منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)0%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی (گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 114847
ڈاؤنلوڈ: 4322

تبصرے:

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 114847 / ڈاؤنلوڈ: 4322
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

پھر آنحضرت (ص) نے یہ حکم دیا کہ علی کے لئے ایک خیمہ نصب کیا جائے اور مسلمان گروہ در گروہ اس خیمہ میں جائیں اورعلی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کریں چنانچہ سارے مسلمانوںنے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپ(ص) نے اپنی ازواج اور دوسری عورتوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔

حضرت علی کو خلافت کی مبارک باد دینے میں ابوبکر و عمر پیش پیش تھے ان میں سے ہر ایک یہی کہتا تھا:

''بخٍ بخٍ لک یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولای و مولیٰ کل مومن و مومنة'' ۔( ۲ )

اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو آپ نے اس حال میں صبح و شام کی ہے آپ ہمارے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا ہو گئے ہیں۔

۵۔نبوت کے جھوٹے دعویدار

غدیر خم کے مقام سے حاجیوں کا مجمع عراق، شام اور یمن کی طرف روانہ ہو گیا اور رسول(ص) نے مدینہ کا رخ کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ رسول(ص)کے بعد ان کی آغوش کے پلے ہوئے علی بن ابی طالب کے خلیفہ و جانشین ہونے کی خبر تھی تاکہ نہج نبوی کے مطابق اسلامی تبلیغ و دعوت کا سلسلہ جاری رہے اور امت قائد اول کی رحلت کے بعد دشوار راستوں سے گزر جائے۔ رسول(ص) نے علی کی خلافت کا اعلان غدیر کے تاریخی دن میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ روز اول ہی سے آپ(ص) علی کے بارے میں یہ فرماتے چلے آ رہے تھے، وہ میرے خیرخواہ و زیر، غمگسار بھائی، میرے قوت بازو ہیں اور خلیفہ ہیں تمام لوگوں پر واجب ہے کہ نبی (ص) کے بعد آپ کی اطاعت و اتباع کریں اور انہیں اپنا قائد و زعیم سمجھیں۔

جب دین کا اقتدار مسلم ہو گیا اور مدینہ میں اس کا مرکز بن گیا تو پھر بعض لوگوںکا دین سے خارج ہونا یا نبی (ص)

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۳ ص ۱۱۲، مسند احمد ج۴ ص ۲۸۱، البدایہ و النہایہ ج۵ ص ،۲۱۳، الغدیر ج۱ ص ۴۳، ص ۱۶۵،۱۹۶، ص۲۱۵، ۲۳۰، ص ۲۳۸، ص ۲۷۶، ص ۲۸۳، ۲۸۵، ص ۲۹۷، ص ۲۷۹، ص ۳۹۳، ص ۴۰۲ جزء ۱۱ ص ۱۳۱۔

۲۲۱

کی لائی ہوئی چیزوں سے بعض افراد کا مرتد ہونا یا مدینہ سے بہت دور ایسے افراد کا پایا جانا جو اپنی امیدوں اور بے جا خواہشات کو دین کے پیرایہ میں پورا کرنا چاہتے تھے، کوئی بہت اہم بات نہیں تھی۔

یہی وجہ تھی کہ مسیلمہ نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا اور اس نے رسول(ص) کو خط کے ضمن میں یہ لکھا کہ اسے بھی مبعوث کیا گیا ہے اس نے آپ(ص) سے یہ درخواست بھی کی کہ زمین کی بادشاہت میں آپ(ص) اس کے شریک ہو جائیں ، رسول(ص) نے اس کے خط کا مضمون دیکھا اور خط لانے والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

''لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما لا نکما اسلمتما من قبل و قبلتما برسالتی فلم اتبعتما هذا الاحمق و ترکتما دینکما؟''

اگر یہ دستور نہ ہوتا کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تم دونوں کی گردنیں مار دیتا کیونکہ تم دونوں پہلے اسلام لائے ہواور میری رسالت کو قبول کیاہے اس کے بعد تم دونوں نے اس احمق کا اتباع کیا اور اپنا دین چھوڑ دیا؟

پھر آپ(ص) نے ایک خط کے ذریعہ مسیلمہ کذاب کی، تردید کی اس خط میں یہ تحریر کیا:

''بسم اللّه الرحمٰن الرحیم، من محمد رسول اللّه الیٰ مسیلمة الکذاب، السلام علیٰ من اتبع الهدی اما بعد فان الارض للّه یورثها من یشاء من عباده و العاقبة للمتقین'' ۔( ۱ )

شروع کرتا ہوں رحمان و رحیم خدا کے نام سے ، یہ خط اللہ کے رسول محمد(ص) کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ہے ، سلام ہو ہدایت کا اتباع کرنے والے پر، پھر واضح ہو کہ زمین خدا کی ہے ، اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہے گا اس کو وارث بنائے گا اور عاقبت و انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔

مختصر یہ کہ اسود عنسی، مسیلمہ اور طلحہ ایسے دجالوں کی چلائی ہوئی ارتداد کی تحریکوں کو کچلنے میں مسلمان کامیاب ہو گئے۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۶۰۰۔

۲۲۲

۶۔ روم سے جنگ کے لئے فوج کی عام بھرتی(۱)

رسول(ص) اسلامی حکومت کی شمالی سرحدوں کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ اس طرف روم کی منظم اور عظیم لشکر والی حکومت تھی۔ اسلامی حکومت کو فارس کی حکومت سے کوئی اندیشہ نہیں تھا،کیونکہ اس کی تباہی کے آثار رونما ہو چکے تھے، پھر اس کا کوئی روحانی عقیدہ بھی نہیں تھاکہ جس کا وہ روم کے مسیحیوںکی طرح دفاع کرتے، لہذا نئے اسلامی نظام کے لئے روم ہی خطرہ تھا خاص طور سے ان لوگوں کی طرف سے خطرہ تھا جن کو اسلامی حکومت سے ان کی فتنہ پردازیوں اور نفاق پروری کی بنا پر نکال دیا گیا تھا اور وہ شام چلے گئے تھے بعد میں کچھ اور لوگ ان سے ملحق ہو گئے تھے پھر وہاں نصارائے نجران کا وجود ایک سیاسی وسیلہ تھا جو روم کو ان کی مدد پر اکساتا تھا۔

اس کے باوجودحالات ایسے نہیں تھے کہ جن کی بنا پر اتنا اہتمام کیا جاتا کہ جتنا رسول(ص) نے ایک عظیم لشکر بنانے میں کیا ہے ، اس میں آپ(ص) نے علی اور ان کے بعض مخلصین کے علاوہ بڑے بڑے صحابیوں کو شامل کیا، اس سے رسول(ص) کا مقصد سیاسی فضا کو ایسے عناصر سے پاک کرنا تھا جو علی بن ابی طالب کی طرف قیادت کی منتقلی میں حائل ہو سکتے تھے، تاکہ آپ(ص) کے بعد علی خلیفہ بن جائیں اصل میں رسول(ص) اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لئے حضرت کی مرجعیت اور ان کی صلاحیتوںکو مسلسل بیان کرتے تھے آپ(ص)نے یہ محسوس کیا کہ علی کی خلافت سے بعض صحابہ خوش نہیں ہیں، یہ بات غدیر میں حضرت علی کی بیعت کے بعد آپ(ص) نے اچھی طرح محسوس کر لی تھی لہذا رسول(ص) نے مدینہ کو سیاسی کشیدگی سے پاک کرنے کا عزم کیا تاکہ آپ(ص)کے بعد اسلامی حکومت کی زمام کسی بھی ٹکرائو اور جھگڑے کے بغیر حضرت علی کے ہاتھ میں پہنچ جائے چنانچہ رسول(ص) نے پرچم بنایا اور اسامہ بن زید کے سپرد کر دیا-یہ جوان سپہ سالار تھے جن کو رسول(ص) نے منصوب کیا تھااور مہاجرین و انصار کے بزرگوں کو ان کا تابع کیا اور اسامہ سے فرمایا:

____________________

۱۔رسول(ص) نے اسامہ کو ماہ صفر ۱۱ھ میں علم دیا تھا۔

۲۲۳

''سر الیٰ موضع قتل ابیک فاوطئهم الخیل فقد ولیتک هذا الجیش فاغز صباحاً علی اهل ابنی '' ۔

اپنے باپ کی قتل گاہ کی طرف جائو، لشکر کو جمع کرو، میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے اور صبح کے وقت اہل ابنی پر حملہ کرنا۔ لیکن جذبۂ تمرد و سرکشی ، اقتدار کی ہوس اورنظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے بعض لوگوں نے نبی (ص) کے حکم کو تسلیم نہیں کیا شاید انہیں رسول(ص) کے مقاصد کا علم ہو گیا تھا اسی لئے انہوں نے ''الجرف'' چھاونی میں جمع فوج کی روانگی میں تاخیر کی ان کی تساہلی کی خبر رسول(ص) تک پہنچی تو آپ(ص) غضبناک ہوئے اور گھر سے نکل آئے-اس وقت آپ مخملی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور بخار کی شدت کی وجہ سے آپ(ص) کی پیشانی پر پٹی بندھی ہوئی تھی-مسجد میں پہنچ کر منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا کی اور اس کے بعد فرمایا:

''ایّها النّاس فما مقالة بلغتنی عن بعضکم فی تامیری اسامة، ولئن طعنتم فی امارتی اسامة لقد طعنتم فی امارتی اباه من قبله و ایم اللّه ان کان للامارة لخلیقا وان ابنه من بعده لخلیق الامارة و ان کان لمن احب النّاس الَیَّ و انّهما لمخیلان لکلِّ خیر و استوصوا به خیر فانه من خیارکم '' ۔( ۱ )

اے لوگو! تم میں سے بعض کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ میر ااسامہ کو سپہ سالار بنانا انہیں گراں گزرا ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تم نے ان کے باپ زید کو سپہ سالار بنانے پر بھی تنقید کی تھی، خدا کی قسم وہ بھی اس منصب کا اہل تھا اور اس کا بیٹا بھی اس کی اہلیت رکھتا ہے ، میں اس سے بہت محبت رکھتا ہوں یہ دونوں ہی ہر نیکی و بھلائی کے مستحق ہیں اس کے بارے میں دوسروں سے نیکی کی سفارش کرو کہ وہ تمہارے نیک و شریف افراد ہیں۔

رسول(ص) کو شدید بخار تھا لیکن جیش اسامہ کو بھیجنے میںآپ کو اس کی پروا نہیں تھی فرماتے تھے:''انفدوا جیش اسامة'' ( ۲ ) اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو۔ آپ(ص) کے اصحاب میں سے جو بھی آپ(ص) کی عیادت کے لئے جاتا تھ

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۹۰، طبع دار الفکر۔

۲۔ ایضاً۔

۲۲۴

اسی سے یہ فرماتے تھے:''جهزوا جیش اسامة لعن الله من تخلف عنه'' ( ۱ ) اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو، لشکرِ اسامہ سے روگردانی کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو۔

کسی نے لشکر گاہ میں یہ خبر پہنچا دی کہ آنحضرت (ص) کی طبیعت زیادہ ناساز ہے اس لئے اسامہ عیادت کے لئے خدمتِ رسول(ص) میں آئے تو رسول(ص) نے انہیں اس مقصد کی طرف روانہ ہونے کی تاکید کی جس کی منصوبہ بندی آپ(ص) نے پہلے ہی کر دی تھی۔

اسامہ فوراً اپنے لشکر میں واپس آ گئے اور لشکروالوں کو روانہ ہونے پر ابھارنے لگے لیکن خلافت کی ہوس رکھنے والے اور پس و پیش سے کام لینے والوں نے یہ کہہ کر کہ نبی(ص) حالت احتضار میں ہیں لشکر کو روانہ نہیں ہونے دیا باوجودیکہ رسول(ص) نے لشکر کو روانہ کرنے کی تاکید فرمائی تھی اور اس بات پر زور دیا تھاکہ لشکر اسامہ کی جو ذمہ داری ہے اس میں کسی قسم کے تردد سے کام نہ لیا جائے۔

____________________

۱۔الملل و النحل ج۱ ص ۲۳۔

۲۲۵

چوتھی فصل

رسول(ص) کی زندگی کے آخری ایام

۱۔وصیت لکھنے میں حائل ہونا

شدید بخار اور نہایت ہی تکلیف کے باوجود، رسول(ص)، علی اور فضل بن عباس کا سہارا لیکر لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے گھر سے مسجد میں آئے تاکہ ان مفاد پرستوں کے منصوبوںکو ناکام بنا سکیں جنہوں نے خلافت و قیادت کو غصب کرنے کے لئے سازش کی تھی، اس مقصد میں کامیابی ہی کے لئے ان لوگوں نے بھی نہایت ہی ہوشیاری سے رسول(ص) کے حکم سے روگردانی کی تھی جب رسول(ص) نے انہیں لشکرِ اسامہ کے ساتھ جانے کا حکم دیا تھا۔ نماز پڑھانے کے بعد رسول(ص) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

''ایّها النّاس سعرت النّار و اقبلت الفتن کقطع الّلیل المظلم، و انّی و اللّٰه ما تمسکون علی بشیء انی لم احل الا ما احل الله ولم احرم الا ما حرم اللّٰه'' ( ۱ )

اے لوگو! فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی ہے اور وہ کالی رات کے ٹکڑوں کی طرح بڑھے چلے آ رہے ہیں۔

میں نے اسی چیز کو حلال قرار دیا ہے جس کو خدا نے حلال کیا ہے اور میں نے اسی چیز کو حرام قرار دیا ہے جس کو خدا نے حرام قرار دیا ہے۔

یہ آپ(ص) کی طرف سے ایک اور تنبیہ تھی کہ یہ لوگ آپ(ص) کے حکم کی نافرمانی نہ کریں اگر چہ ان کی نیتوں سے یہ

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص۹۵۴، طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۱۵۔

۲۲۶

بات آشکار تھی کہ یہ لوگ امت اسلامیہ کو مصائب میں مبتلا کریں گے خصوصاًجب جاہل افراداس کے سربراہ و خلیفہ بن جائیں گے۔

رسول(ص) کے مرض میں شدت پیدا ہو گئی، صحابہ بھی آپ(ص) کے گھر میں جمع ہو گئے انہیں لوگوں میں وہ اشخاص بھی شامل ہو گئے جنہوںنے لشکر اسامہ سے روگردانی کی تھی۔ آنحضرت (ص) نے انہیں لعنت و ملامت کی تو انہوں نے کھوکھلے قسم کے عذر بیان کئے، اس موقعہ پر رسول(ص) نے امت کو ہلاکت و تباہی سے بچانے کے لئے دوسرے طریقہ سے کوشش کی فرمایا:

''ایتونی بدواة و صحیفة اکتب لکم کتاباً لا تضلون بعده'' ۔

مجھے کاغذ و دوات دیدو تاکہ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں جس سے تم گمراہ نہ ہو۔

عمربن خطاب نے کہا: رسول(ص) پر مرض کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن مجید ہے ، ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے ۔( ۱ ) اس طرح اختلاف و جھگڑا ہو گیا، پردہ کے پیچھے سے رسول(ص) کی ازواج نے کہا: اللہ کا رسول(ص) جو مانگ رہا ہے وہ انہیں دیدو، اس پر عمر نے کہا: چپ ہو جائو تمہاری مثال حضرت یوسف کی بیویوں کی سی ہے جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو تم آنسو بہاتی ہوں اور جب صحت یاب ہو جاتے تو تم ان کے سر چڑھ جاتی ہو۔ رسول(ص) نے فرمایا: وہ تم سے بہتر ہیں۔( ۲ )

پھر فرمایا:''قوموا عنی لا ینبغی عندی التنازع'' میرے پاس سے اٹھ جائو میرے سامنے جھگڑا کرنا مناسب نہیںہے ۔

رسول (ص) کے اس نوشتہ کی امت کو شدید ضرورت تھی چنانچہ جب ابن عباس اس واقعہ کو یاد کر لیتے تھے تو افسوس کے ساتھ کہتے تھے: سب سے بڑا المیہ اور مصیبت یہ ہے کہ اللہ کے رسول (ص) کو نوشتہ نہیں لکھنے دیا گیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ صحیح بخاری کتاب العلم باب کتابة العلم و کتاب الجہاد، باب جوائز الوفد۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۴۴، کنز العمال ج۳ ص۱۳۸۔

۳۔ صحیح بخاری کتاب العلم ج۱ ص۲۲ و ج۲ ص ۱۴، الملل و النحل ج۲ ص ۲۲، طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۴۴۔

۲۲۷

جب آپ کے پاس صحابہ میںاختلاف ہو گیا تو آپ(ص) نے نوشتہ لکھنے پر اصرار نہیں کیا، پھر یہ بھی خوف تھا کہ اس کے بعد ان کی سرکشی اور بڑھ جائیگی اور اس کا نتیجہ اس سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ رسول(ص) نے ان کی نیتوں کو سمجھ لیا تھا چنانچہ جب صحابہ نے قلم و دوات کی بات دہرائی تو اپ(ص) نے فرمایا:''ابعد الذی قلتم'' کیا تمہاری گستاخی کے بعد بھی( ۱ ) پھر آپ نے انہیں تین وصیتیں فرمائیں لیکن تاریخ کی کتابوںمیں ان میں سے دو ہی نقل ہوئی ہیں وہ یہ ہیںکہ مشرکین کو جزیرہ نما عرب سے نکال دیا جائے اور وفود بھیجے جائیں جیسا کہ آپ بھیجتے تھے۔

علامہ سید محسن امین عاملی نے اس پر اس طرح حاشیہ لگایا ہے : جوشخص بھی غور کرے گا وہ اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ محدثین نے اسے جان بوجھ کر بیان نہیں کیا ہے ، فراموشی کی وجہ سے نہیں چھوڑا ہے ۔ سیاست نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اسے بیان نہ کریں وہ وصیت یہ تھی کہ رسول(ص) نے ان سے دوات و کاغذ طلب کیا تھا تاکہ ان کے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں۔( ۲ )

۲۔ فاطمہ زہرا باپ کی خدمت میں

رنجیدہ اور غم سے نڈھال فاطمہ زہرا آئیں، اپنے والد کو حسرت سے دیکھنے لگیںکہ وہ عنقریب اپنے رب سے جا ملیں گے، دل شکستہ حال میں باپ کے پاس بیٹھ گئیں، آنکھیں اشکبار ہیں اور زبان پر یہ شعر ہے :

و ابیض یستسقی الغمام بوجهه + ثمال الیتامیٰ عصمة الارامل

نورانی چہرہ جس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے ۔ وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوہ عورتوں کا نگہبان ہے ۔

اسی وقت رسول(ص) نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور آہستہ سے فرمایا: بیٹی یہ تمہارے چچا ابو طالب کا شعر ہے ، اس وقت یہ نہ پڑھو بلکہ یہ آیت پڑھو:

____________________

۱۔ بحار الانوار ص ۴۶۹ ج۲۲۔

۲۔اعیان الشیعة ج۱ ص ۲۹۴، صحیح بخاری باب مرض النبی (ص)۔

۲۲۸

( وما محمّد الّا رسول قد خلت من قبله الرّسل افان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم و من ینقلب علیٰ عقبیه فلن یضر اللّه شیئا و سیجزی اللّه الشاکرین ) ۔( ۱ )

اور محمد(ص) توبس رسول(ص) ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول(ص) گزر چکے ہیں پھر اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو کیا تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے؟ یاد رکھو جو بھی ایسا کرے گا تو وہ خدا کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور خدا شکر گذاروںکو عنقریب جزا دے گا۔

اس طرح رسول(ص) اپنی بیٹی فاطمہ (ص) کو ان افسوسناک حوادث کے لئے تیار کرنا چاہتے تھے جو عنقریب رونما ہونے والے تھے یقینا یہ چیز حضرت ابو طالب کے قول سے زیادہ بہتر تھی۔

اس کے بعد نبی (ص) کریم نے اپنی بیٹی کو قریب آنے کا اشارہ کیا تاکہ آپ(ص) سے کچھ گفتگو کریں، فاطمہ (ص) زہرا جھک کر سننے لگیں، آنحضرت (ص) نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں، پھر آپ(ص) نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکرانے لگیں، صورت حال سے بعض حاضرین کے اندر تجسس پیدا ہو گیا، انہوںنے فاطمہ زہرا سے دریافت کیا آپ(ص) کے رونے اور پھر مسکرانے کا کیا راز ہے ؟ آپ(ص) نے فرمایا؛ میں رسول(ص) کے راز کو افشا نہیں کروںگی۔

لیکن جب رسول(ص)کی وفات کے بعد آپ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا:''اخبرنی رسول اللّه (ص) انّه قد حضر اجله و انه یقبض فی وجعه هذا فبکیت ثم اخبرنی انّی اوّل اهله لحوقاً به فضحکت'' ۔( ۲ )

مجھے رسول(ص) نے یہ خبر دی تھی کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہے اور اسی مرض میں آپ (ص) دنیا سے اٹھ جائیں

____________________

۱۔ آل عمران: ۱۴۴۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۴۷، تاریخ کامل ج۲ ص ۲۱۹۔

۲۲۹

گے تویہ سن کر میں رونے لگی پھر مجھے یہ خبر دی کہ ان کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملحق ہوںگی تو میں مسکرائی۔

۳۔رسول(ص) کے آخری لمحاتِ حیات

علی رسول (ص) کے ساتھ ایسے ہی رہتے تھے جیسے ایک انسان کے ساتھ سایہ رہتا ہے ، زندگی کے آخری لمحات میں بھی آپ ان کے ساتھ ہی تھے آنحضرت (ص) انہیں تعلیم دیتے اپنا راز بتاتے اور وصیت کرتے تھے۔ آخری وقت میں رسول(ص) نے فرمایا: میرے بھای کو میرے پاس بلائو، علی کو رسول(ص) نے کہیں کام سے بھیجا تھا، بعض مسلمان آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن رسول(ص) نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی کچھ دیر بعد علی بھی آ گئے تو رسول(ص) نے فرمایا: مجھ سے قریب ہو جائو، علی آپ(ص) سے قریب ہو گئے آنحضرت (ص) علی کے سہارے بیٹھ گئے اور ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آپ(ص) پر احتضار کے آثار ظاہر ہو گئے اور رسول(ص)نے حضرت علی کی گود میں وفات پائی، اس بات کو خود حضرت علی نے اپنے ایک مشہور خطبہ میں بیان فرمایا ہے ۔( ۱ )

۴۔ وفات ودفن رسول(ص)

آخری وقت میں رسول(ص) کے پاس علی ابن ابیطالب ، بنی ہاشم اور ازواج کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، آپ(ص) کے فراق میں آپ(ص) کے گھر سے بلند ہونے والی آہ و بکا کی آواز سے آپ(ص) کی وفات کی خبر سب کو ہو گئی تھی ، سرور کائنات (ص)کے غم میں دل پاش پاش تھے، دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ بھر میں آپ کی وفات کی خبر پھیل گئی۔ سبھی پر غم و الم کی کیفیت طاری تھی اگرچہ رسول(ص) نے اس حادثہ کے لئے انہیں آمادہ کر دیا تھا اور متعدد بار اپنے انتقال کی خبر دے چکے تھے اور امت کو یہ وصیت کر چکے تھے کہ وہ آپ(ص) کے بعد آپ(ص) کے خلیفہ علی بن ابی طالب کی اطاعت کرے۔ یقینا آپ(ص) کی وفات ایک بہت بڑاسانحہ تھا جس سے مسلمانوں کے دل دہل گئے تھے مدینہ پر ایک اضطرابی کیفیت طاری تھی، رسول(ص) کے گھر کے اطراف میں جمع افراد عمر بن خطاب کی بات

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۷۔

۲۳۰

سے حیرت زدہ تھے وہ تلوار سے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہہ رہے تھے: منافقین میں سے بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اللہ کا رسول(ص) مر گیا۔ خدا کی قسم! وہ مرے نہیں ہیں ہاں وہ موسیٰ بن عمران کی طرح اپنے رب کے پاس چلے گئے ہیں۔( ۱ )

اگر چہ موسیٰ کی غیبت اور محمد(ص) کی وفات میں کوئی مماثلت نہیں ہے لیکن اس مماثلت و مشابہت پر عمر کے اصرار سے خود ان کے کردار سے پردہ ہٹتا ہے ۔

عمر آرام سے نہیں بیٹھے یہاں تک کہ ابوبکر آئے اور رسول(ص) کے گھر میں داخل ہو ئے اور رسول(ص) کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور تیزی سے باہر نکلے اورکہنے لگے: اے لوگو! سنو جو محمد کی پرستش کرتا ہے وہ جان لے کہ محمد مر گئے اور جو خدا کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئیگی۔ پھر یہ آیت پڑھی:( وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل ) اس سے عمر کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ گویا وہ اس طرف متوجہ ہی نہیں تھے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت ہے ؟( ۲ )

اس کے بعد ابو بکر اور عمر بن خطاب اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ گئے انہیں یہ خبر ملی تھی کہ سقیفہ میں ایک ہنگامی جلسہ ہو رہا ہے جس میں رسول(ص) کی وفات کے بعد خلافت کا مسئلہ حل کیا جائیگا۔ یہ لوگ حضرت علی بن ابی طالب کا منصوب ہونا بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ انہوںنے خلیفہ کے عنوان سے علی کی بیعت کی تھی ، ان لوگوںنے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے اس عمل کو رسول(ص) کے جنازہ کی بے حرمتی تصور کیا جائے گا۔

علی بن ابی طالب اور آپ(ص) کے اہل بیت رسول(ص) کے جنازہ کی تجہیز و تدفین کے امور میں مشغول تھے، علی نے آپ(ص) کی قمیص اتارے بغیر غسل دیا، عباس بن عبد المطلب اور ان کے بیٹے فضل نے مدد کی ، غسل دیتے وقت علی فرماتے تھے:''بابی انت و امی ما اطیبک حیاً و میتاً'' ( ۳ ) میرے ماں باپ آپ پر قربان

____________________

۱۔تاریخ کامل ج ۲ ص ۳۲۳، طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۶۶، سیرت نبویہ، زینی دحلان ، ج۲ ص ۳۰۶۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص۵۳ و ۵۶۔

۳۔ سیرت نبویہ ، ابن کثیر ج۴ ص ۵۱۸۔

۲۳۱

آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور مرنے کے بعد بھی طیب و طاہر ہیں۔

پھر آپ(ص) کے جسد اقدس کو ایک تخت پر لٹا دیا ۔ علی نے فرمایا:'' ان رسول الله (ص) امامنا حیاً و میتاً فلید خل علیه فوج بعد فوج فیصلون علیه بغیر امام و ینصرفون'' ۔

بے شک اللہ کا رسول(ص) زندگی میں بھی ہمارا امام ہے اور مرنے کے بعد بھی لہذا دستہ دستہ بغیر امام کے نماز جناہ پڑھیںاور لوٹ جائیں، چنانچہ سب سے پہلے آپ(ص) کی نماز جنازہ حضرت علی اور بنی ہاشم نے پڑھی اور ان کے بعد انصار نے پڑھی۔( ۱ )

اس کے بعد علی رسول(ص) کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا:''سلام علیک ایها النبی ورحمة اللّه و برکاته، الّلهم انّا نشهد ان قد بلغ ما انزل الیه و نصح لامته و جاهد فی سبیل اللّه حتّی اعز اللّه دینه و تمت کلمته الّلهم فاجعلنا ممن یتبع ما انزل اللّه الیه و ثبتنا بعده و اجمع بیننا و بینه'' ۔

سلام اور خدا کی رحمت و برکات ہوں آپ(ص) پر اے نبی (ص) ، اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ انہوںنے ہر اس چیز کی تبلیغ کی جو تونے ان پر نازل کی ، اپنی امت کو نصیحت کی اور راہِ خدا میں جہاد کیا یہاں تک کہ خدا نے اپنے دین کو عزت بخشی اور اس کی بات پوری ہو گئی۔ اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو ان چیزوں کا اتباع کرتے ہیں جو تونے ان (ص) پر نازل کی ہیں اور ان کے بعد ہمیں ثابت قدم رکھ ہمیں اور انہیں یکجا کر دے۔ اس پر لوگوں نے آمین کہا۔ پھر دوسرے مردوںنے ان کے بعد عورتوں نے اور سب کے بعد لڑکوںنے آپ(ص) کے جنازہ پر نماز پڑھی۔( ۲ )

آپ(ص) کی قبر اسی حجرہ میں تیار کی گئی جس میں آپ(ص) نے وفات پائی تھی۔ جب حضرت علی نے آپ (ص) کو قبر

____________________

۱۔ ارشاد ج۱ ص ۱۸۷، اعیان الشیعة ج۱ ص ۲۹۵۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۹۱۔

۲۳۲

میںاتارنا چاہا تو دیوار کے پیچھے سے انصار نے ندا دی۔ اے علی ! ہم آپ کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں رسول(ص) کے بارے میں ہمارا جو حق ہے آج وہ حق ہاتھ سے جا رہا ہے اس کام میں ہم میں سے بھی کسی کو شریک کر لیجئے تاکہ رسول(ص) کے امور دفن میں ہم بھی شریک ہو جائیں حضرت علی نے فرمایا: اوس بن خولی شریک ہو جائیں یہ بنی عوف سے تھے اور بدری تھے۔

علی قبر میں اترے ، رسول(ص) کے چہرہ کو کھولا، آپ(ص)کے رخسار کو خاک پر رکھا اور قبر کو بند کر دیا۔رسول(ص) کے دفن اور نمازِ جنازہ میں وہ صحابہ شریک نہیں ہوئے جو سقیفہ چلے گئے تھے۔

اے اللہ کے رسول(ص) ! آپ پر سلام ہو جس دن آپ(ص) پیدا ہوئے ، جس دن وفات پائی اور جس دن زندہ اٹھائے جائیں گے۔

۲۳۳

پانچویں فصل

اسلامی رسالت کے بعض نقوش

رسول (ص) کس چیز کے ساتھ مبعوث کئے گئے؟( ۱ )

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) کو خاتم الانبیاء اور ان سے پہلے والے مرسلین کی شریعت کو منسوخ کرنے والا بنا کر اس وقت مبعوث کیا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا اس وقت مشرق سے مغرب تک خرافات و احمقانہ باتوں کا رواج تھا۔ بدعتیں ، برائیاں اور بت پرستی کا دور تھا۔ اس وقت آپ (ص)کو تمام کالے ، گورے عرب و عجم کے تمام لوگوں کی طرف نبی (ص) بنا کر بھیجا۔

رسول(ص) دنیا کے سامنے آئے دنیا والوں کو اس ایک خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی جو خالق، رازق اور ہر امر کا مختار ہے ، نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے، اور ملک میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے اور نہ ہی کمزوری کی بنا پر کوئی اس کا سرپرست ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی ہے ، نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ، کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

خدا نے آپ(ص) کو اس لئے بھیجا تاکہ آپ(ص) لوگوں کو اس خدا کی عبادت کا حکم دیں جو ایک ہے اوروحدہ لا شریک ہے اور بتوں کی پوجا کو باطل قرار دیں کہ جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ ، نہ کچھ سمجھتے ہیں نہ کچھ سنتے ہیں، نہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں نہ اپنے غیر کا، مکارم اخلاق کی تکمیل اور صفات حسنہ پر ابھارنے کے لئے بھیجا، آپ ہر نیکی کا حکم دینے والے اور ہر برائی سے روکنے والے تھے۔

____________________

۱۔ یہ بحث سید محسن الامین عاملی نے اپنی کتاب اعیان الشیعة میں سیرت نبی (ص) کے ذیل میں کی ہے۔

۲۳۴

شریعت اسلامی کی عظمت و آسانی

بعض لوگ''لاالٰه الا اللّه ، محمد رسول اللّه'' کہنے، نماز پڑھنے، زکات دینے، ماہ رمضان کا روزہ رکھنے، خانۂ کعبہ کا حج کرنے اور اسلام کے احکام کی پابندی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کے نفع و ضرر میں شامل ہونے کے لئے ان دو کلموں''لاالٰه الا اللّه محمد رسول اللّه'' کا کہنا کافی ہے ۔

اسلامی قوانین کا امتیاز

آپ کواس لئے مبعوث کیا گیا تاکہ آپ(ص) تمام مخلوقات کے درمیان مساوی طور پر حقوق تقسیم کریں اور یہ بتائیں کہ کوئی کسی سے بہتر نہیں ہے مگر یہ کہ پرہیزگار ہو،آپ(ص) کو مومنین کے درمیان اخوت قائم کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے برابر قرار دینے کے لئے بھیجاگیا، ان سب کا خون برابر ہے اور اگر ان میں سے کسی چھوٹے نے کسی کو پناہ دیدی تو سب کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور اسلام میں داخل ہونے والے کے لئے عام معافی ہے ۔

آپ نے واضح اور روشن شریعت، عدل پر مبنی قانون جو آپ کو خدا کی طرف سے ملا تھا، دنیا کے سامنے پیش کیا، یہ قانون ان کے عبادی اور تجارتی ومعاملات سے متعلق احکام کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے بلکہ دنیا و آخرت میں انسان کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے وہ سب اس میں موجود ہے ۔ یہ عبادی، اجتماعی، سیاسی اور اخلاقی قانون ہے ، اس نے ایسی کسی چیز کو نظرانداز نہیں کیا ہے جو بشر کی زندگی میں رونما ہو سکتی ہے یا جس کی انسان کو ضرورت ہو سکتی ہے ، پس جو واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے یا جو حادثہ رونما ہوتا ہے مسلمانوں کے پاس شریعت اسلامیہ میں اس کا ایک قانون و حکم موجود ہوتاہے ، جس سے رجوع کیا جا تا ہے ۔

دین اسلام کی عبادتیں محض عبادت ہی نہیں ہے بلکہ ان کے جسمانی، اجتماعی اور سیاسی فوائد بھی ہیں، مثلاً طہارت سے پاکیزگی کا فائدہ ملتا ہے ، اور نماز ایک روحانی و معنوی جسمانی ورزش ہے ، نماز جماعت اور حج میں اجتماعی اور سیاسی فوائد ہیں، روزہ میں صحت و تندرستی کے ایسے فوائد ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ مختصر یہ کہ اسلامی احکام کے ظاہری فوائد کو بھی شمار کرنا دشوار ہے چہ جائیکہ اس کے مخفی فوائد کو بیان کیاجائے۔

۲۳۵

اس دین کی بہت سی خوبیاں ہیں، اس کے احکام عقل کے مطابق ہیں،یہ آسان ہے ، اس میں تنگی و سختی نہیں ہے اور چونکہ یہ اظہار شہادتین کو کافی سمجھتا ہے اور اس میں بلندی دور اندیشی اور جد و جہد کی تعلیم ہے اس لئے لوگ گروہ در گروہ اس میں داخل ہوتے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک پر اس کے ماننے والوں کی حکومت ہے اس کانور مشرق و مغرب میں چمک رہا ہے روئے زمین پر بسنے والے اکثر ممتاز ممالک اس کے پرچم کے نیچے آ گئے ہیں اور اکثر قومیں لسانی اور نسلی اختلاف کے باوجود اس کے قریب آ گئی ہیں۔

زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ وہ شخص جو مکہ سے خفیہ طور پر نکلا، جس کے اصحاب کو سزا دی جاتی تھی، جنہیں ذلیل سمجھا جاتا تھا، جنہیں ان کے دین سے روکا جاتا تھا نتیجہ میں کبھی وہ مخفی طریقہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کرتے اور کبھی چپکے سے مدینہ چلے جاتے تھے، وہی اپنے انہیں اصحاب کے ساتھ عمرہ قضا یعنی مکہ میں علیٰ الاعلان داخل ہوتا ہے اور قریش نہ اسے پیچھے ڈھکیل سکتے ہیں اور نہ داخل ہونے سے روک سکتے ہیں پھر تھوڑے ہی دن بعد اہل مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتا ہے اور بغیر کسی خونریزی کے اہل مکہ پر تسلط پاتا ہے، اس کے بعد وہ طوعاً و کرہاً، اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور عرب کے سردار اپنی زمام اطاعت آپ(ص) کے اختیار میں دینے کے لئے آپ(ص) کی خدمت میں وفد بھیجتے ہیں حالانکہ اس فتح سے پہلے اتنی طاقت ہو گئی تھی کہ آپ(ص) نے دنیا کے بادشاہوں ، قیصر و کسریٰ وغیرہ کے پاس اپنے سفیر روانہ کئے تھے اور انہیں اسلام کی دعوت دی تھی خصوصاً ملک قیصر کو جو کہ بہت دور تھا۔ الغرض تمام ادیان پر ان کا دین غالب آ گیا جیسا کہ ان کے رب نے وعدہ کیا تھا جس کا ذکر سورۂ نصر اور فتح و غیرہ میں موجود ہے اور تاریخ کی کتابوں سے بھی ہمیںیہی معلوم ہوتا ہے ۔

تلوار اور طاقت سے یہ دین نہیں پھیلا ہے جیسا کہ بعض دشمنوں کا خیال ہے بلکہ حکمِ خدا( ادعُ الیٰ سبیل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنة و جادلهم بالتی هی احسن ) ۔( ۱ )

حکمت اور بہترین نصیحتوں کے ذریعہ انہیں اپنے رب کے راستہ کی طرف بلایئے اور ان سے شائستہ طریقہ سے بحث کیجئے۔

____________________

۱۔ النحل:۱۲۵۔

۲۳۶

اہل مکہ اور تمام اعراب سے آپ(ص) نے جنگ نہیں کی بلکہ انہوں نے آپ(ص) سے جنگ کی تھی انہوں نے آپ(ص) کے قتل اور آپ(ص) کو وطن سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا حالانکہ آپ(ص) نے اہل کتاب کو ان کے دین ہی پر باقی رکھااور اسلام قبول کرنے کے لئے ان پر جبر نہیں کیا۔

قرآن مجید

جس وقت خدا نے آپ(ص) کو نبوت سے سر فراز کیا اسی وقت آپ(ص) پر قرآن نازل کیا جو واضح ہے اور عربی میں ہے باطل اس میں کسی بھی طرف سے داخل نہیں ہو سکتا، اسی کے ذریعہ رسول(ص) نے(عرب کے) بڑے بڑے فصحاء اور بلغاء کو عاجز کیا اور اسی کے ذریعہ انہیں چیلنج کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں لا سکے جبکہ وہ عرب کے سب سے بڑے فصیح تھے بلکہ فصاحت و بلاغت انہیں پر منتہی ہوتی تھی اس کتابِ عزیز میں، جو کہ حکمت اور علم والے (خدا) کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، دین کے احکام، گذشتہ لوگوں کے حالات ، تہذیب و اخلاق، عدل کا حکم ، ظلم سے ممانعت اور ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔ اور جو چیز اسے دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں اس کی تلاوت ہوتی رہے گی اور اس کی تازگی اپنی جگہ باقی رہے گی۔ اپنے بیان سے یہ لوگوں کو حیرت زدہ کرتی رہے گی اس کی تلاوت سے طبیعتیں نہیں تھکیں گی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اور اس کا زمانہ پر انا اور فرسودہ نہیں ہوگا۔

یقینا قرآن معجزہ ہے ، اس کے ذریعہ آپ(ص) نے جاہلوں کی جاہلیت کے گھپ اندھرے میں علمی و ثقافتی انقلاب پیدا کیا ااور اپنی تحریک کی بنیاد مضبوط علمی پایوں پر استوار کی، لوگوں کو علم حاصل کرنے پر اکسایا اور اسے ، انسان کے شایان شان کمال کی طرف بڑھنے کا اوّلین سبب قرار دیا۔ انسان کوغور و فکر اور تجربہ کے حصول پر ابھارا ، طبیعت کے ظواہر کی تحقیق اور اس میں غور کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہ اس کے قوانین اور اس کی سنتوں کو کشف کر سکے اور انسان کے لئے ہر اس علم کا حاصل کرنا واجب قرار دیا کہ جس پر انسان کی اجتماعی زندگی کا دار مدار ہو ، نظری علوم، کلام، فلسفہ، تاریخ اور فقہ و اخلاق، کو اہمیت دی، تقلید اورظن و گمان کی پیروی سے روکااور دلیل و برہان سے تمسک کرنے کا حکم دیا۔

۲۳۷

اسی طرح قرآن مجید نے کوشش، جدو جہد اور نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی ترغیب دی، سستی اورکاہلی سے روکا، اتحاد کی دعوت دی اختلاف ، قومی فخرومباحات اور خاندانی تعصب سے منع کیا۔

خلق، تکوین و تشریع، ذمہ داری و زمام داری اور جزاء و سزا میں اسلام نے عدل کو بنیاد قرار دیا ہے اور سب سے پہلے اسلام نے یہ آواز بلند کی کہ خدا کے قانون اور اس کی شریعت کے سامنے سارے انسان مساوی ہیں ۔ طبقہ بندی اور نسلی امتیاز کو لغو قرار دیا اور معنوی چیز تقوے اور نیکی میں سبقت کرنے کو خدا کے نزدیک فضیلت کا معیار مقرر کیا جبکہ انسانی معاشرہ میں اس فضیلت کو بھی طبقات کے امتیاز کا سبب نہیں گردانا۔

امن و امان قائم رکھنے، جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے اسلام نے بہت زور دیا ہے اور عدل و امان کے لئے زمین ہموار کرنے کے بعد اگر کوئی امن شکنی کرے گا تو اس کیلئے، سخت سزا مقرر کی ہے ، اس اجتماعی مرض کے علاج کے لئے سزا کو آخری دوا قرار دیا ہے وہ بھی ایسی سزا جو انسان کی حریت سے ہم آہنگ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کے قضا و فیصلہ کا دارمدار عدل و امن اور جائز حقوق کے اثبات پر ہے اور اس کے لئے پوری ضمانت لی ہے ۔

اسلام نے بدن و نفس کی صحت کو محفوظ رکھنے پر بہت زور دیا ہے اور اپنے تمام قوانین کو اس اصل کے مطابق رکھا ہے کیونکہ حیات میں یہ اہمیت کی حامل ہے۔

۲۳۸

شریعت اسلامیہ میں واجب اور حرام

شریعت اسلامیہ میں واجب و حرام فطری بنیاد اور ایسے امور پر مرتکز ہے جو انسان کو جاہلیت کی تاریکی سے نکالنے اور اسے کمال و حق کے نور کی ہدایت کرنے کے لئے آیا ہے ، انسانیت کو اگر کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے کہ جس پر بشری کمال موقوف ہو تو شریعت اسلامیہ میں اس چیز کو انسان پر واجب قرار دیا گیا ہے اور اس تک پہنچنے کے لئے راستے بتائے گئے ہیں اور ہر اس چیز کو حرام کیا گیا ہے جو انسان کوحقیقی سعادت سے دور کرتی ہے اور بد بختی کے غار میں گرانے والے ہر راستے کو بند کر دیا گیا ہے ۔

اور جن چیزوں سے شریعت کے اصولوں میں رخنہ نہیں پڑتا ہے اور جو چیزیںبشری کمال کی راہ میں مانع نہیں ہیں اور دنیوی زندگی کی لذتوں اور زینتوں کا باعث ہیں انہیں مباح کیا گیا ہے ۔ اور جو چیز انسان کے لئے مضر ہوتی ہے اسے حرام کر دیا جاتا ہے جس کا امتثال انسان کے لئے ضروری ہوتا ہے اسے اس پر واجب کر دیا جاتا ہے ان تمام باتوں کے باوجود شریعت نے مکارم اخلاق کو بنیادی مقاصد سمجھا ہے جن کا ایک پاکیزہ سلسلہ ہے اور عقلمند انسان کے لئے اس دنیا کی زندگی میں جن کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اس دنیا میں سعادت اور نیک بختی تک پہنچ جائیں اور انہیں کے ذریعہ انسان آخرت کی ابدی، دنیا میں زندہ رہے۔

عورت کا اسلام نے خاص خیال رکھا ہے اسے خاندان کا بنیادی رکن اور ازدواجی زندگی میں سعادت و نیک بختی کا سبب قرار دیا ہے اور اس کے لئے ایسے حقوق اور فرائض معین کئے ہیں جو اس کی عزت و کرامت اور اس کے بچوں کی کامیابی اور انسانی معاشرہ کی سعادت کی ضامن ہیں۔

مختصر یہ کہ اسلام نے ایسی کسی بھی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے کہ جو انسانی معاشرہ کی ترقی میں کام آ سکتی تھی۔

۲۳۹

چھٹی فصل

میراث خاتم المرسلین(ص)

خدا وند عالم فرماتا ہے :

( هو الذی بعث فی الامیین رسولاً منهم یتلوا علیهم آیاته و یزکّیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ) ( ۱ )

خدا وہ ہے جس نے امّیوں میں خود انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔

یقینا خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) کی بعثت کے عظیم فوائد تاریخ اسلام کے ذریعہ آشکار ہو چکے ہیں آپ(ص) کی نبوت سے یہ درج ذیل امور روشن ہوئے ہیں:

۱۔ آپ(ص) کی خدائی رسالت عام تھی آپ(ص) نے بشریت تک اسے پہنچایا۔

۲۔ امت مسلمہ تمام قوموں کے لئے مشعل رسالت اٹھائے ہوئے ہے۔

۳۔ اسلامی حکومت ایک منفرد الٰہی نظام اور خود مختار سیاست والا نظام ہے ۔

۴۔ معصوم قائد و رہبر رسول(ص) کے خلیفہ ہیں اور بہترین طریقہ سے آپ(ص) کی نمائندگی کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورۂ جمعہ :۲۔

۲۴۰