منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140555 / ڈاؤنلوڈ: 6494
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

بھتيجے كے دست مبارك پر بيعت كريں ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے ان كى تجويز كو بھى منظور كرنے سے انكار كر ديا _(۱۷)

حضرت عباس كى تجويز كو حضرت علىعليه‌السلام نے كيوں منظور نہےں فرمايا اس كا ذكر بعد مےں كيا جائے گا ، يہاں ابوسفيان كى تجويز كے بارے ميں وضاحت كر دينا ضرورى ہے كہ ابو سفيان كى كى پيشكش حسن نيت پر مبنى نہيں تھى بلكہ اس كا مقصد اختلاف و فتنہ پرپا كرنا تھا اس نے جانشينى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے ميں مسلمانوں كى رسہ كشى اور اختلاف كو اچھى طرح محسوس كر ليا تھا وہ جانتا تھا كہ ابو بكر و عمر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانشينى كے چكر ميں ہےں اور اسے يہ معلوم تھا كہ سياسى اور معنوى اعتبار سے بنى ہاشم ہى ان كا مقابلہ كر سكتے ہيں لہذا وہ اپنے ناپاك مقصد كے حصول كے غرض سے خدمت امامعليه‌السلام مےں آيا اور آپ كو جنگ كيلئے ابھارا _

آپ نے ابوسفيان كى گفتگو سے اس اختلاف كا اندازہ لگا ليا تھا چنانچہ آپ خود فرماتے ہيں ميں ايك طوفان ديكھ رہا ہوں كہ جس كى منھ زوريوں كو خون ہى روك سكتا ہے(۱۸) پھر آپ اپنى رائے مےں صحيح تھے اگر بنى ہاشم اور ان كے سردار حضرت على بن ابيطالبعليه‌السلام فداكارى اور صبر سے كام نہ ليتے تو اس طوفانى اختلاف كو كشت و خون كے علاوہ كوئي چيز خاموش نہيں كر سكتى تھى _

سقيفہ كے واقعات كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كا ردعمل

سقيفہ ميں جو اجتماع ہوا تھا وہ اس طرح اختتام پذير ہوا كہ انصار و مہاجرين مےں سے چند افراد نے ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لى اس كے بعد يہ مجمع مسجد كى جانب روانہ ہوا تاكہ وہاں عام مسلمان بيعت كر سكيں عمر اس مجمع مےں پيش پيش تھے اور راہ ميں جو بھى ملتا اس سے كہتے كہ وہ ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لے _(۱۹)

حضرت علىعليه‌السلام ابھى پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كے تكفين و تدفين مےں مشغول و منہمك تھے كہ لوگوں كے شورو غل كى صدائيں سنائي ديں اور صحيح واقعے كا اس كے ذريعے علم ہوا خلافت كى اہليت كے

۴۱

بارے ميں جب مہاجرين كى يہ حجت و دليل آپ كو بتائي گئي كہ انہوں نے اس بات پر احتجاج كيا كہ خليفہ خاندان قريش اور شجر نبوت كى شاخ ہو تو اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كہ انہوں نے تكيہ تو درخت پر ہى كيا ليكن اس كے پھل كو تباہ كر ڈالا _(۲۰)

حضرت علىعليه‌السلام كا دوسرا رد عمل پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے جسد مبارك كى تدفين كے بعد ظاہر ہوا _ حضرت علىعليه‌السلام مسجد مےں تشريف فرما تھے اس وقت بنى ہاشم كے افراد بھى كافى تعداد ميں وہاں موجود تھے بعض وہ لوگ جو ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر چكے تھے آپ كے اور افراد بنى ہاشم كے گرد جمع ہو گئے اور كہنے لگے كہ طائفہ انصار نيز ديگر افراد نے ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كر لى ہے آپ بھى بيعت كر ليجئے ورنہ تلوار آپ كا فيصلہ كرے گى _

حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں ان سے زيادہ بيعت كے لئے اہل وقابل ہوں تم لوگ ميرے ہاتھ پر بيعت كرو تم نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت كے باعث خلافت انصار سے لے لى اور انہوں نے بھى يہ حق تسليم كر ليا خلافت كے لئے ميرے پاس بھى دلائل موجود ہيں مےں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں ہى نہےں بلكہ رحلت كے وقت بھى ان كے سب سے زيادہ قريب و نزديك تھا ميں وصى ' وزير اور علم رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حامل ہوں ميں كتاب خدا اور سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بارے مےں سب سے زيادہ واقف و باخبر ہوں امور كے نتائج كے بارے ميں تم سے زيادہ جانتا ہوں ، ثبات و پائداراى مےں تم سے سب سے بہتر محكم و ثابت قدم ہوں اس كے بعد اب تنازع كس بات پر ہے؟(۲۱)

اس پر عمر نے كہا : آپ مانيں يا نہ مانيں ہم آپ كو بيعت كئے بغير جانے نہيں ديں گے حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں فيصلہ كن انداز ميں جواب ديتے ہوئے فرمايا كہ دودھ اچھى طرح دوہ لو اس مےں تمہارا بھى حصہ ہے آج خلافت كے كمر بند كو ابو بكر كيلئے مضبوط باندھ لو كل وہ تمہيں ہى لوٹا ديں گے _(۲۲)

اس وقت وہاں عبيدہ بھى موجود تھے انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ اے ميرے چچا زاد بھائي رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے آپ كى قرابت داري، اسلام ميں آپ كے سابق

۴۲

الاسلام ،اور اس كے مددگار اور آپ كى علمى فضيلت سے ہميں انكار نہيں ليكن آپ ابھى جو ان ہيں اور ابوبكر آپ ہى كے قبيلے كے معمر آدمى ہيں اس بار خلافت كو اٹھانے كيلئے وہ بہتر ہيں آپ كى اگر عمر نے وفا كى تو ان كے بعد خلافت آپ كو پيش كر دى جائي گى لہذا آپ اس وقت فتنہ و آشوب بپانہ كيجئے يہ آپ كو بخوبى علم ہے كہ عربوں كے دلوں ميں آپ كى كتنى دشمنى ہے _ (۲۳)

حضرت علىعليه‌السلام كا تيسرا رد عمل وہ تقرير تھى جو آپ نے مہاجرين و انصار كے سامنے فرمائي اسى تقرير كے دوران آپ نے فرمايا تھا '' اے مہاجرين و انصار خدا پر نظر ركھو اور ميرے بارے ميں تم نے جو پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے عہد و پيمان كيا تھا اسے فراموش نہ كرو حكومت محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم يہ كو ان كے گھر سے اپنے گھر مت لے جاؤ

تم يہ بات جانتے ہو كہ ہم اہل بيت اس معاملے مےں تم سے زيادہ حقدار ہيں _ كيا تم كسى ايسے شخص كو نہيں چاہتے جسے مفاہيم قرآن، اصول و فروع دين اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم پر عبور حاصل ہے تاكہ وہ اسلامى معاشرے كا بحسن و خوبى نظم ونسق برقرار كرسكے ميں خدائے واحد كو گواہ كركے كہتا ہوں كہ ايسا شخص ہم ميں موجود ہے اور تمہارے درميان نہيں ، نفسانى خواہشات كى پيروى مت كرو اور حق سے دور نہ ہوجائو نيز اپنے گذشتہ اعمال كو اپنى بد اعماليوں سے فاسد و كثيف نہ ہونے دو ''_

بشير بن سعد نے انصار كى ايك جماعت كے ساتھ كہا : اے ابوالحسن اگر انصار نے آپ كى يہ تقرير ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كرنے سے پہلے سن لى ہوتى تو دہ آدمى بھى ايسے نہ ہوتے جو آپ كے بارے ميں اختلاف كرتے_(۲۴)

علىعليه‌السلام نے كيوں عجلت نہيں كي؟

تاريخ كے اس حصے كا مطالعہ كرنے كے بعد ممكن ہے كہ يہ سوال سامنے آئے كہ اگر حضرت علىعليه‌السلام بھى دوسروں كى طرح امر خلافت ميں عجلت كرتے اور حضرت عباس و ابوسفيان كى تجويز مان ليتے

۴۳

تو شايد يہ منظر سامنے نہ آيا ہوتا اس بات كى وضاحت كے لئے يہاں اس بات كا واضح كردينا ضرورى ہے كہ آپ كى خلافت كا مسئلہ دو حالتوں سے خالى نہ تھا يا تو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ كو خداوند تعالى كے حكم سے اس مقام كے لئے منتخب كرليا تھا (اس پر شيعہ عقائد كے لوگوں كا اتفاق ہے) ايسى صورت ميں عوام كا بيعت كرنا يا نہ كرنا اس حقيقت كو بدل نہيں سكتا اور اگر بالفرض خلافت كے معاملے ميں امت كو اس كے فيصلے پر آزاد چھوڑديا تھا تو پھر كيوں حضرت علىعليه‌السلام لوگوں كے حق انتخاب كو سلب كرتے_ وہ امت كو اس حال پر چھوڑديتے كہ وہ جسے بھى چاہيں اپنا خليفہ مقرر كريں _

اس سے بھى زيادہ اہم بات يہ ہے كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جسد مبارك ابھى زمين كے اوپر ہى تھا ، حضرت علىعليه‌السلام پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وصى كے لئے ايسى صورت ميں يہ كيسے ممكن تھا كہ وہ جسد اطہر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زمين پر ركھے رہنے ديں اور خود اپنے كام كے چكر ميں نكل جائيں _

حضرت علىعليه‌السلام نے پہلے اپنا فرض ادا كيا پھر لوگوں كے سامنے تشريف لائے _ دوسرے بھى يہ بات جانتے تھے كہ اگر ايسے ميں حضرت عليعليه‌السلام تشريف لے آتے تو وہ ہرگز اپنے مقصد و ارادے ميں كامياب نہ ہوتے_ چنانچہ دوسروں نے امر خلافت كے سلسلے ميں عجلت كى اور حضرت علىعليه‌السلام كو اس وقت اطلاع دى جب كام تمام ہوچكاتھا_(۲۵)

۴۴

سوالات

۱_ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد كيا واقعہ پيش آيا اور وہ كس طرح رفع ہوا؟

۲_ زمانہ مستقبل ميں اسلام كى قيادت ورہبرى كے سلسلے ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى نظر ميں كونسى ممكن راہيں تھيں سب كى كيفيت بتايئے اور ہر ايك كا مقصد بيان كيجئے؟

۳_ اگر پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب سے كوئي شخص جانشين كى حيثيت سے منتخب نہ كيا گيا ہوتا تو مستقبل ميں اسلام كے لئے كيا خطرات لاحق ہوسكتے تھے مختصر طور پر لكھيئے؟

۴_ خلافت كے سلسلے ميں جس شورى كى تشكيل كى گئي تھى اسكى نفى كے لئے دو تاريخى شواہد و دلائل بيان كيجئے؟

۵_ امر خلافت ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے وصايت كو پيش نظر ركھا تھا اس ميں تاريخ و احاديث كى بنياد پر دو دليل پيش كيجئے؟

۶_ سقيفہ كا واقعہ كس طرح پيش آيا ، مہاجرين ميں سے وہاں كون لوگ موجود تھے وہ وہاں كس لئے پہنچے اور اس كا كيا نتيجہ برآمد ہوا؟

۷_ بيعت كے سلسلے ميں حضرت علىعليه‌السلام پر اپنے چچا عباس اور ابوسفيان كى تجاويز كا كيوں اثر نہ ہوا؟

۸_ واقعہ سقيفہ كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا رد عمل تھا؟

۴۵

حوالہ جات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام كى زندگى كے دوواقعات جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں پيش آئے وہ مختصر طور پر تاريخ عصر نبوت ميں بيان كرديئے گئے ہيں _

۲_ آل عمران ۱۴۴ _( وَمَا مُحَمَّدٌ إلاَّ رَسُولٌ قَد خَلَت من قَبله الرُّسُلُ أَفَإين مَاتَ أَو قُتلَ انقَلَبتُم عَلَى أَعقَابكُم ) (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول ہيں ان سے پہلے اور رسول گذر چكے ہيں اگر وہ مرجائيں يا قتل كرديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پائوں پلٹ جاؤ گے_

۳_ تاريخ طبرى ج ۳/۲۰۰ كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۳، شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۲۸_

۴_ سقيفہ كے لغوى معنى سايبان ہيں _ سقيفہ مدينہ ميں مسجد النبىصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ۶۰۰ قدم كے فاصلے پر باب السلام كے راستے ميں واقع ہے _ يہ جگہ بنى ساعدہ بن كعب خزرمى سے متعلق تھى _ لوگ اس سايبان كے نيچے اپنے معاملات كا فيصلہ كرنے كے لئے جمع ہوتے تھے بعد ميں يہ جگہ سقيفہ بنى ساعدہ كے نام سے مشہور ہوگئي_ (معجم البلدان ج ۳/ ۲۲۸)_

۵_ شرح نہج البلاغہ ابن ابى الحديد ج ۶/ ۵۱، المراجعات / ۲۶۰ _ ۲۵۹ منقول از صحيح بخارى و مسلم ، تاريخ ابى الفدا ج ۱/۱۵۱ائتونى بدواة وصحيفة اكتب لكم كتاباً لا تضلون بعده _

۶_ وامرہم شورى بينہم (سورہ شورى آيت ۳۸)_

۷_ حضرت ابوطالبعليه‌السلام و حضرت خديجہعليها‌السلام كى وفات كے بعد پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قبيلہ بنى عامر كے درميان سخت رنجش پيدا ہوگئي جس كے باعث قريش پہلے كى نسبت اب زيادہ آپ پر دبائو ڈالنے لگے نيز حملات كرنے كى كوشش كرنے لگے تھے_

۸_ سيرة ابن ہشام ج ۲ / ۶۶ ''الامر الى الله يضعه حيث يشائ''

۹_ گذشتہ فصل ميں حديث ثقلين كے علاوہ ديگر احاديث كا مختصر جائزہ لياجاچكا ہے اسى وجہ سے يہاں اس كے دوبارہ نقل كرنے سے گريز كيا گيا ہے_

۱۰ _ تاريخ اس امر كى گواہ ہے كہ خلفاء وقت نے جب كبھى ضرورت محسوس كى حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كيا اور آپ سے درخواست كى ان كى مشكلات حل كرنے ميں انكى مدد فرمائيں _ ان واقعات كى كيفيت آيندہ ابواب ميں بيان كى جائے گا_

۴۶

يہ حصہ كتاب تشيع مولود طبيعى اسلام ترجمہ التشيع والاسلام_ شہيد باقر الصدر سے ماخوذ ہے ص۲۸_

۱۱_ الامامة والسياسة ج ۱/ ۱۴_ ۳۱_

۱۲_ يہاں يہ بات بھى قابل ذكر ہے كہ ابوبكر كى تقرير كے بعد عمر نے بھى اپنے خيالات كا اظہار كيا اور كہا كہ ميں نے راستہ طے كرنے كے دوران كسى منصوبے يا لائحہ عمل كے بارے ميں غور و فكر نہيں كيا ہے سوائے اس كے جو ابوبكر نے بيان كيا ہے مجھے اس سے كلى اتفاق ہے اور جو كچھ انہوں نے اپنى زبان سے كہاہے بلكہ اس سے بھى سنے بہترما من شى كنت زرته فى الطريق الا انا به او باحسن منه _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۱۹ ، كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۷ _

۱۳_ طرح ہاى رسالت (ج ۱ / ۲۵۷ _ ۲۵۵)كا خلاصہ_

۱۴_ الامامة والسياسة (ج ۱/ ۲۱_۱۶)كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۹_ ۲۲۸)تاريخ طبرى (ج ۳/ ۲۲۰_ ۲۱۸)_

۱۵_ ان پانچ رائے ميں سے تين تو ابوبكر، عمر اور ابوعبيدہ كى تھيں اور انصار ميں سے دو رائے بشير ابن سعد واسيد بن حضير كى تھيں _ ان پانچ افراد كے علاوہ باقى لوگ اپنے سرداران قبائل كے تابع تھے_ چنانچہ ہر قبيلے كا سردار جو رائے ديتا اس قبيلے كے تمام افراد اس كى پيروى كرتے اور اپنى مرضى سے كوئي رائے نہ ديتے_

۱۶_ كامل ابن اثير ج ۲/ ۳۲۶ _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۰۹ ارشاد مفيد ۱۰۲_

۱۷_ تاريخ طبرى ج ۴/ ۲۳۰ _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱/ ۱۹۲_

۱۸_انى لارى عجاجةلا يطفئها الالدم _ شرح ابن ابى الحديد ج ۱۲/ ۴۴_ كامل ج ۲/ ۳۲۵ _ تاريخ طبرى ج ۳/ ۲۰۹_

۱۹_ شرح ابن ابى الحديد ج ۳/۲۰۹_

۲۰_ احتجوا بالشجرة واضاعوا الثمرة_ نہج البلاغہ خ ۶۶_

۲۱_ احتجاج طبرى ج ۱/۹۵ الامامة والسياسة ج ۱ / ۱۸_

۲۲_ احلب حلباً ہناك شطرہ وشد لہ اليوم ليرد عليك غداً_

۲۳_ الامامة والسياسة ج ۱ / ۱۸ شرح ابن ابى الحديد ج ۶/ ۱۲_۱۱_ احتجاج طبرسى ج ۱/ ۹۶ _

۲۴_ الامامة والسياسة ج ۱۹/ ۱۸ _ احتجاج طبرسى ج ۱/ ۹۶ _

۲۵_ ماخوذ از كتاب ''خلافت و ولايت'' /۶۳_

۴۷

تيسرا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۲

حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني

انصار سے مدد چاہنا

حساس صورت حال

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

معقول فوجى طاقت كى كمي

اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

جاہليت كى طرف بازگشت

كينہ توز دشمن

بيعت كا انجام

مسئلہ فدك

فدك پر قابض ہونے كے محركات

۱)مخالفين كو اپنى جانب متوجہ كرنا۲) جمع وخرچ كى مد ميں كمي

علىعليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

مخالفين كى سركوبي

شورش كا دباجانا

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

سوالات

حوالہ جات

۴۸

حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں پناہ گزيني

صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں ايسے پاك طينت لوگ بھى موجود تھے جنہوں نے ابوبكر كى بيعت نہيں كى تھي_ چنانچہ موصوف كو خليفہ بنائے جانے پر انہوں نے اعتراض كيا اور اس كے اظہار كے لئے انہوں نے پناہ گزينى كى راہ اختيار كى اور اس مقصد كے لئے بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر ميں جمع ہوگئے_

ان ميں سے بعض افراد كے نام مورخين نے اپنى كتابوں ميں درج كئے ہيں _(۱)

حضرت فاطمہعليه‌السلام كا گھر رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى حيات ميں خاص احترام كى نظر سے ديكھا جاتا تھا_ چنانچہ بنى ہاشم ' بعض مہاجرين اور اہل بيتعليه‌السلام كا آپ كے گھر ميں پناہ گزيں ہونے كا فطرى طور پر مقصد ہى يہ تھا كہ كوئي شخص زبردستى پناہ گزينوں كى بيعت كى غرض سے مسجد ميں لانہيں سكتا تھا _ بالاخر عمر كو ايك دستے كے ساتھ مقرر كيا گيا كہ وہ حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر پر جائيں اور پناہ گزينوں كو نكال كر باہر لائيں تاكہ وہ خليفہ كے ہاتھ پر بيعت كريں _ عمر ايك گروہ كے ساتھ حضرت فاطمہعليه‌السلام كے گھر كى جانب روانہ ہوئے اور بڑى كشمكش كے بعد حضرت علىعليه‌السلام كو باہر لايا گيا اور آپ كو مسجد لے گئے جہاں آپ كو مجبور كيا گيا كہ ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كريں ليكن حضرت علىعليه‌السلام اپنے ارادے پر قائم رہے_

جب ديكھا كہ حضرت علىعليه‌السلام اپنے عزم وارادے پر قائم ہيں تو لوگ بھى آپ سے دستكش ہوگئے_(۲)

۴۹

انصار سے مدد چاہنا

اس واقعے كے بعد حضرت علىعليه‌السلام اور حضرت فاطمہعليه‌السلام راتوں كو انصار كے گھر تشريف لے جاتے اور اہل بيت سے متعلق پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وصايا اور احاديث كى جانب توجہ دلاتے ہوئے ان سے مدد كے خواہاں ہوتے وہ لوگ جواب ميں كہتے اے بنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہم اس شخص كے ہاتھ پر بيعت كرچكے ہيں اگر تمہارے چچا كے بيٹے نے ابوبكر سے قبل ہم سے بيعت كرنے كے لئے كہا ہو تا تو ہم علىعليه‌السلام كے مقابل كسى دوسرے شخص كو ترجيح نہ ديتے_ اس پر حضرت علىعليه‌السلام فرماتے كيا عجيب بات ہے كيا تمہيں مجھ سے يہ توقع تھى كہ جنازہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو تكفين و تدفين كيئےغير اسے يونہى گھر ميں چھوڑ ديتا اور اس حكومت كو حاصل كرنے كى غرض سے' جو اس عظےم المرتبت انسان نے چھوڑى تھى ، كشمكش و تنازع ميں پڑجاتا ؟

فاطمہ زہراعليه‌السلام فرماتيں : ابوالحسن نے جو كچھ كيا وہ صحيح تھا اور لوگوں نے جو كچھ كيا ہے خدا ان سے باز پرس كرے گا _(۳)

حساس صورتحال

حضرت علىعليه‌السلام جس كيفيت وحالت سے گذر رہے تھے وہ بہت زيادہ حساس تھى كيونكہ آپ كو جو فرض سپرد كيا گيا تھا وہ نہايت ہى مشكل مگر بہت ہى عظےم واہم تھا_ ايك طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ خلافت واسلامى قيادت اصل راہ سے دور ہوگئي ہے جس كے باعث فطرى طور پر بہت سے حقوق پائمال ہوكر رہ جائيں گے_

دوسرى طرف آپ ديكھ رہے تھے كہ مسلمان چونكہ گروہوں ميں تقسيم ہوگئے تھے،اسى لئے ان ميں اختلافات بھى شروع ہوگئے ہيں _ اب ديكھنا يہ ہے كہ اس حساس حالت و كيفيت ميں حضرت علىعليه‌السلام كا كيا فرض ہے كيا داخلى موقع پرست جماعت كى خود غرضى پر مبنى حركات كو برداشت كركے سكوت اختيار كئے رہنا يا ان حالات كے خلاف سركشى اور كسى تحريك كا آغاز كرنا؟

۵۰

اگرچہ مسجد نبوى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميں مہاجرين و انصار كى موجودگى ميں حضرت علىعليه‌السلام اور آپ كے طرفداروں كى پند ونصےحت نيز روشن و واضح تقارير نے اس حقيقت كو آشكارا كردياتھا _ آپ كے سامنے اب دو ہى راہيں تھيں پہلى تو يہى كہ بغاوت كركے اپنا حق واپس لے ليا جائے اور دوسرى يہ كہ اسلام كے تحفظ كى خاطر سكوت اختيار كياجائے_

موجود قرائن ودلائل سے ثابت ہے كہ ان حالات ميں حضرت علىعليه‌السلام كے لئے قيام كرنا اسلام كے حق ميں ہرگز سود مند نہ تھا _ جس كا نتيجہ يہ ہوسكتا تھا كہ اسلامى معاشرہ منتشر ہوكر رہ جائے اور لاتعداد گروہ و افراد دين اسلام سے برگشتہ ہوكر واپس عہد جاہليت ميں اور ديگر خرافات كى جانب چلے جائيں _

قيام نہ كرنے كے دلائل اور وجوہات

حضرت علىعليه‌السلام نے مختلف مواقع پر جو تقارير كيں اگر ہم ان كا اور ان حالات كا جو اس وقت اسلامى معاشرہ پر مسلط و طارى تھے جائزہ ليں تو ہميں اس سوال كا جواب مل جائے گا كہ حضرت علىعليه‌السلام نے كيوں قيام نہيں كيا اب ہم ان نكات كو بيان كر رہے ہيں جن سے يہ باتيں روشن ہوجائےں گي_

۱_ معقول فوجى طاقت كى كمي

مندرجہ بالا سوال كا جواب ديتے ہوئے خود حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا تھا:

امر خلافت ميں ميرى كوتاہى موت كے خوف كى وجہ سے نہيں تھى بلكہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے فرمان كے مطابق تھى كيونكہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ امت نے تجھ سے خيانت كى ہے ، انہوں نے مجھ سے جو عہد كيا ہے اسے وہ وفا نہيں كريں گے_ درحاليكہ تم ميرے لئے ايسے ہى ہو جيسے حضرت موسىعليه‌السلام

۵۱

كے لئے حضرت ہارون عليه‌السلام تھے_

اس كے بعد آپ نے مزيد فرمايا كہ ميں نے سوال كيا كہ ايسى حالت ميں مجھے كيا كرنا چاہيئے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمايا تھا كہ اگر كوئي ايسا شخص مل گيا جو تمہارى مدد كرے تو تم ان سے جنگ وجدال كرنا اور اپنا حق حاصل كرلينا اگر ايسا نہ ہوا تو تم اس خيال سے در گذر كرنا ، اپنى خون كى حفاظت كرنا تاكہ تم ميرے پاس مظلوم آؤ _(۴)

آپ نے ايك جگہ اور بھى اس تلخ حقيقت كى صراحت كرتے ہوئے فرمايا تھا: اگرمجھے چاليس با عزم افراد مل جاتے تو ميں اس گروہ كے خلاف انقلاب اور جنگ و جدال كرتا_(۵)

ايك جگہ آپ نے يہ بھى فرمايا تھا كہ ميں نے اپنے اطراف ميں نظر ڈالى اور ديكھا كہ جز ميرے اہل بيتعليه‌السلام كے ميرا كوئي يار ومددگار نہيں مجھے يہ گوارانہ ہوا كہ انہيں موت كے منہ ميں دے دوں _(۶)

۲_ اسلام اور اسلامى وحدت كا تحفظ

وہ نو مسلم عرب جن ميں سے دور جاہليت كے رسم ورواج كى عادت و خوا بھى مكمل طور پر ختم نہيں ہوئي تھى اور جذبہ ايمان واسلامى عقيدہ ان كے دلوں ميں پورے طور پر راسخ نہيں ہوا تھا انہيں مد نظر ركھتے ہوئے ہر قسم كى داخلى جنگ مسلمانوں كى طاقت كے انحلال اور اسلام كے انہدام كا باعث ہوتى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ ''اہل ردہ'' نے جزيرہ العرب كے اطراف ميں مركزى حكومت كے خلاف اپنا پرچم لہرادياتھا(۷) ان كے علاوہ ايران اور روم كى دو شاہنشاہى طاقتيں اس موقع كى تلاش ميں تھيں كہ قائم شدہ حكومت سے برسر پيكار ہوں اگر حضرت علىعليه‌السلام ان متزلزل مسلمانوں اور بيرونى دشمنوں كو پيش نظر ركھتے ہوئے بھى تلوار كا سہارا ليتے اوراپنا حق حاصل كرنے كى خاطر ابوبكر سے جنگ وجدال كرتے تو نوعمر اسلامى طاقت اور مركزيت كو مدينہ ميں نقصان پہنچتا اور اسلام كو نيست ونابود كرنے كى غرض سے بيرونى طاقتوں كے لئے يہ بہترين

۵۲

موقع ہوتا شايد يہى وجہ تھى كہ سقيفہ كے واقعات سے متعلق آپ نے جو تقرير كى تھى اس ميں اتحاد كى اہميت اور تفرقہ اندازى كے برے نتائج كى جانب اشارہ كرتے ہوئے فرمايا تھا: فتنے كى امواج كو نجات كى كشتيوں سے چاك كردو، اختلاف پيدا كرنے سے گريز كرو ، فخر فروشى كى علامات كو سرسے اتار دو ، ميرى خاموشى كا سبب ميرى وہ دانش وباطنى آگاہى ہے جس ميں ميں غرق ہوں اگر تم بھى ميرى طرح باخبر ہوتے تو كنويں كى رسى كى مانند مضطرب و لرزاں ہوجاتے_ (۸)

۳_ جاہليت كى طرف بازگشت

قرآن مجيد ميں ايك آيت اس امر كى جانب اشارہ كر رہى تھى كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد ايك گروہ واپس دور جاہليت كى طرف چلاجائے گا چنانچہ فرماتا ہے :( فان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ) _(۹)

اس آيت مباركہ كى روشنى ميں پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو اسلامى معاشرہ كى آيندہ زندگى كے بارے ميں سخت تشويش تھى _ سقيفہ ميں جو واقعہ پيش آيا اس كا جائزہ لياجائے تو يہ بات واضح ہوجائے گى اس روز كس طرح يہ راز روشن عياں ہوگيا اور ايك بار پھر قبائلى تعصبات اور دور جاہليت سے متعلق افكار و خيالات دونوں جانب سے تقارير كے دوران اشارہ و كنايہ ميں نماياں ہوگئے_

اس كے عالوہ قبائل ميں سے بعض گروہ جو كچھ عرصہ قبل ہى مسلمان ہوئے تھے، رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خبر رحلت سنتے ہى مرتد ہوگئے اور اپنے آبا واجدا كے دين كى طرف واپس چلے گئے اور مركزى حكومت كى مخالفت شروع كردي_

دوسرى طرف ''مسيلمہ'' ، ''سجاح'' اور ''طليحہ '' نے بھى نجد ويمامہ كے علاقوں ميں اپنى نبوت كا دعوا كركے دوسرا پرچم لہراديا اور كچھ لوگوں كو بھى اپنے گرد جمع بھى كرليا_

اگرچہ حضرت علىعليه‌السلام حق بجانب تھے مگر اس وضع وكيفيت كو ديكھتے ہوئے كيا يہ زيبا تھا كہ اپنا پرچم لہراكر انقلاب وقيام كا اعلان كرديں ؟ چنانچہ حضرت علىعليه‌السلام نے اہالى مصركو جو خط لكھا تھا اس ميں آپ

۵۳

نے اس نكتے كى جانب اشارہ فرمايا تھا ميں نے ديكھا ہے كہ لوگوں ميں ايك گروہ دين اسلام سے برگشتہ ہوگيا ہے اور وہ اس فكر ميں ہے كہ آئين محمدى صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو نيست ونابود كردے ، مجھے يہ خوف محسوس ہواكہ اگر ميں اسلام اور اہل اسلام كى مدد نہ كروں تو مجھے اس بات كے لئے بھى تيار رہنا چاہيئے كہ اسلام كى تباہى كا منظر اپنے آنكھوں سے ديكھوں دنيا كى حكومت چند روزہ ہے جو سراب يا ابر كى طرح سرعت سے گذر جانے والى ہے _ اسلام كى تباہى اس حكومت كے ترك كرنے سے زيادہ مجھ پر شاق والمناك گذرے گى _(۱۰)

۴_ كينہ تو ز دشمن

حضرت علىعليه‌السلام كے مسلمانوں ميں ہى بہت سے دشمن موجود تھے اور يہ وہ لوگ تھے جن ميں سے كسى كا باپ ' كسى كا بھائي يا كوئي دوسرا قرابت دار جنگ كے دوران آپ كے ہاتھوں مارا گيا تھا اور يہ دشمنى وكينہ توزى ان كے دلوں ميں اسى وقت سے چلى آرہى تھي_

ايسے حالات ميں جب كبھى حضرت علىعليه‌السلام نے مسلح ہوكر قيام كيا اور اپنا حق طلب كرنے كى كوشش كى تو يہى دشمن فريب ونفاق كو ہوا دينے لگتے اور يہ كہتے پھرتے كہ علىعليه‌السلام نے مسلمانوں كے درميان رخنہ پيدا كرديا ہے اور دين كے نام پر جنگ و پيكار بر اتر آئے _اگر حضرت علىعليه‌السلام نے ان سے جنگ كى ہوتى تو اس كے يہ نتائج نكل سكتے تھے_

ممكن تھا كہ جنگ كے ابتدائي چند لمحات ميں ہى آپعليه‌السلام كے بہت سے عزيز و ہمدرد تہ تيغ كئے جاتے اور پھر بھى حق حقدار كو نہ ملتا_

جب آپ كے دوست خير خواہ تہ تيغ كرديئے جاتے تو مخالفين كا قتل ہونا بھى فطرى امر تھا اور اس كا مجموعى نتيجہ يہ ہوتا كہ مركز ميں مسلمانوں كى طاقت رو بزوال ہونے لگتي_

اور جب مركزى طاقت كمزور ہونے لگتى تو وہ قبائل جو مركز سے دور تھے اور جن كے دلوں ميں دين اسلام نے پورى طرح رسوخ نہيں كيا تھا ، مرتدين كى صفوں ميں جاملتے اور شايد ان كے طاقتور ہونے اور مركز ميں رہبر كى زبونى كے باعث اسلام كے چراغ كى روشنى ماند پڑنے لگتي_

۵۴

بيعت كا انجام

اكثر مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے حضرت فاطمہعليه‌السلام كى رحلت تك ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت نہيں كي_(۱۱)

حضرت فاطمہ(سلام عليہا) كى وفات كے بعد جب آپعليه‌السلام نے لوگوں كى بے رخى اور مسلمانوں كى پريشان حالى كا مشاہد ہ كيا تو آپعليه‌السلام نے اسلام اور مسلمانوں كى خاطر خاموشى اختيار كرنے ميں ہى مصلحت سمجھى مگر اس كے باوجود يہ تلخ واقعات آپعليه‌السلام كے دل سے كبھى محو نہ ہوسكے اور ہميشہ ان دنوں كو ياد كركے شكوہ و شكايت كرتے تھے_

چنانچہ خطبہ''شقشقيہ '' ميں فرماتے ہيں : ''فرائت ان الصبر على ہاتااحجى فصبرت وفى العين قذى و فى الملق شجا''(عقل اور اس فرض كے مطابق جس كا پورا كرنا مجھ پر واجب تھا) مجھ پر يہ بات واضح و روشن تھى كہ ميرے لئے صبر و شكيبائي كے علاوہ كوئي چارہ نہيں لہذا ميں نے صبر وتحمل سے كام ليا مگر اس طرح گويا ميرى آنكھ ميں خار اور گلے ميں ہڈى اٹك گئي ہو_(۱۲)

مسئلہ فدك

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كو ابھى دس دن بھى نہ گذرے تھے كہ حضرت فاطمہعليه‌السلام كو يہ خبر ملى كہ خليفہ كے كارندوں نے ان كے كام كرنے والوں كو ''فدك'' سے باہر نكال ديا ہے اور اس كے تمام كاموں كو اپنے اختيار ميں لے ليا ہے_

بنت رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اس زمين كو حاصل كرنے كى غرض سے بنى ہاشم كى خواتين كے ہمراہ خليفہ كے پاس گئيں اس وقت ابوبكر اور حضرت فاطمہعليه‌السلام كى درميان جو گفتگو ہوئي وہ ذيل ميں درج ہے:

حضرت فاطمہعليه‌السلام : تم نے ميرے كارندوں كو ''فدك'' سے كيوں باہر نكالا اور مجھے ميرے حق سے محروم كيا ؟

خليفہ: ميں نے آپ كے والد سے سنا ہے كہ پيغمبركوئي چيز ميراث ميں نہيں چھوڑتے_

۵۵

حضرت فاطمہ عليه‌السلام : فدك كى زمين ميرے والد نے اپنے زمانہ حيات ميں مجھے بخش دى تھى اور اس وقت اس كى مالك ميں ہى تھي_

خليفہ: آپ كے پاس اس دعوے كے ثبوت ميں كيا شاہد و گواہ موجود ہيں ؟

حضرت فاطمہعليه‌السلام : ہاں ميرے شاہد وگواہ علىعليه‌السلام اور ام ايمن ہيں چنانچہ ان حضرات نے حضرت زہراعليه‌السلام كى درخواست پر يہ شہادت دى كہ آپعليه‌السلام پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانہ حيات ميں اس كى مالك تھيں _(۱۴) بعض مورخين نے يہ بھى نقل كيا ہے كہ حضرت امام حسنعليه‌السلام و حضرت امام حسينعليه‌السلام نے بھى گواہى دي_(۱۵)

فخر رازى نے يہ قول نقل كيا ہے كہ : پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے غلاموں ميں سے ايك غلام نے بھى حضرت فاطمہعليه‌السلام كے مالك ہونے كى گواہى دى بلاذرى نے اس غلام كے نام كے تصريح بھى كى ہے اور لكھا ہے كہ اس كا نام ''رباح'' تھا_( ۱۶)

جب يہ گواہياں گذر گئيں تو حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ كو ان (ابوبكر)كى خطاء كى طرف متوجہ كيا (كيونكہ خليفہ نے گواہى اس شخص سے طلب كى تھى جس كے تصرف ميں فدك تھا اور متصرف (قابض) سے گواہى مانگنا اسلامى ميزان و عدل كے سراسر خلاف ہے) اور فرمايا كہ اگر ميں اس مال كا دعويدار ہوں جو دوسرے كے قبضے ميں ہے تو آپ گواہ كس سے طلب كريں گے مجھ سے كہ مدعى ہوں يا اس سے جس كے تصرف ميں مال ہے؟

ابوبكر نے كہا كہ آپ گواہ پيش كريں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ فدك ہمارے تحت تصرف ہے اور اب دوسروں نے يہ دعوى كيا ہے كہ يہ اموال عامہ ہيں ايسى صورت ميں وہ گواہ پيش كريں ناكہ ہم(۱۷)

خليفہ نے حضرت علىعليه‌السلام كى اس دليل پر سكوت اختيار كيا اور حلبى كے قول كے مطابق انہوں نے بذريعہ تحرير اس بات كى تصديق كى كہ فدك حضرت فاطمہ زہراعليه‌السلام كى ملكيت ہے _ ليكن عين اسى وقت عمر وہاں پہنچ گئے اور دريافت كيا كہ يہ كيسا مكتوب ہے ؟ اس پر ابوبكر نے كہا كہ ميں نے اس ورق

۵۶

پر تصديق حق مالكيت حضرت فاطمہ عليه‌السلام كى ہے عمر نے كہا كہ فدك سے جو آمدنى ہوگى اس كى تو آپ كو ضرورت ہے كيونكہ عرب مشركين نے اگر كل كہيں مسلمانوں كے خلاف بغاوت كردى تو آپ جنگ كے اخراجات كہاں سے مہيا كريں گے_

چنانچہ اس نے ابوبكر سے ورق ليا اور چاك كرديا_(۱۸)

فدك پر قابض ہونے كے محركات

خليفہ كى جانب سے فدك پر قابض ہونے كے جو مختلف محركات تھے ان كى كيفيت ذيل ميں درج ہے:

۱_ مخالفين كو اپنے جانب متوجہ كرنا

خليفہ وقت نے اس بات كو بخوبى سمجھ ليا تھا كہ وہ عوام پر اس وقت تك اپنى فرمانروائي قائم نہيں كرسكتے تاوقتى كہ وہ اپنے مخالفين كو اپنا ہمنوا و ہمخيال نہ بناليں اور مختلف طريقوں سے جب تك ان كے افكار و قلوب كو اپنى جانب متوجہ نہ كريں گے ان دستوں پر حكمرانى كرتے رہنا ان كے لئے مشكل ہوگا_

بااثر افراد اشخاص ميں سے ايك ابوسفيان كہ جس كے اعتقاد كو بدلا جاسكتا تھا كيونكہ سقيفہ كا واقعہ جب پيش آيا تو اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے بيعت لينے كى تجويز پيش كى تھى نيز مسلح ہوكر قيام كرنے كو دعوت دى تھى اور(بنى ہاشم سے خطاب كرتے ہوئے) كہاتھا كہ آپ لوگ اٹھيں اور زمام امور اپنے ہاتھ ميں ليں تو ميں مدينہ كو سوار وپيادہ فوج سے بھردوں گا_(۱۹) ليكن يہ شور و غل ابتدائي چند روز تك برقرار رہا اس كے بعد ختم ہوگيا_

خليفہ وقت نے ابوسفيان كى خوشنودى حاصل كرنے كى غرض سے وہ دولت جو بيت المال و زكات كے نام پر جمع كركے لائے تھے ، اسے بخش دى اس كے علاوہ اس كے لڑكے يزيد كا بھى

۵۷

انہوں نے سپاہ اسلام كے فرماندار كى حيثيت سے شام كے علاقے فتح كرنے كے لئے انتخاب كيا اور بالآخر اسے عالم اسلام كے شاداب ترين علاقے يعنى شام كا فرمانروا مقرر كرديا جس وقت يہ خبر ابوسفيان كو پہنچى اس نے كہا ابوبكر نے صلہ رحم كيا ہے_(۲۰)

جن افراد كى خوشنودى حاصل كرنا خليفہ كيلئے ضرورى تھى وہ بہت سے افراد تھے_ اور بہت سے افراد مہاجرين اور انصار ميں سے ايسے تھے جو سقيفہ ميں موجود نہيں تھے يا بعد ميں جنہوں نے مجبوراً خليفہ كى بيعت كى تھى ان كا شمار بھى اس زمرے ميں تھا_

اس كے علاوہ خزرجى قبيلے كے لوگوں نے چونكہ پہلے دن بيعت نہيں كى تھى ان كى دلجوئي بھى خليفہ كے لئے ضرورى تھى يہى نہيں بلكہ انصار كى خواتين بھى خليفہ كے عطيات سے بے بہرہ نہ رہيں _(۲۱)

۲_ جمع وخرچ كى مد ميں كمي

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے پاس جو كچھ اثاثہ و سرمايہ تھا اسے آپ نے رحلت سے قبل تقسيم كرديا اور رحلت كے بعد آپ كے جو بھى نمايندگان مدينے پہنچے وہ بھى اس شہر ميں مختصر پونچى لے كر داخل ہوئے مگر يہ قليل آمدنى نئي قائم شدہ حكومت كى نظر ميں كافى نہ تھى بالخصوص ان حالات ميں جب كہ اطراف كے قبائل نے مخالفت كا پرچم لہرا ديا تھا اور مركزى حكومت كو زكات دينے ميں پس وپيش كررہے تھے_

۳_ علىعليه‌السلام كى اقتصادى قوت كے باعث خطرے كا احتمال

قيادت ورہبرى كى جو شرائط ہوسكتى ہيں وہ سب حضرت علىعليه‌السلام ميں موجود تھےں او رمالى اعتبار سے بھى اگر آپ كى حالت قوى ہوتى تو فطرى طور پر ضرورت مند افراد آپ كے گرد جمع ہونے لگتے چنانچہ ممكن تھا كہ افراد كايہ اجتماع خلافت كى مشينرى كے لئے كوئي مسئلہ پيدا كرديتا_

۵۸

مخالفين كى سركوبي

اپنى خلافت كے ابتدائي دنوں ميں ابوبكر كے سامنے جو مشكلات آئيں ان ميں سے ايك يہ تھى كہ بعض مسلمان مرتد ہوگئے تھے ان كا مقابلہ كرنے كى غرض سے خليفہ نے جنگ كا حكم ديا اور ان سے جنگ كرنے كے لئے سپاہى روانہ كيئے_

يہاں يہ سوال پيدا ہوتا ہے كہ وہ لوگ جو ابوبكر كے دور خلافت ميں ''اہل ردّہ'' كے نام سے مشہور ہوئے تھے كيا واقعى وہ اسلام سے برگشتہ ہوگئے تھے يا محض اس لئے كہ انہوں نے حكومت وقت كے سامنے چونكہ اپنا سر خم نہيں كيا تھا اس لئے انہيں مرتد كہہ كر بدنام كرديا گيا در حاليكہ وہ اصلى و حقيقى اسلام پر كاربند تھے؟

اس سوال كى وضاحت كے لئے يہ بتانا ضرورى ہے كہ : لفظ ارتدادكا مادہ ''ردد'' ہے اور اس كے معنى ہيں واپس ہوجانا' عرف عام اور مسلم فقہاء كى اصطلاح ميں اس كے معنى دين سے پھر جانا ہے اور يہ ضرورى نہيں كہ لفظ دين اس كے ساتھ استعمال ہو _ اب بھى ردد اور ارتداد كے معانى دين سے پھر جانا كے ہے _

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جان سوز خبر رحلت جب پھيلى تو بعض وہ لوگ جو كچھ عرصہ قبل ہى مسلمان ہوئے تھے اور دور دراز مقامات پر آباد تھے تردد ميں مبتلا ہو كر دين سے برگشتہ ہوگئے اور بالخصوص اس وقت جبكہ مشركين ميں ہمت و حوصلہ پيدا ہونے لگا تھا اور وہ اسلام كے خلاف بر سر پيكار ہونے كے لئے زيادہ سنجيدگى سے سوچنے لگے تھے_

ليكن اطراف وجوانب كى باقى مسلمانوں كى نگاہيں مركز پر لگى ہوئي تھيں اور وہ اس بات كا انتظار كر رہے تھے كہ ديكھيں جانشينى كا مسئلہ كہاں جاكر ختم ہوتا ہے چنانچہ جب انہيں اس واقعے كى اطلاع ملى كہ بعض افراد نے سقيفہ بنى ساعدہ ميں ابوبكر كے ہاتھ پر بيعت كرلى مگر بعض قبائل كے لوگوں نے جن ميں بنى ہاشم اور ان كے سربراہ حضرت علىعليه‌السلام چند صحابہ رسول مقبولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور قبيلہ خزرج كے سردار (سعد بن عبادہ) نے بيعت كرنے سے انكار ركرديا ہے_

۵۹

مدينہ ميں مسئلہ خلافت پر جو كشمكش ہوئي اس كے باعث كچھ عرب قبائل سقيفہ ميں ابوبكر كے ہاتھ پر كى جانے والى بيعت كى مخالفت پر اتر آئے اور انہيں حكومت وقت كو زكات ادا كرنے ميں تامل ہوا (كيونكہ زكات اس شخص كو دى جاسكتى تھى جسے متفقہ طور پر خليفہ وقت تسليم كرليا گيا ہو)جس كا سبب قانون زكات سے منكر ہونا نہ تھا كيونكہ اس كى ادائيگى كو وہ جزو دين سمجھتے تھے بلكہ اس كا اصل سبب يہ تھا كہ حكومت جيسے شاندار منصب كے لئے اس شخص كو جوپيغمبر اكرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا جانشين كہلائے جانے كا بھى مستحق نہيں تھا ، اسے متفقہ طور پر تسليم نہيں كيا گيا تھا_

ابوبكر نے خالد بن وليد كى سركردگى ميں چند سپاہى زكات وصول كرنے كى غرض سے روانہ كئے اور يہ ہدايت دى كہ اگر لوگ زكات نہ ديں تو ان سے جنگ كى جائے _ ابن ماجہ كے علاوہ اہل سنت كے ديگر تمام محدثين نے ابوہريرہ سے نقل كيا ہے كہ عمر نے اس مسئلہ پر ابوبكر سے اختلاف كيا اور كہا كہ آپ كيوں بے سبب لوگوں كا خون بہانے پرتلے ہوئے ہيں درحاليكہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے تو يہ فرمايا ہے كہ ميں اس كام كے لئے مامور كيا گيا ہوں كہ لوگوں سے اس وقت تك جنگ كر تا رہوں جب تك وہ شہادين نہ كہہ ليں ، مگر اس كے بعد ان كا خون نيز ان كا مال قابل احترام ہے_ اس پر ابوبكر نے فرمايا قسم ہے خدا كى كہ اگر لوگ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو زكات ميں خواہ اونٹ كى رسى ہى ديتے تھے مگر مجھے نہ ديں گے اور نماز وزكات كے درميان تفرقہ ڈاليں گے تو ميں ان سے جنگ كروں گا _ يہ سن كر عمر نے كہا كہ ميں نے ديكھا ہے كہ خداوند تعالى نے ابوبكر كا سينہ قتال(جنگ وپيكار) كے لئے فراخ كرديا ہے اور ميں نے جان ليا ہے كہ وہ حق بجانب ہےں _(۲۲)

جامعة الازہر كے استاد دانشكدہ ادبيات عالم متبحر حسن(۲۳) ابراہيم حسن فرماتے ہيں كہ ابوبكر جن لوگوں سے اس بنا پر جنگ كررہے تھے كہ وہ مرتد ہوگئے تھے در حقيقت ان ميں سے كوئي بھى مرتد نہيں ہوا تھا وہ لوگ دين اسلام سے نہيں پھرے تھے بلكہ حكومت سے ان كے اختلاف كا سبب كچھ اور تھا_(۲۴)

اس كے بعد ابوبكر كى ان لوگوں سے جنگ كے محرك كے متعلق لكھتے ہيں خليفہ نے مرتدين

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رسول(ص) جزیرہ عرب کے شمالی علاقہ کے سرداروں کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ طرفین میں سے کوئی بھی کسی پر حملہ و زیادتی نہیں کرے گا ۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خالد بن ولید کو دومة الجندل کی طرف بھیجا کیونکہ وہاں کے سرداروں سے یہ خوف تھا کہ وہ دوسرے حملہ میں کہیں روم کا ساتھ نہ دیں مختصر یہ کہ مسلمانوں نے وہاں کے حاکم کو گرفتار کر لیا اور بہت سا مال غنیمت ساتھ لائے۔( ۱ )

رسول(ص) کے قتل کی کوشش

مقام تبوک میں دس بارہ روز گزارنے کے بعد رسول(ص) اور مسلمان مدینہ کی طرف واپس لوٹے جن لوگوں کا خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہیں تھا ان کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ کیا اور انہوں نے رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور یہ منصوبہ بنایا کہ جب آپ(ص) کا ناقہ ان کے پاس سے گذرے گا تو اسے بھڑکا دیں گے تاکہ آپ(ص) کو گھاٹی میں گرا دے۔

جب یہ لشکر-مدینہ و شام کے درمیان-مقام عقبہ پر پہنچا تو رسول(ص) نے یہ فرمایا:''من شاء منکم ان یاخذ بطن الوادی فانه اوسع لکم'' جو تم میں سے وادی کے بیچ سے جانا چاہتا ہے وہاں سے چلا جائے کہ وہ تمہارے لئے زیادہ کشادہ ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے وادی کا راستہ اختیار کیا اور آپ(ص) عقبہ والے راستہ پر چلتے رہے، حذیفہ بن یمان آپ(ص) کے ناقہ کی مہارپکڑے ہوئے تھے اور عمار یاسر اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے، رسول(ص) نے چاند کی روشنی میں کچھ سواروں کو دیکھا جو اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے اور پیچھے سے آہستہ آہستہ ناقہ کی طرف بڑھ رہے تھے، یہ دیکھ کر رسول(ص) کو غیظ آگیا آپ(ص) نے انہیں پھٹکارا اور حذیفہ سے فرمایا: ان کی سواریوں کے منہ پر مارو ! اس سے ان پر رعب طاری ہو گیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کو ہمارے دل کی حالت کا علم ہو گیا اور ہماری سازش بے نقاب ہو گئی لہذا وہ دیکھتے ہی دیکھتے عقبہ سے بھاگ گئے تاکہ لوگوں میں گم ہو جائیں اور ان کی شناخت نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۶ بحار الانوارج۲۱ص۲۴۶۔

۲۰۱

حذیفہ نے رسول(ص) سے درخواست کی کہ کسی کو ان کے تعاقب میں بھیج کر انہیں قتل کرا دیجئے کیونکہ انہوں نے ان کی سواریوں کو پہچان لیا تھا لیکن رسول(ص) رحمت نے انہیں معاف کر دیا اور ان کے معاملہ کو خدا پر چھوڑ دیا۔( ۱ )

جنگ تبوک کے نتائج

۱۔مسلمان ایک بڑی منظم طاقت بن کر ابھرے، ایسی قوت جو مضبوط عقیدہ کے حامل کو ملتی ہے، اس سے مضافات کی حکومتوں اور دیگر ادیان کو خوف لاحق ہوا یقینا اسلامی شہروں سے باہر، اور ان کے اندر کی طاقتوں کے لئے یہ حقیقی خطرہ تھاجس سے بچنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو نہ چھیڑیں۔

۲۔ مسلمانوں نے شمال کے علاقے کے سرداروں سے معاہدہ کرکے اس علاقہ کو محفوظ بنا لیا تھا۔

۳۔ اسلحہ و تعداد کے لحاظ سے بڑی فوج تیار کرکے مسلمانوں نے اپنی طاقت سے استفادہ کیا، تنظیم و آمادگی کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ ہوا، تبوک کی طرف یہ سفر میدان مبارزہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے مرادف تھا تاکہ آئندہ اس سے استفادہ کریں۔

۴۔ غزوہ تبوک مسلمانوں کی روحانیت و معنویت کا امتحان اور منافقین کو مسلمانوں سے جدا کرنے کے لئے تھا۔

۵۔ مسجد ضرار

یقینارسول(ص) آسان شریعت اور دینِ توحید لائے تھے، خدائی دستورات کے مطابق صالح اور صحیح سالم معاشرہ وجود میں لانے کے لئے ، سر فروشانہ طریقہ سے کوشاں تھے، انسان کو شرک کی نجاست، شیطانی وسوسوں ،نفسیاتی بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے ،آپ(ص) نے بہت رنج و غم اٹھائے اور آپ کومتعدد جنگیں لڑنا پڑیں۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص۱۰۴۲، مجمع البیان ج۳ ص ۴۶، بحار الانوار ج۲۱ ص ۲۴۷۔

۲۰۲

بعض منافقین کے دل میں بغض وحسد کی چنگاری بھڑک اٹھی اور انہوں نے مسجد ''قبا'' کے مقابلہ میں ایک مسجد بنا ڈالی اور یہ ظاہر کیا کہ اس میں، ضرورت مند بارش وغیرہ کی راتوں میں نماز پڑھا کریںگے وہ رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور یہ درخواست کی کہ اس مسجد میں نماز پڑھئے اس سے ان کا مقصد اپنے عمل پر شریعت کی مہرلگوانا تھا، چونکہ رسول(ص) تبوک کی طرف روانگی کیلئے، تیاری کررہے تھے اس لئے ان کی درخواست منظور کرنے میں آپ(ص) نے تاخیر کی ، جب تبوک سے واپس تشریف لائے تو خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھئے گا، کیونکہ اس سے مسلمان میں تفرقہ پڑجائیگا اور امت کو نقصان پہنچے گا کتنا فرق ہے ان دو مسجدوںکے درمیان جن میں سے ایک کی بنیاد تقوے پر رکھی گئی ہے اور دوسری مسلمانوںکو نقصان پہنچا نے کے لئے بنائی گئی ہے اسی بنا پر رسول(ص) نے اسے منہدم کرنے کا حکم دیدیا۔( ۱ )

۶۔ وفود کا سال

جزیرہ نمائے عرب پر اسلام کا اقتدار مسلم ہو گیا، رسول(ص) قوت اور جنگ کا سہارا مجبوری میں ڈرانے کے بعد لیتے تھے مسلمانوں کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں، شرک کی طاقتیں حق کو نہیں سمجھتی تھیں وہ طاقت کے استعمال اور ڈرانے دھمکانے سے ہی راہ راست پہ آئی تھیں۔

جب مسلمان اپنی حکومت کے پائے تخت-مدینہ منورہ-واپس لوٹ آئے تو رسول(ص) نے کچھ دستے روانہ کئے تاکہ وہ شہروں کو شرک و بت پرستی کے مرکزوں سے پاک کریں۔

مسلمانوں کی طاقت اور ان کی پے در پے فتح سے جزیرہ نما عرب کے سردار اسلام کی ندا کھلے کانوں سن رہے تھے اور اس کے مقاصد و ہدایت کو بخوبی سمجھ رہے تھے لہذا ان کے وفود مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ رسول(ص) کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کریں، اس لئے اس سال کو ''عام الوفود'' کہتے ہیں۔( ۲ ) رسول(ص) ان ک

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲۰ ص ۵۳۰، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۵۳۔

۲۔ سیرت نبویہ، ابن ہشام: ہجرت کے نویں سال میں اس کا ذکر کیا ہے اور اسے سنة الوفود کے نام سے یاد کیا ہے ۔

۲۰۳

استقبال کرتے تھے ان کے ساتھ نیکی کرتے تھے اور ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجتے تھے جو انہیں قرآن اور شریعت اسلام کے فرائض کی تعلیم دیتا تھا۔

قبیلۂ ثقیف کا اسلام لانا

خدائی فتح و نصرت نے ہر شخص پر یہ فرض کر دیا کہ وہ اپنے امور کے بارے میں غور کرے اور اسلام کے سلسلہ میں اپنی عقل کو حاکم بنائے۔ یہ رسول(ص) کی حکمتِ بالغہ تھی کہ جب طائف والوں نے اپنے شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا تو رسول(ص) نے فتح طائف کے لئے مہلت دیدی تھی اور آج وہ خود اپنے وفود بھیج رہے ہیں تاکہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں جبکہ پہلے انہوں نے شدید دشمنی اور مخالفت کی تھی اور اپنے سردار، عروہ بن مسعود ثقفی کو اس جرم میں قتل کر دیا تھا کہ وہ خود اسلام قبول کرکے ان کے پاس گیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔

رسول(ص) نے ثقفی وفد کو خوش آمدید کہا، مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ان کے لئے ایک خیمہ نصب کر دیااور ان کی میزبانی کے فرائض خالد بن سعید کے سپرد کئے۔ اس کے بعد انہوں نے رسول(ص) سے چند شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں گفتگو کی وہ شرطیں یہ تھیں: کچھ زمانہ تک ان کے قبیلے کا بت نہ توڑا جائے، آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ خالص توحید کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں ہے ان لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنی شرطیں ختم کر دیں بعد میں انہوں نے یہ کہا: ہم اسلام قبول کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات سے معاف رکھا جائے کہ اپنے بت خود توڑیں اسی طرح یہ شرط بھی رکھی کہ ہمیں نماز سے معاف رکھا جائے رسول(ص) نے فرمایا:''لا خیر فی دین لا صلٰوة فیه'' اس دین کا کیا فائدہ جس میں نماز نہیں۔ مختصر یہ کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ وفد ایک مدت تک رسول(ص) کے ساتھ رہا اور احکام دین کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے طائف کے بت توڑنے کیلئے، ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۵۳۷، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۶ ۔

۲۰۴

۷۔ فرزندِ رسول(ص) ، حضرت ابراہیم کی وفات

اسلام کی کامیابی اورپیغامِ رسالت کی توسیع سے رسول(ص) بہت خوش تھے، لوگ دین خدا میں گروہ درگروہ داخل ہو رہے تھے لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم دوسرے سال میں داخل ہوئے تو وہ بیمار ہو گئے ان کی والدہ جناب ماریہ نے دیکھا کہ وہ مریض ہیں اور کسی بھی چیز سے انہیں افاقہ نہیں ہو رہا ہے تورسول(ص) کو خبر دی گئی کہ بیٹا احتضار کی حالت میں ہے ، آپ(ص) تشریف لائے دیکھا کہ ابراہیم اپنی ماں کی آغوش میں جاں بلب ہیں، رسول(ص) نے انہیں لے لیا اور فرمایا:

''یا ابراهیم انا لن نغنی عنک من اللّه شیئاً انا بک لمحزونون تبکی العین و یحزن القلب ولا نقول ما یسخط الرب ولولا انه وعد صادق و موعود جامع فان الآخر منا یتبع الاول لوجدنا علیک یا ابراهیم وجدا ً شدیداً ما وجدناه'' ۔( ۱ )

اے ابراہیم ہم تمہارے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے ، تمہارے غم میں ہماری آنکھیں اشکبار اور دل غم زدہ ہیں لیکن ہم ایسی بات ہر گز نہیں کہتے جو خدا کے غضب کا سبب ہو اگر خدا کا سچا وعدہ نہ ہوتا تو اے ابراہیم ہم تیرے فراق میں اس سے زیادہ گریہ کرتے اور بہت زیادہ غمگین ہوتے، اور ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔

رسول(ص) کے چہرہ اقدس پر غم و الم کے آثار ظاہر ہو گئے، تو بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول(ص)! کیا آپ(ص) نے ہمیں ایسی باتوں سے نہیں روکا ہے تو آپ نے فرمایا:

''ما عن الحزن نهیت و لکنی نهیت عن خمش الوجوه و شق الجیوب ورنة الشیطان'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱، بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۷۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱۔

۲۰۵

میں نے تمہیں عزیزوں کا غم منانے سے نہیں روکا ہے ہاں چہرے پر طمانچے مارنے، گریبان چاک کرنے اور شیطان کی طرح چیخنے چلّانے سے منع کیا ہے ۔

ایک روایت یہ ہے کہ آپ(ص) نے یہ فرمایا:

''انما هذا رحمة و من لا یرحم لا یرحم'' ( ۱ )

یہ تو بس رحمت ہے اور جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

خدا کی نظر میں نبی (ص) کی بڑی منزلت ہے اور آپ(ص) نے کتنے ہی معجزات دکھائے ہیں جن کے سبب لوگ آپ(ص) پر ایمان لائے ہیں لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گہن لگا تو بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ ان کی موت کے باعث سورج کو گہن لگا ہے ۔

رسول(ص) نے اس گمان کی نفی فرمائی اور اس خوف سے کہ کہیں یہ سنت نہ بن جائے اور جاہل اس کے معتقد نہ ہو جائیں فوراً فرمایا:

''ایها النّاس ان الشمس و القمر آیتان من آیات اللّه لا یکسفان لموت احد ولا لحیاته'' ۔( ۲ )

اے لوگو! چاند سورج خدا کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو کسی کی موت و حیات پر گہن نہیں لگتا ہے ۔

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۱۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۸۷۔

۲۰۶

تیسری فصل

جزیرہ نما عرب سے بت پرستی کا صفای

۱۔ مشرکین سے اعلانِ برائت

جب جزیرہ نما عرب میں اسلامی عقیدے اور شریعتِ سہلہ کا فروغ ہو گیا اور بہت سے لوگوں نے اسے قبول کر لیا تو وہاں شرک و بت پرستی پر چند ہی لوگ قائم رہے وہاں صریح طور پر ایہ اعلان کرنا ضروری تھا کہ عبادی و سیاسی مناسک میں شرک و بت پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔

اب وقت آ گیا تھا کہ اسلامی حکومت ہر جگہ اپنے نعروں اور شعار کا اعلان کرے، نرمی اور تالیف قلوب کا زمانہ ختم ہو چکا تھا گذشتہ دور اس بات کا مقتضی تھاکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔

اس اعلان کے لئے رسول(ص) نے زمانہ کے لحاظ سے قربانی کا دن اور جگہ کے اعتبار سے منیٰ( ۱ ) کو منتخب کیا اور ابوبکر کو سورۂ توبہ( ۲ ) کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لئے مقرر کیا گیا۔یہ آیتیں اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھیں ان کے ضمن میں تمام مشرکین سے صریح طور پر برائت کا اعلان تھا، برائت کی شقیں درج ذیل ہیں:

۱۔ کافر جنت میں نہیں جائیگا۔

۲۔ برہنہ حالت میں کسی کو خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرنے دیا جائیگا۔( یہ جاہلیت کی رسم تھی)

۳۔ اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا۔

____________________

۱۔دس ذی الحجہ ۹ھ۔

۲۔سورۂ توبہ ۱۔۱۳۔

۲۰۷

۴۔ جس کا رسول(ص) سے معاہدہ ہے وہ اپنی مدت پر ختم ہو جائیگا لیکن جس کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے اس کے بعد دار الاسلام میں اگر مشرک پایاجائیگا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی اثنا میں رسول(ص) پر وحی نازل ہوئی:''انّه لا یؤدِّی عنک الا انت او رجل منک'' اس پیغام کو آپ(ص) یا وہ شخص پہنچا سکتا ہے جو آپ(ص) سے ہو۔ پس آنحضرت (ص) نے حضرت علی کو طلب کیا اور فرمایا: عضباء ناقہ پر سوار ہو کر ابو بکر کے پاس جائو اور ان سے وہ پیغام لے لو اور اسے تم لوگوں تک پہنچائو۔( ۱ )

علی بن ابی طالب حاجیوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے اور ہمت و جرأت کے ساتھ خدا کے بیان (پیغام)کو پڑھا ہر چیز کو واضح طور سے بیان کیا، لوگوں نے اسے کھڑے ہو کربہت توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنا مشرکین پر اس اعلان کا یہ اثر ہوا کہ وہ فرمانبردار ہو کر رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

۲۔ نصارائے نجران سے مباہلہ

نصارائے نجران کو رسول(ص) نے خط لکھ کر اسلام کی طرف دعوت دی، ان کے سردار اور صاحبان حل و عقد اس خط کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے جمع ہوئے لیکن کسی خاص و قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کیونکہ ان کے پاس ایسی تعلیمات کا علم تھا جو جناب عیسیٰ کے بعد ایک نبی (ص) کی آمد کی تاکید کرتے تھے اور محمد(ص) کے معجزات و افعال اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ آپ نبی (ص) ہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ طے کیا کہ نبی (ص) کے پاس ایک وفد بھیجا جائے جو ان سے گفتگو کرے۔

یہ وفد رسول(ص) کے پاس پہنچا لیکن رسول(ص) نے ان کے ظاہر کو دیکھ کر انہیں کوئی اہمیت نہ دی یہ بھی بت پرستوں کی وضع قطع میں تھے۔ حر یرو دیبا کی ردا ڈالے ہوئے، سونا پہنے ہوئے اور گردنوں میں صلیب لٹکائے ہوئے تھے، دوسرے دن انہوں نے اپنی وضع قطع بدلی اور پھر حاضر ِ خدمت ہوئے تو رسول(ص) نے انہیں خوش آمدید کہا، ان کا احترام کیا اور انہیں ان کے مذہبی امور بجالانے کی سہولت فراہم کی۔( ۲ )

____________________

۱۔الکافی ۱/۳۲۶، الارشاد ۳۷، الواقدی ۳/۱۰۷۷، خصائص النسائی ۲۰، صحیح ترمذی۲/۱۸۳، مسند احمد ۳/۳۸۳، فضائل الخمسہ من الصحاح الستة۲/۳۴۳۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۱، سیرتِ نبویہ ج۱ ص ۵۷۴۔

۲۰۸

اس کے بعد ان کے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی لیکن انہوں نے قبول نہ کیا بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوا آخر کار رسول(ص) نے فرمایا کہ اب میں تم سے مباہلہ کرونگا یہ بات آپ(ص) نے حکم خدا سے کہی تھی اگلے روز مباہلہ کرنے پر اتفاق ہو گیا۔

حکم خدا کی اطاعت میں ان سے مباہلہ کے لئے رسول(ص) اس طرح بر آمد ہوئے کہ حسین کو(گود میں) اٹھائے اور حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ(ص) کے پیچھے آپ(ص) کی بیٹی فاطمہ اور ان کے بعد آپ(ص) کے ابن عم علی بن ابی طالب تھے اس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے :

( فمن حاجک فیه من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة اللّه علیٰ الکاذبین ) ( ۱ )

جب تمہارے پاس علم آ چکا تو اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں تم سے حجّت کرے تو تم ان سے یہ کہدو کہ تم اپنے بیٹوں کو لائو ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لائو ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے مردوں کو لائو ہم اپنے مردوں کو لائیں پھر مباہلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔

ان کے علاوہ رسول(ص) نے مسلمانوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ نہیں لیا۔یہ مباہلہ آپ(ص) نے اس لئے کیا تھا تاکہ آپ(ص) کی نبوت و رسالت کی صداقت سب پر ثابت ہو جائے۔ اس موقعہ پر نجران کے اسقف نے کہا: اے قوم نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے یہ دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو خدا اسے اس کی جگہ سے ہٹا دے گا۔ پس ان سے مباہلہ مت کرو، ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہیں بچے گا۔

جب نصارای نجران نے رسول(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت( ان پر خدا کا درود ہو)سے مباہلہ کرنے سے انکار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

''اما اذا ابیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین و علیکم ما علیٰ المسلمین'' ۔

____________________

۱۔ آل عمران:۶۱۔

۲۰۹

جب تم نے مباہلہ سے انکار کر دیا ہے تو اسلام قبول کرو اس طرح تم نفع و ضرر میں مسلمانوں کے شریک ہو جائو گے، لیکن انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی تو رسول(ص) نے فرمایا:''انی انا جزکم القتال'' میں تم سے جنگ کرونگا، انہوںنے کہا: ہم عرب سے جنگ نہیں کر سکتے ہاں ہم آپ(ص) سے اس بات پر صلح کرتے ہیں کہ اگر آپ(ص) ہم سے جنگ نہیں کریں گے اور ہمیں ہمارے دین سے نہیں پلٹائیں گے توہم ہر سال آپ(ص) کودو ہزار حلے ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں دیا کریں گے اور لوہے کی تیس زرہیں دیا کریں گے۔ رسول(ص) نے اس پر ان سے صلح کر لی۔

''و الّذی نفسی بیده ان الهلاک قد تدلی علٰی اهل نجران، ولولاعنوا لمسخوا قردة وخنازیر ولا ضطرم علیهم الوادی ناراً، ولأُ ستاصِلَ نجران و اهله حتی الطیر علیٰ رؤوس الشجر، ولما حال الحول علیٰ النصاری کلهم حتی یهلکوا فرجعوا الیٰ بلادهم دون ان یسلموا'' ( ۱ )

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہلاکت اہل نجران سے قریب آ چکی تھی ( عذاب ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا) اگر وہ لعنت کرتے تو وہ بندر اورسور کی صورت میں مسخ ہو جاتے اور پوری وادی آگ برساتی اور اہل نجران مع اہل یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی ہلاک ہو جاتے، ایک سال کے اندر سارے نصاریٰ ہلاک ہو جاتے، وہ اسلام لائے بغیر اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔

روایت ہے کہ نصاریٰ کے سرداروں میں سے سید اور عاقب اپنے اسلام کا اعلان کرنے کے لئے تھوڑی ہی دیر بعد رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر کبیر''رازی'' ج۸ ص ۸۵۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۳۵۷۔

۲۱۰

۳۔حجة الوداع

رسول(ص) ساری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ تھے، آپ(ص)خدا کی آیتوں کو اس طرح پہنچاتے تھے کہ ان کی تفسیر اور ان کے احکام واضح طور سے بیان کرتے تھے سارے مسلمان آپ(ص) کے قول و فعل کی اقتدا کرتے تھے- ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی القعدہ میں رسول(ص) نے فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کیا-اس سے قبل آپ(ص) نے حج نہیں کیا تھا، اس حج کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ مسلمان حج کے احکام سے آگاہ ہو جائیں چنانچہ ہزاروںمسلمان مدینہ آ گئے اور نبی (ص) کے ساتھ حج پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گئی، ان میں اہل مدینہ ، بادیہ نشین اور دیگر قبائل کے لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ، جاہل اور کافر تھے لیکن آج انہیں سچی محبت، اسلامی اخوت نے رسول(ص) کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ایک جگہ جمع کردیا ہے ، اس سفر میں رسول(ص) نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹی فاطمہ زہرا(ص) کو ساتھ لیا، فاطمہ (ص) کے شوہر علی بن ابی طالب کو رسول(ص) نے ایک مہم سر کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اس سفر میں آپ(ص) کے ساتھ نہیں تھے، ابو دجانہ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر کیا۔

مقام ذو الحلیفہ پر آپ(ص) نے احرام باندھا دو سفید کپڑے پہنے، احرام کے وقت تلبیہ کہی''لبیک الّلهم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و الملک ، لبیک لا شریک لک لبیک'' ۔

چوتھی ذی الحجہ کو رسول(ص) مکہ پہنچے، تلبیہ کہنا بند کر دیا خدا کی حمد و ثنا اور شکر بجالائے، حجر اسود کو چوما، سات مرتبہ طواف کیا۔ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور حاجیوں کو اس طرح مخاطب کیا:''من لم یسق منکم هدیا فلیحل و لیجعلها عمره و من ساق منکم هدیا فلیقم علیٰ احرامه'' تم میں سے جس شخص نے قربانی کا جانور نہیں بھیجا ہے اسے احرام کھول دینا چاہئے اور اسے عمرہ قرار دنیا چاہئے اور جس نے قربانی کا جانور بھیجا ہے اسے اپنے احرام پر باقی رہنا چاہئے۔

بعض مسلمانوں نے رسول(ص) کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا انہوںنے یہ خیال کیا کہ ہمیں وہی کام انجام دینا چاہئے جو رسول(ص) نے انجام دیا ہے اور آپ(ص) نے احرام نہیں کھولا۔ ان کی اس حرکت پر رسول(ص) ناراض ہوئے۔

۲۱۱

اور فرمایا:

''لوکنت استقبلت من امری ما استدبرت لفعلت کما امرتکم'' ( ۱ )

اگر ماضی کی طرح مستقبل مجھ پر روشن ہوتا تو میں بھی وہی کام کرتا جس کا تم کو حکم دیا ہے ۔

حضرت علی بن ابی طالب یمن سے واپسی پر مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں خدمت رسول(ص) میں حاضر ہو جائیں آپ(ص) نے قربانی کے لئے ۳۴ جانور ساتھ لئے، مکہ کے قریب پہنچے تو آپ(ص) نے شہر میں داخل ہونے کے لئے اپنے دستہ پر کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خدمت نبی(ص) میں پہنچے، یمن میں آپ کی عظیم کامیابی کی خبر سن کر اور آپ کو دیکھ کر رسول(ص) بہت مسرور ہوئے اور فرمایا:

جائیے طواف کیجئے اور اپنے ساتھیوں کی طرح مکہ میںداخل ہو جایئے، آپ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! جس نیت سے آپ(ص) نے احرام باندھا ہے میں نے بھی اسی نیت سے باندھا ہے ۔ نیز عرض کی: میں نے احرام باندھتے وقت یہ کہا تھا اے اللہ میں اس نیت کے ساتھ احرام باندھتا ہوں جس نیت سے تیرے بندے، تیرے نبی(ص) اور تیرے رسول(ص) محمد(ص) نے احرام باندھا ہے، اس کے بعد رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: اپنے دستہ میں واپس جائیے اور ان لوگوں کے ساتھ مکہ آئیے۔ جب آپ کے ساتھی خدمت رسول(ص) میں پہنچے تو انہوں نے آنحضرت(ص) سے آپ کی شکایت کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے حضرت علی کی عدم موجودگی میں بیت المال میں غلط طریقہ سے جو تصرف کیا تھا اسے آپ نے قبول نہیں کیا تھا۔ ان کی شکایت کا آنحضرت(ص) نے یہ جواب دیا:

''ایها النّاس لا تشکوا علیاً فو اللّه انه لا خشن فی ذات الله من ان یشتکی'' ۔( ۲ )

اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو کیونکہ وہ حکمِ خدا نافذ کرنے میں کسی کی شکایت کی پروا نہیں کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۱۹۔

۲۔سیرة نبویہ ج ۲ص۶۰۳، بحار الانوارج ۲۱ص۳۵۸۔

۲۱۲

۹ ذی الحجہ کو رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور غروب آفتاب تک وہیں رہے۔ تاریکی چھا جانے کے بعد اپنے ناقہ پر سوار ہوئے اور مزدلفہ پہنچے وہاں رات کا ایک حصہ گذرا اور طلوع فجر تک مشعر الحرام میں رہے ، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ کا رخ کیا۔ وہاں کنکریاں ماریں قربانی کی اورسر منڈوایا اس کے بعد حج کے باقی اعمال بجالانے کے لئے مکہ چلے گئے۔

اس حج کو حجة الوداع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں رسول(ص) نے مسلمانوں کو وداع کیا ، اسی میں آپ(ص) نے یہ خبر دی کہ آپ(ص) کی وفات کا زمانہ قریب ہے ، اس حج کو ''حجة البلاغ'' بھی کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ(ص) نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کی بھی تبلیغ کی تھی، اس کو حجة الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ رسول(ص) کا پہلا حج تھا کہ جس میں آپ(ص) نے حج کے اعمال سے متعلق اسلام کے دائمی احکام بیان فرمائے تھے۔

حجة الوداع میں رسول(ص) کا خطبہ

روایت ہے کہ رسول(ص) نے ایک جامع خطبہ دیا خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

'' یا ایها النّاس اسمعوا منی ابین لکم فانی لا ادری لعلی لا القاکم بعد عامی هذا فی موقفی هذا ایها النّاس ان دمائکم و اموالکم علیکم حرام الیٰ ان تلقوا ربکم کحرمة یومکم هذا فی شهرکم هذا فی بلد کم هذا الاهل بلغت؟ الّلهم اشهد فمن کانت عنده امانة فلیؤدها الیٰ الذی ائتمنه و ان ربا الجاهلیة موضوع، و ان اول رباً ابدأ به ربا عم العباس بن عبد المطلب ان مآثر الجاهلیة موضوعة غیر السدانة و السقایة، و العمد قود و شبه العمد ما قتل بالعصا و الحجر ففیه مائة بعیر فمن زاد فهو من اهل الجهالیة

۲۱۳

ایها النّاس ان الشیطان قد یئس ان یعبد فی ارضکم هذه و لکنه رض ان یطاع فیما سویٰ ذلک مما تحتقرون من اعمالکم

ایها النّاس انما النسء زیادة ف الکفر یضل به الذین کفروا یحلونه عاماً و یحرمونه عاماً لیواطئوا عدة ما حرم الله و ان الزمان استدار کهیئته یوم خلق الله السموات و الارض و ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً ف کتاب الله یوم خلق السماوات والارض، منها اربعة حرم، ثلاثة متوالیات وواحد فرد:

ذو القعدة و ذو الحجة و المحرم و رجب الذ بین جمادی و شعبان الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد

ایها النّاس ان لنسائکم علیکم حقاً و ان لکم علیهن حقاً لکم علیهن ان لا یوطئن فرشکم غیر کم ولا یدخلن احداً تکرهونه بیوتکم الا باذنکم ولا یأتین بفاحشة، فان فعلن فان اللّه قد اذن لکم ان تعضلوهن و تهجروهن ف المضاجع و تضربوهن ضرباً غیر مبرح، فان انتهین و اطعنکم فعلیکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف، و انما النساء عندکم عوار لا یملکن لانفسهن شیئاً، اخذتموهن بامانة اللّه و استحللتم فروجهن بکلمة اللّه فاتقوا اللّه ف النساء و استوصوا بهن خیراً

ایها النّاس انما المؤمنون اخوة فلا یحل لا مرئٍ مال اخیه الا عن طیب نفس الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد فلا ترجعوا بعد کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض؛ فانی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب اللّه و عترت اهل بیت الا هل بلغت ؟ اللهم اشهد

ایها النّاس ان ربکم واحد، و ان اباکم واحد، کلکم لآدم، و آدم من تراب، اکرمکم عند اللّه اتقاکم، لیس لعرب علی عجم فضل الا بالتقوی، الا هل بلغت؟ قالوا نعمقال(ص): فلیبلغ الشاهد منکم الغائب( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج ۲۱، ص ۴۰۵۔

۲۱۴

ایها النّاس ان اللّه قد قسم لکل وارث نصیبه من المیراث ولا یجوز لوارث وصیة ف اکثر من الثلث، و الولد للفراش و للعاهر الحجر، من ادع الیٰ غیر ابیه او تولی غیر موالیه فعلیه لعنة اللّه و الملائکة و النّاس اجمعین ، لا یقبل اللّه منه صرفاً ولا عدلاً... و السلام علیکم و رحمة اللّه ۔( ۱ )

اے لوگو! میری بات سنو تاکہ تمہارے سامنے یہ واضح کر دوں مجھے لگتا ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ تم لوگوں سے شاید میری ملاقات نہ ہو۔ اے لوگو! تمہارا خون اور تمہاری عزت تمہارے لئے مرتے دم تک اسی طرح محترم ہے جیسے تمہارے اس شہر میں آج کا دن محترم ہے۔ کیا میں نے بخوبی تم تک الٰہی پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! گواہ رہنا۔ پس اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو تو اسے اس شخص کے پاس پہنچا دے جس نے امانت رکھی تھی، زمانہ جاہلیت کا ہر سود باطل ہے سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سود کو لغو قرار دیتا ہوں اور جو خون زمانۂ جاہلیت میں بہایا گیا تھا اس کا انتقام و قصاص وغیرہ بھی باطل ہے اور سب سے پہلے میںعامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کی سزا کو لغو قرار دیتا ہوں اور خانۂ کعبہ کی دربانی و کلید برداری اور حاجیوں کو سیراب کرنے کے علاوہ کوئی کام باعثِ افتخار نہیں ہے جان بوجھ کر قتل کرنے اور عمداً شبہ کی وجہ سے لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالنے کی دیت سو اونٹ ہیں اس سے زیادہ کا تعلق اہل جاہلیت سے ہے ۔

اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ تمہاری اس سر زمین پر اس کی پوجا ہوگی لیکن وہ اس بات سے خوش ہے کہ تم بعض اعمال کو اہمیت نہیں دیتے ہو۔

اے لوگو!نسی یعنی مہینوںکو آگے پیچھے کرنا- کفر میں اضافہ کا سبب ہے ان کے ذریعہ کافر گمراہ ہوتے ہیں، کسی سال وہ اس ماہ کو حرمت کا مہینہ قرار دیدیتے ہیں اور کسی سال اسی ماہ میں جنگ و خونریزی کو حلال سمجھ لیتے ہیں اس سے ان کا مقصدان مہینوں کے حساب کو برابر کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کو خدا نے حرام کیا ہے ،

___________________

۱۔العقد الفرید ج۴ ص ۵۷، الطبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۸۴، الخصال: ص ۴۸۷، بحار الانوار ص۲۱ ص ۴۰۵، تاریخ کی دوسری کتابوں میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

۲۱۵

بیشک زمانہ گردش کرتاہے اسی روز سے جس دن خدا نے زمین و آسمانوںکو پیدا کیا تھا اور جیساکہ خداکی کتاب میں لکھاہے زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی سے خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار، ذی القعدہ، ذی الحجة اور، محرم ، تین پے در پے حرمت کے ہیں رجب کا ایک مہینہ جدا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے ۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔

اے لوگو! بیشک تمہاری عورتوںپر تمہارا حق ہے اور اسی طرح تمہاری عورتوں کا تم پر بھی حق ہے ، ان کے اوپر تمہار ا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر ان لوگوںکو داخل نہ ہونے دیں جن کو تم پسند نہیں کرتے اور ناشائستہ حرکت(زنا) نہ کریں پس اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمہیں حق دیا ہے کہ ان پر سختی کر و اور ان کے پاس سونا ترک کر دو (اور اگر پھر بھی نہ مانیں تو) انہیں مارو! لیکن گہری چوٹ نہ آنے پائے، پھر اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو تمہارے اوپر فرض ہے کہ انہیں معمول کے مطابق روٹی کپڑا دو۔ عورتیں تمہارے پاس امانت ہیں وہ اپنے اوپر اختیار نہیں رکھتی ہیں تم نے انہیں خدائی امانت کے عنوان سے اپنے اختیار میںلیاہے اور کتاب خدا کے مطابق انہیں اپنے لئے حلال کیا ہے۔ پس ان کے بارے میں خدا سے ڈرو! اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔

اے لوگو! مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا کسی شخص پر اس کے بھائی کا مال حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ خوش ہو، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔ دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو، کیونکہ میں نے تمہارے درمیان جو چیز چھوڑی ہے اگر تم اس سے وابستہ رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے کتاب خد ااور میری عترت وہی میرے اہل بیت ہیںکیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا ۔

اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے ، اور تمہارا باپ ایک ہے ، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے ہیں اور خدا کے نزدیک تم میں سے وہی زیادہ مکرم ہے جو زیادہ پر ہیزگار و متقی ہے ، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوے کے ساتھ، کیا میںنے پیغام پہنچا دیا؟ سب نے کہا: ہاں، پھر فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں جو یہاںموجودنہیں ہیں۔

۲۱۶

اے لوگو! میراث میںاللہ نے ہر وارث کے حصہ کومعین کر دیا ہے اور کوئی شخص ایک تہائی مال سے زیادہ کے بارے میں وصیت نہیں کر سکتا اور بچہ اس کا ہے جس کی بیوی ہے ،ز نا کار کے لئے پتھر ہے جو شخص خود کو اپنے والد کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرے؛ اورغلام خود کو مولا کے علاوہ کسی دوسرے سے وابستہ کرے تو اس پر خدا اوراس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، خدا ایسے لوگوں کی توبہ اور فدیہ قبول نہیں کرتا ہے۔ سلام اور خدا کی رحمت ہو تم پر۔

۴۔ وصی کا تعین( ۱ )

مسلمانوں نے اپنا حج اکبر مکمل کیا وہ پروانہ کی طرح نبی (ص) کے ساتھ ساتھ تھے۔ اپنے مناسک آپ(ص) سے سیکھ رہے تھے، رسول(ص) نے مدینہ کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کیا، جب حاجیوں کا عظیم قافلہ غدیر خم کے قریب مقام ''رابغ'' میں پہنچا تو امر خدا کی تبلیغ کے لئے وحی نازل ہوئی، واضح رہے کہ حاجیوں کے قافلے یہیں سے متفرق ہو کر اپنے اپنے شہروںکی طرف روانہ ہوتے تھے۔

( یا ایّها الرّسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک و ان لم تفعل فما بلّغت رسالته و اللّه یعصمک من النّاس ) ( ۲ )

اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ(ص) پر نازل کیا جا چکا ہے اور اگر اس پیغام کو نہ پہنچایا تو گویا آپ(ص) نے رسالت کی تبلیغ ہی نہیں کی خدا آپ(ص) کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

یقینا یہ خدائی خطاب و پیغام ایک اہم چیز کا حامل تھا اور اس سے زیادہ اہم کون سی تبلیغ ہوگی کہ جس کے بارے میںرسول(ص) سے یہ کہاگیا ہے کہ اسے انجام دیں ، جس کو ابھی تک انجام نہیں دیا ہے؟ جبکہ خدا کا رسول(ص)

____________________

۱۔مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی ''الغدیر'' جلداول کا مطالعہ فرمائیں۔

۲۔ سورۂ مائدہ ۶۷۔

۲۱۷

تقریبا تیئس سال سے لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دے رہا تھا اور خدا کی آیتوں کی تبلیغ کر رہا تھا اور اس کے احکام کی تعلیم دے رہا تھا اور اس سال میں آپ(ص) نے جو تکلیف اور زحمت برداشت کی ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے کہ یہ کہا جائے:

( فما بلّغت رسالته)

اس موقعہ پر رسول(ص) نے یہ احکام صادر فرمائے: قافلوں کو روک دیا جائے تاکہ پیچھے رہ جانے والے آجائیں، اس روز اتنی شدید گرمی تھی کہ لوگ سروں اور پیروں پر کپڑا لپیٹنے پر مجبور تھے، اس جگہ پر رسول(ص) ان کے سامنے تبلیغ رسالت کو مکمل کرنااور آسمانی پیغام کی تلقین کرنا چاہتے تھے۔ خدا کی حکمت کا یہی تقاضا تھا ایسے سخت موسم اور ایسے تپتے صحرا میں تبلیغ کی تکمیل ہو،تاکہ امت کو ہمیشہ یاد رہے مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کے ذہنوں میں اس واقعہ کی یاد تازہ رہے ۔ امت مسلمہ اس کو یاد رکھے۔

اسباب سفر کو جمع کیا گیا، اس سے منبر بنایا گیا اور مسلمانوںکو نماز پڑھانے کے بعد رسول(ص)منبر پر تشریف لے گئے ، خداوند عالم کی حمد و ثنا کی ، پھر اتنی بلند آواز میں، کہ جس کو سب سن لیں، فرمایا:

''یا ایّها النّاس یوشک ان ادعی فاجیب و انی مسؤول و انتم مسؤولون فما انتم قائلون؟ قالوا: نشهد انّک بلّغت و نصحت و جاهدت فجزاک اللّه خیراً قال (ص) الستم تشهدون ان لا الٰه الا اللّه و ان محمّداً، عبده و رسوله و ان جنته حق و ان الساعة آتیة لا ریب فیها و ان اللّه یبعث من فی القبور؟ قالوا: بلیٰ نشهد بذالک قال (ص) الّلهمّ اشهد ثم قال (ص) فانّی فرطکم علیٰ الحوض و انتم واردون علّ الحوض و ان عرضه ما بین صنعاء و بصریٰ فیه اقداح عدد النجوم من فضة فانظروا کیف تخلّفونی فی الثقلین

فنادیٰ مناد وما الثقلان یا رسول اللّه؟ قال(ص) : الثقل الاکبر کتاب اللّه طرف بید اللّه عزّ و جلّ و طرف بایدیکم فتمسکوا به لا تضلّوا والآخر الاصغر عترت و انّ الّلطیف الخبیر نبّأن انّهما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض فسألت ذلک لهما رب فلا تقدموهما فتهلکوا ولا تقصروا عنهما فتهلکوا''

۲۱۸

اے لوگو!عنقریب مجھے دعوت دی جائے گی اور میں اسے قبول کرونگا دیکھو مجھ سے بھی سوال کیا جائیگا اور تم سے بھی باز پرس ہوگی بتائو کہ تم کیا جواب دوگے؟ انہوں نے کہا: ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپ(ص) نے تبلیغ کی، نصیحت کی اور جہاد کیا خدا آپ(ص) کو جزائے خیر عطا کرے، پھر آپ(ص) نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے بندے اور اس کے رسول(ص) ہیں، اور جنت حق ہے، قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے اور خدا قبروں سے مردوں کو اٹھائے گا؟ سب نے کہا: ہاں! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہونچون گا تمہارا حوض کوثرپر انتظار کرونگا اور تم میرے پاس حوض کوثرپر پہنچوگے وہ اتنا چوڑا ہے جتنا صنعاء و بصریٰ کے درمیان کا فاصلہ ہے ، اس پر چاندی کے اتنے جام رکھے ہوئے ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں۔ دیکھتا ہوں تم میرے بعد ثقلین سے کیسے پیش آتے ہو۔

کسی دریافت کرنے والے نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ثقلین کیا ہے؟ فرمایا: ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا دستِ خدا میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے ، اس سے وابستہ رہوگے تو گمراہ نہ ہوگے، اور ثقل اصغر میری عترت ہے اور لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض(کوثر) پر میرے پاس وارد ہونگے اور میں نے خدا سے ان کے لئے ہی سوال کیا ہے ۔ دیکھو!ان سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ تباہ ہو جائوگے۔

اس کے بعدآپ(ص) نے حضرت علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر اتنا بلند کیا کہ آپ(ص) کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی جب تمام لوگوں نے علی کو دیکھ لیا تو فرمایا:

''ایّها النّاس من اولیٰ النّاس بالمومنین من انفسهم؟ قالوا: اللّه و رسوله اعلم قال(ص) انّ اللّه مولای و انا مولیٰ المومنین و انا اولیٰ بهم من انفسهم فمن کنت مولاه فعلی مولاه یقولها ثلاث مرات

۲۱۹

ثم قال (ص) الّلهم وال من والاه و عاد من عاداه و احب من احبه و ابغض من ابغضه و انصر من نصره و اخذل من خذله و ادر الحق معه حیث ما دار، الا فلیبلغ الشاهد الغائب''

اے لوگو! مومنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ کون حق تصرف رکھتا ہے ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا اور اس کا رسول(ص) بہتر جانتا ہے ۔ آپ(ص) نے فرمایا: خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان پر میں خود ان کے نفسوں سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں، بس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، یہ جملہ آپ(ص) نے تین بار دہرایا۔

ا سکے بعد فرمایا:اے اللہ جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ، جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے دشمنی کر ، اس کی نصرت کرنے والے کی نصرت فرما اور جو اس سے الگ ہو جائے اسے چھوڑ دے، اور جدھر یہ جائے حق کو بھی ادھر موڑ دے، جو لوگ حاضر ہیں ان کو چاہئے کہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاںموجود نہیں ہیں۔

حاضر ین ابھی وہاں سے متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبریل امین وحی لیکر نازل ہوئے:

( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلاما ً دیناً ) ( ۱ ) آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔

اس کے بعد رسول (ص) نے ،دین کی تکمیل ، نعمت کے اتمام اپنی رسالت اوراپنے بعد علی کے ولی ہونے سے خدا کے راضی ہونے پر تکبیر کہی ۔

''اللّه اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بعدی'' ۔

____________________

۱۔ مائدہ: ۳۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296