منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)13%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140912 / ڈاؤنلوڈ: 6502
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

دوسری فصل

شباب و جوانی کا زمانہ

۱۔ نبی(ص) ابوطالب کی کفالت میں

نبی(ص)، حضرت ابو طالب کی کفالت میں آنے سے پہلے حضرت عبد المطلب کی حفاظت وکفالت میں رہے عبد المطلب جانتے تھے کہ ابو طالب بہترین طریقہ سے اپنے بھتیجے کی حفاظت و کفالت کریں گے اگر چہ وہ نادار ہیں لیکن اپنے بھائیوں سے زیادہ شریف و نجیب ہیں اور قریش انہیں عزت واحترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ حضرت ابوطالب جناب عبد اللہ کے پدری و مادری بھائی ہیں لہذا وہ محمد(ص) سے زیادہ محبت کریں گے۔

اس ذمہ داری کو حضرت ابو طالب نے خندہ پیشانی اور افتخار کے ساتھ قبول کر لیا، اس سلسلہ میں ابو طالب کی زوجہ جناب فاطمہ بنت اسد بھی ان کی معاون تھیں، یہ میاں بیوی پہلے محمد(ص) کو کھانا کھلاتے تھے اور پھر اپنی اولاد کو کھلاتے تھے، پہلے محمد (ص)کو کپڑا پہناتے تھے پھر اپنے بچوں کو کپڑا پہناتے تھے، اس چیز کو رسول(ص) نے فاطمہ بنت اسد کے انتقال کے وقت اس طرح بیان فرمایا: ''الیوم ماتت امی '' میری ماں کا انتقال آج ہواہے۔ اور انہیں اپنے کرتے کا کفن دیا اور پہلے خود ان کی قبر میں لیٹے۔

حضرت عبد المطلب کی وفات کے بعد رسول(ص) کی حفاظت کی ذمہ داری جناب ابو طالب کے دوش پر آ گئی تھی چنانچہ انہوں نے آنحضرت (ص) کے بچپنے ہی سے اپنی جان و عظمت سے آنحضرت (ص) کی حفاظت کی تا حیات آپ کا دفاع کیا اپنے ہاتھ اور زبان سے

۶۱

آپ(ص) کی نصرت کی یہاں تک کہ محمد(ص) جوان ہو گئے اور نبوت سے سرفراز ہو گئے۔( ۱ )

۲۔ شام کی طرف پہلا سفر

قریش کی یہ عادت تھی کہ وہ سال میں ایک بار تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے کیونکہ ان کی کمائی کا یہ ایک بہت بڑا ذریعہ تھا۔ ابو طالب نے بھی شام کے سفر کا ارادہ کیا لیکن محمد(ص) کو اس لئے سفر میں ساتھ لے جانے کے بارے میں نہیں سوچا تھاکہ سفر میں بہت سی صعوبتیں پیش آئیں گی اور صحرائوں سے گذرنا پڑے گا۔ مگر روانگی کے وقت جب ابو طالب نے یہ دیکھا کہ ان کا بھتیجا ساتھ چلنے پر مصر ہے اور اپنے چچا کے فراق میں رو رہا ہے تو انہیں اپنا یہ ارادہ بدلنا پڑا، مختصر یہ کہ آنحضرت (ص) نے شام کا پہلا سفر اپنے چچا جناب ابو طالب کے ساتھ کیا۔ اس سفر میںآپ(ص) صحرائوں سے گذرے اور سفر کے مزاج کو سمجھ گئے اور قافلوں کے راستوں سے واقف ہو گئے۔

اسی سفر میں محمد(ص) کو بحیرا نامی راہب نے دیکھا، آپ(ص) سے ملاقات کی، آپ(ص) کے اندر اس خاتم النبیین کے اوصاف ملاحظہ کئے جس کی آمد کی بشارت جناب عیسیٰ نے دی تھی یہ بشارت توریت و انجیل اوردیگر ان کتابوں میں بھی نقل ہوئی تھی جن میں خاتم النبیین کے ظہور کی بشارت دی گئی تھی۔ بحیرا نے آپ(ص) کے چچا ابوطالب(ص) سے کہا کہ ان کو لیکر آپ واپس مکہ چلے جائیں اور انہیں یہودیوں سے بچائیں کہیں وہ انہیں قتل نہ کر دیں( ۲ ) اس پر جناب ابو طالب اپنے بھتیجے محمد(ص) کو لیکر مکہ واپس آ گئے۔

۳۔ بکریوں کی پاسبانی

ائمہ اہل بیت سے ایسی کوئی روایت نقل نہیں ہوئی ہے کہ جس سے یہ ثابت ہوتا ہو کہ رسول(ص) نے بچپنے میں بکریاں چرائی تھیں۔ ہاں امام صادق سے ایک ایسی حدیث نقل ہوئی ہے کہ جس میں تمام انبیاء کے بکریاں

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۳۵، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۴۔

۲۔سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۹۴، الصحیح من سیرة النبی ج۱ ص ۹۱، ۹۴۔

۶۲

چرانے اور گلہ بانی کا فلسفہ بیان ہوا ہے ۔ ارشاد ہے :''ما بعث الله نبیاً قط حتی یسترعیه الغنم یعلمه بذالک رعیه للناس'' خدا نے کسی نبی کو اس وقت تک نبی نہیں بنایا جب تک کہ اس نے بکریوں کے گلہ کی پاسبانی نہیں کی، اصل میں اس طرح اسے لوگوں کی پاسبانی اور انہیں قابومیںکرنے کا طریقہ معلوم ہوجاتا ہے ۔

اسی طرح امام صادق نے کھیتی اورگلہ بانی کا فلسفہ بھی بیان فرمایا ہے :ان اللّه عزّ و جلّ احبّ لانبیائه من الاعمال: الحرث و الرعی لئلا یکرهوا شیئا من قطر السماء ۔( ۱ )

بیشک خدا وند عالم نے اپنے انبیاء کے لئے زراعت اور پاسبانی کو پسند فرمایا تاکہ وہ آسمان کے نیچے کی کسی بھی چیز سے کراہت نہ کریںنیز آپ ہی سے روایت ہے :انّ رسول اللّه ما کان اجیرا لا حدٍ قط ( ۲ ) رسول(ص) نے ہر گز کسی کی نوکر ی نہیں کی۔ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آنحضرت (ص) نے اجرت پر اہل مکہ کی بکریاں نہیں چرائیں جیسا کہ بعض مورخین نے صحیح بخاری کی ایک حدیث کی بنا پر یہ لکھدیا کہ آپ(ص) نے اہل مکہ کی بکریاں چرائی تھیں۔( ۳ )

جب یہ ثابت ہو گیا کہ آنحضرت (ص) نے بچپنے اور جوانی میں(اپنی) بکریاں چرائی تھیں تو اب ہمارے لئے اس حدیث کی علت بیان کرنا آسان ہو گیا جو ہم نے امام صادق سے نقل کی ہے اور وہ یہ کہ ان سر گرمیوں کے ذریعہ خدا آپ(ص) کو کمال کے اس مرتبہ پر پہنچنے کاا ہل بنا رہا تھا جس کو خود خدا نے اس طرح بیان کیا ہے :( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ( ۴ ) بیشک آپ خلقِ عظیم کے درجہ پر فائز ہیں، یہی وہ کمال ہے جس نے آپ(ص) کے اندر خدائی رسالت کے بار کو اٹھانے کی استعداد پیدا کی تھی۔ رسالت الٰہیہ لوگوں کی پاسبانی، ان کی تربیت اور ان کی ہدایت و ارشاد کے سلسلہ میں پیش آنے والی دشواریوں کا تقاضا کرتی ہے۔

____________________

۱۔علل الشرائع ص ۲۳ سفینة البحار مادہ نبا۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۱، البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۶۔

۳۔ صحیح بخاری کتاب الاجارہ باب ۳۰۳ حدیث ۴۹۹۔

۴۔ قلم: ۴۔

۶۳

۴۔ حرب الفجار

عرب میں کچھ ایسی جنگیں بھی ہوتی تھیں جن میں وہ حرمت والے مہینوں کی حرمت کو حلال سمجھ لیتے تھے ان جنگوں کو حرب الفجار کے اسم سے موسوم کیا جاتا تھا۔( ۱ )

بعض مورخین کا خیال ہے کہ ایسی جنگیں رسول(ص) نے بھی دیکھی ہیں اور ایک طرح سے آپ(ص) ان میں شریک بھی ہوئے ہیں لیکن بعض محققین نے درج ذیل چند اسباب کی بنا پر اس میں شک کیا ہے :

۱۔ جیسے جیسے رسول(ص) کی عمر بڑھتی تھی اسی تناسب سے آپ کی شخصیت نکھرتی جاتی تھی ، تمام بنی ہاشم کی طرح آپ کی شجاعت بھی مشہور تھی لیکن اس کے یہ معنی نہیں ہیں کہ بنی ہاشم نے ظلم و فساد والی جنگ میں شرکت کی ہے ۔روایت ہے کہ بنی ہاشم نے ایسی جنگوں میں شرکت نہیں کی، کیونکہ ابو طالب نے صاف کہہ دیا تھا کہ ان جنگوں میںمیرے خاندان میں سے کوئی بھی شریک نہیں ہوگا( ۲ ) ان جنگوں میں ظلم و زیادتی قطع رحمی ہوتی ہے اور حرمت والے مہینوں کو حلال سمجھ لیا جاتا ہے لہذا میرے خاندان میں سے کوئی بھی ان میں شریک نہیں ہوگا۔ اسی طرح اس زمانہ کے قریش و کنانہ کے سردار عبد اللہ بن جدعان اور حرب بن امیہ نے یہ اعلان کر دیا ہم اس معاملہ میں شریک نہیںہونگے جس میں بنی ہاشم شریک نہیں ہونگے ۔( ۳ )

۲۔ جوروایات ان جنگوں میں نبی(ص) کے کردار کو بیان کرتی ہیں ان میں اختلاف ہے ، بعض صرف یہ بیان کرتی ہیں کہ ان جنگوں میں رسول(ص) کا کام اپنے چچائوں کیلئے، تیروں کو جمع کرنا اور انکے دشمنوںپر برسانا اور اپنے چچائوں کے مال کی حفاظت کرنا تھا۔( ۴ ) دوسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ ان جنگوں میں آپ(ص) نے تیر وغیرہ چلائے ہیں۔( ۵ ) تیسری روایت میں یہ بیان ہوا ہے کہ آپ(ص) نے ابو براء پر سنان سے حملہ کیا اور

____________________

۱۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج۱ ص ۳۰۱ تا ۳۰۵ بحوالہ اغانی ج۱۹ ص ۷۴۔۸۰۔

۲۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۵۔ ۳۔ ایضاً: ج۲ ص ۱۵۔

۴۔موسوعة التاریخ الاسلامی ج۱ ص ۳۰۴۔

۵۔ السیرة النبویة زینی دحلان ج۱ ص ۲۵۱، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۲۷۔

۶۴

اسے گرا دیا حالانکہ اس وقت آپ(ص) کا بچپنا تھا۔( ۱ ) لیکن ہم یہ نہیں جانتے کہ عرب اپنے بچوں کو جنگوں میں شریک ہونے کی اجازت دیتے تھے یا نہیں؟( ۲ )

۵۔حلف الفضول

حرب الفجار کے بعد قریش کو اپنی کمزوری اور انتشار کا احساس ہوا اور انہیں یہ خوف لاحق ہوا کہ ہم قوی و معزز تھے اب کہیں عرب کے حملہ کا نشانہ نہ بن جائیں لہذا زبیر بن عبد المطلب نے حلف الفضول کی طرف دعوت دی، اس دعوت کے نتیجہ میں بنی ہاشم ، بنی زہرہ، بنی تمیم اور بنی اسد ،عبد اللہ بن جدعان کے گھر میں جمع ہوئے اور عہد و پیمان کرنے والوں نے آبِ زمزم میں ہاتھ ڈال کر عہد کیا کہ مظلوم کی مدد کریں گے، زندگی کے اصولوں کی از سر نو بنا رکھیں گے اور لوگوں کوبرائیوں سے روکیں گے۔( ۳ ) زمانۂ جاہلیت میں یہ عظیم ترین عہد تھا۔ اس عہد و پیمان میں حضرت محمد(ص) بھی شریک تھے اس وقت آپ(ص) کی عمر بیس سال سے کچھ زیادہ تھی۔( ۴ )

اس عہد و پیمان کی تعریف آپ(ص) نبی ہونے کے بعد بھی اس طرح کرتے تھے :ما احب ان لی بحلف حضرته فی دار ابن جدعان حمر النعم ولو دعیت به فی الاسلام لا جبت ۔( ۵ ) مجھے وہ عہد و پیمان سرخ اونٹوں سے بھی زیادہ محبوب ہے جو ابن جدعان کے گھر میں ہوا تھا اگر اس کو اسلام میں شامل کرنے کے لئے کہا جاتا تو میں ضرور قبول کر لیتا۔

حلف الفضول کی وجہ تسمیہ کے بارے میں ایک قول یہ ہے : چونکہ اس عہد و پیمان میں تین آدمی ایسے شریک تھے جن کے نام ''الفضل'' سے مشتق تھے اسلئے اسے حلف الفضول کہا جاتا ہے۔ اس عہد و پیمان کے سبب کے بارے میں روایت ہے کہ ماہِ ذی قعدہ میں بنی زبید یا بنی اسد بن خزیمہ کا ایک شخص کچھ سامانِ تجارت

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۶۔ ۲۔الصحیح فی السیرت ج۱ ص ۹۵۔

۳۔البدایة النہایة ج۳ ص ۲۹۳، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ج۱۴ص ۱۲۹ و ۲۸۳۔

۴۔تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۱۷۔ ۵۔ سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۱۴۲۔

۶۵

کے ساتھ مکہ آیا۔ عاص بن وائل نے اس سے کچھ سامان خرید لیا لیکن اس کی قیمت ادا نہ کی۔ زبید ی نے قریش والوں سے مدد طلب کی قریش والوں نے عاص بن وائل کے خلاف اس کی مدد کرنے سے انکار کر دیا اور اسے ڈانٹا پھٹکارا تو زبیدی نے کوہ ابو قبیس پر چڑھکر فریاد کی اس کی فریاد سن کر زبیر بن عبد المطلب نے لوگوں کو بلایا، انہیں لوگوں سے ''حلف الفضول'' جماعت کی تشکیل ہوئی، یہ لوگ عاص بن وائل کے پاس گئے اور اس سے زبیدی کا ساما ن لیکر اسے واپس لوٹا دیا۔( ۱ )

خدیجہ کے مال سے تجارت

اپنے عظیم اخلاق، بلند ہمتی، امانت داری اور صداقت کی وجہ سے محمد(ص) کی شخصیت مکہ کے معاشرہ میں نکھرتی اور ابھرتی جا رہی تھی ، خود بخود لوگوں کے دل آپ(ص) کی طرف جھکتے تھے، کیوں نہ ہو کہ آپ(ص) کا تعلق پاک نسل سے تھا لیکن جس خاندان میں آپ(ص) زندگی گزار رہے تھے، اس کے سرپرست ابو طالب، مفلس و نادار تھے انہوں نے مجبوراً اپنے بھتیجے سے یہ کہا (جس کی عمر اس وقت پچیس سال تھی )کہ آپ خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کریں۔ ابو طالب جناب خدیجہ کے پاس گئے، ان سے اپنا منصوبہ بتایا انہوں نے فوراً قبول کر لیا اور اس سے بہت خوش ہوئیں کیونکہ وہ محمد(ص) کی شخصیت سے واقف تھیں، خدیجہ نے اپنے تجارتی شرکاء سے دگنا حصہ آپ کے لئے مقرر کیا۔( ۲ )

محمد(ص) شام کی طرف روانہ ہو گئے اس سفر میں خدیجہ کا غلام میسرہ آپ کے ساتھ تھا ، اس سفرکے دوران محمد(ص) نے اپنے حسن و جمال اور محبت و مہربانی کی وجہ سے میسرہ کو اپنا گرویدہ بنا لیا اور اپنی امانتداری ، تدبر و ہوشیاری کی بنا پر آپ سے بہت نفع اٹھایا۔ اس سفر میں آپ سے بعض واضح کرامات بھی ظاہر ہوئے، جب قافلہ مکہ واپس آیا تو میسرہ نے جو کچھ سفر میں دیکھا اور سناتھا( ۳ ) وہ خدیجہ سے بیان کیا اس سے خدیجہ نے آپ(ص) کو

____________________

۱۔سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۲، البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۶ ص ۲۲، کشف الغمہ ج۲ ۱۳۴، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۲۔

۳۔البدایة و النہایة ج۲ ص ۲۹۶، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۶۔

۶۶

اور زیادہ اہمیت دی اور ان کے دل میں آپ(ص) کا اشتیاق پیدا ہوا۔

بعض مورخین نے یہ خیال کیا ہے کہ اس تجارت کے لئے خدیجہ نے آپ(ص) کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھاچنانچہ یعقوبی، جن کی تاریخ قدیم ترین و معتمد ترین مصدر وماخذ سمجھی جاتی ہے لکھتے ہیں: لوگ کہتے ہیں خدیجہ نے آپ(ص) کو ملازم کے عنوان سے بھیجا تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ آپ(ص) ہرگز کسی کے ملازم نہیں رہے۔( ۱ )

امام حسن عسکری سے اور انہوں نے اپنے پدر بزرگوارامام علی نقی سے روایت کی ہے : رسول(ص) خدا خدیجہ بنت خویلد کے مال سے مضاربہ کی صورت میں تجارت کے لئے شام کا سفر کرتے تھے۔( ۲ )

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۱۔

۲۔ بحار الانوار ج۱۷ ص ۳۰۸۔

۶۷

تیسری فصل

شادی سے بعثت تک

۱۔ شادی مبارک

حضرت محمد(ص) کی شخصیت کے لئے جوہر شخصیت سے بلند تھی، ایسی عورت سے شادی کرنا ضروری تھا جس کا مزاج آپ(ص) کے مزاج سے ہم آہنگ ہو اور وہ آپ(ص) کے اغراض و مقاصد سے متفق ہوتا کہ وہ آپ کے ساتھ راہِ جہاد و عمل کو طے کرے دشواریوں اور مشکلوں میں صبر کرے، اس زمانہ میں ایسی کوئی عورت نہیں تھی جو محمد(ص) کے لئے مناسب ہو، اس مہم کے لئے جناب خدیجہ سے بہتر کوئی نہیں تھا، خدا نے چاہا تو خدیجہ کا دل محمد(ص) کی طرف مائل اور آپ(ص) کی عظیم شخصیت کا گرویدہ ہو گیا، حسن و جمال، عزت و شرافت اور مال کے لحاظ سے خدیجہ قریش کی تمام عورتوں پر فوقیت رکھتی تھیں، زمانہ جاہلیت میں ، انہیں ، طاہرہ اور سیدہ کہا جاتا تھا، ان کی قوم کا ہر مرد ان سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

قریش کے بڑے بڑے لوگوں کی طرف سے آپ کے پیغام آئے اور اس سلسلہ میں انہوں نے بہت زیادہ مال خرچ کیا( ۱ ) لیکن خدیجہ نے سب کے پیغامات کو ٹھکرا دیا وہ عاقلہ تھیں۔ ہر چیز کو سمجھتی تھیں، لہذاانہوں نے اپنے لئے آنحضرت(ص) ہی کو پسند کیا، کیونکہ خدیجہ آپ میں شرافت، اخلاق، بہترین عادات و خصلت اور بلند اقدار کا مشاہدہ کر چکی تھیں لہذا انہوں نے آپ(ص) کی دہلیز عظمت پر اترنا اور خود کو آپ(ص) کی نذر کرنا ہی بہتر سمجھا۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱۶ ص ۲۲۔

۶۸

بہت سے تاریخی نصوص سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ آپ(ص) سے شادی کی پیشکش خود جناب خدیجہ ہی نے کی تھی اس کے بعد ابو طالب اور قریش میں سے بعض افرادرشتہ لے کر ان کے خاندان والوں کے پاس گئے تھے اس وقت خدیجہ کے بزرگ اور ولی ان کے چچا عمرو بن اسد تھے( ۱ ) یہ واقعہ بعثتِ نبی(ص) سے پندرہ سال قبل کا ہے ۔

جناب ابو طالب نے اس وقت جو خطبہ پڑھا تھا اس کا ایک اقتباس یہ ہے:

''الحمد لرب هذا البیت الذی جعلنا من زرع ابراهیم و ذریة اسماعیل و انزلنا حرماً آمناً و جعلنا الحکام علیٰ الناس و بارک لنا فی بلدنا الذی نحن فیه...''

ساری تعریف اس گھر -خانہ کعبہ-کے رب کے لئے ہے جس نے ہمیں ابراہیم کی نسل اور اسماعیل کی ذریت قرار دیا اور ہمیں محفوظ حرم میں اتارا، ہمیں لوگوں پر حاکم بنایااور ہمیں ہمارے اس شہر میں برکت عطا کی کہ جس میں ہم زندگی گزارتے ہیں...

میرے اس بیٹے کا قریش کے جس مرد سے بھی موازنہ و تقابل کیا جائیگا تو یہ اس سے بلند ثابت ہوگا اور جسے بھی اس کے مقابلہ میں لایا جائیگا یہ اس سے عظیم قرار پائیگا۔کائنات میں کوئی بھی اس کا ہم پلّہ نہیں ہے اگر چہ اس کے پاس مال کم ہے ، لیکن مال کی وقعت ہی کیا ہے یہ تو آتاجاتارہتا ہے ، ڈھل جانے والا سایہ ہے ، یہ خدیجہ سے شادی کرنا چاہتا ہے اور خدیجہ بھی اس کی طرف مائل ہے ۔ ہم خدیجہ کی خواستگاری کے لئے اسی کے ایماء پر تمہارے پاس آئے ہیں رہی مہر کی بات تو وہ میں اپنے مال سے ادا کرونگا خواہ نقد ہو یا ادھار،...میرے بھتیجے اور ربِّ کعبہ کی بڑی عظمت ہے (کعبہ کے رب کی قسم میرے بھتیجے کی بڑی عظمت ہے)، ان کا دین مشہور اور ان کی رائے کامل ہے ۔( ۲ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۷۔

۲۔کافی ج۵ ص ۳۷۴، بحار الانوار ج۱۶ ص ۵، اس میں کشاف و ربیع الابرار سے منقول ہے نیز ملاحظہ ہو سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۳۹، تاریخ یعقوبی ج۱ ص ۲۰، الاوائل از ابو ہلال ج۱ ص ۱۶۲۔

۶۹

اس پر خدیجہ نے فرمایا: ان کا مہر میں اپنے مال سے ادا کروںگی، بعض لوگوں میں چہ میگوئیاں ہوئیں کہ تعجب ہے عورتوں پر مردوں کا مہر ہے ، یہ بات سن کر ابو طالب کو غصہ آ گیا کہا : ہاں اگر مرد میرے بھتیجے جیسے ہونگے تو ان کی عظمت اس سے زیادہ ہے ان کو مہر ادا کیا جائے گا اور اگر مرد تم جیسے ہونگے تو ان سے زیادہ مہر لیکر شادی کی جائیگی۔

بعض معتبر کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ خدیجہ کا مہر خود رسول(ص) نے ادا کیا تھااور اس میں کوئی حرج بھی نہیں ہے کہ آنحضرت(ص) نے ابو طالب کے ذریعہ مہردلایا ہو، ابو طالب کے خطبہ سے ہم کو یہ بھی معلوم ہو جاتا ہے کہ لوگوں کے دل میں رسول(ص) کی کتنی عظمت تھی اور بنی ہاشم کی کیا قدر و منزلت تھی۔

جناب خدیجہ؛رسول(ص)کے ساتھ شادی سے پہلے

جناب خدیجہ ایک بلند اخلاق خاتون، دین ابراہیم کی طرف مائل اورشریف و معزز خاندان میں پیدا ہوئیں۔ ان کے والد جناب خویلد تھے جنہوں نے یمن کے بادشاہ سے اس وقت مقابلہ کیا تھا جب وہ حجر اسود کو یمن لے جانا چاہتا تھا انہوں نے اپنے دین و عقیدہ کی حفاظت میں یمن کے بادشاہ کی طاقت اور کثیر فوج کی بھی پروا نہیں کی تھی اور جناب خدیجہ کے دادا -اسد بن عبد العزیٰ- حلف الفضول نامی جماعت کے نمایاں رکن تھے یہ جماعت مظلوموں کی حمایت کے لئے تشکیل پائی تھی۔ اس جماعت کی اہمیت کے پیش نظر اس میں رسول(ص) شریک ہوئے تھے اور اس کے اعلیٰ اقدار کی تائید کی۔( ۱ )

جنابِ خدیجہ کی شادی سے پہلے کے تفصیلی حالات ہمیں تاریخ میں نہیں ملتے ہیں، بعض مورخین نے تو یہاں تک لکھدیا کہ آنحضرت(ص) سے قبل خدیجہ کی دو اشخاص سے شادی ہوئی تھی اور ان سے اولاد بھی ہوئی تھی، وہ دو اشخاص، عتیق بن عائد مخزومی اورابو ھالہ تمیمی ہیں۔( ۲ ) جبکہ دوسری معتبر کتابوں میں یہ روایت ہے کہ جب رسول(ص) نے جناب خدیجہ سے شادی کی تھی اس وقت آپ کنواری تھیں اور زینب و رقیہ جناب خدیجہ کی بہن

____________________

۱۔ السیرة النبویة ج۱ ص ۱۴۱۔

۲۔ اختلاف روایات کے بارے میں۔ اصابہ ج۳ ص ۶۱۱، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۰، اسد الغابہ ج۵ ص ۷۱و ص ۱۲۱ ملاحظہ فرمائیں۔

۷۰

ہالہ کی بیٹیاں تھیں ان کی والدہ کے انتقال کے بعد جناب خدیجہ نے انہیں گود لے لیا تھا۔( ۱ )

رسول(ص) سے شادی کے وقت جناب خدیجہ کی عمر کے بارے میں مورخین کے درمیان اختلاف ہے بعض نے یہ لکھا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ۲۵ سال تھی بعض نے یہ تحریر کیا ہے کہ اس وقت ان کی عمر ۲۸ سال تھی، کچھ نے ۳۰، بعض نے ۳۵ اور بعض نے ۴۰ سال تحریر کی ہے۔( ۲ )

۲۔ حجر اسود کو نصب کرنا

عرب کے نزدیک خانہ کعبہ کی بہت بڑی منزلت تھی وہ لوگ اس کی حرمت و اہمیت کے قائل تھے وہ زمانہ جاہلیت میں بھی اس کا حج کرتے تھے۔ بعثت رسول(ص) سے پانچ سال پہلے سیلاب کے سبب خانۂ کعبہ منہدم ہو گیا تھا قریش نے جمع ہو کر خانۂ کعبہ کی تعمیرنو اور اس کی تو سیع کا منصوبہ بنایا اور یہ طے کیاکہ یہ کام قریش اور دیگر اہل مکہ کی نگرانی میں ہوگا چنانچہ جب بنیاد یں بلند ہوکرحجر اسود کی جگہ تک پہنچیں تو ان میں اس بات پر اختلاف ہو گیا کہ حجر اسود کو کون نصب کرے گا ہر قبیلہ یہی چاہتا تھا کہ حجر اسود کو نصب کرنے کا شرف اسے حاصل ہو، اس بات پر ان کے درمیان تلوار یں کھینچ گئیں ہر حلیف اپنے حلیف سے مل گیا، خانۂ کعبہ کی تعمیر کا کام بھی بند ہو گیا، وہ لوگ ایک بار پھر مسجد میں جمع ہوئے باہم مشورہ کیا اور اس نتیجہ پر پہنچے کہ سب سے پہلے جو شخص اس اجتماع میں داخل ہوگا وہی ان کے درمیان فیصلہ کرے گا نیز انہوں نے یہ عہد کیا کہ وہ فیصلہ کرنے والے کے فیصلہ کو تسلیم کریں گے چنانچہ سب سے پہلے اس اجتماع میں محمد بن عبد اللہ داخل ہوئے۔ ان لوگوں نے کہا: یہ امین ہیں، ہم ان سے راضی ہیں، رسول(ص) نے اس جھگڑے کونمٹانے کے لئے حجر اسود کو ایک چادر میں رکھا اور فرمایا: ہر قبیلہ اس کا ایک ایک کونا پکڑے پھر فرمایا کہ سب مل کر اٹھائیں سب نے یکبارگی اٹھایا اور جب حجر اسود اپنی جگہ پر پہنچ گیا تو رسول(ص) نے اپنے ہاتھوں سے نصب کیا اس کے بعد

____________________

۱۔ مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۵۹، اعلام الھدایة ج۳ ، الصحیح من سیرت النبی(ص) الاعظم ج۱ص ۱۲۱ و ۱۲۶۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۰، البدایة و النھایة ج۲ ص ۲۹۵، بحار الانوار ج۱۶ ص ۱۲سیرت مغلطائی ص ۱۲، الصحیح من سیرت النبی الاعظم، ج۱ ،ص ۱۲۶۔

۷۱

خانۂ کعبہ کی تعمیر مکمل ہوئی۔( ۱ )

مورخین نے یہ بھی لکھا ہے کہ وہ لوگ زمانۂ جاہلیت میں بھی رسول(ص) کو حکم بناتے تھے کیونکہ آپ(ص) لوگوں کو فریب نہیں دیتے تھے۔( ۲ )

یقینا آپ(ص) کے اس عمل کا ان قبیلے والوں کے دل پر بہت گہرا اثر ہوا، اجتماعی حیثیت حاصل کرنے کے لئے رسول(ص) نے اپنی حیات کا عظیم سرمایہ خرچ کیا اور انوکھا کردار ادا کیا اور ان کی توجہ کو اپنی قیادت کی صلاحیت اور انتظامی لیاقت کی طرف مبذول کیا اور بلند بینی، عقلمندی و تجربہ اور امانت داری کے ذریعہ ان کا اعتماد حاصل کیا۔

۳۔ حضرت علی کی ولادت اور نبی(ص) کے زیر دامن پرورش

حضرت محمد(ص) اور حضرت علی کے درمیان جو محبت و الفت تھی، اسے خاندانی محبت میں محدود نہیں کیا جا سکتا آپ دونوں کے درمیان فکری اور روحانی لگائو تھا۔ فاطمہ بنت اسد ابھی اس بچہ کو لیکر نکلنے نہیں پائی تھیں کہ جو عین خانۂ کعبہ میں پیدا ہوا ہے( ۳ ) خودرسول(ص) ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں اور علی کو ان سے لے لیتے ہیں انہیں سینہ سے لگاتے ہیں( ۴ ) حضرت علی کے لئے یہ آپ(ص) کی عنایت و اہتمام کی ابتداء ہے ۔

یہ مولود اپنے والدین اور اپنے چچا زاد بھائی حضرت محمد(ص) کی گود میں پروان چڑھا، رسول(ص) جناب خدیجہ سے شادی کے بعد اکثر اپنے چچا ابو طالب کے گھر جایا کرتے اور مولود کو اپنی محبت وشفقت سے سرشار کرتے تھے، لوریاں دے کر سلاتے ، اپنے سینہ پر لٹاتے، اور جب یہ سو جاتے توان کی گہوارہ جنبانی کرتے تھے،

____________________

۱۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۱۹، سیرت ابن ہشام ج۱ ص ۲۰۴، البدایة النہایة ج۲ ص ۳۰۰، تاریخ طبری ج۲ ص ۳۷۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۴۵۔

۳۔حاکم نیشاپوری لکھتے ہیں: یہ بات متواتر حدیث ثابت ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ جوف کعبہ میں پیدا ہوئے ہیں، مستدرک علی الصحیحین ج۳ ص ۴۸۳۔

۴۔الفصول المہمة ابن صباغ ص ۱۳۔

۷۲

نگہداری و پاسبانی کا یہ سلسلہ عرصۂ دراز تک جاری رہا اس لطف و محبت نے حضرت علی کے کردار و شعور پر اتنا اثر کیا کہ اس کا اظہار آپ کے کلام و زبان سے بھی ہو ا۔ چنانچہ رسول(ص) سے آپ(ص) کوجو شدید قربت تھی اس کے بارے میں فرماتے ہیں۔

''قد علمتم موضعی من رسول اللّه بالقرابة القریبة و المنزلة الخصیصة، وضعنی فی حجره و انا ولید یضمنی الیٰ صدره و یکنفنی فی فراشه و یمسّنی جسده و یشمّنی عرفه و کان یمضغ الشیء ثم یلقمنیه وما وجد لی کذبة فی قول ولا خطلة فی فعل، ولقد کنت اتبعه اتباع الفصیل اثر امه یرفع لی فی کل یوم من اخلاقه علما و یامرنی بالا قتداء به'' ( ۱ )

یہ بات تو تم سبھی جانتے ہو کہ قریبی قرابتداری اور مخصوص قدر و منزلت کے سبب رسول(ص) کے نزدیک میرا کیا مرتبہ تھا۔ رسول(ص)نے مجھے بچپنے ہی میں گود لے لیا تھا، آپ(ص) مجھے سینہ سے لگاتے اور اپنے بستر پر اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم کو مجھ سے مس کرتے تھے اور مجھے اپنی خوشبو سنگھاتے تھے۔ کسی چیز کو آپ(ص) پہلے چباتے تھے اور پھر لقمہ بنا کر میرے منہ میں دیتے تھے، آپ(ص) نے نہ تو میری کسی بات کو خلاف واقعہ پایا اور نہ میرے کسی کام میں کوئی لغزش دیکھی ، میں آپ(ص) کے پیچھے اس طرح چلتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے ، آپ ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور مجھے اس کی اقتدا کرنے کا حکم دیتے تھے۔

جب قریش مالی بحران کا شکار ہوئے تو حضرت محمد(ص) اپنے چچا جناب حمزہ اور عباس کے پاس گئے اور ان سے یہ خواہش کی کہ جناب ابو طالب کا بارتقسیم کر لیا جائے چنانچہ طالب کو عباس اور جعفر کو حمزہ اپنے گھر لے گئے ، عقیل کو جناب ابو طالب نے اپنے پاس ہی رکھا، حضرت علی کو محمد(ص)لے گئے اور انہیں مخاطب کرکے فرمایا:''قد اخترت من اختار اللّٰه لی علیکم علیا'' ۔( ۲ )

____________________

۱۔نہج البلاغہ خطبہ قاصعہ۱۹۲۔

۲۔مقاتل الطالبین ص ۳۶، تاریخ کامل ج۱ ص ۳۷۔

۷۳

میں نے اسی کو منتخب کیا ہے جس کو خدا نے میرے لئے منتخب فرمایا ہے اور علی کو تم پر منتخب کیا ہے اس طرح علی اپنے ابن عم کے گھر اور ان کی سرپرستی میں چلے گئے، آپ کی شخصیت نکھرنے لگی، آپ نبی(ص) کی آخری سانس تک ان سے جدا نہیں ہوئے۔ رسول(ص) خدا نے علی کے بارے میں جواہتمام کیا تھا اس کی علت کوفقط مالی و اقتصادی بحران میں محدود نہیں کیا جا سکتا، اس سے ہماری سمجھ میںیہ بات آتی ہے کہ رسول(ص) نے حضرت علی کی تربیت و سرپرستی اس لئے کی تھی تاکہ آپ رسول(ص) کی اس شریعت کوبچائیں جس کے لئے خدا نے اپنی مخلوق میں سے سب سے بہترین فرد کو اور اپنے بندوں میں سب سے اعلیٰ وبرگزیدہ ذات کو منتخب کیاتھا۔

اسی طرح خدا نے حضرت علی کے لئے یہ پسند فرمایا تھا کہ آپ عہد طفلی سے ہی آغوش ِ رسول(ص) میں زندگی گزاریں اور آنحضرت(ص) کی محبت و شفقت سے بہرہ ور ہوں رسول(ص) کے اخلاق و عادات کو اپنائیں، یہ تو ایک طرف دوسری طرف رسول(ص) نے علی کے ساتھ اپنے محبوب فرزند جیسا سلوک روا رکھاعلی ہر وقت رسول(ص) کے ساتھ ساتھ رہے، ہر انقلاب و حادثہ میں آنحضرت (ص) کے رفیق رہے کیونکہ رسول(ص) آپ کو چھوڑتے ہی نہیں تھے۔( ۱ )

ہمارے سامنے تاریخ نے حضرت علی کی جو سیرت پیش کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت علی نے رسول(ص) کی زیر نگرانی پیغام رسانی کے میدان میں بعثت سے پہلے اور بعثت کے بعدجو مہارت حاصل کر لی تھی اور علی کے لئے رسول(ص) نے روحی و نفسی تربیت کاجو خاص اہتمام کیا تھا اس کے سبب علی ،رسول(ص) کے بعد سیاسی ،فکری اور علمی مرجعیت و محور کا استحقاق پیدا کر چکے تھے چہ جائیکہ سیاسی مرجعیت۔

۴۔ بعثت سے قبل رسول(ص) کی شخصیت

حضرت محمد(ص) کا نام جزیرہ نما عرب میں اس وقت روشن ہو ا جب اس معاشرہ میں خلفشار و پراگندگی کے آثار ہر طرف رونما ہو رہے تھے اور حضرت محمد(ص) کی شخصیت روز بروز ابھرتی اور نکھرتی جا رہی تھی۔

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲، شرح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید، ج۴ ص ۳۱۵۔

۷۴

کردار و کمال اور اخلاق کے میدان میں آپ کی شخصیت مسلم ہو چکی تھی ایک طرف خاندانی شرافت وفضیلت اور پاکیزہ ولادت ، دوسری طرف غیبی امداد اور خدائی نگرانی و صلاح(عصمت) ہے جو آپ(ص) کو ہر گناہ اوربرائی سے بچاتی ہے۔

آپ(ص) کے ساتھ سب سے زیادہ حضرت علی بن ابی طالب رہتے تھے، وہی سب سے زیادہ آپ کی معرفت رکھتے تھے، رسول(ص) کے بارے میں جو علی نے بیان کیا اس سے سچا کسی کا کلام نہیں ہو سکتا۔ فرماتے ہیں:

''ولقد قرن اللّہ بہ من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکتہ یسلک بہ طرق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیلہ و نہارہ''۔( ۱ )

خدا نے آپ(ص) کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ایک عظیم فرشتہ آپ(ص) کے ساتھ مقرر کر دیا تھا، وہ آپ(ص) کو رات، دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا۔

رسول(ص) کے بارے میں روایت ہے کہ آپ(ص) بچپن ہی سے بتوں کونگاہ تنفّرسے دیکھتے تھے جب آپ(ص) نے اپنے چچا جناب ابوطالب کے ساتھ شام کا سفر کیا تھا اس میں آپ(ص) نے بتوںکو کوئی اہمیت دینے سے انکار کر دیا تھا۔( ۲ )

بیشک محمد(ص) نے اپنی ذات و شخصیت کی تعمیر کے لئے ایک خاص نہج اختیار کیا تھا جس نے آپ(ص) کی حیات کو معنویت اور بلند اقدار سے معمور کیا آپ(ص) کسی پر بار نہیں بنے اور کام سے دست کش نہیں ہوئے نوجوانی کے زمانہ میں اپنی بکریاں چرائیں( ۳ ) ، عنفوان شباب میں تجارت کے لئے سفر کیا( ۴ ) دوسری طرف ہم آپ میں انسانیت کا حسن و جمال کمزوروں اور ناداروں سے محبت و ہمدردی کا جلوہ دیکھتے ہیں زید بن حارثہ کے

____________________

۱۔ نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۲ ۔

۲۔السیرة النبویة ج۱ ص ۱۸۲، الطبقات الکبریٰ ج۱ ص ۱۵۴۔

۳۔سیرت حلبیہ ج۱ ص ۱۲۵، سفینة البحار مادہ نباء ، السیرة النبویہ ج۱ ص ۱۶۶۔

۴۔ بحار الانوار ج۱۶ ص۲۲ ، کشف الغمہ ج۲ ص ۱۳، تاریخ کامل ج۲ ص ۲۴۔

۷۵

ساتھ آپ کا سلوک اس کا بہترین ثبوت ہے۔

زید نے اپنے باپ کے پاس جانے سے انکار کر دیا تھا اور حضرت محمد(ص) کے ساتھ رہنے کو ترجیح دی تھی۔( ۱ )

حضرت محمد(ص) بعثت سے پہلے عہدِجوانی میں بھی ایک عقلمند، فاضل و رشید تھے، جزیرہ نما عرب کے جاہلی معاشرہ میں آپ(ص) انسانی و اجتماعی اقدار کے حامل تھے۔ اپنی مثالی شخصیت کے لحاظ سے آپ(ص) معاشرۂ انسانی پر جوفوقیت رکھتے تھے، اس کی گواہی خود قرآن مجید نے اس طرح دی ہے : انّک لعلیٰ خلق عظیم۔( ۲ ) یقینا آپ(ص) خلق عظیم پر فائز ہیں۔

____________________

۱۔ الاصابہ ج۱ ص ۵۴۵، اسد الغابہ ج۲ ص ۲۲۵ ۔

۲۔ قلم:۴۔

۷۶

تیسرا باب

پہلی فصل

بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

دوسری فصل

عہدِ مکہ میںکاروان رسالت کے مراحل

تیسری فصل

نبی(ص) کے بارے میں بنی ہاشم اور جناب ابو طالب کا موقف

چوتھی فصل

خوشحالی کا زمانہ ہجرت تک

۷۷

پہلی فصل

بعثت نبوی اوراس کے لئے ماحول سازی

قرآنی نصوص ایسی قدیم تاریخی نصوص ہیں جو نہایت صحیح اور دقیق ہیں نیز عہد رسالت کے زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اور علمی طریقۂ کار کی رو سے ہمارے لئے یہ ضروری ہے کہ ہم عصر نبی کے واقعات کے بارے میں صرف قرآنی آیات و نصوص پر ہی بھروسہ کریں اور ان سے آگے نہ بڑھیں کیونکہ آنحضرت(ص) کی بعثت کے ساتھ ہی نزول آیات کا سلسلہ شروع ہوا اور آپ کی وفات تک جاری رہا۔

جب ہمیں یہ معلوم ہو گیا کہ جو تاریخی روایتیں حدیث و سیرت کی کتابوں میں درج ہیں ان کی تدوین حوادث کے عہدِ وقوع کے بعد ہو ئی ہے اور ان میں جھوٹ اورآمیزش کا امکان ہے تو یہ بات منطقی اور فطری ہے کہ ہم ان روایتوں کو قرآن و سنت اور عقل کے میزان پر پرکھیں پھر جو روایتیںان کے موافق ہوں انہیں قبول کر لیں اور جوان کے مخالف ہوں ان کو رد کر دیں۔

واضح رہے کہ نبوت خدائی نمائندگی اور الٰہی منصب ہے یہ عہدہ اسی کی طرف سے ملتا ہے تاکہ نبی ضروری ہدایت کے ذریعہ بشریت کی مدد کرے۔ اس منصب کے لئے خدا اپنے بندوں میں سے اسی کو منتخب کرتا ہے جو مثالی خصوصیتوں سے سرشار ہوتا ہے ۔ یہی خصوصیتیں آپ(ص) کو ان مہموں کو سر کرنے پر قادر بنا دیتی ہیں جو آپ(ص) سے مطلوب تھیں۔

نبی کا خدا کی طرف سے منتخب ہونا ضروری ہے تاکہ وہ رسالت اور اس کے مقاصد کو اچھی طرح سمجھ سکے اور اس کو صحیح انداز میں سمجھا سکے اور تبلیغ و بیان ، دفاع و تحفظ کے میدان میں ناتواں ثابت نہ ہو جو امور اس کے ذمہ ہوتے ہیں، ان کی انجام دہی کے لئے علم و بصیرت ، نفس کا صحیح سالم ہونا، ضمیر کا درست ہونا، صبر و پائیداری ، شجاعت و حلم، انابت، بندگیٔ خدا ، خوفِ خدا، اخلاص عمل، گناہوں اور خطا و لغزش سے محفوظ رہنا، صراط مستقیم پر تائید الٰہی سے ثابت رہنا درکار ہے ، پھر خاتم النبیین کو ئی انوکھے اور کم پایہ کے رسول نہیں تھے بلکہ وہ تمام انبیاء سے زیادہ عظیم اور کامل تھے، آپ(ص) کے اندر گذشتہ انبیاء کے سارے صفاتِ کمال موجود تھے اور خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔

۷۸

یہ بات روز روشن کی طرح واضح ہے اور طبیعتوں کا اقتضا بھی یہی ہے کہ خدائی ذمہ داری کے حامل کے اندر اسے قبول کر نے اور اسے نافذ کرنے کی صلاحیت و استعداد ہونا چاہے ۔ اس صورت میں خاتم النبیین کے لئے ضروری ہے کہ آپ کے اندر ہر وہ صلاحیت ہونا چاہئے جس کے ذریعہ اس خدائی ذمہ داری کو پورا کیا جا سکے اور اس خدائی مہم کو سر کرنے کے لئے ان خصوصیتوں کو بعثت سے پہلے ہی فراہم ہونا چاہئے، قرآن مجید بھی اسی کی تائید کرتا ہے ارشاد ہے :

۱۔( کذالک یوحی الیک والیٰ الذین من قبلک، اللّٰه العزیزالحکیم ) ( ۱ )

عزت و حکمت والا خدا اسی طرح آپ(ص) کی طرف وحی کرتا ہے جیسے آپ سے پہلے والوں پر وحی بھیجتا تھا۔

۲۔( وما ارسلنا من قبلک الا رجالا نوحی الیهم من اهل القری ) ( ۲ )

ہم نے آپ(ص) سے پہلے انہیں مردوں کو رسول(ص) مقرر کیا جو آباد ی میں رہتے تھے اور ہم ان کی طرف وحی بھیجتے تھے۔

۳۔( وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیه انه لا الٰه الا انا فاعبدون ) ( ۳ )

اور ہم نے آپ(ص) سے پہلے کوئی رسول(ص) نہیں بھیجا مگر اس پر وحی کرتے رہے کہ میرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے پس تم سب میری عبادت کرو۔

____________________

۱۔شوریٰ:۳۔

۲۔یوسف: ۱۰۹۔

۳۔ انبیائ: ۲۵۔

۷۹

۴۔( وجعلنا هم ائمة یهدون بامرنا و اوحینا الیهم فعل الخیرات و اقام الصلٰوة و ایتاء الزکاة وکانوا لنا عابدین ) ( ۱ )

ہم نے انہیں امام بنا یا وہ ہمارے حکم سے ہدایت کرتے ہیں، ہم نے ان پر نیک کام کرنے، نماز قائم کرنے، اور زکات دینے کی وحی کی ہے اور وہ سب ہمارے عبادت گزار تھے۔

پس وحی کا سرچشمہ خدا ہے اور خدا ہی رسولوں کی طرف توحید کی نشانیوں اور اپنی عبادت کے طریقوں کی وحی کرتا ہے اور انہیں ائمہ قرار دیتا ہے وہ اس کے حکم سے شریعت کی اس تفصیل کے ساتھ جو کہ ان کے پاس وحی کے ذریعہ پہنچی ہے لوگوں کو نیک کام انجام دینے، نماز قائم کرنے اور زکات دینے کی ہدایت کرتے ہیں عبادت میںیہی غیروں کے لئے نمونہ ہیں اور یہی خدا کے اسلام کا زندہ مرقع ہیں۔

حضرت خاتم الانبیاء کے بارے میں خدا وند عالم بطور خاص فرماتا ہے :

۱۔( وکذالک اوحینا الیک قرآناً عربیاً لتنذر ام القریٰ و من حولها و تنذر یوم الجمع لا ریب فیه... ) ( ۲ )

اور ہم نے اسی طرح آپ کی طرف عربی قرآن کی وحی کی ہے تاکہ آپ مکہ اور اس کے مضافات میں رہنے والوں کو ڈرائیں اور روز حشر سے ڈرائیں جس میں کوئی شک نہیں ہے ۔

۲۔( شرع لکم من الدین ما وصی به نوحاً و الذی اوحینا الیک وما وصینا به ابراهیم و موسیٰ و عیسیٰ و ان اقیمو الدین ولا تتفرقوا فیه کبر علیٰ المشرکین ما تدعوهم الیه اللّه یجتبی الیه من یشاء و یهدی الیه من ینیب (۳) ...فلذلک فادع و استقم کما امرت ولا تتبع اهوائهم و قل آمنت بما انزل اللّه من کتاب و امرت لا عدل بینکم اللّه

____________________

۱۔ انبیائ:۷۳ ۔

۲۔ شوریٰ: ۷۔

۳۔شوریٰ ۱۳۔

۸۰

ربنا و ربکم لنا اعمالنا و لکم اعمالکم لا حجة بیننا و بینکم اللّه یجمع بیننا و الیه المصیر ) ۔( ۱ )

اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نوح کو نصیحت کی تھی اور تمہاری طرف بھی اس کی وحی کی ہے ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ کو بھی اسی کی نصیحت کی تھی کہ وہ دین قائم کریںاور تفرقہ کا شکار نہ ہوں مشرکوں کو وہ بات بہت ناگوارہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو اس سے لو لگاتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے...لہذا آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جیسا کہ آپ (ص) کو حکم دیا گیا ہے ، ان کی خواہشوں کا اتباع نہ کریں، ، اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے اللہ ہم سب کو ایک دن جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہوگی۔

۳۔( اللّه الذی انزل الکتاب بالحق و المیزان ) ۔( ۲ )

اللہ ہی وہ ہے جس نے کتاب و میزان کو حق کے ساتھ نازل کیا۔

۴۔( ام یقولون افتریٰ علیٰ اللّه کذباًفان یشاء اللّه یختم علیٰ قلبک و یمح اللّه الباطل و یحق الحق بکلماته انه علیم بذات الصدور ) ( ۳ )

کیا ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رسول(ص)، اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتا ہے حالانکہ خدا چاہے تو تمہارے دل پر بھی مہر لگا دے اور اللہ باطل کو محو کرتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت کر دیتا ہے ۔ بیشک وہ دلوں کے راز کو جانتا ہے ۔

____________________

۱۔شوریٰ۱۵۔

۲۔شوریٰ ۱۷ ۔

۳۔ شوریٰ۲۴ ۔

۸۱

۵۔( وما کان لبشر ان یکلمه الله الا و حیاً او من و رای حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنه ما یشاء انه علیّ حکیم و کذالک اوحینا الیک ر وحاً من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان ولکن جعلنٰهُ نورا نهدی من نشاء من عبادنا و انک لتهدی الیٰ صراط مستقیم ) ( ۱ )

اور کسی انسان کے لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وہ وحی کر ے یا پردے کے پیچھے سے بات کرے یا کسی فرشتے کو نمائندہ بنا کر بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ وحی پہنچا دے یقینا اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف (قرآن) روح کی وحی کی ہے اور آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کتاب اور ایمان کیا ہے لیکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیدیتے ہیں یقینا آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرتے ہیں۔

جن لوگوں نے بعثت سے پہلے رسول(ص) کے ساتھ زندگی گذاری ہے بلکہ جو وفات تک آپ کے ساتھ رہے ہیں انہوں نے بھی رسول(ص) کی بعثت سے پہلے اور بعثت کے وقت کی صحیح اور واضح تصویر کشی نہیں کی ہے ، سب سے مضبوط و محکم نص وہ ہے جو آپ کی آغوش کے پالے ابن عم اور وصی نے بیان کی ہے وہ آپ(ص) سے بعثت سے پہلے بھی جدا نہیں رہے ، آپ(ص) کی وفات تک آپ کے ساتھ رہے۔ اس شخصیت کی تصویر کشی میں انہوں نے پوری امانت داری اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے بعثت سے پہلے زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

ولقد قرن اللّه به من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکته یسلک به طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیله و نهاره لقد کنت اتبعه اتباع الفصیل اثر امه یرفع لی کل یوم من اخلاقه علماً و قد کان یجاور کل سنة بحراء فاراه ولا یراه غیری ۔( ۲ )

____________________

۱۔شوریٰ ۵۱،۵۲۔

۲۔ نہج البلاغہ خبطۂ قاصعہ ۲۹۲ ۔

۸۲

اور خدا وند عالم نے ، ان کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ، ایک عظیم فرشتے کو ان کے ساتھ لگا دیا تھا وہ آپ کو رات دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا اور میں اس طرح آپ کا اتباع کرتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے آپ(ص) ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور ہر سال آپ(ص) کچھ مدت کے لئے غار حراء میں قیام کرتے تھے وہاں انہیں میرے علاوہ اور کوئی نہیں دیکھتا تھا۔

آپ کا یہ قول خدا وند عالم کے اس قول:( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ( ۱ ) کے موافق ہے ۔ یہ آیت ابتداء بعثت میں نازل ہوئی تھی، واضح رہے خُلق ایک نفسانی ملکہ ہے نفس کے اندر راسخ ہوتا ہے، مرورِ زمانہ سے پیدا نہیں ہوتا۔آپ(ص) کے خُلقِ عظیم کے ساتھ خدا نے آپ(ص) کی توصیف کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ(ص) بعثت سے پہلے ہی خلقِ عظیم سے متصف تھے۔

آپ(ص) کے نواسے حضرت امام جعفرصادق کی حدیث سے آپ(ص) کی شخصیت کی وہ خوبیاں روشن ہو جاتی ہیں جو قبلِ بعثت بھی آپ(ص) کے اندر پائی جاتی تھیں۔ فرماتے ہیں:

'' ان اللّه عزّ وجلّ ادب نبیه فاحسن ادبه فلما اکمل له الادب قال :( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ثم فوّض الیه امر الدین والا مة لیسوس عباده'' ( ۲ )

خدا نے اپنے نبی کو ادب و اخلاق سے آراستہ کیا چنانچہ آپ (ص) کااخلاق بہترین ہو گیا جب آپ کا اخلاق و ادب کامل ہو گیاتو فرمایا: بیشک آپ اخلاق کے بلند درجہ پر فائز ہیں پھر دین و امت کی زمام ان کے سپرد کی تاکہ اس کے بندوں کی قیادت کریں۔

خلق عظیم ان تمام مکارم کو اپنے اندر لئے ہے جن کی تفسیر رسول(ص) سے منقول حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔

''انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق'' مجھے تو بس مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے پس جو مکارم سے تہی دامن ہو، وہ مکارم اخلاق کی کیسے تعلیم دے سکتا ہے؟! ماننا پڑے گا کہ رسول(ص) نے بعثت سے

____________________

۱۔قلم:۴۔

۲۔اصول کافی ج۲ ص ۶۶ ج۴۔

۸۳

پہلے ہی تمام مکارم حاصل کر لئے تھے تاکہ آپ کے لئے خلق عظیم کی صفت صحیح اور منطقی قرار پائے۔

بعثت سے پہلے رسول کی شخصیت مثالی، موزوں، معتدل مزاج ،روشن خیال اور مکارم اخلاق، اعلیٰ صفات اور شائستہ افعال کے حوالہ سے مشہور تھی۔

قرآن مجید کی وہ آیتیں جو کہ رسالی و پیغامی وحی اور رسول(ص) کی وحی فہمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان سے واضح ہوتاہے کہ رسول باطمانیت اور صاحب ثبات و استقلال تھے اور خدا کی طرف سے آپ کے قلب پر جو امر و نہی ہوتی تھی آپ اسے تہہ دل سے قبول کرتے تھے ملاحظہ فرمائیں سورۂ شوریٰ کی وہ آیتیں جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں نیز درج ذیل آیتیں ملاحظہ ہوں:

۱۔( و النجم اذا هوی، ما ضل صاحبکم وما غویٰ، وما ینطق عن الهویٰ، ان هو الا وحی یوحیٰ، علمه شدید القویٰ، ذو مرة فاستویٰ،و هو بالافق الاعلیٰ، ثم دنا فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ، فاوحیٰ الیٰ عبده ما اوحیٰ، ما کذب الفواد ما رأیٰ ) ( ۱ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا، تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا نہ بہکا اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام تووہ وحی ہے جو اس پر نازل ہوتی ہے ۔وہ اسے نہایت طاقت والے نے تعلیم دی ہے ۔حسن و جمال والا سیدھا کھڑا ہوا جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا، یہاں تک کہ دوکمان یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا پھر خدا نے اپنے بندہ پر جو چاہا وحی کی دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیںجو دیکھا۔

۲۔( قل انی علیٰ بینة من ربی ) ( ۲ )

کہہ دو کہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی نشانی رکھتا ہوں۔

۳۔( قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی ) ( ۳ )

کہ دو کہ میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لیکن میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔

____________________

۱۔ النجم: ۱ تا ۱۱ ۔

۲۔ انعام: ۵۷۔

۳۔ کہف:۱۱۰۔

۸۴

۴۔( قل انما انذرکم بالوحی ) ( ۱ )

کہہ دو کہ میں تو تمہیں وحی کے ذریعہ ڈراتاہوں۔

۵۔( قل انما یوحیٰ ال انما الٰهکم الٰه واحد ) ( ۲ )

کہہ دو کہ بس میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔ تمہارا خد ابس ایک ہے ۔

۶۔( ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیه و قل رب زدنی علماً ) ( ۳ )

اور آپ وحی تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہا کریں پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔

۷۔( و ان اهتدیت فبما یوحیٰ ) ( ۴ )

اگر میں نے ہدایت حاصل کر لی ہے تو یہ میرے رب کی وحی کا نتیجہ ہے۔

۸۔( قل هذه سبیلی ادعوا الیٰ اللّه علیٰ بصیرة انا و من اتبعنی ) ( ۵ )

کہہ دو کہ میرا یہی راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے ۔

جب آپ پر قرآن مجید کی ان آیتوں کا مفہوم واضح ہو گیا تو اب آپ حدیث و تاریخ کے بعض ماخذ و مصادر کا مطالعہ فرما سکتے ہیں تاکہ ان کے محکم و متشابہات سے واقف ہو جائیں۔ امام احمد کہتے ہیں: ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا اور کہا: ہم سے معمر نے بیان کیا اور انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ عائشہ نے کہا:

____________________

۱۔ انبیاء :۴۵ ۔

۲۔ انبیائ: ۱۰۸ ۔

۳۔ طہ: ۱۱۴۔

۴۔یوسف:۱۰۸۔

۵۔ سبائ:۵۰۔

۸۵

سب سے پہلے رسول(ص) پر جو وحی ہوئی تھی وہ از راہ رویا ئے صادقہ تھی۔

آپ غار حراء میںگوشہ نشیں ہو جاتے اور وہیں عبادت کرتے تھے پھر جناب خدیجہ کے پاس لوٹ آتے تھے پھر ایسا ہی کرتے تھے یہاں تک کہ غار حراء میں آپ پروحی نازل ہوئی۔

مذکورہ روایت میں کوئی چیز قابل گرفت نہیں ہے سوائے اس کے کہ جب آپ(ص) پر وحی نازل ہوئی تو عائشہ موجود نہیں تھیں اور روایت میں اس بات کی وضاحت و تصریح نہیں ہے کہ یہ معلومات انہیں کہاں سے فراہم ہوئی ہیںبراہ راست انہوں نے رسول(ص) سے روایت نہیں کی ہے لیکن روایت میں کچھ تعجب خیز چیزیں بھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پھر خدیجہ انہیں اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس لے گئیں زمانۂ جاہلیت میں وہ نصرانی تھے۔ عربی میں کتاب لکھتے تھے، انہوں نے انجیل کو عربی میں لکھا تھا وہ بہت ضعیف تھے، نابینا ہو گئے تھے جناب خدیجہ نے ان سے کہا: ابن عم اپنے بھتیجے سے بھی تو کچھ سنئے ورقہ نے کہا: بھتیجے! تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے ، رسول(ص) نے جو دیکھاتھا بیان کیا۔ ورقہ نے کہا: یہ وہ ناموس(فرشتہ)ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا تھا۔اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکالے گی۔ رسول(ص) نے فرمایا: کیا وہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں۔ کوئی شخص ایسی چیز نہیں لایا جیسی آپ لائے ہیں اگر میں اس زمانہ میں رہا تو میں ایک پشت پناہ کی حیثیت سے آپ کی مدد کروںگا۔

ورقہ بن نوفل مسلمان نہیں ہوا جبکہ وہ جانتا تھا کہ رسول(ص) کن حالات سے دوچار ہونگے اور یہ بھی جانتا تھا کہ آپ(ص) نبی(ص) ہیںلیکن صاحب رسالت و دعوت کے لئے بات واضح نہیں تھی اور انہیں اپنی رسالت کا علم نہیں تھا حالانکہ ورقہ اس بات سے مطمئن تھے کہ آپ(ص) نبی ہیں، اور قرآن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ رسول(ص) اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہیں۔ اکثر آیتوں میں بھی یہی بیان ہوا ہے کہ لوگوں کے ہادی رسول ہی ہیں اور وہی واضح دلیل رکھتے ہیں اگر اس کے برعکس ہو تو صحیح نہیں ہے ۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ورقہ نبی(ص) کی رسالت کو پہلے ہی سے جانتے تھے اور اسی لئے انہوں نے آپ کو اطمینان دلایا تھا۔

۸۶

یہ ہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر اہل کتاب کو آپ(ص) کی رسالت سے چشم پوشی کرنے کا راستہ مل گیا کیونکہ وہ یہ کہتے ہیںکہ-تمہاری اس نص کے بموجب- تمہارے نبی اپنے رسول(ص) ہونے سے مطمئن نہیں تھے بلکہ ورقہ، جو کہ مسیحی تھے، کے اطمینان دلانے سے مطمئن ہوئے تھے،ان میں سے بعض نے تو، اس روایت کا سہارا لیتے ہوئے جو کہ حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور مورخین کے درمیان مشہورہے یہاں تک کہہ دیا کہ ( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ )ان قسیسوں میں سے ایک تھے جن کو ورقہ نے تعلیم و تربیت دی تھی۔ یہ عظیم رخنہ عقل ، قرآن اور سنت سے دور رہنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔

جو شخص قرآن کی نظر میں انبیاء کی شخصیت کا علم رکھتا ہے اور قرآنی منطق سے آگاہ ہے کیا وہ اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے ؟ وہ اس حدیث کے مضمون کو محض اس لئے کیسے صحیح تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ حدیث زوجہ رسول(ص) عائشہ سے منسوب ہے؟!

اس روایت کے علاوہ تاریخ طبری میں ایک حدیث اور نقل ہوئی ہے جو قباحت میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے مضمون ہی میں شک ہوتا ہے؛ یہاں کہا گیا ہے: رسول(ص) محو خواب تھے کہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور سورة علق کی ابتدائی آیتیں آپ کو تعلیم کیں اس کے بعد روایت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور خود رسول(ص) کی زبانی منقول ہے۔ پس میں نیند سے بیدار ہوا تو ایسا محسوس ہوا جیسے میرے صفحۂ دل پر کتاب لکھ دی گئی ہے ۔ پھر فرماتے ہیں: میری نظر میں شاعر یا مجنون سے بدتر کوئی اور نہیں تھا، میں انہیں ایک نظر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ نیز فرمایا: میں شاعر و مجنون سے بہت دور رہتا تھا۔ ان کے بارے میں قریش مجھ سے ہرگز گفتگو نہیں کرتے تھے۔ میں پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گیا میں چاہتا تھا کہ وہاں سے خود کو گرا کر خودکشی کر لوں تاکہ نفس کو آرام مل جائے چنانچہ میں اسی ارادہ سے نکلا اور جب پہاڑ پر پہنچا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی وہ یہ تھی: اے محمد! تم اللہ کے رسول(ص) ہو اور میں جبرئیل ہوں۔( ۱ )

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۲۰۱تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم طبع دار سویدان بیروت۔

۸۷

نبی (ص) کے ذہنی خلفشار اور خوف کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آپ(ص) نے خود کشی کا ارادہ کر لیا تو خدا نے چاہا کہ آپ(ص) کو نبی(ص) ؛ لوگوں کی ہدایت کرنے والا اور انہیں حق کی طرف بلانے والا بنا دے ۔ کیا روایت کا مضمون آپ کی عظمت و شوکت کے مطابق ہے؟!

ہم کو چاہئے کہ نصوص کو قرآن و عقل نیز سنت کے محکمات پر پرکھیں تاکہ تاریخ سے معتبر اور موثق چیزیں اخذ کریں اور ان چیزوں کو چھوڑ دیںجو علمی تنقید کے سامنے ثابت نہیں رہ سکتیں۔

جب ہم کتاب خدا کی صریح آیتوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد ان روایتوں کو دیکھتے ہیں جو حدیث و سیرت کی کتابوں میں آپ پر پہلی بار وحی نازل ہونے سے متعلق ہیں تو وہ نصوص قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں، اس سے ہمیں اطمینان ہوجاتاہے کہ روایتوںمیں اسرائیلیات شامل ہو گئے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایتوں کا اس روایت سے موازنہ کریں جس کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے یہ حدیث وحی کے حصول کی آمادگی اور اس سے متعلق امداد اور رسول(ص) کی شخصیت و کردار کی عکاسی کرتی ہے۔

حضرت امام علی نقی سے روایت ہے :

اللہ کے رسول(ص) نے جب تجارت کے لئے شام جانا بند کر دیا اور جو کچھ تجارت کی وجہ سے نفع ہوا تھا اسے خیرات کر دیاتو اس کے بعدہر صبح کوکوہ حراء کی چوٹی پر تشریف لے جاتے اور وہاں سے خدا کی رحمت کے آثار، اس کی رحمت کے کرشمے اور اس کی حکمت کی بوقلمونیاں دیکھتے ، آسمان کے آفاق اور زمین کے اطراف پر نظر ڈالتے، سمندروں کو دیکھتے ان سے عبرت و معرفت حاصل کرتے اور اس طرح خدا کی عبادت کرتے جیسے عبادت کا حق ہے ۔ جب آپ پورے چالیس سال کے ہو گئے تو خدانے آپ(ص) کے قلب کو دیکھا، تو اسے تمام قلوب سے افضل زیادہ روشن ومنور زیادہ مطیع و خاشع اور خضوع کرنے والا پایا تو آسمان کے دروازوں کو کھول دیا تاکہ محمد(ص) انہیں دیکھیں، ملائکہ کو اجازت دیدی وہ نازل ہونے لگے

۸۸

محمد(ص) انہیں دیکھنے لگے، رحمت کو حکم ملا تو وہ ساقِ عرش سے محمد(ص) کے سروپیشانی پر نچھاور ہونے لگی ، روح الامین، طاوس ملائکہ کو دیکھا وہ آپ(ص) پر نازل ہوئے اور آپ کا شانہ پکڑ کر ہلایا اور کہا:

اے محمد! پڑھو! فرمایا: کیا پڑھوں؟! کہا: اے محمد(ص)!

( اقرأ باسم ربک الّذی خلق خلق الانسان من علق، اقرأ و ربّک الاکرم الّذی علّم بالقلم علّم الانسان ما لم یعلم ) ( ۱ )

اپنے رب کے نام سے پڑھو، جس نے پیدا کیا ہے ، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑی شان والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ اس نے انسان کو اس چیز کی تعلیم دی جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔

پھر جبرئیل نے آپ پر وحی کی جو کہ ان پر خدا نے کی تھی اور اس کے بعد پرواز کر گئے۔

محمد(ص) پہاڑ سے اترآئے لیکن خدا کی عظمت و جلالت کی وجہ سے آپ(ص) پر غشی اور حرارت و کپکپی کی سی کیفیت طاری تھی، آپ(ص) کواس بات کا شدید خوف تھا کہ اس سلسلہ میں قریش آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ(ص) کو مجنون کہیں گے (معاذ اللہ) یہ کہیں گے کہ ان پر شیطان سوار ہو گیا ہے ۔ حالانکہ آپ(ص) خداکی مخلوق میں سب سے زیادہ عقلمند اور مخلوقات میں سب سے بلند و بالا تھے۔ آپ(ص) کی نظر میں شیطان اور مجنونوںکے افعال و اقوال نہایت ہی قابل نفرت تھے، پس خدا نے چاہا کہ آپ کا سینہ کشادہ اور دل جری ہو جائے تو خدا نے پہاڑوں، چٹانوں اورسنگریزوں کو گویائی عطا کر دی چنانچہ آپ جس چیز کے پاس سے گزرتے تھے وہ آپ سے اس طرح مخاطب ہوتی تھی:

''السّلام علیک یا محمد السّلام علیک یا ولیّ اللّه، السّلام علیک یا رسول اللّه''

اے محمد! آپ پر سلام ہو اے اللہ کے ولی آپ پر سلام، اے اللہ کے رسول آپ پر سلام، بشارت ہو کہ خدا نے آپ کو فضیلت دی ہے ، جمال و زینت بخشی ہے اور اولین و آخرین سب پر فوقیت و برتری دی ہے آپ(ص)

____________________

۱۔ العلق:۱۔۵۔

۸۹

اس بات سے نہ ڈریں کہ قریش آپ کو مجنون کہیں گے اورکہیں گے کہ آپ دین سے ہٹ گئے ہیں کیونکہ با فضیلت وہی ہے جس کو خدا فضیلت دے، کریم و سر فراز وہی ہے جس کو خدا سر فرازی عطا کرے پس آپ قریش اور عرب کے سر کشوں کی تکذیب سے خوف نہ کھائیں، عنقریب آپ کا رب آپ(ص) کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا دے گا اور اعلیٰ مراتب پر فائز کرے گا اور آپ(ص) کے وصی حضرت علی کے سبب آپ(ص) کے چاہنے والوں کو خوش کرے گا اور عنقریب آپ کے بابِ حکمت علی بن ابی طالب کے ذریعہ آپ کے علوم کو پوری دنیا میں پھیلا دے گا۔ جلدہی وہ آپ کو ایک بیٹی فاطمہ عطا کرے گااس کے بطن اور صلب علی سے اہل جنت کے سردار حسن و حسین کو پیدا کرے گا آپ کے دین کو دنیا میں پھیلا دے گا ، آپ کے اور آپ کے بھائی کے دوستوں کے اجر کو عظیم قراردے گا، آپ(ص) کے ہاتھ میں لوائے حمد دے گا آپ اسے اپنے بھائی علی کو عطا کر یں گے چنانچہ ہر نبی صدیق اور شہید اس کے نیچے ہوگا۔ اور علی ان سب کو جنت کی طرف لے جائیںگے۔( ۱ )

جب ہم اس روایت اور طبری کی روایت کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے لحاظ سے رسول(ص) کی ابتدائے بعثت اور بعثت کے بعد کی زندگی میں واضح فرق نظر آتا ہے ، طبری کی روایت کے لحاظ سے بعثت سے پہلے آپ کی زندگی اضطرابی و بے چینی و بے یقینی کی زندگی ہے -ظاہر ہے کہ اضطراب وبے چینی کا سبب نادانی ہوتی ہے -جبکہ بحار الانوار کی روایت کی رو سے آپ کی زندگی میں ابتدا ہی سے اطمینان و سکون اور علم نظر آتا ہے۔ آپ کی زندگی کی یہی تصویر، قرآن و حدیث اور تاریخ کے محکمات و معیارکے مطابق ہے ۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱۸ ص ۲۰۷ و ۲۰۸۔

۹۰

دوسری فصل

مکہ کی زندگی میں تحریک رسالت کے مراحل

۱۔ ایمانی خلیوں کی ساخت

پہلی وحی کے نازل ہونے کے بعد، قرآنی آیتیں بتدریج آ پ پر نازل ہونے لگیں، شروع میںسورۂ مزمل کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں تو رسول(ص) نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے درج ذیل اقدامات کا ارادہ کیا، آپ(ص) کے لئے ضروری تھا کہ پیش آنے والی مشکلوں اور دشواریوں سے نمٹنے کے لئے خود کو آمادہ کر یں اور عزم بالجزم کے ساتھ کام کریں۔

سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ جناب خدیجہ کا رسول(ص) کی تائید کرنا تو فطری بات تھی کیونکہ انہوں نے آپ(ص) کے ساتھ ایک طویل عمر گزاری تھی اور آپ(ص) کے اندر اخلاق کی بلندیوں اور روح کی پاکیزگی و بلند پروازی کا مشاہدہ کیا تھا۔

اپنے چچا زاد بھای علی بن ابی طالب کو دعوت اسلام دینے میں بھی آپ(ص) کو زحمت نہیں کرنی پڑی کیونکہ ان کے سینہ میں طیب و طاہر دل تھا۔ علی نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی تھی چنانچہ انہوں نے فوراً نبی(ص) کی تصدیق کی اس طرح آپ مسلم ِ اول قرار پائے۔( ۱ )

پھر رسول(ص) کے لئے حضرت علی کاا نتخاب بالکل صحیح تھا کیونکہ ان میں طاعت و فرمانبرداری کا جو ہر بھی تھا اور

____________________

۱۔ السیرة النبویہ، ابن ہشام ج۱ص ۲۴۵، باب علی بن ابی طالب۔

۹۱

وہ قوی و شجاع بھی تھے اور رسول(ص) کو ایک مددگار و پشت پناہ کی شدید ضرورت تھی، حضرت علی تبلیغِ رسالت میں شروع ہی سے ایک پشت پناہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ رسالت کی چشم بینا اور تبلیغ کی زبان گویا تھے۔

سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام ظاہر کیا کہ آپ رسول(ص) کے ساتھ غار حراء کی تنہائی میںبھی رہتے تھے، آپ کے بعد جناب خدیجہ ایمان لائیں اور سب سے پہلے انہیں دونوں نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرکے رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی یہ دونوں بھی رسول(ص) کے مانند، شرک و ضلالت کی طاقتوں کیلئے( ۱ ) رکاوٹ تھے ان کے بعد زید بن حارثہ مسلمان ہوئے یہ نیک لوگوں کی جماعت تھی اور یہ وہ افراد تھے جن سے اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔

۲۔ مکی عہد کے ادوار

رسول(ص) کی تبلیغ کم سے کم تین ادوار سے گزری ہے تب جاکے پہلی اسلامی حکومت کی تشکیل کے حالات فراہم ہوئے وہ ادوار درج ذیل ہیں:

۱۔ پہلے دور میں اسلامی رسالت کا مرکز و پائے تخت بنایا بعض لوگوں نے اس دور کو مخفیانہ تبلیغ، یا دعوتِ خاص کے عنوان سے بھی یاد کیا ہے ۔

۲۔ دوسرے دور میں آپ(ص) نے محدود پیمانہ پر قرابتداروں کو اسلام کی دعوت دی اور محدود طریقہ سے بت پرستوں سے مقابلہ کیا۔

۳۔ اس دور میں آپ(ص) نے عام طریقہ سے جنگ کی۔

۳۔اوّلین مرکز کی فراہمی کا دور

جب خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو یہ حکم دیا کہ قیام کریں اور لوگوں کو ڈرائیں( ۲ ) تو آپ(ص) نے لوگوں کو اسلام

____________________

۱۔ اسد الغابہ ج۴ ص ۱۸، حلیة الاولیائ، ج۱ ص۶۶، شرح بن ابی الحدید ج۳ ص ۲۵۶، مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۱۲۔

۲۔سورۂ مدثر کی ابتدائی آیتیں۔

۹۲

قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ایک ایسی با ایمان جماعت بنانے کی کوشش کی جو معاشرہ کی ہدایت کے لئے مشعل بن جائے۔ اس طرح تقریباً تین سال گذر گئے۔ رسالی و پیغامی تحریک، خطرات و مشکلات میںلپٹی ہوئی تھی لیکن رو بہ استحکام و تکامل پذیر تھی۔ اس مرحلہ میں رسول(ص) کا طرز تبلیغ یہ تھا کہ آپ نے اپنے پیرئوں کو ان کے پہلے رجحان جغرافائی اعتبار سے مختلف قسم کے اختیارات ان کے سپرد کئے تاکہ آپ کی رسالت وسعت پذیر ہو اور جہاں تک ممکن ہو سکے معاشرہ میں اس کو فروغ دیا جائے۔بعثت کے ابتدائی زمانہ میں کچلے ہوئے افراد اور ناداروں نے آپ کی دعوت اسلام کو قبول کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اعلیٰ زندگی اور امن و امان کا پیغام لایا تھا۔ شرفاء میں ان لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا کہ جو پاکیزہ سرشت اور عقل سلیم کے حامل تھے۔

جابر و سرکش قریش اس پیغام کی ہمہ گیری اور وسعت پذیری کا اندازہ نہیں کر سکے بلکہ انہوں نے یہ خیال کیاکہ یہ تحریک دیرپا نہیں ہے، چند دنوں کے بعد مٹ جائے گی لہذا انہوں نے اس تحریک کو اس کے ابتدائی زمانے ہی میں مٹانے کے سلسلہ میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔

رسول(ص) نے اسی مختصر وقت میں اپنے اوپر ایمان لانے والوں میں کچھ کو فعال بنایا اور اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری ان کے سپرد کی تاکہ یہ پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچ جائے، یہ لوگ اپنے اسلام کے بارے میں بڑے حساس اور اپنے ایمان پر یقین رکھنے والے تھے انہوں نے شرک کے اس من گھڑت عقیدہ و طریقہ کو ٹھکرا دیا تھا جس پر ان کے آباء و اجداد تھے اور ان کے اندر ایسی صلاحیت و طاقت پیدا ہو گئی تھی کہ یہ رسالت کے آثار کوعلیٰ الاعلان اپنا سکتے تھے۔

روایت ہے کہ اس عہد میں نماز عصر کے وقت رسول(ص) اور ان کے اصحاب مختلف گروہوں میں چلے جاتے تھے اکیلے اور دو، دو کرکے نماز پڑھتے تھے۔

۹۳

چنانچہ ایک مرتبہ دو مسلمان مکہ کے ایک خاندان کے درمیان نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے دوا فراد نے انہیں اس سلسلہ میںطعن و تشنیع کی ، نتیجہ میں مار پیٹ ہوئی اور یہ دونوںواپس لوٹ آئے۔( ۱ )

اس کے بعد آئے دن مشرکوں سے ایسے ٹکرائو ہونے لگے تو سلسلہ عبادت کو جاری رکھنے کے لئے رسول(ص) چھپ کر اور قریش کی نظر سے بچ کر عبادت کرنے لگے اس زمانہ میں زید بن ارقم کا گھر مسلمانوں کے لئے بہترین پناہ گاہ تھا۔( ۲ )

۴۔ پہلا مقابلہ اور قرابتداروں کو ڈران

جب جزیرہ نما عرب کے اطراف میں اسلام کی خبر عام ہوگئی اور جب ایک مومن گروہ روحی استقلال کا مالک و حامل ہو گیااور اپنے روحی استحکام کے لحاظ سے معرکہ میں اترنے کا اہل بن گیا تو اسلام کی دعوت کو مرحلۂ اعلان میں داخل ہونے کی منزل تھی اور اس مرحلہ کا پہلا قدم اپنے قرابتداروںکو ڈرانا تھا کیونکہ اس معاشرہ پر قبائلی رسم و رواج کی چھاپ تھی لہٰذا بہتر یہی تھا کہ دوسروں کو ڈرانے سے پہلے اپنے قبیلے والوں کو ڈرائیں پس خدا کا حکم نازل ہوا۔

( وانذر عشیرتک الاقربین ) ( ۳ ) اے رسول(ص)!اپنے قرابتداروںکو ڈرائو، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (ص) نے اپنے خاندان والوں کو بلایا اور ان کے سامنے رسالت اور مقصد نیز مستقبل میں رسالت کی وضاحت فرمائی ان لوگوں میں وہ بھی شامل تھا جس سے خیر کی امید اور ایمان کی پوری توقع تھی، جب ابو لہب نے کھڑے ہو کر کھلم کھلا اپنی دشمنی کا اظہار کیا تو ابو طالب نبی(ص) کی پشت پناہی اور ان کی رسالت کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا کہ کھانے کا بند و بست کرو، کھانا تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، یہ چالیس اشخاص تھے۔ رسول(ص) نے ابھی اپنی

____________________

۱۔ انساب الاشراف ج۱ ص۱۱۷، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۴۵۶۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ، اسد الغابہج۴ ص ۴۴۔

۳۔شعرائ: ۲۱۴۔

۹۴

گفتگو شروع ہی کی تھی کہ آپ(ص) کے چچا عبد العزیٰ-ابولہب-نے آپ کی گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا اور آپ (ص) کو تبلیغ کرنے اور ڈرانے سے روکا۔ رسول(ص) کا مقصد پورا نہ ہو سکا دعوت میں آنے والے چلے گئے دوسرے دن رسول(ص) نے پھر حضرت علی کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، جب وہ کھانا کھا چکے تو آپ(ص) نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:

''یا بنی عبد المطلب انی وا اللهِ ما اعلم شاباًفی العرب جاء قومه بافضل مما جئتکم به انی جئتکم بخیر الدنیا والأخرة و قد امرنی اللّه عزّ و جلّ ان ادعوکم الیه فایکم یؤمن بی و یؤازرنی علیٰ هذا الامر علیٰ ان یکون اخی و وصی و خلیفتی فیکم؟''

اے عبد المطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان نظر نہیں آتا جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر پیغام لایا ہو جو میںتمہارے لئے لایا ہوں، میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی نیکیاں لایا ہوں خدا نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی طرف بلائوں اب یہ بتائو کہ اس سلسلہ میں تم میں سے میری مدد کون کرے گا؟ تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ بن جائے۔

آپ(ص) کی بات کا کسی نے کوئی جواب نہ دیا صرف علی ابن ابی طالب یہ کہتے ہوئے اٹھے: ''انا یا رسول اللّہ اکون وزیرک علیٰ ما بعثک اللّہ'' اے اللہ کے رسول(ص) جس چیز پر خدانے آپ کو مبعوث کیا ہے میںاس میں آپ کا وزیر ہوں۔ رسول(ص) نے فرمایا: بیٹھ جائو! اور پھر آنحضرت (ص) نے وہی جملہ دہرایا اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا علی نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور آپ کی مدد و پشت پناہی کا اعلان کیا تو رسول(ص) نے اپنے خاندان کے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:''ان هذا اخی و وصی و خلیفتی فیکم ( او علیکم) فاسمعوا له و اطیعوا'' بے شک یہ میر ابھائی ہے اور تمہارے درمیان یہ میرا وصی و خلیفہ ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اس کے بعد سارے حاضرین اٹھ گئے

۹۵

اورمذاق اڑاتے ہوئے ابو طالب کو مخاطب کرکے کہنے لگے: تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔( ۱ )

۵۔ دعوت عام

پہلے مرحلہ میں رسول(ص) نے بہت احتیاط سے کام لیا اور براہ راست مشرکوں اور بت پرستوں کے مقابلہ میں آنے سے پرہیز کرتے رہے اسی طرح مسلمانوںنے بھی احتیاط سے کام لیا کیونکہ اس سے خود آپ کے لئے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے خطرہ بڑھ جاتا۔

جب آپ (ص) نے بنی ہاشم کو نئے دین کی طرف بلایا تو عرب قبائل میں اس کو بہت اہمیت دی گئی، اس سے ان پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ محمد(ص) نے جس نبوت کا اعلان کیا ہے اور جس پر بعض لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ بر حق و سچی ہے ۔

بعثت کے پانچ یا تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد خدا کی طرف سے آپ کو یہ حکم ہواکہ رسالت الٰہیہ کا کھل کے اعلان کریںاور تمام لوگوں کو خدا سے ڈرائیںتاکہ دعوت اسلام عام ہو جائے اور چند افراد میں محدود نہ رہے ، ابھی تک خفیہ طریقہ سے دعوت دی جاتی تھی اب علیٰ الاعلان دعوت دی جائے۔ لہذا آپ(ص) نے تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے اور ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔ خدا نے درج ذیل آیت میں اپنے نبی(ص) سے یہ وعدہ کیا کہ دشمنوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلہ میں ہم تمہیں استوار و ثابت قدم رکھیں گے چنانچہ ارشاد ہے :

( فاصدع بما تؤمروا عرض عن المشرکین، انا کفیناک المستهزئین ) ( ۲ )

جس چیز کا آپ کو حکم دیا جا رہا ے اسے کھل کے بیان کیجئے اور مشرکین کی قطعاًپروانہ کیجئے آپ کامذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔

____________________

۱۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مرقوم ہے سب کی عبارتیں ملتی جلتی ہیں، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۴، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۴۶۰ شرح نہج البلاغہ ج۱۳ ص۲۱۰، حیات محمد ص ۱۰۴، مولفہ محمد حسین ہیکل طبع اول۔

۲۔ حجر: ۹۴ و ۹۵۔

۹۶

رسول(ص) نے حکم خدا کے تحت اور عزم بالجزم کے ساتھ علیٰ الاعلان تبلیغ شروع کی ، شرک و شر پسند طاقتوں کو چیلنج کیا، کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور قریش کو آواز دی وہ آپ(ص) کے پاس آئے تو فرمایا:

''ارائیتکم ان اخبرتک ان العدو مصبحکم او ممسیکم ما کنتم تصدقوننی'' ( ۱ )

اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے تمہارے دشمن نے پڑائو ڈال رکھا ہے جو صبح ہوتے ہی تم پر ٹوٹ پڑے گا تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟

انہوں نے کہا: ہاں! تو آپ(ص) نے فرمایا: فانی نذیر لکم بین ید عذاب شدید، آگاہ ہو جائو میں تمہیں شدید عذاب سے ڈراتاہوں۔ یہ سن کر ابو لہب کھڑا ہوا تاکہ آنحضرت(ص) کی باتوں کی تردید کرے کہنے لگا: وائے ہوتم پر کیا تم نے ہمیں یہی کہنے کے لئے بلایا ہے؟ اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:( تبت یدا ابی لهب وتب ) ( ۲ ) ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔

یہ بہت بڑا خطرہ تھا جس نے قریش کو پریشان کر دیا تھا، کیونکہ یہ ان کے تمام معتقدات کے خلاف کھلا چیلنج تھا اور انہیں رسول(ص) کے حکم کی مخالفت سے ہوشیار کر دیا گیا تھا۔ نئے دین کا معاملہ اہل مکہ کے لئے واضح ہو گیا بلکہ پورے خطۂ عرب میں آشکار ہو گیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ اب انسانیت کی ڈگر میں حقیقی انقلاب رونما ہونے والا ہے اب آسمانی دستورات کے مطابق انسانیت کے اقدار، معیار اور اجتماعی حیثیت بلند ہو گی۔ شر اور برائی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائیگا، شرک و تمرد اور سرکشی کے پیشوائوں سے مقابلہ، حقیقی مقابلہ تھا، اس میں اتفاق و اشتراک کے پہلو نہیں تھے۔

اسی عہد میں کچھ عرب اور کچھ غیر عرب لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس طرح مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی تھی اور قریش اس نو خیز تحریک کو محدود نہیں کر پارہے تھے کیونکہ مومنوں کا تعلق مختلف قبائل سے تھا، اس لئے قریش نے ابتداء میں صلح آمیز رویہ اپنایا، ابو طالب نے انہیں شائستہ طریقہ سے سمجھایا اور وہ واپس لوٹ گئے۔( ۳ )

____________________

۱۔ المناقب ج۱ ص ۴۶، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۳۔ ۲۔ السد ،۱

۳۔سیرة ابن ہشام ج۱ ص ۲۶۴ و ۲۶۵، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۶۔

۹۷

تیسری فصل

رسول(ص) کے بارے میں بنی ہاشم کا موقف

ابو طالب رسول(ص) اور رسالت کا دفاع کرتے ہیں

رسول(ص) تبلیغ رسالت سے دست بردار نہیں ہوئے بلکہ آپ کی فعالیت وکا رکردگی میں وسعت پیدا ہو گئی، آپ کا اتباع کرنے والے مومنوں کی فعالیت میں بھی اضافہ ہوا، لوگوں کی نظر میں یہ نیا دین پر کشش بن گیا، اس سے قریش چراغ پا ہو گئے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے شازشیں کرنے لگے وہ پھر ابو طالب کی خدمت میں آئے اور ایک بار پھر انہوں نے لالچ دی کہ وہ رسول(ص) کو تبلیغ رسالت سے دست بردار ہو جانے اور اپنا دین چھوڑ نے پر راضی کریں، جب اس سے کام نہ چلا تو انہوں نے آپ کو دھمکیاں دیں اور کہنے لگے: اے ابو طالب! ہمارے درمیان آپ کا بڑا مرتبہ ہے عظیم قدر و منزلت ہے ہم نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو روکئے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا ، خدا کی قسم! اب ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے آباء و اجداد کو برا کہا جائے، ہمیں بے وقوف کہا جائے اور ہمارے خدائوں کو برا کہا جائے، آپ انہیں ان باتوں سے منع کریں یا ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں یاوہ نہیں یاہم نہیں۔

بنی ہاشم کے سید و سردارجناب ابو طالب قریش کے محکم ارادہ کو سمجھ گئے اور یہ محسوس کیا کہ وہ میرے بھتیجے اور ان کی رسالت کو مٹا دینا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے ایک یہ کوشش کی کہ رسول(ص) نرم رویہ اختیار کریں تاکہ قریش کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے لیکن رسول(ص) نے فرمایا: میں حکمِ خدا پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ رسالت کرتا رہوںگا خواہ حالات کتنے ہی سنگین ہو جائیں خواہ انجام کچھ بھی ہو۔

۹۸

''یا عم واللّٰه لو وضعوا الشَّمس فی یمینی و القمر فی شمالی علیٰ ان اترک هذا الامر حتی یظهره اللّٰه او اهلک فیه ما ترکته''

اے چچا خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور چاہیں کہ میں تبلیغ رسالت چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑونگا یہاں تک کہ خدا اسے کا میابی سے ہمکنار کرے یا اس میں میری جان ہی چلی جائے۔

پھر آپ(ص) کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے آپ(ص) چلنے کے لئے کھڑے ہوئے اس صورت حال سے ابو طالب کا دل بھر آیا ، کیونکہ وہ اپنے بھتیجے کی صداقت و سچائی کو جانتے تھے ان پر ایمان رکھتے تھے، لہذا بھتیجے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:''اذهب یابن اخی فقل ما احببت فواللّٰه لا اسلمک لشیء ابدا'' بیٹے جائو! اور جیسے تمہارا دل چاہے تبلیغ کرو خدا کی قسم! میں کسی بھی چیز کے عوض تمہیں ان کے حوالے نہیں کروںگا۔

قریش اپنی سرکشی و گمراہی سے باز نہیں آئے پھر ابو طالب کے پاس گئے اور انہیں رسول(ص) کو چھوڑ نے پر اکسانا چاہا کہنے لگے: اے ابو طالب!یہ عمارہ بن ولید قریش کا حسین و جمیل جوان ہے اسے آپ لے لیجئے یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اسے آپ اپنا بیٹا سمجھئے اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیجئے کہ جس نے آپ کی قوم میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے ، اور انہیں بیوقوف بتاتا ہے ہم اسے قتل کر دیں گے۔ اس طرح آپ کو مرد کے بدلے مرد مل جائیگا ابو طالب نے ان کی اس ظالمانہ پیشکش کوٹھکرا دیا۔ فرمایا: تم نے بہت بری پیشکش کی ہے تم مجھے اپنا فرزند دے رہے ہو تاکہ میں تمہارے لئے اس کی پرورش کروں اور اس کے عوض میں اپنا بیٹا تمہیں دیدوں تاکہ تم اسے قتل کردو، خدا کی قسم !یہ کبھی نہ ہوگا-ابو طالب کا یہ جواب سن کرمطعم کہنے لگا:ابو طالب ! خدا کی قسم آپ کی قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور ان مکروہ باتوں سے بچنا چاہا ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں، اصل خطرہ یہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی اقدام نہ کر بیٹھیں، ابو طالب(ص) نے مطعم کوجو اب دیا خدا کی قسم! تم لوگوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے

۹۹

بلکہ تم نے مجھے چھوڑ نے اور مجھ پر کامیاب ہونے کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: اب آپ جو چاہیں سو کریں۔( ۱ )

ابو طالب کی ان باتوں سے قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ ابو طالب کو اس بات پر راضی نہیں کرپائیں گے کہ وہ رسول(ص) کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں، دوسری طرف جب ابو طالب نے قریش کی نیت خراب دیکھی تو انہوں نے ان سے بچنے کی تدبیر سوچی تاکہ بھتیجے پر آنچ نہ آئے اور ان کی رسالت کی تبلیغ متاثر نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے بنی ہاشم اور اولادِ عبد المطلب سے فرمایا کہ محمد(ص) سے خبردار رہنا دیکھو ان پرآنچ نہ آئے ، ابو طالب کی اس بات پر ابولہب کے علاوہ سب نے لبیک کہا ابو طالب نے بنی ہاشم کے اس موقف کو بہت سراہا، بنی(ص) کی حفاظت و حمایت کرنے کے سلسلہ میں انہیں شجاعت دلائی۔( ۲ )

قریش کا موقف

بعثت کے چار سال پورے ہو گئے کہ اس عرصہ میں قرآن مجید کی بہت سی آیتیں نازل ہو چکی تھیں ان میں عظمتِ توحید اور خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت، اعجاز بلاغت اور مخالفوں کے لئے دھمکیاںتھیں یہ آیتیںمومنوںکے دلوں میں راسخ اور ان کی زبان پر جاری تھیں، دور و نزدیک سے لوگ انہیں سننے کے لئے آتے تھے۔

تبلیغ ِ رسالت کو روکنے کے لئے قریش نے ابھی تک جتنے حربے استعمال کئے تھے وہ سب ناکام ہو چکے تھے، انہوں نے رسول(ص) کو سلطنت و بادشاہت کی لالچ دینے، بے پناہ مال سے نوازنے ، اپنا سردار بنانے کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے تبلیغِ رسالت کو روکنے کے لئے متعدد حربے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ فصیح و بلیغ کلام کا دلوں پر گہر ا اثر ہوتا ہے اس لئے قریش نے پہلا قدم تویہ اٹھایا کہ رسول(ص) کو عام لوگوں سے نہ ملنے دیا جائے، اس طرح وہ ان کے سامنے اسلام پیش نہیں کر سکیں گے ۔ اور جو لوگ مکہ میں آتے ہیں انہیں قرآن کی آیتیں نہ سننے دی جائیں، اس کے علاوہ انہوںنے آپ(ص)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۹، سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۸۶۔

۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۰، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۲۶۹۔

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296