منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)26%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137381 / ڈاؤنلوڈ: 6248
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں

۱

نام کتاب: منارۂ ہدایت،جلد ۱

(سیرت رسول خدا(ص))

تالیف:

سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی

(گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )

ترجمہ: نثار احمد زین پوری

تطبیق اورتصحیح : قمر عباس آل حسن

نظر ثانی : سید محمد جابر جوراسی

پیشکش : ادارہ ترجمہ معاونت فرہنگی ،مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

طبع اول : ۱۴۲۹ھ ۲۰۰۸ئ

تعداد: ۳۰۰۰

۲

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچہ و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافوراور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفی(ص) غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔اگرچہ رسول(ص) اسلام کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہل بیت اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی،

۳

پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہل بیت نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کے سامنے پیش کئے جنھوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہل بیت پر ٹکی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔(عالمی اہل بیت کونسل) مجمع جہانی اہل بیت نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہل بیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینے کو وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہل بیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوت(ص)و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر(عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۴

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہل بیت کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،جس کو فاضل جلیل مولانا نثار احمد زین پوری صاحب نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں ،اسی منزل میں ہم اپنے تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

و السلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام

۵

عرض مؤلف

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد للّٰه الّذی اعطیٰ کلّ شیئٍ خَلْقَه ثم هدیٰ ثم الصلوٰة و السلام علیٰ من اختارهم هداة لعباده لا سیِّما خاتم الانبیاء و سید الرسل و الاصفیاء ابی القاسم المصطفیٰ محمد و علیٰ آله المیامین النجباء

حمد ہے بس اس اللہ کے لئے جس نے انسان کو عقل و ارادہ جیسی قوت عطا کی ہے، عقل کے ذریعہ وہ حق کا سراغ لگاتا ہے ،اسے دیکھتا ہے اور اسے باطل سے جدا کر لیتا ہے وہ ارادہ کے وسیلہ سے اس چیز کو اختیار کرتا ہے جو اس کے اغراض و مقاصد کی تکمیل کا باعث اور اس کے حق میں مفید ہوتی ہے ۔

بھلے برے کو پہچاننے والی عقل کو خدا نے اپنی مخلوق پر حجّت قرار دیا ہے اور اپنی ہدایت کے ذریعہ اس کی مدد کی ہے ، اس نے انسان کو وہ چیز سکھائی جس کا اسے علم نہیں تھا اور اس کے مناسب حال، کمال کی طرف اسکی ہدایت کی اور اسے اس غرض ومقصد سے آگاہ کیا جس کے لئے اسے پیدا کیا اور جس کے لئے وہ اس دنیا میں آیا ہے ۔

قرآن مجید نے اپنی صریح آیتوںکے ذریعہ ربّانی ہدایتوں کے مناروں، اس کے آفاق ، اس کے لوازم اور اس کے راستوں کو واضح کیا اور پھر ایک طرف تو ہمارے لئے اس کے علل و اسباب کو بیان کیا اور دوسری طرف اس کے نتائج پرسے پردہ ہٹایا۔

خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( قل انّ الهُدیٰ هو الهُدیٰ ) ( ۱ )

آپ کہہ دیجئے کہ ہدایت، بس اللہ کی ہدایت ہے ۔

( و اللّٰه یهدی من یشاء الیٰ صراط مستقیم ) ( ۲ )

اور خدا جس کو چاہتا ہے سیدھے راستہ کی ہدایت کردیتا ہے ۔

___________________

۱۔انعام : ۷۱۔

۲۔ بقرہ: ۲۱۳۔

۶

( واللّٰه یقول الحقّ و هو یهدی السّبیل ) ( ۳ )

اور خدا حق ہی کہتا ہے اور وہی سیدھے راستہ کی ہدایت کرتا ہے ۔

( و من یعتصم باللّه فقد هدی الیٰ صراط مستقیم ) ( ۴ )

جو خدا سے وابستہ ہو جاتا ہے اسے صراط مستقیم کی ہدایت ہو جاتی ہے ۔

( قل اللّٰه یهدی للحق افمن یهدی الیٰ الحق احقّ ان یتّبع امّن لا یهدی الّا ان یُهدیٰ فما لکم کیف تحکمون ) ( ۵ )

کہدیجئے کہ خدا حق کی ہدایت کرتا ہے سپس جو حق کی طرف ہدایت کرے وہ قابل اتباع ہے یاپھر وہ لائق اتباع ہے کہ جو ہدایت نہیں کرتا ہے ،بلکہ خود محتاجِ ہدایت ہے ؟تمہیں کیا ہو گیا ہے تم کیسا فیصلہ کرتے ہو؟

( و یری الّذین اوتوا العلم الذی انزل الیک من ربّک هو الحق و یهدی الیٰ صراط العزیز الحمید ) ( ۶ )

اور جن لوگوں کو علم دیا گیا ہے وہ اس چیز کوحق سمجھتے ہیں جو آپ کی طرف نازل کی گئی ہے اور وہی عزیز و حمید کے سیدھے راستہ کی ہدایت کرتی ہے ۔

____________________

۳۔ احزاب: ۴۔

۴۔آل عمران: ۲۱ ۔

۵۔یونس: ۳۵۔

۶۔ سبائ: ۶ ۔

۷

( و من اضلّ ممّن اتّبع هواه بغیر هدی من اللّٰه ) ( ۱ )

اور اس سے بڑا گمراہ کون ہوگا جس نے خدا کی ہدایت سے سروکار رکھے بغیربس اپنی خواہش کی پیروی کی۔

ہدایت کا سرچشمہ صرف خدا ہے۔ اس کی ہدایت ، حقیقی ہدایت ہے وہی انسان کو صراط مستقیم اور حق کی راہ پر لگاتا ہے ۔

علم بھی انہیں حقائق کی تائید کرتا ہے اور علماء بھی انہیں کو تسلیم کرتے ہیں۔ بیشک خدا نے انسان کی فطرت میں یہ صفت ودیعت کر دی ہے کہ و ہ کمال و جمال کی طرف بڑھتا رہے ۔ پھر اس کمال کی طرف اس کی راہنمائی کی جو اس کے شایان شان ہے اس کو ایسی نعمتوں سے نوازا جن کے ذریعہ وہ کمال کے راستوں کو پہچان سکتا ہے ۔ اسی لئے فرمایا ہے :( وما خلقتُ الجنَّ و الانسَ الا لیعبدون ) ( ۲ ) میں نے جن و انس کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں۔

واضح ہو کہ عبادت، معرفت کے بغیر نہیں ہو سکتی اور معرفت و عبادت ہی ایسا راستہ ہے جو معراجِ کمال تک پہنچاتا ہے ۔

انسان کے اندر خدا نے غضب و شہوت جیسی دو طاقتیں رکھی ہیں تاکہ وہ ان کے ذریعہ کمال کی طرف بڑھے لیکن اس پر غضب و شہوت غالب آسکتی ہے اور ان دونوں سے عشق و ہوس کی آگ بھڑک سکتی ہے اس لئے عقل اور معرفت کے دیگر اسباب کے علاوہ انسان کو ایسی چیز کی ضرورت ہے جو اس کی فکر و نظر کو محفوظ رکھ سکے اس پر خدا کی حجّت تمام ہو جائے اور اس کے لئے نعمت ہدایت کی تکمیل ہو جائے مختصر یہ کہ اس کے پاس ایسے تمام اسباب جمع ہو جائیں کہ جو اسے خیر و سعادت یا شر و بدبختی کا راستہ کامنتخب کرنے کااختیار دیدیں(کہ جس پر چاہے گامزن ہو جائے)۔

اس لئے ہدایت ربّانی کا تقاضاہوا کہ وحی اور خدا کے ان برگزیدہ ہادیوں کے ذریعہ عقل انسان کی مدد کی

____________________

۱۔قصص :۵۰۔

۲۔ذاریات: ۵۶۔

۸

جائے کہ جن کے دوش پر بندوں کی ہدایت کی ذمہ داری ہے اور یہ کام معرفت کی تفصیلوں اور زندگی کے ہر موڑ پر انسان کی رہبری ہی کے ذریعہ ہو سکتا ہے ۔

ہدایت ربانیہ کی مشعل آغاز تاریخ ہی سے انبیاء اور ان کے اوصیاء کے ہاتھ میں رہی ہے خدا نے اپنے بندوں کو ، ہادی و حجت، ہدایت کرنے والے مناروں اور نور درخشاںچمکتے نور کے بغیرنہیں چھوڑا ہے جیسا کہ عقلی دلیلوں کی تائید کرتے ہوئے وحی کی نصوص نے بیان کر دیا ہے : زمین حجتِ خدا سے اس لئے خالی نہیں رہ سکتی تاکہ خدا پر لوگوں کی حجّت تمام ہو جائے، بلکہ خدا کی حجّت خلق سے پہلے بھی تھی، خلق کے ساتھ بھی ہے اور خلق کے بعد بھی رہے گی اگر روئے زمین پر دو انسان رہیں گے تو ان میں سے ایک حجّت ہوگا۔ اس چیز کو قرآن مجید نے اس طرح بیان کیا ہے کہ جس سے شک کی گنجائش باقی نہیں رہتی؛ ارشاد ہے:

( انما انت منذر و لکل قوم هاد ) ( ۱ )

آپ تو بس ڈرانے والے ہیں اور ہر قوم کے لئے ہادی ہے ۔

انبیاء اور ان کے ہدایت یافتہ اور ہدایت کرنے والے اوصیاء نے ہدایتوں کی ذمہ داری اپنے دوش پر لی تھی ان کی صلاحیتوں کاخلاصہ درج ذیل شقوں میں ہوتا ہے:

۱۔ وحی کو مکمل طور سے درک کریں اورپیغامِ رسالت کو گہرائی سے حاصل کریں، رسالت و پیغام کے حصول کے لئے صلاحیت کامل ضروری ہے یہی وجہ ہے کہ رسولوں کا انتخاب خدا نے اپنے ہاتھ میںرکھا ہے۔ خدا وند عالم قرآن مجید میں فرمایا ہے:

( اللّٰه اعلم حیث یجعل رسالته ) ( ۲ )

خد ابہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کہاں قرار دے۔

( واللّٰه یجتبی من رسله من یشائ ) ( ۳ )

____________________

۱۔رعد:۷۔

۲۔انعام: ۱۲۴۔

۳۔ آل عمران ۱۷۹ ۔

۹

اور خدا اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کر لیتا ہے ۔

۲۔ خدائی پیغام کو بندوں تک اور ان موجودات تک پہنچانا جن کی طرف انہیں مبعوث کیا گیا ہے اور صحیح پیغام اسی صورت میں پہنچ سکتا ہے کہ جب پیغام کو مکمل اور صحیح طریقہ سے حاصل کیاگیا ہو،وہ رسالت اور اسکے تقاضوں سے واقف ہو اور خطا و لغزش سے معصوم و محفوظ ہو۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:

( کان النّاس امة واحدة فبعث اللّٰه النبیین مبشّرین و انزل معهم الکتاب بالحق لیحکم بین النّاس فیما اختلفوا فیه ) ( ۱ )

سارے لوگ ایک امت تھے پس خدا نے بشارت دینے والے نبی بھیجے اور ان کے ساتھ برحق کتاب نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے اختلاف کا فیصلہ کریں۔

۳۔الٰہی پیغام کی روشنی میں مومن امت کی تشکیل، اور رہبر و ہادی کی مدد کے لئے امت کو آمادہ کرناتاکہ رسالت کے مقاصد پورے ہو جائیں اور زندگی میں اس کے قوانین نافذ ہو جائیں، اس مشن کو قرآن مجید میں دو عنوان سے یاد کیا گیا ہے''تزکیہ و تعلیم'' خدا وند عالم فرماتا ہے:

( یزکّیهم و یعلّمهم الکتاب و الحکمة ) ( ۲ )

رسول(ص) ان کو پاک کرتا ہے انہیںکتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے ۔

تزکیہ یعنی اس کمال کی طرف راہنمائی کرنا جو انسان کے شایان شان ہے، تربیت کے لئے ایسا نمونہ چاہئے کہ جس میں کمال کا ہر عنصر موجود ہو، چنانچہ خدا نے ایسا نمونہ بھی پیش کر دیا:

( لقد کان لکم فی رسول اللّٰه اسوة حسنة ) ( ۳ )

بیشک رسول(ص) میں تمہارے لئے اچھا نمونہ ہے ۔

____________________

۱۔بقرہ: ۲۱۳۔

۲۔ جمعہ: ۲ ۔

۳۔ احزاب:۲۱۔

۱۰

۴۔اور اس پیغام کو اپنی معینہ مدت میں تحریف و تبدیلی اور زمانہ کی دست برد سے محفوظ رہنا چاہئے اس مشن کے لئے بھی نفسانی اور علمی صلاحیت کی ضرورت ہوتی ہے ، اسی نفسانی و علمی صلاحیت کو عصمت کہتے ہیں۔

۵۔ معنوی رسالت کے مقاصد کی تکمیل اور لوگوں کے نفسوں میں اخلاقی اقدار کے نفوذ و رسوخ کے لئے کام کیا جائے اور یہ ربّانی مسائل کے نفوذ کے ساتھ (خدائی حکم کے نفوذ ہی سے ہو سکتا ہے) یہ اسی وقت ہو سکتا ہے جب معاشرہ میں ایک سیاسی نظام کے تحت دین حنیف کے قوانین نافذ ہوں اور امت کے مسائل و معاملات کو ان قوانین کے مطابق رواج دیاجائے جو خدا نے انسان کے لئے معین کئے ہیں ظاہر ہے کہ ان کے نفاذ کے لئے ایک ایسے شخص کی ضرورت ہے جو حکیم شجاع ، ثابت قدم، لوگوں کے مزاج اور معاشرہ کے طبقوں سے آشنا، فکری رجحان، سیاسی و سماجی دھارے سے آگاہ، نظم و نسق کے قانون اور زندگی کے طریقوں سے با خبر ہو، ایک عالمی اوردینی حکومت چلانے کے لئے مذکورہ صلاحیتوں کی ضرورت ہے ، چہ جائیکہ عصمت جو کہ ایک نفسانی کیفیت ہے۔ یہ قائد کو کجروی اور ایسا غلط کام کرنے سے باز رکھتی ہے کہ جس کا خود قیادت پر منفی اثر ہوتا ہے اوراس صورت میں امت اپنے رہبر کی اطاعت بھی نہیں کرتی ہے اوریہ چیز رسالت کے اغراض و مقاصد کے منافی ہے۔

گذشتہ انبیاء اور ان کے برگزیدہ اوصیاء دائمی ہدایت کے راستہ پر گامزن ہوئے اور تربیت کی دشوار راہوں کو اختیار کیا اور رسالت کی ذمہ داری کو پورا کرنے کے لئے ،الٰہی رسالت کے مقاصد کی تکمیل کی راہ میں انہوں نے ہر اس چیز کی قربانی دی کہ ایک سر فروش اپنے عقیدہ کے لئے جس کی قربانی دے سکتا ہے ، وہ لمحہ بھر کے لئے بھی اپنے موقف سے نہیں ہٹے اور چشم زدن کے لئے بھی بہانہ سے کام نہیں لیا چنانچہ ان کی صدیوں کی مسلسل کوشش و جانفشانی کے سلسلہ میں خدا نے محمد(ص) بن عبد اللہ کے سر پر ختم نبوت کا تاج رکھا عظیم رسالت اور ہر قسم کی ہدایت کی ذمہ داری ان ہی کے سپرد کر دی اور آپ(ص) سے کار رسالت کی تکمیل کی فرمائش کی چنانچہ آنحضرت (ص) نے اس پر خطر راہ میں حیرت انگیز قدم اٹھائے اور مختصر مدت میں انقلابی دعوت کو کامیابی سے ہمکنار کیا اور یہ آپ(ص) کی دن رات کی کوشش و جانفشانی کا ثمرہ دو عرصوں کی دین ہے:

۱۱

۱۔ بشر کے سامنے ایک ایسا مشن پیش کیا جو اپنے دامن میں دوام و بقا کی دولت لئے ہوئے تھا۔

۲۔ بشریت کو ایسی چیزوں سے مالا مال کیا جو اسے کجروی و انحراف سے محفوظ رکھیں۔

۳۔ایسی امت کی تشکیل کی جو اسلام پر ایمان رکھتی ہے، رسول(ص) کو اپنا قائد سمجھتی ہے اور شریعت کو اپنا ضابطۂ حیات تسلیم کرتی ہے ۔

۴۔ اسلامی حکومت بنائی،اورایسے سیاسی نظام کی تشکیل کی جو پرچم اسلام کو بلند کئے ہوئے ہے اور آسمانی قانون کو نافذ کرتا ہے ۔

۵۔ ربّانی قیادت کے لئے صاحب حکمت اور ایسا جانا پہچاناانسان پیش کیا جو رسول(ص) کی قیادت میں جلوہ گر ہوا۔

رسالت و مشن کے مقاصد کی تکمیل کے لئے ضروری ہے کہ:

الف۔ ایسی قیادت کا سلسلہ جاری رہے جو رسالت کے احکام نافذ کر سکے اور اسے ان لوگوں سے بچا سکے جو اسے مٹانے کے لئے گھات لگائے بیٹھے ہیں۔

ب۔ صحیح تربیت کا سلسلہ نسلوں تک جاری رہے اس کی ذمہ داری اس شخص پر ہو جو علمی اور نفسانی لحاظ سے انسان کامل ہو جو اخلاق و کردار میں رسول(ص) جیسا نمونہ ہو، جس کی حرکت و سکون میں رسالت کا عکس نظر آئے۔

یہاں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ خدائی منصوبہ تھا ۔ اس نے رسول(ص) پر یہ فرض کیا کہ رسول اپنے اہل بیت میں سے منتخب افراد کو تیار کریں اور ان کے نام اور کردار کو بیان کریں تاکہ وہ حکم خدا سے نبی(ص) کی تحریک اور خدائی ہدایت کی ذمہ داری کو قبول کر لیں رسالت الٰہیہ کو(جس کے لئے خدا نے دوام لکھدیا ہے-) جاہلوں کی تحریف سے اور خیانت کاروں کی دست برد سے بچائیں اور نسلوں کی تربیت اس شریعت کی رو سے کریں جس کی نشانیوں کو بیان کرنے اور ہر زمانہ میں جس کے اسرار و رموز کو واضح کرنے کی ذمہ داری اپنے دوش پرلی ہے یہاں تک کہ خدا انہیں زمین اور اس کی تمام چیزوںکا وارث بنا دے ۔

۱۲

یہ خدائی اور الٰہی منصوبہ رسول(ص) کی اس حدیث سے واضح ہوتا ہے:

''انّی تارک فیکم الثّقلین ما ان تمسکتم بهما لن تضلّوا ، کتاب اللّٰه و عترتی و انّهما لن یفترقا حتی یردا علّ الحوض''

میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑ ے جا رہا ہوں اگر تم ان دونوں سے وابستہ رہے تو ہر گز گمراہ نہ ہوگے ایک خدا کی کتاب اور دوسرے میری عترت یہ دونوں ایک دوسرے سے ہرگز جدا نہیں ہوںگے یہاں تک کہ میرے پاس حوض (کوثر) پر پہنچیں گے۔

امت کی قیادت و رہبری کے لئے نبی(ص) نے حکمِ خدا سے جن لوگوں کا تعارف کرایا تھا ان میں ائمہ اہل بیت سب سے افضل ہیں۔

بیشک اہل بیت میں سے بارہ اماموں نے رسول(ص) کے بعد اسلام کے حقیقی راستہ کی نشاندہی کی ۔ ان کی زندگی کی مکمل تحقیق و مطالعہ سے خالص اسلام کی تحریک کی پوری تصویرسامنے آتی ہے اب اس کے نقوش امت میں گہرے ہو رہے ہیں حالانکہ رسول(ص) کی وفات کے بعد اس کا جوش و ولولہ ماند پڑ گیا تھا۔ ائمہ معصومین نے امت کی روشن فکری اور اس کی طاقت کو صحیح سمت دینے کی کوشش کی اور شریعت و تحریک اور انقلاب رسول(ص) سے متعلق امت کے اندر بیداری پیدا کی حالانکہ وہ دنیا کی اس روش سے بھی نہیں ہٹے جو امت اور رہبر کے طرز عمل پر حاکم ہے۔

ائمہ معصومین کی پوری حیات اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ لمحہ بھر کے لئے بھی سنتِ رسول(ص) سے جدا نہیں ہوئے اور امت نے بھی ان سے اسی طرح استفادہ کیا جس طرح منارۂ ہدایت سے استفادہ کیا جاتا ہے یا جیسے اس چراغ سے استفادہ کیا جاتا ہے جس کو راستہ چلنے والوں کے لئے سر راہ رکھ دیا جاتا ہے پس وہ خدا اور اس کی رضا کی طرف راہنمائی کرنے والے، اس کے حکم پر ثابت و پابند ، اس کی محبت میں کامل اور اس کی ملاقات کے شوق میں گھلنے والے اور کمالِ انسانی کی چوٹیوں پر پہنچنے کے لئے سبقت لے جانے والے ہیں۔

۱۳

ان کی زندگی جفا کاروں کی جفا سے اورا طاعتِ خدا میں صبر و جہاد سے معمور ہے ۔ احکام خدا کے نفاذ کے سلسلہ میں انہوں نے بے مثال ثابت قدمی اور استقلال کا ثبوت دیا اور پھر ذلت کی زندگی قبول نہ کرتے ہوئے عزت کی موت قبول کر لی یہاں تک کہ ایک عظیم جنگ اور جہاد اکبر کے بعدخدا سے جا ملے۔

مورخین اور صاحبان قلم ان کی زندگی کے تمام پہلوئوں کو بیان نہیں کر سکتے اور یہ دعویٰ نہیں کر سکتے کہ ہم نے ان کی زندگی کے ہر پہلو کا احاطہ کر لیاہے ظاہر ہے کہ ہماری یہ کاوش بھی ان کی زندگی کے بعض درخشاں پہلوئوں ہی کو پیش کرے گی۔ ہم نے ان کی سیرت و کردار اور موقف کے انہیں گوشوں کو بیان کیا ہے جو مورخین نے تحریر کئے ہیں۔

ہاں ہم نے ان کے منابع و مصادر کا مطالعہ کیا ہے ۔امید ہے کہ خدا اس کے ذریعہ فائدہ پہنچائے گا وہی تو فیق دینے والا ہے۔

اہل بیت کی رسالتی تحریک خاتم النبیین رسول(ص) اسلام محمد بن عبد اللہ سے شروع ہوتی ہے اور خاتم الاوصیاء محمد بن حسن العسکری حضرت مہدی منتظر (خدا ان کے ظہور میں تعجیل کرے اور ان کے عدل سے زمین کو منورکرے)پر منتہی ہوتی ہے۔

یہ کتاب رسول مصطفیٰ حضرت محمد(ص) بن عبد اللہ کی حیات سے مخصوص ہے کہ جنہوں نے اپنی فردی اور اجتماعی زندگی کے ہر موڑ پر اور حالات کی سیاسی و اجتماعی پیچیدگی میں اسلام کے ہر پہلو کو مجسم کر دکھایا اور اسلام کے مثالی اقدار کی بنیادوں کو فکر و عقیدہ کی سطح پر بلند کیا اور اخلاق و کردار کے آفاق پر اونچا کیا۔

ہم یہاں جناب حجة الاسلام و المسلمین سید منذر الحکیم حفظہ اللہ کی زیر نگرانی کام کرنے والی ہیئت تحریریہ اور ان تمام برادران کا شکریہ ادا کر دینا ضروری سمجھتے ہیں جنہوں نے اس کتاب کی اشاعت میں حصہ لیاہے ہم خداوند عالم کا شکر ادا کرتے ہیں کہ اس نے اس مجموعے کی تکمیل کی توفیق مرحمت فرمائی وہی ہمارے لئے کافی ہے اور وہ بہترین مددگار ہے ۔

مجمع عالمی اھل البیت علیہم السلام

قم المقدسہ

۱۴

پہلا باب

مقدمہ

سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

پہلی فصل

خاتم النبیین (ص) ایک نظر میں

دوسری فصل

بشارت

تیسری فصل

خاتم النبیین (ص)کے اوصاف

۱۵

مقدمہ

سیرت و تاریخ کی تحقیق کے بارے میں قرآن کا نظریہ

قرآن مجید نے انبیاء کی سیرت کو پیش کرنے پر خاص توجہ دی ہے ان کی سیرت کو پیش کرنے میں قرآن کا اپنا خاص اسلوب ہے ۔

ان برگزیدہ افراد کی سیرت کو پیش کرنے کے لحاظ سے قرآن مجید کا یہ اسلوب کچھ علمی اصولوں پر قائم ہے ۔

قرآن مجید لہجۂ ہدایت میں بات کرتا ہے ، جو انسان کی اس کے شایان شان کمال کی طرف راہنمائی کرتا ہے ، اور تاریخی حوادث کے ایک مجموعہ کے لئے کچھ حقیقت پر مبنی مقاصد کو مد نظر رکھتا ہے ، یہ حوادث فردی و اجتماعی زندگی میں خاص اہمیت کے حامل ہیں۔ ممکن ہے یہ علوم و معارف کے ان دروازوں کے لئے کلید بن جائیں جو انسان کے تکاملی سفر میں کام آتے ہیں۔

ان مقاصد تک پہنچنے کے لئے قرآن مجید نے وسیلے معین کئے ہیں چنانچہ وہ عقل اور صاحبان عقل کو مخاطَب قرار دیتا ہے اور انسان کے سامنے نئے آفاق کھول دیتا ہے،وہ فرماتا ہے:

۱۔( فاقصص القصص لعلهم یتفکرون ) ( ۱ )

آپ قصے بیان کر دیجئے ہو سکتا ہے یہ غور کریں۔

____________________

۱۔اعراف: ۱۷۶ ۔

۱۶

۲۔( لقد کان فی قصصهم عبرة لاولی الالباب ) ( ۱ )

یقینا ان کے قصوں میں صاحبان عقل کے لئے عبرت ہے ۔

بیشک گذشتہ قوموں کی تاریخ اور راہبروں کی سیرت کے بارے میں غور کرکے عبرت حاصل کرنا چاہئے یہی دونوں تاریخ کے بارے میں قرآنی روش کے دو بنیادی مقاصد ہیں۔

واضح رہے کہ سارے مقاصد انہیں دونوں میں محدود نہیں ہیں بلکہ ان کے علاوہ بھی دوسرے مقاصد ہیں جن کی طرف خدا کے اس قول میں اشارہ ہوا ہے:

( ما کان حدیثا یفتریٰ ولکنّ تصدیق الّذی بین یدیه و تفصیل کل شیء و هدی و رحمة لقومٍ یومنون ) ( ۲ )

یہ کوئی ایسی بات نہیں ہے جس کو گڑھ لیا جائے قرآن گذشتہ آسمانی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے اور اس میں ہر چیز کی تفصیل ہے اور اس میں مومنوں کے لئے ہدایت و رحمت ہے ۔

دوسری جگہ ارشاد ہے :

( وکلاً نقص علیک من انباء الرسل ما نثبت به فواد و جائک فی هذه الحق و موعظة و ذکریٰ للمومنین ) ( ۳ )

ہم آپ سے پہلے رسولوں کے قصے بیان کرتے رہے ہیں تاکہ ان کے ذریعہ آپ کے دل کو مضبوط رکھیں، اور ان قصوں میں حق، نصیحت اور مومنین کے لئے عبرت ہے ۔

انبیاء و مرسلین کی خبروں کو پیش کرنے اور ان کے واقعات کو بیان کرنے کے لئے ہر آیت میں چار مقاصد بیان ہوئے ہیں۔

____________________

۱۔ یوسف:۱۱۱۔

۲۔ یوسف:۱۱۱ ۔

۳۔ہود:۱۲۰۔

۱۷

قرآن مجید اپنے منفرد تاریخی اسلوب میں مذکورہ چار اصولوں پر اعتماد کرتا ہے :

۱۔ حق

۲۔ علم

۳۔گردش زمانہ کا ادراک

۴۔ اس پر پورا تسلط

قرآن مجید جن تاریخی مظاہر اور ماضی و حال کے اجتماعی حوادث کو بیان کرتا ہے ان میں شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ قرآن نے ان کو حق اور علم کے ساتھ بیان کیا ہے ، خیال و خرافات کی بنیاد پر نہیں۔

خدا نے اس قول کے ذریعہ ان دونوں اصولوں کی تاکید کی ہے ،( ان هذا لهو القصص الحق... ) ( ۱ )

بیشک یہ برحق قصے ہیں۔

اور سورۂ اعراف کے آغاز میں فرماتا ہے :

( فلنقصّنّ علیهم بعلم وما کنا غائبین ) ( ۲ )

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ ہم جن واقعات کو بیان کر رہے ہیں وہ ہمارے سامنے رونما ہوئے ہیں۔

ان تمام باتوں کے علاوہ واقعات کے تجزیہ و تحلیل اور اس سے بر آمد ہونے والے نتیجہ میں قرآن مجید کا ایک علمی نہج ہے ایک طرف تووہ تحقیق و استقراء پر اعتماد کرتا ہے دوسری طرف استدلال کا سہارا لیتا ہے ۔

جب قرآن مجید عام طریقہ سے انبیاء کی حیات کو پیش کرتا ہے تو انہیں ایک صف میں قرار دیتا ہے ، سب کو

____________________

۱۔ آل عمران: ۶۲۔

۲۔ اعراف:۷۔

۱۸

ایک دوسرے کے برابر کھڑا کرتا ہے ، یہ اسلام کی عام روش ہے جیسا کہ خدا وند عالم کا ارشاد ہے:( ان الدّین عند اللّه الاسلام ) ( ۱ )

پھر اولوالعزم انبیاء میں سے ہر ایک کی سیرت کی گہرائی میں جاتا ہے تاکہ ان کی سیرت کے ان پہلوئوں کو بیان کر دے جن میں وہ ایک دوسرے سے جدا ومنفرد ہیں اور ان کو پہلے والوں سے متصل کر دے اور ان کی سیرتوں سے ملحق ان حوادث کو پہچان لے جو حیات انسانی کے ساتھ جاری روش رسالت سے تعلق رکھتے ہیں۔

تاریخی بحث کا فطری یہ خاصہ ہے ، اس میں تحریف ہو جاتی ہے ، کہیں ایہام و چشم پوشی سے کام لیا جاتا ہے کبھی تاریخی حقائق پر پردے ڈال دئے جاتے ہیں یا دھیرے دھیرے حقیقت کا انکشاف ہوتا ہے اور پھر اتنی واضح ہو جاتی ہے کہ جس سے انسانی معاشرہ تغافل نہیں کر پاتا ہے اور حقائق سے آنکھیں بند کر کے آگے نہیں بڑھ پاتا ہے ۔

سورۂ یوسف کی ۱۱۱ویں آیت میںاسی حقیقت کی طرف اشارہ ہوا کہ تاریخی حقائق میں مبالغہ آرائی، افتراء اور بغیر علم کے بحث و تحقیق کا امکان ہے ، لیکن جس حق پر، پردہ ڈال دیا گیاہے وہ کسی نہ کسی زمانہ میں ضرور ظاہر ہوگا۔

یہاں سے قرآنی مکتب پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ حقیقت کے جو یا انسان کو ایسے متعلقہ اسلحہ سے لیس کر دے جو مکمل طریقہ سے حقیقت کا انکشاف کر دے۔

یقینا قرآن نے ایسا محکم و ثابت نظر یہ پیش کیاہے کہ جس سے فکر انسانی کسی بھی صورت میں آگے نہیں بڑھ سکتی اس نظریہ کو محکمات اور امُّ الکتاب کے نام سے یاد کیا جاتا ہے یہی فکرِ انسانی کے لئے ثابت ،ناقابل تغیراور واضح حقائق ہیں؛ ان میں کسی شک و تردیدشبہ کی گنجائش نہیں ہے ۔

یہی محکم و ثابت حقائق فکر انسان کے لئے ہمیشہ وسیع زاوئیے اور بنیادی چیزیں پیش کرتے ہیں یہ حقائق ایسی چیزوں پر مشتمل ہیں کہ جو مادہ کی گرفت اور اس کی حد سے باہر ہیں۔ کیونکہ قرآن مبہم اورمتنازعہ پذیر

____________________

۱۔عمران:۱۹۔

۱۹

پذیرچیزوں کے سامنے دست بستہ کھڑے ہونے کو بھی جائز نہیں سمجھتا ہے ۔

قرآن مجید اپنے ذہین قاریوںکو دو ر استوں کی طرف ہدایت کرتا ہے ایک یہ کہ وہ مبہم اور متنازعہ چیزوں کے بارے میں کیا کرے تاکہ انسان ایسے واضح نتیجہ پر پہنچ جائے جو معیار قرار پائے دوسرے فکر انسانی کے سامنے آنے والی ہر چیز سے نمٹنے کے لئے ایک قاعدہ پیش کرتا ہے یہ اصل و قاعدہ ہر نئی چیز سے نمٹنے کے لئے جداگانہ صورت پیش کرتا ہے اور ذہنِ انسان سے یہ تقاضا کرتا ہے کہ پیش آنے والی چیز کے لحاظ سے وہ اپنا موقف اختیار کرے۔

خداوند عالم نے اس جانب اشارہ کرنے کے بعد کہ قرآن وہ فرقان ہے جسے اللہ نے اپنے امین رسول(ص) پر نازل فرمایا ہے ۔یہ ارشاد فرمایا ہے:

( هو الّذی انزل علیک الکتاب منه آیات محکمات هن امُّ الکتاب و أُخَرُ متشابهات فامّا الّذین فی قلوبهم زیغ فیتبعون ما تشابه منه ابتغاء الفتنة و ابتغاء تاویله وما یعلم تاویله اّلا اللّٰه و الرّاسخون فی العلم یقولون آمنا به کل من عند ربنا و ما یذکر الا اولوا الالباب ربنا لا تزغ قلوبنا بعد اذ هدیتنا و هب لنا من لدنک رحمة انک انت الوهاب ) ( ۱ )

وہ خدا وہی ہے جس نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس کی آیتیں محکم اور واضح ہیں جو اصل کتاب ہے اور کچھ متشابہہ ہیں، جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ انہیں متشابہات کی پیروی کرتے ہیں تاکہ فتنے بھڑکائیںاور من مانی تاویلیں کریں حالانکہ اس کی تاویل کا علم خدا اور ان لوگوں کو ہے جو علم میں رسوخ رکھتے ہیں وہ تو یہی کہتے ہیں: ہم اس کتاب پر ایمان رکھتے ہیں یہ سب آیتیں تو خدا ہی کی طرف سے آئی ہیں، (لیکن)نصیحت تو صاحبان عقل ہی اخذ کرتے ہیں، پروردگارا ہم سب کو ہدایت دینے کے بعد ہمارے دلوںکو کج نہ ہونے دے اور اپنے پاس سے ہمیں رحمت عطا کر بیشک تو بڑا فیاّض ہے ۔

____________________

۱۔ آل عمران: ۷ و ۸۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

” واخرج الحکیم الترمذی والطبرانی وابن مردویه وابونعیم والبیهقی معاً فی الدلائل عن ابن عباس رضی الله عنهما قال رسول الله -( ص) - انّ اللّه قسّم الخلاق قسمیں فجعلنی فی خیرهما قسماً، فذلک قوله( واصحاب الیمین ) (۱) ( واصحاب الشمال ) (۲) فاٴنامن اٴصحاب الیمین واٴناخبراٴصحاب الیمین ثمّ جعل القسمین اٴثلاثاً،فجعلنی فی خیرها ثلثاً،فذلک قوله :( واٴصحاب المیمنة مااٴصحاب المیمنةواٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المشئمةالسابقون ) (۳) فاٴنامن السابقین واٴناخیرالسابقین، ثمّ جعل الاٴثلاث قبائل،فجعلنی فی خیرها قبیلة،وذلک قوله:( وجعلنا کم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اٴکرمکم عنداللّٰه اٴتقاکم ) (۴) واٴنااٴتقی ولدآدم واٴکرمهم عنداللّٰه تعالی ولافخر،ثمّ جعل القبائل بیوتاًوجعلنی فی خیرها بیتاً،فذلک قوله: ا( ٕنّما یریداللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) (۵) فاٴناواٴهل بیتی مطهّرون من الذنوب“(۶)

____________________

۱۔سورئہ واقعہ/۲۷ ۲۔سورئہ واقعہ/۴۱ ۳۔سورئہ واقعہ/۸۔۱۰ ۴۔سورئہ حجرات/۱۳ ۵۔سورئہ/احزاب/۳۳

۶۔الدرالمنثور، ج ۵، ص ۳۷۸، دارالکتاب، العلمیہ، بیروت، فتح، القدیر، شوکافی، ج ۴، ص ۳۵۰ دارالکتاب العلمیہ، بیروت۔المعروفہ و التاریخ، ج ۱، ص ۲۹۸

۱۸۱

”حکیم ترمذی،طبرانی،ابن مردویہ،ابو نعیم اور بیہقی نے کتاب”الدلائل‘میں ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ پیغمبراکرم (ص)نے فرمایا:خداوندمتعال نے اپنی مخلوقات کودو حصوں میں تقسیم کیا ہے اور مجھ کوان میں سے برترقراردیاہے اورخداوندمتعال کاقول یہ ہے:( و اصحاب الیمین ) ( واصحاب الشمال ) اور میں اصحاب یمین میں سے سب سے افضل ہوں۔اس کے بعدمذکورہ دوقسموں)اصحاب یمین اوراصحاب شمال)کوپھرسے تین حصوں میں تقسیم کیااورمجھ کوان میں افضل ترین لو گوں میں قرار دیا اور یہ ہے خدا وند کریم کا قول:( واٴصحاب المیمنةمااٴصحاب المیمنة واٴصحاب المشئمة مااٴصحاب المسئمةوالسابقون السابقون ) اورمیں سابقین اور افضل ترین لو گوں میں سے ہوں۔اس کے بعدان تینوں گروہوں کوکئی قبیلوں میں تقسیم کردیا،چنانچہ فر ما یا:

( وجعلناکم شعوباًوقبائل لتعارفواإنّ اکرمکم عنداللّه اٴتقاکم )

”اورپھرتم کو خاندان اور قبائل میں بانٹ دیاتاکہ آپس میں ایک دوسرے کوپہچان سکوبیشک تم میں سے خداکے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جوزیادہ پرہیزگارہے“ اورمیں فرزندان آدم میں پرہیزگار ترین اور خدا کے نزدیک محترم ترین بندہ ہوں اورفخرنہیں کرتاہوں۔

”اس کے بعدقبیلوں کوگھرانوں میں تقسیم کر دیااورمیرے گھرانے کوبہترین گھرانہ قرار دیااورفرمایا( انمّا یرید اللّه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهّرکم تطهیراً ) ”بس اللّہ کاارادہ یہ ہے اے اہل بیت!تم سے ہر طرح کی آلودگی وبرائی کودوررکھے اور اس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک و پاکیزہ رکھنے کاحق ہے“پس مجھے اورمیرے اہل بیت کو )برائیوں) گناہوں سے پاک قراردیاگیاہے۔“

۱۸۲

۲ ” حدثني الحسن بن زید، عن عمربن علي، عن اٴبیه عليّ بن الحسین قال خطب الحسن بن علي الناس حین قتل عليّ فحمداللّه و اٴثنی علیه ثمّ قال:لقد قبض في هذه اللیلة رجل لایسبقه الاٴوّلون بعمل و لایدرکه الآخرون، و قدکان رسول اللّهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یعطیه رایته فیقاتل وجبرئیل عن یمینه ومیکائیل عن یساره حتی یفتح اللّه علیه، وما ترک علی اٴهل الاٴرض صفراء ولابیضاء إلّا سبع مائة درهم فضلت عن عطایاه اٴراد اٴن یبتاع بهاخادماً لاٴهله

ثمّ قال: اٴیّها الناس! من عرفني فقد عرفني ومن ُلم یعرفنيفاٴنا الحسن بن علي واٴنا ابن النبيّ واٴنا ابن الوصيّ واٴناابن البشیر، واٴنا ابن النذیر، واٴناابن الداعي إلی اللّه باذنه، واٴنا ابن السراج المنیر، و اٴنا من اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلیناویصعدمن عندنا، و اٴنامن اٴهل البیت الّذی کان جبرئیل ینزل إلینا و یصعدمن عندنا، واٴنا من اٴهل البیت الّذی اٴذهب اللّه عنهم الرجس وطهّرهم تطهیراً و اٴنا من اٴهل البیت الّذی افترض اللّه مودّتهم علی کلّ مسلم، فقال تبارک و تعالی لنبیة:( قل لااٴسئلکم علیه اٴجراً،إلّاالمودّة فی ا لقربی و من یقترف حسنة نزدله فیهاحسناً ) (۱) فاقتراف الحسنة مودّتنااٴهل البیت(۲)

____________________

۱۔ سورہ شوریٰ/۲۳

۲۔مستدرک الصحیحین، ج۳،ص۱۷۲، دارالکتب العلمیہ، بیروت

۱۸۳

”عمربن علی نے اپنے باپ علی بن حسین (علیہ السلام)سے روایت کی ہے انہوں نے کہا: حسن بن علی (علیہ السلام)نے)اپنے والدگرامی)حضرت علی علیہ السلام کی شہادت کے بعدلوگوں کے در میان ایک خطبہ دیا جس میں ۔حمدوثنائے الہی کے بعدفرمایا:

آج کی شب ایک ایساشخص اس دنیا سے رحلت کرگیاکہ گزشتہ انسانوں میں سے کسی نے ان پرسبقت حاصل نہیں کی اورنہ ہی مستقبل میں کوئی ا س کے مراتب و مدا رج تک پہو نچنے والا ہے۔

پیغمبراسلام (ص)اسلامی جنگوں میں ان کے ہاتھ پرچم اسلام تھما کر انہیں جنگ کے لئے روانہ کر تے تھے، جبکہ اس طرح سے کہ جبرئیل)امورتشریعی میں فیض الہٰی کے وسیلہ)ان کی دائیں جانب اورمیکائیل)امورارزاق میں فیض الہٰی کے ذریعہ)ان کی بائیں جانب ہوا کرتے تھے۔او روہ جنگ سے فتح کامرانی کے حاصل ہو نے تک واپس نہیں لوٹتے تھے۔

انھوں نے اپنے بعد زر وجواہرات میں سے صرف سات سودرہم بہ طور ”تر کہ“ چھوڑے جو صدقہ و خیرات کے بعد باقی بچ گئے تھے اور وہ اس سے اپنے اہل بیت کے لئے ایک خادم خریدناچاہئے تھے۔

اس کے بعدفرمایا:اے لوگو!جو مجھے پہچانتا ہے، وہ پہنچاتا ہے اورجونہیں پہچانتاوہ پہچان لے کہ میں حسن بن علی (ع) ہوں، میں پیغمبر کافرزندہوں، ان کے جانشین کا فرزند، بشیر)بشارت دینے والے)ونذیر)ڈرانے والے)کافرزندہوں،جوخداکے حکم سے لوگوں کوخداکی طرف دعوت دیتاتھا،میں شمع فروزان الٰہی کا بیٹاہوں، اس خاندان کی فرد ہوں کہ جہاں ملائکہ نزول اور جبرئیل رفت وآمد کر تے تھے۔میں اس خاندان سے تعلق رکھتا ہوں کہ خدائے متعال نے ان سے برائی کودورکیاہے اورانھیں خاص طور سے پاک وپاکیزہ بنایاہے۔میں ان اہل بیت میں سے ہوں کہ خداوندمتعال نے ان کی دوستی کوہرمسلمان پرواجب قراردیاہے اورخدا وندمتعال نے اپنے پیغمبرسے فرمایا:” اے پیغمبر!کہدیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کے بد لے کسی اجرت کا مطا لبہ نہیں کر تا ہوں سواء اس کے کہ میرے قرابتداروں سے محبت کرواورجوشخص بھی کوئی نیکی دے گا ہم اس کی نیکیوں کی جزامیں اضافہ کردیں گے ”لہذانیک عمل کاکام انجام دینا ہی ہم اہل بیت(ع)کی دوستی ہے۔“

۱۸۴

ان دواحادیث سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اہل بیت علیہم السلام کے بارے میں خداکی مخصوص طہارت کے خارج میں متحقق ہو نے سے مرادان کی عصمت کے علاوہ کوئی اورچیز نہیں ہے۔اور یہ بیان واضح طور پر اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ آیہء شریفہ میں ارادہ سے مراد ارادہ،تکوینی ہے۔

آیہء تطہیر میں اہل بیت علیہم السلام

اس آیہء شریفہ کی بحث کاتیسراپہلویہ ہے کہ آیہء کریمہ میں ”اہل البیت“سے مراد“کون ہیں؟اس بحث میں دوزاویوں سے توجہ مبذول کرناضروری ہے:

۱ ۔اہل بیت کا مفہوم کیاہے؟

۲ ۔اہل بیت کے مصادیق کون ہیں؟

اگرلفظ”اہل“کا استعمال تنہاہوتویہ مستحق اورشائستہ ہو نے کامعنی دیتاہے اوراگراس لفظ کی کسی چیز کی طرف اضافت ونسبت دی جائے توا س اضا فت کے لحاظ سے اس کے معنی ہوں گے۔مثلاً”اہل علم“اس سے مرادوہ لوگ ہیں جن میں علم ومعرفت موجودہے اور”اہل شہروقریہ“سے مرادوہ لوگ ہیں جواس شہریاقریہ میں زندگی بسرکرتے ہیں،اہل خانہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو اس گھر میں سکونت پذیر ہیں،مختصریہ کہ:”اہل“کامفہوم اضافت کی صورت میں مزید اس شی کی خصوصیت پردلالت کرتاہے کہ جس کی طرف اس کی نسبت دی گئی ہے۔۔۔

۱۸۵

لفظ”بیت“میں ایک احتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد مسکن اور گھرہواور دوسرااحتمال یہ ہے کہ بیت سے مراد حسب ونَسَب ہوکہ اس صورت میں ”اہل بیت“کامعنی خاندان کے ہوں گے۔ایک اوراحتمال یہ ہے کہ” اہل بیت “میں ”بیت“سے مراد،خا نہ نبوت ہواور یہاں پر قابل مقبول احتمال یہی موخرالذکراحتمال ہے،اس کی وضاحت انشاء اللہ آیندہ چل کر آئے گی۔

ان صفات کے پیش نظر”اہل بیت“سے مرادوہ افراد ہیں جواس گھرکے محرم اسرار ہوں اورجوکچھ نبی (ص)کے گھرمیں واقع ہوتاہے اس سے واقف ہوں۔

اب جبکہ”اہل بیت“کامفہوم واضح اورمعلوم ہوگیا توہم دیکھتے ہیں کہ خارج میں اس کے مصادیق کون لوگ ہیں اور یہ عنوان کن افرادپر صادق آتاہے؟

اس سلسلہ میں تین قول پائے جاتے ہیں:

۱ ۔”اہل بیت“سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں۔(۱)

۲ ۔”اہل بیت“سے مراد خودپیغمبر،علی وفاطمہ،حسن وحسین )علیہم السلام)نیزپیغمبر (ص)کی بیویاں ہیں۔(۲)

۳ ۔شیعہ امامیہ کانظریہ یہ ہے کہ”اہل بیت“سے مرادپیغمبر (ص)آپکی دختر گرامی حضرت فاطمہ زہرا(سلام اللہ علیہا)اوربارہ ائمہ معصومین) علیہم السلام)ہیں۔

بعض سنی علماء جیسے:طحاوی نے”مشکل ا لآثار“میں اورحاکم نیشابوری نے”المستدرک“میں ”اہل بیت“سے صرف پنجتن پاک )علہیم السلام )کو مراد لیاہے۔

”اہل بیت“کوواضح کرنے کے لئے ضروری ہے کہ ہم اس سلسلہ میں دوجہات سے

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۲۹۱

۲۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲

۱۸۶

بحث کریں:

۱ ۔آیہء شریفہ کے مفاد کے بارے میں بحث۔

۲ ۔آیہء شریفہ کے ضمن میں نقل کی گئی احادیث اورروایات کے بارے بحث۔

آیت کے مفاد کے بارے میں بحث

آیت کے مفہوم پر بحث کے سلسلہ میں درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:لغوی اور عرفی لحاظ سے”اہل بیت“کا مفہوم پنجتن پاک کے عنوان کوشامل ہے۔

دوسرے یہ کہ آیہء شریفہ میں ضمیر”عنکم)جوجمع مذکر کے لئے ہے)کی وجہ سے اہل بیت کے مفہوم میں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں شامل نہیں ہیں۔

تیسرے یہ کہ:بہت سی ایسی روایتیں مو جودہیں جن میں ”اہل بیت“کے مرادسے پنجتن پاک)علیہم السلام)کو لیاگیاہے۔لہذایہ قول کہ اہل بیت سے مرادصرف پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں ہیں،ایک بے بنیاد بلکہ برخلاف دلیل قول ہے۔یہ قول عکرمہ سے نقل کیا گیا ہے وہ کہتاتھا:

”جوچاہتا ہے،میں اس کے ساتھ اس بابت مباہلہ کرنے کے لئے تیار ہوں کہ آیہ شریفہ میں ”اہل بیت کا مفہوم“پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مختص ہے(۱)“

اے کاش کہ اس نے)اس قول کی نسبت اس کی طرف صحیح ہونے کی صورت میں )مباہلہ کیاہوتا اورعذاب الہٰی میں گرفتار ہواہوتا!کیونکہ اس نے پنجتن پاک(ع)کی شان میں نقل کی گئی ان تمام احادیث سے چشم بستہ انکار کیا ہے جن میں آیہء تطہیرکی شان نزول بیان کی گئی ہے۔

____________________

۱۔روح المعانی ،ج۲۲،ص۱۳،داراحیائ التراث العربی،بیروت

۱۸۷

لیکن دوسرے قول کہ جس کے مطابق”اہل بیت کے مفہوم“میں پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں نیزعلی،فاطمہ،حسن اورحسین)علیہم السلام)شامل ہیں کوبہت سے اہل سنت،بلکہ ان کی اکثریت نے قبول کیا۔

اور انھوں نے،اس نظریہ کو ثابت کر نے کے لئے آیات کے سیاق سے استدلال کیا ہے۔اس کی وضاحت یوں کی ہے کہ آیہء تطہیرسے پہلے والی آیتیں اور آیت تطہیر کے بعد والی آیتیں پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے متعلق ہیں۔چونکہ آیہء تطہیر ان کے درمیان میں واقع ہے،اس لئے مفہوم اہل بیت کی صلا حیت اورقرینہء سیاق کے لحاظ سے،اس میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویاں شامل ہیں۔

ابن کثیر نے اپنی تفسیر،قرینہء سیاق کے پیش نظر آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کو یقینی طو رپر اہل بیت کی فہرست میں شامل جاناہے۔

سیاق آیہء تطہیر

کیا آیہء تطہیر کے سیاق کے بارے میں کیا گیا دعویٰ قابل انعقادہے؟اورپیغمبر (ص)کی بیویوں کے اہل بیت کے زمرے میں شامل ہونے کو ثابت کرسکتاہے؟مطلب کوواضح کرنے کے لئے درج ذیل چند نکات کی طرف اشارہ کرنا ضروری ہے:

اول یہ کہ:چند آیات کے بعد صرف ایک آیت کا واقع ہو نا سیاق کے واقع ہو نے کا سبب نہیں بن سکتا ہے اوردوسری طرف سے یہ یقین پیدا نہیں کیا جاسکتا ہے کہ یہ آیتیں ایک ساتھ ایک مر تبہ نازل ہوئی ہیں،کیونکہ سیاق کے واقع ہو نے کے سلسلہ میں شر ط یہ ہے کہ آیات کا نزول ایک دوسرے کے ساتھ انجام پایا ہو۔لہذاہم شک کرتے ہیں اورممکن نہیں ہے کہ ہم سیاق کو احراز)متعین)کر سکیں جبکہ موجودہ قرآن مجیدکی تر تیب نزول قرآن کی ترتیب کے متفاوت ہے،اس لئے اس مسئلہ پرکبھی اطمینان پیدانہیں کیا جا سکتا ہے کہ آیہء تطہیر کا نزول پیغمبر (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کے بعد واقع ہواہے۔

۱۸۸

اگریہ کہا جائے کہ:اگرچہ یہ آیتیں ایک ساتھ نازل نہیں ہوئی ہیں،لیکن ہرآیہ اورسورئہ کو پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی مو جودگی میں ان کی نظروں کے سامنے ایک خاص جگہ پرانھیں رکھا گیا ہے،اس لئے آیات کا ایک دوسرے کے ساتھ معنوی رابطہ کے پیش نظران آیات میں سیاق واقع ہو اہے لہذاپیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں پنجتن پاک علیہم السلام کے ساتھ اہل بیت کے زمرے میں شامل ہوں گی۔

اس کا جواب یہ ہے کہ:اس پر کوئی دلیل نہیں ہے کہ آیہء تطہیر کا اس خاص جگہ پرواقع ہو ناآیات کے معنوی پیوند کے لحاظ سے ہے اور وہ چیز کہ جس پر دلیل قائم ہے صرف یہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کسی مصلحت کے پیش نظر اس آیت کواپنی بیویوں سے مربوط آیات کے درمیان قراردیا ہے،لیکن یہ کہ مصلحت صرف آیات کے درمیان معنوی رابطہ کی وجہ سے ہے اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ممکن ہے اس کی مصلحت آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں کے لئے ایک انتباہ ہوکہ تمہارااہل بیت“کے ساتھ ایک رابطہ اور ہے ،اس لئے اپنے اعمال کے بارے میں ہوشیار رہنا،نہ یہ کہ وہ خود”اہل بیت“کی مصداق ہیں۔

دوسرے یہ کہ:آیہء کریمہ میں کئی جہتوں سے یہ ثابت ہو تا ہے کہ آیہء تطہیر کا سیاق اس کی قبل اور بعد والی آیات کے سیاق سے متفاوت ہے اوریہ دو الگ الگ سیاق ہیں اور ان میں سے ہر ایک ،ایک مستقل حیثیت رکھتا ہے جس کا دوسرے سے کوئی ربط نہیں ہے۔وہ جہتیں حسب ذیل ہیں:

پہلی جہت:پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیوں سے مربوط آیات کا سیاق سرزنش کے ساتھ ہے)چنانچہ آیت ۲۸ کے بعدغورکرنے سے معلوم ہو تا ہے)اوران آیات میں پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں کی کسی قسم کی ستائش اور تعریف نہیں کی گئی ہے،جبکہ آیہء تطہیر کے سیاق میں فضیلت وبزرگی اورمدح و ستا ئش ہے اورآیہ تطہیر کے ذیل میں ذکر ہو نے والی احادیث سے یہ مطلب اور بھی زیادہ روشن و نمایاں ہو جا تا ہے۔

دوسری جہت:یہ کہ آیہء تطہیر کی شان نزول مستقل ہے اورآنحضرت (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات کی شان نزول بھی مستقل ہے چنانچہ آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں نے اپنے حق سے زیادہ نفقہ کاتقاضا کیا تھا لہذا مذکورہ آیتیں اسی مناسبت سے نازل ہوئی ہیں۔اس شان نزول کے بارے میں مزیدآگاہی حاصل کرنے کے لئے شیعہ وسنی تفسیروں کی طرف رجوع کیا جاسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں پہلے ہم آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویوں سے مربوط آیات کی طرف اشارہ کر تے ہیں کہ اور اس کے بعد اس حدیث کا ترجمہ پیش کریں گے جسے ابن کثیر نے ان آیات کی شان نزول کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے:

۱۸۹

( یااٴیّهاالنبیّ قل لازواجک ان کنتنّ تردن الحیوةالدنیا وزینتها فتعالین اٴُمّتعکنّ واٴُسرّحکنّ سراحاًجمیلاًوإن کنتنّتردن اللّٰه ورسوله والدار الآخرة فإنّ اللّٰه اٴعدّ للمحسنات منکنّ اٴجراً عظیماًیانساء النبیّ من یاٴت منکنّ بفاحشة مبیّنة یضاعف لها العذاب ضعفین وکان ذلک علی اللّٰه یسیراًً ومن یقنت منکنّ للّٰه ورسوله وتعمل صالحاً نؤتهااجرهامرّتین واٴعتد نا لهارزقاً کریماًیانساء النبیّ لستنّ کاٴحد من النساء إن اتقیتنّ فلا تخضعن بالقول فیطمع الذی فی قلبه مرض وقلن قولاً معروفاًوقرن فی بیوتکنّ ولا تبرّجن الجا هلیة الاُولی واٴقمن الصلوة وء اتین الزکوة واٴطعن اللّٰه ورسوله إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت ویطهّرکم تطهیراًواذکرن مایتلی فی بیوتکنّ من آیات اللّٰه والحکمةإنّ اللّٰه کان لطیفاًخبیرا ) (احزاب/ ۲۸ ۔ ۳۴)

”پیغمبر!آپ اپنی بیویوں سے کہد جئے کہ اگر تم سب زندگانی دنیااوراس کی زینت کی طلبگارہوتوآؤمیں تمہارامہرتمھیں دیدوں اورخوبصورتی کے ساتھ رخصت کردوں اوراگراللہ اور رسول اورآخرت کی طلبگار ہو تو خدا نے تم میں سے نیک کردار عورتوں کے لئے اجر عظیم قرار دیا ہے ۔اے زنان پیغمبرجو بھی تم میں سے کھلی ہوئی برائیوں کاارتکاب کرے گااس کو دھرا عذاب کر دیا جائے گا اوریہ بات خد اکے لئے بہت آسان ہے۔اورجوبھی تم میں سے خدااوررسول کی اطاعت کرے اورنیک عمل انجام دے اسے دہرا اجر عطا کیا جائے گا اورہم نے اس کے لئے بہترین رزق فراہم کیا ہے ۔اے زنان پیغمبر!تم اگر تقویٰ اختیار کرو تو تمھارامرتبہ عام عورتوں کے جیسا نہیں ہے،لہذا کسی آدمی سے نازکی)دل لبھانے والی کیفیت) سے بات نہ کرو کہ بیمار دل افراد کوتمہاری طمع پیدا ہو اور ہمیشہ شائستہ و نیک باتیں کیا کرواور اپنے گھروں میں بیٹھی رہواور جاہلیت کے زما نہ کی طرح بناؤ سنگار نہ کرواور نماز قائم کرو اورزکوةادا کرو اوراللہ اوراس کے رسول کی اطاعت کرو۔بس اللہ کا ارادہ ہے اے اہل بیت!کہ تم سے ہر طرح کی برائی کو دور رکھے اوراس طرح پاک وپاکیزہ رکھے جوپاک وپاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔اورازواج پیغمبر!تمھارے گھروں میں جن آیات الہٰی اور حکمت کی باتوں کی تلاوت کی جاتی ہے انھیں یادرکھو خدا لطیف اور ہرشے سے آگاہ ہے۔“

۱۹۰

ابن کثیر نے ابی الزبیر سے اوراس نے جابر سے روایت کی ہے:

”لوگ پیغمبر (ص)کے گھر کے سامنے بیٹھے تھے،اسی حالت میں ابوبکراورعمرآگئے اورداخل خا نہ ہونے کی اجازت چاہی۔پہلے انھیں اجازت نہیں دی گئی۔جب انھیں اجازت ملی اور وہ خا نہ رسول میں ہوئے توانہوں نے کیادیکھاکہ آنحضرت (ص)بیٹھے ہوئے ہیں اورآپ کی بیویاں بھی آپکے گردبیٹھی ہوئی ہیں اورآنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،خاموش تھے۔عمر نے آنحضرت (ص)کو ہنسا نے کے قصد سے کہا:یارسول اللہ!اگرآپ دیکھتے کہ بنت زید) اس سے مراد عمر کی زوجہ ہے) نے جب مجھ سے نفقہ کا تقاضا کیا تو میں نے کیسی اس کی پٹائی کی!یہ سن کرپیغمبراکرم (ص)ایسا ہنسے کہ آپکے دندان مبارک ظاہر ہوگئے۔پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ )میری بیویاں)میرے گردجمع ہوئی ہیں ا ور مجھ سے)بیشتر)نفقہ کا تقاضا کرتی ہیں۔اس وقت ابوبکرعائشہ کو مار نے کے لئے آگے بڑھے اور عمر بھی اٹھے اوردونوں نے اپنی اپنی بیٹیوں سے نصیحت کر تے ہو ئے کہا:تم پیغمبر (ص)سے ایسی چیزکامطالبہ کرتی ہوجوپیغمبر کے پا س نہیں ہے؟آنحضرت (ص)نے انھیں مار نے سے منع فرمایا۔اس قضیہ کے بعد آنحضرت (ص)کی بیویوں نے کہا:ہم آج کے بعد سے پیغمبر (ص)سے کبھی ایسی چیز کا تقاضا نہیں کریں گے،جوان کے پاس موجود نہ ہو۔خدا وند متعال نے مذکورہ آیات کو نازل فرمایا جس میں آنحضرت (ص)کی بیویوں کو پیغمبر کی زوجیت میں باقی رہنے یا انھیں طلاق کے ذریعہ آنحضرت کو چھوڑ کے جا نے کا اختیار دیا گیاہے۔(۱)

یہ تھی،آنحضرت (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول۔جبکہ آیہء تطہیر کی شان نزول پنجتن آل عبا اورائمہ معصومین (علیہم السلام) سے متعلق ہے۔اس سلسلہ میں شیعہ وسنی تفسیر اورحدیث کی کتا بوں میں کافی تعداد میں روایتیں نقل ہوئی ہیں ۔ہم ان میں سے چند ایک کا ذکر احادیث کے باب میں کریں گے۔

____________________

۱۔تفسیر ابن کثیر،ج۳،ص۴۹۱

۱۹۱

اس شان نزول اورپیغمبراکرم (ص)کی ازواج سے مربوط آیات کی شان نزول میں احتمالاً کئی سالوں کا فاصلہ ہے۔اب کیسے ان آیا ت کے در میان وحدت سیاق کے قول کو تسلیم کیا جا سکتا ہے اورکیاان دو مختلف واقعات کو ایک سیاق میں ضم کرکے آیت کے معنی کی توجیہ کی جاسکتی ہے؟

تیسری جہت:یہ کہ سیاق کے انعقادکو مختل کرنے کاایک اورسبب پیغمبراکرم (ص)کی بیویوں سے مربوط آیات اور آیہء تطہیر کے ضمیروں میں پا یا جا نے والا اختلاف ہے۔مجموعی طورپر مذکورہ آیات میں جمع مونث مخاطب کی ۲۲ ضمیریں ہیں۔ان میں سے ۲۰ ضمیریں ایہء تطہیرسے پہلے اوردوضمیریں ایہء تطہیر کے بعداستعمال ہوئی ہیں،جبکہ آیہء تطہیر میں مخاطب کی دوضمیریں ہیں اوردونوں مذکر ہیں۔اس اختلاف کے پیش نظر کیسے سیاق محقق ہوسکتا ہے؟

اعتراض:آیہء تطہیرمیں ”عنکم“اور”یطھّرکم“سے مراد صرف مرد نہیں ہیں،کیونکہ عورتوں کے علاوہ خود پیغمبر (ص)علی ،حسن وحسین (علیہم السلام) بھی اس میں داخل تھے۔اس لئے”کم“کی ضمیر آئی ہے اورعربی ادبیات میں اس قسم کے استعمال کو ”تغلیب“کہتے ہیں اوراس کے معنی یہ ہیں کہ اگر کسی حکم کا ذکرکرنا چاہیں اوراس میں دوجنس کے افراد شامل ہوں،تو مذکر کو مونث پر غلبہ دے کر لفظ مذکر کو ذکر کریں گے اوراس سے دونوں جنسوں کا ارادہ کریں گے۔

اس کے علاوہ،مذکرکی ضمیرکا استعمال ایسی جگہ پر کہ جہاں مونث کا بھی ارادہ کیا گیا ہے قرآن مجید میں اور بھی جگہوں پر دیکھنے میں آیا ہے،جیسے درج ذیل آیات میں( قالو ااٴتعجبین من اٴمراللهرحمت اللهوبرکاته عليکم اٴهل البیت ) (۱) کہ حضرت ابراھیم) علیہ السلام) کی زوجہ سے خطاب کے بعد جمع مذکر حاضر کی ضمیر اور اہل بیت کا عنوان ذکر ہوا ہے۔

( قال لاهله امکثوا ) (۲) کہ حضرت موسی علیہ اسلام کے اہل خاندان )کہ جس سے

____________________

۱۔ ہود/۷۳

۲۔قصص/۲۹

۱۹۲

مرادان کی زوجہ ہے) کے ذکرکے بعد ضمیرجمع مذکر حاضر کے ذریعہ خطاب کیا گیا ہے۔

جواب: ہر کلام کا اصول یہ ہے کہ الفاظ کو اس کے حقیقی معنی پر حمل کیا جائے اور”اصالة الحقیقة“ایک ایسا عقلائی قاعدہ ہے کہ جس کے ذریعہ ہر لغت وزبان کے محاورات و مکالمات میں استناد کیا جاتاہے۔

اس عقلائی قاعدے کی بنیاد پر جس لفظ کے بارے میں یہ شک پیدا ہو کہ وہ اپنے حقیقی معنی میں استعمال ہوا ہے یا نہیں، اسے اس کے حقیقی معنی پر حمل کرنا چاہے۔ اس لحاظ سے آیہء تطہیر میں دو جگہ پراستعمال ہوئی”کم“کی ضمیرسے مراد اس کے حقیقی معنی ہیں اور یہ کہ آ یہ شریفہء مذکور میں تمام افراد اہلبیت مذکر تھے، صرف قرینہ خارجی اور آیت کی ذیل میں روآیت کی گئی احادیث کی وجہ سے قطعی طور پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اہل بیت کی فہرست میں حضرت فاطمہ زہراسلام الله علیہابھی شامل ہیں، اور ان کے علاوہ کوئی مونث فرد اہل بیت میں شامل نہیں ہے۔ اور آیہ شریفہ میں قاعدئہ”اقرب المجازات“جاری ہوگا۔

لیکن شواہدکے طور پر پیش کی گئی آیات میں قرینہ کی وجہ سے مونث کی جگہ ضمیر مذکر کا استعمال ہوا ہے اوریہ استعمال مجازی ہے اور ایک لفظ کا مجازی استعمال قرینہ کے ساتھ دلیل نہیں بن سکتا ہے کہ قرینہ کے بغیر بھی یہ عمل انجام دیا جائے اور جیسا کہ کہا گیاکہ اصل استعمال یہ ہے کہ لفظ اس کے حقیقی معنی میں استعمال ہواور ایسا نہ ہونے کی صورت میں قاعدہ”اقرب المجازات“کی رعآیت کی جانی چاہئے۔

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث

ش یعہ اور اہل سنت کے منابع میں بڑی تعداد میں ذکر ہونے والی احادیث سے واضح طور پریہ معلوم ہوجاتا ہے کہ آیہ تطہیر میں ”اہل بیت“سے مراد صرف پنجتن پاک) علیہم السلام) ہیں اور ان میں پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی بیویاں کسی جہت سے شامل نہیں ہیں۔ اس سلسلہ میں مذکورہ

۱۹۳

منابع میں اتنی زیادہ حدیثیں نقل ہوئی ہیں کہ حاکم حسکانی(۱) نے اپنی کتاب”شواہد التنزیل“ کے صفحہ ۱۸ سے لیکر ۱۴۰ تک انہی احادیث سے مخصوص کیا ہے۔(۲) ہم ذیل )حاشیہ) میں اہل سنت

____________________

۱۔ذہبی،تذکرةالحافظ،ج۲،ص۱۲۰۰پر کہتا ہے:حاکم حسکانی علم حدیث کے کامل عنایت رکھنے والاایک محکم اورمتقن سند ہے۔

۲۔ اسدالغابة/ج۵ص۵۲۱/داراحیائ التراث العربی ،بیروت، الاصابة/ج۲/ص۵۰۹/دارالفکر، اضوائ البیان /ج۶/ص۵۷۸/عالم الکتب بیروت، انساب الاشراف/ج۲/ص۳۵۴/دارالفکر، بحار الانوار،ج۳۵،ازص۲۰۶،باب آیة تطہیر تاص۲۳۲ مؤسسة الوفائ بیروت، تاریخ بغداد /ج۹/ص۱۲۶/ وج۱۰/ص۲۷۸/دارالفکر، تاریخ مدینہ دمشق/ج۱۳/ص۲۰۳و ۲۰۶و۲۰۷وج۱۴/ ص۱۴۱و۱۴۵، تفسیر ابن ابی حاتم /ج۹/ص۳۱۲۹/المکتبة المصربة بیروت، تفسیر ابی السعود/ ج۷/ ص۱۰۳/دارالحیائ التراث العربی بیروت، تفسیر البیضاوی/ج۲۳/ص ۳۸۲/دارالکتاب العلمیة، تفسیر فرات الکوفی/ج۱/ص۳۳۲ تا۳۴۲/مؤسسة النعمان، تفسیر القرآن العظیم ابن کثیر/ج۳/ص۵۴۸/دارالکتب العلمیة بیروت، تفسیر اللباب ابن عادل دمشقی/ج۱۵/ص۵۴۸/ دارالکتاب العلمیة بیروت، تفسیر الماوردی/ج۴/ص۴۰۱/دارالمعرفة بیروت، التفسیر المنبر/ج۲۳/ص۱۴/دارالفکرالمعاصر، تھذیب التھذیب/ج۲/ص۲۵۸/دارالفکر، جامع البیان/ طبری/ج۲۲/ص۵/دارالمعرفة بیروت، جامع احکام القرآن/ قرطبی/ج۱۴/ص۱۸۳/دارالفکر، الدار المنثور/ج۶/ص۶۰۴/دارالفکر، ذخائر العقبی/ص۲۱تا۲۴، روح البیان/ج۷/ص۱۷۱/داراحیائ التراث العربی، روح المعانی/ آلوسی/ج۲۲/ص۱۴/دار احیائ التراث العربی/الریاض النضرة/ج۲)۴-۴)/ص۱۳۵/دار الندوة الجدیدة بیروت، زاد المسیر/ ابن جوزی/ج۶/ص۱۹۸/ دارالفکر، سنن الترمذی/ج۵/ص۳۲۸-۳۲۷و ۶۵۶/ دارالفکر، السنن الکبری / بیھقی/ ج۲ / ص۱۴۹/ دارالمعرفة بیروت، سیر اعلام النبلاء/ ذہبی/ج۳/ص۲۵۴و ۲۸۳/ مؤسسة الرسالة بیروت، شرح السنة بغوی/ج۱۴/ص۱۱۶/المکتب الاسلامی بیروت، شواہد التنزبل/ج۲/ص۸۱-۱۴۰/ موسسة الطبع و النشر لوزرارة الارشاد، صحیح ابن حبان/ج۱۵/ص۴۴۲ الٰی ۴۴۳/موسسة الی سالة بیروت، صحیح مسلم/ج۵/ص۳۷/ کتاب الفضائل باب فضائل / مؤسسة عزالدین بیروت، فتح القدیر/ شوکانی/ج۴/ص۳۴۹تا۳۵۰/ دار الکتاب العلمیة بیروت، فرائد السمطین/ جوینی/ج۱/ص۳۶۷/مؤسسة المحمودی بیروت، کفایة الطالب/ص۳۷۱تا۳۷۷/داراحیاء تراث اہل البیت، مجمع الزوائد/ج۹/ص۱۶۶-۱۶۹/دارالکتب العربی بیروت، المستدرک علی الصحیحین /ج۲/ص۴۱۶وج۳/ص۱۴۷/دارالمعرفة بیروت، مسند ابی یعلی/ج۱۲/ ص۳۴۴و۴۵۶/ دار الہامون للتراث، مسند احمد/ج۴/ص۱۰۷وج۶/ص۲۹۲/دارصادر بیروت، مسند اسحاق بن راہویہ/ ج۳/ص۶۷۸/مکتبة الایمان مدینة المنورة، مسندطیالسی/ص۲۷۴/ دارالکتب اللبنانی، مشکل الآثار/ طحاوی/ج۱/ص۳۳۵/دارالباز، المعجم الصغیر/طبرانی/ج۱/ص ۱۳۵/ دارالفکر، المعجم الاوسط/طبرانی/ج۲/ص۴۹۱/ مکتبة المعارف ریاض، المعجم لکبیر/طبرانی/ ج۲۳/ ص۲۴۵و۲۸۱و ۲۸۶و ۳۰۸و۳۲۷و۳۳۰و۳۳۳و۳۳۴و۳۳۷و۳۵۷و۳۹۳و۳۹۶، المعرفة و التاریخ بسوی/ ج۱/۳۹۸، المنتخب من مسند عبد بن حمید/ص۱۷۳ و ۳۶۷/عالم الکتب قاہرہ مناقب ابن مغازلی/ص۳۰۱-۳۰۲/ المکتبةالاسلامیة

۱۹۴

کے بعض منابع کا ذکرکرتے ہیں کہ جن میں مذکورہ احادیث یا درج ہو ئی ہے یاان کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔

ان احادیث کے رادیوں کا سلسلہ جن اصحاب پرمنتہی ہو تا ہے وہ حسب ذیل ہیں:

۱ ۔ امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام

۲ ۔ حضرت فاطمہ زہراء سلام الله علیہا

۳ ۔ حسن بن علی علیہ السلام

۴ ۔ انس بن مالک

۵ ۔ براء بن عازب انصاری

۶ ۔ جابربن عبد الله انصاری

۷ ۔ سعد بن ابی وقاص

۸ ۔ سید بن مالک)ابو سعید خدومی)

۹ ۔ عبد اللهبن عباس

۱۰ ۔ عبدالله بن جعفرطیار

۱۱ ۔ عائشہ

۲۱ ۔ ام سلمہ

۱۳ ۔ عمربن ابی سلم

۱۴ ۔ واثلة بن اسقع

۱۵ ۔ ابی الحمرائ

اس کے علاوہ شیعوں کی حدیث اور تفسیر کی کتابوں اور بعض اہل سنت منابع میں درج کی گئی احادیث اور روایتوں سے استفادہ ہو تا ہے کہ ” اہل بیت “سے مراد پیغمبر اسلام (ص)علی، فاطمہ نیز شیعوں کے گیارہ ائمہ معصومین )علیہم السلام )ہیں۔

۱۹۵

آیہ تطہیر کے بارے میں احادیث کی طبقہ بندی

آیہ تطہیر سے مربوط احادیث کو اہل سنت کے مصادر میں مطالعہ کرنے اور شیعوں کے منابع میں موجود ان احادیث کا سرسری جائزہ لینے کے بعد انھیں چند طبقوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:

۱ ۔ وہ حدیثیں جن میں ” اہل بیت “ کی تفسیر علی و فاطمہ، حسن وحسین علیہم السلام کے ذریعہ کی گئی ہے۔

۲ ۔ وہ حدیثیں جن کا مضمون یہ ہے کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی، وفاطمہ،حسن و حسین علیہم السلام کو کساء کے نیچے قرار دیا پھر آیہ تطہر نازل ہوئی ، اور یہ واقعہ ” حدیث کساء “ کے نام سے مشہور ہے ۔ ان میں سے بعض احادیث میں آیا ہے کہ ام سلمہ یا عائشہ نے سوال کیا کہ : کیا ہم بھی اہل بیت میں شامل ہیں؟

۳ ۔ وہ حدیثیں جن میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہرروز صبح کو یا روزانہ پانچوں وقت حضرت علی و فاطمہ علیہماالسلام کے کھرکے دروازے پر تشریف لے جاتے تھے اور سلام کر تے تھے نیز آیہ تطہیر کی تلاوت فرماتے تھے۔

۴ ۔ وہ حدیثیں جواس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ تطہیر پنجتن پاک علیہم السلام یا پنجتن پاک علیہم السلام نیز جبرئیل ومیکائیل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔

یہاں پرمناسب ہے کہ احادیث کے مذکورہ چارطبقات میں سے چند نمونوں کی طرف اشارہ کیا جاے:

۱۹۶

۱ ۔ ”اہل بیت“کی پنجتن پاک سے تفسیر

ذیل میں چند ایسی احادیث بیان کی جاتی ہیں جن میں آیہء تطہیر میں ”اہل بیت“کی تفسیرپنجتن پاک) علیہم السلام )سے کی گئی ہے:

الف:کتاب”المستدرک علی الصحیحین“میں عبداللہ بن جعفر سے روایت کی گئی ہے:

لمّا نظر رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إلی الرحمة هابطة قال: اٴُدعوالی، اٴُدعوالی فقالت صفیة: من یا رسول اللّٰه؟ قال:اٴهل بیتی:علیاً وفاطمه والحسن و الحسین - علیهم السلام - فجیئی بهم،فاٴلقی علیهم النبییّ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کساء ه ثم رفع یدیه ثمّ قال: ”اللّهمّ هؤلاء آلی فصل علی محمد و علی آل محمد“ و اٴنزل اللّٰه عزّوجلّ ( : إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) هذا حدیث صحیح الاسناد ۔(۱)

”جب پیغمبر خدا (ص)نے رحمت الہی )جو آسمان سے نازل ہوئی تھی) کا مشاہدہ کیا تو فرمایا: میرے پاس بلاؤ!میرے پاس بلاؤ!صفیہ نے کہا:یارسول اللہ کس کو بلاؤں؟آپ نے فرمایا:میرے اہل بیت،علی وفاطمہ، حسن وحسین )علیہم السلام)کو۔

جب ان کو بلایا گیا،تو پیغمبراکرم (ص)نے اپنی کساء )ردا)کوان پر ڈال دیااوراپنے ہاتھ پھیلاکر یہ دعا کی:خدایا!”یہ میرے اہل بیت ہیں۔محمد اور ان کے اہل بیت پر دورد ورحمت نازل کر۔“اس وقت خدا وند متعال نے آیہء شریفہ إنمّا یرید اللہ۔۔۔ نازل فرمائی۔

اس حدیث کے بارے میں حاکم نیشاپوری کا کہنا ہے:

هذا حدیث صحیح الاسناد ولم یخرجاه ۔“

”اس حدیث کی سند صحیح ہے اگرچہ بخاری اورمسلم نے اپنی صحیحین میں سے نقل نہیں

_____________________

۱۔المستدرک علی الصحیحین،ج۳،ص۱۴۸

۱۹۷

کیا ہے۔“(۱)

قابل غوربات ہے کہ حاکم نیشاپوری کا خود اہل سنت کے حدیث ورجال کے بزرگ علماء اور امام میں شمار کیا جاتا ہے ۔

ب:عن ابی سعید الخدری عن اٴُم سلمة قالت: ”نزلت هذه الآیة فی بیتی: ( إنّما یرید اللّهٰ لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) قلت: یا رسول اللّٰه، اٴلست من اٴهل البیت؟ قال: إنّک إلی خیر، إنّک من اٴزواج رسول اللّٰه صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قالت: و اٴهل البیت رسول اللّٰه و علیّ و فاطمة والحسن والحسن(۲)

”ابی سعیدخدری نے ام سلمہ سے روایت کی ہے کہ انھوں نے کہا:یہ آیت:

( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الّرجس اهل البیت و یطهّرکم تطهیرا ) میرے گھر میں نازل ہوئی میں نے عرض کی یارسول اللہ!کیا میں اہل بیت میں سے نہیں ہوں؟فرمایا:تمھارا انجام بخیر ہے،تم رسولکی بیوی ہوپھرام سلمہ نے کہا:”اہل بیت“رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی و فاطمہ، حسن وحسین (علیہم السلام) ہیں۔

____________________

۱۔حاکم نیشاپوری نے اپنی کتاب ”المستدرک علی الصحیحین“میں ان ا حادیث کودرج کیا ہے جو بخاری کے نزدیک صحیح ہو نے کی شرط رکھتی تھیں،لیکن انہوں نے انھیں اپنی کتابوں میں درج نہیں کیا ہے۔جو کچھ ذہبی اس حدیث کے خلاصہ کے ذیل میں ۔ اس کے ایک راوی ۔ملیکی کے بارے میں کہتا ہیں کہ:”قلت: الملیکی ذاھب الحدیث“اس کے عدم اعتماد کی دلیل نہیں ہو سکتی ہے۔کیونکہ اس کے بارے میں جیسا کہ ابن حجر نے”تہذیب التہذیب“ج۶،ص۱۳۲ پر”ساجی“سے نقل کر کے”صدوق“ کی تعبیرکی ہے۔ اس کی صداقت اور سچ کہنے کی دلیل ہے۔اوراس کی مدح میں جوتعبیرات نقل کی گئی ہے وہ اس کی حدیث کے بارے میں ہے اورخود صحیح بخاری ومسلم میں بھی ہم بہت سے ابواب میں ان کے راویوں کوپاتے ہیں کہ بہت سی تعرفیں کی گئی ہیں۔

۲۔تاریخ مدینة دمشق،ج۱۳،ص۲۰۶

۱۹۸

۲ ۔آیہء تطہیر کی تفسیرمیں حدیث کساء کی تعبیر

ش یعہ اور اہل سنت کی تفاسیر و احادیث کی کتابوں میں اس مضمون کی فراون حدیثیں موجود ہیں کہ پیغمبر اسلام صلی الله علیہ وآلہ وسلم نے اپنے اہل بیت علیہم السلام کو ایک کساء کے نیچے جمع کیا اور اس کے بعد ان کے بارے میں آیہ تطہیر نازل ہوئی۔ ہم اس کتاب میں ان احادیث میں سے چند ایک کو نمونہ کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

قابل توجہ بات ہے کہ ش یعہ امامیہ کے نزدیک حدیث کساء ایک خاص اہمیت و منزلت کی حامل ہے۔ یہ حدیث مرحوم بحرانی(۱) کی کتاب،”عوالم العلوم“میں حضرت فاطمہ زہرا )سلام الله علیہا) سے روآیت کی گئی ہے اور مختلف زمانوں میں ش یعوں کے نا مور علماء اور فقہا کے نام سے مزّین اسناد کے ساتھ نقل ہوئی ہے۔ نیز یہ حدیث ش یعوں کی مجلسوں اور محفلوں میں پڑھی جاتی ہے اور توسّل اور تبّرک کا ذریعہ قرار دی گئی ہے۔

احادیث کے اس گروہ میں درجہ ذیل تعبیر یں توجہ کا باعث ہیں اور ان تعبیروں میں سے ہر ایک ”اہل بیت “ کے دائرے کو پنجتن پاک )علیہم اسلام) کی ذات میں متعین کرتی ہیں:

۱ ۔”إنّک الی خیر “ یا جملہء”انّک من ازواج النبّی “ سے ضمیمہ کے ساتھ(۲)

۲ ۔”تنحّی، فإنّک علی خیر ۔“(۳)

۳ ۔”فجذبه من یدی ۔“(۴)

۴ ۔”ماقال إنّک من ٍهل البیت ۔“(۵)

۵ ۔”لا،واٴنت علی خیر ۔“(۶)

____________________

۱۔ عوام العوم، جلد حضرت زہراء علیہماسلام۔ ج۱۱،ص ۶۳۸موسسہ الامامم مھدی علیہ اسلام

۲۔الدر المنثور،ج۶،ص۶۳۸،موسسة الامام مھدی

۳۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۳

۴۔الدر المنثور،ج۶،ص۱۶۰۴۔المعجم الکبیرج،۲۳،ص۳۳۶ ۵۔تاریخ مدینةدمشق ج۱۴،ص۱۴۵

۶۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۰۶ ۲

۱۹۹

۶ ۔”فواللّٰه مااٴنعم ۔“(۱)

۷ ۔”مکانک،اٴنت علی خیر ۔“(۲)

۸ ۔”فوددت اٴنّه قال:نعم ۔۔۔“(۳)

۹ ۔”تنحیّ لی عن اٴهل بیتی ۔“(۴)

۱۰ ۔”إنّک لعلی خیر،ولم ید خلنی معهم ۔“(۵)

۱۱ ۔”فواللّٰه ماقال:اٴنت معهم ۔“(۶)

۱۲ ۔”اجلسی مکا نک،فانک علی خیر ۔“(۷)

۱۳ ۔”إنّک لعلی خیر،وهؤلائ اٴهل بیتی ۔“(۸)

۱ ۔”إنک إلی خیر “کی تعبیر

”اٴخرج ابن جریر و ابن حاتم و الطبرانی و ابن مردویه عن اٴمّ سلمة زوج النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم إنّ رسول اللّٰه( ص) کان ببیتها علی منامة له علیه کساء خیبریّ! فجا ء ت فاطمة - رضی اللّٰه عنها - ببرمة فیها خزیره فقال رسول اللّه( ص) : اُدعی زوجک و ابنیک حسناً و حسیناً فدعتهم، فبینما هم یاٴکلون إذنزلت علی رسول اللّٰه( ص) :( إنّما یرید اللّٰه لیذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهّرکم تطهیراً ) فاٴخذ النبیّصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بفضلة ازاراه فشّاهم إیاّها، ثمّ اٴخرج یده من الکساء و اٴومابها إلی السماء ثمّ قال: ”اللّهمَّ هؤلاء

____________________

۱۔تفسیرابن کثیر،ج۳،ص۴۹۲،تفسیر طبری ج،۲۲ص،۵

۲۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۴،ص۱۴۱ ۳۔مشکلا آثار،ج۱،ص۳۳۶

۴۔تاریخ مدینةدمشق،ج۱۳،ص۲۰۳

۵۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۶۱

۶۔شواہد التنزیل،ج۲،ص۱۳۴

۷۔شواہدالتنزیل،ج۲،ص۱۹

۸۔المستدرک علی الصحیحین،ج۲،ص۴۱۶

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296