منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)26%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137243 / ڈاؤنلوڈ: 6240
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

یقینا نفس کا کجی سے محفوظ ہونا، انسان کو فتنہ پر دازیوں سے بچاتا ہے اور یہیں سے انسان متشابہ آیتوں کا اتباع چھوڑ کر حقیقت کو قبول کر لیتا ہے بلکہ اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیتا ہے ۔

انسان کی عقل ،بے دلیل اور غیر علمی تفسیر کے درمیان حائل ہو جاتی ہے بلکہ یہ عقل ہی ہے جو اسے محکم آیتوں اور ام الکتاب کی پابندی کرنے کی ہدایت کرتی ہے اور ایسا نقشہ کھینچتی ہے کہ جس سے کسی بھی صورت میںچشم پوشی نہیں کی جا سکتی ان حقائق اور محکم نشانیوں کی روشنی میں ہم کچھ ایسی آیتوں کا بھی مشاہدہ کرتے ہیںکہ جن سے تجاوز نہیں کیاجا سکتا۔

نفس کے آفاق فکر کے آفاق کو روشن کرتے ہیں تاکہ انسان اس چیز کے بارے میں غور کرے جو اس سے پہلے واضح اور آشکار نہیں تھی ۔ اس طرح وہ عقلمند انسان ، جو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکا ہے ، کجی سے محفوظ رہتا ہے ، اور متشابہہ آیتوں کی تفسیر و تحلیل میں عجلت سے کام نہیں لیتا ہے بلکہ ان کی تفسیر کے سلسلہ میں وہ ایک پڑھے لکھے انسان کا کردار ادا کرتا ہے اگر وہ حقیقت کشف کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو بھی وہ ان کا انکار نہیں کرتا اور نہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس چیز کو اس کے منبع کی طرف لوٹا دیتا ہے اور معاملہ کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے کہ جس نے ان آیتوں کو نازل کیا ہے اور اپنی مطلوبہ شئی کو اسی سے سمجھنا چاہتاہے اور دعا کرتا ہے کہ مجھے ہمیشہ ہدایت و رحمت سے سرافراز فرما۔

یہی صحیح موقف ہے نصوص سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے یہ منطقی طریقہ ہے کیونکہ عقلمند انسان تحقیق و تحلیل میں عجلت سے کام نہیں لیتا ۔

یہ حقیقت ہم سورہ ہود کی پہلی ہی آیت :( الر،کتاب احکمت آیاته ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ) .( ۱ ) ''الرا۔یہ آیات ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم ہیں پھر صاف صاف بیان بھی کی گئی ہیں ایک با خبر حکیم کی طرف سے''سے سمجھ چکے ہیں کہ تفصیل کی نوبت آیتوں کے محکم ہونے اور ان آیتوں کی تعیین کے بعد آتی ہے جو ام الکتاب ہیں اور بنیادی اصول ہیں چنانچہ سورۂ آل عمران کی ساتویں آیت

____________________

۱۔ہود:۱۔

۲۱

( منه آیات محکمات هنّ امُّ الکتاب ) ( ۱ ) نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔

سورۂ رعد کی ۳۹ ویں آیت اس نکتہ کو اور زیادہ روشن کر دیتی ہے ارشاد ہے:( یمحوا اللّه ما یشاء و یثبت و عنده امُّ الکتاب )

یعنی خدا جس چیز کو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ثابت کرتا ہے کہ اس کے پاس ام الکتاب ہے۔ ام الکتاب میں سے نہ کسی چیز کو محو کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس میں ترمیم ہوتی ہے اس کے علاوہ حالات کے تحت ہر چیز سے محو و تغیر کا تعلق ہوتا ہے ۔

تاریخی واقعات کے بارے میں قرآن کا جو نظریہ و نہج ہے اس کی وضاحت کے لئے یہ آیتیں کافی ہیں، تفصیل کے بارے میں جو اختلاف ہے اس سے اصل حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو چیز تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے اس سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس کی روشنی میں ہر اس چیز کو درست کیا جا سکتا ہے جو سیرت اور تاریخ اسلام یا اسلام سے پہلے کی ان تاریخوں میں وارد ہوئی ہے جو انبیاء اور ان کی امتوں سے متعلق ہیں، لیکن تاریخی حقائق سے کسی بھی صورت میں چشم پوشی نہیں کی جا سکتی اورنہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے یہی تفسیر کی رد و قبول اور اس چیز کے غلط و صحیح ہونے کا معیار ہے جو تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے ۔

چونکہ تاریخ میں حق و باطل یک جا ہو گئے ہیں لہذا تاریخ کے موضوع کی جانچ پرکھ کے لئے ایسے وسائل درکار ہیں جو مکمل حقیقت کے انکشاف میں ہماری مدد کریں۔

تاریخی حقائق (جن کی عقل و نقل نے تائید کی ہے) ہی تفسیر، تاویل ،فیصلے اورمذمت کا معیار ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے انبیاء اور ان کی امتوں کی سیرت و تاریخ کے سلسلہ میںاسی قانون پر عمل کیا ہے اور ہمارے سامنے ایسی واضح تصویر پیش کی ہے جس میں تمام انبیاء مشترک ہیں اور نبوت و اصطفا جوکہ نبی (ص) کی شخصیت سے پیدا ہوتے ہیں، اس کی اہلیت و استعداد کو معیار سمجھا گیا ہے کیونکہ خدا اسے خلق کی ہدایت کے لئے منتخب کرتا ہے اور وہ اوصاف یہ ہیں: کامل العقل ہو، ذی شعور ہو ، صلاح و صبر سے آراستہ ہواور شعورو بصیرت کے ساتھ خدا کا عبادت گذار ہو۔

____________________

۱۔آل عمران: ۷۔

۲۲

خدا نے اپنے نبی(ص) کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :

( قل انّی علیٰ بیّنة من ربّی... ) ( ۱ ) نیز فرمایا ہے :( قل هذه سبیلی ادعوا الیٰ اللّه علیٰ بصیرة انا و من اتبعنی... ) ( ۲ )

کہدیجئے! کہ میں اپنے رب کی واضح دلیل پر ہوں...اور کہدیجئے! کہ یہی میرا راستہ ہے میں اور میرا اتباع کرنے والے بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

یہ ہے قرآن کی منطق جو محکم و ثابت کا نقشہ پیش کرتی ہے ...پھر خدا یسے انسان کو کیسے نبی بنا سکتا ہے جو ادراک و شعور نہ رکھتا ہو؟ اور وہ کسی ایسے شخص کو اپنا نمائندہ کیسے بنا سکتا ہے جو اس کی آیتوں کو ملاحظہ کریں مگر اس سے مطمئن نہ ہوتے ہوں؟ہاں دوسرے اسے مطمئن کرتے ہوں؟! وہ خود نہیں جانتا کہ وہ نمائندہ ہے اور اسے نبوت کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے وہ نہیں سمجھتا کہ وہ نبی ہے یا خدا کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے یا وہ اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں شک کرتا ہے ۔ جوخود ہی بے بہرہ ہو وہ حقیقت ڈھونڈنے والوں کی کیا ہدایت کر ے گا۔ خدا وند عالم اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( ...أفمن یهدی الیٰ الحق احقُّ ان یتّبع امّن لا یُهدیٰ الا یهدیٰ فما لکم کیف تحکمون ) ( ۳ )

تو پھر جو راہ حق کی نشاندہی کرتا ہے وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ جو بغیر نشاندہی کے خود راہ حق نہ دیکھ پاتا ہو پس تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر بیٹھتے ہو۔ انبیاء کی شخصیت سے متعلق قرآن کریم نے جو واضح صورت پیش کی ہے اور عقل کے محکمات کی بھی جسے تائیدحاصل ہے وہ ان تمام صورتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا معیار ہے کہ جو توریت و انجیل میں داخل کر دی گئی ہیں یا جو ان کتابوں میں نقل ہوئی ہیں کہ جن کو صحاح کا نام دیا جاتا ہے ۔ یا تاریخ کی وہ عام کتابیں کہ جن میں بعض انبیاء مثلا جناب ابراہیم، موسیٰ، عیسی ٰ یا محمد(ص) کے قصے بیان ہوئے ہیں ، خواہ اس صورت کے نقل کرنے والوںکی فہرست میں رسول(ص) کی ازواج ہوں یا کوئی صحابی یا رسول(ص) کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہوں۔

____________________

۱۔ انعام: ۵۷۔

۲۔یوسف:۱۰۸۔

۳۔ یونس :۳۵۔

۲۳

پہلی فصل

خاتم النبیین(ص) ایک نظر میں

خاتم النبیین، سید المرسلین محمدبن عبد اللہ بن عبد المطلب، کی ولادت اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد ۷ ۱ ربیع الاول ۱ عام الفیل میں ہوئی، شیرخوارگی کا زمانہ بنی سعد میں گزرا پھر اپنی عمرکے چوتھے یا پانچویں سال اپنی والدہ کے پاس لوٹے، چھہ سال کے ہوئے تو والدہ کا انتقال ہو گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لے لیا اور ان کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا دو سال تک آپ(ص) ان کی کفالت میں رہے پھر ان کا انتقال ہو گیا لیکن دادا نے اپنی وفات سے پہلے آپ کی پرورش و سرپرستی کی ذمہ داری آپ(ص) کے شفیق چچا حضرت ابوطالب (ص) کے سپرد کر دی تھی چنانچہ آپ(ص) شادی ہونے تک انہیں کے ساتھ رہے۔

بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اثنائے راہ میں بحیرا نامی راہب سے ملاقات ہوئی۔ بحیرا نے آپ(ص) کو پہچان لیا اور ابوطالب سے کہا: دیکھو! ان کے سلسلہ میں خبردار رہنا کیونکہ یہودی انہیں قتل کرنا چاہیں گے۔

بائیس سال کے ہوئے تو معاہدۂ حلف الفضول میں شریک ہوئے آنحضرت(ص) اپنے اس اقدام پر فخر کیا کرتے تھے۔ خدیجہ کے مال سے تجارت کے لئے شام کا سفر کیا، عنفوان شباب میں پچیس سال کی عمر میں جناب خدیجہ سے عقد کیا اس سے قبل آپ صادق و امین کے لقب سے شہرت پا چکے تھے، چنانچہ جن قبیلوں میں حجر اسود کو نصب کرنے کے سلسلہ میں نزاع و جھگڑا تھاانہوں نے حجر اسود کو نصب کرنے کے لئے آپ کو منتخب کیا تاکہ کسی قبیلے کو اعتراض نہ ہو۔ پس آپ (ص)نے ایک انوکھا اور عمدہ طریقہ کا ر اپنایا جس سے تمام قبیلے خوش ہو گئے۔

۲۴

چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے، خدا کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کیاوہ اپنے معاملات میںگہری نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے انصار و مہاجرین میں سے جو لوگ مومن تھے انہیں جمع کیا۔

تین یا پانچ سال تک آپ لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد خدا نے آپ کو یہ حکم دیا کہ اپنے اقربا کوڈرائو! پھر یہ حکم دیا کہ اپنی رسالت کا اعلان کرو اور عام طور پر لوگوں کو علیٰ الاعلان اسلام کی دعوت دوتا کہ جو مسلمان ہونا چاہتا ہے وہ مسلمان ہو جائے۔

اسی زمانہ سے قریش نے آپ(ص) کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا شروع کر دی اور لوگوں کو راہ خدا سے روکنے کے لئے یہ کوشش کرنے لگے کہ آپ کا پیغام عام نہ ہونے پائے۔ اس صورت حال کے پیش نظر رسول(ص)نے مکہ سے باہر اپنی دعوت کا ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا اور وہ یہ کہ جب حبشہ کے بادشاہ (نجاشی) نے مسلمانوں کو حبشہ میں خوش آمدید کہا تو رسول(ص) نے مسلمانوں کی کئی جماعتوں کو وہاں بھیجدیا جنہوں نے جعفر بن ابی طالب کی قیادت میں وہیں بود و باش اختیار کر لی اور ۷ ھ تک جعفر نے حبشہ نہیں چھوڑا۔

جب قریش ، نجاشی کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے میں ناکام رہے تو انہوں نے ایک نیا راستہ اختیار کیا اور آپ(ص) کے خلاف سماجی، اقتصادی اور سیاسی پابندی عائد کر دی، اس پابندی کا سلسلہ تین سال تک جاری رہا لیکن جب قریش رسول(ص)، ابوطالب اور تمام بنی ہاشم کو اپنے سامنے نہ جھکا سکے تو پابندی ختم کردی مگر جب رسول(ص) اوران کا خاندان کامیابی کے ساتھ محاصرے سے باہرنکلا تو بعثت کے دسویں سال انہیں ابوطالب اور جناب خدیجہ کا غم اٹھانا پڑا رسول(ص) کے لئے یہ دونوں حادثے جاں گسل تھے کیونکہ آپ(ص) ایک ہی سال میں دو بڑے مددگاروں سے محروم ہو گئے تھے ۔

۲۵

بعض مورخین نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ معراج بھی اسی سال ہوئی تھی حالانکہ نبی(ص) اس عظیم غم میں مبتلا تھے اور نبی(ص) پر ذہنی دبائو تھا کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ قریش آپ کی رسالت کی راہ میں دشواریاںپیدا کر رہے ہیں لہذا خداوند عالم نے آپ (ص)پر آفاق کی راہیں روشن کر دیں اور آپ(ص) کو اپنی عظیم آیتیں دکھا ئیں چنانچہ معراج ،رسول(ص) اور تمام مومنوں کے لئے ایک عظیم برکت تھی۔نئے مرکز کی تلاش میں رسول(ص) نے طائف کی طرف ہجرت کی لیکن مکہ سے قریب ہونے اور اس کی آب و ہوا سے متاثر ہونے کے باوجود وہاں آپ(ص) کو کامیابی نہ ملی اور مکہ واپس آ گئے مطعم بن عدی کی ہمسائیگی اختیار کی اور موسم حج میں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے از سرنو سرگرم عمل ہوئے۔ ان لوگوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا جو حج کرنے کی غرض سے مکہ یا تجارت کے لئے عکاظ کے بازار میں آتے تھے، اہل یثرب سے آپ(ص) کی ملاقات کے بعد خدا نے آپ کی کامیابی کے دروازے کھول دئیے چنانچہ یثرب میں نشر اسلام اور لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ خدا نے آپ کو یہ خبر دی کہ قریش کے جوانوںنے آپ(ص) کے قتل کا منصوبہ بنا لیا ہے لہذا آپ(ص) نے بھی یثرب کی طرف ہجرت کا ارادہ کر لیا چنانچہ حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹایا اور تمام خطروں کے سایہ میں یثرب کی طرف ہجرت کر گئے ، یثرب والوں نے آپ (ص)کے استقبال کی پوری تیاریاں کر رکھی تھیں، ربیع الاول کے شروع میں آپ''قبا'' پہنچے آپ(ص) کی ہجرت اسلامی تاریخ کا نقطہ آغاز قرارپائی۔

پہلے سال میں آپ(ص) نے بتوں کو توڑ کر مسجد نبوی(ص) تعمیر کی اسے اپنی سرگرمی اور تبلیغ و حکومت کا مرکز قرار دیا، مہاجر ین و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تاکہ اس طرح ایک قومی و عوامی مرکز بن جائے جس پرنو تشکیل حکومت کی بنیاد یں قائم کی جا سکیں اس کے علاوہ ایک دستاویز مرتب کی جس میں قبیلوں کے ایک دوسرے سے روابط کے ضوابط تحریر کئے یہودیوں کے سربراہوں سے معاہدے کئے یہ اسلامی حکومت کے عام اصولوں پر مشتمل تھے۔

۲۶

اس نو تشکیل اسلامی حکومت اور اس نئی اسلامی تحریک کو قریش کی پیدا کی ہوئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، قریش نے اسلامی تحریک و تبلیغ اور اسلامی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم محکم کر رکھا تھا اسی لئے مسلمانوں کے خلاف یکے بعد دیگرے جنگ کی آگ بھڑکائی گئی، نبی(ص) اور مسلمانوں کے لئے اپنا دفاع کرنا ضروری ہو گیا۔

اس نو تشکیل حکومت کے دفاع ہی میںسالہا سال گزر گئے پہلی جنگ ہجرت کے ساتویں مہینے میں آپ(ص) کے چچا جناب حمزہ کی قیادت میں ہوئی، ہجرت کے پہلے سال میں تین جنگیں ہوئیں، اس سال بہت سی آیتیں نازل ہوئیں تاکہ نبی(ص) کی حکومت اور امت کے لئے دائمی احکام مرتب ہوجائیں، اس طرح خاتم المرسلین اور آپکی نو تشکیل حکومت کے خلاف منافقوںکا منصوبہ ناکام ہو گیا اور یہودیوں کی سازش بے نقاب ہو گئی۔

رسول اور آپ کی حکومت کے خلاف قریش نے مدینہ کے باہر سے اور یہودیوں نے مدینہ کے اندر سے محاذ جنگ کھول دیا جس کی وجہ سے رسول(ص) کو ان سب پر نظر رکھنا پڑی چنانچہ دوسرے سال میں آٹھ غزوات اور سرایا ہوئے ان میں سے بدر کبریٰ بھی ہے جو رمضان المبارک میں ہوئی تھی۔ اس وقت ماہ رمضان کے روزے واجب ہو چکے تھے اور قبلہ بھی تبدیل ہوچکا تھا۔

اس سے امت مسلمہ اور اسلامی حکومت کوایک طرح کی خود مختاری نصیب ہوگئی تھی۔

دوسرے سال ایک طرف تو جنگ میں فتح ملی دوسری طرف سیاسی اور اجتماعی قوانین بنے،اہل قریش بدر میں شکست کھانے سے اور یہودی بنی قینقاع کی جلا وطنی سے آزمائے گئے بنی قینقاع یہودیوں پہلا وہ قبیلہ تھا جس نے بدر کبریٰ میںمسلمانوں کی فتح کے بعد رسول(ص) سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑ کر مدینہ کو وطن بنا لیا تھا تین سال تک مسلسل قریش باہر سے اسلام اور مسلمانوںکے خلاف فوج کشی کرتے رہے اور یہودی رسول(ص) سے کئے ہوئے عہد کو توڑتے رہے چنانچہ یہ پانچ جنگیں، احد، بنی نضیر، خندق، بنی قریظہ اور جنگ مصطلق، رسول(ص) اور مسلمانوں کے لئے بہت گراں تھیں۔ جب مسلمان اچھی طرح آزما لئے گئے اور پانچویں سال خدا نے مختلف گروہوں اور یہود یوںکے جھگڑوں سے انہیں نجات عطا کی اور اس طرح خدا نے فتح مبین کا راستہ ہموار کر دیا اورکفار و مشرکین مسلمانوں کی شوکت کو مٹانے سے مایوس ہو گئے۔

۲۷

صلح حدیبیہ کے بعد رسول(ص) نے ان قبیلوں سے معاہدہ کیا جو آپ(ص) کے ساتھ رہتے تھے اس معاہدہ کا مقصد یہ تھا کہ ان قبیلوںکے اتحاد کوشرک و الحاد کے مقابلہ میں طاقتور بنا دیا جائے۔ یہاں تک کہ ۸ھ میں خدانے آپ کو فتح مکہ سے سرفراز فرمایا۔ قریش کے سرکش افراد آپ کی سیاست و حکومت کے سامنے جھک گئے اور آپ نے جزیرة العرب کو شرک سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

۹ھ میں مدینہ میں قبائل اور وفود کی آمد میں اضافہ ہو گیا لوگ جوق در جوق دین خدا میں داخل ہو رہے تھے۔

۱۰ ھ میں حجة الوداع کا واقعہ ہوا یہ آخری سال ہے جو آپ(ص) نے اپنی امت کے ساتھ گزارا اس میں آپ (ص) نے اپنی عالمی حکومت اور اپنی امت کو تمام امتوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔

اپنی اسلامی حکومت کے پایوں کو مضبوط کرنے کے بعد ۲۸، صفر ۱۱ھ کو وفات پائی اور اسلامی حکومت کے لئے معصوم قائد معین کیا جو آپ کا خلیفہ و جانشین اور آپ(ص) کی راہ پر چلنے والا ہے اور وہ ہیں علی بن ابی طالب یہ وہ رہبرکامل ہیں جن کی تربیت آغاز ولادت سے خود رسول(ص) نے کی ہے اور تا حیات ان کی نگرانی و سرپرستی کی چنانچہ حضرت علی نے بھی اپنی فکر و سیرت اور کردار میں اسلام کے اقدار کو مجسم کر دکھایا آپ نے ا طاعتِ رسول(ص) اور آنحضرت(ص) کے امر و نہی پر عمل کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کی حقیقت تو یہ ہے کہ ولایت کبریٰ، وصایت نبویہ اور خلافت الٰہیہ کا نشان آپ ہی کو زیب دیتا ہے ، رسول(ص) نے ان کے وجود کی گہرائی میں اسلامی (رسالت)پیغام، انقلاب الٰہی اور حکومت نبوی(ص) کے نظام کی محبت کو راسخ کیا تاکہ آنحضرت(ص) کی عدم موجودگی میں علی حکم خدا سے رسول(ص) کے پہلے خلیفہ بن جائیں۔

رسول(ص) نے سخت حالات کے باوجود حضرت علی کو مسلمانوں کا ہادی و خلیفہ مقرر کرنے کے بعد اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہا۔ اور اس طرح آپ(ص) نے طاعت خدا اور اس کے امر کے سامنے سراپا تسلیم ہونے میں اعلیٰ مثال قائم کی۔ حکمِ خدا کی بہترین طریقہ سے تبلیغ کی اور فصیح وبلیغ خطبہ کے ساتھ حجّت تمام کی ۔

یہ تھا خاتم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہ کی شخصیت و حیات کا سرسری جائزہ۔ آئیے اب آپ کی شخصیت و حیات کا تفصیلی اعتبار سے جائزہ لیا جائے۔

۲۸

دوسری فصل

بشارت

قرآن مجید نے صریح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ بشریت کا تاریخی عہد انبیاء کی بعثت اور رسولوں کے آنے سے شروع ہوا۔ انبیاء اور رسولوں نے اپنی امتوں کو اعلیٰ حیات اور کامل ترین انسانی وجود کی طرف ہدایت کی۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرۂ انسانی میں انبیاء کا نور و ظہور اسی وقت سے ہے جب سے بشریت کی تاریخ شروع ہوئی ہے ۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( کان النّاس امة واحدة فبعث اللّٰه النّبیین مبشّرین و منذرین و انزل معهم الکتاب بالحق لیحکم بین النّاس فیمااختلفوا فیه وما اختلف فیه الا الّذین اوتوه من بعد ما جائتهم البینات بَغْیاً بینهم فهدی اللّٰه الذین آمنوا لما اختلفوا فیه من الحق باذنه واللّه یهدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم ) ( ۱ )

لوگ ایک ہی امت تھے، پس خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے نبی بھیجے اور ان پر برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں در حقیقت اختلاف انہیں لوگوں نے کیا جنہیں(نبی کے ذریعہ) کتاب دی گئی اور ان پر آیتیں واضح ہو گئی ہیں ایسا انہوں نے بغاوت کی وجہ سے کیا ہے تو خدا نے ایمان قبول کرنے والوں کو ہدایت دیدی چنانچہ انہوں نے

____________________

۱۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۲۹

اختلاف میں حکمِ خدا کو پا لیا اور خدا جس کو چاہتا ہے اسے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے ۔

خدا کی رحمت و حکمت کا یہ تقاضا ہوا تھاکہ اس نے انسانوں کے درمیان ایسے انبیاء بھیجے جن کے ہاتھوں میں ہدایت کا پرچم ہو اور وہ لوگوں کوخواہشات کے غار سے نکال کر عقل کی بلندی پر پہنچا دیں، اور جنگ و جدال(جو طاقت و غریزہ کی وجہ سے ہوتی ہیں) کی لت سے ہٹاکر نظام کی منطق پر پہنچا دیں جس کا سرچشمہ قانون ہے ، انبیاء کے ذریعہ انسان حیوانیت سے بلند ہوا اور اس نے یہ محسوس کیا کہ وہ عقل و روح کا پیکر ہے ۔ انبیاء نے انسان کے لئے ایک گھاٹ(حوض، چشمہ) کی نشاندہی کی جو زندگی کی وحدت سے بہت بلند ہے ۔

یہ ایسی وحدت ہے جو عقیدہ کی بنیاد پر استوار ہے اس سے انسانی تعلقات کو وسعت ملتی ہے، یہ مادی روابط سے معنوی روابط کی طرف لے جاتی ہے ، عہد نبوت کے بعد سے انسانوں کے درمیان اختلافات کا سبب معنوی امور قرار پائے، دین و عقیدہ میں اختلاف ہوا، واضح رہے انبیاء کے لائے ہوئے دین کو لغو قرار نہیں دیا جا سکتابلکہ ان کا سلسلہ جاری رہے گا ان میں تنوع ہوتا رہیگا ہاں اس موضوع کا سرچشمہ غریزہ نہیں ہے بلکہ قانون کو قرار دیا گیا ہے۔ اور انسانی وحدت و ارتقاء اور ان کے تعاون کے لئے وہی قانون، مستقل دستور بن سکتا ہے جس کی دین نے ضمانت لی ہے۔( ۱ )

حضرت علی بن ابی طالب نے نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں (پیدائش عالم، تخلیق آدم اور زمین پر بسنے والے افرادکی تاریخ بیان کرنے کے بعد)اس بات کی وضاحت کی ہے کہ تاریخ انسان اور کمال و ارتقاء کی طرف اس کے سفر کا محور انبیاء کی روشنی اور ان کی مسلسل بعثت ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید نے تاریخ کے ساتھ اپنے تعامل کے طریقہ میں اسکی وضاحت کی ہے :

ارشاد ہے:''...واصطفیٰ سبحانه من ولد (آدم) انبیائ، اخذ علیٰ الوحی میثاقهم ''

ان سے یہ عہد لیا تھا کہ جو وحی ان پر کی جائے گی وہ اسے لوگوں تک پہنچائیں گے اور لوگوں کے لئے اسی چیز

____________________

۱۔ حرکة التاریخ عند الامام علی ص ۷۱۔ ۷۳۔

۳۰

کو شریعت بنائیں گے جو وحی کے ذریعہ ان تک پہنچے گی۔

خدا نے اولادِ آدم میں سے بعض کو نبی بنایا اور ان سے یہ عہد لیا کہ وہ اس چیز کی تبلیغ کریں گے جس کی ان پرخدا کی طرف سے وحی ہو گی۔

تبلیغِ رسالت کے لئے ان سے عہد لیا یہ ان کے پاس امانت ہے کیونکہ بہت سے لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد میں رد و بدل کر دی تھی،یعنی میثاق فطرت کو بدل دیا تھا۔

جس کے نتیجہ میں وہ اس سے جاہل رہے اور اس کی مثال قرار دینے لگے۔ اور شیطان نے انہیں معرفتِ خدا کے راستہ سے ہٹا دیا اور انہیں اسکی عبادت سے بہکا دیا۔

خدا کے علاوہ انہوں نے دوسرے معبود بنا لئے تھے۔

لہذا خدا نے ان میں اپنے رسولوں کو بھیجا،ایک کے بعد ایک ان کے درمیان اپنے انبیاء بھیجے تاکہ وہ ان سے فطری میثاق کی ادائیگی کا تقاضا کریں اور انہیں خدا کی نعمت یاد دلائیں جس کو وہ بھلا چکے ہیں، اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حّجت تمام کریں،عقل کے دفینوں کو ان پر آشکار کریں اورانہیں پوشیدہ نشانیاں دکھائیں، آسمان کا شامیانہ دکھائیں، زمین کا بچھا ہوا فرش دکھائیں، ان کو فنا کرنے والی اجل سے آگاہ کریں، ان کو بوڑھا کرنے والے رنج و مشقت اور پے در پے رونما ہونے والے حوادث کی طرف متوجہ کریں۔

خدا وند عالم نے اپنی مخلوق کو'' نبیِ مرسل ''، ''کتاب منزل''، ضروری و لازمی حجّت اور واضح راستہ سے محروم نہیں کیا ہے ۔

رسولوں کی کم تعداد ان کی ہمت پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی اور نہ جھٹلانے والوں کی کثرت سے وہ مرعوب ہوتے تھے۔جو پہلے آتا تھا اسے بعد والے کا نام بتا دیا جاتا تھا اور وہ اس کی بشارت دیتا تھا، یا اس کے آنے سے پہلے اس کاتعارف کر ایاجاتاتھا۔

۳۱

اسی طرح صدیاں گذرگئیں، زمانے بیت گئے، باپ اسلاف میں اور بیٹے اخلاف کے زمرہ میں چلے گئے تو خدا نے اپنا وعدہ پورا کرنے اور سلسلۂ نبوت کی تکمیل کے لئے محمد (ص) کو رسول(ص) بنا کر بھیجا۔ انبیاء سے آپ (ص)کی نبوت کا عہد لیا جاچکا تھا۔ پہلے انبیاء کی کتابوں میں ان کی علامتیں بیان ہو چکی تھیں، ان کی ولادت پاک و پاکیزہ تھی اہل زمین مختلف مذہبوں میں بٹے ہوئے اور پریشان خیالیوں میں مبتلا تھے، پراگندہ گروہ تھے، ان میں سے بعض تو خدا کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دیتے تھے بعض اس کے نام میں الحاد کرتے تھے( یعنی خدا کو ناروا صفات سے متصف کرتے تھے)یا اس کے غیر کو خدا مانتے تھے۔

پس رسول(ص) نے انہیں گمراہی سے نجات عطا کی ، ہدایت کے راستہ پر لگایا۔ انہیں جہالت و نادانی سے نکالا(اور علم سے آراستہ کیا) پھر خدا نے محمد(ص) کو اپنی ملاقات کے لئے منتخب کیا اور اس بات کو پسند فرمایا کہ انہیں دارِ دنیا سے اپنے پاس بلائے اور دنیا کی آزمائش سے نجات بخشے چنانچہ خدا نے آپ(ص) کو اٹھا لیا ، اور تمہارے درمیان انہوں نے وہی چیزیں چھوڑیں جو گذشتہ انبیاء نے اپنی امتوں کے درمیان چھوڑی تھیں، تمہیںواضح راستہ اور باقی رہنے والی نشانی کے بغیر حیران و پریشان نہیں چھوڑا ۔( ۱ )

بیشک گذشتہ انبیاء آنے والے انبیاء کی جو بشارت دیتے تھے اس سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچتا رہا یہ چیز ان کی آنکھیں کھولتی ہے اور انہیں اس نبی کے استقبال کے لئے تیار کرتی ہے جس کی بشارت دی گئی ہے ۔ انہیں شک و شبہ سے نجات دلاتی ہے اور اطمینان و یقین کی دولت عطا کرتی ہے ۔

واضح رہے کہ جب انسان اپنی اصلاح سے مایوس ہو جاتا ہے تو وہ شر و خیانت کے طریقے سوچنے لگتا ہے ، اور اصلاح کرنے والے انبیاء کی آمد کی بشارت ان لوگوں کو حسرت و یاس سے نجات عطا کرتی ہے جو اصلاح کے منتظر ہوتے ہیں اور زندگی سے محبت کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ خیر و صلاح کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔

____________________

۱۔انبیاء نے اپنی امتوں کو ان چیزوں سے محروم نہیں رکھا ہے کہ جن کی انہیں ان کے مرنے کے بعد ضرورت پیش آ سکتی تھی اس سلسلہ میں جو چیز ان پر فرض تھی وہی محمد(ص) پر بھی فرض تھی چنانچہ آپ(ص) نے اپنی امت میں کتاب خدا چھوڑی ہے جس میں ان کے دین سے متعلق ہر چیز موجود ہے اسی طرح اپنے معصوم اہل بیت چھوڑے اور انہیں قرآن کا ہم پلہ قرار دیا، جیسا کہ حدیث ثقلین نے اس کی وضاحت کی ہے حدیث ثقلین متواتر ہے اور بہت سے محدثین نے اس کی روایت کی ہے۔

۳۲

اپنے نبیوں کی بشارت سے مومنوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے کافروں کو اپنے کفر کے بارے میں شک ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نبی(ص) کی دعوتِ حق کے مقابلہ میں کمزور ہو جاتے ہیں اور اس سے ان کے اسلام قبول کرنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور جب بشارتوں سے یقین و اعتماد پیدا ہو جاتا ہے تو پھر نبی(ص) سے معجزہ طلب کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے نیزبشارت دلوں میں اتر جاتی ہے اور اس سے یقین حاصل ہوتا ہے ، بشارت لوگوں کو غیر متوقع حوادث سے بچاتی ہے اوراس سے نبی(ص) کی دعوت لوگوں کے لئے اجنبی نہیں رہتی ہے ۔( ۱ )

واضح رہے کہ تمام انبیاء نے ایک ہی راستہ کی نشاندہی کی ہے، پہلے نے بعد والے کی بشارت دی ہے اور بعدمیں آنے والا پہلے والے پر ایمان لایا ہے ، سورۂ آل عمران کی آیت (۸۱) میں بشارت کے طریقہ کی وضاحت ہوئی ہے یہ ان مثالوں میںسے ایک ہے جن کوہم آئندہ پیش کریں گے۔

گذشتہ انبیاء نے محمد (ص)بن عبد اللہ کی رسالت کی بشارت دی

۱۔ قرآن مجید نے اس بات کو صریح طور پر بیان کیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے دعا کی صورت میں حضرت خاتم النبیین کی رسالت کی اس طرح بشارت دی ہے (مکہ مکرمہ میں خانہ خدا کی بنیادوں کو بلند کرنے، اپنے اور حضرت اسماعیل کے عمل کو قبول کرنے اور اپنی ذریت میں ایک گروہ کے مسلمان رہنے کی دعا کرنے کے بعد)( ربّنا وابعث فیهم رسولًا منهم یتلوا علیهم آیاتک و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و یزکّیهم انک انت العزیز الحکیم ) ( ۲ )

پروردگار! ان میں انہیں میں سے رسول (ص) بھیجنا جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے بیشک تو عزت و حکمت والا ہے ۔

۲۔قرآن مجید نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ توریت کے عہد قدیم اور انجیل کے عہد جدید میں محمد(ص) کی

____________________

۱۔محمد فی القرآن ص ۳۶ و ۳۷۔

۲۔بقرہ: ۱۲۹۔

۳۳

نبوت کی بشارتیں ہیں یہ دونوں عہد، نزولِ قرآن اور بعثتِ محمد(ص) کے وقت موجود تھے اگر ان دونوں عہدوں میں یہ بشارت نہ ہوتی تو ان کے ماننے والے اس بات کو جھٹلا دیتے۔

ارشاد ہے :

( الّذین یتّبعون الرّسول النّبی الامّی الّذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التّوراة و الانجیل یأ مرهم بالمعروف و ینهاهم عن المنکر و یحّل لهم الطّیبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم اصرهم والاغلال التی کانت علیهم ) ( ۱ )

جو لوگ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکروہ اپنے پاس توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے پاک و صاف چیزوںکو حلال قرار دیتا ہے گندی چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان سے بارگراں اور پابندیوں کو اٹھا دیتا ہے ۔

سورہ صف کی چھٹی آیت اس بات کی صراحت کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے توریت کی صداقت کی تصریح کی ہے اور اپنے بعد آنے والے اس نبی کی رسالت کی بشارت دی ہے جس کا نام احمد ہوگا اور یہ بات آپ نے تمام بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمائی تھی صرف حواریوںکو مخاطب قرار نہیں دیا تھا۔

اہل کتاب ہمارے نبی(ص) کی آمد کے منتظر تھے

جس نبی کی بشارت دی جا چکی تھی ان سے پہلے آنے والے انبیاء نے ہمارے نبی کے عام اوصاف، بیان کرنے پرصرف اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی ایسی علامتیں بھی بیان کر دی تھیںجن کے ذریعہ لوگ انہیں بخوبی پہچان سکتے تھے مثلاً ان کی جائے پیدائش، جائے ہجرت اور ان کی بعثت کے وقت کے خصوصیات ان کے جسمانی صفات اور کچھ ایسے حالات بیان کئے تھے جن کے ذریعہ آپ(ص) اپنے کرداراور اپنی شریعت میں دوسروں سے ممتاز تھے لہذا قرآن نے بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ اس

____________________

۱۔ اعراف: ۱۵۷۔

۳۴

رسول (ص) کو کہ جس کی، دونوں قدیم و جدید، عہدوں میں بشارت دی گئی ہے ویسے ہی پہچانتے تھے جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں( ۱ ) بلکہ اس بشارت کی بنا پرانہوں نے عملی آثار بھی مرتب کر لئے تھے اور ان کی جائے ہجرت اور مرکزِ حکومت کا پتہ لگا لیا تھا اور اسی جگہ سکونت پذیر ہو گئے تھے۔( ۲ ) اور ان کی آمد کے سبب کافروں پر فتح پانے کے متمنی تھے اور اپنے رسول(ص) کی مدد سے اوس و خزرج (کے قبیلوں) کو ڈراتے تھے( ۳ ) ان کے علاوہ اور راہبوں کے ذریعہ یہ خبریں دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ گئی تھیں جومدینہ میں عام ہوئیں اور مکہ تک پہنچ گئیں۔( ۴ ) آنحضرت (ص) کے اعلانِ رسالت کے بعد قریش کا ایک وفد اس لئے مدینہ کے یہود یوںکے پاس گیا تاکہ دعوائے نبوت کے صحیح ہونے کا پتہ لگائے اور ایسے معلومات حاصل کرے جن کے ذریعہ انہوں نے نبی کو آزمایا( ۵ ) ہے یا انہیں ان کی آمد کی خبر ہوئی ہے اور اس سے یہ واضح ہو جائے کہ ان کا دعویٰ سچا ہے ۔ بہت سے اہل کتاب اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ انہیں علامتوں کے پیش نظر کوئی معجزہ دیکھے بغیر آپ(ص) پر ایمان لے آئے تھے، یہ بشارتیں، توریت و انجیل کے بعض نسخوں میں آج تک پائی جاتی ہیں۔( ۶ ) آپ(ص) کی نبوت کی بشارتیں آپ(ص) کی ولادت سے پہلے اور بعثت سے قبل آپ کی حیات میں بھی بیان ہوتی رہتی تھیں ان بشارتوں اور خبروں میں سے بحیرا راہب وغیرہ کی بشارت ابتدائے بعثت ہی سے مشہور تھی۔( ۷ ) حضرت امیر المومنین علی نے بھی اپنے ایک خطبہ میں اس تاریخی حقیقت کی گواہی دی ہے:

____________________

۱۔انعام: ۲۔

۲۔ سیرت رسول اللہ ج۱ ص ۳۸ و ۳۹۔

۳۔بقرہ: ۸۹۔

۴۔ا شعة البیت النبوی(ص) ج۱ ص ۷۰ اس میں اغانی ج۱۶ ص ۷۵،تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۱۲ سے منقول ہے۔ حیات نبی الاسلام ص ۱۳ ،اس میں سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۸۱۔

۵۔ ملاحظہ فرمائیں: سورۂ کہف کی شان نزول۔

۶۔ سیرت رسول اللہ و اہل بیتہ ج۱ ص ۳۹، انجیل یوحنا و اشعة البیت النبوی ج۱ ص ۷۰ اس میں توریت سے منقول ہے ۔

۷۔ بشارتوں کے سلسلہ میں سیرت نبوی اور تفسیر کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں۔

۳۵

''...الیٰ ان بعث اللّٰه سبحانه محمّداً رسول اللّٰه، لا نجاز عدته و اتمام نبوته ماخوذاً علیٰ النبیین میثاقه مشهور ةً سیمائه...'' ( ۱ )

یہاں تک خدا نے وعدہ وفائی اور نبوت کی تکمیل کے لئے محمدرسول(ص) کو مبعوث کیا کہ جن کی نبوت پر انبیاء سے عہد لیا تھا اور جن کی علامتیں اور بشارتیں مشہور تھیں۔

ابن سعد کی کتاب طبقات میں عتیبہ کے غلام سہل سے روایت ہے کہ وہ اہل حریس میں سے ایک نصرانی تھا اوراپنی ماں اور چچا کے زیر سایہ یتیمی کی زندگی گزار رہا تھا وہ انجیل پڑھتا تھا...وہ کہتا ہے: میں نے اپنے چچا کی کتاب اٹھائی اور اسے پڑھنے لگا میری نظر سے ایک صفحہ گذرا کہ جس کی تحریر میں کوئی ربط معلوم نہ ہوا تو میں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر دیکھا، راوی کہتا ہے : میں نے دیکھا کہ ایک صفحہ دوسرے سے چپک گیا ہے ۔ میں نے دونوںکو الگ کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں محمد(ص) کی تعریف و توصیف اس طرح مرقوم ہے :

آنحضرت (ص) نہ دراز قد ہوں گے نہ کوتاہ قد ہوں گے،گندم گوں رنگ ہو گا، بال گھنگرالے ہوں گے، دونوں شانوں کے درمیان مہر(نبوت) ہوگی بڑے سخی و فیاض ہوںگے، صدقہ نہیں لیں گے، گدھے اور اونٹ پر سوار ہونگے، بکری کا دودھ دوہیں گے، پیوند لگا کپڑا پہنیں گے اس لئے کہ جو ایسا کرتا ہے اس میں غرور و تکبر نہیں ہوتا ہے اور وہ اسماعیل کی ذریت سے ہوں گے، ان کا نام احمدہوگاسہل کہتے ہیں: جب میں یہاں تک محمد(ص) کا ذکر پڑھ چکا تو میرے چچا آئے انہوں نے جب اس صفحہ کو دیکھا جس کو میں پلٹ چکا تھا کہنے لگے : تم نے اس صفحہ کو کیوں پڑھا ؟! میں نے عرض کیا : اس میں نبی احمد کے صفات کا ذکر ہے انہوںنے کہا: وہ ابھی تک تو آئے نہیں!( ۲ )

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبۂ اولیٰ۔

۲۔ الطبقات الکبریٰ ج۱ ص ۳۶۳۔

۳۶

تیسری فصل

خاتم النبیین(ص) کے اوصاف

۱۔ امی عالم

خاتم النبیین کا یہ امتیاز تھا کہ آپ(ص) نے کسی بشر سے پڑھنا اور لکھنا نہیں سیکھا تھا( ۱ ) اور نہ کسی علمی ماحول میں نشو و نما پائی تھی بلکہ آپ(ص) نے جاہلیت والے ماحول میں پرورش پائی تھی، قرآن کی بیان کی ہوئی اس حقیقت کی کسی نے تردید نہیں کی ہے ۔( ۲ ) اس قوم کی طرف آپ رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جو اپنی نری جاہلیت کے حوالہ سے مشہور اور علوم و معارف سے بہت دور تھی۔ اس زمانہ کو زمانۂ جاہلیت کا نام دیا گیاہے ۔ یقینا یہ نام اس عظیم الشان عالم نے دیا ہے جو علم و جہالت اور عقل و حماقت کی حقیقت سے کما حقہ با ٰخبر تھا۔

مزید بر آں وہ ایسی کتاب لائے تھے جو علم و ثقافت ، فکر و نظر کی دعوت دیتی ہے اور علوم و معارف کے بہت سے اقسام و اصناف پر مشتمل ہے ، آپ(ص) نے لوگوں کو نئے اسلوب سے کتاب و حکمت کی تعلیم دینا شروع کی( ۳ ) یہاں تک کہ ایک ایسی منفرد تہذیب کو وجود بخشا کہ جس نے اپنے علوم و معارف کے ذریعہ مشرق و مغرب کو متزلزل کر دیا اور اس کی ضو فشانی وتابناکی آج تک اسی طرح برقرار ہے۔

____________________

۱۔ نحل: ۱۰۳ ۔

۲۔عنکبوت: ۴۸۔

۳۔ جمعہ:۲۔

۳۷

دنیا والوں کے لحاظ سے آپ(ص) امی تھے لیکن جاہلیت و نادانی اور بت پرستوں سے جنگ کرتے رہے انہیں استوار دین اور عالمی شریعت کے ساتھ بشریت کی طرف بھیجا گیا جووقت گزرنے کے ساتھ بشریت کوچیلنج کرتی چلی آ رہی ہے(لیکن ابھی تک کوئی اس کا جواب نہیں لا سکا ہے) بیشک آپ(ص) اپنے علم و معارف، حکیمانہ کلمات، عقلی و ثقافتی رجحان اور اپنی تربیت کے اسالیب کے لحاظ سے معجزہ ہیں۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

( فامنوا باللّٰه و رسوله النّبی الامّی الّذی یومن باللّٰه و کلماته و اتبعوه لعلّکم تهتدون ) پس تم خدا اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لائو جو کہ خدا اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کا اتباع کرو،ہو سکتا ہے اس طرح تم ہدایت پا جائو۔( ۱ )

نیز فرماتا ہے:( و انزل اللّه علیک الکتاب و الحکمة و علّمک ما لم تکن تعلم و کان فضل اللّه علیک عظیما ) ( ۲ )

اور خدا نے تمہیں کتاب و حکمت سے نوازا اور تمہیں ان چیزوں کا علم دیا جن کو تم نہیں جانتے تھے اور یہ تم پر خدا کا بڑا کرم ہے ۔

اس وقت خدا نے ان پر وحی نازل کی اور انہیں کتاب و حکمت کے علم سے سر فراز کیا اور انہیں نور، سراج منیر، برہان، شاہد، رسول مبین ، امین خیر خواہ ناصح، بشارت دینے والا، یاد دلانے والا اور ڈرانے والا قرار دیا۔( ۳ )

خدا نے ان کے سینہ کو کشادہ کیا اور انہیں وحی قبول کرنے اور اس معاشرہ کی ہدایت کرنے کے لئے تیار کیا جو عصبیت اور جاہلیت والی انانیت میں غرق تھے تبلیغ و تربیت اور تعلیم کے میدان میں بشریت نے آپ کو عظیم الشان قائد پایا ہے ۔

____________________

۱۔ اعراف: ۱۵۸۔ ۲۔ نسائ: ۱۱۳۔

۳۔ مائدہ: ۱۵، احزاب: ۴۶، نسائ: ۱۷۴، فتح:۸، زخرف ۲۹، اعراف: ۶۸، غاشیہ ۲۱، اسرائ: ۱۰۵، مائدہ:۱۹۔

۳۸

یہ ایک بہت بڑا انقلاب تھا کہ جاہلیت سے بھرا معاشرہ چند برسوں میں کتابِ ہدایت اور مشعل علم کا ایک طاقتور و امین نگہبان و محافظ بن گیا اور تحریف و تصحیف کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے،عزم محکم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوایہ اس دائمی کتاب اور اس رسول(ص) امی کا معجزہ ہے جو جاہلیت کے معاشرہ میں( خرافات اور اساطیر سے بہت دور تھا) اصل میں خدائی نورِ بصیرت آپ کے پورے وجود کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔

۲۔ مسلمِ اوّل

خالقِ کائنات ، سرچشمۂ وجود، خدا کے سامنے سر جھکانا ،اس کی عظیم قدرت اور اس کی حکمت کے نفاذ کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نیز ایک، اکیلے اور بے نیاز معبود کی بندگی کا اقرار کرنا وہ منزل ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا چاہئے تاکہ وہ خدائی انتخاب واصطفیٰ کے لائق بن جائے۔ قرآن مجید نے نبی کریم کے لئے اسی کی گواہی دی ہے۔ ارشاد ہے :

( قل انّنی هدانی ربّی الیٰ صراط مستقیم...و انا اوّل المسلمین ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے صراط مستقیم کی طرف میری ہدایت کی ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

یہ تمغۂ کمال ہے جس کو اس بندۂ مسلم نے حاصل کیا ہے اور اس کی بندگی میں سب پر فوقیت لے گئے ہیں اس مثالی عبودیت کی جھلک آپ(ص) کے قول و فعل میں نظر آتی ہے ۔ فرماتے ہیں:

''قرة عین فی الصّلواة''( ۲ ) میری آنکھوںکی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ آپ(ص) وقتِ نماز کا انتظار کرتے تھے، بارگاہ خدا میں پہنچنے کاآپ کو شدید اشتیاق رہتا تھا چنانچہ اپنے موذن بلال سے فرماتے تھے:ارحنا یا بلال( ۳ ) اے بلال ہمیں خوش کرو، آپ(ص) اپنے اہل و عیال سے گفتگو کرتے تھے وہ بھی آپ(ص) سے محو سخن

____________________

۱۔ انعام: ۱۶۱ تا ۱۶۳۔

۲۔ امالی طوسی ج۲ ص ۱۴۱ ۔

۳۔بحار الانوار ج۸۳ ص ۱۶۔

۳۹

رہتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آتا تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں ہیں۔( ۱ ) اور جب نماز پڑھتے تھے تو آپ(ص) کے سینہ اقدس سے ایسا زمزمہ بلند ہوتا تھا جیسے پتیلی میں کچھ پکنے کی آواز ہوتی ہے( ۲ ) اور خوفِ خدا میں اتنا روتے تھے کہ آپ کا مصلّٰی تر ہو جاتا تھا۔( ۳ ) اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آ جاتا تھا اورصحابہ آپ(ص) سے عرض کرتے تھے: آپ(ص) اتنی نمازیں پڑھتے ہیں جبکہ خدا نے آپ(ص) کے گذشتہ اور آئندہ کے سارے الزاموں کو معاف کر دیا ہے؟ آپ(ص) فرماتے تھے:

''أفلا أکون عبداً شکوراً'' ( ۴ )

کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟!

آپ پورے ماہ رجب و شعبان، اورہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔( ۵ ) رمضان آتا تو آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور نماز و دعامیں بہت گڑگڑاتے تھے۔( ۶ ) رمضان کے آخری دس دنوں میں تو آپ(ص) ازواج سے بھی پرہیز کرتے تھے شب بیداری کرتے تھے مختصر یہ کہ آپ اپنی پوری طاقت کو عبادت میں صرف کرتے تھے۔( ۷ ) دعا کے متعلق فرماتے:''الدعا مخ العبادة'' ( ۸ ) دعا عبادت کا لب لبا ب ہے۔''و سلاح المؤمن و عمود الدین و نور السمٰوات و الارض'' ( ۹ ) دعا مومن کا اسلحہ ہے ، دین کا ستون ہے اور زمین و آسمان کا نور ہے : آپ(ص) ہمیشہ خدا سے لو لگائے رہتے تھے، دعا اور تضرع کے ذریعہ خدا سے اپنا رشتہ مضبوط رکھتے تھے۔ ہر چھوٹے بڑے کام کے لئے دعا کرتے تھے، ہر روز خدا سے ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے باوجود یکہ آپ(ص) معصوم تھے پھر بھی خدا کی بارگاہ میں ہر روز ستر بار توبہ کرتے

____________________

۱۔اخلاق النبی و آدابہ ص ۲۵۱ ۔ ۲۔ایضاً ص ۲۰۱۔ ۳۔ سنن النبی (ص) ص ۳۲۔

۴۔اخلاق النبی ص ۱۹۹ صحیح بخاری ج۱ ص ۳۸۱ ح ۱۰۷۸۔ ۵۔ وسائل الشیعة ج۴ ص ۳۰۹۔

۶۔ سنن النبی ص ۳۰۰۔ ۷۔ کافی ج۴ ص ۱۵۵ ۔

۸۔محجة البیضاء ج۲ ص ۲۸۲ ۔ ۹۔ایضاً: ج ۲ص۲۸۴ ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

پانچويں فصل: تقصير

يہ عمرہ كے واجبات ميں سے پانچواں ہے _

مسئلہ ۳۱۱_ سعى كو مكمل كرنے كے بعد تقصير واجب ہے اور اس سے مراد ہے سر، داڑھى يا مونچھوں كے كچھ بالوں كا كاٹنا يا ہاتھ يا پاؤں كے كچھ ناخن اتارنا _

مسئلہ ۳۱۲_ تقصير ايك عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۱۳_ عمرہ تمتع سے مُحل ہونے كيلئے سر كا منڈانا تقصير سے كافى نہيںہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے پس اگر تقصير سے

۱۴۱

پہلے سرمنڈا لے تو اگر اس نے جان بوجھ كر ايسا كيا ہو تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ سرمنڈانے كى وجہ سے اس پر ايك بكرى كا كفارہ دينا بھى واجب ہے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو حلق اور تقصير كے درميان اسے اختيار ہے _

مسئلہ ۳۱۴_ عمرہ تمتع كے احرام سے مُحل ہونے كيلئے بالوں كو نوچنا تقصير سے كافى نہيں ہے بلكہ اس سے محل ہونے كيلئے تقصير ہى ضرورى ہے جيسے كے گزرچكا ہے پس اگر تقصير كى بجائے اپنے بالوں كو نوچے تو اگر اسے جان بوجھ كر انجام دے تو نہ فقط يہ كافى نہيں ہے بلكہ اس پر بال نوچنے كا كفارہ بھى ہوگا _

مسئلہ ۳۱۵_ اگر حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كى بجائے بالوں كو نوچے اور حج كو بجالائے تو اس كا عمرہ باطل ہے اور جو حج بجالايا ہے وہ حج افراد واقع ہوگا اور اس وقت اگر اس پر حج واجب ہو تو احوط وجوبى يہ ہے كہ اعمال حج ادا كرنے كے بعد عمرہ مفردہ بجالائے پھر آئندہ سال عمرہ تمتع اور حج

۱۴۲

بجالائے اور يہى حكم ہے اس بندے كا جو حكم سے لاعلمى كى وجہ سے تقصير كے بدلے اپنے بال مونڈ دے اور حج بجالائے _

مسئلہ ۳۱۶_ سعى كے بعد تقصير كى انجام دہى ميں جلدى كرنا واجب نہيں ہے _

مسئلہ ۳۱۷_ اگر جان بوجھ كر يا لاعلمى كى وجہ سے تقصير كو ترك كر كے حج كا احرام باندھ لے تو اقوى يہ ہے كہ اس كا عمرہ باطل ہے اور اس كا حج حج افراد ہوجائيگا اور احوط وجوبى يہ ہے كہ حج كے بعد عمرہ مفردہ كو بجالائے اور اگر اس پر حج واجب ہو تو آئندہ سال عمرہ اور حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۱۸_ اگر بھول كر تقصير كو ترك كردے اور حج كيلئے احرام باندھ لے تو اس كا احرام ، عمرہ اور حج صحيح ہے اور اس پر كوئي شے نہيں ہے اگر چہ اسكے لئے ايك بكرى كا كفارہ دينا مستحب ہے بلكہ احوط اس كا ترك نہ كرنا ہے _

مسئلہ ۳۱۹_ عمرہ تمتع كى تقصير كے بعد اس كيلئے وہ سب حلال ہوجائيگا جو

۱۴۳

حرام تھا حتى كہ عورتيں بھى _

مسئلہ ۳۲۰_ عمرہ تمتع ميں طواف النساء واجب نہيں ہے اگر چہ احوط يہ ہے كہ رجاء كى نيت سے طواف النساء اور اسكى نماز كو بجالائے ليكن اگر اس نے عمرہ مفردہ كيلئے احرام باندھا ہو تو اس كيلئے عورتيں حلال نہيںہوںگى مگر تقصير يا حلق كے بعد طواف النساء اور نماز طواف كو بجالانے كے بعد اور اس كا طريقہ اور احكام طواف عمرہ سے مختلف نہيں ہيں كہ جو گزرچكا ہے _

مسئلہ ۳۲۱_ ظاہر كى بناپر ہر عمرہ مفردہ اور ہر حج كيلئے الگ طور پر طواف النساء واجب ہے مثلا اگر دو عمرہ مفردہ بجالائے يا ايك حج اور عمرہ مفردہ بجالائے تو اگر چہ اس كيلئے عورتوں كے حلال ہونے ميں ايك طواف النساء كا كافى ہونا بعيد نہيں ہے مگر ان ميں سے ہر ايك كيلئے الگ طواف النساء واجب ہے _

۱۴۴

دوسرا حصہ:

اعمال حج كے بارے ميں

۱۴۵

پہلى فصل :احرام

يہ حج كے واجبات ميں سے پہلا واجب ہے _ شرائط ، كيفيت ، محرمات، احكام اور كفار ات كے لحاظ سے حج كا احرام عمرہ كے احرام سے مختلف نہيںہے مگر نيت ميں پس اسكے ساتھ اعمال حج كو انجام دينے كى نيت كريگا اور جو كچھ عمرہ كے احرام كى نيت ميں معتبر ہے وہ سب حج كے احرام كى نيت ميں بھى معتبر ہے اور يہ احرام نيت اور تلبيہ كے ساتھ منعقد ہوجاتا ہے پس جب حج كى نيت كرے اور تلبيہ كہے تو اس كا احرام منعقد ہوجائيگا _ ہاں احرام حج بعض امور كے ساتھ مختص ہے جنہيں مندرجہ ذيل مسائل كے ضمن ميں بيان كرتے ہيں :

۱۴۶

مسئلہ ۳۲۲_ حج تمتع كے احرام كا ميقات مكہ معظمہ ہے اور افضل يہ ہے كہ حج تمتع كا احرام مسجدالحرام سے باندھے اور مكہ معظمہ كے ہر حصے سے احرام كافى ہے حتى كہ وہ حصہ جو نيا بنايا گيا ہے _ ليكن احوط يہ ہے كہ قديمى مقامات سے احرام باندھے ہاں اگر شك كرے كہ يہ مكہ كا حصہ ہے يا نہيں تو اس سے احرام باندھنا صحيح نہيں ہے _

مسئلہ ۳۲۳_ واجب ہے كہ نوذى الحج كو زوال سے پہلے احرام باندھے اس طرح كہ عرفات ميں وقوف اختيارى كو پاسكے اور اسكے اوقات ميں سے افضل ترويہ كے دن( آٹھ ذى الحج) زوال كا وقت ہے _ اور اس سے پہلے احرام باندھنا جائز ہے بالخصوص بوڑھے اور بيمار كيلئے جب انہيں بھيڑ كى شدت كا خوف ہو _ نيز گزرچكا ہے كہ جو شخص عمرہ بجالانے كے بعد كسى ضرورت كى وجہ سے مكہ سے خارج ہونا چاہے تو اس كيلئے احرام حج كو مقدم كرنا جائز ہے _

مسئلہ ۳۲۴_ جو شخص احرام كو بھول كر عرفات كى طرف چلاجائے تو اس

۱۴۷

پر واجب ہے كہ مكہ معظمہ كى طرف پلٹے اور وہاں سے احرام باندھے اور اگر وقت كى تنگى يا كسى اور عذر كى وجہ سے يہ نہ كرسكتا ہو تو اپنى جگہ سے ہى احرام باندھ لے اور اس كا حج صحيح ہے اور ظاہر يہ ہے كہ جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے _

مسئلہ ۳۲۵_ جو شخص احرام كو بھول جائے يہاں تك كہ حج كے اعمال مكمل كرلے تو اس كا حج صحيح ہے _ اور حكم سے جاہل بھى بھولنے والے كے ساتھ ملحق ہے اور احوط استحبابى يہ ہے كہ لاعلمى اور بھولنے كى صورت ميں آئندہ سال حج كا اعادہ كرے _

مسئلہ ۳۲۶: جو شخص جان بوجھ كر احرام كو ترك كردے يہاں تك كہ وقوفبالعرفات اور وقوف بالمشعر كى فرصت ختم ہوجائے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۲۷_ جس شخص كيلئے اعمال مكہ كو وقوفين پر مقدم كرنا جائز ہو اس پر واجب ہے كہ انہيں احرام كى حالت ميں بجالائے پس اگر انہيں بغير احرام كے بجالائے تو احرام كے ساتھ ان كا اعادہ كرنا ہوگا _

۱۴۸

دوسرى فصل :عرفات ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے دوسرا واجب ہے اور عرفات ايك مشہور پہاڑ ہے كہ جسكى حد عرنہ ، ثويہ اور نمرہ كے وسطسے ليكر ذى المجاز تك اور ما زمين سے وقوف كى جگہ كے آخر تك اور خود يہ حدود اس سے خارج ہيں_

مسئلہ ۳۲۸_ وقوف بالعرفات عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت واجب ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزرچكى ہيں_

مسئلہ ۳۲۹_ وقوف سے مراد اس جگہ ميں صرف حاضر ہونا ہے چاہے سوار ہو يا پيدل يا ٹھہرا ہوا_

مسئلہ ۳۳۰_ احوط يہ ہے كہ نوذى الحج كے زوال سے غروب شرعى

۱۴۹

(نماز مغرب كا وقت) تك ٹھہرے اور بعيد نہيں ہے كہ اسے زوال كے اول سے اتنى مقدار مؤخر كرنا جائز ہو كہ جس ميں نماز ظہر ين كو انكے مقدمات سميت اكٹھا ادا كيا جاسكے_

مسئلہ ۳۳۱_ مذكورہ وقوف واجب ہے ليكن اس ميںسے ركن صرف وہ ہے جس پر وقوف كا نام صدق كرے اور يہ ايك ياد و منٹ كے ساتھ بھى ہوجاتا ہے اگر اس مقدار كو بھى اپنے اختيار كے ساتھ ترك كردے تو حج باطل ہے اور اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو ترك كردے يا وقوف كو عصر تك مؤخر كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگرچہ جان بوجھ ايسا كرنے كى صورت ميں گناہ گار ہے _

مسئلہ ۳۳۲_ غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرنا حرام ہے پس اگر جان بوجھ كر كوچ كرے اور عرفات كى حدود سے باہر نكل جائے اور پلٹے بھى نہ تو گناہ گار ہے اورايك اونٹ كا كفارہ دينا واجب ہے ليكن اس كا حج صحيح ہے اور اگر اونٹ كا كفارہ دينے سے عاجز ہو تو اٹھارہ روزے ركھے اور احوط

۱۵۰

يہ ہے كہ اونٹ كو عيد والے دن منى ميں ذبح كرے اگر چہ اسے منى ميں ذبح كرنے كا معين نہ ہونا بعيد نہيں ہے اور اگر غروب سے پہلے عرفات ميں پلٹ آئے تو كفارہ نہيں ہے _

مسئلہ ۳۳۳_ اگر بھول كر يا حكم سے لاعلمى كى وجہ سے غروب سے پہلے عرفات سے كوچ كرے تو اگر وقت گزرنے سے پہلے متوجہ ہوجائے تو اس پر واجب ہے كہ پلٹے اور اگر نہ پلٹے تو گناہ گارہے ليكن اس پر كفارہ نہيں ہے ليكن اگر وقت گزرجانے كے بعد متوجہ ہو تو اس پر كوئي شے نہيں ہے _

۱۵۱

تيسرى فصل :مشعرالحرام ( مزدلفہ) ميں وقوف كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے تيسرا ہے اور اس سے مراد غروب كے وقت عرفات سے مشعر الحرام كى طرف كوچ كرنے كے بعد اس مشہور جگہ ميں ٹھہرنا ہے_

مسئلہ ۳۳۴_ وقوف بالمشعر عبادت ہے كہ جس ميں انہيں شرائط كے ساتھ نيت معتبر ہے جو احرام كى نيت ميں ذكر ہوچكى ہيں_

مسئلہ ۳۳۵_ واجب وقوف كا وقت دس ذى الحج كو طلوع فجر سے طلوع آفتاب تك ہے اوراحوط يہ ہے كہ عرفات سے كوچ كرنے كے بعد رات كو وہاں پہنچ كر وقوف كى نيت كے ساتھ وہاں وقوف كرے _

۱۵۲

مسئلہ ۳۳۶_ مشعر ميں طلوع فجر سے ليكر طلوع آفتاب تك باقى رہنا واجب ہے ليكن ركن اتنى مقدار ہے جسے وقوف كہا جائے اگر چہ يہ ايك يا دو منٹ ہو _اگر اتنى مقدار وقوف كرے اور باقى كو جان بوجھ كر ترك كردے تو اس كا حج صحيح ہے اگر چہ فعل احرام كا مرتكب ہوا ہے ليكن اگر اپنے اختيار كے ساتھ اتنى مقدار وقوف كو بھى ترك كردے تو اس كا حج باطل ہے _

مسئلہ ۳۳۷_ عورتوں ، بچوں، بوڑھوں ،كمزوروں اور صاحبان عذر_ جيسے خوف يا بيماري_ كيلئے اتنى مقدار وقوف كرنے كے بعد كہ جس پر وقوف صدق كرتا ہے عيد كى رات مشعر سے منى كى طرف كوچ كرنا جائز ہے اسى طرح وہ لوگ جو ان كے ہمراہ كوچ كرتے ہيں اور انكى احوال پرسى كرتے ہيں جيسے خدام اور تيمار دارى كرنے والے _

تنبيہ : وقوفين ميں سے ايك يادونوں كو درك كرنے كے اعتبار سے اور اختياراً يا اضطراراً جان بوجھ كر، لاعلمى سے يا بھول كر فرداً يا تركيباً بہت سارى تقسيمات ہيں كہ جو مفصل كتابوں ميں مذكور ہيں_

۱۵۳

چوتھى فصل :كنكرياں مارنا

يہ حج كے واجبات ميں سے چوتھا اور منى كے اعمال ميں سے پہلا ہے _ دس ذى الحج كو جمرہ عقبہ ( سب سے بڑا) كوكنكرياں مارناواجب ہے _

كنكرياں مارنے (رمي) كى شرائط

كنكرياں مارنے (رمي) ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: نيت اپنى تمام شرائط كے ساتھ جيسے كہ احرام كى نيت ميں گزرچكا ہے_

دوم: يہ كہ رمى اسكے ساتھ ہو جسے كنكرياں كہا جائے پس نہ اتنے

۱۵۴

چھوٹے كے ساتھ صحيح ہے كہ وہ ريت ہو اور نہ اتنے بڑے كے ساتھ كہ جو پتھر ہو _

سوم : يہ كہ رمى عيدوالے دن طلوع آفتاب اورغروب آفتاب كے درميان ہو البتہ جس كيلئے يہ ممكن ہو _

چہارم: يہ كہ كنكرياں جمرے كو لگيں پس اگر نہ لگے يا اسے اسكے لگنے كا گمان ہو تو يہ شمار نہيں ہوگى اور اسكے بدلے دوسرى كنكرى مارنا واجب ہے اور اس كا لگے بغير صرف اس دائرے تك پہنچ جانا جو جمرے كے اردگرد ہے كافى نہيں ہے_

پنجم: يہ كہ رمى سات كنكريوں كے ساتھ ہو

ششم: يہ كہ پے در پے كنكرياں مارے پس اگر ايك ہى دفعہ مارے تو صرف ايك شمار ہوگى چاہے سب جمرے كو لگ جائيں يا نہ _

مسئلہ ۳۳۸_ جمرے كو رمى كرنا جائز ہے اس پر لگے ہوئے سيمنٹ سميت_ اسى طرح جمرہ كے نئے بنائے گئے حصے پر رمى كرنا بھى جائز ہے

۱۵۵

البتہ اگر عرف ميں اسے جمرہ كا حصہ شمار كيا جائے_

مسئلہ ۳۳۹_ اگر متعارف قديمى جمرہ كے آگے اور پيچھے سے كئي ميٹر كا اضافہ كر ديں تو اگر بغير مشقت كے سابقہ جمرہ كو پہچان كر اسے رمى كرنا ممكن ہو تو يہ واجب ہے ورنہ موجودہ جمرہ كى جس جگہ كو چاہے رمى كرے اور يہى كافى ہے _

مسئلہ ۳۴۰_ ظاہر يہ ہے كہ اوپر والى منزل سے رمى كرنا جائز ہے اگرچہ احوط اس جگہ سے رمى كرنا ہے جو پہلے سے متعارف ہے_

كنكريوں كى شرائط:

كنكريوں ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول : يہ كہ وہ حرم كى ہوں اور اگر حرم كے باہر سے ہوں تو كافى نہيں ہيں_

دوم: يہ كہ وہ نئي ہوں كہ جنہيں پہلے صحيح طور پر نہ ماراگيا ہو اگرچہ گذشتہ سالوں ميں _

۱۵۶

سوم: يہ كہ مباح ہوں پس غصبى كنكريوں كا مارنا جائز نہيں ہے اور نہ ان كنكريوں كا مارنا جنہيں كسى دوسرے نے جمع كيا ہو اسكى اجازت كے بغير ہاں كنكريوں كا پاك ہونا شرط نہيں ہے _

مسئلہ ۳۴۱_ عورتيں اور كمزور لوگ _ كہ جنہيں مشعر الحرام ميں صرف وقوف كا مسمى انجا م دينے كے بعد منى كى طرف جانے كى اجازت ہے اگر وہ دن كو رمى كرنے سے معذور ہوں تو ان كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے بلكہ عورتوں كيلئے ہر صورت ميں رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے البتہ اگروہ اپنے حج كيلئے رمى كر رہى ہوں يا ان كا حج نيابتى ہو ليكن اگر عورت صرف رمى كيلئے كسى كى طرف سے نائب بنى ہو تو رات كے وقت رمى كرنا صحيح نہيں ہے اگر چہ دن ميں رمى كرنے سے عاجز ہو بلكہ نائب بنانے والے كيلئے ضرورى ہے كہ وہ ايسے شخص كو نائب بنائے جو دن كے وقت رمى كر سكے اگر اسے ايسا شخص مل جائے _اور ان لوگوں كى ہمراہى كرنے والا اگر وہ خود معذور ہو تو اس كيلئے رات كے وقت رمى كرنا جائز ہے ورنہ اس پر واجب

۱۵۷

ہے كے دن وقت رمى كرے _

مسئلہ ۳۴۲ _ جو شخص عيد والے دن رمى كرنے سے معذور ہے اس كيلئے شب عيد يا عيد كے بعد والى رات ميں رمى كرنا جائز ہے اور اسى طرح جو شخص گيارہويں يا بارہويں كے دن رمى كرنے سے معذور ہے اسكے لئے اسكى رات يا اسكے بعد والى رات رمى كرنا جائز ہے _

پانچويں فصل :قربانى كرنا

يہ حج كے واجبات ميں سے پانچواں اورمنى كے اعمال ميں سے دوسرا عمل ہے

مسئلہ ۳۴۳_ حج تمتع كرنے والے پر قربانى كرنا واجب ہے اور قربانى تين جانوروں ميں سے ايك ہوگى اونٹ ، گائے اور بھيڑ بكرى اور ان جانوروں ميں مذكر اور مونث كے درميان فرق نہيں ہے اور اونٹ افضل ہے اورمذكورہ جانوروں كے علاوہ ديگر حيوانات كافى نہيں ہيں_

مسئلہ ۳۴۴_ قربانى ايك عبادت ہے كہ جس ميں ان تمام شرائط كے ساتھ نيت شر ط ہے كہ جو احرام كى نيت ميں گزر چكى ہيں_

۱۵۸

مسئلہ ۳۴۵_ قربانى ميں چند چيزيں شرط ہيں :

اول: سن: اونٹ ميں معتبر ہے كہ وہ چھٹے سال ميں داخل ہو اور گائے ميں معتبر ہے كہ وہ تيسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر_ اور بكرى گائے كى طرح ہے ليكن بھيڑ ميں معتبر ہے كہ وہ دوسرے سال ميں داخل ہو احوط وجوبى كى بناپر _مذكورہ حد بندى چھوٹا ہونے كى جہت سے ہے پس اس سے كمتر كافى نہيں ہے ليكن بڑا ہونے كى جہت سے تو مذكورہ حيوانات ميںسے بڑى عمر والا بھى كافى ہے _

دوم : صحيح و سالم ہونا

سوم: يہ كہ بہت دبلا نہ ہو

چہارم: يہ كہ اسكے اعضا پورے ہوں پس ناقص كافى نہيں ہے جيسے خصى اور يہ وہ ہے كہ جسكے بيضے نكال ديئےائيں ہاں جسكے بيضے كوٹ ديئے جائيں وہ كافى ہے مگر يہ كہ خصى كى حد كو پہنچ جائے _ اور دم كٹا ، كانا ، لنگڑا ، كان كٹا اور جس كا اندر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى نہيںہے _ اسى طرح اگر

۱۵۹

پيدائشےى طور پر ايسا ہو تو بھى كافى نہيںہے پس دہ حيوان كافى نہيں ہے كہ جس ميں ايسا عضو نہ ہو جو اس صنف كے جانوروں ميںعام طور پر ہوتا ہے اس طرح كے اسے اس ميں نقص شمار كيا جائے _

ہاں جس كا باہر كا سينگ ٹوٹا ہوا ہو وہ كافى ہے ( باہر كا سينگ اندر والے سينگ كے غلاف كے طور پر ہوتا ہے ) اور جسكا كان پھٹا ہوا ہو يا اسكے كان ميں سوراخ ہو اس ميں كوئي حرج نہيںہے _

مسئلہ ۳۴۶_ اگر ايك جانور كو صحيح و سالم سمجھتے ہوئے ذبح كرے پھر اس كے مريض يا ناقص ہونے كا انكشاف ہو تو قدرت كى صورت ميں دوسرى قربانى كو ذبح كرنا واجب ہے _

مسئلہ ۳۴۷_ احوط يہ ہے كہ قربانى جمرہ عقبہ كو كنكرياں مارنے سے مؤخر ہو _

مسئلہ ۳۴۸_ احوط وجوبى يہ ہے كہ اپنے اختيار كے ساتھ قربانى كو روز عيد سے مؤخر نہ كرے پس اگر جان بوجھ كر ، بھول كر يا لاعلمى كى وجہ سے كسى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296