منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)33%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137299 / ڈاؤنلوڈ: 6243
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

3 ۔ علم و آگاہی

ظاہر ہے کہ انسان صرف اسی وقت کسی فرض کو ادا کرنے پر قادر ہو سکتا ہے جب وہ اس سے آگاہ ہو یعنی وہ فرض اس تک پہنچا دیا گیا ہو فرض کریں کہ کوئی قانون ساز قانون وضع کر دے لیکن قانون اس شخص تک نہیں پہنچا جس نے اس پر عمل کرنا ہے تو وہ شخص اس قانون کی پابندی کا ذمہ دار نہیں بلکہ وہ اس قانون پر عمل کرنے پر قادر بھی نہیں اور اگر وہ شخص اس قانون کے خلاف عمل کرے تو قانون ساز اس کو سزا نہیں دے سکتا۔

علمائے علم اصول کا نظریہ ہے کہ اس شخص کو سزا دینا قبیح ہے جو فرض سے آگاہ نہیں ہے اور جس نے فرض معلوم کرنے میں کوتاہی بھی نہیں کی اور قانون کی اس شق کو ”عقاب بلا بیان کی قباحت“ کہتے ہیں۔

قرآن حکیم نے مکرر اس حقیقت کو بیان کیا ہے کہ ”ہم کسی قوم کو کسی قانون کی خلاف ورزی کی سزا نہیں دیتے مگر یہ کہ ان لوگوں پر حجت پوری ہو گئی ہو“ یعنی ہم کسی قوم کو ”بلا بیان سزا نہیں دیتے۔

البتہ فرض کے لئے ”علم و آگاہی“ کی جو شرائط اوپر بیان کی گئی ہیں اس سے یہ لازم نہیں آتا کہ انسان عملاً اپنے آپ کو بے خبری میں رکھے اور اس بے خبری کو اپنے لئے عذر بنائے اس کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ علم حاصل کرے اور اس علم کی بناء پر عمل کرے۔

۴۱

حدیث میں آیا ہے کہ قیامت کے دن بعض گناہگاروں کو اللہ کی عدالت میں حاضر کیا جائے گا اور اپنی بعض ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوتاہی کرنے پر ان کا مواخذہ کیا جائے گا۔ گناہگار سے کہا جائے گا: ”تو نے اپنا فرض کیوں پورا نہیں کیا؟“ وہ جواب دے گا: ”مجھے معلوم نہ تھا۔“ پھر اس سے کہا جائے گا: ”تم نے معلوم کیوں نہ کیا اور علم حاصل کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی؟“

یہ جو ہم کہتے ہیں کہ فرض سے مطلع ہونا ادا کرنے کی شرط ہے اس سے مراد یہ ہے کہ اگر فرض کا حکم کسی شخص تک نہ پہنچ سکے اور عدم حصول علم میں اس شخص کا کوئی قصور بھی نہ ہو تو وہ شخص قصوروار متصور نہ ہوگا یعنی اس نے علم حاصل کرنے کی ضروری کوشش تو کی لیکن باوجود اس کے وہ معلوم نہیں کر سکتا تو ایسا شخص خدا کے نزدیک معذور قرار پائے گا۔

4 ۔ طاقت و توانائی

اصل میں وہی کام انسان کے لئے فرض قرار پاتا ہے جس کی انجام دہی کی اس میں طاقت ہو لیکن وہ کام جس کی انجام دہی پر انسان قادر نہ ہو فرض قرار نہیں پاتا اس میں شک نہیں کہ انسان کی توانائیاں محدود ہیں چونکہ قوت محدود ہے لہٰذا چاہئے کہ اس کے فرائض اس کی قوت کی حدود کے اندر ہوں مثلاً انسان میں حصول علم و دانش کی قوت ہے لیکن وقت اور معلومات کی مقدار کے لحاظ سے مقرر حدود کے اندر ہے۔ ایک انسان نابغہ روزگار ہی کیوں نہ ہو وہ ایک مدت میں تدریجی طور پر ہی علم و دانش کے مدارج طے کر سکتا ہے۔

اب اگر کسی شخص کو مجبور کیا جائے کہ وہ چند سالوں کا علم ایک رات میں حاصل کر لے تو اصطلاحی زبان میں اسے ”تکلیف بمالایطاق“ یعنی ”اس کام کا حکم جو انسان کی طاقت سے باہر ہو“ کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کو حکم دیا جائے کہ وہ دنیا کے تمام علوم حاصل کرے تو یہ بھی ایسا حکم ہے جو طاقت اور توانائی سے باہر ہے۔

۴۲

قرآن حکیم میں آیا ہے:

لا یکلف الله نفسا الا وسعها

”اللہ کسی شخص کو مکلف نہیں بناتا مگر اس پر جو اس کی طاقت میں ہو۔“( سورہ بقرہ آیت 286)

اگر کوئی شخص غرق ہو رہا ہو اور ہمارے اندر اس کو بچا لینے کی طاقت ہو تو ہم پر واجب ہے کہ ہم اس کو بچائیں لیکن اگر کوئی ہوائی جہاز گر رہا ہو اور ہم کسی طرح سے بھی اس کو گرنے سے روکنے پر قادر نہ ہوں تو ہماری ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے اور ایسی صورت میں خداوند تعالیٰ ہم سے مواخذہ نہیں کرتا۔

یہاں ایک نکتہ قابل ذکر ہے کہ وہ یہ کہ جیسا کہ ہم نے ”علم و آگاہی“ کے بارے میں کہا کہ فرض اور ذمہ داری کا ”علم و آگاہی“ سے مشروط ہونے سے یہ لازم قرار نہیں پاتا کہ ہم ”علم و آگاہی“ کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں اس طرح ادائیگی فرض کا ”طاقت و توانائی“ کے ساتھ مشروط ہونے سے یہ لازم نہیں قرار پاتا کہ ہم طاقت و توانائی کے حصول کے ذمہ دار نہ ہوں البتہ بعض مواقع میں طاقت کا ضیاع کرنا حرام ہے اور طاقت کا حصول واجب مثلاً ہمیں ایک زبردست طاقت ور دشمن کا سامنا ہے جو ہمارے حقوق یا ہمارے دین اسلام پر حملہ کرنا چاہتا ہے اور ہم موجودہ صورت حال میں مقابلہ نہیں کر سکتے اور اس سے ہر طرح کا مقابلہ بھی اپنی طاقت کا ضیاع ہے جب کہ ہمیں اس وقت یا مستقبل میں اس عمل سے کوئی مثبت نتیجہ بھی حاصل نہیں ہو سکتا۔

ظاہر ہے ایسی صورت میں ہم دشمن کے مقابلے یا اس کو حملہ کرنے سے روکنے کے ذمہ دار نہیں ہیں لیکن ایک ذمہ داری ہم پر عائد ہوتی ہے کہ ہم ”طاقت اور توانائی“ حاصل کریں تاکہ ایسے حالات میں ہاتھ پر ہاتھ دھرے نہ بیٹھے رہیں۔

۴۳

قرآن کریم کا ارشاد ہے:

واعد و الهم استطعتم من قوة و من رباط الخیل ترهبون بعدو الله و عدوکم ( سورہ انفال آیت 60)

”جہاں تک ممکن ہو اپنے گھوڑے اور طاقت تیار کرو تاکہ اس طرح تمہارے دشمن اور خدا کے دشمن تم سے ڈریں اور تم پر حملہ کرنے کا خیال اپنے ذہن سے نکال دیں۔“

جیسا کہ ایک فرد یا جاہل معاشرہ جو حصول علم میں کوتاہی کرتا ہے خدا کی طرف سے قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے ”علم و آگاہی“ کیوں حاصل نہیں کی اور اس کی جہالت بطور عذر قبول نہیں کی جاتی اسی طرح ایک کمزور فرد یا معاشرہ بھی جس نے طاقت کے حصول میں کوتاہی کی ہو قابل مواخذہ قرار پاتا ہے کہ اس نے کیوں طاقت اور قوت حاصل نہ کی اور اس کی کمزوری کو عذر کے طور پر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

5 ۔ آزادی و اختیار

ادائیگی فرض کے لئے آزادی اور اختیار بھی ایک شرط ہے یعنی ایک شخص اس وقت ادائیگی فرض کا ذمہ دار ہوتا ہے جب کہ اس کے لئے جبر یا اضطرار کی صورت نہ ہو اگر وہ مجبور یا مضطر ہو تو فرض ساقط ہو جاتا ہے ”جبر“ کی مثال یہ ہے کہ ایک جابر شخص کسی کو دھمکی دے کہ وہ اپنا روزہ توڑ دے اور اگر وہ روزہ نہ توڑے تو وہ اس کو جان سے مار دے گا۔ ظاہر ہے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنے کا فرض ساقط ہو جاتا ہے یا مثلاً اگر ایک شخص حج کی استطاعت رکھتا ہے اور وہ حج پر جانا چاہتا ہے اب ایک جابر شخص اس کو دھمکی دے کہ اگر وہ حج پر گیا تو اسے یا اس کے متعلقین کو نقصان پہنچائے گا۔

۴۴

حضور نے فرمایا ہے:

رفع ما ستکرهوا علیه (الجامع الصغیر ج 2 ص 16)

”جہاں جبر درمیان میں آ جائے وہاں فرض ساقط ہو جاتا ہے۔“

”اضطرار“ یہ ہے کہ ایک شخص کو کسی فرض کی ادائیگی کے سلسلے میں کسی دوسرے شخص سے دھمکی نہیں ملی بلکہ اس نے خود یہ راستہ انتخاب کیا ہے لیکن اس انتخاب کی وجہ سے وہ سخت ترین حالات ہیں جو اسے پیش آئے ہیں مثلاً اگر ایک شخص کسی بے آب و گیاہ بیابان میں بھوک سے بے حال ہو چکا ہے اور وہاں سوائے مردار کے کوئی اور چیز موجود نہیں جس سے وہ اپنی بھوک مٹا سکے تو ایسی ”حالت اضطرار“ میں مردار کھانے کی حرمت ساقط ہو جاتی ہے۔

”جبر و اضطرار“ کے درمیان فرق یہ ہے کہ ”جبر“ کی صورت میں انسان کو ایک جابر شخص کی طرف سے دھمکی ملتی ہے کہ خلاف شروع کام کرو اور اگر تم نہیں کرو گے تو تمہیں فلاں نقصان پہنچاؤں گا اور وہ مجبور شخص اس بناء پر کہ وہ اس مصیبت اور نقصان سے خود کو نہیں بچا سکتا بحالت مجبوری اپنے فرض کی ادائیگی کے خلاف عمل کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں دھمکی کا کوئی دخل نہیں ہوتا بلکہ کسی شخص کو ایسے سنگین حالات درپیش ہوں جن کی وجہ سے اس کی حالت خراب ہو چکی ہو تو وہ اپنی اس حالت کو دور کرنے کے لئے مجبور ہے کہ اپنے فرض کے خلاف عمل کرے لہٰذا ”جبر“ اور ”اضطرار“ میں فرق کی حسب ذیل دو صورتیں ہیں:

۴۵

1 ۔ ”جبر“ میں برخلاف ”اضطرار“ دھمکی کا دخل ہے۔

2 ۔ ”جبر“ میں انسان کسی آنے والی سخت مصیبت کو روکنے کے لئے چارہ جوئی کرتا ہے لیکن ”اضطرار“ میں وہ کسی آئی ہوئی مصیبت کو دور کرنے کے لئے ایسا کرتا ہے۔

لیکن ”جبر“ اور ”اضطرار“ کو کسی فرض کی عدم ادائیگی کی ضروری شرط قرار نہیں دیا جا سکتا یعنی یہ کوئی عمومی اور کلی قانون نہیں ہے بلکہ اولاً یہ اس نقصان کی مقدار سے متعلق ہے۔

ثانیاً اس فرض کی اہمیت سے مربوط ہے جسے انسان اضطرار اور جبر کی وجہ سے ترک کرنا چاہتا ہے۔

ظاہر ہے کہ ”جبر“ یا ”اضطرار“ کو بہانہ بنا کر کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جا سکتا جو دوسروں کے نقصان یا معاشرے کے ضرر یا خود دین اسلام کے نقصان کا سبب بن جائے بعض فرائض ایسے ہیں جن کی ادائیگی کے لئے ہر طرح کا نقصان برداشت کرنا چاہئے۔

درست اعمال کی شرائط

اب تک جو کچھ بیان کیا گیا ہے اس کا تعلق ادائیگی فرض کی شرط سے تھا یعنی انسان ان شرائط کے تحت ہی کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار ہے یعنی ادائیگی فرض کی شرائط سے وہ شرائط مراد ہیں جو اگر موجود نہ ہوں تو انسان پر فرض کی ادائیگی لازم نہیں آتی البتہ بعض شرائط ایسی بھی ہیں جو اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط کہلاتی ہیں۔

جیسا کہ معلوم ہے عبادات اور معاملات کے علاوہ بعض شرعی موضوعات ایسے بھی ہیں جو کچھ شرائط اور خصوصیات کے ساتھ صحیح طریقے سے انجام پا سکتے ہیں لہٰذا درستی اعمال کی شرائط سے مراد وہ شرائط ہیں جو اگر نہ ہوں تو انسان کے اعمال درست تسلیم نہیں کئے جاتے اور ایسے اعمال باطل فرض کئے جاتے ہیں۔ اعمال کے صحیح ہونے کی شرائط بھی ادائیگی فرائض کی شرائط ہی کی مانند بہت زیادہ ہیں لیکن جس طرح ادائیگی فرض کی شرائط کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا اسی طرح سے اعمال کی درستی کی شرائط کی بھی دو قسمیں ہیں: خصوصی شرائط عمومی شرائط۔

۴۶

ہر عمل کی خصوصی شرائط اسی عمل سے مخصوص ہیں اور اسی عمل کے سیکھنے کے دوران یہ شرائط بھی پہچانی جاتی ہیں البتہ عمومی شرائط میں چند چیزیں ہیں جن کی طرف بعد میں اشارہ کیا جائے گا۔

علمائے علم منطق کی اصطلاح میں ادائیگی فرض کی عمومی شرائط اور درستی اعمال کی عمومی شرائط کے مابین ”عموم و خصوص من وجہ“ کی نسبت ہے(پیسے اور سکے کے مابین عموم و خصوص من وجہ کی نسبت ہے بعض سکے پیسہ ہیں بعض سکے پیسہ نہیں اور اسی طرح سے بعض پیسے سکہ نہیں اور بعض پیسے سکہ ہیں) یعنی بعض شرائط ”ادائیگی فرض بھی ہیں“ اور ”شرائط درستی اعمال بھی“۔ بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ نہیں اور بعض شرائط ”شرائط ادائیگی فرض“ تو نہیں لیکن ”شرائط درستی اعمال“ ہیں اور ”درستی اعمال کی شرائط“ کی تین صورتیں ہیں:

بعض شرائط ”درستی عبادات“ اور ”درستی معاملات“ دونوں کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی عبادات“ کی شرائط ہیں۔

بعض شرائط صرف ”درستی معاملات“ کی شرائط ہیں۔

وہ امر جو بیک وقت شرائط ادائیگی فرض اور شرط درستی اعمال ہے۔ ”عقل“ ہے اس لئے کہ عقل سے عاری انسان جس پر فرض عائد نہیں ہوتا اس کے اعمال ”عبادات“ سے متعلق ہوں یا معاملات سے درست متصور نہیں ہوں گے مثلاً اگر کوئی پاگل شخص چاہے کسی دوسرے کی نیابت میں حج بجا لائے یا کسی دوسرے کے لئے نماز ادا کرے یا روزہ رکھے یا نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف مقتدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے تو اس کا یہ عمل صحیح نہ ہو گا۔

”عقل“ کی طرح ”طاقت“ بھی شرط ادائیگی فرض ہے اور شرط درستی اعمال بھی ”عدم جبر“ بھی اسی طرح سے ہے یعنی ایک مجبور شخص جس کی ذمہ داری خاص شرائط کے پورا نہ ہونے کی بناء پر ساقط ہو جاتی ہے۔ اگر وہ کوئی معاملہ ”جبر“ کے تحت انجام دے یا مثلاً ”جبر“ کی وجہ سے شادی کرے تو درست نہیں بلکہ باطل متصور ہو گا۔

۴۷

وہ امر جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہے لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں ”بلوغت“ ہے نابالغ لڑکا کسی فرض کی ادائیگی کا ذمہ دار نہیں لیکن اگر وہ سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچ چکا ہو اور اس قابل ہو کہ ایک بالغ کی طرح کسی شرعی عمل کو درست انجام دے تو اس کا وہ عمل درست ہے اور اسی طرح سن تمیز اور فہم و فراست کی حد کو پہنچا ہوا نابالغ لڑکا بھی نماز باجماعت میں امام اور مقتدیوں کے درمیان یا صرف متقدیوں کے درمیان رابطہ کا عمل انجام دے سکتا ہے اور اسی طرح وہ عبادت میں دوسروں کی نیابت بھی کر سکتا ہے البتہ یہ امر مسلم ہے کہ بلوغت ”درست عبادت“ کی شرط نہیں ہے لیکن کیا ”بلوغت“، ”درستی معاملات“ کی بھی شرط ہے یا نہیں؟

بعض علماء کا نظریہ یہ ہے کہ بلوغت درستی معاملات کی شرط ہے اور خوب و بد کی پہچان رکھنے والا ایک نابالغ بچہ نہ کسی کی نیابت میں اور نہ ہی اپنے لئے کوئی معاملہ کر سکتا ہے مثلاً خرید و فروخت کرے یا مکان کرایہ پر دے یا خطبہ نکاح پڑھے تو درست نہیں ہو گا اور بعض دوسرے علماء کا نظریہ یہ ہے کہ خوب و بد کی پہچان رکھنے والا نابالغ بچہ اپنے لئے کوئی معاملہ نہیں کر سکتا لیکن دوسروں کی نیابت اور وکالت کر سکتا ہے۔

اسی طرح وہ امور جو ”شرط ادائیگی فرض“ تو ہیں لیکن ”شرط درستی اعمال“ نہیں۔ ”علم و آگاہی“ اور ”عدم اضطرار“ ہیں۔ بنابرایں ایک عمل چاہے عبادت ہو یا معاملہ اگر دوسری شرائط کے اعتبار سے مکمل طور پر انجام پائے لیکن عمل کرنے والے کو علم نہ ہو اور اتفاقاً اس کے عمل میں تمام شرائط مکمل ہوں تو اس کا یہ علم درست ہو گا مثلاً ایک شخص ایک ایسے مکان کا مالک ہے جو اسے بہت پسند ہے اور وہ اسے فروخت نہیں کرنا چاہتا لیکن اچانک اسے کوئی حادثہ پیش آتا ہے اور اسے رقم کی سخت ضرورت ہوتی ہے اور وہ ”اضطرار“ کی حالت میں اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کر دیتا ہے تو اس کا یہ معاملہ درست متصور ہو گا۔

۴۸

یا اگر کوئی شخص کسی طرح بھی شادی کرنے پر راضی نہیں ہے لیکن اس کو کوئی ایسی بیماری لاحق ہو جاتی ہے کہ طبیب اس کے لئے شادی ضروری قرار دیتا ہے اور ”اضطرار“ کی حالت میں اس کی شادی ہو جاتی ہے تو اس کی شادی درست متصور ہو گی۔

مذکورہ مباحث سے معلوم ہوتا ہے کہ ”درستی اعمال“ کی شرائط کے لحاظ سے ”جبری“ اور ”اضطراری“ حالات میں ”معاملات“ کی انجام دہی میں فرق ہے۔ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست نہیں لیکن ”اضطراری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ درست ہے۔

البتہ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ ”جبری حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست نہیں اور ”ایمرجنسی کی حالت“ میں کیا ہوا معاملہ کیوں درست ہے؟ ممکن ہے یہ کہا جائے کہ ”مجبور اور مضطرب“ دونوں اس لحاظ سے کہ اس عمل کے انجام پر راضی نہیں ہیں باہم برابر ہیں جیسے اگر کوئی شخص کسی دھمکی کی بناء پر اپنے پسندیدہ مکان کو فروخت کرنے پر مجبور ہو جائے اور اس مصیبت کو دور کرنے کے لئے اپنا مکان بیچ دے تو وہ اس واقعہ پر دلی طور پر راضی نہ ہو گا اسی طرح اگر کوئی دوسرا شخص اپنی زندگی کو کسی مصیبت سے بچانے کے لئے (مثلاً اپنی بیماری کے اخراجات کی ضرورت پر) اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے تو وہ بھی ایسی صورت میں قلبی طور پر راضی نہ ہو گا یا اگر کسی شخص کا بیٹا بیمار ہے اور وہ اس کے علاج کے لئے اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرتا ہے لیکن وہ حقیقت میں اس عمل پر راضی نہیں ہے بلکہ وہ اپنا پسندیدہ مکان فروخت کرنے پر بہت زیادہ غمزدہ اور رنجیدہ ہے۔

ایک مجبور انسان اپنے نقصان کو دور کرنے کے لئے مجبوراً کوئی کام کرتا ہے یا کوئی ”مضطر“ نقصان کو روکنے کے لئے کوئی کام کرتا ہے تو دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔

اسی طرح ایک ظالم اور جابر شخص ”جبری معاملات“ میں براہ راست ملوث ہوتا ہے ”اضطراری معاملات“ میں کوئی دوسرا شخص ملوث نہیں ہوتا تو ان دونوں کے عمل کا اصل موضوع پر کوئی اثر نہیں پڑتا اس کے علاوہ غالباً اضطرار کی اصل وجہ دوسروں کی استعماری اور استثماری طریقوں سے مداخلت ہوتی ہے۔ جواب یہ ہے کہ ”مجبور اور مضطرب“ کے معاملات میں شارع اسلام نے مجبور کے معاملات کو باطل قرار دیا ہے اور ”مضطرب“ کے معاملات کو درست دونوں کے احکام میں فرق کی وجہ کچھ اور ہے۔

۴۹

اگرچہ ”مجبور“ کو بھی بحالت کسی عمل کی انجام دہی کی فوری ضرورت پیش آتی ہے اور ”مضطرب“ کو بھی لیکن ”مجبور“ کی فوری ضرورت کا تعلق ”جابر“ کے ”جبر“ کو دور کرنا ہوتا ہے اور مجبور کی ضرورت اس معاملے کے انجام سے پوری ہوتی ہے۔ یہاں قانون مجبور کی مدد کرتا ہے اور ”جابر“ کے ”جبر“ کے خلاف ”مجبور“ کے معاملے کو غیر قانونی قرار دیتا ہے۔

لیکن مضطر کی فوری ضرورت براہ راست اس رقم سے ہے جو وہ اضطراری معاملہ کی صورت میں حاصل کرنا چاہتا ہے اس صورت میں اگر قانون مضطر کی حمایت کرنا چاہے تو ضروری ہے کہ معاملے کے صحیح اور قانونی ہونے کا اعلان کیا جائے کیوں کہ اگر اس معاملے کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو اس کا نتیجہ ”مضطر“ کے حق میں زیادہ نقصان کی صورت میں نکلے گا۔ مثلاً مندرجہ ذیل بالا مثال میں اگر ”مضطر“ کے مکان کی فروخت کو غیر قانونی قرار دیا گیا اور معاملے کو باطل قرار دیا گیا تو نہ مکان کی خرید کو ملکیت کا حق حاصل ہو گا اور نہ مکان فروخت کرنے والے کو مطلوبہ رقم ملے گی۔ جس کے نتیجے میں ”مضطر“ اپنے بیٹے کا علاج نہیں کرا سکے گا۔

اسی وجہ سے علمائے فقہ کا نظریہ یہ ہے کہ ”جبر معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دینا خدا کی طرف سے احسان ہے یعنی ”مجبور“ کے فائدے میں ہے لیکن اگر ”اضطراری معاملہ“ کو غیر قانونی قرار دیا جائے تو ”مضطر“ کے حق میں یہ کام احسان ہے نہ اس کے لئے فائدہ مند۔

یہاں ایک اور سوال بھی پیش آتا ہے کیا یہ صحیح ہے کہ دوسرے لوگ ”مضطر“ کے ”اضطرار“ اور پریشانی سے فائدہ اٹھا کر اس کے مال کو مناسب قیمت سے کم قیمت پر خرید لیں اور اس مال کو جائز مال سمجھیں؟ ہرگز نہیں کیا یہ معاملہ جو غیر قانونی ہے صرف حرمت تکلیفی کا باعث ہے؟ اور اصل معاملہ جس طرح ”مضطر“ کے حق میں درست ہے اسی طرح فریق مقابل کے معاملے میں بھی درست ہے؟ یا یہ کہ اس میں کوئی مانع نہیں کہ ایک طرف سے معاملہ درست ہو اور دوسری طرف سے غلط؟ یا دونوں طرف سے معاملہ تو درست ہو لیکن کم قیمت پر مال لینے والے شخص پر لازم ہو جائے کہ وہ مال کی حقیقی قیمت ادا کرے بہرحال ان موضوعات پر بحث ابھی باقی ہے۔

۵۰

وہ امر جو ادائیگی فرض کی شرط تو نہیں لیکن درستی اعمال کی شرط ہے رشد ہے اسلامی قانون میں ہر وہ شخص جو کسی معاشرتی کام کا بیڑا اٹھانا چاہتا ہے مثلاً وہ شادی کرنا چاہتا ہے یا کوئی اور معاملہ کرنا چاہتا ہے یعنی وہ اپنے مال میں سے خرچ کرنا چاہتا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر تمام حالت رشد پر بھی پہنچا ہوا ہو یعنی یہ کہ وہ اس کام کے کرنے کی اہلیت بھی رکھتا ہو جس کا بیڑا وہ اٹھانا چاہتا ہے۔

اس لئے اسلامی قانون میں صرف بالغ عاقل آگاہ طاقت ور توانا اور مختار ہونا ہی کافی نہیں جو انسان شادی کا ارادہ کر سکے یا اپنے مال میں تصرف کر سکے بلکہ اس کے لئے یہ بھی لازم ہے کہ وہ شادی کرنے کی معقول صلاحیت بھی رکھتا ہو یعنی لڑکا اور لڑکی کے لئے یہ لازم ہے کہ وہ شادی کا مفہوم سمجھتے ہوں کہ کیا ہے؟ کس لئے ہے؟ ان کی ذمہ داریاں کیا ہیں؟ اور یہ کہ شادی ایک فرد کے مستقبل پر کیسے اثرانداز ہوتی ہے؟ اور انہیں یہ ادراک ہو کہ اس اہم معاملے میں آنکھ بند کر کے ہاتھ نہیں ڈالا جا سکتا۔

اسی طرح اگر ایک نابالغ لڑکے اور لڑکی کو ورثے میں یا کسی اور ذریعے سے مال و دولت ملی ہو تو اس کا صرف بالغ ہونا ہی کافی نہیں تاکہ اس کا مال اس کو دیا جائے بلکہ ضروری ہے کہ ان دونوں کو آزما لیں اگر بلوغت کے علاوہ وہ فہم و فراست کی حد پر بھی پہنچے ہوئے ہوں یعنی وہ اپنے مال کی حفاظت کرنے اور اس سے مستفید ہونے کی اہلیت بھی رکھتے ہوں تو ان کا مال ان کو دے دیا جاتا ہے اور اگر ایسا نہ ہو تو ان کا شرعی اور قانونی ولی حسب سابق ان کی سرپرستی کو جاری رکھتا ہے۔

وابتلوا الیتامی حتی اذا بلغوا النکاح فان آنستم منهم رشدا فاا دفعوا الیهم اموالهم ( سورہ نساء آیت 6)

”تم یتیموں کو آزما لیا کرو یہاں تک کہ معلوم ہو جائے کہ وہ بالغ ہو چکے ہیں پھر اگر دیکھو کہ وہ رشد پا چکے ہیں تو ان کے اموال ان کے حوالے کر دو۔“

۵۱

11 ۔ اس دنیا کے بعد ایک دوسری دنیا ہے جو ابدی اور جزا و سزا کی دنیا ہے۔

12 ۔ انسان کی روح ایک جاودانی حقیقت ہے۔ انسان قیامت میں صرف ایک زندہ صورت میں ہی محشور نہیں کیا جائے گا بلکہ دنیاوی موت اور قیامت کے درمیان بھی ایک منزل کا فاصلہ ہے جس میں انسان ایک قسم کی زندگی سے جس کو برزخی زندگی کہا جاتا ہے اور جو دنیوی زندگی سے زیادہ قوی اور زیادہ کامل ہے بہرہ مند ہوتا ہے۔ قرآن مجید کی تقریباً 20 آیتیں انسان کی موت اور قیامت کے درمیان کی مدت اور جسم انسانی کے بوسیدہ ہو کر خاک ہو جانے کی حالت میں بھی انسان کی زندگی پر دلالت کرتی ہیں۔

13 ۔ زندگی اور اس کے بنیادی اصول یعنی انسانیت اور اخلاق کے اصول ابدی اور ناقابل تغیر اصول ہیں اور جو قواعد متغیر اور نسبی ہیں وہ فروعی ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ انسانیت کسی زمانے میں کوئی چیز ہو اور دوسرے زمانے میں کوئی دوسری چیز بن جائے جو پہلے کی نسبت بالکل مختلف ہو مثلاً کسی زمانے میں انسانیت ابوذر ہونے میں ہو اور کسی زمانے میں انسانیت معاویہ بن جانے میں ہو بلکہ جن اصولوں کی بناء پر ابوذر ابوذر ہیں اور معاویہ معاویہ موسیٰ موسیٰ ہیں اور فرعون فرعون ہے وہ ہمیشہ رہنے والے اور غیر متغیر اصول ہیں۔

14 ۔ حقیقت بھی ابدی اور ہمیشہ رہنے والی ہے۔ ایک علمی حقیقت اگر پورے طور پر حقیقت ہے تو وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور اگر وہ حقیقت بطور کلی خطا ہے تو ہمیشہ کے لئے خطا ہے اگر کسی کا ایک جزو حقیقت ہے اور دوسرا جزو خطا ہے تو جو جزو حقیقت ہے وہ ہمیشہ کے لئے حقیقت ہے اور جو جزو خطا ہے وہ ہمیشہ کے لئے خطا ہے اور ہو گا اور جو چیز متغیر و متبدل ہوتی ہے وہ واقعیت ہے اور وہ مادی واقعیت ہے لیکن حقیقت یعنی انسان کے فکری تصورات اور ذہنی افکار واقعیت سے منطبق ہونے اور منطبق نہ ہونے کے لحاظ سے ایک ثابت و قائم اور یکساں حالت رکھتے ہیں۔

۵۲

15 ۔ دنیا اور زمین و آسمان حق و عدالت کے ساتھ قائم ہیں۔

ما خلقنا المسوات والارض وما بینهما الا بالحق ( سورہ احقاف آیت 3)

”ہم نے آسمانوں اور زمین کو اور ان چیزوں کو جو ان دونوں کے درمیان ہیں نہیں پیدا کیا مگر حق کے ساتھ۔“

16 ۔ اس دنیا میں الٰہی منت باطل کے خلاف حق کی آخری فتح و کامیابی پر منحصر ہے حق اور اہل حق غالب اور ظفرمند ہیں۔

ولقد سبقت کلمتنا لعبادنا المرسلین انهم لهم المنصورون وان جندنا لهم الغالبون

( سورہ الصافات آیت 173)

”ہماری قضا اور ہمارا فیصلہ اس امر پر ہو چکا ہے کہ ہمارے پیغمبر بے شک منصور و ظفرمند ہیں اور بے شک ہماری فوج (لشکر حق) غالب و فاتح ہے۔“

17 ۔ تمام انسان خلقت کے اعتبار سے برابر پیدا کئے گئے ہیں۔ کوئی انسان پیدائش کے اعتبار سے دوسرے انسان پر فوقیت نہیں رکھتا۔ بزرگی اور فضیلت تین چیزوں کی وجہ سے ہوتی ہے:

قلم: ”هل یستوی الذین یعلمون والذین لا یعلمون ( سورہ زمر آیت 9)

راہ خدا میں جہاد:”فضل الله المجاهدین علی القاعدین اجرا عظیما ( سورہ النساء آیت 95)

تقویٰ و پاکیزگی:”ان اکر مکم عندالله اتقیکم ( سورہ حجرات آیت 130)

۵۳

18 ۔ اصل خلقت کے اعتبار سے انسان بہت سی فطری صلاحیتوں کا حامل ہوتا ہے ان میں دینی اور اخلاقی فطرت بھی ہے انسان کے ضمیر و وجدان کا اصلی سرمایہ اس کی خداداد فطرت ہے نہ کہ طبقاتی محل و مقام یا اجتماعی زندگی یا طبیعت کے ساتھ زورآزمائی کیونکہ یہ سب انسان کے اکتسابی وجدان (ضمیر) میں موثر ہوتے ہیں انسان اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے منفرد ثقافت اور آئیڈیالوجی کا مالک بن سکتا ہے اس کے لئے یہ بھی ممکن ہے کہ قدرتی ماحول اجتماعی ماحول تاریخی اسباب و عوامل اور اپنے وراثتی عوامل کے خلاف اٹھ کھڑا ہوا ہو اور اپنے کو ان سب کی قید سے آزاد کر لے۔

19 ۔ چونکہ ہر فرد بشر فطری طور پر انسان پیدا ہوتا ہے ہر انسان میں (اگرچہ وہ بدترین انسان ہی کیوں نہ ہو) توبہ اور راہ راست کی طرف اس کی واپسی اور نصیحت قبول کرنے کی صلاحیت موجود ہوتی ہے۔ اسی لئے انبیائے الٰہی اس بات پر مامور ہیں کہ حتیٰ بدترین افراد اور اپنے دشمنوں میں سے سخت ترین دشمن کو بھی ابتدائی مرحلے میں وعظ و نصیحت کریں اور اس کی انسانی فطرت کو بیدار کریں پس اگر یہ چیز فائدہ مند نہ ہو تو پھر ان سے مقابلہ و جنگ کے لئے اٹھ کھڑے ہوں۔

حضرت موسیٰ کو فرعون کے پاس پہلی مرتبہ جاتے وقت یہ وصیت کی گئی کہ

فقل هل لک الی ان تزکی و اهد یک الی ربک فتخشی ٰ( سورہ النازعات آیت 19)

”کہہ دو کہ کیا تو اپنے کو نجاست کفر سے پاک کرنے پر آمادہ ہے؟ اور کیا میں تجھے تیرے پروردگار کی راہ بتا دوں تاکہ تو اس سے ڈرے؟“

۵۴

20 ۔ انسان ایک حقیقی مرکب اور حقیقی اکائی ہونے کے باوجود قدرتی جمادی اور نباتاتی مرکبات کے برخلاف (کہ ترکیب کی حالت میں جس کے ترکیب دینے والے عناصر جو اپنی ہویت اور مستقل حیثیت کھو دیتے ہیں اور ان کا باہمی تضاد اور ٹکراؤ مکمل طور پر ملائمت اور ہم آہنگی میں تبدیل ہو جاتا ہے انسان کی خلقت میں جو متضاد عناصر استعمال ہوئے ہیں اپنی ہویت کو اور ذاتی حیثیت کو مکمل طور پر نہیں کھو دیتے اور ہمیشہ ایک اندرونی کشمکش انہیں ایک طرف سے دوسری طرف لے جاتی ہے یہ اندرونی تضاد وہی ہے جسے دین کی زبان میں عقل و جہل یا عقل و نفس یا روح و بدن کا تضاد کہا جاتا ہے۔

21 ۔ چونکہ انسان مستقل روحانی جوہر کا مالک ہے اور اس کا ارادہ اس کی روحانی حقیقت کے سرچشمے سے پیدا ہوتا ہے لہٰذا مختار و آزاد ہے کوئی جبر یا کوئی ذاتی احتیاج اس کی آزادی اور اس کے اختیار کو اس سے چھین نہیں سکتی اس لئے وہ اپنا بھی جواب دہ ہے اور اپنے معاشرے کا بھی ذمہ دار اور جواب دہ ہے۔

22 ۔ انسانی معاشرہ بھی فرد بشر ہی کی طرح ایک حقیقی مرکب ہے اور اپنے قوانین روایات اور نظام رکھتا ہے اور اپنی مجموعی حیثیت میں پوری تاریخ میں کبھی کسی خاص انسان کے ارادے کا تابع نہیں رہا ہے اور اپنے وجود میں (فکری نوعی سیاسی اور اقتصادی گروہوں پر مشتمل متضاد عناصر کے باوجود مکمل طور پر اپنی ہویت کو نہیں کھویا ہے۔ سیاسی اقتصادی فکری اور اعتقادی جنگ کی صورت میں مقابلہ آرائی اور بالآخر رشد و ہدایت پانے والے انسانی کمال پر پہنچنے والے انسانوں کی بلند و برتر خواہشات اور میلانات اور حیوان صفت انسانوں کی پست خواہشات کے درمیان جنگ اس وقت تک جاری رہے گی جب تک معاشرہ انسانیت کے بام و عروج تک نہیں پہنچ جاتا۔

23 ۔ خداوند عالم کسی انسان یا کسی قوم کی سرنوشت کو نہیں بدلتا جب تک کہ وہ آدمی یا وہ قوم خود اپنے حالات کو نہ بدلے۔

ان الله لا یغیر مابقوم حتی یغیروا ما با نفسهم ( سورہ رعد آیت 11)

۵۵

24 ۔ خداوند عالم جو انسان اور سارے جہان کا پیدا کرنے والا ہے غنی بالذات ہے تمام جہات سے بسیط ہے کامل مطلق ہے کسی چیز کا منتظر نہیں ہے اس میں حرکت و ارتقاء محال ہے اس کی صفات اس کی عین ذات ہیں ساری دنیا اسی کی بنائی ہوئی ہے۔ ساری سطح زمین اسی کے ارادے و مشیت کی مظہر ہے اس کے ارادے کا کوئی مقابل نہیں ہے۔ ہر ارادہ اور مشیت اس کے ارادے کے تابع ہے اس کے برابر نہیں ہے۔

25 ۔ چونکہ دنیا کا صدور ایک مبداء سے ہوا ہے اور اسے ایک متناسب اور ہم آہنگ رفتار میں اسی کی طرف واپس جانا ہو گا اور چونکہ مدبر اور باشعور قوت کی تدبیر کے تحت اپنی حرکت اور رفتار کو جاری رکھے ہوئے ہے لہٰذا ایک قسم کی وحدت کی حامل ہے ایسی وحدت جو زندہ موجود کی عضوی وحدت سے مشابہ ہے۔

(ج) آئیڈیالوجی کے لحاظ سے اسلام کی خصوصیات

اسلام کی امتیازی خصوصیات کا بیان آئیڈیالوجی کے لحاظ سے خاص کر آئیڈیالوجی کی وسعت کے لحاظ سے خواہ کلی مشخصات کے اعتبار سے ہو یا آئیڈیالوجی کی ہر شاخ کی خصوصیات کے لحاظ سے بہت مشکل ہے پھر بھی ہم اس اصول کی بناء پر کہ اگر کسی چیز کو مکمل طور پر حاصل نہ کیا جا سکے تو جتنا حاصل کیا جا سکے اسی کو لے لینا چاہئے جو کچھ اس موقع پر فی الحال ہمارے لئے ممکن ہے اس کی ایک فہرست پر نظر ڈال رہے ہیں:

۵۶

1 ۔ ہمہ گیر حیثیت اور کمال و ارتقاء دوسرے ادیان کے مقابلے میں اسلام کے من جملہ امتیازات میں سے ہے اور زیادہ بہتر الفاظ میں کہا جا سکتا ہے کہ دین خدا کی ابتدائی صورتوں کی نسبت اس کی مکمل اور جامع صورت کی خصوصیات میں سے اس کی ایک جامعیت اور ہمہ گیر حیثیت ہے۔ اسلام کے چار مآخذ یعنی قرآن سنت اجماع اور عقل اس امر کے لئے کافی ہیں کہ علمائے امت ہر موضوع کے بارے میں اسلامی نظریہ معلوم کر سکیں۔ علمائے اسلام کسی موضوع کو بلا حکم نہیں سمجھتے بلکہ ان کے نزدیک اسلام میں ہر چیز کے لئے ایک حکم موجود ہے۔

2 ۔ اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت:

اسلام کلیات کو اس طرح سے منظم کیا گیا ہے کہ ان میں اجتہاد قبول کرنے کی صلاحیت پیدا ہو گئی ہے۔ اجتہاد یعنی کلی و ثابت اصول کو جزوی اور بدلتے رہنے والے مسائل و امور پر منطبق کرنا اسلامی کلیات کو اس طرح منظم شکل دینے کے علاوہ کہ جس کی وجہ سے ان میں اجتہاد کو قبول کرنے کی خاصیت پیدا ہو گئی ہے اسلامی سرچشمہ اور مآخذوں کی فہرست میں عقل کی موجودگی نے حقیقی اجتہاد کے کام کو آسان کر دیا ہے۔

۵۷

3 ۔ سہولت اور آسانی:

رسول اکرم کے الفاظ میں اسلام ”شریعت سمحہ سہلہ“( 1) ہے۔ ہاتھ پاؤں باندھ دینے والی مشقت میں ڈالنے والی بے حد پریشان کرنے والی تکالیف شرعیہ عائد نہیں کی گئی ہیں۔

ماجعل علیکم فی الدین من حرج

( سورہ حج آیت 87)

”خدا نے تمہارے لئے دین میں تنگی اور دشواری قرار نہیں دی ہے اور اس بناء پر کہ ”سمحہ“ (درگذر کے ہمراہ ہے) جہاں بھی اس حکم شرع کا انجام دینا تنگی و دشواری اور شدید زحمت کا باعث ہو وہاں وہ ذمہ داری ساقط ہو جاتی ہے۔

4 ۔ زندگی کی طرف میلان و رغبت:

اسلام زندگی کی طرف مائل اور راغب کرنے والا دین ہے نہ کہ زندگی سے دور کرنے کا باعث اور اسی لئے اس نے رہبانیت یعنی ترک دنیا سے سختی کے ساتھ مقابلہ کیا ہے۔ پیغمبر اسلام فرماتے ہیں:

لا رہبانیۃ فی الاسلام

”اسلام میں رہبانیت نہیں ہے۔“

پرانے معاشرے میں دو چیزوں میں سے ایک چیز ہمیشہ موجود رہی ہے یا صرف آخرت کی طرف رغبت اور دنیا سے فرار یا صرف دنیا کی طرف اور آخرت سے گریز (تمدن اور ترقی و توسیع) اسلام نے انسان میں زندگی کی طرف رغبت کے ساتھ ساتھ آخرت کا شوق بھی رکھا ہے۔ اسلام کی نظر میں آخرت کا راستہ زندگی اور اس کی ذمہ داریوں کے درمیان سے گزرتا ہے۔

۵۸

5 ۔ اجتماعی ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام اجتماعی ماہیت کے حامل ہیں یہاں تک کہ وہ احکام جو زیادہ سے زیادہ انفرادی ہیں جیسے نماز روزہ وغیرہ اس میں بھی ایک اجتماعی اور سماجی حسن پیدا کر دیا گیا ہے۔ اسلام کے بہت سے اجتماعی سیاسی اقتصادی اور عدالتی قوانین و احکام اسی خاصیت کے حامل ہیں جیسا کہ جہاد اور امربالمعروف و نہی عن المنکر کا تعلق اسلام اور اجتماعی ذمہ داری سے ہے۔

6 ۔ انفرادی حقوق اور آزادی:

اسلام جہاں ایک اجتماعی دین ہے اور پورے معاشرے پر اس کی نظر رہتی ہے اور فرد کو معاشرہ کا ذمہ دار سمجھتا ہے وہاں فرد کی آزادی اور اس کے حقوق سے چشم پوشی بھی نہیں کرتا اور فرد کو فرعی حیثیت نہیں دیتا بلکہ اسلام نے فرد کے لئے سیاسی اقتصادی قانونی اور اجتماعی حقوق رکھے ہیں۔

سیاسی لحاظ سے مشورے اور انتخاب کا حق فرد کو حاصل ہے اقتصادی لحاظ سے اپنے کام کے ماحاصل اور حق محنت پر مالکیت کا حق معاوضہ اور مبادلہ صدقہ وقف ہبہ اجارہ مزارعہ اور مضاربہ وغیرہ کا حق اپنی جائز ملکیت میں رکھتا ہے قانونی لحاظ سے اسے دعویٰ دائر کرنے اپنا حق ثابت کرنے اور گواہی دینے کے حقوق دیئے گئے ہیں اور اجتماعی لحاظ سے اسے کام اور جائے سکونت کے انتخاب کا حق تحصیل علم میں مضمون کے انتخاب وغیرہ کا حق اور گھریلو زندگی میں اپنی شریک حیات کے انتخاب کا حق حاصل ہے۔

۵۹

7 ۔ معاشرتی اور اجتماعی حق کی انفرادی حق پر فوقیت:

جس جگہ اجتماعی اور انفرادی حق کے درمیان تزاحم اور تضاد پیدا ہوتا ہے وہاں اجتماعی اور معاشرے کا حق انفرادی حق پر مقدم ہوتا ہے اسی طرح عام حق خاص حق پر فوقیت رکھتا ہے۔ البتہ ان موارد کی تشخیص خود حاکم شرع کے ہاتھ میں ہوتی ہے۔

8 ۔ شوریٰ کا حصول:

اجتماعی نظام میں اسلامی نقطہ نظر سے شوریٰ کی حقیقت اپنی جگہ پر مسلم ہے۔ جن مقامات پر اسلام کی طرف سے کوئی صریح حکم نہیں آیا ہے وہاں مسلمانوں کو چاہئے کہ اجتماعی غور و فکر اور باہمی مشورے سے عمل کریں۔

9 ۔ مضر حکم کا نہ ہونا:

اسلامی قوانین اور احکام جو مطلق اور عام ہیں اس حد تک ان پر عمل جائز ہے جہاں تک کسی ضرر و نقصان کا باعث نہ ہو قاعدہ ضرر ایک کلی قاعدہ ہے جو ہر اس قانون کے اجراء کے موقع پر ”ویٹو“ یعنی ”تنسیخ“ کا حق رکھتا ہے جب وہ ضرر و نقصان کا باعث ہو۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

تیسری فصل

مشرک طاقتوں کا اتحاد اور خدائی طاقت کی طرف سے جواب

جنگ خندق میں مشرک کی طاقتوں کا اتحاد

۵ھ ختم ہوا چاہتا ہے، پورا سال بحران اور فوجی کاروائیوں میں گذرا ، مسلمان ان حالات سے گذر گئے ان جنگوں کا مقصد نئی اسلامی حکومت کے نظام کا دفاع کرنا اور مدینہ میں امن و امان قائم کرنا تھا۔ دین اور اسلامی حکومت کی دشمنی میں رونما ہونے والے حوادث و واقعات کے مختلف پہلو اوران کی جداگانہ نوعیت تھی ان چیزوں سے اور اپنی یکجہتی و اتحاد کے ذریعہ یہودیوں نے پورا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی لہذاانہوں نے دشمنی کی آگ بھڑکانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا، ان کا اصل مقصد یہ تھا کہ جزیرة العرب سے اسلام کا نام و نشان مٹ جائے چنانچہ جب مشرکین نے ان یہودیوں سے یہ معلوم کیا کہ دین اسلام افضل ہے یا شرک؟ تو انہوںنے کہا: بت پرستی دین اسلام سے بہتر ے( ۱ ) اس طرح وہ مشرک قبیلوں کو جمع کرنے، انہیں جنگ پر اکسانے اور حکومت اسلامی کے پائے تخت مدینہ کی طرف روانہ کرنے میں کامیاب ہو گئے؛ دیکھتے ہی دیکھے یہ خبر معتبر و موثق لوگوں کے ذریعہ رسول(ص) تک پہنچ گئی جو کہ ہر سیاسی تحریک کواچھی طرح سمجھتے تھے اوربہت زیادہ بیدار و تیز بیں تھے۔

اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے رسول(ص) نے اپنے اصحاب سے مشورہ کیا، مشورہ کے بعد وہ اس نتیجہ پر پہنچے کہ مدینہ کے میدانی رقبہ میں خندق کھود دی جائے، رسول(ص) نے مسلمانوں کے درمیان کام تقسیم کر دیا ،

____________________

۱۔ جیسا کہ سورۂ نساء آیت ۵۱ میں بیان ہوا ہے ۔

۱۶۱

خندق کھودنے میں آپ بھی مسلمانوں کے ساتھ شریک تھے اور انہیں اس طرح ابھارتے تھے:

''لا عیش الا عیش الآخرة اللهم اغفر للانصار و المهاجرة'' ۔( ۱ )

زندگی تو بس آخرت ہی کی ہے اے اللہ انصار و مہاجرین کی مغفرت فرما۔

اگر چہ اس کام میں مخلص مسلمانوں نے ہمت و ثابت قدمی کا اظہار کیا تھا لیکن کام چور اور منافقین نے اس موقعہ پر بھی اپنا ہاتھ دکھا دیا۔

مختصر یہ کہ دس ہزار سے زیادہ فوجیوں پر مشتمل مشرکین کے لشکر نے مدینہ کا محاصرہ کر لیا لیکن خندق کی وجہ سے وہ باہر ہی رہے ۔ اس دفاعی طریقہ کار کو دیکھ کر وہ حیرت زدہ رہ گئے کیونکہ وہ اس سے واقف نہیں تھے۔ رسول(ص) تین ہزار سپاہیوں کے ساتھ نکلے اور سلع پہاڑ کے دامن میں پڑائو ڈالا۔ اور کسی بھی اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے لوگوں میںذمہ داری اور کام تقسیم کر دئیے۔

مشرکین کی فوجیں تقریباً ایک مہینے تک مدینہ کا محاصرہ کئے رہیں مگر مدینہ میں داخل نہیں ہو سکیں یہ مسلمانوں کے لئے بہترین جگہ تھی۔ ان کے پاس ایک ہی سورما تھا اور وہ تھے علی بن ابی طالب جب علی بن ابی طالب عرب کے سب سے بڑے سورما عمرو بن عبد ودسے مقابلہ کے لئے نکلے اور کوئی مسلمان اس کے مقابلہ میں جانے کے لئے تیار نہ ہوا تو رسول(ص) نے حضرت علی کی شان میں فرمایا:

''برز الایمان کله الیٰ الشرک کله'' ( ۲ )

آج کل ایمان کل شرک کے مقابلہ میں جا رہا ہے ۔

مشرکین نے بنی قریظہ کے یہودیوں سے مدد مانگی حالانکہ انہوںنے رسول(ص) سے یہ معاہدہ کر رکھا تھا کہ وہ مسلمانوں کے خلاف جنگ میں شریک نہیں ہونگے، رسول(ص) کو یہود کے جنگ میں شریک ہونے اورمسلمانوں

____________________

۱۔ البدایة و النہایة ، ابن کثیر ، ج۴ ص ۹۶، مغازی ج۱ ص ۴۵۳۔

۲۔ احزاب: ۱۲تا ۲۰۔

۱۶۲

مسلمانوں کے خلاف داخلی محاذ کھولنے کا یقین ہو گیا لہذا آپ(ص) نے سعد بن معاذ اور سعد بن عبادہ کو ان کے پاس بھیجا تاکہ وہ اس خبر کی تحقیق کریں انہوںنے بتایا کہ خبر صحیح ہے اس پر رسول(ص) نے تکبیر کہی :''اللہ اکبر ابشروا یا معاشر المسلمین بالفتح''،( ۱ ) اللہ بزرگ و برتر ہے اور اے مسلمانو! تمہیں فتح مبارک ہو۔

مسلمانوں کے مشکلات

محاصرہ کے دوران مسلمان یقینا بہت سی مشکلوں سے دوچار ہوئے تھے ان میں سے بعض درج ذیل ہیں:

۱۔ کھانے کی اشیاء کی قلت تھی بلکہ مسلمانوں پر بھوک کے سائے منڈلانے لگے تھے۔( ۱ )

۲۔موسم بہت سخت تھا، سردی کی طویل راتوں میںشدید ٹھنڈ پڑ رہی تھی۔

۳۔منافقوںنے مسلمانوںکی صفوں میں نفسیاتی جنگ بھڑکادی تھی وہ انہیںجنگ میں جانے سے روکنا چاہتے تھے اور اس سلسلہ میں ثابت قدم رہنے سے انہیں ڈراتے تھے ۔

۴۔ محاصرہ کے زمانہ میںمسلمان اس خوف سے سو نہیں سکتے تھے کہ حملہ نہ ہو جائے، اس سے وہ جسمانی طور پر کمزور ہو گئے تھے اس کے علاوہ مشرکین کی فوجوں کے مقابلہ میں ان کی تعداد بھی کم تھی۔

۵۔ بنی قریظہ کی غداری، اس سے مسلمانوں کے لئے داخلی خطرہ پیدا ہو گیاتھا اورچونکہ ان کے اہل و عیال مدینہ میں تھے اس لئے وہ ان کی طرف سے فکر مند تھے۔

دشمن کی شکست

مشرکین کی فوجوں کے مقاصد مختلف تھے، یہودی تو یہ چاہتے تھے کہ مدینہ میں ان کا جو اثر و رسوخ تھا وہ واپس مل جائے جبکہ قریش کو رسول(ص) اور آپ(ص) کی رسالت ہی سے عداوت تھی، غطفان،فزارہ وغیرہ کو خیبر کی

____________________

۱۔المغازی ج۱ ص ۴۵۶، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۲۲۔

۲۔مغازی ج۲ ص ۴۵۶،۴۷۵، ۴۸۹۔

۱۶۳

پیداوار کی طمع تھی ، یہودیوں نے اس کا وعدہ کیا تھا۔ دوسری طرف محاصرہ کی مدت درازہونے کی وجہ سے مشرکین فوجیںبھی اکتا گئی تھیں وہ مسلمانوں کے طرز تحفظ اور ان کی ایجاد سے بھی محو حیرت تھیں، اس وقت مشرکین کی فوجوں اور یہودیوں کی حالت کو نعیم بن مسعود نے اسلام قبول کرنے کے بعد بیان کیا تھا وہ خدمت رسول(ص) میں حاضر ہوا اور عرض کی: آپ(ص) جو چاہیں مجھے حکم دیں: رسول(ص) نے فرمایا: ہمارے درمیان تم ایک ہی آدمی ہو لہذا جہاں تک تم سے ہو سکے انہیں جنگ میں پسپا ہوجانے کی ترکیب کرنا کیونکہ جنگ ایک دھوکا ہے ۔

خدا کی طرف سے مشرکین کی فوجوں کو شدید آندھی نے آ لیا جس نے ان کے خیموں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور ان کی دیگوں کو الٹ دیا، اس صورت حال کو دیکھ کر قریش پر خوف و ہراس طاری ہو گیا ابو سفیان نے قریش سے کہا بھاگ چلو چنانچہ وہ جتنا سامان لے جا سکتے تھے اپنے ساتھ لے گئے ان کے ساتھ دوسرے قبیلے بھی کوچ کر گئے صبح تک ان میں سے کوئی باقی نہ بچا۔

( و کفٰی اللّه المومنین القتال ) ( ۱ )

غزوۂ بنی قریظہ اور مدینہ سے یہودیوں کا صفایا

جنگ خندق کے دوران قریظہ کے یہودیوں نے اپنے دل میں چھپی ہوئی اسلام دشمنی کو آشکار کر دیا اگر مشرکین فوجوں کو خدا نے ذلیل و رسوا نہ کیا ہوتا تو بنی قریظہ کے یہودیوں نے مسلمانوں کی پشت میں چھرا بھونک دیا ہوتاتھا اب رسول(ص) کے لئے ضروری تھا کہ ان کی خیانت کا علاج کریں ۔ لہذا رسول(ص) نے قبل اس کے کہ مسلمان آرام کریں، یہ حکم دیا کہ مسلمان یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کریں، اس سے نئی فوجی کاروائی کی اہمیت کو بھی ثابت کرنا تھا چنانچہ منادی نے مسلمانوں کو ندا دی جو مطیع سامع ہے اسے چاہئے کہ نمازِ عصر بنی قریظہ میں پڑھے۔( ۲ )

____________________

۱۔ اس موقعہ پر سورة احزاب نازل ہوا جس میں جنگ خندق کی تفصیل بیان ہوئی ہے ۔

۲۔ طبری ج۳ ص ۱۷۹۔

۱۶۴

رسول(ص) نے پرچم حضرت علی کو عطا کیا مسلمان بھوک و بیداری اور تکان کے ستائے ہوئے تھے اس کے باوجود وہ حضرت علی کی قیادت میں روانہ ہو گئے...یہودیوں نے جب یہ دیکھا کہ رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ ان کا محاصرہ کر رہے ہیں تو ان پر خوف و دہشت طاری ہو گئی اور انہیں یہ یقین ہو گیا کہ نبی (ص) جنگ کئے بغیر واپس نہیں جائیں گے۔

یہودیوں نے ابو لبابہ بن عبد المنذر کو بلایا-وہ ان کے حلیفوں میں سے ایک تھاتاکہ اس سلسلہ میں اس سے مشورہ کریں لیکن جب اس نے ان سے وہ بات بتائی جو ان کے سامنے آنے والی تھی تو چھوٹے بڑے یہودی رونے لگے( ۱ ) اور یہ پیشکش کی کہ انہیں ان کی گذشتہ خیانت کی سزا نہ دی جائے بلکہ وہ مدینہ چھوڑ کر چلے جائیں گے رسول(ص) نے ان کی اس پیشکش کو مسترد کر دیا اور فرمایا کہ خدا اور اس کے رسول(ص) کے حکم کے سامنے سر جھکانا پڑے گا۔

اوس نے رسول(ص) کی خدمت میں یہودیوں کی سفارش کی توآپ(ص) نے فرمایا: کیا تمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ میں اپنے اور تمہارے حلیف-یہودیوں کے درمیان تمہیںمیں سے ایک شخص کو حکم بنا دوں؟ انہوں نے کہا: ہاں اے اللہ کے رسول(ص) ہمیں یہ منظور ہے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان -یہودیوں-سے کہہ دو کہ اوس میں سے جس کوچاہیں منتخب کر لیں چنانچہ یہودیوںنے سعد بن معاذ کواپنا حکم منتخب کیا۔( ۲ ) یہ یہودیوں کی بد قسمتی تھی کیونکہ جب مشرکین کی فوجوںنے مدینہ کا محاصرہ کیا تھا اس وقت سعد بن معاذ یہودیوں کے پاس گئے تھے اور ان سے یہ خواہش کی تھی کہ تم غیر جانب دار رہنا لیکن یہودیوںنے ان کی بات نہیں مانی تھی۔ اس وقت سعد بن معاذزخمی تھے۔ انہیں اٹھا کر رسول(ص) کی خدمت میں لایا گیا رسول(ص) نے ان کا استقبال کیا اور موجود لوگوں سے فرمایا کہ اپنے سردار کا استقبال اور ان کی تعظیم کرو انہوںنے بھی استقبال کیا اس کے بعد سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان کے مردوں کو قتل کیا جائے اور عورتوں ، بچوں کو قید کر لیا جائے اور ان کے اموال کو مسلمانوں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۳۹، ارشاد ص ۵۰۔

۱۶۵

کے درمیان تقسیم کر دیا جائے ۔ رسول(ص) نے فرمایا: ان کے بارے میں تم نے وہی فیصلہ کیا ہے جو خدا نے سات آسمانوں کے اوپر کیا ہے ۔( ۱ )

پھر رسول(ص) نے بنی قریظہ کا مال خمس نکالنے کے بعد مسلمانوں میں تقسیم کر دیا ان کی عورتوں اور بچوں کو بھی مسلمانوں کے سپرد کردیا، سواروں کو تین حصے اور پیادوں کو ایک حصہ دیا، خمس زید بن حارثہ کو عطا کیا اور یہ حکم دیا کہ اس سے گھوڑا، اسلحہ اور جنگ میں کام آنے والی دوسری چیزیں خریدلو تاکہ آئندہ مہم میں کام آئے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۰، مغازی ج۲ ص ۵۱۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۴۱۔

۱۶۶

پانچواں باب

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

دوسری فصل

اسلام کی تبلیغ جزیرة العرب سے باہر

تیسری فصل

جزیرة العرب سے بت پرستی کا خاتمہ

چوتھی فصل

حیات رسول(ص) کے آخری ایام

پانچویں فصل

اسلامی رسالت کے آثار

چھٹی فصل

خاتم الانبیاء (ص) کی میراث

۱۶۷

پہلی فصل

فتح کا مرحلہ

۱۔ صلح حدیبیہ

ہجرت کا چھٹا سال ختم ہونے والا ہے ۔ مسلمانوںکا یہ سال مسلسل جہاد اور دفاع میں گذرا ہے ، مسلمانوں نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت ، انسان سازی ، اسلامی معاشرہ کی تشکیل اور اسلامی تہذیب کی داغ بیل ڈالنے کے لئے بہت جانفشانی کی ہے ۔ جزیرة العرب کا ہر شخص اس دین کی عظمت سے واقف ہو گیا ہے اور یہ جانتاہے کہ اسے مٹانا آسان کام نہیں ہے ۔سیاسی و فوجی اعتبار سے قریش جیسی عظیم طاقت-یہود اور دوسرے مشرکین سے جنگ میں الجھنا بھی اسلام کی نشر و اشاعت اوراس کے مقاصد میں کامیابی کو نہیں روک سکا ۔

خانۂ کعبہ کسی ایک کی ملکیت نہیں تھا اور نہ کسی مذہب سے مخصوص تھا نہ خاص عقیدہ رکھنے والوں سے متعلق تھا ہاں اس میں کچھ بت و صنم رکھے ہوئے تھے ان کے ماننے والے ان کی زیارت کرتے تھے۔ مگر قریش کے سر کشوںکو یہ ضد تھی کہ رسول اور مسلمانوں کو حج نہیں کرنے دیں گے ۔

اس زمانہ میں رسول(ص) نے یہ محسوس کر لیا تھا کہ اسلام کے خلاف قریش کا جو موقف تھا اب اس میں پہلی سی شدت نہیں رہی ہے لہذا آپ(ص) نے مسلمانوں کے ساتھ عمرہ کرنے کا ارادہ کیا تاکہ عمرہ کے دوران اسلام کی طرف دعوت دی جا ئے ، اسلامی عقائد کی وضاحت کی جا ئے اور یہ ثابت کیا جائے کہ اسلام خانۂ کعبہ کو مقدس و محترم سمجھتا ہے ۔ اس مرحلہ میںرسول(ص) دفاعی صورت سے نکل کر حملہ و ہجوم کی صورت میں آنا چاہتے تھے۔

۱۶۸

رسول(ص) اور آپ(ص) کے اصحاب نے دشوار راستہ سے سفر کیا۔ پھر حدیبیہ نامی ہموار زمین پر پہنچے تو رسول(ص) کاناقہ بیٹھ گیا آپ(ص) نے فرمایا:''ماهذا لها عادة ولکن حبسها حابس الفیل بمکة'' ۔( ۱ ) اس کی یہ عادت نہیں ہے لیکن اسے اسی ذات نے بٹھایا ہے جس نے مکہ سے ہاتھی کو روکا تھا۔ پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو سواریوں سے اترنے کا حکم دیا اور فرمایا:''لاتدعونی قریش الیوم الیٰ خطة یسالوننی فیها صلة الرحم الا اعطیهم ایاها'' ۔( ۲ )

اگر آج قریش مجھ سے صلہ رحمی کا سوال کریں گے تو میں اسے ضرور پورا کر دوںگا۔ مگر قریش مسلمانوںکی گھات ہی میںرہے اوران کے سواروںنے مسلمانوں کا راستہ روک دیا اس کے بعد قبیلۂ خزاعہ کے کچھ افراد پر مشتمل ایک وفد رسول(ص) کی خدمت میں روانہ کیا تاکہ یہ معلوم کیا جائے کہ نبی(ص) کی آمد کا مقصد کیا ہے اس وفد کی سربراہی بدیل بن ورقاء کر رہا تھاان لوگوں کو اس بات کا حکم دیا گیا تھا کہ مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے سے روکیں۔ یہ وفد واپس آیا اور قریش کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ نبی (ص) کا مقصد خیر سگالی اور عمرہ بجالانا ہے لیکن قریش نے اس کی بات پر کان نہ دھرے بلکہ حلیس کی سرکردگی میں ایک اور وفد روانہ کیا۔ جب رسول(ص) نے اس وفد کو آتے ہوئے دیکھا تو فرمایا: یہ خدا پرست قوم سے تعلق رکھتا ہے ، چنانچہ حلیس قربانی کے اونٹوں کو دیکھتے ہی رسول(ص) سے ملاقات کئے بغیر واپس چلا گیا تاکہ قریش کو اس بات سے مطمئن کر ے کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کرنے آئے ہیں۔ مگر قریش ان کی بات سے بھی مطمئن نہ ہوئے اور مسعود بن عروہ ثقفی کو بھیجا اس نے دیکھا کہ مسلمان رسول(ص) کے وضو کے پانی کا قطرہ بھی زمین پر نہیں گرنے دیتے تھے بلکہ اسے حاصل کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت کر رہے ہیں وہ قریش کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے قریش کے لوگو! میں نے کسریٰ کو اس کے ملک(ایران)میں اور قیصر کو اس کے ملک(روم)میں اور نجاشی کو اس کے ملک حبشہ میں دیکھا ہے خدا کی قسم !میں نے کسی بادشاہ کو اپنی قوم میں اتنا معزز نہیں پایا جتنے معزز اپنے اصحاب میں محمد ہیں، میں نے ان کے پاس ایسے لوگ دیکھے ہیں جو کسی بھی طرح ان سے جدا نہیں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۰ص ۲۲۹ ۔

۲۔طبری ج۳ ص ۲۱۶۔

۱۶۹

ہونگے۔ اب تم غور کرو۔( ۱ )

رسول(ص) نے حرمت کے مہینوں کے احترام میںمسلمانوں سے یہ فرمایا تھا کہ اپنے اس عبادی سفر میں اپنے ساتھ اسلحہ نہ لے جانا ہاںمسافر جیسا اسلحہ اپنے ساتھ رکھ سکتے ہو۔ اسی طرح مدینہ کے آس پاس بسنے والے قبائل سے یہ فرمایا: اس سفر میں تم بھی مسلمانوں کے ساتھ چلو، حالانکہ وہ مسلمان نہیں تھے، تاکہ دنیا کو یہ بتا دیں کہ دوسری طاقتوں سے اسلام کے روابط جنگ کی بنیاد پر ہی استوار نہیں ہیں۔

رسول(ص) نے -کم سے کم-چودہ سو مسلمان سپاہی جمع کئے اور قربانی کیلئے ستر اونٹ بھیجے۔ قریش کو بھی یہ خبر ہو گئی کہ رسول(ص) اور مسلمان عمرہ کی غرض سے روانہ ہو چکے ہیں، اس سے قریش میں بے چینی بڑھ گئی۔ ان کے سامنے دو ہی راستے تھے یا تو مسلمانوں کو عمرہ کرنے کی اجازت دیدیں ، کہ اس سے مسلمانوں کی آرزو پوری ہو جائیگی وہ خانہ ٔ کعبہ کی زیارت کر لیں گے اور وہ اپنے خاندان والوں سے ملاقات کر لیں گے اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں گے۔ یا قریش مسلمانوں کومکہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں، لیکن اس سے قریش کی وضعداری کو دھچکا لگے گا اور دوسری قومیں انہیں اس بات پر ملامت کریں گی کہ تم نے ان لوگوں کے ساتھ نیک سلوک نہیں کیا جو مناسک عمرہ بجالانا اور کعبہ کی تعظیم کرنا چاہتے تھے۔

قریش نے سرکشی اور مخاصمت کا راستہ اختیار کیا، رسول(ص) اور مسلمانوں سے مقابلہ کے لئے خالد بن ولید کی سرکردگی میں دو سو سواربھیجے جبکہ رسول(ص) احرام کی حالت میں نکلے تھے نہ کہ جنگ کرنے کی غرض سے اس صورت حال کو دیکھ کر آنحضرت (ص) نے فرمایا:

''یا ویح قریش لقد اکلتهم الحرب ماذا علیهم لو خلوا بینی و بین العرب فان هم اصابونی کان الذی ارادوا و ان اظهرنی الله علیهم دخلوا فی الاسلام وافرین وان لم یفعلوا قاتلوا بهم قوة فما تظن قریش؟ فوالله لا ازال اجاهد علیٰ الذی بعثنی اللّٰه به حتی یظهره اللّٰه او تنفرد هذه السالفة''

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۵۹۸۔

۱۷۰

افسوس ہے قریش کے اوپر کہ جنگ نے انہیں تباہ کر دیا، اگر وہ مجھے دوسرے اعراب کے درمیان چھوڑ دیتے اور وہ مجھ پر کامیاب ہو جاتے تو ان کا مقصد پورا ہو جاتا اوراگر میں ان پر فتحیاب ہوتا تو یا وہ اسلام قبول کرتے یا اپنی محفوظ طاقت کے ساتھ مجھ سے جنگ کرتے لیکن نہ جانے قریش کیا سمجھے ہیں؟ خدا کی قسم میں اس اسلام کے لئے ہمیشہ جنگ کرتارہونگا جس کے لئے خدا نے مجھے بھیجا ہے یہاں تک کہ خدا مجھے کامیاب کرے ، میں اس راہ میں اپنی جان دے دوں۔

پھر آپ(ص) نے جنگ سے احتراز کرتے ہوئے قریش کے سواروں سے بچ کر نکلنے کا حکم دیا۔ اس راستہ پر چلنے سے قریش کے سواروں کے ہاتھ ایک بہانہ آجاتا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خراش بن امیہ خزاعی کو قریش سے گفتگو کے لئے روانہ کیا لیکن قریش نے ان کے اونٹ کو پے کر دیا قریب تھا کہ انہیں قتل کر دیتے، قریش نے کسی رواداری اور امان کا لحاظ نہیں کیا۔ کچھ دیر نہ گذری تھی کہ قریش نے پچاس آدمیوں پر یہ ذمہ داری عائد کر دی کہ تم مسلمانوں کے اطراف میں گردش کرتے رہو اور ممکن ہو تو ان میں سے کچھ لوگوں کو گرفتار کرلو، حالانکہ یہ چیز صلح کے منافی تھی اس کے باوجود ان کا وہ منصوبہ کامیاب نہیں ہوا۔ اس کے بر عکس مسلمانوں نے انہیں گرفتار کر لیا،لیکن رسول(ص) نے انہیں معاف کر دیا اور اپنی صلح پسندی کو ظاہر و ثابت کر دیا۔( ۱ )

آنحضرت (ص) نے سوچا کہ قریش کے پاس دوسرا نمائندہ بھیجا جائے، حضرت علی بن ابی طالب کو نمائندہ بنا کر نہیں بھیج سکتے تھے کیونکہ اسلام سے دفاع کے سلسلہ میں ہونے والی جنگوں میں علی نے عرب کے سورمائوں کو قتل کیا تھالہذا اس مہم کو سر کرنے کے لئے عمر بن خطاب سے فرمایا لیکن انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ قریش انہیں قتل کر دیں گے حالانکہ عمر نے قریش میں سے کسی ایک آدمی کو بھی قتل نہیں کیا تھا پھر بھی انہوں نے رسول(ص) سے یہ درخواست کی کہ عثمان بن عفان کو بھیج دیجئے( ۲ ) کیونکہ وہ اموی ہیں اور ابو سفیان سے ان کی قرابت بھی ہے ۔ عثمان نے لوٹنے میں تاخیر کی تو یہ افواہ پھیل گئی کہ انہیں قتل کر دیا گیا۔ اس سے مکہ میں داخل ہونے

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۳ ص ۲۲۳ ۔

۲۔ سیرت نبیویہ ج۲ ص ۳۱۵۔

۱۷۱

کی جو مصالحت آمیز کوششیں ہوئی تھیں وہ سب ناکام ہو گئیں۔ رسول(ص) نے دیکھا کہ جنگ کی تیاری بھی نہیں ہے اسی موقعہ پر بیعت رضوان ہوئی ، آنحضرت (ص) ایک درخت کے نیچے تشریف فرما ہوئے اور اصحاب نے اس بات پر آپ(ص) کی بیعت کی کہ جو بھی ہوگا ہم ثابت قدمی و استقامت سے کام لیں گے۔ عثمان کے واپس آنے سے مسلمانوں کا غصہ ٹھنڈا ہو گیا اور قریش نے رسول(ص) سے گفتگو کے لئے سہیل بن عمرو کو بھیجا۔

صلح کے شرائط

صلح کے شرائط کے سلسلہ میں سہیل چونکہ سخت تھا اس لئے قریب تھا کہ مذاکرات ناکام ہو جائیں مگرآخر میں درج ذیل شرائط صلح پر فریقین متفق ہو گئے:

۱۔ فریقین عہد کرتے ہیں کہ دس سال تک جنگ نہیں ہوگی، اس عرصہ میں لوگ امان میں رہیں گے اور کوئی کسی پر حملہ نہیں کرے گا۔

۲۔ اگر قریش میں سے کوئی شخص اپنے ولی کی اجازت کے بغیر محمد(ص) کے پاس آئیگا تو اسے واپس لوٹایا جائیگا لیکن اگر کوئی شخص محمد (ص) کی طرف سے قریش کے پاس آئیگا تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

۳۔ جو شخص محمد کے معاہدہ میں شامل ہونا چاہے وہ اس میں شامل ہو سکتا ہے اور جو قریش کے معاہدہ میں داخل ہونا چاہئے وہ اس میں داخل ہو سکتا ہے ۔

۴۔ اس سال محمد اپنے اصحاب کے ساتھ مدینہ واپس جائیں گے مکہ میں داخل نہیں ہونگے ہاں آئندہ سال مکہ میں داخل ہونگے اور تین دن تک قیام کریں گے ،اس وقت ان کے پاس صرف مسافر کا اسلحہ تلوار ہوگی کو بھی نیام میں رکھیں گے۔( ۱ )

۵۔ کسی پر یہ دبائو نہیں ڈالا جائیگا کہ وہ اپنا دین چھوڑ دے اور مسلمان مکہ میں آزادی کے ساتھ علی الاعلان خدا کی عبادت کریں گے، مکہ میں اسلام ظاہر و آشکار ہوگا نہ کوئی کسی کو اذیت دے گا اور نہ برا کہے گا۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۳ ص۲۱۔

۲۔بحار الانوارج۲۰ص۳۵۲۔

۱۷۲

۶۔چوری اور خیانت کا ارتکاب نہیں کیا جائیگا بلکہ فریقین میں سے ہر ایک دوسرے کے اموال کو محترم سمجھے گا۔( ۱ )

۷۔قریش محمد(ص) اور ان کے اصحاب پر کوئی پابندی عائد نہیں کریں گے۔( ۲ )

بعض مسلمان صلح کے شرائط سے راضی نہیں ہوئے چنانچہ انہوں نے یہ خیال کرتے ہوئے کہ نبی (ص) قریش سے ڈرگئے ہیں آپ(ص) پر اعتراض کیا وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ نبی (ص) خدا کی طرف سے خیر پر ہیں اور اسی رسالت اور اس کے عظیم فوائد کو مستقبل سے آگاہ نظر سے دیکھتے ہیں رسول(ص) نے ان کی بات کو رد کرتے ہوئے فرمایا:''انا عبد اللّٰه و رسوله لن اخالف امره و لن یضیعنی'' میں خدا کا بندہ اور اس کا رسول(ص) ہوں میں اس کے حکم کے خلاف نہیں کرونگا اور وہ مجھے ضائع نہیں کرے گا۔ رسول(ص) نے انہیں شرائط کو برقرار رکھا جو مسلمانوں کو پسند نہیں تھے۔ ابو جندل کو قریش کے حوالے کرنے سے( ۳ ) کشیدگی پیدا ہو گئی، بعض تونفسیاتی الجھن میں مبتلا ہو گئے۔

لیکن یہ صلح ،ان لوگوں کے نظریہ کے بر خلاف جو صلح کے شرائط کا دوسرا مفہوم سمجھ رہے تھے، مسلمانوں کے لئے کھلی اور عظیم فتح تھی کیونکہ صلح کے شرائط تھوڑی ہی مدت کے بعد مسلمانوں کے حق میں ہو گئے تھے ۔

جب آپ(ص) مدینہ واپس آ رہے تھے اس وقت قرآن مجید کی کچھ آیتیں نازل ہوئیں( ۴ ) جن سے بت پرستوں کے سردار سے کی گئی صلح کے حقیقی پہلو آشکار ہوئے اور مستقبلِ قریب میں مسلمانوں کو مکہ میں داخل ہونے کی بشارت دی گئی تھی۔

____________________

۱۔مجمع البیان ج۹ ص ۱۱۷۔

۲۔ بحار الانوار ج۲۰ ص ۳۵۲۔

۳۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱، سیرت نبویہ ج۲ ص ۲۵۲۔

۴۔ فتح ۱،۱۸،۲۸۔

۱۷۳

صلح کے نتائج

۱۔ قریش نے مسلمانوں کے نظام کو ایک فوجی ، منظم سیاسی اور نئی حکومت کے عنوان سے تسلیم کر لیا۔

۲۔ مشرکوں اور منافقوں کے دل میں رعب بیٹھ گیا، ان کی طاقت گھٹ گئی اور ان میں مقابلہ کی طاقت نہ رہی۔

۳۔صلح و آرام کے اس زمانہ میں اسلام کی نشر و اشاعت کی فرصت ملی جس کے نتیجہ میں بہت سے قبیلے اسلام میں داخل ہو گئے؛ رسول(ص) کی اسلامی رسالت کے آغاز ہی سے یہ آرزو تھی کہ قریش آپ کو اتنی مہلت و فرصت دیدیں کہ جسمیں آپ(ص) آزادی کے ساتھ اپنا راستہ طے کر سکیں اور اطمینان کے ساتھ آپ لوگوں کے سامنے اسلام کی وضاحت کر سکیں۔

۴۔ مسلمانوںکو قریش کی طرف سے سکون مل گیا تو یہودیوں اور دوسرے دشمنوں سے مقابلہ کے لئے ہمہ تن تیار ہوئے۔

۵۔قریش سے صلح کے بعد ان کے حلیفوں کے لئے یہ آسان ہو گیا کہ وہ مسلمانوں کے موقف کو سمجھیں اور ان کے پاس آئیں۔

۶۔ صلح ہو جانے سے نبی(ص) کو یہ موقع ملا کہ آپ(ص)دیگر ممالک کے بادشاہوں اورسربراہوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں اور غزوہ موتہ کی تیاری کریں تاکہ جزیرةالعرب سے باہر اسلام کا پیغام پہنچایا جائے۔

۷۔ صلح کی وجہ سے آنے والے مرحلے میں فتحِ مکہ کا راستہ ہموار ہو گیا ،مکہ اس زمانہ میں بت پرستی کا اڈہ تھا۔

۲۔اسلامی رسالت کی توسیع

زمانہ ٔماضی میں قریش اسلام کو نیست و نابود کرنا چاہتے تھے یہی وجہ تھی کہ رسول(ص) اور مسلمان دفاعی جنگوں، اپنی حفاظت اور اسلامی حکومت اور اس کے معاشرہ کی تشکیل میں چند سال تک مشغول رہے ۔

۱۷۴

اس عہد میں آپ (ص) اپنی آسمانی عالمی اور تمام ادیان کو ختم کرنے والی رسالت کی آزادی کے ساتھ تبلیغ نہ کر سکے تھے لیکن صلح حدیبیہ کے صلح نامہ پر دستخط ہو جانے کے بعد رسول(ص) قریش کی طرف سے مطمئن ہو گئے اور اس صلح سے رسول(ص) کو یہ موقع مل گیا کہ آپ(ص) جزیرة العرب کے اطراف میں بسنے والی بڑی طاقتوں اور خطۂ عرب کے سرداروں کے پاس اپنے نمائندے بھیجیں تاکہ وہ ان کے سامنے الٰہی قوانین کو بیان کریں اور انہیں اسلام کی طرف دعوت دیں۔

روایت ہے کہ آپ(ص) نے اپنے اصحاب کے در میان فرمایا:

''ایها النّاس ان اللّٰه قد بعثنی رحمة و کافة فلا تختلفوا علّ کما اختلف الحواریون علیٰ عیسیٰ بن مریم'' ۔

اے لوگو! مجھے خدا نے رحمت بنا کر بھیجا ہے پس مجھ سے اس طرح اختلاف نہ کرو جس طرح حواریوں نے عیسیٰ سے کیا تھا اصحاب نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص) حواریوں نے کس طرح اختلاف کیا تھا؟ فرمایا:

''دعاهم الیٰ الذی دعوتکم الیه فاَما من بعثه مبعثا قریباً ترضی و سلّم و اما من بعثه مبعثا بعیداً فکره وجهه و تثاقل'' ۔( ۱ )

حضرت عیسیٰ نے انہیں اس چیز کی طرف دعوت دی جس کی طرف میں نے تمہیں دعوت دی ہے جس کو انہوں نے قریب کی ذمہ داری سپرد کی تھی وہ تو خوش ہو گیا اور اس ذمہ داری کوتسلیم کر لیا اور جس کے سپرد دور کی ذمہ داری کی تھی وہ ناخوش رہا اور اسے بوجھ محسوس ہوا۔

ہدایت و دعوت کے نمائندے رسول(ص) کے امر کو دنیا کے مختلف گوشوں میں لے گئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۶۰۶، طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۲۶۴۔

۲۔اسلام کی دعوت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے بادشاہوں کو جو خطوط روانہ کئے تھے علماء اسلام نے ان کی تعداد ۱۸۵ بیان کی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: مکاتیب الرسول(ص)، از علی بن حسین احمدی۔

۱۷۵

۳۔ جنگ خیبر( ۱ )

اپنی حقیقی جد و جہد، اعلیٰ تجربہ ، بے مثال شجاعت اور تائید الٰہی کے سبب رسول(ص) نے مسلمانوں کو آزاد خیالی ، ثبات و نیکی کے بام عروج پر پہنچا دیا، ان کے اندر صبر اور ایک دوسرے سے ربط و ضبط کی روح پھونک دی...اس طرح رسول(ص) نے اپنے قرب و جوار کے سرداروں کے پاس خطوط اور نمائندے بھیج کر جزیرة العرب سے باہر بھی لوگوں تک اپنی آسمانی رسالت پہنچا دی۔

رسول(ص) اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ آپ(ص) کے اس اقدام کے مختلف رد عمل ہونگے ان میں سے بعض مدینہ میں موجود یہو دو منافقین ، جن کی خیانتوں اور غداریوں سے تاریخ بھری پڑی ہے ،کی مدد سے مدینہ پر فوجی حملے ہوںگے ۔

خیبر یہودیوں کا مضبوط قلعہ اور عظیم مرکز تھا لہذا رسول(ص) نے یہ طے کیا کہ اس باقی رہ جانے والے سرطان کا صفایا کر دیا جائے چنانچہ حدیبیہ سے لوٹنے کے کچھ دنوں کے بعد سولہ سو افراد پر مشتمل مسلمانوں کا ایک لشکر تیار کیا اور یہ تاکید فرمائی کہ غنیمت کے لالچ میں ہمارے ساتھ کوئی نہ آئے ۔ فرمایا:''لا یخرجن معنا الا راغب فی الجهاد'' ( ۲ ) ہمارے ساتھ وہی آئے جو شوقِ جہاد رکھتا ہو۔

رسول(ص) نے کچھ لوگوں کو یہودیوں کے حلیفوں کے پاس بھیجا کہ وہ انہیں ان کی مدد کرنے سے روکیں تاکہ مزید جنگ و خونریزی نہ ہو مسلمانوں نے بہت جلد یہودیوں کے قلعوں کا محاصرہ کر لیا ۔ علی بن ابی طالب ان میں سب سے پیش پیش تھے آپ ہی کے دست مبارک میں پرچم رسول(ص) تھا۔

یہودی اپنے مضبوط قلعوں میں جا چھپے اس کے بعد کچھ معرکے ہوئے جس کے نتیجہ میں مسلمانوں نے بعض اہم مقامات پر قبضہ کر لیا، لیکن جنگ نے شدت اختیار کر لی اور محاصرہ کا زمانہ طویل ہو گیا۔ مسلمانوں کے سامنے خوراک کا مسئلہ آ گیا اور مسلمان مکروہ چیزیں کھانے کے لئے مجبور ہو گئے۔

____________________

۱۔ جنگ خیبر ماہ جمادی الاخریٰ ۷ھ میں ہوئی ، ملاحظہ ہو طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۷۷۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۶۔

۱۷۶

رسول(ص) نے بعض صحابہ کو علم دیا کہ انہیں کے ہاتھ پر فتح ہو جائے لیکن وہ میدان سے بھاگ آئے جب مسلمان عاجزآگئے تو رسول(ص) نے فرمایا:

''لاعطینّ الرّایة غداً رجلاً یحب اللّه و رسوله و یحبه اللّه و رسوله کراراً غیرا فرار لا یرجع حتی یفتح اللّه علیٰ یدیه'' ( ۱ )

میں کل اس مرد کو علم دونگا جو خد اور رسول(ص) سے محبت رکھتا ہے اور خدا و رسول(ص) اس سے محبت رکھتے ہیں وہ بڑھ بڑھ کے حملہ کرے گا، میدان سے نہیں بھاگے گا، وہ اسی وقت میدان سے پلٹے گا جب خدا اس کے دونوں ہاتھوں پر فتح عطا کرے گا۔

دوسرے روز رسول(ص) نے علی کو بلایا اور آپ کو علم عطا کیا اور آپ ہی کے ہاتھ پر فتح ہوئی ، رسول(ص) اور سارے مسلمان خوش ہو گئے اور جب باقی یہودسپر انداختہ ہو گئے تو رسول(ص) نے اس بات پر صلح کر لی کہ وہ آپ کو اپنے باغوں اور کھیتوں کا نصف محصول بطور جزیہ دیا کریں گے ظاہر ہے فتح کے بعد وہ باغات اور کھیت رسول(ص) کی ملکیت بن گئے تھے۔ خیبر کے یہودیوں کے ساتھ رسول(ص) نے بنی نضیر، بنی قینقاع اور بنی قریظہ جیسا سلوک نہیں کیا کیونکہ مدینہ میں یہودیوں کی کوئی خاص حیثیت نہیں رہ گئی تھی ۔

۴۔ آپ(ص) کے قتل کی کوشش

ایک گروہ نے خفیہ طریقہ سے رسول(ص) کے قتل کا منصوبہ بنا لیا تاکہ وہ اپنی دشمنی کی آگ کو بجھائیں اور چھپے ہوئے کینہ کو تسکین دے سکیں لہذا-سلام بن مشکم یہودی کی زوجہ- زینب بنت حارث نے رسول(ص) کی خدمت میں بھنی ہوئی بکری ہدیہ کی جس میں اس نے زہر ملا دیا تھا اور چونکہ وہ جانتی تھی کہ رسول(ص) کو ران کا گوشت پسند تھا لہذا اس میں زیادہ زہر ملایاتھا۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، صحیح مسلم ج۱۵ ص ۱۷۶ و ۱۷۷، فضائل الصحاب ج۲ ص ۶۰۳، مسند امام احمد ج۳ ص ۳۸۴، مواہب اللّدنیہ ج۱ ص ۲۸۳، استیعاب ج۳ ص ۲۰۳، کنز العمال ج۱۳ ص ۱۲۳۔

۱۷۷

آنحضرت(ص) کے سامنے یہ بھنی بکری پیش کی گئی اور آپ(ص) نے اس کی اگلی ران اٹھائی اور ایک بوٹی چبائی لیکن اسے نگلا نہیں، بلکہ تھوک دیا جبکہ بشر بن براء بن معرور بوٹی نگلتے ہی مر گیا۔

یہودی عورت نے اپنے اس جرم کا یہ کہہ کر اعتراف کر لیا کہ میں آپ(ص) کا امتحان لینا چاہتی تھی کہ آپ(ص) بنی ہیں یا نہیں رسول(ص) نے اسے معاف کر دیا اور جو مرد اس سازش میں شریک تھے ان سے رسول(ص) نے کوئی تعرض نہ کیا۔( ۱ )

۵۔ اہل فدک کی خود سپردگی

حق و عدالت کے دبدبے سے خیانت کاری کے مرکز تباہ ہو گئے جب خدا نے رسول(ص) کو خیبر میں فتح عطا کی تو اس کے بعد خدانے فدک والوں کے دلوں میں آپ کا رعب پیدا کر دیا چنانچہ انہوںنے رسول(ص) کی خدمت میں ایک وفد روانہ کیا تاکہ وہ رسول(ص) سے اس بات پر صلح کرے کہ اہل فدک اسلامی حکومت کے زیر سایہ اطاعت کے ساتھ زندگی گزاریں گے اور اس کے عوض وہ فدک کا نصف محصول ادا کیاکریں گے، ان کی پیشکش کو رسول(ص) نے قبول کر لیا۔

اس طرح فدک ، قرآن کے حکم کے بموجب خاص رسول(ص) کی ملکیت قرار پایا کیونکہ اس سلسلہ میں نہ گھوڑے دوڑائے گئے اور نہ اسلحہ استعمال ہوا بلکہ انہوں نے دھمکی اور جنگ کے بغیرہی اپنی خود سپردگی کا اعلان کیا تھا۔ لہذا رسول(ص) نے فدک اپنی بیٹی جناب فاطمہ زہرائ(ص) کو ہبہ کر دیا۔( ۲ )

جزیرة العرب کی سر زمین خیانت کاروں کے ٹھکانوں سے پاک ہو گئی اورمسلمانوں کو یہودیوں کے فتنوں سے نجات مل گئی ،یہودیوںنے ہتھیار ڈال دئیے اور اسلامی حکومت و قوانین کے سامنے سر جھکا دیا ۔

جس روز خیبر فتح ہوا اسی دن جناب جعفر بن ابی طالب حبشہ سے واپس آئے تو رسول(ص) نے ان کا استقبال کی

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۳۷، مغازی ج۲ ص ۶۷۷۔

۲۔ مجمع البیان ج۳ ص۴۱۱، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۶، ص ۲۶۸، الدرالمنثور ج۴ ص ۱۷۷۔

۱۷۸

ان کی پیشانی کو چوما اور فرمایا:''بایهما اسر بفتح خیبر او بقدوم جعفر '' ( ۱ )

میں کس چیز کی زیادہ خوشی منائوں، فتح خیبر کی یا جعفر بن ابی طالب کی آمد کی ؟

۶۔ عمرة القضا

آرام و سکون کا زمانہ گذرتارہا لیکن رسول(ص) اور مسلمان اسلامی حکومت کی بنیادوں کو مستحکم کرنے کی سعیٔ پیہم میں مشغول رہے ، فتحِ خیبر کے بعد تبلیغی یا تادیبی مہموں کے علاوہ کوئی فوجی معرکہ نہیں ہوا۔

صلح حدیبیہ کو ایک سال گذر گیا، طرفین نے جن چیزوں پر اتفاق کیا تھا، ان کے پابند رہے اب وہ وقت آ گیا کہ رسول(ص) اور مسلمان خانۂ خد ا کی زیارت کے لئے جائیں۔ لہذا رسول(ص) کے منادی نے یہ اعلان کیا کہ مسلمان عمرة القضا کی ادائیگی کے لئے تیاری کریں چنانچہ دو ہزار مسلمان رسول(ص) کے ساتھ روانہ ہوئے ان کے پاس تلوارکے علاوہ اور کوئی ہتھیار نہیں تھا ۔ وہ بھی نیام میں تھی لیکن رسول(ص) اپنی فراست سے مشرکوں کی غداری کو محسوس کر چکے تھے۔

اس لئے آپ(ص) نے ایک گروہ کو اس وقت مسلح ہونے کا حکم دیا-جب آپ ظہران سے گذرے-تاکہ یہ گروہ اتفاقی صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار رہے۔

جب رسول(ص) ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ (ص) نے اور اصحاب نے احرام باندھا۔ آپ(ص) کے ساتھ قربانی کے جانور تھے، ایک دستہ آپ نے آگے روانہ کر دیا تھا اس دستہ میں تقریباً سو آدمی تھے جس کی قیادت محمد بن مسلمہ کر رہے تھے ۔ مکہ کے سردار اور ان کے تابع افراد یہ سوچ کر مکہ کے اطراف میں واقع پہاڑوں کی چوٹیوں پر چڑھ گئے کہ وہ نبی (ص) اور ان کے اصحاب کی صورت نہیں دیکھنا چاہتے ، لیکن رسول(ص) کا جلال اور ان مسلمانوں کی ہیبت، جو کہ رسول(ص) کو اپنے حلقہ میں لئے ہوئے تلبیہ کہہ رہے تھے ، ایسی تھی کہ جس سے مکہ والوں کی آنکھیں کھلی رہ گئیں وہ حیرت واستعجاب میں نبی (ص) کو دیکھتے ہی رہ گئے حالانکہ رسول(ص) اور مسلمان حج کے اعمال انجام دے رہے تھے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۰۸، سنن الکبریٰ بیہقی ج۷ ص۱۰۱، سیرت نبویہ ابن کثیر ج۳ ص ۳۹۸۔

۱۷۹

رسول(ص) اپنی سواری پر سوار خانۂ کعبہ کا طواف کر رہے تھے۔ آپ(ص) کی سواری کی مہار عبد اللہ بن رواحہ پکڑے ہوئے تھے، رسول(ص) نے یہ حکم دیا کہ مسلمان بلند آواز سے یہ نعرہ بلند کریں۔

''لا اله الا اللّه وحده، صدق وعد ه و نصر عبده و اعز جنده و هزم الاحزاب وحده'' ۔

سوائے اللہ کے کوئی خدا نہیں ہے وہ یکتا ہے ،اس نے اپنا وعدہ پورا کیا اس نے اپنے بندے کی مدد کی ،اپنی فوج کی مدد کی ہے اور سپاہ دشمن کو شکست دی ہے ،وہ یکتا ہے ۔

پھر کیا تھا مکہ کی فضائوں میں یہ آواز گو نجنے لگی خوف سے مشرکوں کا زہرہ آب ہونے لگا اور خدا کی طرف سے نبی (ص) کو ملنے والی فتح پر وہ پیچ و تاب کھانے لگے یہ وہی رسول(ص) ہے جس کو انہوں نے سات سال قبل وطن چھوڑنے پر مجبور کیا تھا۔ مسلمانوں نے رسول(ص) کی معیت میں عمرہ کے مناسک انجام دئیے۔ قریش اسلام اور مسلمانوں کی طاقت کو مان گئے اور انہیں اس شخص کی دروغ گوئی کا یقین ہو گیا جس نے، انہیں یہ خبر دی تھی کہ رسول(ص) اور ان کے اصحاب مدینہ ہجرت کر جانے کی وجہ سے بہت تنگی و پریشانی میں ہیں۔ بلال خانۂ کعبہ پر گئے اور نما زظہر کے لئے اذان دیتے ہوئے ندا ئے توحید بلند کی جو کہ روحانی مسرت کا سبب ہے اس سے کفر کے سرداروں کو مزید افسوس ہوااس وقت پورا مکہ مسلمانوں کے قبضہ میں تھا۔

مہاجرین اپنے بھائی انصار کے ساتھ مکہ میں پھیل گئے تاکہ اپنے ان گھروں کو دیکھیں جن کو راہ خدا میں چھوڑنا پڑا تھا اور طولانی فراق کے بعد اپنے اہل و عیال سے ملاقات کریں۔

تین روز تک مسلمان مکہ میں رہے اور پھرقریش سے کئے ہوئے اس معاہدہ کے بموجب ، مکہ چھوڑ دیا، رسول(ص) نے قریش سے یہ فرمایا کہ وہ میمونہ سے عقد کے رسوم یہیں ادا کرنا چاہتے ہیں، لیکن قریش نے اس کو قبول نہ کیا کیونکہ یہ خوف تھا کہ اگر رسول(ص) مکہ میں زیادہ دن ٹھہریں گے تو اس سے اسلام کی طاقت میں اضافہ ہو گا او رمکہ میں اسلام کو مقبولیت ملے گی۔

ابو رافع کو رسول(ص) نے مکہ میں چھوڑ دیا تاکہ وہ سرشام آپ(ص) کی زوجۂ میمونہ، کو لے کر آئیں کیونکہ مسلمانوںکونمازِظہر سے پہلے مکہ چھوڑنا تھا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۲۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296