منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 141033 / ڈاؤنلوڈ: 6505
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

الف :دلوں اور کانوں پر مہر۔

خداوند عالم کا ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دینا اس بات کا کنایہ ہے کہ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے خداوند عالم نے مہر لگا دی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الختم هو الطبع علی قلوب الکفار عقوبةعلی کفرهم ۔(۱)

ختم سے مراد کافروں کے دلوں پر ان کے کفر کی سزا کے طور پر مہر لگا دینا ہے۔

اللہ کی طرف سے مہر لگ جانے کا فعل انسان کے کفر اختیاری کے بعد ہوتا ہے،کفر سے پہلے نہیں ہوتا اور یہ کفر اختیاری کا نتیجہ ہے یعنی ہر انسان کو فطرت سلیم عطا ہو تی ہے اور اس میں دلائل حق پر غور وفکر کی استعداد بھی شامل ہے لیکن جب انسان اپنے ارادے اور عقل کا غلط استعمال کرتا ہے تو پھر آسمانی ہدایتوں اور خداوندی نشانیوں سے مسلسل منہ موڑ لیتا ہے اور شیطانی قانون پر چلنے کی ٹھان لیتا ہے۔

اس وقت وہ غضب کا مستحق ٹھرتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ رحمت سے خارج ہو جاتا ہے اس وقت نصرت الہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور واضح دلائل حقاور روشن سے روشن آیات الہی بھی انہیں نظر نہیں آتیں یہ سب کچھ کافروں کا اپنے ارادے اور اختیار سے دوری اور دانستہ کج روی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔

بہرحال یہ مسلم ہے جب تک انسان اس مرحلے تک نہ پہنچے وہ کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو،قابل ہدایت ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے بد اعمال کی وجہ سے پہچان کی قوت کھو بیٹھتا ہے تو اس کے لیئے کوئی راہ نجات نہیں ہے۔

_____________________

۰۰۰تفسیر صافی۔۰۰۰

۸۱

توبہ و استغفار

یہ واضح حقیقت ہے کہ انسان جب ایک گناہ پر اپنی عادت بنا لیتا ہے تو اے کچھ سجھائی نہیں دیتا وہ اسے حق اور درست سمجھنے لگ جاتا ہے لہذا انسان کو ہمیشہ اس طرف متوجہ رہنا چاہیے جب اس سے کوئی گناہ سر زد ہو فورا اسے توبہ کر لینی چاہیے تا کہ اس کے دل پر مہر نہ لگ جائے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ما من عبد مومن الا و فی قلبه نکتة بیضاء فاذا اذنب ذنبا خرج فی تلک النکتةسواد فان تاب ذهب ذالک السواد فان تماری فی الذنوب ذاد ذالک السوادحتی یغتی البیاض فاذا اغطی البیاض لم یرجع صاحبه الی خیر ابدا ۔(۱)

ہر شخص کے دن میں ایک وسیع،سفید اور چمکدار نکتہ ہو تا ہے جب اس سے گناہ سر ذد ہو تو اس مقام پر ایک سیاہ نکتہ پیدا ہو تا ہے اگر وہ توبہ کر لے تو وہ سیاہی ختم ہو جاتی ہے لیکن اگر مسلسل گناہ کرتا رہے تو پھیل جا تی ہے اور تمام سفیدی کا احاطہ کر لیتی ہے اور جب سفیدی ختم ہو جائے تو پھر اسے دل کا مالک کبھی بھی خیر و بر کت کی طرف نہیں پلٹ سکتا۔

لہذا جب بھی انسان ہوائے نفس کا غلام بن جائے تو ایسے کان جن سے پرہیز گار حق بات سن سکتا ہے سنتے اور عمل کرتے ہیں اور ایسے دل جس سے متقی لوگ حقائق کا ادراک کرتے ہیں،کفار کے لئے بے کار ہیں ان کے کانوں اور دلوں میں سننے اور سمجھنے کی قوت ہی نہیں رہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ )

کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے۔(۲)

____________________

(۱)اصول کافی ج۲باب الذنوب حدیث۲۰

(۲)سورہ جاثیہ ۴۵ آیت نمبر ۲۳

۸۲

ب :تشخیص کی قدرت نہیں۔

یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان جب ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہتا ہے تو اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور روح انسانی کا جزو بن جاتی ہے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو وہ حس تشخیص ہی کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ آجاتا ہے یہ لوگ اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے،عبرت حاصل نہیں کرتے،صراط مستقیم کو اختیار نہیں کرتے بلکہ حق کو دیکھنے کے باوجود اپنی آنکھوں پر گمراہی اور کفر کا پردہ ڈال رکھا ہے۔

لیکن قیامت والے دن بہت سے حقائق ان کے سامنے ہونگے۔عذاب الہی کو درک کریں گے۔اور یہ بھی جانتے ہونگے کہ یہ ان کے سوء اختیار کی وجہ سے ہے دنیا میں خود کو اندھا بنا رکھا تھا اگرچہ ان کی آنکھیں جمال الہی کا مشاہدہ نہیں کر سکتیں لیکن قیامت والے دن تیز نگاہوں سے عذاب الہی کا ضرور مشاہدہ کریں گی جیسا کہ خدا وندعلم فرماتا ہے۔

( لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ )

یقینا تم غفلت میں تھے ہم نے تمہارے پردوں کو ہٹا دیا ہے اب تمہاری نگاہ تیز ہو گئی ہے۔

ج :مستحق عذاب

جس طرح خدا وند عالم نے تقوی طاہنے والوں کا انعام ہدایت اورکامیابی قرار دیا تھا اسی طرح کفار کی سزا یہ ہے کہ قیامت والے دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا ہو گا۔

۸۳

( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِینَ ) ( ۸)

کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا اور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالا نکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں۔

شان نزول

کفار کی مذمت کے بعد تیرہ آیات منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہیں منافقین کے سردار عبداللہ ابن ابی سلول یعتصب بن قشیر اور ان کے پیروکار وں کے درمیان طے پایا کہ ہم لوگ بھی زبانی کلامی تو اسلام کا اظہار کریں۔

لیکن قلبی طور پر اپنے عقیدہ پر قائم رہیں تا کہ مسلمانوں کو جو شرف و منزلت نصیب ہے ہمیں بھی حاصل ہو ہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقربین بن کر اسلام کے اسرار سے آگاہ ہو سکیں اور کفار کو ان اہم رازوں سے باخبر رکھیں یہ لوگ سوچی سمجھی سازش کے تحت رسول اکرم کے پاس تشریف لائے اور اسلام کا اظہار کرنے لگے اس وقت خدا وند عالم نے حضرت رسول اکرم (ص) کو ان کی سازش سے اس طرح آگاہ فرمایا کہ لوگوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ یہ خدا اور آخرت پر ایمان نہیں لائے بلکہ یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔(۱)

تیسرا گروہ : منافقین

منافق کی شناخت

تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے جذبہ و خلوص سے عاری تھا اور اسلام کی مخا لفت کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتا تھا قرآن مجید اس گروہ کو منافق کہہ کر پکار رہاہے قرآن کے نزدیک منافق کی پہچان یہی ہے کہ۔

المنافق الذی ستروا الکفر و و اظهروا الا سلام

جو کفر کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اسلام کا اظہار کرے وہ منفق ہے(۲)

_____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص ۰۰۰۱۵۲ (۲)البتیان ج۱ ص۶۷،روح المعانی ج۱ ص۱۴۳

۸۴

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ادیان الہی کو سب سے زیادہ نقصان منافقین سے پہنچا ہے اسی گروہ نے صدر اسلام سے اسلام اور مسلما نوں کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔تاریخ گواہ ہے اس گروہ نے کافر وں سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے شاید اسی وجہ سے اس مقام پر تیرہ آیتوں میں ان کی باطنی شخصیت اور اعمال کو بیان کیا گیا ہے جبکہ دوسری سورتوں میں بھی ان کی بدکرداریوں کا تذکرہ ہے اور ان کے متعلق قرآن مجید کا واضح فیصلہ ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام منافق کی شناخت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اوصیکم عبادالله بتقوی الله،واحذر کم النفاق فانهم الضالون المضلون والزالون المنزلون یتلونون الوانا و یفتنون افتینا نا و یعمدونکم لکل عماد و تر صدونکم بکل مرصاد قلوبهم دویه و صفاحهم نفیه یمشون الخفا ء و تدبون الضراء وصفهم دواء و قولو هم شفاء وفعلهم الداء العیا ء خنسدة الرخا ء و مئو کدو البلد ء مقنطوالرخاء ۔(۲)

اے اللہ کے بندوں :میں تمہیں تقوی و پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور منا فقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں،خود خطاء کار ہیں دوسروں کو خطاؤں میں ڈالتے ہیں،مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں،مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں،ہر طریقہ سے پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

_____________________

(۱)سورہ نساء آیت ۱۴۵(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴

۸۵

یہ لوگ ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چالیں چلتے ہیں ان کی ظاہری گفتگو بھلی معلو م ہوتی ہے لیکن ان کا کردار ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے لوگوں کی خوش حاکی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں اور امید رکھنے والوں کو مایوس کر دیتے ہیں۔ بہر حال زیر نظر تیرہ آیتوں میں منا فقین کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔کیونکہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے لیکن ان کے دلوں میں کفر ہے اور زبان سے دعوی کرتے ہیں یہ نفاق اور منافقت ہے۔

چال بازی

جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے گروہ میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرنا چاہتا ہے یا کسی گروہ میں اپنا نفوذ کرنا چاہتا ہے تو اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس گروہ کے اصولوں کو اپنائے اور ان اصولوں کے پیروکاروں کے سامنے یہی اظہار کرے کہ میں ان اصولوں کا پابند ہوں خدا اور قیامت پر ایمان اسلام کے اہم اعتقادی اصولوں میں سے ہیں۔

جب کوئی شخص ان پر ایمان لانے کا اظہارکرتا ہے تو اسے مسلمان تصور کیا جاتا ہے منافقین نے بھی مقصد کے حصول کے لئے ان دو بڑے اصولوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں کیونکہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن قرآن مجید قطعی طور پر ان کے ایمان کی نفی کر رہاہے کہ اگرچہ جب یہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو خود کو مومن کہتے ہیں لیکن یہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے یعنی یہ لوگ نہ مومن تھے،نہ مومن ہیں اور نہ مومن ہونگے بلکہ یہ چالباز ہیں ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانا ہے۔

( یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ )

وہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھو کہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اپنے سوا ء کسی کو دھوکہ نہیں دیتے اور انہیں( اس کا )احساس تک نہیں ہے۔

۸۶

خود فریبی

یہ ایک واضح حقیقت ہے جو بھی اللہ تعالی کو اس کی صفات جلال وکمال کے ساتھ مانتا ہو وہ اسے دھوکہ دینے کا تصور ہی نہیں کر سکتاکیونکہ وہ ہستی ظاہر و باطن سے باخبر ہے البتہ ان کا یہ کہنا کہ ہم خداکو دھوکہ دیتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ خدا کو نہیں پہنچانتے ان کا اللہ کے متعلق اقرار صرف زبانی ہے اس لئے یہ سوچتے ہیں کہ ہم خدا کودھوکہ دے رہے ہیں۔نیز اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ خدا اور مومنین کو جو دھوکہ دیتے ہیں یہ شاید رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکہ دینے کی وجہ سے ہو کیو نکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول خدا کے متعلق فرمایا ہے۔

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ) (۱)

جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہی اللہ اطاعت کرتا ہے۔

اسی طرح اللہ کا یہ فرمان بھی ہے۔ان الذین یبایعونک انما یبا یعون اللہ جو بھی آپ کی بیعت کرتا ہے وہی اللہ کی بیعت کرنے والا ہے۔

لہذا رسول خدا (ص)کی اطاعت اور بیعت اللہ کی بیعت ہے اسی طرح ورسول خدا کو دھوکہ دینا اللہ اور مومنین کو دھوکہ دینا ہے لہذا خدا،رسول،اور مونین کو دھوکہ دینا ان کی خود فریبی ہے یہ خدا کو دھوکہ نہیں دے رہے بلکہ خدا کو دھوکہ دے رہے ہیں ان کی اور جزا ء سزااور نقسان بھی انہی کے ساتھ ہے۔

____________________

(۱)سورہ نساء آیت نمبر۱۰

۸۷

یعنی ایمان کا نتیجہ نجات آخرت ہے یہ لوگ تمام کوششوں کے باوجود اس سے دور رہتے ہیں بلکہ اس فریب دہی کی وجہ سے ان کا عذاب کافروں کے عذاب سے بھی سخت تر ہو تا ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

لیکن ان منافقین کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ دل سے آخرت کے قائل ہی نہیں ہیں یہ لوگ صرف مادی منافع حاصل کر کے خود کو فریب دہی میں کامیاب سمجھتا ہے حالانکہ اس کی خود فریبی ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔ خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش خود فریبی ہے۔

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام، حضرت رسول اعظم (ص) کی حدیث بیان فرماتے ہیں۔

انماالنجاة ان لا تخادعوا فینحد عکم فان من یخادع الله یخدعه ویخلع منه الایمان و نفسه یخدع لو یشعر

انسان کی نجات اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالی کو دھوکہ دینے کی کو شش نہ کرے وگرنہ وہ خود دھوکہ میں پڑ جائے گا کیونکہ جو اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو نتیجہ میں خود دھوکہ کھائے گا اور اس سے ایمان کا لباس اتارلیا جائے گا اگر اسے تھوڑا سا بھی احساس ہے تو یہ اس کی خود فریبی ہے۔(۲)

____________________

(۱)نساء آیت ۱۴

(۲)صافی،نور الثقلین ج۱ص۳۵

۸۸

( فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ )

ان کے دلوں میں ایک خاص طرح کی بیماری ہے اللہ نے (نفاق کی وجہ سے) ان کی بیماری اور بڑھادی ہے،اور انہیں ایک درد ناک عذاب اس وجہ سے ہو گا کہ وہ جھوٹ بولا کرتے ہیں۔

بیمار دل

اعتدلال طبعی سے ہٹ جانا بیماری اور مرض ہے جب انسانی بدن میں کوئی آفت نہ ہو تو اس بدن کو صحیح و سالم کہتے ہیں اسی طرح اگر کسی دل میں ہٹ دھرمی تعصب اور کوئی آفت و مصیبت نہ ہو تو اسے قلب سلیم سے یاد کیا جاتا ہے اور اس وقت اس کا دل حق کو قبول کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔

جب کہ منافقین کے دل نفاق جیسی آفت کی وجہ سے بیمار ہیں ان کے جسم اور روح میں ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ یہ ایمان سے منحرف ہیں ان کاظاہر اور باطن اس انحراف کی نشاندہی کرتا ہے اس کے دل میں شک و کفر اور نفاق پروان چڑھتا رہتا ہے اس بیماری کی وجہ سے ہدایت کے پیغام،واعظ و نصیحت کی آیات اسے فائدہ پہنچانے کے بجائے اس کے عناد،تعصب اور جوش انکار میں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔

اس کی ذمہ داری خود اس کے ذاتی سوء مزاج پر ہے یعنی جب بھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوتی ہے،معجزہ ظاہر ہوتا ہے،رسول خدا کو فتح نصیب ہوتی ہے،اللہ کی طرف سے ان انعام و اکرام ہوتا ہے تو منافق کی عداوت اور منافقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

جھوٹ کی سزا

منافقین کا اصل سرمایا جھوٹ ہے ان کا اظہار اسلام ہی جھوٹ کا پلندہ ہے یعنی یہ لوگ جب یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ تعالی حضرت رسول اکرم(ص) کو خبر دیتا ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔

لہذا اپنے دعوی میں جھو ٹے ہیں یعنی در حقیقت یہ اللہ اور اس کے رسول اور تمام فرمودات کو ماننے کا جو دعوی کرتے ہیں وہ سفید جھوٹ ہے بلکہ یہ لوگ منافق ہیں ان کے جھوٹ اور منافقت کی سزا درد ناک عذاب الہی ہے۔

۸۹

اگرچہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے لیکن یہ کفر سے بد تر نہیں ہے کیونکہ کفر و نفاق تمام گناہوں کی جڑ ہے لہذا اس دروغ گوئی کی وجہ سے منافقوں کو جو درد ناک عذاب ہو گا وہ عام جھوٹ کی طرح نہیں ہے ان کے اس جھوٹ سے مراد اعتقادی جھوٹ ہے اور اس کا عذاب سخت تر ہے۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ )

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔

فساد فی الارض

انسان کی گمراہی اگر اس کی ذات تک محدود ہو تو اسے فساد فی الارض سے تعبیر نہیں کیا جاتا جیسے کفر اور شرک وغیرہ فساد فی الارض نہیں ہے لیکن جب ان لوگوں سے ایسی بد اعمالیاں سر ذد ہو جن کی وجہ سے دوسروں کو نقصان ہوتا ہو یعنی انہیں راہ راست سے ہٹا کر معصیت اور گناہ کی راہ پر طلانا مقصود ہو تو یہ فساد فی الارض ہے۔

البتہ بعض گناہ تو برا ہ راست اس عنوان کے تحت ہیں جیسے چغل خوری کرنا، ایک دوسرے کو لڑانا، فسق ظلم اور اسراف کا اظہار کرنا،انفرادی طور پر فساد ہیں لیکن جب کوئی شخص ان غلط کاموں کی طرف لوگوں کو بلا ئے اور انہیں اپنا مشن قرار دے لے یعنی کفر، معاصی نفاق اور غلط کاموں پر ڈٹ جا نا فساد ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔

الفساد هو الکفر والعمل بالمعصیة

فساد،کفر اور معصیت کا تکرار ہے۔(۱)

لہذا تبلیغ سوء، نظام اسلام کے خلا ف بغاوت، وحی اور نبوت کا انکار، مبداء اور معاد کی صحت میں شک، لگائی بجھائی، مومنین کا استہزا ء اور تمسخر،کافروں کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی مدد اور لوگوں کو ایمان کے راستہ سے ہٹانا فساد فی الارض کے مصادیق ہیں۔

____________________

(۱)در منثور ج۱ ص۳۰

۹۰

اصلاح کا دعوی

منافقین کے دل میں جو شک اور انکار ہے اگر یہ لوگ اسی حد تک محدود رہتے تو یہ ان کی انفرادی گمراہی تھی لیکن منافقت کے سایہ میں انہوں نے بہت سے ایسے کام انجام دئیے ہیں جن کی وجہ سے امن و عامہ خطرہ لاحق ہونے کا قوی امکان ہے اسی لیئے مومنین کو جب ان کے ناپاک منصوبوں کا علم ہوتا تھا وہ انہیں نصیحت کرتے کہ اس مفسدانہ روش کو چھوڑ دیں معارف کو درست اور صحیح سمجھنے کے لیے روشن فکر اور عقل سلیم کی ضرورت ہے۔

ان معارف کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے صحیح اور پر خلوص عمل کی ضرورت ہے ان میں یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتے ہیں فساد کو اصلاح اور اصلاح کو فساد کا نام دیتے ہیں یہ لوگ فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ ہم تو مصلح ہیں لیکن قرآن مجید حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے والوں کو منافق کے اوصاف سے گردانتا ہے۔

( أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ )

آگاہ ہو جاو یہ سب مفسدین ہیں لیکن شعور نہیں رکھتے ہیں۔

بے شعور مفسد

قرآن مجید اس مقام پر مومنین کو آگاہ اور ہوشیار کر رہا ہے کہ دینی معاشرے میں فساد پھیلانے والے منافقین سے آگاہ رہو اور ان کے جھوٹے اصلاح کے دعوی کو نظر انداز کر کے کہتا ہے۔

۹۱

یاد رکھو کہ یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں ان کے کردار میں اصلاح کا نام و نشان تک نہیں ہے منافقت کے غلط اثرات ان کی روح، جان،رفتار،و کردار میں ظاہر ہیں دنیا و آخرت میں گمراہی ان کا مقدر بن چکی ہے،ان میں شعور واقعی کا فقدان نمایاں طور پرظاہر ہے۔ یہ فساد پھیلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم درست کام کر رہے ہیں یہ بے شعور مفسد ہیں ان کا اسلام کے اصولون پر قلبی اعتقاد نہیں ہے یہ لوگ نا سمجھی کی وجہ سے ان غلط کاموں کو درست سمجھتے ہیں ان کے نتائج پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان غلط کامون کی لپیٹ میں اکثر خود بھی آجاتے ہیں۔

لیکن اگر یہ لوگ صرف اپنی منافقت پر باقی رہتے،اسالمی اسولوں کو دل وجان نہ مانتے اور صرف ان گلط کاموں کے نتائج پر غور کر لیتے تو اس مفسدانہ روش کو ضرور ترک کر دیتے لیکن اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور اپنے فساد کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے یہ بے شعور مفسد ہیں۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ السُّفَهَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ )

جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح ایمان لے آؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں آگاہ ہو جاؤ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں۔

دعوت ایمان

ایمان کا زبانی کلامی اظہار تو یہ منافق بھی کیا کرتے تھے لیکن چونکہ اسلامی اصولوں کو دل سے نہ مانتے تھے اس وجہ سے انہیں کہا جا رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح ایمان لے آؤ جو صرف خدا کے لیئے ہو اس میں نفاق کی بو تک نہ ہو اور عقل و شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا ایمان لے آؤ کہ انسان کہلوانے کے حقدار بن سکو اور تمہارا کوئی عمل بھی انسانیت کے خلاف نہ ہو۔اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مومنین جیسا ایمان لے آؤ بلکہ کہا گیا ہے کہ عوام الناس جیسا ایمان لے آؤ کیونکہ انہیں ابھی کفر و نفاق سے نکال کر ایمان کے کم ترین درجہ کی طرف لانا مقصود ہے جبکہ درجہ کمال تک پہنچنے کے لیئے تو انہین کئی مراحل طے کرنے ہوں گے بہرحال خلوص دل کے ساتھ عوام الناس جیسا ایمان لانے سے کفر نفاق کی وادی سے نکل کر مسلمان کہلوا سکیں گے۔

۹۲

مومنین کی تحقیر ان کا شیوا ہے

منافق اپنے برے اعتقاد اور غلط رائے کی وجہ سے اہل ایمان کی تحقیر اور توہین کو اپنا وطیرہ سمجھتے ہیں یہ اپنے آپ کو تو عاقل و ہوشیار سمجھتے ہیں جبکہ مومنین کو نادان سادہ لوح،اور جلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں اور ان کے پاک دلوں کو حماقت اور بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں۔

یعنی وہ حق طلب اور حقیقی انسان جو پیغمبر اسلام کی دعوت پر سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی حقانیت کا مشاہدہ کر چکے ہیں ان کی نظر میں وہ نادان ہیں اور یہ عقل مند ہیں کیونکہ مسلمانون کو سیاست نہیں آتی جبکہ ہم سیاست دان ہیں ہم نے کافروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات ہیں۔

اگر مشرکین کو فتح ہوئی تب بھی ہماری فتح ہو گی اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو ہم ان کے ساتھی کہلائیں گے جبکہ خالص مسلمان بیوقوف ہیں کیونکہ مشرکوں کو فتح ہوئی تو یہ نا عاقبت اندیش مسلما ن مارے جا ئیں گے اور اپنے مستقبل کو خطرہ میں ڈال بیٹھیں گے یعنی خدا پرست اور راہ حق میں جہاد کرنے والوں کو یہ نا دانی کی تہمت لگاتے ہیں۔

حقیقی بیوقوف

قرآن مجید ان کو حقیقی بیوقوف گردانتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی کمزور اور ضعیف رائے کی وجہ سے اپنے نفع نقصان کو نہیں پہچان سکتے۔ان کی شناخت کا معیار حس اور مادہ ہے جس کی وجہ سے یہ گیب اور غیر محسوس چیز پر ایمان لانے کی وجہ سے مسلمانوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں حالنکہ جو توحید کے آئین سے منہ موڑ کر چند روزہ دنیاوی لذتوں میں مشغول ہو جائے اور اپنی عاقبت اور ابدی زندگی کو تباہ کر لے وہی بیوقوف ہے۔

۹۳

انہیں اس وقت پتہ چلے گا جب ا بدی عذاب کا منظر ان کے سامنے ہو گا اور یہ کافروں سے بھی بد تر عذاب کا ذئقہ چکھ رہے ہوں گے۔یہ ان کی بہت بڑی بیوقوفی ہے کہ یہ اپنی زندگی کے مقصد کی تعین ہی نہ کر سکے جو گروہ دیکھا اسی کا رنگ اختیار کر لیا اپنی قوت کو سازشوں اور تخریب کاری میں صرف کردیا اس کے با وجود خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کی عقلون پر پردہ پڑا ہو ا ہے یہ حق کو برداشت نہیں کر سکتے یہ لوگ،جاہل نادان،اور ضعیف العقیدہ ہیں،راہ راست سے منحرف ہیں،ضلالت و گمراہی پر گامزن ہیں،یہی سب کچھ ان کے حقیقی بیوقوف ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

( وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ )

جب یہ صاحبان ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ایمان لا چکے ہیں جب اپنے شیطانوں سے تنہائی مین ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو فقط (انہیں ) بنا رہے تھے۔

شان نزول

ایک مرتبہ عبداللہ ابن ابی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں جا رہا تھا اس کی مومنین کی ایک جماعت کے ساتھ ملاقات ہوئی پھر وہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اے رسول خدا کے چچا زاد، اے بنی ہاشم کے سردار،ہم بھی آپ کی طرح مومن ہیں پھر اپنے ایمان کی مدح و ثناء کرنے لگا، حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔

یا عبدالله اتق الله ولا تنافق فان المنافق شر خلق الله تعالی

اے عبد اللہ اللہ سے ڈرو اور منافقت نہ کرو کیونکہ منافق اللہ کی بد ترین مخلوق ہے۔

عبداللہ ابن ابی کہنے لگا

اے ابوالحسن ہمیں منافق نہ کہو کیونکہ ہمارا ایمان بھی آپ کے ایمان کی طرح ہے اس کے بعد عبداللہ وہاں سے چلا گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔

۹۴

میں نے حضرت علی کو کس طرح جواب دیا ہے۔وہ سب بہت خوش ہوئے اور عبداللہ کے جواب کی تعریف کرنے لگے اس وقت خداوندعالم نے حضرت علی علیہ السلام کی تائید میں حضرت رسول خدا (ص) پراس آیت کو نازل فرمایا۔

جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لہذا یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے ظاہری اور باطنی ایمان کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر بتا رہی ہے منافقین کے ساتھ دوستی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ عداوت کا اظہار کرنا چاہیے۔(۱) بہر حال یہ آیت منافقین کی پوری طرح تصویر کشی کرتی ہے کہ ان کی منافقت کس طرح ہے؟ دو مختلف گروہوں کے لیئے میل جول رکھنے اور تعلقات کے انداز پر روشنی ڈالتی ہے۔

مومنین کے ساتھ ملاقات کا ریاکارانہ انداز

منافق جب صاحبان ایمان سے ملتے تو کہتے کہ ہم بھی آپ لوگوں کی طرح اللہ،رسول،آخرت اور قرآن مجید پر ایمان لائے ہیں لیکن ان کا یہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا اگر یونہی ملاقات ہو جاتی تو اہنے ایمان کا اظہار کرنا شروع کر دیتے اور اپنی دو رنگی کی وجہ سے یہ لوگ قلبا انہیں ملنے کے مشتاق بھی نہ ہوتے اور ملاقات پر اصرار نہ کرتے تھے۔

____________________

۰۰۰ غایة المرام ۳۹۵،و منہج الصادیقین ج ۱ ص ۱۶۰ ( کچھ تبدیلی کے ساتھ )اور روح البیان ج ۱ ص ۶۲۔

۹۵

یہی وجہ ہے کہ قراان مجید نے مسلمانوں کے ساتھ ان کے ملنے کو اذا لقوا سے تعبیر کیا ہے کہ جب ملاقات ہو جاتی تو ایمان کا اظہار کرنے بیٹھ جاتے اور یہ اظہار بھی صرف ظاہرا ہوتا تھا اسی وجہ سے یہاں جملہ فعلیہ استعمال ہوا ہے جو حدوث پر دلالت کرتا ہے یعنی ظاہرا تو مسلما ن ہونے کا دعوی کرتے جبکہ باطنا کفر کا اظہار کرتے تھے۔

اپنے بزرگوں سے ملاقات کا انداز

منافق جب اپنے شیطان صفت بزرگوں سے ملتے تو ان کا انداز ہی جدا ہوتا تھا اس وقت یہ اپنے شیطان صفت،مظہر کفروعناداور بیوقوف بزرگوں سے خلوت میں ملاقاتیں کرتے یعنی یہ کافر سرداروں کے ساتھ اپنے باطنی کفر کی وجہ سے خفیہ ملاقاتیں اورقلبی اعتقاد سے کہتے۔ہم آپ کے ساتھ ہیں یہاں ان کے لیئے لفظ،انا معکم،استعمال ہوتی ہے یہ جملہ اسمیہ ہے اور دوام وثبوت پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ دل و جان سے اس حقیقت کا اظہار کرتے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے ویسے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم بھی ایمان رکھتے ہیں۔

مومنین کی اہانت

خداوندعالم اس آیت میں بتا رہا ہے کہ منافق کس طرح مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے اور وہ ہر وقت ان کی توہین کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور اپنے بزرگوں سے جا کر کہتے تھے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں وہ سردار لوگ ان سے پوچھتے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ بھی تو ہیں اور ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو یہ انہیں جواب میں کہتے۔

۹۶

ہم تو انہیں بناتے ہیں ان کا یہ کہنا ان کے جہل نادانی اور تکبر کی علامت ہے اور جس انسان میں تکبر ہو اس کا عقل قرآنی ہدایت کو قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کسی کی تحقیر اور اہانت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ خدا،رسول آیات الہی،اورمومنین کی ایمان کی اہانت اورتحقیر کرنا کفر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ )

آ پ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔(۱)

( اللهُ یَسْتَهْزِءُ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ )

خداانہیں خود مذاق بنائے ہوئے ہے اور انہیں سر کشی میں ڈھیل دیے ہوئے ہے تا کہ یہ اندھے پن میں مبتلا رہیں۔

مو منین کی حمایت

اس ایت مجیدہ میں اللہ تعالی نے منافقین کے مقابلہ میں مو منین کی حمایت کر رہاہے کیونکہ منافقوں نے مسلمانوں کی توہین صرف دین الہی کے اختیار کرنے کی وجہ سے کی ہے لہذا انہوں نے مومنین کے متعلق جو لفظ استعمال کیا ہے اور اس میں مسلمانوں کی تحقیر اور توہین تھی اللہ تعالی نے ان کی حمایت میں اپنی طرف سے وہی الفاظ ان کی طرف پلٹا دیے ہیں اور اللہ نے ایسا کر کے انہیں سزادی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں۔

ان الله لا یستهزی بهم الکن یجاز بهم جزاء الا ستهزاء

اللہ انکا از خود مذاق نہیں اڑاتا بلکہ ان کے مذاق اڑانے کی سزا دیتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ توبہ آیت ۶۵،۶۶

۹۷

منافقین کے عمل سزا بھی تمسخر اور استہزاء کے مشابہ ہیں یعنی ان کا ظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہے اور ان کا باطن کفار کے ساتھ ہے۔

یہ کفار سے کہتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے لہذا سزا کے وقت اللہ تعالی بھی ان کے ساتھ ان جیسا معاملہ کر رہا ہے اس دنیا میں ان کے لئے مسلمانوں کے احکام جاری فرمائے ہیں یعنی ان کے زبانی کلامی یہ کہنے سے کہ ہم مومن ہیں تمام احکام شرعیہ ان کے لئے جاری فرمائے ہیں۔

دنیا میں نماز روزہ حج زکواة جیسے تمام احکام پر عمل کرنا ان کے لئے ضروری قرار دیا ہے مگر چونکہ باطن میں یہ کافر تھے اس لئے آخرت میں انہیں کافروں سے بھی سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔(۱)

منافقون کے لیئے مومنین کا استہزاء اور تمسخر کوئی حقیقی اور تکوینی اثر نہیں رکھتا بلکہ انکا استہزاء محض اعتباری ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی حمائت کرتے ہوئے اللہ کا استہزاء اور تمسخر سزا کے عنوان سے ہے اس کا تکوینی اور واقعی اثر مسلم ہے۔

اللہ تعالی نے ان کے دلوں اور عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ان کا ہر عمل بیکار اور فضول ہے اس کے لیئے کوئی جزا نہیں ہے قیامت والے دن میزان پر ان کے اعمال کی کوئی قدروقیمت نہ ہو گی بلکہ ان کے اعمال کے لیئے میزان کی ضرورت بھی نہ ہو گی جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ) ۔(۲)

ہم قیامت والے دن ان کیلئے کوئی میزان حساب بھی قائم نہ کریں گے۔

آپ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔

____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص۱۶۲(۲)کھف آیت ۱۰۵۔

۹۸

مومنین کے ساتھ استہزاء کرنے پر اللہ تعالی منافقوں کو ایک سزا یہ دیتا ہے کہ یہ ہمیشہ سرکشی اور تباہی کی تا ریکیوں میں ڈوبے رہیں گے جس کی وجہ سے صراط مستقیم کو نہیں پا سکیں گے کیونکہ یہ آیات بینہ اور انبیاء و آئمہ اطہار علیہم السلام کے بارے میں تدبر و تفکر نہیں کرتے ان کے متعلق قلبی اعتقاد نہیں رکھتے اسی وجہ سے ان کا حق سے ہٹنا اور حق کو صحیح طور پر تسلیم نہ کرنا ان کی باطنی عناد اور سوء اختیار کی وجہ سے ہے۔جبکہ اللہ تعالی اپنی طرف سے کفر اور سرکشی میں اضافہ کو پسند نہیں کرتا یہ طغیانی اور سرکشی خود ان کی طرف سے ہے اللہ تعالی ان کی عمر کی رسی دراز کر دیتا ہے انہیں بہت مہلت دیتا ہے لیکن ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان سے معارف الہی کو سمجھنے کی توفیق سلب کر لیتا ہے اور یہ اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔

جو لطف اور نور وقلب مومنین کے شامل حال ہے وہ انہیں میسر نہیں ہے بلکہ ان کے دلوں میں نفاق اور کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے ضلالت و گمراہی زیادہ ہو گئی ہے لہذا اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت کی محرک نعمتیں بھی ان کے لیئے مزید سرکشی اور ضلالت کا موجب بن گئی ہیں اور خداتعالی کی طرف سے ڈھیل نے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جس طرح کافر اپنی خطاؤں کے گرداب میں غرق ہیں۔

اسی طرح منافق بھی اپنی ضلالت اور گمراہی و سرکشی کی وجہ سے اس ڈھیل سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور اسی گرداب میں غرق ہو گئے ہیں اور اپنے اندھے پن کی وجہ سے اپنی زندگی اچھائی برائی کی تمیز کے بغیر گزار دیتے ہیں۔

۹۹

( أُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ )

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی خرید لی ہے جس تجارت سے نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی ہدایت ہے۔

منافقین کا انجام

الف ضلالت و گمراہی کے خریدار

گزشتہ آیات میں منافقین کے مفسد اور باطل اوصاف کو بیان کیا گیا انہون نے متاع گراں،چشمہ ہدایت سے سیراب ہونے کی بجائے ضلالت و گمراہی کو ترجیح دی ہے لیکن اتنے بے شعور ہیں کہ مفسد اور مخرب کام کو اصلاح کا نام دینے لگے مومنین کو سادہ لوح اور نادان سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ خود فسادی اور دھوکہ با ز اور نادان لوگ ہیں انہوں نے ہدایت پر جلالت کو ترجیح دی ہے۔ جبکہ ان کے پاس امکان تھا کہ ہدایت سے بلا مانع فائدہ اٹھاتے کیونکہ یہ لوگ وحی کے خوشگوار چشمے کے کنارے پر تھے اس ماحول میں صدق وصفا اور ایمان سے لبریز ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے اس ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید کر لیا ہے جس سے سب فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

لیکن صرف متقین نے اس سے فائدہ اٹھایا جبکہ کافر اور منافق کے اختیارمیں بھی تھا لیکن وہ اپنے سوء اختیار کی وجہ سے ضلالت اور گمراہی کے خریددار بنے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبيلَ إِمَّا شاکِراً وَ إِمَّا کَفُوراً )

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو جائے۔(۱)

____________________

(۱)سورہ دھر آیت ۳۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رسول(ص) جزیرہ عرب کے شمالی علاقہ کے سرداروں کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ طرفین میں سے کوئی بھی کسی پر حملہ و زیادتی نہیں کرے گا ۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خالد بن ولید کو دومة الجندل کی طرف بھیجا کیونکہ وہاں کے سرداروں سے یہ خوف تھا کہ وہ دوسرے حملہ میں کہیں روم کا ساتھ نہ دیں مختصر یہ کہ مسلمانوں نے وہاں کے حاکم کو گرفتار کر لیا اور بہت سا مال غنیمت ساتھ لائے۔( ۱ )

رسول(ص) کے قتل کی کوشش

مقام تبوک میں دس بارہ روز گزارنے کے بعد رسول(ص) اور مسلمان مدینہ کی طرف واپس لوٹے جن لوگوں کا خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہیں تھا ان کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ کیا اور انہوں نے رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور یہ منصوبہ بنایا کہ جب آپ(ص) کا ناقہ ان کے پاس سے گذرے گا تو اسے بھڑکا دیں گے تاکہ آپ(ص) کو گھاٹی میں گرا دے۔

جب یہ لشکر-مدینہ و شام کے درمیان-مقام عقبہ پر پہنچا تو رسول(ص) نے یہ فرمایا:''من شاء منکم ان یاخذ بطن الوادی فانه اوسع لکم'' جو تم میں سے وادی کے بیچ سے جانا چاہتا ہے وہاں سے چلا جائے کہ وہ تمہارے لئے زیادہ کشادہ ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے وادی کا راستہ اختیار کیا اور آپ(ص) عقبہ والے راستہ پر چلتے رہے، حذیفہ بن یمان آپ(ص) کے ناقہ کی مہارپکڑے ہوئے تھے اور عمار یاسر اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے، رسول(ص) نے چاند کی روشنی میں کچھ سواروں کو دیکھا جو اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے اور پیچھے سے آہستہ آہستہ ناقہ کی طرف بڑھ رہے تھے، یہ دیکھ کر رسول(ص) کو غیظ آگیا آپ(ص) نے انہیں پھٹکارا اور حذیفہ سے فرمایا: ان کی سواریوں کے منہ پر مارو ! اس سے ان پر رعب طاری ہو گیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کو ہمارے دل کی حالت کا علم ہو گیا اور ہماری سازش بے نقاب ہو گئی لہذا وہ دیکھتے ہی دیکھتے عقبہ سے بھاگ گئے تاکہ لوگوں میں گم ہو جائیں اور ان کی شناخت نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۶ بحار الانوارج۲۱ص۲۴۶۔

۲۰۱

حذیفہ نے رسول(ص) سے درخواست کی کہ کسی کو ان کے تعاقب میں بھیج کر انہیں قتل کرا دیجئے کیونکہ انہوں نے ان کی سواریوں کو پہچان لیا تھا لیکن رسول(ص) رحمت نے انہیں معاف کر دیا اور ان کے معاملہ کو خدا پر چھوڑ دیا۔( ۱ )

جنگ تبوک کے نتائج

۱۔مسلمان ایک بڑی منظم طاقت بن کر ابھرے، ایسی قوت جو مضبوط عقیدہ کے حامل کو ملتی ہے، اس سے مضافات کی حکومتوں اور دیگر ادیان کو خوف لاحق ہوا یقینا اسلامی شہروں سے باہر، اور ان کے اندر کی طاقتوں کے لئے یہ حقیقی خطرہ تھاجس سے بچنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو نہ چھیڑیں۔

۲۔ مسلمانوں نے شمال کے علاقے کے سرداروں سے معاہدہ کرکے اس علاقہ کو محفوظ بنا لیا تھا۔

۳۔ اسلحہ و تعداد کے لحاظ سے بڑی فوج تیار کرکے مسلمانوں نے اپنی طاقت سے استفادہ کیا، تنظیم و آمادگی کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ ہوا، تبوک کی طرف یہ سفر میدان مبارزہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے مرادف تھا تاکہ آئندہ اس سے استفادہ کریں۔

۴۔ غزوہ تبوک مسلمانوں کی روحانیت و معنویت کا امتحان اور منافقین کو مسلمانوں سے جدا کرنے کے لئے تھا۔

۵۔ مسجد ضرار

یقینارسول(ص) آسان شریعت اور دینِ توحید لائے تھے، خدائی دستورات کے مطابق صالح اور صحیح سالم معاشرہ وجود میں لانے کے لئے ، سر فروشانہ طریقہ سے کوشاں تھے، انسان کو شرک کی نجاست، شیطانی وسوسوں ،نفسیاتی بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے ،آپ(ص) نے بہت رنج و غم اٹھائے اور آپ کومتعدد جنگیں لڑنا پڑیں۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص۱۰۴۲، مجمع البیان ج۳ ص ۴۶، بحار الانوار ج۲۱ ص ۲۴۷۔

۲۰۲

بعض منافقین کے دل میں بغض وحسد کی چنگاری بھڑک اٹھی اور انہوں نے مسجد ''قبا'' کے مقابلہ میں ایک مسجد بنا ڈالی اور یہ ظاہر کیا کہ اس میں، ضرورت مند بارش وغیرہ کی راتوں میں نماز پڑھا کریںگے وہ رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور یہ درخواست کی کہ اس مسجد میں نماز پڑھئے اس سے ان کا مقصد اپنے عمل پر شریعت کی مہرلگوانا تھا، چونکہ رسول(ص) تبوک کی طرف روانگی کیلئے، تیاری کررہے تھے اس لئے ان کی درخواست منظور کرنے میں آپ(ص) نے تاخیر کی ، جب تبوک سے واپس تشریف لائے تو خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھئے گا، کیونکہ اس سے مسلمان میں تفرقہ پڑجائیگا اور امت کو نقصان پہنچے گا کتنا فرق ہے ان دو مسجدوںکے درمیان جن میں سے ایک کی بنیاد تقوے پر رکھی گئی ہے اور دوسری مسلمانوںکو نقصان پہنچا نے کے لئے بنائی گئی ہے اسی بنا پر رسول(ص) نے اسے منہدم کرنے کا حکم دیدیا۔( ۱ )

۶۔ وفود کا سال

جزیرہ نمائے عرب پر اسلام کا اقتدار مسلم ہو گیا، رسول(ص) قوت اور جنگ کا سہارا مجبوری میں ڈرانے کے بعد لیتے تھے مسلمانوں کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں، شرک کی طاقتیں حق کو نہیں سمجھتی تھیں وہ طاقت کے استعمال اور ڈرانے دھمکانے سے ہی راہ راست پہ آئی تھیں۔

جب مسلمان اپنی حکومت کے پائے تخت-مدینہ منورہ-واپس لوٹ آئے تو رسول(ص) نے کچھ دستے روانہ کئے تاکہ وہ شہروں کو شرک و بت پرستی کے مرکزوں سے پاک کریں۔

مسلمانوں کی طاقت اور ان کی پے در پے فتح سے جزیرہ نما عرب کے سردار اسلام کی ندا کھلے کانوں سن رہے تھے اور اس کے مقاصد و ہدایت کو بخوبی سمجھ رہے تھے لہذا ان کے وفود مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ رسول(ص) کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کریں، اس لئے اس سال کو ''عام الوفود'' کہتے ہیں۔( ۲ ) رسول(ص) ان ک

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲۰ ص ۵۳۰، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۵۳۔

۲۔ سیرت نبویہ، ابن ہشام: ہجرت کے نویں سال میں اس کا ذکر کیا ہے اور اسے سنة الوفود کے نام سے یاد کیا ہے ۔

۲۰۳

استقبال کرتے تھے ان کے ساتھ نیکی کرتے تھے اور ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجتے تھے جو انہیں قرآن اور شریعت اسلام کے فرائض کی تعلیم دیتا تھا۔

قبیلۂ ثقیف کا اسلام لانا

خدائی فتح و نصرت نے ہر شخص پر یہ فرض کر دیا کہ وہ اپنے امور کے بارے میں غور کرے اور اسلام کے سلسلہ میں اپنی عقل کو حاکم بنائے۔ یہ رسول(ص) کی حکمتِ بالغہ تھی کہ جب طائف والوں نے اپنے شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا تو رسول(ص) نے فتح طائف کے لئے مہلت دیدی تھی اور آج وہ خود اپنے وفود بھیج رہے ہیں تاکہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں جبکہ پہلے انہوں نے شدید دشمنی اور مخالفت کی تھی اور اپنے سردار، عروہ بن مسعود ثقفی کو اس جرم میں قتل کر دیا تھا کہ وہ خود اسلام قبول کرکے ان کے پاس گیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔

رسول(ص) نے ثقفی وفد کو خوش آمدید کہا، مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ان کے لئے ایک خیمہ نصب کر دیااور ان کی میزبانی کے فرائض خالد بن سعید کے سپرد کئے۔ اس کے بعد انہوں نے رسول(ص) سے چند شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں گفتگو کی وہ شرطیں یہ تھیں: کچھ زمانہ تک ان کے قبیلے کا بت نہ توڑا جائے، آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ خالص توحید کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں ہے ان لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنی شرطیں ختم کر دیں بعد میں انہوں نے یہ کہا: ہم اسلام قبول کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات سے معاف رکھا جائے کہ اپنے بت خود توڑیں اسی طرح یہ شرط بھی رکھی کہ ہمیں نماز سے معاف رکھا جائے رسول(ص) نے فرمایا:''لا خیر فی دین لا صلٰوة فیه'' اس دین کا کیا فائدہ جس میں نماز نہیں۔ مختصر یہ کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ وفد ایک مدت تک رسول(ص) کے ساتھ رہا اور احکام دین کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے طائف کے بت توڑنے کیلئے، ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۵۳۷، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۶ ۔

۲۰۴

۷۔ فرزندِ رسول(ص) ، حضرت ابراہیم کی وفات

اسلام کی کامیابی اورپیغامِ رسالت کی توسیع سے رسول(ص) بہت خوش تھے، لوگ دین خدا میں گروہ درگروہ داخل ہو رہے تھے لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم دوسرے سال میں داخل ہوئے تو وہ بیمار ہو گئے ان کی والدہ جناب ماریہ نے دیکھا کہ وہ مریض ہیں اور کسی بھی چیز سے انہیں افاقہ نہیں ہو رہا ہے تورسول(ص) کو خبر دی گئی کہ بیٹا احتضار کی حالت میں ہے ، آپ(ص) تشریف لائے دیکھا کہ ابراہیم اپنی ماں کی آغوش میں جاں بلب ہیں، رسول(ص) نے انہیں لے لیا اور فرمایا:

''یا ابراهیم انا لن نغنی عنک من اللّه شیئاً انا بک لمحزونون تبکی العین و یحزن القلب ولا نقول ما یسخط الرب ولولا انه وعد صادق و موعود جامع فان الآخر منا یتبع الاول لوجدنا علیک یا ابراهیم وجدا ً شدیداً ما وجدناه'' ۔( ۱ )

اے ابراہیم ہم تمہارے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے ، تمہارے غم میں ہماری آنکھیں اشکبار اور دل غم زدہ ہیں لیکن ہم ایسی بات ہر گز نہیں کہتے جو خدا کے غضب کا سبب ہو اگر خدا کا سچا وعدہ نہ ہوتا تو اے ابراہیم ہم تیرے فراق میں اس سے زیادہ گریہ کرتے اور بہت زیادہ غمگین ہوتے، اور ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔

رسول(ص) کے چہرہ اقدس پر غم و الم کے آثار ظاہر ہو گئے، تو بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول(ص)! کیا آپ(ص) نے ہمیں ایسی باتوں سے نہیں روکا ہے تو آپ نے فرمایا:

''ما عن الحزن نهیت و لکنی نهیت عن خمش الوجوه و شق الجیوب ورنة الشیطان'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱، بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۷۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱۔

۲۰۵

میں نے تمہیں عزیزوں کا غم منانے سے نہیں روکا ہے ہاں چہرے پر طمانچے مارنے، گریبان چاک کرنے اور شیطان کی طرح چیخنے چلّانے سے منع کیا ہے ۔

ایک روایت یہ ہے کہ آپ(ص) نے یہ فرمایا:

''انما هذا رحمة و من لا یرحم لا یرحم'' ( ۱ )

یہ تو بس رحمت ہے اور جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

خدا کی نظر میں نبی (ص) کی بڑی منزلت ہے اور آپ(ص) نے کتنے ہی معجزات دکھائے ہیں جن کے سبب لوگ آپ(ص) پر ایمان لائے ہیں لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گہن لگا تو بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ ان کی موت کے باعث سورج کو گہن لگا ہے ۔

رسول(ص) نے اس گمان کی نفی فرمائی اور اس خوف سے کہ کہیں یہ سنت نہ بن جائے اور جاہل اس کے معتقد نہ ہو جائیں فوراً فرمایا:

''ایها النّاس ان الشمس و القمر آیتان من آیات اللّه لا یکسفان لموت احد ولا لحیاته'' ۔( ۲ )

اے لوگو! چاند سورج خدا کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو کسی کی موت و حیات پر گہن نہیں لگتا ہے ۔

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۱۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۸۷۔

۲۰۶

تیسری فصل

جزیرہ نما عرب سے بت پرستی کا صفای

۱۔ مشرکین سے اعلانِ برائت

جب جزیرہ نما عرب میں اسلامی عقیدے اور شریعتِ سہلہ کا فروغ ہو گیا اور بہت سے لوگوں نے اسے قبول کر لیا تو وہاں شرک و بت پرستی پر چند ہی لوگ قائم رہے وہاں صریح طور پر ایہ اعلان کرنا ضروری تھا کہ عبادی و سیاسی مناسک میں شرک و بت پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔

اب وقت آ گیا تھا کہ اسلامی حکومت ہر جگہ اپنے نعروں اور شعار کا اعلان کرے، نرمی اور تالیف قلوب کا زمانہ ختم ہو چکا تھا گذشتہ دور اس بات کا مقتضی تھاکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔

اس اعلان کے لئے رسول(ص) نے زمانہ کے لحاظ سے قربانی کا دن اور جگہ کے اعتبار سے منیٰ( ۱ ) کو منتخب کیا اور ابوبکر کو سورۂ توبہ( ۲ ) کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لئے مقرر کیا گیا۔یہ آیتیں اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھیں ان کے ضمن میں تمام مشرکین سے صریح طور پر برائت کا اعلان تھا، برائت کی شقیں درج ذیل ہیں:

۱۔ کافر جنت میں نہیں جائیگا۔

۲۔ برہنہ حالت میں کسی کو خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرنے دیا جائیگا۔( یہ جاہلیت کی رسم تھی)

۳۔ اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا۔

____________________

۱۔دس ذی الحجہ ۹ھ۔

۲۔سورۂ توبہ ۱۔۱۳۔

۲۰۷

۴۔ جس کا رسول(ص) سے معاہدہ ہے وہ اپنی مدت پر ختم ہو جائیگا لیکن جس کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے اس کے بعد دار الاسلام میں اگر مشرک پایاجائیگا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی اثنا میں رسول(ص) پر وحی نازل ہوئی:''انّه لا یؤدِّی عنک الا انت او رجل منک'' اس پیغام کو آپ(ص) یا وہ شخص پہنچا سکتا ہے جو آپ(ص) سے ہو۔ پس آنحضرت (ص) نے حضرت علی کو طلب کیا اور فرمایا: عضباء ناقہ پر سوار ہو کر ابو بکر کے پاس جائو اور ان سے وہ پیغام لے لو اور اسے تم لوگوں تک پہنچائو۔( ۱ )

علی بن ابی طالب حاجیوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے اور ہمت و جرأت کے ساتھ خدا کے بیان (پیغام)کو پڑھا ہر چیز کو واضح طور سے بیان کیا، لوگوں نے اسے کھڑے ہو کربہت توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنا مشرکین پر اس اعلان کا یہ اثر ہوا کہ وہ فرمانبردار ہو کر رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

۲۔ نصارائے نجران سے مباہلہ

نصارائے نجران کو رسول(ص) نے خط لکھ کر اسلام کی طرف دعوت دی، ان کے سردار اور صاحبان حل و عقد اس خط کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے جمع ہوئے لیکن کسی خاص و قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کیونکہ ان کے پاس ایسی تعلیمات کا علم تھا جو جناب عیسیٰ کے بعد ایک نبی (ص) کی آمد کی تاکید کرتے تھے اور محمد(ص) کے معجزات و افعال اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ آپ نبی (ص) ہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ طے کیا کہ نبی (ص) کے پاس ایک وفد بھیجا جائے جو ان سے گفتگو کرے۔

یہ وفد رسول(ص) کے پاس پہنچا لیکن رسول(ص) نے ان کے ظاہر کو دیکھ کر انہیں کوئی اہمیت نہ دی یہ بھی بت پرستوں کی وضع قطع میں تھے۔ حر یرو دیبا کی ردا ڈالے ہوئے، سونا پہنے ہوئے اور گردنوں میں صلیب لٹکائے ہوئے تھے، دوسرے دن انہوں نے اپنی وضع قطع بدلی اور پھر حاضر ِ خدمت ہوئے تو رسول(ص) نے انہیں خوش آمدید کہا، ان کا احترام کیا اور انہیں ان کے مذہبی امور بجالانے کی سہولت فراہم کی۔( ۲ )

____________________

۱۔الکافی ۱/۳۲۶، الارشاد ۳۷، الواقدی ۳/۱۰۷۷، خصائص النسائی ۲۰، صحیح ترمذی۲/۱۸۳، مسند احمد ۳/۳۸۳، فضائل الخمسہ من الصحاح الستة۲/۳۴۳۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۱، سیرتِ نبویہ ج۱ ص ۵۷۴۔

۲۰۸

اس کے بعد ان کے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی لیکن انہوں نے قبول نہ کیا بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوا آخر کار رسول(ص) نے فرمایا کہ اب میں تم سے مباہلہ کرونگا یہ بات آپ(ص) نے حکم خدا سے کہی تھی اگلے روز مباہلہ کرنے پر اتفاق ہو گیا۔

حکم خدا کی اطاعت میں ان سے مباہلہ کے لئے رسول(ص) اس طرح بر آمد ہوئے کہ حسین کو(گود میں) اٹھائے اور حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ(ص) کے پیچھے آپ(ص) کی بیٹی فاطمہ اور ان کے بعد آپ(ص) کے ابن عم علی بن ابی طالب تھے اس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے :

( فمن حاجک فیه من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة اللّه علیٰ الکاذبین ) ( ۱ )

جب تمہارے پاس علم آ چکا تو اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں تم سے حجّت کرے تو تم ان سے یہ کہدو کہ تم اپنے بیٹوں کو لائو ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لائو ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے مردوں کو لائو ہم اپنے مردوں کو لائیں پھر مباہلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔

ان کے علاوہ رسول(ص) نے مسلمانوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ نہیں لیا۔یہ مباہلہ آپ(ص) نے اس لئے کیا تھا تاکہ آپ(ص) کی نبوت و رسالت کی صداقت سب پر ثابت ہو جائے۔ اس موقعہ پر نجران کے اسقف نے کہا: اے قوم نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے یہ دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو خدا اسے اس کی جگہ سے ہٹا دے گا۔ پس ان سے مباہلہ مت کرو، ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہیں بچے گا۔

جب نصارای نجران نے رسول(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت( ان پر خدا کا درود ہو)سے مباہلہ کرنے سے انکار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

''اما اذا ابیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین و علیکم ما علیٰ المسلمین'' ۔

____________________

۱۔ آل عمران:۶۱۔

۲۰۹

جب تم نے مباہلہ سے انکار کر دیا ہے تو اسلام قبول کرو اس طرح تم نفع و ضرر میں مسلمانوں کے شریک ہو جائو گے، لیکن انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی تو رسول(ص) نے فرمایا:''انی انا جزکم القتال'' میں تم سے جنگ کرونگا، انہوںنے کہا: ہم عرب سے جنگ نہیں کر سکتے ہاں ہم آپ(ص) سے اس بات پر صلح کرتے ہیں کہ اگر آپ(ص) ہم سے جنگ نہیں کریں گے اور ہمیں ہمارے دین سے نہیں پلٹائیں گے توہم ہر سال آپ(ص) کودو ہزار حلے ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں دیا کریں گے اور لوہے کی تیس زرہیں دیا کریں گے۔ رسول(ص) نے اس پر ان سے صلح کر لی۔

''و الّذی نفسی بیده ان الهلاک قد تدلی علٰی اهل نجران، ولولاعنوا لمسخوا قردة وخنازیر ولا ضطرم علیهم الوادی ناراً، ولأُ ستاصِلَ نجران و اهله حتی الطیر علیٰ رؤوس الشجر، ولما حال الحول علیٰ النصاری کلهم حتی یهلکوا فرجعوا الیٰ بلادهم دون ان یسلموا'' ( ۱ )

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہلاکت اہل نجران سے قریب آ چکی تھی ( عذاب ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا) اگر وہ لعنت کرتے تو وہ بندر اورسور کی صورت میں مسخ ہو جاتے اور پوری وادی آگ برساتی اور اہل نجران مع اہل یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی ہلاک ہو جاتے، ایک سال کے اندر سارے نصاریٰ ہلاک ہو جاتے، وہ اسلام لائے بغیر اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔

روایت ہے کہ نصاریٰ کے سرداروں میں سے سید اور عاقب اپنے اسلام کا اعلان کرنے کے لئے تھوڑی ہی دیر بعد رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر کبیر''رازی'' ج۸ ص ۸۵۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۳۵۷۔

۲۱۰

۳۔حجة الوداع

رسول(ص) ساری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ تھے، آپ(ص)خدا کی آیتوں کو اس طرح پہنچاتے تھے کہ ان کی تفسیر اور ان کے احکام واضح طور سے بیان کرتے تھے سارے مسلمان آپ(ص) کے قول و فعل کی اقتدا کرتے تھے- ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی القعدہ میں رسول(ص) نے فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کیا-اس سے قبل آپ(ص) نے حج نہیں کیا تھا، اس حج کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ مسلمان حج کے احکام سے آگاہ ہو جائیں چنانچہ ہزاروںمسلمان مدینہ آ گئے اور نبی (ص) کے ساتھ حج پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گئی، ان میں اہل مدینہ ، بادیہ نشین اور دیگر قبائل کے لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ، جاہل اور کافر تھے لیکن آج انہیں سچی محبت، اسلامی اخوت نے رسول(ص) کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ایک جگہ جمع کردیا ہے ، اس سفر میں رسول(ص) نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹی فاطمہ زہرا(ص) کو ساتھ لیا، فاطمہ (ص) کے شوہر علی بن ابی طالب کو رسول(ص) نے ایک مہم سر کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اس سفر میں آپ(ص) کے ساتھ نہیں تھے، ابو دجانہ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر کیا۔

مقام ذو الحلیفہ پر آپ(ص) نے احرام باندھا دو سفید کپڑے پہنے، احرام کے وقت تلبیہ کہی''لبیک الّلهم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و الملک ، لبیک لا شریک لک لبیک'' ۔

چوتھی ذی الحجہ کو رسول(ص) مکہ پہنچے، تلبیہ کہنا بند کر دیا خدا کی حمد و ثنا اور شکر بجالائے، حجر اسود کو چوما، سات مرتبہ طواف کیا۔ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور حاجیوں کو اس طرح مخاطب کیا:''من لم یسق منکم هدیا فلیحل و لیجعلها عمره و من ساق منکم هدیا فلیقم علیٰ احرامه'' تم میں سے جس شخص نے قربانی کا جانور نہیں بھیجا ہے اسے احرام کھول دینا چاہئے اور اسے عمرہ قرار دنیا چاہئے اور جس نے قربانی کا جانور بھیجا ہے اسے اپنے احرام پر باقی رہنا چاہئے۔

بعض مسلمانوں نے رسول(ص) کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا انہوںنے یہ خیال کیا کہ ہمیں وہی کام انجام دینا چاہئے جو رسول(ص) نے انجام دیا ہے اور آپ(ص) نے احرام نہیں کھولا۔ ان کی اس حرکت پر رسول(ص) ناراض ہوئے۔

۲۱۱

اور فرمایا:

''لوکنت استقبلت من امری ما استدبرت لفعلت کما امرتکم'' ( ۱ )

اگر ماضی کی طرح مستقبل مجھ پر روشن ہوتا تو میں بھی وہی کام کرتا جس کا تم کو حکم دیا ہے ۔

حضرت علی بن ابی طالب یمن سے واپسی پر مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں خدمت رسول(ص) میں حاضر ہو جائیں آپ(ص) نے قربانی کے لئے ۳۴ جانور ساتھ لئے، مکہ کے قریب پہنچے تو آپ(ص) نے شہر میں داخل ہونے کے لئے اپنے دستہ پر کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خدمت نبی(ص) میں پہنچے، یمن میں آپ کی عظیم کامیابی کی خبر سن کر اور آپ کو دیکھ کر رسول(ص) بہت مسرور ہوئے اور فرمایا:

جائیے طواف کیجئے اور اپنے ساتھیوں کی طرح مکہ میںداخل ہو جایئے، آپ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! جس نیت سے آپ(ص) نے احرام باندھا ہے میں نے بھی اسی نیت سے باندھا ہے ۔ نیز عرض کی: میں نے احرام باندھتے وقت یہ کہا تھا اے اللہ میں اس نیت کے ساتھ احرام باندھتا ہوں جس نیت سے تیرے بندے، تیرے نبی(ص) اور تیرے رسول(ص) محمد(ص) نے احرام باندھا ہے، اس کے بعد رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: اپنے دستہ میں واپس جائیے اور ان لوگوں کے ساتھ مکہ آئیے۔ جب آپ کے ساتھی خدمت رسول(ص) میں پہنچے تو انہوں نے آنحضرت(ص) سے آپ کی شکایت کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے حضرت علی کی عدم موجودگی میں بیت المال میں غلط طریقہ سے جو تصرف کیا تھا اسے آپ نے قبول نہیں کیا تھا۔ ان کی شکایت کا آنحضرت(ص) نے یہ جواب دیا:

''ایها النّاس لا تشکوا علیاً فو اللّه انه لا خشن فی ذات الله من ان یشتکی'' ۔( ۲ )

اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو کیونکہ وہ حکمِ خدا نافذ کرنے میں کسی کی شکایت کی پروا نہیں کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۱۹۔

۲۔سیرة نبویہ ج ۲ص۶۰۳، بحار الانوارج ۲۱ص۳۵۸۔

۲۱۲

۹ ذی الحجہ کو رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور غروب آفتاب تک وہیں رہے۔ تاریکی چھا جانے کے بعد اپنے ناقہ پر سوار ہوئے اور مزدلفہ پہنچے وہاں رات کا ایک حصہ گذرا اور طلوع فجر تک مشعر الحرام میں رہے ، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ کا رخ کیا۔ وہاں کنکریاں ماریں قربانی کی اورسر منڈوایا اس کے بعد حج کے باقی اعمال بجالانے کے لئے مکہ چلے گئے۔

اس حج کو حجة الوداع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں رسول(ص) نے مسلمانوں کو وداع کیا ، اسی میں آپ(ص) نے یہ خبر دی کہ آپ(ص) کی وفات کا زمانہ قریب ہے ، اس حج کو ''حجة البلاغ'' بھی کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ(ص) نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کی بھی تبلیغ کی تھی، اس کو حجة الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ رسول(ص) کا پہلا حج تھا کہ جس میں آپ(ص) نے حج کے اعمال سے متعلق اسلام کے دائمی احکام بیان فرمائے تھے۔

حجة الوداع میں رسول(ص) کا خطبہ

روایت ہے کہ رسول(ص) نے ایک جامع خطبہ دیا خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

'' یا ایها النّاس اسمعوا منی ابین لکم فانی لا ادری لعلی لا القاکم بعد عامی هذا فی موقفی هذا ایها النّاس ان دمائکم و اموالکم علیکم حرام الیٰ ان تلقوا ربکم کحرمة یومکم هذا فی شهرکم هذا فی بلد کم هذا الاهل بلغت؟ الّلهم اشهد فمن کانت عنده امانة فلیؤدها الیٰ الذی ائتمنه و ان ربا الجاهلیة موضوع، و ان اول رباً ابدأ به ربا عم العباس بن عبد المطلب ان مآثر الجاهلیة موضوعة غیر السدانة و السقایة، و العمد قود و شبه العمد ما قتل بالعصا و الحجر ففیه مائة بعیر فمن زاد فهو من اهل الجهالیة

۲۱۳

ایها النّاس ان الشیطان قد یئس ان یعبد فی ارضکم هذه و لکنه رض ان یطاع فیما سویٰ ذلک مما تحتقرون من اعمالکم

ایها النّاس انما النسء زیادة ف الکفر یضل به الذین کفروا یحلونه عاماً و یحرمونه عاماً لیواطئوا عدة ما حرم الله و ان الزمان استدار کهیئته یوم خلق الله السموات و الارض و ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً ف کتاب الله یوم خلق السماوات والارض، منها اربعة حرم، ثلاثة متوالیات وواحد فرد:

ذو القعدة و ذو الحجة و المحرم و رجب الذ بین جمادی و شعبان الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد

ایها النّاس ان لنسائکم علیکم حقاً و ان لکم علیهن حقاً لکم علیهن ان لا یوطئن فرشکم غیر کم ولا یدخلن احداً تکرهونه بیوتکم الا باذنکم ولا یأتین بفاحشة، فان فعلن فان اللّه قد اذن لکم ان تعضلوهن و تهجروهن ف المضاجع و تضربوهن ضرباً غیر مبرح، فان انتهین و اطعنکم فعلیکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف، و انما النساء عندکم عوار لا یملکن لانفسهن شیئاً، اخذتموهن بامانة اللّه و استحللتم فروجهن بکلمة اللّه فاتقوا اللّه ف النساء و استوصوا بهن خیراً

ایها النّاس انما المؤمنون اخوة فلا یحل لا مرئٍ مال اخیه الا عن طیب نفس الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد فلا ترجعوا بعد کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض؛ فانی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب اللّه و عترت اهل بیت الا هل بلغت ؟ اللهم اشهد

ایها النّاس ان ربکم واحد، و ان اباکم واحد، کلکم لآدم، و آدم من تراب، اکرمکم عند اللّه اتقاکم، لیس لعرب علی عجم فضل الا بالتقوی، الا هل بلغت؟ قالوا نعمقال(ص): فلیبلغ الشاهد منکم الغائب( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج ۲۱، ص ۴۰۵۔

۲۱۴

ایها النّاس ان اللّه قد قسم لکل وارث نصیبه من المیراث ولا یجوز لوارث وصیة ف اکثر من الثلث، و الولد للفراش و للعاهر الحجر، من ادع الیٰ غیر ابیه او تولی غیر موالیه فعلیه لعنة اللّه و الملائکة و النّاس اجمعین ، لا یقبل اللّه منه صرفاً ولا عدلاً... و السلام علیکم و رحمة اللّه ۔( ۱ )

اے لوگو! میری بات سنو تاکہ تمہارے سامنے یہ واضح کر دوں مجھے لگتا ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ تم لوگوں سے شاید میری ملاقات نہ ہو۔ اے لوگو! تمہارا خون اور تمہاری عزت تمہارے لئے مرتے دم تک اسی طرح محترم ہے جیسے تمہارے اس شہر میں آج کا دن محترم ہے۔ کیا میں نے بخوبی تم تک الٰہی پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! گواہ رہنا۔ پس اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو تو اسے اس شخص کے پاس پہنچا دے جس نے امانت رکھی تھی، زمانہ جاہلیت کا ہر سود باطل ہے سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سود کو لغو قرار دیتا ہوں اور جو خون زمانۂ جاہلیت میں بہایا گیا تھا اس کا انتقام و قصاص وغیرہ بھی باطل ہے اور سب سے پہلے میںعامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کی سزا کو لغو قرار دیتا ہوں اور خانۂ کعبہ کی دربانی و کلید برداری اور حاجیوں کو سیراب کرنے کے علاوہ کوئی کام باعثِ افتخار نہیں ہے جان بوجھ کر قتل کرنے اور عمداً شبہ کی وجہ سے لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالنے کی دیت سو اونٹ ہیں اس سے زیادہ کا تعلق اہل جاہلیت سے ہے ۔

اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ تمہاری اس سر زمین پر اس کی پوجا ہوگی لیکن وہ اس بات سے خوش ہے کہ تم بعض اعمال کو اہمیت نہیں دیتے ہو۔

اے لوگو!نسی یعنی مہینوںکو آگے پیچھے کرنا- کفر میں اضافہ کا سبب ہے ان کے ذریعہ کافر گمراہ ہوتے ہیں، کسی سال وہ اس ماہ کو حرمت کا مہینہ قرار دیدیتے ہیں اور کسی سال اسی ماہ میں جنگ و خونریزی کو حلال سمجھ لیتے ہیں اس سے ان کا مقصدان مہینوں کے حساب کو برابر کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کو خدا نے حرام کیا ہے ،

___________________

۱۔العقد الفرید ج۴ ص ۵۷، الطبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۸۴، الخصال: ص ۴۸۷، بحار الانوار ص۲۱ ص ۴۰۵، تاریخ کی دوسری کتابوں میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

۲۱۵

بیشک زمانہ گردش کرتاہے اسی روز سے جس دن خدا نے زمین و آسمانوںکو پیدا کیا تھا اور جیساکہ خداکی کتاب میں لکھاہے زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی سے خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار، ذی القعدہ، ذی الحجة اور، محرم ، تین پے در پے حرمت کے ہیں رجب کا ایک مہینہ جدا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے ۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔

اے لوگو! بیشک تمہاری عورتوںپر تمہارا حق ہے اور اسی طرح تمہاری عورتوں کا تم پر بھی حق ہے ، ان کے اوپر تمہار ا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر ان لوگوںکو داخل نہ ہونے دیں جن کو تم پسند نہیں کرتے اور ناشائستہ حرکت(زنا) نہ کریں پس اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمہیں حق دیا ہے کہ ان پر سختی کر و اور ان کے پاس سونا ترک کر دو (اور اگر پھر بھی نہ مانیں تو) انہیں مارو! لیکن گہری چوٹ نہ آنے پائے، پھر اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو تمہارے اوپر فرض ہے کہ انہیں معمول کے مطابق روٹی کپڑا دو۔ عورتیں تمہارے پاس امانت ہیں وہ اپنے اوپر اختیار نہیں رکھتی ہیں تم نے انہیں خدائی امانت کے عنوان سے اپنے اختیار میںلیاہے اور کتاب خدا کے مطابق انہیں اپنے لئے حلال کیا ہے۔ پس ان کے بارے میں خدا سے ڈرو! اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔

اے لوگو! مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا کسی شخص پر اس کے بھائی کا مال حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ خوش ہو، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔ دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو، کیونکہ میں نے تمہارے درمیان جو چیز چھوڑی ہے اگر تم اس سے وابستہ رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے کتاب خد ااور میری عترت وہی میرے اہل بیت ہیںکیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا ۔

اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے ، اور تمہارا باپ ایک ہے ، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے ہیں اور خدا کے نزدیک تم میں سے وہی زیادہ مکرم ہے جو زیادہ پر ہیزگار و متقی ہے ، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوے کے ساتھ، کیا میںنے پیغام پہنچا دیا؟ سب نے کہا: ہاں، پھر فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں جو یہاںموجودنہیں ہیں۔

۲۱۶

اے لوگو! میراث میںاللہ نے ہر وارث کے حصہ کومعین کر دیا ہے اور کوئی شخص ایک تہائی مال سے زیادہ کے بارے میں وصیت نہیں کر سکتا اور بچہ اس کا ہے جس کی بیوی ہے ،ز نا کار کے لئے پتھر ہے جو شخص خود کو اپنے والد کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرے؛ اورغلام خود کو مولا کے علاوہ کسی دوسرے سے وابستہ کرے تو اس پر خدا اوراس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، خدا ایسے لوگوں کی توبہ اور فدیہ قبول نہیں کرتا ہے۔ سلام اور خدا کی رحمت ہو تم پر۔

۴۔ وصی کا تعین( ۱ )

مسلمانوں نے اپنا حج اکبر مکمل کیا وہ پروانہ کی طرح نبی (ص) کے ساتھ ساتھ تھے۔ اپنے مناسک آپ(ص) سے سیکھ رہے تھے، رسول(ص) نے مدینہ کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کیا، جب حاجیوں کا عظیم قافلہ غدیر خم کے قریب مقام ''رابغ'' میں پہنچا تو امر خدا کی تبلیغ کے لئے وحی نازل ہوئی، واضح رہے کہ حاجیوں کے قافلے یہیں سے متفرق ہو کر اپنے اپنے شہروںکی طرف روانہ ہوتے تھے۔

( یا ایّها الرّسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک و ان لم تفعل فما بلّغت رسالته و اللّه یعصمک من النّاس ) ( ۲ )

اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ(ص) پر نازل کیا جا چکا ہے اور اگر اس پیغام کو نہ پہنچایا تو گویا آپ(ص) نے رسالت کی تبلیغ ہی نہیں کی خدا آپ(ص) کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

یقینا یہ خدائی خطاب و پیغام ایک اہم چیز کا حامل تھا اور اس سے زیادہ اہم کون سی تبلیغ ہوگی کہ جس کے بارے میںرسول(ص) سے یہ کہاگیا ہے کہ اسے انجام دیں ، جس کو ابھی تک انجام نہیں دیا ہے؟ جبکہ خدا کا رسول(ص)

____________________

۱۔مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی ''الغدیر'' جلداول کا مطالعہ فرمائیں۔

۲۔ سورۂ مائدہ ۶۷۔

۲۱۷

تقریبا تیئس سال سے لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دے رہا تھا اور خدا کی آیتوں کی تبلیغ کر رہا تھا اور اس کے احکام کی تعلیم دے رہا تھا اور اس سال میں آپ(ص) نے جو تکلیف اور زحمت برداشت کی ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے کہ یہ کہا جائے:

( فما بلّغت رسالته)

اس موقعہ پر رسول(ص) نے یہ احکام صادر فرمائے: قافلوں کو روک دیا جائے تاکہ پیچھے رہ جانے والے آجائیں، اس روز اتنی شدید گرمی تھی کہ لوگ سروں اور پیروں پر کپڑا لپیٹنے پر مجبور تھے، اس جگہ پر رسول(ص) ان کے سامنے تبلیغ رسالت کو مکمل کرنااور آسمانی پیغام کی تلقین کرنا چاہتے تھے۔ خدا کی حکمت کا یہی تقاضا تھا ایسے سخت موسم اور ایسے تپتے صحرا میں تبلیغ کی تکمیل ہو،تاکہ امت کو ہمیشہ یاد رہے مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کے ذہنوں میں اس واقعہ کی یاد تازہ رہے ۔ امت مسلمہ اس کو یاد رکھے۔

اسباب سفر کو جمع کیا گیا، اس سے منبر بنایا گیا اور مسلمانوںکو نماز پڑھانے کے بعد رسول(ص)منبر پر تشریف لے گئے ، خداوند عالم کی حمد و ثنا کی ، پھر اتنی بلند آواز میں، کہ جس کو سب سن لیں، فرمایا:

''یا ایّها النّاس یوشک ان ادعی فاجیب و انی مسؤول و انتم مسؤولون فما انتم قائلون؟ قالوا: نشهد انّک بلّغت و نصحت و جاهدت فجزاک اللّه خیراً قال (ص) الستم تشهدون ان لا الٰه الا اللّه و ان محمّداً، عبده و رسوله و ان جنته حق و ان الساعة آتیة لا ریب فیها و ان اللّه یبعث من فی القبور؟ قالوا: بلیٰ نشهد بذالک قال (ص) الّلهمّ اشهد ثم قال (ص) فانّی فرطکم علیٰ الحوض و انتم واردون علّ الحوض و ان عرضه ما بین صنعاء و بصریٰ فیه اقداح عدد النجوم من فضة فانظروا کیف تخلّفونی فی الثقلین

فنادیٰ مناد وما الثقلان یا رسول اللّه؟ قال(ص) : الثقل الاکبر کتاب اللّه طرف بید اللّه عزّ و جلّ و طرف بایدیکم فتمسکوا به لا تضلّوا والآخر الاصغر عترت و انّ الّلطیف الخبیر نبّأن انّهما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض فسألت ذلک لهما رب فلا تقدموهما فتهلکوا ولا تقصروا عنهما فتهلکوا''

۲۱۸

اے لوگو!عنقریب مجھے دعوت دی جائے گی اور میں اسے قبول کرونگا دیکھو مجھ سے بھی سوال کیا جائیگا اور تم سے بھی باز پرس ہوگی بتائو کہ تم کیا جواب دوگے؟ انہوں نے کہا: ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپ(ص) نے تبلیغ کی، نصیحت کی اور جہاد کیا خدا آپ(ص) کو جزائے خیر عطا کرے، پھر آپ(ص) نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے بندے اور اس کے رسول(ص) ہیں، اور جنت حق ہے، قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے اور خدا قبروں سے مردوں کو اٹھائے گا؟ سب نے کہا: ہاں! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہونچون گا تمہارا حوض کوثرپر انتظار کرونگا اور تم میرے پاس حوض کوثرپر پہنچوگے وہ اتنا چوڑا ہے جتنا صنعاء و بصریٰ کے درمیان کا فاصلہ ہے ، اس پر چاندی کے اتنے جام رکھے ہوئے ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں۔ دیکھتا ہوں تم میرے بعد ثقلین سے کیسے پیش آتے ہو۔

کسی دریافت کرنے والے نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ثقلین کیا ہے؟ فرمایا: ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا دستِ خدا میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے ، اس سے وابستہ رہوگے تو گمراہ نہ ہوگے، اور ثقل اصغر میری عترت ہے اور لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض(کوثر) پر میرے پاس وارد ہونگے اور میں نے خدا سے ان کے لئے ہی سوال کیا ہے ۔ دیکھو!ان سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ تباہ ہو جائوگے۔

اس کے بعدآپ(ص) نے حضرت علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر اتنا بلند کیا کہ آپ(ص) کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی جب تمام لوگوں نے علی کو دیکھ لیا تو فرمایا:

''ایّها النّاس من اولیٰ النّاس بالمومنین من انفسهم؟ قالوا: اللّه و رسوله اعلم قال(ص) انّ اللّه مولای و انا مولیٰ المومنین و انا اولیٰ بهم من انفسهم فمن کنت مولاه فعلی مولاه یقولها ثلاث مرات

۲۱۹

ثم قال (ص) الّلهم وال من والاه و عاد من عاداه و احب من احبه و ابغض من ابغضه و انصر من نصره و اخذل من خذله و ادر الحق معه حیث ما دار، الا فلیبلغ الشاهد الغائب''

اے لوگو! مومنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ کون حق تصرف رکھتا ہے ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا اور اس کا رسول(ص) بہتر جانتا ہے ۔ آپ(ص) نے فرمایا: خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان پر میں خود ان کے نفسوں سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں، بس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، یہ جملہ آپ(ص) نے تین بار دہرایا۔

ا سکے بعد فرمایا:اے اللہ جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ، جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے دشمنی کر ، اس کی نصرت کرنے والے کی نصرت فرما اور جو اس سے الگ ہو جائے اسے چھوڑ دے، اور جدھر یہ جائے حق کو بھی ادھر موڑ دے، جو لوگ حاضر ہیں ان کو چاہئے کہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاںموجود نہیں ہیں۔

حاضر ین ابھی وہاں سے متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبریل امین وحی لیکر نازل ہوئے:

( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلاما ً دیناً ) ( ۱ ) آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔

اس کے بعد رسول (ص) نے ،دین کی تکمیل ، نعمت کے اتمام اپنی رسالت اوراپنے بعد علی کے ولی ہونے سے خدا کے راضی ہونے پر تکبیر کہی ۔

''اللّه اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بعدی'' ۔

____________________

۱۔ مائدہ: ۳۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296