منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)26%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137259 / ڈاؤنلوڈ: 6241
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تھے( ۱ ) اور جب بیدار ہوتے تھے تو پہلے خدا کو سجدہ کرتے تھے( ۲ ) اور ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ خدا کی حمد کرتے اور کہتے تھے:الحمد للّٰه ربِّ العالمین کثیراً علیٰ کلّ حال ۔( ۳ ) قرآن خوانی تو آپ (ص)کا شغف اور محبوب مشغلہ تھا جب آپ(ص) نے عبادت میں بہت زیادہ جانفشانی کی تو جبریل نازل ہوئے اور آپ(ص) کی خدمت میں خدا کا پیغام پہنچایا:( طه، ما انزلنا علیک القرآن لتشقی ) ۔( ۴ )

طٰہ، ہم نے آپ(ص) پر اس لئے قرآن نازل نہیں کیا ہے کہ آپ خود کو مشقت میں ڈالیں۔

۳۔ خدا ہی پر بھروسہ

اپنے رسول (ص) کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے :( الیس اللّٰه بکاف عبده ) ( ۵ ) کیا اپنے بندہ کے لئے اللہ کافی نہیں ہے؟!

نیز فرماتا ہے:( و توکُلّ علیٰ العزیز الرّحیم الّذی یراک حین تقوم و تقلّبک فی السّاجدین ) ( ۶ )

اور غالب و رحیم خدا پر بھروسہ کیجئے جو آپ(ص) کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ(ص) قیام کرتے ہیں اور سجدہ کرنے والوں میں آپ(ص) کی نشست و برخاست بھی دیکھتا ہے۔

یقینا رسول(ص) اعظم خدا پر ایسے ہی توکل و اعتماد کرتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشادگزرا ہے ۔

جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ذات الرقاع میں ہم رسول(ص) کے ہمراہ تھے ہم نے ایک سایہ دار درخت دیکھا اسے رسول(ص) کے لئے چھوڑ دیا۔ رسول(ص) نے اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی اور آرام کرنے لگے، ایک مشرک نے اس تلوار کو اٹھا لیا اور رسول(ص) سے کہنے لگا: آپ(ص) مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: نہیں اس

____________________

۱۔ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۱۷۔ ۲۔ ایضا ج ۱۶ ص ۲۵۳ ۔ ۳۔کافی ج۲ ص ۵۰۳۔

۴۔ طہ ۱۔۲ ۔

۵۔زمر:۳۶۔

۶۔شعرائ: ۲۱۷ تا ۲۱۹۔

۴۱

نے کہا: اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ(ص) نے فرمایا: اللہ بچائے گا۔ یہ سن کر اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر پڑی ، تلوار کو آنحضرت (ص) نے اٹھا لیا اور فرمایا: اب میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا؟ اس نے کہا: مجھ پر احسان کیجئے، آپ(ص) نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دوگے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا : یہ گواہی تو میں نہیں دونگا لیکن میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آپ (ص)سے جنگ نہیں کرونگا اور ان لوگوںکا ساتھ نہیں دونگا جو آپ(ص) سے جنگ کرتے ہیں، آپ(ص) نے اس کا راستہ چھوڑ دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں سب سے زیادہ نیک آدمی کے پاس سے آ رہا ہوں۔( ۱ )

۴۔شجاعت

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( الّذین یبلّغون رسالات اللّٰه و یخشونه ولا یخشون احداً الا اللّٰه ) ۔( ۲ ) جو لوگ خدا کے پیغاموں کو پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے(علی ابن ابی طالب کہ جن کے سامنے عرب کے سورمائوں کازہرہ آب ہو جاتا تھا )فرماتے ہیں: جب میدان کا رزار گرم ہوتا تھا اور دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے سے گتھ جاتی تھیں تو اس وقت ہم رسول(ص) کے پاس پناہ لیتے تھے اور آپ دشمن کی فوج سے بہت زیادہ قریب ہوتے تھے۔( ۳ )

جنگ احد میں صحابہ آپ(ص) کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اس وقت آپ(ص) کی ثابت قدمی کی منظر کشی مقداد نے اس طرح کی ہے : اس ذات کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا میں نے نہیں دیکھا کہ رسول(ص) اپنی جگہ سے ایک بالشت بھی پیچھے ہٹے ہوںجبکہ دشمنوں کا سارا زور آپ(ص) کی طرف تھا آپ(ص) کے اصحاب میں ایک جماعت آپ(ص) کے پاس جمع ہوتی تھی تو دوسری متفرق ہو جاتی تھی میں نے بارہا دیکھا کہ آپ اپنی کمان سے تیر چلا رہے ہیں یا پتھرپھینک رہے ہیں یہاں تک کہ دونوں طرف سے پتھرائو شروع ہو گیا۔( ۴ )

____________________

۱۔ ریاض الصالحین (للنووی)ص۵ حدیث ۷۸، صحیح مسلم ج۴ ص ۴۶۵۔

۲۔احزا:ب ۳۹۔ ۳۔ فضائل الخمسہ من الصحاح الستة ج۱ ص ۱۳۸۔

۴۔ مغازی واقدی ج۱ ص ۲۳۹ و ۲۴۰۔

۴۲

۵۔ بے مثال زہد

خدا وند عالم فرماتا ہے:( ولا تمدّنّ عینیک الیٰ ما متعنا به ازواجاً منهم زهرة الحیاة الدّنیا لنفتنهم فیه و رزق ربک خیر و ابقیٰ ) ( ۱ ) اور ہم نے ان میں سے بعض لوگوںکو دنیوی زندگی کی رونق سے مالامال کر دیا آپ اپنی نگاہ کو ان کی طرف ہرگز نہ ڈالیںاس لئے کہ اس کے ذریعہ ہم انہیں آزمائیں گے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ ابو امامہ نے رسول(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: مجھے میرے رب کا پیغام پہنچا کہ میں بطحائے مکہ کو تمہارے لئے سونے سے بھر دوں؟ میں نے عرض کی: نہیں معبود! میں ایک دن شکم سیر اور ایک دن بھوکا رہنا چاہتا ہوں، جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری بارگاہ میں تضرع و زاری کروں اور جب شکم سیر ہوں تو تیری حمد کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔( ۲ ) رسول(ص) اپنی چٹائی پر محو خواب ہوتے تھے اس سے آپ کے پہلو میں درد ہو گیا۔لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ کے لئے فرش فراہم کر دیں فرمایا: دنیا (کی لذتوں) سے مجھے کیا واسطہ؟ میں تو دنیا میں اس سوار کی مانند ہوں کہ جس نے درخت کے سایہ میں تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر روانہ ہو گیا۔( ۳ ) ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول(ص) کئی کئی دن بھوکے رہتے تھے، آپ(ص) کے اہل و عیال بھی اسی حال میں رہتے تھے وہ اکثر جو کی روٹی کھاتے تھے۔( ۴ ) عائشہ کہتی ہیں: آل محمد(ص) نے کبھی دن میں دو کھانے نہیں کھائے، مگر یہ کہ ایک کھانا خرما ہوتا تھا( ۵ ) نیز کہتی ہیں: رسول(ص) کی وفات کے وقت بھی آپ(ص) کی ایک بکری یہودی کے یہاں تیس سیر جو کے عوض گروی تھی۔( ۶ )

____________________

۱۔طٰہ: ۱۳۱۔

۲۔سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷ ۔

۳۔سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷۔

۴۔ سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱حدیث ۲۳۶۰۔

۵۔ صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۷۱ حدیث ۶۰۹۰۔

۶۔صحیح بخار ج۳ ص ۱۰۶۸ ح ۲۷۵۹ ۔

۴۳

انس بن مالک سے روایت ہے کہ فاطمہ زہرا آپ(ص) کی خدمت میں روٹی کا ایک ٹکڑا لائیں تو آپ(ص) نے فرمایا: اے فاطمہ!یہ ٹکڑا کیسا ہے ؟ عرض کی: یہ روٹی کا ٹکڑا ہے، میرا دل نہ مانا لہذا میں آپ کی خدمت میں لیکر حاضر ہوئی۔ فرمایا: تین دن کے بعد آج یہ پہلا لقمہ ہے جو تمہارے باپ کے منہ میں گیا ہے۔( ۱ )

قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم انس کے پاس تھے اور ان کے پاس ایک نانبائی تھا انہوں نے کہا: رسول(ص) نے جیتے جی نرم روٹی اور بھنی بکری نہیں کھائی۔( ۲ )

۶۔بردباری اور کرم

ابن عباس کہتے ہیں: رسول(ص) بڑے کریم و فیاّض تھے۔ ماہ رمضان میں زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ ہر سال رمضان میںجبریل آپ(ص) سے ملاقات کرتے تھے اورجب جبریل آپ(ص) سے ملاقات کرتے تھے تو آپ(ص) کو نرم ہوا سے بھی زیادہ سخی پاتے تھے۔( ۳ ) جابر سے روایت ہے کہ رسول(ص) سے جب بھی کچھ مانگا گیا آپ(ص) نے انکار نہیں کیا۔( ۴ )

روایت ہے کہ رسول(ص) ایک کپڑے والے کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدی ۔اس کو پہن کر بر آمد ہوئے تو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے قمیص پہنا دیجئے اللہ آپ کو جنت کا لباس عطا کرے گا۔ آپ(ص) نے قمیص اتاری اور اسے پہنا دی، پھر دوکاندار کے پاس آئے اور اس سے چار درہم میں دوسری قمیص خریدی آپ(ص) کے پاس دو درہم باقی بچے دیکھا کہ راستہ میں ایک کنیز رو رہی ہے ۔ آپ(ص) نے اس سے دریافت کیا: کیوں رو رہی ہو؟ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول(ص)! میرے آقا نے مجھے دو درہم دئیے تھے کہ آٹا لے آئو وہ درہم گم ہو گئے دو درہم رسول(ص) نے اسے

____________________

۱۔ الطبقات الکبریٰ ابن سعد ج۱ ص ۴۰۰۔

۲۔ مسند احمد ج۳ص ۵۸۲ حدیث ۱۱۸۸۷۔

۳۔صحیح مسلم ج۴ ص ۴۸۱ حدیث ۳۳۰۸، مسند احمد ج ۱ ص ۵۹۸ حدیث ۳۴۱۵۔

۴۔سنن دارمی ج۱ ص ۳۴۔

۴۴

دے دئے ۔ کنیز نے پھر عرض کی: میں ڈرتی ہوں کہ گھر والے کہیں مجھے ماریں نہ لہذا رسول(ص) اس کے ساتھ اس کے آقا کے گھر تشریف لے گئے ، باہر ہی سے سلام کیا، ان لوگوں نے رسول(ص) کی آواز پہچان لی لیکن کوئی جواب نہ آیا آپ(ص) نے پھر سلام کیا۔ پھر کوئی جواب نہ ملا آپ(ص) نے پھر سلام کیا تو ان لوگوں نے سلام کا جواب دیا۔ آپ(ص) نے دریافت کیا تم نے میرا پہلا سلام نہیں سنا تھا؟ انہوںنے عرض کی: سنا تھا لیکن ہم چاہتے تھے آپ ہماری سلامتی کی زیادہ دعا کریں۔ ہمارے ماں باپ آپ(ص) پر قربان تشریف آوری کا باعث کیا ہے ؟ فرمایا: مجھے یہ خوف تھا کہ تم اس کنیز کو ماروگے۔ اس کے مالک نے کہا : آپ(ص) اس کے ساتھ تشریف لائے ہیںلہذامیں نے اسے راہ خدا میں آزاد کیا، رسول(ص) خدا نے انہیں دعائے خیردی اور انہیںجنت کی بشارت دی اور فرمایا:

لقد بارک اللّه فی العشرة کسا اللّه نبیه قمیصاً و رجلا من الانصار قمیصا و اعتق منها رقبة و احمد اللّه هو الّذی رزقنا هذا بقدرته ۔( ۱ )

یقینا خدا نے ان دس درہموں میں برکت عطا کی اس کے ذریعہ سے خدا نے اپنے نبی(ص) کو قمیص پہنائی ، اورایک آدمی کو انصار میں سے قمیص پہنائی اور اس دس درہم میں سے ایک کنیز کو آزاد کرایا میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے اپنی قدرت سے ہمیں یہ چیزیں عطا کیں۔

ماہ رمضان آتا تو آپ اسیروں کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا کرتے تھے۔( ۲ )

عائشہ کہتی ہیں: نبی(ص) اپنے ساتھ کی گئی بدسلوکی کا انتقام نہیں لیتے تھے ہاں حرمت ِالٰہی کی پامالی کا انتقام لیتے تھے، اپنے ہاتھ سے آپ(ص) نے کبھی کسی کو نہیں مارا، اگر مارا تو راہ خدا میں مارا، آپ(ص) نے کسی سوالی کو محروم نہیں کیا، مگر یہ کہ اس نے گناہ کا سوال کیا ہو کیونکہ آپ(ص) معصوم تھے، گناہ سے بہت دور تھے۔( ۳ )

____________________

۱۔ المعجم الکبیر (طبرانی ) ج ۲ ۱ ص ۳۳۷، حدیث ۱۳۶۰۷۔

۲۔حیات النبی(ص) و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۱۔

۳۔حیات النبی(ص) و سیرتہ ج۳ ص ۳۰۶۔

۴۵

عبید بن عمر سے روایت ہے : اگر رسول(ص) کے پاس ایسے مجرم کو لایا جاتا تھاکہ جس پر حد نہیں ہوئی تھی تو آپ اسے معاف کر دیتے تھے۔( ۱ )

انس کہتے ہیں: میں نے دس سال تک رسول(ص) کی خدمت کی ہے لیکن کبھی آپ(ص) نے مجھ سے اف تک بھی نہیں کہا، اور میں جو کام بھی انجام دیتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ تم نے کیوں کیا؟ اور جو کام میں نہیں کرتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ انجام کیوں نہیں دیا؟( ۲ )

ایک اعرابی آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے اپنی ردا کو اتنی شدت کے ساتھ کھینچا کہ اس کا ایک کونا آپ(ص) کی گردن پر لگا، اور کہنے لگا: اے محمد(ص)! مجھے مالِ خدا میں سے دئیے جانے کا حکم دیں، آپ(ص) نے اس کی طرف دیکھا تبسم کیااور اسے عطا کرنے کا حکم دیا۔ آپ(ص) نے زندگی بھر عفو و سخاوت سے کام لیا ہے...یہاں تک کہ اپنے چچا جناب حمزہ کے قاتل کو بھی معاف کر دیا تھا...اس یہودی عورت کو بھی معاف کر دیا تھا جس نے آپ(ص) کی خدمت میں بکری کا زہر آلود گوشت پیش کیا تھا، ابو سفیان کو معاف کر دیا تھا اور جو اس کے گھر میں داخل ہو گیا تھااس کو بھی معاف کر دیا تھا۔ اور قریش کے ان لوگوں سے در گذر کیا تھا جو اپنے رب کے حکم سے رو گرداں تھے اور اس سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ٹکرائے تھے...جس وقت آپ(ص) عزت و اقتدار کے بلند ترین درجہ پر فائز تھے اس وقت فرمایا تھا:

'' اللهم اهد قومی فانهم لا یعلمون...اذهبوا فانتم الطلقاء'' ( ۳ )

اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما کیونکہ یہ لوگ کچھ نہیں جانتے...جائو تم سب آزاد ہو۔

''ولو کنت فظّا غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک فاعف عنهم واستغفر لهم '' ( ۴ )

اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے بھاگ جاتے لہذا انہیں معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو۔

____________________

۱۔ ایضا ج۳ ص ۳۰۷۔ ۲۔صحیح بخاری ج۵ ص ۲۲۶۰ حدیث ۵۷۳۸۔

۳۔محمد فی القرآن ص ۶۰ تا ۶۵ ۔ ۴۔آل عمران: ۱۵۹۔

۴۶

خدا نے آپ کی رحم دلی اور شفقت و رافت کو اس طرح بیان کیا ہے :

( لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم ) ( ۱ )

یقینا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول(ص) آیا ہے جس پر تمہاری مصیبت شاق ہوتی ہے اور تمہاری ہدایت میں رغبت رکھتا ہے اور مومنوں پر شفیق و رحیم ہے ۔

۷۔حیا و انکساری

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول(ص) کو پردہ نشیں کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا تھی آپ(ص) اگرکسی چیز سے نفرت کرتے تھے تو اس کا اندازہ آپ(ص) کے چہرہ سے ہو جاتا تھا۔( ۲ )

حضرت علی سے روایت ہے : جب رسول(ص) سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تھااور آپ اسے پورا کرنے کا ارادہ کرتے تھے تو فرماتے تھے: ہاں اور اگر اسے انجام دینے کا قصد نہیں رکھتے تھے تو خاموش رہتے تھے، لیکن آپ(ص) کسی چیز کے بارے میںنہیں! نہیں کہتے تھے۔( ۳ ) یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا:

''اٰکلُ کما یاکل العبد و اَجلسُ کما یجلس العبد فانما انا عبد'' ( ۴ )

میں غلام کی طرح کھاتا ہوں اور غلام کی طرح بیٹھتا ہوں کیونکہ میں بھی ایک بندہ ہی ہوں۔ آپ(ص) کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ(ص) بچوں کو بھی سلام کرتے تھے۔( ۵ ) نبی (ص) ایک شخص سے ہمکلام ہوئے تووہ شخص آپ کے رعب سے تھرتھر کانپنے لگا۔ آپ(ص) نے فرمایا:

____________________

۱۔توبہ: ۱۲۸ ۔

۲۔ صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۰۶ حدیث ۳۳۶۹۔

۳۔مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۳ ۔

۴۔ الطبقات ( لابن سعد) ج۱ ص ۳۷، مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۹۔

۵۔حیات النبی و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۳، اس میں ابن سعد کے حوالے سے منقول ہے ۔

۴۷

''هوّن علیک فانی لست بملک انما انا ابن امرأة تاکل القدید'' ( ۱ )

گھبرائو نہیں! میں بادشاہ نہیںہوں میں تو اس خاتون کا بیٹا ہوںجو رو کھی سوکھی روٹی کھاتی تھی ۔

ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول(ص)عصا ٹیکتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، ہم ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا:

''لا تقوموا کما تقوم الاعاجم یعظم بعضهم بعضاً'' ( ۲ )

ایسے مت کھڑے ہو اکرو جیسے عجم والے ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

اپنے اصحاب سے آپ(ص) مذاق کرتے تھے لیکن حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتے تھے( ۳ ) ، مسجد بنانے( ۴ ) اور خندق کھدوانے( ۵ ) میں آپ(ص) بھی اپنے اصحاب کے ساتھ کام کرتے تھے باوجودیکہ آپ عقلمند ترین انسان تھے پھر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے۔( ۶ )

آپ فرمایا کرتے تھے:'' اللهم احیینی مسکیناً وتوفّنی مسکیناً و احشر نی فی زمرة المساکین و ان اشقیٰ الاشقیاء من اجتمع علیه فقر الدنیا و عذاب الاخرة'' ( ۷ )

اے اللہ! مجھے مسکین کی زندگی اور مسکین کی موت دینا اور مسکینوںکے ساتھ محشور کرنا اور بلا شبہ بد قسمت ترین شخص وہ ہے جو دنیا کے فقر اور آخرت کے عذاب کا ایک ساتھ شکار ہو۔

یہ تھیں آپ(ص) کی شخصیت کی بعض خوبیاں اور صفتیں، آپ کے فرد ی و اجتماعی سلوک کی چند جھلکیاں، آپ(ص) کی انتظامی ، سیاسی، عسکری، اقتصادی اوراسیروں، قیدیوں سے متعلق بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جن کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں آپ(ص) کی تاسی کی جائے ،ان سے درس لیا جائے ۔ہم انہیں آنے والی فصلوں میں بیان کریں گے۔

____________________

۱۔سنن ابن ماجہ ج۲ ص ۱۱۰۱ حدیث ۳۳۱۲۔ ۲۔سنن ابی دائود ج۴ ص۳۵۸ حدیث ۵۲۳۰۔

۳۔سنن ترمذی ج۴ ص ۳۰۴، حدیث ۱۹۹۰۔ ۴۔مسند احمد ج۳ ص ۸۰۔

۵۔طبقات ، ابن سعد ج۱ ص ۲۴۰۔ ۶۔الدر المنثور ج۲ ص ۳۵۹، مواہب اللدنیہ ج۲ ص ۳۳۱۔

۷۔سنن ترمذی ج۴ ص ۴۹۹ حدیث ۲۳۵۲۔

۴۸

دوسرا باب

پہلی فصل

ولادت و پرورش کا عہد

دوسری فصل

شباب و جوانی کا دور

تیسری فصل

شادی سے بعثت تک

۴۹

پہلی فصل

ولادت و پرورش

۱۔ بت پرست معاشرہ کی جھلکیاں

بعثت نبوی سے قبل جزیرة العرب کے معاشرہ میں ظلم و فساد کا دور دورہ تھا۔ وہاں کے لوگوں کا کوئی متحدہ محاذ و بلاک نہیں تھا اور ان کی اجتماعی و ثقافتی خصوصیتیں، جو کہ صحرائی ماحول کی پیداوار تھیں، ان کی زوال پذیر حالت کو روکنے کے لئے کافی نہیں تھیں ، تباہی کے آثار جزیرة العرب کے معاشرہ میں نمایاں ہو چکے تھے اور ان کے درمیان جو معاہدے ہوتے تھے اس کی ایک اجتماعی خصوصیت تھی لیکن اس کے تعدد سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کے معاشرہ میں مرکزیت ختم ہو چکی تھی۔

نہ ہی اس معاشرہ میں ہمیں کوئی ایسی اصلاحی و انقلابی تحریک نظر آتی ہے جس کو تاریخ نے بیان کیا ہو جواس معاشرہ میں ابھری ہو اوراس نے انہیں بہتر و خوش حال زندگی کی طرف دعوت دی ہو ہاں پراگندہ حالت میںبعض لوگوں کی تحریک ضرور تھی جسے اجتماعی ظلم و تعدی کا رد عمل ہی کہا جا سکتا ہے اس کے بانی جزیرة العرب کے بہت کم لوگ تھے اور یہ تحریک نہ تو ایک نظر یہ کے حد تک پہنچ سکی اور نہ ہی معاشرہ میں کوئی انقلاب برپاکر سکی( ۱ ) معاشرۂ قریش میں خلفشاراور اختلاف کو ہم خانۂ کعبہ کی تعمیر نو کے سلسلہ میں دیکھ چکے ہیں حالانکہ اس وقت قریش عرب کے قبائل میں سب سے زیادہ معزز اور متحد تھے۔ اس معاشرہ کی تباہی اور

____________________

۱۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۲۲۵۔

۵۰

شکست و ریخت کو ہم جزیرہ نما ئے عرب میں مقیم یہودیوں کی دھمکیوں سے بھی ثابت کر سکتے ہیں یہاں کے

یہودجزیرہ نما عرب کے لوگوں سے کہا کرتے تھے بشریت کو نجات دلانے والا آسمانی شریعت کے ساتھ عنقریب ظہور کرے گا، نیز کہتے تھے: ایک نبی(ص) ظہور کرے گا جو تمہارے بتوں کو توڑ دے گا۔( ۱ )

۲۔رسول(ص) کے آباء واجداد کا ایمان

رسول(ص) نے ایسے موحد گھرانے میں ولادت و پرورش پائی جو کہ بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار کا حامل تھا۔ آپ(ص) کے جد عبد المطلب کے ایمان کا علم توہمیں ان کی اس دعا سے ہو جاتا ہے جو انہوں نے اس وقت کی تھی جب حبشی ابرہہ نے خانۂ کعبہ مسمار کرنے کے لئے چڑھائی کی تھی۔ اس وقت کعبہ کی حفاظت کے لئے عبدالمطلب نے کسی بت سے التجا نہیں کی تھی بلکہ خدائے واحد پر توکل کیا تھا۔( ۲ )

بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ عبد المطلب پیشین گوئیوں کے ذریعہ نبی(ص) کی عظمت اور ان کے مستقبل سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے رسول(ص) کا واسطہ دے کر اس وقت بارش کی دعا کی تھی جب رسول(ص) کی عمر بہت کم تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رزق و نعمت دینے والے خدا کے نزدیک ان(محمد(ص)) کی بڑی منزلت ہے ۔( ۳ ) عبد المطلب کے مومن ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے بچپنے میں ام ایمن سے فرمایا کہ خبردار ان (محمد(ص))سے غافل نہ ہونا۔( ۴ )

یہی حال آپ کے چچا جناب ابو طالب کا ہے تبلیغ رسالت کے پیش نظر وہ بھی تا حیات، رسول(ص) کی حفاظت و پشت پناہی کرتے رہے اس سلسلہ میں انہوں نے قریش کے بائیکاٹ اورشعب ابو طالب می گھیرائو اور ان کی دوسری اذیتوں کو برداشت کیا۔ اس حقیقت کو ہم ابو طالب کے بارے میں نقل ہونے والی روایتوں میں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۱۵، ص ۲۳۱، السیرة النبویة ج۱ ص ۲۱۱، البقرة : ۸۹۔

۲۔سیرة النبویة ج۱ ص ۴۳۔۶۲، تاریخ کامل ج۱ ص ۲۶۰، بحار الانوار ج۵ ص ۱۳۰۔

۳۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۸۲، الملل و النحل شہرستانی ج۲ ص ۲۴۸۔

۴۔سیرة زینی دحلان جو کہ سیرة حلبیہ کے حاشیہ برچھپی ہے : ج۱ ص ۶۴، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۔

۵۱

دیکھتے ہیں کہ وہ رسول(ص) کی حفاظت کا کتنا خیال رکھتے تھے۔( ۱ )

ہاں بعض (ضعیف) روایتوں میں رسول(ص) کے والدین کی طرف شرک اور بت پرستی کی نسبت دی گئی ہے ،لیکن ان کے ایمان کی دلیل رسول(ص) کا یہ قول ہے:

''لم ازل انقل من اصلاب الطاهرین الیٰ ارحام الطاهرات'' ۔

میں پاک و پاکیزہ صلبوں سے پاک و پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا رہا۔

اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ(ص) کے آباء و اجداد اور مائیں ہر شرک و رجس سے پاک تھیں۔

۳۔ ولادتِ رسول(ص)

عیسائیت نے انسانی معاشرہ میں نہ تو نفوذ ہی پیدا کیا تھا اور نہ ہی اس کے ایسے کارنامے ہیں کہ جن کا ذکر کیا جاسکے اس کے نتیجہ میں دنیا میں گمراہی و انحراف پھیل گیا تھا لوگ حیرتوں اور فتنوں کی گمراہیوں میں مبتلا ہو چکے تھے جاہلوں کی جاہلیت نے ان کوبے وقعت کر دیاتھا، روم کی حالت بھی اپنے حریف ملک ایران کی حالت سے کچھ کم بدتر نہیں تھی اور جزیرة العرب کی حالت ان دونوں سے بہتر نہیں تھی ہر ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا تھا۔

اس وقت کی انسانی حیات کے ایک المناک گوشہ کو قرآن مجید نے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیا ہے اور اسی طرح اہل بیت نبوت کے سید و سردار علی ابن ابی طالب نے اپنے متعدد خطبوں میں ان کی افسوسناک حالت کو بیان فرمایا ہے۔ جس معاشرہ میں نبی(ص) کو مبعوث کیا گیا تھا اس کی حالت کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

___________________

۱۔ السیرة النبویہ ج۱ ص ۹۷۹، تاریخ ابن عساکر ج۱ ص ۶۹، مجمع البیان ج۷ ص ۳۷، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۳، طبقات الکبریٰ ج۱، ص ۱۶۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص۱۸۹، اصول کافی ج۱ ص ۴۴۸، الغدیر ج۷ ص ۳۴۵۔

۵۲

ارسله علیٰ حین فترة من الرسل و طول هجعة من الامم و اعتزام من الفتن و انتشار من الامور و تلظّ من الحروب و الدنیا کاسفة النور، ظاهرة الغرور علیٰ حین اصفرار من و رقها و ایاس من ثمرها و اغورار من مائها، قد د رست منائر الهدیٰ و ظهرت اعلام الردیٰ فهی متجهمة لاهلها، عابسة فی وجه طالبها ثمرها الفتنة و طعامها الجیفة و شعارها الخوف و دثارها السیف ( ۱ )

اللہ نے اپنے رسول(ص) کو اس وقت بھیجا جب رسولوںکی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، امتیں عرصۂ دراز سے خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں فتنے سر اٹھا رہے تھے، تمام چیزوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا کی رونق ختم ہو چکی تھی ، اس کی فریب کاریاںکھلی ہوئی تھیں، اس کے پتے زرد ہو گئے تھے اور پھلوں سے نا امیدی ہو چکی تھی، پانی زمین میں تہ نشیں ہو چکا تھا۔ ہدایت کے نشان مٹ گئے تھے، ہلاکت و پستی کے پرچم کھلے ہوئے تھے، دنیا اپنے باشندوں کے سامنے تیور چڑھائے ہوئے کھڑی تھی، اس کا پھل فتنہ تھا، اس کی خوراک مردار تھی اس کے اندر کا لباس خوف اور ظاہری لباس تلوار تھی۔

بشریت ایسے ہی سخت و دشوار حالات سے دو چار تھی کہ نور الٰہی چمکا اور خدا کے بندوں اور روئے زمین پر بسنے والوں کو بہترین زندگی اور ابدی سعادت کی بشارت دی اور سر زمین حجاز ۱ عام الفیل مطابق ۵۷۰ئکو ماہ ربیع الاوّل میں بابرکت ہو گئی، جیسا کہ اکثر مورخین و محدثین نے لکھا ہے۔

آپ کے روزِ ولادت کو اہل بیت نے بیان کیا ہے واضح ہے کہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں آنحضرت(ص) نے ۱۷ ربیع الاول بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد ولادت پائی، مذہب امامیہ کے درمیان یہی قول مشہور ہے لیکن عامہ کا نظریہ یہ ہے کہ آپ(ص) کی ولادت۱۲ ربیع الاول دو شنبہ کے روز ہوئی۔( ۲ )

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۹۔

۲۔ ملاحظہ ہو امتاع الاسماع۔

۵۳

تاریخ و حدیث کی معتبر کتابوں میں وہ عجیب و غریب حوادث بیان ہوئے ہیں جو آپ کی ولادت کے دن رونما ہوئے تھے مثلا: فارس کے آتشکدہ کی آگ بجھ گئی، شدید زلزلہ آیا کہ جس سے عیسائیوں اور یہودیوں کے گرجا و کلیسا منہدم ہو گئے ہر وہ چیز اپنی جگہ سے اکھڑ گئی جس کی پرستش کی جاتی تھی اور خانہ کعبہ میں نصب ہوئے بت منہ کے بل گر پڑے کا ہنوںاور ساحروں کے اعداد و شمار اور حساب و کتاب بے کار ہوگئے، کچھ ایسے ستارے طلوع ہوئے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے جب آپ(ص) پیدا ہوئے تو آپ کی زبان پر''اللّٰه اکبر، و الحمد للّٰه کثیرا، و سبحان اللّٰه بکرة و اصیلا'' تھا۔( ۱ )

نبی(ص) نے اپنے دو ناموں ، محمد(ص) واحمد، سے شہرت پائی، قرآن مجید نے دونوں کا ذکر کیا ہے مورخین نے لکھا ہے کہ آپ(ص) کے جد عبد المطلب نے آپ کا نام محمد(ص) رکھا تھا اور جب ان سے محمد کی وجہ تسمیہ معلوم کی گئی تو انہوں نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ آسمان اور زمین پران کی تعریف کی جائے( ۲ ) آپ کے جد سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کا نام احمد رکھا تھا۔

اسی نام کی بشارت حضرت عیسیٰ کی زبانی انجیل میں دی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اسکو بیان کیا ہے اور علمائے اہل کتاب نے اس کی تصدیق کی ہے ، خداوند عالم نے اسے اس طرح نقل کیا ہے :

''مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمه احمد '' ۔( ۳ )

اور میں تمہیں اپنے بعد ایک رسول(ص) کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔

اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کہ ایک شخص دو نام، دو القاب اور دو کنیتوں سے پہچانا جائے جزیرة العرب و غیرہ میں ایسا ہوتاآیاہے ۔

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۹۲۔

۲۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۲۸۔

۳۔ صف: ۶، ملاحظہ ہو سیرة حلبیہ ج۱ ص ۷۹۔

۵۴

۴۔ مبارک رضاعت

حضرت محمد(ص) کی ساری ذمہ داری ان کے جد عبد المطلب کے سپرد ہو گئی تھی کہ جو عین شباب کے عالم میں اپنے چہیتے بیٹے جناب عبد اللہ سے محروم ہو گئے تھے، اس لئے آپ کے جد عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری ابو لہب کی کنیز ثویبہ کے سپرد کر دی تاکہ آپ کو بنی سعد کے پاس بادیہ میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے صاف و شفاف ماحول میں نشو نماپائیں اور ان وبائوں سے دور رہکر-جو کہ اہل مکہ کے بچوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھیں۔ بادیہ نشین لوگوں کے بچوں کے ساتھ پرورش پائیں، جیسا کہ اہل مکہ کے شرفاء کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچے دودھ پلانے کے لئے دودھ پلانے والیوں کو دیدیا کرتے تھے اور دودھ پلانے کے سلسلہ میں قبیلۂ بنی سعد کی عورتیں مشہور تھیں، وہ مکہ کے مضافات اور حرم کے نواح میں رہتی تھیں دودھ پینے والے بچے لینے کے لئے ان کی عورتیں سال میں ایک مرتبہ مکہ آتی تھیں جس سال نبی(ص) نے ولادت پائی تھی اس سال بہت سی عورتیں آئی تھیں کیونکہ یہ قحط کا سال تھااس لئے انہیں مکہ کے شرفاء سے مدد لینا تھی۔

بعض مورخین کا خیال ہے کہ ان دودھ پلانے والیوں میں سے کسی نے بھی محمد(ص) کو نہ لیا کیونکہ آپ(ص) یتیم تھے، قریب تھا کہ ان کاقافلہ واپس چلا جائے، حلیمہ بنت ابی ذویب سعدیہ کے علاوہ ہر عورت کو بچہ مل گیا تھا، دوسری دودھ پلانے والیوں کی مانند پہلے حلیمہ نے بھی آپ(ص) کو لینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب انہیں کو ئی بچہ نہ ملا تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خدا کی قسم! میں اس یتیم کے گھر جائونگی اور اسی کو لائونگی، ان کے شوہر نے رضامندی کا اظہار کیا تو وہ عبدالمطلب کے گھر واپس آئیں اور محمد(ص) کو گود میں لیا ، گود لیتے ہی ان کا پورا وجود اس امید سے معمور ہو گیا کہ اس بچہ کے ذریعہ انہیں بہت سی خیر و برکت ملے گی۔( ۱ )

مورخین کا یہ خیال ہاشمی گھرانے کی عظمت اور رسول(ص) کے جد، کہ جو اپنے جود و کرم اور مفلس و محتاجوں کی مدد کرنے کے حوالے سے مشہور تھے ۔

مزید بر آں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آنحضرت(ص) کے پدر بزرگوار کا انتقال آپ(ص) کی ولادت کے کئی مہینے

____________________

۱۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۴۶۔

۵۵

کے بعد ہوا تھا( ۱ ) مورخین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ آپ(ص) نے حلیمہ کے پستان کے علاوہ کسی کے پستان کو منہ نہیں لگایا تھا۔( ۲ ) حلیمہ کہتی ہیں: عبد المطلب نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں بنی سعد کی عورت ہوں انہوں نے کہا: تمہارا کیا نام ہے؟ میں نے کہا : حلیمہ اس پر عبد المطلب مسکرائے اور فرمایا: مبارک ہو مبارک سعد وحلم ایسی دو خصلتیں ہیں کہ جن میں زمانہ کی بھلائی اور ابدی عزت ہے ۔( ۳ )

عبد المطلب کے یتیم کو لینے کے سلسلہ میں حلیمہ کو جو خیر و برکت کی امید ہوئی تھی اس میں انہیں خسارہ نہیں ہوا مروی ہے کہ حلیمہ کے پستان میں دودھ نہیں تھا لیکن جب محمد(ص) نے منھ لگایا تو ان کے پستان میں دودھ بھر گیا ۔

حلیمہ کہتی ہیں: ہم نے اپنے مال و متاع میں اسی وقت سے خیر و برکت محسوس کی ہے جب سے رسول(ص) کو پرورش کے لئے لیا یہاں تک کہ قحط و غربت کے بعد ہم مالدار ہو گئے۔( ۴ )

عبد المطلب کا پوتا حلیمہ اور ان کے شوہر کی گود میں چلا گیا اور تقریبا ۵ سال تک وہیں رہا دو سال کے بعد حلیمہ انہیں لے کر واپس آئیں لیکن اب تو حلیمہ آپ کے وجود میں خیر و برکت محسوس کر چکی ہیں اور آپ کو دو بارہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں دوسری طرف آپ(ص) کی والدہ امراض اور وباء سے بچانے کی خاطر آپ(ص) کومکہ سے دور رکھنا چاہتی ہیں لہذا حلیمہ خوشی خوشی رسول(ص) کو اپنے ساتھ لیکر واپس لوٹ گئیں۔

روایت ہے کہ حلیمہ دوبارہ آپ کو اس وقت مکہ واپس لائیں جب انہیں آپ(ص) کی جان خطرہ میں نظر آئی کیونکہ حلیمہ نے نصاریٰ کی اس جماعت کو دیکھا تھا جو حبشہ سے حجاز آئی تھی اس نے محمد(ص) میں نبی موعود کی علامتیں دیکھیں تو اصرار کیا کہ ہم انہیں اپنے ساتھ حبشہ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرورش کا شرف حاصل کریں۔( ۵ )

____________________

۱۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظم (ص) ج۱ ص ۸۱، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۸۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۲۔ ۳۔سیرة حلیبہ ج۱ ص ۱۴۷۔

۴۔بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۵، المناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۲۴، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۴۹۔

۵۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۱۶۷، بحار الانوار ج۱۵ ص ۱۰۵، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۵۵۔

۵۶

۵۔ نبی (ص) کے واسطہ سے بارش

مورخین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول(ص) کے واسطہ سے آپ کی حیات میں متعدد بار بارش ہو ئی ہے ۔آپ کی شیر خوارگی کے زمانہ میں آپ کے جد اور آپ کے چچا ابو طالب کی زندگی میں ، پہلی بار اس وقت آپ کے واسطہ سے بارش ہو ئی تھی جس وقت اہل مکہ شدید قحط میں مبتلا تھے، دو سال سے بارش نہیں ہوئی تھی، جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے ابو طالب کو حکم دیا کہ ان کے پوتے حضرت محمد(ص) کو لائیں حالانکہ وہ اس وقت شیر خوار تھے چنانچہ ابوطالب انہیں لائے، اور دادا کی گود میں دیدیا، عبد المطلب انہیں لئے ہوئے خانۂ کعبہ گئے اور انہیں آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کی: بار الٰہا! اس بچہ کے حق کا واسطہ، اسی جملہ کو باربار کہتے اور دعا کرتے رہے کہ ہمیں موسلادھار بارش کے ذریعہ سیراب کر کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آسمان پر گھٹا چھا گئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ لوگوں کو مسجدالحرام کے منہدم ہونے کا خوف لاحق ہو گیا۔( ۱ )

دوبارہ آپ کے وسیلہ سے اس وقت بارش ہوئی جب آپ(ص) کا بچپناتھا جناب عبد المطلب آپ(ص) کو لیکر کوہ ابو قبیس پرگئے قریش کے دوسرے نمایاں افراد بھی ان کے ہمراہ تھے تاکہ نبی(ص) کی برکت سے دعا مستجاب ہو جائے۔ اس واقعہ کی طرف جناب ابو طالب نے اس طرح اشارہ کیا ہے :

ابو نا شفیع الناس حین سقوابه

من الغیث رجاس العشیر بکور

و نحن-سنین المحل-قام شفیعنا

بمکة یدعو و المیاه تغور( ۲ )

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ قریش نے ابو طالب سے التماس کی کہ ہمارے لئے بارش کی دعا کریں تو ابو طالب ، نبی(ص) کو مسجد الحرام کے پاس لائے، اس وقت آپ کا چہرہ سورج کی طرح دمک رہا تھا، ابو طالب نے نبی(ص) کے واسطہ سے بارش کے لئے دعا کی تو آسمان پر بادل چھا گئے اورموسلا دھار بارش ہوئی اس صورت حال کودیکھ کر سب لوگ خوش ہو گئے۔ اس کرامت کا ذکر ابو طالب نے اس وقت کیا تھا جب قریش

____________________

۱۔الملل و النحل ج۲ ص ۲۴۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۸۲ و ۱۸۳۔ ۲۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۳۳۱۔

۵۷

نے نبی(ص) اور ان کی رسالت سے دشمنی کی حد کر دی تھی، کہتے ہیں:

و ابیض یستسقیٰ الغمام بوجهه

ربیع الیتامی عصمة للارامل

تلوذ به الهلاک من آل هاشم

فهم عنده فی نعمة و فواضل( ۱ )

سفید رنگ سردار جس کے چہرہ سے بادل برسایا جاتاہے، جو یتیموں کا فریاد رس اور بیوائوں کا محافظ ہے یہ وہ ذات ہے جس کے سایہ میں آل ہاشم کے مجبور لوگ پناہ لیتے ہیں اور اس کے تصدق میں نعمت پاتے ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول خدا کے دونوں کفیل خالص مومن تھے اور دونوں خدا پر ایمان رکھتے تھے ان کی عزت و افتخار ، توحید اور اللہ پر ایمان کے لئے اتنا کافی ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے اس گھر میں پرورش پائی تھی جوعقیدۂ توحید سے معمور تھا۔

۶۔ اپنی والدہ آمنہ کے ساتھ

آپ(ص) کے والد کا سایہ تو پہلے ہی اٹھ چکا تھا والدہ کی محبت و شفقت سے بھی آپ(ص) تا دیربہرہ یاب نہ رہ سکے، والدہ کو یہ امید تھی کہ عبد اللہ کا یتیم ان کی حیات میں جوان ہوگا اور شوہر کی جدائی کے بعد بیٹا سہارا بنے گا۔ مگر موت نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی، حلیمہ سعدیہ سے روایت ہے کہ وہ نبی(ص) کو ان کے گھر لے کر آئیں اس وقت نبی(ص) کی عمر پانچ سال ہو چکی تھی، آپ کی والدہ آمنہ یہ چاہتی تھیں کہ محمد(ص) کو ساتھ لیکر اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کو جائیں اور اس سفرمیں محمد(ص) یثرب میں بنی نجار میں سے اپنے ماموں کو بھی دیکھ لیں لیکن اس سفر میں رسول(ص) کو ایک اور غم ہوا، آپ اپنے پدر بزرگوار کی قبر کی زیارت کرکے واپس آ رہے تھے کہ مقام ''ابوائ'' میں آپ(ص) کی والدہ کا انتقال ہو گیا گویا عہد طفلی میں آنحضرت (ص) کے قلب میں دو غموں کا اجماع ہو گیا آپ کی شخصیت کی تکمیل کے لئے یہ خدائی منصوبہ تھا۔

جناب ام ایمن نے ان کے قافلہ کو مکہ پہنچایا، یہ نبی(ص) کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ آپ(ص) کو آپ(ص) کے

____________________

۱۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۹۰، البدایہ و النہایة ج۳ ص ۵۲، بحار الانوار ج۸ ص ۲۔

۵۸

جد عبد المطلب کے سپرد کیا عبد المطلب اپنے پوتے سے بہت محبت کرتے تھے۔( ۱ )

۷۔ اپنے جد عبد المطلب کے ساتھ

محمد(ص) نے عبد المطلب کے دل میں جو مقام و مرتبہ حاصل کر لیا تھا وہ ان کے بیٹوں اور پوتوں میں سے کسی کو حاصل نہیں تھا حالانکہ وہ بطحاء و مکہ کے سردار تھے، روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبد المطلب خانہ ٔ کعبہ کے چبوترے پر چادر بچھائے ہوئے بیٹھے تھے ،یہ چادرمخصوص آپ کے لئے بچھائی جاتی تھی اس وقت آپ کے چاروں طرف قریش کے سر بر آوردہ سردار اور ان کے بیٹے بیٹھے تھے، عبد المطلب کی نظر اپنے پوتے، محمد(ص) پر پڑی، آپ نے حکم دیا کہ محمد(ص) کے لئے راستہ چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے انہیں اس خاص چادرپر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔( ۲ ) قریش کے سردار کی یہ خاص عنایت اس لئے تھی تاکہ قریش کے دلوں میں ان کی بلندی راسخ ہو جائے اوروہ آپ کے خلق عظیم سے متاثر تھے ہی ۔

قرآن مجید نے آپ کے اس دورِ یتیمی کا ذکر کیا ہے جس سے آپ(ص) اپنے پروردگار کی نگہبانی کے ساتھ گذرے ہیں ارشاد ہے :''الم یجدک یتیماً فآویٰ '' کیاہم نے آپ کو یتیم پایا تو آپ کو پناہ نہیں دی، یتیمی کا دور انسان کی شخصیت اور اس کی ترقی پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس سے انسان کے اندر خود اعتمادی، پختگی، مشکلات و مصائب پر صبر کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے خدا وند عالم نے اپنے نبی (ص) کو اس طرح تیار کیا کہ آپ(ص) مستقبل میں پیش آنے والی مشکلوں کو برداشت کرنے اور اس رسالت کبریٰ کا بار اٹھانے پر آمادہ ہو جائیں جس سے آپ(ص) کا کمال نکھرے گا اور آپ(ص) کی شخصیت میں پختگی آئے گی۔ اس حقیقت کی طرف رسول(ص) نے اس طرح اشارہ فرمایا ہے:

''ادبنی ربی فاحسن تا دیبی'' ( ۳ )

میرے پروردگار نے مجھے ادب سکھایاپس میں نے بہترین تربیت پائی۔

____________________

۱۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۰۵۔

۲۔السیرة النبویة ج۱ ص ۱۶۸۔

۳۔ مجمع البیان ج۵ ص ۳۳۳ ملاحظہ ہو تفسیر سورة قلم۔

۵۹

ابھی نبی(ص) آٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ(ص) اپنے جد بزرگوار عبد المطلب، کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے عبد المطلب کی موت سے آپ کو جو صدمہ ہوا تھا وہ آپ کی مادر گرامی کی موت سے کم نہیں تھا آپ(ص) پر شدید رقت طاری تھی ، جنازہ کے پیچھے پیچھے قبر تک روتے ہوئے گئے تا حیات عبد المطلب کو یاد کرتے رہے کہ وہ آپ(ص) کے بہترین نگہبان تھے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ نبی ہیں روایت ہے کہ ایک شخص یہ چاہتا تھا کہ عبد المطلب آپ سے نظر پھیر لیں ۔ آپ نے اس سے فرمایا: میرے بیٹے کے بارے میں کچھ نہ کہو اس کے پاس تو فرشتہ آتا ہے ۔( ۱ )

____________________

۱۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

عزت خدا کے لیے ہے پھر نصیحت کرتے ہوئے فرمایا (کہ جب تمام عزت اللہ کے لیے ہے) پھر عزت کی خاطر ادھر ادھر کیوں جاتے ہو۔ یا پھر فرمایا:انّ القَوة للّٰه جمیعًا (1) تمام قدرت خدا کے لیے ہے۔ پھر نتیجہ کے طور پر فرمایا: کہ تو پھر ہر وقت کسی اور کے پیچھے کیوں لگے رہتے ہو؟ اس آیت میں بھی یہی فرمایا: سب مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں پھر فرمایا: تو اب جب کہ تم سب آپس میں بھائی بھائی ہو تو پھر یہ لڑائی جھگڑا کس لیے؟ پس آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ پیار ومحبت سے رہو۔ اس لیے کہ فرد اور معاشرہ کی اصلاح کے لیے پہلے فکری اور اعتقادی اصلاح ضروری ہے اُس کے بعد انسان کے کردار اور اس کی رفتار کی بات آتی ہے۔

٭ اخوت و برادری جیسے کلمات کا استعمال اسلام نے ہی کیا ہے۔ صدر اسلام میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سات سو چالیس افراد کے ہمراہ ''نخلیہ'' نامی علاقے میں موجود تھے کہ جبرائیل امین ـ نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے درمیان اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کیا ہے۔ لہٰذا آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھی اپنی اصحاب کے درمیان اخوت کے رشتہ کو قائم کیا اور ہر ایک کو اس کے ہم فکر کا بھائی بنادیا۔ مثلاً: ابوبکر کو عمر کا، عثمان کو عبدالرحمن کا، حمزہ کو زید بن حارث کا، ابو درداء کو بلال کا، جعفرطیار کو معاذ بن جبل کا، مقداد کو عمار کا، عائشہ کو حفصہ ، ام سلمہ کو صفیہ، اور خود پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی ـ کو اپنا بھائی بنایا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارک بقرہ، آیت 165

(2)۔ بحارا لانوار، ج38، ص 335

۱۰۱

جنگ اُحد میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے دو شہداء (عبداللہ بن عمر اور عمر بن جموع) جنکے درمیان اخوت و برادری کا عقد برقرار تھا کو ایک ہی قبر میں دفن کرنے کا حکم دیا۔(1)

٭ نسبی برادری بالآخر ایک دن ختم ہوجائے گی۔فَلَا أَنسَابَ بَیْنَهُمْ (2) لیکن دینی برادری قیامت کے دن بھی برقرار رہے گی۔اِخوانًا علی سُرُررٍ مُّتَقَابِلِیْنَ (3)

٭اخوت و برادری با ایمان عورتوں کے درمیان بھی قائم ہے چنانچہ ایک مقام پر عورتوں کے درمیان بھی اخوت و برادری کی تعبیر موجود ہے۔وَاِن کَانُوا اِخوَةً رِجَالاً و نِسآئً (4)

٭اخوت و برادری صرف اللہ تعالیٰ کے لیے ہو۔ اگر کوئی کسی کے ساتھ دنیا کی خاطر اخوت و برادری کے رشتہ کو قائم کرے تو جو اس کی نظر میں ہے وہ اس سے محروم رہے گا۔ اس طرح کے برادر قیامت کے دن ایک دوسرے کے دشمن نظر آئیں گے۔(5)

الَْخِلاَّئُ یَوْمَئِذٍ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوّ ِلاَّ الْمُتَّقِینَ - (6)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ شرح ابن الحدید، ج15، ص 215؛ بحار الانوار، ج20، ص 121 (2)۔ سورئہ مبارکہ مومنون، آیت 101

(3)۔ سورئہ مبارکہ حجر، آیت 57 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 176

(5)۔ بحار، ج75، ص 167 (6)۔ سورئہ مبارکہ زخرف، آیت 67

۱۰۲

٭برادری اور اخوت کی برقراری سے زیادہ اہم چیز برادر کے حقوق کی ادائیگی ہے۔ روایات میں ایسے شخص کی سرزنش کی گئی ہے جو اپنے برادر دینی کا خیال نہ رکھے اور اُسے بھلا دے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ اگر تمہارے برادران دینی نے تم سے قطع تعلق کرلیا ہے تو تم ان سے تعلق برقرار رکھوصِلْ مَنْ قَطَعَک (1)

روایات میں ہے کہ جن افراد سے قدیمی اور پرانا رشتہ اخوت و برادری قائم ہو ان پر زیادہ توجہ دو اگر کوئی لغزش نظر آئے تو اُسے برداشت کرو۔ اگر تم بے عیب دوستوں (برادران) کی تلاش میں رہو گے تو دوستوں کے بغیر رہ جاؤ گے۔(2)

٭روایات میں ہے کہ جو اپنے برادر کی مشکل حل کرے گا اس کے لیے بہت بڑا اجر ہے۔ یہاں تک ملتا ہے کہ جو اپنے دینی برادر کی ایک مشکل دور کرے گا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کی ایک لاکھ حاجات پوری کرے گا۔(3)

٭حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: مومن ، مومن کا بھائی ہے ۔ دونوں ایک جسم کی مانند ہیں۔کہ اگر ایک حصے میں درد ہو تو دوسرا حصہ بھی اُسے محسوس کرتا ہے۔

(4) سعدی نے اس حدیث کو شعر کی صورت میں یوں بیان کیا ہے۔

بنی آدم اعضای یکدیگرند کہ در آفرینش زیک گوھرند

چو معنوی بہ درد آورد روزگار دگر عضوھا را نماند قرار

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار ، ج78، ص 71 (2)۔ میزان الحکمہ

(3)۔ میزان الحکمہ (اخوة) (5)۔ اصول کافی، ج2، ص 133

۱۰۳

تو کز محنت دیگران بی غمی نشاید کہ نامت نھند آدمی

ترجمہ: اولاد آدم ایک دوسرے کے دست و بازو ہیں کیونکہ سب خاک سے پیدا ہوئے ہیں اگر کسی پر مشکل وقت آجائے تو دوسروںکو بھی بے قرار رہنا چاہیے۔

اگر تم دوسروں کی پریشانی اور محنت سے بے اعتنائی کرو تو شاید تمہیں کوئی انسان بھی نہ کہے۔

برادری کے حقوق:

٭ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا: مسلمان کے اپنے مسلمان بھائی کی گردن پر تیس حق ہیں اور اسے ان تمام حقوق کو ادا کرنا ہوگا۔(جن میں سے پچیس حقوق درج ذیل ہیں)

1۔ عفو و درگزر 2۔ راز داری

3۔ خطاؤں کو نظر انداز کردینا 5۔ عذر قبول کرنا

5۔ بد اندیشوں سے اس کا دفاع کرنا 5۔ خیر خواہی کرنا

7۔ وعدہ کے مطابق عمل کرنا 8۔ عیادت کرنا

9۔ تشییع جنازہ میں شرکت کرنا 10۔ دعوت اور تحفہ قبول کرنا

11۔ اسکے تحفے کی جزا دینا 12۔ اسکی عطا کردہ چیزوں پر شکریہ ادا کرنا

13۔ اسکی مدد کے لیے کوشش کرنا 15۔ اسکی عزت و ناموس کی حفاظت کرنا

15۔ اسکی حاجت روائی کرنا 16۔ اسکی مشکلات کو دور کرنے کے لیے سعی کرنا

17۔ اسکی گمشدہ چیز کو تلاش کرنا 18۔ اسے چھینک آئے تو اسکے لیے طلب رحمت

۱۰۴

کرنا

19۔ اسکے سلام کا جواب دینا 20۔ اسکی بات کا احترام کرنا

21۔ اسکے لیے بہترین تحفہ کو پسند کرنا 22۔ اس کی قسم کو قبول کرنا

23۔ اسکے دوست کو دوست رکھنا اور اس سے دشمنی نہ رکھنا

25۔ مشکلات میں اُسے تنہا نہ چھوڑنا

25۔ جو اپنے لیے پسند کرے وہی اس کے لیے پسند کرے(1)

ایک اور حدیث میں ہم پڑھتے ہیں کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس آیت(اِنّما المومنون اخوة) کی تلاوت کے بعد فرمایا مسلمانوں کا خون ایک ہے اگر عام لوگ بھی کوئی عہد و پیمان کریں تو سب کو اس کا پابند ہونا چاہیے۔ مثلاً اگر ایک عام مسلمان کسی کو پناہ یا امان

دے تو دوسرے کو بھی اس کا پابند ہونا چاہیے۔ سب مشترکہ دشمن کے مقابل اکھٹے ہوجائیں۔وَهُمْ یَد علی مَن سَواهم- (2)

٭ حضرت علی ـ سے منقول ہے کہ آپ نے کمیل سے فرمایا: اے کمیل اگر تم اپنے بھائی کو دوست نہیں رکھتے تو پھر وہ تمہارا بھائی نہیں ہے۔(3)

انسان اپنے ایمان کامل کے ساتھ اولیاء خدا کے مدار تک رسائی حاصل کرسکتا ہے۔

سلْمٰان مِنا اهل البیت (4) سلمان ہم اہل بیت میں سے ہے۔ جس طرح کفر کے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ بحار، ج75، ص 236 (1)۔ تفسیر قمی، ج1، ص 73

(3)۔ تحف العقول ص 171 (5)۔ بحارالانور، ج10، ص 23ا

۱۰۵

ہمراہ ہوکر اس مدار سے خارج ہوجاتا ہے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرزند نوح ـکے بارے میں حضرت نوح ـ سے فرمایا:اِنّه لَیسَ مِنْ أهلَکَ- وہ آپ کے اہل میں سے نہیں ہے۔(1)

بہترین بھائی:

٭روایات میں بہترین بھائی کی یہ نشانیاں بیان کی ہیں۔

1۔ تمہارا بہترین بھائی وہ ہے جو تمہارا غمخوار اور ہمدرد ہو یہاں تک کہ سختی سے تمہیں خدا کی اطاعت کی طرف دعوت دے۔ تمہاری مشکلوں کو حل کرے۔ خدا کی خاطر تیرا دوست بنا ہو۔ اسکا عمل تیرے لیے سرمشق ہو۔ اسکی گفتگو تیرے عمل میں اضافہ کا باعث ہو۔ تیری کوتاہیوں کو نظر انداز کرے۔ اور تجھے خواہشات نفس میں گرفتار ہونے سے بچائے۔ اور اگر تجھ میں کوئی

عیب دیکھے تو تجھے خبردار کرے۔ نماز کو اہمیت دے ۔ حیادار، امانت دار اور سچا ہو۔خوشحالی اور تنگ دستی میں تجھے نہ بھلائے۔(2)

صلح و آشتی قرآن کی روشنی میں:

ہم نے اس آیت میں پڑھا ہے کہ مومنین آپس میں بھائی ہیں لہٰذا اُن میں صلح و

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔سورئہ مبارکہ ہود، آیہ 56

(2)۔ میزان الحکمہ

۱۰۶

آشتی کو قائم کریں اسی مناسبت کو ملحوظ رکھتے ہوئے یہاں صلح و آشتی کے بارے میں کچھ مطالب بیان کرتے ہیں۔

قرآن میں اسی سلسلہ میں مختلف تعابیر آئی ہیں:

صلح ''والصُّلح خَیر'' (1) ''وأصلِحوا ذات بینکم'' (2)

2۔تالیف قلوب''فَألف بین قلوبکم'' (3)

3۔توفیق''اِن یُریدا اصلاحًا یُوَفِّق اللّٰه بینهُمٰا'' (4)

5۔ سِلم''أدخُلوا فِی السِّلم کافَّة'' (5)

مندرجہ بالا تعبیر اس بات کی نشاندہی کررہی ہیں کہ اسلام صلح و آشتی ، پیار ومحبت اور خوشگوار زندگی کو بہت اہمیت دیتا ہے۔

صلح آشتی کی اہمیت:

٭مسلمانوں کی درمیان الفت اور محبت کو خداوند عالم کی نعمتوں میں شمار کیا ہے۔''کنتم أعدا فَاَلَّفَ بین قلوبکم'' (6) یاد کرو اس وقت کوکہ جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے پھر خدا نے تمہارے درمیان پیار و محبت کو قائم کردیا۔ جیسا کہ قبیلہ اوس و خزرج کے درمیان ایک سو بیس سال سے جنگ و خونریزی چل رہی تھی اسلام نے ان

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (2)۔سورئہ مبارکہ انفال، آیت 1

(3)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 35

(5)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (6)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 103

۱۰۷

کے درمیان صلح کرادی۔

صلح وآشتی کرانا عزت و آبرو کی زکات اور خدا کی طرف سے رحمت اور بخش کا سبب ہے۔''ان تُصلحوا و تتّقوا فانَّ اللّٰه کان غفوراً رحیمًا'' (1) جو بھی مسلمانوں کے درمیان صلح و دوستی کا سبب بنے تو اُسے جزائے خیر ملے گی۔

''وَمَن یَشفَع شَفَاعةً حَسنةً یکن لَه نصیب منها'' (2)

٭ لوگوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے لیے اسلام کے خاص احکامات ہیں من جملہ۔

1۔جھوٹ جو گناہان کبیرہ میں سے ہے اگر صلح و آشتی کرانے کے لیے بولا جائے تو اسکا کوئی گناہ نہیں ہے۔'' لَا کِذْبَ علی المُصْلح'' (3)

2۔ سرگوشی ایک شیطانی عمل ہے جو دیکھنے والوں میں شک و شبہ پیدا کرتا ہے جسکی نہی کی گئی ہے لیکن اگر یہ سرگوشی صلح و آشتی کرانے کے لیے ہو تو کوئی گناہ نہیں ہے۔''لَا خَیرَ فی کثیر من نجواهم اِلّا مَنْ أمَرَ بِصدقةٍ أو معروفٍ او اصلاح بین الناس'' (4)

3۔ اگرچہ قسم کو پورا کرنا واجب ہے لیکن اگر کوئی یہ قسم کھائے کہ وہ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانے کے سلسلے میں کوئی قدم نہ اٹھائے گا تو اس قسم کو توڑا جاسکتا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 129 (2)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 85

(3)۔بحارا الانوار،ج69، ص 252 (5)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 115

۱۰۸

ہے۔''وَلا تجعلو اللّٰه عرضَة لایمانکم ان --- تصلحوا بین الناس'' (1)

ہم تفاسیر کی کتابوں میں پڑھتے ہیں کہ رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ایک صحابی کی بیٹی اور ان کے داماد میں اختلاف ہوگیا۔ لڑکی کے والد نے یہ قسم کھائی کہ وہ ان کے معاملے میں دخالت نہ کریگا۔ یہ آیت نازل ہوئی کہ قسم کو نیکی و پرہیز گاری اور اصلاح کے ترک کا وسیلہ قرار مت دو۔

5۔ اگرچہ وصیت پر عمل کرنا واجب اور اس کا ترک کرنا حرام ہے لیکن اگر وصیت پر عمل کرنا لوگوں کے درمیان کینہ اور کدورت کی زیادتی کا سبب ہو تو اسلام یہ حکم دیتا ہے کہ وصیت پر عمل نہ کیا جائے تاکہ لوگوں کے درمیان پیار ومحبت اور بھائی چارہ کی فضا قائم رہے۔''فَمن خَافَ مِن مُوصٍ و جُنفًا أو اِثمًا فاصلح بینهم فلا اثم علیه'' (2)

5۔ اگرچہ مسلمان کا خون محترم ہے لیکن اگر بعض افراد فتنہ، فساد کا باعث بنیں تو اسلام نے صلح و آشتی کے لیے انکے قتل کرنے کو جائز قرار دیا ہے۔'' فقاتلو الّتی تبغی'' (3)

صلح و آشتی کے موانع:

قرآن و احادیث میں صلح و آشتی کے بہت سے موانع ذکر کیے گئے ہیں من جملہ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 225

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 182 (3)۔سورئہ مبارکہ حجرات، آیت 9

۱۰۹

1۔ شیطان: قرآن میں ارشاد ہوتا ہے۔ادخلوا فی السّلم کافّة ولا تتّبعوا خطوات الشیطان'' (1) سب آپس میں پیار و محبت کے ساتھ رہو اور شیطان کی پیروی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر ارشاد ہوتا ہے۔انّما یُرید الشیطان أنْ یوقع بینکم العداوة والبغضائ'' (2) شیطان تمہارے درمیان کینہ و کدورت پیدا کرنا چاہتا ہے۔

2۔ مال کی چاہت اور بخل۔'' والصلح خیر و اُحضِرتِ الاَنفس الشُح'' (3) اور صلح و دوستی بہتر ہے اگرچہ لوگ حرص و لالچ اور بخل کرتے ہیں۔

3۔ غرور و تکبر بھی کبھی کبھی صلح و آشتی کے لیے مانع ہے۔

قرآن میں نزول رحمت کے چند عوامل:

٭ اگر قرآن مجید کے''لعلکم ترحمون'' کے جملوں پر نظر کریں تو نزول رحمت کے چند عوامل تک رسائی ممکن ہے۔

1۔ خدا، رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور آسمانی کتب کی پیروی''واطیعو اللّٰه والرسول--- '' (4) ''وهذا کتاب --- فاتبعوه--- لعلکم ترحمون'' (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ، آیت 208 (2)۔ سورئہ مبارکہ مائدہ، آیت 91

(3)۔ سورئہ مبارکہ نسائ، آیت 128 (5)۔ سورئہ مبارکہ آل عمران، آیت 132

(5)۔سورئہ مبارکہ انعام، آیت 155

۱۱۰

2۔ نماز کا قائم کرنا اور زکات کا ادا کرنا۔''اقیموا الصلوٰة واتو الزکاة--- لعلکم ترحمون'' (1)

3۔ مسلمانوں کے درمیان صلح و آشتی کرانا۔''فاصلحوا--- لعلکم ترحمون''

5۔ استغفار اور توبہ۔''لولا تستغفرون اللّٰه لعلکم ترحمون'' (2)

5۔ غور سے قرآن کی تلاوت سننا''واذ اقرأ القرآن فاستمعوا له --- لعلکم ترحمون'' (3)

روایات میں نزول رحمت کے عوامل:

٭ معصومین کی روایات میں بھی نزول رحمت کے عوامل کی طرف اشارہ کیا گیا ہے جن میں سے چند ایک یہ ہیں:

1۔ بیمار مومن کی عیادت کرنا:''مَن عَادَ مومِنًا خاض- الرَّحمة خوضًا'' (4)

جو شخص بیمار مومن کی عیادت کے لیے جائے تو وہ شخص خدا کی مکمل رحمت کے زیر سایہ ہے۔

2۔ کمزور اور ناتوان افراد کی مدد کرنا۔''اِرحموا ضُعفائکم واطلبوا الرحمة- ---،، (5)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ نور، آیت 56 (2)۔ سورئہ مبارکہ نمل، آیت 56

(3)۔ سورئہ مبارکہ اعراف، آیت 205 (5)۔ وسائل الشیعہ، ج2، ص 515 (5)۔ مستدرک، ج9، ص 55

۱۱۱

معاشی حوالے سے کمزور افراد پر رحم کرکے خدا کی رحمت کو طلب کرو۔

3۔ روایات میں کثیر العیال افراد کی زیادہ سے زیادہ مدد کرنے کو کہا گیا ہے خاص طور پر جن کی بیٹیاں زیادہ ہوں۔

5۔ دعاو نماز، نرمی سے پیش آنا اور اپنے برادر دینی سے مصافحہ اور معانقہ کرنا بھی نزول رحمت کے اسباب ہیں۔(1)

5۔ لوگوں کی پریشانیوں کو دور کرنا۔ وہ افراد جو اپنی پریشانیوں کے حل کے لیے تمہارے پاس آئیں خدا کی رحمت میں انکی حاجت روائی کیے بغیر واپس نہ پلٹانا۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ وسائل الشیعہ، ج7، ص 31

(2)۔کافی، ج2، ص 206

۱۱۲

آیت نمبر 11

یٰأَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ قَوْم مِّنْ قَوْمٍ عَسٰی أَنْ یّکُوْنوا خَیْرًا مِّنْهُمْ وَلَا نِسَآئ مِّنْ نِسَآئٍ عَسٰی أنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْهُنَّج وَلَا تَلْمِزُوْآ أَنْفُسَکُمْ وَلَا تَنَابَزوا بِالْأَلْقٰابِط بِئسَ الاِسْمُ الفُسُوقُ بَعْدَ الاِیْمٰانِج وَمَنْ لَّم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظّٰلِمُونَ-

ترجمہ:

اے ایمان والو! خبر دار کوئی قوم دوسری قوم کا مذاق نہ اُڑائے کہ شاید کہ وہ اس سے بہتر ہو اور عورتوں کی بھی کوئی جماعت دوسری جماعت کا مسخرہ نہ کرے کہ شاید وہی عورتیں ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو طعنے بھی نہ دینا اور برے برے الفاظ سے بھی یاد نہ کرنا کہ ایمان کے بعد بدکاری کا نام ہی بہت برا ہے اور جو شخص بھی توبہ نہ کرے تو سمجھو کہ یہی لوگ درحقیقت ظالمین ہیں۔

نکات:

O کلمہ''لَمْز'' یعنی لوگوںکے سامنے ان کی عیب جوئی کرنا ، کلمہ''همز'' کے معنی پیٹھ پیچھے عیب جوئی کرنا ہے(1) اور کلمہ''تَنَابز'' کے معنی دوسروں کو برے القاب سے پکارنا ہے۔(2)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ کتاب العین (2)۔ لسان العرب

۱۱۳

O گزشتہ آیت میں اخوت و بردری کے بارے میں بحث ہوئی اور اس آیت میں ان چیزوں کا ذکر ہے جو اخوت و برادری کے راستہ میں رکاوٹ ہیں اور اسی طرح ماقبل کی آیات میں لڑائی جھگڑے اور صلح و صفا کی بات تھی تو اس آیت میں بعض ایسے عوامل کا ذکر ہے جو لڑائی جھگڑے کاسبب بنتے ہیں جیسے مذاق اڑانا ، تحقیر کرنا اور برے القاب سے پکارناہے۔ اسلامی تعلیمات پر عمل کرنے کی برکات میں سے ایک معاشرہ کے ماحول کو پاک و پاکیزہ بنانا اور ایک دوسرے کا مذاق اڑانے نیز ایک دوسرے کو برے ناموں سے پکارنے سے روکنا ہے۔

پیغامات:

1۔ جو اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتا ہو اُسے یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ بندگان خدا کا مذاق اڑائے ۔''یٰاایُّهٰا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا لَا یَسْخَرُ''

2۔ جو شخص کسی کو لوگوں کی توہین کرنے سے روکنا چاہتا ہے تو اس کے روکنے میں توہین آمیز پہلو نہ ہو۔''یٰا ایُّهٰا الذّین امَنُولَا یَسْخَرُ قَوْم مِنْ قَوْمٍ '' یہی نہیں فرمایا:لَا تَسْخَروا کہ جس کے معنی یہ ہیں کہ تم مذاق اڑانے والے ہو۔

3۔ مذاق اڑانا، فتنہ و فساد، کینہ پروری اور دشمنی کی کنجی ہے''لا یَسْخَر قَوْم---'' برادری اور صلح و آشتی بیان کرنے کے بعد مذاق اڑانے سے منع کیا ہے۔

5۔ تبلیغ کا طریقہ کار یہ ہے کہ جہاں اہم مسئلہ بیان کرنا ہو یا مخاطبین میں ہر نوع کے افراد موجود ہوں تو وہاں مطالب کو ہر گروہ کے لیے تکرار کے ساتھ بیان کرنا

۱۱۴

چاہیے۔قومٍ من قومٍ وَلَا نِسَاء مِنْ نِسَآئٍ-

5۔ تربیت اور وعظ و نصیحت کے دوران لوگوں میں سے فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے- (عسیٰ اَنْ یکونوا خیرا ) مذاق اڑانے کی اصل وجہ اپنے آپ کو دوسروں سے برتر سمجھناہے۔ قرآن مجید اس معاملے کو جڑ سے ختم کرنا چاہتا ہے اس لیے فرماتا ہے: تمہیں اپنے آپ کو دوسروں سے برتر نہیں سمجھنا چاہیئے شاید کہ وہ تم سے برتر ہوں۔

6۔ ہم لوگوں کے باطن سے بے خبر ہیں اس لیے ہمیں ظاہر بین، سطحی نظر اور فقط موجودہ حالات پر نگا نہیں کرنی چاہیے۔(عسیٰ أَنْ یَکُونوا خَیْرًا---)

7۔ سب لوگ ایک جوہر سے ہیں اس لیے لوگوں کی برائی کرنا دراصل اپنی برائی کرنا ہے ۔''وَلَا تَلْمِزُو أَنْفُسکُم''

8۔ دوسروں کی عیب جوئی کرکے انہیں انتقام جوئی پر ابھارنا ہے تاکہ وہ بھی تمہارے عیب بیان کریںپس دوسروں کے عیب نقل کرنا در حقیقت اپنے عیوب کا انکشاف کرنا ہے( لَا تَلْمِزُوا أَنْفُسَکُم)

9۔ مذاق اڑانا یک طرفہ نہیں ہوتا ہے ممکن ہے کہ طرف مقابل بھی دیر یا جلد آپ کا مذاق اڑانا شروع کردے۔(و لَا تَنَابَزُوا کسی کام کے دو طرفہ انجام پانے کے لیے استعمال ہوتا ہے)

10۔ اگر کسی کا مذاق اڑایا ہو یا اُسے برے نام سے پکارا ہو تو اس کے لیے توجہ کرنا ضروری ہے(من لم یَتُبْ فَأُولٰئِکَ هُمُ الظَّالِمُونَ ) البتہ یہ توبہ فقط زبانی نہ ہو

۱۱۵

بلکہ کسی کو تحقیر کرنے کی توبہ یہ ہے کہ جس کی تحقیر کے ہے اس کی تکریم کرنا ہوگی کسی حق کے چھپانے کی توبہ یہ ہوگی کے اُس حق کو ظاہر کیا جائے(تابو و اصلحوا و بیّنوا) (1) فساد کرنے والے کی توبہ یہ ہے کہ وہ اپنے امور میں اصلاح کرے(تَابُوا واصلحوا )

11۔ کسی کا مذاق اڑانا در حقیقت اس کے احترام پر تجاوز کرنا ہے اگر مذاق اڑانے والا توبہ نہ کرے تو وہ ظالم ہے(فَأُولٰئِکَ هُم الظَّالِمُونَ)

دوسروں کا مذاق اڑانا اور استہزاء کرنا:

O ظاہری طور پر استہزاء ایک گناہ دکھائی دیتا ہے لیکن درحقیقت وہ چند گناہوں کا مجموعہ ہے مثال کے طور پر مذاق اڑانے میں، تحقیر کرنا، ذلیل و خوار کرنا، کسی کے عیوب ظاہر کرنا، اختلاف ایجاد کرنا، غیبت کرنا، کینہ توزی، فتنہ و فساد پھیلانا، انتقام جوئی کی طرف مائل کرنا، اور طعنہ زنی جیسے گناہ پوشیدہ ہیں۔

مذاق اڑانے کی وجوہات:

1۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ مال و دولت ہے قرآن مجید میں ہے''ویل لِکُلِّ هُمَزَة لُّمَزَةٍ ن الَّذِیْ جَمَعَ مٰالاً وَّعَدَّده '' (2) وائے ہو اس پر جو اُس مال و دولت کی خا طر جو اس نے جمع کر رکھی ہے پیٹھ پیچھے انسان کی برائی کرتا ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 160

(2)۔ سورئہ مبارکہ ھمزہ 1۔2

۱۱۶

2۔ کبھی استہزاء اور تمسخر کی وجہ علم اور مختلف ڈگریاں ہوتی ہیں قرآن مجید نے اس گروہ کے بارے میں فرمایا:'' فَرِحُوا بِمَا عِنْدَ هُمْ مِّنَ الْعِلْمِ وَ حَاقَ بِهِمْ مَا کَانُوا بِهِ یَسْتَهْزِؤُونَ '' (1) اپنے علم کی بناء پر ناز کرنے لگے ہیں اور جس چیز کی وجہ سے وہ مذاق اڑا رہے تھے اُسی نے انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا۔

3۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جسمانی قوت و توانائی ہوتی ہے ۔ کفار کا کہنا تھا( مَنْ أَشَدُّ مِنَّا قُوَّةَ) (2) کون ہے جو ہم سے زیادہ قوی ہے۔

5۔ کبھی دوسروں کا مذاق اڑانے کی وجہ وہ القاب اور عناوین ہوتے ہیں جنہیں معاشرہ میں اچھا نہیں سمجھتا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر کفار ان غریب لوگوں کو جو انبیاء کا ساتھ دیتے تھے حقارت کی نگاہ سے دیکھا کرتے تھے اور کہتے تھے:''مَا نَراکَ اتَّبَعکَ اِلّا الَّذِیْنَ هُمْ اَرذِلْنَا'' (3)

ہم آپ کے پیرو کاروں میں صرف پست اور ذلیل افراد ہی دیکھ رہے ہیں۔

5۔ کبھی مذاق اڑانے کی علت تفریح ہوتی ہے۔

6۔ کبھی مال و مقام کی حرص و لالچ کی وجہ سے تنقید تمسخر کی صورت اختیار کرلیتی ہے مثال کے طور پر ایک گروہ زکوٰة کی تقسیم بندی پر پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی عیب جوئی کرتا تھا۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ غافر 83

(2)۔ سورئہ مبارکہ فصلت 15

(3)۔ سورئہ مبارکہ ھود 27

۱۱۷

قرآن مجید میں ارشاد ہوا:''وَ مِنْهُمْ مَّنْ یَلْمِزْکَ فِی الصَّدَقاتِ فَاِنْ أُعْطُوا مِنْهٰا رَضُوا وَ اِنْ لَمْ یُعْطَوْا مِنْهٰا اِذَا هُمْ یَسْخَطُونَ'' (1) اس تنقید کی وجہ طمع اور لالچ ہے کہ اگر اسی زکوٰة میں سے تم خود ان کو دیدو تو یہ تم سے راضی ہوجائیں گے لیکن اگر انہیں نہیں دو گے تو وہ آپ سے ناراض ہوکر عیب جوئی کریں گے۔

7۔ کبھی مذاق اڑانے کی وجہ جہل و نادانی ہے۔ جیسے جناب موسی ـ نے جب گائے ذبح کرنے کا حکم دیا تو بنی اسرائیل کہنے لگے کیا تم مذاق اڑا رہے ہو؟ جناب موسی ـنے فرمایا:''أَعُوذُ بِاللّٰهِ أَنْ أَکُونَ مِنَ الجٰاهِلِیْنَ'' (2) خدا کی پناہ جو میں جاہلوں میں سے ہوجاؤں۔یعنی مذاق اڑانے کی وجہ جہالت ہوتی ہے اور میں جاہل نہیں ہوں۔

نا چاہتے ہوئے تحقیر کرنا:

حضرت امام جعفر صادق ـ نے ایک صحابی سے پوچھا اپنے مال کی زکوٰة کیسے دیتے ہو؟ اس نے کہا: فقراء میرے پاس آتے ہیں اور میں انہیں دے دیتا ہوں۔

امام ـ نے فرمایا: آگاہ ہوجاؤتم نے انہیں ذلیل کیا ہے آئندہ ایسانہ کرنا کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے جو بھی میرے دوست کو ذلیل کرے گا گویا وہ مجھ سے جنگ کے لیے آمادہ ہے۔(3)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 58

(2)۔ سورئہ مبارکہ بقرہ 67

(3)۔مستدرک الوسائل ج/9، ص 105

۱۱۸

تمسخر اور مذاق اُڑانے کے مراتب:

O جس کا مذاق اڑایا جارہا ہو وہ جس قدر مقدس ہوگا اس سے مذاق بھی اتنا ہی خطرناک ترہوگا قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے''أ باللّٰه و آیاتِه وَ رَسُولِهِ کنتم تَسْتَهْزِؤُنَ'' (1)

کیا تم اللہ، قرآن اور رسول کا مذاق اڑا رہے ہو۔

Oپیغمبر اسلام صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فتح مکہ کے موقع پر سب مشرکین کو معاف کردیا سوائے ان لوگوں کے جن کا کام عیب جوئی اور مذاق اڑانا تھا۔

O حدیث میں ہے کہ مومن کو ذلیل کرنا خدا کے ساتھ اعلان جنگ کے مترادف ہے۔(2)

مذاق اڑانے کا انجام:

O آیات و روایات کی روشنی میں بری عاقبت مذاق اڑانے والوں کا انتظار کررہی ہے من جملہ:

الف: سورئہ مطففین میں ہے کہ جو لوگ دنیا میں مومنین پر ہنستے تھے، انہیں حقارت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کا مذاق اڑاتے تھے روز قیامت اہل جنت انہیں

حقارت کی نگاہ سے دیکھیں گے اور ان پر ہنسیں گے۔''فَالْیَوْمَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا مِنَ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ توبہ 65 (2)۔ وسائل الشیعہ ج/ 12،ص270

۱۱۹

الکُفَّارِ یَضْحَکُونَ'' (1)

ب: کبھی کبھی اڑانے والوں کو اسی دنیا میں سزا مل جاتی ہے۔'' اِنْ تسخَرُوا مِنَّا فَاِنَّا نَسْخَرو مِنکُمْ کما تَسْخَرُونَ'' (2)

ج: قیامت کا دن مذاق اڑانے والوں کے لیے حیرت کا دن ہوگا''یَا حَسْرَةً عَلٰی العِبٰادَ مَا یَا تِیْهِمْ مِّنْ رَّسُولٍ اِلَّا کَانُوا بِه یَسْتَهْزَئُ ونَ'' (3)

د: حدیث میں ہے کہ مذاق اڑانے والے کی جان کنی نہایت سخت ہوگی۔''مَاتَ بِشَرّ مَیْتَه'' (4)

ھ: حضرت امام جعفر صادق ـ نے فرمایا: اگر کوئی شخص مومنین پر طعنہ زنی کرتا ہے یا انکی بات کو رد کرتا ہے تو گویا اس نے خدا کو رد کیا ہے۔(5)

یاد داشت:

Oرسول خدا صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جہاں اور بہت سے کام انجام دیئے وہاں ایک کام یہ کیا کہ لوگوں اور علاقوں کے وہ نام تبدیل کردیئے جو برے مفاہیم رکھتے تھے(6) کیوں کہ برے نام لوگوں کی تحقیر اور تمسخر کا باعث بنتے تھے۔

Oایک روز جناب عقیل ـمعاویہ کے پاس گئے تو معاویہ نے آپ کی تحقیر کی غرض

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

(1)۔ سورئہ مبارکہ مطففین 35 (2)۔ سورئہ مبارکہ ہود 38

(3)۔ سورئہ مبارکہ یس 30 (5)۔ بحار الانوار ج72 ص 155

(5)۔ وسائل الشیعہ ج13، ص 270 (6)۔ اسد الغابہ ج3، ص 76، ج5 ص362

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296