منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)0%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی (گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 113292
ڈاؤنلوڈ: 4160

تبصرے:

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113292 / ڈاؤنلوڈ: 4160
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دوسری فصل

شباب و جوانی کا زمانہ

۱۔ نبی(ص) ابوطالب کی کفالت میں

نبی(ص)، حضرت ابو طالب کی کفالت میں آنے سے پہلے حضرت عبد المطلب کی حفاظت وکفالت میں رہے عبد المطلب جانتے تھے کہ ابو طالب بہترین طریقہ سے اپنے بھتیجے کی حفاظت و کفالت کریں گے اگر چہ وہ نادار ہیں لیکن اپنے بھائیوں سے زیادہ شریف و نجیب ہیں اور قریش انہیں عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حضرت ابوطالب جناب عبد اللہ کے پدری و مادری بھائی ہیں لہذا وہ محمد(ص) سے زیادہ محبت کریں گے۔

اس ذمہ داری کو حضرت ابو طالب نے خندہ پیشانی اور افتخار کے ساتھ قبول کر لیا، اس سلسلہ میں ابو طالب کی زوجہ جناب فاطمہ بنت اسد بھی ان کی معاون تھیں، یہ میاں بیوی پہلے محمد(ص) کو کھانا کھلاتے تھے اور پھر اپنی اولاد کو کھلاتے تھے، پہلے محمد (ص)کو کپڑا پہناتے تھے پھر اپنے بچوں کو کپڑا پہناتے تھے، اس چیز کو رسول(ص) نے فاطمہ بنت اسد کے انتقال کے وقت اس طرح بیان فرمایا: ''الیوم ماتت امی '' میری ماں کا انتقال آج ہواہے۔ اور انہیں اپنے کرتے کا کفن دیا اور پہلے خود ان کی قبر میں لیٹے۔

حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد رسول(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری جناب ابو طالب کے دوش پر آ گئی تھی چنانچہ انہوں نے آنحضرت (ص) کے بچپنے ہی سے اپنی جان و عظمت سے آنحضرت (ص) کی حفاظت کی تا حیات آپ کا دفاع کیا اپنے ہاتھ اور زبان سے

۶۱

آپ(ص) کی نصرت کی یہاں تک کہ محمد(ص) جوان ہو گئے اور نبوت سے سرفراز ہو گئے۔( ۱ )

۲۔ شام کی طرف پہلا سفر

قریش کی یہ عادت تھی کہ وہ سال میں ایک بار تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے کیونکہ ان کی کمائی کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ ابو طالب نے بھی شام کے سفر کا ارادہ کیا لیکن محمد(ص) کو اس لئے سفر میں ساتھ لے جانے کے بارے میں نہیں سوچا تھاکہ سفر میں بہت سی صعوبتیں پیش آئیں گی اور صحرائوں سے گذرنا پڑے گا۔ مگر روانگی کے وقت جب ابو طالب نے یہ دیکھا کہ ان کا بھتیجا ساتھ چلنے پر مصر ہے اور اپنے چچا کے فراق میں رو رہا ہے تو انہیں اپنا یہ ارادہ بدلنا پڑا، مختصر یہ کہ آنحضرت (ص) نے شام کا پہلا سفر اپنے چچا جناب ابو طالب کے ساتھ کیا۔ اس سفر میںآپ(ص) صحرائوں سے گذرے اور سفر کے مزاج کو سمجھ گئے اور قافلوں کے راستوں سے واقف ہو گئے۔

اسی سفر میں محمد(ص) کو بحیرا نامی راہب نے دیکھا، آپ(ص) سے ملاقات کی، آپ(ص) کے اندر اس خاتم النبیین کے اوصاف ملاحظہ کئے جس کی آمد کی بشارت جناب عیسیٰ نے دی تھی یہ بشارت توریت و انجیل اوردیگر ان کتابوں میں بھی نقل ہوئی تھی جن میں خاتم النبیین کے ظہور کی بشارت دی گئی تھی۔ بحیرا نے آپ(ص) کے چچا ابوطالب(ص) سے کہا کہ ان کو لیکر آپ واپس مکہ چلے جائیں اور انہیں یہودیوں سے بچائیں کہیں وہ انہیں قتل نہ کر دیں( ۲ ) اس پر جناب ابو طالب اپنے بھتیجے محمد(ص) کو لیکر مکہ واپس آ گئے۔

۳۔ بکریوں کی پاسبانی

ائمہ اہل بیت سے ایسی کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ رسول(ص) نے بچپنے میں بکریاں چرائی تھیں۔ ہاں امام صادق سے ایک ایسی حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس میں تمام انبیاء کے بکریاں

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۳۵، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۴۔

۲۔سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۹۴، الصحیح من سیرة النبی ج۱ ص ۹۱، ۹۴۔

۶۲

چرانے اور گلہ بانی کا فلسفہ بیان ہوا ہے ۔ ارشاد ہے :''ما بعث الله نبیاً قط حتی یسترعیه الغنم یعلمه بذالک رعیه للناس'' خدا نے کسی نبی کو اس وقت تک نبی نہیں بنایا جب تک کہ اس نے بکریوں کے گلہ کی پاسبانی نہیں کی، اصل میں اس طرح اسے لوگوں کی پاسبانی اور انہیں قابومیںکرنے کا طریقہ معلوم ہوجاتا ہے ۔

اسی طرح امام صادق نے کھیتی اورگلہ بانی کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے :ان اللّه عزّ و جلّ احبّ لانبیائه من الاعمال: الحرث و الرعی لئلا یکرهوا شیئا من قطر السماء ۔( ۱ )

بیشک خدا وند عالم نے اپنے انبیاء کے لئے زراعت اور پاسبانی کو پسند فرمایا تاکہ وہ آسمان کے نیچے کی کسی بھی چیز سے کراہت نہ کریںنیز آپ ہی سے روایت ہے :انّ رسول اللّه ما کان اجیرا لا حدٍ قط ( ۲ ) رسول(ص) نے ہر گز کسی کی نوکر ی نہیں کی۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں نہیں چرائیں جیسا کہ بعض مورخین نے صحیح بخاری کی ایک حدیث کی بنا پر یہ لکھدیا کہ آپ(ص) نے اہل مکہ کی بکریاں چرائی تھیں۔( ۳ )

جب یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت (ص) نے بچپنے اور جوانی میں(اپنی) بکریاں چرائی تھیں تو اب ہمارے لئے اس حدیث کی علت بیان کرنا آسان ہو گیا جو ہم نے امام صادق سے نقل کی ہے اور وہ یہ کہ ان سر گرمیوں کے ذریعہ خدا آپ(ص) کو کمال کے اس مرتبہ پر پہنچنے کاا ہل بنا رہا تھا جس کو خود خدا نے اس طرح بیان کیا ہے :( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ( ۴ ) بیشک آپ خلقِ عظیم کے درجہ پر فائز ہیں، یہی وہ کمال ہے جس نے آپ(ص) کے اندر خدائی رسالت کے بار کو اٹھانے کی استعداد پیدا کی تھی۔ رسالت الٰہیہ لوگوں کی پاسبانی، ان کی تربیت اور ان کی ہدایت و ارشاد کے سلسلہ میں پیش آنے والی دشواریوں کا تقاضا کرتی ہے۔

____________________

۱۔علل الشرائع ص ۲۳ سفینة البحار مادہ نبا۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۱، البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۶۔

۳۔ صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب ۳۰۳ حدیث ۴۹۹۔

۴۔ قلم: ۴۔

۶۳

۴۔ حرب الفجار

عرب میں کچھ ایسی جنگیں بھی ہوتی تھیں جن میں وہ حرمت والے مہینوں کی حرمت کو حلال سمجھ لیتے تھے ان جنگوں کو حرب الفجار کے اسم سے موسوم کیا جاتا تھا۔( ۱ )

بعض مورخین کا خیال ہے کہ ایسی جنگیں رسول(ص) نے بھی دیکھی ہیں اور ایک طرح سے آپ(ص) ان میں شریک بھی ہوئے ہیں لیکن بعض محققین نے درج ذیل چند اسباب کی بنا پر اس میں شک کیا ہے :

۱۔ جیسے جیسے رسول(ص) کی عمر بڑھتی تھی اسی تناسب سے آپ کی شخصیت نکھرتی جاتی تھی ، تمام بنی ہاشم کی طرح آپ کی شجاعت بھی مشہور تھی لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بنی ہاشم نے ظلم و فساد والی جنگ میں شرکت کی ہے ۔روایت ہے کہ بنی ہاشم نے ایسی جنگوں میں شرکت نہیں کی، کیونکہ ابو طالب نے صاف کہہ دیا تھا کہ ان جنگوں میںمیرے خاندان میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوگا( ۲ ) ان جنگوں میں ظلم و زیادتی قطع رحمی ہوتی ہے اور حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھ لیا جاتا ہے لہذا میرے خاندان میں سے کوئی بھی ان میں شریک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اس زمانہ کے قریش و کنانہ کے سردار عبد اللہ بن جدعان اور حرب بن امیہ نے یہ اعلان کر دیا ہم اس معاملہ میں شریک نہیںہونگے جس میں بنی ہاشم شریک نہیں ہونگے ۔( ۳ )

۲۔ جوروایات ان جنگوں میں نبی(ص) کے کردار کو بیان کرتی ہیں ان میں اختلاف ہے ، بعض صرف یہ بیان کرتی ہیں کہ ان جنگوں میں رسول(ص) کا کام اپنے چچائوں کیلئے، تیروں کو جمع کرنا اور انکے دشمنوںپر برسانا اور اپنے چچائوں کے مال کی حفاظت کرنا تھا۔( ۴ ) دوسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ان جنگوں میں آپ(ص) نے تیر وغیرہ چلائے ہیں۔( ۵ ) تیسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ(ص) نے ابو براء پر سنان سے حملہ کیا اور

____________________

۱۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج۱ ص ۳۰۱ تا ۳۰۵ بحوالہ اغانی ج۱۹ ص ۷۴۔۸۰۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۵۔ ۳۔ ایضاً: ج۲ ص ۱۵۔

۴۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج۱ ص ۳۰۴۔

۵۔ السیرة النبویة زینی دحلان ج۱ ص ۲۵۱، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۲۷۔

۶۴

اسے گرا دیا حالانکہ اس وقت آپ(ص) کا بچپنا تھا۔( ۱ ) لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ عرب اپنے بچوں کو جنگوں میں شریک ہونے کی اجازت دیتے تھے یا نہیں؟( ۲ )

۵۔حلف الفضول

حرب الفجار کے بعد قریش کو اپنی کمزوری اور انتشار کا احساس ہوا اور انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم قوی و معزز تھے اب کہیں عرب کے حملہ کا نشانہ نہ بن جائیں لہذا زبیر بن عبد المطلب نے حلف الفضول کی طرف دعوت دی، اس دعوت کے نتیجہ میں بنی ہاشم ، بنی زہرہ، بنی تمیم اور بنی اسد ،عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور عہد و پیمان کرنے والوں نے آبِ زمزم میں ہاتھ ڈال کر عہد کیا کہ مظلوم کی مدد کریں گے، زندگی کے اصولوں کی از سر نو بنا رکھیں گے اور لوگوں کوبرائیوں سے روکیں گے۔( ۳ ) زمانۂ جاہلیت میں یہ عظیم ترین عہد تھا۔ اس عہد و پیمان میں حضرت محمد(ص) بھی شریک تھے اس وقت آپ(ص) کی عمر بیس سال سے کچھ زیادہ تھی۔( ۴ )

اس عہد و پیمان کی تعریف آپ(ص) نبی ہونے کے بعد بھی اس طرح کرتے تھے :ما احب ان لی بحلف حضرته فی دار ابن جدعان حمر النعم ولو دعیت به فی الاسلام لا جبت ۔( ۵ ) مجھے وہ عہد و پیمان سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے جو ابن جدعان کے گھر میں ہوا تھا اگر اس کو اسلام میں شامل کرنے کے لئے کہا جاتا تو میں ضرور قبول کر لیتا۔

حلف الفضول کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ایک قول یہ ہے : چونکہ اس عہد و پیمان میں تین آدمی ایسے شریک تھے جن کے نام ''الفضل'' سے مشتق تھے اسلئے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ اس عہد و پیمان کے سبب کے بارے میں روایت ہے کہ ماہِ ذی قعدہ میں بنی زبید یا بنی اسد بن خزیمہ کا ایک شخص کچھ سامانِ تجارت

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۶۔ ۲۔الصحیح فی السیرت ج۱ ص ۹۵۔

۳۔البدایة النہایة ج۳ ص ۲۹۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ص ۱۲۹ و ۲۸۳۔

۴۔تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۱۷۔ ۵۔ سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۴۲۔

۶۵

کے ساتھ مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے کچھ سامان خرید لیا لیکن اس کی قیمت ادا نہ کی۔ زبید ی نے قریش والوں سے مدد طلب کی قریش والوں نے عاص بن وائل کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ڈانٹا پھٹکارا تو زبیدی نے کوہ ابو قبیس پر چڑھکر فریاد کی اس کی فریاد سن کر زبیر بن عبد المطلب نے لوگوں کو بلایا، انہیں لوگوں سے ''حلف الفضول'' جماعت کی تشکیل ہوئی، یہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے زبیدی کا ساما ن لیکر اسے واپس لوٹا دیا۔( ۱ )

خدیجہ کے مال سے تجارت

اپنے عظیم اخلاق، بلند ہمتی، امانت داری اور صداقت کی وجہ سے محمد(ص) کی شخصیت مکہ کے معاشرہ میں نکھرتی اور ابھرتی جا رہی تھی ، خود بخود لوگوں کے دل آپ(ص) کی طرف جھکتے تھے، کیوں نہ ہو کہ آپ(ص) کا تعلق پاک نسل سے تھا لیکن جس خاندان میں آپ(ص) زندگی گزار رہے تھے، اس کے سرپرست ابو طالب، مفلس و نادار تھے انہوں نے مجبوراً اپنے بھتیجے سے یہ کہا (جس کی عمر اس وقت پچیس سال تھی )کہ آپ خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کریں۔ ابو طالب جناب خدیجہ کے پاس گئے، ان سے اپنا منصوبہ بتایا انہوں نے فوراً قبول کر لیا اور اس سے بہت خوش ہوئیں کیونکہ وہ محمد(ص) کی شخصیت سے واقف تھیں، خدیجہ نے اپنے تجارتی شرکاء سے دگنا حصہ آپ کے لئے مقرر کیا۔( ۲ )

محمد(ص) شام کی طرف روانہ ہو گئے اس سفر میں خدیجہ کا غلام میسرہ آپ کے ساتھ تھا ، اس سفرکے دوران محمد(ص) نے اپنے حسن و جمال اور محبت و مہربانی کی وجہ سے میسرہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اپنی امانتداری ، تدبر و ہوشیاری کی بنا پر آپ سے بہت نفع اٹھایا۔ اس سفر میں آپ سے بعض واضح کرامات بھی ظاہر ہوئے، جب قافلہ مکہ واپس آیا تو میسرہ نے جو کچھ سفر میں دیکھا اور سناتھا( ۳ ) وہ خدیجہ سے بیان کیا اس سے خدیجہ نے آپ(ص) کو

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۲، البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۶ ص ۲۲، کشف الغمہ ج۲ ۱۳۴، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۲۔

۳۔البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۶، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۶۔

۶۶

اور زیادہ اہمیت دی اور ان کے دل میں آپ(ص) کا اشتیاق پیدا ہوا۔

بعض مورخین نے یہ خیال کیا ہے کہ اس تجارت کے لئے خدیجہ نے آپ(ص) کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھاچنانچہ یعقوبی، جن کی تاریخ قدیم ترین و معتمد ترین مصدر وماخذ سمجھی جاتی ہے لکھتے ہیں: لوگ کہتے ہیں خدیجہ نے آپ(ص) کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ(ص) ہرگز کسی کے ملازم نہیں رہے۔( ۱ )

امام حسن عسکری سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوارامام علی نقی سے روایت کی ہے : رسول(ص) خدا خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے۔( ۲ )

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۷ ص ۳۰۸۔

۶۷

تیسری فصل

شادی سے بعثت تک

۱۔ شادی مبارک

حضرت محمد(ص) کی شخصیت کے لئے جوہر شخصیت سے بلند تھی، ایسی عورت سے شادی کرنا ضروری تھا جس کا مزاج آپ(ص) کے مزاج سے ہم آہنگ ہو اور وہ آپ(ص) کے اغراض و مقاصد سے متفق ہوتا کہ وہ آپ کے ساتھ راہِ جہاد و عمل کو طے کرے دشواریوں اور مشکلوں میں صبر کرے، اس زمانہ میں ایسی کوئی عورت نہیں تھی جو محمد(ص) کے لئے مناسب ہو، اس مہم کے لئے جناب خدیجہ سے بہتر کوئی نہیں تھا، خدا نے چاہا تو خدیجہ کا دل محمد(ص) کی طرف مائل اور آپ(ص) کی عظیم شخصیت کا گرویدہ ہو گیا، حسن و جمال، عزت و شرافت اور مال کے لحاظ سے خدیجہ قریش کی تمام عورتوں پر فوقیت رکھتی تھیں، زمانہ جاہلیت میں ، انہیں ، طاہرہ اور سیدہ کہا جاتا تھا، ان کی قوم کا ہر مرد ان سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

قریش کے بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے آپ کے پیغام آئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت زیادہ مال خرچ کیا( ۱ ) لیکن خدیجہ نے سب کے پیغامات کو ٹھکرا دیا وہ عاقلہ تھیں۔ ہر چیز کو سمجھتی تھیں، لہذاانہوں نے اپنے لئے آنحضرت(ص) ہی کو پسند کیا، کیونکہ خدیجہ آپ میں شرافت، اخلاق، بہترین عادات و خصلت اور بلند اقدار کا مشاہدہ کر چکی تھیں لہذا انہوں نے آپ(ص) کی دہلیز عظمت پر اترنا اور خود کو آپ(ص) کی نذر کرنا ہی بہتر سمجھا۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱۶ ص ۲۲۔

۶۸

بہت سے تاریخی نصوص سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ آپ(ص) سے شادی کی پیشکش خود جناب خدیجہ ہی نے کی تھی اس کے بعد ابو طالب اور قریش میں سے بعض افرادرشتہ لے کر ان کے خاندان والوں کے پاس گئے تھے اس وقت خدیجہ کے بزرگ اور ولی ان کے چچا عمرو بن اسد تھے( ۱ ) یہ واقعہ بعثتِ نبی(ص) سے پندرہ سال قبل کا ہے ۔

جناب ابو طالب نے اس وقت جو خطبہ پڑھا تھا اس کا ایک اقتباس یہ ہے:

''الحمد لرب هذا البیت الذی جعلنا من زرع ابراهیم و ذریة اسماعیل و انزلنا حرماً آمناً و جعلنا الحکام علیٰ الناس و بارک لنا فی بلدنا الذی نحن فیه...''

ساری تعریف اس گھر -خانہ کعبہ-کے رب کے لئے ہے جس نے ہمیں ابراہیم کی نسل اور اسماعیل کی ذریت قرار دیا اور ہمیں محفوظ حرم میں اتارا، ہمیں لوگوں پر حاکم بنایااور ہمیں ہمارے اس شہر میں برکت عطا کی کہ جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں...

میرے اس بیٹے کا قریش کے جس مرد سے بھی موازنہ و تقابل کیا جائیگا تو یہ اس سے بلند ثابت ہوگا اور جسے بھی اس کے مقابلہ میں لایا جائیگا یہ اس سے عظیم قرار پائیگا۔کائنات میں کوئی بھی اس کا ہم پلّہ نہیں ہے اگر چہ اس کے پاس مال کم ہے ، لیکن مال کی وقعت ہی کیا ہے یہ تو آتاجاتارہتا ہے ، ڈھل جانے والا سایہ ہے ، یہ خدیجہ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور خدیجہ بھی اس کی طرف مائل ہے ۔ ہم خدیجہ کی خواستگاری کے لئے اسی کے ایماء پر تمہارے پاس آئے ہیں رہی مہر کی بات تو وہ میں اپنے مال سے ادا کرونگا خواہ نقد ہو یا ادھار،...میرے بھتیجے اور ربِّ کعبہ کی بڑی عظمت ہے (کعبہ کے رب کی قسم میرے بھتیجے کی بڑی عظمت ہے)، ان کا دین مشہور اور ان کی رائے کامل ہے ۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۷۔

۲۔کافی ج۵ ص ۳۷۴، بحار الانوار ج۱۶ ص ۵، اس میں کشاف و ربیع الابرار سے منقول ہے نیز ملاحظہ ہو سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۹، تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۲۰، الاوائل از ابو ہلال ج۱ ص ۱۶۲۔

۶۹

اس پر خدیجہ نے فرمایا: ان کا مہر میں اپنے مال سے ادا کروںگی، بعض لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ تعجب ہے عورتوں پر مردوں کا مہر ہے ، یہ بات سن کر ابو طالب کو غصہ آ گیا کہا : ہاں اگر مرد میرے بھتیجے جیسے ہونگے تو ان کی عظمت اس سے زیادہ ہے ان کو مہر ادا کیا جائے گا اور اگر مرد تم جیسے ہونگے تو ان سے زیادہ مہر لیکر شادی کی جائیگی۔

بعض معتبر کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدیجہ کا مہر خود رسول(ص) نے ادا کیا تھااور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کہ آنحضرت(ص) نے ابو طالب کے ذریعہ مہردلایا ہو، ابو طالب کے خطبہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کے دل میں رسول(ص) کی کتنی عظمت تھی اور بنی ہاشم کی کیا قدر و منزلت تھی۔

جناب خدیجہ؛رسول(ص)کے ساتھ شادی سے پہلے

جناب خدیجہ ایک بلند اخلاق خاتون، دین ابراہیم کی طرف مائل اورشریف و معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد جناب خویلد تھے جنہوں نے یمن کے بادشاہ سے اس وقت مقابلہ کیا تھا جب وہ حجر اسود کو یمن لے جانا چاہتا تھا انہوں نے اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت میں یمن کے بادشاہ کی طاقت اور کثیر فوج کی بھی پروا نہیں کی تھی اور جناب خدیجہ کے دادا -اسد بن عبد العزیٰ- حلف الفضول نامی جماعت کے نمایاں رکن تھے یہ جماعت مظلوموں کی حمایت کے لئے تشکیل پائی تھی۔ اس جماعت کی اہمیت کے پیش نظر اس میں رسول(ص) شریک ہوئے تھے اور اس کے اعلیٰ اقدار کی تائید کی۔( ۱ )

جنابِ خدیجہ کی شادی سے پہلے کے تفصیلی حالات ہمیں تاریخ میں نہیں ملتے ہیں، بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھدیا کہ آنحضرت(ص) سے قبل خدیجہ کی دو اشخاص سے شادی ہوئی تھی اور ان سے اولاد بھی ہوئی تھی، وہ دو اشخاص، عتیق بن عائد مخزومی اورابو ھالہ تمیمی ہیں۔( ۲ ) جبکہ دوسری معتبر کتابوں میں یہ روایت ہے کہ جب رسول(ص) نے جناب خدیجہ سے شادی کی تھی اس وقت آپ کنواری تھیں اور زینب و رقیہ جناب خدیجہ کی بہن

____________________

۱۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۱۴۱۔

۲۔ اختلاف روایات کے بارے میں۔ اصابہ ج۳ ص ۶۱۱، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۰، اسد الغابہ ج۵ ص ۷۱و ص ۱۲۱ ملاحظہ فرمائیں۔

۷۰

ہالہ کی بیٹیاں تھیں ان کی والدہ کے انتقال کے بعد جناب خدیجہ نے انہیں گود لے لیا تھا۔( ۱ )

رسول(ص) سے شادی کے وقت جناب خدیجہ کی عمر کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض نے یہ لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ۲۵ سال تھی بعض نے یہ تحریر کیا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ۲۸ سال تھی، کچھ نے ۳۰، بعض نے ۳۵ اور بعض نے ۴۰ سال تحریر کی ہے۔( ۲ )

۲۔ حجر اسود کو نصب کرنا

عرب کے نزدیک خانہ کعبہ کی بہت بڑی منزلت تھی وہ لوگ اس کی حرمت و اہمیت کے قائل تھے وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا حج کرتے تھے۔ بعثت رسول(ص) سے پانچ سال پہلے سیلاب کے سبب خانۂ کعبہ منہدم ہو گیا تھا قریش نے جمع ہو کر خانۂ کعبہ کی تعمیرنو اور اس کی تو سیع کا منصوبہ بنایا اور یہ طے کیاکہ یہ کام قریش اور دیگر اہل مکہ کی نگرانی میں ہوگا چنانچہ جب بنیاد یں بلند ہوکرحجر اسود کی جگہ تک پہنچیں تو ان میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ حجر اسود کو کون نصب کرے گا ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو، اس بات پر ان کے درمیان تلوار یں کھینچ گئیں ہر حلیف اپنے حلیف سے مل گیا، خانۂ کعبہ کی تعمیر کا کام بھی بند ہو گیا، وہ لوگ ایک بار پھر مسجد میں جمع ہوئے باہم مشورہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے جو شخص اس اجتماع میں داخل ہوگا وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا نیز انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے چنانچہ سب سے پہلے اس اجتماع میں محمد بن عبد اللہ داخل ہوئے۔ ان لوگوں نے کہا: یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، رسول(ص) نے اس جھگڑے کونمٹانے کے لئے حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور فرمایا: ہر قبیلہ اس کا ایک ایک کونا پکڑے پھر فرمایا کہ سب مل کر اٹھائیں سب نے یکبارگی اٹھایا اور جب حجر اسود اپنی جگہ پر پہنچ گیا تو رسول(ص) نے اپنے ہاتھوں سے نصب کیا اس کے بعد

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۵۹، اعلام الھدایة ج۳ ، الصحیح من سیرت النبی(ص) الاعظم ج۱ص ۱۲۱ و ۱۲۶۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۰، البدایة و النھایة ج۲ ص ۲۹۵، بحار الانوار ج۱۶ ص ۱۲سیرت مغلطائی ص ۱۲، الصحیح من سیرت النبی الاعظم، ج۱ ،ص ۱۲۶۔

۷۱

خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوئی۔( ۱ )

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی رسول(ص) کو حکم بناتے تھے کیونکہ آپ(ص) لوگوں کو فریب نہیں دیتے تھے۔( ۲ )

یقینا آپ(ص) کے اس عمل کا ان قبیلے والوں کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا، اجتماعی حیثیت حاصل کرنے کے لئے رسول(ص) نے اپنی حیات کا عظیم سرمایہ خرچ کیا اور انوکھا کردار ادا کیا اور ان کی توجہ کو اپنی قیادت کی صلاحیت اور انتظامی لیاقت کی طرف مبذول کیا اور بلند بینی، عقلمندی و تجربہ اور امانت داری کے ذریعہ ان کا اعتماد حاصل کیا۔

۳۔ حضرت علی کی ولادت اور نبی(ص) کے زیر دامن پرورش

حضرت محمد(ص) اور حضرت علی کے درمیان جو محبت و الفت تھی، اسے خاندانی محبت میں محدود نہیں کیا جا سکتا آپ دونوں کے درمیان فکری اور روحانی لگائو تھا۔ فاطمہ بنت اسد ابھی اس بچہ کو لیکر نکلنے نہیں پائی تھیں کہ جو عین خانۂ کعبہ میں پیدا ہوا ہے( ۳ ) خودرسول(ص) ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور علی کو ان سے لے لیتے ہیں انہیں سینہ سے لگاتے ہیں( ۴ ) حضرت علی کے لئے یہ آپ(ص) کی عنایت و اہتمام کی ابتداء ہے ۔

یہ مولود اپنے والدین اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت محمد(ص) کی گود میں پروان چڑھا، رسول(ص) جناب خدیجہ سے شادی کے بعد اکثر اپنے چچا ابو طالب کے گھر جایا کرتے اور مولود کو اپنی محبت وشفقت سے سرشار کرتے تھے، لوریاں دے کر سلاتے ، اپنے سینہ پر لٹاتے، اور جب یہ سو جاتے توان کی گہوارہ جنبانی کرتے تھے،

____________________

۱۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۹، سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۲۰۴، البدایة النہایة ج۲ ص ۳۰۰، تاریخ طبری ج۲ ص ۳۷۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۵۔

۳۔حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں: یہ بات متواتر حدیث ثابت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جوف کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں، مستدرک علی الصحیحین ج۳ ص ۴۸۳۔

۴۔الفصول المہمة ابن صباغ ص ۱۳۔

۷۲

نگہداری و پاسبانی کا یہ سلسلہ عرصۂ دراز تک جاری رہا اس لطف و محبت نے حضرت علی کے کردار و شعور پر اتنا اثر کیا کہ اس کا اظہار آپ کے کلام و زبان سے بھی ہو ا۔ چنانچہ رسول(ص) سے آپ(ص) کوجو شدید قربت تھی اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔

''قد علمتم موضعی من رسول اللّه بالقرابة القریبة و المنزلة الخصیصة، وضعنی فی حجره و انا ولید یضمنی الیٰ صدره و یکنفنی فی فراشه و یمسّنی جسده و یشمّنی عرفه و کان یمضغ الشیء ثم یلقمنیه وما وجد لی کذبة فی قول ولا خطلة فی فعل، ولقد کنت اتبعه اتباع الفصیل اثر امه یرفع لی فی کل یوم من اخلاقه علما و یامرنی بالا قتداء به'' ( ۱ )

یہ بات تو تم سبھی جانتے ہو کہ قریبی قرابتداری اور مخصوص قدر و منزلت کے سبب رسول(ص) کے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا۔ رسول(ص)نے مجھے بچپنے ہی میں گود لے لیا تھا، آپ(ص) مجھے سینہ سے لگاتے اور اپنے بستر پر اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم کو مجھ سے مس کرتے تھے اور مجھے اپنی خوشبو سنگھاتے تھے۔ کسی چیز کو آپ(ص) پہلے چباتے تھے اور پھر لقمہ بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے، آپ(ص) نے نہ تو میری کسی بات کو خلاف واقعہ پایا اور نہ میرے کسی کام میں کوئی لغزش دیکھی ، میں آپ(ص) کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ، آپ ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیتے تھے۔

جب قریش مالی بحران کا شکار ہوئے تو حضرت محمد(ص) اپنے چچا جناب حمزہ اور عباس کے پاس گئے اور ان سے یہ خواہش کی کہ جناب ابو طالب کا بارتقسیم کر لیا جائے چنانچہ طالب کو عباس اور جعفر کو حمزہ اپنے گھر لے گئے ، عقیل کو جناب ابو طالب نے اپنے پاس ہی رکھا، حضرت علی کو محمد(ص)لے گئے اور انہیں مخاطب کرکے فرمایا:''قد اخترت من اختار اللّٰه لی علیکم علیا'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ۱۹۲۔

۲۔مقاتل الطالبین ص ۳۶، تاریخ کامل ج۱ ص ۳۷۔

۷۳

میں نے اسی کو منتخب کیا ہے جس کو خدا نے میرے لئے منتخب فرمایا ہے اور علی کو تم پر منتخب کیا ہے اس طرح علی اپنے ابن عم کے گھر اور ان کی سرپرستی میں چلے گئے، آپ کی شخصیت نکھرنے لگی، آپ نبی(ص) کی آخری سانس تک ان سے جدا نہیں ہوئے۔ رسول(ص) خدا نے علی کے بارے میں جواہتمام کیا تھا اس کی علت کوفقط مالی و اقتصادی بحران میں محدود نہیں کیا جا سکتا، اس سے ہماری سمجھ میںیہ بات آتی ہے کہ رسول(ص) نے حضرت علی کی تربیت و سرپرستی اس لئے کی تھی تاکہ آپ رسول(ص) کی اس شریعت کوبچائیں جس کے لئے خدا نے اپنی مخلوق میں سے سب سے بہترین فرد کو اور اپنے بندوں میں سب سے اعلیٰ وبرگزیدہ ذات کو منتخب کیاتھا۔

اسی طرح خدا نے حضرت علی کے لئے یہ پسند فرمایا تھا کہ آپ عہد طفلی سے ہی آغوش ِ رسول(ص) میں زندگی گزاریں اور آنحضرت(ص) کی محبت و شفقت سے بہرہ ور ہوں رسول(ص) کے اخلاق و عادات کو اپنائیں، یہ تو ایک طرف دوسری طرف رسول(ص) نے علی کے ساتھ اپنے محبوب فرزند جیسا سلوک روا رکھاعلی ہر وقت رسول(ص) کے ساتھ ساتھ رہے، ہر انقلاب و حادثہ میں آنحضرت (ص) کے رفیق رہے کیونکہ رسول(ص) آپ کو چھوڑتے ہی نہیں تھے۔( ۱ )

ہمارے سامنے تاریخ نے حضرت علی کی جو سیرت پیش کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی نے رسول(ص) کی زیر نگرانی پیغام رسانی کے میدان میں بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعدجو مہارت حاصل کر لی تھی اور علی کے لئے رسول(ص) نے روحی و نفسی تربیت کاجو خاص اہتمام کیا تھا اس کے سبب علی ،رسول(ص) کے بعد سیاسی ،فکری اور علمی مرجعیت و محور کا استحقاق پیدا کر چکے تھے چہ جائیکہ سیاسی مرجعیت۔

۴۔ بعثت سے قبل رسول(ص) کی شخصیت

حضرت محمد(ص) کا نام جزیرہ نما عرب میں اس وقت روشن ہو ا جب اس معاشرہ میں خلفشار و پراگندگی کے آثار ہر طرف رونما ہو رہے تھے اور حضرت محمد(ص) کی شخصیت روز بروز ابھرتی اور نکھرتی جا رہی تھی۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۴ ص ۳۱۵۔

۷۴

کردار و کمال اور اخلاق کے میدان میں آپ کی شخصیت مسلم ہو چکی تھی ایک طرف خاندانی شرافت وفضیلت اور پاکیزہ ولادت ، دوسری طرف غیبی امداد اور خدائی نگرانی و صلاح(عصمت) ہے جو آپ(ص) کو ہر گناہ اوربرائی سے بچاتی ہے۔

آپ(ص) کے ساتھ سب سے زیادہ حضرت علی بن ابی طالب رہتے تھے، وہی سب سے زیادہ آپ کی معرفت رکھتے تھے، رسول(ص) کے بارے میں جو علی نے بیان کیا اس سے سچا کسی کا کلام نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں:

''ولقد قرن اللّہ بہ من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طرق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلہ و نہارہ''۔( ۱ )

خدا نے آپ(ص) کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ایک عظیم فرشتہ آپ(ص) کے ساتھ مقرر کر دیا تھا، وہ آپ(ص) کو رات، دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا۔

رسول(ص) کے بارے میں روایت ہے کہ آپ(ص) بچپن ہی سے بتوں کونگاہ تنفّرسے دیکھتے تھے جب آپ(ص) نے اپنے چچا جناب ابوطالب کے ساتھ شام کا سفر کیا تھا اس میں آپ(ص) نے بتوںکو کوئی اہمیت دینے سے انکار کر دیا تھا۔( ۲ )

بیشک محمد(ص) نے اپنی ذات و شخصیت کی تعمیر کے لئے ایک خاص نہج اختیار کیا تھا جس نے آپ(ص) کی حیات کو معنویت اور بلند اقدار سے معمور کیا آپ(ص) کسی پر بار نہیں بنے اور کام سے دست کش نہیں ہوئے نوجوانی کے زمانہ میں اپنی بکریاں چرائیں( ۳ ) ، عنفوان شباب میں تجارت کے لئے سفر کیا( ۴ ) دوسری طرف ہم آپ میں انسانیت کا حسن و جمال کمزوروں اور ناداروں سے محبت و ہمدردی کا جلوہ دیکھتے ہیں زید بن حارثہ کے

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ ۔

۲۔السیرة النبویة ج۱ ص ۱۸۲، الطبقات الکبریٰ ج۱ ص ۱۵۴۔

۳۔سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۲۵، سفینة البحار مادہ نباء ، السیرة النبویہ ج۱ ص ۱۶۶۔

۴۔ بحار الانوار ج۱۶ ص۲۲ ، کشف الغمہ ج۲ ص ۱۳، تاریخ کامل ج۲ ص ۲۴۔

۷۵

ساتھ آپ کا سلوک اس کا بہترین ثبوت ہے۔

زید نے اپنے باپ کے پاس جانے سے انکار کر دیا تھا اور حضرت محمد(ص) کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔( ۱ )

حضرت محمد(ص) بعثت سے پہلے عہدِجوانی میں بھی ایک عقلمند، فاضل و رشید تھے، جزیرہ نما عرب کے جاہلی معاشرہ میں آپ(ص) انسانی و اجتماعی اقدار کے حامل تھے۔ اپنی مثالی شخصیت کے لحاظ سے آپ(ص) معاشرۂ انسانی پر جوفوقیت رکھتے تھے، اس کی گواہی خود قرآن مجید نے اس طرح دی ہے : انّک لعلیٰ خلق عظیم۔( ۲ ) یقینا آپ(ص) خلق عظیم پر فائز ہیں۔

____________________

۱۔ الاصابہ ج۱ ص ۵۴۵، اسد الغابہ ج۲ ص ۲۲۵ ۔

۲۔ قلم:۴۔

۷۶

تیسرا باب

پہلی فصل

بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

دوسری فصل

عہدِ مکہ میںکاروان رسالت کے مراحل

تیسری فصل

نبی(ص) کے بارے میں بنی ہاشم اور جناب ابو طالب کا موقف

چوتھی فصل

خوشحالی کا زمانہ ہجرت تک

۷۷

پہلی فصل

بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

قرآنی نصوص ایسی قدیم تاریخی نصوص ہیں جو نہایت صحیح اور دقیق ہیں نیز عہد رسالت کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اور علمی طریقۂ کار کی رو سے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم عصر نبی کے واقعات کے بارے میں صرف قرآنی آیات و نصوص پر ہی بھروسہ کریں اور ان سے آگے نہ بڑھیں کیونکہ آنحضرت(ص) کی بعثت کے ساتھ ہی نزول آیات کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ کی وفات تک جاری رہا۔

جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ جو تاریخی روایتیں حدیث و سیرت کی کتابوں میں درج ہیں ان کی تدوین حوادث کے عہدِ وقوع کے بعد ہو ئی ہے اور ان میں جھوٹ اورآمیزش کا امکان ہے تو یہ بات منطقی اور فطری ہے کہ ہم ان روایتوں کو قرآن و سنت اور عقل کے میزان پر پرکھیں پھر جو روایتیںان کے موافق ہوں انہیں قبول کر لیں اور جوان کے مخالف ہوں ان کو رد کر دیں۔

واضح رہے کہ نبوت خدائی نمائندگی اور الٰہی منصب ہے یہ عہدہ اسی کی طرف سے ملتا ہے تاکہ نبی ضروری ہدایت کے ذریعہ بشریت کی مدد کرے۔ اس منصب کے لئے خدا اپنے بندوں میں سے اسی کو منتخب کرتا ہے جو مثالی خصوصیتوں سے سرشار ہوتا ہے ۔ یہی خصوصیتیں آپ(ص) کو ان مہموں کو سر کرنے پر قادر بنا دیتی ہیں جو آپ(ص) سے مطلوب تھیں۔

نبی کا خدا کی طرف سے منتخب ہونا ضروری ہے تاکہ وہ رسالت اور اس کے مقاصد کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کو صحیح انداز میں سمجھا سکے اور تبلیغ و بیان ، دفاع و تحفظ کے میدان میں ناتواں ثابت نہ ہو جو امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، ان کی انجام دہی کے لئے علم و بصیرت ، نفس کا صحیح سالم ہونا، ضمیر کا درست ہونا، صبر و پائیداری ، شجاعت و حلم، انابت، بندگیٔ خدا ، خوفِ خدا، اخلاص عمل، گناہوں اور خطا و لغزش سے محفوظ رہنا، صراط مستقیم پر تائید الٰہی سے ثابت رہنا درکار ہے ، پھر خاتم النبیین کو ئی انوکھے اور کم پایہ کے رسول نہیں تھے بلکہ وہ تمام انبیاء سے زیادہ عظیم اور کامل تھے، آپ(ص) کے اندر گذشتہ انبیاء کے سارے صفاتِ کمال موجود تھے اور خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔

۷۸

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اور طبیعتوں کا اقتضا بھی یہی ہے کہ خدائی ذمہ داری کے حامل کے اندر اسے قبول کر نے اور اسے نافذ کرنے کی صلاحیت و استعداد ہونا چاہے ۔ اس صورت میں خاتم النبیین کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر ہر وہ صلاحیت ہونا چاہئے جس کے ذریعہ اس خدائی ذمہ داری کو پورا کیا جا سکے اور اس خدائی مہم کو سر کرنے کے لئے ان خصوصیتوں کو بعثت سے پہلے ہی فراہم ہونا چاہئے، قرآن مجید بھی اسی کی تائید کرتا ہے ارشاد ہے :

۱۔( کذالک یوحی الیک والیٰ الذین من قبلک، اللّٰه العزیزالحکیم ) ( ۱ )

عزت و حکمت والا خدا اسی طرح آپ(ص) کی طرف وحی کرتا ہے جیسے آپ سے پہلے والوں پر وحی بھیجتا تھا۔

۲۔( وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیهم من اهل القری ) ( ۲ )

ہم نے آپ(ص) سے پہلے انہیں مردوں کو رسول(ص) مقرر کیا جو آباد ی میں رہتے تھے اور ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے۔

۳۔( وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیه انه لا الٰه الا انا فاعبدون ) ( ۳ )

اور ہم نے آپ(ص) سے پہلے کوئی رسول(ص) نہیں بھیجا مگر اس پر وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے پس تم سب میری عبادت کرو۔

____________________

۱۔شوریٰ:۳۔

۲۔یوسف: ۱۰۹۔

۳۔ انبیائ: ۲۵۔

۷۹

۴۔( وجعلنا هم ائمة یهدون بامرنا و اوحینا الیهم فعل الخیرات و اقام الصلٰوة و ایتاء الزکاة وکانوا لنا عابدین ) ( ۱ )

ہم نے انہیں امام بنا یا وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں، ہم نے ان پر نیک کام کرنے، نماز قائم کرنے، اور زکات دینے کی وحی کی ہے اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔

پس وحی کا سرچشمہ خدا ہے اور خدا ہی رسولوں کی طرف توحید کی نشانیوں اور اپنی عبادت کے طریقوں کی وحی کرتا ہے اور انہیں ائمہ قرار دیتا ہے وہ اس کے حکم سے شریعت کی اس تفصیل کے ساتھ جو کہ ان کے پاس وحی کے ذریعہ پہنچی ہے لوگوں کو نیک کام انجام دینے، نماز قائم کرنے اور زکات دینے کی ہدایت کرتے ہیں عبادت میںیہی غیروں کے لئے نمونہ ہیں اور یہی خدا کے اسلام کا زندہ مرقع ہیں۔

حضرت خاتم الانبیاء کے بارے میں خدا وند عالم بطور خاص فرماتا ہے :

۱۔( وکذالک اوحینا الیک قرآناً عربیاً لتنذر ام القریٰ و من حولها و تنذر یوم الجمع لا ریب فیه... ) ( ۲ )

اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے مضافات میں رہنے والوں کو ڈرائیں اور روز حشر سے ڈرائیں جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔

۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی به نوحاً و الذی اوحینا الیک وما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ و ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیه کبر علیٰ المشرکین ما تدعوهم الیه اللّه یجتبی الیه من یشاء و یهدی الیه من ینیب (۳) ...فلذلک فادع و استقم کما امرت ولا تتبع اهوائهم و قل آمنت بما انزل اللّه من کتاب و امرت لا عدل بینکم اللّه

____________________

۱۔ انبیائ:۷۳ ۔

۲۔ شوریٰ: ۷۔

۳۔شوریٰ ۱۳۔

۸۰