منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140589 / ڈاؤنلوڈ: 6497
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

( مفضل حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں )

مفضل کہتے ہیں جیسے ہی صبح ہوئی میں روانہ ہوا اور اجازت لینے کے بعد آنحضرت کی خدمت میں پہونچا۔ آپ نے مجھے بیٹھنے کو کہا، میں بیٹھ گیا، پھر آپ کھڑے ہوئے اور ایک خالی کمرے کی طرف چلنے لگے، اور مجھے اپنے پیچھے آنے کو کہا میں آپ کے پیچھے چلنے لگا جیسے ہی آپ کمرے میں داخل ہوئے میں بھی آپ کی اتباع کرتا ہوا کمرے میں داخل ہوگیا، حضرت بیٹھ گئے تومیں بھی آپ کے سامنے بیٹھ گیا، آپ نے فرمایا: اے مفضل آج کی رات میرے وعدہ کے انتظار میں تم پر کافی طولانی گذری میں نے کہا جی ہاں اے میرے آقا و مولاء اس کے بعد آپ نے کلام شروع کیا، اے مفضل سب سے پہلے بھی خدا تھا اس سے پہلے کوئی چیز نہ تھی وہ باقی ہے، اس کی کوئی انتہا نہیں ہے اس کا شکر اس پر کہ جو کچھ اس نے ہم پر الہام کیا، اور جو کچھ ہمیں عطا کیا،اور خداوند عالم نے اپنے علم کے لئے ہمیں منتخب کیا اور بلند مقام عطا کیا اور اس نے اپنے علم سے ہمیں تمام مخلوقات پر فضیلت عطا کی، اور اپنی حکمت سے ہمیں اپنی تمام مخلوق پر شاہد و امین قرار دیا (مفضل کہتے ہیں) میں نے عرض کیا اے میرے آقا و مولا کیا آپ اس بات کی اجازت مرحمت فرمائیں گے کہ میں ان مطالب مشروع کو لکھ لوں۔ اور یہ کہہ کر میں نے قلم و کاغذ آمادہ کیا۔ آپ نے فرمایا مفضل لکھ لو۔

۴۱

( جہل و نادانی خلقت میں تدبیر کے انکار کا سبب )

اے مفضل: خلقت کی حقیقت اور اس کے علل و اسباب میں شک کرنے والے لوگ دراصل جاہل ہیں اور ان کی فکر ہر اس چیز کی حقیقت و حکمت کہ جسے خالق نے پید کیا مثلاً برّی ، بحری، زمینی ، پہاڑی مخلوق میں کوتاہ ہے اور یہ اپنی کم علمی اور ضعیف بصیرت کی وجہ سے اس کا انکار کرتے ہیں اور اسے جھٹلاتے ہوئے اس سے روگردانی کرتے ہیں، یہاں تک کہ وہ اشیاء کی خلقت کا بھی انکار کرتے ہیں اور اس بات کے دعویدار ہیں کہ تمام چیزیں محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں جن میں نہ کوئی ہنر مندی نہ اندازہ گیری ہے اور نہ کسی خالق ومدبر کی حکمت شامل حال ہے خداوند عالم ان صفات سے بھی بالاتر ہے جن کے ذریعہ اس کی تعریف بیان کی جاتی ہے خدا انہیں نیست ونابود کرے کہ یہ لوگ اُسے چھوڑ کر کون سے پناہ گاہ کی طرف رخ کرتے ہیں یہ لوگ گمراہی کے اندھیرے اور پریشانی کے عالم میں ان نابیناؤں کی طرح ہیں جو ایک ایسی عمارت میں داخل ہوں کہ جس کی بناوٹ محکم و زیبا ، خوبصورت فرش سے آراستہ مختلف قسم کی غذائیں، لباس اور تمام اشیاء مکمل معیار کے ساتھ انسان کی ضرورت کے مطابق ہوں۔ اور یہ لوگ اس کے اندر دائیں اور بائیں آمدورفت کرتے ہیں اس کے کمروں میں داخل و خارج ہوتے ہیںلیکن اس طرح کہ جیسے ان کی آنکھوں پر پردہ پڑا ہوا ہے کہ وہ اس عمارت کی بناوٹ و سجاوٹ اور جو کچھ اس میں مہیا و آمادہ کیا گیا اسے نہیں دیکھ پاتے افسوس ایسے لوگوں پر جو یہ جانتے ہیں کہ اس میں ہر چیز مناسب جگہ پر نصب ہے اور وہ ان تمام چیزوں کی احتیاج رکھتے ہیں اس کے باوجود وہ ان کے اغراض و مقاصد سے جاہل اور نا آگاہ ہیں اور یہ کہتے ہیں کہ یہ کس کے لئے بنی ہیں اور فوراً غصہ کی حالت میں اپنی تند وتیز زبان کو اس عمارت اور اس کے بانی کی شان میں دراز کرتے ہیں یہ حال اس طبقے کے لوگوں کا ہے جو أمر خلقت میں استعمال شدہ تدبیر کا فقط اس لئے انکار کرتے ہیں کہ ان کا ذہن اشیاء کی علت اور ان کے اسباب کے ادراک سے قاصر ہے پس وہ اس عالم میں حیرت زدہ

۴۲

ہیں اور ادہر اُدہر دیکھ رہے ہیں اور جو کچھ استحکام اور تدیر اس میں موجود ہے اسے سمجھنے سے قاصر ہیں صد حیف ایسے لوگوں پر جو اشیاء کی علت اور ان کے فوائد کو نہ جاننے کی وجہ سے اپنی تند و تیز زبان کو اس کی شان میں دراز کرتے ہیں اور یہ کہہ اٹھتے ہیں کہ جہاں محض اتفاقات کا نتیجہ ہے جیسا کہ فرقہ مانویہ(1) اور فرقہ ملحدہ(2) اور انہی کی طرح دوسرے گمراہ فرقے کہ جنہوں نے اطاعت پروردگار کو چھوڑ کر اپنے آپ کو بے بنیاد باتوں میں مشغول کر رکھا ہے۔ ایسی حالت میں ان لوگوں پر کہ جنہیں خداوند عالم نے اپنی نعمتوں کی معرفت ''اپنے دین کی ہدایت '' اور صنعت مخلوق میں فکر و تأمل کی توفیق عطا کی اور ان لوگوں نے خلقت کے رموز اور اسرار و لطائف و تدابیر اور ان نشانیوں کو جان لیا کہ جو اس کائنات میں کارفرما ہیں اور اپنے خلق کرنے والے کی طرف اشارہ کررہی ہیں۔ لازم ہے کہ وہ اپنے پیدا کرنے والے اور اپنے آقا و مولاء کا زیادہ سے زیادہ شکر ادا کریں اور اس امر میں استقامت کو ملحوظ نظر رکھیں اور اس میں اضافہ کے لئے اپنے اندر بصیرت پیدا کریں اس لئے کہ وہی تو خدا ہے کہ جس کا نام بزرگ و برتر ہے جو فرماتا ہے۔

(لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَاِن کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِی لَشَدِیْد) (3)

اگر تم نے میری نعمتوں پر شکر کیا، تو میں اس میں اضافہ کروں گا،اور اگر تم نے کفر کیا تو میرا عذاب شدید و سخت ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ ایسا دین کہ جو یہودیت ، عیسائیت، اور مجوسیت سے مل کر بنا۔

(2)۔ بے دین

(3)۔ سورہ ابراہیم آیت 7

۴۳

( وجود خدا پر پہلی دلیل )

اے مفضل: خداوند عالم کے وجود اور اس کی طہارت اور پاکیزگی پر پہلی دلیل اس جہان کا وجود اس کی آمادگی اس کے اجزاء کی بناوٹ اور اس کا نظام ہے اس لئے کہ اگر تم جہان کا جس انداز سے وہ بنا ہوا ہے مشاہدہ کرو تو قوت فکر سے اس نتیجے پر پہنچو گے کہ یہ جہان ایک مکان کی طرح ہے، جس میں وہ تمام اشیاء موجود و مہیا ہیں کہ جن کی اس کے اندر رہنے والوں کو ضرورت و احتیاج ہے جیسے آسمان کا شامیانہ مثل چھت، زمین کا بچھونا مثل فرش، ایک دوسرے سے نزدیک ستارے مثل چراغ، جواہرات و خزانے مثل ذخیرے کے ہیں خلاصہ یہ کہ ہر چیز اپنے اپنے کام کی مناسبت سے آمادہ و مہیا دکھائی دیتی ہے اور انسان اس مکان میں رہنے والا ہے مکان کی تمام مہیا و آمادہ چیزوں کو اس کے اختیار میں دے دیا گیا ہے جیسے اقسام نباتات کہ جن سے وہ اپنی بہت سی ضرورتوں کو پورا کرتا ہے، اصناف حیوانات کہ جن کے وسیلہ سے وہ بہت سے فائدوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ پس ان تمام باتوں سے یہ ثابت ہوتا کہ جہان ، تدبیر ، حکمت اور مضبوط نظام کے تحت وجود میں آیا ہے اور اس کا پیدا کرنے والا ایک ہے جس نے اس جہان کے اجزاء کی بناوٹ کو ایک دوسرے کے ساتھ مرتب و منظم کیا ہے اور وہ خدا صاحب عزت وجلالت اور پاک و پاکیزہ اور بلند ہے کہ جس کا چہرہ صاحب جلالت او ر کرامت ہے جس کے سوا کوئی دوسرا خدا نہیں ، خداوند عالم ان تمام اقوال و افکار سے بالاتر ہے جو مشرکین اور گمراہ لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں ۔

۴۴

( انسان کے اندر واضح اور روشن آیات خدا کے وجود پر دلالت کرتی ہیں )

اے مفضل اب میں تمہیں انسان کی پیدائش کے بارے میں بتاتا ہوں کہ تم اس سے عبرت حاصل کرو، اے مفضل انسان کے اندر تدبیرپرپہلی دلیل وہ حکمت ہے جو اس وقت استعمال ہوتی ہے جب وہ رحم مادر میں تین تاریکیوں (1۔ تاریکی شکم ،2۔ تاریکی رحم ، 3۔ تاریکی مشیمہ(1) ) میں لپٹا ہوا تھا،کہ جب اس کے پاس غذا کو طلب کرنے اور اذیت کو دور کرنے کے لئے کوئی چارہ وعلاج نہ تھا،نہ فائدے کو حاصل کرسکتا تھا اور نہ نقصان کو دور ، ایسی صورت میں خون حیض کے ذریعہ اُسی طرح اس کی غذا فراہم کی جاتی ہے جس طرح پانی پودوں کے لئے غذا فراہم کرتا ہے، یہ عمل اس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک اس کا جسم اور اس کی کھال اس قدر محکم اور قوی ہوجائے کہ وہ تیز اور تند ہوا کا مقابلہ کرسکے، اور اس کی آنکھیں روشنی سے مقابلہ کے لئے آمادہ ہوجائیں اسی اثناء میں درد زہ اس کی ماں کو بے چین کرتا ہے، یہ درد اس قدر بے چینی اور دباؤ کا سبب بنتا ہے کہ بچے کی ولادت ہوجاتی ہے جب بچے کی ولادت ہوچکی ہو، تو وہ خون جو رحم میں اس کی غذا فراہم کرتا تھا، اب وہی اس کے ماں کے پستانوں کی طرف جاری ہوجاتا ہے اور اس کا رنگ و ذائقہ تبدیل ہوکر دودھ کی شکل اختیار کرلیتا ہے اور یہ دودھ پہلی بہتر غذا اور بچہ کے مزاج کے عین مطابق ہے بچہ پیدائش کے وقت اپنی زبان کو اپنے منھ میں پھرا کر اور ہونٹوں کو حرکت دے کر غذا کی ضرورت کا اظہار کرتا ہے، ایسے میں اس کی ماںاپنے پستانوں کو جو دو ظروف کے مانند آویزاں ہیں اس کی طرف بڑھاتی ہے اور بچہ ایسی حالت میں جب کہ اس کا بدن نرم اور اس کی غذائی نالیاں بالکل باریک ہیں دودھ کو غذا کے طور پر ان سے حاصل کرتا

ہے، اور اس طرح نشوونما پاتا ہوا حرکت کو اپنے بدن میں میں ایجاد کرتا ہے، جس کے بعد اب اسے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بچہ دانی

۴۵

ایسی غذا کی ضرورت ہوتی ہے جو ذرا سخت ہو تاکہ اس کا جسم محکم اور قوی ہوجائے، لہٰذا غذا کو کاٹنے اور چبانے کے لئے دانت نمودار ہوتے ہیں تاکہ وہ غذا کو نرم بنائیں اور اسے نگلنے میں دشواری کا سامنا نہ کرنا پڑے، یہ بچہ اس طرح منزلیں طے کرتا ہوا حد بلوغ تک پہونچ جاتا ہے اگر وہ بچہ لڑکا ہو تو اس کے چہرے پر بال نکل آتے ہیں، یہی علامت زکوریت اور عزت مرد ہے کہ جس کے ذریعہ سے وہ طفولیت اور خواتین کی شباہت سے باہر آجاتا ہے، اور اگر یہ بچہ لڑکی ہو تو اس کا چہرہ ویسا ہی بالوں سے صاف رہتا ہے تاکہ اس کی زیبائی و درخشندگی باقی رہے کہ جو مردوں کے میلان کا سبب ہے اس لئے کہ عورت ہی کے وسیلہ سے نسل جاری و باقی رہتی ہے۔

اے مفضل۔ اس حسن تدبیرسے عبرت حاصل کرو، جوانسان کے مختلف احوال میں استعمال ہوئی ہے کیا یہ ممکن ہے کہ انسان بغیر کسی خالق و مدبر کے وجود میں آیا ہو؟ اگر جنین کو خون نہ ملتا تو وہ اس پودے کے مانند خشک سالی کا شکار ہوجاتا جس کی آبیاری نہ کی گئی ہو اور اگر جنین کو کامل ہونے کے بعد ولادت کے ذریعہ رحم کی تنگی سے نہ نکالا جاتا تو ہمیشہ رحم میں زندہ درگور ہوکر رہ جاتا، اور اسی طرح اگر ولادت کے بعد اس کے لئے دودھ کو جاری نہ کیا جاتا تو بھوک سے مرجاتا یا پھر ایسی غذاؤں کے استعمال کرنے پر مجبور ہوتا جو اس کے بدن اورصحت کے لئے مناسب نہ ہوتیں اور اگر اس وقت جبکہ وہ غلیظ اور سخت غذا کے استعمال کے قابل ہوجاتا دانت نہ نکلتے تو غذا کا چبانا اس کے لئے ناممکن ہوتا جس کے سبب اس کا نگلنا بچہ کیلئے دشواری کا باعث بنتا اور اگر وہ دودھ جو اس کی غذا تھا، ہمیشہ اس کی غذا رہتا تو اس کا جسم کبھی محکم نہ ہوتا جس کی وجہ سے وہ دشوار اور مشکل کام انجام دینے سے پرہیز کرتا، اور اس کی ماں ساری زندگی اس کی پرورش میں لگی رہتی اور یہ بات دوسرے بچوں کی پرورش میں رکاوٹ کا سبب بنتی اور اگر حد بلوغ پر پہنچنے کے بعد اس کے چہرے پر داڑھی نہ نکلتی تو ہمیشہ عورت کی شبیہ رہتا، اور وہ وقار اور جلال جو مردوں کے لئے ہے ہرگز نہ ہوتا۔

۴۶

مفضل کہتے ہیں: میں نے کہا اے میرے آقا و مولا۔ میں نے دیکھا ہے کہ بعض مردوں کے داڑھی نہیں نکلتی اور وہ اپنی سابقہ حالت پر باقی رہتے ہیں یہاں تک کہ وہ بوڑھے ہوجاتے ہیں اس میں کیا حکمت ہے؟ امام نے فرمایا: یہ ان کے اپنے کئے کا نتیجہ ہے، ورنہ خدا اپنے بندوں پر ہرگز ظلم نہیں کرتا اب ذرا بتاؤوہ کون ہے جو بچہ کی اس مرحلہ میں دیکھ بھال کرتا ہے جبکہ وہ رحم مادر میں ہے اس کے لئے ہر اس چیز کو فراہم کرتا ہے ، جس کی اس بچے کو ضرورت و احتیاج ہے ، سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ جس نے اسے پیدا کیا ہے، پس وہ چیز کہ جس کا وجود نہ تھا بہترین طریقہ پر وجود میں آتی ہے، اور اگر یہ بات مان بھی لی جائے کہ اس قسم کے مدبرانہ کام محض اتفاقات کا نتیجہ ہیں تو اس وقت یہ لازم آتا ہے کہ قصد و ارادہ کے ذریعہ غیر منظم کام وجود میں آئیں اس لئے کہ یہ دونوں اتفاق کی ضد ہیں اور یہ گفتار بدترین گفتار ہے اور اگر کوئی ایسا کہے بھی تو یہ کہنا اس کے جاہل ہونے کی دلیل ہے، کیونکہ اتفاق صحیح اور درست کام انجام نہیں دیتا اور نہ ہی تضاد نظم کو ایجاد کرتا ہے، خداوند عالم بلند و برتر ہے ان تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۴۷

( بچہ اگر ولادت کے وقت عاقل ہوتا تو کیا ہوتا؟ )

اے مفضل ! بچہ اگر وقت ولادت عاقل ہوتا تو منکر عالم ہوجاتا اور متحیر ہو کر رہ جاتا اور اپنی عقل کھو بیٹھتا ایسا اس لئے ہوتا کہ وہ لمحہ بہ لمحہ، روز بروز ایسی چیزوں کا مشاہدہ کرتا جن کے بارے میں وہ اطلاعات اور معلومات نہ رکھتا مثلاً مختلف حیوانات ، پرندے اور اس قسم کی دوسری عجیب و غریب مخلوق جسے اس نے اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا اس بات کو اس چیز سے سمجھ سکتے ہو کہ اگر کوئی عاقل شخص ایک شہر سے دوسرے شہر سفر کرے تو تم اسے حیران و پریشان پاؤگے، وہ شخص جلد اہل شہر کی زبان نہیں سیکھ سکتا اورنہ جلد ہی ان کے آداب و رسومات کے مطابق اپنے آپ کو ڈھال سکتا ہے ، بالکل اس کی وہی کیفیت ہے کہ جو اس کے بچپنے میں تھی جبکہ وہ غیر عاقل تھا۔اس کے علاوہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا ،تو احساس حقارت کو اپنے اندر محسوس کرتا ، ایسا اس لئے کہ وہ اپنے آپ کو دوسروں کی گود میں یا کپڑوں میں لپٹا ہوا پاتا اور وہ اپنے جسم کی نرمی اور تری اور نزاکت حفاظت کے لئے ایسی حالت میں رہنے پر مجبور ہوتا، اس کے علاوہ بچہ اگر عاقل پیدا ہوتا تو اس کے اندر وہ لذت و لطافت جو اس وقت بچے میں پائی جاتی ہے نہ ہوتی ان تمام اسباب کی وجہ سے بچہ دنیا میں غیر عاقل پیدا ہوتا ہے تاکہ وہ اشیاء کو اپنی ناقص معرفت اور ناقص ذہن کے سہارے پہچانے ، پھر تم دیکھتے ہو کہ آہستہ آہستہ اس کی معرفت پڑھتی ہے یہاں تک کہ تمام چیزوں سے مانوس ہونے لگتا ہے اور تدریجاً تمام اشیاء سے آگاہی پیدا کرتا ہوا حالت حیرانی و پریشانی سے باہر آجاتا ہے، اشیاء کو اپنی عقل کی مدد سے زندگی کے استعمال میں لاتا ہے، اور اس طرح وہ یا شکر گزاروں میں سے ہوجاتا ہے یا غافلوں میں سے اس کے علاوہ عاقل پیدا ہونے کی صورت میں دوسرے نتائج بھی برآمد ہوسکتے تھے، وہ یہ کہ اگر بچہ عاقل پیدا ہوتا تو خود اپنے پاؤں پر کھڑا ہوتا اور تربیت اولاد کی اُس لذت کو ختم کردیتا کہ جو خداوند عالم نے اس کے اندر رکھی ہے کہ ماں باپ اپنے بچوں کی صحیح تربیت کریں اور انہیں ایک صحیح نتیجے تک پہنچادیں ، یہی وہ چیز ہے جو

۴۸

فرزند پر واجب کرتی ہے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ جب وہ اس کی نوازش کہ محتاج ہوں ،نیکی کرے، ورنہ کوئی اولاد اپنے والدین سے الفت و محبت نہ رکھتی اور والدین بھی اپنی اولاد کے سلسلے میں لاپروائی سے کام لیتے اس لئے کہ اولاد اپنی تریبت میں والدین کی توجہ کی محتاج نہ رہتی اور ولادت کے وقت ہی ان سے جدا ہو جاتی، ایسی صورت میںکوئی شخص اپنے والدین کو نہ پہچانتا ،اور اس صورت میں اپنی ماں بہنوں اور دوسرے محارم سے خواستگاری کرتا، کمترین قباحت عاقل پیدا ہونے کی صورت میں یہ ہوتی یا یوں کہوں کہ بدترین اور اسے شدید رنجیدہ کرنے والی بات یہ ہوتی کہ وہ اپنی ماں کی شرم گاہ کو دیکھتا کہ جو اس کے لئے حلال نہیں، اور یہ ہرگز صحیح نہیں کہ وہ اسے دیکھے تو کیا تم نہیں دیکھتے کہ خلقت میں کس طرح ہر چیز اپنی مناسب جگہ پر موجود ہے، خلاصہ یہ کہ تمام امور چاہے وہ جزئی ہوں یا کلی خطا و لغزش سے دور ہیں۔

( بچہ کے گریہ کے فوائد )

اے مفضل بچہ کے گریہ کے فوائد کو جان لو ، کہ بچہ کے دماغ میں ایک ایسی رطوبت ہے جو اگر اس کے دماغ میں باقی رہ جائے، تو اس کے لئے بڑے نقصان کا باعث بن سکتی ہے جیسے بچہ کا اندھا ہونا اور اس قسم کے دوسرے امراض، اس کا رونا ہی اس رطوبت کو دماغ سے نیچے لانے کا سبب ہے، جس کے نتیجے میں اس کا بدن صحیح و سالم رہتا ہے ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ بچہ اپنے رونے کے فائدے سے ہم کنار ہورہا ہو، اور اس کے والدین اس سے بے خبر ہوں، اور صد در صد ان کی یہی کوشش ہو کہ بچہ خاموش ہوجائے اس لئے کہ وہ نہیں جانتے کہ بچہ کا رونا ہی اس کے حال و مستقبل کے لئے بہتر ہے ، اسی طرح کی بہت سی چیزیں ہیں کہ جن میں بے شمار فوائد پوشیدہ ہیں ، لیکن لوگ ان سے جاہل اور ملحدین ان سے بے خبر ہیں، اور اگر جان بھی لیں تو ان کے بارے میں فیصلہ کرتے وقت انصاف سے کام نہیں لیتے اور

۴۹

کہہ اٹھتے ہیں کہ ان چیزوں میں کوئی فائدہ نہیں، ہاں یہ لوگ جاہل اور ان چیزوں کے اسباب و علل سے بے خبر ہیں ، اس قسم کی بہت سی چیزیں ہیں جنہیں منکرین نہیں جاتے مگر عارفین ان سے واقفیت رکھتے ہیں، اور مخلوقات میں بہت سی ایسی چیزیں ہیں کہ جن تک منکرین نہیں پہنچ پاتے ، مگر خداوند عالم کے علم نے ان کا احاطہ کیا ہوا ہے۔

( بچہ کے منہ سے رال ٹپکنے کے فوائد )

اے مفضل وہ رال جو بچے کے منہ سے ٹپکتی ہے اس میں بھی ایک راز ہے وہ یہ کہ رال بچہ کے بدن سے اس رطوبت کو خارج کرتی ہے جس کے باقی رہ جانے سے ایک بڑے ضرر کا سامنا کرنا پڑتا ہے، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس بچے پر اس رطوبت کا غلبہ ہو جاتا ہے تو وہ رطوبت اسے دیوانگی اور اختلال عقل سے دوچار کردیتی ہے، اور اس کے علاوہ بہت سی بیماریوں جیسے فالج اور لقوہ کا سبب بنتی ہے۔ لہٰذا خداوند عالم نے اس رال کو اس طرح قرار دیا کہ وہ بچہ کے منہ سے ٹپکے تاکہ جوانی میں اس کا بدن صحیح و سالم رہے، خداوند عالم اپنے تمام بندوں پر اپنا فضل و کرم کرتا ہے، چاہے اس کے بندے اس سے بے خبر ہی کیوں نہ ہوں، اگر بندے خداوند عالم کی دی ہوئی نعمتوں کی معرفت حاصل کرلیں ، تو وہ گناہوں سے پرہیز کریں ، پاک و پاکیزہ ہے وہ ذات جس کی نعمتیں اس کے بندوں پر فراوان ہیں چاہے وہ اس کے مستحق ہوں یا نہ ہوں، خداوند عالم بلند و برتر ہے ، اُن تمام افکار سے جو کم ذہنیت کے لوگ اس کے بارے میں رکھتے ہیں۔

۵۰

( مرد و زن میں آلات جماع )

اے مفضل ، اب ذرا غور کرو کہ کس طرح سے خالق دوجہاں نے مرد و زن کیلئے ان کی مناسبت سے آلات جماع کو بنایا مرد کیلئے ایک ایسا آلہ بنایا کہ جو دراز ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے، تاکہ نطفہ رحم تک پہنچ سکے، اس لئے کہ اگر ایسا نہ ہوتا تو نطفہ کسی دوسری جگہ گر جاتا اور عورت کیلئے آلہ جماع کو ایک عمیق ظرف کی مانند خلق کیا ، کہ جہاں آب مرد و زن ملتے ہیں ، اسی عمیق ظرف میں بچہ رہتا ہے اور نشوونما پاتا ہے، اور یہ ظرف ولادت کے دن تک اس بچہ کی حفاظت کرتا ہے کیا یہ نازک و لطیف کام خداوند حکیم کی حکمت کے تحت نہیں؟

( اعضاء بدن کے کام )

اے مفضل غور کرو بدن کے اعضاء اور ان کے حسن انتخاب پر کہ دو ہاتھ کام کاج کرنے، دو پاؤں راہ چلنے ، آنکھیں راہ کو تشخیض دینے، منہ غذا کو کھانے، معدہ غذا کے ہضم کرنے، جگر خون کا تصفیہ کرنے مختلف سوراخ فضلات کے خارخ ہونے، فرج نسل کو باقی رکھنے گویا جسم کو ہر عضو کسی نہ کسی کا کے لئے خلق کیا گیا ہے، اگر تم غور وفکر اور دقت سے کام لو تو تم دیکھو گے کہ ہر چیز صحیح اور حکمت کے تحت بنائی گئی ہے۔

۵۱

( کائنات کے اُمور طبیعت کا نتیجہ نہیں ہیں )

مفضل کہتے ہیں کہ میں نے عرض کی مولا بہت سے لوگ یہ گمان کرتے ہیں کہ یہ تمام کام طبیعت انجام دیتی ہے تو آپ نے فرمایا:کہ ان لوگوں سے یہ سوال کیا جائے کہ یہ طبیعت کیا ہے؟ کیا وہ ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے یا نہیں، پس اگر وہ اس کے علم و قدرت کو ثابت کرتے ہیں تو پھر کیونکر خدا کے اثبات سے انکار کرتے ہیں باجود اس کے کہ یہ تمام کام خداوند عالم کی تدبیر کے تحت انجام پاتے ہیں اور اگر وہ کہیں کہ طبیعت ان کاموں کو بغیر علم و قدرت کے انجام دیتی ہے، تو یہ کہنا بھی ان کا غلط ہوگا اس لئے کہ تم اس کائنات میں علم و قدرت کے آثار کا مشاہدہ کرتے ہو، اور خدائے بزرگ اپنے تمام امور کو اس طبیعت کے تحت انجام دیتا ہے کہ جس سے کچھ لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ طبیعت خود مستقل طور سے ان کاموں کو انجام دیتی ہے، اور اس طرح وہ لوگ خدائے حکیم سے غافل ہوجاتے ہیں لیکن ذرا سے غور فکر کہ بعد پتہ چلتا ہے کہ یہ تمام کام خدا ہی کی طرف سے ہیں۔

( غذا کے جسم میں پہنچنے پر معدہ اور جگر کا حیرت انگیز عمل )

اے مفضل! غذا کے بدن میں پہنچنے اور اس کی تجویز پر غور کرو، جب غذا معدہ میں داخل ہوتی ہے ، تو معدہ اس غذا کو پکا کر بہت ہی باریک پردہ دار سوراخوں کے ذریعہ صاف غذا کو جگر تک پہنچاتا ہے اس لئے کہ اگر گندھی غذا جگر تک پہنچ جاتی ہے تو انسان مریض ہوجاتا ہے،کیونکہ جگر بہت ہی زیادہ نازک اور لطیف ہے،جو فضولات کو اٹھانے کی صلاحیت نہیں رکھتا، اب جگر کا کام یہ ہے کہ اس صاف غذا کو قبول کرنے کے بعد اس کو ایک خاص انداز سے خون میں تبدیل کردے جو باریک نالیوں کے ذریعہ جسم کے تمام حصوں میں پھیل جاتاہے، بالکل اسی طرح جس طرح پانی زمین پر پھیل جاتا ہے اور باقی

۵۲

کثافتیں ایک خاص تھیلی میں جمع ہو جاتی ہیں ، جو جنس صفراء میں سے ہے وہ پتے ّکی طرف اور جو جنس سودا میں سے ہے وہ تلی کی طرف روانہ ہو جاتی ہے، اور جو رطوبت باقی بچتی ہے ، وہ مثانہ کی طرف حرکت کرتی ہے ، بدن کی تدبیر و حکمت اور اس کے اعضاء کی مناسبت پر فکر کرو، جو اس کے عین مطابق ہے، اب ذرا دیکھو ان تھیلیوں کی طرف کہ انہیں کس طرح تیار کیا گیا ہے،جو اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتی ہیں کہ کثافتیں بدن میں منتشر ہو کر بدن کو مریض اور اسے ہلاکت تک پہنچادیں۔کس قدر مبارک ہے وہ ذات کہ جو محکم اور قوی ارادہ رکھتی ہے، تمام تعریفیں اس خدا کے لئے ہیںجن کا وہ لائق ہے۔

( حیات انسانی کا پہلا مرحلہ )

مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی! اے میرے آقا و مولا اب آپ میرے لئے بدن کی نشوونما اور یہ کہ وہ کس طرح حد کمال تک پہنچتا ہے، بیان فرمائیں ،آپ نے فرمایا اے مفضل ، حیات انسانی کا پہلا مرحلہ تصویر جنین ہے جہاں نہ اسے کوئی آنکھ دیکھ پاتی ہے اور نہ ہی کوئی ہاتھ اس تک پہنچ سکتا ہے، ایسی حالت میں اس کی تربیت خالق حکیم کرتا ہے یہاں تک کہ وہ تمام اعضاء جیسے عضلات ، ہڈیاں، گوشت ، چربی، پٹھے ، رگیں اور نرم ہڈیوں سے مرکب و مجہّز ہو کر باہر آتا ہے، اور جیسے ہی وہ باہر آتا ہے تو تم دیکھتے ہو کہ کس طرح اس کے اعضاء اپنی شکل و صورت پر باقی رہ کر بغیر کسی کمی و بیشی کے رشد کرتے ہیں ، اور پھر ایک خاص حد پر پہنچ کر رک جاتے ہیں، اور رشد نہیں کرتے چاہے اس شخص کی زندگی کوتاہ ہو یا طویل کیا یہ سب کام تدبیر و حکمت کے تحت نہیں ہیں؟

۵۳

( انسان کی ایک خاص فضیلت )

اے مفضل، اس صفت و فضیلت پر غور کرو، جو خداوند عالم نے اپنی تمام مخلوق میں فقط انسان کو عطا کی وہ یہ ہے کہ وہ سیدھا کھڑا ہوسکتا ہے، صحیح طریقے سے بیٹھ سکتا ہے، اور اسے ہاتھوں جیسی نعمت سے نوازا ہے، جن کے ذریعے وہ اپنے امور انجام دیتا ہے، لیکن اگر اس کے ہاتھ بھی چوپاؤں کی طرح ہوتے تو وہ ان کاموں کو انجام نہیں دے سکتا تھا۔

( حواس خمسہ کے صحیح مقامات )

اے مفضل! اب ذرا غور و فکر کرو ان حواس پر جو خداوند عالم نے انسان کو عطا کئے اور اسے اپنی تمام مخلوق میں فضیلت عطا کی، ذرا دیکھو، خداوند عالم نے آنکھوں کو سر پر کس طرح قرار دیا جیسے کوئی چراغ مینارہ پر ہو، تاکہ اشیاء کی اطلاع ممکن ہو سکے، اور انہیں نچلے اعضاء مثلاً ہاتھ پاؤں وغیرہ میں نہ رکھا تاکہ معرض آفات قرار نہ پائیں جب ہاتھ پاؤں کام میں مشغول ہوں تو یہ ہر قسم کی ضرر اور خطرہ سے محفوظ ہوں، اور نہ ہی آنکھوں کو درمیانی اعضاء جیسے شکم یا کمر پر قرار دیا کہ یہاں آنکھ کے لئے گردش کرنا دشوار ہوجاتا اور کیوں کہ اعضاء میں سر سے بہتر کوئی دوسرا عضو نہیں، لہٰذا خداوند عالم نے اسے حواس کا مرکز بنایا ہے، اور وہ ان حواس پر صومعہ(1) کے مانند ہے۔ خدا وند عالم نے انسان کیلئے پانچ مختلف حواس کو بنایا، تاکہ پانچ مختلف چیزوں کا ادراک کرسکے، آنکھیں دیکھنے کیلئے بنائی گئیں ہیں تاکہ رنگوں کو درک کرسکیں، اس لئے کہ اگر رنگ ہوتے لیکن انہیں دیکھنے کیلئے آنکھیں نہ ہوتیں تو رنگوں کا ہونا

بے فائدہ ہوتا، کان آواز سننے کیلئے بنائے گئے ہیں، اگر آواز ہوتی مگر انہیں سننے کیلئے کان نہ ہوتے تو

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ خانقاہ، یا پہاڑ کی چوٹی پر راہب کی عبادت گاہ۔

۵۴

آواز کا ہونا بے جا ہوتا، اور اسی طرح تمام حواس اور اس کے برعکس اگر دیکھنے کے لئے آنکھیں تو ہوتیں، لیکن رنگ نہ ہوتے تو ایسی صورت میں آنکھوں کا ہونا کوئی اہمیت نہ رکھتا، اسی طرح اگر کان ہوتے لیکن آواز نہ ہوتی تو کانوں کا ہونا بے محل ہوتا ، ذرا دیکھو تو کس طرح سے بعض چیزیں بعض دوسری چیزوں کو درک کرتی ہیں، اور ہر قوت ِ حس کے لئے ایک محسوس مختص ہے، کہ وہ فقط اسے درک کرے، اور ان محسوسات کیلئے دو چیزیں اور بھی ہیں جو قوت حس اور محسوس کے درمیان رابطہ ہیں، کہ اگر یہ دو چیزیں نہ ہوں تو قوت حس ہرگز محسوس کو درک نہیں کرسکتی، اور وہ دو چیزیں ، روشنی اور ہواہے۔ اس لئے کہ اگر روشنی رنگ کوآشکار نہ کرے تو آنکھ انہیں ہرگز درک نہیں کرسکتی، اسی طرح ہوا اگر آواز کو کان تک نہ پہنچاتی تو کان کبھی بھی آواز کو نہیں سن سکتے تھے کیا اب بھی صاحبان فکر کے لیے قوتِ حس ، محسوس اور ان کے روابط کے بارے میں کوئی بات پوشیدہ رہ جاتی ہے، کہ جن کے بغیر ادراک ممکن نہیں ہوتا اور یہ کہ وہ کس طرح بعض بعض کو درک کرتے ہیں ، یہ وہ تمام چیزیں ہیں کہ جو خداوند لطیف و خبیر کے قصد و ارادہ اور اس کی اندازہ گیری کے بغیر ممکن نہیں ہیں۔

( عقل ، آنکھ اور کان کی عدم موجودگی اختلال کا سبب )

اے مفضل غور و فکر کرو، اس شخص کے بارے میں کہ جو اپنی آنکھ سے محتاج ہے، کہ اس کے کاموں میں کسی قدر خلل ایجاد ہوتا ہے، کہ اپنے پاؤں کی جگہ اور اپنے آگے کی اشیاء کو نہیں دیکھ پاتا نہ وہ رنگوں کے درمیان فرق کرسکتا ہے اور نہ اچھے برے کی پہچان کرسکتا ہے اور نہ ہی وہ اس گڑھے کو دیکھ سکتا ہے کہ جس میں غفلت سے گرجاتا ہے ، اور نہ اس دشمن کو دیکھ سکتا ہے کہ جو اس پر تلوار کھینچے ہوئے ہے، اور وہ خط و کتابت لکڑی کا کام، سونے وغیرہ کا کام اور اس قسم کے دوسرے کام سے بھی محتاج ہے، ایسا شخص اگر چست نہ ہو تو اپنی جگہ پر پڑے ہوئے پتھر کی مانند ہے۔ اور اسی طرح وہ شخص جو بہرا ہو توا س کے

۵۵

کاموں میں بھی بہت زیادہ خلل ایجاد ہوتا ہے، ایسا شخص گفتگو کی لذت سے محروم رہتا ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف مجالس میں جانے سے اجتناب کرتا ہے ، اس لئے کہ ان میں شرکت اس کے لئے رنجش کاباعث ہوتی ہے ، کیونکہ وہ کسی بھی بات کو نہیں سن پاتا، اس طرح کہ جیسے وہ موجود ہی نہیں، جبکہ باوجود اس کے کہ وہ موجود ہے ، یاپھر ایسے کہ جیسے وہ مردہ ہے جب کہ وہ زندہ ہے اور اگر کوئی اپنی عقل کھو بیٹھے تو وہ چوپاؤں کی مثل ہے یا ان سے بھی بدتر، اس لے کہ چوپائے اشیاء کی تشخیص کرتے ہیں جبکہ وہ بالکل نہیں کرپاتا ، اے مفضل کیا تم نہیں دیکھتے جو اعضاء و جوارح انسان کیلئے بنائے گئے ہیں ان میں اس کے لیے کس طرح بھلائی ہے کہ اگر ان سے میں ایک بھی نہ ہوتا تو انسان کیلئے کتنی زیادہ پریشانی ہوتی ، لہٰذا اسے کامل پیدا کیا گیا اور اس کی پیدائش میں کسی بھی قسم کی کمی و زیادتی نہیں ہے، ایسا ہونا اس بات پر دلیل ہے کہ ان کی خلقت میں علم وحکمت اور قدرت سے کام لیا گیا ہے، مفضل کہتے ہیں میں نے عرض کی اے میرے مولا ، پھر کیوں بہت سے لوگ بعض اعضاء و جوارح سے محتاج ہیں، اور انہیں مختلف قسم کی تکالیف اور پریشانیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے، آپ نے فرمایا: اے مفضل ، جو شخص اس قسم کی حالت سے دوچار ہے ، یہ حالت خود اس کے لئے اور اس کے علاوہ دوسروں کے لئے اسی طرح نصیحت ہے جس طرح کوئی بادشاہ کسی کو اس کے غیر مودّب ہونے پر سزا دے تاکہ وہ سزا خود اس کے اور دوسروں کیلئے عبرت ہو ، ایسی صورت میں کوئی بادشاہ کو برا نہیں کہتا بلکہ اسے اس کام کے سلسلے میں داد و تحسین سے نوازتے ہیں ، اور اس کے اس کام کو صحیح قرار دیتے ہیں، خداوند عالم اس گروہ کو جو ان مصیبتوں میں گرفتار ہو اور ان مصیبتوں پر صبر کرے اور خدا کی اطاعت کرتا رہے تو اس قدر ثواب عطا کرے گا جس کی نتیجے میں وہ گروہ دنیا کی تمام مصیبتوں اور آفتوں کو حقیر سمجھے گا، کہ اگر اسے اس بات کا اختیار دے دیا جائے ، کہ اسے دوبارہ دنیا میں واپس پلٹایا جائے کہ یہ صحیح و سالم حالت کو قبول کرے یا اپنی سابقہ حالت کو ، تو وہ یقینا اپنی سابقہ حالت قبول کرے گا، تاکہ اس کے اجرو ثواب میں مزید اضافہ ہو۔

۵۶

( طاق اور جفت اعضائ )

اے مفضل، طاق اور جفت اعضاء کی بناوٹ پر غور وفکر کرو۔

سر : ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیں طاق پیدا کیا گیا ہے ، کہ اگر ایک سے زیادہ پیدا کیا جاتا تو اس میں انسان کیلئے کسی بھی صورت بھلائی نہ تھی، اس لئے کہ اگر انسان کے لئے ایک اور سر کا اضافہ کردیا جائے، توا س کے لئے یہ سنگینی بے فائدہ ہوگی، کیونکہ حواس کو جمع ہونے کے لئے جس مکان کی ضرورت تھی وہ ایک سر میں موجود ہے اس کے علاوہ اگر انسان دو سر رکھتا تو وہ دو حصوں میں تقسیم ہو کر رہ جاتا کہ اگر ایک سے کلام کرتا تو دوسرا یقیناخاموش رہتا ، اور اگر دونوں سے ایک ہی کلام کرتا تو دوسرا زائد اور بے فائدہ ہوتا، اور اگر ہر ایک سے جدا جدا کلام کرتا توایسی صورت میں سننے والے کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتا ہے کہ وہ کس کے کلام کی طرف توجہ دے، خلاصہ یہ کہ دو سر ہونے کی صورت میں انسان کے لئے مختلف قسم کے شبہات پیش آتے۔

ہاتھ: ان اعضاء میں سے ہے کہ جنہیںجفت پیدا کیا گیا، اگر ایک ہاتھ ہوتا تو یہ انسان کیلئے کسی بھی صورت میں بہتر نہ ہوتا جیسا کہ تم دیکھتے ہو کہ انسان کے لئے فقط ایک ہاتھ کا ہونا اس کے کاموں میں کس طرح خلل کا باعث بنتا ہے، مگر کیا تم نے نہیں دیکھا کہ، اگر بڑھئی ، مستری یا مزدورکا ایک ہاتھ شل ہوجائے تو وہ اپنے کام کو جاری نہیں رکھ سکتے ، اور اگر وہ اپنے آپ کو زحمت و مشقت میں ڈال کر اپنے کام کو جاری رکھیں تو پھر بھی وہ اپنے کام میں اس حد تک استحکام پیدا نہیں کر پاتے جیسا کہ دونوں ہاتھوں کی موجودگی میں تھا۔

۵۷

( کلام کس طرح وجود میں آتا ہے )

اے مفضل، آواز، کلام اور اس کی بناوٹ پر غور کرو، یہ حنجرہ جو نلی کے مانند ہے اس کے وسیلہ سے آواز منہ سے باہر آتی ہے اور زبان، ہونٹوں اور دانتوں کی مدد سے حروف و کلام کی صورت اختیار کرتی ہے ، کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جس شخص کے دانت نہ ہوں وہ سین کو ادا نہیں کرسکتا اور اگر کسی کے ہونٹ کٹ جائیں تو وہ فاء کا تلفظ نہیں کر پاتا، اور اگر کسی کی زبان میں سنگینی ہوتو وہ راء کو خوب ادا نہیں کرسکتا، اے مفضل، یہ پورا نظام بانسری سے شباہت رکھتا ہے، کہ حنجرہ بانسری کی نلی، پھیپھڑے مثل زق(1) کے ہیں جو ہوا کو حنجرہ تک پہنچانے کا عمل انجام دیتے ہیں، اور وہ عضلات جو پھیپھڑوں کو ہوا پیدا کرنے پر مجبور کرتے ہیں وہ ان انگلیوں کے مانند ہیں کہ جو بانسری کے سوراخوں پر رکھی ہوئی ہیں، تاکہ ہوا بانسری میں جاری رہے، اور ہونٹ اور دانت اسی طرح حروف بنانے کے عمل کو انجام دیتے ہیں جس طرح سے بانسری کے اوپر رکھی ہوئی انگلیوں کو حرکت دینے سے قصد و ارادہ کے مطابق آواز کلام میں تبدیل ہوجاتی ہے ، یہ جو میں نے صداء مخرج کو بانسری سے شباہت دی یہ محض ا س کی تعریف بیان کرنے کے لئے ورنہ یہ بانسری ہے کہ جو صداء مخرج سے شباہت رکھتی ہے یہ اعضاء کہ جن کا ذکر کیا گیا کلام کی تخلیق کے علاوہ دوسرے کام بھی انجام دیتے ہیں ، جیسے حنجرہ اس کے وسیلہ سے صاف ہوا پھیپھڑوں تک پہنچتی ہے، اورعمل تنفس کے ذریعہ جگر کو مسلسل راحت و نشاط حاصل ہوتا ہے، کہ اگر ذرا سا بھی سانس گھٹ جائے تو انسان کی ہلاکت یقینی ہے۔

زبان: جس کے ذریعے مختلف ذائقوں کو چکھا جاتا ہے ، اور ان میں سے ہر ایک کو تلخ و شیرین، کھٹے

اور پھیکے ہونے کے لحاظ سے پہچانا جاتا ہے اس کے علاوہ زبان لقمہ اور پانی کے نگلنے میں مدد دیتی ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ چمڑے کا تھیلا۔ مشک وغیرہ

۵۸

دانت : یہ غذا کو چباتے ہیں ، تاکہ وہ نرم ہوجائے اور اس کا نگلنا آسان ہو، اس کے علاوہ دانت ہونٹوں کے لئے تکیہ گاہ ہیں،جو ہونٹوں کو لٹکنے اور حالت اضطراب سے محفوظ رکھتے ہیں ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جن کے دانت گر جاتے ہیں اورہونٹ لٹک جاتے ہیں۔

ہونٹ : جن کی مدد سے پانی کو منھ میں لیا جاتا ہے تاکہ اندازہ کے مطابق پانی گلے تک پہنچے اور گھٹلی کی صورت میں نیچے اترنے کی وجہ سے انسان کیلئے درد کا باعث نہ بنے، اس کے علاوہ منھ پر دو ہونٹ مثل بند دروازے کے ہیں کہ انسان جب چاہتا ہے کھول لیتا ہے ، اور جب چاہتا ہے انہیں بند کرلیتا ہے ، ان تمام باتوں سے یہ چیز روشن ہوجاتی ہے کہ ہر عضو چند کاموں کے لئے استعمال ہوتا ہے، جس طرح سے کلہاڑی ان آلات میں سے ہے کہ جو بڑھئی کے بھی کام آتا ہے اور کھدائی کرنے والے کے بھی اور اس کے علاوہ بھی بہت سے کاموں میں استعمال ہوتا ہے۔

( دماغ کاسہ سر کے محکم حصار میں )

اے مفضل، اگر دماغ کو تمہارے سامنے کھولا جائے تو تم مشاہدہ کرو گے کہ وہ کئی تہہ بہ تہہ پردوں میں لپٹا ہو اہے، تاکہ یہ پردے دماغ کو ان آفات اور صدمات سے محفوظ رکھیںکہ جو اس میں خلل کا باعث بنتے ہیں اور کھوپڑی دماغ پر خول کی مانند ہے ، تاکہ اگر سر پر کوئی ضرب یا تکلیف پہنچے تو وہ دماغ تک رسائی نہ کرسکے اور پھر خدا نے کھوپڑی کو بالوں کے لباس سے آراستہ کیا، تاکہ وہ اسے سردی اور گرمی کے اثرات سے محفوظ رکھیں، آیا وہ کون ہے کہ جس نے دماغ کو اس قسم کے حصار میں رکھا ؟ سوائے اس کے اور کوئی نہیں جس نے اس کو پیدا کیا اور اسے منبع احساسات اور لائق حفاظت قرار دیا اس لئے کہ اس کا مرتبہ دوسرے اعضاء کی نسبت بلند ہے۔

۵۹

( آنکھوں پر غلاف چشم کا خوبصورت پردہ )

اے مفضل ، غورو فکر کرو، کہ کس طرح سے پپوٹوں کو آنکھوں پر پردہ کے مانند قرار دیا، اور یہ کہ کس طرح سے آنکھوں کو گہرائی میں رکھا، اور خوبصورت پلکوں کا اس پر سایہ کیا۔

( وہ کون ہے؟ )

اے مفضل وہ کون ہے؟ جس نے دل کو قفسہ سینہ میں محفوظ کیا ، اور پھراسے لباس محکم یعنی پردہ دل سے آراستہ کیا، اور مضبوط ،ہڈیوں ، گوشت اور اعصاب کے ذریعے سے اس کی حفاظت کی، تاکہ کوئی ضرر اس تک نہ پہنچ پائے، وہ کون ہے جس نے گلوئے انسان میں دو راستے بنائے، ایک راستہ وہ جس سے آواز باہر آتی ہے کہ جسے حلقوم کہتے ہیں جو پھیپھڑوں سے ملا ہواہے، اور دوسرا راستہ غذا کے جاری ہونے کیلئے ہے ، یہ ایک گول نلی ہے جو معدہ سے ملی ہوئی ہے، یہی نلی غذا کو معدہ تک پہنچاتی ہے پھر اُس نے حلقوم کو طبقوں کی صورت میں ترتیب دیا تاکہ غذا پھیپھڑوں تک نہ پہنچے کہ اگر غذا انسان کے پھیپھڑوں تک پہنچ جائے تو انسان ہلاک ہوجائے، وہ کون ہے؟ جس نے پھیپھڑوں کو دل کے لئے نشاط و راحت کا سبب قرار دیا جو ہمیشہ حرکت میں ہیں اور اس بات کی بالکل اجازت نہیں دیتے کہ حرارت دل میں جمع ہوکر انسان کو ہلاک کردے، وہ کون ہے؟ جس نے مجری غائط و بول میں بند قرار دیئے تاکہ یہ بند انہیں ہر وقت کے جاری ہونے سے محفوظ رکھیں، اگر ایسا نہ ہوتا تو انسان کی زندگی آلودہ ہو کررہ جاتی، اور اس قسم کے دوسرے اس قدر فائدہ ہیں کہ جنہیں اگر کوئی شمار کرنے والا شمار کرنا چاہیے تو وہ انہیں ہرگز شمار نہیں کرسکتا، اور اے مفضل ، ان فائدوں میں سے بہت سے فائدے تو ایسے ہیں کہ

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

جب ہم بطورِ خاص رسول(ص) کی اس میراث کو دیکھتے ہیں جوکہ سنی ہوئی، لکھی ہوئی اور تدوین شدہ ہے تو ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے دو حصے کریں کیونکہ ہم نے رسول(ص) کی میراث کی تعریف اس طرح کی ہے : ہر وہ چیز جو رسول(ص) نے امت اسلامیہ اور بشریت کے سامنے پیش کی ہے خواہ وہ پڑھی جانے والی ہو یا سنی جانے والی ہو، اسے میراث رسول(ص) کہتے ہیں اس لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ قرآن مجید

۲۔ حدیث شریف-سنت

یہ دونوں نعمتیں آسمانی فیض ہیں جو رسول(ص) کے واسطہ سے انسان تک پہنچی ہیں ، خدا نے وحی کے ذریعہ ان دونوں کو قلبِ محمد(ص) پر اتارا جو کہ اپنی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں ہیں۔

قرآن مجید اول تو اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ اس کا اصل کلام اور اس کا مضمون دونوں ہی خدا کی طرف سے ہے پس یہ الٰہی کلام معجزہ ہے اور اسی طرح اس کا مضمون بھی معجزہ ہے ، اس کی جمع آوری اور تدوین -جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہو چکا ہے-رسول(ص) ہی کے زمانہ میں مکمل ہو چکی تھا اور یہ کلام تواتر کے ساتھ بغیر کسی تحریف کے ہم تک پہنچا ہے ۔

ایسے تاریخی ثبوت کی کمی نہیں ہے کہ جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نصِ قرآنی کی تدوین عہد رسول(ص) ہی میں ہو چکی تھی۔ ہم یہاں قرآنی اور غیر قرآنی ثبوت پیش کرتے ہیں۔

۱۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( و قالوا اساطیر الاولین اکتتبها فهی تملی علیه بکرة و اصیلًا ) ( ۱ )

وہ کہتے ہیںکہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جن کو لکھوا لیا ہے، صبح و شام یہی ان کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔

____________________

۱۔ فرقان: ۵۔

۲۴۱

۲۔حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں:

''ما نزلت علیٰ رسول اللّه (ص) آیة من القرآن الا اقرانیها واملاها علّ فکتبتها بخطی و علّمنی تاویلها و تفسیرها ناسخها و منسوخها و محکمها و متشابهها و خاصها و عامها و دعا اللّه ان یعطینی فهمها و حفظها، فما نسیت من کتاب اللّه و علماً املا ه علّ و کتبته منذ دعا لی بمادعا'' ( ۱ )

رسول(ص) پر قرآن کی جو آیت بھی نازل ہوتی تھی آپ(ص) اسے مجھے پڑھاتے اور اس کا املا کراتے تھے اور میں اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا آپ مجھے اس کی تاویل ، تفسیر، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ،خاص و عام کی تعلیم دیتے تھے اورآپ نے خدا سے یہ دعا کی کہ خدا مجھے اسے سمجھنے اور حفظ کرنے کی صلاحیت مرحمت کرے چنانچہ جب سے رسول(ص) نے خدا سے میرے لئے دعا کی ہے اس وقت سے میں قرآن کی آیت اور ان کے لکھوائے ہوئے علم کو نہیں بھولا ہوں۔

مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول(ص) نے پورے قرآن کی تبلیغ کی ہے- پورا قرآن پہنچایا ہے -آج مسلمانوں کے پاس جو قرآن ہے یہ وہی قرآن ہے جو رسول(ص) کے عہد میں متداول تھا اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔

رہی سنت اور حدیث نبی(ص) تووہ کلام بشری ہے اور اس کامضمون خدا کا ہے اپنی کامل فصاحت کے سبب یہ ممتاز ہے ۔ اس میں رسول(ص) کی عظمت ، عصمت اور آپ(ص) کا کمال جلوہ گر ہے ۔

یہیں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید اس قانون کا پہلا مصدر اوراولین سر چشمہ ہے کہ بشر کو زندگی میں جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے خدا وند عالم فرماتا ہے:

( قل ان هدی اللّه هو الهدیٰ و لئن اتبعت اهوائهم بعد الّذی جائک من العلم مالک

____________________

۱۔ کافی ج۱ ص ۶۲ و ۶۳، کتاب فضل العلم باب اختلاف الحدیث۔

۲۴۲

من اللّه من ولی ولا نصیر ) ( ۱ )

کہہ دیجئے کہ ہدایت تو بس پروردگار ہی کی ہدایت ہے اور اگر آپ(ص) علم آنے کے بعد ان کی خواہشوں کی پیروی کریں گے تو پھر خدا کی طرف سے بچانے کے لئے نہ کوئی سرپرست ہوگا اور نہ مددگار۔

قرآن مجید ، حدیث و سنت نبی(ص) کو خدائی قوانین کے لئے دوسرا سر چشمہ قرار دیتا ہے ، یعنی سنت نبی (ص) قرآن کے بعد اس اعتبار سے قانون خدا کا سر چشمہ ہے کہ رسول(ص) قرآن کے مفسر ہیں، اسوۂ حسنہ ہیں جس کی اقتداء کی جاتی ہے لوگوں کو چاہئے کہ آپ(ص) کے احکام پر عمل کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہیں۔( ۲ )

مگر افسوس عہد رسول(ص) کے بعد اور اوائل کے خلفاء کے زمانہ میں سنت نبی بہت سخت حالات سے گذری ہے ابو بکر و عمر نے حدیث رسول(ص) کی تدوین پر پابندی لگا دی تھی اور جو حدیثیں بعض صحابہ نے جمع کر لی تھیں انہیں ان دونوںنے یہ کہہ کر نذرِ آتش کر دیا تھا کہ تدوین حدیث اور اس کے اہتمام سے لوگ رفتہ رفتہ قرآن سے غافل ہو جائیں گے، یا حدیث و قرآن میں التباس کی وجہ سے قرآن ضائع ہو جائیگا۔

لیکن اہل بیت ، ان کے شیعوں اور بہت سے مسلمانوں نے قرآن مجید سے درس لیتے ہوئے حدیث کا ویسا ہی احترام کیا جیسا کہ اس کا حق تھاچنانچہ انہوںنے اسے حفظ کرنے زبانی بیان کرنے اور حکومت کی طرف سے تدوین پر پابندی کے باوجود اس کی تدوین کا اہتمام کیا، حدیث کی تدوین پر پابندی کا سبب جو بیان کیاجاتا ہے حقیقت میں وہ اصل سبب نہیں ہے کیونکہ بعد والے علماء اور خلفاء نے اس پر پابندی کی مخالفت کی اور تدوین حدیث کی ترغیب دلائی۔

سب سے پہلے جس نے تدوینِ حدیث کا کام شروع کیا اور اسے اہمیت دی وہ رسول(ص) کی آغوش کے پروردہ آپ(ص) کے وصی، علی بن ابی طالب ہیں جو خود فرماتے ہیں:

''و قد کنت ادخل علیٰ رسول اللّه کل یوم دخلة فیخلینی فیها ادور معه حیثما دار ۔

____________________

۱۔بقرہ: ۱۲۰ ۔

۲۔نحل:۴۴، احزاب:۲۱ ، حشر:۷۔

۲۴۳

وقد علم اصحاب رسول الله(ص) انه لم یصنع ذلک باحد من النّاس غیری...و کنت اذا سألته اجابنی و اذا سکتّ وفنیت مسائلی ابدأنی، فما نزلت علیٰ رسول اللّه آیة من القرآن الا اقرانیها و املاها علیّ فکتبتها بخطی و علّمنی تاویلها و تفسیرها... و ما ترک شیئاً علّمه اللّٰه من حلال ولا حرام ولا امر ولا نهی کان او یکون منزلاً علیٰ احد قبله من طاعة او معصیة الا علمنیها و حفظته فلم انس حرفاً واحداً...'' ( ۱ )

میں ہر روزایک مرتبہ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اس وقت آپ(ص) صرف مجھے اپنے پاس رکھتے تھے، چنانچہ جہاں وہ جاتے میں بھی وہیں جاتا تھا، رسول(ص) کے اصحاب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیںکہ رسول(ص) نے میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا...جب میں آپ(ص) سے سوال کرتا تھا تو آپ(ص) مجھے جواب دیتے تھے اور جب میرا سوال ختم ہو جاتا تھا اور میں خاموش ہو جاتا تھا تو آپ(ص) اپنی طرف سے سلسلہ کا آغاز کرتے تھے ، رسول(ص) پر جو آیت نازل ہوتی تھی اس کی تعلیم آپ(ص) مجھے دیتے تھے اور مجھے اس کا املا کراتے تھے اور میں اسے اپنے ہاتھ سے لکھ لیتا تھا اور مجھے اس کی تاویل و تفسیر کی تعلیم دیتے تھے... حلال و حرام امر و نہی اور جو ہو چکاہے یا ہوگا یا آپ(ص) سے پہلے کسی پر اطاعت و معصیت کے بارے میں نازل ہونے والی چیز کا جو علم خدا نے آپ کوعطا کیا تھاوہ سب آپ(ص) نے مجھے سکھایا اور میں نے اسے یاد کر لیا اور اس میںسے میں ایک حرف بھی نہیں بھولا ہوں۔

حضرت علی نے رسول(ص) کے املا کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کانام جامعہ یا صحیفہ ہے۔

ابوعباس نجاشی ، متوفی-۴۵۰ھ-کہتے ہیں: ہمیں محمد بن جعفر-نحوی تمیمی نے جو نجاشی کے شیخ تھے- عذافر صیرفی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: میں حکم بن عتیبہ کے ساتھ ابو جعفر-امام محمد باقر -کی خدمت میں حاضر تھا اس نے ابو جعفر سے سوال کیا وہ ان کی بہت تعظیم و عزت کرتا تھا لیکن کسی چیز کے بارے میں دونوں میں اختلاف ہو گیا تو ابو جعفر نے فرمایا: بیٹا! ذرا میرے جد حضرت علی کی کتاب نکالو:

____________________

۱۔ بصائر الدرجات: ۱۹۸، کافی ج۱ ص ۶۲و ۶۳۔

۲۴۴

انہوں نے کتاب نکالی وہ عظیم کتاب لپٹی ہوئی تھی، ابو جعفر اسے لیکر دیکھنے لگے یہاں تک کہ اس مسئلہ کو نکال لیا اور فرمایا: یہ حضرت علی کی تحریر اور رسول(ص) کا املا ہے پھر حکم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا؛ اے ابو محمد، سلمہ اور ابو المقدام تم ادھر ادھر جہاں چاہو چلے جائو خدا کی قسم تمہیں کسی قوم کے پاس اس سے بہتر علم نہیں ملے گا ان پر جبریل نازل ہوتے تھے۔( ۱ )

ابراہیم بن ہاشم نے امام محمد باقر کی طرف نسبت دیتے ہوئے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:'' فی کتاب علی کل شیء یحتاج الیہ حتی ارش الخدش''۔( ۲ )

حضرت علی کی کتاب میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک خراش کا جرمانہ بھی لکھا ہوا ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے علی کا جامعہ یا صحیفہ آپ کی دوسری تدوین ہے جو کھال پر لکھا ہوا ہے ، اس کا طول ستر ہاتھ ہے ۔

ابو بصیر سے روایت ہے کہ انہوںنے امام جعفر صادق سے کچھ دریافت کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:''ان عندنا الجامعة ، صحیفة طولها سبعون ذراعاً بذراع رسول اللّه و املائه فلق فیه و خط علی، بیمینه فیها کل حلال و حرام و کل شیء یحتاج الیه النّاس حتی الارش فی الخدش'' ۔( ۳ )

ہمارے پاس جامعہ ہے ، یہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول ، رسول(ص) کے ہاتھ کے لحاظ سے، ستّر ہاتھ ہے، یہ رسول نے املا لکھوایا ہے اورعلی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔اس میں حلال و حرام کی تفصیل اور ہر اس چیز کاحکم و بیان ہے جس کی لوگوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک کہ اس میںایک معمولی خراش کی دیت بھی لکھی ہوئی ہے ۔

____________________

۱۔ تاریخ التشریع الاسلامی ص ۳۱۔

۲۔ ایضاً ص ۳۲۔

۳۔ ایضاًص۳۳۔

۲۴۵

یہ ہے سنت کے سلسلہ میں اہل بیت کا موقف۔

لیکن شیخین کے عہدِ خلافت میں حکومت کے موقف سے بہت ہی منفی آثار مترتب ہوئے کیونکہ سو سال تک تدوین سنت سے متعلق کوئی کام نہیں ہو سکا اس موقف کی وجہ سے بہت سی حدیثیں ضائع ہو گئیں اور مسلمانوں کے ثقافتی اسناد و مصادر میں اسرائیلیات داخل ہو گئے اور قیاس و استحسان کا دروازہ پوری طرح کھل گیا اور وہ بھی تشریع و قانون کے مصدروں میں سے ایک مصدر شمار ہونے لگا بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے سنت نبوی پر مقدم کیا ہے کیونکہ بہت سے نصوص علمی تنقید کی رو سے صحیح نہیںمعلوم ہوتے تھے لیکن اس سے اہل سنت کے نزدیک رسول(ص) کی صحیح حدیثیں بھی مخدوش ہو گئیں چنانچہ وہ حدیثیں زمانۂ مستقبل میں اس چیز کو بھی پورا نہیں کر سکیں جس کی امت کو احتیاج تھی۔

لیکن اہل بیت نے اس تباہ کن رجحان کا مقابلہ پوری طاقت سے کیا اور سنت نبوی (ص) کو مومنین کے نزدیک ضائع نہیں ہونے دیا انہوں نے اپنی امامت و خلافت کے اقتضاء کے مطابق اس کی توجیہ کی کیونکہ زمام دار منصوص امام و خلیفہ ہی ہوتا ہے اور وہی شریعت اور اس کی نصوص کو ضائع ہونے سے بچا تاہے ۔

سنت نبوی کی تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سنت کے ان مصادر کا مطالعہ کرے جو اہل بیت اور ان کا اتباع کرنے والوں کے پاس ہیں کیونکہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔

اہل بیت کے پاس جو سنت ہے وہ عقیدے ، فقہ اور اخلاق و تربیت کے تمام ابواب پر حاوی ہے اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت بشریت کو زندگی میں پڑ سکتی ہے۔

اس حقیقت کی تصریح رسول(ص) کے نواسہ حضرت امام جعفر صادق نے اس طرح کی ہے : ''ما من شیء الا و فیہ کتاب او سنة''۔( ۱ )

کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود نہ ہو۔

____________________

۱۔ الکافی ج۱ ص۴۸۔

۲۴۶

سید المرسلین (ص) کی علمی میراث کے چند نمونے

۱۔ عقل و علم

۱۔رسول(ص) نے عقل کو بہت زیادہ اہمت دی ہے ، آپ(ص) نے اس کو پہچنوایا اور زندگی میں اس کے اثر و کردار کو بھی بیان کیا ہے یعنی ذمہ داری وفرائض، کام اور اس کی جزاء کی وضاحت کی ہے اسی طرح ان اسباب کو بھی بیان کیا ہے جن سے عقل میں رشد و تکامل پیدا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں:

''ان العقل عقال من الجهل،و النفس مثل اخبث الدواب، فان لم یعقل حارت، فالعقل عقال من الجهل، و ان اللّه خلق العقل، فقال له: اقبل فاقبل، و قال له : ادبر فادبر، فقال له الله تبارک و تعالیٰ: و عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً اعظم منک ولا اطوع منک، بک ابدی و اعید، لک الثواب و علیک العقاب''

فتشعب من العقل الحلم و من الحلم العلم، و من العلم الرشد، و من الرشد العفاف، و من العفاف الصیانة، و من الصیانة الحیائ، ومن الحیاء الرزانة و من الرزانة المداومة علیٰ الخیر، و کراهیة الشر، و من کراهیة الشر طاعة الناصح

فهذه عشرة اصناف من انواع الخیر، و لکل واحد من هذه العشرة الاصناف عشرة انواع...''( ۱ )

____________________

۱۔ تحف العقول باب مواعظ النبی و حکمہ۔

۲۴۷

عقل جہالت و نادانی کے لئے زنجیر ہے اور نفس پلید ترین جانور کے مانند ہے اگر اسے باندھا نہیں جائے گا تووہ بے قابو ہو جائے گا، لہذا عقل نادانی کے لئے زنجیر ہے ۔ بیشک خدا نے عقل کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا: آگے بڑھ تووہ آگے بڑھی، کہا: پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹ گئی تو خدا وند عالم نے فرمایا: میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میںنے تجھ سے عظیم اور تجھ سے زیادہ اطاعت گذار کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے ۔ تجھ سے ابتداکی ہے اور تیرے ہی ذریعہ لوٹائوںگا۔ تیرے لئے ثواب دیا ہے او رتیری مخالفت کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔

پھر عقل سے بردباری و جود میں آئی اور برد باری سے علم پیدا ہوا اور علم سے رشدو ہدایت و حق جوئی نے جنم لیا اور رشد سے پاک دامنی پیدا ہوئی اور عفت و پاکدامنی سے صیانت -بچائو اور تحفظ کا جذبہ ابھرا، صیانت سے حیا پیدا ہوئی اور حیاء سے سنجیدگی اور وقار نے وجود پایا، سنجیدگی سے نیک کام پر مداومت کرنے اور شر سے نفرت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور شر سے کراہت کرنے سے ناصح کی ا طاعت کا شوق پیدا ہوا۔

چنانچہ خیر و نیکی کی یہ دس قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی دس قسمیں اور دس صنفیں ہیں...

۲۔رسول(ص) نے زندگی میں علم کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس کی اہمیت بتائی ہے اور تمام کمالات کے مقابلہ میں اس کی قدر و قیمت پر زور دیا ہے :

''طلب العلم فریضه علیٰ کل مسلم، فاطلبوا العلم من مظانه، و اقتبسوه من اهله ، فان تعلیمه للّه حسنة، و طلبه عبادة، و المذاکرة به تسبیح، و العمل به جهاد، و تعلیمه من لا یعلمه صدقة، و بذله لاهله قربة الیٰ اللّٰه تعالیٰ؛ لانه معالم الحلال و الحرام، و منار سبل الجنة، و المؤنس فی الوحشة، و الصاحب فی الغربة و الوحدة، و المحدث فی الخلوة، و الدلیل علی السراء و الضرائ، و السلاح علیٰ الاعداء ، و الزین عند الاخلائ یرفع اللّه به اقواماً، فیجعلهم فی الخیر قادة، تقتبس آثار هم، و یهتدی بفعالهم، و ینتهی الیٰ رایهم، و ترغب الملائکة فی خلتهم ۔

۲۴۸

باجنحتها تمسحهم، و فی صلاتها تبارک علیهم یستغفر لهم کل رطب و یابس، حتی حیتان البحر و هوامه، و سباع البر و انعامه ان العلم حیاة القلوب من الجهل، و ضیاء الابصار من الظلمة، و قوة الابدان من الضعف یبلغ بالعبد منازل الاخیار، و مجالس الابرار، والدرجات العلی فی الدنیا والآخرة الذکر فیه یعدل بالصیام، و مدارسته بالقیام به یطاع الرب ، و به توصل الارحام، و به یعرف الحلال و الحرام العلم امام العمل و العمل تابعه یلهمه السعداء ، و یحرمه الاشقیائ، فطوبی لمن لم یحرمه اللّٰه منه حظه

و صفة العاقل ان یحلم عمّن جهل علیه، و یتجاوز عمّن ظلمه، و یتواضع لمن هو دونه، و یسابق من فوقه ف طلب البر و اذا اراد ان یتکلم تدبّر، فان کان خیراً تکلم فغنم، و ان کان شرّاً سکت فسلم، و اذا عرضت له فتنة استعصم بالله، و امسک یده و لسانه، و اذا رأی فضیلة انتهز بها لا یفارقه الحیائ، و لا یبدو منه الحرص، فتلک عشر خصال یعرف بها العاقل

و صفة الجاهل ان یظلم من خالطه و یتعدی علیٰ من هو دونه، و یتطاول علیٰ من هو فوقه کلامه بغیر تدبر، ان تکلم اثم، و ان سکت سها، و ان عرضت له فتنة سارع الیها فاردته، و ان راء فضیلة اعرض عنها و ابطأ عنها لا یخاف ذنوبه القدیمة، ولا یرتدع فیما بق من عمره من الذنوب یتوانی عن البرّ و یبطیٔ عنه، غیر مکترث لما فاته من ذلک او ضیّعه ، فتلک عشر خصال من صفة الجاهل الذ حُرِم العقل''( ۱ )

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے پس علم کو اس کی جگہ سے حاصل کرو اور صاحب علم ہی سے علم حاصل کرو، کیونکہ خدا کے لئے تعلیم دینا نیکی ہے اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علمی بحث و مباحثہ تسبیح ہے اور اس پر عمل کرنا جہاد ہے اور نہ جاننے والے کو علم سکھانا صدقہ ہے اور اہل کے لئے اس سے خرچ کرنا تقرب خدا ک

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱ص۱۷۱ طبع موسسة الوفائ، تحف العقول: ۲۸ طبع موسسہ النشر الاسلامی۔

۲۴۹

باعث ہے ، کیونکہ اس سے حلال و حرام کی پہچان ہوتی ہے ۔ یہ جنت کے راستہ کا منارہ ہے ، وحشت میں مونس ومددگار ہے ، غربت و سفر میں رفیق و ساتھی ہے اور تنہائی میں دل بہلانے والا ہے ،خوشحالی و مصیبت میں رہنماہے ، دشمن کے خلاف ہتھیار ہے ،دوستوں کی نظر میں زینت ہے ، اس کے ذریعہ خدا نے قوموںکو بلند کیا ہے انہیں نیکی کا راہنما قرار دیا ہے ان کے آثار کو جمع کیا جاتا ہے اور افعال سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے ان کی رایوں سے آگے نہیں بڑھا جاتا، ملائکہ ان سے دوستی کا اشتیاق رکھتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں مس کرتے ہیں اور اپنی نماز میں ان کے لئے برکت کی دعا کرتے ہیں، ہر خشک و تر ان کے لئے استغفار کرتا ہے یہاں تک کہ دریا کی مچھلیاں اور اس کے جانور اورخشکی کے درندے اور چوپائے بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کی زندگی، آنکھوں کا نور اور بدن کی قوت ہے علم بندے کو اخیار کی منزلوں، ابرار کی مجالس اور دنیا وآخرت کے بلند درجات پر پہنچا دیتا ہے ۔ اس میں ذکر، روزہ کے برابر ہے اور ایک دوسرے کو پڑھکر سنانا قیام کے مانند ہے ، اس کے ذریعہ خدا کی اطاعت کی جاتی ہے صلۂ رحمی کی جاتی ہے ، اس کے وسیلہ سے حلال و حرام کی معرفت ہوتی ہے ، علم عمل کا امام ہے اور وہ اس کا تابع ہے ، اس سے نیک بخت لوگوں کو نوازا جاتا ہے ، بدبختوں کو اس سے محروم کیا جاتا ہے ، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کو خدا نے اس سے محروم نہیں کیا۔

عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ جہالت سے پیش آنے والے کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہے اور جو اس پر ظلم کرتا ہے وہ اس سے در گزر کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے کے ساتھ انکساری سے پیش آتا ہے اور نیکی کرنے میں اپنے سے بڑے پر سبقت لے جاتا ہے ۔ جب لب کشائی کرنا چاہتا ہے تو سوچ لیتا ہے اگر اس میں بھلائی ہوتی ہے تو بولتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے اور اگر بولنے میں کوئی برائی محسوس کرتا ہے تو خاموش رہتاہے اورغلطیوں سے محفوظ رہتا ہے جب اس کے سامنے کوئی امتحانی منزل آتی ہے تو وہ خدا سے لو لگاتا ہے اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں پر قابو رکھتا ہے، کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے سمیٹ لیتا ہے ، حیا سے دست کش نہیںہوتا، حرص اس میں دیکھنے میں نہیں آتی پس یہ دس خصلتیں ہیں جن کے ذریعہ عاقل پہچانا جاتا ہے ۔

۲۵۰

جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے یہ اس پر ظلم کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے پر زیادتی کرتا ہے ، اپنے بڑے کی نافرمانی کرتا ہے ، اس کے ساتھ گستاخی سے پیش آتا ہے، اسکی بات بے تکی ہوتی ہے، بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور چپ رہتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے ۔ اگر فتنہ کے روبرو ہوتا ہے تو اس کی طرف دوڑ پڑتاہے اور اسی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے ، اگر کہیں کوئی فضیلت نظر آتی ہے تو اس سے روگردانی کرتا ہے۔ اس کی طرف بڑھنے میں سستی کرتا ہے ، وہ اپنے پہلے گناہوں سے نہیں ڈرتا ہے اور باقی ماندہ عمر میں گناہ ترک نہیں کرتا نیک کام کی انجام دہی میں سستی کرتا ہے اور جو نیکی اس سے چھوٹ گئی یا ضائع ہو گئی ہے اس کی پروا نہیں کرتا ۔ یہ صفت اس جاہل کی ہے جو عقل سے محروم ہے ۔

۲۔ تشریع کے مصادر

۳۔یقینا اللہ کے رسول(ص) نے تمام لوگوں کے لئے حقیقی سعادت و کامیابی کے راستہ کی نشاندہی کی ہے سعادت کے حصول کی ضمانت لی ہے بشرطیکہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں جو آپ(ص) نے ان کے سامنے بیان کی ہیں۔ رسول(ص) کی نظر میں سعادت و کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ انسان دو بنیادی اصولوں سے تمسک کرے اوریہ اصول ایک دوسرے کے بغیر کسی کو بے نیاز نہیں کریں گے یہ ثقلین ہیں۔ رسول(ص) کا ارشاد ہے:

ایها النّاس ! انی فرطکم، و انتم واردون علیّ الحوض، الا و انّی سائلکم عن الثقلین، فانظروا: کیف تخلفونی فیهما؟ فان اللطیف الخبیر نبأنی: انهما لن یفترقا حتی یلقیانی، و سالت ربی ذلک فاعطانیه، الا و انی قد ترکتهما فیکم: کتاب الله و عترتی اهل بیتی، لا تسبقوهم فتفرقوا ولا تقصروا عنهم فتهلکوا، ولا تعلموهم، فانهم اعلم منکم

ایهالناس! لا الفینکم بعدی کفاراً!، یضرب بعضکم رقاب بعض، فتلقونی فی کتیبة عمجریٰ السیل الجرار

الا و ان علی بن ابی طالب اخی و وصیی، یقاتل بعدی علی تاویل القرآن ، کما قاتلت علی تنزیله''

۲۵۱

اے لوگو!میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض(کوثر) پر پہنچو گے اور میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کرونگا کہ میرے بعد تم نے ان دونوںکے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ مجھے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات کریں گے، میںنے اپنے رب سے اس کا سوال کیا تو اس نے مجھے عطا کر دیا، دیکھو: ان دونوں کو میں تمہارے درمیان چھوڑ ے جا رہا ہوں ( وہ ہیں) کتاب خدا اور میرے اہل بیت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا تم میں تفرقہ پڑ جائیگا اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاوگے اور انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔

اے لوگو! دیکھو! میرے بعدکافر نہ ہو جانااس طرح سے کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو تم مجھے ایک بڑے لشکر میں پائوگے ۔

آگاہ ہو جائو! علی بن ابی طالب میرے بھائی اور میرے وصی ہیں، وہ میرے بعد تاویل قرآن کے لئے ویسے ہی جنگ کریں گے جیسے میں نے اس کے نازل ہونے کے سلسلہ میں جنگ کی تھی۔

قرآن اور اس کا ممتا زکردار

۴۔ رسول(ص) نے زندگی میں قرآن کے کردار اور اس سے مکمل تمسک کرنے کی قیمت کو واضح کرتے ہوئے اس کی عظمت کو بیان کیا ہے اور پوری بشریت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :

''ایها النّاس : انکم فی دار هدنة و انتم علیٰ ظهر سفر، و السیر بکم سریع، فقد رأیتم اللیل و النهار، و الشمس و القمر، یبلیان کل جدید، و یقربان کل بعید، و یاتیان بکل وعد و وعید ، فاعدوا الجهاز لبعد المجاز انها دار بلاء و ابتلائ، و انقطاع و فناء ، فاذا التبست علیکم الامور کقطع اللیل المظلم، فعلیکم بالقرآن، فانه شافع مشفع، و ماحل مصدق من جعله امامه قاده الیٰ الجنة، و من جعله خلفه ساقه الیٰ النار، و من جعله الدلیل یدله علیٰ السبیل ۔

۲۵۲

و هو کتاب فیه تفصیل، وبیان و تحصیل هو الفصل لیس بالهزل، و له ظهر و بطن، فظاهره حکم الله، و باطنه علم الله تعالیٰ، فظاهره انیق، و باطنه عمیق،له تخوم، و علیٰ تخومه تخوم، لا تحصی عجائبه ، ولا تبلی غرائبه ، مصابیح الهدی، و منار الحکمة، و دلیل علیٰ المعرفة لمن عرف الصفة، فلیجل جالٍ بصره، و لیبلغ الصفة نظره، ینج من عطب، و یتخلص من نشب؛ فان التفکر حیاة قلب البصیر، کما یمشی المستنیر فی الظلمات بالنور، فعلیکم بحسن التخلص، و قلة التربص ۔''( ۱ )

اے لوگو! تم ابھی راحت کے گھر میں ہو، ابھی تم سفر میں ہو، تم کو تیزی سے لے جایا جا رہا ہے، تم نے رات ، دن اور چاند ، سورج کو دیکھا ہے یہ ہر نئے کو پرانا کر رہے ہیں اور ہر دور کو نزدیک کر رہے ہیں اور جس چیز کا وعدہ کیا جا چکا تھا اسے سامنے لا رہے ہیں ، تم اپنا اسباب تیار رکھو یہ منزل فنا ہے ، اس کا سلسلہ منقطع ہو جائیگا جب تم پر کالی رات کے ٹکڑوںکی طرح امور مشتبہ ہو جائیں گے اس وقت تم قرآن سے تمسک کرنا کیونکہ وہ شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی جائیگی اوراس کی شکایت بھی قبول کی جائے گی جو اسے اپنے آگے رکھتا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جاتا ہے اور جو اسے پسِ پشت قرار دیتا ہے وہ اسے جہنم میں پہنچا دیتا ہے اور جو اسے راہنما بناتا ہے تو وہ اسے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ جس میں تفصیل ہے واضح بیان اور علوم و معارف کا حصول ہے یہ قول فیصل ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ، اس کا ظاہر تو حکم ِ خدا ہے اور اس کا باطن علم خدا ہے ، اس کا ظاہر عمدہ و خوبصورت ہے اور اس کا باطن عمیق ہے، اس میں رموز ہیں بلکہ رموز در رموز ہیں اس کے عجائب کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس کے غرائب کہنہ و فرسودہ نہیں ہو سکتے ہیں اس کی ہدایت کے چراغ اور حکمت کے منارے ہیں اور جو اس کے صفات کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے دلیلِ معرفت ہے، راہرو کو چاہئے کہ اپنی آنکھ کو اس سے منورکرے اور اس کے اوصاف تک اپنی نظر پہنچائے تاکہ ہلاکت سے نجات اور جہالت سے رہائی پائے،

____________________

۱۔تفسیر العیاشی ج۱ ص ۲۔۳، کنز العمال ج۲ ص ۲۸۸، الحدیث ۴۰۲۷۔

۲۵۳

بیشک فکر و نظر دل کی بصارت ہے جیسا کہ روشنی کاطالب تاریکی میں روشنی لیکر چلتا ہے ، تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہر پستی سے نجات حاصل کرو اور توقعات کو کم رکھو۔

اہل بیت دین کے ارکان ہیں

۵۔ رسول(ص) نے ثقل کبیر، اہل بیت رسول (ص)-علی اور ان کے بارہ فرزندوں کو- مختلف طریقوں سے پہچنوایا ، اپنے آخری خطبہ میں فرمایا:

''یا معشر المهاجرین و الانصار! و من حضرنی فی یومی هذا ، و فی ساعتی هذه، من الجن و الانس فلیبلغ شاهدکم الغائب: الا قد خلفت فیکم کتاب الله فیه النور، وا لهدی، و البیان، ما فرّط الله فیه من شیء ، حجة اللّه لی علیکم و خلفت فیکم العلم الاکبر، علم الدین ، و نور الهدی، وصیی: علی بن ابی طالب، الا و هو حبل اللّه، فاعتصموا به جمیعاً ، ولا تفرقوا عنه، ( و اذکروا نعمت اللّه علیکم اذ کنتم اعدائً فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمته اخواناً ) ( ۱ )

ایها النّاس ! هذا علی بن ابی طالب، کنز اللّه، الیوم وما بعد الیوم، من احبه و تولاه الیوم و ما بعد الیوم ، فقد اوفی بما عاهد علیه، و ادی ما وجب علیه، و من عاداه الیوم وما بعد الیوم ، جاء یوم القیامة اعمی و اصم، لا حجة له عند اللّه

ایها الناس! لا تاتونی غداً بالدنیا، تزفونها زفاً، و یأ تی اهل بیتی شعثاء غبرائ، مقهورین مظلومین ، تسیل دماؤهم امامکم، و بیعات الضلالة و الشوری للجهالة فی رقابکم

الا و ان هذا الامر له اصحاب و آیات، قد سمّا هم اللّه فی کتابه، و عرفتکم ، و بلغتکم ما ارسلت به الیکم، ولکنی اراکم قوماً تجهلون لا ترجعن بعدی کفاراً مرتدین،

____________________

۱۔ آل عمران:۱۰۳۔

۲۵۴

متاولین للکتاب علیٰ غیر معرفة، و تبتدعون السنة بالهوی؛ لان کل سنّة وحدیث و کلام خالف القرآن فهو ردّ و باطل

القرآن امام هدی، و له قائد یهدی الیه، و یدعو الیه بالحکمة و الموعظة الحسنة و هو ولیّ الامر بعدی، ووارث علمی و حکمتی ، و سری و علانیتی، و ما ورثه النبیون من قبلی، وانا وارث و مورث، فلا یکذّبنّکم انفسکم

ایّها النّاس! اللّه اللّه فی اهل بیتی؛ فانهم ارکان الدین ، و مصابیح الظلم ، و معدن العلم؛ علی اخی، و وارثی، و وزیری، و امینی، و القائم بامری، و الموفی بعهدی علیٰ سنتی اول النّاس بی ایماناً، و آخرهم عهداً عند الموت، و اوسطهم لی لقاء اً یوم القیامة، فلیبلّغ شاهدکم غائبکم الا و من امّ قوماً و من ام قوماً امامة عمیاء ، و فی الامة من هو اعلم فقد کفر

ایّها النّاس! و من کانت له قبلی تبعة فیما انا، و من کانت له عدة، فلیات فیها علی بن ابی طالب، فانه ضامن لذلک کلّه، حتی لا یبقی لاحد علیّ تباعة''( ۱ )

اے گروہِ مہاجرین و انصار جوبھی آج اس وقت میرے سامنے موجود ہے ، مجھے دیکھ رہا ہے اسے چاہئے غائب لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دے۔ آگاہ ہو جائو میں نے تمہارے درمیان خدا کی کتاب چھوڑی ہے، جس میں نور ، ہدایت اور بیان ہے ، اس میں خدا نے کسی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے ۔ یہ تمہارے اوپر خدا کی حجّت ہے اور میں نے تمہارے درمیان علمِ اکبر، علم دین ، نورِ ہدایت اور اپنا وصی، علی بن ابی طالب کو چھوڑا ہے ، اچھی طرح سمجھ لو کہ وہ حبل اللہ یعنی خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں سب مل کر ان کا دامن تھام لو انہیں چھوڑکر پراگندہ نہ ہو جانا۔ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جس سے اس نے تمہیں نوازا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی تو اس کی نعمت کے سبب تم ایک دوسرے کے

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۲ ص ۴۸۴ ، ۴۸۷۔

۲۵۵

بھائی بن گئے۔

اے لوگو! یہ علی بن ابی طالب آج اور بعد کے لئے خدا کا ذخیرہ ہیں جو شخص آج اور بعد میں ان سے محبت کرے گا اور ان کی پیروی کرے گا تو وہ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرے گا اور اپنے فرض کو انجام دے گا اور جس شخص نے آج اور آج کے بعد ان سے عداوت رکھی وہ قیامت کے دن اندھا اور بہرہ اٹھے گا اور خدا پر اس کی کوئی حجّت نہیںہوگی اور وہ خدا کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکے گا۔

اے لوگو! تم کل-روز قیامت- میرے پاس اس طرح نہ آنا کہ تم مال دنیا سے لدئے ہوئے ہو اور میرے اہل بیت کی غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو کہ ان کے بال گرد سے اٹے ہوئے ہوں، مظلوم و ستم دیدہ ہوں اور تمہارے ہاتھوں سے ان کا خون ٹپک رہا ہو۔ یاد رکھو کہ گمراہی و ضلالت کی بیعت اور جاہلوں کی شوریٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اس خلافت کے اہل موجود ہیں وہی خدا کی نشانیاں ہیں خدا نے اپنی کتاب میں ان کی پہچان بتا دی ہے اور میں نے ان کا تعارف کرا دیا ہے میں نے تم تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے باوجود میں تمہیں جاہل و نادان ہی دیکھ رہا ہوں۔ خبردار میرے بعد تم کافر و مرتد نہ ہوجانا اور علم و معرفت کے بغیر قرآن کی تاویل نہ کرنا اور میری سنت کو اپنی خواہش کے مطابق نہ ڈھال لینا کیونکہ ہر بدعت اور ہر وہ کام جو قرآن کے خلاف ہوتا ہے وہ باطل ہے۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کا امام ہے لیکن اس کے لئے ایک قائد ناطق کی ضرورت ہے جو اس کی طرف ہدایت کرے اور حکمت و بہترین نصیحت کے ساتھ اس کی طرف بلائے اور وہ ہے میرے بعد ولیِ امر، وہی میرے علم و حکمت کا حقدار اورمیرے اسرار کا وارث اور انبیاء کی میراث کا حامل ہے دیکھو! میں بھی وارث ہوں اور میرے بھی وارث ہیں، تمہارے نفس کہیں تمہیں دھوکا نہ دیں۔

۲۵۶

اے لوگو! میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے ڈرو! خدا سے ڈرو! دیکھو یہ دین کے ارکان و ستون ، تاریکی کے چراغ اور علم کا سر چشمہ ہیں ، علی میرے بھائی، میرے وارث، میرے وزیر، میرے امین اور میرے امور کو انجام دینے والے اور میری سنت کے مطابق میرے وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں سب سے پہلے اپنے اسلام و ایمان کا اظہار کرنے والے ہیں،یہ دمِ آخر تک میرے ساتھ رہیں گے اور روز قیامت مجھ سے ملاقات کرنے والوں میں اوسط ہیں۔ تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ میرا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جواس وقت یہاں موجود نہیں ہیں یاد رکھو کہ اگر کسی نے اندھے پن میں کسی کو اپنا امام بنا لیا اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں اس سے بہتر آدمی موجود ہے تو وہ کافر ہو گیا۔

اے لوگو! اگر کسی کے پاس میری دستاویز ہے کہ جس میں، میں ضامن ہوں یا کسی سے میرا وعدہ ہے تو وہ علی بن ابی طالب کے پاس جائے وہ میرے تمام امور کے ضامن ہیں وہ میرے ذمہ کسی کاکچھ باقی نہیں رہنے دیںگے۔

۲۵۷

۳۔ اسلامی عقیدے کے اصول

خالق کی توصیف نہیں کی جا سکتی

بیشک خالق کی توصیف اسی چیز کے ذریعہ کی جا سکتی ہے جس سے اس نے خود کو متصف کیا ہے اور اس خالق کی توصیف کیسے کی جا سکتی ہے جس نے حواس کو عاجز کر رکھا ہے کہ وہ اس کا ادراک کریں اور وہم و خیال اسے پا سکیں اور خیالات اس کو محدود کر سکیں اور آنکھیں اسے دیکھ سکیں؟ وہ اس چیز سے بلند تر ہے کہ جس سے توصیف کرنے والے اس کی توصیف کرتے ہیں، وہ قریب ہوتے ہوئے دور ہے اور دور ہوتے ہوئے قریب ہے وہ کیفیت کا خالق ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیفیت رکھتا ہے، وہ اَین(کہاں)َ کو وجود میں لانے والا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے لئے اَینَ ہے وہ کیفیت و اَینیت سے بلند ہے وہ ایک ہے ، بے نیاز ہے جیسا کہ اس نے خود کو اس سے متصف کیا ہے ۔ توصیف کرنے والے اس کے اوصاف تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے اورکوئی بھی اس کا کفو و ہمسر نہیں ہے۔

توحید کے شرائط

بندہ ''لا الٰہ الا اللہ'' کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ دل سے اس کی تصدیق کرے اس کی عظمت کا اعتراف کرے، اس عقیدہ سے لذت محسوس کرے اس کی حرمت کا خیال رکھے اگر''لا الٰہ الا اللہ'' اور اس کی عظمت کا اعتراف نہیں کرے گا تو بدعتی ہے اور اگر اس عقیدہ میں لذت نہیں محسوس کرے گا تو ریاکار ہے اوراگر اس کی حرمت کا خیال نہیں رکھے گا تو فاسق ہے ۔( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲ ص ۹۴، الکفایة، ابو المفضل شیبانی نے احمد بن مطرق بن سوار سے انہوں نے مغیرہ بن محمد بن مہلب سے انہوں نے عبد الغفار بن کثیر سے انہوں نے ابراہیم بن حمید سے انہوں نے ابو ہاشم سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہاایک یہودی رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام نعثل تھا اس نے کہا: اے محمد! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کرونگا اس کی وجہ سے میں ایک زمانہ سے پریشان ہوں اگر آپ نے ان کا جواب دیدیا تو میں اسلام قبول کرلوںگا۔ آپ(ص) نے فرمایا: اے ابو عمار جو چاہو پوچھ لو اس نے کہا: آپ اپنے رب کا تعارف کرائیں تو آپ(ص) نے بہترین انداز میں توصیف الٰہی بیان کی مگر وہ ایمان نہ لایا۔

۲۵۸

رحمتِ خدا

بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے ایک بڑا عبادت گزار اور دوسرا گناہگار ۔ ایک روز عبادت گزارنے گناہگار سے کہا: کم گناہ کیا کرو۔ اس نے کہا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ، یہاں تک کہ ایک روز عابد نے اسے گناہ کرتے ہوئے دیکھ لیا اس بنا پر اسے بڑا افسوس ہوا، اور کہنے لگا: بس کرو! اس نے جواب دیا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ۔ کیا تم کو میرا نگراں بنا کر بھیجاگیا ہے ؟ عابد نے کہا: خدا کی قسم خدا تمہیں معاف نہیں کرے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ خدا نے دونوں کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اس نے دونوں کی روحوں کو قبض کیا دونوں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئے گناہگار سے کہا گیا تم جنت میں چلے جائو، اور عابد سے ارشاد ہوا کیا تم میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر سکتے ہو؟ عرض کیا: نہیں؛ ارشاد ہوا: اسے جہنم میں لے جائو۔

نہ جبر نہ اختیار

جبراً خدا کی اطاعت نہیں کی جاتی، اوراگر اس کی معصیت کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور اپنی مملکت کے لوگوںکو اس نے بیکار نہیں چھوڑا ہے ۔ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر بندوں کو قدرت دی ہے اور اس چیز کا مالک ہے جس کا انہیں مالک بنایا ہے پھر اگر بندے اس کی اطاعت کریں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور نہ اس سے انہیں کوئی روک سکتا ہے اور اگر لوگ اس کی معصیت کریں تو وہ انہیں معصیت سے روک سکتا ہے لیکن اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو خدا اور اس کے فعل کے درمیان حائل ہو جائے اور وہ اس کام کو انجام دے جس کو وہ چاہتا تھا اور وہ اس کے فعل پر مجبو ر جائے۔( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج۷۷ ص ۱۴۰۔

۲۵۹

خاتمیت

۲۔ بیشک خدا کی اطاعت زبردستی نہیں کی جاتی اور نافرمانی سے وہ مغلوب نہیں ہوتا ہے اور بندوں کی سر پرستی سے دست بردار نہیں ہوتا ہے ، خدا ان تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے جن چیزوں پر بندوں کو قدرت دی ہے اور جو چیز ان کی ملکیت میں دیدی تھی وہ اس کا مالک ہے ۔ اگر سارے بندے مسلسل اس کی عبادت کرتے رہیں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہوگا اور اگر اس کی نافرمانی کریں گے تو وہ انہیں نافرمانی سے باز رکھ سکتا ہے اور انہیں اس کی انجام دہی سے روک سکتا ہے لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کے اور اس کے کام کے درمیان حائل ہو جائے اور اسے کام انجام نہ دینے دے بلکہ خود اسے انجام دے۔

چھہ چیزوں میں مجھے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ، مجھے جوامع الکلم عطا ہوئے ہیں۔ رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ، غنا ئم کو میرے لئے حلال کیا گیا ہے اور زمین کو میرے لئے جائے سجدہ اور طہارت کاذریعہ قرار دیا گیا ہے ، مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور مجھ پر انبیاء کے سلسلہ کو ختم کیا گیا ہے۔( ۱ )

خدا نے مجھے برگزیدہ کیا ہے

خدا وند عالم نے اولاد ابراہیم میں سے جناب اسماعیل کو منتخب کیا اور اولادِ اسماعیل میں سے بنی کنانہ کو چنا اور بنی کنانہ میں سے قریش کا انتخاب کیا اور قریش میں بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ کیا۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف الرحیم ) ( ۲ )

یقینا تمہارے پاس وہ رسول(ص) آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہے وہ تمہاری ہدایت کی حرص رکھتا ہے اور مومنوں پر مہربان و رحیم ہے ۔

____________________

۱۔بحار الانوارج۱۶ص۳۲۴۔

۲۔کلمة رسول الاعظم ص ۳۵، بحار الانوار ج۱۶ ص ۳۲۳۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296