منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137258 / ڈاؤنلوڈ: 6240
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سودہ زوجہ رسول(ص) کی گفتگو

چنانچہ صحاح کے اندر اور آپ کے محدثین و مورخین کی کتابوں میں درج ہے کہ سودہ زوجہ رسول خدا(ص) سے لوگوں نے کہا کہ تم حج وعمرہ کیوں نہیں کرتیں اور اس سعادت عظمی سے کس لیے محروم ہو؟ سودہ نے جواب دیا کہ مجھ پر ایک مرتبہ حج واجب تھا اس کو بجالائی، اب اس کے بعد میرا حج و عمرہ حکم خداوندی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کا ارشاد ہے "وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ " ( یعنی اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھو 12 مترجم) بس میں اس کی تعمیل میں گھر سے باہر نہیں نکلوں گی بلکہ میرا تو ارادہ یہ ہے کہ جس حجرے میں رسول اللہ(ص) مجھ کو بٹھا گئے ہیں حتی الامکان اس سے بھی قدم باہر نہ رکھوں گی یہاں تک کہ مرجائوں ( چنانچہ انہوں نے کیا بھی یہی کہ گھر سے باہر نہیں نکلیں ان کا جنازہ ہی باہر نکلا)

ہمارے لیے سودہ یا عائشہ اور ام سلمہ میں کوئی فرق نہیں سبھی پیغمبر(ص) کی بیویاںاور امہات المومنین ہیں۔ البتہ ان کے اعمال کے لحاظ سے فرق ہے۔

امت کے نزدیک عائشہ و حفصہ کا جو احترام ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ ابوبکر و عمر کی بیٹیاں تھیں( اگر چہ آپ اسی جہت سے احترام کرتے ہیں) بلکہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ(ص) کی زوجہ اور شریک حیات تھیں۔ لیکن ازواج رسول(ص) کو فخر و شرف اسی وقتحاصل ہوگا جب وہ متقی اور پرہیز گار ہوں جیسا کہ آیت نمبر31 سورہ نمبر33 ( احزاب) میں صاف صاف ارشاد ہے۔

"يا نِساءَ النَّبِيِ‏ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ ."

جس کا مطلب یہ ہے کہ اے زنان پیغمبر(ص) تم کسی دوسری عورت کے مانند نہیں ہو ( یعنی شرافت فضیلت کی حیثیت سے سب پر فوقیت رکھتی ہو) لیکن شرط یہ ہے کہ خدا ترسی اور پرہیز گاری اختیار کرو۔

علی علیہ السلام سے عائشہ کی مخالفت اور جنگ

پس سودہ رسول اللہ(ص) کی ایک متقی اور مطیع و فرمانبردار بیوی تھیں، اور عائشہ آں حضرت(ص) کی و سرکش زوجہ تھیں جو طلحہ و زبیر کے فریب میں آکر( یا حضرت علی علیہ السلام سے اپنے ذاتی بغض و عداوت کی بنا پر) بصرہپہنچیں جہاں علی علیہ السلام کی طرف سے والی بصرہ اوربزرگ صحابی عثمان ابن حنیف کو گرفتار کر کے ان کے سر اور چہرے کے سب بال اکھاڑ ڈالے گئے۔ تازیانوں کی زبردست مار دے کر ان کو نکال دیااور بیچارے سو(100) نفر سے زیادہ نہتے لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ چنانچہ ابن اثیر، مسعودی، محمد بن جریر طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ سب نے سب اس کو تفصیل سے لکھا ہے۔

۱۴۱

اس کے بعد عسکرنامی اونٹ پر سوار ہو کر جس کو تیندوے کی کھال اور زرہ پہنائی گئی تھی ایک( زمانہ جاہلیت کے ) جنگی سپاہی کے میدان میں آگئیں اور محض ان کی بغاوت کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کے خون بہہ گئے۔ آیا یہ داغ نہیں تھا کہ بے حیثیت اور خدا ناشناس لوگ اپنی عورتوں کو تو گھروں کے اندر پردے میں بٹھائیں لیکن رسول خدا(ص) کی بیوی کو اس نصیحت و رسوائی کے ساتھ مجمع عام میں لا کھڑی کریں۔

آیا یہ اقدام خدا و رسول(ص) کے حکم سے سرتابی نہیں تھا؟

فضائل علی(ع) شمار سے باہر ہیں

اور وہ بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ایسی بزرگ شخصیت کے مقابلے میں جس کے فضائل و مناقب میں خود آپ کے اکابر علماءنے اتنی کثرت سے روایتیں نقل کی ہیں کہ ان کا شمار و احصار و شواہد ہے۔

چنانچہ امام احمد ابن حنبل مسند میں، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں، امام فخرالدین تفسیر کبیر میں خطیب خوارزمی مناقب میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب64 میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودت پنجم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب اور جرامت عبداللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:

" لو انّ‏ البحر مداد و الغياض اقلام و الإنس كتّاب و الجنّ حسّاب ما احصوا فضائلك يا ابا الحسن"

یعنی اگر سمندر روشنی بن جائے، درخت قلم بن جائیں، سارے انسان لکھنے والے ہوں اور پوری قوم جن حساب کرنے والی ہو تب بھی اے ابو الحسن(ع) تمہارے فضائل کا شمار نہیں کرسکتے۔

جن بزرگوار کے حق میں جناب رسالت ماب ایسے کلمات ارشاد فرمائیں کہ تمام جن و انس مل کر بھی ان کے فضائل کا حساب نہیں کرسکتے تو بھلا ہم لوگ اپنی کند زبانوں اور شکستہ قلموں سے آپ کے مراتب و مناقب عالیہ کا حصر کیونکر کرسکتے ہیں؟

پھر بھی جہاں تک طاقت و قدرت تھی اکابر علمائے شیعہ کے علاوہ خود آپ کے علماء نے باوجود اپنے پورے تکلف کے اور بعض نے اپنے انتہائی تعصب کے بعد بھی جیسے قوشجی ، ابنحجر اور روز یہاں وغیرہ نے حضرت علی(ع) کا لا تعداد لا تحصی فضائل میں سے صرف ایک جز کو درج کر کے اپنی کتابوں کو بھر دیا ہے۔

۱۴۲

علی(ع) کے فضائل و مناقب میں روایتیں

آپ صحاح ستہ کو غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے علاوہ مودت القربی پر سید علی ہمدانی ، معجم طبرانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، مسند وفضائل امام احمد بن حنبل جمع بین الصحیحین حمیدی مناقب اخطب الخطباء خوازرمی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد دوم ص449 اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی بالخصوص ص124 میں کتاب معالم العترۃ النبویہ حافظ عبدالعزیزبن الاخضر الجنابذی سے بروایت جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا میرے پدر بزرگوار حضرت رسول خدا(ص) عرفہ کی شام کو ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:

" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ َو جَل بَاهَى‏ بِكُمْ‏ الملَائِکةَعَامَّةً وَ غَفَرَ لَكُمْ عَامَّةً وَ لِعَلِيٍّ خَاصَّةً وَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ غَيْرَ مُحَابٍ لِقَرَابَتِي هَذَا جَبْرَئِيلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ السَّعِيدَ كُلَّ السَّعِيدِ حَقَّ السَّعِيدِ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ وَ إِنَّ الشَّقِيَّ كُلَّ الشَّقِيِّ حَقَّ الشَّقِيِّ مَنْ أَبْغَضَ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ ممَاَتِهِ."

یعنی خدائے عزوجل فرشتوں کے سامنے بالعموم تم لوگوں پر فخر کرتا ہے اور بالعموم تم لوگوں کوبخش دیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ علی(ع) کو اور میں جو کہ خدا کا رسول(ص) ہوں بغیر رشتے اور قرابت والے جذبہ محبت کے کہتا ہوں کہ در حقیقت پوری سعادت کے ساتھ سعید و نیک بخت وہی ہے جو علی(ع) کو ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد دوست رکھے اور پوری شقاوت کے ساتھ شقی و بد بخت دہی ہے جو علی(ع) سے ان کی زندگی میں اور موت کے بعد بغض رکھے۔

انہیں کتابوں میں ایک مفصل حدیث جس کو غالبا میں گذشتہ شبوں میں عرض بھی کرچکاہوں۔ خلیفہ عمر ابن خطاب سے وہ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں علی علیہ السلام سے فرمایا:

"كَذَبَ‏ مَنْ‏ زَعَمَ‏ أَنَّهُ‏ يُحِبُّنِي‏ وَ هو مُبْغِضُكَ يَا عَلِيُّ مَنْ اَحبَّکَ فقَد اَحبَّنی وَمَن اَحبَّنیفَقَد اَحَبّه اللهُ وَمَن اَحَبّه اللهُ اَدخَلهُ الجَنَّة وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ وَ أَدْخَلَهُ النَارَ."

یعنی جھوٹا ہے وہ شخص جو اے علی(ع) تم کو دشمن رکھتا ہو اور پھر میری دوستی کا دعوی کرے، اے علی(ع) جس نے تم کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جسنے مجھ کود وست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جسکو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرتا ہے۔ اور جس نے تم کو دشمن رکھا اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور دوزخ میں ڈل دیتا ہے۔

۱۴۳

علی(ع) کی دوستی ایمان اور آپ(ع) کی دشمنی کفر و نفاق ہے

نیز کتاب الآل ابن خالویہ سے بروایت ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

"حبّک‏ إيمان‏، و بغضک نفاق و اول من يدخل الجتة مجبک و اول من يدخل النار مبغضک."

یعنی اے علی(ع) تمہاری محبت ایمان اور تمہاری عداوت نفاق ہے، اور سب سے پہلے جو شخص جنت میں داخل ہوگا، وہ تمہارا دوست ہوگا اور سب سے پہلے جو شخص جہنم واصل ہوگا وہ تمہارا دشمن ہوگا۔

میرسید علی ہمدانی شافعی مودت القربی مودت سیم میں اور حموینی فرائد میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اصحاب کے درمیان فرمایا:

"لا يحب عليا الا مومن و لا يبغضه الا کافر"

یعنی علی(ع) کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور ان کو دشمن نہیں رکھتا لیکن کافر۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

" لا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق"

یعنی اے علی(ع) تم کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور دشمن نہیں رکھتا لیکن منافق۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 ص119 میں تاریخ دمشق، محدث شام اور محدث عراق سے اور انہوں نے حذیفہ اور جابر سے روایت نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

" عَلِيٌ‏ خَيْرُ الْبَشَرِ مَنْ أَبَى فَقَدْ كَفَرَ.."

یعنی علی(ع) بہترین بشر ہیں، جو شخص اس سے انکار کرے وہ کافر ہے۔

نیز عطا سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے عائشہ سے علی(ع) کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا:

"ذَاكَ‏خَيْرُالْبَشَرِ، لاَ يَشُكُّ "( یعنی یہ بترین بشر ہیں، اس میں سوا کافر کے کوئی شک نہیں کرتا ۔)

اور کہتے ہیں کہ حافظ ابن عساکر اپنی تاریخ میں جس کو سو(100) جلدیں ہیں اور ان میں سے تین جلدیں علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب میں ہیں پچاسویں جلد میں عائشہ سے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص17 میں اور ابن صباغ مالکی فصول المہمہ ترمذی اور نسائی سے اور وہ ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

"مَا كُنَّا نَعْرِفُ‏ الْمُنَافِقِينَ‏ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيّاً "

یعنی ہم زمانہ رسول(ص) میں منافقین کو صرف علی(ع) کی عداوت سے پہنچانتے تھے۔

نیز فصول المہمہ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم

۱۴۴

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

"حربک حربی و دمک دمی و انا حارب لمن حاربک لا يحبك‏ إلّا طاهر الولادة، و لا يبغضك إلّا خبيث الولادةلا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق."

یعنی اے علی(ع) تم سے جنگکرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے، تمہارا خون میرا خون ہے اور جو شخص تم سے جنگ کرے اس سے میری بھی جنگ ہے۔ تم سے وہی محبت رکھتا ہے جو حلال زادہ ہے اور تم سے وہی بغض رکھتا ہے جو ولد الحرام ہو۔ تم کو دوست نہیں رکھتا مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق۔

شیخ : اس قسم کی حدیثیں صرف علی کرم اللہ وجہہ سے مخصوص نہیں، بلکہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں۔

خیر طلب: ممکن ہو تو ان حدیثوں میں سے کوئی نمونہ بیان فرمائیے تاکہ حقیقت کھل جائے۔

شیخ : عبدالرحمن ابن مالک مغول اپن سند کے ساتھ جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"لا يبغـضابابکر و عمر مومن و يحبهما منافق"

یعنی ابوبکر و عمر کا بغض مومن اور محبت منافق نہیں رکھتا۔

خیر طلب : آپ کے بیان سے پھر مجھ کو تعجب ہوا۔ کیا آپ پہلی شب کا یہ معاہدہ بھول گئے کہ ہم لوگ یکطرفہحدیثوں سے استدلال نہیں کریں گے؟ پھر بھی اگر آپ ایسا کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس قسم کے ضعیف و موضوع اور ناقابل قبول حدیثیں نہیں جن کے راوی جھوٹے اورجعلساز ہوں بلکہ صحیح الاسناد احادیث پیش کیجئے۔

شیخ : آپ نے طے کر لیا ہے جو حدیث بھی ہم سے سنیں گے اس کو اہانت کے ساتھ رد کریں گے۔

خیر طلب: مجھ کو افسوس ہے کہ تنہا میں نے ہی تردید نہیں کی ہے بلکہ خود آپ کے اکابر علماء نے بھی رد کیا ہے بہتر ہوگا کہ آپ میزان الاعتدلال ذہبی اور تاریخ خطیب بغدادی جلد دہم ص236 کی طرف رجوع کیجئے تو نظر آئے کہ اکثر ائمہ جرح و تعدیل نے عبدالرحمن ابن مالک کے حالات میں نقل کیا ہے کہ انہ کذاباناک وضاع لا یشک فیہ احد۔ یعنی در حقیقت یہ ( عبدالرحمن) سخت جھوٹا، بڑا تہمت باندھنے والا اور بہت حدیثیں گڑھنے والا ہے جس میں کسی شخص کو بھی شک و شبہ نہیں۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا آپ کی یک طرفہ حدیث جو ایک دروغ گو اور جعل ساز شخص سے مروی ہے ان تمام احادیث وروایات کا مقابلہ کرسکتی ہے جو آپ کے اکابر علماء سے منقول ہیں اور جن میں سے بعض نمونے کے طور پر پیش کی جاچکی ہیں؟

مہربانی کر کے جامع الکبیر سیوطی جلد ششم ص390، ریاض النظرہ محب الدین جلد دوم ص215 جامع ترمذی جلد دوم ص299، استیعاب ابن عبد البر جلد سیم ص49، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم جلد ششم ص295، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی ص17، اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی ص126، کو ملاحظہ فرمائیے کہ ہر ایک نے مختلف عبارتوں کے ساتھ ابوذر غفاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

"ما كنّا نعرف‏ المنافقين‏ على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله إلّابثلاث بتكذيبهم اللّه و رسوله،

۱۴۵

و التخلّف عن الصلوات، و بغضهم علي بن أبي طالب و عن ابی سعيد الخدری كنّا نعرف‏ المنافقين‏ إلّا ببغضهم عليّا و ما کنا نعرف المنافقين علی عهد رسول الله الا ببغضهم عليا."

یعنی ہم لوگ عہد رسول(ص) میں منافقین کو صرف تین علامتوں سے پہچانتے تھے، خدا و رسول(ص) کو جھٹلانے سے ، ترک نماز سے اور علی ابن ابی طالب(ع) کی عداوت سے ، اور ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم منافقین کو بغض علی(ع) سے پہچانتے تھے اور عہد رسول(ص) میں ہمارے پاس منافقین کی سوا اس کے اور کوئی پہچان نہیں تھی کہ وہ علی(ع) سے دشمنی رکھتے تھے۔

نیز امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص95 و ص138 میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص137 میں، احمد خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص426 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص264 میں، امام نسائی نے سنن جلد ہشتم ص117، او خصائص العلوی ص27 میں، حموینی نے فرائد باب 22 میں ابن حجر نے اصابہ جلد دوم ص509 میں، حافط ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء جلد چہارم ص185 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص15، سیوطی نے جامع الکبیر ص152، ص408 میں، محمد ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص17 میں اور ترمذی نےجامع جلددوم ص13 میںمختلف عبارات کےساتھ کہیں ام سلمہ اور کہیں ابنعباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا :

" ياعلی ال يحبک منافق و لا يبغضک مومن لا يحبک الا مومن و لا يبغضک الا منافق ال يحب عليا المنافق و لا يبغضه مومن"

یعنی اے علی(ع) منافق تم سے محبت نہیں رکھتا اور مومن تم سے بغض نہیں رکھتا۔ تم کو دوست نہیں رکھتا۔ مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق، علی سے منافق محبت نہیں رکھتا اور مومن ان سے عداوت نہیں رکھتا۔

اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص364 میں شیخ معتزلہ شیخ ابوالقاسم بلخی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں :

"و قد اتفقت الاخبار الصحيحه التی لا ريب فيها عند المحدثين علی ان النبی قال له لايبغضک الا منافق و لا يحبک الا مومن"

یعنی اخبار صحیحہ کا اتفاق ہے اور تمام محدیثیں اس پر متفق ہیں کہ یقینا پیغمبر(ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ تم کو سوا منافق کے کوئی دشمن نہیں رکھتا اور سوا مومن کے کوئی دوست نہیں رکھتا۔

نیز جلد چہارم ص264 میں امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک خطبہ نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

"لو ضربت خيشوم المؤمن بسيفي هذا على أن يبغضني ما أبغضني، و لو صببت الدنيا بجملتها على المنافق أن يحبّني ما أحبّني، و ذلك أنّه قضي فانقضى على لسان النبيّ الامّي صلّى اللّه عليه و آله و سلّم: أنّه لا يبغضك مؤمن و لا يحبّك‏ منافق."

یعنی اگر میں اپنی اس تلوار سے مومن کی ناک پر ماروں کو مجھ کو دشمن رکھے تب بھی وہمجھ سے دشمن نہ رکھے گا اور اگر میں تمام دنیا منافق کو دے دوں کہ مجھ کو دوست رکھے تب بھی وہ مجھ کو دوست نہ رکھے گا۔ اور یہ وہی فیصلہ ہے جو زبان رسول(ص) پر جاری ہوچکا ہے کہ آپ نے فرمایا اے علی(ع) مومن تم سے بغض نہیں رکھتا اور منافق تم سے محبت نہیں کرتا۔

اس قسم کے اخبار و احادیث آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں۔ میں نے وقت کے لحاظ سے یہ چند حدیثیں جو اس وقت پیش نظر تھیں عرض کردیں۔

۱۴۶

اب میں آپ حضرات سے حق کے نام پر سوال کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام سے عائشہ کیبغاوت اور جنگ آیا رسول خدا(ص) سے جنگ نہیں تھی؟ آیا یہ لڑائی اور لوگوں کو علی علیہ السلام سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنا خلوصو محبت اور دوستی کی وجہ سے تھا یا بغض و کینہ اور عداوت کی بنا پر؟ ظاہر ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان محبت کے سبب سے جنگ ہوتی ہے لہذا قطعا بغض و عداوت کی وجہ سے تھی، تو ان تمام احادیث میں جن کا نمونہ پیش کیا گیا ہے کیا رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے دشمنی اور جنگ کرنے کو کفر ونفاق کی ایک علامت قرار نہیں دیا ہے؟ آیا ان اخبار و احادیث کو علی سے عائشہ کے مقابلے اور جنگ پر منطبق کرنے سے کیا نتیجہ نکلے گا؟

گذارش ہے کہ بغیر کسی طرفداری اور جذبہ محبتو عداوت کے از روئے انصاف سچا فیصلہ فرمائیے۔ عجیب چیز ہے کہ اس وقت مجھ کو ایک ایسی حدیث یاد آگئی جس کو نقیہ ہمدانی میر سید علی شافعی نے مودۃ القربی کی مودت سیم میں خود عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ :

" أنّ اللّه قد عهد إليّ أنّ من‏ خرج‏ على‏ عليّ‏ عليه السّلام فهو كافر في النار"

یعنی بتحقیق اللہ نے قطعی طور پر مجھ سے قول و قرار فرمایا ہے کہ جو شخص بھی علی(ع) پر خروج اور بغاوت کرے وہ کافر ہے۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

پھر تعجب یہ ہے کہ جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ جب آپ پیغمبر(ص) سے ایسی بات سن چکی تھیں تو علی (ع) پر خروج کیوں کیا؟ تو یہ پھسپھسا عذر پیش کردیا کہ:

" نسيت هذا الحديث يوم الجمل حتّى ذكرته بالبصرة"

یعنی میں اس حدیث کو جنگ جمل کے روز بھول گئی تھی یہاں تک کہ بصرے میں یاد آئی۔

شیخ : حضرت آپ خود ایسا بیان دے رہے ہیں تو اب ام المومنین رضی اللہ عنہا پر کیا اعتراض ہے؟ بدیہی چیز ہے کہ انسان سہوو نسیان کا مرکز ہے۔

خیر طلب: اگر میں بھی مان لوں کہ جنگ جمل کے روز وہ اس حدیث کو بھول گئیں تھیں تو کیا جس روز مکہ معظمہ سے واپس ہو رہی تھیں اور تمام خیر خواہوں نے یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کی پاک باز بیویوں نے بھی ان کو منع کیا تھا کہ یہ بیجا حرکت نہ کرو اس لیے کہ علی(ع) سے مخالفت کرنا پیغمبر(ص) سے مخالفت کرنا ہے اس وقت بھی یہ حدیث یاد نہیں تھی؟

آیا آپ کے مورخین جنہوں نے واقعہ جمل تحریر کیا ہے متوجہ نہیں کرچکے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا تھا عائشہ اس راستے سے جس میں حوائب کے کتے تم پر بھونکیں۔ چنانچہ جب یہ بصرے جارہی تھیںاور چشمہ بنی کلاب پر پہنچیں تو کتوں نے چاروں طرف سے محمل کو گھیر لیا اور بھونکنا شروع کیا، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون سا مقام ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیاکہ حوائب اس پر ان کو پیغمبر(ص) کا ارشاد یاد آگیا تھا تو پھر کس لیے طلحہ و زبیر کے فریب میں آئیں اور آگے بڑھتی گئیں، یہاں تک کہ بصرے پہنچ کر ایسا عظیم فتنہ برپاکردیا؟

آیا اس کے لیے بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھول گئی تھیں یا بالقصد و بالارادہ جان بوجھ کر یہ راستہ طے کیا؟ آیا یہ حقیقت میں ایک بہت بڑا دھبہ نہیں تھا جس نے ام المومنین عائشہ کا دامن آلودہ کردیا اور جو کسیپانی سے دھویا نہیں جاسکتا کیوںکہ انہوں نے

۱۴۷

سب سمجھتے ہوئے عمدا خدا و رسول(ص) کے حکم سے منہ موڑا ااور طلحہ و زبیر کی بات مان کے خلیفہ اور وصیرسول(ص) سے لڑنے کے لیے پہنچ گئیں باوجودیکہ خود بھی کہتی تھیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص علی(ع) سے جنگ کرے اور ان پر خروج کرے وہ کافر ہے؟ آیا امیرالمومنین علیہ السلام سے جو رسول اللہ(ص) کے وصی اور خلیفہ تھے جنگ کرنا اور مسند خلافت پر بیٹھتے ہی آپ کے لیے پریشانی کے اسباب اور جنگی انقلاب پیدا کرنا آں حضرت صلعم کے لیے باعث تکلیف نہیں تھا ؟ کیا جیسا کہ میں گذشتہ شب مع اسناد کے عرض کرچکا ہوں حدیث میں نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"من‏ آذى‏ عليا فقد آذاني!! إن عليا أولكم إيماناً و أوفاكم بعهد اللَّه، يا أيها الناس من‏ آذى‏ عليا بعث يوم القيامة يهوديّاً أو نصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے در حقیقت خدا کو ایذا دی۔ اے گروہ ناس جس نے علی(ع) کو تکلیف پہنچائی وہ قیامت کے روز یہودی یا ںصرانی اٹھایا جائے گا۔

عائشہ کے حکم سے بصرے میں صحابہ اور بے گناہ مومنین کا قتل عام

جب یہ تمام روایتیں آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں تو آپ کس حق سے شیعوں پر اعتراض فرماتے ہیں؟

آیا بے خطا مومنین کا خون، رسول اللہ(ص) کے محترم صحابیعثمان ابن حنیف کی زجر و توبیخ اور سو(100) نفر سے زیادہ خزانے کے محافظین کا قتل جو غیر مسلح تھے اور جنگی سپاہیوں میں سے نہیں تھے اور جن سے چالیس اشخاص مسجد کے اندر مارے گئے، یہ سب جنگ کے محرک اور بانی کی گردن پر نہیں تھا؟

چنانچہ علامہ مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص7 میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے :

" فقتل‏ منهم‏ سبعون‏ رجلا غير من جرح، و خمسون من السبعين ضرب رقابهم صبرا من بعد الاسر، و هؤلاء أول من قتل ظلما في الاسلام"

یعنی علاوہ ان لوگوں کے جو زخمی کئے گئے بیت المال کے نہتے محافظین میں سے ستر آدمیوں کو قتل کیا جن میں سے پچاس کی اسیری اور مجبوری کی حالت میں گردنیں ماری گئیں، اور یہ لوگ اسلام کے اندر سب سے پہلے ظلم کے ساتھ قتل کئے گئے۔

اور آپ کے علماء مورخیں میں سے ابن جریر اور ابن اثیر وغیرہ نے ان واقعات کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے ، اب آپ یا تو ان روایات کو اپنی معتبر کتابوں سے خارج کیجئے، جیسا کہ جدید مطبوعات میں آپ کے علماء تحریف سے کام لے رہے ہیں بلکہ بعض مطالب کو تو سرے سے غائب ہی کردیتے ہیں، اور اپنے علمائے اعلام و اکابر مورخین کو جھٹلائیے یا شیعوں پر طعن و تشنیع اور اعتراض کرنے سے باز آئیے کیونکہ شیعہ تو وہی کہتے ہیں جو آپ کی کتب معتبرہ میں درج ہوچکا ہے۔ خدا کی قسماس میں جماعت شیعہ کا کوئی قصور نہیں ہے، ہمارے اور آپ کے درمیان فرق صرف ؟؟؟؟؟ رہے کہ آپ اپنی معتبر کتب میں ان اخبار و احادیث کا سطحینظر سے مطالعہ کرتے ہیںاور حب الشی یعمی ویصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی

۱۴۸

ہے۔12 مترجم) کے مصداق تاریخ کے ان اہمواقعات کو اخبار کے مطابق نہیں کرتے، ہمیشہ محض حسنِ ظن اور بے موقع دفاع سے کام لیتے ہیں اور حقائق پر کوئی توجہ نہیں کرتے۔ یا اگر توجہ کرتے بھی ہیں تو پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہوئے اس کی صفائی اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ پسر مردہ عورت بھی ہنس پڑے۔

لیکن ہم غیر جانبداری کے ساتھ منصفانہ اور گہری نظر ڈالتے ہیں اور کتب فریقین میں مروی اخبار و احادیث کو واقعات کے مطابق کر کے حقائق کا انکشاف کرتے ہیں۔ اس مطابقت میں بھی آپ کو جس مقام پر کوئی شبہ یا غلطی اور خود غرضی نطر آئیے۔منطقی اعتراض کے ساتھ اس کی تردید کر دیجئے میں انتہائی ممنوں ہوں گا۔

شیخ : آپ کے بیانات درست ہیں لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی انسان تھیں معصوم نہیں تھیں یقینا دھوکہ میں آکر ان سے ایک خطا سرزد ہوگئی۔ اپنی سادگی کی وجہ سے دو بڑے صحابیوں کے فریب میں آگئی تھیں لیکن بعد میں توبہ کر لی اور خدا نے بھی ان سے درگذر فرمائی۔

خیر طلب: اولا آپ نے اقرار کر لیا کہ کبار صحابہ خطار کار اور فریبی تھے حالانکہ حاضرین تحت شجرہ اور بیعت رضوان والوں میں سے تھے۔ پس آپ کی وہ حدیث جو صحابہ کی پاک دامنی کے لیے آپ پچھلی راتوں میں پیش کرچکے ہیں کہ سارے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کی جائے ہدایت حاصل ہوجائی گی خود بخود باطل ہوجاتی ہے۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ ام المومنین عائشہ نے توبہ کرلی تو یہ محض دعوی ہی دعوی ہے۔ کیونکہ بغاوت و جنگ اور مسلمانوں کا قتل عام تو بالاتفاق ثابت ہے لیکن ان کی توبہ کا کوئی ثبوت نہیں لہذا اس کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔

امام حسن(ع)کو پیغمبر(ص) کے پاس دفن کرنے سے عائشہ کی ممانعت

البتہ یہ مسلم ہے کہ عائشہ کی طبیعت میں سکون نہیں تھا، ان سے پے در پے طفلانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہیں جنمیں سے ہر ایک نے ان کی تاریخ زندگی کو فاسد بنایا۔ بقول آپ کے اگرتوبہ کر لی تھی اور پشیمان ہو کر خاموش بیٹھ گئی تھیں تو پھر کس لیے بعد کو سبط رسول(ص) امام حسن علیہ السلام کے جنازے کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور ایسا فساد برپا کیا جس سے ہر سننے والا بغیر متاثر ہوئے نہیں رہتا؟

فقط یہی نہیں کہ رسول اللہ(ص) کو رنجیدہ اورآرزدہ کرتیتھیں یا زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح اونٹ پر سوار ہوکر پیغمبر(ص) کے وصی اور خلیفہ سے لڑنے جاتی تھیں جس سے ہم کہہ سکیں کہ صرف زندہ افراد سے ضد اور مخالفت رکھتی تھیں، بلکہ خچر پر سوار ہو کر رسول خدا(ص) کے بڑے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام کے جنازے کا راستہ بھی روکا چنانچہ آپ کے اکابر علماء مورخین بالخصوص یوسف سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ ص122 میں، علامہ مسعودی صاحب مروج الذہب نے اثبات الوصیہ ص136 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص18 کے شروع میں ابو الفرج اور یحیی بن الحسن صاحب کتاب النسب سے نقل کرتے ہوئے خداوند شاہ نے

۱۴۹

روضتہ الصفا جلد دوم میں واقدی نے ، متوفی احمد بن محمد حنفی نے ترجمہ تاریخ اعثم کوفی میں، ابن شخنہ نے روضتہ المناظر میں، اور ابو الفداء وغیرہ نے اپنی تاریخوں میں نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت کا جنازہ لے چلے تو عائشہ خچر پر سوار ہو کر بنی امیہ اور ان کے غلاموں کی ایک جماعت کے ساتھ لیے ہوئے سد راہ ہوئیں اور کہا کہ ہم امام حسن(ع) کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنے دیں گے۔

بروایت مسعودی ابن عباس نے کہا کہ عائشہ تمہارے حال پر تعجبہے :

"اما كفاك‏ أن‏ يقال‏ يوم‏ الجمل‏ حتى يقال يوم البغل؟ يوما على جمل و يوما على بغل بارزة عن حجاب رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله تريدين إطفاء نور اللّه؛ و اللّه متمّ نوره و لو كره المشركون، انّا للّه و انّا إليه راجعون."

یعنی آیا تمہارے لیے روز جمل کی شہرت کافی نہیں ہوئی تھی، ( یعنی اونٹ پر سوار ہو کر میدان جنگ میں نکل پڑیں) یہاں تک کہ لوگ یوم بغل کا ذکر کریں( یعنی خچر پر سوار ہوکر فرزند رسول(ص) کا جنازہ روکا) تمنے کبھی خچر پر بیٹھ کر حجاب پیغمبر(ص) کو چاک کر دیا یا تمہارا عزم ہے کہ اللہ کے نور کو بجھا دو حالانکہ خدا اپنے نور کو کامل کرنےوالا ہے چاہے مشرکین کو ناگوار ہی ہو یقینا ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقینا ہم کو اسی کی طرف پلٹ کے جانا ہے۔

اور بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ فرمایا:

تجملت‏تبغلت‏و لو عشت تفيلتلك الثمن من التسع‏و في الكل تطمعت

یعنی تم کبھی اوںٹ پر سوار ہوئیں کبھی خچر پر، اور اگر زندہ رہوگی تو ہاتھی پر بھی سوار ہوگی۔ تمہارا آٹھویں حصے میں سے صرف نواں حصہ ہے لیکن سب پر قابض ہوگئیں۔

بنی ہاشم نے چاہا کہ تلوار کھینچ کر ان لوگوں کودفع کریں لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام مانع ہوئے اور فرمایا میرے بھائی نے وصیت فرمائی ہے کہ میں اس پر راضی نہیں ہوں کہ میرے جنازے کے پیچھے ایک فصد کے برابر بھی خون ریزی ہو، چنانچہ آپ کے حکم سے جنازہ واپس لائے اور بقیع میں دفن کیا۔

شہادت امیرالمومنین (ع) پر عائشہ کا سجدہ اور اظہار مسرت

اگر یہ صحیح ہے کہ عائشہ نے توبہ کر لی تھی اور امیرالمومنین(ع) سے جنگ کرنے پر نادم تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سننے کے بعدسجدہ شکر کیوں بجالائیں؟ جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی صاحب اغالی نے مقاتل الطالبین میں حضرت کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں نقل کیا ہے کہ "لما جاء عائشه قتل اميرالمومنين علی سجدت "( یعنی جب عائشہ کو قتل و شہادت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خبر ملی تو انہوں نے (شکر کا) سجدہ کیا۔)

اگر واقعی توبہ کر لی تھی اور پشیمان تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سن کر مسرت وشادمانی کا اظہار کس لیے کیا؟ جیسا کہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ حوادث سنہ40 ہجری میں اور ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبین آخر حالات حضرت علی علیہ السلام میں روایت کی ہے جس وقت ان کو ایک غلام نے حضرت کی شہادت سے مطلع کیا تو انہوں نے کہا:

فالقف عصاها واستفرت بها النوی کما فر عيناه بالاياب السافر

۱۵۰

القاء عصاء اطمینان قلب اور خاطر جمعی کا کنایہ ہے بعنی جس وقت کسی مخصوص موقع پر کسی شخص کے دل کو اطمینان اور دماغ کو سکون حاصل ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے القی عصاہ (جیساکہ مسکویہ نے تجارب الامم اور میری نے حیات الحیوان میں بیان کیا ہے) یہ شعر پڑھنے سے عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ علی(ع) کے بارے میں میرے خیالات کو تسکین میرے دل کو فرحت اور میرے دماغ کو آسودگی حاصل ہوگئی اس لیے کہ میں اسی اطلاع کی منتظر تھی، جیسے کوئی شخص اپنے مسافر کی واپسی کا انتظار کر رہا ہو اور اس کے آجانے پر اس کی آںکھیں روشن اور دل باغ باغ ہوجائے اس کے بعد خبر لانے سے دریافت کیا کہ کس نے ان کو قتل کیا؟ جواب ملا کہ قبیلہ بنی مراد کےعبدالرحمن ابن ملجم نے تو فورا کہا:

فان يک نائبا فلقد نغاه غلام ليس فی فيه التراب

یعنی اگر علی(ع) مجھ سے دور ہیں تو ان کی موت کی خبر وہ غلام لایا ہے جس کے منہ میں خاک نہ ہو۔

زینب دختر ام سلمہ موجود تھیں انہوں نے کہا۔ آیا علی(ع) کے بارے میں تم کو اس طرح خوش ہونا اور ایسی باتیں کہہ کے اظہار مسرت کرنا مناسب ہے؟ انہوں نے دیکھا کہ یہ تو برا ہوا لہذا جواب دیا کہ میں آپے میں نہیں تھی اور بھول چوک میں اس قسم کے الفاظ کہہ ریئے، چنانچہ اگر پھریہ کیفیت مجھ پر طاری ہو اور یہ باتیں دہرائوں تو مجھ کو یاد دلا دینا تاکہ باز رہوں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات محبت و عداوت کے جذبات کو الگ رکھ کے عبرت حاصل کریں تو معلوم ہو کہ مسئلہ توبہ کی کوئی حقیقت نہ تھی بلکہ یہ مرتے دم تک اپنی دشمنی پر قائم رہیں، ورنہ اظہار مسرت اور سجدہ شکر کیوں کرتیں؟ حضرات ! ان افعال کو کس چیز پرمحمول کیجئے گا؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نکل سکتا ہے کہ ام المومنین عائشہ عقل کی اوچھی عورت تھیں اور زندگی بھر چین سے نہیں بیٹھیں؟ اس وقت مجھ کو ایک اوربات یاد آگئی ، آپ حضرات شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کو عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ خلیفہ سوم عثمان پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں اور ان کے وہ مطاعن جن کو خود آپ کے علماء نے بھی نقل کیا ہے کیوں بیان کرتے ہیں؟

عثمان کی نسبت عائشہ کے متضاد فقرے

اگر یہی بات ہے و آپ کو ام المومنین عائشہ سے بھی حسن ظن نہ رکھنا چاہئیے اس لیے کہ بالعموم آپ کے اکابر علماء مورخین جیسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص77 میں، مسعودی نے کتاب اخبار الزمان اور اوسط میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص36 میں، نیز ابن جریر، ابن عساکر اور ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ ام المومنین عائشہ برابر عثمان کی بدگوئی کرتی رہتی تھیں یہاں تک کہ آواز دیتی تھیں "اقتلوا نعثلا قتله الله فقد کفر " یعنی نعثل ( عثمان) کو قتل کردو، خدا اس کو قتل کرے کیونکہ بتحقیق یہ کافر ہوگیا ہے) لیکن جیسے ہی عثمان قتل ہوئے تو علی علیہ السلام سے اپنے کینے اور عداوت کی بناء پر

۱۵۱

کہنے لگیں "قتل عثمان مظلوما والله لاطلبن بدمه فقوموا " ( یعنی عثمان مظلوم قتل ہوئے، خدا کی قسم میں ان کے خون کا مطالبہ کروں گی پس میری حمایت میں اٹھ کھڑے ہو)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

" أن‏ عائشة كانت‏ من أشد الناس على عثمان حتى إنها أخرجت ثوبا من ثياب رسول الله ص فنصبته في منزلها و كانت تقول للداخلين إليها هذا ثوب رسول الله صلی الله عليه و آله لم يبل و عثمان قد أبلى سنته."

یعنی در حقیقت عائشہ تمام لوگوں سے زیادہ عثمان کی دشمن تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کا پیراہن نکال کے اپنے گھر میں لٹکا دیا تھا اور آنے والوں سے کہتی تھیں کہ ابھی رسول اللہ(ص) کا پیراہن بوسیدہ نہیں ہوا اور عثمان نے آںحضرت(ص) کی سنت کو فرسودہ اور بیکار بنا دیا۔

نیز ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ جس وقت مکے میں عائشہ کو قتل عثمان کی خبر ملی تو کہا:

"أبعده‏ الله‏ ذلك بما قدمت يداه و ما الله‏ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ."

یعنی خدا ان کو اپنی رحمت سے دور کرے، یہ انہیں کی کرتوت کا نتیجہ ہے، اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

آپ خلیفہ عثمان کے حق میں عائشہ سے بغیر کسی دلیل کے اس قسم کے الفاظ سنتے ہیں اور قطعا کوئی اثر نہیں لیتے لیکن یہی باتیں اگر بے چارے شیعوں کی زبانسے نکلیں تو آپ فورا رفض اور کفر کا حکم لگا کر ان کا قتل واجب جانتے ہیں۔

انسان کی نظر بے لوث ہونا چاہئیے کیونکہ بدگمانی ہی سے ساری خرابیان پیدا ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ ام المومنین عائشہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف سے شدید کینے اور عداوت کا جذبہ رکھتی تھیں، چنانچہجس وقت یہ سنا کہ مسلمانوں نے حضرت سے بیعت کر لی تو کہا:

" لوددت إن السماء انطبقت على الارض ، ثمّ ان اتم هذا قتلوا ابن‏ عفّان‏ مظلوما."

یعنی میرے نزدیک آسمان کو زمین پر پھٹ پڑنا بہتر ہے اگر میں اس ( خلافت ) کو مکمل ہوجانے دوں، ابن عفان (عثمان) کو مظلوم قتل کیا۔

آیا اس قسم کے مختلف اور متضاد جملے ام المومنین عائشہ کے تلون مزاج کو ثابت نہیں کرتے؟

شیخ :ام المومنین عائشہکے طرز عمل اور رفتار و گفتار میں ایسے اختلافات کثرت سے منقول ہیں لیکن دو چیزیں مسلم اور ثابت ہیں۔

ایک یہ کہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو لوگوں نے فریب دیا اور وہ اس روز علی کرم اللہ وجہہ کے مرتبہ ولایت کی طرف متوجہ نہیں تھیں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ میں بھول گئی تھی اور مجھ کو بصرے میں یاد آیا۔

دوسرے توبہ کرنی تھی لہذا قطعا خداوند عالم پچھلی غلطیوں کو معاف کر کے ان کو بہشت کے بلند درجات میں جگہ دیگا۔

خیر طلب : توبہ کے موضوع پر میں بار بار اپنی گفتگو نہیں دہرائوں گا اور یہ نہیں پوچھوں گا کہ اتنے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائے جائے، ان کی ہتک حرمت کئے جانے اور ان کے اموال تاخت و تاراج کئے جانے کے بعد کیوںکر ممکن ہے کہ بغیر محاکمے اور باز پرس کے چھٹی مل جائے؟ یہ صحیح ہے کہ خدا ارحم الراحمین ہے لیکن

" فِي‏ مَوْضِعِ‏ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ، وَ أَشَدُّ الْمُعاقِبِينَ فِي مَوْضِعِ النَّكالِ وَ النَّقِمَةِ"

یعنی خدا عفو و رحمت کے موقع پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اورعذاب و عقوبت کے

۱۵۲

محل پر سب سےزیادہ سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو خود مرتے دم اعتراف رہا کہ وہ عمدا ان واقعات و حوادث کی باعث ہوئیں۔ اور اسی وجہ سے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء نے نقل کیا ہے وصیت کی تھی کہ مجھ کو پیغمبر(ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنا اس لیے کہ میں خود جانتی ہوں کہ میں نے آں حضرت(ص) کے بعد کون کون سے حادثات رونما کئے ہیں چنانچہ حاکم نے مستدرک میں، ابن قتیبہ نے معارف میں، محمد بن یوسف زرندی نے کتاب اعلام بسیرۃ النبی میں اور ابن البیع نیشاپوری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ عائشہ نے عبداللہ ابن زبیر کو وصیت کی :

"ادفونی مع اخواتی بالبقيع فانی قد احدث امورا بعده"

یعنی مجھ کو بقیع کے اندر میری بہنوں کے پہلو میں دفن کرنا اس لیے کہ میں نے رسول اللہ(ص) کے بعد نئی نئی باتیں پیدا کی ہیں۔

اور آپ جو یہ فرمایا ہے کہ ام المومنین پر نسیان طاری تھا، فضائل علی(ع) کی حدیثوں کو بصرے میں یاد کیا اور اسی بنا پر پیغمبر(ص) کی ممانعت بھی بھول گئی تھیں، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے بہتر ہوگا کہ اپنے اکابر علماء کی معتبر کتب کا مطالعہ کیجئے تاکہ اس حسن ظن کی حقیقت واضح ہوجائے، خصوصیت کے ساتھ ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص77 کو پڑھئیے تو اصلیت کا پتہ چل جائے۔

اب میں مطلب روشن ہونے کے لیے اس کتاب کے بعض مندرجات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

عائشہ کو ام سلمہ کی نصیحتیں

ابن ابی الحدید نے تاریخ ابی مخنف لوط بن یحیی ازدی سے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر ام المومنین ام سلمہ بھی بسلسلہ حج مکہ معظمہ میں موجود تھیں، جب انہوںنے سنا کہ عائشہ عثمان کی خون خواہی کے لیے اٹھی ہیں اور بصرہ جارہی ہیں تو بہت متاثر ہوئیں اور ہر مجمع میں علی علیہ السلام کے فضائل ومناقب بیان کرنے لگیں۔ عائشہ ام کے پاس آئیں تاکہ ان کو فریب دے کر اپنا شریک کار بنالیں تب بصرہ روانہ ہوں۔

ام سلمہ نے فرمایا کہ تم کل تک تو عثمان کو اس قدر گالیاں دیتی تھیں ، ان کی مذمت کرتی تھیں، اور ان کو نعثل کہتی تھیںاور اب انہیں کے خون کا قصاص لینے کے لیے علی علیہ السلام کے مقابلے میں اٹھی ہو۔ کیا تم ان حضرت کے فضائل سے آگاہ نہیں ہو؟ اگر بھول گئی ہوتو میں اب پھر یاد دلاتی ہوں۔

عائشہ کو فضائل علی علیہ السلام کی یاد دہانی

یاد کرو کہ ایک روز میں رسول خدا(ص) کے ہمراہ تمہارے حجرے میں آئی تھی کہ اتنے میں علی(ع) بھی آگئے اور پیغمبر(ص) سے کچھ خفیہ باتیں کرنے لگے جب اس سرگوشی میں دیر لگی تو تم ان حضرت کو سخت و سسنت کہنے کے لیے اٹھیں، میں نے منع بھی کیا لیکن تم نے دھیان

۱۵۳

نہیں دیا اور ان بزرگوار پر غصہ دکھاتے ہوئے کہا کہ نو دنوں میں سے ایک دن میری باری کا ہے اس میں بھی تم آگئے اور پیغمبر(ص) کو مشغول کر لیا، اس پر رسول اکرم(ص) اس قدر غضبناک ہوئے کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور تم سے فرمایا:

"ارجعى‏ ورائك‏ و اللّه لا يبغضه أحد من أهل بيتي و لا من غيرهم من الناس إلّا و هو خارج من الايمان، "

یعنی پیچھے ہٹو، خدا کی قسم کوئی میرا گھر والا ہو یا غیر شخص اگر علی(ع) سے بغض رکھے گا تو وہ قطعا ایمان سے خارج ہے۔

پس تم نادم اور شرمندہ ہو کر لوٹ آئی تھیں!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ۔ ام سلمہ نے فرمایا یاد کرو ایک روز تم پیغمبر(ص) کا سرمبارک دھو رہی تھیں اور میں حیس ( ایک قسم کا کھانا) تیار کر رہی تھی، آں حضرت (ص) نے سر مبارک بلند کر کے فرمایا کہ تم دونوں میں سے اونٹ پر بیٹھنے والی گنہ گار عورت کون ہے جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ پل صراط پر منہ کے بل گرے گی؟ میں نے حیس کو چھوڑ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میں ایسے کام سے اللہ اور اس کے رسول(ص) سے پناہ مانگتی ہوں۔ اس کے بعد آن حضرت(ص) نے تمہاری پیٹھ پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ بچو اس سے کہ یہ حرکت کرنے والی عورت تمہیں ہو!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے۔

ام سلمہ نے کہا میں تم کو یاد دلاتی ہوں کہ ایک سفر میں ہم دونوں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھیں ایک روز علیعلیہ السلام پیغمبر صلعم کی کفشین سی رہے تھے اور ہم دونوں ایک درخت کے سائے میں بیٹھی تھیں۔ اتفاق سے تمہارے باپ ابوبکر اور عمر نے آکر اجازت چاہی میں اور تم پردے میں چلی گئیں اور یہ لوگ بیٹھ گئےتھوڑی گفتگو کے بعد انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) :

" يا رسول اللّه إنا لا ندرى‏ قدر ما تصحبنا فلو أعلمتنا من يستخلف علينا ليكون بعدك لنا مفزعا، فقال لهما: أما أنّى أرى مكانه و لو فعلت لتفرّقتم عنه كما تفرّقت بنو اسرائيل عن هارون بن عمران، فسكتا ثمّ خرجا"

مطلب یہ کہ ہم لوگ آپ کی مصاحبت کی قدر نہیں جانتے پس ہماری خواہش ہے کہ ہم سے بتائیے کہ ہم پر آپ کا خلیفہ اور جانشین کون ہوگا تاکہ آپ کےبعد وہ ہمارے لیے فریاد رس اور پناہ گاہ ہو، آں حضرت(ص) نے ان دونوں (ابوبکر و عمر) سے فرمایا میں اس کے مقام اور منزل کو دیکھ رہا ہوں لیکن اگر عملا ایسا کروں اور اس کو پہنچوادوں تو تم لوگ اس کو چھوڑ کے الگ ہوجائو گے جس طرح بنی اسرائیل ہارون کو چھوڑ کر الگ ہوگئے تھے۔ پس وہ دونوں خاموش ہو کر چلے گئے ۔

ان دونوں کے جانے کے بعد ہم لوگ باہر آئے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص):

"من كنت يا رسول اللّه مستخلفا عليهم؟ فقال عليه السّلام: خاصف النّعل، فنزلنا و لم نر أحدا إلّا عليا، فقلت: يا رسول اللّه ما نرى إلّا عليّا، فقال: هو ذاك."

یعنی ان لوگوں پر آپ کا خلیفہ کون ہوگا؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا جو شخص میری جوتیاں سی رہا ہے۔ ہم لوگوں نے نکل کے دیکھا تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہ آِیا پس میں ن ے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ! مجھ کو تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہیں آرہا ہے فرمایا وہی ( علی(ع)) خلیفہ ہیں۔

عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ام سلمہ نےکہا کہ جب ان احادیث کو جانتی ہو تو پھر کہاں جارہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا میں لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے جارہی ہوں۔ اب تو آپ حضرات کو بھی تصدیقکرنا چاہئیے کہ ام المومنین عائشہ نے فریب نہیں کھایا بلکہ جان بوجھ کر فتنہ انگیزی پر آمادہ تھیں اور سب کچھ سمجھتے ہوئے عمدا بغاوت کی، باوجودیکہ ام سلمہ نے رسول اللہ(ص) کی حدیثیں بھی یاد دلائیں لیکن باز نہیں آئیں اور امیرالمومنین(ع) کی عظمت ومنزلت

۱۵۴

کا اقرار کرنے کےبعد بھی بصرے کی طرف سفر کر کےاتنا بڑا فتنہ برپا کیا جس کے نتیجے میں بے شمار مسلمانوں کا خون بہہ گیا۔ خصوصیت کے ساتھ اس حدیث خاصف النعل میں حضرت کی امامت و خلافت پر بہت بڑی نص اور حجت موجود ہے کیونکہ جس وقت ام سلمہ عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ(ص) کون ہے وہ شخص جس کو آپ اپنے بعد خلیفہ بنا رہے ہیں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا میری نعلین کا سینے والا اور وہ سوا علی(ع) کے کوئی دوسرا نہیں تھا۔ شیعوں کا گناہ صرف یہ ہے کہ کسی عادت سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ تحقیق کے دور میں سے چودہ سو برس قبل کے اہم واقعات کا معائنہ کرتے ہیں اور بغیر تعصب یا جانبداری کے آیات قرآن مجید اور علمائے فریقین کی معتبر کتابوں سے استفادہ کر کے سچا سچا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسی بنا پر ان کا عقیدہ ہے کہ اگر چہ سیاسی چالبازیوں کی وجہ سے بظاہر تاریخ میں علی علیہ السلام کی خلافت چوتھے نمبر پر آتی ہے لیکن یہ پس ماندگی حضرت کی افضلیت اور حضرت کے حق میں جو نصوص وارد ہیں ان کو قطع نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی۔

ہمارا بھی اعتقاد ہے اور ہم بھی اقرار کرتے ہیں کہ جیسا تاریخ میں درج ہے ابوبکر (سیاسی دائوں پیچ سے) کے اندر بغیر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کی موجودگی کے اور اںصار کے قبیلہ خزرج کی مخالفت کے باوجود خلیفہ نامزد کردیئے گئے، پھر اس کے بعد شخصی ڈکٹیڑی اور شوری کے بل پر عم و عثمان ظاہری طور پر علی علیہ السلام سے قبل مسند خلافت پر قابض ہوگئے۔

لیکن فرق یہ ہے کہ یہ لوگ امت والوں کے خلیفہ تھے یعنی ان کے چند ساتھی براتی لوگوں نے زور آزمائی کر کے ان کی گردن میں خلافت کا قلادہ ڈال دیا ۔ اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام خلیفہ رسول(ص) ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کی طرف سے منصوص تھے۔

شیخ : آپ بے لطفی کیبا تیں کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، جن لوگوں نے خلفائے ثلثہ ابوبکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو اجماع کے ساتھ مقامات خلافت پر نصب کیا انہیں نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی خلافت پر مقرر کیا۔

خلفائے ثلاثہ کی تعیین میں اختلاف ان کی خلافت باطل ہونے کی دلیل ہے

خیر طلب: خلافت خلفاء کےطریق تعیین میں مختلف پہلوئوںسے کھلا ہوا تفاوت سے اولا آپ نے اجماع کی طرف اشارہ کیا ہے تو یہ بڑی بے لطفی کی بات ہے کہ ایک ہی مطلب بار بار دہرایا جائے کیونکہ میں پچھلی راتوں میں دلیل اجماع کے بے بنیاد ہونے پر مکمل روشنی ڈال چکا ہوں اور ثابت کرچکا ہوں کہ خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی خلافت بھی اجماع امت کے ساتھ قائم نہیں ہوئی۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص29

بطلان اجماع پر دوسرے دلائل

دوسرے اگر دلیل اجماع پر آپ کا اعتماد ہے اور آپ کے نزدیک خدا و رسول(ص) کی جانب سے امت کے لیے یہ حق

۱۵۵

شرعا ثابت ہے تو قاعدے کے رو سے چاہئیے یہ تھا کہ جو خلیفہ بھی دنیا سے اٹھے ساری امت جمع ہو یا زمانہحالکی رسم کے مطابق ایک نمائندہ جماعت یا انتظامی کمیٹی کی تشکیل کرے جو خلیفہ معین کرنے کا مسئلہ طے کرے اور جس پر سب کا اجماع ہوجائے یا ( بقول آپ کے ) صاحبان عقل متفق ہوجائیں اور اتفاق رائے ثابت ہوجائے وہشخص لوگوں کا منتخب خلیفہ قرار پائے ( رسول خدا(ص) کا خلیفہ نہیں) نیز ضروری تھا کہ اس تمدنی اصول پر ہر زمانے میں عملدر آمد ہوتا رہے۔

یقینا آپ تصدیق کریں گے کہ کسی اسلامی خلیفہ کے لیے اس قسم کا اجماع قطعا واقع نہیں ہوا، حتی کہ ناقص اجماع بھی (جس کے متعلق ہم پہلے ہیثابتکرچکے ہیں کہ کبار صحابہ بنی ہاشم اور انصار اس میں شامل نہیں تھے ) سوا ابوبکر بن ابی قحافہ کے کسی اور کے لیے منعقد نہیںہوا۔

اس لیے کہ اسلام کے جمل مورخین و محدثین کا اتفاق ہے کہعمر کی خلافت فقط خلیفہ ابوبکر کی نص پر قائم ہوئی ۔ اگر تعیین خلافت میں اجماع شرط ہےتو ابوبکر کے بعد عمر کے لیے اجماع کی تشکیل کیوں نہیں ہوئی اور رائے عامہ کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

شیخ : کھلی ہوئی بات ہے کہ چونکہ ابو بکر کو اجماع امت نے خلافت پر معین کیا تھا لہذا اپنے بعد والے خلیفہ کے تقرر تنہا خلیفہ اول کا قول ایک مضبوط سند ہے اور ان کے بعد بھی دوبارہ اجماع یا خلیفہ کے تعیین میں امت کی رائے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر خلیفہ کا قول خلیفہ ما بعد کی تعیین میں مستحکم سند ہے اور یہ خلیفہ کا مخصوص حق ہے کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کر جائے او لوگوں کو حیران و سرگردان نہ چھوڑے ، چنانچہ مسلم الثبوت اجماعی خلیفہ ابوبکر نے جب عمر کو خلافت پر نصب کردیا تو وہ پیغمبر(ص) کے مستقل خلیفہ ہوگئے۔

خیر طلب: اول یہ کہ اگر آپ اپنے عقیدے کے مطابق، مسلم الثبوت خلیفہ کے لیے خلیفہ ما بعد کے تقرر میں ایسے حق کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ خلیفہ کا فرض ہے کہ امت کو حیران نہ چھوڑے نیز اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لیے پس اسی کی ںص کافی ہے، تو آپ نے اسی حق کو مسلم الثبوت پیغمبر(ص) اور رسول برحق سے آخر کیوں سلب کرلیا؟ اور ان تمام مخصوص اور واضح نصوص کو جن کے ذریعہ رسول اکرم(ص) نے صراحتہ وکنایۃ باربار اور مختلف مقامات پر علی علیہ السلام کو معین فرمایا( جن میں سے بعض کی طرف ہمپچھلی شبوں میں اشارہ کرچکے ہیں اور آج کی رات بھی حدیث ام سلمہ کی کھلی ہو نص پیش کی جاچکی ہے) کیوں نظر انداز کردیتے ہیں اور ان سے اثر لینے کے بجائے ہر ایک کے لیے فضول تاویلیں کرتے ہیں جیسے ابن ابی الحدید نے حدیث ام سلمہ میں مضحکہ خیز تاویل و ترمیم کر کے اس نص صریح کو رد کیا ہے؟

واقعی بڑے تعجب کا مقام ہے کہ آخر کس بنیاد پر آپ فرماتے ہیں کہ عمر کو خلافت پر نصب کرنے کے لیے ابوبکر کا قول سند ہے لیکن رسول خدا(ص) کے قول میں کوئی سندیت نہیں؟ اور آں حضرت(ص) کے حکیمانہ ارشادات سے بے ربط مطالب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

دوسرے آپ کہاں سے اور کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ خلیفہ اول جو اجماع سے معین ہوئے اپنے بعد خلیفہ مقررکرنے کا حق رکھتے ہیں؟ آیا پیغمبر(ص) کی طرف سے اس قسم کی کوئی ہدایت نافذ ہوئی ہے؟ جواب قطعا نفی میں ہوگا۔

۱۵۶

تیسرے آپ کہتے ہیں کہ جب خلیفہ اول اجماع سے مقرر ہوچکے تو اب دوسرے خلفاء کی تعیین دوبارہ اجماع کی ضرورت نہیں ہے۔ وہی مںصوب خلیفہ امت کی جانب سے اس کا حق رکھتے ہیں کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کردیں اور تنہا انہیں کی نص کافی ہے۔

مجلس شوری پر اعتراض

اگر حقیقت یہی ہے تو یہ اصول صرف عمر ہی کی خلافت میں کیوں برتا گیا؟ بلکہ خلافت عثمان میں تو اس کے برخلاف عمل کیا گیا اور عمر نے خود خلیفہ معین کرنے کے عوض یہ معاملہ چھ اشخاص کے شوری پر چھوڑ دیا۔ معلوم نہیں اثبات خلافت پر آپ حضرات کی دلیل کیا ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ جب دلائل میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اصل موضوع ہی باطل ہوجاتا ہے۔

اگر اثبات خلافت پر آپ کی دلیل اجماع امت ہے اور ساری امت کو جمع ہو کر متفقہ رائے دنیا چاہئیے (قطع نظر اس سے کہ ابوبکر کی خلافت میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا) تو عمر کی خلافت میں اس طرح کا اجماع کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ اگر آپ اجماع کو صرف پہلی ہی خلافت میں ضروری سمجھتے ہیں اور بعد والے خلفاء کی تعیین میں فقط اجماع کے ذریعے متنخب کئے ہوئے خلیفہ کی نص ہی کافی ہے۔ تو عثمان کی خلافت میں اس قاعدے پر کیوں عمل نہیں کیا گیا؟ اور خلیفہ عمر نے ابوبکر کے رویے کے بر خلاف خلیفہ کا انتخاب (ہٹلر شاہی نمونے کے)شوری کے اوپر کیوں چھوڑا؟ وہ بھی ایسی مجلس شوری جیسی دنیا کے کسی گوشے میں( یہاں تک کہ وحشی اقوام کے درمیان بھی) قائم نہیں ہوئی، بجائے اس کے کہ مجلس کے نمائندوں کو قوم منتخب کرے( تاکہ اس میں اکثریت کے قول اور خیال کی کچھ تو جھلک موجود ہے) خلیفہ عمر نے خود ہی نامزد کردیا۔

عبد الرحمن ابن عوف کی حکمیت پر اعتراض

اور سب سے عجیب تر بات یہ کہ جملہ ارکان کے اختیارات پامال کر کے ہر ایک ممبر کو عبدالرحمن بن عوف کا ماتحت اور محکوم بنادیا۔

معلوم نہیں کون سرشرعی، عرفی، علمی، یا عملی بنیاد پر عبدالرحمن کو یہ امتیازی ورجہ دے دیا( سوا اس کے کہ یہ عثمان کے عزیز قریب تھے اور یقین تھا کہ عثمان کو چھوڑ کے دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے) کہ اپنے دستور العمل میں کہہ دیا، جس طرف عبدالرحمن ہوں وہی حق ہے اور عبدالرحمن جس کی بیعت کرلیں دوسروں کو بھی اس کی اطاعت کرنا چاہئیے؟

جب ہم گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ یہ ایک آمرانہ حکم تھا جس کو شوری کے بھیس میں نافذ کیا گیا تھا۔ ورنہ ہم آج دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کا قانون اس طرز عمل کے بالکل برعکس ہے۔ واقعی تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ جیسا میں گذشتہ شبوں

۱۵۷

میں بھی سلسلہ اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں۔ باوجودیکہ رسول اللہ(ص) نے بار بار فرمایا ہے:

"عَلِيٌ‏ مَعَ‏ الْحَقِ‏ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ حَيْثُ دَارَ."

یعنی علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں۔

نیز فرمایا ہے: "هذا علی فاروق‏ هذه‏ الأمّة يفرق بين الحقّ و الباطل "

یعنی یہ علی(ع) اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں۔

چنانچہ حاکم مستدرک میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں، طبرانی ن اوسط میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، محب الدین طبری نے ریاض النظرہ میں، حموینی نے فرائد میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، اور سیوطی نے در المنثور میں، ابن عباس، سلمان، ابوذر، اور حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"ستكون‏ بعدي‏ فتنة، فإذا كان ذلك فالزموا عليّ بن أبي طالب عليه السّلام، فإنّه أوّل من يراني، و أوّل من يصافحني يوم القيامة، و هو الصدّيق الأكبر، و هو فاروق هذه الأمّة؛ يفرق بين الحقّ و الباطل، و هو يعسوب المؤمنين."

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا پس اس موقع پر تم کو لازم ہے کہ علی ابن ابی طالب کا ساتھ پکڑو اس لیے کہ یہ پہلے وہ شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ سب سے بڑے بڑے راست گو اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق وباطل کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور یہی مومنین کے بادشاہ ہیں۔

اور عمار کے مشہور حدیث میں ہے جس کو سلسلہ اسناد کے ساتھ پچھلی راتوں میں تفصیل سے عرض کرچکا ہوں کہ آں حضرت(ص) نے عمار یاسر سے فرمایا:

"إن‏ سلك‏ الناس‏ كلهم‏ واديا و علي واديا فاسلك وادي علي دخل عن الناس يا عمار علی لايردک عن هدى و لا يدلک علی ردی يا عمار طاعة علي من طاعتي و طاعتي من طاعة الله."

یعنی اگر تمام لوگ ایک راستے پر ہوجائیں اور علی(ع) ایک راستے پر تو علی(ع) ہی کے راستے پر چلنا اور تمام لوگوں کا ساتھ چھوڑ دینا۔ اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے۔ اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

حضرت امیرالمومنین کی منزلت پر بدترین ظلم

لیکن پھر بھی خلیفہ عمر پیغمبر(ص) کی ہدایت کے برخلاف علی(ع) کو شوری میں عبدالرحمن کو محکوم اور ماتحت قرار دیتے ہیں آیا ایسی حکومت حقبجانب ہوسکتی ہے جس نے دوسرے تمام بزرگان صحابہ کو دودھ کی مکھی بنا دیا اور امر خلافت میں ان کے حق رائے وہی کو کالعدم کردیا؟ پھر اسی پر اکتفاء نہیں کی بلکہ خود شوری میں بھی علی علیہ السلام پر شرمناک ظلم ڈھایا اور ان حضرت کی انتہائی اہانت کی کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ( فاروق ) کو عبدالرحمن کا ماتحت اور محکوم بنایا۔

محترم حضرات ! انصاف سے فیصلہ کیجئے اور استیعاب ، اصابہ، اور حلیتہ الاولیاء وغیرہ جیسی کتاب رجال کا مطالعہ کرنے کے بعد علی علیہ السلام کے حالات کا عبدالرحمن بلکہ شوری کے پانچوں ممبروں کی حیثیت کے ساتھ موازنہ کیجئے اور دیکھئے کہ حاکم بننے

۱۵۸

کی لیاقت عبدالرحمن کے اندر تھی یا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام میں؟ اس کے بعد اندازہ کیجئےکہ سیاسی پارٹی بندی کے ماتحتبھی حضرت علی(ع) کے حق ولایت کو پامال کردیا جائے۔

خلاصہ یہ کہ اگر خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کا یہ دستور قابل عمل تھا کہ تعیین خلافت کے لیے مجلس شوری ضروری ہے تو حضرت امیرالمومنین(ع) کی خلافت میں اس کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

حیرت ہے کہ خلافت خلفائے اربعہ ( راشدین) ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی(ع) میں چار طریقے بروئے کار آئے تو آیا ان چاروں قسموں میں سے کون سی قسم بنیادی برحق اور قابل اعتماد تھی اور کون سے اقسام باطل؟ اگر آپ کے حسب دل خواہ چاروں طریقے حق تھے تو ماننا پڑے گا کہ آپ کے پاس تعیین خلافت کے لیے کئی مستقل اصول اور محکم دلیل ہی موجود نہیں ہے۔

اگر آپ حضرات اپنی عادت سے ذرا ہٹ کے مںصفانہ اور گہری نظر سے حقائق کیجئے تو اعتراف کیجئے گا کہ حقیقت اس کے علاوہ ہے جس کا ظاہر بظاہر شہرہ اور رواج ہے۔

چشمباز وگوش باز و این عمی خیرتم از چشم بندی خدا

شیخ : اگر آپ کے یہ بیانات صحیح ہوںکہ (بقول آپ کے ) اس معاملے پر گہری نگاہ ڈالنا چاہئیے تو ایسی صورت میں علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بھی ڈانواں ڈول ہوجاتی ہے، کیونکہ جس اجماع نے خلفائے سابق( ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم) کو خلافت پر نصب کیا اور تقویت دی اسی نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی منتخب کیا اور خلافت پر مقرر کیا ہے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان اس وقت درست ہوسکتا ہے جب کہ پہلے سے رسول خدا(ص) کے نصوص اور ارشادات موجود نہ ہوں حالانکہ علی علیہ السلام کی خلافت اجماع امت کی پابند نہ تھی بلکہ خدا و رسول (ص) کی جانب سے مںصوص تھی۔

خلافت علی(ع) خدا و رسول(ص) کی طرف سے منصوص تھی

اگر حضرت نے خلافت کا بار سنھبالا تو وہ اجماع یا لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنا حق واپس پانے کے صورت میں تھا، اس لیے کہ اگر کسی حق دار کا حق غصب کر لیا جائے تو چاہے مدتین گذر جائیں لیکن جس وقت موقع ہاتھ آجائے،حالات سازگار ہوجائیں اور مانع برطرف ہوجائے وہ اپنا حق وصول کرسکتا ہے ۔ چنانچہ جس روز مانع برطرف ہوا اور ماحول مقتضی ہوگیا حضرت نے احقاق حق فرمایا اور حق اپنے مرکز سے ملحق ہوگیا۔

آپ حضرات اگر بھول گئے ہوں تو رسائل واخبارات کے صفحات او خصوصی اشاعتوں کا مطالعہ فرمائیے جن میں وہ دلائل اور نصوص خلافت درج ہیں جن کو ہم نے گذشتہ راتوں میں پیش کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ خلافت ظاہری کی مسند پر حضرت کا قیام اجماع یا لو گوں کی توجہ کے سبب سے نہیں بلکہ آیات قرآنی و نصوص پیغمبر(ص) کی بنیاد پر تھا اور اپنے حق کی واپسی تھی۔

۱۵۹

آپ تو ایسی ایک بھی متفق علیہ حدیث نہیں پیش کرسکتے جس میں رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہو کہ ابوبکر، عمر اور عثمان میرے وصی اور خلیفہ ہیں یا جس میں اموی اور عباسی خلفاء میں سے کسی کا نام لیا ہو۔ البتہ ( علاوہ توار کتب شیعہ کے) آپ کی تمام معتبر کتابوںمیں پیغمبر(ص) سے ایسی حدیثیں ضرور کثرت سے منقول ہیں جن میں آں حضرت (ص) نے علی علیہ السلام کو اپنی خلافت و وصایت پر نصب فرمایا ہے چنانچہ ان میں سے چند پچھلی راتوں میں اور حدیث ام سلمہ آج کی شب عرض کرچکا ہوں۔

شیخ : ہماری روایتوں میں بھی وارد ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ابوبکر میرے خلیفہ ہیں۔

خیر طلب: گویا آپ ان دلائل کو بالکل بھول ہی گئے جو میں سابق راتوں میں ان احادیث کے بطلان پر قائم کرچکا ہوں، اور آج کی شب بھی میں آپ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا ۔ شیخ مجددالدین فیروز آبادی صاحب قاموس اللغات کتاب مضرالسعادت میں کہتے ہیں :

" إن‏ ما ورد في‏ فضائل‏ أبي بكر فهي من المفتريات التي يشهد بديهة العقل بكذبها "

یعنی فضائل ابوبکر میں جو کچھ بھی نقل ہوا ہے وہ ایسی افترا پروازیون میں سے ہے کہ عقل بدیہی طور پر اس کے جھوٹ ہونے کی گواہی دیتی ہے۔

علی(ع) کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی

ان چیزوں کے علاوہ اگر آپ خلافت کے ظاہری طریقے پر اچھی طرح غور کریں تو خلفائے راشدین( ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع)) اور اموی و عباسی خلفاء میں سے کسی ایک کے لیے بھی کوئی اجماع منعقد نہیں ہوا کہ تمام امت جمع ہوتی یا ساری امت کے باقاعدہ چنے ہوئے نمائیندے اکٹھا ہوتے اور بالاتفاق اس کی خلافت کے لیے رائے دیتے ۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرےخلفاء کی نسبت بظاہر حضرت علی علیہ السلام ہی کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی اس لیے کہ آپ کے علماء و مورخین لکھتے ہیں کہ خلافت خزرج کے ساتھ اپنی مخالفت کی وجہ سے بیعت کر لی کیونکہ اس نے سعد بن عبادہ کو امارت کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ پھر آگے چل کر بعض نے ڈرانے دھمکانے سے ( جس کی تفصیل عرض کرچکا ہوں) اور ایک جماعت نے لالچ دلانے سے بیعت کی لیکن پھر بھی ایک گروہ نے مثلا سعد بن عبادہ کی پیروی میں اںصار نے آخر تک خلافت تسلیم نہیں کی پھر عمر کی خلافت تنہا ابوبکر کی تجویز سے قائم ہوئی جس میں اجماع اور رائے عامہ کا قطعا کوئی دخل تھا بلکہ یہ خلافت شاہانہ انداز کا ایک نمونہ تھی۔

اس کے بعد عثمان عمر کی بنائی ہوئی آمرانہ مجلس شوری کی سیاسی ترکیب سے مسند خلافت پر بیٹھے ۔ البتہ علی علیہ السلام کےقیام خلافت میں تقریبا سارے بلاد مسلمین کے اکثر نمائیندوں نے جو اتفاق سے دربار خلافت سے داد خواہی کرنکے لیے مدینے آئے ہوئے تھے، شریک ہو کر ایک بڑے اجماع کی تشکیل کی اور سبھی کے اصرار سے حضرت خلافت ظاہری

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دوسری فصل

جزیرة العرب سے باہراسلام کی توسیع

۱۔جنگ موتہ( ۱ )

رسول(ص) نے یہ عزم کر لیا تھا کہ جزیرة العرب کے شمال میں امن و امان کی فضا قائم کریں گے، اور اس علاقہ کے باشندوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح شام تک جائیں گے ۔ آپ(ص) نے حارث بن عمیر ازدی کو حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس بھیجا، شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کا راستہ روکا اور قتل کر دیا۔

اسی اثنا میں رسول(ص) نے مسلمانوں کا ایک اور دستہ اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا، ملکِ شام کے علاقہ ذات الصلاح کے لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، ان کے قتل کی خبر رسول(ص) کو ملی،اس سانحہ کو سن کر رسول(ص) کو بہت افسوس ہوا، پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے انتقام کے لئے نکلیں آپ (ص) کے فرمان پرتین ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے فرمایا: اس کے سپہ سالار علی الترتیب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور بعد میں عبد اللہ بن رواحہ ہونگے پھر آپ(ص) نے ان کے درمیان خطبہ دیا:

''اغزوا بسم اللّه...ادعوهم الیٰ الدّخول فی الاسلام...فان فعلوا فاقبلوا منهم و اکقفوا عنهم...و الا فقاتلوا عدو الله و عدوکم بالشام و ستجدون فیها رجالا فی الصوامع معتزلین الناس، فلا تعرضوا لهم، و ستجدون آخرین للشیطان فی رؤوسهم مفاحص

____________________

۱۔ جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ھ میں ہوئی۔

۱۸۱

فاقلعوها بالسیوف ولا تقتلن امراة ولا صغیراً ولامر ضعاً ولا کبیراً فانیا لا تغرفن نخلا ولا تقطعن شجراً ولا تهدموا بیتاً'' ( ۱ )

پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا...اگر انہوں نے قبول کر لیا تو ان پر حملہ نہ کرنا انہیں مسلمان سمجھنا اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تم اپنے اور خدا کے دشمن سے شام میں جنگ کرنا اور دیکھو تمہیں کلیسائوں میں کچھ لوگ گوشہ نشین ملیں گے ان سے کچھ نہ کہنا۔

اور کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو شیطان کے چیلے ہونگے ان کے سرمنڈھے ہونگے انہیں تلواروں سے صحیح کرنا اور دیکھو عورتوں، دودھ پیتے بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کو برباد نہ کرنا اور کسی درخت کو نہ کاٹنا اور کسی گھر کو منہدم نہ کرنا۔

اس لشکر کو وداع کرنے کے لئے رسول(ص) بھی ان کے ساتھ چلے اور ثنیة الوداع تک ان کے ساتھ گئے مسلمانوں کا یہ لشکر جب ''مشارق'' کے مقام پر پہنچا تو وہاں کثیر تعدادمیں روم کی فوج دیکھی، جس میں دو لاکھ جنگجو شامل تھے۔ مسلمان موتہ کی طرف پیچھے ہٹے اور وہاں دشمن سے مقابلہ کیلئے، تیار ہوئے مختلف اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا اور نتیجہ میں تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس دور افتادہ علاقہ میں جنگ کر رہے تھے جہاں امداد کا پہنچنا مشکل تھا۔ پھر یہ روم والوںپر حملہ آور ہوئے تھے اوروہ اپنی کثیر تعداد کے ساتھ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ،دونوں لشکروں کی جنگی معلومات میں بہت زیادہ فرق تھا، روم کی فوج ایک منظم و مستحکم فوج تھی جو جنگی مشق کرتی رہتی تھی، دوسری طرف مسلمانوں کی تعداداوران کے جنگی معلومات بہت کم تھی،یہ جمعیت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔( ۲ )

جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر سن کر رسول(ص) بہت غم زدہ ہوئے اور آپ(ص) پرشدید رقت طاری ہوئی

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۷۵۸ ، سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۸۱۔

۱۸۲

تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اسی طرح زید بن حارثہ کے مارے جانے کا بھی بہت صدمہ ہوا۔( ۱ )

۲۔ فتح مکہ

جنگ موتہ کے بعد علاقہ کی طاقتوں کے مختلف قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے، مسلمانوں کے پسپا ہونے اور شام میں داخل نہ ہونے سے روم کو بہت خوشی تھی۔

قریش بھی بہت خوش تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جرأت بڑھ گئی تھی چنانچہ وہ معاہدہ ٔامان کو ختم کرکے صلح حدیبیہ کو توڑ نے کی کوشش کرنے لگے انہوںنے قبیلۂ بنی بکر کو قبیلۂ بنی خزاعہ کے خلاف اکسایا جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلۂ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا تھا اور خزاعہ رسول(ص) کا حلیف بن گیا تھااور اسلحہ وغیرہ سے اس کی مدد کی جس کے نتیجہ میں قبیلۂ بکر نے قبیلۂ خزاعہ پر ظلم کیا اور اس کے بہت سے لوگوںکو قتل کر دیا حالانکہ وہ اپنے شہروں میں امن کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض تو ان میں سے اس وقت عبادت میں مشغول تھے انہوںنے رسول(ص) سے فریاد کی اور مدد طلب کی۔ عمرو بن سالم نے رسول(ص) کے سامنے کھڑے ہو کر جب آپ(ص) مسجد میں تشریف فرما تھے نقض عہد کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، جس سے رسول(ص) بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:''نُصِرتَ یا عمرو بن سالم'' اے سالم کے بیٹے عمرو تمہاری مدد کی جائیگی۔

قریش کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں اپنی غلط حرکت کا احساس ہو گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے انہیں خوف لاحق ہوا اس صورت حال کے بارے میں انہوں نے آپس میں مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ابو سفیان کو مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ صلح کی تجدید کرے اور رسول(ص) سے مدتِ صلح بڑھانے کی درخواست کرے۔

لیکن رسول(ص) نے ابو سفیان کی باتوں پر توجہ نہ کی بلکہ اس سے یہ فرمایا: اے ابو سفیان کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں رسول(ص) نے فرمایا: ہم اپنی صلح اور اس کی مدت پر قائم ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۵۴، مغازی ج۲ ص ۷۶۶، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۶۸۔

۱۸۳

اس سے ابوسفیان کا دل مطمئن نہ ہوا اور اس کو سکون حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے رسول(ص) سے عہد لینے اور امان طلب کرنے کی کوشش کی لہذا وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا کہ جو نبی (ص) سے یہ کام کرا دے مگرہر ایک نے واسطہ بننے سے انکار کر دیااور اس کی باتوں کی طرف اعتنا نہ کی۔ جب اسے کوئی چارہ کا ر نظر نہ آیا تو وہ ناکام مکہ واپس لوٹ گیا مشرک طاقتوں کے معاملات پیچیدہ ہو گئے تھے۔ حالات بدل گئے تھے اب رسول(ص) بڑھتی ہوئی طاقت اور راسخ ایمان کے سبب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونا چاہتے تھے مشرکین مکہ کی پیمان شکنی نے اس کا جواز پیدا کر دیااور قریش اپنی جان و مال کے لئے امان طلب کرنا چاہتے تھے۔ مکہ پر اقتدار و تسلط کا مطلب یہ تھا کہ پورا جزیرةالعرب اسلام کے زیر تسلط آ جائے۔

رسول(ص) نے یہ اعلان کر دیا کہ سب لوگ دشمن سے جنگ کے لئے تیار ہوجا ئیں چنانچہ مسلمانوں کے گروہ آپ(ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہو نے لگے دس ہزار کا لشکر فراہم ہو گیا رسول(ص) نے چند مخصوص افراد ہی سے اپنا مقصد بیان کیا تھا آپ(ص) خدا سے یہ دعا کر رہے تھے۔

''اللهم خذ العیون و الاخبار من قریش حتی نباغتها فی بلادها'' ( ۱ )

اے اللہ قریش کی آنکھوں اور ان کے سراغ رساں لوگوں کو ناکام کر دے یہاں تک کہ ہم ان کے شہر میں ان کے سروں پر پہنچ جائیں۔

ظاہر ہے کہ رسول(ص) کم مدت میں بغیر کسی خونریزی کے پائیدار کا میابی چاہتے تھے اسی لئے آپ(ص) نے خفیہ طریقہ اختیار کیا تھا لیکن اس کی خبر ایسے شخص کو مل گئی جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے اس سلسلہ میں قریش کو ایک خط لکھ دیا اور ایک عورت کے بدست روانہ کر دیا وحی کے ذریعہ رسول(ص) کو اس کی خبر ہو گئی آپ(ص) نے حضرت علی اور زبیر کو حکم دیا کہ اس عورت تک پہنچو اور اس سے خط واپس لو حضرت علی بن ابی طالب نے رسول(ص) پرراسخ ایمان کے سبب اس عورت سے خط واپس لے لیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۳۹۷، مغازی ج۲ ص ۷۹۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۹۸۔

۱۸۴

رسول(ص) نے وہ خط لیتے ہی مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا تاکہ ایک طرف ان کی ہمت بڑھا ئیں اور دوسری طرف انہیں خیانت سے ڈرائیں اور ان پر یہ بات ظاہر کر دیں کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو کچلنے کی کتنی اہمیت ہے ۔ مسلمان اس خط کے بھیجنے والے حاطب بن ابی بلتعہ کا دفاع کرنے لگے کیونکہ اس نے خدا کی قسم کھا کے یہ کہا تھا کہ خط بھیجنے سے اس کا مقصد خیانت نہیں تھا ، لیکن اس کی اس حرکت پر عمر بن خطاب کو بہت زیادہ غصہ آیا اور رسول(ص) سے عرض کی : اگر اجازت ہو تو میں اسے ابھی قتل کردوں رسول(ص) نے فرمایا:

''وما یدریک یا عمر لعل الله اطلع علیٰ اهل بدر و قال لهم اعملوا ما شئتم خلفه غفرت لکم'' ( ۱ )

اے عمر تمہیں کیا خبر؟ ہو سکتا ہے خدا نے بدر والوں پر نظر کی ہو اور ان سے یہ فرمایا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔

فوج اسلام کی مکہ کی طرف روانگی

دس رمضان المبارک کو فوج اسلام مکہ کی طرف روانہ ہوئی جب''کدید'' کے مقام پر پہنچی تو رسول(ص) نے پانی طلب کیا اور مسلمانوں کے سامنے آپ(ص) نے پانی پیا، مسلمانوں کو بھی آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا لیکن ان میں سے بعض لوگوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ توڑا، ان کی اس نافرمانی پر رسول(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا:''اولٰئک العصاة'' یہ نافرمان ہیں پھرانہیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔( ۲ ) جب رسول(ص) ظہران کے نزدیک پہنچے تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو صحراء میں منتشر ہونے اور ہر ایک کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا، اس طرح ڈرائونی رات روشن ہو گئی اور قریش کی ہر طاقت کو مسلمانوں کا عظیم لشکر نظر آیا جس کے سامنے قریش کی ساری طاقتیں سر نگوں ہو گئیں، اس کو دیکھ کر عباس بن عبد المطلب پریشان ہوئے

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۳۶۳، مغازی ج۲ ص ۷۹۸، لیکن محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سیرة المصطفیٰ ، ص ۵۹۲۔

۲۔ وسائل الشیعة ج۷ ص ۱۲۴، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۹۰، مغازی ج۲ ص ۸۰۲، صحیح مسلم ج۳ ص ۱۴۱ و ۱۴۲، کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فی شہر رمضان للمسافر فی غیر معصیة، دار الفکر، بیروت۔

۱۸۵

یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔

اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔

یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔

ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا

جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )

عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔

۱۸۶

اوپر، قبل اس کے کہ تجھے قتل کر دیا جائے یہ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول (ص) ہیں۔ پس ابو سفیان نے قتل کے خوف سے خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔

ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد مشرکین کے دوسرے سردار بھی اسی طرح اسلام لے آئے لیکن رسول(ص) نے اس غرض سے کہ قریش خونریزی کے بغیر اسلام قبول کر لیں، ان پر نفسیاتی دبائو ڈالا۔ عباس سے فرمایا: اے عباس ا سے کسی تنگ وادی میں لے جائو، جہاں سے یہ فوجوں کو دیکھے۔

رسول(ص) نے اطمینان کی فضا پیدا کرنے اور اسلام و رسول اعظم کی مہربانی و رحم دلی پر اعتماد قائم کرنے نیز ابو سفیان کی عزت نفس کو باقی رکھنے کی غرض سے فرمایا:

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کے لئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے ، جو مسجد میں داخل ہو جائیگا وہ امان میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے گا وہ امان میں ہے ۔

اس تنگ وادی کے سامنے سے خدائی فوجیں گذرنے لگیں جو دستہ گذرتا تھا عباس اس کا تعارف کراتے تھے کہ یہ فلاں کا دستہ ہے وہ فلاںکا دستہ ہے اس سے ابو سفیان پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے عباس سے کہا: اے ابو الفضل خدا کی قسم تمہارا بھتیجہ بہت بڑا بادشاہ بن گیا، عباس نے جواب دیا: یہ بادشاہت نہیں ہے یہ نبوت ہے ۔ ان کے جواب میںابوسفیان نے تردد کیا ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو ڈرانے اور رسول(ص) کی طرف سے ملنے والی امان کا اعلان کرنے کے لئے ابو سفیان مکہ چلا گیا۔( ۱ )

مکہ میں داخلہ

رسول(ص) نے اپنی فوج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے متعلق کچھ احکام صادر فرمائے اورہر دستہ کے لئے راستہ معین کر دیا نیزیہ تاکید فرمائی کہ جنگ سے پرہیز کریں ہاں اگر کوئی بر سر پیکار ہو جائے تو اس کاجواب

____________________

۱۔ مغازی از واقدی ج۲ ص ۸۱۶، سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۷۔

۱۸۷

دیا جائے، چند مشرکین کا خون ہر حال میں مباح قرار دیا، خواہ وہ کعبہ کے پردہ ہی سے لٹکے ہوئے ہوں کیونکہ وہ اسلام اور رسول(ص) کے سخت ترین دشمن تھے۔

جب مکہ کے درو دیوار پرآپ (ص) کی نظر پڑی تو آنکھوں میں اشک بھر آئے، اسلامی فوجیں چاروں طرف سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں فتح و نصرت نے اس کی شان دوبالا کر دی تھی اور رسول(ص) کو خدانے جو نعمت و عزت عطا کی تھی اس کے شکریہ کی خاطر رسول(ص) سر جھکائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے کیونکہ اعلائے کلمةاللہ کے لئے آپ (ص) کی بے پناہ جانفشانیوں کے بعد ام القریٰ نے آپ(ص) کی رسالت و حکومت کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔

اہلِ مکہ کے شدید اصرار کے باوجود نبی (ص) نے کسی کے گھر میں مہمان ہونا قبول نہیں کیا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ(ص) نے غسل کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ تکبیر کہی تو سارے مسلمانوں نے تکبیر کہی، دشت و جبل میں نعرۂ تکبیر کی آواز گونجنے لگی-جہاں اسلام اور اس کی فتح سے خوف زدہ ہو کر شرک کے سرغنہ جا چھپے تھے-خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ(ص) نے اس میں موجود ہر بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) کہو ،حق آیا باطل گیا باطل کو تو جانا ہی تھا اس سے ہر بت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: تم بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے دوش پر سوار ہو کر بتوںکو توڑ دوں لیکن حضرت علی اپنے دوش پر نبی (ص) کا بار نہ اٹھا سکے تو حضرت علی بن ابی طالب دوش رسول(ص) پر سوار ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ پھر رسول(ص) نے خانۂ کعبہ کی کلید طلب کی، دروازے کھولے، اندر داخل ہوئے اور اس میں موجود ہر قسم کی تصویر کو مٹا دیا۔ اس کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر فتحِ عظیم کے بارے میں ایک جمِّ غفیر کے سامنے خطبہ دیا ، فرمایا:

۱۸۸

''لا الٰه الا اللّٰه وحده لا شریک له، صدق وعده، و نصر عبده، و هزم الاحزاب وحده، الا کل ماثره اودم او مال یدعی فهو تحت قدمی هاتین الا سدانة البیت و سقایة الحاج...'' ۔

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اسی نے سارے لشکروں کو شکست دی، ہر وہ فضیلت یا خون یا مال کہ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے قدموں کے نیچے ہے ، سوائے خانۂ کعبہ کی کلید برداروی اور حاجیوں کو سیراب کرنے کی فضیلت...۔

پھر فرمایا:'' یا معاشر قریش ان اللّٰه قد اذهب عنکم نخوة الجاهلیة وتعظمها بالآباء النّاس من آدم و آدم من تراب...'' ( ۱ )

اے گروہ قریش! خدا نے تمہارے درمیان سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے تھے یا د رکھو سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

( یا ایها النّاس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ان اللّٰه علیم خبیر )

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک خدا کی نظر میں تم میں سے وہی محترم ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔( ۲ )

پھر فرمایا: اے گروہِ قریش تم کیا سوچتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟

انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا:''اذهبوا انتم طلقائ'' ( ۳ ) جائو تم آزاد ہو۔

____________________

۱۔ مسند احمدج۱ ص ۱۵۱، فرائد السمطین ج۱ ص ۴۹، کنز العمال ج۱۳ ص۱۷۱، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۸۶۔

۲۔حجرات:۱۳۔

۳۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۰۶، سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۱۲۔

۱۸۹

اس کے بعد بلال نے خانۂ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان ظہر دی سارے مسلمانوں نے اس فتح کے بعد مسجد الحرام میں رسول(ص) کی امامت میں نماز پڑھی ، مشرکین حیرت سے کھڑے منہ تک رہے تھے، سرتاپا خوف و استعجاب میں ڈوبے ہوئے تھے، اہل مکہ کے ساتھ رسول(ص) کا یہ سلوک دیکھ کر انصار کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں رسول(ص) دوبارہ مکہ آباد نہ کریں ، ان کے ذہنوںمیں اور بہت سے خیالات گردش کر رہے تھے، رسول(ص) بارگاہ معبود میں دست بدعا تھے، انصار کے دل کی کیفیت سے بھی آگاہ تھے، انہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:''معاذ اللّٰه المحیا محیاکم و الممات مماتکم'' ایسا نہیں ہوگا میری موت و حیات تمہاری موت و حیات کے ساتھ ہے ، اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہے گا۔

اس کے بعد مکہ والے رسول(ص) سے بیعت کے لئے بڑھے، پہلے مردوںنے بیعت کی ۔ بعض مسلمانوں نے ان لوگوں کی بھی رسول(ص) سے سفارش کی جن کا خون مباح کر دیا گیا تھا، رسول(ص) نے انہیںمعاف کر دیا۔

پھر عورتیں بیعت کے لئے آئیں -ان کی بیعت کے لئے آپ(ص) نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پانی سے لبریز ظرف میں پہلے آپ(ص) ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے پھر عورت اس میں ہاتھ ڈالتی تھی- ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کو خدا کا شریک نہیں قراردیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں پیروں کے ذریعہ گناہ نہیں کریںگی اور بہتان نہیں باندھیں گی اور امر بالمعروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔( ۱ )

رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کے حلیف خزاعہ نے مشرکین کے ایک آدمی پر زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا، آپ(ص) کھڑے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''یا ایّها النّاس ان الله حرم مکة یوم خلق السمٰوات و الارض فهی حرام الیٰ یوم القیامة لا یحل لامریٔ یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر ان یسفک دماً او یعضد فیها شجراً'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۱۳ ، سورۂ ممتحنہ :۱۲۔

۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث ۳۱۰۹، کنز العمال ح ۳۴۶۸۲، در منثور ج۱ ص ۱۲۲۔

۱۹۰

اے لوگو! بیشک خدا نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز مکہ کو حرم قراردیدیا تھا اور وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اور جو شخص خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس میں خونریزی کرے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔

پھر فرمایا:''من قال لکم ان رسول اللّه قد قاتل فیها فقولوا ان اللّه قد احلها لرسوله و لم یحللها لکم یا معاشرخزاعه''

اور اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ(ص) نے اس شہر میں جنگ کی ہے تو اس سے کہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے جنگ حلال کی تھی اور تمہارے لئے جنگ حلال نہیں کی ہے اے بنی خزاعہ!

رسول(ص) نے اہل مکہ اور اس کے باشندوںکے بارے میں جس محبت و مہربانی ،عفو و در گذر اور مکہ کی سر زمین کی تقدیس اور اس کی حرمت کے متعلق جو اقدام کئے تھے وہ قریش کو بہت پسند آئے، لہذا ان کے دل آپ(ص) کی طرف جھکے اورانہوں نے بطیب الخاطر اسلام قبول کرلیا۔

جب پورا علاقہ مسلمان ہو گیا تو رسول(ص) نے مکہ اور اس کے مضافات میں بعض دستے روانہ کئے تاکہ وہ باقی ماندہ بتوں کو توڑ ڈالیں اور مشرکین کے معبدوں کو منہدم کر دیں لیکن خالد بن ولید نے اپنے چچا کے قصاص میں بنی جذیمہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا حالانکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔( ۱ ) جب رسول (ص) کو اس سانحہ کی خبر ملی تو آپ(ص) بہت غضبناک ہوئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ ان مقتولوں کی دیت ادا کریں پھرآپ(ص) قبلہ رو کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کی:''اللّهم انّی ابرء الیک مما صنع خالد بن الولید'' اے اللہ جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے بری ہوں، اس سے بنی جذیمہ کے دلوںکو اطمینان ہو گیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۲۰، خصال ص ۵۶۲، امالی طوسی ص ۳۱۸۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۴۸۔

۱۹۱

۳۔ جنگ حنین او ر طائف کا محاصرہ( ۱ )

فاتح کی حیثیت سے رسول(ص) کو مکہ میں پندرہ روز گزر گئے شرک کی مدتِ دراز کے بعد توحید کا یہ عہدِ جدید تھا مسلمان مسرت میں جھوم رہے تھے، ام القریٰ میں امن و امان کی حکمرانی تھی اچانک رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ ہوازن و ثقیف دونوں قبیلوںنے اسلام سے جنگ کرنے کی تیاری کر لی ہے ان کا خیال ہے اس کام کو انجام دیدیں گے جسے شرک و نفاق کی ساری طاقتیں متحد ہو کر انجام نہ دے سکیں یعنی یہ دونوں قبیلے-معاذ اللہ- اسلام کو نابود کر دیں گے؟! رسول(ص) نے ان سے نمٹنے کا عزم کیا لیکن آپ(ص) نے اپنی عادت کے مطابق پہلے مکہ میں امور کی دیکھ بھال کا انتظام کیا نماز پڑھانے اور امور کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد کیا لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور انہیں احکام اسلام سکھانے کے لئے معاذ بن جبل کو معین کیا اس کے بعد بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، اتنی بڑی فوج مسلمانوں نے نہیں دیکھی تھی اس سے انہیں غرور ہو گیا یہاں تک ابو بکر کی زبان پر یہ جملہ آگیا : اگر بنی شیبان بھی ہم سے مقابلہ کریں گے تو آج ہم اپنی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہونگے۔( ۲ )

ہوازن و ثقیف میں اتحاد تھاوہ جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اہل و عیال کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور لشکر اسلام کو کچلنے کے لئے گھات میں بیٹھ گئے تھے۔لشکر اسلام کے مہراول دستے جب کمین گاہ کے اطراف میں پہنچے توانہوں نے انہیں فرار کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ دشمن کے اسلحہ سے ڈر کر باقی مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکے، بنی ہاشم میں سے صرف نو افراد رسول(ص) کے ساتھ باقی بچے تھے دسویں ایمن-ام ایمن کے بیٹے- تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر منافقین مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ ابو سفیان طعن و تشنیع کرتا ہوا نکلا اور کہنے لگا۔ یہ لوگ جب تک سمندر کے کنارے تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دم نہیں لیں گے ۔ کسی نے کہا: کیا آج سحر باطل نہیں ہو گیا؟ کسی نے اس پریشان حالی میں رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ جنگ حنین ماہ شوال ۸ھ میں ہوئی ۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۵۰، مغازی ج۲ ص ۸۸۹۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۴۳، مغازی ج۳ ص ۹۹۔

۱۹۲

رسول(ص) نے اپنے چچا عباس سے فرمایا کہ بلندی پر جاکر شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے انصار و مہاجرین کو اس طرح آواز دیں:'' یا اصحاب سورة البقره، یا اهل بیعة الشجرة الی این تفرون؟ هذا رسول اللّه!''

اے سورۂ بقرہ والو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ اللہ کے رسول(ص) ہیں ۔

اس سے وہ لوگ غفلت کے بعد ہوش میں آگئے، پراگندگی کے بعد میدان کار زار پھر گرم کیا، اسلام اور رسول(ص) کا دفاع کرنے کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کی طرف لوٹ آئے جب رسول(ص) نے ان کی جنگ دیکھی تو فرمایا:''الآن حمی الوطیس انا النبی لا کذب انا ابن المطلب'' ہاں اب جنگ اپنے شباب پر آئی ہے ، میں خدا کا نبی (ص) ہوں جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پس خدا نے مسلمانوں کے دلوں کو سکون بخشااور اپنی مدد سے ان کی تائید کی جس کے نتیجے میں کفر کے گروہ شکست کھا کر بھاگ گئے ، لشکر اسلام نے ان میں سے چھہ ہزار کو اسیر کیااور بہت سا مال غنیمت پایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے فرمایا: مال غنیمت کی حفاظت اور اسیروں کی نگہبانی کی جائے۔ دشمن فرار کرکے اوطاس، نخلہ اور طائف تک پہنچ گیا۔

یہ رسول(ص) کے اخلاق کی بلندی ، رحم دلی اور عفو ہی تھا کہ آپ(ص) نے ام سلیم سے فرمایا:''یا ام سلیم قد کفی اللّه، عافیة اللّه اوسع'' خدا کافی ہے اور اس کی عافیت بہت زیادہ وسیع ہے ۔

دوسری جگہ رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کو یہ خبر ملی کہ بعض مسلمان مشرکین کی ذریت کو تہ تیغ کر رہے ہیں فرمایا:''ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتی بلغ الذریة الا لا نقتل الذریة'' ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب وہ بچوں تک کو قتل کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بچوںکو قتل نہیں کرتے ہیں۔ اسید بن حضیر نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! کیایہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ فرمایا:

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں جو کہ خدا کی تائید و نصرت کی وضاحت کر رہی ہیں۔

۱۹۳

''اولیس خیارکم اولاد المشرکین ، کل نسمة تولد علیٰ الفطرة حتی یعرب عنها لسانها و ابواها یهودانها او ینصرانها'' ( ۱ ) کیا تمہارے بہترین افراد مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ ہر انسان فطرت-اسلام- پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے فوجی دستے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے طائف تک پہنچ گئے اور تقریبا پچیس دین تک ان کا محاصرہ کئے رہے ، وہ بھی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیر بارانی کرتے تھے اس کے بعد رسول(ص) بہت سی وجوہ کی بنا پر طائف سے لوٹ آئے۔

جب جعرانہ -جہاں اسیروں اور مال غنیمت کو جمع کیا گیا تھا-پہنچے تو قبیلۂ ہوازن کے بعض لوگوں نے خدمت رسول(ص) میں معافی کے لئے التماس کی، کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص)! ان اسیروں میں بعض آپ(ص) کی پھوپھیاں اور بعض خالائیں ہیں جنہوں نے آپ(ص) کو گود کھلایا ہے -ایک روایت کے مطابق رسول(ص) کو رضاعت کے لئے قبیلہ بنی سعد کے سپرد کیا گیا تھا جو کہ ہوازن کی شاخ تھی-اگر ہم حارث بن ابی شمر یا نعمان بن المنذر سے انتا اصرار کرتے تو ہمیں ان کے عفو و مہربانی کی امید ہوتی۔ آپ(ص) سے توان سے زیادہ امید ہے ۔ اس گفتگو کے بعد رسول(ص) نے ان سے یہ فرمایا: ایک چیز اختیار کریں ۔ یا مال واپس لے لیں یا قیدیوں کو چھڑا لیں۔ انہوں نے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا:''اما ما کان لی ولبن عبد المطلب فهو لکم '' جو میرا اور بنی عبد المطلب کا حصہ ہے وہ تمہارا ہے جب مسلمانوںنے رسول (ص) کا عفو و کرم دیکھا تو انہوںنے بھی اپنا اپنا حصہ رسول(ص) کے سپرد کر دیا۔( ۲ )

رسول(ص) نے اپنی حکمت بالغہ اور درایت سے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز جنگ کی آگ کو خاموش کرنے کی خاطر سب کو معاف کر دیا یہاں تک کہ اس جنگ کو بھڑکانے والا مالک بن حارث بھی اگر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آجائے تو اسے بخش دیا جائیگا۔ چنانچہ ارشاد ہے :

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۰۹۔

۲۔سید المرسلین ج۲ ص ۵۳، مغازی ج۳ ص ۹۴۹-۹۵۳۔

۱۹۴

''اخبروا مالکاً انّه ان اتانی مسلماً رددت علیه اهله و ماله واعطیته مائة من الابل و سرعان ما اسلم مالک'' ( ۱ )

مالک کو خبر کرو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیگا تو اس کے اہل و عیال اور مال و دولت اسے واپس مل جائیں گے اور مزیداسے سو اونٹ دئیے جائینگے۔ اس کے نتیجہ میں مالک نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

مال غنیمت کی تقسیم

مسلمان رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے ،انہوں نے اس سلسلہ میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپ(ص) کی ردا تک اچک لے گئے آپ(ص) نے فرمایا:

''ردوا علی ردائی فو اللّٰه لو کان لکم بعدد شجر تهامة نعماً لقسمته علیکم، ثم ما الفیتمونی بخیلاً ولا جباناً ولا کذاباً'' ۔

میری ردا واپس کر دو، خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی تمہارا مال ہوتا تو بھی میں اسے تقسیم کر دیتا پھر تم مجھ پر بخل، بزدلی اور جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔

اس کے بعد آپ(ص) اٹھے، اپنے اونٹ کے کوہان کے کچھ بال لئے اور اپنی انگلیوں میں لیکر بلند کیا اورفرمایا:

''ایها النّاس و اللّه مالی فی فیئکم ولا هذه الوبرة الا الخمس ، و الخمس مردود علیکم'' ۔

اے لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ اس اونٹ کے بال کے برابر بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور وہ پانچواں حصہ بھی تمہیں دے دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے یہ حکم دیا کہ جو چیز بھی غنیمت میں ہاتھ آئی ہے اسے واپس لوٹایا جائے تاکہ انصاف کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص ۹۵۴ و ص ۹۵۵۔

۱۹۵

رسول(ص) نے مولفة القلوب ، ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، سہیل بن عمرو،حویطب بن عبد العزی اور صفوان بن امیہ وغیرہ سے شروع کیا، یہ کفر و شرک کے وہ سرغنہ تھے جو آپ (ص) کے سخت ترین دشمن اور کل تک آپ(ص) سے جنگ کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا حق خمس بھی انہیں میں تقسیم کر دیا رسول(ص) کے اس عمل سے بعض مسلمانوں کے دل میں غصہ وحمیت بھڑک اٹھی کیونکہ وہ رسول(ص) کے مقاصد اور اسلام کی مصلحتوں سے واقف نہیں تھے ، یہ غصہ میں اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ ان میں سے ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میں آپ(ص) کو عادل نہیں پاتا ہوں۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا: ''ویحک اذا لم یکن العد ل عندی فعند من یکون'' وائے ہو تمہارے اوپر اگر میں عدل نہیں کرونگا تو کون عدل کرے گا؟ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں لیکن رسول(ص) نے انہیں اجازت نہیں دی فرمایا:''دعوه فانه سیکون له شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوا منه کما یخرج السهم من رمیته'' ۔( ۱ )

جانے دو عنقریب اس کے پیرو ہونگے جو دین کے بارے میں بہت بحث کیا کریں گے او ردین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔

انصار کا اعتراض

سعد بن عبادہ نے یہ مناسب سمجھا کہ رسول(ص) کو انصار کی یہ بات ''کہ رسول(ص) اپنی قوم سے مل گئے اور اپنے اصحاب کو بھول گئے'' بتا دی جائے جو ان کے درمیان گشت کر رہی ہے ۔ سعد نے انصار کو جمع کیا رسول(ص) کریم تشریف لائے تاکہ ان سے گفتگو کریں، پس آپ(ص) نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

''یا معشر الانصار ما مقالة بلغتنی عنکم وجِدَةً وجد تموها ف انفسکم؟ ! الم آتکم ضُلّالاً فهداکم اللّه و عالة فاغناکم اللّه و اعدائً فالّف اللّه بین قلوبکم؟ قالوا: بلیٰ اللّه و

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۶، مغازی ج۳ ص ۹۴۸۔

۱۹۶

رسوله أمّنُّ و افضل ، ثم قال: الا تجیبون یا معشر الانصار؟ قالواو ماذا نجیبک یا رسول اللّه؟ قال: اما و اللّه لو شئتم قلتم فصدقتم: اتیتنا مکذباً فصدقناک و مخذولاً فنصرناک و طریداً فآویناک و عائلاً فآسیناک وجدتم ف انفسکم یا معشر الانصار ان یذهب النّاس بالشاة و البعیر و ترجعوا برسول اللّه الیٰ رحالکم؟ و الذی نفس محمد بیده لولا الهجرة لکنت امر ئاً من الانصار ولو سلک النّاس شعباً و سلکت الانصار شعباً لسلکت شعب الانصار''

اے گروہ انصار! مجھ تک تمہاری وہ بات پہنچی ہے جو تم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو ۔ کیا تم پہلے گمراہ نہیں تھے ، خدا نے تمہیں-ہمارے ذریعہ-ہدایت دی، تم نادار و مفلس تھے خدا نے تمہیں ہماری بدولت مالا مال کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ انصار نے کہا: خدا و رسول(ص) کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ پھر فرمایا: اے گروہ انصار کیا تم مجھے جواب نہیں دوگے؟ انہوںنے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ(ص) کو کس طرح جواب دیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم اس طرح کہتے تو سچ ہوتا کہ لوگوں نے آپ(ص) کو جھٹلایا اور ہم نے اپ(ص) کی تصدیق کی ، لوگوں نے آپ(ص) کو چھوڑ دیا تو ہم نے آپ(ص) کی مدد کی لوگوںنے آپ(ص) کو وطن سے نکال دیا تو ہم نے آپ(ص) کو پناہ دی، آپ مفلس تھے ہم نے آپ(ص) کی مال سے مدد کی اے گروہِ انصار! تم اپنے دلوں میں دنیا کی جس چیز کی محبت محسوس کرتے ہو اس کے ذریعہ میں نے کچھ لوگوں کی تالیف قلب کی ہے تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے اے گروہ انصار کیاتمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اونٹ اور بکریوں کے ساتھ اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول(ص) کے ساتھ اپنے گھر جائو؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(ص) کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوتا اگر لوگ کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے اور انصار بھی کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے تو میں انصار کے قبیلہ کو اختیار کرتا۔

ان جملوںنے ان کے دلوں میں جذبات و شعور کو بیدار کر دیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کے بارے میں ان کا خیال صحیح نہیں تھا یہ سوچ کر وہ رونے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص) ہم اسی تقسیم پر راضی ہیں۔

۱۹۷

ماہِ ذی الحجہ میں رسول(ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جعرانہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، عمرہ بجالائے احرام کھولا، عتاب بن اسید اور ان کے ساتھ معاذ بن جبل کو مکہ میں اپنا نمائندہ مقرر کیا جو مہاجرین و انصارآپ کے ساتھ تھے ان کے ہمراہ آپ(ص)مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔( ۱ )

۴۔ جنگ تبوک( ۲ )

اسلامی حکومت ایک مستقل نظام کی صورت میں سامنے آئی اس کے سامنے بہت سے چیلنج تھے اس کی سرحدوں اور زمینوں کی حفاظت کرنا مسلمانوںکا فریضہ تھا تاکہ زمین کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

رسول(ص) نے مملکتِ اسلامیہ کے تمام مسلمانوںسے یہ فرمایا کہ روم سے جنگ کے لئے تیاری کرو، کیونکہ روم کے بارے میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب پر حملہ کرکے دین اسلام اور اس کی حکومت کونیست و نابود کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ اتفاق سے اس سال بارش نہیں ہوئی، جس کے نتیجہ میںپیداوار کم ہوئی اور شدید گرمی پڑ ی، اس صورت میں دشمن کی اس فوج سے مقابلہ کے لئے نکلنا بہت دشوار تھا جو تجربہ کار قوی اور کثیر تھی چنانچہ جن لوگوں میں روحانیت کم تھی اور جن کے نفس کمزور تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک بار پھر نفاق کھل کرسامنے آ گیا تاکہ ارادوںمیں ضعف آجائے اور اسلام کو چھوڑ دیا جائے۔

بعض تو اس لئے لشکر اسلام میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ دنیا کو بہت دوست رکھتے تھے، بعض شدید گرمی کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئے کچھ اپنے ضعف اور رسول(ص) کے کم وسائل کی وجہ سے آپ(ص) کے ساتھ نہیں گئے، حالانکہ راہ خدا میں جہاد کے لئے سچے مومنین نے اپنا مال بھی خرچ کیا تھا۔

رسول (ص) کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ منافقین ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور لوگوں کو جنگ میں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۸، مغازی ج۳ ص ۹۵۷۔

۲۔ جنگ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں ہوئی ۔

۱۹۸

شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔

خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔

نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت

جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔

فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )

____________________

۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔

۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔

۱۹۹

وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیںاپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو، اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''

انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔

رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' ' ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔

مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:''لو امرت به ما استشرتکم فیه'' اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا( ۱ ) پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

____________________

۱۔المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296