منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)13%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140539 / ڈاؤنلوڈ: 6492
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

پھر آنحضرت (ص) نے یہ حکم دیا کہ علی کے لئے ایک خیمہ نصب کیا جائے اور مسلمان گروہ در گروہ اس خیمہ میں جائیں اورعلی کو امیر المومنین کہہ کر سلام کریں چنانچہ سارے مسلمانوںنے ایسا ہی کیا۔ اس کے بعد آپ(ص) نے اپنی ازواج اور دوسری عورتوں کو بھی ایسا ہی کرنے کا حکم دیا۔

حضرت علی کو خلافت کی مبارک باد دینے میں ابوبکر و عمر پیش پیش تھے ان میں سے ہر ایک یہی کہتا تھا:

''بخٍ بخٍ لک یابن ابی طالب اصبحت و امسیت مولای و مولیٰ کل مومن و مومنة'' ۔( ۲ )

اے ابو طالب کے فرزند مبارک ہو آپ نے اس حال میں صبح و شام کی ہے آپ ہمارے اور ہر مومن و مومنہ کے مولا ہو گئے ہیں۔

۵۔نبوت کے جھوٹے دعویدار

غدیر خم کے مقام سے حاجیوں کا مجمع عراق، شام اور یمن کی طرف روانہ ہو گیا اور رسول(ص) نے مدینہ کا رخ کیا۔ ان کے ساتھ ساتھ رسول(ص)کے بعد ان کی آغوش کے پلے ہوئے علی بن ابی طالب کے خلیفہ و جانشین ہونے کی خبر تھی تاکہ نہج نبوی کے مطابق اسلامی تبلیغ و دعوت کا سلسلہ جاری رہے اور امت قائد اول کی رحلت کے بعد دشوار راستوں سے گزر جائے۔ رسول(ص) نے علی کی خلافت کا اعلان غدیر کے تاریخی دن میں ہی نہیں کیا تھا بلکہ روز اول ہی سے آپ(ص) علی کے بارے میں یہ فرماتے چلے آ رہے تھے، وہ میرے خیرخواہ و زیر، غمگسار بھائی، میرے قوت بازو ہیں اور خلیفہ ہیں تمام لوگوں پر واجب ہے کہ نبی (ص) کے بعد آپ کی اطاعت و اتباع کریں اور انہیں اپنا قائد و زعیم سمجھیں۔

جب دین کا اقتدار مسلم ہو گیا اور مدینہ میں اس کا مرکز بن گیا تو پھر بعض لوگوںکا دین سے خارج ہونا یا نبی (ص)

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۳ ص ۱۱۲، مسند احمد ج۴ ص ۲۸۱، البدایہ و النہایہ ج۵ ص ،۲۱۳، الغدیر ج۱ ص ۴۳، ص ۱۶۵،۱۹۶، ص۲۱۵، ۲۳۰، ص ۲۳۸، ص ۲۷۶، ص ۲۸۳، ۲۸۵، ص ۲۹۷، ص ۲۷۹، ص ۳۹۳، ص ۴۰۲ جزء ۱۱ ص ۱۳۱۔

۲۲۱

کی لائی ہوئی چیزوں سے بعض افراد کا مرتد ہونا یا مدینہ سے بہت دور ایسے افراد کا پایا جانا جو اپنی امیدوں اور بے جا خواہشات کو دین کے پیرایہ میں پورا کرنا چاہتے تھے، کوئی بہت اہم بات نہیں تھی۔

یہی وجہ تھی کہ مسیلمہ نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کر دیا اور اس نے رسول(ص) کو خط کے ضمن میں یہ لکھا کہ اسے بھی مبعوث کیا گیا ہے اس نے آپ(ص) سے یہ درخواست بھی کی کہ زمین کی بادشاہت میں آپ(ص) اس کے شریک ہو جائیں ، رسول(ص) نے اس کے خط کا مضمون دیکھا اور خط لانے والوں کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا:

''لولا ان الرسل لا تقتل لضربت اعناقکما لا نکما اسلمتما من قبل و قبلتما برسالتی فلم اتبعتما هذا الاحمق و ترکتما دینکما؟''

اگر یہ دستور نہ ہوتا کہ قاصدوں کو قتل نہیں کیا جائے گا تو میں تم دونوں کی گردنیں مار دیتا کیونکہ تم دونوں پہلے اسلام لائے ہواور میری رسالت کو قبول کیاہے اس کے بعد تم دونوں نے اس احمق کا اتباع کیا اور اپنا دین چھوڑ دیا؟

پھر آپ(ص) نے ایک خط کے ذریعہ مسیلمہ کذاب کی، تردید کی اس خط میں یہ تحریر کیا:

''بسم اللّه الرحمٰن الرحیم، من محمد رسول اللّه الیٰ مسیلمة الکذاب، السلام علیٰ من اتبع الهدی اما بعد فان الارض للّه یورثها من یشاء من عباده و العاقبة للمتقین'' ۔( ۱ )

شروع کرتا ہوں رحمان و رحیم خدا کے نام سے ، یہ خط اللہ کے رسول محمد(ص) کی طرف سے مسیلمہ کذاب کے نام ہے ، سلام ہو ہدایت کا اتباع کرنے والے پر، پھر واضح ہو کہ زمین خدا کی ہے ، اپنے بندوں میں سے وہ جس کو چاہے گا اس کو وارث بنائے گا اور عاقبت و انجام پرہیز گاروں کے لئے ہے۔

مختصر یہ کہ اسود عنسی، مسیلمہ اور طلحہ ایسے دجالوں کی چلائی ہوئی ارتداد کی تحریکوں کو کچلنے میں مسلمان کامیاب ہو گئے۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۲ ص ۶۰۰۔

۲۲۲

۶۔ روم سے جنگ کے لئے فوج کی عام بھرتی(۱)

رسول(ص) اسلامی حکومت کی شمالی سرحدوں کو بہت اہمیت دیتے تھے کیونکہ اس طرف روم کی منظم اور عظیم لشکر والی حکومت تھی۔ اسلامی حکومت کو فارس کی حکومت سے کوئی اندیشہ نہیں تھا،کیونکہ اس کی تباہی کے آثار رونما ہو چکے تھے، پھر اس کا کوئی روحانی عقیدہ بھی نہیں تھاکہ جس کا وہ روم کے مسیحیوںکی طرح دفاع کرتے، لہذا نئے اسلامی نظام کے لئے روم ہی خطرہ تھا خاص طور سے ان لوگوں کی طرف سے خطرہ تھا جن کو اسلامی حکومت سے ان کی فتنہ پردازیوں اور نفاق پروری کی بنا پر نکال دیا گیا تھا اور وہ شام چلے گئے تھے بعد میں کچھ اور لوگ ان سے ملحق ہو گئے تھے پھر وہاں نصارائے نجران کا وجود ایک سیاسی وسیلہ تھا جو روم کو ان کی مدد پر اکساتا تھا۔

اس کے باوجودحالات ایسے نہیں تھے کہ جن کی بنا پر اتنا اہتمام کیا جاتا کہ جتنا رسول(ص) نے ایک عظیم لشکر بنانے میں کیا ہے ، اس میں آپ(ص) نے علی اور ان کے بعض مخلصین کے علاوہ بڑے بڑے صحابیوں کو شامل کیا، اس سے رسول(ص) کا مقصد سیاسی فضا کو ایسے عناصر سے پاک کرنا تھا جو علی بن ابی طالب کی طرف قیادت کی منتقلی میں حائل ہو سکتے تھے، تاکہ آپ(ص) کے بعد علی خلیفہ بن جائیں اصل میں رسول(ص) اپنے مشن کو جاری رکھنے کے لئے حضرت کی مرجعیت اور ان کی صلاحیتوںکو مسلسل بیان کرتے تھے آپ(ص)نے یہ محسوس کیا کہ علی کی خلافت سے بعض صحابہ خوش نہیں ہیں، یہ بات غدیر میں حضرت علی کی بیعت کے بعد آپ(ص) نے اچھی طرح محسوس کر لی تھی لہذا رسول(ص) نے مدینہ کو سیاسی کشیدگی سے پاک کرنے کا عزم کیا تاکہ آپ(ص)کے بعد اسلامی حکومت کی زمام کسی بھی ٹکرائو اور جھگڑے کے بغیر حضرت علی کے ہاتھ میں پہنچ جائے چنانچہ رسول(ص) نے پرچم بنایا اور اسامہ بن زید کے سپرد کر دیا-یہ جوان سپہ سالار تھے جن کو رسول(ص) نے منصوب کیا تھااور مہاجرین و انصار کے بزرگوں کو ان کا تابع کیا اور اسامہ سے فرمایا:

____________________

۱۔رسول(ص) نے اسامہ کو ماہ صفر ۱۱ھ میں علم دیا تھا۔

۲۲۳

''سر الیٰ موضع قتل ابیک فاوطئهم الخیل فقد ولیتک هذا الجیش فاغز صباحاً علی اهل ابنی '' ۔

اپنے باپ کی قتل گاہ کی طرف جائو، لشکر کو جمع کرو، میں نے تمہیں اس لشکر کا امیر مقرر کیا ہے اور صبح کے وقت اہل ابنی پر حملہ کرنا۔ لیکن جذبۂ تمرد و سرکشی ، اقتدار کی ہوس اورنظم و ضبط کی کمی کی وجہ سے بعض لوگوں نے نبی (ص) کے حکم کو تسلیم نہیں کیا شاید انہیں رسول(ص) کے مقاصد کا علم ہو گیا تھا اسی لئے انہوں نے ''الجرف'' چھاونی میں جمع فوج کی روانگی میں تاخیر کی ان کی تساہلی کی خبر رسول(ص) تک پہنچی تو آپ(ص) غضبناک ہوئے اور گھر سے نکل آئے-اس وقت آپ مخملی چادر اوڑھے ہوئے تھے اور بخار کی شدت کی وجہ سے آپ(ص) کی پیشانی پر پٹی بندھی ہوئی تھی-مسجد میں پہنچ کر منبر پر تشریف لے گئے خدا کی حمد و ثنا کی اور اس کے بعد فرمایا:

''ایّها النّاس فما مقالة بلغتنی عن بعضکم فی تامیری اسامة، ولئن طعنتم فی امارتی اسامة لقد طعنتم فی امارتی اباه من قبله و ایم اللّه ان کان للامارة لخلیقا وان ابنه من بعده لخلیق الامارة و ان کان لمن احب النّاس الَیَّ و انّهما لمخیلان لکلِّ خیر و استوصوا به خیر فانه من خیارکم '' ۔( ۱ )

اے لوگو! تم میں سے بعض کی طرف سے مجھے یہ اطلاع ملی ہے کہ میر ااسامہ کو سپہ سالار بنانا انہیں گراں گزرا ہے لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے تم نے ان کے باپ زید کو سپہ سالار بنانے پر بھی تنقید کی تھی، خدا کی قسم وہ بھی اس منصب کا اہل تھا اور اس کا بیٹا بھی اس کی اہلیت رکھتا ہے ، میں اس سے بہت محبت رکھتا ہوں یہ دونوں ہی ہر نیکی و بھلائی کے مستحق ہیں اس کے بارے میں دوسروں سے نیکی کی سفارش کرو کہ وہ تمہارے نیک و شریف افراد ہیں۔

رسول(ص) کو شدید بخار تھا لیکن جیش اسامہ کو بھیجنے میںآپ کو اس کی پروا نہیں تھی فرماتے تھے:''انفدوا جیش اسامة'' ( ۲ ) اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو۔ آپ(ص) کے اصحاب میں سے جو بھی آپ(ص) کی عیادت کے لئے جاتا تھ

____________________

۱۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۱۹۰، طبع دار الفکر۔

۲۔ ایضاً۔

۲۲۴

اسی سے یہ فرماتے تھے:''جهزوا جیش اسامة لعن الله من تخلف عنه'' ( ۱ ) اسامہ کے لشکر کو روانہ کرو، لشکرِ اسامہ سے روگردانی کرنے والوں پر خدا کی لعنت ہو۔

کسی نے لشکر گاہ میں یہ خبر پہنچا دی کہ آنحضرت (ص) کی طبیعت زیادہ ناساز ہے اس لئے اسامہ عیادت کے لئے خدمتِ رسول(ص) میں آئے تو رسول(ص) نے انہیں اس مقصد کی طرف روانہ ہونے کی تاکید کی جس کی منصوبہ بندی آپ(ص) نے پہلے ہی کر دی تھی۔

اسامہ فوراً اپنے لشکر میں واپس آ گئے اور لشکروالوں کو روانہ ہونے پر ابھارنے لگے لیکن خلافت کی ہوس رکھنے والے اور پس و پیش سے کام لینے والوں نے یہ کہہ کر کہ نبی(ص) حالت احتضار میں ہیں لشکر کو روانہ نہیں ہونے دیا باوجودیکہ رسول(ص) نے لشکر کو روانہ کرنے کی تاکید فرمائی تھی اور اس بات پر زور دیا تھاکہ لشکر اسامہ کی جو ذمہ داری ہے اس میں کسی قسم کے تردد سے کام نہ لیا جائے۔

____________________

۱۔الملل و النحل ج۱ ص ۲۳۔

۲۲۵

چوتھی فصل

رسول(ص) کی زندگی کے آخری ایام

۱۔وصیت لکھنے میں حائل ہونا

شدید بخار اور نہایت ہی تکلیف کے باوجود، رسول(ص)، علی اور فضل بن عباس کا سہارا لیکر لوگوں کو نماز پڑھانے کے لئے گھر سے مسجد میں آئے تاکہ ان مفاد پرستوں کے منصوبوںکو ناکام بنا سکیں جنہوں نے خلافت و قیادت کو غصب کرنے کے لئے سازش کی تھی، اس مقصد میں کامیابی ہی کے لئے ان لوگوں نے بھی نہایت ہی ہوشیاری سے رسول(ص) کے حکم سے روگردانی کی تھی جب رسول(ص) نے انہیں لشکرِ اسامہ کے ساتھ جانے کا حکم دیا تھا۔ نماز پڑھانے کے بعد رسول(ص) لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:

''ایّها النّاس سعرت النّار و اقبلت الفتن کقطع الّلیل المظلم، و انّی و اللّٰه ما تمسکون علی بشیء انی لم احل الا ما احل الله ولم احرم الا ما حرم اللّٰه'' ( ۱ )

اے لوگو! فتنہ کی آگ بھڑک اٹھی ہے اور وہ کالی رات کے ٹکڑوں کی طرح بڑھے چلے آ رہے ہیں۔

میں نے اسی چیز کو حلال قرار دیا ہے جس کو خدا نے حلال کیا ہے اور میں نے اسی چیز کو حرام قرار دیا ہے جس کو خدا نے حرام قرار دیا ہے۔

یہ آپ(ص) کی طرف سے ایک اور تنبیہ تھی کہ یہ لوگ آپ(ص) کے حکم کی نافرمانی نہ کریں اگر چہ ان کی نیتوں سے یہ

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۲ ص۹۵۴، طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۱۵۔

۲۲۶

بات آشکار تھی کہ یہ لوگ امت اسلامیہ کو مصائب میں مبتلا کریں گے خصوصاًجب جاہل افراداس کے سربراہ و خلیفہ بن جائیں گے۔

رسول(ص) کے مرض میں شدت پیدا ہو گئی، صحابہ بھی آپ(ص) کے گھر میں جمع ہو گئے انہیں لوگوں میں وہ اشخاص بھی شامل ہو گئے جنہوںنے لشکر اسامہ سے روگردانی کی تھی۔ آنحضرت (ص) نے انہیں لعنت و ملامت کی تو انہوں نے کھوکھلے قسم کے عذر بیان کئے، اس موقعہ پر رسول(ص) نے امت کو ہلاکت و تباہی سے بچانے کے لئے دوسرے طریقہ سے کوشش کی فرمایا:

''ایتونی بدواة و صحیفة اکتب لکم کتاباً لا تضلون بعده'' ۔

مجھے کاغذ و دوات دیدو تاکہ میں تمہارے لئے ایک نوشتہ لکھ دوں جس سے تم گمراہ نہ ہو۔

عمربن خطاب نے کہا: رسول(ص) پر مرض کا غلبہ ہے اور تمہارے پاس قرآن مجید ہے ، ہمارے لئے خدا کی کتاب کافی ہے ۔( ۱ ) اس طرح اختلاف و جھگڑا ہو گیا، پردہ کے پیچھے سے رسول(ص) کی ازواج نے کہا: اللہ کا رسول(ص) جو مانگ رہا ہے وہ انہیں دیدو، اس پر عمر نے کہا: چپ ہو جائو تمہاری مثال حضرت یوسف کی بیویوں کی سی ہے جب وہ بیمار ہوتے ہیں تو تم آنسو بہاتی ہوں اور جب صحت یاب ہو جاتے تو تم ان کے سر چڑھ جاتی ہو۔ رسول(ص) نے فرمایا: وہ تم سے بہتر ہیں۔( ۲ )

پھر فرمایا:''قوموا عنی لا ینبغی عندی التنازع'' میرے پاس سے اٹھ جائو میرے سامنے جھگڑا کرنا مناسب نہیںہے ۔

رسول (ص) کے اس نوشتہ کی امت کو شدید ضرورت تھی چنانچہ جب ابن عباس اس واقعہ کو یاد کر لیتے تھے تو افسوس کے ساتھ کہتے تھے: سب سے بڑا المیہ اور مصیبت یہ ہے کہ اللہ کے رسول (ص) کو نوشتہ نہیں لکھنے دیا گیا۔( ۳ )

____________________

۱۔ صحیح بخاری کتاب العلم باب کتابة العلم و کتاب الجہاد، باب جوائز الوفد۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۴۴، کنز العمال ج۳ ص۱۳۸۔

۳۔ صحیح بخاری کتاب العلم ج۱ ص۲۲ و ج۲ ص ۱۴، الملل و النحل ج۲ ص ۲۲، طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۴۴۔

۲۲۷

جب آپ کے پاس صحابہ میںاختلاف ہو گیا تو آپ(ص) نے نوشتہ لکھنے پر اصرار نہیں کیا، پھر یہ بھی خوف تھا کہ اس کے بعد ان کی سرکشی اور بڑھ جائیگی اور اس کا نتیجہ اس سے زیادہ خطرناک ہوگا۔ رسول(ص) نے ان کی نیتوں کو سمجھ لیا تھا چنانچہ جب صحابہ نے قلم و دوات کی بات دہرائی تو اپ(ص) نے فرمایا:''ابعد الذی قلتم'' کیا تمہاری گستاخی کے بعد بھی( ۱ ) پھر آپ نے انہیں تین وصیتیں فرمائیں لیکن تاریخ کی کتابوںمیں ان میں سے دو ہی نقل ہوئی ہیں وہ یہ ہیںکہ مشرکین کو جزیرہ نما عرب سے نکال دیا جائے اور وفود بھیجے جائیں جیسا کہ آپ بھیجتے تھے۔

علامہ سید محسن امین عاملی نے اس پر اس طرح حاشیہ لگایا ہے : جوشخص بھی غور کرے گا وہ اس بات کو بخوبی سمجھ لے گا کہ محدثین نے اسے جان بوجھ کر بیان نہیں کیا ہے ، فراموشی کی وجہ سے نہیں چھوڑا ہے ۔ سیاست نے انہیں مجبور کیا کہ وہ اسے بیان نہ کریں وہ وصیت یہ تھی کہ رسول(ص) نے ان سے دوات و کاغذ طلب کیا تھا تاکہ ان کے لئے ایک نوشتہ لکھ دیں۔( ۲ )

۲۔ فاطمہ زہرا باپ کی خدمت میں

رنجیدہ اور غم سے نڈھال فاطمہ زہرا آئیں، اپنے والد کو حسرت سے دیکھنے لگیںکہ وہ عنقریب اپنے رب سے جا ملیں گے، دل شکستہ حال میں باپ کے پاس بیٹھ گئیں، آنکھیں اشکبار ہیں اور زبان پر یہ شعر ہے :

و ابیض یستسقی الغمام بوجهه + ثمال الیتامیٰ عصمة الارامل

نورانی چہرہ جس کے وسیلہ سے بارش طلب کی جاتی ہے ۔ وہ یتیموں کی پناہ گاہ اور بیوہ عورتوں کا نگہبان ہے ۔

اسی وقت رسول(ص) نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور آہستہ سے فرمایا: بیٹی یہ تمہارے چچا ابو طالب کا شعر ہے ، اس وقت یہ نہ پڑھو بلکہ یہ آیت پڑھو:

____________________

۱۔ بحار الانوار ص ۴۶۹ ج۲۲۔

۲۔اعیان الشیعة ج۱ ص ۲۹۴، صحیح بخاری باب مرض النبی (ص)۔

۲۲۸

( وما محمّد الّا رسول قد خلت من قبله الرّسل افان مات او قتل انقلبتم علیٰ اعقابکم و من ینقلب علیٰ عقبیه فلن یضر اللّه شیئا و سیجزی اللّه الشاکرین ) ۔( ۱ )

اور محمد(ص) توبس رسول(ص) ہیں ان سے پہلے بہت سے رسول(ص) گزر چکے ہیں پھر اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دئیے جائیں تو کیا تم الٹے پیروں پلٹ جائو گے؟ یاد رکھو جو بھی ایسا کرے گا تو وہ خدا کو نقصان نہیں پہنچائے گا اور خدا شکر گذاروںکو عنقریب جزا دے گا۔

اس طرح رسول(ص) اپنی بیٹی فاطمہ (ص) کو ان افسوسناک حوادث کے لئے تیار کرنا چاہتے تھے جو عنقریب رونما ہونے والے تھے یقینا یہ چیز حضرت ابو طالب کے قول سے زیادہ بہتر تھی۔

اس کے بعد نبی (ص) کریم نے اپنی بیٹی کو قریب آنے کا اشارہ کیا تاکہ آپ(ص) سے کچھ گفتگو کریں، فاطمہ (ص) زہرا جھک کر سننے لگیں، آنحضرت (ص) نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ رونے لگیں، پھر آپ(ص) نے ان کے کان میں کچھ کہا تو وہ مسکرانے لگیں، صورت حال سے بعض حاضرین کے اندر تجسس پیدا ہو گیا، انہوںنے فاطمہ زہرا سے دریافت کیا آپ(ص) کے رونے اور پھر مسکرانے کا کیا راز ہے ؟ آپ(ص) نے فرمایا؛ میں رسول(ص) کے راز کو افشا نہیں کروںگی۔

لیکن جب رسول(ص)کی وفات کے بعد آپ سے دریافت کیا گیا تو فرمایا:''اخبرنی رسول اللّه (ص) انّه قد حضر اجله و انه یقبض فی وجعه هذا فبکیت ثم اخبرنی انّی اوّل اهله لحوقاً به فضحکت'' ۔( ۲ )

مجھے رسول(ص) نے یہ خبر دی تھی کہ ان کی وفات کا وقت قریب ہے اور اسی مرض میں آپ (ص) دنیا سے اٹھ جائیں

____________________

۱۔ آل عمران: ۱۴۴۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۴۷، تاریخ کامل ج۲ ص ۲۱۹۔

۲۲۹

گے تویہ سن کر میں رونے لگی پھر مجھے یہ خبر دی کہ ان کے اہل بیت میں سب سے پہلے میں ان سے ملحق ہوںگی تو میں مسکرائی۔

۳۔رسول(ص) کے آخری لمحاتِ حیات

علی رسول (ص) کے ساتھ ایسے ہی رہتے تھے جیسے ایک انسان کے ساتھ سایہ رہتا ہے ، زندگی کے آخری لمحات میں بھی آپ ان کے ساتھ ہی تھے آنحضرت (ص) انہیں تعلیم دیتے اپنا راز بتاتے اور وصیت کرتے تھے۔ آخری وقت میں رسول(ص) نے فرمایا: میرے بھای کو میرے پاس بلائو، علی کو رسول(ص) نے کہیں کام سے بھیجا تھا، بعض مسلمان آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوئے لیکن رسول(ص) نے انہیں کوئی اہمیت نہیں دی کچھ دیر بعد علی بھی آ گئے تو رسول(ص) نے فرمایا: مجھ سے قریب ہو جائو، علی آپ(ص) سے قریب ہو گئے آنحضرت (ص) علی کے سہارے بیٹھ گئے اور ان سے باتیں کرتے رہے یہاں تک کہ آپ(ص) پر احتضار کے آثار ظاہر ہو گئے اور رسول(ص)نے حضرت علی کی گود میں وفات پائی، اس بات کو خود حضرت علی نے اپنے ایک مشہور خطبہ میں بیان فرمایا ہے ۔( ۱ )

۴۔ وفات ودفن رسول(ص)

آخری وقت میں رسول(ص) کے پاس علی ابن ابیطالب ، بنی ہاشم اور ازواج کے علاوہ اور کوئی نہیں تھا، آپ(ص) کے فراق میں آپ(ص) کے گھر سے بلند ہونے والی آہ و بکا کی آواز سے آپ(ص) کی وفات کی خبر سب کو ہو گئی تھی ، سرور کائنات (ص)کے غم میں دل پاش پاش تھے، دیکھتے ہی دیکھتے مدینہ بھر میں آپ کی وفات کی خبر پھیل گئی۔ سبھی پر غم و الم کی کیفیت طاری تھی اگرچہ رسول(ص) نے اس حادثہ کے لئے انہیں آمادہ کر دیا تھا اور متعدد بار اپنے انتقال کی خبر دے چکے تھے اور امت کو یہ وصیت کر چکے تھے کہ وہ آپ(ص) کے بعد آپ(ص) کے خلیفہ علی بن ابی طالب کی اطاعت کرے۔ یقینا آپ(ص) کی وفات ایک بہت بڑاسانحہ تھا جس سے مسلمانوں کے دل دہل گئے تھے مدینہ پر ایک اضطرابی کیفیت طاری تھی، رسول(ص) کے گھر کے اطراف میں جمع افراد عمر بن خطاب کی بات

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۷۔

۲۳۰

سے حیرت زدہ تھے وہ تلوار سے لوگوں کو ڈراتے ہوئے کہہ رہے تھے: منافقین میں سے بعض لوگوں کا یہ گمان ہے کہ اللہ کا رسول(ص) مر گیا۔ خدا کی قسم! وہ مرے نہیں ہیں ہاں وہ موسیٰ بن عمران کی طرح اپنے رب کے پاس چلے گئے ہیں۔( ۱ )

اگر چہ موسیٰ کی غیبت اور محمد(ص) کی وفات میں کوئی مماثلت نہیں ہے لیکن اس مماثلت و مشابہت پر عمر کے اصرار سے خود ان کے کردار سے پردہ ہٹتا ہے ۔

عمر آرام سے نہیں بیٹھے یہاں تک کہ ابوبکر آئے اور رسول(ص) کے گھر میں داخل ہو ئے اور رسول(ص) کے چہرے سے کپڑا ہٹایا اور تیزی سے باہر نکلے اورکہنے لگے: اے لوگو! سنو جو محمد کی پرستش کرتا ہے وہ جان لے کہ محمد مر گئے اور جو خدا کی عبادت کرتا ہے وہ جان لے کہ اللہ زندہ ہے اسے موت نہیں آئیگی۔ پھر یہ آیت پڑھی:( وما محمد الا رسول قد خلت من قبله الرسل ) اس سے عمر کا سارا جوش ٹھنڈا پڑ گیا اور انہوں نے یہ گمان کیا کہ گویا وہ اس طرف متوجہ ہی نہیں تھے کہ قرآن مجید میں ایسی کوئی آیت ہے ؟( ۲ )

اس کے بعد ابو بکر اور عمر بن خطاب اپنے ہم خیال لوگوں کے ساتھ سقیفہ بنی ساعدہ گئے انہیں یہ خبر ملی تھی کہ سقیفہ میں ایک ہنگامی جلسہ ہو رہا ہے جس میں رسول(ص) کی وفات کے بعد خلافت کا مسئلہ حل کیا جائیگا۔ یہ لوگ حضرت علی بن ابی طالب کا منصوب ہونا بھول گئے اور یہ بھی بھول گئے کہ انہوںنے خلیفہ کے عنوان سے علی کی بیعت کی تھی ، ان لوگوںنے یہ بھی نہیں سوچا کہ ان کے اس عمل کو رسول(ص) کے جنازہ کی بے حرمتی تصور کیا جائے گا۔

علی بن ابی طالب اور آپ(ص) کے اہل بیت رسول(ص) کے جنازہ کی تجہیز و تدفین کے امور میں مشغول تھے، علی نے آپ(ص) کی قمیص اتارے بغیر غسل دیا، عباس بن عبد المطلب اور ان کے بیٹے فضل نے مدد کی ، غسل دیتے وقت علی فرماتے تھے:''بابی انت و امی ما اطیبک حیاً و میتاً'' ( ۳ ) میرے ماں باپ آپ پر قربان

____________________

۱۔تاریخ کامل ج ۲ ص ۳۲۳، طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۶۶، سیرت نبویہ، زینی دحلان ، ج۲ ص ۳۰۶۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص۵۳ و ۵۶۔

۳۔ سیرت نبویہ ، ابن کثیر ج۴ ص ۵۱۸۔

۲۳۱

آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور مرنے کے بعد بھی طیب و طاہر ہیں۔

پھر آپ(ص) کے جسد اقدس کو ایک تخت پر لٹا دیا ۔ علی نے فرمایا:'' ان رسول الله (ص) امامنا حیاً و میتاً فلید خل علیه فوج بعد فوج فیصلون علیه بغیر امام و ینصرفون'' ۔

بے شک اللہ کا رسول(ص) زندگی میں بھی ہمارا امام ہے اور مرنے کے بعد بھی لہذا دستہ دستہ بغیر امام کے نماز جناہ پڑھیںاور لوٹ جائیں، چنانچہ سب سے پہلے آپ(ص) کی نماز جنازہ حضرت علی اور بنی ہاشم نے پڑھی اور ان کے بعد انصار نے پڑھی۔( ۱ )

اس کے بعد علی رسول(ص) کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا:''سلام علیک ایها النبی ورحمة اللّه و برکاته، الّلهم انّا نشهد ان قد بلغ ما انزل الیه و نصح لامته و جاهد فی سبیل اللّه حتّی اعز اللّه دینه و تمت کلمته الّلهم فاجعلنا ممن یتبع ما انزل اللّه الیه و ثبتنا بعده و اجمع بیننا و بینه'' ۔

سلام اور خدا کی رحمت و برکات ہوں آپ(ص) پر اے نبی (ص) ، اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ انہوںنے ہر اس چیز کی تبلیغ کی جو تونے ان پر نازل کی ، اپنی امت کو نصیحت کی اور راہِ خدا میں جہاد کیا یہاں تک کہ خدا نے اپنے دین کو عزت بخشی اور اس کی بات پوری ہو گئی۔ اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں قرار دے جو ان چیزوں کا اتباع کرتے ہیں جو تونے ان (ص) پر نازل کی ہیں اور ان کے بعد ہمیں ثابت قدم رکھ ہمیں اور انہیں یکجا کر دے۔ اس پر لوگوں نے آمین کہا۔ پھر دوسرے مردوںنے ان کے بعد عورتوں نے اور سب کے بعد لڑکوںنے آپ(ص) کے جنازہ پر نماز پڑھی۔( ۲ )

آپ(ص) کی قبر اسی حجرہ میں تیار کی گئی جس میں آپ(ص) نے وفات پائی تھی۔ جب حضرت علی نے آپ (ص) کو قبر

____________________

۱۔ ارشاد ج۱ ص ۱۸۷، اعیان الشیعة ج۱ ص ۲۹۵۔

۲۔ طبقات الکبریٰ ج۲ ص ۲۹۱۔

۲۳۲

میںاتارنا چاہا تو دیوار کے پیچھے سے انصار نے ندا دی۔ اے علی ! ہم آپ کو خدا کا واسطہ دیتے ہیں رسول(ص) کے بارے میں ہمارا جو حق ہے آج وہ حق ہاتھ سے جا رہا ہے اس کام میں ہم میں سے بھی کسی کو شریک کر لیجئے تاکہ رسول(ص) کے امور دفن میں ہم بھی شریک ہو جائیں حضرت علی نے فرمایا: اوس بن خولی شریک ہو جائیں یہ بنی عوف سے تھے اور بدری تھے۔

علی قبر میں اترے ، رسول(ص) کے چہرہ کو کھولا، آپ(ص)کے رخسار کو خاک پر رکھا اور قبر کو بند کر دیا۔رسول(ص) کے دفن اور نمازِ جنازہ میں وہ صحابہ شریک نہیں ہوئے جو سقیفہ چلے گئے تھے۔

اے اللہ کے رسول(ص) ! آپ پر سلام ہو جس دن آپ(ص) پیدا ہوئے ، جس دن وفات پائی اور جس دن زندہ اٹھائے جائیں گے۔

۲۳۳

پانچویں فصل

اسلامی رسالت کے بعض نقوش

رسول (ص) کس چیز کے ساتھ مبعوث کئے گئے؟( ۱ )

اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی حضرت محمد مصطفی (ص) کو خاتم الانبیاء اور ان سے پہلے والے مرسلین کی شریعت کو منسوخ کرنے والا بنا کر اس وقت مبعوث کیا جب رسولوں کی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا اس وقت مشرق سے مغرب تک خرافات و احمقانہ باتوں کا رواج تھا۔ بدعتیں ، برائیاں اور بت پرستی کا دور تھا۔ اس وقت آپ (ص)کو تمام کالے ، گورے عرب و عجم کے تمام لوگوں کی طرف نبی (ص) بنا کر بھیجا۔

رسول(ص) دنیا کے سامنے آئے دنیا والوں کو اس ایک خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی جو خالق، رازق اور ہر امر کا مختار ہے ، نفع و ضرر اسی کے ہاتھ میں ہے، اور ملک میں کوئی بھی اس کا شریک نہیں ہے اور نہ ہی کمزوری کی بنا پر کوئی اس کا سرپرست ہے اور نہ کوئی اس کی بیوی ہے ، نہ اس کی اولاد ہے اور نہ وہ کسی کی اولاد ہے ، کوئی بھی اس کا ہمسر نہیں ہے۔

خدا نے آپ(ص) کو اس لئے بھیجا تاکہ آپ(ص) لوگوں کو اس خدا کی عبادت کا حکم دیں جو ایک ہے اوروحدہ لا شریک ہے اور بتوں کی پوجا کو باطل قرار دیں کہ جو نہ نقصان پہنچا سکتے ہیں نہ فائدہ ، نہ کچھ سمجھتے ہیں نہ کچھ سنتے ہیں، نہ اپنا دفاع کر سکتے ہیں نہ اپنے غیر کا، مکارم اخلاق کی تکمیل اور صفات حسنہ پر ابھارنے کے لئے بھیجا، آپ ہر نیکی کا حکم دینے والے اور ہر برائی سے روکنے والے تھے۔

____________________

۱۔ یہ بحث سید محسن الامین عاملی نے اپنی کتاب اعیان الشیعة میں سیرت نبی (ص) کے ذیل میں کی ہے۔

۲۳۴

شریعت اسلامی کی عظمت و آسانی

بعض لوگ''لاالٰه الا اللّه ، محمد رسول اللّه'' کہنے، نماز پڑھنے، زکات دینے، ماہ رمضان کا روزہ رکھنے، خانۂ کعبہ کا حج کرنے اور اسلام کے احکام کی پابندی کو کافی سمجھتے ہیں۔ اور سوچتے ہیں کہ مسلمانوں کے نفع و ضرر میں شامل ہونے کے لئے ان دو کلموں''لاالٰه الا اللّه محمد رسول اللّه'' کا کہنا کافی ہے ۔

اسلامی قوانین کا امتیاز

آپ کواس لئے مبعوث کیا گیا تاکہ آپ(ص) تمام مخلوقات کے درمیان مساوی طور پر حقوق تقسیم کریں اور یہ بتائیں کہ کوئی کسی سے بہتر نہیں ہے مگر یہ کہ پرہیزگار ہو،آپ(ص) کو مومنین کے درمیان اخوت قائم کرنے اور انہیں ایک دوسرے کے برابر قرار دینے کے لئے بھیجاگیا، ان سب کا خون برابر ہے اور اگر ان میں سے کسی چھوٹے نے کسی کو پناہ دیدی تو سب کا فرض ہے کہ اس کی حفاظت کریں اور اسلام میں داخل ہونے والے کے لئے عام معافی ہے ۔

آپ نے واضح اور روشن شریعت، عدل پر مبنی قانون جو آپ کو خدا کی طرف سے ملا تھا، دنیا کے سامنے پیش کیا، یہ قانون ان کے عبادی اور تجارتی ومعاملات سے متعلق احکام کو اپنے دامن میں لئے ہوئے ہے بلکہ دنیا و آخرت میں انسان کو جس چیز کی بھی ضرورت ہو سکتی ہے وہ سب اس میں موجود ہے ۔ یہ عبادی، اجتماعی، سیاسی اور اخلاقی قانون ہے ، اس نے ایسی کسی چیز کو نظرانداز نہیں کیا ہے جو بشر کی زندگی میں رونما ہو سکتی ہے یا جس کی انسان کو ضرورت ہو سکتی ہے ، پس جو واقعہ وقوع پذیر ہوتا ہے یا جو حادثہ رونما ہوتا ہے مسلمانوں کے پاس شریعت اسلامیہ میں اس کا ایک قانون و حکم موجود ہوتاہے ، جس سے رجوع کیا جا تا ہے ۔

دین اسلام کی عبادتیں محض عبادت ہی نہیں ہے بلکہ ان کے جسمانی، اجتماعی اور سیاسی فوائد بھی ہیں، مثلاً طہارت سے پاکیزگی کا فائدہ ملتا ہے ، اور نماز ایک روحانی و معنوی جسمانی ورزش ہے ، نماز جماعت اور حج میں اجتماعی اور سیاسی فوائد ہیں، روزہ میں صحت و تندرستی کے ایسے فوائد ہیں جن کا انکار نہیں کیا جا سکتا ۔ مختصر یہ کہ اسلامی احکام کے ظاہری فوائد کو بھی شمار کرنا دشوار ہے چہ جائیکہ اس کے مخفی فوائد کو بیان کیاجائے۔

۲۳۵

اس دین کی بہت سی خوبیاں ہیں، اس کے احکام عقل کے مطابق ہیں،یہ آسان ہے ، اس میں تنگی و سختی نہیں ہے اور چونکہ یہ اظہار شہادتین کو کافی سمجھتا ہے اور اس میں بلندی دور اندیشی اور جد و جہد کی تعلیم ہے اس لئے لوگ گروہ در گروہ اس میں داخل ہوتے ہیں اور دنیا کے اکثر ممالک پر اس کے ماننے والوں کی حکومت ہے اس کانور مشرق و مغرب میں چمک رہا ہے روئے زمین پر بسنے والے اکثر ممتاز ممالک اس کے پرچم کے نیچے آ گئے ہیں اور اکثر قومیں لسانی اور نسلی اختلاف کے باوجود اس کے قریب آ گئی ہیں۔

زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ وہ شخص جو مکہ سے خفیہ طور پر نکلا، جس کے اصحاب کو سزا دی جاتی تھی، جنہیں ذلیل سمجھا جاتا تھا، جنہیں ان کے دین سے روکا جاتا تھا نتیجہ میں کبھی وہ مخفی طریقہ سے حبشہ کی طرف ہجرت کرتے اور کبھی چپکے سے مدینہ چلے جاتے تھے، وہی اپنے انہیں اصحاب کے ساتھ عمرہ قضا یعنی مکہ میں علیٰ الاعلان داخل ہوتا ہے اور قریش نہ اسے پیچھے ڈھکیل سکتے ہیں اور نہ داخل ہونے سے روک سکتے ہیں پھر تھوڑے ہی دن بعد اہل مکہ میں فاتح کی حیثیت سے داخل ہوتا ہے اور بغیر کسی خونریزی کے اہل مکہ پر تسلط پاتا ہے، اس کے بعد وہ طوعاً و کرہاً، اسلام میں داخل ہوتے ہیں اور عرب کے سردار اپنی زمام اطاعت آپ(ص) کے اختیار میں دینے کے لئے آپ(ص) کی خدمت میں وفد بھیجتے ہیں حالانکہ اس فتح سے پہلے اتنی طاقت ہو گئی تھی کہ آپ(ص) نے دنیا کے بادشاہوں ، قیصر و کسریٰ وغیرہ کے پاس اپنے سفیر روانہ کئے تھے اور انہیں اسلام کی دعوت دی تھی خصوصاً ملک قیصر کو جو کہ بہت دور تھا۔ الغرض تمام ادیان پر ان کا دین غالب آ گیا جیسا کہ ان کے رب نے وعدہ کیا تھا جس کا ذکر سورۂ نصر اور فتح و غیرہ میں موجود ہے اور تاریخ کی کتابوں سے بھی ہمیںیہی معلوم ہوتا ہے ۔

تلوار اور طاقت سے یہ دین نہیں پھیلا ہے جیسا کہ بعض دشمنوں کا خیال ہے بلکہ حکمِ خدا( ادعُ الیٰ سبیل ربک بالحکمة و الموعظة الحسنة و جادلهم بالتی هی احسن ) ۔( ۱ )

حکمت اور بہترین نصیحتوں کے ذریعہ انہیں اپنے رب کے راستہ کی طرف بلایئے اور ان سے شائستہ طریقہ سے بحث کیجئے۔

____________________

۱۔ النحل:۱۲۵۔

۲۳۶

اہل مکہ اور تمام اعراب سے آپ(ص) نے جنگ نہیں کی بلکہ انہوں نے آپ(ص) سے جنگ کی تھی انہوں نے آپ(ص) کے قتل اور آپ(ص) کو وطن سے نکالنے کا منصوبہ بنایا تھا حالانکہ آپ(ص) نے اہل کتاب کو ان کے دین ہی پر باقی رکھااور اسلام قبول کرنے کے لئے ان پر جبر نہیں کیا۔

قرآن مجید

جس وقت خدا نے آپ(ص) کو نبوت سے سر فراز کیا اسی وقت آپ(ص) پر قرآن نازل کیا جو واضح ہے اور عربی میں ہے باطل اس میں کسی بھی طرف سے داخل نہیں ہو سکتا، اسی کے ذریعہ رسول(ص) نے(عرب کے) بڑے بڑے فصحاء اور بلغاء کو عاجز کیا اور اسی کے ذریعہ انہیں چیلنج کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں لا سکے جبکہ وہ عرب کے سب سے بڑے فصیح تھے بلکہ فصاحت و بلاغت انہیں پر منتہی ہوتی تھی اس کتابِ عزیز میں، جو کہ حکمت اور علم والے (خدا) کی طرف سے نازل ہوئی ہے ، دین کے احکام، گذشتہ لوگوں کے حالات ، تہذیب و اخلاق، عدل کا حکم ، ظلم سے ممانعت اور ہر چیز کا واضح بیان ہے ۔ اور جو چیز اسے دوسری آسمانی کتابوں سے ممتاز کرتی ہے وہ یہ ہے کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں اس کی تلاوت ہوتی رہے گی اور اس کی تازگی اپنی جگہ باقی رہے گی۔ اپنے بیان سے یہ لوگوں کو حیرت زدہ کرتی رہے گی اس کی تلاوت سے طبیعتیں نہیں تھکیں گی خواہ کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہو اور اس کا زمانہ پر انا اور فرسودہ نہیں ہوگا۔

یقینا قرآن معجزہ ہے ، اس کے ذریعہ آپ(ص) نے جاہلوں کی جاہلیت کے گھپ اندھرے میں علمی و ثقافتی انقلاب پیدا کیا ااور اپنی تحریک کی بنیاد مضبوط علمی پایوں پر استوار کی، لوگوں کو علم حاصل کرنے پر اکسایا اور اسے ، انسان کے شایان شان کمال کی طرف بڑھنے کا اوّلین سبب قرار دیا۔ انسان کوغور و فکر اور تجربہ کے حصول پر ابھارا ، طبیعت کے ظواہر کی تحقیق اور اس میں غور کرنے کی ترغیب دی تاکہ وہ اس کے قوانین اور اس کی سنتوں کو کشف کر سکے اور انسان کے لئے ہر اس علم کا حاصل کرنا واجب قرار دیا کہ جس پر انسان کی اجتماعی زندگی کا دار مدار ہو ، نظری علوم، کلام، فلسفہ، تاریخ اور فقہ و اخلاق، کو اہمیت دی، تقلید اورظن و گمان کی پیروی سے روکااور دلیل و برہان سے تمسک کرنے کا حکم دیا۔

۲۳۷

اسی طرح قرآن مجید نے کوشش، جدو جہد اور نیک کاموں میں ایک دوسرے پر سبقت کرنے کی ترغیب دی، سستی اورکاہلی سے روکا، اتحاد کی دعوت دی اختلاف ، قومی فخرومباحات اور خاندانی تعصب سے منع کیا۔

خلق، تکوین و تشریع، ذمہ داری و زمام داری اور جزاء و سزا میں اسلام نے عدل کو بنیاد قرار دیا ہے اور سب سے پہلے اسلام نے یہ آواز بلند کی کہ خدا کے قانون اور اس کی شریعت کے سامنے سارے انسان مساوی ہیں ۔ طبقہ بندی اور نسلی امتیاز کو لغو قرار دیا اور معنوی چیز تقوے اور نیکی میں سبقت کرنے کو خدا کے نزدیک فضیلت کا معیار مقرر کیا جبکہ انسانی معاشرہ میں اس فضیلت کو بھی طبقات کے امتیاز کا سبب نہیں گردانا۔

امن و امان قائم رکھنے، جان، مال اور عزت و آبرو کی حفاظت کے لئے اسلام نے بہت زور دیا ہے اور عدل و امان کے لئے زمین ہموار کرنے کے بعد اگر کوئی امن شکنی کرے گا تو اس کیلئے، سخت سزا مقرر کی ہے ، اس اجتماعی مرض کے علاج کے لئے سزا کو آخری دوا قرار دیا ہے وہ بھی ایسی سزا جو انسان کی حریت سے ہم آہنگ ہو۔

یہی وجہ ہے کہ شریعت اسلامیہ کے قضا و فیصلہ کا دارمدار عدل و امن اور جائز حقوق کے اثبات پر ہے اور اس کے لئے پوری ضمانت لی ہے ۔

اسلام نے بدن و نفس کی صحت کو محفوظ رکھنے پر بہت زور دیا ہے اور اپنے تمام قوانین کو اس اصل کے مطابق رکھا ہے کیونکہ حیات میں یہ اہمیت کی حامل ہے۔

۲۳۸

شریعت اسلامیہ میں واجب اور حرام

شریعت اسلامیہ میں واجب و حرام فطری بنیاد اور ایسے امور پر مرتکز ہے جو انسان کو جاہلیت کی تاریکی سے نکالنے اور اسے کمال و حق کے نور کی ہدایت کرنے کے لئے آیا ہے ، انسانیت کو اگر کسی ایسی چیز کی ضرورت ہے کہ جس پر بشری کمال موقوف ہو تو شریعت اسلامیہ میں اس چیز کو انسان پر واجب قرار دیا گیا ہے اور اس تک پہنچنے کے لئے راستے بتائے گئے ہیں اور ہر اس چیز کو حرام کیا گیا ہے جو انسان کوحقیقی سعادت سے دور کرتی ہے اور بد بختی کے غار میں گرانے والے ہر راستے کو بند کر دیا گیا ہے ۔

اور جن چیزوں سے شریعت کے اصولوں میں رخنہ نہیں پڑتا ہے اور جو چیزیںبشری کمال کی راہ میں مانع نہیں ہیں اور دنیوی زندگی کی لذتوں اور زینتوں کا باعث ہیں انہیں مباح کیا گیا ہے ۔ اور جو چیز انسان کے لئے مضر ہوتی ہے اسے حرام کر دیا جاتا ہے جس کا امتثال انسان کے لئے ضروری ہوتا ہے اسے اس پر واجب کر دیا جاتا ہے ان تمام باتوں کے باوجود شریعت نے مکارم اخلاق کو بنیادی مقاصد سمجھا ہے جن کا ایک پاکیزہ سلسلہ ہے اور عقلمند انسان کے لئے اس دنیا کی زندگی میں جن کو حاصل کرنا بہت ضروری ہے تاکہ وہ اس دنیا میں سعادت اور نیک بختی تک پہنچ جائیں اور انہیں کے ذریعہ انسان آخرت کی ابدی، دنیا میں زندہ رہے۔

عورت کا اسلام نے خاص خیال رکھا ہے اسے خاندان کا بنیادی رکن اور ازدواجی زندگی میں سعادت و نیک بختی کا سبب قرار دیا ہے اور اس کے لئے ایسے حقوق اور فرائض معین کئے ہیں جو اس کی عزت و کرامت اور اس کے بچوں کی کامیابی اور انسانی معاشرہ کی سعادت کی ضامن ہیں۔

مختصر یہ کہ اسلام نے ایسی کسی بھی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے کہ جو انسانی معاشرہ کی ترقی میں کام آ سکتی تھی۔

۲۳۹

چھٹی فصل

میراث خاتم المرسلین(ص)

خدا وند عالم فرماتا ہے :

( هو الذی بعث فی الامیین رسولاً منهم یتلوا علیهم آیاته و یزکّیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و ان کانوا من قبل لفی ضلال مبین ) ( ۱ )

خدا وہ ہے جس نے امّیوں میں خود انہیں میں سے ایک رسول(ص) بھیجا جو ان کے سامنے اس کی آیتوں کی تلاوت کرتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگر چہ اس سے پہلے وہ کھلی گمراہی میں تھے۔

یقینا خاتم الانبیاء حضرت محمد (ص) کی بعثت کے عظیم فوائد تاریخ اسلام کے ذریعہ آشکار ہو چکے ہیں آپ(ص) کی نبوت سے یہ درج ذیل امور روشن ہوئے ہیں:

۱۔ آپ(ص) کی خدائی رسالت عام تھی آپ(ص) نے بشریت تک اسے پہنچایا۔

۲۔ امت مسلمہ تمام قوموں کے لئے مشعل رسالت اٹھائے ہوئے ہے۔

۳۔ اسلامی حکومت ایک منفرد الٰہی نظام اور خود مختار سیاست والا نظام ہے ۔

۴۔ معصوم قائد و رہبر رسول(ص) کے خلیفہ ہیں اور بہترین طریقہ سے آپ(ص) کی نمائندگی کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورۂ جمعہ :۲۔

۲۴۰

جب ہم بطورِ خاص رسول(ص) کی اس میراث کو دیکھتے ہیں جوکہ سنی ہوئی، لکھی ہوئی اور تدوین شدہ ہے تو ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے دو حصے کریں کیونکہ ہم نے رسول(ص) کی میراث کی تعریف اس طرح کی ہے : ہر وہ چیز جو رسول(ص) نے امت اسلامیہ اور بشریت کے سامنے پیش کی ہے خواہ وہ پڑھی جانے والی ہو یا سنی جانے والی ہو، اسے میراث رسول(ص) کہتے ہیں اس لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ قرآن مجید

۲۔ حدیث شریف-سنت

یہ دونوں نعمتیں آسمانی فیض ہیں جو رسول(ص) کے واسطہ سے انسان تک پہنچی ہیں ، خدا نے وحی کے ذریعہ ان دونوں کو قلبِ محمد(ص) پر اتارا جو کہ اپنی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں ہیں۔

قرآن مجید اول تو اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ اس کا اصل کلام اور اس کا مضمون دونوں ہی خدا کی طرف سے ہے پس یہ الٰہی کلام معجزہ ہے اور اسی طرح اس کا مضمون بھی معجزہ ہے ، اس کی جمع آوری اور تدوین -جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہو چکا ہے-رسول(ص) ہی کے زمانہ میں مکمل ہو چکی تھا اور یہ کلام تواتر کے ساتھ بغیر کسی تحریف کے ہم تک پہنچا ہے ۔

ایسے تاریخی ثبوت کی کمی نہیں ہے کہ جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نصِ قرآنی کی تدوین عہد رسول(ص) ہی میں ہو چکی تھی۔ ہم یہاں قرآنی اور غیر قرآنی ثبوت پیش کرتے ہیں۔

۱۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( و قالوا اساطیر الاولین اکتتبها فهی تملی علیه بکرة و اصیلًا ) ( ۱ )

وہ کہتے ہیںکہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جن کو لکھوا لیا ہے، صبح و شام یہی ان کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔

____________________

۱۔ فرقان: ۵۔

۲۴۱

۲۔حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں:

''ما نزلت علیٰ رسول اللّه (ص) آیة من القرآن الا اقرانیها واملاها علّ فکتبتها بخطی و علّمنی تاویلها و تفسیرها ناسخها و منسوخها و محکمها و متشابهها و خاصها و عامها و دعا اللّه ان یعطینی فهمها و حفظها، فما نسیت من کتاب اللّه و علماً املا ه علّ و کتبته منذ دعا لی بمادعا'' ( ۱ )

رسول(ص) پر قرآن کی جو آیت بھی نازل ہوتی تھی آپ(ص) اسے مجھے پڑھاتے اور اس کا املا کراتے تھے اور میں اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا آپ مجھے اس کی تاویل ، تفسیر، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ،خاص و عام کی تعلیم دیتے تھے اورآپ نے خدا سے یہ دعا کی کہ خدا مجھے اسے سمجھنے اور حفظ کرنے کی صلاحیت مرحمت کرے چنانچہ جب سے رسول(ص) نے خدا سے میرے لئے دعا کی ہے اس وقت سے میں قرآن کی آیت اور ان کے لکھوائے ہوئے علم کو نہیں بھولا ہوں۔

مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول(ص) نے پورے قرآن کی تبلیغ کی ہے- پورا قرآن پہنچایا ہے -آج مسلمانوں کے پاس جو قرآن ہے یہ وہی قرآن ہے جو رسول(ص) کے عہد میں متداول تھا اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔

رہی سنت اور حدیث نبی(ص) تووہ کلام بشری ہے اور اس کامضمون خدا کا ہے اپنی کامل فصاحت کے سبب یہ ممتاز ہے ۔ اس میں رسول(ص) کی عظمت ، عصمت اور آپ(ص) کا کمال جلوہ گر ہے ۔

یہیں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید اس قانون کا پہلا مصدر اوراولین سر چشمہ ہے کہ بشر کو زندگی میں جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے خدا وند عالم فرماتا ہے:

( قل ان هدی اللّه هو الهدیٰ و لئن اتبعت اهوائهم بعد الّذی جائک من العلم مالک

____________________

۱۔ کافی ج۱ ص ۶۲ و ۶۳، کتاب فضل العلم باب اختلاف الحدیث۔

۲۴۲

من اللّه من ولی ولا نصیر ) ( ۱ )

کہہ دیجئے کہ ہدایت تو بس پروردگار ہی کی ہدایت ہے اور اگر آپ(ص) علم آنے کے بعد ان کی خواہشوں کی پیروی کریں گے تو پھر خدا کی طرف سے بچانے کے لئے نہ کوئی سرپرست ہوگا اور نہ مددگار۔

قرآن مجید ، حدیث و سنت نبی(ص) کو خدائی قوانین کے لئے دوسرا سر چشمہ قرار دیتا ہے ، یعنی سنت نبی (ص) قرآن کے بعد اس اعتبار سے قانون خدا کا سر چشمہ ہے کہ رسول(ص) قرآن کے مفسر ہیں، اسوۂ حسنہ ہیں جس کی اقتداء کی جاتی ہے لوگوں کو چاہئے کہ آپ(ص) کے احکام پر عمل کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہیں۔( ۲ )

مگر افسوس عہد رسول(ص) کے بعد اور اوائل کے خلفاء کے زمانہ میں سنت نبی بہت سخت حالات سے گذری ہے ابو بکر و عمر نے حدیث رسول(ص) کی تدوین پر پابندی لگا دی تھی اور جو حدیثیں بعض صحابہ نے جمع کر لی تھیں انہیں ان دونوںنے یہ کہہ کر نذرِ آتش کر دیا تھا کہ تدوین حدیث اور اس کے اہتمام سے لوگ رفتہ رفتہ قرآن سے غافل ہو جائیں گے، یا حدیث و قرآن میں التباس کی وجہ سے قرآن ضائع ہو جائیگا۔

لیکن اہل بیت ، ان کے شیعوں اور بہت سے مسلمانوں نے قرآن مجید سے درس لیتے ہوئے حدیث کا ویسا ہی احترام کیا جیسا کہ اس کا حق تھاچنانچہ انہوںنے اسے حفظ کرنے زبانی بیان کرنے اور حکومت کی طرف سے تدوین پر پابندی کے باوجود اس کی تدوین کا اہتمام کیا، حدیث کی تدوین پر پابندی کا سبب جو بیان کیاجاتا ہے حقیقت میں وہ اصل سبب نہیں ہے کیونکہ بعد والے علماء اور خلفاء نے اس پر پابندی کی مخالفت کی اور تدوین حدیث کی ترغیب دلائی۔

سب سے پہلے جس نے تدوینِ حدیث کا کام شروع کیا اور اسے اہمیت دی وہ رسول(ص) کی آغوش کے پروردہ آپ(ص) کے وصی، علی بن ابی طالب ہیں جو خود فرماتے ہیں:

''و قد کنت ادخل علیٰ رسول اللّه کل یوم دخلة فیخلینی فیها ادور معه حیثما دار ۔

____________________

۱۔بقرہ: ۱۲۰ ۔

۲۔نحل:۴۴، احزاب:۲۱ ، حشر:۷۔

۲۴۳

وقد علم اصحاب رسول الله(ص) انه لم یصنع ذلک باحد من النّاس غیری...و کنت اذا سألته اجابنی و اذا سکتّ وفنیت مسائلی ابدأنی، فما نزلت علیٰ رسول اللّه آیة من القرآن الا اقرانیها و املاها علیّ فکتبتها بخطی و علّمنی تاویلها و تفسیرها... و ما ترک شیئاً علّمه اللّٰه من حلال ولا حرام ولا امر ولا نهی کان او یکون منزلاً علیٰ احد قبله من طاعة او معصیة الا علمنیها و حفظته فلم انس حرفاً واحداً...'' ( ۱ )

میں ہر روزایک مرتبہ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اس وقت آپ(ص) صرف مجھے اپنے پاس رکھتے تھے، چنانچہ جہاں وہ جاتے میں بھی وہیں جاتا تھا، رسول(ص) کے اصحاب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیںکہ رسول(ص) نے میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا...جب میں آپ(ص) سے سوال کرتا تھا تو آپ(ص) مجھے جواب دیتے تھے اور جب میرا سوال ختم ہو جاتا تھا اور میں خاموش ہو جاتا تھا تو آپ(ص) اپنی طرف سے سلسلہ کا آغاز کرتے تھے ، رسول(ص) پر جو آیت نازل ہوتی تھی اس کی تعلیم آپ(ص) مجھے دیتے تھے اور مجھے اس کا املا کراتے تھے اور میں اسے اپنے ہاتھ سے لکھ لیتا تھا اور مجھے اس کی تاویل و تفسیر کی تعلیم دیتے تھے... حلال و حرام امر و نہی اور جو ہو چکاہے یا ہوگا یا آپ(ص) سے پہلے کسی پر اطاعت و معصیت کے بارے میں نازل ہونے والی چیز کا جو علم خدا نے آپ کوعطا کیا تھاوہ سب آپ(ص) نے مجھے سکھایا اور میں نے اسے یاد کر لیا اور اس میںسے میں ایک حرف بھی نہیں بھولا ہوں۔

حضرت علی نے رسول(ص) کے املا کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کانام جامعہ یا صحیفہ ہے۔

ابوعباس نجاشی ، متوفی-۴۵۰ھ-کہتے ہیں: ہمیں محمد بن جعفر-نحوی تمیمی نے جو نجاشی کے شیخ تھے- عذافر صیرفی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: میں حکم بن عتیبہ کے ساتھ ابو جعفر-امام محمد باقر -کی خدمت میں حاضر تھا اس نے ابو جعفر سے سوال کیا وہ ان کی بہت تعظیم و عزت کرتا تھا لیکن کسی چیز کے بارے میں دونوں میں اختلاف ہو گیا تو ابو جعفر نے فرمایا: بیٹا! ذرا میرے جد حضرت علی کی کتاب نکالو:

____________________

۱۔ بصائر الدرجات: ۱۹۸، کافی ج۱ ص ۶۲و ۶۳۔

۲۴۴

انہوں نے کتاب نکالی وہ عظیم کتاب لپٹی ہوئی تھی، ابو جعفر اسے لیکر دیکھنے لگے یہاں تک کہ اس مسئلہ کو نکال لیا اور فرمایا: یہ حضرت علی کی تحریر اور رسول(ص) کا املا ہے پھر حکم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا؛ اے ابو محمد، سلمہ اور ابو المقدام تم ادھر ادھر جہاں چاہو چلے جائو خدا کی قسم تمہیں کسی قوم کے پاس اس سے بہتر علم نہیں ملے گا ان پر جبریل نازل ہوتے تھے۔( ۱ )

ابراہیم بن ہاشم نے امام محمد باقر کی طرف نسبت دیتے ہوئے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:'' فی کتاب علی کل شیء یحتاج الیہ حتی ارش الخدش''۔( ۲ )

حضرت علی کی کتاب میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک خراش کا جرمانہ بھی لکھا ہوا ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے علی کا جامعہ یا صحیفہ آپ کی دوسری تدوین ہے جو کھال پر لکھا ہوا ہے ، اس کا طول ستر ہاتھ ہے ۔

ابو بصیر سے روایت ہے کہ انہوںنے امام جعفر صادق سے کچھ دریافت کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:''ان عندنا الجامعة ، صحیفة طولها سبعون ذراعاً بذراع رسول اللّه و املائه فلق فیه و خط علی، بیمینه فیها کل حلال و حرام و کل شیء یحتاج الیه النّاس حتی الارش فی الخدش'' ۔( ۳ )

ہمارے پاس جامعہ ہے ، یہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول ، رسول(ص) کے ہاتھ کے لحاظ سے، ستّر ہاتھ ہے، یہ رسول نے املا لکھوایا ہے اورعلی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔اس میں حلال و حرام کی تفصیل اور ہر اس چیز کاحکم و بیان ہے جس کی لوگوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک کہ اس میںایک معمولی خراش کی دیت بھی لکھی ہوئی ہے ۔

____________________

۱۔ تاریخ التشریع الاسلامی ص ۳۱۔

۲۔ ایضاً ص ۳۲۔

۳۔ ایضاًص۳۳۔

۲۴۵

یہ ہے سنت کے سلسلہ میں اہل بیت کا موقف۔

لیکن شیخین کے عہدِ خلافت میں حکومت کے موقف سے بہت ہی منفی آثار مترتب ہوئے کیونکہ سو سال تک تدوین سنت سے متعلق کوئی کام نہیں ہو سکا اس موقف کی وجہ سے بہت سی حدیثیں ضائع ہو گئیں اور مسلمانوں کے ثقافتی اسناد و مصادر میں اسرائیلیات داخل ہو گئے اور قیاس و استحسان کا دروازہ پوری طرح کھل گیا اور وہ بھی تشریع و قانون کے مصدروں میں سے ایک مصدر شمار ہونے لگا بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے سنت نبوی پر مقدم کیا ہے کیونکہ بہت سے نصوص علمی تنقید کی رو سے صحیح نہیںمعلوم ہوتے تھے لیکن اس سے اہل سنت کے نزدیک رسول(ص) کی صحیح حدیثیں بھی مخدوش ہو گئیں چنانچہ وہ حدیثیں زمانۂ مستقبل میں اس چیز کو بھی پورا نہیں کر سکیں جس کی امت کو احتیاج تھی۔

لیکن اہل بیت نے اس تباہ کن رجحان کا مقابلہ پوری طاقت سے کیا اور سنت نبوی (ص) کو مومنین کے نزدیک ضائع نہیں ہونے دیا انہوں نے اپنی امامت و خلافت کے اقتضاء کے مطابق اس کی توجیہ کی کیونکہ زمام دار منصوص امام و خلیفہ ہی ہوتا ہے اور وہی شریعت اور اس کی نصوص کو ضائع ہونے سے بچا تاہے ۔

سنت نبوی کی تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سنت کے ان مصادر کا مطالعہ کرے جو اہل بیت اور ان کا اتباع کرنے والوں کے پاس ہیں کیونکہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔

اہل بیت کے پاس جو سنت ہے وہ عقیدے ، فقہ اور اخلاق و تربیت کے تمام ابواب پر حاوی ہے اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت بشریت کو زندگی میں پڑ سکتی ہے۔

اس حقیقت کی تصریح رسول(ص) کے نواسہ حضرت امام جعفر صادق نے اس طرح کی ہے : ''ما من شیء الا و فیہ کتاب او سنة''۔( ۱ )

کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود نہ ہو۔

____________________

۱۔ الکافی ج۱ ص۴۸۔

۲۴۶

سید المرسلین (ص) کی علمی میراث کے چند نمونے

۱۔ عقل و علم

۱۔رسول(ص) نے عقل کو بہت زیادہ اہمت دی ہے ، آپ(ص) نے اس کو پہچنوایا اور زندگی میں اس کے اثر و کردار کو بھی بیان کیا ہے یعنی ذمہ داری وفرائض، کام اور اس کی جزاء کی وضاحت کی ہے اسی طرح ان اسباب کو بھی بیان کیا ہے جن سے عقل میں رشد و تکامل پیدا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں:

''ان العقل عقال من الجهل،و النفس مثل اخبث الدواب، فان لم یعقل حارت، فالعقل عقال من الجهل، و ان اللّه خلق العقل، فقال له: اقبل فاقبل، و قال له : ادبر فادبر، فقال له الله تبارک و تعالیٰ: و عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً اعظم منک ولا اطوع منک، بک ابدی و اعید، لک الثواب و علیک العقاب''

فتشعب من العقل الحلم و من الحلم العلم، و من العلم الرشد، و من الرشد العفاف، و من العفاف الصیانة، و من الصیانة الحیائ، ومن الحیاء الرزانة و من الرزانة المداومة علیٰ الخیر، و کراهیة الشر، و من کراهیة الشر طاعة الناصح

فهذه عشرة اصناف من انواع الخیر، و لکل واحد من هذه العشرة الاصناف عشرة انواع...''( ۱ )

____________________

۱۔ تحف العقول باب مواعظ النبی و حکمہ۔

۲۴۷

عقل جہالت و نادانی کے لئے زنجیر ہے اور نفس پلید ترین جانور کے مانند ہے اگر اسے باندھا نہیں جائے گا تووہ بے قابو ہو جائے گا، لہذا عقل نادانی کے لئے زنجیر ہے ۔ بیشک خدا نے عقل کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا: آگے بڑھ تووہ آگے بڑھی، کہا: پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹ گئی تو خدا وند عالم نے فرمایا: میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میںنے تجھ سے عظیم اور تجھ سے زیادہ اطاعت گذار کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے ۔ تجھ سے ابتداکی ہے اور تیرے ہی ذریعہ لوٹائوںگا۔ تیرے لئے ثواب دیا ہے او رتیری مخالفت کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔

پھر عقل سے بردباری و جود میں آئی اور برد باری سے علم پیدا ہوا اور علم سے رشدو ہدایت و حق جوئی نے جنم لیا اور رشد سے پاک دامنی پیدا ہوئی اور عفت و پاکدامنی سے صیانت -بچائو اور تحفظ کا جذبہ ابھرا، صیانت سے حیا پیدا ہوئی اور حیاء سے سنجیدگی اور وقار نے وجود پایا، سنجیدگی سے نیک کام پر مداومت کرنے اور شر سے نفرت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور شر سے کراہت کرنے سے ناصح کی ا طاعت کا شوق پیدا ہوا۔

چنانچہ خیر و نیکی کی یہ دس قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی دس قسمیں اور دس صنفیں ہیں...

۲۔رسول(ص) نے زندگی میں علم کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس کی اہمیت بتائی ہے اور تمام کمالات کے مقابلہ میں اس کی قدر و قیمت پر زور دیا ہے :

''طلب العلم فریضه علیٰ کل مسلم، فاطلبوا العلم من مظانه، و اقتبسوه من اهله ، فان تعلیمه للّه حسنة، و طلبه عبادة، و المذاکرة به تسبیح، و العمل به جهاد، و تعلیمه من لا یعلمه صدقة، و بذله لاهله قربة الیٰ اللّٰه تعالیٰ؛ لانه معالم الحلال و الحرام، و منار سبل الجنة، و المؤنس فی الوحشة، و الصاحب فی الغربة و الوحدة، و المحدث فی الخلوة، و الدلیل علی السراء و الضرائ، و السلاح علیٰ الاعداء ، و الزین عند الاخلائ یرفع اللّه به اقواماً، فیجعلهم فی الخیر قادة، تقتبس آثار هم، و یهتدی بفعالهم، و ینتهی الیٰ رایهم، و ترغب الملائکة فی خلتهم ۔

۲۴۸

باجنحتها تمسحهم، و فی صلاتها تبارک علیهم یستغفر لهم کل رطب و یابس، حتی حیتان البحر و هوامه، و سباع البر و انعامه ان العلم حیاة القلوب من الجهل، و ضیاء الابصار من الظلمة، و قوة الابدان من الضعف یبلغ بالعبد منازل الاخیار، و مجالس الابرار، والدرجات العلی فی الدنیا والآخرة الذکر فیه یعدل بالصیام، و مدارسته بالقیام به یطاع الرب ، و به توصل الارحام، و به یعرف الحلال و الحرام العلم امام العمل و العمل تابعه یلهمه السعداء ، و یحرمه الاشقیائ، فطوبی لمن لم یحرمه اللّٰه منه حظه

و صفة العاقل ان یحلم عمّن جهل علیه، و یتجاوز عمّن ظلمه، و یتواضع لمن هو دونه، و یسابق من فوقه ف طلب البر و اذا اراد ان یتکلم تدبّر، فان کان خیراً تکلم فغنم، و ان کان شرّاً سکت فسلم، و اذا عرضت له فتنة استعصم بالله، و امسک یده و لسانه، و اذا رأی فضیلة انتهز بها لا یفارقه الحیائ، و لا یبدو منه الحرص، فتلک عشر خصال یعرف بها العاقل

و صفة الجاهل ان یظلم من خالطه و یتعدی علیٰ من هو دونه، و یتطاول علیٰ من هو فوقه کلامه بغیر تدبر، ان تکلم اثم، و ان سکت سها، و ان عرضت له فتنة سارع الیها فاردته، و ان راء فضیلة اعرض عنها و ابطأ عنها لا یخاف ذنوبه القدیمة، ولا یرتدع فیما بق من عمره من الذنوب یتوانی عن البرّ و یبطیٔ عنه، غیر مکترث لما فاته من ذلک او ضیّعه ، فتلک عشر خصال من صفة الجاهل الذ حُرِم العقل''( ۱ )

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے پس علم کو اس کی جگہ سے حاصل کرو اور صاحب علم ہی سے علم حاصل کرو، کیونکہ خدا کے لئے تعلیم دینا نیکی ہے اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علمی بحث و مباحثہ تسبیح ہے اور اس پر عمل کرنا جہاد ہے اور نہ جاننے والے کو علم سکھانا صدقہ ہے اور اہل کے لئے اس سے خرچ کرنا تقرب خدا ک

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱ص۱۷۱ طبع موسسة الوفائ، تحف العقول: ۲۸ طبع موسسہ النشر الاسلامی۔

۲۴۹

باعث ہے ، کیونکہ اس سے حلال و حرام کی پہچان ہوتی ہے ۔ یہ جنت کے راستہ کا منارہ ہے ، وحشت میں مونس ومددگار ہے ، غربت و سفر میں رفیق و ساتھی ہے اور تنہائی میں دل بہلانے والا ہے ،خوشحالی و مصیبت میں رہنماہے ، دشمن کے خلاف ہتھیار ہے ،دوستوں کی نظر میں زینت ہے ، اس کے ذریعہ خدا نے قوموںکو بلند کیا ہے انہیں نیکی کا راہنما قرار دیا ہے ان کے آثار کو جمع کیا جاتا ہے اور افعال سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے ان کی رایوں سے آگے نہیں بڑھا جاتا، ملائکہ ان سے دوستی کا اشتیاق رکھتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں مس کرتے ہیں اور اپنی نماز میں ان کے لئے برکت کی دعا کرتے ہیں، ہر خشک و تر ان کے لئے استغفار کرتا ہے یہاں تک کہ دریا کی مچھلیاں اور اس کے جانور اورخشکی کے درندے اور چوپائے بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کی زندگی، آنکھوں کا نور اور بدن کی قوت ہے علم بندے کو اخیار کی منزلوں، ابرار کی مجالس اور دنیا وآخرت کے بلند درجات پر پہنچا دیتا ہے ۔ اس میں ذکر، روزہ کے برابر ہے اور ایک دوسرے کو پڑھکر سنانا قیام کے مانند ہے ، اس کے ذریعہ خدا کی اطاعت کی جاتی ہے صلۂ رحمی کی جاتی ہے ، اس کے وسیلہ سے حلال و حرام کی معرفت ہوتی ہے ، علم عمل کا امام ہے اور وہ اس کا تابع ہے ، اس سے نیک بخت لوگوں کو نوازا جاتا ہے ، بدبختوں کو اس سے محروم کیا جاتا ہے ، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کو خدا نے اس سے محروم نہیں کیا۔

عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ جہالت سے پیش آنے والے کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہے اور جو اس پر ظلم کرتا ہے وہ اس سے در گزر کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے کے ساتھ انکساری سے پیش آتا ہے اور نیکی کرنے میں اپنے سے بڑے پر سبقت لے جاتا ہے ۔ جب لب کشائی کرنا چاہتا ہے تو سوچ لیتا ہے اگر اس میں بھلائی ہوتی ہے تو بولتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے اور اگر بولنے میں کوئی برائی محسوس کرتا ہے تو خاموش رہتاہے اورغلطیوں سے محفوظ رہتا ہے جب اس کے سامنے کوئی امتحانی منزل آتی ہے تو وہ خدا سے لو لگاتا ہے اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں پر قابو رکھتا ہے، کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے سمیٹ لیتا ہے ، حیا سے دست کش نہیںہوتا، حرص اس میں دیکھنے میں نہیں آتی پس یہ دس خصلتیں ہیں جن کے ذریعہ عاقل پہچانا جاتا ہے ۔

۲۵۰

جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے یہ اس پر ظلم کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے پر زیادتی کرتا ہے ، اپنے بڑے کی نافرمانی کرتا ہے ، اس کے ساتھ گستاخی سے پیش آتا ہے، اسکی بات بے تکی ہوتی ہے، بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور چپ رہتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے ۔ اگر فتنہ کے روبرو ہوتا ہے تو اس کی طرف دوڑ پڑتاہے اور اسی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے ، اگر کہیں کوئی فضیلت نظر آتی ہے تو اس سے روگردانی کرتا ہے۔ اس کی طرف بڑھنے میں سستی کرتا ہے ، وہ اپنے پہلے گناہوں سے نہیں ڈرتا ہے اور باقی ماندہ عمر میں گناہ ترک نہیں کرتا نیک کام کی انجام دہی میں سستی کرتا ہے اور جو نیکی اس سے چھوٹ گئی یا ضائع ہو گئی ہے اس کی پروا نہیں کرتا ۔ یہ صفت اس جاہل کی ہے جو عقل سے محروم ہے ۔

۲۔ تشریع کے مصادر

۳۔یقینا اللہ کے رسول(ص) نے تمام لوگوں کے لئے حقیقی سعادت و کامیابی کے راستہ کی نشاندہی کی ہے سعادت کے حصول کی ضمانت لی ہے بشرطیکہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں جو آپ(ص) نے ان کے سامنے بیان کی ہیں۔ رسول(ص) کی نظر میں سعادت و کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ انسان دو بنیادی اصولوں سے تمسک کرے اوریہ اصول ایک دوسرے کے بغیر کسی کو بے نیاز نہیں کریں گے یہ ثقلین ہیں۔ رسول(ص) کا ارشاد ہے:

ایها النّاس ! انی فرطکم، و انتم واردون علیّ الحوض، الا و انّی سائلکم عن الثقلین، فانظروا: کیف تخلفونی فیهما؟ فان اللطیف الخبیر نبأنی: انهما لن یفترقا حتی یلقیانی، و سالت ربی ذلک فاعطانیه، الا و انی قد ترکتهما فیکم: کتاب الله و عترتی اهل بیتی، لا تسبقوهم فتفرقوا ولا تقصروا عنهم فتهلکوا، ولا تعلموهم، فانهم اعلم منکم

ایهالناس! لا الفینکم بعدی کفاراً!، یضرب بعضکم رقاب بعض، فتلقونی فی کتیبة عمجریٰ السیل الجرار

الا و ان علی بن ابی طالب اخی و وصیی، یقاتل بعدی علی تاویل القرآن ، کما قاتلت علی تنزیله''

۲۵۱

اے لوگو!میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض(کوثر) پر پہنچو گے اور میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کرونگا کہ میرے بعد تم نے ان دونوںکے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ مجھے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات کریں گے، میںنے اپنے رب سے اس کا سوال کیا تو اس نے مجھے عطا کر دیا، دیکھو: ان دونوں کو میں تمہارے درمیان چھوڑ ے جا رہا ہوں ( وہ ہیں) کتاب خدا اور میرے اہل بیت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا تم میں تفرقہ پڑ جائیگا اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاوگے اور انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔

اے لوگو! دیکھو! میرے بعدکافر نہ ہو جانااس طرح سے کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو تم مجھے ایک بڑے لشکر میں پائوگے ۔

آگاہ ہو جائو! علی بن ابی طالب میرے بھائی اور میرے وصی ہیں، وہ میرے بعد تاویل قرآن کے لئے ویسے ہی جنگ کریں گے جیسے میں نے اس کے نازل ہونے کے سلسلہ میں جنگ کی تھی۔

قرآن اور اس کا ممتا زکردار

۴۔ رسول(ص) نے زندگی میں قرآن کے کردار اور اس سے مکمل تمسک کرنے کی قیمت کو واضح کرتے ہوئے اس کی عظمت کو بیان کیا ہے اور پوری بشریت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :

''ایها النّاس : انکم فی دار هدنة و انتم علیٰ ظهر سفر، و السیر بکم سریع، فقد رأیتم اللیل و النهار، و الشمس و القمر، یبلیان کل جدید، و یقربان کل بعید، و یاتیان بکل وعد و وعید ، فاعدوا الجهاز لبعد المجاز انها دار بلاء و ابتلائ، و انقطاع و فناء ، فاذا التبست علیکم الامور کقطع اللیل المظلم، فعلیکم بالقرآن، فانه شافع مشفع، و ماحل مصدق من جعله امامه قاده الیٰ الجنة، و من جعله خلفه ساقه الیٰ النار، و من جعله الدلیل یدله علیٰ السبیل ۔

۲۵۲

و هو کتاب فیه تفصیل، وبیان و تحصیل هو الفصل لیس بالهزل، و له ظهر و بطن، فظاهره حکم الله، و باطنه علم الله تعالیٰ، فظاهره انیق، و باطنه عمیق،له تخوم، و علیٰ تخومه تخوم، لا تحصی عجائبه ، ولا تبلی غرائبه ، مصابیح الهدی، و منار الحکمة، و دلیل علیٰ المعرفة لمن عرف الصفة، فلیجل جالٍ بصره، و لیبلغ الصفة نظره، ینج من عطب، و یتخلص من نشب؛ فان التفکر حیاة قلب البصیر، کما یمشی المستنیر فی الظلمات بالنور، فعلیکم بحسن التخلص، و قلة التربص ۔''( ۱ )

اے لوگو! تم ابھی راحت کے گھر میں ہو، ابھی تم سفر میں ہو، تم کو تیزی سے لے جایا جا رہا ہے، تم نے رات ، دن اور چاند ، سورج کو دیکھا ہے یہ ہر نئے کو پرانا کر رہے ہیں اور ہر دور کو نزدیک کر رہے ہیں اور جس چیز کا وعدہ کیا جا چکا تھا اسے سامنے لا رہے ہیں ، تم اپنا اسباب تیار رکھو یہ منزل فنا ہے ، اس کا سلسلہ منقطع ہو جائیگا جب تم پر کالی رات کے ٹکڑوںکی طرح امور مشتبہ ہو جائیں گے اس وقت تم قرآن سے تمسک کرنا کیونکہ وہ شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی جائیگی اوراس کی شکایت بھی قبول کی جائے گی جو اسے اپنے آگے رکھتا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جاتا ہے اور جو اسے پسِ پشت قرار دیتا ہے وہ اسے جہنم میں پہنچا دیتا ہے اور جو اسے راہنما بناتا ہے تو وہ اسے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ جس میں تفصیل ہے واضح بیان اور علوم و معارف کا حصول ہے یہ قول فیصل ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ، اس کا ظاہر تو حکم ِ خدا ہے اور اس کا باطن علم خدا ہے ، اس کا ظاہر عمدہ و خوبصورت ہے اور اس کا باطن عمیق ہے، اس میں رموز ہیں بلکہ رموز در رموز ہیں اس کے عجائب کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس کے غرائب کہنہ و فرسودہ نہیں ہو سکتے ہیں اس کی ہدایت کے چراغ اور حکمت کے منارے ہیں اور جو اس کے صفات کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے دلیلِ معرفت ہے، راہرو کو چاہئے کہ اپنی آنکھ کو اس سے منورکرے اور اس کے اوصاف تک اپنی نظر پہنچائے تاکہ ہلاکت سے نجات اور جہالت سے رہائی پائے،

____________________

۱۔تفسیر العیاشی ج۱ ص ۲۔۳، کنز العمال ج۲ ص ۲۸۸، الحدیث ۴۰۲۷۔

۲۵۳

بیشک فکر و نظر دل کی بصارت ہے جیسا کہ روشنی کاطالب تاریکی میں روشنی لیکر چلتا ہے ، تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہر پستی سے نجات حاصل کرو اور توقعات کو کم رکھو۔

اہل بیت دین کے ارکان ہیں

۵۔ رسول(ص) نے ثقل کبیر، اہل بیت رسول (ص)-علی اور ان کے بارہ فرزندوں کو- مختلف طریقوں سے پہچنوایا ، اپنے آخری خطبہ میں فرمایا:

''یا معشر المهاجرین و الانصار! و من حضرنی فی یومی هذا ، و فی ساعتی هذه، من الجن و الانس فلیبلغ شاهدکم الغائب: الا قد خلفت فیکم کتاب الله فیه النور، وا لهدی، و البیان، ما فرّط الله فیه من شیء ، حجة اللّه لی علیکم و خلفت فیکم العلم الاکبر، علم الدین ، و نور الهدی، وصیی: علی بن ابی طالب، الا و هو حبل اللّه، فاعتصموا به جمیعاً ، ولا تفرقوا عنه، ( و اذکروا نعمت اللّه علیکم اذ کنتم اعدائً فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمته اخواناً ) ( ۱ )

ایها النّاس ! هذا علی بن ابی طالب، کنز اللّه، الیوم وما بعد الیوم، من احبه و تولاه الیوم و ما بعد الیوم ، فقد اوفی بما عاهد علیه، و ادی ما وجب علیه، و من عاداه الیوم وما بعد الیوم ، جاء یوم القیامة اعمی و اصم، لا حجة له عند اللّه

ایها الناس! لا تاتونی غداً بالدنیا، تزفونها زفاً، و یأ تی اهل بیتی شعثاء غبرائ، مقهورین مظلومین ، تسیل دماؤهم امامکم، و بیعات الضلالة و الشوری للجهالة فی رقابکم

الا و ان هذا الامر له اصحاب و آیات، قد سمّا هم اللّه فی کتابه، و عرفتکم ، و بلغتکم ما ارسلت به الیکم، ولکنی اراکم قوماً تجهلون لا ترجعن بعدی کفاراً مرتدین،

____________________

۱۔ آل عمران:۱۰۳۔

۲۵۴

متاولین للکتاب علیٰ غیر معرفة، و تبتدعون السنة بالهوی؛ لان کل سنّة وحدیث و کلام خالف القرآن فهو ردّ و باطل

القرآن امام هدی، و له قائد یهدی الیه، و یدعو الیه بالحکمة و الموعظة الحسنة و هو ولیّ الامر بعدی، ووارث علمی و حکمتی ، و سری و علانیتی، و ما ورثه النبیون من قبلی، وانا وارث و مورث، فلا یکذّبنّکم انفسکم

ایّها النّاس! اللّه اللّه فی اهل بیتی؛ فانهم ارکان الدین ، و مصابیح الظلم ، و معدن العلم؛ علی اخی، و وارثی، و وزیری، و امینی، و القائم بامری، و الموفی بعهدی علیٰ سنتی اول النّاس بی ایماناً، و آخرهم عهداً عند الموت، و اوسطهم لی لقاء اً یوم القیامة، فلیبلّغ شاهدکم غائبکم الا و من امّ قوماً و من ام قوماً امامة عمیاء ، و فی الامة من هو اعلم فقد کفر

ایّها النّاس! و من کانت له قبلی تبعة فیما انا، و من کانت له عدة، فلیات فیها علی بن ابی طالب، فانه ضامن لذلک کلّه، حتی لا یبقی لاحد علیّ تباعة''( ۱ )

اے گروہِ مہاجرین و انصار جوبھی آج اس وقت میرے سامنے موجود ہے ، مجھے دیکھ رہا ہے اسے چاہئے غائب لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دے۔ آگاہ ہو جائو میں نے تمہارے درمیان خدا کی کتاب چھوڑی ہے، جس میں نور ، ہدایت اور بیان ہے ، اس میں خدا نے کسی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے ۔ یہ تمہارے اوپر خدا کی حجّت ہے اور میں نے تمہارے درمیان علمِ اکبر، علم دین ، نورِ ہدایت اور اپنا وصی، علی بن ابی طالب کو چھوڑا ہے ، اچھی طرح سمجھ لو کہ وہ حبل اللہ یعنی خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں سب مل کر ان کا دامن تھام لو انہیں چھوڑکر پراگندہ نہ ہو جانا۔ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جس سے اس نے تمہیں نوازا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی تو اس کی نعمت کے سبب تم ایک دوسرے کے

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۲ ص ۴۸۴ ، ۴۸۷۔

۲۵۵

بھائی بن گئے۔

اے لوگو! یہ علی بن ابی طالب آج اور بعد کے لئے خدا کا ذخیرہ ہیں جو شخص آج اور بعد میں ان سے محبت کرے گا اور ان کی پیروی کرے گا تو وہ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرے گا اور اپنے فرض کو انجام دے گا اور جس شخص نے آج اور آج کے بعد ان سے عداوت رکھی وہ قیامت کے دن اندھا اور بہرہ اٹھے گا اور خدا پر اس کی کوئی حجّت نہیںہوگی اور وہ خدا کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکے گا۔

اے لوگو! تم کل-روز قیامت- میرے پاس اس طرح نہ آنا کہ تم مال دنیا سے لدئے ہوئے ہو اور میرے اہل بیت کی غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو کہ ان کے بال گرد سے اٹے ہوئے ہوں، مظلوم و ستم دیدہ ہوں اور تمہارے ہاتھوں سے ان کا خون ٹپک رہا ہو۔ یاد رکھو کہ گمراہی و ضلالت کی بیعت اور جاہلوں کی شوریٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اس خلافت کے اہل موجود ہیں وہی خدا کی نشانیاں ہیں خدا نے اپنی کتاب میں ان کی پہچان بتا دی ہے اور میں نے ان کا تعارف کرا دیا ہے میں نے تم تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے باوجود میں تمہیں جاہل و نادان ہی دیکھ رہا ہوں۔ خبردار میرے بعد تم کافر و مرتد نہ ہوجانا اور علم و معرفت کے بغیر قرآن کی تاویل نہ کرنا اور میری سنت کو اپنی خواہش کے مطابق نہ ڈھال لینا کیونکہ ہر بدعت اور ہر وہ کام جو قرآن کے خلاف ہوتا ہے وہ باطل ہے۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کا امام ہے لیکن اس کے لئے ایک قائد ناطق کی ضرورت ہے جو اس کی طرف ہدایت کرے اور حکمت و بہترین نصیحت کے ساتھ اس کی طرف بلائے اور وہ ہے میرے بعد ولیِ امر، وہی میرے علم و حکمت کا حقدار اورمیرے اسرار کا وارث اور انبیاء کی میراث کا حامل ہے دیکھو! میں بھی وارث ہوں اور میرے بھی وارث ہیں، تمہارے نفس کہیں تمہیں دھوکا نہ دیں۔

۲۵۶

اے لوگو! میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے ڈرو! خدا سے ڈرو! دیکھو یہ دین کے ارکان و ستون ، تاریکی کے چراغ اور علم کا سر چشمہ ہیں ، علی میرے بھائی، میرے وارث، میرے وزیر، میرے امین اور میرے امور کو انجام دینے والے اور میری سنت کے مطابق میرے وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں سب سے پہلے اپنے اسلام و ایمان کا اظہار کرنے والے ہیں،یہ دمِ آخر تک میرے ساتھ رہیں گے اور روز قیامت مجھ سے ملاقات کرنے والوں میں اوسط ہیں۔ تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ میرا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جواس وقت یہاں موجود نہیں ہیں یاد رکھو کہ اگر کسی نے اندھے پن میں کسی کو اپنا امام بنا لیا اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں اس سے بہتر آدمی موجود ہے تو وہ کافر ہو گیا۔

اے لوگو! اگر کسی کے پاس میری دستاویز ہے کہ جس میں، میں ضامن ہوں یا کسی سے میرا وعدہ ہے تو وہ علی بن ابی طالب کے پاس جائے وہ میرے تمام امور کے ضامن ہیں وہ میرے ذمہ کسی کاکچھ باقی نہیں رہنے دیںگے۔

۲۵۷

۳۔ اسلامی عقیدے کے اصول

خالق کی توصیف نہیں کی جا سکتی

بیشک خالق کی توصیف اسی چیز کے ذریعہ کی جا سکتی ہے جس سے اس نے خود کو متصف کیا ہے اور اس خالق کی توصیف کیسے کی جا سکتی ہے جس نے حواس کو عاجز کر رکھا ہے کہ وہ اس کا ادراک کریں اور وہم و خیال اسے پا سکیں اور خیالات اس کو محدود کر سکیں اور آنکھیں اسے دیکھ سکیں؟ وہ اس چیز سے بلند تر ہے کہ جس سے توصیف کرنے والے اس کی توصیف کرتے ہیں، وہ قریب ہوتے ہوئے دور ہے اور دور ہوتے ہوئے قریب ہے وہ کیفیت کا خالق ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیفیت رکھتا ہے، وہ اَین(کہاں)َ کو وجود میں لانے والا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے لئے اَینَ ہے وہ کیفیت و اَینیت سے بلند ہے وہ ایک ہے ، بے نیاز ہے جیسا کہ اس نے خود کو اس سے متصف کیا ہے ۔ توصیف کرنے والے اس کے اوصاف تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے اورکوئی بھی اس کا کفو و ہمسر نہیں ہے۔

توحید کے شرائط

بندہ ''لا الٰہ الا اللہ'' کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ دل سے اس کی تصدیق کرے اس کی عظمت کا اعتراف کرے، اس عقیدہ سے لذت محسوس کرے اس کی حرمت کا خیال رکھے اگر''لا الٰہ الا اللہ'' اور اس کی عظمت کا اعتراف نہیں کرے گا تو بدعتی ہے اور اگر اس عقیدہ میں لذت نہیں محسوس کرے گا تو ریاکار ہے اوراگر اس کی حرمت کا خیال نہیں رکھے گا تو فاسق ہے ۔( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲ ص ۹۴، الکفایة، ابو المفضل شیبانی نے احمد بن مطرق بن سوار سے انہوں نے مغیرہ بن محمد بن مہلب سے انہوں نے عبد الغفار بن کثیر سے انہوں نے ابراہیم بن حمید سے انہوں نے ابو ہاشم سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہاایک یہودی رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام نعثل تھا اس نے کہا: اے محمد! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کرونگا اس کی وجہ سے میں ایک زمانہ سے پریشان ہوں اگر آپ نے ان کا جواب دیدیا تو میں اسلام قبول کرلوںگا۔ آپ(ص) نے فرمایا: اے ابو عمار جو چاہو پوچھ لو اس نے کہا: آپ اپنے رب کا تعارف کرائیں تو آپ(ص) نے بہترین انداز میں توصیف الٰہی بیان کی مگر وہ ایمان نہ لایا۔

۲۵۸

رحمتِ خدا

بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے ایک بڑا عبادت گزار اور دوسرا گناہگار ۔ ایک روز عبادت گزارنے گناہگار سے کہا: کم گناہ کیا کرو۔ اس نے کہا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ، یہاں تک کہ ایک روز عابد نے اسے گناہ کرتے ہوئے دیکھ لیا اس بنا پر اسے بڑا افسوس ہوا، اور کہنے لگا: بس کرو! اس نے جواب دیا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ۔ کیا تم کو میرا نگراں بنا کر بھیجاگیا ہے ؟ عابد نے کہا: خدا کی قسم خدا تمہیں معاف نہیں کرے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ خدا نے دونوں کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اس نے دونوں کی روحوں کو قبض کیا دونوں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئے گناہگار سے کہا گیا تم جنت میں چلے جائو، اور عابد سے ارشاد ہوا کیا تم میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر سکتے ہو؟ عرض کیا: نہیں؛ ارشاد ہوا: اسے جہنم میں لے جائو۔

نہ جبر نہ اختیار

جبراً خدا کی اطاعت نہیں کی جاتی، اوراگر اس کی معصیت کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور اپنی مملکت کے لوگوںکو اس نے بیکار نہیں چھوڑا ہے ۔ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر بندوں کو قدرت دی ہے اور اس چیز کا مالک ہے جس کا انہیں مالک بنایا ہے پھر اگر بندے اس کی اطاعت کریں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور نہ اس سے انہیں کوئی روک سکتا ہے اور اگر لوگ اس کی معصیت کریں تو وہ انہیں معصیت سے روک سکتا ہے لیکن اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو خدا اور اس کے فعل کے درمیان حائل ہو جائے اور وہ اس کام کو انجام دے جس کو وہ چاہتا تھا اور وہ اس کے فعل پر مجبو ر جائے۔( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج۷۷ ص ۱۴۰۔

۲۵۹

خاتمیت

۲۔ بیشک خدا کی اطاعت زبردستی نہیں کی جاتی اور نافرمانی سے وہ مغلوب نہیں ہوتا ہے اور بندوں کی سر پرستی سے دست بردار نہیں ہوتا ہے ، خدا ان تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے جن چیزوں پر بندوں کو قدرت دی ہے اور جو چیز ان کی ملکیت میں دیدی تھی وہ اس کا مالک ہے ۔ اگر سارے بندے مسلسل اس کی عبادت کرتے رہیں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہوگا اور اگر اس کی نافرمانی کریں گے تو وہ انہیں نافرمانی سے باز رکھ سکتا ہے اور انہیں اس کی انجام دہی سے روک سکتا ہے لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کے اور اس کے کام کے درمیان حائل ہو جائے اور اسے کام انجام نہ دینے دے بلکہ خود اسے انجام دے۔

چھہ چیزوں میں مجھے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ، مجھے جوامع الکلم عطا ہوئے ہیں۔ رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ، غنا ئم کو میرے لئے حلال کیا گیا ہے اور زمین کو میرے لئے جائے سجدہ اور طہارت کاذریعہ قرار دیا گیا ہے ، مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور مجھ پر انبیاء کے سلسلہ کو ختم کیا گیا ہے۔( ۱ )

خدا نے مجھے برگزیدہ کیا ہے

خدا وند عالم نے اولاد ابراہیم میں سے جناب اسماعیل کو منتخب کیا اور اولادِ اسماعیل میں سے بنی کنانہ کو چنا اور بنی کنانہ میں سے قریش کا انتخاب کیا اور قریش میں بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ کیا۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف الرحیم ) ( ۲ )

یقینا تمہارے پاس وہ رسول(ص) آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہے وہ تمہاری ہدایت کی حرص رکھتا ہے اور مومنوں پر مہربان و رحیم ہے ۔

____________________

۱۔بحار الانوارج۱۶ص۳۲۴۔

۲۔کلمة رسول الاعظم ص ۳۵، بحار الانوار ج۱۶ ص ۳۲۳۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296