منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140587 / ڈاؤنلوڈ: 6497
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

یقینا نفس کا کجی سے محفوظ ہونا، انسان کو فتنہ پر دازیوں سے بچاتا ہے اور یہیں سے انسان متشابہ آیتوں کا اتباع چھوڑ کر حقیقت کو قبول کر لیتا ہے بلکہ اپنا معاملہ خدا کے سپرد کر دیتا ہے ۔

انسان کی عقل ،بے دلیل اور غیر علمی تفسیر کے درمیان حائل ہو جاتی ہے بلکہ یہ عقل ہی ہے جو اسے محکم آیتوں اور ام الکتاب کی پابندی کرنے کی ہدایت کرتی ہے اور ایسا نقشہ کھینچتی ہے کہ جس سے کسی بھی صورت میںچشم پوشی نہیں کی جا سکتی ان حقائق اور محکم نشانیوں کی روشنی میں ہم کچھ ایسی آیتوں کا بھی مشاہدہ کرتے ہیںکہ جن سے تجاوز نہیں کیاجا سکتا۔

نفس کے آفاق فکر کے آفاق کو روشن کرتے ہیں تاکہ انسان اس چیز کے بارے میں غور کرے جو اس سے پہلے واضح اور آشکار نہیں تھی ۔ اس طرح وہ عقلمند انسان ، جو اپنے پروردگار پر ایمان لا چکا ہے ، کجی سے محفوظ رہتا ہے ، اور متشابہہ آیتوں کی تفسیر و تحلیل میں عجلت سے کام نہیں لیتا ہے بلکہ ان کی تفسیر کے سلسلہ میں وہ ایک پڑھے لکھے انسان کا کردار ادا کرتا ہے اگر وہ حقیقت کشف کرنے میں کامیاب نہیں ہوتا تو بھی وہ ان کا انکار نہیں کرتا اور نہ ان کو رد کرنے کی کوشش کرتا ہے بلکہ اس چیز کو اس کے منبع کی طرف لوٹا دیتا ہے اور معاملہ کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے کہ جس نے ان آیتوں کو نازل کیا ہے اور اپنی مطلوبہ شئی کو اسی سے سمجھنا چاہتاہے اور دعا کرتا ہے کہ مجھے ہمیشہ ہدایت و رحمت سے سرافراز فرما۔

یہی صحیح موقف ہے نصوص سے عہدہ بر آ ہونے کے لئے یہ منطقی طریقہ ہے کیونکہ عقلمند انسان تحقیق و تحلیل میں عجلت سے کام نہیں لیتا ۔

یہ حقیقت ہم سورہ ہود کی پہلی ہی آیت :( الر،کتاب احکمت آیاته ثم فصلت من لدن حکیم خبیر ) .( ۱ ) ''الرا۔یہ آیات ایسی کتاب ہے کہ اس کی آیتیں محکم ہیں پھر صاف صاف بیان بھی کی گئی ہیں ایک با خبر حکیم کی طرف سے''سے سمجھ چکے ہیں کہ تفصیل کی نوبت آیتوں کے محکم ہونے اور ان آیتوں کی تعیین کے بعد آتی ہے جو ام الکتاب ہیں اور بنیادی اصول ہیں چنانچہ سورۂ آل عمران کی ساتویں آیت

____________________

۱۔ہود:۱۔

۲۱

( منه آیات محکمات هنّ امُّ الکتاب ) ( ۱ ) نے اسی حقیقت کو بیان کیا ہے ۔

سورۂ رعد کی ۳۹ ویں آیت اس نکتہ کو اور زیادہ روشن کر دیتی ہے ارشاد ہے:( یمحوا اللّه ما یشاء و یثبت و عنده امُّ الکتاب )

یعنی خدا جس چیز کو چاہتا ہے محو کر دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ثابت کرتا ہے کہ اس کے پاس ام الکتاب ہے۔ ام الکتاب میں سے نہ کسی چیز کو محو کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس میں ترمیم ہوتی ہے اس کے علاوہ حالات کے تحت ہر چیز سے محو و تغیر کا تعلق ہوتا ہے ۔

تاریخی واقعات کے بارے میں قرآن کا جو نظریہ و نہج ہے اس کی وضاحت کے لئے یہ آیتیں کافی ہیں، تفصیل کے بارے میں جو اختلاف ہے اس سے اصل حقیقت کا انکار نہیں کیا جا سکتا اور جو چیز تحقیق سے ثابت ہو چکی ہے اس سے چشم پوشی نہیں کی جا سکتی۔ اس کی روشنی میں ہر اس چیز کو درست کیا جا سکتا ہے جو سیرت اور تاریخ اسلام یا اسلام سے پہلے کی ان تاریخوں میں وارد ہوئی ہے جو انبیاء اور ان کی امتوں سے متعلق ہیں، لیکن تاریخی حقائق سے کسی بھی صورت میں چشم پوشی نہیں کی جا سکتی اورنہ ہی نظر انداز کیا جا سکتا ہے یہی تفسیر کی رد و قبول اور اس چیز کے غلط و صحیح ہونے کا معیار ہے جو تاریخ کی کتابوں میں مرقوم ہے ۔

چونکہ تاریخ میں حق و باطل یک جا ہو گئے ہیں لہذا تاریخ کے موضوع کی جانچ پرکھ کے لئے ایسے وسائل درکار ہیں جو مکمل حقیقت کے انکشاف میں ہماری مدد کریں۔

تاریخی حقائق (جن کی عقل و نقل نے تائید کی ہے) ہی تفسیر، تاویل ،فیصلے اورمذمت کا معیار ہوتے ہیں۔ قرآن مجید نے انبیاء اور ان کی امتوں کی سیرت و تاریخ کے سلسلہ میںاسی قانون پر عمل کیا ہے اور ہمارے سامنے ایسی واضح تصویر پیش کی ہے جس میں تمام انبیاء مشترک ہیں اور نبوت و اصطفا جوکہ نبی (ص) کی شخصیت سے پیدا ہوتے ہیں، اس کی اہلیت و استعداد کو معیار سمجھا گیا ہے کیونکہ خدا اسے خلق کی ہدایت کے لئے منتخب کرتا ہے اور وہ اوصاف یہ ہیں: کامل العقل ہو، ذی شعور ہو ، صلاح و صبر سے آراستہ ہواور شعورو بصیرت کے ساتھ خدا کا عبادت گذار ہو۔

____________________

۱۔آل عمران: ۷۔

۲۲

خدا نے اپنے نبی(ص) کو مخاطب کرکے فرمایا ہے :

( قل انّی علیٰ بیّنة من ربّی... ) ( ۱ ) نیز فرمایا ہے :( قل هذه سبیلی ادعوا الیٰ اللّه علیٰ بصیرة انا و من اتبعنی... ) ( ۲ )

کہدیجئے! کہ میں اپنے رب کی واضح دلیل پر ہوں...اور کہدیجئے! کہ یہی میرا راستہ ہے میں اور میرا اتباع کرنے والے بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف دعوت دیتے ہیں۔

یہ ہے قرآن کی منطق جو محکم و ثابت کا نقشہ پیش کرتی ہے ...پھر خدا یسے انسان کو کیسے نبی بنا سکتا ہے جو ادراک و شعور نہ رکھتا ہو؟ اور وہ کسی ایسے شخص کو اپنا نمائندہ کیسے بنا سکتا ہے جو اس کی آیتوں کو ملاحظہ کریں مگر اس سے مطمئن نہ ہوتے ہوں؟ہاں دوسرے اسے مطمئن کرتے ہوں؟! وہ خود نہیں جانتا کہ وہ نمائندہ ہے اور اسے نبوت کے لئے ذخیرہ کیا گیا ہے وہ نہیں سمجھتا کہ وہ نبی ہے یا خدا کی طرف سے مخلوق کی ہدایت کے لئے بھیجا گیا ہے یا وہ اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں شک کرتا ہے ۔ جوخود ہی بے بہرہ ہو وہ حقیقت ڈھونڈنے والوں کی کیا ہدایت کر ے گا۔ خدا وند عالم اسی حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتا ہے :

( ...أفمن یهدی الیٰ الحق احقُّ ان یتّبع امّن لا یُهدیٰ الا یهدیٰ فما لکم کیف تحکمون ) ( ۳ )

تو پھر جو راہ حق کی نشاندہی کرتا ہے وہ زیادہ اتباع کے لائق ہے یا وہ جو بغیر نشاندہی کے خود راہ حق نہ دیکھ پاتا ہو پس تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسے فیصلے کر بیٹھتے ہو۔ انبیاء کی شخصیت سے متعلق قرآن کریم نے جو واضح صورت پیش کی ہے اور عقل کے محکمات کی بھی جسے تائیدحاصل ہے وہ ان تمام صورتوں کے بارے میں فیصلہ کرنے کا معیار ہے کہ جو توریت و انجیل میں داخل کر دی گئی ہیں یا جو ان کتابوں میں نقل ہوئی ہیں کہ جن کو صحاح کا نام دیا جاتا ہے ۔ یا تاریخ کی وہ عام کتابیں کہ جن میں بعض انبیاء مثلا جناب ابراہیم، موسیٰ، عیسی ٰ یا محمد(ص) کے قصے بیان ہوئے ہیں ، خواہ اس صورت کے نقل کرنے والوںکی فہرست میں رسول(ص) کی ازواج ہوں یا کوئی صحابی یا رسول(ص) کے قریبی یا دور کے رشتہ دار ہوں۔

____________________

۱۔ انعام: ۵۷۔

۲۔یوسف:۱۰۸۔

۳۔ یونس :۳۵۔

۲۳

پہلی فصل

خاتم النبیین(ص) ایک نظر میں

خاتم النبیین، سید المرسلین محمدبن عبد اللہ بن عبد المطلب، کی ولادت اپنے والد ماجد کی وفات کے بعد ۷ ۱ ربیع الاول ۱ عام الفیل میں ہوئی، شیرخوارگی کا زمانہ بنی سعد میں گزرا پھر اپنی عمرکے چوتھے یا پانچویں سال اپنی والدہ کے پاس لوٹے، چھہ سال کے ہوئے تو والدہ کا انتقال ہو گیا۔ دادا نے اپنی کفالت میں لے لیا اور ان کی پرورش میں کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کیا دو سال تک آپ(ص) ان کی کفالت میں رہے پھر ان کا انتقال ہو گیا لیکن دادا نے اپنی وفات سے پہلے آپ کی پرورش و سرپرستی کی ذمہ داری آپ(ص) کے شفیق چچا حضرت ابوطالب (ص) کے سپرد کر دی تھی چنانچہ آپ(ص) شادی ہونے تک انہیں کے ساتھ رہے۔

بارہ سال کی عمر میں اپنے چچا کے ساتھ شام کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اثنائے راہ میں بحیرا نامی راہب سے ملاقات ہوئی۔ بحیرا نے آپ(ص) کو پہچان لیا اور ابوطالب سے کہا: دیکھو! ان کے سلسلہ میں خبردار رہنا کیونکہ یہودی انہیں قتل کرنا چاہیں گے۔

بائیس سال کے ہوئے تو معاہدۂ حلف الفضول میں شریک ہوئے آنحضرت(ص) اپنے اس اقدام پر فخر کیا کرتے تھے۔ خدیجہ کے مال سے تجارت کے لئے شام کا سفر کیا، عنفوان شباب میں پچیس سال کی عمر میں جناب خدیجہ سے عقد کیا اس سے قبل آپ صادق و امین کے لقب سے شہرت پا چکے تھے، چنانچہ جن قبیلوں میں حجر اسود کو نصب کرنے کے سلسلہ میں نزاع و جھگڑا تھاانہوں نے حجر اسود کو نصب کرنے کے لئے آپ کو منتخب کیا تاکہ کسی قبیلے کو اعتراض نہ ہو۔ پس آپ (ص)نے ایک انوکھا اور عمدہ طریقہ کا ر اپنایا جس سے تمام قبیلے خوش ہو گئے۔

۲۴

چالیس سال کی عمر میں مبعوث برسالت ہوئے، خدا کی طرف لوگوں کو بلانا شروع کیاوہ اپنے معاملات میںگہری نظر رکھتے تھے۔ انہوں نے انصار و مہاجرین میں سے جو لوگ مومن تھے انہیں جمع کیا۔

تین یا پانچ سال تک آپ لوگوں کو خدائے واحد کی طرف بلاتے رہے اس کے بعد خدا نے آپ کو یہ حکم دیا کہ اپنے اقربا کوڈرائو! پھر یہ حکم دیا کہ اپنی رسالت کا اعلان کرو اور عام طور پر لوگوں کو علیٰ الاعلان اسلام کی دعوت دوتا کہ جو مسلمان ہونا چاہتا ہے وہ مسلمان ہو جائے۔

اسی زمانہ سے قریش نے آپ(ص) کے راستے میں رکاوٹ کھڑی کرنا شروع کر دی اور لوگوں کو راہ خدا سے روکنے کے لئے یہ کوشش کرنے لگے کہ آپ کا پیغام عام نہ ہونے پائے۔ اس صورت حال کے پیش نظر رسول(ص)نے مکہ سے باہر اپنی دعوت کا ایک دوسرا طریقہ اختیار کیا اور وہ یہ کہ جب حبشہ کے بادشاہ (نجاشی) نے مسلمانوں کو حبشہ میں خوش آمدید کہا تو رسول(ص) نے مسلمانوں کی کئی جماعتوں کو وہاں بھیجدیا جنہوں نے جعفر بن ابی طالب کی قیادت میں وہیں بود و باش اختیار کر لی اور ۷ ھ تک جعفر نے حبشہ نہیں چھوڑا۔

جب قریش ، نجاشی کو مسلمانوں کے خلاف اکسانے میں ناکام رہے تو انہوں نے ایک نیا راستہ اختیار کیا اور آپ(ص) کے خلاف سماجی، اقتصادی اور سیاسی پابندی عائد کر دی، اس پابندی کا سلسلہ تین سال تک جاری رہا لیکن جب قریش رسول(ص)، ابوطالب اور تمام بنی ہاشم کو اپنے سامنے نہ جھکا سکے تو پابندی ختم کردی مگر جب رسول(ص) اوران کا خاندان کامیابی کے ساتھ محاصرے سے باہرنکلا تو بعثت کے دسویں سال انہیں ابوطالب اور جناب خدیجہ کا غم اٹھانا پڑا رسول(ص) کے لئے یہ دونوں حادثے جاں گسل تھے کیونکہ آپ(ص) ایک ہی سال میں دو بڑے مددگاروں سے محروم ہو گئے تھے ۔

۲۵

بعض مورخین نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ معراج بھی اسی سال ہوئی تھی حالانکہ نبی(ص) اس عظیم غم میں مبتلا تھے اور نبی(ص) پر ذہنی دبائو تھا کیونکہ آپ دیکھ رہے تھے کہ قریش آپ کی رسالت کی راہ میں دشواریاںپیدا کر رہے ہیں لہذا خداوند عالم نے آپ (ص)پر آفاق کی راہیں روشن کر دیں اور آپ(ص) کو اپنی عظیم آیتیں دکھا ئیں چنانچہ معراج ،رسول(ص) اور تمام مومنوں کے لئے ایک عظیم برکت تھی۔نئے مرکز کی تلاش میں رسول(ص) نے طائف کی طرف ہجرت کی لیکن مکہ سے قریب ہونے اور اس کی آب و ہوا سے متاثر ہونے کے باوجود وہاں آپ(ص) کو کامیابی نہ ملی اور مکہ واپس آ گئے مطعم بن عدی کی ہمسائیگی اختیار کی اور موسم حج میں لوگوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے لئے از سرنو سرگرم عمل ہوئے۔ ان لوگوں سے ملاقات کا سلسلہ شروع کیا جو حج کرنے کی غرض سے مکہ یا تجارت کے لئے عکاظ کے بازار میں آتے تھے، اہل یثرب سے آپ(ص) کی ملاقات کے بعد خدا نے آپ کی کامیابی کے دروازے کھول دئیے چنانچہ یثرب میں نشر اسلام اور لوگوں کو خدا کی طرف بلانے کا سلسلہ جاری رہا یہاں تک کہ خدا نے آپ کو یہ خبر دی کہ قریش کے جوانوںنے آپ(ص) کے قتل کا منصوبہ بنا لیا ہے لہذا آپ(ص) نے بھی یثرب کی طرف ہجرت کا ارادہ کر لیا چنانچہ حضرت علی کو اپنے بستر پر لٹایا اور تمام خطروں کے سایہ میں یثرب کی طرف ہجرت کر گئے ، یثرب والوں نے آپ (ص)کے استقبال کی پوری تیاریاں کر رکھی تھیں، ربیع الاول کے شروع میں آپ''قبا'' پہنچے آپ(ص) کی ہجرت اسلامی تاریخ کا نقطہ آغاز قرارپائی۔

پہلے سال میں آپ(ص) نے بتوں کو توڑ کر مسجد نبوی(ص) تعمیر کی اسے اپنی سرگرمی اور تبلیغ و حکومت کا مرکز قرار دیا، مہاجر ین و انصار کو ایک دوسرے کا بھائی بنایا تاکہ اس طرح ایک قومی و عوامی مرکز بن جائے جس پرنو تشکیل حکومت کی بنیاد یں قائم کی جا سکیں اس کے علاوہ ایک دستاویز مرتب کی جس میں قبیلوں کے ایک دوسرے سے روابط کے ضوابط تحریر کئے یہودیوں کے سربراہوں سے معاہدے کئے یہ اسلامی حکومت کے عام اصولوں پر مشتمل تھے۔

۲۶

اس نو تشکیل اسلامی حکومت اور اس نئی اسلامی تحریک کو قریش کی پیدا کی ہوئی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، قریش نے اسلامی تحریک و تبلیغ اور اسلامی حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم محکم کر رکھا تھا اسی لئے مسلمانوں کے خلاف یکے بعد دیگرے جنگ کی آگ بھڑکائی گئی، نبی(ص) اور مسلمانوں کے لئے اپنا دفاع کرنا ضروری ہو گیا۔

اس نو تشکیل حکومت کے دفاع ہی میںسالہا سال گزر گئے پہلی جنگ ہجرت کے ساتویں مہینے میں آپ(ص) کے چچا جناب حمزہ کی قیادت میں ہوئی، ہجرت کے پہلے سال میں تین جنگیں ہوئیں، اس سال بہت سی آیتیں نازل ہوئیں تاکہ نبی(ص) کی حکومت اور امت کے لئے دائمی احکام مرتب ہوجائیں، اس طرح خاتم المرسلین اور آپکی نو تشکیل حکومت کے خلاف منافقوںکا منصوبہ ناکام ہو گیا اور یہودیوں کی سازش بے نقاب ہو گئی۔

رسول اور آپ کی حکومت کے خلاف قریش نے مدینہ کے باہر سے اور یہودیوں نے مدینہ کے اندر سے محاذ جنگ کھول دیا جس کی وجہ سے رسول(ص) کو ان سب پر نظر رکھنا پڑی چنانچہ دوسرے سال میں آٹھ غزوات اور سرایا ہوئے ان میں سے بدر کبریٰ بھی ہے جو رمضان المبارک میں ہوئی تھی۔ اس وقت ماہ رمضان کے روزے واجب ہو چکے تھے اور قبلہ بھی تبدیل ہوچکا تھا۔

اس سے امت مسلمہ اور اسلامی حکومت کوایک طرح کی خود مختاری نصیب ہوگئی تھی۔

دوسرے سال ایک طرف تو جنگ میں فتح ملی دوسری طرف سیاسی اور اجتماعی قوانین بنے،اہل قریش بدر میں شکست کھانے سے اور یہودی بنی قینقاع کی جلا وطنی سے آزمائے گئے بنی قینقاع یہودیوں پہلا وہ قبیلہ تھا جس نے بدر کبریٰ میںمسلمانوں کی فتح کے بعد رسول(ص) سے کئے ہوئے معاہدہ کو توڑ کر مدینہ کو وطن بنا لیا تھا تین سال تک مسلسل قریش باہر سے اسلام اور مسلمانوںکے خلاف فوج کشی کرتے رہے اور یہودی رسول(ص) سے کئے ہوئے عہد کو توڑتے رہے چنانچہ یہ پانچ جنگیں، احد، بنی نضیر، خندق، بنی قریظہ اور جنگ مصطلق، رسول(ص) اور مسلمانوں کے لئے بہت گراں تھیں۔ جب مسلمان اچھی طرح آزما لئے گئے اور پانچویں سال خدا نے مختلف گروہوں اور یہود یوںکے جھگڑوں سے انہیں نجات عطا کی اور اس طرح خدا نے فتح مبین کا راستہ ہموار کر دیا اورکفار و مشرکین مسلمانوں کی شوکت کو مٹانے سے مایوس ہو گئے۔

۲۷

صلح حدیبیہ کے بعد رسول(ص) نے ان قبیلوں سے معاہدہ کیا جو آپ(ص) کے ساتھ رہتے تھے اس معاہدہ کا مقصد یہ تھا کہ ان قبیلوںکے اتحاد کوشرک و الحاد کے مقابلہ میں طاقتور بنا دیا جائے۔ یہاں تک کہ ۸ھ میں خدانے آپ کو فتح مکہ سے سرفراز فرمایا۔ قریش کے سرکش افراد آپ کی سیاست و حکومت کے سامنے جھک گئے اور آپ نے جزیرة العرب کو شرک سے پاک کرنے میں کامیابی حاصل کر لی۔

۹ھ میں مدینہ میں قبائل اور وفود کی آمد میں اضافہ ہو گیا لوگ جوق در جوق دین خدا میں داخل ہو رہے تھے۔

۱۰ ھ میں حجة الوداع کا واقعہ ہوا یہ آخری سال ہے جو آپ(ص) نے اپنی امت کے ساتھ گزارا اس میں آپ (ص) نے اپنی عالمی حکومت اور اپنی امت کو تمام امتوں کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی۔

اپنی اسلامی حکومت کے پایوں کو مضبوط کرنے کے بعد ۲۸، صفر ۱۱ھ کو وفات پائی اور اسلامی حکومت کے لئے معصوم قائد معین کیا جو آپ کا خلیفہ و جانشین اور آپ(ص) کی راہ پر چلنے والا ہے اور وہ ہیں علی بن ابی طالب یہ وہ رہبرکامل ہیں جن کی تربیت آغاز ولادت سے خود رسول(ص) نے کی ہے اور تا حیات ان کی نگرانی و سرپرستی کی چنانچہ حضرت علی نے بھی اپنی فکر و سیرت اور کردار میں اسلام کے اقدار کو مجسم کر دکھایا آپ نے ا طاعتِ رسول(ص) اور آنحضرت(ص) کے امر و نہی پر عمل کرنے کی اعلیٰ مثال قائم کی حقیقت تو یہ ہے کہ ولایت کبریٰ، وصایت نبویہ اور خلافت الٰہیہ کا نشان آپ ہی کو زیب دیتا ہے ، رسول(ص) نے ان کے وجود کی گہرائی میں اسلامی (رسالت)پیغام، انقلاب الٰہی اور حکومت نبوی(ص) کے نظام کی محبت کو راسخ کیا تاکہ آنحضرت(ص) کی عدم موجودگی میں علی حکم خدا سے رسول(ص) کے پہلے خلیفہ بن جائیں۔

رسول(ص) نے سخت حالات کے باوجود حضرت علی کو مسلمانوں کا ہادی و خلیفہ مقرر کرنے کے بعد اپنے پروردگار کی آواز پر لبیک کہا۔ اور اس طرح آپ(ص) نے طاعت خدا اور اس کے امر کے سامنے سراپا تسلیم ہونے میں اعلیٰ مثال قائم کی۔ حکمِ خدا کی بہترین طریقہ سے تبلیغ کی اور فصیح وبلیغ خطبہ کے ساتھ حجّت تمام کی ۔

یہ تھا خاتم الانبیاء حضرت محمد بن عبد اللہ کی شخصیت و حیات کا سرسری جائزہ۔ آئیے اب آپ کی شخصیت و حیات کا تفصیلی اعتبار سے جائزہ لیا جائے۔

۲۸

دوسری فصل

بشارت

قرآن مجید نے صریح طور پر یہ بیان کیا ہے کہ بشریت کا تاریخی عہد انبیاء کی بعثت اور رسولوں کے آنے سے شروع ہوا۔ انبیاء اور رسولوں نے اپنی امتوں کو اعلیٰ حیات اور کامل ترین انسانی وجود کی طرف ہدایت کی۔ اس سے ہم یہ نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ معاشرۂ انسانی میں انبیاء کا نور و ظہور اسی وقت سے ہے جب سے بشریت کی تاریخ شروع ہوئی ہے ۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( کان النّاس امة واحدة فبعث اللّٰه النّبیین مبشّرین و منذرین و انزل معهم الکتاب بالحق لیحکم بین النّاس فیمااختلفوا فیه وما اختلف فیه الا الّذین اوتوه من بعد ما جائتهم البینات بَغْیاً بینهم فهدی اللّٰه الذین آمنوا لما اختلفوا فیه من الحق باذنه واللّه یهدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم ) ( ۱ )

لوگ ایک ہی امت تھے، پس خدا نے بشارت دینے والے اور ڈرانے والے نبی بھیجے اور ان پر برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان ان چیزوں کا فیصلہ کریں جن میں وہ اختلاف کرتے ہیں در حقیقت اختلاف انہیں لوگوں نے کیا جنہیں(نبی کے ذریعہ) کتاب دی گئی اور ان پر آیتیں واضح ہو گئی ہیں ایسا انہوں نے بغاوت کی وجہ سے کیا ہے تو خدا نے ایمان قبول کرنے والوں کو ہدایت دیدی چنانچہ انہوں نے

____________________

۱۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۲۹

اختلاف میں حکمِ خدا کو پا لیا اور خدا جس کو چاہتا ہے اسے صراط مستقیم کی ہدایت کرتا ہے ۔

خدا کی رحمت و حکمت کا یہ تقاضا ہوا تھاکہ اس نے انسانوں کے درمیان ایسے انبیاء بھیجے جن کے ہاتھوں میں ہدایت کا پرچم ہو اور وہ لوگوں کوخواہشات کے غار سے نکال کر عقل کی بلندی پر پہنچا دیں، اور جنگ و جدال(جو طاقت و غریزہ کی وجہ سے ہوتی ہیں) کی لت سے ہٹاکر نظام کی منطق پر پہنچا دیں جس کا سرچشمہ قانون ہے ، انبیاء کے ذریعہ انسان حیوانیت سے بلند ہوا اور اس نے یہ محسوس کیا کہ وہ عقل و روح کا پیکر ہے ۔ انبیاء نے انسان کے لئے ایک گھاٹ(حوض، چشمہ) کی نشاندہی کی جو زندگی کی وحدت سے بہت بلند ہے ۔

یہ ایسی وحدت ہے جو عقیدہ کی بنیاد پر استوار ہے اس سے انسانی تعلقات کو وسعت ملتی ہے، یہ مادی روابط سے معنوی روابط کی طرف لے جاتی ہے ، عہد نبوت کے بعد سے انسانوں کے درمیان اختلافات کا سبب معنوی امور قرار پائے، دین و عقیدہ میں اختلاف ہوا، واضح رہے انبیاء کے لائے ہوئے دین کو لغو قرار نہیں دیا جا سکتابلکہ ان کا سلسلہ جاری رہے گا ان میں تنوع ہوتا رہیگا ہاں اس موضوع کا سرچشمہ غریزہ نہیں ہے بلکہ قانون کو قرار دیا گیا ہے۔ اور انسانی وحدت و ارتقاء اور ان کے تعاون کے لئے وہی قانون، مستقل دستور بن سکتا ہے جس کی دین نے ضمانت لی ہے۔( ۱ )

حضرت علی بن ابی طالب نے نہج البلاغہ کے پہلے خطبہ میں (پیدائش عالم، تخلیق آدم اور زمین پر بسنے والے افرادکی تاریخ بیان کرنے کے بعد)اس بات کی وضاحت کی ہے کہ تاریخ انسان اور کمال و ارتقاء کی طرف اس کے سفر کا محور انبیاء کی روشنی اور ان کی مسلسل بعثت ہے ۔ جیسا کہ قرآن مجید نے تاریخ کے ساتھ اپنے تعامل کے طریقہ میں اسکی وضاحت کی ہے :

ارشاد ہے:''...واصطفیٰ سبحانه من ولد (آدم) انبیائ، اخذ علیٰ الوحی میثاقهم ''

ان سے یہ عہد لیا تھا کہ جو وحی ان پر کی جائے گی وہ اسے لوگوں تک پہنچائیں گے اور لوگوں کے لئے اسی چیز

____________________

۱۔ حرکة التاریخ عند الامام علی ص ۷۱۔ ۷۳۔

۳۰

کو شریعت بنائیں گے جو وحی کے ذریعہ ان تک پہنچے گی۔

خدا نے اولادِ آدم میں سے بعض کو نبی بنایا اور ان سے یہ عہد لیا کہ وہ اس چیز کی تبلیغ کریں گے جس کی ان پرخدا کی طرف سے وحی ہو گی۔

تبلیغِ رسالت کے لئے ان سے عہد لیا یہ ان کے پاس امانت ہے کیونکہ بہت سے لوگوں نے خدا سے کئے ہوئے عہد میں رد و بدل کر دی تھی،یعنی میثاق فطرت کو بدل دیا تھا۔

جس کے نتیجہ میں وہ اس سے جاہل رہے اور اس کی مثال قرار دینے لگے۔ اور شیطان نے انہیں معرفتِ خدا کے راستہ سے ہٹا دیا اور انہیں اسکی عبادت سے بہکا دیا۔

خدا کے علاوہ انہوں نے دوسرے معبود بنا لئے تھے۔

لہذا خدا نے ان میں اپنے رسولوں کو بھیجا،ایک کے بعد ایک ان کے درمیان اپنے انبیاء بھیجے تاکہ وہ ان سے فطری میثاق کی ادائیگی کا تقاضا کریں اور انہیں خدا کی نعمت یاد دلائیں جس کو وہ بھلا چکے ہیں، اور تبلیغ کے ذریعہ ان پر حّجت تمام کریں،عقل کے دفینوں کو ان پر آشکار کریں اورانہیں پوشیدہ نشانیاں دکھائیں، آسمان کا شامیانہ دکھائیں، زمین کا بچھا ہوا فرش دکھائیں، ان کو فنا کرنے والی اجل سے آگاہ کریں، ان کو بوڑھا کرنے والے رنج و مشقت اور پے در پے رونما ہونے والے حوادث کی طرف متوجہ کریں۔

خدا وند عالم نے اپنی مخلوق کو'' نبیِ مرسل ''، ''کتاب منزل''، ضروری و لازمی حجّت اور واضح راستہ سے محروم نہیں کیا ہے ۔

رسولوں کی کم تعداد ان کی ہمت پر اثر انداز نہیں ہوتی تھی اور نہ جھٹلانے والوں کی کثرت سے وہ مرعوب ہوتے تھے۔جو پہلے آتا تھا اسے بعد والے کا نام بتا دیا جاتا تھا اور وہ اس کی بشارت دیتا تھا، یا اس کے آنے سے پہلے اس کاتعارف کر ایاجاتاتھا۔

۳۱

اسی طرح صدیاں گذرگئیں، زمانے بیت گئے، باپ اسلاف میں اور بیٹے اخلاف کے زمرہ میں چلے گئے تو خدا نے اپنا وعدہ پورا کرنے اور سلسلۂ نبوت کی تکمیل کے لئے محمد (ص) کو رسول(ص) بنا کر بھیجا۔ انبیاء سے آپ (ص)کی نبوت کا عہد لیا جاچکا تھا۔ پہلے انبیاء کی کتابوں میں ان کی علامتیں بیان ہو چکی تھیں، ان کی ولادت پاک و پاکیزہ تھی اہل زمین مختلف مذہبوں میں بٹے ہوئے اور پریشان خیالیوں میں مبتلا تھے، پراگندہ گروہ تھے، ان میں سے بعض تو خدا کو اس کی مخلوق سے تشبیہ دیتے تھے بعض اس کے نام میں الحاد کرتے تھے( یعنی خدا کو ناروا صفات سے متصف کرتے تھے)یا اس کے غیر کو خدا مانتے تھے۔

پس رسول(ص) نے انہیں گمراہی سے نجات عطا کی ، ہدایت کے راستہ پر لگایا۔ انہیں جہالت و نادانی سے نکالا(اور علم سے آراستہ کیا) پھر خدا نے محمد(ص) کو اپنی ملاقات کے لئے منتخب کیا اور اس بات کو پسند فرمایا کہ انہیں دارِ دنیا سے اپنے پاس بلائے اور دنیا کی آزمائش سے نجات بخشے چنانچہ خدا نے آپ(ص) کو اٹھا لیا ، اور تمہارے درمیان انہوں نے وہی چیزیں چھوڑیں جو گذشتہ انبیاء نے اپنی امتوں کے درمیان چھوڑی تھیں، تمہیںواضح راستہ اور باقی رہنے والی نشانی کے بغیر حیران و پریشان نہیں چھوڑا ۔( ۱ )

بیشک گذشتہ انبیاء آنے والے انبیاء کی جو بشارت دیتے تھے اس سے موجودہ اور آنے والی نسلوں کو فائدہ پہنچتا رہا یہ چیز ان کی آنکھیں کھولتی ہے اور انہیں اس نبی کے استقبال کے لئے تیار کرتی ہے جس کی بشارت دی گئی ہے ۔ انہیں شک و شبہ سے نجات دلاتی ہے اور اطمینان و یقین کی دولت عطا کرتی ہے ۔

واضح رہے کہ جب انسان اپنی اصلاح سے مایوس ہو جاتا ہے تو وہ شر و خیانت کے طریقے سوچنے لگتا ہے ، اور اصلاح کرنے والے انبیاء کی آمد کی بشارت ان لوگوں کو حسرت و یاس سے نجات عطا کرتی ہے جو اصلاح کے منتظر ہوتے ہیں اور زندگی سے محبت کرتے ہیں اور یہ چاہتے ہیں کہ خیر و صلاح کا دروازہ کھٹکھٹائیں۔

____________________

۱۔انبیاء نے اپنی امتوں کو ان چیزوں سے محروم نہیں رکھا ہے کہ جن کی انہیں ان کے مرنے کے بعد ضرورت پیش آ سکتی تھی اس سلسلہ میں جو چیز ان پر فرض تھی وہی محمد(ص) پر بھی فرض تھی چنانچہ آپ(ص) نے اپنی امت میں کتاب خدا چھوڑی ہے جس میں ان کے دین سے متعلق ہر چیز موجود ہے اسی طرح اپنے معصوم اہل بیت چھوڑے اور انہیں قرآن کا ہم پلہ قرار دیا، جیسا کہ حدیث ثقلین نے اس کی وضاحت کی ہے حدیث ثقلین متواتر ہے اور بہت سے محدثین نے اس کی روایت کی ہے۔

۳۲

اپنے نبیوں کی بشارت سے مومنوں کے ایمان میں اضافہ ہوتا ہے اور اس سے کافروں کو اپنے کفر کے بارے میں شک ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نبی(ص) کی دعوتِ حق کے مقابلہ میں کمزور ہو جاتے ہیں اور اس سے ان کے اسلام قبول کرنے کا راستہ ہموار ہوتا ہے اور جب بشارتوں سے یقین و اعتماد پیدا ہو جاتا ہے تو پھر نبی(ص) سے معجزہ طلب کرنے کی گنجائش نہیں رہتی ہے نیزبشارت دلوں میں اتر جاتی ہے اور اس سے یقین حاصل ہوتا ہے ، بشارت لوگوں کو غیر متوقع حوادث سے بچاتی ہے اوراس سے نبی(ص) کی دعوت لوگوں کے لئے اجنبی نہیں رہتی ہے ۔( ۱ )

واضح رہے کہ تمام انبیاء نے ایک ہی راستہ کی نشاندہی کی ہے، پہلے نے بعد والے کی بشارت دی ہے اور بعدمیں آنے والا پہلے والے پر ایمان لایا ہے ، سورۂ آل عمران کی آیت (۸۱) میں بشارت کے طریقہ کی وضاحت ہوئی ہے یہ ان مثالوں میںسے ایک ہے جن کوہم آئندہ پیش کریں گے۔

گذشتہ انبیاء نے محمد (ص)بن عبد اللہ کی رسالت کی بشارت دی

۱۔ قرآن مجید نے اس بات کو صریح طور پر بیان کیا ہے کہ حضرت ابراہیم نے دعا کی صورت میں حضرت خاتم النبیین کی رسالت کی اس طرح بشارت دی ہے (مکہ مکرمہ میں خانہ خدا کی بنیادوں کو بلند کرنے، اپنے اور حضرت اسماعیل کے عمل کو قبول کرنے اور اپنی ذریت میں ایک گروہ کے مسلمان رہنے کی دعا کرنے کے بعد)( ربّنا وابعث فیهم رسولًا منهم یتلوا علیهم آیاتک و یعلّمهم الکتاب و الحکمة و یزکّیهم انک انت العزیز الحکیم ) ( ۲ )

پروردگار! ان میں انہیں میں سے رسول (ص) بھیجنا جو ان کے سامنے تیری آیتوں کی تلاوت کرے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے اور انہیں پاک کرے بیشک تو عزت و حکمت والا ہے ۔

۲۔قرآن مجید نے اس بات کی بھی تصریح کی ہے کہ توریت کے عہد قدیم اور انجیل کے عہد جدید میں محمد(ص) کی

____________________

۱۔محمد فی القرآن ص ۳۶ و ۳۷۔

۲۔بقرہ: ۱۲۹۔

۳۳

نبوت کی بشارتیں ہیں یہ دونوں عہد، نزولِ قرآن اور بعثتِ محمد(ص) کے وقت موجود تھے اگر ان دونوں عہدوں میں یہ بشارت نہ ہوتی تو ان کے ماننے والے اس بات کو جھٹلا دیتے۔

ارشاد ہے :

( الّذین یتّبعون الرّسول النّبی الامّی الّذی یجدونه مکتوباً عندهم فی التّوراة و الانجیل یأ مرهم بالمعروف و ینهاهم عن المنکر و یحّل لهم الطّیبات و یحرّم علیهم الخبائث و یضع عنهم اصرهم والاغلال التی کانت علیهم ) ( ۱ )

جو لوگ رسول نبی امی کا اتباع کرتے ہیں جس کا ذکروہ اپنے پاس توریت و انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں وہ نیکیوں کا حکم دیتا ہے اور برائیوں سے روکتا ہے پاک و صاف چیزوںکو حلال قرار دیتا ہے گندی چیزوں کو حرام قرار دیتا ہے اور ان سے بارگراں اور پابندیوں کو اٹھا دیتا ہے ۔

سورہ صف کی چھٹی آیت اس بات کی صراحت کر رہی ہے کہ حضرت عیسیٰ نے توریت کی صداقت کی تصریح کی ہے اور اپنے بعد آنے والے اس نبی کی رسالت کی بشارت دی ہے جس کا نام احمد ہوگا اور یہ بات آپ نے تمام بنی اسرائیل کو مخاطب کرکے فرمائی تھی صرف حواریوںکو مخاطب قرار نہیں دیا تھا۔

اہل کتاب ہمارے نبی(ص) کی آمد کے منتظر تھے

جس نبی کی بشارت دی جا چکی تھی ان سے پہلے آنے والے انبیاء نے ہمارے نبی کے عام اوصاف، بیان کرنے پرصرف اکتفا نہیں کیا تھا بلکہ انہوں نے اس کی ایسی علامتیں بھی بیان کر دی تھیںجن کے ذریعہ لوگ انہیں بخوبی پہچان سکتے تھے مثلاً ان کی جائے پیدائش، جائے ہجرت اور ان کی بعثت کے وقت کے خصوصیات ان کے جسمانی صفات اور کچھ ایسے حالات بیان کئے تھے جن کے ذریعہ آپ(ص) اپنے کرداراور اپنی شریعت میں دوسروں سے ممتاز تھے لہذا قرآن نے بنی اسرائیل کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ اس

____________________

۱۔ اعراف: ۱۵۷۔

۳۴

رسول (ص) کو کہ جس کی، دونوں قدیم و جدید، عہدوں میں بشارت دی گئی ہے ویسے ہی پہچانتے تھے جیسے اپنی اولاد کو پہچانتے ہیں( ۱ ) بلکہ اس بشارت کی بنا پرانہوں نے عملی آثار بھی مرتب کر لئے تھے اور ان کی جائے ہجرت اور مرکزِ حکومت کا پتہ لگا لیا تھا اور اسی جگہ سکونت پذیر ہو گئے تھے۔( ۲ ) اور ان کی آمد کے سبب کافروں پر فتح پانے کے متمنی تھے اور اپنے رسول(ص) کی مدد سے اوس و خزرج (کے قبیلوں) کو ڈراتے تھے( ۳ ) ان کے علاوہ اور راہبوں کے ذریعہ یہ خبریں دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ گئی تھیں جومدینہ میں عام ہوئیں اور مکہ تک پہنچ گئیں۔( ۴ ) آنحضرت (ص) کے اعلانِ رسالت کے بعد قریش کا ایک وفد اس لئے مدینہ کے یہود یوںکے پاس گیا تاکہ دعوائے نبوت کے صحیح ہونے کا پتہ لگائے اور ایسے معلومات حاصل کرے جن کے ذریعہ انہوں نے نبی کو آزمایا( ۵ ) ہے یا انہیں ان کی آمد کی خبر ہوئی ہے اور اس سے یہ واضح ہو جائے کہ ان کا دعویٰ سچا ہے ۔ بہت سے اہل کتاب اور ان کے علاوہ دوسرے لوگ انہیں علامتوں کے پیش نظر کوئی معجزہ دیکھے بغیر آپ(ص) پر ایمان لے آئے تھے، یہ بشارتیں، توریت و انجیل کے بعض نسخوں میں آج تک پائی جاتی ہیں۔( ۶ ) آپ(ص) کی نبوت کی بشارتیں آپ(ص) کی ولادت سے پہلے اور بعثت سے قبل آپ کی حیات میں بھی بیان ہوتی رہتی تھیں ان بشارتوں اور خبروں میں سے بحیرا راہب وغیرہ کی بشارت ابتدائے بعثت ہی سے مشہور تھی۔( ۷ ) حضرت امیر المومنین علی نے بھی اپنے ایک خطبہ میں اس تاریخی حقیقت کی گواہی دی ہے:

____________________

۱۔انعام: ۲۔

۲۔ سیرت رسول اللہ ج۱ ص ۳۸ و ۳۹۔

۳۔بقرہ: ۸۹۔

۴۔ا شعة البیت النبوی(ص) ج۱ ص ۷۰ اس میں اغانی ج۱۶ ص ۷۵،تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۱۲ سے منقول ہے۔ حیات نبی الاسلام ص ۱۳ ،اس میں سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۸۱۔

۵۔ ملاحظہ فرمائیں: سورۂ کہف کی شان نزول۔

۶۔ سیرت رسول اللہ و اہل بیتہ ج۱ ص ۳۹، انجیل یوحنا و اشعة البیت النبوی ج۱ ص ۷۰ اس میں توریت سے منقول ہے ۔

۷۔ بشارتوں کے سلسلہ میں سیرت نبوی اور تفسیر کی کتابیں ملاحظہ فرمائیں۔

۳۵

''...الیٰ ان بعث اللّٰه سبحانه محمّداً رسول اللّٰه، لا نجاز عدته و اتمام نبوته ماخوذاً علیٰ النبیین میثاقه مشهور ةً سیمائه...'' ( ۱ )

یہاں تک خدا نے وعدہ وفائی اور نبوت کی تکمیل کے لئے محمدرسول(ص) کو مبعوث کیا کہ جن کی نبوت پر انبیاء سے عہد لیا تھا اور جن کی علامتیں اور بشارتیں مشہور تھیں۔

ابن سعد کی کتاب طبقات میں عتیبہ کے غلام سہل سے روایت ہے کہ وہ اہل حریس میں سے ایک نصرانی تھا اوراپنی ماں اور چچا کے زیر سایہ یتیمی کی زندگی گزار رہا تھا وہ انجیل پڑھتا تھا...وہ کہتا ہے: میں نے اپنے چچا کی کتاب اٹھائی اور اسے پڑھنے لگا میری نظر سے ایک صفحہ گذرا کہ جس کی تحریر میں کوئی ربط معلوم نہ ہوا تو میں نے اپنے ہاتھ سے چھوکر دیکھا، راوی کہتا ہے : میں نے دیکھا کہ ایک صفحہ دوسرے سے چپک گیا ہے ۔ میں نے دونوںکو الگ کیا تو معلوم ہوا کہ اس میں محمد(ص) کی تعریف و توصیف اس طرح مرقوم ہے :

آنحضرت (ص) نہ دراز قد ہوں گے نہ کوتاہ قد ہوں گے،گندم گوں رنگ ہو گا، بال گھنگرالے ہوں گے، دونوں شانوں کے درمیان مہر(نبوت) ہوگی بڑے سخی و فیاض ہوںگے، صدقہ نہیں لیں گے، گدھے اور اونٹ پر سوار ہونگے، بکری کا دودھ دوہیں گے، پیوند لگا کپڑا پہنیں گے اس لئے کہ جو ایسا کرتا ہے اس میں غرور و تکبر نہیں ہوتا ہے اور وہ اسماعیل کی ذریت سے ہوں گے، ان کا نام احمدہوگاسہل کہتے ہیں: جب میں یہاں تک محمد(ص) کا ذکر پڑھ چکا تو میرے چچا آئے انہوں نے جب اس صفحہ کو دیکھا جس کو میں پلٹ چکا تھا کہنے لگے : تم نے اس صفحہ کو کیوں پڑھا ؟! میں نے عرض کیا : اس میں نبی احمد کے صفات کا ذکر ہے انہوںنے کہا: وہ ابھی تک تو آئے نہیں!( ۲ )

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبۂ اولیٰ۔

۲۔ الطبقات الکبریٰ ج۱ ص ۳۶۳۔

۳۶

تیسری فصل

خاتم النبیین(ص) کے اوصاف

۱۔ امی عالم

خاتم النبیین کا یہ امتیاز تھا کہ آپ(ص) نے کسی بشر سے پڑھنا اور لکھنا نہیں سیکھا تھا( ۱ ) اور نہ کسی علمی ماحول میں نشو و نما پائی تھی بلکہ آپ(ص) نے جاہلیت والے ماحول میں پرورش پائی تھی، قرآن کی بیان کی ہوئی اس حقیقت کی کسی نے تردید نہیں کی ہے ۔( ۲ ) اس قوم کی طرف آپ رسول بنا کر بھیجے گئے تھے جو اپنی نری جاہلیت کے حوالہ سے مشہور اور علوم و معارف سے بہت دور تھی۔ اس زمانہ کو زمانۂ جاہلیت کا نام دیا گیاہے ۔ یقینا یہ نام اس عظیم الشان عالم نے دیا ہے جو علم و جہالت اور عقل و حماقت کی حقیقت سے کما حقہ با ٰخبر تھا۔

مزید بر آں وہ ایسی کتاب لائے تھے جو علم و ثقافت ، فکر و نظر کی دعوت دیتی ہے اور علوم و معارف کے بہت سے اقسام و اصناف پر مشتمل ہے ، آپ(ص) نے لوگوں کو نئے اسلوب سے کتاب و حکمت کی تعلیم دینا شروع کی( ۳ ) یہاں تک کہ ایک ایسی منفرد تہذیب کو وجود بخشا کہ جس نے اپنے علوم و معارف کے ذریعہ مشرق و مغرب کو متزلزل کر دیا اور اس کی ضو فشانی وتابناکی آج تک اسی طرح برقرار ہے۔

____________________

۱۔ نحل: ۱۰۳ ۔

۲۔عنکبوت: ۴۸۔

۳۔ جمعہ:۲۔

۳۷

دنیا والوں کے لحاظ سے آپ(ص) امی تھے لیکن جاہلیت و نادانی اور بت پرستوں سے جنگ کرتے رہے انہیں استوار دین اور عالمی شریعت کے ساتھ بشریت کی طرف بھیجا گیا جووقت گزرنے کے ساتھ بشریت کوچیلنج کرتی چلی آ رہی ہے(لیکن ابھی تک کوئی اس کا جواب نہیں لا سکا ہے) بیشک آپ(ص) اپنے علم و معارف، حکیمانہ کلمات، عقلی و ثقافتی رجحان اور اپنی تربیت کے اسالیب کے لحاظ سے معجزہ ہیں۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

( فامنوا باللّٰه و رسوله النّبی الامّی الّذی یومن باللّٰه و کلماته و اتبعوه لعلّکم تهتدون ) پس تم خدا اور اس کے رسول نبی امی پر ایمان لائو جو کہ خدا اور اس کے کلمات پر ایمان رکھتا ہے اور اس کا اتباع کرو،ہو سکتا ہے اس طرح تم ہدایت پا جائو۔( ۱ )

نیز فرماتا ہے:( و انزل اللّه علیک الکتاب و الحکمة و علّمک ما لم تکن تعلم و کان فضل اللّه علیک عظیما ) ( ۲ )

اور خدا نے تمہیں کتاب و حکمت سے نوازا اور تمہیں ان چیزوں کا علم دیا جن کو تم نہیں جانتے تھے اور یہ تم پر خدا کا بڑا کرم ہے ۔

اس وقت خدا نے ان پر وحی نازل کی اور انہیں کتاب و حکمت کے علم سے سر فراز کیا اور انہیں نور، سراج منیر، برہان، شاہد، رسول مبین ، امین خیر خواہ ناصح، بشارت دینے والا، یاد دلانے والا اور ڈرانے والا قرار دیا۔( ۳ )

خدا نے ان کے سینہ کو کشادہ کیا اور انہیں وحی قبول کرنے اور اس معاشرہ کی ہدایت کرنے کے لئے تیار کیا جو عصبیت اور جاہلیت والی انانیت میں غرق تھے تبلیغ و تربیت اور تعلیم کے میدان میں بشریت نے آپ کو عظیم الشان قائد پایا ہے ۔

____________________

۱۔ اعراف: ۱۵۸۔ ۲۔ نسائ: ۱۱۳۔

۳۔ مائدہ: ۱۵، احزاب: ۴۶، نسائ: ۱۷۴، فتح:۸، زخرف ۲۹، اعراف: ۶۸، غاشیہ ۲۱، اسرائ: ۱۰۵، مائدہ:۱۹۔

۳۸

یہ ایک بہت بڑا انقلاب تھا کہ جاہلیت سے بھرا معاشرہ چند برسوں میں کتابِ ہدایت اور مشعل علم کا ایک طاقتور و امین نگہبان و محافظ بن گیا اور تحریف و تصحیف کی کوششوں کو ناکام بنانے کیلئے،عزم محکم کے ساتھ اٹھ کھڑا ہوایہ اس دائمی کتاب اور اس رسول(ص) امی کا معجزہ ہے جو جاہلیت کے معاشرہ میں( خرافات اور اساطیر سے بہت دور تھا) اصل میں خدائی نورِ بصیرت آپ کے پورے وجود کا احاطہ کئے ہوئے تھا۔

۲۔ مسلمِ اوّل

خالقِ کائنات ، سرچشمۂ وجود، خدا کے سامنے سر جھکانا ،اس کی عظیم قدرت اور اس کی حکمت کے نفاذ کے سامنے سراپا تسلیم ہونا نیز ایک، اکیلے اور بے نیاز معبود کی بندگی کا اقرار کرنا وہ منزل ہے جس سے ہر انسان کو گزرنا چاہئے تاکہ وہ خدائی انتخاب واصطفیٰ کے لائق بن جائے۔ قرآن مجید نے نبی کریم کے لئے اسی کی گواہی دی ہے۔ ارشاد ہے :

( قل انّنی هدانی ربّی الیٰ صراط مستقیم...و انا اوّل المسلمین ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ میرے رب نے صراط مستقیم کی طرف میری ہدایت کی ہے اور میں سب سے پہلا مسلمان ہوں۔

یہ تمغۂ کمال ہے جس کو اس بندۂ مسلم نے حاصل کیا ہے اور اس کی بندگی میں سب پر فوقیت لے گئے ہیں اس مثالی عبودیت کی جھلک آپ(ص) کے قول و فعل میں نظر آتی ہے ۔ فرماتے ہیں:

''قرة عین فی الصّلواة''( ۲ ) میری آنکھوںکی ٹھنڈک نماز میں ہے ۔ آپ(ص) وقتِ نماز کا انتظار کرتے تھے، بارگاہ خدا میں پہنچنے کاآپ کو شدید اشتیاق رہتا تھا چنانچہ اپنے موذن بلال سے فرماتے تھے:ارحنا یا بلال( ۳ ) اے بلال ہمیں خوش کرو، آپ(ص) اپنے اہل و عیال سے گفتگو کرتے تھے وہ بھی آپ(ص) سے محو سخن

____________________

۱۔ انعام: ۱۶۱ تا ۱۶۳۔

۲۔ امالی طوسی ج۲ ص ۱۴۱ ۔

۳۔بحار الانوار ج۸۳ ص ۱۶۔

۳۹

رہتے تھے لیکن جب نماز کا وقت آتا تو ایسا لگتا تھا جیسے وہ ایک دوسرے کو جانتے ہی نہیں ہیں۔( ۱ ) اور جب نماز پڑھتے تھے تو آپ(ص) کے سینہ اقدس سے ایسا زمزمہ بلند ہوتا تھا جیسے پتیلی میں کچھ پکنے کی آواز ہوتی ہے( ۲ ) اور خوفِ خدا میں اتنا روتے تھے کہ آپ کا مصلّٰی تر ہو جاتا تھا۔( ۳ ) اتنی نمازیں پڑھتے تھے کہ آپ کے پیروں پر ورم آ جاتا تھا اورصحابہ آپ(ص) سے عرض کرتے تھے: آپ(ص) اتنی نمازیں پڑھتے ہیں جبکہ خدا نے آپ(ص) کے گذشتہ اور آئندہ کے سارے الزاموں کو معاف کر دیا ہے؟ آپ(ص) فرماتے تھے:

''أفلا أکون عبداً شکوراً'' ( ۴ )

کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں؟!

آپ پورے ماہ رجب و شعبان، اورہر مہینہ میں تین دن روزہ رکھتے تھے۔( ۵ ) رمضان آتا تو آپ کے چہرہ کا رنگ متغیر ہو جاتا تھا اور نماز و دعامیں بہت گڑگڑاتے تھے۔( ۶ ) رمضان کے آخری دس دنوں میں تو آپ(ص) ازواج سے بھی پرہیز کرتے تھے شب بیداری کرتے تھے مختصر یہ کہ آپ اپنی پوری طاقت کو عبادت میں صرف کرتے تھے۔( ۷ ) دعا کے متعلق فرماتے:''الدعا مخ العبادة'' ( ۸ ) دعا عبادت کا لب لبا ب ہے۔''و سلاح المؤمن و عمود الدین و نور السمٰوات و الارض'' ( ۹ ) دعا مومن کا اسلحہ ہے ، دین کا ستون ہے اور زمین و آسمان کا نور ہے : آپ(ص) ہمیشہ خدا سے لو لگائے رہتے تھے، دعا اور تضرع کے ذریعہ خدا سے اپنا رشتہ مضبوط رکھتے تھے۔ ہر چھوٹے بڑے کام کے لئے دعا کرتے تھے، ہر روز خدا سے ستر مرتبہ استغفار کرتے تھے باوجود یکہ آپ(ص) معصوم تھے پھر بھی خدا کی بارگاہ میں ہر روز ستر بار توبہ کرتے

____________________

۱۔اخلاق النبی و آدابہ ص ۲۵۱ ۔ ۲۔ایضاً ص ۲۰۱۔ ۳۔ سنن النبی (ص) ص ۳۲۔

۴۔اخلاق النبی ص ۱۹۹ صحیح بخاری ج۱ ص ۳۸۱ ح ۱۰۷۸۔ ۵۔ وسائل الشیعة ج۴ ص ۳۰۹۔

۶۔ سنن النبی ص ۳۰۰۔ ۷۔ کافی ج۴ ص ۱۵۵ ۔

۸۔محجة البیضاء ج۲ ص ۲۸۲ ۔ ۹۔ایضاً: ج ۲ص۲۸۴ ۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

الف :دلوں اور کانوں پر مہر۔

خداوند عالم کا ان کے دلوں اور کانوں پر مہر کر دینا اس بات کا کنایہ ہے کہ ان کی ہٹ دھرمی کی وجہ سے خداوند عالم نے مہر لگا دی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

الختم هو الطبع علی قلوب الکفار عقوبةعلی کفرهم ۔(۱)

ختم سے مراد کافروں کے دلوں پر ان کے کفر کی سزا کے طور پر مہر لگا دینا ہے۔

اللہ کی طرف سے مہر لگ جانے کا فعل انسان کے کفر اختیاری کے بعد ہوتا ہے،کفر سے پہلے نہیں ہوتا اور یہ کفر اختیاری کا نتیجہ ہے یعنی ہر انسان کو فطرت سلیم عطا ہو تی ہے اور اس میں دلائل حق پر غور وفکر کی استعداد بھی شامل ہے لیکن جب انسان اپنے ارادے اور عقل کا غلط استعمال کرتا ہے تو پھر آسمانی ہدایتوں اور خداوندی نشانیوں سے مسلسل منہ موڑ لیتا ہے اور شیطانی قانون پر چلنے کی ٹھان لیتا ہے۔

اس وقت وہ غضب کا مستحق ٹھرتا ہے اور انبیاء علیہم السلام کے سلسلہ رحمت سے خارج ہو جاتا ہے اس وقت نصرت الہی اس کا ساتھ چھوڑ دیتی ہے اور واضح دلائل حقاور روشن سے روشن آیات الہی بھی انہیں نظر نہیں آتیں یہ سب کچھ کافروں کا اپنے ارادے اور اختیار سے دوری اور دانستہ کج روی اختیار کرنے کی وجہ سے ہے۔

بہرحال یہ مسلم ہے جب تک انسان اس مرحلے تک نہ پہنچے وہ کتنا ہی گمراہ کیوں نہ ہو،قابل ہدایت ہوتا ہے لیکن جب وہ اپنے بد اعمال کی وجہ سے پہچان کی قوت کھو بیٹھتا ہے تو اس کے لیئے کوئی راہ نجات نہیں ہے۔

_____________________

۰۰۰تفسیر صافی۔۰۰۰

۸۱

توبہ و استغفار

یہ واضح حقیقت ہے کہ انسان جب ایک گناہ پر اپنی عادت بنا لیتا ہے تو اے کچھ سجھائی نہیں دیتا وہ اسے حق اور درست سمجھنے لگ جاتا ہے لہذا انسان کو ہمیشہ اس طرف متوجہ رہنا چاہیے جب اس سے کوئی گناہ سر زد ہو فورا اسے توبہ کر لینی چاہیے تا کہ اس کے دل پر مہر نہ لگ جائے جیسا کہ حضرت امام محمد باقر علیہ السلام ارشاد فرماتے ہیں۔

ما من عبد مومن الا و فی قلبه نکتة بیضاء فاذا اذنب ذنبا خرج فی تلک النکتةسواد فان تاب ذهب ذالک السواد فان تماری فی الذنوب ذاد ذالک السوادحتی یغتی البیاض فاذا اغطی البیاض لم یرجع صاحبه الی خیر ابدا ۔(۱)

ہر شخص کے دن میں ایک وسیع،سفید اور چمکدار نکتہ ہو تا ہے جب اس سے گناہ سر ذد ہو تو اس مقام پر ایک سیاہ نکتہ پیدا ہو تا ہے اگر وہ توبہ کر لے تو وہ سیاہی ختم ہو جاتی ہے لیکن اگر مسلسل گناہ کرتا رہے تو پھیل جا تی ہے اور تمام سفیدی کا احاطہ کر لیتی ہے اور جب سفیدی ختم ہو جائے تو پھر اسے دل کا مالک کبھی بھی خیر و بر کت کی طرف نہیں پلٹ سکتا۔

لہذا جب بھی انسان ہوائے نفس کا غلام بن جائے تو ایسے کان جن سے پرہیز گار حق بات سن سکتا ہے سنتے اور عمل کرتے ہیں اور ایسے دل جس سے متقی لوگ حقائق کا ادراک کرتے ہیں،کفار کے لئے بے کار ہیں ان کے کانوں اور دلوں میں سننے اور سمجھنے کی قوت ہی نہیں رہی ہے جیسا کہ اللہ تعالی کا فرمان ہے۔

( أَفَرَأَيْتَ مَنِ اتَّخَذَ إِلَٰهَهُ هَوَاهُ وَأَضَلَّهُ اللَّهُ عَلَىٰ عِلْمٍ وَخَتَمَ عَلَىٰ سَمْعِهِ وَقَلْبِهِ )

کیا آپ نے ایسے شخص کو دیکھا ہے جس نے ہوائے نفس کو اپنا خدا بنا لیا ہے خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑ دیا ہے اور اس کے کان اور دل پر مہر لگادی ہے۔(۲)

____________________

(۱)اصول کافی ج۲باب الذنوب حدیث۲۰

(۲)سورہ جاثیہ ۴۵ آیت نمبر ۲۳

۸۲

ب :تشخیص کی قدرت نہیں۔

یہ ایک فطری امر ہے کہ انسان جب ایک غلط کام کو مسلسل کرتا رہتا ہے تو اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور آہستہ آہستہ یہ اس کی عادت بن جاتی ہے اور روح انسانی کا جزو بن جاتی ہے اور اسے اپنی ذمہ داری سمجھنے لگتے ہیں جب معاملہ یہاں تک پہنچ جائے تو وہ حس تشخیص ہی کھو بیٹھتے ہیں اور ان کی آنکھوں کے سامنے پردہ آجاتا ہے یہ لوگ اپنی آنکھوں سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے،عبرت حاصل نہیں کرتے،صراط مستقیم کو اختیار نہیں کرتے بلکہ حق کو دیکھنے کے باوجود اپنی آنکھوں پر گمراہی اور کفر کا پردہ ڈال رکھا ہے۔

لیکن قیامت والے دن بہت سے حقائق ان کے سامنے ہونگے۔عذاب الہی کو درک کریں گے۔اور یہ بھی جانتے ہونگے کہ یہ ان کے سوء اختیار کی وجہ سے ہے دنیا میں خود کو اندھا بنا رکھا تھا اگرچہ ان کی آنکھیں جمال الہی کا مشاہدہ نہیں کر سکتیں لیکن قیامت والے دن تیز نگاہوں سے عذاب الہی کا ضرور مشاہدہ کریں گی جیسا کہ خدا وندعلم فرماتا ہے۔

( لَّقَدْ كُنتَ فِي غَفْلَةٍ مِّنْ هَٰذَا فَكَشَفْنَا عَنكَ غِطَاءَكَ فَبَصَرُكَ الْيَوْمَ حَدِيدٌ )

یقینا تم غفلت میں تھے ہم نے تمہارے پردوں کو ہٹا دیا ہے اب تمہاری نگاہ تیز ہو گئی ہے۔

ج :مستحق عذاب

جس طرح خدا وند عالم نے تقوی طاہنے والوں کا انعام ہدایت اورکامیابی قرار دیا تھا اسی طرح کفار کی سزا یہ ہے کہ قیامت والے دن انہیں بہت بڑے عذاب کا سامنا ہو گا۔

۸۳

( وَمِنْ النَّاسِ مَنْ یَقُولُ آمَنَّا بِاللهِ وَبِالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَا هُمْ بِمُؤْمِنِینَ ) ( ۸)

کچھ لوگ ایسے ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدا اور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالا نکہ وہ صاحب ایمان نہیں ہیں۔

شان نزول

کفار کی مذمت کے بعد تیرہ آیات منافقین کے متعلق نازل ہوئی ہیں منافقین کے سردار عبداللہ ابن ابی سلول یعتصب بن قشیر اور ان کے پیروکار وں کے درمیان طے پایا کہ ہم لوگ بھی زبانی کلامی تو اسلام کا اظہار کریں۔

لیکن قلبی طور پر اپنے عقیدہ پر قائم رہیں تا کہ مسلمانوں کو جو شرف و منزلت نصیب ہے ہمیں بھی حاصل ہو ہم رسول خدا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مقربین بن کر اسلام کے اسرار سے آگاہ ہو سکیں اور کفار کو ان اہم رازوں سے باخبر رکھیں یہ لوگ سوچی سمجھی سازش کے تحت رسول اکرم کے پاس تشریف لائے اور اسلام کا اظہار کرنے لگے اس وقت خدا وند عالم نے حضرت رسول اکرم (ص) کو ان کی سازش سے اس طرح آگاہ فرمایا کہ لوگوں میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ ہم خدااور روز آخرت پر ایمان لائے ہیں حالانکہ یہ خدا اور آخرت پر ایمان نہیں لائے بلکہ یہ لوگ جھوٹ بکتے ہیں۔(۱)

تیسرا گروہ : منافقین

منافق کی شناخت

تاریخ کے ایک خاص موڑ پر اسلام کو ایک ایسے گروہ کا سامنا کرنا پڑا جو ایمان لانے کے جذبہ و خلوص سے عاری تھا اور اسلام کی مخا لفت کرنے کی جرات بھی نہیں رکھتا تھا قرآن مجید اس گروہ کو منافق کہہ کر پکار رہاہے قرآن کے نزدیک منافق کی پہچان یہی ہے کہ۔

المنافق الذی ستروا الکفر و و اظهروا الا سلام

جو کفر کو پوشیدہ رکھتے ہوئے اسلام کا اظہار کرے وہ منفق ہے(۲)

_____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص ۰۰۰۱۵۲ (۲)البتیان ج۱ ص۶۷،روح المعانی ج۱ ص۱۴۳

۸۴

اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ادیان الہی کو سب سے زیادہ نقصان منافقین سے پہنچا ہے اسی گروہ نے صدر اسلام سے اسلام اور مسلما نوں کے خلاف سازشوں کا سلسلہ جاری رکھا۔تاریخ گواہ ہے اس گروہ نے کافر وں سے زیادہ اسلام کو نقصان پہنچایا ہے شاید اسی وجہ سے اس مقام پر تیرہ آیتوں میں ان کی باطنی شخصیت اور اعمال کو بیان کیا گیا ہے جبکہ دوسری سورتوں میں بھی ان کی بدکرداریوں کا تذکرہ ہے اور ان کے متعلق قرآن مجید کا واضح فیصلہ ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

حضرت امیر المومنین علی ابن ابی طالب علیہ السلام منافق کی شناخت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔

اوصیکم عبادالله بتقوی الله،واحذر کم النفاق فانهم الضالون المضلون والزالون المنزلون یتلونون الوانا و یفتنون افتینا نا و یعمدونکم لکل عماد و تر صدونکم بکل مرصاد قلوبهم دویه و صفاحهم نفیه یمشون الخفا ء و تدبون الضراء وصفهم دواء و قولو هم شفاء وفعلهم الداء العیا ء خنسدة الرخا ء و مئو کدو البلد ء مقنطوالرخاء ۔(۲)

اے اللہ کے بندوں :میں تمہیں تقوی و پرہیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور منا فقین سے ڈراتا ہوں کیونکہ وہ خود گمراہ ہیں اور دوسروں کو گمراہ کرتے ہیں،خود خطاء کار ہیں دوسروں کو خطاؤں میں ڈالتے ہیں،مختلف رنگ اختیار کرتے ہیں،مختلف چہروں اور زبانوں سے خود نمائی کرتے ہیں،ہر طریقہ سے پھانسنے اور برباد کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

_____________________

(۱)سورہ نساء آیت ۱۴۵(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۴

۸۵

یہ لوگ ہر کمین گاہ میں تمہارے شکار کے لئے بیٹھے رہتے ہیں ان کا ظاہر اچھا اور باطن خراب ہے لوگوں کو دھوکہ دینے کے لئے خفیہ چالیں چلتے ہیں ان کی ظاہری گفتگو بھلی معلو م ہوتی ہے لیکن ان کا کردار ایسی بیماری ہے جس کا کوئی علاج نہیں ہے لوگوں کی خوش حاکی اور آسائش پر حسد کرتے ہیں اور اگر کسی پر مصیبت آن پڑے تو خوش ہوتے ہیں اور امید رکھنے والوں کو مایوس کر دیتے ہیں۔ بہر حال زیر نظر تیرہ آیتوں میں منا فقین کی صفات بیان کی جارہی ہیں۔کیونکہ ایمان دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے لیکن ان کے دلوں میں کفر ہے اور زبان سے دعوی کرتے ہیں یہ نفاق اور منافقت ہے۔

چال بازی

جب بھی کوئی شخص کسی دوسرے گروہ میں اپنا اثر رسوخ پیدا کرنا چاہتا ہے یا کسی گروہ میں اپنا نفوذ کرنا چاہتا ہے تو اس کی سب سے پہلی کوشش یہ ہوتی ہے کہ اس گروہ کے اصولوں کو اپنائے اور ان اصولوں کے پیروکاروں کے سامنے یہی اظہار کرے کہ میں ان اصولوں کا پابند ہوں خدا اور قیامت پر ایمان اسلام کے اہم اعتقادی اصولوں میں سے ہیں۔

جب کوئی شخص ان پر ایمان لانے کا اظہارکرتا ہے تو اسے مسلمان تصور کیا جاتا ہے منافقین نے بھی مقصد کے حصول کے لئے ان دو بڑے اصولوں کا سہارا لیتے ہوئے کہا ہے کہ ہم مسلمان ہیں کیونکہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں لیکن قرآن مجید قطعی طور پر ان کے ایمان کی نفی کر رہاہے کہ اگرچہ جب یہ مسلمانوں سے ملتے ہیں تو خود کو مومن کہتے ہیں لیکن یہ مسلمانوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتے یعنی یہ لوگ نہ مومن تھے،نہ مومن ہیں اور نہ مومن ہونگے بلکہ یہ چالباز ہیں ان کا مقصد اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہچانا ہے۔

( یُخَادِعُونَ اللهَ وَالَّذِینَ آمَنُوا وَمَا یَخْدَعُونَ إِلاَّ أَنفُسَهُمْ وَمَا یَشْعُرُونَ )

وہ خدا اور صاحبان ایمان کو دھو کہ دینا چاہتے ہیں حالانکہ وہ اپنے سوا ء کسی کو دھوکہ نہیں دیتے اور انہیں( اس کا )احساس تک نہیں ہے۔

۸۶

خود فریبی

یہ ایک واضح حقیقت ہے جو بھی اللہ تعالی کو اس کی صفات جلال وکمال کے ساتھ مانتا ہو وہ اسے دھوکہ دینے کا تصور ہی نہیں کر سکتاکیونکہ وہ ہستی ظاہر و باطن سے باخبر ہے البتہ ان کا یہ کہنا کہ ہم خداکو دھوکہ دیتے ہیں اس سے مراد یہ ہے کہ لوگ خدا کو نہیں پہنچانتے ان کا اللہ کے متعلق اقرار صرف زبانی ہے اس لئے یہ سوچتے ہیں کہ ہم خدا کودھوکہ دے رہے ہیں۔نیز اس سے یہ مراد بھی ہو سکتی ہے کہ یہ لوگ خدا اور مومنین کو جو دھوکہ دیتے ہیں یہ شاید رسول خدا (ص) اور مومنین کو دھوکہ دینے کی وجہ سے ہو کیو نکہ یہ لوگ جانتے ہیں کہ اللہ تعالی نے رسول خدا کے متعلق فرمایا ہے۔

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّهَ ) (۱)

جو رسول کی اطاعت کرتا ہے وہی اللہ اطاعت کرتا ہے۔

اسی طرح اللہ کا یہ فرمان بھی ہے۔ان الذین یبایعونک انما یبا یعون اللہ جو بھی آپ کی بیعت کرتا ہے وہی اللہ کی بیعت کرنے والا ہے۔

لہذا رسول خدا (ص)کی اطاعت اور بیعت اللہ کی بیعت ہے اسی طرح ورسول خدا کو دھوکہ دینا اللہ اور مومنین کو دھوکہ دینا ہے لہذا خدا،رسول،اور مونین کو دھوکہ دینا ان کی خود فریبی ہے یہ خدا کو دھوکہ نہیں دے رہے بلکہ خدا کو دھوکہ دے رہے ہیں ان کی اور جزا ء سزااور نقسان بھی انہی کے ساتھ ہے۔

____________________

(۱)سورہ نساء آیت نمبر۱۰

۸۷

یعنی ایمان کا نتیجہ نجات آخرت ہے یہ لوگ تمام کوششوں کے باوجود اس سے دور رہتے ہیں بلکہ اس فریب دہی کی وجہ سے ان کا عذاب کافروں کے عذاب سے بھی سخت تر ہو تا ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے۔

( إِنَّ الْمُنافِقينَ فِي الدَّرْکِ الْأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ )

بے شک منافقین جہنم کے سب سے نچلے طبقہ میں ہونگے۔(۱)

لیکن ان منافقین کو اس کا احساس ہی نہیں ہے کیونکہ یہ لوگ دل سے آخرت کے قائل ہی نہیں ہیں یہ لوگ صرف مادی منافع حاصل کر کے خود کو فریب دہی میں کامیاب سمجھتا ہے حالانکہ اس کی خود فریبی ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔ خدا کو دھوکہ دینے کی کوشش خود فریبی ہے۔

اسی طرح حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام، حضرت رسول اعظم (ص) کی حدیث بیان فرماتے ہیں۔

انماالنجاة ان لا تخادعوا فینحد عکم فان من یخادع الله یخدعه ویخلع منه الایمان و نفسه یخدع لو یشعر

انسان کی نجات اس میں ہے کہ وہ اللہ تعالی کو دھوکہ دینے کی کو شش نہ کرے وگرنہ وہ خود دھوکہ میں پڑ جائے گا کیونکہ جو اللہ کو دھوکہ دینے کی کوشش کرتا ہے تو نتیجہ میں خود دھوکہ کھائے گا اور اس سے ایمان کا لباس اتارلیا جائے گا اگر اسے تھوڑا سا بھی احساس ہے تو یہ اس کی خود فریبی ہے۔(۲)

____________________

(۱)نساء آیت ۱۴

(۲)صافی،نور الثقلین ج۱ص۳۵

۸۸

( فِی قُلُوبِهِمْ مَرَضٌ فَزَادَهُمْ اللهُ مَرَضًا وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِیمٌ بِمَا کَانُوا یَکْذِبُونَ )

ان کے دلوں میں ایک خاص طرح کی بیماری ہے اللہ نے (نفاق کی وجہ سے) ان کی بیماری اور بڑھادی ہے،اور انہیں ایک درد ناک عذاب اس وجہ سے ہو گا کہ وہ جھوٹ بولا کرتے ہیں۔

بیمار دل

اعتدلال طبعی سے ہٹ جانا بیماری اور مرض ہے جب انسانی بدن میں کوئی آفت نہ ہو تو اس بدن کو صحیح و سالم کہتے ہیں اسی طرح اگر کسی دل میں ہٹ دھرمی تعصب اور کوئی آفت و مصیبت نہ ہو تو اسے قلب سلیم سے یاد کیا جاتا ہے اور اس وقت اس کا دل حق کو قبول کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھتا ہے۔

جب کہ منافقین کے دل نفاق جیسی آفت کی وجہ سے بیمار ہیں ان کے جسم اور روح میں ہم آہنگی نہیں ہے بلکہ یہ ایمان سے منحرف ہیں ان کاظاہر اور باطن اس انحراف کی نشاندہی کرتا ہے اس کے دل میں شک و کفر اور نفاق پروان چڑھتا رہتا ہے اس بیماری کی وجہ سے ہدایت کے پیغام،واعظ و نصیحت کی آیات اسے فائدہ پہنچانے کے بجائے اس کے عناد،تعصب اور جوش انکار میں اور اضافہ کر دیتے ہیں۔

اس کی ذمہ داری خود اس کے ذاتی سوء مزاج پر ہے یعنی جب بھی کوئی قرآنی آیت نازل ہوتی ہے،معجزہ ظاہر ہوتا ہے،رسول خدا کو فتح نصیب ہوتی ہے،اللہ کی طرف سے ان انعام و اکرام ہوتا ہے تو منافق کی عداوت اور منافقت میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔

جھوٹ کی سزا

منافقین کا اصل سرمایا جھوٹ ہے ان کا اظہار اسلام ہی جھوٹ کا پلندہ ہے یعنی یہ لوگ جب یہ دعوی کرتے ہیں کہ ہم اللہ اور آخرت پر ایمان لاتے ہیں تو اللہ تعالی حضرت رسول اکرم(ص) کو خبر دیتا ہے کہ یہ لوگ مومن نہیں ہیں۔

لہذا اپنے دعوی میں جھو ٹے ہیں یعنی در حقیقت یہ اللہ اور اس کے رسول اور تمام فرمودات کو ماننے کا جو دعوی کرتے ہیں وہ سفید جھوٹ ہے بلکہ یہ لوگ منافق ہیں ان کے جھوٹ اور منافقت کی سزا درد ناک عذاب الہی ہے۔

۸۹

اگرچہ جھوٹ بولنا گناہ کبیرہ ہے لیکن یہ کفر سے بد تر نہیں ہے کیونکہ کفر و نفاق تمام گناہوں کی جڑ ہے لہذا اس دروغ گوئی کی وجہ سے منافقوں کو جو درد ناک عذاب ہو گا وہ عام جھوٹ کی طرح نہیں ہے ان کے اس جھوٹ سے مراد اعتقادی جھوٹ ہے اور اس کا عذاب سخت تر ہے۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ لاَتُفْسِدُوا فِی الْأَرْضِ قَالُوا إِنَّمَا نَحْنُ مُصْلِحُونَ )

جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو کہتے ہیں کہ ہم صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔

فساد فی الارض

انسان کی گمراہی اگر اس کی ذات تک محدود ہو تو اسے فساد فی الارض سے تعبیر نہیں کیا جاتا جیسے کفر اور شرک وغیرہ فساد فی الارض نہیں ہے لیکن جب ان لوگوں سے ایسی بد اعمالیاں سر ذد ہو جن کی وجہ سے دوسروں کو نقصان ہوتا ہو یعنی انہیں راہ راست سے ہٹا کر معصیت اور گناہ کی راہ پر طلانا مقصود ہو تو یہ فساد فی الارض ہے۔

البتہ بعض گناہ تو برا ہ راست اس عنوان کے تحت ہیں جیسے چغل خوری کرنا، ایک دوسرے کو لڑانا، فسق ظلم اور اسراف کا اظہار کرنا،انفرادی طور پر فساد ہیں لیکن جب کوئی شخص ان غلط کاموں کی طرف لوگوں کو بلا ئے اور انہیں اپنا مشن قرار دے لے یعنی کفر، معاصی نفاق اور غلط کاموں پر ڈٹ جا نا فساد ہے جیسا کہ روایت میں ہے۔

الفساد هو الکفر والعمل بالمعصیة

فساد،کفر اور معصیت کا تکرار ہے۔(۱)

لہذا تبلیغ سوء، نظام اسلام کے خلا ف بغاوت، وحی اور نبوت کا انکار، مبداء اور معاد کی صحت میں شک، لگائی بجھائی، مومنین کا استہزا ء اور تمسخر،کافروں کے منصوبوں کی حوصلہ افزائی اور ان کی مدد اور لوگوں کو ایمان کے راستہ سے ہٹانا فساد فی الارض کے مصادیق ہیں۔

____________________

(۱)در منثور ج۱ ص۳۰

۹۰

اصلاح کا دعوی

منافقین کے دل میں جو شک اور انکار ہے اگر یہ لوگ اسی حد تک محدود رہتے تو یہ ان کی انفرادی گمراہی تھی لیکن منافقت کے سایہ میں انہوں نے بہت سے ایسے کام انجام دئیے ہیں جن کی وجہ سے امن و عامہ خطرہ لاحق ہونے کا قوی امکان ہے اسی لیئے مومنین کو جب ان کے ناپاک منصوبوں کا علم ہوتا تھا وہ انہیں نصیحت کرتے کہ اس مفسدانہ روش کو چھوڑ دیں معارف کو درست اور صحیح سمجھنے کے لیے روشن فکر اور عقل سلیم کی ضرورت ہے۔

ان معارف کو عملی جامہ پہنانے کے لیئے صحیح اور پر خلوص عمل کی ضرورت ہے ان میں یہ دونوں چیزیں نہیں ہیں حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھتے ہیں فساد کو اصلاح اور اصلاح کو فساد کا نام دیتے ہیں یہ لوگ فساد پھیلاتے ہیں اور اصلاح کا دعوی کرتے ہیں کہ ہم مفسد نہیں ہیں بلکہ ہم تو مصلح ہیں لیکن قرآن مجید حق کو باطل اور باطل کو حق سمجھنے والوں کو منافق کے اوصاف سے گردانتا ہے۔

( أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ الْمُفْسِدُونَ وَلَکِنْ لاَیَشْعُرُونَ )

آگاہ ہو جاو یہ سب مفسدین ہیں لیکن شعور نہیں رکھتے ہیں۔

بے شعور مفسد

قرآن مجید اس مقام پر مومنین کو آگاہ اور ہوشیار کر رہا ہے کہ دینی معاشرے میں فساد پھیلانے والے منافقین سے آگاہ رہو اور ان کے جھوٹے اصلاح کے دعوی کو نظر انداز کر کے کہتا ہے۔

۹۱

یاد رکھو کہ یہی لوگ فساد پھیلانے والے ہیں ان کے کردار میں اصلاح کا نام و نشان تک نہیں ہے منافقت کے غلط اثرات ان کی روح، جان،رفتار،و کردار میں ظاہر ہیں دنیا و آخرت میں گمراہی ان کا مقدر بن چکی ہے،ان میں شعور واقعی کا فقدان نمایاں طور پرظاہر ہے۔ یہ فساد پھیلاتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہم درست کام کر رہے ہیں یہ بے شعور مفسد ہیں ان کا اسلام کے اصولون پر قلبی اعتقاد نہیں ہے یہ لوگ نا سمجھی کی وجہ سے ان غلط کاموں کو درست سمجھتے ہیں ان کے نتائج پر غور نہیں کرتے حالانکہ ان غلط کامون کی لپیٹ میں اکثر خود بھی آجاتے ہیں۔

لیکن اگر یہ لوگ صرف اپنی منافقت پر باقی رہتے،اسالمی اسولوں کو دل وجان نہ مانتے اور صرف ان گلط کاموں کے نتائج پر غور کر لیتے تو اس مفسدانہ روش کو ضرور ترک کر دیتے لیکن اپنے نفس کو دھوکہ دینے اور اپنے فساد کو محسوس نہ کرنے کی وجہ سے یہ بے شعور مفسد ہیں۔

( وَإِذَا قِیلَ لَهُمْ آمِنُوا کَمَا آمَنَ النَّاسُ قَالُوا أَنُؤْمِنُ کَمَا آمَنَ السُّفَهَاءُ أَلاَإِنَّهُمْ هُمْ السُّفَهَاءُ وَلَکِنْ لاَیَعْلَمُونَ )

جب ان سے کہا جاتا کہ اس طرح ایمان لے آؤ جس طرح دوسرے لوگ ایمان لائے ہیں تو کہتے ہیں کیا ہم بیوقوفوں کی طرح ایمان لے آئیں آگاہ ہو جاؤ یہی لوگ بیوقوف ہیں لیکن جانتے نہیں ہیں۔

دعوت ایمان

ایمان کا زبانی کلامی اظہار تو یہ منافق بھی کیا کرتے تھے لیکن چونکہ اسلامی اصولوں کو دل سے نہ مانتے تھے اس وجہ سے انہیں کہا جا رہا ہے کہ عام انسانوں کی طرح ایمان لے آؤ جو صرف خدا کے لیئے ہو اس میں نفاق کی بو تک نہ ہو اور عقل و شعور کا ثبوت دیتے ہوئے ایسا ایمان لے آؤ کہ انسان کہلوانے کے حقدار بن سکو اور تمہارا کوئی عمل بھی انسانیت کے خلاف نہ ہو۔اس آیت میں یہ حکم نہیں دیا گیا کہ مومنین جیسا ایمان لے آؤ بلکہ کہا گیا ہے کہ عوام الناس جیسا ایمان لے آؤ کیونکہ انہیں ابھی کفر و نفاق سے نکال کر ایمان کے کم ترین درجہ کی طرف لانا مقصود ہے جبکہ درجہ کمال تک پہنچنے کے لیئے تو انہین کئی مراحل طے کرنے ہوں گے بہرحال خلوص دل کے ساتھ عوام الناس جیسا ایمان لانے سے کفر نفاق کی وادی سے نکل کر مسلمان کہلوا سکیں گے۔

۹۲

مومنین کی تحقیر ان کا شیوا ہے

منافق اپنے برے اعتقاد اور غلط رائے کی وجہ سے اہل ایمان کی تحقیر اور توہین کو اپنا وطیرہ سمجھتے ہیں یہ اپنے آپ کو تو عاقل و ہوشیار سمجھتے ہیں جبکہ مومنین کو نادان سادہ لوح،اور جلد دھوکہ کھانے والے سمجھتے ہیں اور ان کے پاک دلوں کو حماقت اور بیوقوفی سے متہم کرتے ہیں۔

یعنی وہ حق طلب اور حقیقی انسان جو پیغمبر اسلام کی دعوت پر سر تسلیم خم کرنے کے ساتھ ساتھ دین کی حقانیت کا مشاہدہ کر چکے ہیں ان کی نظر میں وہ نادان ہیں اور یہ عقل مند ہیں کیونکہ مسلمانون کو سیاست نہیں آتی جبکہ ہم سیاست دان ہیں ہم نے کافروں کے ساتھ بھی بنا کر رکھی ہے اور مسلمانوں کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات ہیں۔

اگر مشرکین کو فتح ہوئی تب بھی ہماری فتح ہو گی اور اگر مسلمانوں کو فتح ہوئی تو ہم ان کے ساتھی کہلائیں گے جبکہ خالص مسلمان بیوقوف ہیں کیونکہ مشرکوں کو فتح ہوئی تو یہ نا عاقبت اندیش مسلما ن مارے جا ئیں گے اور اپنے مستقبل کو خطرہ میں ڈال بیٹھیں گے یعنی خدا پرست اور راہ حق میں جہاد کرنے والوں کو یہ نا دانی کی تہمت لگاتے ہیں۔

حقیقی بیوقوف

قرآن مجید ان کو حقیقی بیوقوف گردانتا ہے کیونکہ یہ لوگ اپنی کمزور اور ضعیف رائے کی وجہ سے اپنے نفع نقصان کو نہیں پہچان سکتے۔ان کی شناخت کا معیار حس اور مادہ ہے جس کی وجہ سے یہ گیب اور غیر محسوس چیز پر ایمان لانے کی وجہ سے مسلمانوں کو بیوقوف سمجھتے ہیں حالنکہ جو توحید کے آئین سے منہ موڑ کر چند روزہ دنیاوی لذتوں میں مشغول ہو جائے اور اپنی عاقبت اور ابدی زندگی کو تباہ کر لے وہی بیوقوف ہے۔

۹۳

انہیں اس وقت پتہ چلے گا جب ا بدی عذاب کا منظر ان کے سامنے ہو گا اور یہ کافروں سے بھی بد تر عذاب کا ذئقہ چکھ رہے ہوں گے۔یہ ان کی بہت بڑی بیوقوفی ہے کہ یہ اپنی زندگی کے مقصد کی تعین ہی نہ کر سکے جو گروہ دیکھا اسی کا رنگ اختیار کر لیا اپنی قوت کو سازشوں اور تخریب کاری میں صرف کردیا اس کے با وجود خود کو عقلمند سمجھتے ہیں۔

ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ ان کی عقلون پر پردہ پڑا ہو ا ہے یہ حق کو برداشت نہیں کر سکتے یہ لوگ،جاہل نادان،اور ضعیف العقیدہ ہیں،راہ راست سے منحرف ہیں،ضلالت و گمراہی پر گامزن ہیں،یہی سب کچھ ان کے حقیقی بیوقوف ہونے کا واضح ثبوت ہے۔

( وَإِذَا لَقُوا الَّذِینَ آمَنُوا قَالُوا آمَنَّا وَإِذَا خَلَوْا إِلَی شَیَاطِینِهِمْ قَالُوا إِنَّا مَعَکُمْ إِنَّمَا نَحْنُ مُسْتَهْزِئُونَ )

جب یہ صاحبان ایمان سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تو ایمان لا چکے ہیں جب اپنے شیطانوں سے تنہائی مین ملتے ہیں تو کہتے ہیں ہم تمہارے ساتھ ہیں ہم تو فقط (انہیں ) بنا رہے تھے۔

شان نزول

ایک مرتبہ عبداللہ ابن ابی اپنے ساتھیوں کے ساتھ کہیں جا رہا تھا اس کی مومنین کی ایک جماعت کے ساتھ ملاقات ہوئی پھر وہ حضرت علی علیہ السلام کی طرف متوجہ ہوا اور کہنے لگا اے رسول خدا کے چچا زاد، اے بنی ہاشم کے سردار،ہم بھی آپ کی طرح مومن ہیں پھر اپنے ایمان کی مدح و ثناء کرنے لگا، حضرت علی علیہ السلام نے ارشاد فرمایا۔

یا عبدالله اتق الله ولا تنافق فان المنافق شر خلق الله تعالی

اے عبد اللہ اللہ سے ڈرو اور منافقت نہ کرو کیونکہ منافق اللہ کی بد ترین مخلوق ہے۔

عبداللہ ابن ابی کہنے لگا

اے ابوالحسن ہمیں منافق نہ کہو کیونکہ ہمارا ایمان بھی آپ کے ایمان کی طرح ہے اس کے بعد عبداللہ وہاں سے چلا گیا اور اپنے ساتھیوں سے کہنے لگا۔

۹۴

میں نے حضرت علی کو کس طرح جواب دیا ہے۔وہ سب بہت خوش ہوئے اور عبداللہ کے جواب کی تعریف کرنے لگے اس وقت خداوندعالم نے حضرت علی علیہ السلام کی تائید میں حضرت رسول خدا (ص) پراس آیت کو نازل فرمایا۔

جب ایمان والوں سے ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم ایمان لا چکے ہیں اور جب اپنے شیطانوں سے تنہائی میں ملتے ہیں تو کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں لہذا یہ آیت حضرت علی علیہ السلام کے ظاہری اور باطنی ایمان کو بیان کرنے کے ساتھ ساتھ واضح طور پر بتا رہی ہے منافقین کے ساتھ دوستی نہیں رکھنا چاہیے بلکہ ان کے ساتھ عداوت کا اظہار کرنا چاہیے۔(۱) بہر حال یہ آیت منافقین کی پوری طرح تصویر کشی کرتی ہے کہ ان کی منافقت کس طرح ہے؟ دو مختلف گروہوں کے لیئے میل جول رکھنے اور تعلقات کے انداز پر روشنی ڈالتی ہے۔

مومنین کے ساتھ ملاقات کا ریاکارانہ انداز

منافق جب صاحبان ایمان سے ملتے تو کہتے کہ ہم بھی آپ لوگوں کی طرح اللہ،رسول،آخرت اور قرآن مجید پر ایمان لائے ہیں لیکن ان کا یہ سب کچھ زبانی کلامی ہوتا اگر یونہی ملاقات ہو جاتی تو اہنے ایمان کا اظہار کرنا شروع کر دیتے اور اپنی دو رنگی کی وجہ سے یہ لوگ قلبا انہیں ملنے کے مشتاق بھی نہ ہوتے اور ملاقات پر اصرار نہ کرتے تھے۔

____________________

۰۰۰ غایة المرام ۳۹۵،و منہج الصادیقین ج ۱ ص ۱۶۰ ( کچھ تبدیلی کے ساتھ )اور روح البیان ج ۱ ص ۶۲۔

۹۵

یہی وجہ ہے کہ قراان مجید نے مسلمانوں کے ساتھ ان کے ملنے کو اذا لقوا سے تعبیر کیا ہے کہ جب ملاقات ہو جاتی تو ایمان کا اظہار کرنے بیٹھ جاتے اور یہ اظہار بھی صرف ظاہرا ہوتا تھا اسی وجہ سے یہاں جملہ فعلیہ استعمال ہوا ہے جو حدوث پر دلالت کرتا ہے یعنی ظاہرا تو مسلما ن ہونے کا دعوی کرتے جبکہ باطنا کفر کا اظہار کرتے تھے۔

اپنے بزرگوں سے ملاقات کا انداز

منافق جب اپنے شیطان صفت بزرگوں سے ملتے تو ان کا انداز ہی جدا ہوتا تھا اس وقت یہ اپنے شیطان صفت،مظہر کفروعناداور بیوقوف بزرگوں سے خلوت میں ملاقاتیں کرتے یعنی یہ کافر سرداروں کے ساتھ اپنے باطنی کفر کی وجہ سے خفیہ ملاقاتیں اورقلبی اعتقاد سے کہتے۔ہم آپ کے ساتھ ہیں یہاں ان کے لیئے لفظ،انا معکم،استعمال ہوتی ہے یہ جملہ اسمیہ ہے اور دوام وثبوت پر دلالت کرتا ہے یعنی وہ دل و جان سے اس حقیقت کا اظہار کرتے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے ویسے ہی کہہ دیا تھا کہ ہم بھی ایمان رکھتے ہیں۔

مومنین کی اہانت

خداوندعالم اس آیت میں بتا رہا ہے کہ منافق کس طرح مسلمانوں سے نفرت کرتے تھے اور وہ ہر وقت ان کی توہین کی کوشش میں لگے رہتے تھے اور اپنے بزرگوں سے جا کر کہتے تھے کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں وہ سردار لوگ ان سے پوچھتے کہ آپ مسلمانوں کے ساتھ بھی تو ہیں اور ایمان کا اظہار بھی کرتے ہیں تو یہ انہیں جواب میں کہتے۔

۹۶

ہم تو انہیں بناتے ہیں ان کا یہ کہنا ان کے جہل نادانی اور تکبر کی علامت ہے اور جس انسان میں تکبر ہو اس کا عقل قرآنی ہدایت کو قبول کرنے سے قاصر ہوتا ہے یہی وجہ ہے کہ اسلام نے کسی کی تحقیر اور اہانت کو حرام قرار دیا ہے جبکہ خدا،رسول آیات الہی،اورمومنین کی ایمان کی اہانت اورتحقیر کرنا کفر ہے جیسا کہ ارشاد رب العزت ہے۔

( قُلْ أَبِاللَّـهِ وَآيَاتِهِ وَرَسُولِهِ كُنتُمْ تَسْتَهْزِئُونَ ﴿﴾ لَا تَعْتَذِرُوا قَدْ كَفَرْتُم بَعْدَ إِيمَانِكُمْ ۚ )

آ پ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔(۱)

( اللهُ یَسْتَهْزِءُ بِهِمْ وَیَمُدُّهُمْ فِی طُغْیَانِهِمْ یَعْمَهُونَ )

خداانہیں خود مذاق بنائے ہوئے ہے اور انہیں سر کشی میں ڈھیل دیے ہوئے ہے تا کہ یہ اندھے پن میں مبتلا رہیں۔

مو منین کی حمایت

اس ایت مجیدہ میں اللہ تعالی نے منافقین کے مقابلہ میں مو منین کی حمایت کر رہاہے کیونکہ منافقوں نے مسلمانوں کی توہین صرف دین الہی کے اختیار کرنے کی وجہ سے کی ہے لہذا انہوں نے مومنین کے متعلق جو لفظ استعمال کیا ہے اور اس میں مسلمانوں کی تحقیر اور توہین تھی اللہ تعالی نے ان کی حمایت میں اپنی طرف سے وہی الفاظ ان کی طرف پلٹا دیے ہیں اور اللہ نے ایسا کر کے انہیں سزادی ہے جیسا کہ حضرت امام رضا علیہ السلام ارشادفرماتے ہیں۔

ان الله لا یستهزی بهم الکن یجاز بهم جزاء الا ستهزاء

اللہ انکا از خود مذاق نہیں اڑاتا بلکہ ان کے مذاق اڑانے کی سزا دیتا ہے۔

____________________

(۱)سورہ توبہ آیت ۶۵،۶۶

۹۷

منافقین کے عمل سزا بھی تمسخر اور استہزاء کے مشابہ ہیں یعنی ان کا ظاہر مسلمانوں کے ساتھ ہے اور ان کا باطن کفار کے ساتھ ہے۔

یہ کفار سے کہتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کے ساتھ مذاق کیا ہے لہذا سزا کے وقت اللہ تعالی بھی ان کے ساتھ ان جیسا معاملہ کر رہا ہے اس دنیا میں ان کے لئے مسلمانوں کے احکام جاری فرمائے ہیں یعنی ان کے زبانی کلامی یہ کہنے سے کہ ہم مومن ہیں تمام احکام شرعیہ ان کے لئے جاری فرمائے ہیں۔

دنیا میں نماز روزہ حج زکواة جیسے تمام احکام پر عمل کرنا ان کے لئے ضروری قرار دیا ہے مگر چونکہ باطن میں یہ کافر تھے اس لئے آخرت میں انہیں کافروں سے بھی سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔(۱)

منافقون کے لیئے مومنین کا استہزاء اور تمسخر کوئی حقیقی اور تکوینی اثر نہیں رکھتا بلکہ انکا استہزاء محض اعتباری ہے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس کے مقابلے میں مسلمانوں کی حمائت کرتے ہوئے اللہ کا استہزاء اور تمسخر سزا کے عنوان سے ہے اس کا تکوینی اور واقعی اثر مسلم ہے۔

اللہ تعالی نے ان کے دلوں اور عقلوں پر پردہ ڈال دیتا ہے ان کا ہر عمل بیکار اور فضول ہے اس کے لیئے کوئی جزا نہیں ہے قیامت والے دن میزان پر ان کے اعمال کی کوئی قدروقیمت نہ ہو گی بلکہ ان کے اعمال کے لیئے میزان کی ضرورت بھی نہ ہو گی جیسا کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے۔

( فَلَا نُقِيمُ لَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَزْنًا ) ۔(۲)

ہم قیامت والے دن ان کیلئے کوئی میزان حساب بھی قائم نہ کریں گے۔

آپ کہہ دیجیے کہا ں (تم )اللہ، اس کی آیات اور اسکے رسول کے بارے میں مذاق اڑا رہے تھے تو امعذرت نہ کرو تم نے ایمان کے بعد کفر اختیار کیا ہے۔

____________________

(۱)منہج الصادقین ج۱ ص۱۶۲(۲)کھف آیت ۱۰۵۔

۹۸

مومنین کے ساتھ استہزاء کرنے پر اللہ تعالی منافقوں کو ایک سزا یہ دیتا ہے کہ یہ ہمیشہ سرکشی اور تباہی کی تا ریکیوں میں ڈوبے رہیں گے جس کی وجہ سے صراط مستقیم کو نہیں پا سکیں گے کیونکہ یہ آیات بینہ اور انبیاء و آئمہ اطہار علیہم السلام کے بارے میں تدبر و تفکر نہیں کرتے ان کے متعلق قلبی اعتقاد نہیں رکھتے اسی وجہ سے ان کا حق سے ہٹنا اور حق کو صحیح طور پر تسلیم نہ کرنا ان کی باطنی عناد اور سوء اختیار کی وجہ سے ہے۔جبکہ اللہ تعالی اپنی طرف سے کفر اور سرکشی میں اضافہ کو پسند نہیں کرتا یہ طغیانی اور سرکشی خود ان کی طرف سے ہے اللہ تعالی ان کی عمر کی رسی دراز کر دیتا ہے انہیں بہت مہلت دیتا ہے لیکن ان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے ان سے معارف الہی کو سمجھنے کی توفیق سلب کر لیتا ہے اور یہ اپنے ہاتھوں سے کھودے ہوئے ضلالت و گمراہی کے گڑھے میں جا گرتے ہیں۔

جو لطف اور نور وقلب مومنین کے شامل حال ہے وہ انہیں میسر نہیں ہے بلکہ ان کے دلوں میں نفاق اور کفر پر اصرار کرنے کی وجہ سے ضلالت و گمراہی زیادہ ہو گئی ہے لہذا اللہ تعالی کی اطاعت و عبادت کی محرک نعمتیں بھی ان کے لیئے مزید سرکشی اور ضلالت کا موجب بن گئی ہیں اور خداتعالی کی طرف سے ڈھیل نے بھی انہیں کوئی فائدہ نہیں پہنچایا جس طرح کافر اپنی خطاؤں کے گرداب میں غرق ہیں۔

اسی طرح منافق بھی اپنی ضلالت اور گمراہی و سرکشی کی وجہ سے اس ڈھیل سے فائدہ نہ اٹھا سکے اور اسی گرداب میں غرق ہو گئے ہیں اور اپنے اندھے پن کی وجہ سے اپنی زندگی اچھائی برائی کی تمیز کے بغیر گزار دیتے ہیں۔

۹۹

( أُوْلَئِکَ الَّذِینَ اشْتَرَوْا الضَّلاَلَةَ بِالْهُدَی فَمَا رَبِحَتْ تِجَارَتُهُمْ وَمَا کَانُوا مُهْتَدِینَ )

یہی وہ لوگ ہیں جنہوں نے ہدایت دے کر گمراہی خرید لی ہے جس تجارت سے نہ کوئی فائدہ ہے اور نہ اس میں کسی طرح کی ہدایت ہے۔

منافقین کا انجام

الف ضلالت و گمراہی کے خریدار

گزشتہ آیات میں منافقین کے مفسد اور باطل اوصاف کو بیان کیا گیا انہون نے متاع گراں،چشمہ ہدایت سے سیراب ہونے کی بجائے ضلالت و گمراہی کو ترجیح دی ہے لیکن اتنے بے شعور ہیں کہ مفسد اور مخرب کام کو اصلاح کا نام دینے لگے مومنین کو سادہ لوح اور نادان سمجھ بیٹھے حالانکہ یہ خود فسادی اور دھوکہ با ز اور نادان لوگ ہیں انہوں نے ہدایت پر جلالت کو ترجیح دی ہے۔ جبکہ ان کے پاس امکان تھا کہ ہدایت سے بلا مانع فائدہ اٹھاتے کیونکہ یہ لوگ وحی کے خوشگوار چشمے کے کنارے پر تھے اس ماحول میں صدق وصفا اور ایمان سے لبریز ہو سکتے تھے لیکن انہوں نے اس ہدایت کے بدلے گمراہی کو خرید کر لیا ہے جس سے سب فائدہ اٹھا سکتے تھے۔

لیکن صرف متقین نے اس سے فائدہ اٹھایا جبکہ کافر اور منافق کے اختیارمیں بھی تھا لیکن وہ اپنے سوء اختیار کی وجہ سے ضلالت اور گمراہی کے خریددار بنے جیسا کہ خداوندعالم ارشاد فرماتا ہے۔

( إِنَّا هَدَيْناهُ السَّبيلَ إِمَّا شاکِراً وَ إِمَّا کَفُوراً )

یقینا ہم نے اسے راستہ کی ہدایت دے دی ہے چاہے وہ شکر گزار ہو جائے یا کفران نعمت کرنے والا ہو جائے۔(۱)

____________________

(۱)سورہ دھر آیت ۳۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296