منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 141008 / ڈاؤنلوڈ: 6503
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

اس بات کا یقین کروگے؟ ہرگز نہیں بلکہ اس کا مذاق اڑاؤ گے پس کس طرح تم ایک تصویر کے بارے میں اس بات کے منکر ہوجاتے ہو اور کہتے ہو کہ یہ خود بخود وجود میں نہیں آسکتی ، لیکن جو انسان ناطق ہے اس کے بارے میں اس طرح کے اقوال کے منکر نہیں ہوتے۔

( حیوان کا جسم ایک حد معین پر رک جاتا ہے )

اے مفضل۔ اگر یہ فیصلہ کرلیا جائے کہ حیوان کے اندر کوئی تدبیر استعمال نہیں ہوئی تو وہ حیوانات جو ہمیشہ کھاتے پیتے ہیں ، کیونکر ان کے جسم ایک خاص و معین حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں اور رشد و نمو نہیں کرتے اور ہرگز اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتے؟ بے شک یہ حکیم کی تدبیر ہے کہ تمام حیوانات کے جسم چاہے وہ حیوانات چھوٹے ہوں یا بڑے ایک حد تک نشوونما کرتے ہیں اور اس کے بعد وہ اس حد سے تجاوز نہیں کرتے ، جبکہ وہ ساری زندگی کھاتے پیتے ہیں ، ایسا اس لئے ہے کہ اگر جانور ہمیشہ رشد ونمو کرتے تو ان کے جسم بہت زیاد بڑے ہوجاتے اور ان کا قیافہ ایک دوسرے سے مشتبہ ہوتا، اور ان میں سے کسی ایک کے لئے بھی حد معین کی شناخت نہ ہوتی ، آخر کیوں انسان کا جسم راہ چلتے حرکت کرتے اور دقیق کاموں کے وقت سنگین ہوجاتا ہے ؟ سوائے اس کے کہ انسان کو اپنی زندگی میں جن چیزوں کی ضرورت ہے، جیسے لباس، لحاف، کفن وغیرہ کو حاصل کرنے میں اسے سختی و مشقت کا سامنا کرنا پڑے ، اس لئے کہ اگر انسان کو سختی و مشقت کا سامنا کرنا نہ پڑتا تو پھر کون سی چیز اُسے فحش باتوں سے روک سکتی تھی اور کس طرح وہ خدا کے سامنے تواضع اور لوگوں کے ساتھ مہربانی سے پیش آتا، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جب انسان کو سختی و پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو وہ خضوع و خشوع کے ساتھ اپنے رب کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور اپنے مال کو صدقہ کرتا ہے اب مفضل۔ ذرا سوچو تو سہی اگر انسان کو مارنے کے باوجود درد محسوس نہ ہوتا تو پھر بادشاہ کس وسیلے سے مجرم کو اس کے کیے کی سزا دیتا، اور کس طرح طغیانگر افراد کو

۸۱

ذلیل کیا جاتا، اور کس طرح کوئی غلام اپنے آقا و مولا کے سامنے اپنے آپ کو ذلیل سمجھتا اور اپنی گردن کو اس کے سامنے جھکائے رکھتا، کیا ابن أبی العوجاء اور اس کے ساتھیوں کے لئے یہ حجت و دلیل کافی نہیں؟ کہ جو خداوند متعال کی تدبیر کا انکار کرتے ہیں ، اور اس گروہ مانویہ کے لئے جو درد و ألم کا انکار کرتے ہیں(وہ کہتے ہیں کہ انسان کو کسی بھی قسم کا درد و ألم نہیں ہوناچاہیے تھا )

اگر حیوان نر اور مادہ کی شکل میں پیدا نہ ہوتے تو کیا ان کی نسل منقطع نہ ہوجاتی، لہٰذا خداوند متعال نے حیوانات میں سے بعض کو نر اور بعض کو مادہ کی صورت میں پیدا کیا تاکہ حیوانات کی نسل کا سلسلہ باقی رہے اور منقطع ہونے نہ پائے اگر ان تمام کاموں میں تدبیر نہ ہوتی تو پھر کیونکر مرد و زن جب حد بلوغ پر پہنچتے ہیں تو ان کے زیر شکم بال اُگتے ہیں ، پھر مرد کے داڑھی اُگتی ہے جبکہ عورت کے نہیں اُگتی ، یہ اس لئے کہ خداوند متعال نے مرد کو عورت کے لئے سرپرست و نگہبان قرار دیا ہے۔ اور عورت کو مرد کے لئے عروس و تحفہ قرار دیا۔ پس مرد کو داڑھی عطا کی، جس میں مرد کے لئے جلالت و ہیبت و عزت ہے لیکن عورت کو داڑھی اس لئے عطا نہ کی تاکہ اس کے چہرے کی زیبائی اور خوبصورت باقی رہے اور اس میں اپنے شوہر کے لئے ایک لذت ہو، کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز تدبیر و حکمت کے مطابق ہے اور خطاء لغزش کا کوئی راستہ اُس میں دیکھائی نہیں دیتا، خداوند متعال اپنی تدبیر و حکمت کے تحت انسان کو وہی کچھ دیتا ہے جس کی اسے ضرورت ہے۔

مفضل کا بیان ہے کہ اس وقت وقت ِ زوال آپہنچا، میرے آقا ومولا نماز کے لئے کھڑے ہوگئے، آپ نے فرمایا تم کل صبح سویرے میرے پاس آجاؤ (انشاء اللہ) میں اپنے مولا کی خدمت سے ان تمام چیزوں پر خوشحال واپس پلٹا جو میں نے حاصل کیں اور آپ نے مجھے تعلیم کیں۔ میں خداوند متعال کا شکر گزار تھا اس پر جو کچھ اس نے مجھے عطا کیا اور یہ کہ اپنی نعمتیں مجھے بخشیں اور جو کچھ مجھے میرے آقا و مولا نے مجھے تعلیم دی اور اس رات میں ان تمام چیزوں پر جو مجھے عطا کی گئیں ، مسرور و خوشحال سویا۔

۸۲

( روز دوّم )

۸۳

۸۴

مفضل کا بیان ہے کہ میں دوسرے دن صبح سویرے امام ـ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا، اجازت لینے کے بعد آپ کی زیارت سے شرفیاب ہوا ، آپ نے مجھے بیٹھنے کے لئے کہا پھر امام ـ نے فرمایا: بیشک تمام تعریفیں اُس خدائے بزرگ کے لئے ہیں جو مدبر ہے جو ایک زمانے کے بعد دوسرے زمانے ایک طبقے کے بعد دوسرے طبقے اور ایک عالم کے بعد دوسرے عالم کا لانے والا ہے، تاکہ برے لوگوں کو اُن کے برے اعمال کے مطابق سزا دی جائے اور نیک اور اچھے افراد کو اُن کے نیک اور اچھے اعمال کے بدلے اجر وثواب عطا کیا جائے اور یہ سب باتیں اُس کے عدل کی بنیاد پر ہیں کہ جس کے أسماء پاک و پاکیزہ اور جس کی نعمتیں بے شمار ہیں جو ہرگز اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا مگر یہ کہ بندے خود اپنے نفسوں پر ظلم کرتے ہیں ، اس بات کی روشن دلیل اس کی آیتیں ہیں (کہ وہ فرماتا ہے )

( فَمن یَعْمَلْ مثقال ذرة خیراً یرا (٧) وَ مَن یَعْمَل مثقال ذرة شراً یره )(٨)

جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اسے دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر بدی کی تو اُسے دیکھ لے گا(1)

اور اس قسم کی دوسری آیتیں کہ جن میں ہر چیز کا بیان موجود ہے جو خالق حکیم و حمید کی طرف سے نازل شدہ ہیں جن میں کسی بھی قسم کے شک و شبہ کی گنجائش نہیں اور اسی بارے میں ہمارے سید و سردار حضرت محمد مصطفی (ص) ارشاد فرماتے ہیں کہ یہ سوائے تمہارے أعمال کی جزاء کے علاوہ کچھ بھی نہیں کہ جو روز قیامت تمہاری طرف پلٹائی جائے گی۔ مفضل کا بیان ہے کہ پھر کچھ دیر امام ـ نے اپنے سر کو جھکائے رکھا اور ارشاد فرمایا: اے مفضل ، لوگ نافرمانی اور سرکشی میں پڑے ہوئے ہیں، شیاطین اور طاغوت کی اتباع کرتے ہیں ، گویا یہ ایسے بینا ہیں جو اندھے ہیں اور نہیں دیکھتے اور ایسے کلام کرنے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورہ زلزال۔

۸۵

والے ہیں جو گونگے ہیں اور فکر نہیں رکھتے ، اور ایسے سننے والے ہیں جو بہر ے ہیں اور نہیں سنتے یہ لوگ دنیا کی پستی پر راضی ہوگئے ، اور گمان کرتے ہیں کہ وہ نیک اور ہوشیار ہیں اور اُن کاشمار ہدایت یافتہ لوگوں میں ہوتا ہے اس کے باوجود کہ وہ برے کاموں کی طرف اس طرح مائل اور غرق ہیں کہ جیسے وہ موت کے آنے سے أمن و امان میں ہیں اور ہر طرح کی جزاء و سزا سے بری ہیں ! صد افسوس ایسے لوگوں پر جن کے دل سخت ہوگئے ہیں اور وہ اس دن سے لاپروا ہیں کہ جس دن کی مصیبت طولانی اور شدید ہے ، جس دن کوئی دوست کسی دوست کے کام نہ آئے گا ، اور نہ کسی کی یاری و ہمدردی قبول کی جائے گی، سوائے اس کے کہ جس پر خدا اپنا رحم کرے۔

مفضل کا بیان ہے کہ امام ـ کے ان الفاظ نے مجھ پر گہرا اثر کیا اور میں گریہ کرنے لگا، امام ـ نے ارشاد فرمایا: اے مفضل گریہ نہ کرو اس لئے کہ تم ان تمام چیزوں سے بری ہو، کیوں کہ تم نے معرفت و شناخت کے ذریعے حقیقت کو قبول کیا اور نجات پائی ۔

( حیوانات کی خلقت )

پھر آپ نے فرمایا: اے مفضل ۔ اب میں تمہیں حیوانات کی خلقت کے بارے میں بتاتا ہوں تاکہ وہ تم پر اُسی طرح واضح ہوجائے جس طرح سے اس کے علاوہ دوسری تمام باتیں تم پر واضح اور روشن ہوچکی ہیں۔

( اے مفضل) فکر کرو حیوان کے بدن کی ساخت پر کہ کس طرح خلق کیا گیا ہے ، نہ زیادہ سخت مثل پتھر کے کہ اگر ایسا ہوتا تو حیوان کے لئے حرکت کرنا زحمت و مشقت کا باعث بنتا، اور وہ ہرگز اپنے کاموں کو بآسانی انجام نہیں دے سکتا تھا اور نہ ہی اتنا زیادہ نرم و نازک بنایا کہ وہ حمل اور باربرداری کے کام میں استعمال نہ کیا جاسکے پس خداوند متعال نے اس طرح کی تدبیر کی کہ اسے ظاہری طور پر نرم

۸۶

گوشت سے پیدا کیا اور اس کی کمر میں ایک ایسی مضبوط ہڈی کو رکھا جسے رگوں اور اعصاب نے گھیرا ہوا ہے جو ایک دوسرے کو مضبوطی سے گرفت میں لئے ہوئے ہیں اور اُس کے اُوپر ایک ایسی کھال کے لباس کو پہنایا جو تمام بدن کا احاطہ کئے ہوئے ہے، اس کی مثال لکڑی کی سی ہے جس پر کپڑا لپیٹ کر دھاگے سے مضبوطی سے باندھ دیا جائے اور اس کے اوپر گوند لگایا جائے تو لکڑیاں ، ہڈیوں کی مانند، کپڑا گوشت کی مانند، دھاگہ رگ و عصاب کی مانند اور گوند کھال کی مانند ہے ، اگر یہ بات ان حیوانات کے بارے میں کہی جائے کہ یہ محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں اور کسی صانع اور خالق نے انہیں پیدا نہیں کیا۔ تو پھر ضروری ہے کہ بالکل یہی بات اُن تصاویر اور مجسموں کے بارے میں کہی جائے جو بے جان ہیں لیکن جب یہ بات بے جان تصاویر و مجسموں کے بارے میں کہنا صحیح نہیں ، تو پھر حیوانات کے بارے میں تو بدرجہ اولیٰ صحیح نہیں ہے۔

( حیوان کو ذہن کیوں نہ عطا کیا گیا )

اے مفضل ۔ اب تم حیوانات کے جسم پر غور کرو انہیں انسان کے لئے پیدا کیا گیا ہے لہٰذا جس طرح ان کے بدن کو گوشت ، ہڈی ، اعصاب عطا کئے اسی طرح انہیں کان اور آنکھ بھی عطا کئے، تاکہ انسان انہیں اپنی ضرویات کے استعمال میں لاسکے، اس لئے کہ اگر حیوانات بہرے، اندھے ہوتے تو انسان ان سے ہرگز فائدہ نہیں اُٹھا سکتا تھا اور خود حیوانات بھی اپنے کاموں کو انجام نہیں دے سکتے تھے لیکن انہیں ذہن عطا نہیں کیا گیا، تاکہ وہ انسان کے سامنے جھکے رہیں اور جب انسان اُن سے باربرداری کا کام لے تو یہ اسے انجام دینے سے منع نہ کریں اب اگر کوئی یہ کہے کہ بعض غلام بھی تو ایسے ہیں کہ جو انسان کے سامنے ذلیل ہیں اور سخت ترین کاموں کو انجام دینے کے لئے تیار ہیں ، جبکہ وہ صاحب عقل ہیں؟ تو اس سوال کے جواب میں کہا جائے گا کہ اس قسم کے افراد بہت کم ہیں۔ اور اکثر افراد اس قسم

۸۷

کے سخت ترین کام مثلاً باربرداری، چکی چلانا وغیرہ کے انجام دینے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں اس کے علاوہ یہ کہ اگر اس قسم کے سخت کام بھی کہ جنہیں حیوانات انجام دیتے ہیں انسان کو انجام دینے پڑتے تو وہ دوسرے کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا، اس لئے کہ ایک اونٹ یا خچرکی جگہ پر کئی آدمیوں کو کام کرنا پڑتا اور یہ کام انسانوں کو اس قدر مشغول رکھتا کہ جس کی تھکن ، سختی ، تنگی اور مشقت کی وجہ سے انسان کے پاس اتنا وقت باقی نہ رہتا کہ وہ صنعت یا دوسرے کاموں کو انجام دے سکے۔

( تین قسم کے جاندار کی خلقت )

اے مفضل ، تین قسم کے جاندار اور اُس تدبیرپر کہ جن کے تحت انہیں پیدا کیا گیا ہے ، غوروفکر کرو جس میں ان تینوں کی بھلائی ہے۔

( 1 ) انسان : جس کے لئے ذہانت و ادراک کو مقدر کیا تاکہ مختلف کام مثلاً تعمیرات ، تجارت ، بڑھئی کاکام ، سنہار کا کام او اس قسم کے دوسرے کام انجام دے ، لہٰذا اس کے لئے ہتھیلی ، پنجہ اور محکم انگلیاں پیدا کیں ، تاکہ وہ چیزوں کو پکڑ سکے اور مختلف چیزیں ایجاد کرکے انہیں محکم بنائے۔

( 1 ) گوشت کھانے والے جانور: جن کی تقدیر میں یہ رکھا گیا ہے کہ یہ اپنی زندگی شکار کرکے بسر کریں تو ان کے لئے چھوٹی انگلیوں والے پنجے اور چنگال کی مانند ناخن عطا کئے گئے ، جو شکار کو پکڑنے کی مکمل صلاحیت رکھتے ہیں کہ جو صنعت کے لئے ہرگز مناسب نہیں۔

( 3 ) گھاس کھانے والے جانور: جو نہ صاحب صنعت ہیں اور نہ شکاری لہٰذا اُن میں سے بعض کو ایسے سُم عطا کئے جن میں شگاف ہے ، تاکہ اُن حیوانات کو چرتے وقت زمین کی سختی کا سامنا نہ کرنا پڑے اور بعض کے پاؤں انسان کے پاؤں سے شباہت رکھتے ہیں تاکہ یہ جانور زمین پر ٹھہر سکیں

۸۸

اور اُن سے باربرداری کی جاسکے ۔ اے مفضل ، فکر کرواس تدبیر پر کہ جو گوشت کھانے والے جانوروں کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے ، تیز دانت ، چھوٹی مگر محکم انگلیاں اور وسیع و بزرگ منہ انہیں عطا کیا گیا ، یہ اس لئے کہ ان کی غذا گوشت ہے لہذا انہیں اس طرح کے اعضاء و جوارح عطا کیے کہ جو شکار کرنے میں ان کے مددگار ہوں۔ جیسا کہ بالکل یہی بات تم اُن پرندوں میں دیکھتے ہو جو درندہ صفت ہیں، کہ ان کے لئے بھی خصوصی چنگال خلق کیاگیا ہے تاکہ شکار کو پکڑنے اور پھاڑنے کے کام آئے ، اگر گھاس کھانے والے جانوروں کو جو نہ شکار کرتے ہیں اور نہ ہی گوشت کھاتے ہیں ، شکاری پرندوں کی طرح چنگال عطا کیا جاتا تو ان کے پاس یہ ایک زائد اور فضول چیز ہوتی کہ جس کی انہیں بالکل ضرورت نہیں ، بالکل اس طرح یہ بات بھی حکمت سے خالی ہوتی کہ اگر اُن حیوانات کو کہ جو درندہ صفت ہیں وہ چیزیں عطا نہ کی جاتی کہ جن کے وہ محتاج ہیں یعنی وہ چیزیں جن کے ذریعے وہ شکار کرکے اپنی زندگی بسر کرتے ہیں ، کیا تم نہیں دیکھتے کہ ان جانوورں کے لئے تمام اُن چیزوں کو فراہم کیا گیا ہے جو ان کے لئے مناسب اور ضروری تھیں یا یوں کہا جائے کہ جن کے اندر ان کی بقاء اور بھلائی تھی۔

( چوپائے )

اب ذرا چوپاؤں پر غور کرو کہ کس طرح اپنے والدین کی اتباع کرتے ہیں اور مستقل راہ چلتے ہیں اور حرکت کرنے میں مشغول رہتے ہیں اور ہرگز اپنی زندگی میں والدین کے حمل و نقل اور ان کی تربیت کے محتاج نہیں ہوتے جس طرح سے انسان اپنی زندگی میں والدین کی تربیت کا محتاج ہوتا ہے ایسا اس لئے ہے کہ چوپاؤں کی ماں کہ پاس وہ سب کچھ نہیں ہوتا کہ جو انسان کی ماں کے پاس موجود ہے، مثلاً علم تربیت، ہاتھوں اور انگلیوں کی قوت اور کیوں کہ یہ تمام چیزیں حیوان کے پاس موجود نہیں لہٰذا اُن کے بچوں کو ایسی قوت عطا کی کہ وہ خود مستقل طور پر کھڑے ہوتے ہیں اور بغیر ماں کی مدد کے راہ چلتے

۸۹

ہیں اور بالکل اسی چیز کا مشاہدہ تم بہت سے پرندوں میں بھی کروگے ، مثلاً خانگی مرغی، تیتر اور قیچ(1) وغیرہ کے بچے انڈے سے باہر آتے ہیں اور راہ چلنے لگتے ہیں اور دانہ چگتے ہیں لیکن وہ پرندے کہ جو ان سے زیادہ ضعیف اور لاغر ہیں کہ جن میں نہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہونے کی صلاحیت ہے اور نہ پرواز کی مثلاً پالتو کبوتر، جنگلی کبوتر اور حمّر(2) کے بچے، کہ ان کی ماں کے دل میں ان کی اتنی زیادہ محبت رکھی کہ تم اس بات کا مشاہدہ کرو گے کہ وہ خود اپنے بچوں کے منہ میں غذا دیتی ہے اور غذا دینے کا یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اِ ن کے بچے خود غذا کو چگنے کی صلاحیت پیدا کرلیں اور وہ خود مستقل ہوجائیں کبوتر کو خانگی مرغی کی طرح بچے بھی زیادہ عطا نہ کئے تاکہ وہ اپنے تمام بچوں کی پرورش اچھی طرح کرسکے، اور وہ فاسد ہو کر ہلاک ہونے سے محفوظ رہیں یہ خداوند حکیم و خبیر کی عظیم تدبیر ہے کہ اُس نے ہر ایک کو وہی تمام چیزیں عطا کیں جو اس کے لئے شائستہ اور مناسب ہیں۔

( چوپاؤں کی حرکت )

اے مفضل۔ ذرا حیوانات کے پاؤں کی طرف دیکھو کہ جب وہ راہ چلتے ہیں تو دونوں پاؤں دو دو کرکے آگے بڑھاتے ہیں کہ اگر ایک ایک کرکے آگے بڑھاتے تو راہ چلنا ان کے لئے دشواری کا باعث بنتا اس لئے کہ حیوانات راہ چلتے وقت بعض کو حرکت اور بعض پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں اور جن حیوانات کے دو پاؤں ہیں وہ ایک پاؤں کو حرکت اور دوسرے پاؤں پر تکیہ کرتے ہیں ، چوپائے جن دو پاؤں کو حرکت دیتے ہیں وہ اُن دو پاؤں سے مختلف ہیں کہ جن پر وہ تکیہ کرتے ہیں اس لئے کہ اگر وہ اگلے دو پاؤں کو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ چکور کی طرح مرغی کی ایک قسم۔

(2)۔ سرخی مائل پرندہ۔

۹۰

حرکت دیتے اور پچھلے دو پاؤں پر تکیہ کرتے یا اس کے خلاف ہوتا تو جانور کسی بھی صورت میں زمین پر نہیں ٹھہرسکتا تھا، جس طرح سے تخت کہ اگر اس کے ایک طرف کے دونوں پائے نکال لیے جائیں تو تخت فوراً زمین پر گر جائے ا سی وجہ سے حیوانات راہ چلتے وقت دائیں ہاتھ اور بائیں پیر، بائیں ہاتھ اور دائیں پیر کو ایک ساتھ حرکت دیتے ہیں جس کی وجہ سے وہ زمین پر ٹھہرے رہتے ہیںاور نہیں گرتے۔

( حیوانات کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہیں )

اے مفضل۔ کیا تم نہیں دیکھتے کہ گدھا چکی کو چلاتے وقت اپنی کس قدر قوت اُس میں لگاکر وزن کھینچتا ہے۔ گھوڑا ، کس طرح اپنے سر کو انسان کے سامنے جھکائے ہوئے ہے۔ اونٹ ، اگر فرار کرنے پر آجائے تو کئی مرد اس کی طاقت کا مقابلہ نہیں کرسکتے لیکن کس طرح ایک بچہ کی مانند مطیع و فرمانبردار دکھائی دیتا ہے، اور بالکل اسی طرح بیل کہ جو بے انتہاء قوی اور طاقت ور ہے ، مگر کس طرح اپنے مالک کے سامنے سرتسلیم خم کئے ہوئے فرمانبردار بنا ہوا ہے کہ کھیتی باڑی کے سخت تختے کو اپنی گردن پر بار کئے ہوئے زراعت کا کام انجام دیتا ہے ، گھوڑا کس طرح تیروں اور تلواروں کے درمیان ٹھہرا رہتا ہے اور وہ اپنے مالک کی اس بات پر راضی ہے کہ وہ اسے اس کام میں استعمال کرے اور بھیڑوں کا ریوڑ کہ جسے ایک آدمی چراتا ہے کہ اگر یہ ریوڑ منتشر ہوجائے اور ان میں سے ہر ایک الگ سمت فرار کرے تو چرواہا انہیں کبھی جمع نہیں کرسکتا،ا ور اس قسم کے دوسرے تمام حیوانات جنہیں انسان کا مطیع بنایا گیا ہے۔

اے مفضل کیا تمہیں معلوم ہے کہ آخر وہ انسان کے سامنے کیوں کر اپنا سر جھکائے ہوئے ہیں؟

اس لئے کہ وہ عقل و فکر نہیں رکھتے کہ اگر وہ عقل و فکر رکھتے تو بہت سے کاموں کو انجام نہ دیتے اونٹ اپنے مالک ، بیل اپنے مالک اور گوسفند اپنے ریوڑ سے فرار کرجاتا اور اس کے علاوہ یہ کہ یہ تمام جانور انسان کے خلاف ایک ہوجاتے، اور انسان کو ہلاک کردیتے کہ جب شیر، بھیڑیا، چیتا اور ریچھ سب

۹۱

ایک ہوجاتے تو کون ان کے مقابلہ میں ٹھہرتا، اب ذرا غور کرو کہ خدواند متعال نے کس طرح انہیں یہ سب کرنے سے روکا ہوا ہے بجائے اس کے کہ انسان ان سے ڈرتے وہ انسان سے ڈرتے ہیں اور ا س سے دور بھاگتے ہیں اور فقط اپنی غذا کی تلاش میں رات کے وقت باہر نکلتے ہیں ۔

ہاں، وہ اس قدر قوی اور طاقتور ہونے کے باوجود بھی انسان سے ڈرتے ہیں اور انسان کی طرف رُخ نہیں کرتے ورنہ یہ انسان کو تنگ کرکے رکھ دیتے۔

( کتّے میں صفت ِ مہر و محبّت )

اے مفضل۔تمام حیوانات میں سے کتے کو اپنے مالک کے لئے ایک خاص مہر و محبت عطا کی ہے تاکہ وہ اپنے مالک کی حفاظت کرے، اور یہ کتا گھر میں بھی آمدو رفت رکھتا ہے اور یہ خاص طور پر رات کی تاریکی میں اپنے مالک کو خوف وہراس سے بچاتا ہے اور اس کی محبت اس حد تک پہنچ جاتی ہے کہ وہ اپنے مالک کے قدموں پر اپنی جان قربان کردیتا ہے، اور نہ فقط مالک سے بلکہ مالک کے مال سے بھی اُلفت رکھتا ہے اور اس کی الفت کی انتہاء تو یہ ہے کہ اگر اسے بھوکا رکھا جائے اور اس پر شدید ظلم کیا جائے تو بھی صبر کا مظاہرہ کرتا ہے، کتے میں اس صفت اُلفت و محبت کو اس لئے پیدا کیا گیا ہے تاکہ وہ انسان کے لئے حفاظت کا کام انجام دے، اسی لئے کتے کے بدن کو اس قسم کے آلات مثلاً تیزدانت، درندہ جیسے چنگال اور خوفناک آواز عطا کی تاکہ چور اُس جگہ جانے سے اجتناب کرے اور خوف محسوس کرے کہ جہاں کتا پہرہ دے رہا ہو۔

۹۲

( حیوانات کی شکل و صورت )

اے مفضل ، اب ذرا حیوانات کی شکل و صورت پر غور کرو آنکھیں سامنے چہرے پر قرار دی گئی ہیں تاکہ تمام چیزوں کو آسانی سے دیکھ سکیں اور سامنے کی کسی چیز سے نہ ٹکرائیں یا یہ کہ گڑھے میں گرنے سے محفوظ رہیں اور ان کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا کہ اگر ان کا منھ بھی انسان کے منھ کی طرح سامنے کی طرف کھلتا تو وہ ہرگز زمین سے کسی بھی چیز کو نہیں اُٹھا سکتے تھے، مگر کیا تم نہیں دیکھتے کہ انسان اپنے منھ سے چیزوں کو اُٹھا کر نہیں کھا سکتا بلکہ غذا کھانے میں اپنے ہاتھوں سے مدد لیتا ہے ، اور یہ وہ فضیلت و برتری ہے جو انسان تمام کھانے والوں پر رکھتا ہے ، اور کیوں کہ حیوانات کے ہاتھ نہیں کہ وہ غذا کو زمین سے اُٹھا کر کھا سکیں لہٰذا اُن کے منھ کو نیچے کی طرف کھلنے والا بنایا تاکہ گھاس کو زمین سے اُٹھا سکیں اور اُن کے ہونٹوں میں ایسی قوت کو رکھا کہ جس کی مدد سے وہ نزدیک اور دور پڑی ہوئی چیزوں کو بآسانی اپنی طرف کھینچ سکتے ہیں۔

( جانوروں کو دُم کی ضرورت )

اے مفضل۔ جانوروں کی دُم اور اس کے فائدہ سے عبرت حاصل کرو، یہ دُم حیوان کی شرمگاہ پر پردے کی مانند ہے کہ جو اسے چھپائے ہوئے ہے اور دُم کے فوائد میں سے ایک فائدہ یہ ہے کہ حیوان کے شکم اور شرمگاہ کا درمیانی حصہ آلودہ ہوتا ہے جس پر مکھی اور مچھر جمع ہوتے ہیں اور یہ دُم انہیں اس جگہ سے دور کرنے کے عمل کو انجام دیتی ہے اور پھر حیوانات دُم کو حرکت دینے سے راحت و سکون محسوس کرتے ہیں اس لئے کہ جانور چاروں ہاتھوں پیروں پر کھڑے ہوتے ہیں، اگلے دو ہاتھ بدن کا

۹۳

وزن اُٹھاتے ہیں جن میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوتی لہٰذا حیوانات دُم کو دائیں اور بائیں حرکت دے کر راحت و سکون حاصل کرتے ہیں۔ دُم میں حیوانات کے لئے اور بھی بہت سے فائدہ ہیں جن کے ادراک سے عقل قاصر ہے کہ جو ضرورت پڑنے پر ظاہر ہوتے ہیں مثلاً اُس وقت کہ جب حیوان دلدل وغیرہ میں پھنس جائے تو دُم سے بہتر دوسری کوئی چیز نہیں جس سے پکڑ کر اُسے کھینچ لیا جائے اور دُم کے بالوں میں بھی انسان کے لئے بہت سے فائدہ ہیں جس سے انسان اپنی ضرورت پوری کرتا ہے، خداوند متعال نے اس کی کمر کو ہموار وقرار دیا اور پھر اسے ہاتھ اور پاؤں پر کھڑا کیا تاکہ سواری اورباربرداری کے کام آسکے اور ا س کی شرمگاہ کو پشت سے نمایاں رکھا تاکہ اس کے نر کو مقاربت کرتے وقت پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے کہ اگر اس کی شرمگاہ بھی زیر شکم عورت کی طرح ہوتی تو اس کا نر اس سے ہرگز مقاربت نہیں کرسکتا تھا، کیا تم نہیں دیکھتے کہ حیوان اپنی مادہ کے ساتھ روبرو ہو کر مقاربت نہیں کرسکتے جس طرح انسان اپنی زوجہ کے ساتھ کرتا ہے۔

( ہاتھی کی سونڈ کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ غور وفکر کرو ہاتھی کی سونڈ اور اس میں استعمال شدہ لطیف تدبیر پر کہ وہ غذا کو اُٹھا کر منھ میں لے جانے کے لئے ہاتھ کی مانند ہے کہ اگر یہ نہ ہوتی تو ہاتھی کسی بھی چیز کو زمین سے اُٹھا کر نہیں کھا سکتا تھا، اس لئے کہ ہاتھی دوسرے حیوانات کی طرح گردن نہیں رکھتا کہ جسے زمین کی طرف بڑھائے پس گردن نہ ہونے کی وجہ سے اُسے لمبی سونڈ عطا کی گئی تاکہ اُس کی مدد سے وہ اپنی ضروریات کو پورا کرسکے، پس کون ہے وہ ذات جس نے اُس عضو کے عوض کہ جو موجود نہیں دوسرا عضو عطا کیا جو اُس کی کمی کو پورا کرتاہے؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جو اپنی مخلوق پر رؤف و مہربان ہے پھر کس طرح سے اس عمل کو اتفاق کا نتیجہ کہا جائے جس طرح سے ستمگران کہتے ہیں۔

۹۴

اگر کوئی یہ سوال کرے کہ ہاتھی کو دوسرے چوپاؤں کی طرح گردن کیوں نہ عطا کی گئی؟ تو اس کے جواب میں کہا جائے گا کہ ہاتھی کا سر اور کان بہت وزنی ہیں کہ اگر یہ گردن کے اوپر ہوتے تو گردن کو توڑ ڈالتے اور ناکارہ بنادیتے، لہٰذا خداوند متعال نے ہاتھی کے سر کو دھڑ سے جوڑدیا، تاکہ ہاتھی کو سر اور کان کی سنگینی کا سامنا کرنا نہ پڑے اور سونڈ کو گردن کی جگہ قرار دیا تاکہ وہ غذا کو کھا سکے گویا حیوان کو گردن نہ ہونے کی صورت میں اسے ایک ایسی چیز عطا کی جو اس کی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔

اب ذرا دیکھو کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم قرار دیا کہ جب یہ مقاربت چاہتی ہے تو اس کی شرمگاہ اُبھر کر آشکار ہوجاتی ہے تاکہ اس کا نر اس کے ساتھ مقاربت کرسکے۔ عبرت حاصل کرو اس سے کہ کس طرح ہاتھی کی مادہ کی شرمگاہ کو زیر شکم دوسرے چوپاؤں کے برخلاف قرار دیا پھر اس میں اس خصلت کو رکھا کہ وہ اس عمل کے لئے تیار رہے کہ جس میں اُس کی نسل کی بقاء ہے۔

( زرافہ،خداوند عالم کی قدرت کا عظیم شاہکار )

اے مفضل۔ زرافہ کی خلقت ، اس کے مختلف اعضاء اور اس کے اعضاء کی دوسرے حیوانات کے اعضاء سے شباہت پر غور کرو کہ اس کا جسم گھوڑے کی مانند، اس کی گردن اونٹ کی مانند،اس کے پاؤں گائے کی طرح اور اس کی کھال چیتے کی سی ہے۔ خداوند حکیم سے غافل بعض افراد یہ کہتے ہیں کہ اس قسم کے حیوانات مختلف نر و مادہ کے ملاپ کی وجہ سے وجود میں آتے ہیں اور ایسا اُس وقت ہوتا ہے کہ جب جانور پانی پینے کے لئے دریاؤں اور ندیوں کا رُخ کرتے ہیں اور وہاں یہ جانور مستی میں آجاتے ہیں اور مقاربت کرتے ہیں جس کے نتیجے میں اس قسم کے جانور وجود میں آتے ہیں دراصل ان کا مطلب یہ ہے کہ زرافہ اور اس قسم کے دوسرے جانور درحقیقت کئی جانوروں کی مقاربت کا نتیجہ ہیں، اس قسم کی گفتگو کرنا ا نکی غفلت اور نادانی کا ثبوت ہے جبکہ اس قسم کے حیوانات ایک دوسرے سے ہرگز مقاربت

۹۵

نہیں کرتے ، نہ گھوڑا اونٹ سے، اور نہ اونٹ گائے سے مقاربت کرتا ہے، سوائے ان چند حیوانات کے جو ایک دوسرے کی شبیہ ہیں جو آپس میں ایک دوسر سے مقاربت کرتے ہیں ، جیسے گھوڑا ، گدھے کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں خچر وجود میں آتا ہے، اور بھیڑیا بجو کے ساتھ مقاربت کرتا ہے کہ جس کے نتیجے میں سمع(1) وجود میں آتا ہے تو پس ان حیوانات کے ملاپ سے جو بھی جانور وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ تو ہوتے ہیں مگر اس طرح نہیں کہ ایک عضو ایک جانور کی شبیہ اور دوسرا عضو دوسرے جانور کی شبیہ ہو کہ جیسا کہ زرافہ میں مشاہدہ کیا جاتا ہے کہ ایک عضو گھوڑے کی طرح ، دوسرا عضو اونٹ کی طرح اور تیسرا عضو گائے کی طرح، بلکہ وہ جانور جو دو مختلف ملاپ سے وجود میں آتے ہیں وہ ان دونوں کی شبیہ ہوتے ہیں بالکل اُسی طرح جس طرح سے تم خچر میں اس چیز کا

مشاہدہ کرتے ہو کہ اس ،سر، کان، اور پیر گدھے اور گھوڑے کے متوسط ہیں اور اس کی آواز گدھے اور گھوڑے کی آواز سے مل کر بنی ہے، پس زرافہ میں اس قسم کی چیز کانہ ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ وہ کئی جانوروں کے ملاپ سے وجود میںنہیں آیا جس طرح سے جاہل و غافل افراد گمان کرتے ہیں ۔

( بندر انسان کی شبیہ )

اے مفضل۔ فکر کروبندر کی خلقت اور اُس کی شباہت پر جو وہ انسان سے بہت سے اعضاء میں رکھتا ہے، ان اعضاء سے مراد سر وصورت ، کندھا اور سینہ ہے اور بندر کے جسم کا اندرونی حصہ بھی انسان کے جسم کے اندرونی حصے سے شباہت رکھتا ہے اور بندر ایک مخصوص شباہت جو انسان سے رکھتا ہے وہ اس کا ادراک اور ذہن ہے جس کے ذریعے وہ اپنے مالک کے اشارے کو سمجھتا ہے اور وہ انسان کے بہت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بجو کی طرح کا ایک جانور

۹۶

سے کاموں کی حکایت کرتا ہے مختصر یہ کہ بندر کی خلقت انسان کی خلقت سے شباہت رکھتی ہے اس قسم کی حکمت و تدبیر اس جانور میں اس لئے رکھی ہے تاکہ انسان اس سے عبرت حاصل کرے اور اس بات کو جان لے کہ اس کی طینت بھی حیوانات میں سے ہے اور ان کی خلقت بھی حیوانات کی خلقت سے مشابہ ہے ، اگر وہ شرف و فضیلت جو خداوند عالم نے اپنے فضل وکرم سے عقل و ذہن وفکر و نطق کے ذریعہ انسان کو عطا نہ کیا ہوتا تو انسان جانوروں کی شبیہ ہوجاتا یقینا بندر کے جسم میں کچھ چیزیں ایسی پائی جاتی ہیں کہ جو اسے انسان سے جدا کرتی ہیں مثلاً نیچے کی طرف کھلنے والا منھ، لمبی دُم اور وہ بال جو بندر کے تمام جسم کو ڈھانپے ہوئے ہیں اگر بندر کا ذہن ،انسان کے ذہن کی مانند ، اس کی عقل ،انسان کی عقل کی طرح ، اس کی قوت نطق ، انسان کی قوت نطق کی طرح ہوتی تو کچھ زیادہ چیزیں اُسے انسان سے جد ا کرنے میں رکاوٹ نہ بنتیں ، پس انسان اور بندر کے درمیان درحقیقت اگر کوئی فرق ہے تو وہ بندر کے ناقص العقل اور قوت نطق کے نہ ہونے میں ہے۔

( حیوان کا لباس اور جوتے )

اے مفضل۔ ذرا غور کرو خداوند متعال کے لطف و کرم پر کہ کس طرح اُس نے حیوانات کو بالوں پشم اور کُرک کا لباس زیب تن کیا ،تاکہ یہ لباس انہیں سردی اور دوسری آفتوں سے محفوظ رکھے، اور انہیں سموں کی مدد سے پاؤں کی برہنگی سے محفوظ کیا کیوں کہ وہ ہتھیلی اور انگلیاں نہیں رکھتے کہ جس کے ذریعے جوتے کی سلائی کرسکیں، لہٰذا اُن کی خلقت ہی میں انہیں ایسا جوتا پہنایا کہ جب تک وہ زندہ ہیں وہ جوتا بھی باقی ہے اور اس کے بدلے وہ نیا جوتا پہننے کی ضرورت نہیں رکھتے، لیکن انسان کیوں کہ اہل فن ہے اس کی ہتھیلی اور انگلیاں اس قسم کے کاموں کو انجام دے سکتی ہیں وہ اپنا لباس سیتا ہے انہیں مختلف حالات کے تحت بدلتا رہتا ہے اور اس میں اس کے لئے کئی فائدے بھی ہیں من جملہ یہ کہ وہ

۹۷

لباس بنانے کی مصروفیت کی وجہ سے عبس اور بیہودہ کاموں سے بچا رہتا ہے اور اس کا اس کام میں مصروف رہنا اسے شرارت اور سرکشی سے بچاتا ہے اور لباس کے اتارنے اور پہننے میں اس کے لئے راحت و سکون ہے۔ اور پھر انسان اپنے لئے کئی قسم کے لباس تیار کرکے اپنے لئے زینت و خوبصورتی فراہم کرتا ہے، مختصر یہ کہ انہی کاموں میں اس کے لئے لذت و آرام ہے اور پھر جوتے کی صنعت میں اس کے لئے ذریعہ معاش کا بندوبست بھی ہے کہ وہ کام کرکے اپنے اہل و عیال کی پرورش کرے ، خلاصہ یہ کہ بال، پشم ، کُرک حیوانات کے لئے لباس اور سُم جوتے کی جگہ ہیں۔

( حشرات الارض اور درندوں کا مرتے وقت حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ چوپاؤں کی عجیب و غریب خلقت پر غوروفکر کرو کہ کس طرح مرتے وقت اپنے آپ کو پوشیدہ کرتے ہیں جس طرح سے انسان اپنے مردوں کو دفن کرتا ہے پس اگر ایسا نہیں ہے تو پھر کہاں ہیں اُن وحشی درندوں کے لاشے کہ جو دکھائی نہیں دیتے اور وہ اس قدر کم تعداد میں بھی نہیں کہ جس کی وجہ سے وہ دکھائی نہ دیتے ہوں اور اگر کسی نے کہا کہ وہ تعداد میں انسانوں سے زیادہ ہیں تو اُس نے جھوٹ نہیں کہا، وہ سب جو تم بیابان اور پہاڑوں پر دیکھتے ہو ذرا شمار کرو اور اُن سے عبرت حاصل کرو جیسے ہرنوں کا گروہ، پہاڑی اور جنگلی گائیں، بارہ سنگھا، پہاڑی بکریاں اور اس قسم کے دوسرے وحشی درندے جیسے شیر، چیتا، بھیڑیا، وغیرہ اور مختلف اقسام کے حشرات الارض اور کیڑے مکوڑے اور اسی طرح مختلف قسم کے پرندے جیسے کوا، کبوتر، بطخ، سارس اور دوسرے ایسے پرندے کہ جو درندہ صفت ہیں (جیسے عقاب وغیرہ) کہ جب وہ مرتے ہیں تو دکھائی نہیں دیتے مگر ایک یا دو کہ جنہیں شکاری شکار کرلیتا ہے، یا کوئی درندہ انہیں پھاڑ دیتا ہے، ہاں جب یہ حیوانات اپنے اندر موت کے اثرات کو محسوس کرتے ہیں تو وہ اپنے آپ کو ایک پناہ گاہ کی طرف کھینچتے ہیں اور مخفی ہوجاتے ہیں اور وہیں مرجاتے

۹۸

ہیں ، اگر ایسا نہ ہوتا تو بیابان حیوانات کے لاشوں سے پُر ہوجاتے اور ان کی بدبو سے ہوا فاسد ہوجاتی اور مختلف بیماریاں وجود میں آتیں، ذرا غور کرو اس امر پر کہ جس کی رسائی انسان تک ہابیل و قابیل کے قصے سے ہوئی کہ خداوند متعال نے کوے کو اس بات پر مأمور کیا کہ وہ قابیل کو بتائے کہ وہ اپنے قتل کئے ہوئے بھائی کی لاش کو زمین میں دفن کرے اور اولاد آدم اس طرح عمل انجام دے، پس کس طرح حیوانات کی طبیعت میں اس غریزہ کو رکھا گیا تاکہ انسان ان کے ناگزیر اثرات سے محفوظ رہے۔

( گوزن(1) کا پیاسے ہونے پر حیرت انگیز عمل )

اے مفضل۔ بعض حیوانات کی ہوشیاری اور ان کی چالاکی پر غور کرو جو خداوند متعال نے اپنے لطف و کرم سے انہیں عطا کی تاکہ اس کی کوئی مخلوق بھی اس کی نعمتوں سے محروم نہ رہ جائے جانوروں کی یہ چالاکی اور ہوشیاری خود ان کی عقل اور تأمل سے نہیں بلکہ تمام چیزیں اس مصلحت کی وجہ سے ہیں کی جو ان کی خلقت میں استعمال ہوئی ہے۔

اب ذرا دیکھوکہ یہ گوزن جو سانپ کو کھاتا ہے اور کھانے کے بعد شدید پیاسا ہوجاتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے اس لئے کہ وہ ڈرتا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ زہر اس کے سارے بدن میں سرایت کرجائے، اور اُسے ہلاک کردے پس وہ پیاس کی شدت سے پانی کے گڑھے کے کنارے کھڑا رہتا ہے اور آہ وبکا کرتا ہے لیکن پھر بھی پانی پینے سے اپنے آپ کو روکتا ہے کہ اگر پانی پی لے تو اُسی وقت ہلاک ہوجائے، اب ذرا غور کرو اس جانور کی طبیعت پر کہ جو موت کے ڈر سے تشنگی کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)بارہ سنگھا،جنگلی گائے،وغیرہ

۹۹

غالب ہونے کے باوجود پانی نہیں پیتا اور یہ وہ مرحلہ ہے کہ جہاں شاید صابر انسان بھی اپنے آپ پر قابو نہ پاسکے۔

( لومڑی کس چالاکی سے اپنی غذا حاصل کرتی ہے )

اے مفضل۔ لومڑی کے ہاتھ جب غذا نہیں لگتی تو وہ اپنے آپ کو مردہ جیسا بناکر لیٹ جاتی ہے اور اس طرح پیٹ میں ہوا بھرتی ہے کہ پرندے یہ سمجھیں کہ وہ مردہ ہے ، اور جیسے ہی وہ لومڑی پربیٹھتے ہیں تاکہ وہ اسے پھاڑ ڈالیں اور کھالیں تو ایسی صورت میں لومڑی بلافاصلہ ان پرندوں پر جھپٹتی ہے اور ان کا شکار کرلیتی ہے وہ کون ہے جس نے بے زبان و بے عقل لومڑی کو یہ حیلہ و چالاکی سکھائی؟ سوائے اس کے کہ جو اس کی روزی کا ذمہ دار ہے، کہ وہ اسے اس حیلہ و چالاکی اور دوسرے وسیلہ کے ذریعہ روزی پہنچاتا ہے اس لئے کہ لومڑی دوسرے حیوانات کی طرح اپنے شکار کے سامنے مقابلہ کی قوت نہیں رکھتی، لہٰذا اسے زندگی بسر کرنے کے لئے یہ حیلہ و چالاکی سکھائی۔

( دریائی سور کے غذا حاصل کرنے کا طریقہ کار )

اے مفضل۔ دریائی سور جب یہ چاہتا ہے کہ کسی پرندہ کا شکار کرے تو اس کی چالاکی یہ ہوتی ہے کہ وہ مچھلی کا شکار کرتا ہے اور اسے مار دیتا ہے اور پھر اس کے شکم کو اس طرح چاک کرتا ہے کہ وہ پانی پر باقی رہے اور خود اُس کے نیچے چھپ جاتا ہے اور آہستہ آہستہ پانی کو ہلاتا رہتا ہے کہ وہ پانی کے نیچے دکھائی نہ دے، اور انتظار کرتا ہے یہاں تک کہ پرندہ مچھلی کے لاشے پر بیٹھتا ہے کہ اُسے کھالے ایسی صورت میں دریائی سور بلافاصلہ اس پرندہ پر جھپٹتا ہے اور اس کا شکار کرلیتا ہے ، اے مفضل۔ ذرا اس حیلہ و

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

دوسری فصل

جزیرة العرب سے باہراسلام کی توسیع

۱۔جنگ موتہ( ۱ )

رسول(ص) نے یہ عزم کر لیا تھا کہ جزیرة العرب کے شمال میں امن و امان کی فضا قائم کریں گے، اور اس علاقہ کے باشندوں کو اسلام کی طرف دعوت دیں گے اور اس طرح شام تک جائیں گے ۔ آپ(ص) نے حارث بن عمیر ازدی کو حارث بن ابی شمر غسانی کے پاس بھیجا، شرحبیل بن عمرو غسانی نے ان کا راستہ روکا اور قتل کر دیا۔

اسی اثنا میں رسول(ص) نے مسلمانوں کا ایک اور دستہ اسلام کی تبلیغ کے لئے روانہ کیا، ملکِ شام کے علاقہ ذات الصلاح کے لوگوں نے ان پر ظلم کیا اور انہیں قتل کر ڈالا، ان کے قتل کی خبر رسول(ص) کو ملی،اس سانحہ کو سن کر رسول(ص) کو بہت افسوس ہوا، پھر آپ(ص) نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ ان سے انتقام کے لئے نکلیں آپ (ص) کے فرمان پرتین ہزار سپاہیوں کا لشکر تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے فرمایا: اس کے سپہ سالار علی الترتیب زید بن حارثہ، جعفر بن ابی طالب اور بعد میں عبد اللہ بن رواحہ ہونگے پھر آپ(ص) نے ان کے درمیان خطبہ دیا:

''اغزوا بسم اللّه...ادعوهم الیٰ الدّخول فی الاسلام...فان فعلوا فاقبلوا منهم و اکقفوا عنهم...و الا فقاتلوا عدو الله و عدوکم بالشام و ستجدون فیها رجالا فی الصوامع معتزلین الناس، فلا تعرضوا لهم، و ستجدون آخرین للشیطان فی رؤوسهم مفاحص

____________________

۱۔ جنگ موتہ ماہ جمادی الاول ۸ھ میں ہوئی۔

۱۸۱

فاقلعوها بالسیوف ولا تقتلن امراة ولا صغیراً ولامر ضعاً ولا کبیراً فانیا لا تغرفن نخلا ولا تقطعن شجراً ولا تهدموا بیتاً'' ( ۱ )

پہلے انہیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دینا...اگر انہوں نے قبول کر لیا تو ان پر حملہ نہ کرنا انہیں مسلمان سمجھنا اور اگر انہوں نے اسلام قبول نہ کیا تو تم اپنے اور خدا کے دشمن سے شام میں جنگ کرنا اور دیکھو تمہیں کلیسائوں میں کچھ لوگ گوشہ نشین ملیں گے ان سے کچھ نہ کہنا۔

اور کچھ لوگ ایسے ملیں گے جو شیطان کے چیلے ہونگے ان کے سرمنڈھے ہونگے انہیں تلواروں سے صحیح کرنا اور دیکھو عورتوں، دودھ پیتے بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرنا، کھجور کو برباد نہ کرنا اور کسی درخت کو نہ کاٹنا اور کسی گھر کو منہدم نہ کرنا۔

اس لشکر کو وداع کرنے کے لئے رسول(ص) بھی ان کے ساتھ چلے اور ثنیة الوداع تک ان کے ساتھ گئے مسلمانوں کا یہ لشکر جب ''مشارق'' کے مقام پر پہنچا تو وہاں کثیر تعدادمیں روم کی فوج دیکھی، جس میں دو لاکھ جنگجو شامل تھے۔ مسلمان موتہ کی طرف پیچھے ہٹے اور وہاں دشمن سے مقابلہ کیلئے، تیار ہوئے مختلف اسباب کی بنا پر مسلمانوں کا لشکر پسپا ہو گیا اور نتیجہ میں تینوں سپہ سالار شہید ہو گئے اس جنگ میں مسلمانوں کی شکست کا ایک سبب یہ بھی تھا کہ وہ اس دور افتادہ علاقہ میں جنگ کر رہے تھے جہاں امداد کا پہنچنا مشکل تھا۔ پھر یہ روم والوںپر حملہ آور ہوئے تھے اوروہ اپنی کثیر تعداد کے ساتھ دفاعی جنگ لڑ رہے تھے ،دونوں لشکروں کی جنگی معلومات میں بہت زیادہ فرق تھا، روم کی فوج ایک منظم و مستحکم فوج تھی جو جنگی مشق کرتی رہتی تھی، دوسری طرف مسلمانوں کی تعداداوران کے جنگی معلومات بہت کم تھی،یہ جمعیت نئی نئی وجود میں آئی تھی۔( ۲ )

جعفر بن ابی طالب کی شہادت کی خبر سن کر رسول(ص) بہت غم زدہ ہوئے اور آپ(ص) پرشدید رقت طاری ہوئی

____________________

۱۔ مغازی ج۲ ص ۷۵۸ ، سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۷۴۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۸۱۔

۱۸۲

تعزیت اور اظہار ہمدردی کے لئے ان کے گھر تشریف لے گئے اسی طرح زید بن حارثہ کے مارے جانے کا بھی بہت صدمہ ہوا۔( ۱ )

۲۔ فتح مکہ

جنگ موتہ کے بعد علاقہ کی طاقتوں کے مختلف قسم کے رد عمل ظاہر ہوئے، مسلمانوں کے پسپا ہونے اور شام میں داخل نہ ہونے سے روم کو بہت خوشی تھی۔

قریش بھی بہت خوش تھے، مسلمانوں کے خلاف ان کی جرأت بڑھ گئی تھی چنانچہ وہ معاہدہ ٔامان کو ختم کرکے صلح حدیبیہ کو توڑ نے کی کوشش کرنے لگے انہوںنے قبیلۂ بنی بکر کو قبیلۂ بنی خزاعہ کے خلاف اکسایا جبکہ صلح حدیبیہ کے بعد قبیلۂ بنی بکر قریش کا حلیف بن گیا تھا اور خزاعہ رسول(ص) کا حلیف بن گیا تھااور اسلحہ وغیرہ سے اس کی مدد کی جس کے نتیجہ میں قبیلۂ بکر نے قبیلۂ خزاعہ پر ظلم کیا اور اس کے بہت سے لوگوںکو قتل کر دیا حالانکہ وہ اپنے شہروں میں امن کی زندگی گزار رہے تھے اور بعض تو ان میں سے اس وقت عبادت میں مشغول تھے انہوںنے رسول(ص) سے فریاد کی اور مدد طلب کی۔ عمرو بن سالم نے رسول(ص) کے سامنے کھڑے ہو کر جب آپ(ص) مسجد میں تشریف فرما تھے نقض عہد کے بارے میں کچھ اشعار پڑھے، جس سے رسول(ص) بہت متاثر ہوئے اور فرمایا:''نُصِرتَ یا عمرو بن سالم'' اے سالم کے بیٹے عمرو تمہاری مدد کی جائیگی۔

قریش کی آنکھیں کھل گئیں اور انہیں اپنی غلط حرکت کا احساس ہو گیا۔ مسلمانوں کی طرف سے انہیں خوف لاحق ہوا اس صورت حال کے بارے میں انہوں نے آپس میں مشورہ کیا تو یہ طے پایا کہ ابو سفیان کو مدینہ بھیجا جائے تاکہ وہ صلح کی تجدید کرے اور رسول(ص) سے مدتِ صلح بڑھانے کی درخواست کرے۔

لیکن رسول(ص) نے ابو سفیان کی باتوں پر توجہ نہ کی بلکہ اس سے یہ فرمایا: اے ابو سفیان کیا تمہارے پاس اس کے علاوہ اور کوئی بات نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا: میں خدا کی پناہ چاہتا ہوں رسول(ص) نے فرمایا: ہم اپنی صلح اور اس کی مدت پر قائم ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۵۴، مغازی ج۲ ص ۷۶۶، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۶۸۔

۱۸۳

اس سے ابوسفیان کا دل مطمئن نہ ہوا اور اس کو سکون حاصل نہیں ہوا بلکہ اس نے رسول(ص) سے عہد لینے اور امان طلب کرنے کی کوشش کی لہذا وہ کسی ایسے شخص کو ڈھونڈنے لگا کہ جو نبی (ص) سے یہ کام کرا دے مگرہر ایک نے واسطہ بننے سے انکار کر دیااور اس کی باتوں کی طرف اعتنا نہ کی۔ جب اسے کوئی چارہ کا ر نظر نہ آیا تو وہ ناکام مکہ واپس لوٹ گیا مشرک طاقتوں کے معاملات پیچیدہ ہو گئے تھے۔ حالات بدل گئے تھے اب رسول(ص) بڑھتی ہوئی طاقت اور راسخ ایمان کے سبب مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہونا چاہتے تھے مشرکین مکہ کی پیمان شکنی نے اس کا جواز پیدا کر دیااور قریش اپنی جان و مال کے لئے امان طلب کرنا چاہتے تھے۔ مکہ پر اقتدار و تسلط کا مطلب یہ تھا کہ پورا جزیرةالعرب اسلام کے زیر تسلط آ جائے۔

رسول(ص) نے یہ اعلان کر دیا کہ سب لوگ دشمن سے جنگ کے لئے تیار ہوجا ئیں چنانچہ مسلمانوں کے گروہ آپ(ص) کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے حاضر خدمت ہو نے لگے دس ہزار کا لشکر فراہم ہو گیا رسول(ص) نے چند مخصوص افراد ہی سے اپنا مقصد بیان کیا تھا آپ(ص) خدا سے یہ دعا کر رہے تھے۔

''اللهم خذ العیون و الاخبار من قریش حتی نباغتها فی بلادها'' ( ۱ )

اے اللہ قریش کی آنکھوں اور ان کے سراغ رساں لوگوں کو ناکام کر دے یہاں تک کہ ہم ان کے شہر میں ان کے سروں پر پہنچ جائیں۔

ظاہر ہے کہ رسول(ص) کم مدت میں بغیر کسی خونریزی کے پائیدار کا میابی چاہتے تھے اسی لئے آپ(ص) نے خفیہ طریقہ اختیار کیا تھا لیکن اس کی خبر ایسے شخص کو مل گئی جو اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھتا تھا چنانچہ اس نے اس سلسلہ میں قریش کو ایک خط لکھ دیا اور ایک عورت کے بدست روانہ کر دیا وحی کے ذریعہ رسول(ص) کو اس کی خبر ہو گئی آپ(ص) نے حضرت علی اور زبیر کو حکم دیا کہ اس عورت تک پہنچو اور اس سے خط واپس لو حضرت علی بن ابی طالب نے رسول(ص) پرراسخ ایمان کے سبب اس عورت سے خط واپس لے لیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۳۹۷، مغازی ج۲ ص ۷۹۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۳۹۸۔

۱۸۴

رسول(ص) نے وہ خط لیتے ہی مسلمانوں کو مسجد میں جمع کیا تاکہ ایک طرف ان کی ہمت بڑھا ئیں اور دوسری طرف انہیں خیانت سے ڈرائیں اور ان پر یہ بات ظاہر کر دیں کہ خدا کی رضا کے لئے اپنے جذبات کو کچلنے کی کتنی اہمیت ہے ۔ مسلمان اس خط کے بھیجنے والے حاطب بن ابی بلتعہ کا دفاع کرنے لگے کیونکہ اس نے خدا کی قسم کھا کے یہ کہا تھا کہ خط بھیجنے سے اس کا مقصد خیانت نہیں تھا ، لیکن اس کی اس حرکت پر عمر بن خطاب کو بہت زیادہ غصہ آیا اور رسول(ص) سے عرض کی : اگر اجازت ہو تو میں اسے ابھی قتل کردوں رسول(ص) نے فرمایا:

''وما یدریک یا عمر لعل الله اطلع علیٰ اهل بدر و قال لهم اعملوا ما شئتم خلفه غفرت لکم'' ( ۱ )

اے عمر تمہیں کیا خبر؟ ہو سکتا ہے خدا نے بدر والوں پر نظر کی ہو اور ان سے یہ فرمایا ہو کہ تم جو چاہو کرو میں نے تمہیں بخش دیا ہے ۔

فوج اسلام کی مکہ کی طرف روانگی

دس رمضان المبارک کو فوج اسلام مکہ کی طرف روانہ ہوئی جب''کدید'' کے مقام پر پہنچی تو رسول(ص) نے پانی طلب کیا اور مسلمانوں کے سامنے آپ(ص) نے پانی پیا، مسلمانوں کو بھی آپ نے روزہ توڑنے کا حکم دیا لیکن ان میں سے بعض لوگوں نے رسول(ص) کی نافرمانی کرتے ہوئے روزہ نہ توڑا، ان کی اس نافرمانی پر رسول(ص) غضبناک ہوئے اور فرمایا:''اولٰئک العصاة'' یہ نافرمان ہیں پھرانہیں روزہ توڑنے کا حکم دیا۔( ۲ ) جب رسول(ص) ظہران کے نزدیک پہنچے تو آپ(ص) نے مسلمانوں کو صحراء میں منتشر ہونے اور ہر ایک کو آگ روشن کرنے کا حکم دیا، اس طرح ڈرائونی رات روشن ہو گئی اور قریش کی ہر طاقت کو مسلمانوں کا عظیم لشکر نظر آیا جس کے سامنے قریش کی ساری طاقتیں سر نگوں ہو گئیں، اس کو دیکھ کر عباس بن عبد المطلب پریشان ہوئے

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۳۶۳، مغازی ج۲ ص ۷۹۸، لیکن محدثین نے اس حدیث کو موضوع قرار دیا ہے ملاحظہ ہو سیرة المصطفیٰ ، ص ۵۹۲۔

۲۔ وسائل الشیعة ج۷ ص ۱۲۴، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۹۰، مغازی ج۲ ص ۸۰۲، صحیح مسلم ج۳ ص ۱۴۱ و ۱۴۲، کتاب الصیام باب جواز الصوم و الفطر فی شہر رمضان للمسافر فی غیر معصیة، دار الفکر، بیروت۔

۱۸۵

یہ آخری مہاجر تھے جو رسول(ص) سے جحفہ میں ملحق ہوئے -لہذا وہ کوئی ایسا ذریعہ تلاش کرنے لگے جس سے وہ قریش تک یہ پیغام پہنچا سکیں کہ وہ مکہ میں لشکر اسلام کے داخل ہونے سے پہلے فرمانبردار ہو کر آجائیں۔

اچانک عباس نے ابو سفیان کی آواز سنی جو مکہ کی بلندیوں سے اس عظیم لشکر کو دیکھ کر تعجب سے بدیل بن ورقاء سے بات کر رہا تھا اور جب عباس نے ابو سفیان سے یہ بتایا کہ رسول(ص) اپنے لشکر سے مکہ فتح کرنے کے لئے آئے ہیں تو وہ خوف سے کانپنے لگا ۔ اسے اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ عباس کے ساتھ رسول(ص) کی خدمت حاضر ہو کران سے امان حاصل کر لے ۔

یہ صاحب خلق عظیم اور عفو و بخشش کے بحر بیکراںسے نہیں ہو سکتا تھا کہ اپنے چچا کے ساتھ آنے والے ابو سفیان کے لئے باریابی کی اجازت دینے میں بخل کریں چنانچہ فرمایا: آپ جائیے ہم نے اسے امان دی، کل صبح اسے ہمارے پاس لائیے گا۔

ابو سفیان کا سپر انداختہ ہونا

جب ابو سفیان رسول(ص) کے سامنے آیا تو اس سے آپ(ص) نے یہ فرمایا:''ویحک یا ابا سفیان الم یان لک ان تعلم ان لاالٰه الا اللّه'' اے ابوسفیان وائے ہو تیرے اوپر کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا بیشک تو یہ جان لے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ؟ ابو سفیان نے کہا:میرے ماں باپ آپ(ص) پر قربان ہوں آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم میرا یہ گمان تھا کہ اگر خدا کے علاوہ کوئی اور معبود ہوتا تو وہ مجھے بے نیاز کر دیتا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو سفیان! کیا ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ تم یہ اقرار کرو کہ میں اللہ کا رسول(ص) ہوں؟ ابو سفیان نے کہا: میرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کتنے بردبار، کریم اور صلۂ رحمی کرنے والے ہیں! خدا کی قسم اس سلسلہ میں ابھی تک میرے دل میں کچھ شک ہے ۔( ۱ )

عباس نے اس موقعہ پر ابو سفیان پر اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں زور دیتے ہوئے کہا : وائے ہو تیرے

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۰، مجمع البیان ج۱۰ ص ۵۵۴۔

۱۸۶

اوپر، قبل اس کے کہ تجھے قتل کر دیا جائے یہ گواہی دے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے رسول (ص) ہیں۔ پس ابو سفیان نے قتل کے خوف سے خدا کی وحدانیت اور محمد(ص) کی رسالت کی گواہی دی اور مسلمانوں میں شامل ہو گیا۔

ابو سفیان کے اسلام لانے کے بعد مشرکین کے دوسرے سردار بھی اسی طرح اسلام لے آئے لیکن رسول(ص) نے اس غرض سے کہ قریش خونریزی کے بغیر اسلام قبول کر لیں، ان پر نفسیاتی دبائو ڈالا۔ عباس سے فرمایا: اے عباس ا سے کسی تنگ وادی میں لے جائو، جہاں سے یہ فوجوں کو دیکھے۔

رسول(ص) نے اطمینان کی فضا پیدا کرنے اور اسلام و رسول اعظم کی مہربانی و رحم دلی پر اعتماد قائم کرنے نیز ابو سفیان کی عزت نفس کو باقی رکھنے کی غرض سے فرمایا:

جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہو جائے گا اس کے لئے امان ہے جو اپنے گھر کا دروازہ بند کرے گا وہ امان میں ہے ، جو مسجد میں داخل ہو جائیگا وہ امان میں ہے، جو ہتھیار ڈال دے گا وہ امان میں ہے ۔

اس تنگ وادی کے سامنے سے خدائی فوجیں گذرنے لگیں جو دستہ گذرتا تھا عباس اس کا تعارف کراتے تھے کہ یہ فلاں کا دستہ ہے وہ فلاںکا دستہ ہے اس سے ابو سفیان پر اتنی دہشت طاری ہوئی کہ اس نے عباس سے کہا: اے ابو الفضل خدا کی قسم تمہارا بھتیجہ بہت بڑا بادشاہ بن گیا، عباس نے جواب دیا: یہ بادشاہت نہیں ہے یہ نبوت ہے ۔ ان کے جواب میںابوسفیان نے تردد کیا ۔ اس کے بعد اہل مکہ کو ڈرانے اور رسول(ص) کی طرف سے ملنے والی امان کا اعلان کرنے کے لئے ابو سفیان مکہ چلا گیا۔( ۱ )

مکہ میں داخلہ

رسول(ص) نے اپنی فوج کے لئے مکہ میں داخل ہونے سے متعلق کچھ احکام صادر فرمائے اورہر دستہ کے لئے راستہ معین کر دیا نیزیہ تاکید فرمائی کہ جنگ سے پرہیز کریں ہاں اگر کوئی بر سر پیکار ہو جائے تو اس کاجواب

____________________

۱۔ مغازی از واقدی ج۲ ص ۸۱۶، سیرت نبویہ ج۳ ص ۴۷۔

۱۸۷

دیا جائے، چند مشرکین کا خون ہر حال میں مباح قرار دیا، خواہ وہ کعبہ کے پردہ ہی سے لٹکے ہوئے ہوں کیونکہ وہ اسلام اور رسول(ص) کے سخت ترین دشمن تھے۔

جب مکہ کے درو دیوار پرآپ (ص) کی نظر پڑی تو آنکھوں میں اشک بھر آئے، اسلامی فوجیں چاروں طرف سے فاتحانہ مکہ میں داخل ہوئیں فتح و نصرت نے اس کی شان دوبالا کر دی تھی اور رسول(ص) کو خدانے جو نعمت و عزت عطا کی تھی اس کے شکریہ کی خاطر رسول(ص) سر جھکائے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے کیونکہ اعلائے کلمةاللہ کے لئے آپ (ص) کی بے پناہ جانفشانیوں کے بعد ام القریٰ نے آپ(ص) کی رسالت و حکومت کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔

اہلِ مکہ کے شدید اصرار کے باوجود نبی (ص) نے کسی کے گھر میں مہمان ہونا قبول نہیں کیا تھوڑی دیر آرام کرنے کے بعد آپ(ص) نے غسل کیا اور سواری پر سوار ہوئے۔ تکبیر کہی تو سارے مسلمانوں نے تکبیر کہی، دشت و جبل میں نعرۂ تکبیر کی آواز گونجنے لگی-جہاں اسلام اور اس کی فتح سے خوف زدہ ہو کر شرک کے سرغنہ جا چھپے تھے-خانۂ کعبہ کا طواف کرتے ہوئے آپ(ص) نے اس میں موجود ہر بت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:( قل جاء الحق و زهق الباطل ان الباطل کان زهوقا ) کہو ،حق آیا باطل گیا باطل کو تو جانا ہی تھا اس سے ہر بت منہ کے بل زمین پر گر پڑا۔

رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: تم بیٹھ جائو تاکہ میں تمہارے دوش پر سوار ہو کر بتوںکو توڑ دوں لیکن حضرت علی اپنے دوش پر نبی (ص) کا بار نہ اٹھا سکے تو حضرت علی بن ابی طالب دوش رسول(ص) پر سوار ہوئے اور بتوں کو توڑ ڈالا ۔ پھر رسول(ص) نے خانۂ کعبہ کی کلید طلب کی، دروازے کھولے، اندر داخل ہوئے اور اس میں موجود ہر قسم کی تصویر کو مٹا دیا۔ اس کے بعد خانۂ کعبہ کے دروازہ پر کھڑے ہو کر فتحِ عظیم کے بارے میں ایک جمِّ غفیر کے سامنے خطبہ دیا ، فرمایا:

۱۸۸

''لا الٰه الا اللّٰه وحده لا شریک له، صدق وعده، و نصر عبده، و هزم الاحزاب وحده، الا کل ماثره اودم او مال یدعی فهو تحت قدمی هاتین الا سدانة البیت و سقایة الحاج...'' ۔

اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے وہ ایک ہے اس کا کوئی شریک نہیں ہے ، اس نے اپنا وعدہ سچا کر دکھایا، اس نے اپنے بندے کی مدد کی، اسی نے سارے لشکروں کو شکست دی، ہر وہ فضیلت یا خون یا مال کہ جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے میرے قدموں کے نیچے ہے ، سوائے خانۂ کعبہ کی کلید برداروی اور حاجیوں کو سیراب کرنے کی فضیلت...۔

پھر فرمایا:'' یا معاشر قریش ان اللّٰه قد اذهب عنکم نخوة الجاهلیة وتعظمها بالآباء النّاس من آدم و آدم من تراب...'' ( ۱ )

اے گروہ قریش! خدا نے تمہارے درمیان سے جاہلیت کی نخوت کو ختم کر دیا ہے وہ اپنے آباء و اجداد پر فخر کرتے تھے یا د رکھو سارے لوگ آدم کی اولاد ہیں اور آدم مٹی سے پیدا ہوئے ہیں۔

( یا ایها النّاس انا خلقناکم من ذکرٍ و انثیٰ و جعلناکم شعوباً و قبائل لتعارفوا ان اکرمکم عند اللّٰه اتقاکم ان اللّٰه علیم خبیر )

اے لوگو! ہم نے تمہیں مرد و عورت سے پیدا کیاہے اور پھر تمہارے گروہ اور قبیلے بنا دیئے تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو، بیشک خدا کی نظر میں تم میں سے وہی محترم ہے جو تم میں زیادہ پرہیز گار ہے۔( ۲ )

پھر فرمایا: اے گروہِ قریش تم کیا سوچتے ہو میں تمہارے ساتھ کیا سلوک کرنے والا ہوں؟

انہوں نے کہا: آپ مہربان بھائی اور مہربان بھائی کے فرزند ہیں۔ آپ(ص) نے فرمایا:''اذهبوا انتم طلقائ'' ( ۳ ) جائو تم آزاد ہو۔

____________________

۱۔ مسند احمدج۱ ص ۱۵۱، فرائد السمطین ج۱ ص ۴۹، کنز العمال ج۱۳ ص۱۷۱، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۸۶۔

۲۔حجرات:۱۳۔

۳۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۰۶، سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۱۲۔

۱۸۹

اس کے بعد بلال نے خانۂ کعبہ کی چھت پر جاکر اذان ظہر دی سارے مسلمانوں نے اس فتح کے بعد مسجد الحرام میں رسول(ص) کی امامت میں نماز پڑھی ، مشرکین حیرت سے کھڑے منہ تک رہے تھے، سرتاپا خوف و استعجاب میں ڈوبے ہوئے تھے، اہل مکہ کے ساتھ رسول(ص) کا یہ سلوک دیکھ کر انصار کو یہ خوف لاحق ہوا کہ کہیں رسول(ص) دوبارہ مکہ آباد نہ کریں ، ان کے ذہنوںمیں اور بہت سے خیالات گردش کر رہے تھے، رسول(ص) بارگاہ معبود میں دست بدعا تھے، انصار کے دل کی کیفیت سے بھی آگاہ تھے، انہیں مخاطب کر تے ہوئے فرمایا:''معاذ اللّٰه المحیا محیاکم و الممات مماتکم'' ایسا نہیں ہوگا میری موت و حیات تمہاری موت و حیات کے ساتھ ہے ، اسلام کا مرکز مدینہ ہی رہے گا۔

اس کے بعد مکہ والے رسول(ص) سے بیعت کے لئے بڑھے، پہلے مردوںنے بیعت کی ۔ بعض مسلمانوں نے ان لوگوں کی بھی رسول(ص) سے سفارش کی جن کا خون مباح کر دیا گیا تھا، رسول(ص) نے انہیںمعاف کر دیا۔

پھر عورتیں بیعت کے لئے آئیں -ان کی بیعت کے لئے آپ(ص) نے یہ طریقہ اختیار کیا تھا کہ ایک پانی سے لبریز ظرف میں پہلے آپ(ص) ہاتھ ڈال کر نکالتے تھے پھر عورت اس میں ہاتھ ڈالتی تھی- ان سے اس بات پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی بھی چیز کو خدا کا شریک نہیں قراردیں گی، چوری نہیں کریں گی، زنا نہیں کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گی، اور اپنے ہاتھوں پیروں کے ذریعہ گناہ نہیں کریںگی اور بہتان نہیں باندھیں گی اور امر بالمعروف میں آپ کی نافرمانی نہیں کریں گی۔( ۱ )

رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کے حلیف خزاعہ نے مشرکین کے ایک آدمی پر زیادتی کی اور اسے قتل کر دیا، آپ(ص) کھڑے ہوئے ایک خطبہ ارشاد فرمایا:

''یا ایّها النّاس ان الله حرم مکة یوم خلق السمٰوات و الارض فهی حرام الیٰ یوم القیامة لا یحل لامریٔ یؤمن باللّٰه و الیوم الآخر ان یسفک دماً او یعضد فیها شجراً'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱، ص ۱۱۳ ، سورۂ ممتحنہ :۱۲۔

۲۔ سنن ابن ماجہ حدیث ۳۱۰۹، کنز العمال ح ۳۴۶۸۲، در منثور ج۱ ص ۱۲۲۔

۱۹۰

اے لوگو! بیشک خدا نے جس دن زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اسی روز مکہ کو حرم قراردیدیا تھا اور وہ قیامت تک حرم ہی رہے گا اور جو شخص خدا و آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کے لئے حلال نہیں ہے کہ وہ اس میں خونریزی کرے یا اس میں کوئی درخت کاٹے۔

پھر فرمایا:''من قال لکم ان رسول اللّه قد قاتل فیها فقولوا ان اللّه قد احلها لرسوله و لم یحللها لکم یا معاشرخزاعه''

اور اگر کوئی کہے کہ رسول اللہ(ص) نے اس شہر میں جنگ کی ہے تو اس سے کہو کہ خدا نے اپنے رسول کے لئے جنگ حلال کی تھی اور تمہارے لئے جنگ حلال نہیں کی ہے اے بنی خزاعہ!

رسول(ص) نے اہل مکہ اور اس کے باشندوںکے بارے میں جس محبت و مہربانی ،عفو و در گذر اور مکہ کی سر زمین کی تقدیس اور اس کی حرمت کے متعلق جو اقدام کئے تھے وہ قریش کو بہت پسند آئے، لہذا ان کے دل آپ(ص) کی طرف جھکے اورانہوں نے بطیب الخاطر اسلام قبول کرلیا۔

جب پورا علاقہ مسلمان ہو گیا تو رسول(ص) نے مکہ اور اس کے مضافات میں بعض دستے روانہ کئے تاکہ وہ باقی ماندہ بتوں کو توڑ ڈالیں اور مشرکین کے معبدوں کو منہدم کر دیں لیکن خالد بن ولید نے اپنے چچا کے قصاص میں بنی جذیمہ کے بہت سے لوگوں کو قتل کر ڈالا حالانکہ وہ اسلام قبول کر چکے تھے۔( ۱ ) جب رسول (ص) کو اس سانحہ کی خبر ملی تو آپ(ص) بہت غضبناک ہوئے اور حضرت علی کو حکم دیا کہ ان مقتولوں کی دیت ادا کریں پھرآپ(ص) قبلہ رو کھڑے ہوئے اپنے دونوں ہاتھوں کو بلند کیا اور عرض کی:''اللّهم انّی ابرء الیک مما صنع خالد بن الولید'' اے اللہ جو کچھ خالد بن ولید نے کیا ہے میں اس سے بری ہوں، اس سے بنی جذیمہ کے دلوںکو اطمینان ہو گیا۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۲۰، خصال ص ۵۶۲، امالی طوسی ص ۳۱۸۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۴۸۔

۱۹۱

۳۔ جنگ حنین او ر طائف کا محاصرہ( ۱ )

فاتح کی حیثیت سے رسول(ص) کو مکہ میں پندرہ روز گزر گئے شرک کی مدتِ دراز کے بعد توحید کا یہ عہدِ جدید تھا مسلمان مسرت میں جھوم رہے تھے، ام القریٰ میں امن و امان کی حکمرانی تھی اچانک رسول(ص) کو یہ خبر ملی کہ ہوازن و ثقیف دونوں قبیلوںنے اسلام سے جنگ کرنے کی تیاری کر لی ہے ان کا خیال ہے اس کام کو انجام دیدیں گے جسے شرک و نفاق کی ساری طاقتیں متحد ہو کر انجام نہ دے سکیں یعنی یہ دونوں قبیلے-معاذ اللہ- اسلام کو نابود کر دیں گے؟! رسول(ص) نے ان سے نمٹنے کا عزم کیا لیکن آپ(ص) نے اپنی عادت کے مطابق پہلے مکہ میں امور کی دیکھ بھال کا انتظام کیا نماز پڑھانے اور امور کا نظم و نسق عتاب بن اسید کے سپرد کیا لوگوں کو قرآن کی تعلیم دینے اور انہیں احکام اسلام سکھانے کے لئے معاذ بن جبل کو معین کیا اس کے بعد بارہ ہزار سپاہیوں کے ساتھ روانہ ہوئے، اتنی بڑی فوج مسلمانوں نے نہیں دیکھی تھی اس سے انہیں غرور ہو گیا یہاں تک ابو بکر کی زبان پر یہ جملہ آگیا : اگر بنی شیبان بھی ہم سے مقابلہ کریں گے تو آج ہم اپنی قلت کی وجہ سے مغلوب نہیں ہونگے۔( ۲ )

ہوازن و ثقیف میں اتحاد تھاوہ جنگ کی پوری تیاری کے ساتھ آئے تھے اہل و عیال کو بھی اپنے ہمراہ لائے تھے اور لشکر اسلام کو کچلنے کے لئے گھات میں بیٹھ گئے تھے۔لشکر اسلام کے مہراول دستے جب کمین گاہ کے اطراف میں پہنچے توانہوں نے انہیں فرار کرنے پر مجبور کر دیا یہاں تک کہ دشمن کے اسلحہ سے ڈر کر باقی مسلمان بھی ثابت قدم نہ رہ سکے، بنی ہاشم میں سے صرف نو افراد رسول(ص) کے ساتھ باقی بچے تھے دسویں ایمن-ام ایمن کے بیٹے- تھے۔ یہ صورت حال دیکھ کر منافقین مارے خوشی کے اچھل پڑے۔ ابو سفیان طعن و تشنیع کرتا ہوا نکلا اور کہنے لگا۔ یہ لوگ جب تک سمندر کے کنارے تک نہیں پہنچیں گے اس وقت تک دم نہیں لیں گے ۔ کسی نے کہا: کیا آج سحر باطل نہیں ہو گیا؟ کسی نے اس پریشان حالی میں رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ جنگ حنین ماہ شوال ۸ھ میں ہوئی ۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۵۰، مغازی ج۲ ص ۸۸۹۔

۳۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۴۳، مغازی ج۳ ص ۹۹۔

۱۹۲

رسول(ص) نے اپنے چچا عباس سے فرمایا کہ بلندی پر جاکر شکست خوردہ اور بھاگے ہوئے انصار و مہاجرین کو اس طرح آواز دیں:'' یا اصحاب سورة البقره، یا اهل بیعة الشجرة الی این تفرون؟ هذا رسول اللّه!''

اے سورۂ بقرہ والو! اے درخت کے نیچے بیعت کرنے والو! کہاں بھاگے جا رہے ہو؟ یہ اللہ کے رسول(ص) ہیں ۔

اس سے وہ لوگ غفلت کے بعد ہوش میں آگئے، پراگندگی کے بعد میدان کار زار پھر گرم کیا، اسلام اور رسول(ص) کا دفاع کرنے کے بارے میں جو وعدہ کیا تھا اسے پورا کرنے کی طرف لوٹ آئے جب رسول(ص) نے ان کی جنگ دیکھی تو فرمایا:''الآن حمی الوطیس انا النبی لا کذب انا ابن المطلب'' ہاں اب جنگ اپنے شباب پر آئی ہے ، میں خدا کا نبی (ص) ہوں جھوٹ نہیں ہے ، میں عبد المطلب کا بیٹا ہوں۔ پس خدا نے مسلمانوں کے دلوں کو سکون بخشااور اپنی مدد سے ان کی تائید کی جس کے نتیجے میں کفر کے گروہ شکست کھا کر بھاگ گئے ، لشکر اسلام نے ان میں سے چھہ ہزار کو اسیر کیااور بہت سا مال غنیمت پایا۔( ۱ )

رسول(ص) نے فرمایا: مال غنیمت کی حفاظت اور اسیروں کی نگہبانی کی جائے۔ دشمن فرار کرکے اوطاس، نخلہ اور طائف تک پہنچ گیا۔

یہ رسول(ص) کے اخلاق کی بلندی ، رحم دلی اور عفو ہی تھا کہ آپ(ص) نے ام سلیم سے فرمایا:''یا ام سلیم قد کفی اللّه، عافیة اللّه اوسع'' خدا کافی ہے اور اس کی عافیت بہت زیادہ وسیع ہے ۔

دوسری جگہ رسول(ص) اس وقت غضبناک ہوئے جب آپ(ص) کو یہ خبر ملی کہ بعض مسلمان مشرکین کی ذریت کو تہ تیغ کر رہے ہیں فرمایا:''ما بال اقوام ذهب بهم القتل حتی بلغ الذریة الا لا نقتل الذریة'' ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے اب وہ بچوں تک کو قتل کر رہے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ ہم بچوںکو قتل نہیں کرتے ہیں۔ اسید بن حضیر نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! کیایہ مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ فرمایا:

____________________

۱۔ اس سلسلہ میں سورۂ توبہ کی کچھ آیتیں نازل ہوئی تھیں جو کہ خدا کی تائید و نصرت کی وضاحت کر رہی ہیں۔

۱۹۳

''اولیس خیارکم اولاد المشرکین ، کل نسمة تولد علیٰ الفطرة حتی یعرب عنها لسانها و ابواها یهودانها او ینصرانها'' ( ۱ ) کیا تمہارے بہترین افراد مشرکین کی اولاد نہیں ہیں؟ ہر انسان فطرت-اسلام- پر پیدا ہوتا ہے اس کے ماں باپ اسے یہودی یا نصرانی بنا دیتے ہیں۔

مسلمانوں کے فوجی دستے دشمن کا مقابلہ کرتے ہوئے طائف تک پہنچ گئے اور تقریبا پچیس دین تک ان کا محاصرہ کئے رہے ، وہ بھی دیواروں کے پیچھے سے مسلمانوں پر تیر بارانی کرتے تھے اس کے بعد رسول(ص) بہت سی وجوہ کی بنا پر طائف سے لوٹ آئے۔

جب جعرانہ -جہاں اسیروں اور مال غنیمت کو جمع کیا گیا تھا-پہنچے تو قبیلۂ ہوازن کے بعض لوگوں نے خدمت رسول(ص) میں معافی کے لئے التماس کی، کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص)! ان اسیروں میں بعض آپ(ص) کی پھوپھیاں اور بعض خالائیں ہیں جنہوں نے آپ(ص) کو گود کھلایا ہے -ایک روایت کے مطابق رسول(ص) کو رضاعت کے لئے قبیلہ بنی سعد کے سپرد کیا گیا تھا جو کہ ہوازن کی شاخ تھی-اگر ہم حارث بن ابی شمر یا نعمان بن المنذر سے انتا اصرار کرتے تو ہمیں ان کے عفو و مہربانی کی امید ہوتی۔ آپ(ص) سے توان سے زیادہ امید ہے ۔ اس گفتگو کے بعد رسول(ص) نے ان سے یہ فرمایا: ایک چیز اختیار کریں ۔ یا مال واپس لے لیں یا قیدیوں کو چھڑا لیں۔ انہوں نے قیدیوں کو آزاد کرا لیا۔ پھر رسول(ص) نے فرمایا:''اما ما کان لی ولبن عبد المطلب فهو لکم '' جو میرا اور بنی عبد المطلب کا حصہ ہے وہ تمہارا ہے جب مسلمانوںنے رسول (ص) کا عفو و کرم دیکھا تو انہوںنے بھی اپنا اپنا حصہ رسول(ص) کے سپرد کر دیا۔( ۲ )

رسول(ص) نے اپنی حکمت بالغہ اور درایت سے تمام لوگوں کی ہدایت کے لئے نیز جنگ کی آگ کو خاموش کرنے کی خاطر سب کو معاف کر دیا یہاں تک کہ اس جنگ کو بھڑکانے والا مالک بن حارث بھی اگر مسلمان ہو کر آپ کے پاس آجائے تو اسے بخش دیا جائیگا۔ چنانچہ ارشاد ہے :

____________________

۱۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۰۹۔

۲۔سید المرسلین ج۲ ص ۵۳، مغازی ج۳ ص ۹۴۹-۹۵۳۔

۱۹۴

''اخبروا مالکاً انّه ان اتانی مسلماً رددت علیه اهله و ماله واعطیته مائة من الابل و سرعان ما اسلم مالک'' ( ۱ )

مالک کو خبر کرو کہ اگر وہ مسلمان ہو کر میرے پاس آئیگا تو اس کے اہل و عیال اور مال و دولت اسے واپس مل جائیں گے اور مزیداسے سو اونٹ دئیے جائینگے۔ اس کے نتیجہ میں مالک نے فوراً اسلام قبول کر لیا۔

مال غنیمت کی تقسیم

مسلمان رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور مال غنیمت تقسیم کرنے کے لئے اصرار کرنے لگے ،انہوں نے اس سلسلہ میں اتنی شدت اختیار کی کہ آپ(ص) کی ردا تک اچک لے گئے آپ(ص) نے فرمایا:

''ردوا علی ردائی فو اللّٰه لو کان لکم بعدد شجر تهامة نعماً لقسمته علیکم، ثم ما الفیتمونی بخیلاً ولا جباناً ولا کذاباً'' ۔

میری ردا واپس کر دو، خدا کی قسم اگر تہامہ کے درختوں کے برابر بھی تمہارا مال ہوتا تو بھی میں اسے تقسیم کر دیتا پھر تم مجھ پر بخل، بزدلی اور جھوٹ کا الزام نہیں لگا سکتے تھے۔

اس کے بعد آپ(ص) اٹھے، اپنے اونٹ کے کوہان کے کچھ بال لئے اور اپنی انگلیوں میں لیکر بلند کیا اورفرمایا:

''ایها النّاس و اللّه مالی فی فیئکم ولا هذه الوبرة الا الخمس ، و الخمس مردود علیکم'' ۔

اے لوگو! اس مال غنیمت میں میرا حصہ اس اونٹ کے بال کے برابر بھی نہیں ہے سوائے خمس کے اور وہ پانچواں حصہ بھی تمہیں دے دیا گیا ہے ۔ پھر آپ نے یہ حکم دیا کہ جو چیز بھی غنیمت میں ہاتھ آئی ہے اسے واپس لوٹایا جائے تاکہ انصاف کے ساتھ تقسیم ہو سکے۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص ۹۵۴ و ص ۹۵۵۔

۱۹۵

رسول(ص) نے مولفة القلوب ، ابو سفیان، معاویہ بن ابو سفیان، حکیم بن حزام، حارث بن حارث، سہیل بن عمرو،حویطب بن عبد العزی اور صفوان بن امیہ وغیرہ سے شروع کیا، یہ کفر و شرک کے وہ سرغنہ تھے جو آپ (ص) کے سخت ترین دشمن اور کل تک آپ(ص) سے جنگ کرتے تھے۔ اس کے بعد اپنا حق خمس بھی انہیں میں تقسیم کر دیا رسول(ص) کے اس عمل سے بعض مسلمانوں کے دل میں غصہ وحمیت بھڑک اٹھی کیونکہ وہ رسول(ص) کے مقاصد اور اسلام کی مصلحتوں سے واقف نہیں تھے ، یہ غصہ میں اتنے آپے سے باہر ہوئے کہ ان میں سے ایک نے تو یہ تک کہہ دیا کہ میں آپ(ص) کو عادل نہیں پاتا ہوں۔ اس پر رسول(ص) نے فرمایا: ''ویحک اذا لم یکن العد ل عندی فعند من یکون'' وائے ہو تمہارے اوپر اگر میں عدل نہیں کرونگا تو کون عدل کرے گا؟ عمر بن خطاب چاہتے تھے کہ اسے قتل کر دیں لیکن رسول(ص) نے انہیں اجازت نہیں دی فرمایا:''دعوه فانه سیکون له شیعة یتعمقون فی الدین حتی یخرجوا منه کما یخرج السهم من رمیته'' ۔( ۱ )

جانے دو عنقریب اس کے پیرو ہونگے جو دین کے بارے میں بہت بحث کیا کریں گے او ردین سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح کمان سے تیر نکل جاتا ہے ۔

انصار کا اعتراض

سعد بن عبادہ نے یہ مناسب سمجھا کہ رسول(ص) کو انصار کی یہ بات ''کہ رسول(ص) اپنی قوم سے مل گئے اور اپنے اصحاب کو بھول گئے'' بتا دی جائے جو ان کے درمیان گشت کر رہی ہے ۔ سعد نے انصار کو جمع کیا رسول(ص) کریم تشریف لائے تاکہ ان سے گفتگو کریں، پس آپ(ص) نے خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

''یا معشر الانصار ما مقالة بلغتنی عنکم وجِدَةً وجد تموها ف انفسکم؟ ! الم آتکم ضُلّالاً فهداکم اللّه و عالة فاغناکم اللّه و اعدائً فالّف اللّه بین قلوبکم؟ قالوا: بلیٰ اللّه و

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۶، مغازی ج۳ ص ۹۴۸۔

۱۹۶

رسوله أمّنُّ و افضل ، ثم قال: الا تجیبون یا معشر الانصار؟ قالواو ماذا نجیبک یا رسول اللّه؟ قال: اما و اللّه لو شئتم قلتم فصدقتم: اتیتنا مکذباً فصدقناک و مخذولاً فنصرناک و طریداً فآویناک و عائلاً فآسیناک وجدتم ف انفسکم یا معشر الانصار ان یذهب النّاس بالشاة و البعیر و ترجعوا برسول اللّه الیٰ رحالکم؟ و الذی نفس محمد بیده لولا الهجرة لکنت امر ئاً من الانصار ولو سلک النّاس شعباً و سلکت الانصار شعباً لسلکت شعب الانصار''

اے گروہ انصار! مجھ تک تمہاری وہ بات پہنچی ہے جو تم اپنے دلوں میں محسوس کر رہے ہو ۔ کیا تم پہلے گمراہ نہیں تھے ، خدا نے تمہیں-ہمارے ذریعہ-ہدایت دی، تم نادار و مفلس تھے خدا نے تمہیں ہماری بدولت مالا مال کیا۔ تم ایک دوسرے کے دشمن تھے خدا نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈالی۔ کیا ایسا نہیں ہے ؟ انصار نے کہا: خدا و رسول(ص) کا احسان سب سے بڑھ کر ہے۔ پھر فرمایا: اے گروہ انصار کیا تم مجھے جواب نہیں دوگے؟ انہوںنے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ(ص) کو کس طرح جواب دیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: خدا کی قسم! اگر تم اس طرح کہتے تو سچ ہوتا کہ لوگوں نے آپ(ص) کو جھٹلایا اور ہم نے اپ(ص) کی تصدیق کی ، لوگوں نے آپ(ص) کو چھوڑ دیا تو ہم نے آپ(ص) کی مدد کی لوگوںنے آپ(ص) کو وطن سے نکال دیا تو ہم نے آپ(ص) کو پناہ دی، آپ مفلس تھے ہم نے آپ(ص) کی مال سے مدد کی اے گروہِ انصار! تم اپنے دلوں میں دنیا کی جس چیز کی محبت محسوس کرتے ہو اس کے ذریعہ میں نے کچھ لوگوں کی تالیف قلب کی ہے تاکہ وہ مسلمان ہو جائیں اور تمہیں تمہارے اسلام کے سپرد کر دیا ہے اے گروہ انصار کیاتمہیں یہ بات پسند نہیں ہے کہ لوگ اونٹ اور بکریوں کے ساتھ اپنے گھر جائیں اور تم اللہ کے رسول(ص) کے ساتھ اپنے گھر جائو؟ قسم اس ذات کی جس کے قبضہ میں محمد(ص) کی جان ہے اگر ہجرت نہ ہوتی تو میں بھی انصار ہی میں سے ہوتا اگر لوگ کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے اور انصار بھی کسی قبیلہ کا انتخاب کرتے تو میں انصار کے قبیلہ کو اختیار کرتا۔

ان جملوںنے ان کے دلوں میں جذبات و شعور کو بیدار کر دیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کے بارے میں ان کا خیال صحیح نہیں تھا یہ سوچ کر وہ رونے لگے اور کہنے لگے: اے اللہ کے رسول(ص) ہم اسی تقسیم پر راضی ہیں۔

۱۹۷

ماہِ ذی الحجہ میں رسول(ص) اپنے ساتھیوں کے ساتھ جعرانہ سے مکہ کی طرف روانہ ہوئے، عمرہ بجالائے احرام کھولا، عتاب بن اسید اور ان کے ساتھ معاذ بن جبل کو مکہ میں اپنا نمائندہ مقرر کیا جو مہاجرین و انصارآپ کے ساتھ تھے ان کے ہمراہ آپ(ص)مدینہ کی طرف روانہ ہوگئے۔( ۱ )

۴۔ جنگ تبوک( ۲ )

اسلامی حکومت ایک مستقل نظام کی صورت میں سامنے آئی اس کے سامنے بہت سے چیلنج تھے اس کی سرحدوں اور زمینوں کی حفاظت کرنا مسلمانوںکا فریضہ تھا تاکہ زمین کے گوشہ گوشہ میں اسلام کا پیغام پہنچ جائے۔

رسول(ص) نے مملکتِ اسلامیہ کے تمام مسلمانوںسے یہ فرمایا کہ روم سے جنگ کے لئے تیاری کرو، کیونکہ روم کے بارے میں مسلسل یہ خبریں مل رہی تھیں کہ وہ جزیرہ نمائے عرب پر حملہ کرکے دین اسلام اور اس کی حکومت کونیست و نابود کرنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔ اتفاق سے اس سال بارش نہیں ہوئی، جس کے نتیجہ میںپیداوار کم ہوئی اور شدید گرمی پڑ ی، اس صورت میں دشمن کی اس فوج سے مقابلہ کے لئے نکلنا بہت دشوار تھا جو تجربہ کار قوی اور کثیر تھی چنانچہ جن لوگوں میں روحانیت کم تھی اور جن کے نفس کمزور تھے وہ پیچھے ہٹ گئے اور ایک بار پھر نفاق کھل کرسامنے آ گیا تاکہ ارادوںمیں ضعف آجائے اور اسلام کو چھوڑ دیا جائے۔

بعض تو اس لئے لشکر اسلام میں شامل نہیں ہوئے کیونکہ وہ دنیا کو بہت دوست رکھتے تھے، بعض شدید گرمی کو بہانہ بنا کر پیچھے ہٹ گئے کچھ اپنے ضعف اور رسول(ص) کے کم وسائل کی وجہ سے آپ(ص) کے ساتھ نہیں گئے، حالانکہ راہ خدا میں جہاد کے لئے سچے مومنین نے اپنا مال بھی خرچ کیا تھا۔

رسول (ص) کو یہ اطلاع موصول ہوئی کہ منافقین ایک یہودی کے گھر میں جمع ہوتے ہیں اور لوگوں کو جنگ میں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۴۹۸، مغازی ج۳ ص ۹۵۷۔

۲۔ جنگ تبوک ماہ رجب ۹ھ میں ہوئی ۔

۱۹۸

شریک ہونے سے روکتے ہیں، انہیں ڈراتے ہیں، رسول(ص) نے دور اندیشی اورسختی کے ساتھ اس معاملہ کو بھی حل کیا۔ ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجا جس نے انہیں اسی گھر میں جلا دیا تاکہ دوسروں کے لئے عبرت ہو جائے۔

خدا نے کچھ آیتیں نازل کی ہیں جو منافقین کی گھناونی سازشوںکو آشکار کرتی ہیں اور جنگ سے جی چرانے والوں کو جھنجھوڑتی ہیں اور کمزور لوگوں کو معذور قرار دیتی ہیں مسلمانوں کی فوج میں کم سے کم تیس ہزار سپاہی تھے-روانگی سے قبل رسول(ص) نے مدینہ میں حضرت علی بن ابی طالب کو اپنا خلیفہ مقرر کیا کیونکہ آپ(ص) جانتے تھے کہ علی تجربہ کار بہترین تدبیر کرنے والے اور پختہ یقین کے حامل ہیں۔ رسول(ص) کو یہ خوف تھا کہ منافقین مدینہ میں تخریب کاریاں کریں گے اس لئے فرمایا: ''یا علی ان المدینة لا تصلح الا بی او بک''۔( ۱ ) اے علی ! مدینہ کی اصلاح میرے یا تمہارے بغیر نہیں ہو سکتی۔

نبی (ص) کی نظر میں علی کی منزلت

جب منافقین او ردل کے کھوٹے لوگوں کو یہ معلوم ہوا کہ علی بن ابی طالب مدینہ میں ہی رہیں گے تو انہوں نے بہت سی افواہیں پھیلائیں کہنے لگے رسول (ص) انہیں اپنے لئے درد سر سمجھتے ہیں اس لئے یہاں چھوڑ گئے ہیں، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ مدینہ خالی ہو جائے تاکہ پھر وہ حسب منشا جوچاہیںسو کریں ان کی یہ باتیں سن کر حضرت علی نے رسول(ص) سے ملحق ہونے کے لئے جلدی کی چنانچہ مدینہ کے قریب ہی آنحضرت (ص) کی خدمت میں پہنچ گئے اور عرض کی : اے اللہ کے رسول(ص) منافقین کا یہ گمان ہے کہ آپ(ص) مجھے اپنے لئے وبال جان سمجھتے ہیں اسی لئے مجھے آپ (ص) نے مدینہ میں چھوڑا ہے ۔

فرمایا:''کذبوا ولکننی خلفتک لما ترکت ورائ فاخلفنی فی اهلی و اهلک افلا ترضیٰ یا علی ان تکون منی بمنزلة هارون من موسیٰ الّا انّه لا نبی بعدی'' ( ۲ )

____________________

۱۔ ارشاد مفید ج۱ ص ۱۱۵، انساب الاشراف ج۱ ص ۹۴ و ۹۵، کنز العمال ج۱۱ باب فضائل علی۔

۲۔ امتاع الاسماع ج۱ ص ۴۴۹، صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۵، حدیث۳۵۰۳، صحیح مسلم ج۵ ص ۲۳، حدیث ۲۴۰۴، سنن ابن ماجہ ج۱ ص ۴۲، حدیث ۱۱۵، مسند احمد ج۱ ص ۲۸۴، حدیث ۱۵۰۸۔

۱۹۹

وہ جھوٹے ہیں ،میں نے تمہیںاپنا جانشین بنایا ہے تاکہ تم اپنے اور میرے اہل خانہ میں میرے جانشین رہو، اے علی ! کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہو کہ تم میرے لئے ویسے ہی ہو جیسے موسیٰ کے لئے ہارون تھے بس میرے بعد کوئی نبی نہیں ہوگا۔

مسلمانوں کی فوج دشوار و طویل راستہ طے کرتی چلی جا رہی تھی اس جنگ میں رسول(ص) نے گذشتہ جنگوں کے بر خلاف مقصد و ہدف کی وضاحت فرمادی تھی ، جو لوگ مدینہ سے آپ(ص) کے ساتھ چلے تھے ان کی ایک جماعت نے راستہ کے بارے میں آپ(ص) سے اختلاف کیا تو آپ(ص) نے اپنے اصحاب سے فرمایا:''دعوه فان یکن به خیر سیلحقه اللّه بکم و ان یکن غیر ذالک فقد اراحکم اللّٰه منه''

انہیں جانے دو اگر ان کا ارادہ نیک ہے تو خدا انہیں تم سے ملحق کر دے گا اور اگر کوئی دوسرا ارادہ ہے توخدا نے تمہیں ان سے نجات دیدی۔

رسول(ص) تیزی سے منزل مقصود کی طرف بڑھ رہے تھے جب آپ(ص) حضرت صالح کی قوم کے ٹیلوں کے پاس سے گذرے تو اپنے اصحاب کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:''لا تدخلوا بیوت الذین ظلموا اِلّا و انتم باکون خوفاً ان یصیبکم ما اصابهم' ' ظلم کرنے والوں کے گھروں میں داخل نہ ہونا مگر روتے ہوئے اور اس خوف کے ساتھ(داخل ہونا)کہ جو افتاد ان پر پڑی تھی وہ تم پرنہ پڑے'' اور انہیں اس علاقہ کا پانی استعمال کرنے سے منع کیا اور انہیں سخت موسم سے آگاہ کیا نیزاس جنگ میں کھانے پانی اور دیگر اشیاء کی قلت سے متنبہ کیا، اسی لئے اس لشکر کو ''جیش العسرة'' کہتے ہیں۔

مسلمانوں کو روم کی فوج نہیں ملی کیونکہ وہ پراگندہ ہو چکی تھی۔ اس موقعہ پر رسول(ص) نے اصحاب سے یہ مشورہ کیا کہ دشمن کا تعاقب کیا جائے یا مدینہ واپس چلا جائے اصحاب نے عرض کی: اگر آپ کو چلنے کا حکم دیاگیا ہے تو چلئے رسول(ص) نے فرمایا:''لو امرت به ما استشرتکم فیه'' اگر مجھے حکم دیا گیا ہوتا تو میں تم سے مشورہ نہ کرتا( ۱ ) پھر آپ(ص) نے مدینہ لوٹنے کا فیصلہ کیا۔

____________________

۱۔المغازی ج۳ ص۱۰۱۹ ۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296