منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140960 / ڈاؤنلوڈ: 6502
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

تھے( ۱ ) اور جب بیدار ہوتے تھے تو پہلے خدا کو سجدہ کرتے تھے( ۲ ) اور ہر روز تین سو ساٹھ مرتبہ خدا کی حمد کرتے اور کہتے تھے:الحمد للّٰه ربِّ العالمین کثیراً علیٰ کلّ حال ۔( ۳ ) قرآن خوانی تو آپ (ص)کا شغف اور محبوب مشغلہ تھا جب آپ(ص) نے عبادت میں بہت زیادہ جانفشانی کی تو جبریل نازل ہوئے اور آپ(ص) کی خدمت میں خدا کا پیغام پہنچایا:( طه، ما انزلنا علیک القرآن لتشقی ) ۔( ۴ )

طٰہ، ہم نے آپ(ص) پر اس لئے قرآن نازل نہیں کیا ہے کہ آپ خود کو مشقت میں ڈالیں۔

۳۔ خدا ہی پر بھروسہ

اپنے رسول (ص) کے بارے میں خدا کا ارشاد ہے :( الیس اللّٰه بکاف عبده ) ( ۵ ) کیا اپنے بندہ کے لئے اللہ کافی نہیں ہے؟!

نیز فرماتا ہے:( و توکُلّ علیٰ العزیز الرّحیم الّذی یراک حین تقوم و تقلّبک فی السّاجدین ) ( ۶ )

اور غالب و رحیم خدا پر بھروسہ کیجئے جو آپ(ص) کو اس وقت بھی دیکھتا ہے جب آپ(ص) قیام کرتے ہیں اور سجدہ کرنے والوں میں آپ(ص) کی نشست و برخاست بھی دیکھتا ہے۔

یقینا رسول(ص) اعظم خدا پر ایسے ہی توکل و اعتماد کرتے تھے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشادگزرا ہے ۔

جابر سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ذات الرقاع میں ہم رسول(ص) کے ہمراہ تھے ہم نے ایک سایہ دار درخت دیکھا اسے رسول(ص) کے لئے چھوڑ دیا۔ رسول(ص) نے اپنی تلوار درخت پر لٹکا دی اور آرام کرنے لگے، ایک مشرک نے اس تلوار کو اٹھا لیا اور رسول(ص) سے کہنے لگا: آپ(ص) مجھ سے ڈرتے ہیں؟ آپ(ص) نے فرمایا: نہیں اس

____________________

۱۔ بحار الانوار ج ۱۶ ص ۲۱۷۔ ۲۔ ایضا ج ۱۶ ص ۲۵۳ ۔ ۳۔کافی ج۲ ص ۵۰۳۔

۴۔ طہ ۱۔۲ ۔

۵۔زمر:۳۶۔

۶۔شعرائ: ۲۱۷ تا ۲۱۹۔

۴۱

نے کہا: اب آپ کو میرے ہاتھ سے کون بچائے گا؟ آپ(ص) نے فرمایا: اللہ بچائے گا۔ یہ سن کر اس کے ہاتھ سے تلوار چھوٹ کر گر پڑی ، تلوار کو آنحضرت (ص) نے اٹھا لیا اور فرمایا: اب میرے ہاتھ سے تجھے کون بچائے گا؟ اس نے کہا: مجھ پر احسان کیجئے، آپ(ص) نے فرمایا: کیا تم یہ گواہی نہیں دوگے کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا : یہ گواہی تو میں نہیں دونگا لیکن میں یہ عہد کرتا ہوں کہ میں آپ (ص)سے جنگ نہیں کرونگا اور ان لوگوںکا ساتھ نہیں دونگا جو آپ(ص) سے جنگ کرتے ہیں، آپ(ص) نے اس کا راستہ چھوڑ دیا وہ اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہنے لگا: میں سب سے زیادہ نیک آدمی کے پاس سے آ رہا ہوں۔( ۱ )

۴۔شجاعت

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :( الّذین یبلّغون رسالات اللّٰه و یخشونه ولا یخشون احداً الا اللّٰه ) ۔( ۲ ) جو لوگ خدا کے پیغاموں کو پہنچاتے ہیں اور اس سے ڈرتے ہیں اور خدا کے علاوہ کسی سے نہیں ڈرتے(علی ابن ابی طالب کہ جن کے سامنے عرب کے سورمائوں کازہرہ آب ہو جاتا تھا )فرماتے ہیں: جب میدان کا رزار گرم ہوتا تھا اور دونوں طرف کی فوجیں ایک دوسرے سے گتھ جاتی تھیں تو اس وقت ہم رسول(ص) کے پاس پناہ لیتے تھے اور آپ دشمن کی فوج سے بہت زیادہ قریب ہوتے تھے۔( ۳ )

جنگ احد میں صحابہ آپ(ص) کو تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے تھے اس وقت آپ(ص) کی ثابت قدمی کی منظر کشی مقداد نے اس طرح کی ہے : اس ذات کی قسم جس نے انہیں حق کے ساتھ مبعوث کیا میں نے نہیں دیکھا کہ رسول(ص) اپنی جگہ سے ایک بالشت بھی پیچھے ہٹے ہوںجبکہ دشمنوں کا سارا زور آپ(ص) کی طرف تھا آپ(ص) کے اصحاب میں ایک جماعت آپ(ص) کے پاس جمع ہوتی تھی تو دوسری متفرق ہو جاتی تھی میں نے بارہا دیکھا کہ آپ اپنی کمان سے تیر چلا رہے ہیں یا پتھرپھینک رہے ہیں یہاں تک کہ دونوں طرف سے پتھرائو شروع ہو گیا۔( ۴ )

____________________

۱۔ ریاض الصالحین (للنووی)ص۵ حدیث ۷۸، صحیح مسلم ج۴ ص ۴۶۵۔

۲۔احزا:ب ۳۹۔ ۳۔ فضائل الخمسہ من الصحاح الستة ج۱ ص ۱۳۸۔

۴۔ مغازی واقدی ج۱ ص ۲۳۹ و ۲۴۰۔

۴۲

۵۔ بے مثال زہد

خدا وند عالم فرماتا ہے:( ولا تمدّنّ عینیک الیٰ ما متعنا به ازواجاً منهم زهرة الحیاة الدّنیا لنفتنهم فیه و رزق ربک خیر و ابقیٰ ) ( ۱ ) اور ہم نے ان میں سے بعض لوگوںکو دنیوی زندگی کی رونق سے مالامال کر دیا آپ اپنی نگاہ کو ان کی طرف ہرگز نہ ڈالیںاس لئے کہ اس کے ذریعہ ہم انہیں آزمائیں گے اور آپ کے پروردگار کا رزق اس سے کہیں بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔ ابو امامہ نے رسول(ص) سے روایت کی ہے کہ آپ(ص) نے فرمایا: مجھے میرے رب کا پیغام پہنچا کہ میں بطحائے مکہ کو تمہارے لئے سونے سے بھر دوں؟ میں نے عرض کی: نہیں معبود! میں ایک دن شکم سیر اور ایک دن بھوکا رہنا چاہتا ہوں، جب مجھے بھوک لگے تو میں تیری بارگاہ میں تضرع و زاری کروں اور جب شکم سیر ہوں تو تیری حمد کروں اور تیرا شکر ادا کروں۔( ۲ ) رسول(ص) اپنی چٹائی پر محو خواب ہوتے تھے اس سے آپ کے پہلو میں درد ہو گیا۔لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول(ص)! ہم آپ کے لئے فرش فراہم کر دیں فرمایا: دنیا (کی لذتوں) سے مجھے کیا واسطہ؟ میں تو دنیا میں اس سوار کی مانند ہوں کہ جس نے درخت کے سایہ میں تھوڑی دیر آرام کیا اور پھر روانہ ہو گیا۔( ۳ ) ابن عباس کہتے ہیں کہ رسول(ص) کئی کئی دن بھوکے رہتے تھے، آپ(ص) کے اہل و عیال بھی اسی حال میں رہتے تھے وہ اکثر جو کی روٹی کھاتے تھے۔( ۴ ) عائشہ کہتی ہیں: آل محمد(ص) نے کبھی دن میں دو کھانے نہیں کھائے، مگر یہ کہ ایک کھانا خرما ہوتا تھا( ۵ ) نیز کہتی ہیں: رسول(ص) کی وفات کے وقت بھی آپ(ص) کی ایک بکری یہودی کے یہاں تیس سیر جو کے عوض گروی تھی۔( ۶ )

____________________

۱۔طٰہ: ۱۳۱۔

۲۔سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷ ۔

۳۔سنن ترمذی ج۴ ص ۵۱۸ح۲۳۷۷۔

۴۔ سنن ترمذی ج۴ ص ۵۰۱حدیث ۲۳۶۰۔

۵۔ صحیح بخاری ج۵ ص ۲۳۷۱ حدیث ۶۰۹۰۔

۶۔صحیح بخار ج۳ ص ۱۰۶۸ ح ۲۷۵۹ ۔

۴۳

انس بن مالک سے روایت ہے کہ فاطمہ زہرا آپ(ص) کی خدمت میں روٹی کا ایک ٹکڑا لائیں تو آپ(ص) نے فرمایا: اے فاطمہ!یہ ٹکڑا کیسا ہے ؟ عرض کی: یہ روٹی کا ٹکڑا ہے، میرا دل نہ مانا لہذا میں آپ کی خدمت میں لیکر حاضر ہوئی۔ فرمایا: تین دن کے بعد آج یہ پہلا لقمہ ہے جو تمہارے باپ کے منہ میں گیا ہے۔( ۱ )

قتادہ سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: ہم انس کے پاس تھے اور ان کے پاس ایک نانبائی تھا انہوں نے کہا: رسول(ص) نے جیتے جی نرم روٹی اور بھنی بکری نہیں کھائی۔( ۲ )

۶۔بردباری اور کرم

ابن عباس کہتے ہیں: رسول(ص) بڑے کریم و فیاّض تھے۔ ماہ رمضان میں زیادہ سخاوت کرتے تھے۔ ہر سال رمضان میںجبریل آپ(ص) سے ملاقات کرتے تھے اورجب جبریل آپ(ص) سے ملاقات کرتے تھے تو آپ(ص) کو نرم ہوا سے بھی زیادہ سخی پاتے تھے۔( ۳ ) جابر سے روایت ہے کہ رسول(ص) سے جب بھی کچھ مانگا گیا آپ(ص) نے انکار نہیں کیا۔( ۴ )

روایت ہے کہ رسول(ص) ایک کپڑے والے کے پاس تشریف لے گئے اور اس سے چار درہم میں ایک قمیص خریدی ۔اس کو پہن کر بر آمد ہوئے تو انصار میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! مجھے قمیص پہنا دیجئے اللہ آپ کو جنت کا لباس عطا کرے گا۔ آپ(ص) نے قمیص اتاری اور اسے پہنا دی، پھر دوکاندار کے پاس آئے اور اس سے چار درہم میں دوسری قمیص خریدی آپ(ص) کے پاس دو درہم باقی بچے دیکھا کہ راستہ میں ایک کنیز رو رہی ہے ۔ آپ(ص) نے اس سے دریافت کیا: کیوں رو رہی ہو؟ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول(ص)! میرے آقا نے مجھے دو درہم دئیے تھے کہ آٹا لے آئو وہ درہم گم ہو گئے دو درہم رسول(ص) نے اسے

____________________

۱۔ الطبقات الکبریٰ ابن سعد ج۱ ص ۴۰۰۔

۲۔ مسند احمد ج۳ص ۵۸۲ حدیث ۱۱۸۸۷۔

۳۔صحیح مسلم ج۴ ص ۴۸۱ حدیث ۳۳۰۸، مسند احمد ج ۱ ص ۵۹۸ حدیث ۳۴۱۵۔

۴۔سنن دارمی ج۱ ص ۳۴۔

۴۴

دے دئے ۔ کنیز نے پھر عرض کی: میں ڈرتی ہوں کہ گھر والے کہیں مجھے ماریں نہ لہذا رسول(ص) اس کے ساتھ اس کے آقا کے گھر تشریف لے گئے ، باہر ہی سے سلام کیا، ان لوگوں نے رسول(ص) کی آواز پہچان لی لیکن کوئی جواب نہ آیا آپ(ص) نے پھر سلام کیا۔ پھر کوئی جواب نہ ملا آپ(ص) نے پھر سلام کیا تو ان لوگوں نے سلام کا جواب دیا۔ آپ(ص) نے دریافت کیا تم نے میرا پہلا سلام نہیں سنا تھا؟ انہوںنے عرض کی: سنا تھا لیکن ہم چاہتے تھے آپ ہماری سلامتی کی زیادہ دعا کریں۔ ہمارے ماں باپ آپ(ص) پر قربان تشریف آوری کا باعث کیا ہے ؟ فرمایا: مجھے یہ خوف تھا کہ تم اس کنیز کو ماروگے۔ اس کے مالک نے کہا : آپ(ص) اس کے ساتھ تشریف لائے ہیںلہذامیں نے اسے راہ خدا میں آزاد کیا، رسول(ص) خدا نے انہیں دعائے خیردی اور انہیںجنت کی بشارت دی اور فرمایا:

لقد بارک اللّه فی العشرة کسا اللّه نبیه قمیصاً و رجلا من الانصار قمیصا و اعتق منها رقبة و احمد اللّه هو الّذی رزقنا هذا بقدرته ۔( ۱ )

یقینا خدا نے ان دس درہموں میں برکت عطا کی اس کے ذریعہ سے خدا نے اپنے نبی(ص) کو قمیص پہنائی ، اورایک آدمی کو انصار میں سے قمیص پہنائی اور اس دس درہم میں سے ایک کنیز کو آزاد کرایا میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ اس نے اپنی قدرت سے ہمیں یہ چیزیں عطا کیں۔

ماہ رمضان آتا تو آپ اسیروں کو رہا کر دیتے تھے اور ہر سائل کو عطا کرتے تھے۔( ۲ )

عائشہ کہتی ہیں: نبی(ص) اپنے ساتھ کی گئی بدسلوکی کا انتقام نہیں لیتے تھے ہاں حرمت ِالٰہی کی پامالی کا انتقام لیتے تھے، اپنے ہاتھ سے آپ(ص) نے کبھی کسی کو نہیں مارا، اگر مارا تو راہ خدا میں مارا، آپ(ص) نے کسی سوالی کو محروم نہیں کیا، مگر یہ کہ اس نے گناہ کا سوال کیا ہو کیونکہ آپ(ص) معصوم تھے، گناہ سے بہت دور تھے۔( ۳ )

____________________

۱۔ المعجم الکبیر (طبرانی ) ج ۲ ۱ ص ۳۳۷، حدیث ۱۳۶۰۷۔

۲۔حیات النبی(ص) و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۱۔

۳۔حیات النبی(ص) و سیرتہ ج۳ ص ۳۰۶۔

۴۵

عبید بن عمر سے روایت ہے : اگر رسول(ص) کے پاس ایسے مجرم کو لایا جاتا تھاکہ جس پر حد نہیں ہوئی تھی تو آپ اسے معاف کر دیتے تھے۔( ۱ )

انس کہتے ہیں: میں نے دس سال تک رسول(ص) کی خدمت کی ہے لیکن کبھی آپ(ص) نے مجھ سے اف تک بھی نہیں کہا، اور میں جو کام بھی انجام دیتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں فرمایا کہ یہ تم نے کیوں کیا؟ اور جو کام میں نہیں کرتا تھا اس پر کبھی یہ نہیں کہا کہ یہ انجام کیوں نہیں دیا؟( ۲ )

ایک اعرابی آپ(ص) کی خدمت میں حاضر ہوا، اس نے اپنی ردا کو اتنی شدت کے ساتھ کھینچا کہ اس کا ایک کونا آپ(ص) کی گردن پر لگا، اور کہنے لگا: اے محمد(ص)! مجھے مالِ خدا میں سے دئیے جانے کا حکم دیں، آپ(ص) نے اس کی طرف دیکھا تبسم کیااور اسے عطا کرنے کا حکم دیا۔ آپ(ص) نے زندگی بھر عفو و سخاوت سے کام لیا ہے...یہاں تک کہ اپنے چچا جناب حمزہ کے قاتل کو بھی معاف کر دیا تھا...اس یہودی عورت کو بھی معاف کر دیا تھا جس نے آپ(ص) کی خدمت میں بکری کا زہر آلود گوشت پیش کیا تھا، ابو سفیان کو معاف کر دیا تھا اور جو اس کے گھر میں داخل ہو گیا تھااس کو بھی معاف کر دیا تھا۔ اور قریش کے ان لوگوں سے در گذر کیا تھا جو اپنے رب کے حکم سے رو گرداں تھے اور اس سے اپنی پوری طاقت کے ساتھ ٹکرائے تھے...جس وقت آپ(ص) عزت و اقتدار کے بلند ترین درجہ پر فائز تھے اس وقت فرمایا تھا:

'' اللهم اهد قومی فانهم لا یعلمون...اذهبوا فانتم الطلقاء'' ( ۳ )

اے اللہ! میری قوم کی ہدایت فرما کیونکہ یہ لوگ کچھ نہیں جانتے...جائو تم سب آزاد ہو۔

''ولو کنت فظّا غلیظ القلب لا نفضّوا من حولک فاعف عنهم واستغفر لهم '' ( ۴ )

اور اگر آپ تند خو اور سخت دل ہوتے تو یہ لوگ تمہارے پاس سے بھاگ جاتے لہذا انہیں معاف کردو اور ان کے لئے استغفار کرو۔

____________________

۱۔ ایضا ج۳ ص ۳۰۷۔ ۲۔صحیح بخاری ج۵ ص ۲۲۶۰ حدیث ۵۷۳۸۔

۳۔محمد فی القرآن ص ۶۰ تا ۶۵ ۔ ۴۔آل عمران: ۱۵۹۔

۴۶

خدا نے آپ کی رحم دلی اور شفقت و رافت کو اس طرح بیان کیا ہے :

( لقد جائکم رسول من انفسکم عزیز علیه ما عنتم حریص علیکم بالمومنین رؤوف رحیم ) ( ۱ )

یقینا تمہارے پاس تمہیں میں سے وہ رسول(ص) آیا ہے جس پر تمہاری مصیبت شاق ہوتی ہے اور تمہاری ہدایت میں رغبت رکھتا ہے اور مومنوں پر شفیق و رحیم ہے ۔

۷۔حیا و انکساری

ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ رسول(ص) کو پردہ نشیں کنواری لڑکی سے بھی زیادہ حیا تھی آپ(ص) اگرکسی چیز سے نفرت کرتے تھے تو اس کا اندازہ آپ(ص) کے چہرہ سے ہو جاتا تھا۔( ۲ )

حضرت علی سے روایت ہے : جب رسول(ص) سے کسی چیز کا سوال کیا جاتا تھااور آپ اسے پورا کرنے کا ارادہ کرتے تھے تو فرماتے تھے: ہاں اور اگر اسے انجام دینے کا قصد نہیں رکھتے تھے تو خاموش رہتے تھے، لیکن آپ(ص) کسی چیز کے بارے میںنہیں! نہیں کہتے تھے۔( ۳ ) یحییٰ بن ابی کثیر سے روایت ہے کہ رسول(ص) نے فرمایا:

''اٰکلُ کما یاکل العبد و اَجلسُ کما یجلس العبد فانما انا عبد'' ( ۴ )

میں غلام کی طرح کھاتا ہوں اور غلام کی طرح بیٹھتا ہوں کیونکہ میں بھی ایک بندہ ہی ہوں۔ آپ(ص) کے بارے میں یہ بات مشہور ہے کہ آپ(ص) بچوں کو بھی سلام کرتے تھے۔( ۵ ) نبی (ص) ایک شخص سے ہمکلام ہوئے تووہ شخص آپ کے رعب سے تھرتھر کانپنے لگا۔ آپ(ص) نے فرمایا:

____________________

۱۔توبہ: ۱۲۸ ۔

۲۔ صحیح بخاری ج۳ ص ۱۳۰۶ حدیث ۳۳۶۹۔

۳۔مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۳ ۔

۴۔ الطبقات ( لابن سعد) ج۱ ص ۳۷، مجمع الزوائد ج۹ ص ۱۹۔

۵۔حیات النبی و سیرتہ ج۳ ص ۳۱۳، اس میں ابن سعد کے حوالے سے منقول ہے ۔

۴۷

''هوّن علیک فانی لست بملک انما انا ابن امرأة تاکل القدید'' ( ۱ )

گھبرائو نہیں! میں بادشاہ نہیںہوں میں تو اس خاتون کا بیٹا ہوںجو رو کھی سوکھی روٹی کھاتی تھی ۔

ابو امامہ سے روایت ہے کہ رسول(ص)عصا ٹیکتے ہوئے ہمارے پاس تشریف لائے، ہم ان کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو گئے تو آپ نے فرمایا:

''لا تقوموا کما تقوم الاعاجم یعظم بعضهم بعضاً'' ( ۲ )

ایسے مت کھڑے ہو اکرو جیسے عجم والے ایک دوسرے کی تعظیم کے لئے کھڑے ہوتے ہیں۔

اپنے اصحاب سے آپ(ص) مذاق کرتے تھے لیکن حق کے علاوہ کوئی بات نہیں کہتے تھے( ۳ ) ، مسجد بنانے( ۴ ) اور خندق کھدوانے( ۵ ) میں آپ(ص) بھی اپنے اصحاب کے ساتھ کام کرتے تھے باوجودیکہ آپ عقلمند ترین انسان تھے پھر بھی اپنے اصحاب سے مشورہ کرتے تھے۔( ۶ )

آپ فرمایا کرتے تھے:'' اللهم احیینی مسکیناً وتوفّنی مسکیناً و احشر نی فی زمرة المساکین و ان اشقیٰ الاشقیاء من اجتمع علیه فقر الدنیا و عذاب الاخرة'' ( ۷ )

اے اللہ! مجھے مسکین کی زندگی اور مسکین کی موت دینا اور مسکینوںکے ساتھ محشور کرنا اور بلا شبہ بد قسمت ترین شخص وہ ہے جو دنیا کے فقر اور آخرت کے عذاب کا ایک ساتھ شکار ہو۔

یہ تھیں آپ(ص) کی شخصیت کی بعض خوبیاں اور صفتیں، آپ کے فرد ی و اجتماعی سلوک کی چند جھلکیاں، آپ(ص) کی انتظامی ، سیاسی، عسکری، اقتصادی اوراسیروں، قیدیوں سے متعلق بہت سی خوبیاں ایسی ہیں جن کی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے تاکہ ان میں آپ(ص) کی تاسی کی جائے ،ان سے درس لیا جائے ۔ہم انہیں آنے والی فصلوں میں بیان کریں گے۔

____________________

۱۔سنن ابن ماجہ ج۲ ص ۱۱۰۱ حدیث ۳۳۱۲۔ ۲۔سنن ابی دائود ج۴ ص۳۵۸ حدیث ۵۲۳۰۔

۳۔سنن ترمذی ج۴ ص ۳۰۴، حدیث ۱۹۹۰۔ ۴۔مسند احمد ج۳ ص ۸۰۔

۵۔طبقات ، ابن سعد ج۱ ص ۲۴۰۔ ۶۔الدر المنثور ج۲ ص ۳۵۹، مواہب اللدنیہ ج۲ ص ۳۳۱۔

۷۔سنن ترمذی ج۴ ص ۴۹۹ حدیث ۲۳۵۲۔

۴۸

دوسرا باب

پہلی فصل

ولادت و پرورش کا عہد

دوسری فصل

شباب و جوانی کا دور

تیسری فصل

شادی سے بعثت تک

۴۹

پہلی فصل

ولادت و پرورش

۱۔ بت پرست معاشرہ کی جھلکیاں

بعثت نبوی سے قبل جزیرة العرب کے معاشرہ میں ظلم و فساد کا دور دورہ تھا۔ وہاں کے لوگوں کا کوئی متحدہ محاذ و بلاک نہیں تھا اور ان کی اجتماعی و ثقافتی خصوصیتیں، جو کہ صحرائی ماحول کی پیداوار تھیں، ان کی زوال پذیر حالت کو روکنے کے لئے کافی نہیں تھیں ، تباہی کے آثار جزیرة العرب کے معاشرہ میں نمایاں ہو چکے تھے اور ان کے درمیان جو معاہدے ہوتے تھے اس کی ایک اجتماعی خصوصیت تھی لیکن اس کے تعدد سے یہ بات عیاں ہے کہ ان کے معاشرہ میں مرکزیت ختم ہو چکی تھی۔

نہ ہی اس معاشرہ میں ہمیں کوئی ایسی اصلاحی و انقلابی تحریک نظر آتی ہے جس کو تاریخ نے بیان کیا ہو جواس معاشرہ میں ابھری ہو اوراس نے انہیں بہتر و خوش حال زندگی کی طرف دعوت دی ہو ہاں پراگندہ حالت میںبعض لوگوں کی تحریک ضرور تھی جسے اجتماعی ظلم و تعدی کا رد عمل ہی کہا جا سکتا ہے اس کے بانی جزیرة العرب کے بہت کم لوگ تھے اور یہ تحریک نہ تو ایک نظر یہ کے حد تک پہنچ سکی اور نہ ہی معاشرہ میں کوئی انقلاب برپاکر سکی( ۱ ) معاشرۂ قریش میں خلفشاراور اختلاف کو ہم خانۂ کعبہ کی تعمیر نو کے سلسلہ میں دیکھ چکے ہیں حالانکہ اس وقت قریش عرب کے قبائل میں سب سے زیادہ معزز اور متحد تھے۔ اس معاشرہ کی تباہی اور

____________________

۱۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۲۲۵۔

۵۰

شکست و ریخت کو ہم جزیرہ نما ئے عرب میں مقیم یہودیوں کی دھمکیوں سے بھی ثابت کر سکتے ہیں یہاں کے

یہودجزیرہ نما عرب کے لوگوں سے کہا کرتے تھے بشریت کو نجات دلانے والا آسمانی شریعت کے ساتھ عنقریب ظہور کرے گا، نیز کہتے تھے: ایک نبی(ص) ظہور کرے گا جو تمہارے بتوں کو توڑ دے گا۔( ۱ )

۲۔رسول(ص) کے آباء واجداد کا ایمان

رسول(ص) نے ایسے موحد گھرانے میں ولادت و پرورش پائی جو کہ بلند اخلاق اور اعلیٰ اقدار کا حامل تھا۔ آپ(ص) کے جد عبد المطلب کے ایمان کا علم توہمیں ان کی اس دعا سے ہو جاتا ہے جو انہوں نے اس وقت کی تھی جب حبشی ابرہہ نے خانۂ کعبہ مسمار کرنے کے لئے چڑھائی کی تھی۔ اس وقت کعبہ کی حفاظت کے لئے عبدالمطلب نے کسی بت سے التجا نہیں کی تھی بلکہ خدائے واحد پر توکل کیا تھا۔( ۲ )

بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ عبد المطلب پیشین گوئیوں کے ذریعہ نبی(ص) کی عظمت اور ان کے مستقبل سے واقف تھے چنانچہ انہوں نے رسول(ص) کا واسطہ دے کر اس وقت بارش کی دعا کی تھی جب رسول(ص) کی عمر بہت کم تھی کیونکہ وہ جانتے تھے کہ رزق و نعمت دینے والے خدا کے نزدیک ان(محمد(ص)) کی بڑی منزلت ہے ۔( ۳ ) عبد المطلب کے مومن ہونے کی دوسری دلیل یہ ہے کہ انہوں نے آپ کے بچپنے میں ام ایمن سے فرمایا کہ خبردار ان (محمد(ص))سے غافل نہ ہونا۔( ۴ )

یہی حال آپ کے چچا جناب ابو طالب کا ہے تبلیغ رسالت کے پیش نظر وہ بھی تا حیات، رسول(ص) کی حفاظت و پشت پناہی کرتے رہے اس سلسلہ میں انہوں نے قریش کے بائیکاٹ اورشعب ابو طالب می گھیرائو اور ان کی دوسری اذیتوں کو برداشت کیا۔ اس حقیقت کو ہم ابو طالب کے بارے میں نقل ہونے والی روایتوں میں

____________________

۱۔بحار الانوار ج۱۵، ص ۲۳۱، السیرة النبویة ج۱ ص ۲۱۱، البقرة : ۸۹۔

۲۔سیرة النبویة ج۱ ص ۴۳۔۶۲، تاریخ کامل ج۱ ص ۲۶۰، بحار الانوار ج۵ ص ۱۳۰۔

۳۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۸۲، الملل و النحل شہرستانی ج۲ ص ۲۴۸۔

۴۔سیرة زینی دحلان جو کہ سیرة حلبیہ کے حاشیہ برچھپی ہے : ج۱ ص ۶۴، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۔

۵۱

دیکھتے ہیں کہ وہ رسول(ص) کی حفاظت کا کتنا خیال رکھتے تھے۔( ۱ )

ہاں بعض (ضعیف) روایتوں میں رسول(ص) کے والدین کی طرف شرک اور بت پرستی کی نسبت دی گئی ہے ،لیکن ان کے ایمان کی دلیل رسول(ص) کا یہ قول ہے:

''لم ازل انقل من اصلاب الطاهرین الیٰ ارحام الطاهرات'' ۔

میں پاک و پاکیزہ صلبوں سے پاک و پاکیزہ رحموں میں منتقل ہوتا رہا۔

اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ آپ(ص) کے آباء و اجداد اور مائیں ہر شرک و رجس سے پاک تھیں۔

۳۔ ولادتِ رسول(ص)

عیسائیت نے انسانی معاشرہ میں نہ تو نفوذ ہی پیدا کیا تھا اور نہ ہی اس کے ایسے کارنامے ہیں کہ جن کا ذکر کیا جاسکے اس کے نتیجہ میں دنیا میں گمراہی و انحراف پھیل گیا تھا لوگ حیرتوں اور فتنوں کی گمراہیوں میں مبتلا ہو چکے تھے جاہلوں کی جاہلیت نے ان کوبے وقعت کر دیاتھا، روم کی حالت بھی اپنے حریف ملک ایران کی حالت سے کچھ کم بدتر نہیں تھی اور جزیرة العرب کی حالت ان دونوں سے بہتر نہیں تھی ہر ایک تباہی کے دہانے پر کھڑا ہوا تھا۔

اس وقت کی انسانی حیات کے ایک المناک گوشہ کو قرآن مجید نے نہایت ہی فصیح و بلیغ انداز میں بیان کیا ہے اور اسی طرح اہل بیت نبوت کے سید و سردار علی ابن ابی طالب نے اپنے متعدد خطبوں میں ان کی افسوسناک حالت کو بیان فرمایا ہے۔ جس معاشرہ میں نبی(ص) کو مبعوث کیا گیا تھا اس کی حالت کو آپ نے اس طرح بیان فرمایا ہے :

___________________

۱۔ السیرة النبویہ ج۱ ص ۹۷۹، تاریخ ابن عساکر ج۱ ص ۶۹، مجمع البیان ج۷ ص ۳۷، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۳، طبقات الکبریٰ ج۱، ص ۱۶۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص۱۸۹، اصول کافی ج۱ ص ۴۴۸، الغدیر ج۷ ص ۳۴۵۔

۵۲

ارسله علیٰ حین فترة من الرسل و طول هجعة من الامم و اعتزام من الفتن و انتشار من الامور و تلظّ من الحروب و الدنیا کاسفة النور، ظاهرة الغرور علیٰ حین اصفرار من و رقها و ایاس من ثمرها و اغورار من مائها، قد د رست منائر الهدیٰ و ظهرت اعلام الردیٰ فهی متجهمة لاهلها، عابسة فی وجه طالبها ثمرها الفتنة و طعامها الجیفة و شعارها الخوف و دثارها السیف ( ۱ )

اللہ نے اپنے رسول(ص) کو اس وقت بھیجا جب رسولوںکی آمد کا سلسلہ منقطع ہو چکا تھا، امتیں عرصۂ دراز سے خواب غفلت میں پڑی ہوئی تھیں فتنے سر اٹھا رہے تھے، تمام چیزوں کا شیرازہ بکھر چکا تھا۔ جنگ کے شعلے بھڑک رہے تھے، دنیا کی رونق ختم ہو چکی تھی ، اس کی فریب کاریاںکھلی ہوئی تھیں، اس کے پتے زرد ہو گئے تھے اور پھلوں سے نا امیدی ہو چکی تھی، پانی زمین میں تہ نشیں ہو چکا تھا۔ ہدایت کے نشان مٹ گئے تھے، ہلاکت و پستی کے پرچم کھلے ہوئے تھے، دنیا اپنے باشندوں کے سامنے تیور چڑھائے ہوئے کھڑی تھی، اس کا پھل فتنہ تھا، اس کی خوراک مردار تھی اس کے اندر کا لباس خوف اور ظاہری لباس تلوار تھی۔

بشریت ایسے ہی سخت و دشوار حالات سے دو چار تھی کہ نور الٰہی چمکا اور خدا کے بندوں اور روئے زمین پر بسنے والوں کو بہترین زندگی اور ابدی سعادت کی بشارت دی اور سر زمین حجاز ۱ عام الفیل مطابق ۵۷۰ئکو ماہ ربیع الاوّل میں بابرکت ہو گئی، جیسا کہ اکثر مورخین و محدثین نے لکھا ہے۔

آپ کے روزِ ولادت کو اہل بیت نے بیان کیا ہے واضح ہے کہ گھر کی بات گھر والے ہی بہتر جانتے ہیں۔ فرماتے ہیں آنحضرت(ص) نے ۱۷ ربیع الاول بروز جمعہ طلوع فجر کے بعد ولادت پائی، مذہب امامیہ کے درمیان یہی قول مشہور ہے لیکن عامہ کا نظریہ یہ ہے کہ آپ(ص) کی ولادت۱۲ ربیع الاول دو شنبہ کے روز ہوئی۔( ۲ )

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ۸۹۔

۲۔ ملاحظہ ہو امتاع الاسماع۔

۵۳

تاریخ و حدیث کی معتبر کتابوں میں وہ عجیب و غریب حوادث بیان ہوئے ہیں جو آپ کی ولادت کے دن رونما ہوئے تھے مثلا: فارس کے آتشکدہ کی آگ بجھ گئی، شدید زلزلہ آیا کہ جس سے عیسائیوں اور یہودیوں کے گرجا و کلیسا منہدم ہو گئے ہر وہ چیز اپنی جگہ سے اکھڑ گئی جس کی پرستش کی جاتی تھی اور خانہ کعبہ میں نصب ہوئے بت منہ کے بل گر پڑے کا ہنوںاور ساحروں کے اعداد و شمار اور حساب و کتاب بے کار ہوگئے، کچھ ایسے ستارے طلوع ہوئے جو اس سے پہلے نہیں دیکھے گئے تھے جب آپ(ص) پیدا ہوئے تو آپ کی زبان پر''اللّٰه اکبر، و الحمد للّٰه کثیرا، و سبحان اللّٰه بکرة و اصیلا'' تھا۔( ۱ )

نبی(ص) نے اپنے دو ناموں ، محمد(ص) واحمد، سے شہرت پائی، قرآن مجید نے دونوں کا ذکر کیا ہے مورخین نے لکھا ہے کہ آپ(ص) کے جد عبد المطلب نے آپ کا نام محمد(ص) رکھا تھا اور جب ان سے محمد کی وجہ تسمیہ معلوم کی گئی تو انہوں نے جواب دیا: میں چاہتا ہوں کہ آسمان اور زمین پران کی تعریف کی جائے( ۲ ) آپ کے جد سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کا نام احمد رکھا تھا۔

اسی نام کی بشارت حضرت عیسیٰ کی زبانی انجیل میں دی گئی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے اسکو بیان کیا ہے اور علمائے اہل کتاب نے اس کی تصدیق کی ہے ، خداوند عالم نے اسے اس طرح نقل کیا ہے :

''مبشراً برسول یاتی من بعدی اسمه احمد '' ۔( ۳ )

اور میں تمہیں اپنے بعد ایک رسول(ص) کی بشارت دینے والا ہوں جس کا نام احمد ہوگا۔

اس میں کوئی قباحت بھی نہیں ہے کہ ایک شخص دو نام، دو القاب اور دو کنیتوں سے پہچانا جائے جزیرة العرب و غیرہ میں ایسا ہوتاآیاہے ۔

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۹۲۔

۲۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۲۸۔

۳۔ صف: ۶، ملاحظہ ہو سیرة حلبیہ ج۱ ص ۷۹۔

۵۴

۴۔ مبارک رضاعت

حضرت محمد(ص) کی ساری ذمہ داری ان کے جد عبد المطلب کے سپرد ہو گئی تھی کہ جو عین شباب کے عالم میں اپنے چہیتے بیٹے جناب عبد اللہ سے محروم ہو گئے تھے، اس لئے آپ کے جد عبد المطلب نے آپ کی پرورش کی ذمہ داری ابو لہب کی کنیز ثویبہ کے سپرد کر دی تاکہ آپ کو بنی سعد کے پاس بادیہ میں بھیج دیا جائے اور وہاں کے صاف و شفاف ماحول میں نشو نماپائیں اور ان وبائوں سے دور رہکر-جو کہ اہل مکہ کے بچوں کے لئے خطرہ بنی ہوئی تھیں۔ بادیہ نشین لوگوں کے بچوں کے ساتھ پرورش پائیں، جیسا کہ اہل مکہ کے شرفاء کی عادت تھی کہ وہ اپنے بچے دودھ پلانے کے لئے دودھ پلانے والیوں کو دیدیا کرتے تھے اور دودھ پلانے کے سلسلہ میں قبیلۂ بنی سعد کی عورتیں مشہور تھیں، وہ مکہ کے مضافات اور حرم کے نواح میں رہتی تھیں دودھ پینے والے بچے لینے کے لئے ان کی عورتیں سال میں ایک مرتبہ مکہ آتی تھیں جس سال نبی(ص) نے ولادت پائی تھی اس سال بہت سی عورتیں آئی تھیں کیونکہ یہ قحط کا سال تھااس لئے انہیں مکہ کے شرفاء سے مدد لینا تھی۔

بعض مورخین کا خیال ہے کہ ان دودھ پلانے والیوں میں سے کسی نے بھی محمد(ص) کو نہ لیا کیونکہ آپ(ص) یتیم تھے، قریب تھا کہ ان کاقافلہ واپس چلا جائے، حلیمہ بنت ابی ذویب سعدیہ کے علاوہ ہر عورت کو بچہ مل گیا تھا، دوسری دودھ پلانے والیوں کی مانند پہلے حلیمہ نے بھی آپ(ص) کو لینے سے انکار کر دیا تھا لیکن جب انہیں کو ئی بچہ نہ ملا تو انہوں نے اپنے شوہر سے کہا: خدا کی قسم! میں اس یتیم کے گھر جائونگی اور اسی کو لائونگی، ان کے شوہر نے رضامندی کا اظہار کیا تو وہ عبدالمطلب کے گھر واپس آئیں اور محمد(ص) کو گود میں لیا ، گود لیتے ہی ان کا پورا وجود اس امید سے معمور ہو گیا کہ اس بچہ کے ذریعہ انہیں بہت سی خیر و برکت ملے گی۔( ۱ )

مورخین کا یہ خیال ہاشمی گھرانے کی عظمت اور رسول(ص) کے جد، کہ جو اپنے جود و کرم اور مفلس و محتاجوں کی مدد کرنے کے حوالے سے مشہور تھے ۔

مزید بر آں بعض مورخین نے لکھا ہے کہ آنحضرت(ص) کے پدر بزرگوار کا انتقال آپ(ص) کی ولادت کے کئی مہینے

____________________

۱۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۴۶۔

۵۵

کے بعد ہوا تھا( ۱ ) مورخین نے یہ بھی تحریر کیا ہے کہ آپ(ص) نے حلیمہ کے پستان کے علاوہ کسی کے پستان کو منہ نہیں لگایا تھا۔( ۲ ) حلیمہ کہتی ہیں: عبد المطلب نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا: تم کون ہو؟ میں نے کہا: میں بنی سعد کی عورت ہوں انہوں نے کہا: تمہارا کیا نام ہے؟ میں نے کہا : حلیمہ اس پر عبد المطلب مسکرائے اور فرمایا: مبارک ہو مبارک سعد وحلم ایسی دو خصلتیں ہیں کہ جن میں زمانہ کی بھلائی اور ابدی عزت ہے ۔( ۳ )

عبد المطلب کے یتیم کو لینے کے سلسلہ میں حلیمہ کو جو خیر و برکت کی امید ہوئی تھی اس میں انہیں خسارہ نہیں ہوا مروی ہے کہ حلیمہ کے پستان میں دودھ نہیں تھا لیکن جب محمد(ص) نے منھ لگایا تو ان کے پستان میں دودھ بھر گیا ۔

حلیمہ کہتی ہیں: ہم نے اپنے مال و متاع میں اسی وقت سے خیر و برکت محسوس کی ہے جب سے رسول(ص) کو پرورش کے لئے لیا یہاں تک کہ قحط و غربت کے بعد ہم مالدار ہو گئے۔( ۴ )

عبد المطلب کا پوتا حلیمہ اور ان کے شوہر کی گود میں چلا گیا اور تقریبا ۵ سال تک وہیں رہا دو سال کے بعد حلیمہ انہیں لے کر واپس آئیں لیکن اب تو حلیمہ آپ کے وجود میں خیر و برکت محسوس کر چکی ہیں اور آپ کو دو بارہ اپنے ساتھ لے جانا چاہتی ہیں دوسری طرف آپ(ص) کی والدہ امراض اور وباء سے بچانے کی خاطر آپ(ص) کومکہ سے دور رکھنا چاہتی ہیں لہذا حلیمہ خوشی خوشی رسول(ص) کو اپنے ساتھ لیکر واپس لوٹ گئیں۔

روایت ہے کہ حلیمہ دوبارہ آپ کو اس وقت مکہ واپس لائیں جب انہیں آپ(ص) کی جان خطرہ میں نظر آئی کیونکہ حلیمہ نے نصاریٰ کی اس جماعت کو دیکھا تھا جو حبشہ سے حجاز آئی تھی اس نے محمد(ص) میں نبی موعود کی علامتیں دیکھیں تو اصرار کیا کہ ہم انہیں اپنے ساتھ حبشہ لے جانا چاہتے ہیں تاکہ ان کی پرورش کا شرف حاصل کریں۔( ۵ )

____________________

۱۔ الصحیح من سیرة النبی الاعظم (ص) ج۱ ص ۸۱، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۸۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۲۔ ۳۔سیرة حلیبہ ج۱ ص ۱۴۷۔

۴۔بحار الانوار ج۱۵ ص ۳۴۵، المناقب ابن شہر آشوب ج۱ ص ۲۴، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۴۹۔

۵۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۱۶۷، بحار الانوار ج۱۵ ص ۱۰۵، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۵۵۔

۵۶

۵۔ نبی (ص) کے واسطہ سے بارش

مورخین نے اس بات کی طرف اشارہ کیا ہے کہ رسول(ص) کے واسطہ سے آپ کی حیات میں متعدد بار بارش ہو ئی ہے ۔آپ کی شیر خوارگی کے زمانہ میں آپ کے جد اور آپ کے چچا ابو طالب کی زندگی میں ، پہلی بار اس وقت آپ کے واسطہ سے بارش ہو ئی تھی جس وقت اہل مکہ شدید قحط میں مبتلا تھے، دو سال سے بارش نہیں ہوئی تھی، جناب عبد المطلب نے اپنے بیٹے ابو طالب کو حکم دیا کہ ان کے پوتے حضرت محمد(ص) کو لائیں حالانکہ وہ اس وقت شیر خوار تھے چنانچہ ابوطالب انہیں لائے، اور دادا کی گود میں دیدیا، عبد المطلب انہیں لئے ہوئے خانۂ کعبہ گئے اور انہیں آسمان کی طرف بلند کرکے عرض کی: بار الٰہا! اس بچہ کے حق کا واسطہ، اسی جملہ کو باربار کہتے اور دعا کرتے رہے کہ ہمیں موسلادھار بارش کے ذریعہ سیراب کر کچھ دیر نہ گذری تھی کہ آسمان پر گھٹا چھا گئی اور اتنی شدید بارش ہوئی کہ لوگوں کو مسجدالحرام کے منہدم ہونے کا خوف لاحق ہو گیا۔( ۱ )

دوبارہ آپ کے وسیلہ سے اس وقت بارش ہوئی جب آپ(ص) کا بچپناتھا جناب عبد المطلب آپ(ص) کو لیکر کوہ ابو قبیس پرگئے قریش کے دوسرے نمایاں افراد بھی ان کے ہمراہ تھے تاکہ نبی(ص) کی برکت سے دعا مستجاب ہو جائے۔ اس واقعہ کی طرف جناب ابو طالب نے اس طرح اشارہ کیا ہے :

ابو نا شفیع الناس حین سقوابه

من الغیث رجاس العشیر بکور

و نحن-سنین المحل-قام شفیعنا

بمکة یدعو و المیاه تغور( ۲ )

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ قریش نے ابو طالب سے التماس کی کہ ہمارے لئے بارش کی دعا کریں تو ابو طالب ، نبی(ص) کو مسجد الحرام کے پاس لائے، اس وقت آپ کا چہرہ سورج کی طرح دمک رہا تھا، ابو طالب نے نبی(ص) کے واسطہ سے بارش کے لئے دعا کی تو آسمان پر بادل چھا گئے اورموسلا دھار بارش ہوئی اس صورت حال کودیکھ کر سب لوگ خوش ہو گئے۔ اس کرامت کا ذکر ابو طالب نے اس وقت کیا تھا جب قریش

____________________

۱۔الملل و النحل ج۲ ص ۲۴۸، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۸۲ و ۱۸۳۔ ۲۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۳۳۱۔

۵۷

نے نبی(ص) اور ان کی رسالت سے دشمنی کی حد کر دی تھی، کہتے ہیں:

و ابیض یستسقیٰ الغمام بوجهه

ربیع الیتامی عصمة للارامل

تلوذ به الهلاک من آل هاشم

فهم عنده فی نعمة و فواضل( ۱ )

سفید رنگ سردار جس کے چہرہ سے بادل برسایا جاتاہے، جو یتیموں کا فریاد رس اور بیوائوں کا محافظ ہے یہ وہ ذات ہے جس کے سایہ میں آل ہاشم کے مجبور لوگ پناہ لیتے ہیں اور اس کے تصدق میں نعمت پاتے ہیں۔

ان تمام باتوں سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ رسول خدا کے دونوں کفیل خالص مومن تھے اور دونوں خدا پر ایمان رکھتے تھے ان کی عزت و افتخار ، توحید اور اللہ پر ایمان کے لئے اتنا کافی ہے ، اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ رسول(ص) نے اس گھر میں پرورش پائی تھی جوعقیدۂ توحید سے معمور تھا۔

۶۔ اپنی والدہ آمنہ کے ساتھ

آپ(ص) کے والد کا سایہ تو پہلے ہی اٹھ چکا تھا والدہ کی محبت و شفقت سے بھی آپ(ص) تا دیربہرہ یاب نہ رہ سکے، والدہ کو یہ امید تھی کہ عبد اللہ کا یتیم ان کی حیات میں جوان ہوگا اور شوہر کی جدائی کے بعد بیٹا سہارا بنے گا۔ مگر موت نے انہیں زیادہ مہلت نہیں دی، حلیمہ سعدیہ سے روایت ہے کہ وہ نبی(ص) کو ان کے گھر لے کر آئیں اس وقت نبی(ص) کی عمر پانچ سال ہو چکی تھی، آپ کی والدہ آمنہ یہ چاہتی تھیں کہ محمد(ص) کو ساتھ لیکر اپنے شوہر کی قبر کی زیارت کو جائیں اور اس سفرمیں محمد(ص) یثرب میں بنی نجار میں سے اپنے ماموں کو بھی دیکھ لیں لیکن اس سفر میں رسول(ص) کو ایک اور غم ہوا، آپ اپنے پدر بزرگوار کی قبر کی زیارت کرکے واپس آ رہے تھے کہ مقام ''ابوائ'' میں آپ(ص) کی والدہ کا انتقال ہو گیا گویا عہد طفلی میں آنحضرت (ص) کے قلب میں دو غموں کا اجماع ہو گیا آپ کی شخصیت کی تکمیل کے لئے یہ خدائی منصوبہ تھا۔

جناب ام ایمن نے ان کے قافلہ کو مکہ پہنچایا، یہ نبی(ص) کے ساتھ رہیں یہاں تک کہ آپ(ص) کو آپ(ص) کے

____________________

۱۔سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۹۰، البدایہ و النہایة ج۳ ص ۵۲، بحار الانوار ج۸ ص ۲۔

۵۸

جد عبد المطلب کے سپرد کیا عبد المطلب اپنے پوتے سے بہت محبت کرتے تھے۔( ۱ )

۷۔ اپنے جد عبد المطلب کے ساتھ

محمد(ص) نے عبد المطلب کے دل میں جو مقام و مرتبہ حاصل کر لیا تھا وہ ان کے بیٹوں اور پوتوں میں سے کسی کو حاصل نہیں تھا حالانکہ وہ بطحاء و مکہ کے سردار تھے، روایت ہے کہ ایک مرتبہ عبد المطلب خانہ ٔ کعبہ کے چبوترے پر چادر بچھائے ہوئے بیٹھے تھے ،یہ چادرمخصوص آپ کے لئے بچھائی جاتی تھی اس وقت آپ کے چاروں طرف قریش کے سر بر آوردہ سردار اور ان کے بیٹے بیٹھے تھے، عبد المطلب کی نظر اپنے پوتے، محمد(ص) پر پڑی، آپ نے حکم دیا کہ محمد(ص) کے لئے راستہ چھوڑ دو یہاں تک کہ وہ آپ کے پاس پہنچ گئے آپ نے انہیں اس خاص چادرپر اپنے پہلو میں بٹھا لیا۔( ۲ ) قریش کے سردار کی یہ خاص عنایت اس لئے تھی تاکہ قریش کے دلوں میں ان کی بلندی راسخ ہو جائے اوروہ آپ کے خلق عظیم سے متاثر تھے ہی ۔

قرآن مجید نے آپ کے اس دورِ یتیمی کا ذکر کیا ہے جس سے آپ(ص) اپنے پروردگار کی نگہبانی کے ساتھ گذرے ہیں ارشاد ہے :''الم یجدک یتیماً فآویٰ '' کیاہم نے آپ کو یتیم پایا تو آپ کو پناہ نہیں دی، یتیمی کا دور انسان کی شخصیت اور اس کی ترقی پر اثر انداز ہوتا ہے ، اس سے انسان کے اندر خود اعتمادی، پختگی، مشکلات و مصائب پر صبر کرنے کی قوت پیدا ہوتی ہے خدا وند عالم نے اپنے نبی (ص) کو اس طرح تیار کیا کہ آپ(ص) مستقبل میں پیش آنے والی مشکلوں کو برداشت کرنے اور اس رسالت کبریٰ کا بار اٹھانے پر آمادہ ہو جائیں جس سے آپ(ص) کا کمال نکھرے گا اور آپ(ص) کی شخصیت میں پختگی آئے گی۔ اس حقیقت کی طرف رسول(ص) نے اس طرح اشارہ فرمایا ہے:

''ادبنی ربی فاحسن تا دیبی'' ( ۳ )

میرے پروردگار نے مجھے ادب سکھایاپس میں نے بہترین تربیت پائی۔

____________________

۱۔ سیرة حلبیہ ج۱ ص ۱۰۵۔

۲۔السیرة النبویة ج۱ ص ۱۶۸۔

۳۔ مجمع البیان ج۵ ص ۳۳۳ ملاحظہ ہو تفسیر سورة قلم۔

۵۹

ابھی نبی(ص) آٹھ سال کے بھی نہیں ہوئے تھے کہ آپ(ص) اپنے جد بزرگوار عبد المطلب، کے سایہ عاطفت سے محروم ہو گئے عبد المطلب کی موت سے آپ کو جو صدمہ ہوا تھا وہ آپ کی مادر گرامی کی موت سے کم نہیں تھا آپ(ص) پر شدید رقت طاری تھی ، جنازہ کے پیچھے پیچھے قبر تک روتے ہوئے گئے تا حیات عبد المطلب کو یاد کرتے رہے کہ وہ آپ(ص) کے بہترین نگہبان تھے وہ یہ بھی جانتے تھے کہ آپ نبی ہیں روایت ہے کہ ایک شخص یہ چاہتا تھا کہ عبد المطلب آپ سے نظر پھیر لیں ۔ آپ نے اس سے فرمایا: میرے بیٹے کے بارے میں کچھ نہ کہو اس کے پاس تو فرشتہ آتا ہے ۔( ۱ )

____________________

۱۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۰۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

رہے_ آپ كے حكم كے مطابق منادى كے ذريعے دشمن كو اعلان جنگ سنايا اور كہا كہ : اے شاميو كل صبح تم سے ميدان كارزار ميں ملاقات ہوگى _(۱۳)

منادى كى آواز جب دشمن كے كانوں ميں پہنچى تو اس كى صفوں ميں كہرام مچ گيا سب نے بيم و ترس كى حالت ميں معاويہ كى جانب رخ كيا اس نے تمام سرداروں اور فرمانداروں كو بلايا اور حكم ديا كہ اپنى فوجوں كو تيار كريں _

حضرت علىعليه‌السلام نے جب اپنے لشكر كو آراستہ كر ليا تو آپعليه‌السلام اپنى جگہ سے اٹھے اور سپاہ ميں جوش و خروش پيدا كرنے كيلئے ان كے سامنے تقرير كى اور فرمايا كہ : اے لوگو خداوند تعالى نے تمہيں اس تجارت كى جانب آنے كى دعوت دى ہے جس ميں عذاب سے نجات دلائي جائے گى اور خير و فلاح كى جانب بلايا ہے_يہ تجارت خدا اور اس كے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى صداقت پر ايمان اور راہ خدا ميں جہاد ہے_ اس كا معاوضہ تمہيں يہ ملے گا كہ تمہارے گناہ بخش دئے جائيں گے اور خُلد بريں ميں تمہيں رہنے كيلئے پاكيزہ مكان مليں گے اور اس كا انتہائي اجر يہ ہے كہ تمہيں خدا كى رضا نصيب ہوگى جو ہر اجر سے كہيں عظيم ہے_ قرآن كا خدا كے محبوب بندوں سے ارشاد ہے كہ : خداوند تعالى ان مجاہدين حق كو دوست و عزيز ركھتا ہے جو محكم ديور كى طرح دشمن كے مقابل آجاتے ہيں اور اس سے جنگ و جدال كرتے ہيں(۱۴) _اپنى صفوں كو سيسہ پلائي ہوئي بنيادوں كى طرح محكم كرلو اور ايك دوسرے كے دوش بدوش رہو_ زرہ پوش سپاہ پيشاپيش رہيں اور جن كے پاس زرہ نہيں انہيں زرہ پوش سپاہ كے عقب ميں ركھا جائے اپنے دانت بھينچے ركھو كيونكہ اس كے باعث شمشير كى ضرب سے كاسہ سر محفوظ رہتا ہے_ اس سے قلب كو تقويت اور دل كو آسودگى حاصل ہوتى ہے_ اپنى آوازوں كو خاموش ركھو اس لئے كہ اس كى وجہ سے سستى و شكست سے نجات ملتى ہے اورچہرہ پر متانت و وقار كى كيفيت پيدا ہوتى ہے اپنے پرچموں كو يكجا ركھو اور انہيں باحميت دلاوروں كے سپرد كرو جو لوگ مصائب و مشكلات ميں صبر كرتے ہيں اور پرچم پر مسلط رہتے ہيں _ وہ اس كى ہر طرف سے حفاظت ميں كوشاں رہتے ہيں _(۱۵)

۲۰۱

حضرت على (ع)كا خطبہ ختم ہونے كے بعد آپ كے اصحاب ميں سے بھى ہر شخص نے اپنے قبيلے كے لشكر ميں جوش و خروش پيدا كرنے كى خاطر تقرير كى _ انہى مقررين ميں سعيد بن قيس بھى شامل تھے چنانچہ وہ اپنے ساتھيوں كے درميان سے اٹھے پہلے تو انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام اور آپعليه‌السلام كے اصحاب كى قدر و منزلت كا ذكر كيا اس كے بعد انہوں نے معاويہ كا تعارف كرايا_(۱۶) اس كے ساتھ ہى انہوں نے اپنے دوستوں كو جنگ كرنے كيلئے ترغيب دلائي_

فريقين كے لشكر چونكہ جنگ كيلئے آمادہ تھے اس لئے بدھ كے دن سخت معركہ ہوا _ رات كے وقت دونوں لشكر بغير فتح و نصرت واپس اپنے خيموں ميں آگئے(۱۷) _

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جمعرات كى صبح نماز فجر جلدى پڑھ لى سپاہ سے خطاب كرنے اور جنگ كى ترغيب دلانے كے بعد آپعليه‌السلام نے گھوڑا طلب فرمايا(۱۸) اس پر سوار ہونے كے بعد آپ قبلہ رخ كھڑے ہوگئے انكے دونوں ہاتھ آسمانكى طرف تھے اور خداوند تعالى سے يوں راز و نياز كر رہے تھے: خداوند ا يہ قدم تيرى راہ ميں بڑھ رہے ہيں بدن خستہ و ناتواں ہيں دلوں پر لرزہ و وحشت طارى ہے اور يہ ہاتھ تيرى بارگاہ ميں اٹھے ہوئے ہيں اور آنكھيں تيرى طرف لگى ہوئي ہيں اس كے بعد آپ نے ايك آيت پڑھى جس كا ترجمہ يہ ہے (اے رب ہمارى قوم كے درميان ٹھيك ٹھيك فيصلہ كردے اور تو بہترين فيصلہ كرنے والا ہے_(۱۹)

آخر ميں آپ نے سپاہ سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ سيرو على بركة اللہ ((۲۰) آگے بڑھو خدا تمہارى پشت و پناہ ہے)_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے نبرد آزما ہونے سے قبل شام كے ہر قبيلے كا نام دريافت فرمايا اس كے بعد آپعليه‌السلام نے اپنى سپاہ كے قبائل كو حكم ديا كہ تم ميں سے ہر سپاہى اپنے ہم نام اور ہم پلہ و شان قبيلے كے ہراس شخص سے جنگ كرے جو دشمن كى صفوں ميں شامل ہے(۲۱) _

سپاہ اسلام كى علامت وہ سفيد رنگ كا كپڑا تھا جو انہوں نے اپنے سرو ں اور بازووں پر باندھ ركھتا تھا_ اور ان كا نعرہ ياللہ، يا احد ، يا صمد ، يا رب محمد يا رحمت اور يا رحيم تھا_

۲۰۲

اس كے برعكس معاويہ كى سپاہ كا نشان زرد پٹى تھى جسے انہوں نے بھى اپنے سروں اور بازووں پر باندھ ركھا تھا_ اور ان كا نعرہ يہ تھا نحن عبادالله حقا حقا يا لثارات عثمان (۲۲)

قرآن كى طرف دعوت

اس سے قبل كہ حضرت علىعليه‌السلام كے سامنے عمروعاص كا مكر و فريب ظاہر ہو آپعليه‌السلام نے اپنى جمعيت كو بيدار كرنے اور دشمن پر اتمام حجت كى خاطر اس وقت بھى جب كہ آپعليه‌السلام نے اپنى فوج ميں ذرہ برابر زبونى و ناتوانى محسوس نہيں كى ، يہ تجويز پيش كى اور فرمايا كہ : كوئي شخص قرآن شريف اپنے ہاتھ ميں اٹھالے اور دشمن كے نزديك پہنچ كر اسے قرآن كى طرف آنے كى دعوت دے ايك شخص جس كا نام '' سعيد'' تھا اٹھا اور اس نے سپاہ دشمن كى جانب جانے كا اظہار كيا حضرت علىعليه‌السلام نے دوبارہ اپنى اس تجويز كو زبان مبارك سے ادا كيا اسى نوجوان نے آپعليه‌السلام كى اس تجويز پر لبيك كہا كيونكہ اكثر و بيشتر افراد كا خيال تھا جو شخص بھى اس راہ ميں پيشقدمى كرے گا اس كا مارا جانا يقينى ہے_

حضرت '' سعيد'' نے قرآن مجيد ہاتھ ميں ليا اور سپا ہ دشمن سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ : اے لوگو شورش و سركشى سے باز آؤ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام قرآنى حكومت اور عدل الہى كى دعوت دے رہے ہيں سيدھا راستہ اختيار كرو سيدھا راستہ وہى ہے جو مہاجرين و انصار نے اختيار كيا ليكن اہل شام نے اس كو اپنے نيزوں اور تلواروں سے ٹكڑے ٹكڑے كرديا_(۲۳)

معاويہ كہاں ہے؟

فريقين كے لشكر كے درميان جنگ جيسے جيسے شديد تر ہوتى جاتى تھي، مالك اشتر ، عمار اور عبداللہ بديل جيسے اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے يار و مددگار شير كى طرح غراتے اور دشمن پر حملہ آور ہوتے حضرت علىعليه‌السلام بھى ميدان كارزار ميں داخل ہوئے دشمن كى سپاہ نے جيسے ہى آپعليه‌السلام كو ديكھا اس

۲۰۳

پر خوف و ہراس طارى ہوگيا بعض قبائل كو تو اپنى جان كے لالے پڑگئے اور يہ فكر ستانے لگى كہ كس طرح نجات پائيں چنانچہ قبيلہ خثعم كے سردار عبداللہ خنش نے خثعم قبيلہ عراق كے سرگروہ كعب سے پيغام كے ذريعے يہ درخواست كى كہ صلہ رحم كى خاطر اور ايك دوسرے كے حقوق كا پاس كرتے ہوئے جنگ سے كنارہ كشى اختيار كر لے ليكن مخالفت سے دوچار ہوا_ (۲۴)

اسى اثناء ميں سپاہ اسلام كے فرماندار ميمنہ عبداللہ بديل جو بہت ہى شجاع و دلير شخص اور دو زرہ پہن كر جنگ كرتے تھے دونوں ہاتھوں ميں تلواريں لئے دشمن كى سپاہ كے ميسرہ كى جانب بڑھے اور اسے چيرتے ہوئے ان لوگوں تك پہنچ گئے جو معاويہ كے فدائي كہلاتے تھے يہ لوگ معاويہ كے ايسے جانثار و با وفا دوست تھے جنہوں نے يہ عہد كيا تھا كہ جب تك ہمارے دم ميں دم ہے اس كى حفاظت كرتے رہيں گے معاويہ نے ان فدائيوں كو حكم ديا كہ عبداللہ كے بمقابل آجائيں اور خفيہ طور پر اسے اپنے ميسرہ كے فرماندار حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ وہ ابن بديل كو آگے بڑھنے سے روكے ليكن وہ آگے بڑھتے ہى گئے معاويہ نے ناچار مصلحت اس امر ميں سمجھى كہ اپنى جگہ بدل دے اور وہ پيچھے كى طرف بھاگ گيا ليكن عبداللہ پكار پكار كر كہہ رہے تھے يا لثارات عثمان (عثمان كے خون كا بدلہ)معاويہ كى سپاہ نے جب يہ نعرہ سنا تو اس نے انہيں اپنا ہى سپاہى سمجھ كر انہيں راستہ ديا_

معاويہ كو چونكہ دوسرى مرتبہ اپنى جگہ سے ہٹ كر پيچھے آنا پڑا تھا اس لئے اس نے دوبارہ حبيب بن مسلمہ سے كہا كہ ميرى مدد كرو چنانچہ اس نے بڑا سخت حملہ كيا اور دائيں جانب كے لشكر (جناح راست) كو چيرتا ہوا عبداللہ بن بديل تك پہنچ گيا_ عبداللہ سو قاريوں ميں سے اكيلے رہ گئے تھے (باقى سب پسپا ہو چكے تھے) چنانچہ وہ پورى دليرى سے جنگ كرتے رہے اور زبان سے بھى كہتے رہے كہ : معاويہ كہاں ہے_ معاويہ نے جب عبداللہ كو اپنے نزديك ديكھا تو اس نے پكار كر كہا كہ اگر تلوار سے ان پر حملہ نہيں كر سكتے تو انھيں آگے بھى نہ آنے دو ان پر سنگبارى شروع كردو چنانچہ ہر طرف سے اس جانباز اسلام پر اس قدر پتھر برسائے گئے كہ وہ وہيں شہيد ہوگئے_

۲۰۴

معاويہ نے حكم ديا كہ انكے ناك، كان كاٹ لئے جائيں ليكن ان كى عبداللہ بن عامر سے چونكہ سابقہ دوستى تھى اسيلئے وہ مانع ہوئے اور معاويہ نے بھى اس خيال كو ترك كرديا_(۲۶)

حضرت علىعليه‌السلام ميدان كارزار ميں

اميرالمومنين حضرت على كمانڈر انچيف كے فرائض انجام دينے كے علاوہ بہت سے مواقع پر بالخصوص حساس ترين لمحات ميں خود بھى ميدان كارزار ميں پہنچ جاتے اور دشمن كے حملوں كا مقابل كرتے اگرچہ آپ كے اصحاب و فرزند آپعليه‌السلام كے دشمن كے درميان حائل ہوجاتے اور آپكى پورى حفاظت كرتے اور ان كى يہ خبرگيرى آپكے ليئے جنگ كرنے ميں مانع ہوتي_

بطور مثال ايك موقع پر ميان كارزار ميں بنى اميہ كے '' احمر'' نامى غلام جو بڑا جرى و دلاور شخص تھا آگے بڑھا _جس وقت حضرت علىعليه‌السلام كى نگاہ اس پر گئي تو آپ بھى اسكى طرف بڑھے اسى اثناء ميں حضرت علىعليه‌السلام كا غلام جس كا نام '' كيسان'' تھا آگے بڑھ آيا _ دونوں كے درميان كچھ دير تك نبرد آزمائي ہوتى رہى _ بالاخر وہ احمر كے ہاتھوں ماراگيا اب احمر حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھا تا كہ آپ كو شہيد كردے_ حضرت علىعليه‌السلام نے اس سے قبل كہ دشمن وار كرے ہاتھ بڑھا كر اس كا گريبان پكڑا اور اسے گھوڑے پر سے كھينچ ليا_ اور اسے سر سے اوپر اٹھا كر زمين پر دے مارا كہ اس كے شانہ و بازو ٹوٹ كر الگ ہوگئے اور ايك طرف كھڑے ہوگئے_ اتنے ميں فرزندان علىعليه‌السلام (حضرت امام حسينعليه‌السلام اور حضرت محمد حنفيہ) وہاں پہنچ گئے اور تلوار كے وارسے اسے ہلاك كرديا_

راوى مزيد بيان كرتا ہے كہ : احمر كے قتل كے بعد شاميوں نے جب حضرت علىعليه‌السلام كو اكيلا ديكھا تو وہ آپعليه‌السلام كى طرف بڑھے اور جان لينے كا ارادہ كيا اگرچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كى جانب بڑھتے رہے مگر آپعليه‌السلام كى رفتار ميں ذرا بھى فرق نہ آيا اور پہلے كى طرح آہستہ آہستہ قدم بڑھاتے رہے ، حالانكہ اپنے لشكر كى طرف پلٹنے كا ارادہ نہيں تھا_

يہ كيفيت ديكھ كر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اپنے والد محترم سے عرض كى كيا حرج ہے كہ آپعليه‌السلام اپنى

۲۰۵

رفتار تيز كرديں اور اپنے ان دوستوں سے آن مليں جو دشمن كے روبرو كھڑے ہيں اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے جواب ديا كے اے ميرے فرزند تيرے والد كا اس جہان سے كوچ كرنے كے لئے خاص وقت معين ہے اس ميں ذرا بھى پس و پيش نہيں ہوسكتى _ تيرے والد كو اس بات كا ذرا بھى غم نہيں كہ موت كو اپنى آغوش ميں لے لے يا موت خود ہى آكر گلے لگ جائے_(۲۷)

ايك موقع پر سعيد بن قيس ميدان كارزار ميں موجود تھا اس نے بھى ايك مرتبہ حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں عرض كيا : يا اميرالمومنين آپ دشمن كى صف كے نزديك حد سے زيادہ آگے آجاتے ہيں كيا آپ كو اس بات كا ذرا بھى خوف نہيں كہ دشمن آپ پر وار كر سكتا ہے اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا تھا كہ خداوند تعالى سے بڑھ كر كوئي كسى كا نگہبان نہيں اگر كوئي كنويں ميں گرجائے يا اس پر ديوار گر رہى ہو يا كوئي اور بلا نازل ہو رہى ہو تو خدا كے علاوہ اس كى كوئي حفاظت كرنے والا نہيں اور جب موت آجاتى ہے تو تمام تدابير بيكار ہوجاتى ہيں _(۲۸)

دوستوں كى حمايت و مدد

حضرت علىعليه‌السلام ميدان جنگ ميں عين اس وقت بھى جب كہ ميدان كارزار ميں پيش قدمى فرما رہے ہوتے تھے اگر ضرورت پيش آجاتى تو اپنى جان كو خطرہ ميں ڈال كر وہ اپنے ساتھيوں كى مدد كيلئے تيزى سے پہنچتے_

غرار بن ادہم شامى لشكر كا مشہور سوار تھا ايك روز اس نے عباس بن ربيعہ(۲۸) كو جنگى كشتى كيلئے للكارا عباس گھوڑے سے اتر كر نيچے آگئے اور غرار سے كشتى ميں نبرد آزما ہوگئے سخت زور آزمائي كے بعد عباس نے شامى كى زرہ كو چاك كرديا اس كے بعد آپ نے تلوار نكال كر اس كے سينے پر وارد كيا يہاں تك كہ وہ زخمى ہوكر مارا گيا يہ منظر ديكھ كر لوگوں نے نعرہ تكبير بلند كيا_

ابوالاغَرّ سے يہ واقعہ منقول ہے كہ ميں نے اچانك سنا كہ ميرے پيچھے كوئي شخص يہ آيت تلاوت كر رہا ہے'' قاتلوہم يعذبہم اللہ بايديكم و يخزہم و ينصركم على ہم و

۲۰۶

يشف صدور قوم مومنين'' (انھيں قتل كر ڈالو خدا تمہارے ذريعہ انہيں عذاب ميں مبتلا كرتا ہے اور ذليل كرتا ہے اور تمہارى مدد كرتا ہے مومنوں كے دلوں كو شفا بخشتا ہے اور ان سے كدورت دور كرتا ہے (۲۹)

جب ميں نے پلٹ كرديكھا تو وہاں اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كو پايا_ اس كے بعد آپعليه‌السلام نے مجھ سے فرمايا ہم سے كس شخص نے دشمن سے جنگ كى ؟ ميں نے عرض كيا كہ آپ كے بھتيجے نے_ اس پر آپعليه‌السلام نے فرمايا كيا ميں نے تمہيں اور ابن عباس كو جنگ كرنے سے منع نہيں كيا تھا؟ انہوں نے جواب ديا كہ جى ہاں آپ نے منع فرماياتھا_ مگر دشمن نے خود ہى مجھے للكارا_ اس پر آپ نے كہا كہ اگر تم نے اپنے پيشوا كى اطاعت كى ہوتى تو وہ اس سے كہيں زيادہ بہتر تھا كہ تم دشمن كى للكار كا جواب ديتے _ اس كے بعد آپ نے بارگاہ خداوندى ميں دعا كى كہ وہ عباس كى لغزش كو معاف كرے اور جہاد كى انہيں جزا دے_

غرّار كے قتل ہوجانے كى وجہ سے معاويہ بہت زيادہ مضطرب و آشفتہ خاطر ہوا چنانچہ اس كے حكم كے مطابق اور انعام كے وعدے پر قبيلہ '' لخم'' كے دو افراد نے عباس بن ربيعہ كو پيكار كى غرض سے للكارا_ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے انھيں نبرد آزمائي كى اجازت نہيں دى اور فرمايا كہ معاويہ تو يہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم ميں سے ايك شخص بھى زندہ نہ رہے

اس كے بعد آپعليه‌السلام نے عباس كے لباس اور اسلحہ سے خود كو آراستہ كيا اور انہى كے گھوڑے پر سوار ہو كر ان دونوں افراد كى طرف روانہ ہوئے اور انہيں وہيں ہلاك كرديا_ ميدان كارزار سے واپس آكر آپ نے عباس كا اسلحہ انہيں واپس كيا اور فرمايا كہ جو كوئي تمہيں نبرد آزمائي كے لئے للكارے پہلے تم ميرے پاس آؤ(۳۰)

اس واقعے سے يہ بات واضح ہوجاتى ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى بنى ہاشم بالخصوص خاندان رسالت كى جانب خاص توجہ و عنايت تھى اور انكى جان كى حفاظت كيلئے آپعليه‌السلام ہر ممكن كوشش فرماتے_ چنانچہ بحران جنگ ميں جب كہ آپعليه‌السلام كى جانب تيروں كى بارش ہو رہى تھى اور آپ كے فرزندوں كو دشمن اپنے تيروں كا نشانہ بنائے ہوئے تھا، اس وقت بھى آپعليه‌السلام كو اپنى جان كى پروانہ تھى چنانچہ خود آگے بڑھ كر جاتے اور اپنے ہاتھ سے تيروں كے رخ كو كبھى ايك طرف اور كبھى دوسرى جانب منتشر كرديتے_(۳۱)

۲۰۷

سوالات

۱_ حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے نمائندے معاويہ كے پاس كس مقصد كے تحت روانہ كئے؟

۲_ معاويہ نے اپنے لشكر كى كمزورى كى تلافى كس طرح كرنا چاہى اور لشكر اسلام كو كمزور و ناتوان كرنے كيلئے اس نے كيا اقدامات كئے؟ اس كى دو مثاليں پيش كيجئے؟

۳_ نبرد آزمائي سے قبل حضرت علىعليه‌السلام نے اپنے سپاہيوں كے لئے كيا احكامات صادر كئے؟

۴_ پہلى اور دوسرى عام جنگوں كا آغاز كن تاريخوں سے ہوا؟ فريقين كے لشكروں كى علامات و نعرے كيا تھے؟

۵_ حضرت علىعليه‌السلام نے جنگ سے قبل اتمام حجت كے طور پر اور مسلمانوں كى خون ريزى كو روكنے كيلئے كيا اقدامات كيئے؟

۶_ جنگى پہلو كو مد نظر ركھتے ہوئے حضرت علىعليه‌السلام كے سپاھيانہ كردار كو مختصر طور پر بيان كريں _

۲۰۸

حوالہ جات

۱_ائتوا هذا الرجل و ادعوه الى الله و الى الطاعة و الى الجماعة

۲_ وقعہ صفين ص ۱۸۸_ ۱۸۷، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۵

۳_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۸۶، وقعہ صفين ص ۱۹۵

۴_ وقعہ صفين ص ۱۹۸_ ۱۹۷

۵_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۳ _ ۲۹۱ ،تاريخ طبرى ج ۵ ص ۷ ، وقعہ صفين ص ۲۰۲_ ۲۰۱

۶_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۰ ، وقعہ صفين ص ۲۰۰ _۱۹۹ ، معاويہ كى اس گفتگو سے اندازہ ہوتا ہے كہ اس نے حضرت علىعليه‌السلام كے ديگر سرداران سے بھى اس قسم كى بات كى تھي_

۷_ وقعہ صفين ص ۱۹۰_ ۱۸۸

۸ _ وقعہ صفين ۴۹۰_۴۸۹ ، اس واقعہ كى تفصيل بعد ميں آئے گي_

۹_ وقعہ صفين ص ۱۹۰

۱۰_ وقعہ صفين ص ۲۰۴_۲۰۳

۱۱_ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۴ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۱ ، ليكن وقعہ صفين ميں صفحہ ۲۰۵ پر منقول ہے كہ سوار دستے كى كمانڈرى عمار كو اور پيادہ فوج كى عبداللہ بديل كو دى گئي_

۱۲_ كامل ج ۳ ص ۲۹۴ ، ليكن وقعہ صفين ميں درج ہے كہ فريقين كے لشكر فتح و كامرانى كے بغير واپس آئے ملاحظہ ہو وقعہ صفين ص ۲۲۲_

۱۳_ مروج الذہب ج ۲ ص ۳۷۹ ، كامل ج ۳ ص ۲۹۵_ ۲۹۴ ، وقعہ صفين ص ۲۲۳_۲۱۴

۱۴_ سورہ صف آيہ ۴) ان الله يحب الذين يقاتلون فى سبيله صفا كانهم بنيان مرصوص (

۱۵_ نہج البلاغہ كے خطبہ ۱۲۴ كا اقتباس، وقعہ صفين ص ۲۳۵

۱۶_ وقعہ صفين ص ۲۳۶

۱۷ _ كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۶

۱۸_ اس سے قبل حضرت علىعليه‌السلام كى سوارى ميں جانور خچر تھا اس روز آپعليه‌السلام نے تنومند و دراز دم گھوڑا لانے كے لئے حكم

۲۰۹

ديا_ يہ گھوڑا اس قدر تنومند و طاقتور تھا كہ اسے قابو ميں ركھنے كے لئے دو لگا ميں استعمال كرنى پڑتى تھيں اور وہ اپنى اگلى ٹانگوں سے زمين كھودتا رہتا تھا_

۱۹_ سورہ اعراف آيہ ۸۸) رَبَنا افتَح بيننا و بين قومنا بالحق و انت خير الفاتحين (

۲۰_ وقہ صفين ص ۲۳۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۷۶

۲۱_ وقعہ صفين ص ۲۲۹ ،كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۴، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۸۶

۲۲_ وقعہ صفين ص ۳۳۲

۲۳_ وقعہ فين ص ۲۴۴ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶ ، اس پورے قضيے ميں يہ نكتہ قابل توجہ ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام نے خير خواہى كا جو يہ اقدام كيا تھا اس كے پيش نظر معاويہ كے كسى سپاہى نے اپنے فيصلہ جنگ پر ترديد نہيں كى وہ اس نوجوان كو ديكھتے رہے ليكن جب معاويہ كى صفوں ميں شكست كے آثار نمودار ہوئے تو اس كے سپاہيوں نے اس شكست كى تلافى كے لئے قرآن كو نيزے پر چڑھا ليا اور وہ بھى سپاہ عراق كو قرآن كى دعوت دينے لگے حضرت علىعليه‌السلام كى سپاہ ميں سے كچھ لوگوں پر اس كا اثر ہوگيا چنانچہ انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے كہا كہ حكم صادر كيجئے كہ مالك اشتر واپس آجائيں ورنہ ہم آپعليه‌السلام كو قتل كرديں گے_

۲۵_ حضرت عبداللہ بن بديل كے بھائي كا نام بھى عثمان تھا_ وہ بھى دشمن كے ہاتھوں قتل ہوئے تھے_ يہاں عثمان سے مراد ان كے بھائي ہيں _

۲۶_ وقعہ صفين ص ۲۴۸ _ ۲۴۵، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۶، اگرچہ تاريخ كى كتابوں ميں ايسے كئي دلير جانبازوں كا ذكر ملتا ہے مگر اس كتاب كے اختصار كو مد نظر ركھتے ہوئے ان كى كيفيات بيان كرنے سے چشم پوشى كى گئي ہے تفصيل كيلئے ملاحظہ ہو شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۴ وقعہ صفين ص ۲۵۸

۲۷_ وقعہ صفين ص ۲۵۰_ ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸ ، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹، كامل ابن اثير ج ۳ ص ۲۹۹

۲۸ _ وقہ صفين ص ۲۵۰ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۹

۲۹_ عباس بن ربيعہ بن حارث بن عبدالمطلب

۳۰_ سورہ توبہ آيہ ۱۴

۳۱_ شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۲۱۹

۳۲_ وقعہ صفين ص ۲۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج ۵ ص ۱۹۸، تاريخ طبرى ج ۵ ص ۱۹

۲۱۰

گيارھواں سبق

قاسطين (جنگ صفين) ۳

استقامت و پايدارى كى نصيحت

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

جنگ ميں مالك كا كردار

دو حجر كى جنگ

حريث كا قتل

آخرى تجويز

بدترين طريقے كا سہارا

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

پھر دھوكا

جنگ كى شدت

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

عمار كى شہادت كارد عمل

سوالات

حوالہ جات

۲۱۱

استقامت و پايدارى كيلئے نصيحت

لشكر اسلام كا مركزى حصہ پہلے كى طرح اب بھى سپاہ دشمن كے قلب ميں جنگ آزما تھا حبيب بن مسلمہ كے سخت حملے كے باعث بائيں بازو كا پَرہ(جناح راست) پسپا ہوكر فرار كرنے لگا تھا اميرالومنين حضرت علىعليه‌السلام نے جب يہ كيفيت ديكھى تو انہوں نے مالك كو حكم ديا كہ ان فرار كرنے والوں كى طرف جاؤ اور ان سے كہو كہ : موت سے بچ كر كہاں جا رہے ہو كيا اس زندگى كى جانب جو قطعى ناپايدار ہے ؟ مالك فرار كرنے والوں كى جانب لپكے اور كئي مرتبہ پكار كر كہا كہ لوگو ميں مالك ہوں ليكن كسى نے ان كى جانب توجہ نہ كى جس كى وجہ يہ تھى كہ بيشتر لوگ انھيں اشتر كے نام سے جانتے تھے لہذا جس وقت انہوں نے كہا كہ ميں مالك اشتر ہوں تو فرار كرنے والے واپس آنے لگے اور ان كے گرد جمع ہوگئے_

مالك نے اپنے زور بيان سے لوگوں كو دوبارہ جنگ و نبرد كيلئے آمادہ كر ليا اس كے بعد انہوں نے قبيلہ '' مذحج'' كے افراد كو جو اپنے دليرى و جنگجوئي ميں مشہور تھے خاص طور پر نبرد آزمائي كى دعوت دى اور كہا كہ ميدان كارزار ميں اپنى مردانگى كے جوہر ديكھائيں اور دشمن كو پسپائي پر مجبور كرديں ان سب نے ايك زبان ہوكر اپنى آمادگى كا اعلان كرديا اور كہنے لگے كہ ہم آپ كے فرمانبردار ہيں طائفہ ہمدان كے سو افراد اور ان كے علاوہ ديگر چند دانشور جرائتمند اور باوفا لوگ مالك كى جانب واپس آگئے اور اس طرح دوبارہ دائيں جانب كا پرہ مضبوط ہوگيا ان كے جوش و خروش كا يہ عالم تھا كہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوجاتے اسے نيست و نابود كرديتے(۱) چنانچہ ان كے سخت و شديد حملات كا يہ نتيجہ برآمد ہوا كہ دشمن كو مجبور ا پسپا ہونا پڑا_

۲۱۲

فرار كرنے والوں كى تنبيہ و سرزنش

فرار كرنے والے جب واپس آگئے تو اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے اس پيش بندى كے خيال سے كہ يہ اقدام دوبارہ نہ ہو ان سے خطاب كرتے ہوئے فرمايا كہ : ميں نے تمہارى چابكدستى و دلاورى بھى ملاحظہ كى اور ديگر سپاہ كى صفوں سے تمہيں سرتابى كرتے ہوئے بھى ديكھا_ اہل شام تو جفا كار، پست فطرت اور صحرانشين بدو ہيں مگر افسوس انہوں نے تمہيں راہ فرار دكھا دى جب كہ تم شائستہ و لائق ، برگزيدہ اور سر برآوردہ عرب ہو جو رات كى تاريكيوں ميں قرآن پاك كى تلاوت كرتے تھے لوگ گمراہى ميں بھٹك رہے تھے تم حق كى جانب آنے كى دعوت دے رہے تھے اگر تم فرار كرنے كے بعد واپس نہ آگئے ہوتے تو وہ سخت سزا تمہارے گريبان گير ہوتى جو خداوند تعالى نے مفرورين كيلئے مقرر كى ہے_(۲)

... يہ جان لو كہ جو شخص راہ فرار اختيار كرتا ہے وہ خدا كے غضب كو برانگيختہ كرتا ہے اور خود كو ہلاكت كى جانب لے جاتا ہے اور وہ اس پستى و مذلت كى طرف چلا جاتا ہے جو ہميشہ اس كے ساتھ رہتى ہے وہ اس كے ذريعے اپنے لئے ابدى ننگ و رسوائي اور بد بختى كے سامان مہيا كرتا ہے جو شخص فرار كرتا ہے نہ اس كى عمر ميں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ہى اسے خداتعالى كى رضاء و خوشنودى حاصل ہوتى ہے اس بناپر ان مذموم صفات كو حاصل كرنے سے موت كہيں زيادہ گوارا ہے_(۳)

جنگ ميں مالك كا كردار

مالك اشتر دراز قامت ، مضبوط جسم اور لاغر بدن انسان تھے مگر بہت زيادہ طاقتور و تنومند ايك مرتبہ قيس كے دو فرزند مُنقذ اور حمير ان كے بارے ميں گفتگو كر رہے تھے _ منقذنے كہا كہ اگر مالك كى نيت ان كے عمل كى طرح ہے تو عربوں ميں ان كاثانى نہيں اس پر حمير نے جواب ديا كہ ان كا عمل ان كے خلوص نيت كا آئينہ دار ہے_(۴)

مالك سرتاپا ايسے مسلح تھے كہ انھيں پہچانا نہيں جاسكتا تھا شمشير يمانى ان كے ہاتھ ميں تھى جس

۲۱۳

وقت يہ تلوار ان كے ہاتھ ميں گھوم جاتى تھى تو لگتا تھا كہ يہ تلوار نہيں آب رواں ہے اور جس وقت فضا كو چيرتى ہوئي گذرتى تھى تو اس كى چمك سے ديكھنے والوں كى آنكھيں چكا چوند ہوجاتى تھيں _ (۵)

''ابن جمہان'' نے جب ان كى تلوار سے آگ نكلتى ديكھى اور دشمن پر ان كے شگفت آور حملے كو ديكھا تو ان سے كہا: خداوند آپ كى اس عظيم فداكارى كے بدلے ہيں جزاء خير عطا فرمائے جو آپ مسلمانوں اور اميرالمومنين كے دفاع كيلئے انجام دے ديتے ہيں _

مالك نے ہمدانيوں كے ساتھ ان پانچ صفوں كو اپنے محاصرہ ميں لے ليا تھا كہ جنہوں نے معاويہ سے يہ عہد كيا تھا كہ مرتے دم تك تم پر آنچ نہيں آنے ديں گے ليكن مالك نے چار صفوں كو پسپا كرديا_(۶)

مالك جيسے لائق و اہل فرماندار كى موجودگى جہاد ميں سپاہيوں كى حوصلہ مندى اور دل گرمى كا سبب ہوتى وہ جس لشكر پر بھى حملہ آور ہوتے وہ لشكر فرار كرجاتا اور جب كبھى منتشر و پراگندہ سپاہ كے درميان پہنچ جاتے تو انھيں لشكر كى شكل ميں مرتب و منظم كرديتے جس وقت انہوں نے يہ ديكھا كہ سپاہ اسلام كے لشكر كے فرمانداروں اور پرچمداروں ميں سے دو شخص سخت جنگ و نبرد كے بعد شہيد ہوگئے ہيں تو انہوں نے كہا كہ : خدا كى قسم يہى صبر جميل اور كريمانہ عمل ہے اور مرد وہ ہے جو ميدان كارزار ميں يا تو كسى كو قتل كردے يا خود شہيد ہوجائے اور جو اس كے بغير ميدان جنگ سے واپس آتا ہے تو كيا اس كيلئے باعث ننگ و رسوائي نہيں ہے_(۷)

دو حجر كى جنگ

صفر كى ۷ تاريخ كو جب كہ فريقين كے لشكر ايك دوسرے كے مقابل آگئے تو پہلا شص جو معاويہ كے لشكر سے نكل كر ميدان كارزار ميں آيا اور حريف كو نبرد آزمائي كيلئے للكارا وہ ''حجر شرّ''

۲۱۴

كے نام سے مشہور اور اميرالمومنين حضرت على عليه‌السلام كے يار باوفا حضرت حجر بن عدى كا چچازاد بھائي تھا حجر شر كامقابلہ كرنے كے لئے حجربن عدى ميدان جنگ ميں پہنچے اور دو حجر كے درميان سخت نبرد آزمائي ہوئي اسى اثنا ميں '' خزيمہ بن ثابت '' حجر شر كى مدد كے لئے ميدان جنگ ميں آگيا اور حجر بن عدى كو اس نے زخمى كرديا، سپاہ اسلام نے جب يہ منظر ديكھا تو وہ بھى ميدان كارزار كى جانب بڑھے اور خزيمہ بن ثابت كو قتل كرڈالا حجر شر بھى مجاہدان اسلام ميں سے ايك شخص كو قتل كرنے كے بعد اپنے چچازاد بھائي (حجربن عدى)كے ہاتھوں ہلاك ہوا اس كى ہلاكت حضرت علىعليه‌السلام كے لئے باعث مسرت ہوئي اور آپعليه‌السلام بارى تعالى كا شكر بجالائے_(۸)

حريث كا قتل

حريث معاويہ كا غلام تھا تنومند ہونے كى وجہ سے اپنے آقا كا بہت محبوب و پسنديدہ تھا اسے ميدان جنگ ميں اسى وقت بھيجا جاتا تھا جب كہ ميدان كارزار سخت گرم ہوا اور جنگ دشوار و حساس لمحات گذر رہى ہوا اس ميں اور معاويہ ميں شباہت بھى بہت زيادہ تھى چنانچہ كبھى كبھى وہ اپنا مخصوص لباس بھى اس غلام كو پہنا ديتا جس كے باعث لوگ يہ سمجھنے لگتے كہ معاويہ بذات خود ميدان جنگ ميں آگيا ہے_

معاويہ نے اس سے يہ فرمائشے كى كہ اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے علاوہ وہ جس سے بھى چاہے نبرد آزما ہوجائے ليكن عمروعاص نے اسے اپنى باتوں سے يہ ترغيب دلائي كہ موقعہ ملے تو حضرت علىعليه‌السلام سے بھى مقابلہ آرا ہوجائے چنانچہ وہ حضرت علىعليه‌السلام كا مقابلہ كرنے كے لئے گيا اور كہنے لگا كہ اگر مجھ سے زور آزمائي كرنا چاہتے ہو تو آجاؤ_ حضرت علىعليه‌السلام نے ايك ہى وار ميں اس كے دو ٹكڑے كرديئے اس كے قتل سے معاويہ كو سخت صدمہ ہوا اور اس نے عمروعاص كى سخت ملامت كي_(۹)

۲۱۵

آخرى تجويز

سرزمين صفين پر دونوں لشكروں كا قيام كافى طويل ہوگيا اس عرصے ميں فريقين كا جانى و ، مالى نقصان بھى بہت زيادہ ہوا ايك روز اس وقت جب كہ ميدان كارزار گرم تھا اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہاتھوں دشمن كے بہت سے جانباز دلاور مارے جاچكے تھے آپعليه‌السلام نے لشكر حريف كو للكارا اور كہا كہ ہے كوئي جو مجھ سے نبرد آزما ہو مگر دشمن كى صفوں ميں سے كوئي بھى ميدان جنگ ميں نہ آيا اس وقت حضر ت علىعليه‌السلام گھوڑے پر سوار تھے چنانچہ آپعليه‌السلام لشكر شام كے سامنے آئے اور معاويہ كو طلب كيا معاويہ نے كہا كہ ان سے پوچھو كہ كيا كام ہے؟ آپ نے فرمايا كيا اچھا ہوتا كہ معاويہ ميرے سامنے ہوتا اور ميں ان سے بات كرتا يہ سن كر معاويہ عمروعاص كى موافقت كے بعد اپنى صف سے نكل كر سامنے آيا_

اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام نے فرماياكہ : افسوس تيرے حال پر آخر تو نے كيوں لوگوں كو قتل كرنے پر كمر باندھ ركھى ہے؟ كب تك دونوں لشكر اپنى تلواريں كھينچے رہيں گے كيوں نہ ہم باہم نبرد آزما ہوجائيں تا كہ جو بھى غالب آجائے حكومت اسى كو مل جائے اس پر معاويہ نے عمروعاص سے پوچھا كہ تمہارى كيا رائے ہے؟ كيا ميں علىعليه‌السلام سے نبرد آزمائي كروں عمروعاص نے كہا كہ تجويز تو معقول و منصفانہ ہے اگر اس وقت اس تجويز سے روگردانى كى تو تيرا خاندان ابد تك ذلت و خوارى ميں گرفتاررہے گا_

معاويہ نے كہا كہ : بھلا ميں اور تمہارى باتوں ميں آجاؤں ميں على بن ابى طالبعليه‌السلام كو خوب جانتا ہوں خدا كى قسم اس نے جس سے بھى دست و پنجہ نرم كيا اسى كے خون سے زمين كو سيراب كرديا(۱۰) يہ كہہ كر وہ واپس اپنے لشكر كى جانب چلا گيا اور آخرى صف ميں پہنچ كر پناہ لى يہ منظر ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام كو ہنسى آگئي چنانچہ آپ بھى اپنى جگہ واپس آگئے_(۱۱)

۲۱۶

بدترين طريقے كا سہارا

حارث بن نضر كا شمار اميرالمومنين حضرت علىعليه‌السلام كے اصحاب ميں ہوتا تھا عمروعاص كو ان سے خاص دشمنى تھى او ر شايد ہى كوئي ايسى مجلس ہو جس ميں حارث كى برائي نہ كرتا ہو حارث نے بھى عمروعاص كے متعلق كچھ شعر كہے اور اس كے پاس بھيجديئے ان اشعار ميں اسے يہ اشتعال دلايا گيا تھا كہ اگر نيك نام اور كار خير كى تمنا ہے تو على بن ابى طالب كے مد مقابل آجاؤ_

ان اشعار كو پڑھ كر عمروعاص نے قسم كھائي كہ علىعليه‌السلام سے ضرور زور آزمائي كروں گا چاہے ہزار مرتبہ موت كا سامنا كرنا پڑے يہ كہہ كر وہ ميدان كارزار ميں آيا حضرت علىعليه‌السلام بھى اس كى جانب بڑھے حضرت علىعليه‌السلام كو ديكھ كر عمروعاص پر ايسا خوف طارى ہوا كہ اس نے خود كو گھوڑے سے زمين پر گرا ديا اور شرمگاہ كھول دى حضرت علىعليه‌السلام نے منھ پھير ليا تو عمروعاص نے راہ فرار اختيار كي_(۱۲)

دشمن كے سرداروں كا اعتراف

عمروعاص ، عُتبہ ،وليد، عبداللہ ابن عامر اور طلحہ كے بيٹے جيسے لشكر شام كے نامور سردار ايك رات معاويہ كے گرد جمع تھے اور گفتگو حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں ہو رہى تھى عتبہ نے كہا كہ : علىعليه‌السلام كا ہمارے ساتھ رويہ بڑا ہى عجيب و حيرتناك ہے كيونكہ ہم ميں سے كوئي بھى ايسا نہيں بچا جو ان كے ستم كا نشانہ نہ بن چكا ہو ميرے دادا عتبہ اور بھائي حنظلہ كو تو انہوں نے قتل ہى كيا تھا ميرے چچا شيبہ كے قتل ميں بھى وہ شريك تھے وليد تيرے باپ كو بھى علىعليه‌السلام نے ہى قتل كيا ہے اور اے مروان تجھے علىعليه‌السلام سے دو لحاظ سے صدمہ پہنچا ہے_

اس پر معاويہ نے كہا كہ : يہ جو كچھ تم كہہ رہے ہو تو وہ علىعليه‌السلام كى شجاعت كا اعتراف ہے تم نے ان كا كيا بگاڑ ليا؟

مروان نے كہا كہ : آپ كيا چاہتے ہيں ميں ان كا كيا كروں ؟اس نے كہا كہ اپنے نيزے سے ان كى تكہ بوٹى كردو مروان نے كہا كہ : لگتا ہے كہ آپ كو مذاق سوجھاہے اور ہمارے ذريعہ

۲۱۷

آسودہ خاطر ہونا چاہتے ہيں _

اس موقع پر وليد نے بھى چند اشعار كہے جن كا مفہوم و مضمون يہ تھا كہ : معاويہ كہتا ہے كہ ہے كوئي جو ابوالحسن پر حملہ آور ہو اور اپنے مقتول بزرگوں كا انعليه‌السلام سے انتقام لے گويا فرزند ہند كو دل لگى سوجھى ہے يا وہ كوئي اجنبى ہے جو على (ع)كو نہ پہچانتا ہو كيا تم ہميں اس سانپ سے ڈسوانا چاہتے ہيں جو صحرا كے بيچ رہتا ہے اگر كاٹ لے تو اس كے ز ہر كا منتر نہ ملے ہم تو علىعليه‌السلام كے مقابل اس بجو كى طرح ہيں جو كسى وسيع دشت ميں ہيبت ناك شير غراں كے سامنے آگيا ہو_ عمروعاص نے حيلے سے تو اپنى جان تو بچالى مگر ڈركے مارے اس كا دل سينے ميں دھڑك رہا تھا_

وليد كے اشعار سن كر عمروعاص كو غصہ آگيا اس نے جواب ديا كہ : وليد نے تو علىعليه‌السلام كے رعب دار و وحشت ناك نعروں كى ياد تازہ كردى _ ميدان جنگ ميں شجاعت و دلاورى كے جوہر ان كى ذات سے نماياں ہوتے ہيں جب قريش ان كا ذكر كرتے ہيں تو ان كے دلوں كے پرندے سينوں كے قفس سے پرواز كرنے لگتے ہيں تم مجھے تو تنبيہہ و توبيخ كر رہے درحاليكہ معاويہ اور وليد تك علىعليه‌السلام سے دہشت كھاتے ہيں _ اور وليد اگر تو سچ كہہ رہا ہے اور كوئي سور ماسوار ہے تو علىعليه‌السلام كا سامنا كر خدا كى قسم اگر علىعليه‌السلام كى آواز بھى سن لى تو دل ہوا ہوجائے گا اور رگيں پھول كر كپہ ہوجائيں گى اور عورتيں تيرا سوگ مناتى رہيں گي_(۱۳)

پھر دھوكا

دليرى و جانبازى ، راہ خدا ميں جہاد مقدس اور شرك كے گدى داروں كى بيخ كنى حضرت علىعليه‌السلام كے ايسے نماياں كار نامے ہيں جن كا شمار آپ كے اہم ترين امتيازات و افتخارات ميں ہوتا ہے ليكن معاويہ رائے عامہ كو بدلنے كى خاطر انہى فضائل كو ايسے نقص سے تعبير كرتا تھا جو اس كے خيال كى روسے امور زمامدارى اور امت كى قيادت ميں مانع ثابت ہوتے ہيں _

ايك روز معاويہ نے عبيداللہ بن عمر كو اس كام پر مقرر كيا كہ وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس

۲۱۸

جائے اور ان سے ملاقات كرے اور ان تك معاويہ كا پيغام پہنچائے جب وہ حضرت امام حسنعليه‌السلام كے پاس پہنچا تو اس نے كہا كہ : آپ كے والد نے اول سے آخر تك قريش كا خون بہايا ہے اور اپنے عمل سے ان كے دلوں ميں جذبہ كينہ و دشمنى كو بر افروختہ كيا ہے كيا آپ ان كا ساتھ ترك نہيں كر سكتے تا كہ زمام خلافت آپ كے اختيار ميں دے دى جائے اس پر حضرت امام حسنعليه‌السلام نے فرمايا كہ : يہ ہرگز ممكن نہيں خدا كى قسم يہ كام كسى بھى صورت ميں عمل پذير نہيں ہوسكتا لگتا ہے كہ تيرا وقت پورا ہوچكا ہے اور تو آج يا كل ميں قتل ہونے والا ہے شيطان نے تجھے فريفتہ كر ليا ہے اسى لئے اس نے تيرے كاروبار كو رونق بخشى ہے خداوند تعالى تجھے نيست و نابود كرے_

عبيداللہ، معاويہ كے پاس واپس آگيا اور تھوڑى دير نہ گذرى تھى كہ چار ہزار سپاہيوں كا لشكر ميدان ميں حملہ آور ہوا اور طائفہ ہمدان كے ايك شخص كے ہاتھوں قتل ہوا امام مجتبىعليه‌السلام نے جوپشين گوئي فرمائي تھى وہ صحيح ثابت ہوئي_

حضرت امام حسنعليه‌السلام نے اس كا خون آلود لاشہ جب زمين پر گرا ہوا ديكھا تو آپ كو مسرت ہوئي اور خداوند تعالى كاشكر ادا كيا_(۱۴)

نويں روز جب كہ پرچم، ہاشم مرقال كے ہاتھ ميں تھا سپاہ اسلام ميں خاندان مذحج اور سپاہ شام سے، عك، لخم اور اشعريوں كے درميان شديد جنگ جارى تھى ، حضرت علىعليه‌السلام كى تلوار سے پانچ سو سے زيادہ عرب كے سربرآورہ اور دلاور قتل ہوئے يہاں تك كہ آپ كى تلوار خميدہ ہوگئي_

راوى كا بيان ہے كہ ہم حضرت علىعليه‌السلام كى خميدہ تلوار ليتے اور اسے سيدھا كرديتے اور واپس دے ديتے جسے لے كر آپ دشمن كى صفوں ميں اتر جاتے خدا كى قسم ہم نے كوئي ايسا شجاع نہيں ديكھا جو دشمن كے لئے علىعليه‌السلام سے زيادہ سخت ہو_(۱۵)

اس روز فريقين كے لشكر ايك دوسرے كى جان لينے پر تلے ہوئے تھے پہلے تو تيروں اور پتھروں سے مقابلہ ہوتا رہا اس كے بعد نيزوں سے جنگ ہوئي جب نيزے بھى ٹوٹ گئے تو تلواروں اور لوہے كے گرزوں سے ايك دوسرے پر حملہ آور ہوئے اس دن ميدان كارزار ايسا

۲۱۹

گرم تھا كہ اسلحہ كى چكاچك كے علاوہ كوئي آواز سنائي نہ ديتى تھى _ نعروں كى گونج ، بجلى كى گرج ، پہاڑوں كى چٹانيں ٹكرانے سے كہيں زيادہ ہولناك تھى فضا اس وقت ايسى گرد آلود تھى كہ لگتا تھا كہ سورج غروب ہو رہا ہے اس گردو خاك اور تاريكى كے درميان پرچم و بيرق كہيں نظر نہ آتے تھے مالك اشتر كبھى سپاہ ميمنہ كى طرف جاتے اور كبھى لشكر ميسرہ كى جانب لپكتے چنانچہ وہ جس لشكر يا قبيلے كے پاس پہنچتے جنگ جارى ركھنے كے سلسلے ميں اس كى حوصلہ افزائي كرتے_

جنگ نصف شب تك جارى رہى اس قت نماز پڑھنے كا بھى موقعہ نہ تھا(۱۵) مالك اشتر مسلسل ميدان جنگ كى جانب بڑھے چلے جارہے تھے يہاں تك كہ كار زار، ان كے پيچھے رہ گيا اور وہ آگے نكل گئے_

اس اثنا ميں حضرت امام مجتبىعليه‌السلام دشمن پر حملہ آور ہونے كے ارادے سے آگے بڑھے ليكن انھيںعليه‌السلام ديكھ كر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ : ان كو ميدان جنگ ميں جانے سے روكا جائے كيونكہ ان دو فرزندوں (حضرت امام حسنعليه‌السلام و حضرت امام حسين (ع)) كى جانب ميرى خاص توجہ ہے كہيں ايسا نہ ہو كہ نسل پيغمبر روئے زمين سے مفقود و ناپديد ہوجائے_(۱۶)

اميرالمومنينعليه‌السلام قلب لشكر ميں پيش پيش تھے مالك دائيں پرے ميں اور ابن عباس سپاہ كے بائيں پرے ميں موجود تھے انجام كار يہ جنگ نويں روز اس دسويں شب جو ليلة الہرير(۱۷) كے نام مشہور ہے اختتام پذير ہوئي جس ميں فريقين كا بہت زيادہ جانى و مالى نقصان ہوا اور دونوں لشكروں(۱۸) كے سپاہى بھى تھك چكے تھے مگر تھكن كے آثار سپاہ شام ميں نظر آتے تھے اور فتح و ظفر كى علامات سپاہ عراق سے ہويدا تھيں _

دو لائق سپہ سالاروں كى شہادت

نويں روز جو دردناك حادثات رونما ہوئے ان ميں حضرت علىعليه‌السلام كے دو فرمانداروں يعنى عمار ياسر اور ہاشم مرقال كى شہادت تھى اگرچہ عمار كى عمر نوے سال سے تجاوز كر گئي تھى مگر ان ميں اس

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296