داری اور کام تقسیم کر دئیے۔

مشرکین کی فوجیں تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہیں مگر مدینہ میں داخل نہیں ہو سکیں یہ مسلمانوں کے لئے بہترین جگہ تھی۔ ان کے پاس ایک ہی سورما تھا اور وہ تھے علی بن ابی طالب جب علی بن ابی طالب عرب کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبد ودسے مقابلہ کے لئے نکلے اور کوئی مسلمان اس کے مقابلہ میں جانے کے لئے تیار نہ ہوا تو رسول(ص) نے حضرت علی کی شان میں فرمایا:

''برز الایمان کله الیٰ الشرک کله'' ( ۲ )

آج کل ایمان کل شرک کے مقابلہ میں جا رہا ہے ۔

مشرکین نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے مدد مانگی حالانکہ انہوںنے رسول(ص) سے یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہونگے، رسول(ص) کو یہود کے جنگ میں شریک ہونے اورمسلمانوں

____________________

۱۔ البدایة و النہایة ، ابن کثیر ، ج۴ ص ۹۶، مغازی ج۱ ص ۴۵۳۔

۲۔ احزاب: ۱۲تا ۲۰۔

۱۶۲

مسلمانوں کے خلاف داخلی محاذ کھولنے کا یقین ہو گیا لہذا آپ(ص) نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس خبر کی تحقیق کریں انہوںنے بتایا کہ خبر صحیح ہے اس پر رسول(ص) نے تکبیر کہی :''اللہ اکبر ابشروا یا معاشر المسلمین بالفتح''،( ۱ ) اللہ بزرگ و برتر ہے اور اے مسلمانو! تمہیں فتح مبارک ہو۔

مسلمانوں کے مشکلات

محاصرہ کے دوران مسلمان یقینا بہت سی مشکلوں سے دوچار ہوئے تھے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

۱۔ کھانے کی اشیاء کی قلت تھی بلکہ مسلمانوں پر بھوک کے سائے منڈلانے لگے تھے۔( ۱ )

۲۔موسم بہت سخت تھا، سردی کی طویل راتوں میںشدید ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔

۳۔منافقوںنے مسلمانوںکی صفوں میں نفسیاتی جنگ بھڑکادی تھی وہ انہیںجنگ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں ثابت قدم رہنے سے انہیں ڈراتے تھے ۔

۴۔ محاصرہ کے زمانہ میںمسلمان اس خوف سے سو نہیں سکتے تھے کہ حملہ نہ ہو جائے، اس سے وہ جسمانی طور پر کمزور ہو گئے تھے اس کے علاوہ مشرکین کی فوجوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بھی کم تھی۔

۵۔ بنی قریظہ کی غداری، اس سے مسلمانوں کے لئے داخلی خطرہ پیدا ہو گیاتھا اورچونکہ ان کے اہل و عیال مدینہ میں تھے اس لئے وہ ان کی طرف سے فکر مند تھے۔

دشمن کی شکست

مشرکین کی فوجوں کے مقاصد مختلف تھے، یہودی تو یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں ان کا جو اثر و رسوخ تھا وہ واپس مل جائے جبکہ قریش کو رسول(ص) اور آپ(ص) کی رسالت ہی سے عداوت تھی، غطفان،فزارہ وغیرہ کو خیبر کی

____________________

۱۔المغازی ج۱ ص ۴۵۶، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۲۲۔

۲۔مغازی ج۲ ص ۴۵۶،۴۷۵، ۴۸۹۔

۱۶۳

پیداوار کی طمع تھی ، یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ دوسری طرف محاصرہ کی مدت درازہونے کی وجہ سے مشرکین فوجیںبھی اکتا گئی تھیں وہ مسلمانوں کے طرز تحفظ اور ان کی ایجاد سے بھی محو حیرت تھیں، اس وقت مشرکین کی فوجوں اور یہودیوں کی حالت کو نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیان کیا تھا وہ خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ(ص) جو چاہیں مجھے حکم دیں: رسول(ص) نے فرمایا: ہمارے درمیان تم ایک ہی آدمی ہو لہذا جہاں تک تم سے ہو سکے انہیں جنگ میں پسپا ہوجانے کی ترکیب کرنا کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے ۔

خدا کی طرف سے مشرکین کی فوجوں کو شدید آندھی نے آ لیا جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان کی دیگوں کو الٹ دیا، اس صورت حال کو دیکھ کر قریش پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ابو سفیان نے قریش سے کہا بھاگ چلو چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ لے گئے ان کے ساتھ دوسرے قبیلے بھی کوچ کر گئے صبح تک ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔

( و کفٰی اللّه المومنین القتال ) ( ۱ )

غزوۂ بنی قریظہ اور مدینہ سے یہودیوں کا صفایا

جنگ خندق کے دوران قریظہ کے یہودیوں نے اپنے دل میں چھپی ہوئی اسلام دشمنی کو آشکار کر دیا اگر مشرکین فوجوں کو خدا نے ذلیل و رسوا نہ کیا ہوتا تو بنی قریظہ کے یہودیوں نے مسلمانوں کی پشت میں چھرا بھونک دیا ہوتاتھا اب رسول(ص) کے لئے ضروری تھا کہ ان کی خیانت کا علاج کریں ۔ لہذا رسول(ص) نے قبل اس کے کہ مسلمان آرام کریں، یہ حکم دیا کہ مسلمان یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کریں، اس سے نئی فوجی کاروائی کی اہمیت کو بھی ثابت کرنا تھا چنانچہ منادی نے مسلمانوں کو ندا دی جو مطیع سامع ہے اسے چاہئے کہ نمازِ عصر بنی قریظہ میں پڑھے۔( ۲ )

____________________

۱۔ اس موقعہ پر سورة احزاب نازل ہوا جس میں جنگ خندق کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔

۲۔ طبری ج۳ ص ۱۷۹۔

۱۶۴

رسول(ص) نے پرچم حضرت علی کو عطا کیا مسلمان بھوک و بیداری اور تکان کے ستائے ہوئے تھے اس کے باوجود وہ حضرت علی کی قیادت میں روانہ ہو گئے...یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ ان کا محاصرہ کر رہے ہیں تو ان پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ نبی (ص) جنگ کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔

یہودیوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو بلایا-وہ ان کے حلیفوں میں سے ایک تھاتاکہ اس سلسلہ میں اس سے مشورہ کریں لیکن جب اس نے ان سے وہ بات بتائی جو ان کے سامنے آنے والی تھی تو چھوٹے بڑے یہودی رونے لگے( ۱ ) اور یہ پیشکش کی کہ انہیں ان کی گذشتہ خیانت کی سزا نہ دی جائے بلکہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے رسول(ص) نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ خدا اور اس کے رسول(ص) کے حکم کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔

اوس نے رسول(ص) کی خدمت میں یہودیوں کی سفارش کی توآپ(ص) نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں اپنے اور تمہارے حلیف-یہودیوں کے درمیان تمہیںمیں سے ایک شخص کو حکم بنا دوں؟ انہوں نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول(ص) ہمیں یہ منظور ہے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان -یہودیوں-سے کہہ دو کہ اوس میں سے جس کوچاہیں منتخب کر لیں چنانچہ یہودیوںنے سعد بن معاذ کواپنا حکم منتخب کیا۔( ۲ ) یہ یہودیوں کی بد قسمتی تھی کیونکہ جب مشرکین کی فوجوںنے مدینہ کا محاصرہ کیا تھا اس وقت سعد بن معاذ یہودیوں کے پاس گئے تھے اور ان سے یہ خواہش کی تھی کہ تم غیر جانب دار رہنا لیکن یہودیوںنے ان کی بات نہیں مانی تھی۔ اس وقت سعد بن معاذزخمی تھے۔ انہیں اٹھا کر رسول(ص) کی خدمت میں لایا گیا رسول(ص) نے ان کا استقبال کیا اور موجود لوگوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کا استقبال اور ان کی تعظیم کرو انہوںنے بھی استقبال کیا اس کے بعد سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں ، بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۹، ارشاد ص ۵۰۔

۱۶۵

کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے وہی فیصلہ کیا ہے جو خدا نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے ۔( ۱ )

پھر رسول(ص) نے بنی قریظہ کا مال خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مسلمانوں کے سپرد کردیا، سواروں کو تین حصے اور پیادوں کو ایک حصہ دیا، خمس زید بن حارثہ کو عطا کیا اور یہ حکم دیا کہ اس سے گھوڑا، اسلحہ اور جنگ میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدلو تاکہ آئندہ مہم میں کام آئے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۰، مغازی ج۲ ص ۵۱۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۱۔

۱۶۶

پانچواں باب

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

دوسری فصل

اسلام کی تبلیغ جزیرة العرب سے باہر

تیسری فصل

جزیرة العرب سے بت پرستی کا خاتمہ

چوتھی فصل

حیات رسول(ص) کے آخری ایام

پانچویں فصل

اسلامی رسالت کے آثار

چھٹی فصل

خاتم الانبیاء (ص) کی میراث

۱۶۷

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

۱۔ صلح حدیبیہ

ہجرت کا چھٹا سال ختم ہونے والا ہے ۔ مسلمانوںکا یہ سال مسلسل جہاد اور دفاع میں گذرا ہے ، مسلمانوں نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت ، انسان سازی ، اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اسلامی تہذیب کی داغ بیل ڈالنے کے لئے بہت جانفشانی کی ہے ۔ جزیرة العرب کا ہر شخص اس دین کی عظمت سے واقف ہو گیا ہے اور یہ جانتاہے کہ اسے مٹانا آسان کام نہیں ہے ۔سیاسی و فوجی اعتبار سے قریش جیسی عظیم طاقت-یہود اور دوسرے مشرکین سے جنگ میں الجھنا بھی اسلام کی نشر و اشاعت اوراس کے مقاصد میں کامیابی کو نہیں روک سکا ۔

خانۂ کعبہ کسی ایک کی ملکیت نہیں تھا اور نہ کسی مذہب سے مخصوص تھا نہ خاص عقیدہ رکھنے والوں سے متعلق تھا ہاں اس میں کچھ بت و صنم رکھے ہوئے تھے ان کے ماننے والے ان کی زیارت کرتے تھے۔ مگر قریش کے سر کشوںکو یہ ضد تھی کہ رسول اور مسلمانوں کو حج نہیں کرنے دیں گے ۔

اس زمانہ میں رسول(ص) نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام کے خلاف قریش کا جو موقف تھا اب اس میں پہلی سی شدت نہیں رہی ہے لہذا آپ(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ عمرہ کے دوران اسلام کی طرف دعوت دی جا ئے ، اسلامی عقائد کی وضاحت کی جا ئے اور یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام خانۂ کعبہ کو مقدس و محترم سمجھتا ہے ۔ اس مرحلہ میںرسول(ص) دفاعی صورت سے نکل کر حملہ و ہجوم کی صورت میں آنا چاہتے تھے۔

۱۶۸

رسول(ص) اور آپ(ص) کے اصحاب نے دشوار راستہ سے سفر کیا۔ پھر حدیبیہ نامی ہموار زمین پر پہنچے تو رسول(ص) کاناقہ بیٹھ گیا آپ(ص) نے فرمایا:''ماهذا لها عادة ولکن حبسها حابس الفیل بمکة'' ۔( ۱ ) اس کی یہ عادت نہیں ہے لیکن اسے اسی ذات نے بٹھایا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا۔ پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو سواریوں سے اترنے کا حکم دیا اور فرمایا:''لاتدعونی قریش الیوم الیٰ خطة یسالوننی فیها صلة الرحم الا اعطیهم ایاها'' ۔( ۲ )

اگر آج قریش مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں اسے ضرور پورا کر دوںگا۔ مگر قریش مسلمانوںکی گھات ہی میںرہے اوران کے سواروںنے مسلمانوں کا راستہ روک دیا اس کے بعد قبیلۂ خزاعہ کے کچھ افراد پر مشتمل ایک وفد رسول(ص) کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ نبی(ص) کی آمد کا مقصد کیا ہے اس وفد کی سربراہی بدیل بن ورقاء کر رہا تھاان لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں۔ یہ وفد واپس آیا اور قریش کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نبی (ص) کا مقصد خیر سگالی اور عمرہ بجالانا ہے لیکن قریش نے اس کی بات پر کان نہ دھرے بلکہ حلیس کی سرکردگی میں ایک اور وفد روانہ کیا۔ جب رسول(ص) نے اس وفد کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ خدا پرست قوم سے تعلق رکھتا ہے ، چنانچہ حلیس قربانی کے اونٹوں کو دیکھتے ہی رسول(ص) سے ملاقات کئے بغیر واپس چلا گیا تاکہ قریش کو اس بات سے مطمئن کر ے کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کرنے آئے ہیں۔ مگر قریش ان کی بات سے بھی مطمئن نہ ہوئے اور مسعود بن عروہ ثقفی کو بھیجا اس نے دیکھا کہ مسلمان رسول(ص) کے وضو کے پانی کا قطرہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے بلکہ اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے ہیں وہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے قریش کے لوگو! میں نے کسریٰ کو اس کے ملک(ایران)میں اور قیصر کو اس کے ملک(روم)میں اور نجاشی کو اس کے ملک حبشہ میں دیکھا ہے خدا کی قسم !میں نے کسی بادشاہ کو اپنی قوم میں اتنا معزز نہیں پایا جتنے معزز اپنے اصحاب میں محمد ہیں، میں نے ان کے پاس ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کسی بھی طرح ان سے جدا نہیں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۰ص ۲۲۹ ۔

۲۔طبری ج۳ ص ۲۱۶۔

۱۶۹

ہونگے۔ اب تم غور کرو۔( ۱ )

رسول(ص) نے حرمت کے مہینوں کے احترام میںمسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اپنے اس عبادی سفر میں اپنے ساتھ اسلحہ نہ لے جانا ہاںمسافر جیسا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو۔ اسی طرح مدینہ کے آس پاس بسنے والے قبائل سے یہ فرمایا: اس سفر میں تم بھی مسلمانوں کے ساتھ چلو، حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے، تاکہ دنیا کو یہ بتا دیں کہ دوسری طاقتوں سے اسلام کے روابط جنگ کی بنیاد پر ہی استوار نہیں ہیں۔

رسول(ص) نے -کم سے کم-چودہ سو مسلمان سپاہی جمع کئے اور قربانی کیلئے ستر اونٹ بھیجے۔ قریش کو بھی یہ خبر ہو گئی کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کی غرض سے روانہ ہو چکے ہیں، اس سے قریش میں بے چینی بڑھ گئی۔ ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیدیں ، کہ اس سے مسلمانوں کی آرزو پوری ہو جائیگی وہ خانہ ٔ کعبہ کی زیارت کر لیں گے اور وہ اپنے خاندان والوں سے ملاقات کر لیں گے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ یا قریش مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں، لیکن اس سے قریش کی وضعداری کو دھچکا لگے گا اور دوسری قومیں انہیں اس بات پر ملامت کریں گی کہ تم نے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کیا جو مناسک عمرہ بجالانا اور کعبہ کی تعظیم کرنا چاہتے تھے۔

قریش نے سرکشی اور مخاصمت کا راستہ اختیار کیا، رسول(ص) اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے خالد بن ولید کی سرکردگی میں دو سو سواربھیجے جبکہ رسول(ص) احرام کی حالت میں نکلے تھے نہ کہ جنگ کرنے کی غرض سے اس صورت حال کو دیکھ کر آنحضرت (ص) نے فرمایا:

''یا ویح قریش لقد اکلتهم الحرب ماذا علیهم لو خلوا بینی و بین العرب فان هم اصابونی کان الذی ارادوا و ان اظهرنی الله علیهم دخلوا فی الاسلام وافرین وان لم یفعلوا قاتلوا بهم قوة فما تظن قریش؟ فوالله لا ازال اجاهد علیٰ الذی بعثنی اللّٰه به حتی یظهره اللّٰه او تنفرد هذه السالفة''

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۵۹۸۔

۱۷۰

افسوس ہے قریش کے اوپر کہ جنگ نے انہیں تباہ کر دیا، اگر وہ مجھے دوسرے اعراب کے درمیان چھوڑ دیتے اور وہ مجھ پر کامیاب ہو جاتے تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا اوراگر میں ان پر فتحیاب ہوتا تو یا وہ اسلام قبول کرتے یا اپنی محفوظ طاقت کے ساتھ مجھ سے جنگ کرتے لیکن نہ جانے قریش کیا سمجھے ہیں؟ خدا کی قسم میں اس اسلام کے لئے ہمیشہ جنگ کرتارہونگا جس کے لئے خدا نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ خدا مجھے کامیاب کرے ، میں اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔

پھر آپ(ص) نے جنگ سے احتراز کرتے ہوئے قریش کے سواروں سے بچ کر نکلنے کا حکم دیا۔ اس راستہ پر چلنے سے قریش کے سواروں کے ہاتھ ایک بہانہ آجاتا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خراش بن امیہ خزاعی کو قریش سے گفتگو کے لئے روانہ کیا لیکن قریش نے ان کے اونٹ کو پے کر دیا قریب تھا کہ انہیں قتل کر دیتے، قریش نے کسی رواداری اور امان کا لحاظ نہیں کیا۔ کچھ دیر نہ گذری تھی کہ قریش نے پچاس آدمیوں پر یہ ذمہ داری عائد کر دی کہ تم مسلمانوں کے اطراف میں گردش کرتے رہو اور ممکن ہو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرلو، حالانکہ یہ چیز صلح کے منافی تھی اس کے باوجود ان کا وہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا،لیکن رسول(ص) نے انہیں معاف کر دیا اور اپنی صلح پسندی کو ظاہر و ثابت کر دیا۔( ۱ )

آنحضرت (ص) نے سوچا کہ قریش کے پاس دوسرا نمائندہ بھیجا جائے، حضرت علی بن ابی طالب کو نمائندہ بنا کر نہیں بھیج سکتے تھے کیونکہ اسلام سے دفاع کے سلسلہ میں ہونے والی جنگوں میں علی نے عرب کے سورمائوں کو قتل کیا تھالہذا اس مہم کو سر کرنے کے لئے عمر بن خطاب سے فرمایا لیکن انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ قریش انہیں قتل کر دیں گے حالانکہ عمر نے قریش میں سے کسی ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کیا تھا پھر بھی انہوں نے رسول(ص) سے یہ درخواست کی کہ عثمان بن عفان کو بھیج دیجئے( ۲ ) کیونکہ وہ اموی ہیں اور ابو سفیان سے ان کی قرابت بھی ہے ۔ عثمان نے لوٹنے میں تاخیر کی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس سے مکہ میں داخل ہونے

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۲۲۳ ۔

۲۔ سیرت نبیویہ ج۲ ص ۳۱۵۔

۱۷۱

کی جو مصالحت آمیز کوششیں ہوئی تھیں وہ سب ناکام ہو گئیں۔ رسول(ص) نے دیکھا کہ جنگ کی تیاری بھی نہیں ہے اسی موقعہ پر بیعت رضوان ہوئی ، آنحضرت (ص) ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے اور اصحاب نے اس بات پر آپ(ص) کی بیعت کی کہ جو بھی ہوگا ہم ثابت قدمی و استقامت سے کام لیں گے۔ عثمان کے واپس آنے سے مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور قریش نے رسول(ص) سے گفتگو کے لئے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔

صلح کے شرائط

صلح کے شرائط کے سلسلہ میں سہیل چونکہ سخت تھا اس لئے قریب تھا کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں مگرآخر میں درج ذیل شرائط صلح پر فریقین متفق ہو گئے:

۱۔ فریقین عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس عرصہ میں لوگ امان میں رہیں گے اور کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا۔

۲۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد(ص) کے پاس آئیگا تو اسے واپس لوٹایا جائیگا لیکن اگر کوئی شخص محمد (ص) کی طرف سے قریش کے پاس آئیگا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

۳۔ جو شخص محمد کے معاہدہ میں شامل ہونا چاہے وہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور جو قریش کے معاہدہ میں داخل ہونا چاہئے وہ اس میں داخل ہو سکتا ہے ۔

۴۔ اس سال محمد اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ واپس جائیں گے مکہ میں داخل نہیں ہونگے ہاں آئندہ سال مکہ میں داخل ہونگے اور تین دن تک قیام کریں گے ،اس وقت ان کے پاس صرف مسافر کا اسلحہ تلوار ہوگی کو بھی نیام میں رکھیں گے۔( ۱ )

۵۔ کسی پر یہ دبائو نہیں ڈالا جائیگا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دے اور مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے، مکہ میں اسلام ظاہر و آشکار ہوگا نہ کوئی کسی کو اذیت دے گا اور نہ برا کہے گا۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۳ ص۲۱۔

۲۔بحار الانوارج۲۰ص۳۵۲۔

۱۷۲

۶۔چوری اور خیانت کا ارتکاب نہیں کیا جائیگا بلکہ فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کے اموال کو محترم سمجھے گا۔( ۱ )

۷۔قریش محمد(ص) اور ان کے اصحاب پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔( ۲ )

بعض مسلمان صلح کے شرائط سے راضی نہیں ہوئے چنانچہ انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ نبی (ص) قریش سے ڈرگئے ہیں آپ(ص) پر اعتراض کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ نبی (ص) خدا کی طرف سے خیر پر ہیں اور اسی رسالت اور اس کے عظیم فوائد کو مستقبل سے آگاہ نظر سے دیکھتے ہیں رسول(ص) نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:''انا عبد اللّٰه و رسوله لن اخالف امره و لن یضیعنی'' میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول(ص) ہوں میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرونگا اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ رسول(ص) نے انہیں شرائط کو برقرار رکھا جو مسلمانوں کو پسند نہیں تھے۔ ابو جندل کو قریش کے حوالے کرنے سے( ۳ ) کشیدگی پیدا ہو گئی، بعض تونفسیاتی الجھن میں مبتلا ہو گئے۔

لیکن یہ صلح ،ان لوگوں کے نظریہ کے بر خلاف جو صلح کے شرائط کا دوسرا مفہوم سمجھ رہے تھے، مسلمانوں کے لئے کھلی اور عظیم فتح تھی کیونکہ صلح کے شرائط تھوڑی ہی مدت کے بعد مسلمانوں کے حق میں ہو گئے تھے ۔

جب آپ(ص) مدینہ واپس آ رہے تھے اس وقت قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل ہوئیں( ۴ ) جن سے بت پرستوں کے سردار سے کی گئی صلح کے حقیقی پہلو آشکار ہوئے اور مستقبلِ قریب میں مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔

____________________

۱۔مجمع البیان ج۹ ص ۱۱۷۔

۲۔ بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۵۲۔

۳۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱، سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۵۲۔

۴۔ فتح ۱،۱۸،۲۸۔

۱۷۳

صلح کے نتائج

۱۔ قریش نے مسلمانوں کے نظام کو ایک فوجی ، منظم سیاسی اور نئی حکومت کے عنوان سے تسلیم کر لیا۔

۲۔ مشرکوں اور منافقوں کے دل میں رعب بیٹھ گیا، ان کی طاقت گھٹ گئی اور ان میں مقابلہ کی طاقت نہ رہی۔

۳۔صلح و آرام کے اس زمانہ میں اسلام کی نشر و اشاعت کی فرصت ملی جس کے نتیجہ میں بہت سے قبیلے اسلام میں داخل ہو گئے؛ رسول(ص) کی اسلامی رسالت کے آغاز ہی سے یہ آرزو تھی کہ قریش آپ کو اتنی مہلت و فرصت دیدیں کہ جسمیں آپ(ص) آزادی کے ساتھ اپنا راستہ طے کر سکیں اور اطمینان کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے اسلام کی وضاحت کر سکیں۔

۴۔ مسلمانوںکو قریش کی طرف سے سکون مل گیا تو یہودیوں اور دوسرے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ہمہ تن تیار ہوئے۔

۵۔قریش سے صلح کے بعد ان کے حلیفوں کے لئے یہ آسان ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے موقف کو سمجھیں اور ان کے پاس آئیں۔

۶۔ صلح ہو جانے سے نبی(ص) کو یہ موقع ملا کہ آپ(ص)دیگر ممالک کے بادشاہوں اورسربراہوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور غزوہ موتہ کی تیاری کریں تاکہ جزیرةالعرب سے باہر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔

۷۔ صلح کی وجہ سے آنے والے مرحلے میں فتحِ مکہ کا راستہ ہموار ہو گیا ،مکہ اس زمانہ میں بت پرستی کا اڈہ تھا۔

۲۔اسلامی رسالت کی توسیع

زمانہ ٔماضی میں قریش اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ رسول(ص) اور مسلمان دفاعی جنگوں، اپنی حفاظت اور اسلامی حکومت اور اس کے معاشرہ کی تشکیل میں چند سال تک مشغول رہے ۔

۱۷۴

اس عہد میں آپ (ص) اپنی آسمانی عالمی اور تمام ادیان کو ختم کرنے والی رسالت کی آزادی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکے تھے لیکن صلح حدیبیہ کے صلح نامہ پر دستخط ہو جانے کے بعد رسول(ص) قریش کی طرف سے مطمئن ہو گئے اور اس صلح سے رسول(ص) کو یہ موقع مل گیا کہ آپ(ص) جزیرة العرب کے اطراف میں بسنے والی بڑی طاقتوں اور خطۂ عرب کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندے بھیجیں تاکہ وہ ان کے سامنے الٰہی قوانین کو بیان کریں اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔

روایت ہے کہ آپ(ص) نے اپنے اصحاب کے در میان فرمایا:

''ایها النّاس ان اللّٰه قد بعثنی رحمة و کافة فلا تختلفوا علّ کما اختلف الحواریون علیٰ عیسیٰ بن مریم'' ۔

اے لوگو! مجھے خدا نے رحمت بنا کر بھیجا ہے پس مجھ سے اس طرح اختلاف نہ کرو جس طرح حواریوں نے عیسیٰ سے کیا تھا اصحاب نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ فرمایا:

''دعاهم الیٰ الذی دعوتکم الیه فاَما من بعثه مبعثا قریباً ترضی و سلّم و اما من بعثه مبعثا بعیداً فکره وجهه و تثاقل'' ۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ نے انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف میں نے تمہیں دعوت دی ہے جس کو انہوں نے قریب کی ذمہ داری سپرد کی تھی وہ تو خوش ہو گیا اور اس ذمہ داری کوتسلیم کر لیا اور جس کے سپرد دور کی ذمہ داری کی تھی وہ ناخوش رہا اور اسے بوجھ محسوس ہوا۔

ہدایت و دعوت کے نمائندے رسول(ص) کے امر کو دنیا کے مختلف گوشوں میں لے گئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۶۰۶، طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۲۶۴۔

۲۔اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے بادشاہوں کو جو خطوط روانہ کئے تھے علماء اسلام نے ان کی تعداد ۱۸۵ بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسول(ص)، از علی بن حسین احمدی۔

۱۷۵

۳۔ جنگ خیبر( ۱ )

اپنی حقیقی جد و جہد، اعلیٰ تجربہ ، بے مثال شجاعت اور تائید الٰہی کے سبب رسول(ص) نے مسلمانوں کو آزاد خیالی ، ثبات و نیکی کے بام عروج پر پہنچا دیا، ان کے اندر صبر اور ایک دوسرے سے ربط و ضبط کی روح پھونک دی...اس طرح رسول(ص) نے اپنے قرب و جوار کے سرداروں کے پاس خطوط اور نمائندے بھیج کر جزیرة العرب سے باہر بھی لوگوں تک اپنی آسمانی رسالت پہنچا دی۔

رسول(ص) اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ آپ(ص) کے اس اقدام کے مختلف رد عمل ہونگے ان میں سے بعض مدینہ میں موجود یہو دو منافقین ، جن کی خیانتوں اور غداریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،کی مدد سے مدینہ پر فوجی حملے ہوںگے ۔

خیبر یہودیوں کا مضبوط قلعہ اور عظیم مرکز تھا لہذا رسول(ص) نے یہ طے کیا کہ اس باقی رہ جانے والے سرطان کا صفایا کر دیا جائے چنانچہ حدیبیہ سے لوٹنے کے کچھ دنوں کے بعد سولہ سو افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک لشکر تیار کیا اور یہ تاکید فرمائی کہ غنیمت کے لالچ میں ہمارے ساتھ کوئی نہ آئے ۔ فرمایا:''لا یخرجن معنا الا راغب فی الجهاد'' ( ۲ ) ہمارے ساتھ وہی آئے جو شوقِ جہاد رکھتا ہو۔

رسول(ص) نے کچھ لوگوں کو یہودیوں کے حلیفوں کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں ان کی مدد کرنے سے روکیں تاکہ مزید جنگ و خونریزی نہ ہو مسلمانوں نے بہت جلد یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا ۔ علی بن ابی طالب ان میں سب سے پیش پیش تھے آپ ہی کے دست مبارک میں پرچم رسول(ص) تھا۔

یہودی اپنے مضبوط قلعوں میں جا چھپے اس کے بعد کچھ معرکے ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بعض اہم مقامات پر قبضہ کر لیا، لیکن جنگ نے شدت اختیار کر لی اور محاصرہ کا زمانہ طویل ہو گیا۔ مسلمانوں کے سامنے خوراک کا مسئلہ آ گیا اور مسلمان مکروہ چیزیں کھانے کے لئے مجبور ہو گئے۔

____________________

۱۔ جنگ خیبر ماہ جمادی الاخریٰ ۷ھ میں ہوئی ، ملاحظہ ہو طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۷۷۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۶۔

۱۷۶

رسول(ص) نے بعض صحابہ کو علم دیا کہ انہیں کے ہاتھ پر فتح ہو جائے لیکن وہ میدان سے بھاگ آئے جب مسلمان عاجزآگئے تو رسول(ص) نے فرمایا:

''لاعطینّ الرّایة غداً رجلاً یحب اللّه و رسوله و یحبه اللّه و رسوله کراراً غیرا فرار لا یرجع حتی یفتح اللّه علیٰ یدیه'' ( ۱ )

میں کل اس مرد کو علم دونگا جو خد اور رسول(ص) سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کے حملہ کرے گا، میدان سے نہیں بھاگے گا، وہ اسی وقت میدان سے پلٹے گا جب خدا اس کے دونوں ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔

دوسرے روز رسول(ص) نے علی کو بلایا اور آپ کو علم عطا کیا اور آپ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئی ، رسول(ص) اور سارے مسلمان خوش ہو گئے اور جب باقی یہودسپر انداختہ ہو گئے تو رسول(ص) نے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ آپ کو اپنے باغوں اور کھیتوں کا نصف محصول بطور جزیہ دیا کریں گے ظاہر ہے فتح کے بعد وہ باغات اور کھیت رسول(ص) کی ملکیت بن گئے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ رسول(ص) نے بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریظہ جیسا سلوک نہیں کیا کیونکہ مدینہ میں یہودیوں کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہ گئی تھی ۔

۴۔ آپ(ص) کے قتل کی کوشش

ایک گروہ نے خفیہ طریقہ سے رسول(ص) کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تاکہ وہ اپنی دشمنی کی آگ کو بجھائیں اور چھپے ہوئے کینہ کو تسکین دے سکیں لہذا-سلام بن مشکم یہودی کی زوجہ- زینب بنت حارث نے رسول(ص) کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری ہدیہ کی جس میں اس نے زہر ملا دیا تھا اور چونکہ وہ جانتی تھی کہ رسول(ص) کو ران کا گوشت پسند تھا لہذا اس میں زیادہ زہر ملایاتھا۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، صحیح مسلم ج۱۵ ص ۱۷۶ و ۱۷۷، فضائل الصحاب ج۲ ص ۶۰۳، مسند امام احمد ج۳ ص ۳۸۴، مواہب اللّدنیہ ج۱ ص ۲۸۳، استیعاب ج۳ ص ۲۰۳، کنز العمال ج۱۳ ص ۱۲۳۔

۱۷۷

آنحضرت(ص) کے سامنے یہ بھنی بکری پیش کی گئی اور آپ(ص) نے اس کی اگلی ران اٹھائی اور ایک بوٹی چبائی لیکن اسے نگلا نہیں، بلکہ تھوک دیا جبکہ بشر بن براء بن معرور بوٹی نگلتے ہی مر گیا۔

یہودی عورت نے اپنے اس جرم کا یہ کہہ کر اعتراف کر لیا کہ میں آپ(ص) کا امتحان لینا چاہتی تھی کہ آپ(ص) بنی ہیں یا نہیں رسول(ص) نے اسے معاف کر دیا اور جو مرد اس سازش میں شریک تھے ان سے رسول(ص) نے کوئی تعرض نہ کیا۔( ۱ )

۵۔ اہل فدک کی خود سپردگی

حق و عدالت کے دبدبے سے خیانت کاری کے مرکز تباہ ہو گئے جب خدا نے رسول(ص) کو خیبر میں فتح عطا کی تو اس کے بعد خدانے فدک والوں کے دلوں میں آپ کا رعب پیدا کر دیا چنانچہ انہوںنے رسول(ص) کی خدمت میں ایک وفد روانہ کیا تاکہ وہ رسول(ص) سے اس بات پر صلح کرے کہ اہل فدک اسلامی حکومت کے زیر سایہ اطاعت کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور اس کے عوض وہ فدک کا نصف محصول ادا کیاکریں گے، ان کی پیشکش کو رسول(ص) نے قبول کر لیا۔

اس طرح فدک ، قرآن کے حکم کے بموجب خاص رسول(ص) کی ملکیت قرار پایا کیونکہ اس سلسلہ میں نہ گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ اسلحہ استعمال ہوا بلکہ انہوں نے دھمکی اور جنگ کے بغیرہی اپنی خود سپردگی کا اعلان کیا تھا۔ لہذا رسول(ص) نے فدک اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائ(ص) کو ہبہ کر دیا۔( ۲ )

جزیرة العرب کی سر زمین خیانت کاروں کے ٹھکانوں سے پاک ہو گئی اورمسلمانوں کو یہودیوں کے فتنوں سے نجات مل گئی ،یہودیوںنے ہتھیار ڈال دئیے اور اسلامی حکومت و قوانین کے سامنے سر جھکا دیا ۔

جس روز خیبر فتح ہوا اسی دن جناب جعفر بن ابی طالب حبشہ سے واپس آئے تو رسول(ص) نے ان کا استقبال کی

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، مغازی ج۲ ص ۶۷۷۔

۲۔ مجمع البیان ج۳ ص۴۱۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶، ص ۲۶۸، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۷۷۔

۱۷۸

ان کی پیشانی کو چوما اور فرمایا:''بایهما اسر بفتح خیبر او بقدوم جعفر '' ( ۱ )

میں کس چیز کی زیادہ خوشی منائوں، فتح خیبر کی یا جعفر بن ابی طالب کی آمد کی ؟

۶۔ عمرة القضا

آرام و سکون کا زمانہ گذرتارہا لیکن رسول(ص) اور مسلمان اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعیٔ پیہم میں مشغول رہے ، فتحِ خیبر کے بعد تبلیغی یا تادیبی مہموں کے علاوہ کوئی فوجی معرکہ نہیں ہوا۔

صلح حدیبیہ کو ایک سال گذر گیا، طرفین نے جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا، ان کے پابند رہے اب وہ وقت آ گیا کہ رسول(ص) اور مسلمان خانۂ خد ا کی زیارت کے لئے جائیں۔ لہذا رسول(ص) کے منادی نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان عمرة القضا کی ادائیگی کے لئے تیاری کریں چنانچہ دو ہزار مسلمان رسول(ص) کے ساتھ روانہ ہوئے ان کے پاس تلوارکے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔ وہ بھی نیام میں تھی لیکن رسول(ص) اپنی فراست سے مشرکوں کی غداری کو محسوس کر چکے تھے۔

اس لئے آپ(ص) نے ایک گروہ کو اس وقت مسلح ہونے کا حکم دیا-جب آپ ظہران سے گذرے-تاکہ یہ گروہ اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہے۔

جب رسول(ص) ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ (ص) نے اور اصحاب نے احرام باندھا۔ آپ(ص) کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، ایک دستہ آپ نے آگے روانہ کر دیا تھا اس دستہ میں تقریباً سو آدمی تھے جس کی قیادت محمد بن مسلمہ کر رہے تھے ۔ مکہ کے سردار اور ان کے تابع افراد یہ سوچ کر مکہ کے اطراف میں واقع پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے کہ وہ نبی (ص) اور ان کے اصحاب کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن رسول(ص) کا جلال اور ان مسلمانوں کی ہیبت، جو کہ رسول(ص) کو اپنے حلقہ میں لئے ہوئے تلبیہ کہہ رہے تھے ، ایسی تھی کہ جس سے مکہ والوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں وہ حیرت واستعجاب میں نبی (ص) کو دیکھتے ہی رہ گئے حالانکہ رسول(ص) اور مسلمان حج کے اعمال انجام دے رہے تھے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۸، سنن الکبریٰ بیہقی ج۷ ص۱۰۱، سیرت نبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۳۹۸۔

۱۷۹

رسول(ص) اپنی سواری پر سوار خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ آپ(ص) کی سواری کی مہار عبد اللہ بن رواحہ پکڑے ہوئے تھے، رسول(ص) نے یہ حکم دیا کہ مسلمان بلند آواز سے یہ نعرہ بلند کریں۔

''لا اله الا اللّه وحده، صدق وعد ه و نصر عبده و اعز جنده و هزم الاحزاب وحده'' ۔

سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے ،اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی ،اپنی فوج کی مدد کی ہے اور سپاہ دشمن کو شکست دی ہے ،وہ یکتا ہے ۔

پھر کیا تھا مکہ کی فضائوں میں یہ آواز گو نجنے لگی خوف سے مشرکوں کا زہرہ آب ہونے لگا اور خدا کی طرف سے نبی (ص) کو ملنے والی فتح پر وہ پیچ و تاب کھانے لگے یہ وہی رسول(ص) ہے جس کو انہوں نے سات سال قبل وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ مسلمانوں نے رسول(ص) کی معیت میں عمرہ کے مناسک انجام دئیے۔ قریش اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کو مان گئے اور انہیں اس شخص کی دروغ گوئی کا یقین ہو گیا جس نے، انہیں یہ خبر دی تھی کہ رسول(ص) اور ان کے اصحاب مدینہ ہجرت کر جانے کی وجہ سے بہت تنگی و پریشانی میں ہیں۔ بلال خانۂ کعبہ پر گئے اور نما زظہر کے لئے اذان دیتے ہوئے ندا ئے توحید بلند کی جو کہ روحانی مسرت کا سبب ہے اس سے کفر کے سرداروں کو مزید افسوس ہوااس وقت پورا مکہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔

مہاجرین اپنے بھائی انصار کے ساتھ مکہ میں پھیل گئے تاکہ اپنے ان گھروں کو دیکھیں جن کو راہ خدا میں چھوڑنا پڑا تھا اور طولانی فراق کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملاقات کریں۔

تین روز تک مسلمان مکہ میں رہے اور پھرقریش سے کئے ہوئے اس معاہدہ کے بموجب ، مکہ چھوڑ دیا، رسول(ص) نے قریش سے یہ فرمایا کہ وہ میمونہ سے عقد کے رسوم یہیں ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن قریش نے اس کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر رسول(ص) مکہ میں زیادہ دن ٹھہریں گے تو اس سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو گا او رمکہ میں اسلام کو مقبولیت ملے گی۔

ابو رافع کو رسول(ص) نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ سرشام آپ(ص) کی زوجۂ میمونہ، کو لے کر آئیں کیونکہ مسلمانوںکونمازِظہر سے پہلے مکہ چھوڑنا تھا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۲۔

۱۸۰

دوسری فصل

جزیرة العرب سے باہراسلام کی توسیع

۱۔جنگ موتہ( ۱ )

رسول(ص) نے یہ عزم کر لیا تھا کہ جزیرة العرب کے شمال میں امن و امان کی فضا قائم کریں گے، اور اس علاقہ کے باشندوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح شام تک جائیں گے ۔ آپ(ص) نے حارث بن عمیر ازدی کو حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس بھیجا، شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کا راستہ روکا اور قتل کر دیا۔

اسی اثنا میں رسول(ص) نے مسلمانوں کا ایک اور دستہ اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا، ملکِ شام کے علاقہ ذات الصلاح کے لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، ان کے قتل کی خبر رسول(ص) کو ملی،اس سانحہ کو سن کر رسول(ص) کو بہت افسوس ہوا، پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے انتقام کے لئے نکلیں آپ (ص) کے فرمان پرتین ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے فرمایا: اس کے سپہ سالار علی الترتیب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور بعد میں عبد اللہ بن رواحہ ہونگے پھر آپ(ص) نے ان کے درمیان خطبہ دیا:

''اغزوا بسم اللّه...ادعوهم الیٰ الدّخول فی الاسلام...فان فعلوا فاقبلوا منهم و اکقفوا عنهم...و الا فقاتلوا عدو الله و عدوکم بالشام و ستجدون فیها رجالا فی الصوامع معتزلین الناس، فلا تعرضوا لهم، و ستجدون آخرین للشیطان فی رؤوسهم مفاحص

____________________

۱۔ جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ھ میں ہوئی۔

۱۸۱

فاقلعوها بالسیوف ولا تقتلن امراة ولا صغیراً ولامر ضعاً ولا کبیراً فانیا لا تغرفن نخلا ولا تقطعن شجراً ولا تهدموا بیتاً'' ( ۱ )

پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا...اگر انہوں نے قبول کر لیا تو ان پر حملہ نہ کرنا انہیں مسلمان سمجھنا اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تم اپنے اور خدا کے دشمن سے شام میں جنگ کرنا اور دیکھو تمہیں کلیسائوں میں کچھ لوگ گوشہ نشین ملیں گے ان سے کچھ نہ کہنا۔

اور کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو شیطان کے چیلے ہونگے ان کے سرمنڈھے ہونگے انہیں تلواروں سے صحیح کرنا اور دیکھو عورتوں، دودھ پیتے بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کو برباد نہ کرنا اور کسی درخت کو نہ کاٹنا اور کسی گھر کو منہدم نہ کرنا۔

اس لشکر کو وداع کرنے کے لئے رسول(ص) بھی ان کے ساتھ چلے اور ثنیة الوداع تک ان کے ساتھ گئے مسلمانوں کا یہ لشکر جب ''مشارق'' کے مقام پر پہنچا تو وہاں کثیر تعدادمیں روم کی فوج دیکھی، جس میں دو لاکھ جنگجو شامل تھے۔ مسلمان موتہ کی طرف پیچھے ہٹے اور وہاں دشمن سے مقابلہ کیلئے، تیار ہوئے مختلف اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا اور نتیجہ میں تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس دور افتادہ علاقہ میں جنگ کر رہے تھے جہاں امداد کا پہنچنا مشکل تھا۔ پھر یہ روم والوںپر حملہ آور ہوئے تھے اوروہ اپنی کثیر تعداد کے ساتھ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ،دونوں لشکروں کی جنگی معلومات میں بہت زیادہ فرق تھا، روم کی فوج ایک منظم و مستحکم فوج تھی جو جنگی مشق کرتی رہتی تھی، دوسری طرف مسلمانوں کی تعداداوران کے جنگی معلومات بہت کم تھی،یہ جمعیت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔( ۲ )

جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر سن کر رسول(ص) بہت غم زدہ ہوئے اور آپ(ص) پرشدید رقت طاری ہوئی

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۷۵۸ ، سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۸۱۔

۱۸۲

تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اسی طرح زید بن حارثہ کے مارے جانے کا بھی بہت صدمہ ہوا۔( ۱ )

۲۔ فتح مکہ

جنگ موتہ کے بعد علاقہ کی طاقتوں کے مختلف قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے، مسلمانوں کے پسپا ہونے اور شام میں داخل نہ ہونے سے روم کو بہت خوشی تھی۔

قریش بھی بہت خوش تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جرأت بڑھ گئی تھی چنانچہ وہ معاہدہ ٔامان کو ختم کرکے صلح حدیبیہ کو توڑ نے کی کوشش کرنے لگے انہوںنے قبیلۂ بنی بکر کو قبیلۂ بنی خزاعہ کے خلاف اکسایا جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلۂ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا تھا اور خزاعہ رسول(ص) کا حلیف بن گیا تھااور اسلحہ وغیرہ سے اس کی مدد کی جس کے نتیجہ میں قبیلۂ بکر نے قبیلۂ خزاعہ پر ظلم کیا اور اس کے بہت سے لوگوںکو قتل کر دیا حالانکہ وہ اپنے شہروں میں امن کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض تو ان میں سے اس وقت عبادت میں مشغول تھے انہوںنے رسول(ص) سے فریاد کی اور مدد طلب کی۔ عمرو بن سالم نے رسول(ص) کے سامنے کھڑے ہو کر جب آپ(ص) مسجد میں تشریف فرما تھے نقض عہد کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، جس سے رسول(ص) بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:''نُصِرتَ یا عمرو بن سالم'' اے سالم کے بیٹے عمرو تمہاری مدد کی جائیگی۔

قریش کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں اپنی غلط حرکت کا احساس ہو گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے انہیں خوف لاحق ہوا اس صورت حال کے بارے میں انہوں نے آپس میں مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ابو سفیان کو مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ صلح کی تجدید کرے اور رسول(ص) سے مدتِ صلح بڑھانے کی درخواست کرے۔

لیکن رسول(ص) نے ابو سفیان کی باتوں پر توجہ نہ کی بلکہ اس سے یہ فرمایا: اے ابو سفیان کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں رسول(ص) نے فرمایا: ہم اپنی صلح اور اس کی مدت پر قائم ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۵۴، مغازی ج۲ ص ۷۶۶، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۶۸۔

۱۸۳

اس سے ابوسفیان کا دل مطمئن نہ ہوا اور اس کو سکون حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے رسول(ص) سے عہد لینے اور امان طلب کرنے کی کوشش کی لہذا وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا کہ جو نبی (ص) سے یہ کام کرا دے مگرہر ایک نے واسطہ بننے سے انکار کر دیااور اس کی باتوں کی طرف اعتنا نہ کی۔ جب اسے کوئی چارہ کا ر نظر نہ آیا تو وہ ناکام مکہ واپس لوٹ گیا مشرک طاقتوں کے معاملات پیچیدہ ہو گئے تھے۔ حالات بدل گئے تھے اب رسول(ص) بڑھتی ہوئی طاقت اور راسخ ایمان کے سبب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونا چاہتے تھے مشرکین مکہ کی پیمان شکنی نے اس کا جواز پیدا کر دیااور قریش اپنی جان و مال کے لئے امان طلب کرنا چاہتے تھے۔ مکہ پر اقتدار و تسلط کا مطلب یہ تھا کہ پورا جزیرةالعرب اسلام کے زیر تسلط آ جائے۔

رسول(ص) نے یہ اعلان کر دیا کہ سب لوگ دشمن سے جنگ کے لئے تیار ہوجا ئیں چنانچہ مسلمانوں کے گروہ آپ(ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہو نے لگے دس ہزار کا لشکر فراہم ہو گیا رسول(ص) نے چند مخصوص افراد ہی سے اپنا مقصد بیان کیا تھا آپ(ص) خدا سے یہ دعا کر رہے تھے۔

''اللهم خذ العیون و الاخبار من قریش حتی نباغتها فی بلادها'' ( ۱ )

اے اللہ قریش کی آنکھوں اور ان کے سراغ رساں لوگوں کو ناکام کر دے یہاں تک کہ ہم ان کے شہر میں ان کے سروں پر پہنچ جائیں۔

ظاہر ہے کہ رسول(ص) کم مدت میں بغیر کسی خونریزی کے پائیدار کا میابی چاہتے تھے اسی لئے آپ(ص) نے خفیہ طریقہ اختیار کیا تھا لیکن اس کی خبر ایسے شخص کو مل گئی جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے اس سلسلہ میں قریش کو ایک خط لکھ دیا اور ایک عورت کے بدست روانہ کر دیا وحی کے ذریعہ رسول(ص) کو اس کی خبر ہو گئی آپ(ص) نے حضرت علی اور زبیر کو حکم دیا کہ اس عورت تک پہنچو اور اس سے خط واپس لو حضرت علی بن ابی طالب نے رسول(ص) پرراسخ ایمان کے سبب اس عورت سے خط واپس لے لیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۳۹۷، مغازی ج۲ ص ۷۹۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۹۸۔

۱۸۴

رسول(ص) نے وہ خط لیتے ہی مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا تاکہ ایک طرف ان کی ہمت بڑھا ئیں اور دوسری طرف انہیں خیانت سے ڈرائیں اور ان پر یہ بات ظاہر کر دیں کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو کچلنے کی کتنی اہمیت ہے ۔ مسلمان اس خط کے بھیجنے والے حاطب بن ابی بلتعہ کا دفاع کرنے لگے کیونکہ اس نے خدا کی قسم کھا کے یہ کہا تھا کہ خط بھیجنے سے اس کا مقصد خیانت نہیں تھا ، لیکن اس کی اس حرکت پر عمر بن خطاب کو بہت زیادہ غصہ آیا اور رسول(ص) سے عرض کی : اگر اجازت ہو تو میں اسے ابھی قتل کردوں رسول(ص) نے فرمایا:

''وما یدریک یا عمر لعل الله اطلع علیٰ اهل بدر و قال لهم اعملوا ما شئتم خلفه غفرت لکم'' ( ۱ )

اے عمر تمہیں کیا خبر؟ ہو سکتا ہے خدا نے بدر والوں پر نظر کی ہو اور ان سے یہ فرمایا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔

فوج اسلام کی مکہ کی طرف روانگی

دس رمضان المبارک کو فوج اسلام مکہ کی طرف روانہ ہوئی جب''کدید'' کے مقام پر پہنچی تو رسول(ص) نے پانی طلب کیا اور مسلمانوں کے سامنے آپ(ص) نے پانی پیا، مسلمانوں کو بھی آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا لیکن ان میں سے بعض لوگوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ توڑا، ان کی اس نافرمانی پر رسول(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا:''اولٰئک العصاة'' یہ نافرمان ہیں پھرانہیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔( ۲ ) جب رسول(ص) ظہران کے نزدیک پہنچے تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو صحراء میں منتشر ہونے اور ہر ایک کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا، اس طرح ڈرائونی رات روشن ہو گئی اور قریش کی ہر طاقت کو مسلمانوں کا عظیم لشکر نظر آیا جس کے سامنے قریش کی ساری طاقتیں سر نگوں ہو گئیں، اس کو دیکھ کر عباس بن عبد المطلب پریشان ہوئے

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۳۶۳، مغازی ج۲ ص ۷۹۸، لیکن محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سیرة المصطفیٰ ، ص ۵۹۲۔

۲۔ وسائل الشیعة ج۷ ص ۱۲۴، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۹۰، مغازی ج۲ ص ۸۰۲، صحیح مسلم ج۳ ص ۱۴۱ و ۱۴۲، کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فی شہر رمضان للمسافر فی غیر معصیة، دار الفکر، بیروت۔

۱۸۵

یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔

اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔

یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔

ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا

جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )

عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔

۱۸۶

اوپر، قبل اس کے کہ تجھے قتل کر دیا جائے یہ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول (ص) ہیں۔ پس ابو سفیان نے قتل کے خوف سے خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔

ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد مشرکین کے دوسرے سردار بھی اسی طرح اسلام لے آئے لیکن رسول(ص) نے اس غرض سے کہ قریش خونریزی کے بغیر اسلام قبول کر لیں، ان پر نفسیاتی دبائو ڈالا۔ عباس سے فرمایا: اے عباس ا سے کسی تنگ وادی میں لے جائو، جہاں سے یہ فوجوں کو دیکھے۔

رسول(ص) نے اطمینان کی فضا پیدا کرنے اور اسلام و رسول اعظم کی مہربانی و رحم دلی پر اعتماد قائم کرنے نیز ابو سفیان کی عزت نفس کو باقی رکھنے کی غرض سے فرمایا:

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کے لئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے ، جو مسجد میں داخل ہو جائیگا وہ امان میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے گا وہ امان میں ہے ۔

اس تنگ وادی کے سامنے سے خدائی فوجیں گذرنے لگیں جو دستہ گذرتا تھا عباس اس کا تعارف کراتے تھے کہ یہ فلاں کا دستہ ہے وہ فلاںکا دستہ ہے اس سے ابو سفیان پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے عباس سے کہا: اے ابو الفضل خدا کی قسم تمہارا بھتیجہ بہت بڑا بادشاہ بن گیا، عباس نے جواب دیا: یہ بادشاہت نہیں ہے یہ نبوت ہے ۔ ان کے جواب میںابوسفیان نے تردد کیا ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو ڈرانے اور رسول(ص) کی طرف سے ملنے والی امان کا اعلان کرنے کے لئے ابو سفیان مکہ چلا گیا۔( ۱ )

مکہ میں داخلہ

رسول(ص) نے اپنی فوج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے متعلق کچھ احکام صادر فرمائے اورہر دستہ کے لئے راستہ معین کر دیا نیزیہ تاکید فرمائی کہ جنگ سے پرہیز کریں ہاں اگر کوئی بر سر پیکار ہو جائے تو اس کاجواب

____________________

۱۔ مغازی از واقدی ج۲ ص ۸۱۶، سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۷۔

۱۸۷

دیا جائے، چند مشرکین کا خون ہر حال میں مباح قرار دیا، خواہ وہ کعبہ کے پردہ ہی سے لٹکے ہوئے ہوں کیونکہ وہ اسلام اور رسول(ص) کے سخت ترین دشمن تھے۔

جب مکہ کے درو دیوار پرآپ (ص) کی نظر پڑی تو آنکھوں میں اشک بھر آئے، اسلامی فوجیں چاروں طرف سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں فتح و نصرت نے اس کی شان دوبالا کر دی تھی اور رسول(ص) کو خدانے جو نعمت و عزت عطا کی تھی اس کے شکریہ کی خاطر رسول(ص) سر جھکائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے کیونکہ اعلائے کلمةاللہ کے لئے آپ (ص) کی بے پناہ جانفشانیوں کے بعد ام القریٰ نے آپ(ص) کی رسالت و حکومت کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔

اہلِ مکہ کے شدید اصرار کے باوجود نبی (ص) نے کسی کے گھر میں مہمان ہونا قبول نہیں کیا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ(ص) نے غسل کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ تکبیر کہی تو سارے مسلمانوں نے تکبیر کہی، دشت و جبل میں نعرۂ تکبیر کی آواز گونجنے لگی-جہاں اسلام اور اس کی فتح سے خوف زدہ ہو کر شرک کے سرغنہ جا چھپے تھے-خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ(ص) نے اس میں موجود ہر بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) کہو ،حق آیا باطل گیا باطل کو تو جانا ہی تھا اس سے ہر بت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: تم بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے دوش پر سوار ہو کر بتوںکو توڑ دوں لیکن حضرت علی اپنے دوش پر نبی (ص) کا بار نہ اٹھا سکے تو حضرت علی بن ابی طالب دوش رسول(ص) پر سوار ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ پھر رسول(ص) نے خانۂ کعبہ کی کلید طلب کی، دروازے کھولے، اندر داخل ہوئے اور اس میں موجود ہر قسم کی تصویر کو مٹا دیا۔ اس کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر فتحِ عظیم کے بارے میں ایک جمِّ غفیر کے سامنے خطبہ دیا ، فرمایا:

۱۸۸

''لا الٰه الا اللّٰه وحده لا شریک له، صدق وعده، و نصر عبده، و هزم الاحزاب وحده، الا کل ماثره اودم او مال یدعی فهو تحت قدمی هاتین الا سدانة البیت و سقایة الحاج...'' ۔

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اسی نے سارے لشکروں کو شکست دی، ہر وہ فضیلت یا خون یا مال کہ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے قدموں کے نیچے ہے ، سوائے خانۂ کعبہ کی کلید برداروی اور حاجیوں کو سیراب کرنے کی فضیلت...۔

پھر فرمایا:'' یا معاشر قریش ان اللّٰه قد اذهب عنکم نخوة الجاهلیة وتعظمها بالآباء النّاس من آدم و آدم من تراب...'' ( ۱ )

اے گروہ قریش! خدا نے تمہارے درمیان سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے تھے یا د رکھو سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

( یا ایها النّاس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ان اللّٰه علیم خبیر )

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک خدا کی نظر میں تم میں سے وہی محترم ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔( ۲ )

پھر فرمایا: اے گروہِ قریش تم کیا سوچتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟

انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا:''اذهبوا انتم طلقائ'' ( ۳ ) جائو تم آزاد ہو۔

____________________

۱۔ مسند احمدج۱ ص ۱۵۱، فرائد السمطین ج۱ ص ۴۹، کنز العمال ج۱۳ ص۱۷۱، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۸۶۔

۲۔حجرات:۱۳۔

۳۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۰۶، سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۱۲۔

۱۸۹

اس کے بعد بلال نے خانۂ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان ظہر دی سارے مسلمانوں نے اس فتح کے بعد مسجد الحرام میں رسول(ص) کی امامت میں نماز پڑھی ، مشرکین حیرت سے کھڑے منہ تک رہے تھے، سرتاپا خوف و استعجاب میں ڈوبے ہوئے تھے، اہل مکہ کے ساتھ رسول(ص) کا یہ سلوک دیکھ کر انصار کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں رسول(ص) دوبارہ مکہ آباد نہ کریں ، ان کے ذہنوںمیں اور بہت سے خیالات گردش کر رہے تھے، رسول(ص) بارگاہ معبود میں دست بدعا تھے، انصار کے دل کی کیفیت سے بھی آگاہ تھے، انہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:''معاذ اللّٰه المحیا محیاکم و الممات مماتکم'' ایسا نہیں ہوگا میری موت و حیات تمہاری موت و حیات کے ساتھ ہے ، اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہے گا۔

اس کے بعد مکہ والے رسول(ص) سے بیعت کے لئے بڑھے، پہلے مردوںنے بیعت کی ۔ بعض مسلمانوں نے ان لوگوں کی بھی رسول(ص) سے سفارش کی جن کا خون مباح کر دیا گیا تھا، رسول(ص) نے انہیںمعاف کر دیا۔

پھر عورتیں بیعت کے لئے آئیں -ان کی بیعت کے لئے آپ(ص) نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پانی سے لبریز ظرف میں پہلے آپ(ص) ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے پھر عورت اس میں ہاتھ ڈالتی تھی- ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کو خدا کا شریک نہیں قراردیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں پیروں کے ذریعہ گناہ نہیں کریںگی اور بہتان نہیں باندھیں گی اور امر بالمعروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔( ۱ )

رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کے حلیف خزاعہ نے مشرکین کے ایک آدمی پر زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا، آپ(ص) کھڑے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''یا ایّها النّاس ان الله حرم مکة یوم خلق السمٰوات و الارض فهی حرام الیٰ یوم القیامة لا یحل لامریٔ یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر ان یسفک دماً او یعضد فیها شجراً'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۱۳ ، سورۂ ممتحنہ :۱۲۔

۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث ۳۱۰۹، کنز العمال ح ۳۴۶۸۲، در منثور ج۱ ص ۱۲۲۔

۱۹۰

اے لوگو! بیشک خدا نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز مکہ کو حرم قراردیدیا تھا اور وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اور جو شخص خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس میں خونریزی کرے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔

پھر فرمایا:''من قال لکم ان رسول اللّه قد قاتل فیها فقولوا ان اللّه قد احلها لرسوله و لم یحللها لکم یا معاشرخزاعه''

اور اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ(ص) نے اس شہر میں جنگ کی ہے تو اس سے کہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے جنگ حلال کی تھی اور تمہارے لئے جنگ حلال نہیں کی ہے اے بنی خزاعہ!

رسول(ص) نے اہل مکہ اور اس کے باشندوںکے بارے میں جس محبت و مہربانی ،عفو و در گذر اور مکہ کی سر زمین کی تقدیس اور اس کی حرمت کے متعلق جو اقدام کئے تھے وہ قریش کو بہت پسند آئے، لہذا ان کے دل آپ(ص) کی طرف جھکے اورانہوں نے بطیب الخاطر اسلام قبول کرلیا۔

جب پورا علاقہ مسلمان ہو گیا تو رسول(ص) نے مکہ اور اس کے مضافات میں بعض دستے روانہ کئے تاکہ وہ باقی ماندہ بتوں کو توڑ ڈالیں اور مشرکین کے معبدوں کو منہدم کر دیں لیکن خالد بن ولید نے اپنے چچا کے قصاص میں بنی جذیمہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا حالانکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔( ۱ ) جب رسول (ص) کو اس سانحہ کی خبر ملی تو آپ(ص) بہت غضبناک ہوئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ ان مقتولوں کی دیت ادا کریں پھرآپ(ص) قبلہ رو کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کی:''اللّهم انّی ابرء الیک مما صنع خالد بن الولید'' اے اللہ جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے بری ہوں، اس سے بنی جذیمہ کے دلوںکو اطمینان ہو گیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۲۰، خصال ص ۵۶۲، امالی طوسی ص ۳۱۸۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۴۸۔

۱۹۱

۳۔ جنگ حنین او ر طائف کا محاصرہ( ۱ )

فاتح کی حیثیت سے رسول(ص) کو مکہ میں پندرہ روز گزر گئے شرک کی مدتِ دراز کے بعد توحید کا یہ عہدِ جدید تھا مسلمان مسرت میں جھوم رہے تھے، ام القریٰ میں امن و امان کی حکمرانی تھی اچانک رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ ہوازن و ثقیف دونوں قبیلوںنے اسلام سے جنگ کرنے کی تیاری کر لی ہے ان کا خیال ہے اس کام کو انجام دیدیں گے جسے شرک و نفاق کی ساری طاقتیں متحد ہو کر انجام نہ دے سکیں یعنی یہ دونوں قبیلے-معاذ اللہ- اسلام کو نابود کر دیں گے؟! رسول(ص) نے ان سے نمٹنے کا عزم کیا لیکن آپ(ص) نے اپنی عادت کے مطابق پہلے مکہ میں امور کی دیکھ بھال کا انتظام کیا نماز پڑھانے اور امور کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد کیا لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور انہیں احکام اسلام سکھانے کے لئے معاذ بن جبل کو معین کیا اس کے بعد بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، اتنی بڑی فوج مسلمانوں نے نہیں دیکھی تھی اس سے انہیں غرور ہو گیا یہاں تک ابو بکر کی زبان پر یہ جملہ آگیا : اگر بنی شیبان بھی ہم سے مقابلہ کریں گے تو آج ہم اپنی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہونگے۔( ۲ )

ہوازن و ثقیف میں اتحاد تھاوہ جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اہل و عیال کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور لشکر اسلام کو کچلنے کے لئے گھات میں بیٹھ گئے تھے۔لشکر اسلام کے مہراول دستے جب کمین گاہ کے اطراف میں پہنچے توانہوں نے انہیں فرار کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ دشمن کے اسلحہ سے ڈر کر باقی مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکے، بنی ہاشم میں سے صرف نو افراد رسول(ص) کے ساتھ باقی بچے تھے دسویں ایمن-ام ایمن کے بیٹے- تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر منافقین مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ ابو سفیان طعن و تشنیع کرتا ہوا نکلا اور کہنے لگا۔ یہ لوگ جب تک سمندر کے کنارے تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دم نہیں لیں گے ۔ کسی نے کہا: کیا آج سحر باطل نہیں ہو گیا؟ کسی نے اس پریشان حالی میں رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ جنگ حنین ماہ شوال ۸ھ میں ہوئی ۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۵۰، مغازی ج۲ ص ۸۸۹۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۴۳، مغازی ج۳ ص ۹۹۔

۱۹۲

رسول(ص) نے اپنے چچا عباس سے فرمایا کہ بلندی پر جاکر شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے انصار و مہاجرین کو اس طرح آواز دیں:'' یا اصحاب سورة البقره، یا اهل بیعة الشجرة الی این تفرون؟ هذا رسول اللّه!''

اے سورۂ بقرہ والو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ اللہ کے رسول(ص) ہیں ۔

اس سے وہ لوگ غفلت کے بعد ہوش میں آگئے، پراگندگی کے بعد میدان کار زار پھر گرم کیا، اسلام اور رسول(ص) کا دفاع کرنے کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کی طرف لوٹ آئے جب رسول(ص) نے ان کی جنگ دیکھی تو فرمایا:''الآن حمی الوطیس انا النبی لا کذب انا ابن المطلب'' ہاں اب جنگ اپنے شباب پر آئی ہے ، میں خدا کا نبی (ص) ہوں جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پس خدا نے مسلمانوں کے دلوں کو سکون بخشااور اپنی مدد سے ان کی تائید کی جس کے نتیجے میں کفر کے گروہ شکست کھا کر بھاگ گئے ، لشکر اسلام نے ان میں سے چھہ ہزار کو اسیر کیااور بہت سا مال غنیمت پایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے فرمایا: مال غنیمت کی حفاظت اور اسیروں کی نگہبانی کی جائے۔ دشمن فرار کرکے اوطاس، نخلہ اور طائف تک پہنچ گیا۔

یہ رسول(ص) کے اخلاق کی بلندی ، رحم دلی اور عفو ہی تھا کہ آپ(ص) نے ام سلیم سے فرمایا:''یا ام سلیم قد کفی اللّه، عافیة اللّه اوسع'' خدا کافی ہے اور اس کی عافیت بہت زیادہ وسیع ہے ۔

دوسری جگہ رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کو یہ خبر ملی کہ بعض مسلمان مشرکین کی ذریت کو تہ تیغ کر رہے ہیں فرمایا:''ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتی بلغ الذریة الا لا نقتل الذریة'' ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب وہ بچوں تک کو قتل کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بچوںکو قتل نہیں کرتے ہیں۔ اسید بن حضیر نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! کیایہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ فرمایا:

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں جو کہ خدا کی تائید و نصرت کی وضاحت کر رہی ہیں۔

۱۹۳

''اولیس خیارکم اولاد المشرکین ، کل نسمة تولد علیٰ الفطرة حتی یعرب عنها لسانها و ابواها یهودانها او ینصرانها'' ( ۱ ) کیا تمہارے بہترین افراد مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ ہر انسان فطرت-اسلام- پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے فوجی دستے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے طائف تک پہنچ گئے اور تقریبا پچیس دین تک ان کا محاصرہ کئے رہے ، وہ بھی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیر بارانی کرتے تھے اس کے بعد رسول(ص) بہت سی وجوہ کی بنا پر طائف سے لوٹ آئے۔

جب جعرانہ -جہاں اسیروں اور مال غنیمت کو جمع کیا گیا تھا-پہنچے تو قبیلۂ ہوازن کے بعض لوگوں نے خدمت رسول(ص) میں معافی کے لئے التماس کی، کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص)! ان اسیروں میں بعض آپ(ص) کی پھوپھیاں اور بعض خالائیں ہیں جنہوں نے آپ(ص) کو گود کھلایا ہے -ایک روایت کے مطابق رسول(ص) کو رضاعت کے لئے قبیلہ بنی سعد کے سپرد کیا گیا تھا جو کہ ہوازن کی شاخ تھی-اگر ہم حارث بن ابی شمر یا نعمان بن المنذر سے انتا اصرار کرتے تو ہمیں ان کے عفو و مہربانی کی امید ہوتی۔ آپ(ص) سے توان سے زیادہ امید ہے ۔ اس گفتگو کے بعد رسول(ص) نے ان سے یہ فرمایا: ایک چیز اختیار کریں ۔ یا مال واپس لے لیں یا قیدیوں کو چھڑا لیں۔ انہوں نے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا:''اما ما کان لی ولبن عبد المطلب فهو لکم '' جو میرا اور بنی عبد المطلب کا حصہ ہے وہ تمہارا ہے جب مسلمانوںنے رسول (ص) کا عفو و کرم دیکھا تو انہوںنے بھی اپنا اپنا حصہ رسول(ص) کے سپرد کر دیا۔( ۲ )

رسول(ص) نے اپنی حکمت بالغہ اور درایت سے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز جنگ کی آگ کو خاموش کرنے کی خاطر سب کو معاف کر دیا یہاں تک کہ اس جنگ کو بھڑکانے والا مالک بن حارث بھی اگر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آجائے تو اسے بخش دیا جائیگا۔ چنانچہ ارشاد ہے :

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۰۹۔

۲۔سید المرسلین ج۲ ص ۵۳، مغازی ج۳ ص ۹۴۹-۹۵۳۔

۱۹۴

''اخبروا مالکاً انّه ان اتانی مسلماً رددت علیه اهله و ماله واعطیته مائة من الابل و سرعان ما اسلم مالک'' ( ۱ )

مالک کو خبر کرو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیگا تو اس کے اہل و عیال اور مال و دولت اسے واپس مل جائیں گے اور مزیداسے سو اونٹ دئیے جائینگے۔ اس کے نتیجہ میں مالک نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

مال غنیمت کی تقسیم

مسلمان رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے ،انہوں نے اس سلسلہ میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپ(ص) کی ردا تک اچک لے گئے آپ(ص) نے فرمایا:

''ردوا علی ردائی فو اللّٰه لو کان لکم بعدد شجر تهامة نعماً لقسمته علیکم، ثم ما الفیتمونی بخیلاً ولا جباناً ولا کذاباً'' ۔

میری ردا واپس کر دو، خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی تمہارا مال ہوتا تو بھی میں اسے تقسیم کر دیتا پھر تم مجھ پر بخل، بزدلی اور جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔

اس کے بعد آپ(ص) اٹھے، اپنے اونٹ کے کوہان کے کچھ بال لئے اور اپنی انگلیوں میں لیکر بلند کیا اورفرمایا:

''ایها النّاس و اللّه مالی فی فیئکم ولا هذه الوبرة الا الخمس ، و الخمس مردود علیکم'' ۔

اے لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ اس اونٹ کے بال کے برابر بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور وہ پانچواں حصہ بھی تمہیں دے دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے یہ حکم دیا کہ جو چیز بھی غنیمت میں ہاتھ آئی ہے اسے واپس لوٹایا جائے تاکہ انصاف کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص ۹۵۴ و ص ۹۵۵۔

۱۹۵

رسول(ص) نے مولفة القلوب ، ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، سہیل بن عمرو،حویطب بن عبد العزی اور صفوان بن امیہ وغیرہ سے شروع کیا، یہ کفر و شرک کے وہ سرغنہ تھے جو آپ (ص) کے سخت ترین دشمن اور کل تک آپ(ص) سے جنگ کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا حق خمس بھی انہیں میں تقسیم کر دیا رسول(ص) کے اس عمل سے بعض مسلمانوں کے دل میں غصہ وحمیت بھڑک اٹھی کیونکہ وہ رسول(ص) کے مقاصد اور اسلام کی مصلحتوں سے واقف نہیں تھے ، یہ غصہ میں اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ ان میں سے ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میں آپ(ص) کو عادل نہیں پاتا ہوں۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا: ''ویحک اذا لم یکن العد ل عندی فعند من یکون'' وائے ہو تمہارے اوپر اگر میں عدل نہیں کرونگا تو کون عدل کرے گا؟ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں لیکن رسول(ص) نے انہیں اجازت نہیں دی فرمایا:''دعوه فانه سیکون له شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوا منه کما یخرج السهم من رمیته'' ۔( ۱ )

جانے دو عنقریب اس کے پیرو ہونگے جو دین کے بارے میں بہت بحث کیا کریں گے او ردین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔

انصار کا اعتراض

سعد بن عبادہ نے یہ مناسب سمجھا کہ رسول(ص) کو انصار کی یہ بات ''کہ رسول(ص) اپنی قوم سے مل گئے اور اپنے اصحاب کو بھول گئے'' بتا دی جائے جو ان کے درمیان گشت کر رہی ہے ۔ سعد نے انصار کو جمع کیا رسول(ص) کریم تشریف لائے تاکہ ان سے گفتگو کریں، پس آپ(ص) نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

''یا معشر الانصار ما مقالة بلغتنی عنکم وجِدَةً وجد تموها ف انفسکم؟ ! الم آتکم ضُلّالاً فهداکم اللّه و عالة فاغناکم اللّه و اعدائً فالّف اللّه بین قلوبکم؟ قالوا: بلیٰ اللّه و

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۶، مغازی ج۳ ص ۹۴۸۔

۱۹۶

رسوله أمّنُّ و افضل ، ثم قال: الا تجیبون یا معشر الانصار؟ قالواو ماذا نجیبک یا رسول اللّه؟ قال: اما و اللّه لو شئتم قلتم فصدقتم: اتیتنا مکذباً فصدقناک و مخذولاً فنصرناک و طریداً فآویناک و عائلاً فآسیناک وجدتم ف انفسکم یا معشر الانصار ان یذهب النّاس بالشاة و البعیر و ترجعوا برسول اللّه الیٰ رحالکم؟ و الذی نفس محمد بیده لولا الهجرة لکنت امر ئاً من الانصار ولو سلک النّاس شعباً و سلکت الانصار شعباً لسلکت شعب الانصار''

اے گروہ انصار! مجھ تک تمہاری وہ بات پہنچی ہے جو تم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو ۔ کیا تم پہلے گمراہ نہیں تھے ، خدا نے تمہیں-ہمارے ذریعہ-ہدایت دی، تم نادار و مفلس تھے خدا نے تمہیں ہماری بدولت مالا مال کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ انصار نے کہا: خدا و رسول(ص) کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ پھر فرمایا: اے گروہ انصار کیا تم مجھے جواب نہیں دوگے؟ انہوںنے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ(ص) کو کس طرح جواب دیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم اس طرح کہتے تو سچ ہوتا کہ لوگوں نے آپ(ص) کو جھٹلایا اور ہم نے اپ(ص) کی تصدیق کی ، لوگوں نے آپ(ص) کو چھوڑ دیا تو ہم نے آپ(ص) کی مدد کی لوگوںنے آپ(ص) کو وطن سے نکال دیا تو ہم نے آپ(ص) کو پناہ دی، آپ مفلس تھے ہم نے آپ(ص) کی مال سے مدد کی اے گروہِ انصار! تم اپنے دلوں میں دنیا کی جس چیز کی محبت محسوس کرتے ہو اس کے ذریعہ میں نے کچھ لوگوں کی تالیف قلب کی ہے تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے اے گروہ انصار کیاتمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اونٹ اور بکریوں کے ساتھ اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول(ص) کے ساتھ اپنے گھر جائو؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(ص) کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوتا اگر لوگ کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے اور انصار بھی کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے تو میں انصار کے قبیلہ کو اختیار کرتا۔

ان جملوںنے ان کے دلوں میں جذبات و شعور کو بیدار کر دیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کے بارے میں ان کا خیال صحیح نہیں تھا یہ سوچ کر وہ رونے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص) ہم اسی تقسیم پر راضی ہیں۔

۱۹۷

ماہِ ذی الحجہ میں رسول(ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جعرانہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، عمرہ بجالائے احرام کھولا، عتاب بن اسید اور ان کے ساتھ معاذ بن جبل کو مکہ میں اپنا نمائندہ مقرر کیا جو مہاجرین و انصارآپ کے ساتھ تھے ان کے ہمراہ آپ(ص)مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔( ۱ )

۴۔ جنگ تبوک( ۲ )

اسلامی حکومت ایک مستقل نظام کی صورت میں سامنے آئی اس کے سامنے بہت سے چیلنج تھے اس کی سرحدوں اور زمینوں کی حفاظت کرنا مسلمانوںکا فریضہ تھا تاکہ زمین کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

رسول(ص) نے مملکتِ اسلامیہ کے تمام مسلمانوںسے یہ فرمایا کہ روم سے جنگ کے لئے تیاری کرو، کیونکہ روم کے بارے میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب پر حملہ کرکے دین اسلام اور اس کی حکومت کونیست و نابود کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ اتفاق سے اس سال بارش نہیں ہوئی، جس کے نتیجہ میںپیداوار کم ہوئی اور شدید گرمی پڑ ی، اس صورت میں دشمن کی اس فوج سے مقابلہ کے لئے نکلنا بہت دشوار تھا جو تجربہ کار قوی اور کثیر تھی چنانچہ جن لوگوں میں روحانیت کم تھی اور جن کے نفس کمزور تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک بار پھر نفاق کھل کرسامنے آ گیا تاکہ ارادوںمیں ضعف آجائے اور اسلام کو چھوڑ دیا جائے۔

بعض تو اس لئے لشکر اسلام میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ دنیا کو بہت دوست رکھتے تھے، بعض شدید گرمی کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئے کچھ اپنے ضعف اور رسول(ص) کے کم وسائل کی وجہ سے آپ(ص) کے ساتھ نہیں گئے، حالانکہ راہ خدا میں جہاد کے لئے سچے مومنین نے اپنا مال بھی خرچ کیا تھا۔

رسول (ص) کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ منافقین ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور لوگوں کو جنگ میں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۸، مغازی ج۳ ص ۹۵۷۔

۲۔ جنگ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں ہوئی ۔

۱۹۸

شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔

خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔

نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت

جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔

فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )

____________________

۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔

۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔

۱۹۹

وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیںاپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو، اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''

انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔

رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' ' ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔

مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:''لو امرت به ما استشرتکم فیه'' اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا( ۱ ) پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

____________________

۱۔المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296