منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)0%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی (گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 113324
ڈاؤنلوڈ: 4170

تبصرے:

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113324 / ڈاؤنلوڈ: 4170
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

جب ہم بطورِ خاص رسول(ص) کی اس میراث کو دیکھتے ہیں جوکہ سنی ہوئی، لکھی ہوئی اور تدوین شدہ ہے تو ہمارے لئے ضروری ہو جاتا ہے کہ اس کے دو حصے کریں کیونکہ ہم نے رسول(ص) کی میراث کی تعریف اس طرح کی ہے : ہر وہ چیز جو رسول(ص) نے امت اسلامیہ اور بشریت کے سامنے پیش کی ہے خواہ وہ پڑھی جانے والی ہو یا سنی جانے والی ہو، اسے میراث رسول(ص) کہتے ہیں اس لحاظ سے اس کی دو قسمیں ہیں:

۱۔ قرآن مجید

۲۔ حدیث شریف-سنت

یہ دونوں نعمتیں آسمانی فیض ہیں جو رسول(ص) کے واسطہ سے انسان تک پہنچی ہیں ، خدا نے وحی کے ذریعہ ان دونوں کو قلبِ محمد(ص) پر اتارا جو کہ اپنی خواہش سے کچھ بولتے ہی نہیں ہیں۔

قرآن مجید اول تو اس لحاظ سے بھی ممتاز ہے کہ اس کا اصل کلام اور اس کا مضمون دونوں ہی خدا کی طرف سے ہے پس یہ الٰہی کلام معجزہ ہے اور اسی طرح اس کا مضمون بھی معجزہ ہے ، اس کی جمع آوری اور تدوین -جیسا کہ تاریخ سے ثابت ہو چکا ہے-رسول(ص) ہی کے زمانہ میں مکمل ہو چکی تھا اور یہ کلام تواتر کے ساتھ بغیر کسی تحریف کے ہم تک پہنچا ہے ۔

ایسے تاریخی ثبوت کی کمی نہیں ہے کہ جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ نصِ قرآنی کی تدوین عہد رسول(ص) ہی میں ہو چکی تھی۔ ہم یہاں قرآنی اور غیر قرآنی ثبوت پیش کرتے ہیں۔

۱۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( و قالوا اساطیر الاولین اکتتبها فهی تملی علیه بکرة و اصیلًا ) ( ۱ )

وہ کہتے ہیںکہ یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں جن کو لکھوا لیا ہے، صبح و شام یہی ان کے سامنے پڑھے جاتے ہیں۔

____________________

۱۔ فرقان: ۵۔

۲۴۱

۲۔حضرت علی بن ابی طالب فرماتے ہیں:

''ما نزلت علیٰ رسول اللّه (ص) آیة من القرآن الا اقرانیها واملاها علّ فکتبتها بخطی و علّمنی تاویلها و تفسیرها ناسخها و منسوخها و محکمها و متشابهها و خاصها و عامها و دعا اللّه ان یعطینی فهمها و حفظها، فما نسیت من کتاب اللّه و علماً املا ه علّ و کتبته منذ دعا لی بمادعا'' ( ۱ )

رسول(ص) پر قرآن کی جو آیت بھی نازل ہوتی تھی آپ(ص) اسے مجھے پڑھاتے اور اس کا املا کراتے تھے اور میں اپنے ہاتھ سے لکھتا تھا آپ مجھے اس کی تاویل ، تفسیر، ناسخ و منسوخ، محکم و متشابہ،خاص و عام کی تعلیم دیتے تھے اورآپ نے خدا سے یہ دعا کی کہ خدا مجھے اسے سمجھنے اور حفظ کرنے کی صلاحیت مرحمت کرے چنانچہ جب سے رسول(ص) نے خدا سے میرے لئے دعا کی ہے اس وقت سے میں قرآن کی آیت اور ان کے لکھوائے ہوئے علم کو نہیں بھولا ہوں۔

مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ رسول(ص) نے پورے قرآن کی تبلیغ کی ہے- پورا قرآن پہنچایا ہے -آج مسلمانوں کے پاس جو قرآن ہے یہ وہی قرآن ہے جو رسول(ص) کے عہد میں متداول تھا اس میں کسی قسم کی کمی بیشی نہیں ہوئی ہے ۔

رہی سنت اور حدیث نبی(ص) تووہ کلام بشری ہے اور اس کامضمون خدا کا ہے اپنی کامل فصاحت کے سبب یہ ممتاز ہے ۔ اس میں رسول(ص) کی عظمت ، عصمت اور آپ(ص) کا کمال جلوہ گر ہے ۔

یہیں سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ قرآن مجید اس قانون کا پہلا مصدر اوراولین سر چشمہ ہے کہ بشر کو زندگی میں جس کی ضرورت پیش آسکتی ہے خدا وند عالم فرماتا ہے:

( قل ان هدی اللّه هو الهدیٰ و لئن اتبعت اهوائهم بعد الّذی جائک من العلم مالک

____________________

۱۔ کافی ج۱ ص ۶۲ و ۶۳، کتاب فضل العلم باب اختلاف الحدیث۔

۲۴۲

من اللّه من ولی ولا نصیر ) ( ۱ )

کہہ دیجئے کہ ہدایت تو بس پروردگار ہی کی ہدایت ہے اور اگر آپ(ص) علم آنے کے بعد ان کی خواہشوں کی پیروی کریں گے تو پھر خدا کی طرف سے بچانے کے لئے نہ کوئی سرپرست ہوگا اور نہ مددگار۔

قرآن مجید ، حدیث و سنت نبی(ص) کو خدائی قوانین کے لئے دوسرا سر چشمہ قرار دیتا ہے ، یعنی سنت نبی (ص) قرآن کے بعد اس اعتبار سے قانون خدا کا سر چشمہ ہے کہ رسول(ص) قرآن کے مفسر ہیں، اسوۂ حسنہ ہیں جس کی اقتداء کی جاتی ہے لوگوں کو چاہئے کہ آپ(ص) کے احکام پر عمل کریں اور جس چیز سے روکیں اس سے باز رہیں۔( ۲ )

مگر افسوس عہد رسول(ص) کے بعد اور اوائل کے خلفاء کے زمانہ میں سنت نبی بہت سخت حالات سے گذری ہے ابو بکر و عمر نے حدیث رسول(ص) کی تدوین پر پابندی لگا دی تھی اور جو حدیثیں بعض صحابہ نے جمع کر لی تھیں انہیں ان دونوںنے یہ کہہ کر نذرِ آتش کر دیا تھا کہ تدوین حدیث اور اس کے اہتمام سے لوگ رفتہ رفتہ قرآن سے غافل ہو جائیں گے، یا حدیث و قرآن میں التباس کی وجہ سے قرآن ضائع ہو جائیگا۔

لیکن اہل بیت ، ان کے شیعوں اور بہت سے مسلمانوں نے قرآن مجید سے درس لیتے ہوئے حدیث کا ویسا ہی احترام کیا جیسا کہ اس کا حق تھاچنانچہ انہوںنے اسے حفظ کرنے زبانی بیان کرنے اور حکومت کی طرف سے تدوین پر پابندی کے باوجود اس کی تدوین کا اہتمام کیا، حدیث کی تدوین پر پابندی کا سبب جو بیان کیاجاتا ہے حقیقت میں وہ اصل سبب نہیں ہے کیونکہ بعد والے علماء اور خلفاء نے اس پر پابندی کی مخالفت کی اور تدوین حدیث کی ترغیب دلائی۔

سب سے پہلے جس نے تدوینِ حدیث کا کام شروع کیا اور اسے اہمیت دی وہ رسول(ص) کی آغوش کے پروردہ آپ(ص) کے وصی، علی بن ابی طالب ہیں جو خود فرماتے ہیں:

''و قد کنت ادخل علیٰ رسول اللّه کل یوم دخلة فیخلینی فیها ادور معه حیثما دار ۔

____________________

۱۔بقرہ: ۱۲۰ ۔

۲۔نحل:۴۴، احزاب:۲۱ ، حشر:۷۔

۲۴۳

وقد علم اصحاب رسول الله(ص) انه لم یصنع ذلک باحد من النّاس غیری...و کنت اذا سألته اجابنی و اذا سکتّ وفنیت مسائلی ابدأنی، فما نزلت علیٰ رسول اللّه آیة من القرآن الا اقرانیها و املاها علیّ فکتبتها بخطی و علّمنی تاویلها و تفسیرها... و ما ترک شیئاً علّمه اللّٰه من حلال ولا حرام ولا امر ولا نهی کان او یکون منزلاً علیٰ احد قبله من طاعة او معصیة الا علمنیها و حفظته فلم انس حرفاً واحداً...'' ( ۱ )

میں ہر روزایک مرتبہ رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اس وقت آپ(ص) صرف مجھے اپنے پاس رکھتے تھے، چنانچہ جہاں وہ جاتے میں بھی وہیں جاتا تھا، رسول(ص) کے اصحاب اس بات کو اچھی طرح جانتے ہیںکہ رسول(ص) نے میرے علاوہ کسی اور کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کیا...جب میں آپ(ص) سے سوال کرتا تھا تو آپ(ص) مجھے جواب دیتے تھے اور جب میرا سوال ختم ہو جاتا تھا اور میں خاموش ہو جاتا تھا تو آپ(ص) اپنی طرف سے سلسلہ کا آغاز کرتے تھے ، رسول(ص) پر جو آیت نازل ہوتی تھی اس کی تعلیم آپ(ص) مجھے دیتے تھے اور مجھے اس کا املا کراتے تھے اور میں اسے اپنے ہاتھ سے لکھ لیتا تھا اور مجھے اس کی تاویل و تفسیر کی تعلیم دیتے تھے... حلال و حرام امر و نہی اور جو ہو چکاہے یا ہوگا یا آپ(ص) سے پہلے کسی پر اطاعت و معصیت کے بارے میں نازل ہونے والی چیز کا جو علم خدا نے آپ کوعطا کیا تھاوہ سب آپ(ص) نے مجھے سکھایا اور میں نے اسے یاد کر لیا اور اس میںسے میں ایک حرف بھی نہیں بھولا ہوں۔

حضرت علی نے رسول(ص) کے املا کو ایک کتاب میں جمع کیا ہے جس کانام جامعہ یا صحیفہ ہے۔

ابوعباس نجاشی ، متوفی-۴۵۰ھ-کہتے ہیں: ہمیں محمد بن جعفر-نحوی تمیمی نے جو نجاشی کے شیخ تھے- عذافر صیرفی کے حوالے سے خبر دی ہے کہ انہوں نے کہا: میں حکم بن عتیبہ کے ساتھ ابو جعفر-امام محمد باقر -کی خدمت میں حاضر تھا اس نے ابو جعفر سے سوال کیا وہ ان کی بہت تعظیم و عزت کرتا تھا لیکن کسی چیز کے بارے میں دونوں میں اختلاف ہو گیا تو ابو جعفر نے فرمایا: بیٹا! ذرا میرے جد حضرت علی کی کتاب نکالو:

____________________

۱۔ بصائر الدرجات: ۱۹۸، کافی ج۱ ص ۶۲و ۶۳۔

۲۴۴

انہوں نے کتاب نکالی وہ عظیم کتاب لپٹی ہوئی تھی، ابو جعفر اسے لیکر دیکھنے لگے یہاں تک کہ اس مسئلہ کو نکال لیا اور فرمایا: یہ حضرت علی کی تحریر اور رسول(ص) کا املا ہے پھر حکم کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا؛ اے ابو محمد، سلمہ اور ابو المقدام تم ادھر ادھر جہاں چاہو چلے جائو خدا کی قسم تمہیں کسی قوم کے پاس اس سے بہتر علم نہیں ملے گا ان پر جبریل نازل ہوتے تھے۔( ۱ )

ابراہیم بن ہاشم نے امام محمد باقر کی طرف نسبت دیتے ہوئے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا:'' فی کتاب علی کل شیء یحتاج الیہ حتی ارش الخدش''۔( ۲ )

حضرت علی کی کتاب میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک خراش کا جرمانہ بھی لکھا ہوا ہے ۔

اس کا مطلب یہ ہے علی کا جامعہ یا صحیفہ آپ کی دوسری تدوین ہے جو کھال پر لکھا ہوا ہے ، اس کا طول ستر ہاتھ ہے ۔

ابو بصیر سے روایت ہے کہ انہوںنے امام جعفر صادق سے کچھ دریافت کیا تو آپ(ص) نے فرمایا:''ان عندنا الجامعة ، صحیفة طولها سبعون ذراعاً بذراع رسول اللّه و املائه فلق فیه و خط علی، بیمینه فیها کل حلال و حرام و کل شیء یحتاج الیه النّاس حتی الارش فی الخدش'' ۔( ۳ )

ہمارے پاس جامعہ ہے ، یہ ایک صحیفہ ہے جس کا طول ، رسول(ص) کے ہاتھ کے لحاظ سے، ستّر ہاتھ ہے، یہ رسول نے املا لکھوایا ہے اورعلی نے اپنے ہاتھ سے لکھا ہے ۔اس میں حلال و حرام کی تفصیل اور ہر اس چیز کاحکم و بیان ہے جس کی لوگوں کو ضرورت پڑ سکتی ہے یہاں تک کہ اس میںایک معمولی خراش کی دیت بھی لکھی ہوئی ہے ۔

____________________

۱۔ تاریخ التشریع الاسلامی ص ۳۱۔

۲۔ ایضاً ص ۳۲۔

۳۔ ایضاًص۳۳۔

۲۴۵

یہ ہے سنت کے سلسلہ میں اہل بیت کا موقف۔

لیکن شیخین کے عہدِ خلافت میں حکومت کے موقف سے بہت ہی منفی آثار مترتب ہوئے کیونکہ سو سال تک تدوین سنت سے متعلق کوئی کام نہیں ہو سکا اس موقف کی وجہ سے بہت سی حدیثیں ضائع ہو گئیں اور مسلمانوں کے ثقافتی اسناد و مصادر میں اسرائیلیات داخل ہو گئے اور قیاس و استحسان کا دروازہ پوری طرح کھل گیا اور وہ بھی تشریع و قانون کے مصدروں میں سے ایک مصدر شمار ہونے لگا بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے سنت نبوی پر مقدم کیا ہے کیونکہ بہت سے نصوص علمی تنقید کی رو سے صحیح نہیںمعلوم ہوتے تھے لیکن اس سے اہل سنت کے نزدیک رسول(ص) کی صحیح حدیثیں بھی مخدوش ہو گئیں چنانچہ وہ حدیثیں زمانۂ مستقبل میں اس چیز کو بھی پورا نہیں کر سکیں جس کی امت کو احتیاج تھی۔

لیکن اہل بیت نے اس تباہ کن رجحان کا مقابلہ پوری طاقت سے کیا اور سنت نبوی (ص) کو مومنین کے نزدیک ضائع نہیں ہونے دیا انہوں نے اپنی امامت و خلافت کے اقتضاء کے مطابق اس کی توجیہ کی کیونکہ زمام دار منصوص امام و خلیفہ ہی ہوتا ہے اور وہی شریعت اور اس کی نصوص کو ضائع ہونے سے بچا تاہے ۔

سنت نبوی کی تحقیق کرنے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ سنت کے ان مصادر کا مطالعہ کرے جو اہل بیت اور ان کا اتباع کرنے والوں کے پاس ہیں کیونکہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔

اہل بیت کے پاس جو سنت ہے وہ عقیدے ، فقہ اور اخلاق و تربیت کے تمام ابواب پر حاوی ہے اس میں ہر وہ چیز موجود ہے جس کی ضرورت بشریت کو زندگی میں پڑ سکتی ہے۔

اس حقیقت کی تصریح رسول(ص) کے نواسہ حضرت امام جعفر صادق نے اس طرح کی ہے : ''ما من شیء الا و فیہ کتاب او سنة''۔( ۱ )

کوئی چیز بھی ایسی نہیں ہے کہ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود نہ ہو۔

____________________

۱۔ الکافی ج۱ ص۴۸۔

۲۴۶

سید المرسلین (ص) کی علمی میراث کے چند نمونے

۱۔ عقل و علم

۱۔رسول(ص) نے عقل کو بہت زیادہ اہمت دی ہے ، آپ(ص) نے اس کو پہچنوایا اور زندگی میں اس کے اثر و کردار کو بھی بیان کیا ہے یعنی ذمہ داری وفرائض، کام اور اس کی جزاء کی وضاحت کی ہے اسی طرح ان اسباب کو بھی بیان کیا ہے جن سے عقل میں رشد و تکامل پیدا ہوتا ہے ۔ فرماتے ہیں:

''ان العقل عقال من الجهل،و النفس مثل اخبث الدواب، فان لم یعقل حارت، فالعقل عقال من الجهل، و ان اللّه خلق العقل، فقال له: اقبل فاقبل، و قال له : ادبر فادبر، فقال له الله تبارک و تعالیٰ: و عزتی و جلالی ما خلقت خلقاً اعظم منک ولا اطوع منک، بک ابدی و اعید، لک الثواب و علیک العقاب''

فتشعب من العقل الحلم و من الحلم العلم، و من العلم الرشد، و من الرشد العفاف، و من العفاف الصیانة، و من الصیانة الحیائ، ومن الحیاء الرزانة و من الرزانة المداومة علیٰ الخیر، و کراهیة الشر، و من کراهیة الشر طاعة الناصح

فهذه عشرة اصناف من انواع الخیر، و لکل واحد من هذه العشرة الاصناف عشرة انواع...''( ۱ )

____________________

۱۔ تحف العقول باب مواعظ النبی و حکمہ۔

۲۴۷

عقل جہالت و نادانی کے لئے زنجیر ہے اور نفس پلید ترین جانور کے مانند ہے اگر اسے باندھا نہیں جائے گا تووہ بے قابو ہو جائے گا، لہذا عقل نادانی کے لئے زنجیر ہے ۔ بیشک خدا نے عقل کو پیدا کیا اور اس سے فرمایا: آگے بڑھ تووہ آگے بڑھی، کہا: پیچھے ہٹ وہ پیچھے ہٹ گئی تو خدا وند عالم نے فرمایا: میں اپنی عزت وجلال کی قسم کھاتا ہوں کہ میںنے تجھ سے عظیم اور تجھ سے زیادہ اطاعت گذار کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے ۔ تجھ سے ابتداکی ہے اور تیرے ہی ذریعہ لوٹائوںگا۔ تیرے لئے ثواب دیا ہے او رتیری مخالفت کی وجہ سے عذاب کیا جائے گا۔

پھر عقل سے بردباری و جود میں آئی اور برد باری سے علم پیدا ہوا اور علم سے رشدو ہدایت و حق جوئی نے جنم لیا اور رشد سے پاک دامنی پیدا ہوئی اور عفت و پاکدامنی سے صیانت -بچائو اور تحفظ کا جذبہ ابھرا، صیانت سے حیا پیدا ہوئی اور حیاء سے سنجیدگی اور وقار نے وجود پایا، سنجیدگی سے نیک کام پر مداومت کرنے اور شر سے نفرت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا اور شر سے کراہت کرنے سے ناصح کی ا طاعت کا شوق پیدا ہوا۔

چنانچہ خیر و نیکی کی یہ دس قسمیں ہیں اور ان میں سے ہر ایک کی دس قسمیں اور دس صنفیں ہیں...

۲۔رسول(ص) نے زندگی میں علم کی ضرورت کو بیان کرتے ہوئے اس کی اہمیت بتائی ہے اور تمام کمالات کے مقابلہ میں اس کی قدر و قیمت پر زور دیا ہے :

''طلب العلم فریضه علیٰ کل مسلم، فاطلبوا العلم من مظانه، و اقتبسوه من اهله ، فان تعلیمه للّه حسنة، و طلبه عبادة، و المذاکرة به تسبیح، و العمل به جهاد، و تعلیمه من لا یعلمه صدقة، و بذله لاهله قربة الیٰ اللّٰه تعالیٰ؛ لانه معالم الحلال و الحرام، و منار سبل الجنة، و المؤنس فی الوحشة، و الصاحب فی الغربة و الوحدة، و المحدث فی الخلوة، و الدلیل علی السراء و الضرائ، و السلاح علیٰ الاعداء ، و الزین عند الاخلائ یرفع اللّه به اقواماً، فیجعلهم فی الخیر قادة، تقتبس آثار هم، و یهتدی بفعالهم، و ینتهی الیٰ رایهم، و ترغب الملائکة فی خلتهم ۔

۲۴۸

باجنحتها تمسحهم، و فی صلاتها تبارک علیهم یستغفر لهم کل رطب و یابس، حتی حیتان البحر و هوامه، و سباع البر و انعامه ان العلم حیاة القلوب من الجهل، و ضیاء الابصار من الظلمة، و قوة الابدان من الضعف یبلغ بالعبد منازل الاخیار، و مجالس الابرار، والدرجات العلی فی الدنیا والآخرة الذکر فیه یعدل بالصیام، و مدارسته بالقیام به یطاع الرب ، و به توصل الارحام، و به یعرف الحلال و الحرام العلم امام العمل و العمل تابعه یلهمه السعداء ، و یحرمه الاشقیائ، فطوبی لمن لم یحرمه اللّٰه منه حظه

و صفة العاقل ان یحلم عمّن جهل علیه، و یتجاوز عمّن ظلمه، و یتواضع لمن هو دونه، و یسابق من فوقه ف طلب البر و اذا اراد ان یتکلم تدبّر، فان کان خیراً تکلم فغنم، و ان کان شرّاً سکت فسلم، و اذا عرضت له فتنة استعصم بالله، و امسک یده و لسانه، و اذا رأی فضیلة انتهز بها لا یفارقه الحیائ، و لا یبدو منه الحرص، فتلک عشر خصال یعرف بها العاقل

و صفة الجاهل ان یظلم من خالطه و یتعدی علیٰ من هو دونه، و یتطاول علیٰ من هو فوقه کلامه بغیر تدبر، ان تکلم اثم، و ان سکت سها، و ان عرضت له فتنة سارع الیها فاردته، و ان راء فضیلة اعرض عنها و ابطأ عنها لا یخاف ذنوبه القدیمة، ولا یرتدع فیما بق من عمره من الذنوب یتوانی عن البرّ و یبطیٔ عنه، غیر مکترث لما فاته من ذلک او ضیّعه ، فتلک عشر خصال من صفة الجاهل الذ حُرِم العقل''( ۱ )

علم حاصل کرنا ہر مسلمان پر فرض ہے پس علم کو اس کی جگہ سے حاصل کرو اور صاحب علم ہی سے علم حاصل کرو، کیونکہ خدا کے لئے تعلیم دینا نیکی ہے اور اس کا طلب کرنا عبادت ہے ۔ علمی بحث و مباحثہ تسبیح ہے اور اس پر عمل کرنا جہاد ہے اور نہ جاننے والے کو علم سکھانا صدقہ ہے اور اہل کے لئے اس سے خرچ کرنا تقرب خدا ک

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱ص۱۷۱ طبع موسسة الوفائ، تحف العقول: ۲۸ طبع موسسہ النشر الاسلامی۔

۲۴۹

باعث ہے ، کیونکہ اس سے حلال و حرام کی پہچان ہوتی ہے ۔ یہ جنت کے راستہ کا منارہ ہے ، وحشت میں مونس ومددگار ہے ، غربت و سفر میں رفیق و ساتھی ہے اور تنہائی میں دل بہلانے والا ہے ،خوشحالی و مصیبت میں رہنماہے ، دشمن کے خلاف ہتھیار ہے ،دوستوں کی نظر میں زینت ہے ، اس کے ذریعہ خدا نے قوموںکو بلند کیا ہے انہیں نیکی کا راہنما قرار دیا ہے ان کے آثار کو جمع کیا جاتا ہے اور افعال سے ہدایت حاصل کی جاتی ہے ان کی رایوں سے آگے نہیں بڑھا جاتا، ملائکہ ان سے دوستی کا اشتیاق رکھتے ہیں اور اپنے پروں سے انہیں مس کرتے ہیں اور اپنی نماز میں ان کے لئے برکت کی دعا کرتے ہیں، ہر خشک و تر ان کے لئے استغفار کرتا ہے یہاں تک کہ دریا کی مچھلیاں اور اس کے جانور اورخشکی کے درندے اور چوپائے بھی ان کے لئے مغفرت کی دعا کرتے ہیں۔ علم دلوں کی زندگی، آنکھوں کا نور اور بدن کی قوت ہے علم بندے کو اخیار کی منزلوں، ابرار کی مجالس اور دنیا وآخرت کے بلند درجات پر پہنچا دیتا ہے ۔ اس میں ذکر، روزہ کے برابر ہے اور ایک دوسرے کو پڑھکر سنانا قیام کے مانند ہے ، اس کے ذریعہ خدا کی اطاعت کی جاتی ہے صلۂ رحمی کی جاتی ہے ، اس کے وسیلہ سے حلال و حرام کی معرفت ہوتی ہے ، علم عمل کا امام ہے اور وہ اس کا تابع ہے ، اس سے نیک بخت لوگوں کو نوازا جاتا ہے ، بدبختوں کو اس سے محروم کیا جاتا ہے ، پس خوش نصیب ہے وہ شخص کہ جس کو خدا نے اس سے محروم نہیں کیا۔

عاقل کی صفت یہ ہے کہ وہ جہالت سے پیش آنے والے کے ساتھ بردباری سے پیش آتا ہے اور جو اس پر ظلم کرتا ہے وہ اس سے در گزر کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے کے ساتھ انکساری سے پیش آتا ہے اور نیکی کرنے میں اپنے سے بڑے پر سبقت لے جاتا ہے ۔ جب لب کشائی کرنا چاہتا ہے تو سوچ لیتا ہے اگر اس میں بھلائی ہوتی ہے تو بولتا ہے اور فائدہ اٹھاتا ہے اور اگر بولنے میں کوئی برائی محسوس کرتا ہے تو خاموش رہتاہے اورغلطیوں سے محفوظ رہتا ہے جب اس کے سامنے کوئی امتحانی منزل آتی ہے تو وہ خدا سے لو لگاتا ہے اپنی زبان اور اپنے ہاتھوں پر قابو رکھتا ہے، کوئی فضیلت دیکھتا ہے تو اسے سمیٹ لیتا ہے ، حیا سے دست کش نہیںہوتا، حرص اس میں دیکھنے میں نہیں آتی پس یہ دس خصلتیں ہیں جن کے ذریعہ عاقل پہچانا جاتا ہے ۔

۲۵۰

جاہل کی صفت یہ ہے کہ جو اس سے گھل مل جاتا ہے یہ اس پر ظلم کرتا ہے ، اپنے سے چھوٹے پر زیادتی کرتا ہے ، اپنے بڑے کی نافرمانی کرتا ہے ، اس کے ساتھ گستاخی سے پیش آتا ہے، اسکی بات بے تکی ہوتی ہے، بولتا ہے تو گناہ کرتا ہے اور چپ رہتا ہے تو غافل ہو جاتا ہے ۔ اگر فتنہ کے روبرو ہوتا ہے تو اس کی طرف دوڑ پڑتاہے اور اسی وجہ سے ہلاک ہو جاتا ہے ، اگر کہیں کوئی فضیلت نظر آتی ہے تو اس سے روگردانی کرتا ہے۔ اس کی طرف بڑھنے میں سستی کرتا ہے ، وہ اپنے پہلے گناہوں سے نہیں ڈرتا ہے اور باقی ماندہ عمر میں گناہ ترک نہیں کرتا نیک کام کی انجام دہی میں سستی کرتا ہے اور جو نیکی اس سے چھوٹ گئی یا ضائع ہو گئی ہے اس کی پروا نہیں کرتا ۔ یہ صفت اس جاہل کی ہے جو عقل سے محروم ہے ۔

۲۔ تشریع کے مصادر

۳۔یقینا اللہ کے رسول(ص) نے تمام لوگوں کے لئے حقیقی سعادت و کامیابی کے راستہ کی نشاندہی کی ہے سعادت کے حصول کی ضمانت لی ہے بشرطیکہ وہ ان تعلیمات پر عمل کریں جو آپ(ص) نے ان کے سامنے بیان کی ہیں۔ رسول(ص) کی نظر میں سعادت و کامیابی کا راستہ یہ ہے کہ انسان دو بنیادی اصولوں سے تمسک کرے اوریہ اصول ایک دوسرے کے بغیر کسی کو بے نیاز نہیں کریں گے یہ ثقلین ہیں۔ رسول(ص) کا ارشاد ہے:

ایها النّاس ! انی فرطکم، و انتم واردون علیّ الحوض، الا و انّی سائلکم عن الثقلین، فانظروا: کیف تخلفونی فیهما؟ فان اللطیف الخبیر نبأنی: انهما لن یفترقا حتی یلقیانی، و سالت ربی ذلک فاعطانیه، الا و انی قد ترکتهما فیکم: کتاب الله و عترتی اهل بیتی، لا تسبقوهم فتفرقوا ولا تقصروا عنهم فتهلکوا، ولا تعلموهم، فانهم اعلم منکم

ایهالناس! لا الفینکم بعدی کفاراً!، یضرب بعضکم رقاب بعض، فتلقونی فی کتیبة عمجریٰ السیل الجرار

الا و ان علی بن ابی طالب اخی و وصیی، یقاتل بعدی علی تاویل القرآن ، کما قاتلت علی تنزیله''

۲۵۱

اے لوگو!میں تم سے پہلے جانے والا ہوں اور تم میرے پاس حوض(کوثر) پر پہنچو گے اور میں تم سے ثقلین کے بارے میں سوال کرونگا کہ میرے بعد تم نے ان دونوںکے ساتھ کیا سلوک کیا ہے ؟ مجھے لطیف و خبیر نے خبر دی ہے کہ یہ دونوں ایک دوسرے سے جدا نہیں ہونگے یہاں تک کہ مجھ سے ملاقات کریں گے، میںنے اپنے رب سے اس کا سوال کیا تو اس نے مجھے عطا کر دیا، دیکھو: ان دونوں کو میں تمہارے درمیان چھوڑ ے جا رہا ہوں ( وہ ہیں) کتاب خدا اور میرے اہل بیت سے آگے بڑھنے کی کوشش نہ کرنا تم میں تفرقہ پڑ جائیگا اور ان سے پیچھے نہ رہ جانا ورنہ ہلاک ہو جاوگے اور انہیں سکھانے کی کوشش نہ کرنا کیونکہ وہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔

اے لوگو! دیکھو! میرے بعدکافر نہ ہو جانااس طرح سے کہ ایک دوسرے کی گردن مارنے لگو تم مجھے ایک بڑے لشکر میں پائوگے ۔

آگاہ ہو جائو! علی بن ابی طالب میرے بھائی اور میرے وصی ہیں، وہ میرے بعد تاویل قرآن کے لئے ویسے ہی جنگ کریں گے جیسے میں نے اس کے نازل ہونے کے سلسلہ میں جنگ کی تھی۔

قرآن اور اس کا ممتا زکردار

۴۔ رسول(ص) نے زندگی میں قرآن کے کردار اور اس سے مکمل تمسک کرنے کی قیمت کو واضح کرتے ہوئے اس کی عظمت کو بیان کیا ہے اور پوری بشریت کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :

''ایها النّاس : انکم فی دار هدنة و انتم علیٰ ظهر سفر، و السیر بکم سریع، فقد رأیتم اللیل و النهار، و الشمس و القمر، یبلیان کل جدید، و یقربان کل بعید، و یاتیان بکل وعد و وعید ، فاعدوا الجهاز لبعد المجاز انها دار بلاء و ابتلائ، و انقطاع و فناء ، فاذا التبست علیکم الامور کقطع اللیل المظلم، فعلیکم بالقرآن، فانه شافع مشفع، و ماحل مصدق من جعله امامه قاده الیٰ الجنة، و من جعله خلفه ساقه الیٰ النار، و من جعله الدلیل یدله علیٰ السبیل ۔

۲۵۲

و هو کتاب فیه تفصیل، وبیان و تحصیل هو الفصل لیس بالهزل، و له ظهر و بطن، فظاهره حکم الله، و باطنه علم الله تعالیٰ، فظاهره انیق، و باطنه عمیق،له تخوم، و علیٰ تخومه تخوم، لا تحصی عجائبه ، ولا تبلی غرائبه ، مصابیح الهدی، و منار الحکمة، و دلیل علیٰ المعرفة لمن عرف الصفة، فلیجل جالٍ بصره، و لیبلغ الصفة نظره، ینج من عطب، و یتخلص من نشب؛ فان التفکر حیاة قلب البصیر، کما یمشی المستنیر فی الظلمات بالنور، فعلیکم بحسن التخلص، و قلة التربص ۔''( ۱ )

اے لوگو! تم ابھی راحت کے گھر میں ہو، ابھی تم سفر میں ہو، تم کو تیزی سے لے جایا جا رہا ہے، تم نے رات ، دن اور چاند ، سورج کو دیکھا ہے یہ ہر نئے کو پرانا کر رہے ہیں اور ہر دور کو نزدیک کر رہے ہیں اور جس چیز کا وعدہ کیا جا چکا تھا اسے سامنے لا رہے ہیں ، تم اپنا اسباب تیار رکھو یہ منزل فنا ہے ، اس کا سلسلہ منقطع ہو جائیگا جب تم پر کالی رات کے ٹکڑوںکی طرح امور مشتبہ ہو جائیں گے اس وقت تم قرآن سے تمسک کرنا کیونکہ وہ شفاعت کرنے والا ہے اور اس کی شفاعت قبول کی جائیگی اوراس کی شکایت بھی قبول کی جائے گی جو اسے اپنے آگے رکھتا ہے وہ اسے جنت کی طرف لے جاتا ہے اور جو اسے پسِ پشت قرار دیتا ہے وہ اسے جہنم میں پہنچا دیتا ہے اور جو اسے راہنما بناتا ہے تو وہ اسے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔ یہ ایسی کتاب ہے کہ جس میں تفصیل ہے واضح بیان اور علوم و معارف کا حصول ہے یہ قول فیصل ہے کوئی مذاق نہیں ہے۔ اس کا ایک ظاہر اور ایک باطن ہے ، اس کا ظاہر تو حکم ِ خدا ہے اور اس کا باطن علم خدا ہے ، اس کا ظاہر عمدہ و خوبصورت ہے اور اس کا باطن عمیق ہے، اس میں رموز ہیں بلکہ رموز در رموز ہیں اس کے عجائب کو شمار نہیں کیا جا سکتا ہے اور اس کے غرائب کہنہ و فرسودہ نہیں ہو سکتے ہیں اس کی ہدایت کے چراغ اور حکمت کے منارے ہیں اور جو اس کے صفات کی معرفت رکھتا ہے اس کے لئے دلیلِ معرفت ہے، راہرو کو چاہئے کہ اپنی آنکھ کو اس سے منورکرے اور اس کے اوصاف تک اپنی نظر پہنچائے تاکہ ہلاکت سے نجات اور جہالت سے رہائی پائے،

____________________

۱۔تفسیر العیاشی ج۱ ص ۲۔۳، کنز العمال ج۲ ص ۲۸۸، الحدیث ۴۰۲۷۔

۲۵۳

بیشک فکر و نظر دل کی بصارت ہے جیسا کہ روشنی کاطالب تاریکی میں روشنی لیکر چلتا ہے ، تمہارے لئے ضروری ہے کہ ہر پستی سے نجات حاصل کرو اور توقعات کو کم رکھو۔

اہل بیت دین کے ارکان ہیں

۵۔ رسول(ص) نے ثقل کبیر، اہل بیت رسول (ص)-علی اور ان کے بارہ فرزندوں کو- مختلف طریقوں سے پہچنوایا ، اپنے آخری خطبہ میں فرمایا:

''یا معشر المهاجرین و الانصار! و من حضرنی فی یومی هذا ، و فی ساعتی هذه، من الجن و الانس فلیبلغ شاهدکم الغائب: الا قد خلفت فیکم کتاب الله فیه النور، وا لهدی، و البیان، ما فرّط الله فیه من شیء ، حجة اللّه لی علیکم و خلفت فیکم العلم الاکبر، علم الدین ، و نور الهدی، وصیی: علی بن ابی طالب، الا و هو حبل اللّه، فاعتصموا به جمیعاً ، ولا تفرقوا عنه، ( و اذکروا نعمت اللّه علیکم اذ کنتم اعدائً فالّف بین قلوبکم فاصبحتم بنعمته اخواناً ) ( ۱ )

ایها النّاس ! هذا علی بن ابی طالب، کنز اللّه، الیوم وما بعد الیوم، من احبه و تولاه الیوم و ما بعد الیوم ، فقد اوفی بما عاهد علیه، و ادی ما وجب علیه، و من عاداه الیوم وما بعد الیوم ، جاء یوم القیامة اعمی و اصم، لا حجة له عند اللّه

ایها الناس! لا تاتونی غداً بالدنیا، تزفونها زفاً، و یأ تی اهل بیتی شعثاء غبرائ، مقهورین مظلومین ، تسیل دماؤهم امامکم، و بیعات الضلالة و الشوری للجهالة فی رقابکم

الا و ان هذا الامر له اصحاب و آیات، قد سمّا هم اللّه فی کتابه، و عرفتکم ، و بلغتکم ما ارسلت به الیکم، ولکنی اراکم قوماً تجهلون لا ترجعن بعدی کفاراً مرتدین،

____________________

۱۔ آل عمران:۱۰۳۔

۲۵۴

متاولین للکتاب علیٰ غیر معرفة، و تبتدعون السنة بالهوی؛ لان کل سنّة وحدیث و کلام خالف القرآن فهو ردّ و باطل

القرآن امام هدی، و له قائد یهدی الیه، و یدعو الیه بالحکمة و الموعظة الحسنة و هو ولیّ الامر بعدی، ووارث علمی و حکمتی ، و سری و علانیتی، و ما ورثه النبیون من قبلی، وانا وارث و مورث، فلا یکذّبنّکم انفسکم

ایّها النّاس! اللّه اللّه فی اهل بیتی؛ فانهم ارکان الدین ، و مصابیح الظلم ، و معدن العلم؛ علی اخی، و وارثی، و وزیری، و امینی، و القائم بامری، و الموفی بعهدی علیٰ سنتی اول النّاس بی ایماناً، و آخرهم عهداً عند الموت، و اوسطهم لی لقاء اً یوم القیامة، فلیبلّغ شاهدکم غائبکم الا و من امّ قوماً و من ام قوماً امامة عمیاء ، و فی الامة من هو اعلم فقد کفر

ایّها النّاس! و من کانت له قبلی تبعة فیما انا، و من کانت له عدة، فلیات فیها علی بن ابی طالب، فانه ضامن لذلک کلّه، حتی لا یبقی لاحد علیّ تباعة''( ۱ )

اے گروہِ مہاجرین و انصار جوبھی آج اس وقت میرے سامنے موجود ہے ، مجھے دیکھ رہا ہے اسے چاہئے غائب لوگوں تک یہ پیغام پہنچا دے۔ آگاہ ہو جائو میں نے تمہارے درمیان خدا کی کتاب چھوڑی ہے، جس میں نور ، ہدایت اور بیان ہے ، اس میں خدا نے کسی چیز کو بیان کئے بغیر نہیں چھوڑا ہے ۔ یہ تمہارے اوپر خدا کی حجّت ہے اور میں نے تمہارے درمیان علمِ اکبر، علم دین ، نورِ ہدایت اور اپنا وصی، علی بن ابی طالب کو چھوڑا ہے ، اچھی طرح سمجھ لو کہ وہ حبل اللہ یعنی خدا تک پہنچنے کا وسیلہ ہیں سب مل کر ان کا دامن تھام لو انہیں چھوڑکر پراگندہ نہ ہو جانا۔ تم اللہ کی اس نعمت کو یاد کرو کہ جس سے اس نے تمہیں نوازا ہے تم ایک دوسرے کے دشمن تھے اس نے تمہارے دلوں میں ایک دوسرے کی محبت ڈال دی تو اس کی نعمت کے سبب تم ایک دوسرے کے

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۲۲ ص ۴۸۴ ، ۴۸۷۔

۲۵۵

بھائی بن گئے۔

اے لوگو! یہ علی بن ابی طالب آج اور بعد کے لئے خدا کا ذخیرہ ہیں جو شخص آج اور بعد میں ان سے محبت کرے گا اور ان کی پیروی کرے گا تو وہ اپنے کئے ہوئے عہد کو پورا کرے گا اور اپنے فرض کو انجام دے گا اور جس شخص نے آج اور آج کے بعد ان سے عداوت رکھی وہ قیامت کے دن اندھا اور بہرہ اٹھے گا اور خدا پر اس کی کوئی حجّت نہیںہوگی اور وہ خدا کے سامنے کوئی عذر نہیں پیش کر سکے گا۔

اے لوگو! تم کل-روز قیامت- میرے پاس اس طرح نہ آنا کہ تم مال دنیا سے لدئے ہوئے ہو اور میرے اہل بیت کی غربت کی وجہ سے یہ حالت ہو کہ ان کے بال گرد سے اٹے ہوئے ہوں، مظلوم و ستم دیدہ ہوں اور تمہارے ہاتھوں سے ان کا خون ٹپک رہا ہو۔ یاد رکھو کہ گمراہی و ضلالت کی بیعت اور جاہلوں کی شوریٰ کا کوئی فائدہ نہیں ہے ۔

میں تمہیں بتائے دیتا ہوں کہ اس خلافت کے اہل موجود ہیں وہی خدا کی نشانیاں ہیں خدا نے اپنی کتاب میں ان کی پہچان بتا دی ہے اور میں نے ان کا تعارف کرا دیا ہے میں نے تم تک وہ پیغام پہنچا دیا ہے جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا تھا، اس کے باوجود میں تمہیں جاہل و نادان ہی دیکھ رہا ہوں۔ خبردار میرے بعد تم کافر و مرتد نہ ہوجانا اور علم و معرفت کے بغیر قرآن کی تاویل نہ کرنا اور میری سنت کو اپنی خواہش کے مطابق نہ ڈھال لینا کیونکہ ہر بدعت اور ہر وہ کام جو قرآن کے خلاف ہوتا ہے وہ باطل ہے۔

اس میں شک نہیں کہ قرآن ہدایت کا امام ہے لیکن اس کے لئے ایک قائد ناطق کی ضرورت ہے جو اس کی طرف ہدایت کرے اور حکمت و بہترین نصیحت کے ساتھ اس کی طرف بلائے اور وہ ہے میرے بعد ولیِ امر، وہی میرے علم و حکمت کا حقدار اورمیرے اسرار کا وارث اور انبیاء کی میراث کا حامل ہے دیکھو! میں بھی وارث ہوں اور میرے بھی وارث ہیں، تمہارے نفس کہیں تمہیں دھوکا نہ دیں۔

۲۵۶

اے لوگو! میرے اہل بیت کے بارے میں خدا سے ڈرو! خدا سے ڈرو! دیکھو یہ دین کے ارکان و ستون ، تاریکی کے چراغ اور علم کا سر چشمہ ہیں ، علی میرے بھائی، میرے وارث، میرے وزیر، میرے امین اور میرے امور کو انجام دینے والے اور میری سنت کے مطابق میرے وعدہ کو پورا کرنے والے ہیں سب سے پہلے اپنے اسلام و ایمان کا اظہار کرنے والے ہیں،یہ دمِ آخر تک میرے ساتھ رہیں گے اور روز قیامت مجھ سے ملاقات کرنے والوں میں اوسط ہیں۔ تم میں سے جو لوگ یہاں موجود ہیں انہیں چاہئے کہ میرا یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا دیں جواس وقت یہاں موجود نہیں ہیں یاد رکھو کہ اگر کسی نے اندھے پن میں کسی کو اپنا امام بنا لیا اور وہ جانتا تھا کہ قوم میں اس سے بہتر آدمی موجود ہے تو وہ کافر ہو گیا۔

اے لوگو! اگر کسی کے پاس میری دستاویز ہے کہ جس میں، میں ضامن ہوں یا کسی سے میرا وعدہ ہے تو وہ علی بن ابی طالب کے پاس جائے وہ میرے تمام امور کے ضامن ہیں وہ میرے ذمہ کسی کاکچھ باقی نہیں رہنے دیںگے۔

۲۵۷

۳۔ اسلامی عقیدے کے اصول

خالق کی توصیف نہیں کی جا سکتی

بیشک خالق کی توصیف اسی چیز کے ذریعہ کی جا سکتی ہے جس سے اس نے خود کو متصف کیا ہے اور اس خالق کی توصیف کیسے کی جا سکتی ہے جس نے حواس کو عاجز کر رکھا ہے کہ وہ اس کا ادراک کریں اور وہم و خیال اسے پا سکیں اور خیالات اس کو محدود کر سکیں اور آنکھیں اسے دیکھ سکیں؟ وہ اس چیز سے بلند تر ہے کہ جس سے توصیف کرنے والے اس کی توصیف کرتے ہیں، وہ قریب ہوتے ہوئے دور ہے اور دور ہوتے ہوئے قریب ہے وہ کیفیت کا خالق ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ کیفیت رکھتا ہے، وہ اَین(کہاں)َ کو وجود میں لانے والا ہے پس یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس کے لئے اَینَ ہے وہ کیفیت و اَینیت سے بلند ہے وہ ایک ہے ، بے نیاز ہے جیسا کہ اس نے خود کو اس سے متصف کیا ہے ۔ توصیف کرنے والے اس کے اوصاف تک نہیں پہنچ سکتے۔ اس کی کوئی اولاد نہیں ہے اور نہ ہی وہ کسی کی اولاد ہے اورکوئی بھی اس کا کفو و ہمسر نہیں ہے۔

توحید کے شرائط

بندہ ''لا الٰہ الا اللہ'' کہتا ہے تو اسے چاہئے کہ دل سے اس کی تصدیق کرے اس کی عظمت کا اعتراف کرے، اس عقیدہ سے لذت محسوس کرے اس کی حرمت کا خیال رکھے اگر''لا الٰہ الا اللہ'' اور اس کی عظمت کا اعتراف نہیں کرے گا تو بدعتی ہے اور اگر اس عقیدہ میں لذت نہیں محسوس کرے گا تو ریاکار ہے اوراگر اس کی حرمت کا خیال نہیں رکھے گا تو فاسق ہے ۔( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج۲ ص ۹۴، الکفایة، ابو المفضل شیبانی نے احمد بن مطرق بن سوار سے انہوں نے مغیرہ بن محمد بن مہلب سے انہوں نے عبد الغفار بن کثیر سے انہوں نے ابراہیم بن حمید سے انہوں نے ابو ہاشم سے انہوں نے مجاہد سے انہوں نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہاایک یہودی رسول(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا جس کا نام نعثل تھا اس نے کہا: اے محمد! میں آپ سے چند چیزوں کے بارے میں سوال کرونگا اس کی وجہ سے میں ایک زمانہ سے پریشان ہوں اگر آپ نے ان کا جواب دیدیا تو میں اسلام قبول کرلوںگا۔ آپ(ص) نے فرمایا: اے ابو عمار جو چاہو پوچھ لو اس نے کہا: آپ اپنے رب کا تعارف کرائیں تو آپ(ص) نے بہترین انداز میں توصیف الٰہی بیان کی مگر وہ ایمان نہ لایا۔

۲۵۸

رحمتِ خدا

بنی اسرائیل میں دو آدمی تھے ایک بڑا عبادت گزار اور دوسرا گناہگار ۔ ایک روز عبادت گزارنے گناہگار سے کہا: کم گناہ کیا کرو۔ اس نے کہا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ، یہاں تک کہ ایک روز عابد نے اسے گناہ کرتے ہوئے دیکھ لیا اس بنا پر اسے بڑا افسوس ہوا، اور کہنے لگا: بس کرو! اس نے جواب دیا: یہ میرا اور میرے رب کا معاملہ ہے ۔ کیا تم کو میرا نگراں بنا کر بھیجاگیا ہے ؟ عابد نے کہا: خدا کی قسم خدا تمہیں معاف نہیں کرے گا اور نہ تمہیں جنت میں داخل کرے گا۔ خدا نے دونوں کی طرف ایک فرشتہ بھیجا اس نے دونوں کی روحوں کو قبض کیا دونوں خدا کی بارگاہ میں پہنچ گئے گناہگار سے کہا گیا تم جنت میں چلے جائو، اور عابد سے ارشاد ہوا کیا تم میرے بندے کو میری رحمت سے محروم کر سکتے ہو؟ عرض کیا: نہیں؛ ارشاد ہوا: اسے جہنم میں لے جائو۔

نہ جبر نہ اختیار

جبراً خدا کی اطاعت نہیں کی جاتی، اوراگر اس کی معصیت کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیںہے کہ وہ مغلوب ہو گیا ہے اور اپنی مملکت کے لوگوںکو اس نے بیکار نہیں چھوڑا ہے ۔ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر بندوں کو قدرت دی ہے اور اس چیز کا مالک ہے جس کا انہیں مالک بنایا ہے پھر اگر بندے اس کی اطاعت کریں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہے اور نہ اس سے انہیں کوئی روک سکتا ہے اور اگر لوگ اس کی معصیت کریں تو وہ انہیں معصیت سے روک سکتا ہے لیکن اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے کہ جو خدا اور اس کے فعل کے درمیان حائل ہو جائے اور وہ اس کام کو انجام دے جس کو وہ چاہتا تھا اور وہ اس کے فعل پر مجبو ر جائے۔( ۱ )

____________________

۱۔بحار الانوار ج۷۷ ص ۱۴۰۔

۲۵۹

خاتمیت

۲۔ بیشک خدا کی اطاعت زبردستی نہیں کی جاتی اور نافرمانی سے وہ مغلوب نہیں ہوتا ہے اور بندوں کی سر پرستی سے دست بردار نہیں ہوتا ہے ، خدا ان تمام چیزوں پر قدرت رکھتا ہے جن چیزوں پر بندوں کو قدرت دی ہے اور جو چیز ان کی ملکیت میں دیدی تھی وہ اس کا مالک ہے ۔ اگر سارے بندے مسلسل اس کی عبادت کرتے رہیں تو اس میں کوئی مانع نہیں ہوگا اور اگر اس کی نافرمانی کریں گے تو وہ انہیں نافرمانی سے باز رکھ سکتا ہے اور انہیں اس کی انجام دہی سے روک سکتا ہے لیکن کوئی ایسا نہیں ہے جو اس کے اور اس کے کام کے درمیان حائل ہو جائے اور اسے کام انجام نہ دینے دے بلکہ خود اسے انجام دے۔

چھہ چیزوں میں مجھے انبیاء پر فضیلت دی گئی ہے ، مجھے جوامع الکلم عطا ہوئے ہیں۔ رعب کے ذریعہ میری مدد کی گئی ہے ، غنا ئم کو میرے لئے حلال کیا گیا ہے اور زمین کو میرے لئے جائے سجدہ اور طہارت کاذریعہ قرار دیا گیا ہے ، مجھے تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہے اور مجھ پر انبیاء کے سلسلہ کو ختم کیا گیا ہے۔( ۱ )

خدا نے مجھے برگزیدہ کیا ہے

خدا وند عالم نے اولاد ابراہیم میں سے جناب اسماعیل کو منتخب کیا اور اولادِ اسماعیل میں سے بنی کنانہ کو چنا اور بنی کنانہ میں سے قریش کا انتخاب کیا اور قریش میں بنی ہاشم کو چنا اور بنی ہاشم میں سے مجھے برگزیدہ کیا۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف الرحیم ) ( ۲ )

یقینا تمہارے پاس وہ رسول(ص) آیا ہے جو تمہیں میں سے ہے اس پر تمہاری ہر مصیبت شاق ہے وہ تمہاری ہدایت کی حرص رکھتا ہے اور مومنوں پر مہربان و رحیم ہے ۔

____________________

۱۔بحار الانوارج۱۶ص۳۲۴۔

۲۔کلمة رسول الاعظم ص ۳۵، بحار الانوار ج۱۶ ص ۳۲۳۔

۲۶۰