منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 141020 / ڈاؤنلوڈ: 6504
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۳۔ سورۂ ذاریات کی ۲۴تا ۳۷ ویں آیات میںارشاد ہوتا ہے:

( هَلْ َتَاکَ حَدِیثُ ضَیْفِ اِبْرَاهِیمَ الْمُکْرَمِینَ ٭ إِذْ دَخَلُوا عَلَیْهِ فَقَالُوا سَلاَمًا قَالَ سَلاَم قَوْم مُنکَرُونَ ٭ فَرَاغَ الَی َهْلِهِ فَجَائَ بِعِجْلٍ سَمِینٍ ٭ فَقَرَّبَهُ الَیهِمْ قَالَ َلٰا تَْکُلُونَ ٭ فََوْجَسَ مِنْهُمْ خِیفَةً قَالُوا لاَتَخَفْ وَبَشَّرُوهُ بِغُلاَمٍ عَلِیمٍ ٭ فََقْبَلَتِ امْرََتُهُ فِی صَرَّةٍ فَصَکَّتْ وَجْهَهَا وَقَالَتْ عَجُوز عَقِیم ٭ قَالُوا کَذَلِکِ قَالَ رَبُّکِ ِنَّهُ هُوَ الْحَکِیمُ الْعَلِیمُ ٭ قَالَ فَمَا خَطْبُکُمْ َیُّهَا الْمُرْسَلُونَ ٭ قَالُوا ِنَّا ُرْسِلْنَإ الَی قَوْمٍ مُجْرِمِینَ ٭ لِنُرْسِلَ عَلَیْهِمْ حِجَارَةً مِنْ طِینٍ ٭ مُسَوَّمَةً عِنْدَ راَبِکَ لِلْمُسْرِفِینَ ٭ فََخْرَجْنَا مَنْ کَانَ فِیهَا مِنْ الْمُؤْمِنِینَ ٭ فَمَا وَجَدْنَا فِیهَا غَیْرَ بَیْتٍ مِنْ الْمُسْلِمِینَ ٭ وَتَرَکْنَا فِیهَا آیَةً لِلَّذِینَ یَخَافُونَ الْعَذَابَ الَلِیمَ )

آیا ابراہیم کے معزز مہما نوںکی حکا یت تم تک پہنچی ہے ؟!جب وہ لوگ ان کے پاس آئے اور انھیں سلام کیا(اور ابراہیم نے بھی )سلام کیا اور ان سے فرمایا کہ تم لوگ ناآشنا انسان ہو.پھر اس گھڑی اپنے گھر والوں کے پاس گئے اور موٹے تازے گو سا لہ کا کباب لے آئے.اور اسے ان کے پاس رکھ کر ان سے کہا: کیا تم لوگ نہیں کھاؤ گے؟.اُس وقت انھیں ان لوگوں سے خوف پیدا ہوا تو ان لوگوں نے کہا: نہ ڈرو اور انھیں ایک دانا اور عقلمند بچے (اسحق) کا مژدہ دیا.پھر ان کی بیوی شور مچاتی ہوئی آئی اپنے چہرے پر طمانچہ مارا اور بولی: میں ایک بوڑھی بانجھ عورت ہوں (کیسے بچہ پیداکر سکتی ہوں) ؟

تو انھوں نے جواب دیا!تمہا رے ربّ نے ایسا ہی فرمایا ہے.وہ حکیم اور دانا ہے.ابراہیم نے ان سے سوال کیا:اے خدا کے نمائندو! تمہارا کیا کام ہے؟جواب دیا :ہم لوگ بد کار قوم کی جانب بھیجے گئے ہیں. تاکہ ان کے سر پر مٹی اور پتھر کی بارش کریں .ایسے پتھروں سے کہ جن پر تمہارے ربّ کے نزدیک ستمگروں کے لئے نشانی لگی ہوئی ہے.اور ہم مو منین میں سے جو بھی وہاں تھا اسے باہر لے آئے. اور اس پورے علاقے میں ایک مسلم،خدا پرست گھرا نے کے ہم نے کوئی گھرانہ نہیں پا یا.اور وہاں ان لوگوں کے لئے جو خدا کے درد ناک عذاب سے ڈرتے ہیں نشانی اور عبرت قرار دی۔

۴۔سورۂ شعراء کی ۱۶۰تا ۱۷۳ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( کَذَّبَتْ قَوْمُ لُوطٍ الْمُرْسَلِینَ ٭ إِذْ قَالَ لَهُمْ َخُوهُمْ لُوط َلاَتَتَّقُونَ ٭ ِنِّی لَکُمْ رَسُول َمِین ٭ فَاتَّقُوا ﷲ وََطِیعُونِ ٭ وَمَا َسَْلُکُمْ عَلَیْهِ مِنْ َجْرٍ ِنْ َجْرِی ِلاَّ عَلَی راَبِ الْعَالَمِینَ ٭ َتَْتُونَ الذُّکْرَانَ مِنْ الْعَالَمِینَ ٭ وَتَذَرُونَ مَا خَلَقَ لَکُمْ رَبُّکُمْ مِنْ َزْوَاجِکُمْ بَلْ َنْتُمْ قَوْم عَادُونَ ٭ قَالُوا لَئِنْ لَمْ تَنْتَهِ یَالُوطُ لَتَکُونَنَّ مِنْ الْمُخْرَجِینَ ٭ قَالَ ِنِّی لِعَمَلِکُمْ مِنْ الْقَالِینَ ٭ راَبِ نَجِّنِی وََهْلِی مِمَّا یَعْمَلُونَ ٭ فَنَجَّیْنَاهُ وََهْلَهُ َجْمَعِینَ ٭ ِلاَّ عَجُوزًا فِی الْغَابِرِینَ ٭ ثُمَّ دَمَّرْنَا الآخَرِینَ ٭ وََمْطَرْنَا عَلَیْهِمْ مَطَرًا فَسَائَ مَطَرُ الْمُنذَرِینَ )

۱۲۱

قوم لوط نے پیغمبروں کی تکذیب کی. جب ان کے بھائی لوط نے ان سے کہا:کیوں تم لوگ خدا سے نہیں ڈرتے اور تقویٰ اختیار نہیں کر تے؟.میں تمہارے لئے ایک امین اور خیر خواہ پیغمبر ہوں. خدا سے ڈرو اور میری اطاعت کرو.میں تم سے اس رسالت کی اجرت نہیں چا ہتا ہوں میری اجرت صرف رب ّالعالمین کے پا س ہے.آیا تم لوگ زمانہ کے مردوں کی طرف رخ کر تے ہو اور اپنی اُن ازواج کو جنھیں خدا نے تمہارے لئے خلق کیا ہے انھیں چھوڑ دیتے ہو ؟! یقینا تم لوگ ظالم اور تجا وز پیشہ انسان ہو. انھوں نے جواب دیا:اے لوط! اگر اس کے بعد تم ممانعت کرنے سے باز نہیں آئے تو تمھیں شہر سے با ہر کر دیں گے.لوط نے کہا:میں تمہارے کام سے بیزار ہوں خدا یا! ہمیں اور ہمارے اہل وعیال کو ان (بُرے) کاموں سے جن کے یہ مرتکب ہوتے ہیں نجات دے.ہم نے اُسے اور اس کے تمام گھرانے کو نجات دی سوائے اُس بوڑھی عورت کہ جو پیچھے رہنے والوں میں تھی( اور اسے ہلاک ہو نا چا ہئے تھا )۔

پھر دوسروں کو ہلاک کردیااُن پر پتھروںکی بارش نازل کردی جو ڈرائے جانے والوںکے حق میں بدترین بارش ہے۔

تیسرا منظر۔ ابراہیم او ر اسمٰعیل اور تعمیر خانہ کعبہ:

۱۔ خدا وند سبحان سورۂ ابراہیم کی ۳۵۔ ۳۷ اور ۳۹۔۴۱ ویں آیات میں ارشاد فرماتا ہے:

( وَإِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ راَبِ اجْعَلْ هَذَا الْبَلَدَ آمِنًا وَاجْنُبْنِی وَبَنِیَّ َنْ نَعْبُدَ الَْصْنَامَ ٭ راَبِ ِنَّهُنَّ َضْلَلْنَ کَثِیرًا مِنْ النَّاسِ فَمَنْ تاَبِعَنِی فَإِنَّهُ مِنِّی وَمَنْ عَصَانِی فَإِنَّکَ غَفُور رَحِیم ٭ رَبَّنَا ِنِّی َسْکَنتُ مِنْ ذُرِّیَّتِی بِوَادٍ غَیْرِ ذِی زَرْعٍ عِنْدَ بَیْتِکَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلَاةَ فَاجْعَلْ َفْئِدَةً مِنْ النَّاسِ تَهْوِی الَیهِمْ وَارْزُقْهُمْ مِنْ الثَّمَرَاتِ لَعَلَّهُمْ یَشْکُرُونَ ٭ ٭ الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِی وَهَبَ لِی عَلَی الْکِبَرِ ِسْمَاعِیلَ وَِسْحَاقَ ِنَّ راَبِی لَسَمِیعُ الدُّعَائِ ٭ راَبِ اجْعَلْنِی مُقِیمَ الصَّلَاةِ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَائِ ٭ رَبَّنَا اغْفِرْ لِی وَلِوَالِدَیَّ وَلِلْمُؤْمِنِینَ یَوْمَ یَقُومُ الْحِسَاب )

اس وقت کو یاد کرو جب ابرا ہیم نے عرض کیا:خدا یا! اس شہر (مکّہ) کو جا ئے امن قرار دے اور مجھے اور میرے فرزندوں کو بتوں کی پرستش سے دور رکھ، خدایا !ان لوگوں نے بہت سارے افراد کو گمراہ کیا ہے، لہٰذا جو میری پیروی کرے وہ مجھ سے ہے اور جو میری نافرمانی کرے، تو بخشنے والا مہربان ہے، خدا یا ! میں نے اپنے بعض اہل وعیال کو بے آب وگیا ہ صحرا میں سا کن کر دیا ہے جو تیرے اس محترم گھر کے نزدیک ہے۔

۱۲۲

خدا یا تا کہ وہ لوگ نما ز پڑ ھیں لہٰذا لوگوں کے قلوب کو اُن کی طرف مائل کر دے اور انواع واقسام کے پھلوں سے انھیں روزی عطا کر شاید صبرو شکر ادا کریں.اس خدا کی ستائش ہے جس نے ہمیں بڑھا پے میں اسمٰعیل اور اسحق سے نوازا، میرا ربّ دعا کا سننے والا ہے، خدا یا! مجھے نماز قائم کرنے والوں میں قرار دے اور میرے فرزندوں میں بھی،خدایا! میری دعا کو قبول کر، خدا یا! جس دن عدل کی میزان قائم ہو گی( جس دن حساب و کتاب ہو گا)تو مجھے اور میرے والدین اور تمام مو منین کو بخش دے۔

۲۔ سورۂ حج کی ۲۶،۲۷،۷۸ویں آیات میں ارشا د ہوتا ہے:

( وَإِذْ بَوَّْنَا لاِبْرَاهِیمَ مَکَانَ الْبَیْتِ َنْ لاَتُشْرِکْ بِی شَیْئًا وَطَهِّرْ بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْقَائِمِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ ٭ وََذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَْتُوکَ رِجَالًا وَعَلَی کُلِّ ضَامِرٍ یَاْتِینَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیقٍ ٭...٭وَجَاهِدُوا فِی ﷲ حَقَّ جِهَادِهِ هُوَ اجْتَبَاکُمْ وَمَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّینِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّةَ اَبِیکُمْ اِبْرَاهِیمَ هُوَ سَمَّاکُمْ الْمُسْلِمینَ مِنْ قَبْلُ )

جب ہم نے ابراہیم کے لئے بیت ﷲ کی جگہ آمادہ کی اور (میں نے فرمایا)کسی چیز کو میرا شریک اور ہمتا قرار نہ دو اور ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں، قیام کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ گذاروں کے لئے پاک و پاکیزہ رکھو.اور لوگوں کے درمیان حج کا اعلان کروتا کہ پیادہ اور لا غر سواریوں پر سوار ہو کر دور دراز علاقوں سے تمہاری طرف آئیں.اور خدا کی راہ میں جہاد کرو،ایسا جہاد جواُس کے سزاوار اور مناسب ہو.اُس نے تمھیں منتخب فرمایا ہے اور تمہارے لئے دین میں کوئی زحمت و دشواری قرار نہیں دی ہے، یہی تمہارے باپ ابراہیم کا آئین ہے کہ اس نے تمھارا پہلے ہی سے مسلمان نام رکھا ہے۔

۳۔سورۂ بقرہ کی ۲۴ تا ۱۲۹ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَإِذِ ابْتَلَی اِبْرَاهِیمَ رَبُّهُ بِکَلِمَاتٍ فََتَمَّهُنَّ قَالَ ِنِّی جَاعِلُکَ لِلنَّاسِ ِمَامًا قَالَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِی قَالَ لاَیَنَالُ عَهْدِی الظَّالِمِینَ ٭ وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِلنَّاسِ وََمْنًا وَاتَّخِذُوا مِنْ مَقَامِ اِبْرَاهِیمَ مُصَلًّی وَعَهِدْنَإ الَی بْرَاهِیمَ وَِسْمَاعِیلَ َنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّائِفِینَ وَالْعَاکِفِینَ وَالرُّکَّعِ السُّجُودِ ٭ وَإِذْ قَالَ اِبْرَاهِیمُ راَبِ اجْعَلْ هَذَا بَلَدًا آمِنًا وَارْزُقْ َهْلَهُ مِنْ الثَّمَرَاتِ مَنْ آمَنَ مِنْهُمْ بِﷲ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ قَالَ وَمَنْ کَفَرَ فَُمَتِّعُهُ قَلِیلًا ثُمَّ َضْطَرُّهُ الَی عَذَابِ النَّارِ واَبِئْسَ الْمَصِیرُ ٭ وَإِذْ یَرْفَعُ اِبْرَاهِیمُ الْقَوَاعِدَ مِنْ الْبَیْتِ وَِسْمَاعِیلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ِنَّکَ َنْتَ السَّمِیعُ الْعَلِیمُ ٭ رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَیْنِ لَکَ وَمِنْ ذُرِّیَّتِنَا ُمَّةً مُسْلِمَةً لَکَ وََرِنَا مَنَاسِکَنَا وَتُبْ عَلَیْنَا ِنَّکَ َنْتَ التَّوَّابُ الرَّحِیمُ٭ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِیهِمْ رَسُولًا مِنْهُمْ یَتْلُو عَلَیْهِمْ آیَاتِکَ وَیُعَلِّمُهُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَیُزَکِّیهِمْ ِنَّکَ َنْتَ الْعَزِیزُ الْحَکِیمُ )

۱۲۳

جب خدا وندمنّان نے (حضرت )ابراہیم کا چند کلمات کے ذریعہ امتحان لیا اور جب وہ کامیاب ہوگئے تو خدا وند عالم نے کہا:میں نے تمھیں لو گوں کا پیشوا اور امام قرار دیا.ابراہیم نے کہا:میرے فرزندوں کو بھی؟ خدا نے کہا:میرا عہدہ ظالموں کو نہیں ملے گا .اور جب ہم نے کعبہ کو جائے امن اور لوگوں کا مرجع بنا یا اور یہ مقرر کیا کہ مقام ابراہیم کو مصلّیٰ قرار دو اور ابراہیم واسمٰعیل سے عہد وپیمان لیاکہ ہمارے گھر کو طواف کرنے والوں،

اعتکاف کرنے والوں رکوع کرنے والوں اور سجدہ گزاروں کے لئے پاک وپاکیزہ رکھیں. اور جب ابراہیم نے عرض کیا:خدا یا :اس شہر کو جا ئے امن قرار دے اور وہاں کے لوگوں کو جوخدا ورسول اور روز قیامت پر ایمان رکھتے ہیں پھلوں سے رزق عطا کر خدا وند عالم نے فرمایا:جو کفر اختیار کرے گا اسے بھی دنیا میںتھوڑا بہرہ مند کروں گا،لیکن آخرت میں آتش جہنم میں جو کہ بہت برا ٹھکا نہ ہے اُسے ضرور عذاب دوں گا.اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل خانہ کعبہ کی دیواریں بلند کررہے تھے،تو انھوں نے کہا: خد ایا! ہماری خد مت کو قبول فرما کہ تو ہی سننے والا اور دانا ہے.خدایا! ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم قرار دے اور ہماری ذرّیت کو بھی اپنے سامنے سراپا تسلیم ہونے والی امت قرار دے اور ہمیں عبادت کا طریقہ سکھا اور ہم پر بخشش کر کہ تو بخشنے والا اور مہر بان ہے.خد ایا!ان کے درمیان انھیں میں سے پیغمبر بھیج تا کہ تیری آیات کی ان پر تلا وت کرے اور انھیںکتاب و حکمت کی تعلیم دے اور ان کے نفوس کا تزکیہ کرے بیشک تو عزیز اور حکیم ہے۔

۴۔سورۂ صافات کی ۹۹تا ۱۰۷ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَقَالَ ِنِّی ذَاهِب الَی راَبِی سَیَهْدِینِ ٭ راَبِ هَبْ لِی مِنَ الصَّالِحِینَ ٭ فَبَشَّرْنَاهُ بِغُلاَمٍ حَلِیمٍ ٭ فَلَمَّا بَلَغَ مَعَهُ السَّعْیَ قَالَ یَابُنَیَّ ِنِّی َرَی فِی الْمَنَامِ َنِّی َذْبَحُکَ فَانظُرْ مَاذَا تَرَی قَالَ یَاَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ سَتَجِدُنِی ِنْ شَائَ ﷲ مِنْ الصَّابِرِینَ ٭ فَلَمَّا َسْلَمَا وَتَلَّهُ لِلْجاَبِینِ ٭ وَنَادَیْنَاهُ َنْ یَااِبْرَاهِیمُ ٭ قَدْ صَدَّقْتَ الرُّؤْیَا ِنَّا کَذَلِکَ نَجْزِی الْمُحْسِنِینَ ٭ ِنَّ هَذَا لَهُوَ الْبَلاَئُ الْمُبِینُ ٭ وَفَدَیْنَاهُ بإِذِبْحٍ عَظِیمٍ )

ابراہیم نے کہا: میں خدا کی طرف جا رہا ہوں یقینا وہ میری ہدایت کرے گا.خدا یا! مجھے نیک اور صا لح فرزند عطا کر لہٰذا ہم نے اسے ایک حلیم و بردباراور صا بر فرزند کی بشارت دی.اور جب وہ بچہ سن رشد کو پہنچا اور ان کے ہمراہ کو شش و عمل میں لگ گیا تو ابراہیم نے کہا:اے میرے فرزند! میں نے خواب میں دیکھا ہے کہ تمہاری قربانی کر رہا ہوں .تمہا را کیا خیال ہے( تمہاری رائے کیا ہے ) بیٹے نہ کہا !اے بابا:جو کچھ آپ کو حکم دیا گیا ہے اُسے انجام دیجئے انشاء اللہ مجھے صابروں میں پا ئیں گے.

۱۲۴

اور جب دونوں ہی امر حق کے سامنے سراپا تسلیم ہوگئے اور ابرا ہیم نے بیٹے کو ذبح کرنے کے لئے پیشانی کے بل لٹا یا.تو ہم نے اُسے آواز دی اے ابرا ہیم!تم نے اپنے خواب کو سچ کر دکھایا ؛ اور ہم نیکو کاروں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں.یہ رو شن و آشکار امتحا ن وآزما ئش ہے.اور ہم نے اسے ذبح عظیم کا فد یہ قرار دیا ہے ۔

۵۔ سورۂ آل عمران کی ۶۵۔۶۷۔ ۶۸۔اور ۹۵ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( یا اهل الکتاب ِ لم تُحا جُّون فی ابراهیم َ و ما أُنزلتِ التَّوراة ُوالانجیلُ الّا من بعده أ فلا تعقلونَ٭...٭ ما کانَ ابراهیم ُ یهو دیّا ً و لا نصرا نیّاً و لکن کان حنیفا ً مُسلما ً و ماکان منَ المشر کینَ٭ انّ أو لی النّاس بابراهیم لَلَّذینَ اتَّبَعُوهُ وَ هٰذَا النّاَبِیُّ والَّذین آمنوا واللّٰهُ وَلِیّ المُؤمنین٭...٭قُل صَدَقَ اللّٰهُ فَا تّاَبِعوا ملّة ابراهیم َ حنیفاً وَ ماَ کَانَ مِنَ المُشْرِکینِ )

اے اہل کتاب! کیوں ابرا ہیم کے دین کے سلسلہ میں آپس میں نزاع کر رہے ہو جب کہ توریت اور انجیل اس کے بعد نازل ہوئی ہے، آیا فکر نہیں کرتے ؟!.....ابرا ہیم نہ یہودی تھے اور نہ نصرانی لیکن دین حنیف،توحید اور اسلام سے وابستہ تھے اور مشرکوں میں نہیں تھے.ابرا ہیم سے لوگوں میں سب سے زیا دہ نزدیک وہ لوگ ہیں جو ان کے پیرو ہیں اور یہ پیغمبر اور جو لوگ ایمان لائے ہیں اور خدا وند عالم مومنین کا سرپرست ہے .....کہو (اے پیغمبر)خدا کی بات سچی ہے( نہ کہ تمہارا دعویٰ) لھٰذا حضرت ابرا ہیم کے دین و آئین کا اتباع کرو کہ ایک پاک و پاکیزہ اور صاف ستھرا دین ہے۔ اور وہ (ابراہیم ) کبھی مشرکوں میں نہیں تھے۔

۶۔ سورۂ نحل کی ۱۲۳ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( ثُمَّ اَوحَینا اَنِ اتَّبعِ مِلَّة اِبرا هیمَ حَنیفا ً و َ ما کانَ من َ المُشر ِکین )

پھر ہم نے تم کو وحی کی کہ ابرا ہیم کے پاکیزہ آئین کا اتباع کرو کہ اُس نے کبھی خدا ئے یکتاکے ساتھ کسی کو شر یک قرار نہیں دیا:

۷۔سورۂ نساء کی ۱۲۵ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَمن اَحْسَنُ دِینا ً مِمَّن اَسلَمَ وَجْهَهُ لِلّٰهِ وَ هُوَ مُحْسِن وَ اتَّبَع مِلَّةَ اِبرا هیمَ حَنیفا ً وَ اتَّخَذَ اللّٰهُ ابراهیم خَلیلاً )

اُس شخص سے بہتر کس کا دین ہے جو خدا کی طرف ما یل اور نیکو کا ر ہے اور ابرا ہیم کے پاکیزہ دین کا اتباع کرتا ہے؟ کہ خدا وند عالم نے ابرا ہیم کو اپنا خلیل اور دوست بنا یا ہے۔

۱۲۵

چوتھا منظر، ابرا ہیم و اسحق اور یعقوب

۱۔ خدا وند سبحان سورۂ مر یم کی ۴۹ویںاور .۵ ویں آیات میں رشاد فرما تا ہے:

( فَلَمّا اعتَزَ لَهُم وَ ما یَعبدونَ مِن دُون اللّٰهِ وَهَبنا لَهُ اِسحا قَ وَ یَعقُوبَ وَ کُلّا ً جَعَلنا نَبیّاً٭...وَجَعَلنا لهُم لَسَان صِدقِِ علیّاً )

جب ابرا ہیم نے اُن سے اور جن کو وہ خدا کی جگہ پوجتے تھے، ان سب سے کنارہ کشی اختیا ر کی اور ہم نے اسے اسحق اور یعقوب سے نوازا اور سب کو نبی بنا یا. اور ایک شہرہ آفاق ذکر خیر انھیں عطا کیا۔

۲۔سورہ ٔانبیا ء کی ۷۲ویں اور ۷۳ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( وَوَهبنا لهُ اسحاقَ وَ یَعقُوبَ نا فلةً وَ کُلّاً جَعَلنَاصَالِحین٭وَجَعَلنَا هُم ائمةً یَهدونَ بِامرِناَ وَاوَحَینَا اِلیهَمْ فِعْلَ الْخَیْرَاتِ وَاِقَامَ الصَّلاةِ وّاِیتائَ الزَّکَاة وَکَانُوا لَنا عَابِدینَ )

اور ہم نے اُس (ابرا ہیم ) کو اسحق اور یعقوب عطا کیا اور سب کو صا لح قرار دیا اور اُن سب کو پیشوا بنایا تا کہ( لوگوں کو ) ہمار ے امر کی طرف ہدایت کریں اور امور خیر، نما ز قائم کرنے اور زکو ة دینے کی انھیں وحی کی؛ اور وہ سب کے سب ہمارے عبادت گز ار تھے ۔

۳، سورۂ مر یم کی ۵۸ ویں آیت میں ارشا د ہوتا ہے:

( أُوْلٰئِکَ الّذ ین اَنعمَ اللّٰه عَلیهِم منَ النَّبیِّنَ من ذُرِّ یَّةِ آدَمَ وَمِمَّن حَمَلنَامع نُوح ٍ وَمِن ذُ رِّ یَّةِ اِبرا هِیم وَاِسرٰا ئیل... )

یہ وہ لوگ ہیںجن پر خدا وند عالم نے انعام کیا ہے وہ اولا د آدم ہیں اور ان کی اولا د سے ہیں جن کو ہم نے نوح کے ہمرا ہ کشتی میں بٹھا یا اور ابرا ہیم و یعقوب ( اسرا ئیل) کی اولا د ہیں۔

۱۲۶

کلمات کی تشریح

۱۔ حنیفا ً:

حنیف!ایسے مخلص انسان کو کہتے ہیں جو خدا کے اوامر کے سامنے سراپا تسلیم ہواور کسی مورد میں بھی اس سے رو گرداں نہ ہو،وہ شخص جو گمرا ہی کے مقابل راہ راست کو اہمیت دیتا ہو۔

حنف:

گمرا ہی سے راہ راست کی طرف ما ئل ہو نا۔

جنف:راہ ِ راست سے گمرا ہی کی طرف ما ئل ہو نا۔

۲۔راغ :

راغ ؛ رخ کیا، متو جہ ہوا ۔

۳۔ یز فّون:

زفّ؛جلدی کی، یزفّون جلد ی کر تے ہیں۔

۴۔ اُفّ :

نفرت اور بیزاری کا تر جما ن ایک کلمہ ہے۔

۵۔ جذاذا ً: جذَّہ ؛اُسے توڑ ا اور ٹکڑ ے ٹکڑ ے کر دیا۔

۱۲۷

۶۔ بُھِت:

بھت الرجل؛ حیرت زدہ ہو گیا،ششدر ہو گیا،دلیل وبرہان کے سامنے متحیر وپر یشان ہو گیا۔

۷۔ بوّانا:

بوّاہ منز لا ً؛اُ سے نیچے لا یا. بوّأ المنزل :اس کے لئے ایک جگہ فراہم کی۔

۸۔ ضا مر:

ضمر الجمل لا غرو کمزور اور کم گو شت اور کم ہڈ ی والا ہو گیا. ضا مر یعنی لا غڑ اونٹ۔

۹۔ فجّ عمیق

الفجّ؛وسیع اور کشادہ راستہ۔

۱۰۔ مثا بہ :

المثا ب والمثا بة: گھر،پناہ گاہ۔

۱۱۔ تلّہ:

اُسے منھ کے بل لٹا یا۔

۱۲۔ قا نتا ً :

قنت للّٰہِ ؛ اُس نے فرما نبرداری کی اور خدا وند عالم کی طولا نی مدّت تک عبادت کی۔

۱۲۸

۱۳۔ اوّاہ :

الاوّاہ:ثرت سے دعا کر نے والا،رحیم ، مہر بان اور دل کا نازک اور کمزور۔

۱۴۔ منیب :

بہت زیادہ توبہ کر نے والا۔

ناب الیہ :

بارھا اس کی با رگاہ کی طرف رخ کیا ناب الی اللہ: تو بہ کیااور خدا کی طرف متو جہ ہوا۔

۱۵۔ صرّة: الصّرة:

چیخ پکار۔

۱۶۔ فصّکت:

صکّت، یہ پر یعنی تعجب اور حیرت سے اپنے چہرے پر طما نچہ ما را۔

۱۷ ۔ نافلة:

زیادہ، اضافہ۔

منجملہ وہ معانی جو اس بحث کے لئے منا سب ہیں وہ یہ ہیں: حد سے زیادہ نیکی ،جس کو پسند کیا ہو ، فرزند اور فرزند کی اولا د چو نکہ فرزند پر اضا فہ ہے۔

۱۸۔ اسرا ئیل:

اسرائیل حضرت یعقو ب پیغمبر کا لقب تھا اسی لئے حضرت یعقو ب کی اولا د کو بنی اسرا ئیل کہتے ہیں( ۱ )

____________________

(۱) ۔ قاموس کتاب مقدّس: لفظ اسرائیل۔

۱۲۹

گزشتہ آیات کی تفسیر میں قا بل تو جہ مقا مات ( موارد) اور حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی سرگذشت کا ایک منظراور عقا ئد اسلام پیش کرنے میں انبیا ء علیہم السلام کا طریقہ

پہلا منظر، ابرا ہیم اور مشر کین:

حضرت ابرا ہیم کی جائے پیدائش با بل میں خدا وند وحدہ لا شریک کی عبادت کے بجائے تین قسم کی درج ذیل پرستش ہوتی تھی:

( ۱ ) ستاروں کی پرستش( ۲ ) بتوں کی پرستش( ۳ ) زمانے کے طاغوت (نمرود) کی پرستش۔

حضرت ابرا ہیم نے مشر کین سے احتجاج میں صرف عقلی د لا ئل پر اکتفا ء نہیں کیا (ایسا کام جسے علم کلام کے دانشوروں نے فلسفہ یونانی کی کتابوں کے تراجم نشر ہونے کے بعد، دوسری صدی ہجری سے آج تک انجام دیا ہے اور دیتے ہیں) اور آپ نے اپنے د لائل میں ممکن الوجود، واجب الوجود اور ممتنع الوجود جیسی بحثوں پر تا کید نہیں کی بلکہ صرف حسی د لا ئل جو ملموس اور معقول ہیں ان پر اعتماد کیا ہے جن کو ہم ذیل میں بیان کر رہے ہیں،تو جہ کیجئے:

۱ ۔ ابرا ہیم اور ستارہ پر ست افراد :

ابرا ہیم خلیل اللہ نے ستارہ پر ستوں سے اپنے احتجاج میں آہستہ آہستہ قدم آگے بڑھایا.سب سے پہلے اُن سے فرما یا: تم لو گ تو پُر نور اشیاء کو اپنا رب تصور کر تے ہو، چا ند تو ان سے بھی زیادہ روشن اور نورا نی ہے لہٰذا یہ میرا پروردگا ر ہو گا ؟!

یہ تدریجی اور طبیعی و محسوس اور معقول بات ہے اور یہی امر زینہ بہ زینہ یہاں تک منتہی ہوتا ہے کہ ان کے اذہان چاند سے سورج کی طرف متو جہ ہوجا تے ہیں.اور ابرا ہیم فر ما تے ہیں: یہ میرا ربّ ہے یہ تو سب سے بز رگ اور سب سے زیا دہ نو را نی ہے ؟! خورشید( سورج ) کی بزرگی اور نورانیت سورج کے ڈوبنے اور اس کے نور کے ز ائل ہو نے کے بعد ستا رہ پرستوں کے اذ ھا ن کو اس بات کی طرف متو جہ کر تی ہے کہ ز ائل و فنا ہو نے وا لی چیز لا ئق عبادت نہیں ہے. یہاں پر ابرا ہیم فرماتے ہیں:

( اِنّی بَرِیٔ مِمّٰا تُشرِ کُون٭اِ نّی وَجّهْتُ وَ جْهِیَ لِلََّذی فَطرَ السِّمٰواتِ وَ الْاَرْضِ... )

اے گروہ مشر کین! میں اُس چیز سے جسے تم خدا کا شر یک قرار دیتے ہو بیزار ہوں .میں نے تو خالص ایمان کے ساتھ اس خدا کی طرف رخ کیا ہے جو زمین وآسما ن کا خالق ہے ۔

۱۳۰

۲۔ابرا ہیم بت پر ستوں کے ساتھ:

بُت پرست بتوں کو پکا ر تے تھے اور اُن سے بارش کی درخواست کرتے تھے اور خود سے دشمنوں کو دور کرنے کے بارے میں اُن سے شفا عت اور نصرت طلب کرتے تھے اور ان کی جانب رخ کر کے پوشیدہ اور خفیہ دونوں طر یقوں سے اپنی حا جتوں کو طلب کر تے تھے !

یہاں اُن بتوں کی بے چا رگی اور ناتوانی ظاہر کر نے کے لئے وہ بھی بت پرستوں کے یقین و اعتقادات میں، ان بتوں کو توڑنے سے بہتر کو ئی دلیل نہیں تھی اور ان کے اعتقادات کا مذا ق اڑ انے کے سوا کوئی چا رہ نہیں تھا۔

تو حید کا علمبردار اسی را ستہ کو اپنا ئے ہوئے آگے بڑ ھا اور نہا یت غور وخوض کے سا تھ بتوں کو توڑ ڈا لا اور انھیں ٹکڑ ے ٹکڑے کر ڈ الا اور آخر میںاپنی کلہاڑی کو بڑے بت کی گردن میں لٹکا دیا!

جب بت پر ست اپنے عید کے مرا سم سے لو ٹے اور بتو کو ٹو ٹا پھو ٹا اوربکھرا ہوا پایا تو ایک دوسرے سے سوال کیا کہ:کس نے ہمارے خداؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟ سب بو لے ! ہم نے ایک نو جو ان کے بارے میں سنا ہے کہ وہ ان کا مذا ق اڑا تا ہے. اور اُسے ابرا ہیم کہتے ہیں!

سب نے کہا :

( فَأتُوا بِه عَلیٰ اَعیُن النَّاسِ لَعلّهمْ یَشْهَدُون )

لوگو کے سا منے اور جما عت کے حضور اُ سے حا ضر کیا جا ئے تا کہ سب اس کا م سے متعلق گوا ہی دیں.اور جب ا براہیم کو حا ضر کیا گیا اور اُن سے پو چھا گیا۔

( أ أنْتَ فعَلتَ ھَذا بآ لِھَتنا ےَااِبرا ھیم٭ قا لَ بَلْ فَعَلَہُ کبیرُ ھُمْ ھذا فاسئلوھُم اِنْ کَانُوا ےَنطِقُون)

اے ابراہیم آیا تم نے ہمارے خدا ؤں کے ساتھ ایسا سلوک کیا ہے؟ ابرا ہیم نے مقام احتجاج میں کہا: بلکہ ایسا ان کے بڑے نے کیا ہے.تم لو گ ان بتوں سے سوال کر و، اگر بو لتے ہیں تو۔

۱۳۱

ابرا ہیم کی دلیل نہایت قا طع اور روشن دلیل تھی کامیاب ہوگئی .مشر کین اپنے آپ میں ڈوب گئے (دم بخود ہوگئے ) اور اپنے آپ سے کہنے لگے:

( انکم انتم الظالمون )

تم لو گ خود ظالم ہو نہ ابرا ہیم کہ جس نے بتوں کو توڑا ہے.

پھر انھوں نے سر جھکا لیا اور لا جواب ہوگئے، وہ خوب اچھی طرح جانتے تھے کہ بت جواب نہیں دیں گے۔وہ لوگ حضرت ابرا ہیم کی دلیل کے مقا بلے میں عا جز ہوگئے اس لحا ظ سے کہ بت اپنے دفاع کرنے سے عا جز اور بے بس ہیں، چہ جائیکہ لو گوں کو نفع پہنچا ئیں؟

( فَمَاکَانَ جَوابَ قَومِه اِلَّا أنْ قَالوا اقتلُوهُ أَ وْ حَرِّ قوه)...(وَ قَا لُو ا ابنوُا لهُ بنُیا نا ً فَأَ لْقُو هُ فِی الجَحِیم )

لہٰذا (ابرا ہیم کی ان تمام نصیحتوں اور مواعظ کے بعد ) ان کی قوم نے صرف یہ کہا:اسے قتل کر ڈ الو یا آگ میں جلا ڈ الو، اس کے علاوہ انھوں نے کوئی جواب نہیںدیا...قوم نے (ان کی حجت اور برہان کو سنی ان سنی کردیا ...) اور کہا : اس کے لئے کوئی آتش خا نہ بنانا چاہئیے اور اسے آگ میں جلا دینا چاہئے اور سب نے کہا:

( حَرِّ قُو هُ و اْنْصُر واْ آلِهتکم اِن کُنتُم فَاعِلین ٭قُلنَا یَا نَارُ کُونِی بَرداً وَ سَلاماً عَلٰی اِبرٰاهیم٭ وَ اردوا بِه کیدا ً فجَعلنَاهُمُ الْا َٔخَسِرین )

اسے جلا ڈالو اور اپنے خداؤں کی نصرت کرو اگر( خداؤں کی رضا یت میں ) کچھ کر نا چا ہتے ہو،اس قوم نے عظیم اور زبردست آگ روشن کی اور اس میں ابرا ہیم کو ڈا ل دیا.ہم نے خطا ب کیا کہ : اے آگ! ابراہیم کے لئے سرد وسلا مت ہو جا۔ وہ لوگ ان سے مکر وحیلہ اور کینہ وکدورت کر نے لگے تو ہم نے ان کے مکرو حیلے کو با طل کر دیا اور انھیں نقصان میں ڈال دیا ۔

۳۔ ابرا ہیم اور ان کے زمانے کے طا غوت.

ابرا ہیم نے اپنے زمانے کے طا غوت نمرود ( جس کی حکو مت کا دائرہ نہایت وسیع تھا)اور ربوبیت کا ادّعا کر تے ہوئے احتجا ج کیا. خدا وند عالم نے فر ما یا:

۱۳۲

( َٔ لَمْ تَرَ اِلیَٰ اَلّذی حَا جَّ ا برا هیمَ فِی راَبِه أنْ آتاهُ اَللّٰه ُاَلمُلکَ )

کیا تم نے اس شخص کو نہیں دیکھا جسے خدا وند عالم نے ملک دیا تھا ، اُس نے ابرا ہیم سے پروردگار کے بارے میں احتجا ج کیا۔

جیسا کہ قرآن کا شیوۂ بیان ، اس احتجاج سے عبرت حاصل کرنا ہے، لہٰذا خدا اس کے بعد فرماتا ہے :

( اإِذْ قَالَ ااِبْرَاهِیم راَبِیَ الّذِی یُحیِیْی وَیُمِیْت )

جب ابراہیم نے (نمرود سے) کہا :میرا ربّ وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور ما رتا ہے(موت دیتا ہے )۔

یہ با ت نمرود کے ادعائے ربو بیت کے مقابلہ میں بیان کی گئی ہے، اس کے بعد قرآن نے نمرود کی ابراہیم کے مقابل گفتگو کو بیان کیا ہے :

( ٔنَا اُحیِی وَاُمیتُ )

میں بھی زندہ کرتا ہو اور ما رتا ہوں۔

فوراً ہی حکم دیتا ہے کہ ایک آزاد انسان پکڑ کر اسے قتل کردیا جائے اور قتل کے مجر م کو آزاد کر دیں! اس نے اپنے خیا ل میں جو دعویٰ کیا اسے ثا بت کردیا. یہاں پر حضرت ابراہیم نے نمرود سے عقلی احتجاج نہیں کیا کہ ایک بے گنا ہ کا قتل کرنا اور اسی طرح موت کی سزا کے مستحق کو زندہ چھوڑ نا حقیقی طور پر ما رنا اور زندہ کرنا نہیں ہے، بلکہ ایک دوسرا محسوس اور معقول احتجاج پیش کیاکہ :

(..( .فَإِنَّ ﷲ یَاْتِی بِالشَّمْسِ مِنْ الْمَشْرِقِ فَْتِ بِهَا مِنْ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِی کَفَرَ ) ..)

''خدا وند عالم مشرق سے آفتاب نکا لتا ہے ، تم اسے مغرب سے نکا ل دوتو وہ کافر ششدر ومبہوت ہو کر رہ گیا!''( سورۂ بقرہ،آیت ،۲۵۸ )۔

حضرت ابرا ہیم خلیل الرحمن مشرکین سے اپنے احتجاج میں اسی طرح محسوس اور معقول دلا ئل کا استعمال کرتے ہیں جس طرح دیگر پیغمبروں نے بھی اپنے زمانے کے مشر کین سے بحث و احتجاج کے موقع پر اسی روش سے استفادہ کیا ہے۔

۱۳۳

قرآن کر یم بھی جب تمام لو گوںسے گفتگو کرتا ہے یا مشرکین کے مختلف طبقے کو مخا طب قرار دیتا ہے تو یہی را ستہ اپنا تا ہے اور استدلال کرنے میں صرف فلا سفہ اور دانشو روں پر اکتفا ء نہیں کر تا مثال کے طور پر سورۂ حج کی ۷۳ ویں آیت میں تمام انسانوں کے لئے محسوس اور معقول مثال دیتا ہے:

( یاَ اَیُّهَاالنَّاس ضُرِبَ مَثل فا سْتَمِعوُالهُ اِنَّ الّذینَ تَدعُونَ مِنْ دُونِ اللهِ لَنْ یخْلُقو اْ ذباباً )

''اے لوگو! ایک مثا ل دی گئی ہے، اس کی طرف تو جہ دو:جن بتوں کو تم لوگ خدا کے بد لے پوجتے ہو،وہ کبھی ایک مکھی بھی خلق نہیں کر سکتے۔

خداوندعالم نے جو مثال پیش کی ہے اُس میں ایک کثیف اور گندے حشرہ (مکھی) کی بات ہے کہ سب ہی اُس سے نفرت کر تے ہیںاور وہ ہر جگہ پا ئی جا تی ہے. وہ فر ماتا ہے:

جن بتوں کی خدا کی جگہ عبادت کر تے ہو'' تا کہ تمہاری ضرورتوں کو پو ری کریں، وہ مکھی کے مانند کثیف اور پست حشرہ کے پیدا کرنے سے بھی عا جز ہیں اور اس کو لفظ(لن) یعنی ہر گز سے تعبیر کیا ہے تاکہ ایسی توانائی کوان سے ہمیشہ کے لئے نفی کر دے .پھر عبادت کئے جا نے وا لے جعلی اور خود ساختہ خداؤں کی عاجزی اور نا توانی کی زیادہ سے زیادہ تشریح کر تے ہوئے فرماتا ہے:

( وَ اِِنْ یَسْلُبْهُم الذُّ بابُ شَیْئاً لٰا یَسْتَنقذ وُه مِنه )

''اگر مکھی ان سے کوئی چیز لے لے تو وہ اس سے واپس نہیں لے سکتے ''

اگر یہ مکھی اپنے چھوٹے اور معمولی ہو نے کے با وجود ( زمانے کے طا غوت)فرعون کا خون یا وہ گائیں کہ جن کی ہندو پو جا کر تے ہیں(اور انسانوں کے ایسے دیگر خدا ) اگر اپنی حد میں ان کا تھوڑاسا خون چوس لے تو وہ خود ساختہ خدا ا س بات پر قادر نہیں ہے کہ اس معمولی اور کثیف حشرہ سے اپنا حق واپس لے لیں! اس وقت مطلب کو مزید شد ومد کے ساتھ بیان کر تے ہوئے فر مایا :

( مَا قَدَرُوا اللهَ حقَّ قَدره )

ان ضیعف اور ناتواں بندوں نے خدا کو جیسا کہ حق ہے اُس طرح نہیں پہچانا ہے. کیونکہ انھوں نے اُس خدا کا جو زمین اور آسما نوں کا خا لق ہے ذلیل و خوار ، ضیعف و ناتواں مخلوق کو شریک قرار دیاہے!

۱۳۴

خدا وند عالم اور اس کے پیغمبروں کا احتجاج اسی طرح کا ہے ان کے احتجاج میں علماء علم کلام کی روش جو ان کے تا لیفا ت میں ذکر ہوئی ہے دکھا ئی نہیں دیتی یقینا کو نسی روش اور طریقہ بہتر ہے جس کا مناظرہ اور احتجاج کے موقع پر استعمال کیا جائے؟!

حضرت ابرا ہیم نے اپنی جا ئے پیدائش بابل میں،ستارہ پرستوں،بُت پرستوں اور زمانے کے طاغوت

( نمرود) سے مقابلہ کیا ،شام میں کنعا نیوں کی سرزمین کی طرف ہجرت کر نے کے بعد وہاں پر بھی درجہ ذیل داستان پیش آئی ہے:

دوسرا منظر۔ قوم لوط کی داستان میں ابرا ہیم کا موقف.

خدا وند عالم سورۂ عنکبوت کی ۲۶ ویں آیت میں ارشاد فر ما تا ہے:

( فآ مَن له لوط... )

لوط ان (ابرا ہیم ) پر ایمان لائے''

اس آیۂ کریمہ سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ حضرت لوط نے حضرت ابرا ہیم خلیل اللہ کی شریعت پر عمل کیا اور خدا وند عا لم نے انھیں ایسے دیار میں مبعوث کیا جہاںبُرے افعا ل انجام دئیے جاتے تھے تا کہ وہاں جا کر حضرت ابر اہیم کی شریعت کی تبلیغ کریں۔

کیو نکہ خدا وند عالم سورۂ صافات کی ۱۳۳ ویں آیت میں ارشاد فرما تا ہے:

( واِنَّ لُوطَاًًلِمَن المُرسَلِین )

''لوط پیغمبروں میں سے تھے '' منجملہ ابرا ہیم کی لوط سے خبر کے متعلق ایک بات یہ ہے کہ حضرت ابراہیم نے قوم لو ط پر عذاب الٰہی کے نزول کے مسئلہ میں اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے. جو قرآن کریم میں اس طرح بیان ہوئی ہے:

الف: سورئہ عنکبوت کی ۳۲ ویں آیت میں ارشاد ہوتا ہے :

( وَ قَالَ ِنَّ فِیهَا لُوطًا قَالُوا نَحْنُ َعْلَمُ بِمَنْ فِیهَا لَنُنَجِّیَنَّهُ وََهْلَهُ ِلاَّ امْرََتَهُ کَانَتْ مِنْ الْغَابِرِینَ َ )

(ابرا ہیم نے قوم لوط پر عذاب کے ما مور فرشتوں سے) کہا :

۱۳۵

لوط اس علا قہ میں ہیں.انھوںنے جواب دیا کہ ہم وہاں کے رہنے والوں کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں۔ لوط اور ان کے خاندان کو ہم نجات دیںگے سوائے ان کی بیوی کے کہ وہ ہلا ک ہونے والوں میں سے ہے۔

ب۔ سورۂ ہود کی ۷۴ ۔ ۷۶ ویں آیات میں ارشاد ہوتا ہے:

( فَلَمَّا ذَهَبَ عَنْ اِبْرَاهِیمَ الرَّوْعُ وَجَائَتْهُ الْبُشْرَی یُجَادِلُنَا فِی قَوْمِ لُوطٍ ٭ ِنَّ اِبْرَاهِیمَ لَحَلِیم َوَّاه مُنِیب ٭ یَااِبْرَاهِیمُ َعْرِضْ عَنْ هَذَا ِنَّهُ قَدْ جَائَ َمْرُ راَبِکَ وَِنَّهُمْ آتِیهِمْ عَذَاب غَیْرُ مَرْدُودٍ )

جب حضرت ابرا ہیم سے خوف دور ہو گیا اور ان کے لئے بشارت آگئی،تو ہم سے قوم لوط کے بارے میں بحث کرنے لگے ۔

ابراہیم بہت زیادہ صا بر، گریہ وزا ری کر نے والے اور تو بہ کر نے والے تھے اے ابراہیم!اس سے درگذر کرو کہ تمہارے ربّ کا حکم آچکا ہے اور ان کے لئے نا قابل بر گشت عذاب آچکا ہے.جس بحث کے بارے میں خدا وند عالم نے خبر دی ہے وہ بحث ابراہیم اور عذا ب پر ما مور فرشتوں سے تھی اور ایسا اس وقت ہوا جب فرشتوں نے حضرت کو آگا ہ کر دیا تھا تا کہ خدا وند عالم نے انھیں قوم لوط کو ہلا ک کر نے کے لئے ما مور کیا ہے.ابرا ہیم نے ان سے سوال کیا :اگر اس شہر کے درمیان مسلما نوں کا کو ئی گروہ ہو گا، پھر بھی وہاں کے لوگوں کو ہلاک کر دو گے؟

ایک روایت میں مذ کور ہے کہ!

حضرت ابرا ہیم نے سوال کیا:

اگر وہاں پچاس آدمی مسلمان ہو گے تب بھی ہلا ک کر دو گے؟

فرشتوں نے جواب دیا:اگر پچاس آدمی ہوں گے تو نہیں ۔

پو چھا:اگر چا لیس آدمی ہوں تو؟

جواب دیا : ا گر چا لیس آدمی ہو تو بھی نہیں۔

سوال کیا : اگر تیس آدمی ہو تو؟

فرشتوں نے کہا: اگر تیس آدمی ہو تو بھی نہیں۔

۱۳۶

اسی طرح سلسلہ جا ری رکھا یہاں تک کہ پو چھا اگر ان کے درمیان دس آدمی مسلما ن ہو تو کیا کرو گے ؟ ۔

فرشتوں نے جو اب دیا:حتیٰ اگر ان کے درمیان دس آدمی بھی مسلما ن ہو گے تو بھی ہم انھیں ہلاک نہیں کریں گے۔

قرآن کے اسی جملہ سے کہ قرآن فرما تا ہے!

( قاَلَ اِنّ فِیهَالُوطاًً )

معلوم ہوتا ہے کہ صرف حضرت لوط تھے اور فرشتوں نے کہا تھا کہ اگر ایک مسلما ن بھی ہو گا تو اسے عذاب نہیں کر یں گے ،اسی وجہ سے ابرا ہیم نے ان سے فرمایا: لوط ان کے درمیان ہیں اور فرشتوں نے بلافاصلہ جواب دیا اسے ہم نجا ت دیں گے. جس ہمدردی اور مہر بانی کا اظہار حضرت ابراہیم نے حضرت لوط کی قوم سے متعلق کیا ہے اور جو کو شش آپ نے ان سے عذا ب دور کر نے کے لئے کی اس کے نتیجے میں وہ خدا وند متعال کی تمجید اور تعریف کے مستحق قرار پائے ۔

خدا وند متعال نے فرما یا کہ :

( انَّ اِبراهیم لَحَلیم اَوَّاه مُنیب )

تیسرا منظر۔ ابرا ہیم اور اسمٰعیل کی خبر خانہ کعبہ کی تعمیر اور حج کا اعلا ن کر نا

سارہ، ابرا ہیم کی زوجہ اور ان کی خا لہ زا د بہن تھیں.(چونکہ حضرت ابر اہیم سے ان کی کو ئی اولا د نہیں تھی) انھوںنے اپنی کنیز ہاجرہ کوا براہیم کو بخش دیا تا کہ ان سے سکون حاصل کریںپھر،ہا جر ہ حاملہ ہوئیں اور اسمٰعیل پیدا ہوئے۔

ہا جرہ اور اسمٰعیل کے دیدار سے رشک اور حسد سارہ کے دل میں پیدا ہو گیا لھٰذا انھوں نے اپنے شو ہر ابراہیم سے خواہش کی کہ ہاجرہ اور اپنے فرزند اسمعٰیل کو ان کی نگا ہ سے دور کر دیں اور ان دونوں کو ناقابل زراعت سر زمین پر ساکن کر دیں. خدا وندعالم نے بھی ابراہیم کو حکم دیا تا کہ اپنی بیوی سارہ کی خواہش کو پو ری کریں۔

۱۳۷

ابراہیم نے ہاجرہ اور اسمعٰیل کو اپنے ہمراہ لیا اور صحرا کی طرف چل پڑے.وہ جب بھی قابل زراعت سر زمین سے گذرتے اور وہاں اترنے کا قصد کرتے تووحی خدا کے امین جبرئیل مانع ہو جا تے یہاں تک کہ ''فاران '' کی سرزمین مکّہ میں جو کہ پہاڑوں کے درمیان واقع ہے ،سیاہ پتھر وں سے گھری ہوئی،ناقابل زراعت اور بے آب و گیاہ زمین پر بیت اللہ الحرام سے نزدیک اور ایک ایسی جگہ جو حضرت آدم اور دیگر انبیاء کا محل طواف ہے پہنچے ، ایسی جگہ پر جبرائیل نے اُن سے خواہش کی کہ اسی جگہ رک جائیں(پڑاؤ ڈا ل دیں) اور ساز وسامان اتا ر دیں ابرا ہیم نے حکم کی تعمیل کی اور بیوی بچے کو وہاں پر اتار دیا ا ور کہا :

( رَبّنَااِنّیِ اَسْکَنْتُ ذُرّ یّتی بِوادٍٍغِیرذِی زرعٍ عِندَ بَیتِکَ المُحرّم رَبّنَا لِیُقِیمُوا الصَّلَا ةَ فَاجعَل أفئدَة ًمِن النَّاسِ تَهوِیٰ اِلیهِم )

خدایا! میں نے اپنی بعض ذرّیت کو نا قابل زراعت وادی میں تیرے محترم گھر کے پاس ٹھہرایا ہے ،خدا یا ! تا کہ نما ز قا ئم کریں،لہٰذا بعض لوگوں کے دلوں کو ان کی طرف ما ئل کر دے۔

ابرا ہیم نے ان دونوں کو ایک جگہ چھوڑا اور اپنے گھر شام واپس ہوگئے۔

ہاجرہ جتنا پا نی اپنے ہمراہ لا ئی تھیں سب تمام ہو گیا اور دودھ بھی خشک ہو گیا اور حجاز کی مہلک گرمی سے بے گنا ہ بچے کے چہرے پر موت کے آثار نمایاں ہو نے لگے بچہ پیا س کی شدت سے زمین پر ایڑی رگڑ رہا تھا اور ہاجرہ گھبرائی ہوئی ہر طرف چکر لگا تی تھیں اور دیوانہ وار صفا نامی پہاڑ کی طرف دوڑ نے لگیں اور وہاں سے اوپر بلندی پر گئیں تا کہ پہاڑ کے اس طرف درّہ میں کسی کو دیکھیں،لیکن جب کسی کو نہیں دیکھا اور ان کے کا نوں میںکوئی آواز نہیں آئی تو صفا سے نیچے آئیں اور مروہ (پہاڑ) کی طرف رخ کیا اور اس کے بھی اوپر گئیں انھوں نے ان دونوںصفا و مروہ نامی پہاڑوں کے درمیان سات بار رفت وآمد کی اور ہر نوبت میں جب اپنے بچے کے روبرو پہنچتیں تو اپنے قدموں کو تیزی کے ساتھ اٹھا تیں،پھر سا تویںبار دو پہاڑوں کے درمیان سعی وتلا ش کے بعد اپنے بچے کے پاس لوٹ آئیں تا کہ اس کے حال اور کیفیت سے آگاہ ہوں، انہوں نے انتہائی تعجب کے ساتھ دیکھا کہ بچے کے پاؤں کے نیچے پا نی جاری ہے.پھر انھوں نے تیزی کے ساتھ اپنے ہاتھوں سے پانی کے چاروں طرف مٹی سے گھیر دیا اور اسے بہنے سے روک دیا پھر اس پانی کو خود بھی نوش کیا اور بچے کو بھی سیراب کیا اور اسے دودھ پلا یا۔

۱۳۸

ابھی زیادہ دن نہیں گذرے تھے کہ '' جرھم'' نامی قبیلہ کا ایک قافلہ اس طرف سے عبور کر رہا تھا وہ لوگ مکّہ کی فضا میں پرندوں کے وجود کی علت کی تلاش میں لگ گئے کہ جس سے نتیجہ نکالا کہ اس تپتی سر زمین پر پانی ضرورموجود ہے ، لھٰذا ہاجرہ اور آپ کے فرزند( اسمٰعیل ) کے دیدار کے لئے آئے اور اس خاتون سے اجازت طلب کی کہ ان کے نزدیک پڑاؤ ڈالیں اور سکونت اختیار کریں، ہاجرہ نے ان کی درخواست قبول کر لی۔

ایک مدت گذر گئی اور اسمٰعیل بڑئے ہوگئے اور جر ہم قبیلہ کی ایک لڑ کی سے ازدواج کیا، ان کے والد ابرا ہیم ان کے دیدار کے لئے آئے.خدا وند عالم نے بھی حکم دیا کہ کعبہ کی تعمیر کریں۔

ابراہیم نے اپنے بیٹے اسمٰعیل کی مدد سے کعبہ کی تعمیرکی اور خدا وند عالم نے بھی انھیںمنا سک حج کی تعلیم دی. ابراہیم نے اسی حال میں یعنی کعبہ کی تعمیر کرتے ہوئے اپنے ربّ سے درخواست کی ۔

( رَبّناَوَاجَعلنَا مُسلِمینِ لَکَ وَمِنْ ذُرّیَّتِنَا أُمَّةًمُسلِمَة ً لَکَ )

پروردگا ر!ہمیں اپنے فرمان کے سامنے سراپا تسلیم قرار دے اور ہمارے فرزندوں کو بھی اپنے سامنے سراپا تسیلم قرار دے۔

اور کہا:

( راَبِ اجعَلنِی مُقیم الصَّلاة وَمِنْ ذُ رِّ یَّتی )

خدایا ! ہمیں اور ہماری ذریت کو نماز گذار قرار دے۔

پھر اس وقت اپنے فرزندوں سے اس انداز میں وصیت کی:

( اِنَّ اللّٰهَ اِصطَفیٰ لَکُمُُ الدِّ ین فَلا تَمُو تُنَّ اِ لاَّ وََ أَنتُمْ مُسلِمُون )

خدا وند عالم نے اس دین کو تمہارے لئے منتخب کیا ہے لہٰذا نہ مرنا مگر اس حال میں کہ تم مسلمان ہو. (یعنی موت آئے تو حالت اسلام میں آئے)

۱۳۹

کعبہ کی تعمیر تمام ہو نے کے بعد ،حضرت ابراہیم اپنے فرزند اسمٰعیل کے ہمراہ مناسک حج کی ادائیگی کے قصد سے روانہ ہوگئے ؛جب یہ دونوں حضرات عرفات سے منٰی کی طرف واپس ہوئے ،حضرت ابراہیم نے اپنے فرزند اسمٰعیل کو اطلا ع دی کہ میں نے خواب میںدیکھا ہے کہ تمھیں ذبح کر رہا ہوں (اور چونکہ پیغمبروں کاخواب ایک قسم کی وحی ہے ) لہٰذا اپنے فرزند سے ان کا نظریہ جاننا چا ہا ۔

اسمٰعیل نے کہا:

( یاَاَبَتِ اِفْعَل مَا تُؤمَرُ سَتَجِدُ نِی اِنشَاء اللّٰه مِنَ الصَّابِرین )

بابا! جو آپ کو حکم دیا گیا ہے اُس کی تعمیل کیجئے انشاء اللہ مجھے صابروں میں پا ئیں گے۔

ابرا ہیم نے بیٹے کوزمین پر لٹا یا اور ذبح کرنے کے قصدسے ان کے حلقوم پر چھری چلادی،لیکن حیرت انگیز بات یہ ہوئی کہ چھری سے حضرت اسمٰعیل کا سر نہیں کٹا اس حال میں خدا وند عالم نے انھیں آواز دی :

( یَااِبراهیمُُ قَد صَدَّقْتَ الرُّؤیا )

اے ابرا ہیم!تم نے عالم رویا کی ذمّہ داری نبھا دی۔

کیو نکہ حضرت ابرا ہیم نے خواب میں دیکھا تھا کہ بیٹے کا سر کا ٹ رہے ہیں نہ یہ کہ اسمٰعیل کا سر کاٹ چکے ہیں ،اس لحاظ سے انھوں نے خواب میں جو کچھ دیکھا تھا انجام دیا تھا.خدا وند عالم نے بھی ایک گوسفند جبرائیل کے ہمراہ اس کی قربانی کے لئے روانہ کیا اور ابراہیم نے اُس گوسفند کا سر کا ٹا اور منا سک حج کو اختتام تک پہنچایا۔

حضرت ابراہیم کے گزشتہ امور کی انجام دہی کے بعد خدا نے انھیںحکم دیا کہ اعلان کریں اور لوگوں کو حج کی دعوت دیں تا کہ وہ لو گ دور داراز سے لا غر اور کمزور اونٹ پر سوارہو کر خانہ خدا کی زیارت کو آئیں.اس طرح سے بیت اللہ الحرام کا حج ابراہیم کی حنیفیہ شریعت کی اساس قرار پا یا اور ایک ملت کا ستون بن گیا .کہ جس کے بارے میں خدا وند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:

( فَا تّاَبِعُوا مِلَّة اِبرا هیمَ حَنیفاً )

ابرا ہیم کے پاکیزہ اور صاف ستھرے آئین کا ا تباع کرو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رسول(ص) جزیرہ عرب کے شمالی علاقہ کے سرداروں کے پاس تشریف لے گئے اور ان سے یہ معاہدہ کیا کہ طرفین میں سے کوئی بھی کسی پر حملہ و زیادتی نہیں کرے گا ۔ اس کے بعد رسول(ص) نے خالد بن ولید کو دومة الجندل کی طرف بھیجا کیونکہ وہاں کے سرداروں سے یہ خوف تھا کہ وہ دوسرے حملہ میں کہیں روم کا ساتھ نہ دیں مختصر یہ کہ مسلمانوں نے وہاں کے حاکم کو گرفتار کر لیا اور بہت سا مال غنیمت ساتھ لائے۔( ۱ )

رسول(ص) کے قتل کی کوشش

مقام تبوک میں دس بارہ روز گزارنے کے بعد رسول(ص) اور مسلمان مدینہ کی طرف واپس لوٹے جن لوگوں کا خدا اور اس کے رسول(ص) پر ایمان نہیں تھا ان کے دلوں میں شیطان نے وسوسہ کیا اور انہوں نے رسول(ص) کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا اور یہ منصوبہ بنایا کہ جب آپ(ص) کا ناقہ ان کے پاس سے گذرے گا تو اسے بھڑکا دیں گے تاکہ آپ(ص) کو گھاٹی میں گرا دے۔

جب یہ لشکر-مدینہ و شام کے درمیان-مقام عقبہ پر پہنچا تو رسول(ص) نے یہ فرمایا:''من شاء منکم ان یاخذ بطن الوادی فانه اوسع لکم'' جو تم میں سے وادی کے بیچ سے جانا چاہتا ہے وہاں سے چلا جائے کہ وہ تمہارے لئے زیادہ کشادہ ہے ۔ چنانچہ لوگوں نے وادی کا راستہ اختیار کیا اور آپ(ص) عقبہ والے راستہ پر چلتے رہے، حذیفہ بن یمان آپ(ص) کے ناقہ کی مہارپکڑے ہوئے تھے اور عمار یاسر اسے پیچھے سے ہانک رہے تھے، رسول(ص) نے چاند کی روشنی میں کچھ سواروں کو دیکھا جو اپنا منہ چھپائے ہوئے تھے اور پیچھے سے آہستہ آہستہ ناقہ کی طرف بڑھ رہے تھے، یہ دیکھ کر رسول(ص) کو غیظ آگیا آپ(ص) نے انہیں پھٹکارا اور حذیفہ سے فرمایا: ان کی سواریوں کے منہ پر مارو ! اس سے ان پر رعب طاری ہو گیا اور وہ یہ سمجھ گئے کہ رسول(ص) کو ہمارے دل کی حالت کا علم ہو گیا اور ہماری سازش بے نقاب ہو گئی لہذا وہ دیکھتے ہی دیکھتے عقبہ سے بھاگ گئے تاکہ لوگوں میں گم ہو جائیں اور ان کی شناخت نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۶۶ بحار الانوارج۲۱ص۲۴۶۔

۲۰۱

حذیفہ نے رسول(ص) سے درخواست کی کہ کسی کو ان کے تعاقب میں بھیج کر انہیں قتل کرا دیجئے کیونکہ انہوں نے ان کی سواریوں کو پہچان لیا تھا لیکن رسول(ص) رحمت نے انہیں معاف کر دیا اور ان کے معاملہ کو خدا پر چھوڑ دیا۔( ۱ )

جنگ تبوک کے نتائج

۱۔مسلمان ایک بڑی منظم طاقت بن کر ابھرے، ایسی قوت جو مضبوط عقیدہ کے حامل کو ملتی ہے، اس سے مضافات کی حکومتوں اور دیگر ادیان کو خوف لاحق ہوا یقینا اسلامی شہروں سے باہر، اور ان کے اندر کی طاقتوں کے لئے یہ حقیقی خطرہ تھاجس سے بچنے کے لئے ضروری تھا کہ وہ اسلام اور مسلمانوں کو نہ چھیڑیں۔

۲۔ مسلمانوں نے شمال کے علاقے کے سرداروں سے معاہدہ کرکے اس علاقہ کو محفوظ بنا لیا تھا۔

۳۔ اسلحہ و تعداد کے لحاظ سے بڑی فوج تیار کرکے مسلمانوں نے اپنی طاقت سے استفادہ کیا، تنظیم و آمادگی کے بارے میں ان کی معلومات میں اضافہ ہوا، تبوک کی طرف یہ سفر میدان مبارزہ کے بارے میں معلومات فراہم کرنے کے مرادف تھا تاکہ آئندہ اس سے استفادہ کریں۔

۴۔ غزوہ تبوک مسلمانوں کی روحانیت و معنویت کا امتحان اور منافقین کو مسلمانوں سے جدا کرنے کے لئے تھا۔

۵۔ مسجد ضرار

یقینارسول(ص) آسان شریعت اور دینِ توحید لائے تھے، خدائی دستورات کے مطابق صالح اور صحیح سالم معاشرہ وجود میں لانے کے لئے ، سر فروشانہ طریقہ سے کوشاں تھے، انسان کو شرک کی نجاست، شیطانی وسوسوں ،نفسیاتی بیماریوں سے نجات دلانے کے لئے ،آپ(ص) نے بہت رنج و غم اٹھائے اور آپ کومتعدد جنگیں لڑنا پڑیں۔

____________________

۱۔ مغازی ج۳ ص۱۰۴۲، مجمع البیان ج۳ ص ۴۶، بحار الانوار ج۲۱ ص ۲۴۷۔

۲۰۲

بعض منافقین کے دل میں بغض وحسد کی چنگاری بھڑک اٹھی اور انہوں نے مسجد ''قبا'' کے مقابلہ میں ایک مسجد بنا ڈالی اور یہ ظاہر کیا کہ اس میں، ضرورت مند بارش وغیرہ کی راتوں میں نماز پڑھا کریںگے وہ رسول(ص) کی خدمت میں آئے اور یہ درخواست کی کہ اس مسجد میں نماز پڑھئے اس سے ان کا مقصد اپنے عمل پر شریعت کی مہرلگوانا تھا، چونکہ رسول(ص) تبوک کی طرف روانگی کیلئے، تیاری کررہے تھے اس لئے ان کی درخواست منظور کرنے میں آپ(ص) نے تاخیر کی ، جب تبوک سے واپس تشریف لائے تو خدا کی طرف سے وحی نازل ہوئی کہ اس مسجد میں نماز نہ پڑھئے گا، کیونکہ اس سے مسلمان میں تفرقہ پڑجائیگا اور امت کو نقصان پہنچے گا کتنا فرق ہے ان دو مسجدوںکے درمیان جن میں سے ایک کی بنیاد تقوے پر رکھی گئی ہے اور دوسری مسلمانوںکو نقصان پہنچا نے کے لئے بنائی گئی ہے اسی بنا پر رسول(ص) نے اسے منہدم کرنے کا حکم دیدیا۔( ۱ )

۶۔ وفود کا سال

جزیرہ نمائے عرب پر اسلام کا اقتدار مسلم ہو گیا، رسول(ص) قوت اور جنگ کا سہارا مجبوری میں ڈرانے کے بعد لیتے تھے مسلمانوں کی اکثر جنگیں دفاعی تھیں، شرک کی طاقتیں حق کو نہیں سمجھتی تھیں وہ طاقت کے استعمال اور ڈرانے دھمکانے سے ہی راہ راست پہ آئی تھیں۔

جب مسلمان اپنی حکومت کے پائے تخت-مدینہ منورہ-واپس لوٹ آئے تو رسول(ص) نے کچھ دستے روانہ کئے تاکہ وہ شہروں کو شرک و بت پرستی کے مرکزوں سے پاک کریں۔

مسلمانوں کی طاقت اور ان کی پے در پے فتح سے جزیرہ نما عرب کے سردار اسلام کی ندا کھلے کانوں سن رہے تھے اور اس کے مقاصد و ہدایت کو بخوبی سمجھ رہے تھے لہذا ان کے وفود مدینہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ رسول(ص) کے سامنے اپنے اسلام کا اعلان کریں، اس لئے اس سال کو ''عام الوفود'' کہتے ہیں۔( ۲ ) رسول(ص) ان ک

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲۰ ص ۵۳۰، بحار الانوار ج۲۰ ص ۲۵۳۔

۲۔ سیرت نبویہ، ابن ہشام: ہجرت کے نویں سال میں اس کا ذکر کیا ہے اور اسے سنة الوفود کے نام سے یاد کیا ہے ۔

۲۰۳

استقبال کرتے تھے ان کے ساتھ نیکی کرتے تھے اور ان کے پاس ایسے شخص کو بھیجتے تھے جو انہیں قرآن اور شریعت اسلام کے فرائض کی تعلیم دیتا تھا۔

قبیلۂ ثقیف کا اسلام لانا

خدائی فتح و نصرت نے ہر شخص پر یہ فرض کر دیا کہ وہ اپنے امور کے بارے میں غور کرے اور اسلام کے سلسلہ میں اپنی عقل کو حاکم بنائے۔ یہ رسول(ص) کی حکمتِ بالغہ تھی کہ جب طائف والوں نے اپنے شہر میں داخل نہیں ہونے دیا تھا تو رسول(ص) نے فتح طائف کے لئے مہلت دیدی تھی اور آج وہ خود اپنے وفود بھیج رہے ہیں تاکہ اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کریں جبکہ پہلے انہوں نے شدید دشمنی اور مخالفت کی تھی اور اپنے سردار، عروہ بن مسعود ثقفی کو اس جرم میں قتل کر دیا تھا کہ وہ خود اسلام قبول کرکے ان کے پاس گیا اور انہیں اسلام کی دعوت دی۔

رسول(ص) نے ثقفی وفد کو خوش آمدید کہا، مسجد نبوی کے ایک گوشہ میں ان کے لئے ایک خیمہ نصب کر دیااور ان کی میزبانی کے فرائض خالد بن سعید کے سپرد کئے۔ اس کے بعد انہوں نے رسول(ص) سے چند شرطوں کے ساتھ اسلام قبول کرنے کے سلسلہ میں گفتگو کی وہ شرطیں یہ تھیں: کچھ زمانہ تک ان کے قبیلے کا بت نہ توڑا جائے، آنحضرت (ص) نے فرمایا کہ خالص توحید کے علاوہ اور کوئی چیز قبول نہیں ہے ان لوگوں نے رفتہ رفتہ اپنی شرطیں ختم کر دیں بعد میں انہوں نے یہ کہا: ہم اسلام قبول کر لیں گے لیکن ہمیں اس بات سے معاف رکھا جائے کہ اپنے بت خود توڑیں اسی طرح یہ شرط بھی رکھی کہ ہمیں نماز سے معاف رکھا جائے رسول(ص) نے فرمایا:''لا خیر فی دین لا صلٰوة فیه'' اس دین کا کیا فائدہ جس میں نماز نہیں۔ مختصر یہ کہ انہوں نے اسلام قبول کر لیا۔ یہ وفد ایک مدت تک رسول(ص) کے ساتھ رہا اور احکام دین کی تعلیم حاصل کرتا رہا۔ اس کے بعد رسول(ص) نے طائف کے بت توڑنے کیلئے، ابو سفیان بن حرب اور مغیرہ بن شعبہ کو بھیجا۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص ۵۳۷، سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۶ ۔

۲۰۴

۷۔ فرزندِ رسول(ص) ، حضرت ابراہیم کی وفات

اسلام کی کامیابی اورپیغامِ رسالت کی توسیع سے رسول(ص) بہت خوش تھے، لوگ دین خدا میں گروہ درگروہ داخل ہو رہے تھے لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم دوسرے سال میں داخل ہوئے تو وہ بیمار ہو گئے ان کی والدہ جناب ماریہ نے دیکھا کہ وہ مریض ہیں اور کسی بھی چیز سے انہیں افاقہ نہیں ہو رہا ہے تورسول(ص) کو خبر دی گئی کہ بیٹا احتضار کی حالت میں ہے ، آپ(ص) تشریف لائے دیکھا کہ ابراہیم اپنی ماں کی آغوش میں جاں بلب ہیں، رسول(ص) نے انہیں لے لیا اور فرمایا:

''یا ابراهیم انا لن نغنی عنک من اللّه شیئاً انا بک لمحزونون تبکی العین و یحزن القلب ولا نقول ما یسخط الرب ولولا انه وعد صادق و موعود جامع فان الآخر منا یتبع الاول لوجدنا علیک یا ابراهیم وجدا ً شدیداً ما وجدناه'' ۔( ۱ )

اے ابراہیم ہم تمہارے لئے کچھ بھی نہیں کر سکتے ، تمہارے غم میں ہماری آنکھیں اشکبار اور دل غم زدہ ہیں لیکن ہم ایسی بات ہر گز نہیں کہتے جو خدا کے غضب کا سبب ہو اگر خدا کا سچا وعدہ نہ ہوتا تو اے ابراہیم ہم تیرے فراق میں اس سے زیادہ گریہ کرتے اور بہت زیادہ غمگین ہوتے، اور ہم بھی تمہارے پیچھے پیچھے آ رہے ہیں۔

رسول(ص) کے چہرہ اقدس پر غم و الم کے آثار ظاہر ہو گئے، تو بعض لوگوں نے کہا: اے اللہ کے رسول(ص)! کیا آپ(ص) نے ہمیں ایسی باتوں سے نہیں روکا ہے تو آپ نے فرمایا:

''ما عن الحزن نهیت و لکنی نهیت عن خمش الوجوه و شق الجیوب ورنة الشیطان'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱، بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۷۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۳۱۱۔

۲۰۵

میں نے تمہیں عزیزوں کا غم منانے سے نہیں روکا ہے ہاں چہرے پر طمانچے مارنے، گریبان چاک کرنے اور شیطان کی طرح چیخنے چلّانے سے منع کیا ہے ۔

ایک روایت یہ ہے کہ آپ(ص) نے یہ فرمایا:

''انما هذا رحمة و من لا یرحم لا یرحم'' ( ۱ )

یہ تو بس رحمت ہے اور جو رحم نہیں کرتا اس پر رحم نہیں کیا جاتا۔

خدا کی نظر میں نبی (ص) کی بڑی منزلت ہے اور آپ(ص) نے کتنے ہی معجزات دکھائے ہیں جن کے سبب لوگ آپ(ص) پر ایمان لائے ہیں لیکن جب آپ(ص) کے فرزند جناب ابراہیم کی وفات کے روز سورج کو گہن لگا تو بعض مسلمانوں نے خیال کیا کہ ان کی موت کے باعث سورج کو گہن لگا ہے ۔

رسول(ص) نے اس گمان کی نفی فرمائی اور اس خوف سے کہ کہیں یہ سنت نہ بن جائے اور جاہل اس کے معتقد نہ ہو جائیں فوراً فرمایا:

''ایها النّاس ان الشمس و القمر آیتان من آیات اللّه لا یکسفان لموت احد ولا لحیاته'' ۔( ۲ )

اے لوگو! چاند سورج خدا کی نشانیوں میں سے دو نشانیاں ہیں ان کو کسی کی موت و حیات پر گہن نہیں لگتا ہے ۔

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲۲ ص ۱۵۱۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۱۸۷۔

۲۰۶

تیسری فصل

جزیرہ نما عرب سے بت پرستی کا صفای

۱۔ مشرکین سے اعلانِ برائت

جب جزیرہ نما عرب میں اسلامی عقیدے اور شریعتِ سہلہ کا فروغ ہو گیا اور بہت سے لوگوں نے اسے قبول کر لیا تو وہاں شرک و بت پرستی پر چند ہی لوگ قائم رہے وہاں صریح طور پر ایہ اعلان کرنا ضروری تھا کہ عبادی و سیاسی مناسک میں شرک و بت پرستی کا مظاہرہ نہیں کرنے دیا جائے گا۔

اب وقت آ گیا تھا کہ اسلامی حکومت ہر جگہ اپنے نعروں اور شعار کا اعلان کرے، نرمی اور تالیف قلوب کا زمانہ ختم ہو چکا تھا گذشتہ دور اس بات کا مقتضی تھاکہ اب اس کی ضرورت نہیں تھی۔

اس اعلان کے لئے رسول(ص) نے زمانہ کے لحاظ سے قربانی کا دن اور جگہ کے اعتبار سے منیٰ( ۱ ) کو منتخب کیا اور ابوبکر کو سورۂ توبہ( ۲ ) کی ابتدائی آیتیں پڑھنے کے لئے مقرر کیا گیا۔یہ آیتیں اسی سلسلہ میں نازل ہوئی تھیں ان کے ضمن میں تمام مشرکین سے صریح طور پر برائت کا اعلان تھا، برائت کی شقیں درج ذیل ہیں:

۱۔ کافر جنت میں نہیں جائیگا۔

۲۔ برہنہ حالت میں کسی کو خانہ کعبہ کا طواف نہیں کرنے دیا جائیگا۔( یہ جاہلیت کی رسم تھی)

۳۔ اس سال کے بعد کسی مشرک کو حج نہیں کرنے دیا جائے گا۔

____________________

۱۔دس ذی الحجہ ۹ھ۔

۲۔سورۂ توبہ ۱۔۱۳۔

۲۰۷

۴۔ جس کا رسول(ص) سے معاہدہ ہے وہ اپنی مدت پر ختم ہو جائیگا لیکن جس کا کوئی معاہدہ نہیں ہے اس کے لئے چار ماہ کی مہلت ہے اس کے بعد دار الاسلام میں اگر مشرک پایاجائیگا تو اسے قتل کر دیا جائے گا۔ اسی اثنا میں رسول(ص) پر وحی نازل ہوئی:''انّه لا یؤدِّی عنک الا انت او رجل منک'' اس پیغام کو آپ(ص) یا وہ شخص پہنچا سکتا ہے جو آپ(ص) سے ہو۔ پس آنحضرت (ص) نے حضرت علی کو طلب کیا اور فرمایا: عضباء ناقہ پر سوار ہو کر ابو بکر کے پاس جائو اور ان سے وہ پیغام لے لو اور اسے تم لوگوں تک پہنچائو۔( ۱ )

علی بن ابی طالب حاجیوں کے مجمع میں کھڑے ہوئے اور ہمت و جرأت کے ساتھ خدا کے بیان (پیغام)کو پڑھا ہر چیز کو واضح طور سے بیان کیا، لوگوں نے اسے کھڑے ہو کربہت توجہ اور خاموشی کے ساتھ سنا مشرکین پر اس اعلان کا یہ اثر ہوا کہ وہ فرمانبردار ہو کر رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔

۲۔ نصارائے نجران سے مباہلہ

نصارائے نجران کو رسول(ص) نے خط لکھ کر اسلام کی طرف دعوت دی، ان کے سردار اور صاحبان حل و عقد اس خط کے بارے میں غور و فکر کرنے کے لئے جمع ہوئے لیکن کسی خاص و قطعی نتیجہ پر نہیں پہنچ سکے کیونکہ ان کے پاس ایسی تعلیمات کا علم تھا جو جناب عیسیٰ کے بعد ایک نبی (ص) کی آمد کی تاکید کرتے تھے اور محمد(ص) کے معجزات و افعال اس بات پر دلالت کرتے تھے کہ آپ نبی (ص) ہیں۔ اس لئے انہوں نے یہ طے کیا کہ نبی (ص) کے پاس ایک وفد بھیجا جائے جو ان سے گفتگو کرے۔

یہ وفد رسول(ص) کے پاس پہنچا لیکن رسول(ص) نے ان کے ظاہر کو دیکھ کر انہیں کوئی اہمیت نہ دی یہ بھی بت پرستوں کی وضع قطع میں تھے۔ حر یرو دیبا کی ردا ڈالے ہوئے، سونا پہنے ہوئے اور گردنوں میں صلیب لٹکائے ہوئے تھے، دوسرے دن انہوں نے اپنی وضع قطع بدلی اور پھر حاضر ِ خدمت ہوئے تو رسول(ص) نے انہیں خوش آمدید کہا، ان کا احترام کیا اور انہیں ان کے مذہبی امور بجالانے کی سہولت فراہم کی۔( ۲ )

____________________

۱۔الکافی ۱/۳۲۶، الارشاد ۳۷، الواقدی ۳/۱۰۷۷، خصائص النسائی ۲۰، صحیح ترمذی۲/۱۸۳، مسند احمد ۳/۳۸۳، فضائل الخمسہ من الصحاح الستة۲/۳۴۳۔

۲۔سیرت حلبیہ ج۳ ص ۲۱۱، سیرتِ نبویہ ج۱ ص ۵۷۴۔

۲۰۸

اس کے بعد ان کے سامنے اسلام پیش کیا، قرآن مجید کی کچھ آیتوں کی تلاوت کی لیکن انہوں نے قبول نہ کیا بہت زیادہ بحث و مباحثہ ہوا آخر کار رسول(ص) نے فرمایا کہ اب میں تم سے مباہلہ کرونگا یہ بات آپ(ص) نے حکم خدا سے کہی تھی اگلے روز مباہلہ کرنے پر اتفاق ہو گیا۔

حکم خدا کی اطاعت میں ان سے مباہلہ کے لئے رسول(ص) اس طرح بر آمد ہوئے کہ حسین کو(گود میں) اٹھائے اور حسن کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے آپ(ص) کے پیچھے آپ(ص) کی بیٹی فاطمہ اور ان کے بعد آپ(ص) کے ابن عم علی بن ابی طالب تھے اس کا ذکر قرآن مجید میں اس طرح ہے :

( فمن حاجک فیه من بعد ما جاء ک من العلم فقل تعالوا ندع ابنائنا و ابنائکم و نسائنا و نسائکم و انفسنا و انفسکم ثم نبتهل فنجعل لعنة اللّه علیٰ الکاذبین ) ( ۱ )

جب تمہارے پاس علم آ چکا تو اگر کوئی شخص اس سلسلہ میں تم سے حجّت کرے تو تم ان سے یہ کہدو کہ تم اپنے بیٹوں کو لائو ہم اپنے بیٹوں کو لائیں تم اپنی عورتوں کو لائو ہم اپنی عورتوں کو لائیں تم اپنے مردوں کو لائو ہم اپنے مردوں کو لائیں پھر مباہلہ کریںاور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں۔

ان کے علاوہ رسول(ص) نے مسلمانوں میں سے کسی ایک کو اپنے ساتھ نہیں لیا۔یہ مباہلہ آپ(ص) نے اس لئے کیا تھا تاکہ آپ(ص) کی نبوت و رسالت کی صداقت سب پر ثابت ہو جائے۔ اس موقعہ پر نجران کے اسقف نے کہا: اے قوم نصاریٰ! میں ایسے چہرے دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ خدا سے یہ دعا کریں کہ پہاڑ اپنی جگہ سے ٹل جائے تو خدا اسے اس کی جگہ سے ہٹا دے گا۔ پس ان سے مباہلہ مت کرو، ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور روئے زمین پر کوئی نصرانی باقی نہیں بچے گا۔

جب نصارای نجران نے رسول(ص) اور آپ(ص) کے اہل بیت( ان پر خدا کا درود ہو)سے مباہلہ کرنے سے انکار کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:

''اما اذا ابیتم المباهلة فاسلموا یکن لکم ما للمسلمین و علیکم ما علیٰ المسلمین'' ۔

____________________

۱۔ آل عمران:۶۱۔

۲۰۹

جب تم نے مباہلہ سے انکار کر دیا ہے تو اسلام قبول کرو اس طرح تم نفع و ضرر میں مسلمانوں کے شریک ہو جائو گے، لیکن انہوں نے یہ بات بھی قبول نہ کی تو رسول(ص) نے فرمایا:''انی انا جزکم القتال'' میں تم سے جنگ کرونگا، انہوںنے کہا: ہم عرب سے جنگ نہیں کر سکتے ہاں ہم آپ(ص) سے اس بات پر صلح کرتے ہیں کہ اگر آپ(ص) ہم سے جنگ نہیں کریں گے اور ہمیں ہمارے دین سے نہیں پلٹائیں گے توہم ہر سال آپ(ص) کودو ہزار حلے ایک ہزار ماہ صفر میں اور ایک ہزار ماہ رجب میں دیا کریں گے اور لوہے کی تیس زرہیں دیا کریں گے۔ رسول(ص) نے اس پر ان سے صلح کر لی۔

''و الّذی نفسی بیده ان الهلاک قد تدلی علٰی اهل نجران، ولولاعنوا لمسخوا قردة وخنازیر ولا ضطرم علیهم الوادی ناراً، ولأُ ستاصِلَ نجران و اهله حتی الطیر علیٰ رؤوس الشجر، ولما حال الحول علیٰ النصاری کلهم حتی یهلکوا فرجعوا الیٰ بلادهم دون ان یسلموا'' ( ۱ )

اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے، ہلاکت اہل نجران سے قریب آ چکی تھی ( عذاب ان کے سروں پر منڈلا رہا تھا) اگر وہ لعنت کرتے تو وہ بندر اورسور کی صورت میں مسخ ہو جاتے اور پوری وادی آگ برساتی اور اہل نجران مع اہل یہاں تک کہ درختوں پر بیٹھے ہوئے پرندے بھی ہلاک ہو جاتے، ایک سال کے اندر سارے نصاریٰ ہلاک ہو جاتے، وہ اسلام لائے بغیر اپنے شہروں کو لوٹ گئے۔

روایت ہے کہ نصاریٰ کے سرداروں میں سے سید اور عاقب اپنے اسلام کا اعلان کرنے کے لئے تھوڑی ہی دیر بعد رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔( ۲ )

____________________

۱۔ تفسیر کبیر''رازی'' ج۸ ص ۸۵۔

۲۔طبقات الکبریٰ ج۱ ص ۳۵۷۔

۲۱۰

۳۔حجة الوداع

رسول(ص) ساری انسانیت کے لئے بہترین نمونہ تھے، آپ(ص)خدا کی آیتوں کو اس طرح پہنچاتے تھے کہ ان کی تفسیر اور ان کے احکام واضح طور سے بیان کرتے تھے سارے مسلمان آپ(ص) کے قول و فعل کی اقتدا کرتے تھے- ہجرت کے دسویں سال ماہ ذی القعدہ میں رسول(ص) نے فریضہ حج کی ادائیگی کا قصد کیا-اس سے قبل آپ(ص) نے حج نہیں کیا تھا، اس حج کی ایک غرض یہ بھی تھی کہ مسلمان حج کے احکام سے آگاہ ہو جائیں چنانچہ ہزاروںمسلمان مدینہ آ گئے اور نبی (ص) کے ساتھ حج پر جانے کی تیاری کرنے لگے۔ ان مسلمانوں کی تعداد ایک لاکھ ہو گئی، ان میں اہل مدینہ ، بادیہ نشین اور دیگر قبائل کے لوگ شامل تھے۔ یہ لوگ کل تک ایک دوسرے کی جان کے دشمن ، جاہل اور کافر تھے لیکن آج انہیں سچی محبت، اسلامی اخوت نے رسول(ص) کی آواز پر لبیک کہنے کے لئے ایک جگہ جمع کردیا ہے ، اس سفر میں رسول(ص) نے اپنی تمام ازواج اور اپنی بیٹی فاطمہ زہرا(ص) کو ساتھ لیا، فاطمہ (ص) کے شوہر علی بن ابی طالب کو رسول(ص) نے ایک مہم سر کرنے کے لئے بھیجا تھا، وہ اس سفر میں آپ(ص) کے ساتھ نہیں تھے، ابو دجانہ انصاری کو مدینہ کا عامل مقرر کیا۔

مقام ذو الحلیفہ پر آپ(ص) نے احرام باندھا دو سفید کپڑے پہنے، احرام کے وقت تلبیہ کہی''لبیک الّلهم لبیک، لبیک لا شریک لک لبیک، ان الحمد و النعمة لک و الملک ، لبیک لا شریک لک لبیک'' ۔

چوتھی ذی الحجہ کو رسول(ص) مکہ پہنچے، تلبیہ کہنا بند کر دیا خدا کی حمد و ثنا اور شکر بجالائے، حجر اسود کو چوما، سات مرتبہ طواف کیا۔ مقام ابراہیم کے پاس دو رکعت نماز پڑھی پھر صفا و مروہ کے درمیان سعی کی اور حاجیوں کو اس طرح مخاطب کیا:''من لم یسق منکم هدیا فلیحل و لیجعلها عمره و من ساق منکم هدیا فلیقم علیٰ احرامه'' تم میں سے جس شخص نے قربانی کا جانور نہیں بھیجا ہے اسے احرام کھول دینا چاہئے اور اسے عمرہ قرار دنیا چاہئے اور جس نے قربانی کا جانور بھیجا ہے اسے اپنے احرام پر باقی رہنا چاہئے۔

بعض مسلمانوں نے رسول(ص) کے اس فرمان پر عمل نہیں کیا انہوںنے یہ خیال کیا کہ ہمیں وہی کام انجام دینا چاہئے جو رسول(ص) نے انجام دیا ہے اور آپ(ص) نے احرام نہیں کھولا۔ ان کی اس حرکت پر رسول(ص) ناراض ہوئے۔

۲۱۱

اور فرمایا:

''لوکنت استقبلت من امری ما استدبرت لفعلت کما امرتکم'' ( ۱ )

اگر ماضی کی طرح مستقبل مجھ پر روشن ہوتا تو میں بھی وہی کام کرتا جس کا تم کو حکم دیا ہے ۔

حضرت علی بن ابی طالب یمن سے واپسی پر مکہ کی طرف روانہ ہوئے تاکہ وہاں خدمت رسول(ص) میں حاضر ہو جائیں آپ(ص) نے قربانی کے لئے ۳۴ جانور ساتھ لئے، مکہ کے قریب پہنچے تو آپ(ص) نے شہر میں داخل ہونے کے لئے اپنے دستہ پر کسی کو اپنا جانشین مقرر کیا اور خدمت نبی(ص) میں پہنچے، یمن میں آپ کی عظیم کامیابی کی خبر سن کر اور آپ کو دیکھ کر رسول(ص) بہت مسرور ہوئے اور فرمایا:

جائیے طواف کیجئے اور اپنے ساتھیوں کی طرح مکہ میںداخل ہو جایئے، آپ نے عرض کی: اے اللہ کے رسول(ص)! جس نیت سے آپ(ص) نے احرام باندھا ہے میں نے بھی اسی نیت سے باندھا ہے ۔ نیز عرض کی: میں نے احرام باندھتے وقت یہ کہا تھا اے اللہ میں اس نیت کے ساتھ احرام باندھتا ہوں جس نیت سے تیرے بندے، تیرے نبی(ص) اور تیرے رسول(ص) محمد(ص) نے احرام باندھا ہے، اس کے بعد رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا: اپنے دستہ میں واپس جائیے اور ان لوگوں کے ساتھ مکہ آئیے۔ جب آپ کے ساتھی خدمت رسول(ص) میں پہنچے تو انہوں نے آنحضرت(ص) سے آپ کی شکایت کی ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ان لوگوں نے حضرت علی کی عدم موجودگی میں بیت المال میں غلط طریقہ سے جو تصرف کیا تھا اسے آپ نے قبول نہیں کیا تھا۔ ان کی شکایت کا آنحضرت(ص) نے یہ جواب دیا:

''ایها النّاس لا تشکوا علیاً فو اللّه انه لا خشن فی ذات الله من ان یشتکی'' ۔( ۲ )

اے لوگو! علی کی شکایت نہ کرو کیونکہ وہ حکمِ خدا نافذ کرنے میں کسی کی شکایت کی پروا نہیں کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۱ ص ۳۱۹۔

۲۔سیرة نبویہ ج ۲ص۶۰۳، بحار الانوارج ۲۱ص۳۵۸۔

۲۱۲

۹ ذی الحجہ کو رسول(ص) مسلمانوں کے ساتھ عرفات کی طرف روانہ ہوئے اور غروب آفتاب تک وہیں رہے۔ تاریکی چھا جانے کے بعد اپنے ناقہ پر سوار ہوئے اور مزدلفہ پہنچے وہاں رات کا ایک حصہ گذرا اور طلوع فجر تک مشعر الحرام میں رہے ، دسویں ذی الحجہ کو منیٰ کا رخ کیا۔ وہاں کنکریاں ماریں قربانی کی اورسر منڈوایا اس کے بعد حج کے باقی اعمال بجالانے کے لئے مکہ چلے گئے۔

اس حج کو حجة الوداع اس لئے کہتے ہیں کہ اس میں رسول(ص) نے مسلمانوں کو وداع کیا ، اسی میں آپ(ص) نے یہ خبر دی کہ آپ(ص) کی وفات کا زمانہ قریب ہے ، اس حج کو ''حجة البلاغ'' بھی کہتے ہیں کیونکہ اس حج میں آپ(ص) نے اپنے بعد ہونے والے خلیفہ کے سلسلہ میں خدا کی طرف سے نازل ہونے والے حکم کی بھی تبلیغ کی تھی، اس کو حجة الاسلام بھی کہتے ہیں کیونکہ یہ رسول(ص) کا پہلا حج تھا کہ جس میں آپ(ص) نے حج کے اعمال سے متعلق اسلام کے دائمی احکام بیان فرمائے تھے۔

حجة الوداع میں رسول(ص) کا خطبہ

روایت ہے کہ رسول(ص) نے ایک جامع خطبہ دیا خدا کی حمد و ثنا کے بعد فرمایا:

'' یا ایها النّاس اسمعوا منی ابین لکم فانی لا ادری لعلی لا القاکم بعد عامی هذا فی موقفی هذا ایها النّاس ان دمائکم و اموالکم علیکم حرام الیٰ ان تلقوا ربکم کحرمة یومکم هذا فی شهرکم هذا فی بلد کم هذا الاهل بلغت؟ الّلهم اشهد فمن کانت عنده امانة فلیؤدها الیٰ الذی ائتمنه و ان ربا الجاهلیة موضوع، و ان اول رباً ابدأ به ربا عم العباس بن عبد المطلب ان مآثر الجاهلیة موضوعة غیر السدانة و السقایة، و العمد قود و شبه العمد ما قتل بالعصا و الحجر ففیه مائة بعیر فمن زاد فهو من اهل الجهالیة

۲۱۳

ایها النّاس ان الشیطان قد یئس ان یعبد فی ارضکم هذه و لکنه رض ان یطاع فیما سویٰ ذلک مما تحتقرون من اعمالکم

ایها النّاس انما النسء زیادة ف الکفر یضل به الذین کفروا یحلونه عاماً و یحرمونه عاماً لیواطئوا عدة ما حرم الله و ان الزمان استدار کهیئته یوم خلق الله السموات و الارض و ان عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهراً ف کتاب الله یوم خلق السماوات والارض، منها اربعة حرم، ثلاثة متوالیات وواحد فرد:

ذو القعدة و ذو الحجة و المحرم و رجب الذ بین جمادی و شعبان الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد

ایها النّاس ان لنسائکم علیکم حقاً و ان لکم علیهن حقاً لکم علیهن ان لا یوطئن فرشکم غیر کم ولا یدخلن احداً تکرهونه بیوتکم الا باذنکم ولا یأتین بفاحشة، فان فعلن فان اللّه قد اذن لکم ان تعضلوهن و تهجروهن ف المضاجع و تضربوهن ضرباً غیر مبرح، فان انتهین و اطعنکم فعلیکم رزقهن و کسوتهن بالمعروف، و انما النساء عندکم عوار لا یملکن لانفسهن شیئاً، اخذتموهن بامانة اللّه و استحللتم فروجهن بکلمة اللّه فاتقوا اللّه ف النساء و استوصوا بهن خیراً

ایها النّاس انما المؤمنون اخوة فلا یحل لا مرئٍ مال اخیه الا عن طیب نفس الا هل بلغت؟ الّلهم اشهد فلا ترجعوا بعد کفاراً یضرب بعضکم رقاب بعض؛ فانی قد ترکت فیکم ما ان اخذتم به لن تضلوا کتاب اللّه و عترت اهل بیت الا هل بلغت ؟ اللهم اشهد

ایها النّاس ان ربکم واحد، و ان اباکم واحد، کلکم لآدم، و آدم من تراب، اکرمکم عند اللّه اتقاکم، لیس لعرب علی عجم فضل الا بالتقوی، الا هل بلغت؟ قالوا نعمقال(ص): فلیبلغ الشاهد منکم الغائب( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج ۲۱، ص ۴۰۵۔

۲۱۴

ایها النّاس ان اللّه قد قسم لکل وارث نصیبه من المیراث ولا یجوز لوارث وصیة ف اکثر من الثلث، و الولد للفراش و للعاهر الحجر، من ادع الیٰ غیر ابیه او تولی غیر موالیه فعلیه لعنة اللّه و الملائکة و النّاس اجمعین ، لا یقبل اللّه منه صرفاً ولا عدلاً... و السلام علیکم و رحمة اللّه ۔( ۱ )

اے لوگو! میری بات سنو تاکہ تمہارے سامنے یہ واضح کر دوں مجھے لگتا ہے کہ اس سال کے بعد اس جگہ تم لوگوں سے شاید میری ملاقات نہ ہو۔ اے لوگو! تمہارا خون اور تمہاری عزت تمہارے لئے مرتے دم تک اسی طرح محترم ہے جیسے تمہارے اس شہر میں آج کا دن محترم ہے۔ کیا میں نے بخوبی تم تک الٰہی پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ! گواہ رہنا۔ پس اگر کسی کے پاس کوئی امانت ہو تو اسے اس شخص کے پاس پہنچا دے جس نے امانت رکھی تھی، زمانہ جاہلیت کا ہر سود باطل ہے سب سے پہلے میں اپنے چچا عباس بن عبد المطلب کے سود کو لغو قرار دیتا ہوں اور جو خون زمانۂ جاہلیت میں بہایا گیا تھا اس کا انتقام و قصاص وغیرہ بھی باطل ہے اور سب سے پہلے میںعامر بن ربیعہ بن حارث بن عبد المطلب کی سزا کو لغو قرار دیتا ہوں اور خانۂ کعبہ کی دربانی و کلید برداری اور حاجیوں کو سیراب کرنے کے علاوہ کوئی کام باعثِ افتخار نہیں ہے جان بوجھ کر قتل کرنے اور عمداً شبہ کی وجہ سے لاٹھی یا پتھر سے مار ڈالنے کی دیت سو اونٹ ہیں اس سے زیادہ کا تعلق اہل جاہلیت سے ہے ۔

اے لوگو! شیطان اس بات سے مایوس ہو گیا کہ تمہاری اس سر زمین پر اس کی پوجا ہوگی لیکن وہ اس بات سے خوش ہے کہ تم بعض اعمال کو اہمیت نہیں دیتے ہو۔

اے لوگو!نسی یعنی مہینوںکو آگے پیچھے کرنا- کفر میں اضافہ کا سبب ہے ان کے ذریعہ کافر گمراہ ہوتے ہیں، کسی سال وہ اس ماہ کو حرمت کا مہینہ قرار دیدیتے ہیں اور کسی سال اسی ماہ میں جنگ و خونریزی کو حلال سمجھ لیتے ہیں اس سے ان کا مقصدان مہینوں کے حساب کو برابر کرنا ہوتا ہے۔ حالانکہ ان کو خدا نے حرام کیا ہے ،

___________________

۱۔العقد الفرید ج۴ ص ۵۷، الطبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۸۴، الخصال: ص ۴۸۷، بحار الانوار ص۲۱ ص ۴۰۵، تاریخ کی دوسری کتابوں میں بھی کچھ اختلاف کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

۲۱۵

بیشک زمانہ گردش کرتاہے اسی روز سے جس دن خدا نے زمین و آسمانوںکو پیدا کیا تھا اور جیساکہ خداکی کتاب میں لکھاہے زمین و آسمان کی پیدائش کے دن ہی سے خدا کے نزدیک مہینوں کی تعداد بارہ ہے ، ان میں سے چار، ذی القعدہ، ذی الحجة اور، محرم ، تین پے در پے حرمت کے ہیں رجب کا ایک مہینہ جدا ہے جو جمادی الاخریٰ اور شعبان کے درمیان ہے ۔ کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔

اے لوگو! بیشک تمہاری عورتوںپر تمہارا حق ہے اور اسی طرح تمہاری عورتوں کا تم پر بھی حق ہے ، ان کے اوپر تمہار ا حق یہ ہے کہ وہ تمہارے بستر پر کسی غیر کو نہ آنے دیں اور تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر ان لوگوںکو داخل نہ ہونے دیں جن کو تم پسند نہیں کرتے اور ناشائستہ حرکت(زنا) نہ کریں پس اگر وہ ایسا کریں تو خدا نے تمہیں حق دیا ہے کہ ان پر سختی کر و اور ان کے پاس سونا ترک کر دو (اور اگر پھر بھی نہ مانیں تو) انہیں مارو! لیکن گہری چوٹ نہ آنے پائے، پھر اگر وہ باز آجائیں اور تمہاری اطاعت کرنے لگیں تو تمہارے اوپر فرض ہے کہ انہیں معمول کے مطابق روٹی کپڑا دو۔ عورتیں تمہارے پاس امانت ہیں وہ اپنے اوپر اختیار نہیں رکھتی ہیں تم نے انہیں خدائی امانت کے عنوان سے اپنے اختیار میںلیاہے اور کتاب خدا کے مطابق انہیں اپنے لئے حلال کیا ہے۔ پس ان کے بارے میں خدا سے ڈرو! اور ان کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔

اے لوگو! مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں لہذا کسی شخص پر اس کے بھائی کا مال حلال نہیں ہے مگر یہ کہ وہ خوش ہو، کیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا۔ دیکھو میرے بعد کفر کی طرف نہ پلٹ جانا کہ ایک دوسرے کو قتل کرنے لگو، کیونکہ میں نے تمہارے درمیان جو چیز چھوڑی ہے اگر تم اس سے وابستہ رہو گے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے، وہ ہے کتاب خد ااور میری عترت وہی میرے اہل بیت ہیںکیا میں نے پیغام پہنچا دیا؟ اے اللہ گواہ رہنا ۔

اے لوگو! تمہارا رب ایک ہے ، اور تمہارا باپ ایک ہے ، تم سب آدم سے ہو اور آدم مٹی سے ہیں اور خدا کے نزدیک تم میں سے وہی زیادہ مکرم ہے جو زیادہ پر ہیزگار و متقی ہے ، عربی کو عجمی پر کوئی فضیلت نہیں مگر تقوے کے ساتھ، کیا میںنے پیغام پہنچا دیا؟ سب نے کہا: ہاں، پھر فرمایا: جو لوگ یہاں موجود ہیں وہ ان لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دیں جو یہاںموجودنہیں ہیں۔

۲۱۶

اے لوگو! میراث میںاللہ نے ہر وارث کے حصہ کومعین کر دیا ہے اور کوئی شخص ایک تہائی مال سے زیادہ کے بارے میں وصیت نہیں کر سکتا اور بچہ اس کا ہے جس کی بیوی ہے ،ز نا کار کے لئے پتھر ہے جو شخص خود کو اپنے والد کے علاوہ غیر کی طرف منسوب کرے؛ اورغلام خود کو مولا کے علاوہ کسی دوسرے سے وابستہ کرے تو اس پر خدا اوراس کے فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ، خدا ایسے لوگوں کی توبہ اور فدیہ قبول نہیں کرتا ہے۔ سلام اور خدا کی رحمت ہو تم پر۔

۴۔ وصی کا تعین( ۱ )

مسلمانوں نے اپنا حج اکبر مکمل کیا وہ پروانہ کی طرح نبی (ص) کے ساتھ ساتھ تھے۔ اپنے مناسک آپ(ص) سے سیکھ رہے تھے، رسول(ص) نے مدینہ کی طرف لوٹنے کا فیصلہ کیا، جب حاجیوں کا عظیم قافلہ غدیر خم کے قریب مقام ''رابغ'' میں پہنچا تو امر خدا کی تبلیغ کے لئے وحی نازل ہوئی، واضح رہے کہ حاجیوں کے قافلے یہیں سے متفرق ہو کر اپنے اپنے شہروںکی طرف روانہ ہوتے تھے۔

( یا ایّها الرّسول بلّغ ما انزل الیک من ربّک و ان لم تفعل فما بلّغت رسالته و اللّه یعصمک من النّاس ) ( ۲ )

اے رسول! اس پیغام کو پہنچا دیجئے جو آپ(ص) پر نازل کیا جا چکا ہے اور اگر اس پیغام کو نہ پہنچایا تو گویا آپ(ص) نے رسالت کی تبلیغ ہی نہیں کی خدا آپ(ص) کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا۔

یقینا یہ خدائی خطاب و پیغام ایک اہم چیز کا حامل تھا اور اس سے زیادہ اہم کون سی تبلیغ ہوگی کہ جس کے بارے میںرسول(ص) سے یہ کہاگیا ہے کہ اسے انجام دیں ، جس کو ابھی تک انجام نہیں دیا ہے؟ جبکہ خدا کا رسول(ص)

____________________

۱۔مزید معلومات کے لئے علامہ امینی کی ''الغدیر'' جلداول کا مطالعہ فرمائیں۔

۲۔ سورۂ مائدہ ۶۷۔

۲۱۷

تقریبا تیئس سال سے لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دے رہا تھا اور خدا کی آیتوں کی تبلیغ کر رہا تھا اور اس کے احکام کی تعلیم دے رہا تھا اور اس سال میں آپ(ص) نے جو تکلیف اور زحمت برداشت کی ہے وہ محتاج بیان نہیں ہے کہ یہ کہا جائے:

( فما بلّغت رسالته)

اس موقعہ پر رسول(ص) نے یہ احکام صادر فرمائے: قافلوں کو روک دیا جائے تاکہ پیچھے رہ جانے والے آجائیں، اس روز اتنی شدید گرمی تھی کہ لوگ سروں اور پیروں پر کپڑا لپیٹنے پر مجبور تھے، اس جگہ پر رسول(ص) ان کے سامنے تبلیغ رسالت کو مکمل کرنااور آسمانی پیغام کی تلقین کرنا چاہتے تھے۔ خدا کی حکمت کا یہی تقاضا تھا ایسے سخت موسم اور ایسے تپتے صحرا میں تبلیغ کی تکمیل ہو،تاکہ امت کو ہمیشہ یاد رہے مرورِ زمانہ کے ساتھ ان کے ذہنوں میں اس واقعہ کی یاد تازہ رہے ۔ امت مسلمہ اس کو یاد رکھے۔

اسباب سفر کو جمع کیا گیا، اس سے منبر بنایا گیا اور مسلمانوںکو نماز پڑھانے کے بعد رسول(ص)منبر پر تشریف لے گئے ، خداوند عالم کی حمد و ثنا کی ، پھر اتنی بلند آواز میں، کہ جس کو سب سن لیں، فرمایا:

''یا ایّها النّاس یوشک ان ادعی فاجیب و انی مسؤول و انتم مسؤولون فما انتم قائلون؟ قالوا: نشهد انّک بلّغت و نصحت و جاهدت فجزاک اللّه خیراً قال (ص) الستم تشهدون ان لا الٰه الا اللّه و ان محمّداً، عبده و رسوله و ان جنته حق و ان الساعة آتیة لا ریب فیها و ان اللّه یبعث من فی القبور؟ قالوا: بلیٰ نشهد بذالک قال (ص) الّلهمّ اشهد ثم قال (ص) فانّی فرطکم علیٰ الحوض و انتم واردون علّ الحوض و ان عرضه ما بین صنعاء و بصریٰ فیه اقداح عدد النجوم من فضة فانظروا کیف تخلّفونی فی الثقلین

فنادیٰ مناد وما الثقلان یا رسول اللّه؟ قال(ص) : الثقل الاکبر کتاب اللّه طرف بید اللّه عزّ و جلّ و طرف بایدیکم فتمسکوا به لا تضلّوا والآخر الاصغر عترت و انّ الّلطیف الخبیر نبّأن انّهما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض فسألت ذلک لهما رب فلا تقدموهما فتهلکوا ولا تقصروا عنهما فتهلکوا''

۲۱۸

اے لوگو!عنقریب مجھے دعوت دی جائے گی اور میں اسے قبول کرونگا دیکھو مجھ سے بھی سوال کیا جائیگا اور تم سے بھی باز پرس ہوگی بتائو کہ تم کیا جواب دوگے؟ انہوں نے کہا: ہم یہ گواہی دیں گے کہ آپ(ص) نے تبلیغ کی، نصیحت کی اور جہاد کیا خدا آپ(ص) کو جزائے خیر عطا کرے، پھر آپ(ص) نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دیتے ہو کہ خدا کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور محمد(ص) اس کے بندے اور اس کے رسول(ص) ہیں، اور جنت حق ہے، قیامت آنے والی ہے اس میں کوئی شک نہیں ہے اور خدا قبروں سے مردوں کو اٹھائے گا؟ سب نے کہا: ہاں! ہم اس کی گواہی دیتے ہیں اس کے بعد آپ(ص) نے فرمایا: اے اللہ! گواہ رہنا۔ میں تم سے پہلے حوض کوثر پر پہونچون گا تمہارا حوض کوثرپر انتظار کرونگا اور تم میرے پاس حوض کوثرپر پہنچوگے وہ اتنا چوڑا ہے جتنا صنعاء و بصریٰ کے درمیان کا فاصلہ ہے ، اس پر چاندی کے اتنے جام رکھے ہوئے ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں۔ دیکھتا ہوں تم میرے بعد ثقلین سے کیسے پیش آتے ہو۔

کسی دریافت کرنے والے نے دریافت کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ثقلین کیا ہے؟ فرمایا: ثقل اکبر کتاب خدا ہے جس کا ایک سرا دستِ خدا میں ہے اور دوسرا تمہارے ہاتھوں میں ہے ، اس سے وابستہ رہوگے تو گمراہ نہ ہوگے، اور ثقل اصغر میری عترت ہے اور لطیف و خبیر خدا نے مجھے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ہرگز ایک دوسرے سے جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض(کوثر) پر میرے پاس وارد ہونگے اور میں نے خدا سے ان کے لئے ہی سوال کیا ہے ۔ دیکھو!ان سے آگے نہ بڑھ جانا ورنہ ہلاک ہو جائو گے اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ تباہ ہو جائوگے۔

اس کے بعدآپ(ص) نے حضرت علی بن ابی طالب کا ہاتھ پکڑ کر اتنا بلند کیا کہ آپ(ص) کی بغل کی سفیدی نظر آنے لگی جب تمام لوگوں نے علی کو دیکھ لیا تو فرمایا:

''ایّها النّاس من اولیٰ النّاس بالمومنین من انفسهم؟ قالوا: اللّه و رسوله اعلم قال(ص) انّ اللّه مولای و انا مولیٰ المومنین و انا اولیٰ بهم من انفسهم فمن کنت مولاه فعلی مولاه یقولها ثلاث مرات

۲۱۹

ثم قال (ص) الّلهم وال من والاه و عاد من عاداه و احب من احبه و ابغض من ابغضه و انصر من نصره و اخذل من خذله و ادر الحق معه حیث ما دار، الا فلیبلغ الشاهد الغائب''

اے لوگو! مومنوں پر خود ان کے نفسوں سے زیادہ کون حق تصرف رکھتا ہے ؟ سب نے ایک زبان ہو کر کہا: خدا اور اس کا رسول(ص) بہتر جانتا ہے ۔ آپ(ص) نے فرمایا: خدا میرا مولا ہے اور میں مومنین کا مولا ہوں اور ان پر میں خود ان کے نفسوں سے زیادہ تصرف کا حق رکھتا ہوں، بس جس کا میں مولا ہوں اس کے علی مولا ہیں، یہ جملہ آپ(ص) نے تین بار دہرایا۔

ا سکے بعد فرمایا:اے اللہ جو اسے دوست رکھے تو اسے دوست رکھ اور جو اس سے دشمنی رکھے تو اس سے دشمنی رکھ ، جو اس سے محبت رکھے تو اس سے محبت کر اور جو اس سے بغض رکھے تو اس سے دشمنی کر ، اس کی نصرت کرنے والے کی نصرت فرما اور جو اس سے الگ ہو جائے اسے چھوڑ دے، اور جدھر یہ جائے حق کو بھی ادھر موڑ دے، جو لوگ حاضر ہیں ان کو چاہئے کہ یہ باتیں ان لوگوں تک پہنچا دیں جو یہاںموجود نہیں ہیں۔

حاضر ین ابھی وہاں سے متفرق نہیں ہوئے تھے کہ جبریل امین وحی لیکر نازل ہوئے:

( الیوم اکملت لکم دینکم و اتممت علیکم نعمتی و رضیت لکم الاسلاما ً دیناً ) ( ۱ ) آج میں نے تمہارے لئے تمہارے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔

اس کے بعد رسول (ص) نے ،دین کی تکمیل ، نعمت کے اتمام اپنی رسالت اوراپنے بعد علی کے ولی ہونے سے خدا کے راضی ہونے پر تکبیر کہی ۔

''اللّه اکبر علی اکمال الدین و اتمام النعمة و رضی الرب برسالتی و الولایة لعلی بعدی'' ۔

____________________

۱۔ مائدہ: ۳۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296