منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)20%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 137247 / ڈاؤنلوڈ: 6240
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دوسری فصل

شباب و جوانی کا زمانہ

۱۔ نبی(ص) ابوطالب کی کفالت میں

نبی(ص)، حضرت ابو طالب کی کفالت میں آنے سے پہلے حضرت عبد المطلب کی حفاظت وکفالت میں رہے عبد المطلب جانتے تھے کہ ابو طالب بہترین طریقہ سے اپنے بھتیجے کی حفاظت و کفالت کریں گے اگر چہ وہ نادار ہیں لیکن اپنے بھائیوں سے زیادہ شریف و نجیب ہیں اور قریش انہیں عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حضرت ابوطالب جناب عبد اللہ کے پدری و مادری بھائی ہیں لہذا وہ محمد(ص) سے زیادہ محبت کریں گے۔

اس ذمہ داری کو حضرت ابو طالب نے خندہ پیشانی اور افتخار کے ساتھ قبول کر لیا، اس سلسلہ میں ابو طالب کی زوجہ جناب فاطمہ بنت اسد بھی ان کی معاون تھیں، یہ میاں بیوی پہلے محمد(ص) کو کھانا کھلاتے تھے اور پھر اپنی اولاد کو کھلاتے تھے، پہلے محمد (ص)کو کپڑا پہناتے تھے پھر اپنے بچوں کو کپڑا پہناتے تھے، اس چیز کو رسول(ص) نے فاطمہ بنت اسد کے انتقال کے وقت اس طرح بیان فرمایا: ''الیوم ماتت امی '' میری ماں کا انتقال آج ہواہے۔ اور انہیں اپنے کرتے کا کفن دیا اور پہلے خود ان کی قبر میں لیٹے۔

حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد رسول(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری جناب ابو طالب کے دوش پر آ گئی تھی چنانچہ انہوں نے آنحضرت (ص) کے بچپنے ہی سے اپنی جان و عظمت سے آنحضرت (ص) کی حفاظت کی تا حیات آپ کا دفاع کیا اپنے ہاتھ اور زبان سے

۶۱

آپ(ص) کی نصرت کی یہاں تک کہ محمد(ص) جوان ہو گئے اور نبوت سے سرفراز ہو گئے۔( ۱ )

۲۔ شام کی طرف پہلا سفر

قریش کی یہ عادت تھی کہ وہ سال میں ایک بار تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے کیونکہ ان کی کمائی کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ ابو طالب نے بھی شام کے سفر کا ارادہ کیا لیکن محمد(ص) کو اس لئے سفر میں ساتھ لے جانے کے بارے میں نہیں سوچا تھاکہ سفر میں بہت سی صعوبتیں پیش آئیں گی اور صحرائوں سے گذرنا پڑے گا۔ مگر روانگی کے وقت جب ابو طالب نے یہ دیکھا کہ ان کا بھتیجا ساتھ چلنے پر مصر ہے اور اپنے چچا کے فراق میں رو رہا ہے تو انہیں اپنا یہ ارادہ بدلنا پڑا، مختصر یہ کہ آنحضرت (ص) نے شام کا پہلا سفر اپنے چچا جناب ابو طالب کے ساتھ کیا۔ اس سفر میںآپ(ص) صحرائوں سے گذرے اور سفر کے مزاج کو سمجھ گئے اور قافلوں کے راستوں سے واقف ہو گئے۔

اسی سفر میں محمد(ص) کو بحیرا نامی راہب نے دیکھا، آپ(ص) سے ملاقات کی، آپ(ص) کے اندر اس خاتم النبیین کے اوصاف ملاحظہ کئے جس کی آمد کی بشارت جناب عیسیٰ نے دی تھی یہ بشارت توریت و انجیل اوردیگر ان کتابوں میں بھی نقل ہوئی تھی جن میں خاتم النبیین کے ظہور کی بشارت دی گئی تھی۔ بحیرا نے آپ(ص) کے چچا ابوطالب(ص) سے کہا کہ ان کو لیکر آپ واپس مکہ چلے جائیں اور انہیں یہودیوں سے بچائیں کہیں وہ انہیں قتل نہ کر دیں( ۲ ) اس پر جناب ابو طالب اپنے بھتیجے محمد(ص) کو لیکر مکہ واپس آ گئے۔

۳۔ بکریوں کی پاسبانی

ائمہ اہل بیت سے ایسی کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ رسول(ص) نے بچپنے میں بکریاں چرائی تھیں۔ ہاں امام صادق سے ایک ایسی حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس میں تمام انبیاء کے بکریاں

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۳۵، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۴۔

۲۔سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۹۴، الصحیح من سیرة النبی ج۱ ص ۹۱، ۹۴۔

۶۲

چرانے اور گلہ بانی کا فلسفہ بیان ہوا ہے ۔ ارشاد ہے :''ما بعث الله نبیاً قط حتی یسترعیه الغنم یعلمه بذالک رعیه للناس'' خدا نے کسی نبی کو اس وقت تک نبی نہیں بنایا جب تک کہ اس نے بکریوں کے گلہ کی پاسبانی نہیں کی، اصل میں اس طرح اسے لوگوں کی پاسبانی اور انہیں قابومیںکرنے کا طریقہ معلوم ہوجاتا ہے ۔

اسی طرح امام صادق نے کھیتی اورگلہ بانی کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے :ان اللّه عزّ و جلّ احبّ لانبیائه من الاعمال: الحرث و الرعی لئلا یکرهوا شیئا من قطر السماء ۔( ۱ )

بیشک خدا وند عالم نے اپنے انبیاء کے لئے زراعت اور پاسبانی کو پسند فرمایا تاکہ وہ آسمان کے نیچے کی کسی بھی چیز سے کراہت نہ کریںنیز آپ ہی سے روایت ہے :انّ رسول اللّه ما کان اجیرا لا حدٍ قط ( ۲ ) رسول(ص) نے ہر گز کسی کی نوکر ی نہیں کی۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں نہیں چرائیں جیسا کہ بعض مورخین نے صحیح بخاری کی ایک حدیث کی بنا پر یہ لکھدیا کہ آپ(ص) نے اہل مکہ کی بکریاں چرائی تھیں۔( ۳ )

جب یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت (ص) نے بچپنے اور جوانی میں(اپنی) بکریاں چرائی تھیں تو اب ہمارے لئے اس حدیث کی علت بیان کرنا آسان ہو گیا جو ہم نے امام صادق سے نقل کی ہے اور وہ یہ کہ ان سر گرمیوں کے ذریعہ خدا آپ(ص) کو کمال کے اس مرتبہ پر پہنچنے کاا ہل بنا رہا تھا جس کو خود خدا نے اس طرح بیان کیا ہے :( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ( ۴ ) بیشک آپ خلقِ عظیم کے درجہ پر فائز ہیں، یہی وہ کمال ہے جس نے آپ(ص) کے اندر خدائی رسالت کے بار کو اٹھانے کی استعداد پیدا کی تھی۔ رسالت الٰہیہ لوگوں کی پاسبانی، ان کی تربیت اور ان کی ہدایت و ارشاد کے سلسلہ میں پیش آنے والی دشواریوں کا تقاضا کرتی ہے۔

____________________

۱۔علل الشرائع ص ۲۳ سفینة البحار مادہ نبا۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۱، البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۶۔

۳۔ صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب ۳۰۳ حدیث ۴۹۹۔

۴۔ قلم: ۴۔

۶۳

۴۔ حرب الفجار

عرب میں کچھ ایسی جنگیں بھی ہوتی تھیں جن میں وہ حرمت والے مہینوں کی حرمت کو حلال سمجھ لیتے تھے ان جنگوں کو حرب الفجار کے اسم سے موسوم کیا جاتا تھا۔( ۱ )

بعض مورخین کا خیال ہے کہ ایسی جنگیں رسول(ص) نے بھی دیکھی ہیں اور ایک طرح سے آپ(ص) ان میں شریک بھی ہوئے ہیں لیکن بعض محققین نے درج ذیل چند اسباب کی بنا پر اس میں شک کیا ہے :

۱۔ جیسے جیسے رسول(ص) کی عمر بڑھتی تھی اسی تناسب سے آپ کی شخصیت نکھرتی جاتی تھی ، تمام بنی ہاشم کی طرح آپ کی شجاعت بھی مشہور تھی لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بنی ہاشم نے ظلم و فساد والی جنگ میں شرکت کی ہے ۔روایت ہے کہ بنی ہاشم نے ایسی جنگوں میں شرکت نہیں کی، کیونکہ ابو طالب نے صاف کہہ دیا تھا کہ ان جنگوں میںمیرے خاندان میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوگا( ۲ ) ان جنگوں میں ظلم و زیادتی قطع رحمی ہوتی ہے اور حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھ لیا جاتا ہے لہذا میرے خاندان میں سے کوئی بھی ان میں شریک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اس زمانہ کے قریش و کنانہ کے سردار عبد اللہ بن جدعان اور حرب بن امیہ نے یہ اعلان کر دیا ہم اس معاملہ میں شریک نہیںہونگے جس میں بنی ہاشم شریک نہیں ہونگے ۔( ۳ )

۲۔ جوروایات ان جنگوں میں نبی(ص) کے کردار کو بیان کرتی ہیں ان میں اختلاف ہے ، بعض صرف یہ بیان کرتی ہیں کہ ان جنگوں میں رسول(ص) کا کام اپنے چچائوں کیلئے، تیروں کو جمع کرنا اور انکے دشمنوںپر برسانا اور اپنے چچائوں کے مال کی حفاظت کرنا تھا۔( ۴ ) دوسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ان جنگوں میں آپ(ص) نے تیر وغیرہ چلائے ہیں۔( ۵ ) تیسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ(ص) نے ابو براء پر سنان سے حملہ کیا اور

____________________

۱۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج۱ ص ۳۰۱ تا ۳۰۵ بحوالہ اغانی ج۱۹ ص ۷۴۔۸۰۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۵۔ ۳۔ ایضاً: ج۲ ص ۱۵۔

۴۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج۱ ص ۳۰۴۔

۵۔ السیرة النبویة زینی دحلان ج۱ ص ۲۵۱، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۲۷۔

۶۴

اسے گرا دیا حالانکہ اس وقت آپ(ص) کا بچپنا تھا۔( ۱ ) لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ عرب اپنے بچوں کو جنگوں میں شریک ہونے کی اجازت دیتے تھے یا نہیں؟( ۲ )

۵۔حلف الفضول

حرب الفجار کے بعد قریش کو اپنی کمزوری اور انتشار کا احساس ہوا اور انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم قوی و معزز تھے اب کہیں عرب کے حملہ کا نشانہ نہ بن جائیں لہذا زبیر بن عبد المطلب نے حلف الفضول کی طرف دعوت دی، اس دعوت کے نتیجہ میں بنی ہاشم ، بنی زہرہ، بنی تمیم اور بنی اسد ،عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور عہد و پیمان کرنے والوں نے آبِ زمزم میں ہاتھ ڈال کر عہد کیا کہ مظلوم کی مدد کریں گے، زندگی کے اصولوں کی از سر نو بنا رکھیں گے اور لوگوں کوبرائیوں سے روکیں گے۔( ۳ ) زمانۂ جاہلیت میں یہ عظیم ترین عہد تھا۔ اس عہد و پیمان میں حضرت محمد(ص) بھی شریک تھے اس وقت آپ(ص) کی عمر بیس سال سے کچھ زیادہ تھی۔( ۴ )

اس عہد و پیمان کی تعریف آپ(ص) نبی ہونے کے بعد بھی اس طرح کرتے تھے :ما احب ان لی بحلف حضرته فی دار ابن جدعان حمر النعم ولو دعیت به فی الاسلام لا جبت ۔( ۵ ) مجھے وہ عہد و پیمان سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے جو ابن جدعان کے گھر میں ہوا تھا اگر اس کو اسلام میں شامل کرنے کے لئے کہا جاتا تو میں ضرور قبول کر لیتا۔

حلف الفضول کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ایک قول یہ ہے : چونکہ اس عہد و پیمان میں تین آدمی ایسے شریک تھے جن کے نام ''الفضل'' سے مشتق تھے اسلئے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ اس عہد و پیمان کے سبب کے بارے میں روایت ہے کہ ماہِ ذی قعدہ میں بنی زبید یا بنی اسد بن خزیمہ کا ایک شخص کچھ سامانِ تجارت

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۶۔ ۲۔الصحیح فی السیرت ج۱ ص ۹۵۔

۳۔البدایة النہایة ج۳ ص ۲۹۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ص ۱۲۹ و ۲۸۳۔

۴۔تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۱۷۔ ۵۔ سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۴۲۔

۶۵

کے ساتھ مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے کچھ سامان خرید لیا لیکن اس کی قیمت ادا نہ کی۔ زبید ی نے قریش والوں سے مدد طلب کی قریش والوں نے عاص بن وائل کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ڈانٹا پھٹکارا تو زبیدی نے کوہ ابو قبیس پر چڑھکر فریاد کی اس کی فریاد سن کر زبیر بن عبد المطلب نے لوگوں کو بلایا، انہیں لوگوں سے ''حلف الفضول'' جماعت کی تشکیل ہوئی، یہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے زبیدی کا ساما ن لیکر اسے واپس لوٹا دیا۔( ۱ )

خدیجہ کے مال سے تجارت

اپنے عظیم اخلاق، بلند ہمتی، امانت داری اور صداقت کی وجہ سے محمد(ص) کی شخصیت مکہ کے معاشرہ میں نکھرتی اور ابھرتی جا رہی تھی ، خود بخود لوگوں کے دل آپ(ص) کی طرف جھکتے تھے، کیوں نہ ہو کہ آپ(ص) کا تعلق پاک نسل سے تھا لیکن جس خاندان میں آپ(ص) زندگی گزار رہے تھے، اس کے سرپرست ابو طالب، مفلس و نادار تھے انہوں نے مجبوراً اپنے بھتیجے سے یہ کہا (جس کی عمر اس وقت پچیس سال تھی )کہ آپ خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کریں۔ ابو طالب جناب خدیجہ کے پاس گئے، ان سے اپنا منصوبہ بتایا انہوں نے فوراً قبول کر لیا اور اس سے بہت خوش ہوئیں کیونکہ وہ محمد(ص) کی شخصیت سے واقف تھیں، خدیجہ نے اپنے تجارتی شرکاء سے دگنا حصہ آپ کے لئے مقرر کیا۔( ۲ )

محمد(ص) شام کی طرف روانہ ہو گئے اس سفر میں خدیجہ کا غلام میسرہ آپ کے ساتھ تھا ، اس سفرکے دوران محمد(ص) نے اپنے حسن و جمال اور محبت و مہربانی کی وجہ سے میسرہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اپنی امانتداری ، تدبر و ہوشیاری کی بنا پر آپ سے بہت نفع اٹھایا۔ اس سفر میں آپ سے بعض واضح کرامات بھی ظاہر ہوئے، جب قافلہ مکہ واپس آیا تو میسرہ نے جو کچھ سفر میں دیکھا اور سناتھا( ۳ ) وہ خدیجہ سے بیان کیا اس سے خدیجہ نے آپ(ص) کو

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۲، البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۶ ص ۲۲، کشف الغمہ ج۲ ۱۳۴، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۲۔

۳۔البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۶، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۶۔

۶۶

اور زیادہ اہمیت دی اور ان کے دل میں آپ(ص) کا اشتیاق پیدا ہوا۔

بعض مورخین نے یہ خیال کیا ہے کہ اس تجارت کے لئے خدیجہ نے آپ(ص) کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھاچنانچہ یعقوبی، جن کی تاریخ قدیم ترین و معتمد ترین مصدر وماخذ سمجھی جاتی ہے لکھتے ہیں: لوگ کہتے ہیں خدیجہ نے آپ(ص) کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ(ص) ہرگز کسی کے ملازم نہیں رہے۔( ۱ )

امام حسن عسکری سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوارامام علی نقی سے روایت کی ہے : رسول(ص) خدا خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے۔( ۲ )

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۷ ص ۳۰۸۔

۶۷

تیسری فصل

شادی سے بعثت تک

۱۔ شادی مبارک

حضرت محمد(ص) کی شخصیت کے لئے جوہر شخصیت سے بلند تھی، ایسی عورت سے شادی کرنا ضروری تھا جس کا مزاج آپ(ص) کے مزاج سے ہم آہنگ ہو اور وہ آپ(ص) کے اغراض و مقاصد سے متفق ہوتا کہ وہ آپ کے ساتھ راہِ جہاد و عمل کو طے کرے دشواریوں اور مشکلوں میں صبر کرے، اس زمانہ میں ایسی کوئی عورت نہیں تھی جو محمد(ص) کے لئے مناسب ہو، اس مہم کے لئے جناب خدیجہ سے بہتر کوئی نہیں تھا، خدا نے چاہا تو خدیجہ کا دل محمد(ص) کی طرف مائل اور آپ(ص) کی عظیم شخصیت کا گرویدہ ہو گیا، حسن و جمال، عزت و شرافت اور مال کے لحاظ سے خدیجہ قریش کی تمام عورتوں پر فوقیت رکھتی تھیں، زمانہ جاہلیت میں ، انہیں ، طاہرہ اور سیدہ کہا جاتا تھا، ان کی قوم کا ہر مرد ان سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

قریش کے بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے آپ کے پیغام آئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت زیادہ مال خرچ کیا( ۱ ) لیکن خدیجہ نے سب کے پیغامات کو ٹھکرا دیا وہ عاقلہ تھیں۔ ہر چیز کو سمجھتی تھیں، لہذاانہوں نے اپنے لئے آنحضرت(ص) ہی کو پسند کیا، کیونکہ خدیجہ آپ میں شرافت، اخلاق، بہترین عادات و خصلت اور بلند اقدار کا مشاہدہ کر چکی تھیں لہذا انہوں نے آپ(ص) کی دہلیز عظمت پر اترنا اور خود کو آپ(ص) کی نذر کرنا ہی بہتر سمجھا۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱۶ ص ۲۲۔

۶۸

بہت سے تاریخی نصوص سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ آپ(ص) سے شادی کی پیشکش خود جناب خدیجہ ہی نے کی تھی اس کے بعد ابو طالب اور قریش میں سے بعض افرادرشتہ لے کر ان کے خاندان والوں کے پاس گئے تھے اس وقت خدیجہ کے بزرگ اور ولی ان کے چچا عمرو بن اسد تھے( ۱ ) یہ واقعہ بعثتِ نبی(ص) سے پندرہ سال قبل کا ہے ۔

جناب ابو طالب نے اس وقت جو خطبہ پڑھا تھا اس کا ایک اقتباس یہ ہے:

''الحمد لرب هذا البیت الذی جعلنا من زرع ابراهیم و ذریة اسماعیل و انزلنا حرماً آمناً و جعلنا الحکام علیٰ الناس و بارک لنا فی بلدنا الذی نحن فیه...''

ساری تعریف اس گھر -خانہ کعبہ-کے رب کے لئے ہے جس نے ہمیں ابراہیم کی نسل اور اسماعیل کی ذریت قرار دیا اور ہمیں محفوظ حرم میں اتارا، ہمیں لوگوں پر حاکم بنایااور ہمیں ہمارے اس شہر میں برکت عطا کی کہ جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں...

میرے اس بیٹے کا قریش کے جس مرد سے بھی موازنہ و تقابل کیا جائیگا تو یہ اس سے بلند ثابت ہوگا اور جسے بھی اس کے مقابلہ میں لایا جائیگا یہ اس سے عظیم قرار پائیگا۔کائنات میں کوئی بھی اس کا ہم پلّہ نہیں ہے اگر چہ اس کے پاس مال کم ہے ، لیکن مال کی وقعت ہی کیا ہے یہ تو آتاجاتارہتا ہے ، ڈھل جانے والا سایہ ہے ، یہ خدیجہ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور خدیجہ بھی اس کی طرف مائل ہے ۔ ہم خدیجہ کی خواستگاری کے لئے اسی کے ایماء پر تمہارے پاس آئے ہیں رہی مہر کی بات تو وہ میں اپنے مال سے ادا کرونگا خواہ نقد ہو یا ادھار،...میرے بھتیجے اور ربِّ کعبہ کی بڑی عظمت ہے (کعبہ کے رب کی قسم میرے بھتیجے کی بڑی عظمت ہے)، ان کا دین مشہور اور ان کی رائے کامل ہے ۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۷۔

۲۔کافی ج۵ ص ۳۷۴، بحار الانوار ج۱۶ ص ۵، اس میں کشاف و ربیع الابرار سے منقول ہے نیز ملاحظہ ہو سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۹، تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۲۰، الاوائل از ابو ہلال ج۱ ص ۱۶۲۔

۶۹

اس پر خدیجہ نے فرمایا: ان کا مہر میں اپنے مال سے ادا کروںگی، بعض لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ تعجب ہے عورتوں پر مردوں کا مہر ہے ، یہ بات سن کر ابو طالب کو غصہ آ گیا کہا : ہاں اگر مرد میرے بھتیجے جیسے ہونگے تو ان کی عظمت اس سے زیادہ ہے ان کو مہر ادا کیا جائے گا اور اگر مرد تم جیسے ہونگے تو ان سے زیادہ مہر لیکر شادی کی جائیگی۔

بعض معتبر کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدیجہ کا مہر خود رسول(ص) نے ادا کیا تھااور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کہ آنحضرت(ص) نے ابو طالب کے ذریعہ مہردلایا ہو، ابو طالب کے خطبہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کے دل میں رسول(ص) کی کتنی عظمت تھی اور بنی ہاشم کی کیا قدر و منزلت تھی۔

جناب خدیجہ؛رسول(ص)کے ساتھ شادی سے پہلے

جناب خدیجہ ایک بلند اخلاق خاتون، دین ابراہیم کی طرف مائل اورشریف و معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد جناب خویلد تھے جنہوں نے یمن کے بادشاہ سے اس وقت مقابلہ کیا تھا جب وہ حجر اسود کو یمن لے جانا چاہتا تھا انہوں نے اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت میں یمن کے بادشاہ کی طاقت اور کثیر فوج کی بھی پروا نہیں کی تھی اور جناب خدیجہ کے دادا -اسد بن عبد العزیٰ- حلف الفضول نامی جماعت کے نمایاں رکن تھے یہ جماعت مظلوموں کی حمایت کے لئے تشکیل پائی تھی۔ اس جماعت کی اہمیت کے پیش نظر اس میں رسول(ص) شریک ہوئے تھے اور اس کے اعلیٰ اقدار کی تائید کی۔( ۱ )

جنابِ خدیجہ کی شادی سے پہلے کے تفصیلی حالات ہمیں تاریخ میں نہیں ملتے ہیں، بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھدیا کہ آنحضرت(ص) سے قبل خدیجہ کی دو اشخاص سے شادی ہوئی تھی اور ان سے اولاد بھی ہوئی تھی، وہ دو اشخاص، عتیق بن عائد مخزومی اورابو ھالہ تمیمی ہیں۔( ۲ ) جبکہ دوسری معتبر کتابوں میں یہ روایت ہے کہ جب رسول(ص) نے جناب خدیجہ سے شادی کی تھی اس وقت آپ کنواری تھیں اور زینب و رقیہ جناب خدیجہ کی بہن

____________________

۱۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۱۴۱۔

۲۔ اختلاف روایات کے بارے میں۔ اصابہ ج۳ ص ۶۱۱، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۰، اسد الغابہ ج۵ ص ۷۱و ص ۱۲۱ ملاحظہ فرمائیں۔

۷۰

ہالہ کی بیٹیاں تھیں ان کی والدہ کے انتقال کے بعد جناب خدیجہ نے انہیں گود لے لیا تھا۔( ۱ )

رسول(ص) سے شادی کے وقت جناب خدیجہ کی عمر کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض نے یہ لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ۲۵ سال تھی بعض نے یہ تحریر کیا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ۲۸ سال تھی، کچھ نے ۳۰، بعض نے ۳۵ اور بعض نے ۴۰ سال تحریر کی ہے۔( ۲ )

۲۔ حجر اسود کو نصب کرنا

عرب کے نزدیک خانہ کعبہ کی بہت بڑی منزلت تھی وہ لوگ اس کی حرمت و اہمیت کے قائل تھے وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا حج کرتے تھے۔ بعثت رسول(ص) سے پانچ سال پہلے سیلاب کے سبب خانۂ کعبہ منہدم ہو گیا تھا قریش نے جمع ہو کر خانۂ کعبہ کی تعمیرنو اور اس کی تو سیع کا منصوبہ بنایا اور یہ طے کیاکہ یہ کام قریش اور دیگر اہل مکہ کی نگرانی میں ہوگا چنانچہ جب بنیاد یں بلند ہوکرحجر اسود کی جگہ تک پہنچیں تو ان میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ حجر اسود کو کون نصب کرے گا ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو، اس بات پر ان کے درمیان تلوار یں کھینچ گئیں ہر حلیف اپنے حلیف سے مل گیا، خانۂ کعبہ کی تعمیر کا کام بھی بند ہو گیا، وہ لوگ ایک بار پھر مسجد میں جمع ہوئے باہم مشورہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے جو شخص اس اجتماع میں داخل ہوگا وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا نیز انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے چنانچہ سب سے پہلے اس اجتماع میں محمد بن عبد اللہ داخل ہوئے۔ ان لوگوں نے کہا: یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، رسول(ص) نے اس جھگڑے کونمٹانے کے لئے حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور فرمایا: ہر قبیلہ اس کا ایک ایک کونا پکڑے پھر فرمایا کہ سب مل کر اٹھائیں سب نے یکبارگی اٹھایا اور جب حجر اسود اپنی جگہ پر پہنچ گیا تو رسول(ص) نے اپنے ہاتھوں سے نصب کیا اس کے بعد

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۵۹، اعلام الھدایة ج۳ ، الصحیح من سیرت النبی(ص) الاعظم ج۱ص ۱۲۱ و ۱۲۶۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۰، البدایة و النھایة ج۲ ص ۲۹۵، بحار الانوار ج۱۶ ص ۱۲سیرت مغلطائی ص ۱۲، الصحیح من سیرت النبی الاعظم، ج۱ ،ص ۱۲۶۔

۷۱

خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوئی۔( ۱ )

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی رسول(ص) کو حکم بناتے تھے کیونکہ آپ(ص) لوگوں کو فریب نہیں دیتے تھے۔( ۲ )

یقینا آپ(ص) کے اس عمل کا ان قبیلے والوں کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا، اجتماعی حیثیت حاصل کرنے کے لئے رسول(ص) نے اپنی حیات کا عظیم سرمایہ خرچ کیا اور انوکھا کردار ادا کیا اور ان کی توجہ کو اپنی قیادت کی صلاحیت اور انتظامی لیاقت کی طرف مبذول کیا اور بلند بینی، عقلمندی و تجربہ اور امانت داری کے ذریعہ ان کا اعتماد حاصل کیا۔

۳۔ حضرت علی کی ولادت اور نبی(ص) کے زیر دامن پرورش

حضرت محمد(ص) اور حضرت علی کے درمیان جو محبت و الفت تھی، اسے خاندانی محبت میں محدود نہیں کیا جا سکتا آپ دونوں کے درمیان فکری اور روحانی لگائو تھا۔ فاطمہ بنت اسد ابھی اس بچہ کو لیکر نکلنے نہیں پائی تھیں کہ جو عین خانۂ کعبہ میں پیدا ہوا ہے( ۳ ) خودرسول(ص) ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور علی کو ان سے لے لیتے ہیں انہیں سینہ سے لگاتے ہیں( ۴ ) حضرت علی کے لئے یہ آپ(ص) کی عنایت و اہتمام کی ابتداء ہے ۔

یہ مولود اپنے والدین اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت محمد(ص) کی گود میں پروان چڑھا، رسول(ص) جناب خدیجہ سے شادی کے بعد اکثر اپنے چچا ابو طالب کے گھر جایا کرتے اور مولود کو اپنی محبت وشفقت سے سرشار کرتے تھے، لوریاں دے کر سلاتے ، اپنے سینہ پر لٹاتے، اور جب یہ سو جاتے توان کی گہوارہ جنبانی کرتے تھے،

____________________

۱۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۹، سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۲۰۴، البدایة النہایة ج۲ ص ۳۰۰، تاریخ طبری ج۲ ص ۳۷۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۵۔

۳۔حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں: یہ بات متواتر حدیث ثابت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جوف کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں، مستدرک علی الصحیحین ج۳ ص ۴۸۳۔

۴۔الفصول المہمة ابن صباغ ص ۱۳۔

۷۲

نگہداری و پاسبانی کا یہ سلسلہ عرصۂ دراز تک جاری رہا اس لطف و محبت نے حضرت علی کے کردار و شعور پر اتنا اثر کیا کہ اس کا اظہار آپ کے کلام و زبان سے بھی ہو ا۔ چنانچہ رسول(ص) سے آپ(ص) کوجو شدید قربت تھی اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔

''قد علمتم موضعی من رسول اللّه بالقرابة القریبة و المنزلة الخصیصة، وضعنی فی حجره و انا ولید یضمنی الیٰ صدره و یکنفنی فی فراشه و یمسّنی جسده و یشمّنی عرفه و کان یمضغ الشیء ثم یلقمنیه وما وجد لی کذبة فی قول ولا خطلة فی فعل، ولقد کنت اتبعه اتباع الفصیل اثر امه یرفع لی فی کل یوم من اخلاقه علما و یامرنی بالا قتداء به'' ( ۱ )

یہ بات تو تم سبھی جانتے ہو کہ قریبی قرابتداری اور مخصوص قدر و منزلت کے سبب رسول(ص) کے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا۔ رسول(ص)نے مجھے بچپنے ہی میں گود لے لیا تھا، آپ(ص) مجھے سینہ سے لگاتے اور اپنے بستر پر اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم کو مجھ سے مس کرتے تھے اور مجھے اپنی خوشبو سنگھاتے تھے۔ کسی چیز کو آپ(ص) پہلے چباتے تھے اور پھر لقمہ بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے، آپ(ص) نے نہ تو میری کسی بات کو خلاف واقعہ پایا اور نہ میرے کسی کام میں کوئی لغزش دیکھی ، میں آپ(ص) کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ، آپ ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیتے تھے۔

جب قریش مالی بحران کا شکار ہوئے تو حضرت محمد(ص) اپنے چچا جناب حمزہ اور عباس کے پاس گئے اور ان سے یہ خواہش کی کہ جناب ابو طالب کا بارتقسیم کر لیا جائے چنانچہ طالب کو عباس اور جعفر کو حمزہ اپنے گھر لے گئے ، عقیل کو جناب ابو طالب نے اپنے پاس ہی رکھا، حضرت علی کو محمد(ص)لے گئے اور انہیں مخاطب کرکے فرمایا:''قد اخترت من اختار اللّٰه لی علیکم علیا'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ۱۹۲۔

۲۔مقاتل الطالبین ص ۳۶، تاریخ کامل ج۱ ص ۳۷۔

۷۳

میں نے اسی کو منتخب کیا ہے جس کو خدا نے میرے لئے منتخب فرمایا ہے اور علی کو تم پر منتخب کیا ہے اس طرح علی اپنے ابن عم کے گھر اور ان کی سرپرستی میں چلے گئے، آپ کی شخصیت نکھرنے لگی، آپ نبی(ص) کی آخری سانس تک ان سے جدا نہیں ہوئے۔ رسول(ص) خدا نے علی کے بارے میں جواہتمام کیا تھا اس کی علت کوفقط مالی و اقتصادی بحران میں محدود نہیں کیا جا سکتا، اس سے ہماری سمجھ میںیہ بات آتی ہے کہ رسول(ص) نے حضرت علی کی تربیت و سرپرستی اس لئے کی تھی تاکہ آپ رسول(ص) کی اس شریعت کوبچائیں جس کے لئے خدا نے اپنی مخلوق میں سے سب سے بہترین فرد کو اور اپنے بندوں میں سب سے اعلیٰ وبرگزیدہ ذات کو منتخب کیاتھا۔

اسی طرح خدا نے حضرت علی کے لئے یہ پسند فرمایا تھا کہ آپ عہد طفلی سے ہی آغوش ِ رسول(ص) میں زندگی گزاریں اور آنحضرت(ص) کی محبت و شفقت سے بہرہ ور ہوں رسول(ص) کے اخلاق و عادات کو اپنائیں، یہ تو ایک طرف دوسری طرف رسول(ص) نے علی کے ساتھ اپنے محبوب فرزند جیسا سلوک روا رکھاعلی ہر وقت رسول(ص) کے ساتھ ساتھ رہے، ہر انقلاب و حادثہ میں آنحضرت (ص) کے رفیق رہے کیونکہ رسول(ص) آپ کو چھوڑتے ہی نہیں تھے۔( ۱ )

ہمارے سامنے تاریخ نے حضرت علی کی جو سیرت پیش کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی نے رسول(ص) کی زیر نگرانی پیغام رسانی کے میدان میں بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعدجو مہارت حاصل کر لی تھی اور علی کے لئے رسول(ص) نے روحی و نفسی تربیت کاجو خاص اہتمام کیا تھا اس کے سبب علی ،رسول(ص) کے بعد سیاسی ،فکری اور علمی مرجعیت و محور کا استحقاق پیدا کر چکے تھے چہ جائیکہ سیاسی مرجعیت۔

۴۔ بعثت سے قبل رسول(ص) کی شخصیت

حضرت محمد(ص) کا نام جزیرہ نما عرب میں اس وقت روشن ہو ا جب اس معاشرہ میں خلفشار و پراگندگی کے آثار ہر طرف رونما ہو رہے تھے اور حضرت محمد(ص) کی شخصیت روز بروز ابھرتی اور نکھرتی جا رہی تھی۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۴ ص ۳۱۵۔

۷۴

کردار و کمال اور اخلاق کے میدان میں آپ کی شخصیت مسلم ہو چکی تھی ایک طرف خاندانی شرافت وفضیلت اور پاکیزہ ولادت ، دوسری طرف غیبی امداد اور خدائی نگرانی و صلاح(عصمت) ہے جو آپ(ص) کو ہر گناہ اوربرائی سے بچاتی ہے۔

آپ(ص) کے ساتھ سب سے زیادہ حضرت علی بن ابی طالب رہتے تھے، وہی سب سے زیادہ آپ کی معرفت رکھتے تھے، رسول(ص) کے بارے میں جو علی نے بیان کیا اس سے سچا کسی کا کلام نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں:

''ولقد قرن اللّہ بہ من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طرق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلہ و نہارہ''۔( ۱ )

خدا نے آپ(ص) کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ایک عظیم فرشتہ آپ(ص) کے ساتھ مقرر کر دیا تھا، وہ آپ(ص) کو رات، دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا۔

رسول(ص) کے بارے میں روایت ہے کہ آپ(ص) بچپن ہی سے بتوں کونگاہ تنفّرسے دیکھتے تھے جب آپ(ص) نے اپنے چچا جناب ابوطالب کے ساتھ شام کا سفر کیا تھا اس میں آپ(ص) نے بتوںکو کوئی اہمیت دینے سے انکار کر دیا تھا۔( ۲ )

بیشک محمد(ص) نے اپنی ذات و شخصیت کی تعمیر کے لئے ایک خاص نہج اختیار کیا تھا جس نے آپ(ص) کی حیات کو معنویت اور بلند اقدار سے معمور کیا آپ(ص) کسی پر بار نہیں بنے اور کام سے دست کش نہیں ہوئے نوجوانی کے زمانہ میں اپنی بکریاں چرائیں( ۳ ) ، عنفوان شباب میں تجارت کے لئے سفر کیا( ۴ ) دوسری طرف ہم آپ میں انسانیت کا حسن و جمال کمزوروں اور ناداروں سے محبت و ہمدردی کا جلوہ دیکھتے ہیں زید بن حارثہ کے

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ ۔

۲۔السیرة النبویة ج۱ ص ۱۸۲، الطبقات الکبریٰ ج۱ ص ۱۵۴۔

۳۔سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۲۵، سفینة البحار مادہ نباء ، السیرة النبویہ ج۱ ص ۱۶۶۔

۴۔ بحار الانوار ج۱۶ ص۲۲ ، کشف الغمہ ج۲ ص ۱۳، تاریخ کامل ج۲ ص ۲۴۔

۷۵

ساتھ آپ کا سلوک اس کا بہترین ثبوت ہے۔

زید نے اپنے باپ کے پاس جانے سے انکار کر دیا تھا اور حضرت محمد(ص) کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔( ۱ )

حضرت محمد(ص) بعثت سے پہلے عہدِجوانی میں بھی ایک عقلمند، فاضل و رشید تھے، جزیرہ نما عرب کے جاہلی معاشرہ میں آپ(ص) انسانی و اجتماعی اقدار کے حامل تھے۔ اپنی مثالی شخصیت کے لحاظ سے آپ(ص) معاشرۂ انسانی پر جوفوقیت رکھتے تھے، اس کی گواہی خود قرآن مجید نے اس طرح دی ہے : انّک لعلیٰ خلق عظیم۔( ۲ ) یقینا آپ(ص) خلق عظیم پر فائز ہیں۔

____________________

۱۔ الاصابہ ج۱ ص ۵۴۵، اسد الغابہ ج۲ ص ۲۲۵ ۔

۲۔ قلم:۴۔

۷۶

تیسرا باب

پہلی فصل

بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

دوسری فصل

عہدِ مکہ میںکاروان رسالت کے مراحل

تیسری فصل

نبی(ص) کے بارے میں بنی ہاشم اور جناب ابو طالب کا موقف

چوتھی فصل

خوشحالی کا زمانہ ہجرت تک

۷۷

پہلی فصل

بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

قرآنی نصوص ایسی قدیم تاریخی نصوص ہیں جو نہایت صحیح اور دقیق ہیں نیز عہد رسالت کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اور علمی طریقۂ کار کی رو سے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم عصر نبی کے واقعات کے بارے میں صرف قرآنی آیات و نصوص پر ہی بھروسہ کریں اور ان سے آگے نہ بڑھیں کیونکہ آنحضرت(ص) کی بعثت کے ساتھ ہی نزول آیات کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ کی وفات تک جاری رہا۔

جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ جو تاریخی روایتیں حدیث و سیرت کی کتابوں میں درج ہیں ان کی تدوین حوادث کے عہدِ وقوع کے بعد ہو ئی ہے اور ان میں جھوٹ اورآمیزش کا امکان ہے تو یہ بات منطقی اور فطری ہے کہ ہم ان روایتوں کو قرآن و سنت اور عقل کے میزان پر پرکھیں پھر جو روایتیںان کے موافق ہوں انہیں قبول کر لیں اور جوان کے مخالف ہوں ان کو رد کر دیں۔

واضح رہے کہ نبوت خدائی نمائندگی اور الٰہی منصب ہے یہ عہدہ اسی کی طرف سے ملتا ہے تاکہ نبی ضروری ہدایت کے ذریعہ بشریت کی مدد کرے۔ اس منصب کے لئے خدا اپنے بندوں میں سے اسی کو منتخب کرتا ہے جو مثالی خصوصیتوں سے سرشار ہوتا ہے ۔ یہی خصوصیتیں آپ(ص) کو ان مہموں کو سر کرنے پر قادر بنا دیتی ہیں جو آپ(ص) سے مطلوب تھیں۔

نبی کا خدا کی طرف سے منتخب ہونا ضروری ہے تاکہ وہ رسالت اور اس کے مقاصد کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کو صحیح انداز میں سمجھا سکے اور تبلیغ و بیان ، دفاع و تحفظ کے میدان میں ناتواں ثابت نہ ہو جو امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، ان کی انجام دہی کے لئے علم و بصیرت ، نفس کا صحیح سالم ہونا، ضمیر کا درست ہونا، صبر و پائیداری ، شجاعت و حلم، انابت، بندگیٔ خدا ، خوفِ خدا، اخلاص عمل، گناہوں اور خطا و لغزش سے محفوظ رہنا، صراط مستقیم پر تائید الٰہی سے ثابت رہنا درکار ہے ، پھر خاتم النبیین کو ئی انوکھے اور کم پایہ کے رسول نہیں تھے بلکہ وہ تمام انبیاء سے زیادہ عظیم اور کامل تھے، آپ(ص) کے اندر گذشتہ انبیاء کے سارے صفاتِ کمال موجود تھے اور خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔

۷۸

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اور طبیعتوں کا اقتضا بھی یہی ہے کہ خدائی ذمہ داری کے حامل کے اندر اسے قبول کر نے اور اسے نافذ کرنے کی صلاحیت و استعداد ہونا چاہے ۔ اس صورت میں خاتم النبیین کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر ہر وہ صلاحیت ہونا چاہئے جس کے ذریعہ اس خدائی ذمہ داری کو پورا کیا جا سکے اور اس خدائی مہم کو سر کرنے کے لئے ان خصوصیتوں کو بعثت سے پہلے ہی فراہم ہونا چاہئے، قرآن مجید بھی اسی کی تائید کرتا ہے ارشاد ہے :

۱۔( کذالک یوحی الیک والیٰ الذین من قبلک، اللّٰه العزیزالحکیم ) ( ۱ )

عزت و حکمت والا خدا اسی طرح آپ(ص) کی طرف وحی کرتا ہے جیسے آپ سے پہلے والوں پر وحی بھیجتا تھا۔

۲۔( وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیهم من اهل القری ) ( ۲ )

ہم نے آپ(ص) سے پہلے انہیں مردوں کو رسول(ص) مقرر کیا جو آباد ی میں رہتے تھے اور ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے۔

۳۔( وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیه انه لا الٰه الا انا فاعبدون ) ( ۳ )

اور ہم نے آپ(ص) سے پہلے کوئی رسول(ص) نہیں بھیجا مگر اس پر وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے پس تم سب میری عبادت کرو۔

____________________

۱۔شوریٰ:۳۔

۲۔یوسف: ۱۰۹۔

۳۔ انبیائ: ۲۵۔

۷۹

۴۔( وجعلنا هم ائمة یهدون بامرنا و اوحینا الیهم فعل الخیرات و اقام الصلٰوة و ایتاء الزکاة وکانوا لنا عابدین ) ( ۱ )

ہم نے انہیں امام بنا یا وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں، ہم نے ان پر نیک کام کرنے، نماز قائم کرنے، اور زکات دینے کی وحی کی ہے اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔

پس وحی کا سرچشمہ خدا ہے اور خدا ہی رسولوں کی طرف توحید کی نشانیوں اور اپنی عبادت کے طریقوں کی وحی کرتا ہے اور انہیں ائمہ قرار دیتا ہے وہ اس کے حکم سے شریعت کی اس تفصیل کے ساتھ جو کہ ان کے پاس وحی کے ذریعہ پہنچی ہے لوگوں کو نیک کام انجام دینے، نماز قائم کرنے اور زکات دینے کی ہدایت کرتے ہیں عبادت میںیہی غیروں کے لئے نمونہ ہیں اور یہی خدا کے اسلام کا زندہ مرقع ہیں۔

حضرت خاتم الانبیاء کے بارے میں خدا وند عالم بطور خاص فرماتا ہے :

۱۔( وکذالک اوحینا الیک قرآناً عربیاً لتنذر ام القریٰ و من حولها و تنذر یوم الجمع لا ریب فیه... ) ( ۲ )

اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے مضافات میں رہنے والوں کو ڈرائیں اور روز حشر سے ڈرائیں جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔

۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی به نوحاً و الذی اوحینا الیک وما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ و ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیه کبر علیٰ المشرکین ما تدعوهم الیه اللّه یجتبی الیه من یشاء و یهدی الیه من ینیب (۳) ...فلذلک فادع و استقم کما امرت ولا تتبع اهوائهم و قل آمنت بما انزل اللّه من کتاب و امرت لا عدل بینکم اللّه

____________________

۱۔ انبیائ:۷۳ ۔

۲۔ شوریٰ: ۷۔

۳۔شوریٰ ۱۳۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

اس سے دل لگانا صحیح ہے ؟

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(مالی وللدنیا،انما مَثَلی کمثل راکبٍ مرّللقیلولة فی ظلّ شجرة فی یوم صائف ثم راح وترکها )( ۱ )

''دنیا سے میرا کیا تعلق ؟میری مثال تو اس سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے تھپیڑوں کے درمیان آرام کی خاطر کسی درخت کے نیچے لیٹ جاتا ہے اور پھر اس جگہ کو چھوڑکر چل دیتا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن کو یہ وصیت فرمائی ہے :

(یابنیّ انی قدأنباتک عن الدنیا وحالها،وزوالها،وانتقالها،وأنبأتک عن الآخرةومااُعدّ لأهلها فیها،وضربتلک فیهماالأمثال،لتعتبربها، وتحذو علیها،انمامثل من خبرالدنیاکمثل قوم سفرنبا بهم منزل جذیب فأمّوا منزلاًخصیباً، وجناباً مریعاً،فاحتملواوعثاء الطریق،وفراق الصدیق،وخشونةالسفرومَثَل من اغترّبهاکمثل قوم کانوابمنزل خصیب فنبابهم الیٰ منزل جذیب،فلیس شیء أکره الیهم ولاأفضع عندهم من مفارقة ماکانوا فیه الیٰ مایهجمون علیه ویصیرون الیه )( ۲ )

''۔۔۔اے فرزند میں نے تمہیں دنیااوراسکی حالت اوراسکی بے ثباتی و ناپائیداری سے خبردار کردیا ہے ۔اور آخرت اور آخرت والوں کے لئے جو سروسامان عشرت مہیّاہے اس سے بھی آگاہ کردیا ہے اور ان دونوں کی مثالیںبھی تمہارے سامنے پیش کرتا ہوں تاکہ ان سے عبرت حاصل کرو

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۴۱

اور ان کے تقاضے پر عمل کرو۔جن لوگوں نے دنیا کو خوب سمجھ لیا ہے ان کی مثال ان مسافروںکی سی ہے جن کا قحط زدہ منزل سے دل اچاٹ ہوا،اور انھوں نے راستے کی دشواریوں کو جھیلا، دوستوںکی جدائی برداشت کی،سفر کی صعوبتیںگواراکیں،اور کھانے کی بد مزگیوںپر صبر کیاتاکہ اپنی منزل کی پہنائی اور دائمی قرارگاہ تک پہنچ جائیں ۔اس مقصد کی دھن میں انھیں ان سب چیزوں سے کوئی تکلیف محسوس نہیں ہوتی۔اور جتنا بھی خرچ ہوجائے اس میں نقصان معلوم نہیں ہوتا۔انھیں سب سے زیادہ وہی چیز مرغوب ہے جو انہیں منزل کے قریب اور مقصدسے نزدیک کردے اور اسکے برخلاف ان لوگوں کی مثال جنہوں نے دنیا سے فریب کھایاان لوگوں کی سی ہے جو ایک شاداب سبزہ زار میں ہوں اور وہاں سے دل برداشتہ ہوجائیں اور اس جگہ کا رخ کرلیں جو خشک سالیوں سے تباہ ہو۔ان کے نزدیک سخت ترین حادثہ یہ ہوگا کہ وہ موجودہ حالت کو چھوڑکرادھر جائیںکہ جہاں انھیں اچانک پہنچناہے اور بہر صورت وہاںجاناہے ۔۔۔ ''

حضرت عمر ، پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو دیکھا آپ ایک بورئیے پر آرام فرمارہے ہیں اور آپ کے پہلو پر اسکا نشان بن گیاہے توعرض کی اے نبی خدا:

(یانبیّ ﷲ،لواتخذت فراشاً أوثر منه؟فقال صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :مالی وللدنیا،مامَثلی ومثَل الدنیا الاکراکب سارفی یوم صائف فاستظلّ تحت شجرة ساعة من نهار،ثم راح وترکها )( ۱ )

اگر آپ اس سے بہتربستر بچھالیتے تو کیا تھا ؟پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''دنیا سے میرا کیا تعلق؟میری اور دنیا کی مثال ایک سوار کی سی ہے جوتیز ہوائوں کے درمیان چلا جارہا ہو اور دن میں تھوڑی دیر آرام کرنے کے لئے کسی سایہ داردرخت کے نیچے رک جائے اور پھر اس جگہ کوچھوڑ کرآگے بڑھ جائے''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۱۲۳۔

۲۴۲

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ان الدنیالیست بدارقرارولامحلّ اقامة،انّما أنتم فیهاکرکب عرشوا وارتاحوا،ثم استقلّوا فغدوا وراحوا،دخلوهاخفافاً،وارتحلواعنها ثقالاً،فلم یجدواعنهانزوعاً،ولاالی ما ترکوبهارجوعاً )( ۱ )

''یہ دنیا دار القرار اور دائمی قیام گا ہ نہیں ہے تم یہاں سوار کی مانند ہو 'جنہوں نے کچھ دیرکیلئے خیمہ لگایا اور پھر چل پڑے پھر دوسری منزل پر تھوڑا آرام کیا اور صبح ہوتے ہی کوچ کر گئے ، ہلکے پھلکے (آسانی سے)اترے اور لاد پھاندکر مشکل سے روانہ ہوئے نہ انہیں اسکا کبھی اشتیاق ہوا اور جس کو ترک کرکے آگئے نہ اسکی طرف واپسی ممکن ہوئی ''

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں عرض کیا گیا :انسان دنیا میں کیسے زندگی بسر کرے ؟آپ نے فرمایا جیسے قافلہ گذرتا ہے۔ دریافت کیا گیا اس دنیا میں قیام کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا جتنی دیر قافلہ سے چھوٹ جانے والا رہتا ہے ۔دریافت کیا گیا! دنیا وآخرت میں فاصلہ کتنا ہے ؟آپ نے فرمایا پلک جھپکنے کا۔( ۲ ) اور اس آیۂ کریمہ کی تلاوت فرمائی :

(کأنّهم یوم یرون ما یوعدون لم یلبثوا الاساعة من نهار )( ۳ )

''تو ایسا محسوس کرینگے جیسے دنیا میں ایک دن کی ایک گھڑی ہی ٹھہرے ہیں ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاظلّ الغمام،وحلم المنام )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۱۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۳)سورئہ احقاف آیت ۳۵۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

۲۴۳

''دنیا بادل کا سایہ اورسونے والے کا خواب ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا :

(انّ الدنیاعند العلماء مثل الظل )( ۱ )

''اہل علم کے نزدیک دنیا سایہ کے مانند ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(ألاوان الدنیادارلایسلم منها الافیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،اُبتلی الناس فیها فتنة فماأخذوه منهالهاأخرجوامنه وحوسبواعلیه،وماأخذوهُ منها لغیرها، قدموا علیه وأقاموا فیه،فانهاعند ذوی العقول کفیٔ الظلّ بینا تراه سابغاً حتیٰ قلص،وزائداً حتیٰ نقص )( ۲ )

''یاد رکھو یہ دنیا ایسا گھر ہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کوئی ایسی شے وسیلہ نجات نہیں ہوسکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں جو لوگ دنیا کا سامان دنیا ہی کے لئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہیں ۔یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۶۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۶۳۔

۲۴۴

دنیا ایک پل

دین اسلام مسلمان کو دنیا کے بارے میں ایک ایسے نظریہ کا حامل بنانا چاہتا ہے کہ اگر اسکے دل میں یہ عقیدہ و نظریہ راسخ ہوجائے توپھر دنیا کو ایک ایسے پل کے مانند سمجھے گا جس کے اوپر سے گذر کر اسے جانا ہے اور اس مسلمان کی نگاہ میں یہ دنیا دار القرار نہیں ہوگی ۔جب ایسا عقیدہ ہوگا تو خود بخود مسلمان دنیا پرفریفتہ نہ ہوگا اور اسکی عملی زندگی میں بھی اس کے نتائج نمایاں نظر آئیںگے۔

حضرت عیسیٰ کا ارشاد ہے :

(انما الدنیا قنطرة )( ۱ )

''دنیا ایک پل ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے :

(أیهاالناس انماالدنیادارمجازوالآخرة دار قرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم،ولاتهتکواأستارکم عند من یعلم أسرارکم )( ۲ )

''اے لوگو !یہ دنیا گذر گاہ ہے اور آخرت دار قرارہے لہٰذا اپنے راستہ سے اپنے ٹھکانے کے لئے تو شہ اکٹھا کرلواور جو تمہارے اسرار کو جانتا ہے اس کے سامنے اپنے پردوں کو چاک نہ کرو ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(الدنیا دارممرّولادار مقرّ،والناس فیهارجلان:رجل باع نفسه فأوبقها، ورجل ابتاع نفسه فأعتقها )( ۳ )

''دنیا گذرگاہ ہے دارالقرار نہیں اس میں دو طرح کے لوگ رہتے ہیں کچھ وہ ہیں جنھوں نے دنیا کے ہاتھوں اپنا نفس بیچ دیا تو وہ دنیا کے غلام ہوگئے کچھ وہ ہیں جنہوں نے اپنے نفس کوخرید لیااور دنیا کو آزاد کردیا''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۱۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۲۰۳۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ج۱۸ص۳۲۹۔

۲۴۵

اسباب ونتائج کا رابطہ

اسلامی فکر کا امتیاز یہ ہے کہ وہ انسانی مسائل سے متعلق اسباب و نتائج کو ایک دوسرے سے لاتعلق قرار نہیں دیتی بلکہ انھیں آپس میں ملاکر دیکھنے اور پھراس سے نتیجہ اخذ کرنے کی قائل ہے جب ہم انسانی اسباب و نتائج کے بارے میں غورکرتے ہیں تو ان مسائل میں اکثر دو طرفہ رابطہ نظر آتا ہے یعنی دونوں ایک دوسرے پراثر انداز ہوتے ہیں ۔انسانی مسائل میںایسے دوطرفہ رابطوں کی مثالیں بکثرت موجود ہیں مثلاًآپ زہد اور بصیرت کو ہی دیکھئے کہ زہد سے بصیرت اور بصیرت سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے ۔

یہاں پر ہم ان دونوں سے متعلق چند روایات پیش کر رہے ہیں ۔

زہد وبصیرت

(أفمن شرح ﷲصدرہ للاسلام فھوعلیٰ نورٍمِن ربَّہِ)کی تفسیر کے ذیل میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(ان النوراذاوقع فی القلب انفسح له وانشرح)،قالوا یارسول ﷲ:فهل لذٰلک علامةیعرف بها؟قال:(التجافی من دارالغرور،والانابة الیٰ دارالخلود، والاستعداد للموت قبل نزول الموت )

''قلب پر جب نور کی تابش ہوتی ہے تو قلب کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں وسعت پیدا ہوجاتی ہے عرض کیا گیا یا رسول ﷲ اسکی پہچان کیا ہے ؟

۲۴۶

آپ نے فرمایا :

''دار الغرور(دنیا)سے دوری ،دارالخلود(آخرت)کی طرف رجوع اور موت آنے سے پہلے اسکے لئے آمادہ ہوجانا ہے ''( ۱ )

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(أحقّ الناس بالزهادة،من عرف نقص الدنیا )( ۲ )

''جو دنیا کے نقائص سے آگاہ ہے اسے زیادہ زاہد ہونا چاہئے''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من صوّرالموت بین عینیه،هان أمرالدنیا علیه )( ۳ )

''جس کی دونوں آنکھوں کے سامنے موت کھڑی رہتی ہے اس کے لئے دنیا کے امور آسان ہوجاتے ہیں ''

نیز آپ نے فرمایا :(زهدالمرء فیمایفنیٰ،علی قدر یقینه فیما یبقیٰ )( ۴ )

''فانی اشیائ(دنیا)کے بارے میں انسان اتناہی زاہد ہوتا ہے جتنا اسے باقی اشیاء (آخرت )کے بارے میں یقین ہوتا ہے ''

زہدو بصیرت کا رابطہ

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت ابوذر (رح)سے فرمایا :

(یاأباذر:مازهد عبد فی الدنیا،الاأنبت ﷲ الحکمة فی قلبه،وأنطق بهالسانه ،ویبصّره عیوب الدنیا وداء ها ودواء ها،وأخرجه منهاسالماًالی دارالسلام )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۲۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)غررالحکم ۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۹۔

(۵)بحارالانوار ج۷۷ص۸۔

۲۴۷

''اے ابوذر جو شخص بھی زہداختیار کرتاہے ﷲ اس کے قلب میں حکمت کا پودا اگا دیتا ہے اور اسے اسکی زبان پر جاری کر دیتا ہے اسے دنیا کے عیوب ،اوردرد کے ساتھ انکاعلاج بھی دکھا دیتا ہے اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ دارالسلام لے جاتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من یرغب فی الدنیا فطال فیهاأمله،أعمیٰ ﷲ قلبه علیٰ قدررغبته فیها، ومن زهد فیها فقصُرأمله أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیً بغیرهدایة،وأذهب عنه العماء وجعله بصیراً )( ۱ )

جو دنیا سے رغبت رکھتا ہے اسکی آرزوئیں طویل ہوجاتی ہیں اوروہ جتنا راغب ہوتا ہے اسی مقدار میں خدا اسکے قلب کوا ندھا کر دیتا ہے اور جو زہد اختیار کر تا ہے اسکی آرزوئیں قلیل ہوتی ہیں ﷲ اسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنما ئی کے بغیرہدایت عطا کرتا ہے اور اس کے اند ھے پن کو ختم کر کے اسے بصیر بنا دیتا ہے ''

ایک دن پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم لوگوں کے درمیان آئے اور فرمایا:

(هل منکم من یریدأن یؤتیه ﷲ علماًبغیرتعلّم،وهدیاًبغیرهدایة؟هل منکم من یریدأن یذهب عنه العمیٰ و یجعله بصیراً؟ألاانه من زهد فی الدنیا،وقصرأمله فیها،أعطاه ﷲعلماًبغیرتعلّم،وهدیاً بغیرهدایة )( ۲ )

''کیا تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اسے تعلیم کے بغیر علم اور رہنمائی کے بغیرہدایت دیدے۔ تم میں سے کوئی اس بات کا خواہاں ہے کہ ﷲ اس کے اندھے پن کو دور کر کے اسے بصیر بنادے ؟آگاہ ہو جائو جو شخص بھی دنیا میں زہدا ختیار کر ے گااور اپنی آرزوئیں قلیل رکھے گا

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۶۳۔

(۲)درالمنثورج۱ص۶۷۔

۲۴۸

ﷲاسے تعلیم کے بغیرعلم اور رہنمائی کے بغیرہدایت عطاکر ے گا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(یاأباذراذارأیت أخاک قدزهد فی الدنیا فاستمع منه،فانه یُلقّیٰ الحکمة )( ۱ )

''اے ابوذراگر تم اپنے کسی بھائی کو دیکھو کہ وہ دنیا میں زاہد ہے تو اسکی باتوںکو(دھیان سے ) سنو کیونکہ اسے حکمت عطا کی گئی ہے ''

ان روایات سے معلوم ہو تا ہے کہ زہد وبصیرت میں دو طرفہ رابطہ ہے ،یعنی زہد کا نتیجہ بصیرت اور بصیرت کا نتیجہ زہد ہے ۔اسی طرح زہد اور قلتِ آرزو کے مابین بھی دو طرفہ رابطہ ہے زہد سے آرزووں میں کمی اور اس کمی سے زہد پیدا ہوتا ہے زہد اورقلت آرزو کے درمیان رابطہ کے بارے میں امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :(الزهدیخلق الابدان،ویحدّدالآمال،ویقرّب المنیة،ویباعدالاُمنیة،من ظفر به نصب،ومن فاته تعب )( ۲ )

'' زہد،بدن کو مناسب اور معتدل ،آرزووں کو محدود،موت کو نگاہوں سے نزدیک اور تمنائوں کو انسان سے دور کردیتا ہے جو اسکو پانے میں کامیاب ہوگیا وہ خوش نصیب ہے اور جو اسے کھو بیٹھا وہ در دسر میں مبتلاہوگیا''

آرزووں کی کمی اورزہد کے رابطہ کے بارے میں امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(استجلب حلاوة الزهادة بقصرالامل )( ۳ )

''آرزو کی قلت سے زہد کی حلاوت حاصل کرو''

ان متضاد صفات کے درمیان دو طرفہ رابطہ کا بیان اسلامی فکر کے امتیازات میں سے ہے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۷ص۸۰ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۰ص۳۱۷۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

۲۴۹

زہد وبصیرت یا زہد وقلتِ آرزو کے درمیان دو طرفہ رابطہ کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ ان دونوں چیزوں کے اندر ایک دوسرے کے ذریعہ اضافہ ہوتا رہتا ہے اور اس سے انسان ترقی کرتا رہتا ہے۔ اس طرح کہ بصیرت سے زہد کی کیفیت پیدا ہو تی ہے اور جب انسان زاہد ہو جاتا ہے تو بصیرت کے اعلیٰ مراتب حاصل ہو جاتے ہیں نیزبصیرت کے ان اعلیٰ مراتب سے زہد میں اضافہ ہوتا ہے اور اس زہد سے پھر بصیرت کے مزید اعلیٰ مراتب وجود پاتے ہیں۔اسطرح انسان ان دونوں صفات وکمالات کے ذریعہ بلندیوں تک پہنچ جاتا ہے۔

مذموم دنیا اور ممدوح دنیا

۱۔مذموم دنیا

اس سے قبل ہم نے ذکر کیا تھا کہ دنیا کے دو چہرے ہیں:

( ۱ ) ظاہری

( ۲ ) باطنی

دنیا کا ظاہر ی چہرہ فریب کا سر چشمہ ہے ۔یہ چہرہ انسانی نفس میں حب دنیا کا جذبہ پیدا کرتا ہے جبکہ باطنی چہرہ ذریعۂ عبرت ہے یہ انسان کے نفس میں زہدکا باعث ہوتا ہے روایات کے مطابق دنیا کا ظاہری چہرہ مذموم ہے اور باطنی چہرہ ممدوح ہے ۔

ایسا نہیں ہے کہ واقعاً دنیا کے دو چہرے ہیں یہ فرق در حقیقت دنیا کو دیکھنے کے انداز سے پیدا ہوتا ہے ورنہ دنیا اور اسکی حقیقت ایک ہی ہے ۔فریب خور د ہ نگاہ سے اگر دنیا کو دیکھا جائے تو یہ دنیا مذموم ہوجاتی ہے اور اگر دیدئہ عبرت سے دنیا پر نگاہ کی جائے تو یہی دنیاممدوح قرار پاتی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ لذات وخواہشات سے لبریز دنیا کا ظاہری چہرہ ہی مذموم ہے ۔

یہاں پر دنیا کے مذموم رخ کے بارے میں چند روایات پیش کی جارہی ہیں ۔

۲۵۰

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(الدنیا سوق الخسران )( ۱ )

''دنیا گھاٹے کا بازار ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مصرع العقول )( ۲ )

''دنیا عقلوں کا میدان جنگ ہے ''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(الدنیا ضحکة مستعبر )( ۳ )

''دنیا چشم گریاں رکھنے والے کے لئے ایک ہنسی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُطَلَّقةُ الاکیاس )( ۴ )

''دنیاذہین لوگوں کی طلاق شدہ بیوی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا معدن الشرور،ومحل الغرور )( ۵ )

''دنیا شروفسا دکا معدن اور دھوکے کی جگہ ہے''

____________________

(۱)غررا لحکم ج ۱ص۲۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۷۳۔

۲۵۱

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیالا تصفولشارب،ولا تفی لصاحب )( ۱ )

''دنیا کسی پینے والے کے لئے صاف وشفاف اور کسی کے لئے باوفا ساتھی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مزرعة الشر )( ۲ )

''دنیا شروفسا دکی کا شت کی جگہ ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا مُنیة الاشقیائ )( ۳ )

''دنیا اشقیا کی آرزوہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الد نیا تُسْلِمْ )( ۴ )

''دنیا دوسرے کے حوالے کر دیتی ہے''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(الدنیا تُذِلّْ )( ۵ )

''دنیا ذلیل کرنے والی ہے''

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص ۸۵۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۳۷۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۱۱۔

۲۵۲

دنیا سے بچائو

امیر المو منین حضرت علی ہمیں دنیا سے اس انداز سے ڈراتے ہیں :

(أُحذّرکم الدنیافانّهالیست بدارغبطة،قدتزیّنت بغرورها،وغرّت بزینتهالمن ان ینظرالیها )( ۱ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ فخرومباہات کاگھر نہیں ہے ۔یہ اپنے فریب سے مزین ہے اور جو شخص اسکی طرف دیکھتا ہے اسے اپنی زینت سے دھوکے میں مبتلاکردیتی ہے ''

ایک اور مقام پر آپ کا ارشاد گرامی ہے :

(أُحذّرکم الدنیافانها حُلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے بچنے کی تاکید کرتا ہوں کہ یہ دنیا سرسبز وشیریں اورشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(احذروا هذه الدنیا،الخدّاعة الغدّارة،التی قد تزیّنت بحلیّها،وفتنت بغرورها،فأصبحت کالعروسة المجلوة،والعیون الیها ناظرة )( ۳ )

''اس دھو کے باز مکار دنیا سے بچو یہ دنیا زیورات سے آراستہ اور فتنہ ساما نیوں کی وجہ سے سجی سجائی دلہن کی مانندہے کہ آنکھیں اسی کی طرف لگی رہتی ہیں ''

ب :ممدوح دنیا

دنیا کا دوسرا رخ اوراس کے بارے میں جو دوسرانظر یہ ہے وہ قابل مدح وستائش ہے البتہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۲۱۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۹۶۔

(۳)بحارالانوارج۷۳ص۱۰۸۔

۲۵۳

یہ قابل ستائش رخ اس دنیا کے باطن سے نکلتا ہے جو قابل زوال ہے جبکہ مذموم رخ ظاہری دنیا سے متعلق تھا ۔

بہر حال یہ طے شدہ بات ہے کہ دنیا کے دورخ ہیں ایک ممدوح اور دوسرا مذموم ۔ممدوح رخ کے اعتبار سے دنیا نقصان دہ نہیں ہے بلکہ نفع بخش ہے اورمضر ہونے کے بجائے مفید ہے اسی رخ سے دنیا آخرت تک پہو نچانے والی ،مومن کی سواری ،دارصدق اوراولیاء کی تجارت گاہ ہے۔لہٰذادنیا کے اس رخ کی مذمت صحیح نہیں ہے روایات کے آئینہ میں دنیا کے اس رخ کوبھی ملا حظہ فرما ئیں ۔

۱۔دنیا آخرت تک پہو نچانے والی

امام زین العابدین نے فرمایا :

(الدنیا دنیاءان،دنیابلاغ،ودنیاملعونة )( ۱ )

''دنیا کی دو قسمیں ہیں ؟دنیا ئے بلاغ اور دنیا ئے ملعونہ ''

دنیائے بلاغ سے مراد یہ ہے کہ دنیا انسان کو آخرت تک پہو نچاتی ہے اور خدا تک رسائی حاصل کرنے کا ذریعہ ہے ۔بلاغ کے یہی معنی ہیں اوریہ دنیا کی پہلی قسم ہے ۔

دوسری دنیا جو ملعون ہے وہ دنیا وہ ہے جوانسان کو ﷲسے دورکرتی ہے اس لئے کہ لعن بھگانے اور دور کرنے کو کہتے ہیں اب ہرانسان کی دنیااِنھیں دومیں سے کوئی ایک ضرورہے یاوہ دنیا جو خدا تک پہونچاتی ہے یاوہ دنیا جو خدا سے دور کرتی ہے ۔

اسی سے ایک حقیقت اور واضح ہو جاتی ہے کہ انسان دنیا میں کسی ایک مقام پر ٹھہر انہیں رہتا ہے بلکہ یا تووہ قرب خداکی منزلیں طے کرتا رہتا ہے یا پھر اس سے دور ہوتا جاتا ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۳ص۲۰۔

۲۵۴

(لاتسألوافیها فوق الکفاف،ولاتطلبوامنها أکثرمن البلاغ )( ۱ )

''اس دنیا میں ضرورت سے زیادہ کا سوال مت کرو اور نہ ہی کفایت بھر سے زیادہ کا مطالبہ کرو ''

اس طرح اس دنیا کا مقصد (بلاغ)ہے اور انسان دنیا میں جو بھی مال ومتاع حاصل کرتا ہے وہ صرف اس مقصد تک پہونچنے کیلئے ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے اس طرح انسان کی ذمہ داری ہے کہ دنیا میں صرف اتنا ہی طلب کرے جس سے اپنے مقصود تک پہنچ سکے لہٰذا اس مقدار سے زیادہ مانگنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی وسیلہ کو مقصد بنانا چا ہئے اور یہ یادر کھنا چاہئے کہ دنیا وسیلہ ہے آخری مقصد نہیں ہے بلکہ آخری مقصد آخرت اور خدا تک رسائی ہے ۔

امیرا لمو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(الدنیاخلقت لغیرها،ولم تخلق لنفسها )( ۲ )

''دنیا اپنے لئے نہیں بلکہ اپنے غیر (آخرت تک رسائی )کیلئے خلق کی گئی ہے''

وسیلہ کو مقصد قرار دے دیاجائے یہ بھی غلط ہے اسی طرح واسطہ کو وسیلہ اور مقصد(دونوں ) قرار دینا بھی غلط ہے اسی لئے امیرالمو منین نے فر مایا ہے کہ دنیاکو صرف اس مقدارمیںطلب کرو جس سے آخرت تک پہونچ سکو ۔

لیکن خود حصول دنیا کے سلسلہ میں آپ نے فرمایا کہ صرف بقدر ضرورت سوال کرو ۔امام کے اس مختصر سے جملے میں حصول رزق کے لئے سعی و کو شش کے سلسلہ میں اسلام کا مکمل نظریہ موجود ہے ۔چونکہ مال و متاع ِ دنیا آخرت تک پہنچنے کا ذریعہ ہے لہٰذا کسب معاش اور تحصیل رزق ضروری ہے لیکن اس تلاش و جستجو میں ''بقدر ضرورت ''کا خیال رکھنا ضروری ہے اور ''بقدر ''ضرورت سے مراد وہ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۳ص۸۱۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۴۵۵۔

۲۵۵

مقدار ہے کہ جس کے ذریعہ دنیاوی زندگی کی ضرورتیں پوری ہو تی رہیں اور آخرت تک رسائی ہو سکے

انسا نی ضرورت واقعی اور ضروری بھی ہو تی ہے اور غیر واقعی یا وہمی بھی ۔یعنی اسے زندہ رہنے اور آخرت تک رسائی کے لئے جن چیزوں کی ضرورت ہے وہ حقیقی ضرورتیں ہیں ۔اوران کے علاوہ کچھ غیر ضروری چیزیں بھی احتیاج وضرورت کی شکل میں انسان کے سامنے آتی ہیںجو در حقیقت حرص و طمع ہے اوران کا سلسلہ کبھی ختم ہو نے والا نہیں ہے اگر انسان ایک مرتبہ ان کی گرفت میں آگیا تو پھر ان کی کو ئی انتہا ء نہیں ہوتی ۔ان کی راہ میں جد وجہد کرتے ہوئے انسان ہلاک ہو جاتا ہے مگر اس جد و جہد سے اذیت و طمع میں اضافہ ہی ہوتا ہے ۔

حضرت امام جعفر صادق نے اپنے جد بزرگوار حضرت علی کا یہ قول نقل فرمایاہے:

یابن آدم:ان کنت ترید من الدنیامایکفیک فان أیسرما فیهایکفیک،و ان کنت انما ترید مالیکفیک فان کل ما فیهایکفیک ( ۱ )

''اے فرزند آدم اگر تو دنیا سے بقدر ضرورت کا خواہاں ہے تو تھوڑا بہت ،جو کچھ تیرے پاس ہے وہی کا فی ہے اور اگر تو اتنی مقدار میں دنیا کا خواہاں ہے جو تیری ضرورت سے زیادہ ہے تو پھر دنیا میں جو کچھ ہے وہ بھی نا کافی ہے ''

دنیا کے بارے میں یہ دقیق نظریہ متعدد اسلامی روایات اور احا دیث میں وارد ہوا ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

ألا وان الدنیادار لا یُسلَم منها الا فیها،ولاینجیٰ بشی ء کان لها،ابتلی الناس بها فتنة،فما أخذوه منها لهااُخرجوا منه وحوسبوا علیه،

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۸۔

۲۵۶

وما أخذوه منهالغیرها قدمواعلیه وأقاموا فیه )( ۱ )

''آگاہ ہو جا ئو کہ یہ دنیا ایسا گھرہے جس سے سلامتی کا سامان اسی کے اندر سے کیا جاسکتا ہے اور کو ئی ایسی شئے وسیلۂ نجات نہیں ہو سکتی ہے جو دنیا ہی کے لئے ہو ۔لوگ اس دنیا کے ذریعہ آزمائے جاتے ہیں ۔جو لوگ دنیا کا سامان ،دنیا ہی کیلئے حاصل کرتے ہیں وہ اسے چھوڑکر چلے جاتے ہیں اور پھر حساب بھی دینا ہوتا ہے اور جولوگ یہاں سے وہاںکیلئے حاصل کرتے ہیں وہ وہاں جاکر پالیتے ہیں اور اسی میں مقیم ہوجاتے ہے یہ دنیا در حقیقت صاحبان عقل کی نظر میں ایک سایہ جیسی ہے جو دیکھتے دیکھتے سمٹ جاتا ہے اور پھیلتے پھیلتے کم ہوجاتا ہے ''

ان کلمات میں اختصار کے باوجود بے شمار معانی ومطالب پائے جاتے ہیں (دارلایسلم منها اِلا فیها )اس فقرہ سے معلوم ہوتا ہے کہ شیطان سے فرار اور خدا تک رسائی کے لئے دنیا مومن کی سواری ہے اس کے بغیر اسکی بارگاہ میں رسائی ممکن نہیں ہے عجیب وغریب بات ہے کہ دنیا اور لوگوں سے کنا رہ کشی کرنے والا قرب خدا کی منزل مقصود تک نہیں پہونچ سکتا بلکہ ﷲ یہ چاہتا ہے کہ بندہ اسی دنیا میں رہ کر اسی دنیا کے سہارے اپنی منزل مقصود حاصل کرے۔لہٰذا ان کلمات سے پہلی حقیقت تو یہ آشکار ہوئی ہے کہ دنیا واسطہ اور وسیلہ ہے اس کو نظر انداز کرکے مقصدحاصل نہیںکیاجاسکتا۔

لیکن یہ بھی خیال رہے کہ دنیا مقصد نہ بننے پائے۔ اگر انسان دنیا کو وسیلہ کے بجائے ہدف اور مقصد بنالے گا تو ہرگز نجات حاصل نہیں کرسکتا (ولاینجی لشی کان لھا) اس طرح اگر انسان نے دنیا کواس کی اصل حیثیت ''واسطہ ووسیلہ''سے الگ کردیا اور اسی کو ہدف بنالیا تو پھر دنیاشیطان سے نجات اور خدا تک پہنچانے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے یہ دوسری حقیقت ہے جوان

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۶۲ ۔

۲۵۷

کلمات میں موجود ہے ۔

اور پھراگر انسان دنیا کو خدا ،قرب خدا اور رضائے الٰہی حاصل کرنے کے بجائے خود دنیا کی خاطر اپناتا ہے تو یہی دنیا اسکو خدا سے دور کردیتی ہے ۔اس دنیا کا بھی عجیب و غریب معاملہ ہے یعنی اگر انسان اسے وسیلہ اور خدا تک رسائی کا ذریعہ قرار دیتا ہے تو یہ دنیا اس کے لئے ذخیرہ بن جاتی ہے اور اس کے لئے باقی رہتی ہے نیز دنیا وآخرت میں اس کے کام آتی ہے لیکن اگر وسیلہ کے بجائے اسے مقصد بنالے تو یہ ﷲ سے غافل کرتی ہے ۔خدا سے دور کردیتی ہے موت کے بعدانسان سے جدا ہوجاتی ہے اور بارگاہ الٰہی میں اسکا سخت ترین حساب لیا جاتاہے ۔

یہ بھی پیش نظر رہے کہ یہ فرق کمیت اور مقدار کا نہیں ہے بلکہ کیفیت کا ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان وسیع و عریض دنیا کا مالک ہو لیکن اسکا استعمال راہ خدا میں کرتا ہو اس کے ذریعہ قرب خدا کی منزلیں طے کرتا ہو ایسی صورت میں یہ دنیا اس کے لئے ''عمل صالح''شمار ہوگی اس کے برخلاف ہوسکتا ہے کہ مختصر سی دنیا اور اسباب دنیاہی انسان کے پاس ہوں لیکن اسکا مقصد خود وہی دنیا ہو تو یہ دنیا اس سے چھین لی جائے گی اسکا محاسبہ کیا جائے گا ۔یہ ہے ان کلمات کا تیسرا نتیجہ۔

اگر خود یہی دنیا انسان کے مد نظر ہوتو اسکی حیثیت ''عاجل''''نقد''کی سی ہے جو کہ اسی دنیا تک محدود ہے اور اس کا سلسلہ آخرت سے متصل نہ ہوگابلکہ زائل ہو کر جلد ختم ہوجائے گی لیکن اگر دنیا کو دوسرے (آخرت )کے لئے اختیار کیا جائے تو اسکی حیثیت''آجل''''ادھار''کی سی ہوگی کہ جب انسان حضور پروردگار میں پہونچے گا تو وہاںدنیا کو حاضر وموجود پائے گا ۔ایسی دنیا زائل ہونے والی نہیں بلکہ باقی رہے گی''وماعندﷲ خیر وأبقی''امیر المومنین کے اس فقرہ''وماأخذ وہ منھا لغیرھا قدموا علیہ وأقاموا فیہ'' سے یہ چوتھا نتیجہ برآمد ہوتا ہے ۔

۲۵۸

زیارت امام حسین سے متعلق دعا میں نقل ہوا ہے:

(ولاتشغلنی بالاکثارعلیّ من الدنیا،تلهینی عجائب بهجتها،وتفتننی زهرات زینتها،ولا بقلالٍ یضرّ بعملی،ویملأ صدری همّه )( ۱ )

''کثرت دنیا سے میرے قلب کو مشغول نہ کردینا کہ اسکے عجائبات مجھے تیری یاد سے غافل کردیں یا اسکی زینتیں مجھے اپنے فریب میں لے لیں اور نہ ہی دنیا میں میرا حصہ اتنا کم قرار دینا کہ میرے اعمال متاثر ہوجائیں اور میرا دل اسی کے ہم وغم میں مبتلا رہے ''

دنیا اوراس سے انسان کے تعلق، بقاء و زوال ،اسکے مفید ومضر ہونے کے بارے میں اس سے قبل جو کچھ بیان کیا گیا وہ کیفیت کے اعتبار سے تھا کمیت ومقدار سے اسکا تعلق نہیں تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ کمیت و مقدار بھی اس میں دخیل ہے کثرت دنیا اور اسکی آسا ئشیںانسان کو اپنے میں مشغول کرکے یاد خدا سے غافل بنادیتی ہیں بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ دنیا میں بڑاحصہ ہونے کے باوجود انسان دنیا میں گم نہ ہو یا یہ زیادتی اسے خدا سے دور نہ کردے اسکے لئے سخت جد وجہد درکار ہوتی ہے اور اسی طرح اگر دنیا وی حصہ کم ہو،دنیا روگردانی کر رہی ہو تو یہ بھی انسان کی آزمائش کا ایک انداز ہوتا ہے کہ انسان کا ہم وغم اور اس کی فکریں دنیا کے بارے میں ہوتی ہیں اور وہ خدا کو بھول جاتا ہے اسی لئے اس دعا میں حد متوسط کا مطالبہ کیا گیا ہے کہ نہ تو اتنی کثرت ہو جس سے انسان یاد خدا سے غافل ہوجائے اور نہ اتنی قلت ہوکہ انسان اسی کی تلاش میں سرگرداں رہے اور خدا کو بھول بیٹھے۔

۲۔دنیا مومن کی سواری

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لاتسبّوا الدنیا فنعمت مطیة المؤمن،فعلیها یبلغ الخیر وبها ینجو من الشر )( ۲ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۱ ص۲۰۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۷ص۱۷۸۔

۲۵۹

''دنیا کو برا مت کہو یہ مومن کی بہترین سواری ہے اسی پر سوار ہوکر خیر تک پہنچاجاتا ہے اور اسی کے ذریعہ شرسے نجات حاصل ہوتی ہے ''

اس حدیث شریف سے معلوم ہوا کہ دنیا سواری کی حیثیت رکھتی ہے جس پر سوار ہوکر انسان خدا تک پہونچتا اور جہنم سے فرار اختیار کرتا ہے ۔

یہ دنیاکاقابل ستائش رخ ہے اگر دنیانہ ہوتی توانسان رضائے الٰہی کے کام کیسے بجالاتا ، کیسے خدا تک پہونچتا ؟اولیاء خدا اگر قرب خداوند ی کے بلند مقامات تک پہونچے ہیں تو وہ بھی اسی دنیا کے سہارے سے پہونچے ہیں ۔

۳۔دنیا صداقت واعتبار کا گھر ہے ۔

۴۔دنیا دار عافیت۔

۵۔دنیا استغنا اور زاد راہ حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔

۶۔دنیا موعظہ کا مقام ہے ۔

۷۔دنیا محبان خدا کی مسجدہے ۔

۸۔دنیا اولیاء الٰہی کے لئے محل تجارت ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے جب ایک شخص کو دنیا کی مذمت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا :

(أیهاالذام للدنیاالمغترّبغرورهاالمنخدع بأباطیلها!أتغتر بالدنیاثم تذمّها،أنت المتجرّم علیهاأم هی المتجرّمةعلیک؟متیٰ استهوتک؟أم متیٰ غرّتک؟ )( ۱ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے اور اسکے فریب میں مبتلا ہوکر اسکے مہملات میں دھوکا کھا

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۱۲۶۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296