منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)0%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: سیدمنذر حکیم ا ور عدی غریباوی (گروہ تالیف مجمع جہانی اہل بیت علیہم السلام )
زمرہ جات: صفحے: 296
مشاہدے: 113315
ڈاؤنلوڈ: 4170

تبصرے:

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113315 / ڈاؤنلوڈ: 4170
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

ربنا و ربکم لنا اعمالنا و لکم اعمالکم لا حجة بیننا و بینکم اللّه یجمع بیننا و الیه المصیر ) ۔( ۱ )

اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نوح کو نصیحت کی تھی اور تمہاری طرف بھی اس کی وحی کی ہے ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ کو بھی اسی کی نصیحت کی تھی کہ وہ دین قائم کریںاور تفرقہ کا شکار نہ ہوں مشرکوں کو وہ بات بہت ناگوارہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو اس سے لو لگاتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے...لہذا آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جیسا کہ آپ (ص) کو حکم دیا گیا ہے ، ان کی خواہشوں کا اتباع نہ کریں، ، اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے اللہ ہم سب کو ایک دن جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہوگی۔

۳۔( اللّه الذی انزل الکتاب بالحق و المیزان ) ۔( ۲ )

اللہ ہی وہ ہے جس نے کتاب و میزان کو حق کے ساتھ نازل کیا۔

۴۔( ام یقولون افتریٰ علیٰ اللّه کذباًفان یشاء اللّه یختم علیٰ قلبک و یمح اللّه الباطل و یحق الحق بکلماته انه علیم بذات الصدور ) ( ۳ )

کیا ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رسول(ص)، اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتا ہے حالانکہ خدا چاہے تو تمہارے دل پر بھی مہر لگا دے اور اللہ باطل کو محو کرتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت کر دیتا ہے ۔ بیشک وہ دلوں کے راز کو جانتا ہے ۔

____________________

۱۔شوریٰ۱۵۔

۲۔شوریٰ ۱۷ ۔

۳۔ شوریٰ۲۴ ۔

۸۱

۵۔( وما کان لبشر ان یکلمه الله الا و حیاً او من و رای حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنه ما یشاء انه علیّ حکیم و کذالک اوحینا الیک ر وحاً من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان ولکن جعلنٰهُ نورا نهدی من نشاء من عبادنا و انک لتهدی الیٰ صراط مستقیم ) ( ۱ )

اور کسی انسان کے لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وہ وحی کر ے یا پردے کے پیچھے سے بات کرے یا کسی فرشتے کو نمائندہ بنا کر بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ وحی پہنچا دے یقینا اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف (قرآن) روح کی وحی کی ہے اور آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کتاب اور ایمان کیا ہے لیکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیدیتے ہیں یقینا آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرتے ہیں۔

جن لوگوں نے بعثت سے پہلے رسول(ص) کے ساتھ زندگی گذاری ہے بلکہ جو وفات تک آپ کے ساتھ رہے ہیں انہوں نے بھی رسول(ص) کی بعثت سے پہلے اور بعثت کے وقت کی صحیح اور واضح تصویر کشی نہیں کی ہے ، سب سے مضبوط و محکم نص وہ ہے جو آپ کی آغوش کے پالے ابن عم اور وصی نے بیان کی ہے وہ آپ(ص) سے بعثت سے پہلے بھی جدا نہیں رہے ، آپ(ص) کی وفات تک آپ کے ساتھ رہے۔ اس شخصیت کی تصویر کشی میں انہوں نے پوری امانت داری اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے بعثت سے پہلے زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

ولقد قرن اللّه به من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکته یسلک به طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیله و نهاره لقد کنت اتبعه اتباع الفصیل اثر امه یرفع لی کل یوم من اخلاقه علماً و قد کان یجاور کل سنة بحراء فاراه ولا یراه غیری ۔( ۲ )

____________________

۱۔شوریٰ ۵۱،۵۲۔

۲۔ نہج البلاغہ خبطۂ قاصعہ ۲۹۲ ۔

۸۲

اور خدا وند عالم نے ، ان کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ، ایک عظیم فرشتے کو ان کے ساتھ لگا دیا تھا وہ آپ کو رات دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا اور میں اس طرح آپ کا اتباع کرتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے آپ(ص) ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور ہر سال آپ(ص) کچھ مدت کے لئے غار حراء میں قیام کرتے تھے وہاں انہیں میرے علاوہ اور کوئی نہیں دیکھتا تھا۔

آپ کا یہ قول خدا وند عالم کے اس قول:( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ( ۱ ) کے موافق ہے ۔ یہ آیت ابتداء بعثت میں نازل ہوئی تھی، واضح رہے خُلق ایک نفسانی ملکہ ہے نفس کے اندر راسخ ہوتا ہے، مرورِ زمانہ سے پیدا نہیں ہوتا۔آپ(ص) کے خُلقِ عظیم کے ساتھ خدا نے آپ(ص) کی توصیف کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ(ص) بعثت سے پہلے ہی خلقِ عظیم سے متصف تھے۔

آپ(ص) کے نواسے حضرت امام جعفرصادق کی حدیث سے آپ(ص) کی شخصیت کی وہ خوبیاں روشن ہو جاتی ہیں جو قبلِ بعثت بھی آپ(ص) کے اندر پائی جاتی تھیں۔ فرماتے ہیں:

'' ان اللّه عزّ وجلّ ادب نبیه فاحسن ادبه فلما اکمل له الادب قال :( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ثم فوّض الیه امر الدین والا مة لیسوس عباده'' ( ۲ )

خدا نے اپنے نبی کو ادب و اخلاق سے آراستہ کیا چنانچہ آپ (ص) کااخلاق بہترین ہو گیا جب آپ کا اخلاق و ادب کامل ہو گیاتو فرمایا: بیشک آپ اخلاق کے بلند درجہ پر فائز ہیں پھر دین و امت کی زمام ان کے سپرد کی تاکہ اس کے بندوں کی قیادت کریں۔

خلق عظیم ان تمام مکارم کو اپنے اندر لئے ہے جن کی تفسیر رسول(ص) سے منقول حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔

''انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق'' مجھے تو بس مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے پس جو مکارم سے تہی دامن ہو، وہ مکارم اخلاق کی کیسے تعلیم دے سکتا ہے؟! ماننا پڑے گا کہ رسول(ص) نے بعثت سے

____________________

۱۔قلم:۴۔

۲۔اصول کافی ج۲ ص ۶۶ ج۴۔

۸۳

پہلے ہی تمام مکارم حاصل کر لئے تھے تاکہ آپ کے لئے خلق عظیم کی صفت صحیح اور منطقی قرار پائے۔

بعثت سے پہلے رسول کی شخصیت مثالی، موزوں، معتدل مزاج ،روشن خیال اور مکارم اخلاق، اعلیٰ صفات اور شائستہ افعال کے حوالہ سے مشہور تھی۔

قرآن مجید کی وہ آیتیں جو کہ رسالی و پیغامی وحی اور رسول(ص) کی وحی فہمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان سے واضح ہوتاہے کہ رسول باطمانیت اور صاحب ثبات و استقلال تھے اور خدا کی طرف سے آپ کے قلب پر جو امر و نہی ہوتی تھی آپ اسے تہہ دل سے قبول کرتے تھے ملاحظہ فرمائیں سورۂ شوریٰ کی وہ آیتیں جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں نیز درج ذیل آیتیں ملاحظہ ہوں:

۱۔( و النجم اذا هوی، ما ضل صاحبکم وما غویٰ، وما ینطق عن الهویٰ، ان هو الا وحی یوحیٰ، علمه شدید القویٰ، ذو مرة فاستویٰ،و هو بالافق الاعلیٰ، ثم دنا فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ، فاوحیٰ الیٰ عبده ما اوحیٰ، ما کذب الفواد ما رأیٰ ) ( ۱ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا، تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا نہ بہکا اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام تووہ وحی ہے جو اس پر نازل ہوتی ہے ۔وہ اسے نہایت طاقت والے نے تعلیم دی ہے ۔حسن و جمال والا سیدھا کھڑا ہوا جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا، یہاں تک کہ دوکمان یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا پھر خدا نے اپنے بندہ پر جو چاہا وحی کی دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیںجو دیکھا۔

۲۔( قل انی علیٰ بینة من ربی ) ( ۲ )

کہہ دو کہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی نشانی رکھتا ہوں۔

۳۔( قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی ) ( ۳ )

کہ دو کہ میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لیکن میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔

____________________

۱۔ النجم: ۱ تا ۱۱ ۔

۲۔ انعام: ۵۷۔

۳۔ کہف:۱۱۰۔

۸۴

۴۔( قل انما انذرکم بالوحی ) ( ۱ )

کہہ دو کہ میں تو تمہیں وحی کے ذریعہ ڈراتاہوں۔

۵۔( قل انما یوحیٰ ال انما الٰهکم الٰه واحد ) ( ۲ )

کہہ دو کہ بس میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔ تمہارا خد ابس ایک ہے ۔

۶۔( ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیه و قل رب زدنی علماً ) ( ۳ )

اور آپ وحی تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہا کریں پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔

۷۔( و ان اهتدیت فبما یوحیٰ ) ( ۴ )

اگر میں نے ہدایت حاصل کر لی ہے تو یہ میرے رب کی وحی کا نتیجہ ہے۔

۸۔( قل هذه سبیلی ادعوا الیٰ اللّه علیٰ بصیرة انا و من اتبعنی ) ( ۵ )

کہہ دو کہ میرا یہی راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے ۔

جب آپ پر قرآن مجید کی ان آیتوں کا مفہوم واضح ہو گیا تو اب آپ حدیث و تاریخ کے بعض ماخذ و مصادر کا مطالعہ فرما سکتے ہیں تاکہ ان کے محکم و متشابہات سے واقف ہو جائیں۔ امام احمد کہتے ہیں: ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا اور کہا: ہم سے معمر نے بیان کیا اور انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ عائشہ نے کہا:

____________________

۱۔ انبیاء :۴۵ ۔

۲۔ انبیائ: ۱۰۸ ۔

۳۔ طہ: ۱۱۴۔

۴۔یوسف:۱۰۸۔

۵۔ سبائ:۵۰۔

۸۵

سب سے پہلے رسول(ص) پر جو وحی ہوئی تھی وہ از راہ رویا ئے صادقہ تھی۔

آپ غار حراء میںگوشہ نشیں ہو جاتے اور وہیں عبادت کرتے تھے پھر جناب خدیجہ کے پاس لوٹ آتے تھے پھر ایسا ہی کرتے تھے یہاں تک کہ غار حراء میں آپ پروحی نازل ہوئی۔

مذکورہ روایت میں کوئی چیز قابل گرفت نہیں ہے سوائے اس کے کہ جب آپ(ص) پر وحی نازل ہوئی تو عائشہ موجود نہیں تھیں اور روایت میں اس بات کی وضاحت و تصریح نہیں ہے کہ یہ معلومات انہیں کہاں سے فراہم ہوئی ہیںبراہ راست انہوں نے رسول(ص) سے روایت نہیں کی ہے لیکن روایت میں کچھ تعجب خیز چیزیں بھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پھر خدیجہ انہیں اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس لے گئیں زمانۂ جاہلیت میں وہ نصرانی تھے۔ عربی میں کتاب لکھتے تھے، انہوں نے انجیل کو عربی میں لکھا تھا وہ بہت ضعیف تھے، نابینا ہو گئے تھے جناب خدیجہ نے ان سے کہا: ابن عم اپنے بھتیجے سے بھی تو کچھ سنئے ورقہ نے کہا: بھتیجے! تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے ، رسول(ص) نے جو دیکھاتھا بیان کیا۔ ورقہ نے کہا: یہ وہ ناموس(فرشتہ)ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا تھا۔اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکالے گی۔ رسول(ص) نے فرمایا: کیا وہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں۔ کوئی شخص ایسی چیز نہیں لایا جیسی آپ لائے ہیں اگر میں اس زمانہ میں رہا تو میں ایک پشت پناہ کی حیثیت سے آپ کی مدد کروںگا۔

ورقہ بن نوفل مسلمان نہیں ہوا جبکہ وہ جانتا تھا کہ رسول(ص) کن حالات سے دوچار ہونگے اور یہ بھی جانتا تھا کہ آپ(ص) نبی(ص) ہیںلیکن صاحب رسالت و دعوت کے لئے بات واضح نہیں تھی اور انہیں اپنی رسالت کا علم نہیں تھا حالانکہ ورقہ اس بات سے مطمئن تھے کہ آپ(ص) نبی ہیں، اور قرآن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ رسول(ص) اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہیں۔ اکثر آیتوں میں بھی یہی بیان ہوا ہے کہ لوگوں کے ہادی رسول ہی ہیں اور وہی واضح دلیل رکھتے ہیں اگر اس کے برعکس ہو تو صحیح نہیں ہے ۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ورقہ نبی(ص) کی رسالت کو پہلے ہی سے جانتے تھے اور اسی لئے انہوں نے آپ کو اطمینان دلایا تھا۔

۸۶

یہ ہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر اہل کتاب کو آپ(ص) کی رسالت سے چشم پوشی کرنے کا راستہ مل گیا کیونکہ وہ یہ کہتے ہیںکہ-تمہاری اس نص کے بموجب- تمہارے نبی اپنے رسول(ص) ہونے سے مطمئن نہیں تھے بلکہ ورقہ، جو کہ مسیحی تھے، کے اطمینان دلانے سے مطمئن ہوئے تھے،ان میں سے بعض نے تو، اس روایت کا سہارا لیتے ہوئے جو کہ حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور مورخین کے درمیان مشہورہے یہاں تک کہہ دیا کہ ( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ )ان قسیسوں میں سے ایک تھے جن کو ورقہ نے تعلیم و تربیت دی تھی۔ یہ عظیم رخنہ عقل ، قرآن اور سنت سے دور رہنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔

جو شخص قرآن کی نظر میں انبیاء کی شخصیت کا علم رکھتا ہے اور قرآنی منطق سے آگاہ ہے کیا وہ اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے ؟ وہ اس حدیث کے مضمون کو محض اس لئے کیسے صحیح تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ حدیث زوجہ رسول(ص) عائشہ سے منسوب ہے؟!

اس روایت کے علاوہ تاریخ طبری میں ایک حدیث اور نقل ہوئی ہے جو قباحت میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے مضمون ہی میں شک ہوتا ہے؛ یہاں کہا گیا ہے: رسول(ص) محو خواب تھے کہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور سورة علق کی ابتدائی آیتیں آپ کو تعلیم کیں اس کے بعد روایت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور خود رسول(ص) کی زبانی منقول ہے۔ پس میں نیند سے بیدار ہوا تو ایسا محسوس ہوا جیسے میرے صفحۂ دل پر کتاب لکھ دی گئی ہے ۔ پھر فرماتے ہیں: میری نظر میں شاعر یا مجنون سے بدتر کوئی اور نہیں تھا، میں انہیں ایک نظر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ نیز فرمایا: میں شاعر و مجنون سے بہت دور رہتا تھا۔ ان کے بارے میں قریش مجھ سے ہرگز گفتگو نہیں کرتے تھے۔ میں پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گیا میں چاہتا تھا کہ وہاں سے خود کو گرا کر خودکشی کر لوں تاکہ نفس کو آرام مل جائے چنانچہ میں اسی ارادہ سے نکلا اور جب پہاڑ پر پہنچا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی وہ یہ تھی: اے محمد! تم اللہ کے رسول(ص) ہو اور میں جبرئیل ہوں۔( ۱ )

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۲۰۱تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم طبع دار سویدان بیروت۔

۸۷

نبی (ص) کے ذہنی خلفشار اور خوف کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آپ(ص) نے خود کشی کا ارادہ کر لیا تو خدا نے چاہا کہ آپ(ص) کو نبی(ص) ؛ لوگوں کی ہدایت کرنے والا اور انہیں حق کی طرف بلانے والا بنا دے ۔ کیا روایت کا مضمون آپ کی عظمت و شوکت کے مطابق ہے؟!

ہم کو چاہئے کہ نصوص کو قرآن و عقل نیز سنت کے محکمات پر پرکھیں تاکہ تاریخ سے معتبر اور موثق چیزیں اخذ کریں اور ان چیزوں کو چھوڑ دیںجو علمی تنقید کے سامنے ثابت نہیں رہ سکتیں۔

جب ہم کتاب خدا کی صریح آیتوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد ان روایتوں کو دیکھتے ہیں جو حدیث و سیرت کی کتابوں میں آپ پر پہلی بار وحی نازل ہونے سے متعلق ہیں تو وہ نصوص قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں، اس سے ہمیں اطمینان ہوجاتاہے کہ روایتوںمیں اسرائیلیات شامل ہو گئے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایتوں کا اس روایت سے موازنہ کریں جس کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے یہ حدیث وحی کے حصول کی آمادگی اور اس سے متعلق امداد اور رسول(ص) کی شخصیت و کردار کی عکاسی کرتی ہے۔

حضرت امام علی نقی سے روایت ہے :

اللہ کے رسول(ص) نے جب تجارت کے لئے شام جانا بند کر دیا اور جو کچھ تجارت کی وجہ سے نفع ہوا تھا اسے خیرات کر دیاتو اس کے بعدہر صبح کوکوہ حراء کی چوٹی پر تشریف لے جاتے اور وہاں سے خدا کی رحمت کے آثار، اس کی رحمت کے کرشمے اور اس کی حکمت کی بوقلمونیاں دیکھتے ، آسمان کے آفاق اور زمین کے اطراف پر نظر ڈالتے، سمندروں کو دیکھتے ان سے عبرت و معرفت حاصل کرتے اور اس طرح خدا کی عبادت کرتے جیسے عبادت کا حق ہے ۔ جب آپ پورے چالیس سال کے ہو گئے تو خدانے آپ(ص) کے قلب کو دیکھا، تو اسے تمام قلوب سے افضل زیادہ روشن ومنور زیادہ مطیع و خاشع اور خضوع کرنے والا پایا تو آسمان کے دروازوں کو کھول دیا تاکہ محمد(ص) انہیں دیکھیں، ملائکہ کو اجازت دیدی وہ نازل ہونے لگے

۸۸

محمد(ص) انہیں دیکھنے لگے، رحمت کو حکم ملا تو وہ ساقِ عرش سے محمد(ص) کے سروپیشانی پر نچھاور ہونے لگی ، روح الامین، طاوس ملائکہ کو دیکھا وہ آپ(ص) پر نازل ہوئے اور آپ کا شانہ پکڑ کر ہلایا اور کہا:

اے محمد! پڑھو! فرمایا: کیا پڑھوں؟! کہا: اے محمد(ص)!

( اقرأ باسم ربک الّذی خلق خلق الانسان من علق، اقرأ و ربّک الاکرم الّذی علّم بالقلم علّم الانسان ما لم یعلم ) ( ۱ )

اپنے رب کے نام سے پڑھو، جس نے پیدا کیا ہے ، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑی شان والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ اس نے انسان کو اس چیز کی تعلیم دی جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔

پھر جبرئیل نے آپ پر وحی کی جو کہ ان پر خدا نے کی تھی اور اس کے بعد پرواز کر گئے۔

محمد(ص) پہاڑ سے اترآئے لیکن خدا کی عظمت و جلالت کی وجہ سے آپ(ص) پر غشی اور حرارت و کپکپی کی سی کیفیت طاری تھی، آپ(ص) کواس بات کا شدید خوف تھا کہ اس سلسلہ میں قریش آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ(ص) کو مجنون کہیں گے (معاذ اللہ) یہ کہیں گے کہ ان پر شیطان سوار ہو گیا ہے ۔ حالانکہ آپ(ص) خداکی مخلوق میں سب سے زیادہ عقلمند اور مخلوقات میں سب سے بلند و بالا تھے۔ آپ(ص) کی نظر میں شیطان اور مجنونوںکے افعال و اقوال نہایت ہی قابل نفرت تھے، پس خدا نے چاہا کہ آپ کا سینہ کشادہ اور دل جری ہو جائے تو خدا نے پہاڑوں، چٹانوں اورسنگریزوں کو گویائی عطا کر دی چنانچہ آپ جس چیز کے پاس سے گزرتے تھے وہ آپ سے اس طرح مخاطب ہوتی تھی:

''السّلام علیک یا محمد السّلام علیک یا ولیّ اللّه، السّلام علیک یا رسول اللّه''

اے محمد! آپ پر سلام ہو اے اللہ کے ولی آپ پر سلام، اے اللہ کے رسول آپ پر سلام، بشارت ہو کہ خدا نے آپ کو فضیلت دی ہے ، جمال و زینت بخشی ہے اور اولین و آخرین سب پر فوقیت و برتری دی ہے آپ(ص)

____________________

۱۔ العلق:۱۔۵۔

۸۹

اس بات سے نہ ڈریں کہ قریش آپ کو مجنون کہیں گے اورکہیں گے کہ آپ دین سے ہٹ گئے ہیں کیونکہ با فضیلت وہی ہے جس کو خدا فضیلت دے، کریم و سر فراز وہی ہے جس کو خدا سر فرازی عطا کرے پس آپ قریش اور عرب کے سر کشوں کی تکذیب سے خوف نہ کھائیں، عنقریب آپ کا رب آپ(ص) کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا دے گا اور اعلیٰ مراتب پر فائز کرے گا اور آپ(ص) کے وصی حضرت علی کے سبب آپ(ص) کے چاہنے والوں کو خوش کرے گا اور عنقریب آپ کے بابِ حکمت علی بن ابی طالب کے ذریعہ آپ کے علوم کو پوری دنیا میں پھیلا دے گا۔ جلدہی وہ آپ کو ایک بیٹی فاطمہ عطا کرے گااس کے بطن اور صلب علی سے اہل جنت کے سردار حسن و حسین کو پیدا کرے گا آپ کے دین کو دنیا میں پھیلا دے گا ، آپ کے اور آپ کے بھائی کے دوستوں کے اجر کو عظیم قراردے گا، آپ(ص) کے ہاتھ میں لوائے حمد دے گا آپ اسے اپنے بھائی علی کو عطا کر یں گے چنانچہ ہر نبی صدیق اور شہید اس کے نیچے ہوگا۔ اور علی ان سب کو جنت کی طرف لے جائیںگے۔( ۱ )

جب ہم اس روایت اور طبری کی روایت کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے لحاظ سے رسول(ص) کی ابتدائے بعثت اور بعثت کے بعد کی زندگی میں واضح فرق نظر آتا ہے ، طبری کی روایت کے لحاظ سے بعثت سے پہلے آپ کی زندگی اضطرابی و بے چینی و بے یقینی کی زندگی ہے -ظاہر ہے کہ اضطراب وبے چینی کا سبب نادانی ہوتی ہے -جبکہ بحار الانوار کی روایت کی رو سے آپ کی زندگی میں ابتدا ہی سے اطمینان و سکون اور علم نظر آتا ہے۔ آپ کی زندگی کی یہی تصویر، قرآن و حدیث اور تاریخ کے محکمات و معیارکے مطابق ہے ۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱۸ ص ۲۰۷ و ۲۰۸۔

۹۰

دوسری فصل

مکہ کی زندگی میں تحریک رسالت کے مراحل

۱۔ ایمانی خلیوں کی ساخت

پہلی وحی کے نازل ہونے کے بعد، قرآنی آیتیں بتدریج آ پ پر نازل ہونے لگیں، شروع میںسورۂ مزمل کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں تو رسول(ص) نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے درج ذیل اقدامات کا ارادہ کیا، آپ(ص) کے لئے ضروری تھا کہ پیش آنے والی مشکلوں اور دشواریوں سے نمٹنے کے لئے خود کو آمادہ کر یں اور عزم بالجزم کے ساتھ کام کریں۔

سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ جناب خدیجہ کا رسول(ص) کی تائید کرنا تو فطری بات تھی کیونکہ انہوں نے آپ(ص) کے ساتھ ایک طویل عمر گزاری تھی اور آپ(ص) کے اندر اخلاق کی بلندیوں اور روح کی پاکیزگی و بلند پروازی کا مشاہدہ کیا تھا۔

اپنے چچا زاد بھای علی بن ابی طالب کو دعوت اسلام دینے میں بھی آپ(ص) کو زحمت نہیں کرنی پڑی کیونکہ ان کے سینہ میں طیب و طاہر دل تھا۔ علی نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی تھی چنانچہ انہوں نے فوراً نبی(ص) کی تصدیق کی اس طرح آپ مسلم ِ اول قرار پائے۔( ۱ )

پھر رسول(ص) کے لئے حضرت علی کاا نتخاب بالکل صحیح تھا کیونکہ ان میں طاعت و فرمانبرداری کا جو ہر بھی تھا اور

____________________

۱۔ السیرة النبویہ، ابن ہشام ج۱ص ۲۴۵، باب علی بن ابی طالب۔

۹۱

وہ قوی و شجاع بھی تھے اور رسول(ص) کو ایک مددگار و پشت پناہ کی شدید ضرورت تھی، حضرت علی تبلیغِ رسالت میں شروع ہی سے ایک پشت پناہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ رسالت کی چشم بینا اور تبلیغ کی زبان گویا تھے۔

سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام ظاہر کیا کہ آپ رسول(ص) کے ساتھ غار حراء کی تنہائی میںبھی رہتے تھے، آپ کے بعد جناب خدیجہ ایمان لائیں اور سب سے پہلے انہیں دونوں نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرکے رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی یہ دونوں بھی رسول(ص) کے مانند، شرک و ضلالت کی طاقتوں کیلئے( ۱ ) رکاوٹ تھے ان کے بعد زید بن حارثہ مسلمان ہوئے یہ نیک لوگوں کی جماعت تھی اور یہ وہ افراد تھے جن سے اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔

۲۔ مکی عہد کے ادوار

رسول(ص) کی تبلیغ کم سے کم تین ادوار سے گزری ہے تب جاکے پہلی اسلامی حکومت کی تشکیل کے حالات فراہم ہوئے وہ ادوار درج ذیل ہیں:

۱۔ پہلے دور میں اسلامی رسالت کا مرکز و پائے تخت بنایا بعض لوگوں نے اس دور کو مخفیانہ تبلیغ، یا دعوتِ خاص کے عنوان سے بھی یاد کیا ہے ۔

۲۔ دوسرے دور میں آپ(ص) نے محدود پیمانہ پر قرابتداروں کو اسلام کی دعوت دی اور محدود طریقہ سے بت پرستوں سے مقابلہ کیا۔

۳۔ اس دور میں آپ(ص) نے عام طریقہ سے جنگ کی۔

۳۔اوّلین مرکز کی فراہمی کا دور

جب خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو یہ حکم دیا کہ قیام کریں اور لوگوں کو ڈرائیں( ۲ ) تو آپ(ص) نے لوگوں کو اسلام

____________________

۱۔ اسد الغابہ ج۴ ص ۱۸، حلیة الاولیائ، ج۱ ص۶۶، شرح بن ابی الحدید ج۳ ص ۲۵۶، مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۱۲۔

۲۔سورۂ مدثر کی ابتدائی آیتیں۔

۹۲

قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ایک ایسی با ایمان جماعت بنانے کی کوشش کی جو معاشرہ کی ہدایت کے لئے مشعل بن جائے۔ اس طرح تقریباً تین سال گذر گئے۔ رسالی و پیغامی تحریک، خطرات و مشکلات میںلپٹی ہوئی تھی لیکن رو بہ استحکام و تکامل پذیر تھی۔ اس مرحلہ میں رسول(ص) کا طرز تبلیغ یہ تھا کہ آپ نے اپنے پیرئوں کو ان کے پہلے رجحان جغرافائی اعتبار سے مختلف قسم کے اختیارات ان کے سپرد کئے تاکہ آپ کی رسالت وسعت پذیر ہو اور جہاں تک ممکن ہو سکے معاشرہ میں اس کو فروغ دیا جائے۔بعثت کے ابتدائی زمانہ میں کچلے ہوئے افراد اور ناداروں نے آپ کی دعوت اسلام کو قبول کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اعلیٰ زندگی اور امن و امان کا پیغام لایا تھا۔ شرفاء میں ان لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا کہ جو پاکیزہ سرشت اور عقل سلیم کے حامل تھے۔

جابر و سرکش قریش اس پیغام کی ہمہ گیری اور وسعت پذیری کا اندازہ نہیں کر سکے بلکہ انہوں نے یہ خیال کیاکہ یہ تحریک دیرپا نہیں ہے، چند دنوں کے بعد مٹ جائے گی لہذا انہوں نے اس تحریک کو اس کے ابتدائی زمانے ہی میں مٹانے کے سلسلہ میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔

رسول(ص) نے اسی مختصر وقت میں اپنے اوپر ایمان لانے والوں میں کچھ کو فعال بنایا اور اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری ان کے سپرد کی تاکہ یہ پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچ جائے، یہ لوگ اپنے اسلام کے بارے میں بڑے حساس اور اپنے ایمان پر یقین رکھنے والے تھے انہوں نے شرک کے اس من گھڑت عقیدہ و طریقہ کو ٹھکرا دیا تھا جس پر ان کے آباء و اجداد تھے اور ان کے اندر ایسی صلاحیت و طاقت پیدا ہو گئی تھی کہ یہ رسالت کے آثار کوعلیٰ الاعلان اپنا سکتے تھے۔

روایت ہے کہ اس عہد میں نماز عصر کے وقت رسول(ص) اور ان کے اصحاب مختلف گروہوں میں چلے جاتے تھے اکیلے اور دو، دو کرکے نماز پڑھتے تھے۔

۹۳

چنانچہ ایک مرتبہ دو مسلمان مکہ کے ایک خاندان کے درمیان نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے دوا فراد نے انہیں اس سلسلہ میںطعن و تشنیع کی ، نتیجہ میں مار پیٹ ہوئی اور یہ دونوںواپس لوٹ آئے۔( ۱ )

اس کے بعد آئے دن مشرکوں سے ایسے ٹکرائو ہونے لگے تو سلسلہ عبادت کو جاری رکھنے کے لئے رسول(ص) چھپ کر اور قریش کی نظر سے بچ کر عبادت کرنے لگے اس زمانہ میں زید بن ارقم کا گھر مسلمانوں کے لئے بہترین پناہ گاہ تھا۔( ۲ )

۴۔ پہلا مقابلہ اور قرابتداروں کو ڈران

جب جزیرہ نما عرب کے اطراف میں اسلام کی خبر عام ہوگئی اور جب ایک مومن گروہ روحی استقلال کا مالک و حامل ہو گیااور اپنے روحی استحکام کے لحاظ سے معرکہ میں اترنے کا اہل بن گیا تو اسلام کی دعوت کو مرحلۂ اعلان میں داخل ہونے کی منزل تھی اور اس مرحلہ کا پہلا قدم اپنے قرابتداروںکو ڈرانا تھا کیونکہ اس معاشرہ پر قبائلی رسم و رواج کی چھاپ تھی لہٰذا بہتر یہی تھا کہ دوسروں کو ڈرانے سے پہلے اپنے قبیلے والوں کو ڈرائیں پس خدا کا حکم نازل ہوا۔

( وانذر عشیرتک الاقربین ) ( ۳ ) اے رسول(ص)!اپنے قرابتداروںکو ڈرائو، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (ص) نے اپنے خاندان والوں کو بلایا اور ان کے سامنے رسالت اور مقصد نیز مستقبل میں رسالت کی وضاحت فرمائی ان لوگوں میں وہ بھی شامل تھا جس سے خیر کی امید اور ایمان کی پوری توقع تھی، جب ابو لہب نے کھڑے ہو کر کھلم کھلا اپنی دشمنی کا اظہار کیا تو ابو طالب نبی(ص) کی پشت پناہی اور ان کی رسالت کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا کہ کھانے کا بند و بست کرو، کھانا تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، یہ چالیس اشخاص تھے۔ رسول(ص) نے ابھی اپنی

____________________

۱۔ انساب الاشراف ج۱ ص۱۱۷، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۴۵۶۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ، اسد الغابہج۴ ص ۴۴۔

۳۔شعرائ: ۲۱۴۔

۹۴

گفتگو شروع ہی کی تھی کہ آپ(ص) کے چچا عبد العزیٰ-ابولہب-نے آپ کی گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا اور آپ (ص) کو تبلیغ کرنے اور ڈرانے سے روکا۔ رسول(ص) کا مقصد پورا نہ ہو سکا دعوت میں آنے والے چلے گئے دوسرے دن رسول(ص) نے پھر حضرت علی کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، جب وہ کھانا کھا چکے تو آپ(ص) نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:

''یا بنی عبد المطلب انی وا اللهِ ما اعلم شاباًفی العرب جاء قومه بافضل مما جئتکم به انی جئتکم بخیر الدنیا والأخرة و قد امرنی اللّه عزّ و جلّ ان ادعوکم الیه فایکم یؤمن بی و یؤازرنی علیٰ هذا الامر علیٰ ان یکون اخی و وصی و خلیفتی فیکم؟''

اے عبد المطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان نظر نہیں آتا جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر پیغام لایا ہو جو میںتمہارے لئے لایا ہوں، میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی نیکیاں لایا ہوں خدا نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی طرف بلائوں اب یہ بتائو کہ اس سلسلہ میں تم میں سے میری مدد کون کرے گا؟ تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ بن جائے۔

آپ(ص) کی بات کا کسی نے کوئی جواب نہ دیا صرف علی ابن ابی طالب یہ کہتے ہوئے اٹھے: ''انا یا رسول اللّہ اکون وزیرک علیٰ ما بعثک اللّہ'' اے اللہ کے رسول(ص) جس چیز پر خدانے آپ کو مبعوث کیا ہے میںاس میں آپ کا وزیر ہوں۔ رسول(ص) نے فرمایا: بیٹھ جائو! اور پھر آنحضرت (ص) نے وہی جملہ دہرایا اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا علی نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور آپ کی مدد و پشت پناہی کا اعلان کیا تو رسول(ص) نے اپنے خاندان کے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:''ان هذا اخی و وصی و خلیفتی فیکم ( او علیکم) فاسمعوا له و اطیعوا'' بے شک یہ میر ابھائی ہے اور تمہارے درمیان یہ میرا وصی و خلیفہ ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اس کے بعد سارے حاضرین اٹھ گئے

۹۵

اورمذاق اڑاتے ہوئے ابو طالب کو مخاطب کرکے کہنے لگے: تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔( ۱ )

۵۔ دعوت عام

پہلے مرحلہ میں رسول(ص) نے بہت احتیاط سے کام لیا اور براہ راست مشرکوں اور بت پرستوں کے مقابلہ میں آنے سے پرہیز کرتے رہے اسی طرح مسلمانوںنے بھی احتیاط سے کام لیا کیونکہ اس سے خود آپ کے لئے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے خطرہ بڑھ جاتا۔

جب آپ (ص) نے بنی ہاشم کو نئے دین کی طرف بلایا تو عرب قبائل میں اس کو بہت اہمیت دی گئی، اس سے ان پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ محمد(ص) نے جس نبوت کا اعلان کیا ہے اور جس پر بعض لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ بر حق و سچی ہے ۔

بعثت کے پانچ یا تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد خدا کی طرف سے آپ کو یہ حکم ہواکہ رسالت الٰہیہ کا کھل کے اعلان کریںاور تمام لوگوں کو خدا سے ڈرائیںتاکہ دعوت اسلام عام ہو جائے اور چند افراد میں محدود نہ رہے ، ابھی تک خفیہ طریقہ سے دعوت دی جاتی تھی اب علیٰ الاعلان دعوت دی جائے۔ لہذا آپ(ص) نے تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے اور ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔ خدا نے درج ذیل آیت میں اپنے نبی(ص) سے یہ وعدہ کیا کہ دشمنوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلہ میں ہم تمہیں استوار و ثابت قدم رکھیں گے چنانچہ ارشاد ہے :

( فاصدع بما تؤمروا عرض عن المشرکین، انا کفیناک المستهزئین ) ( ۲ )

جس چیز کا آپ کو حکم دیا جا رہا ے اسے کھل کے بیان کیجئے اور مشرکین کی قطعاًپروانہ کیجئے آپ کامذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔

____________________

۱۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مرقوم ہے سب کی عبارتیں ملتی جلتی ہیں، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۴، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۴۶۰ شرح نہج البلاغہ ج۱۳ ص۲۱۰، حیات محمد ص ۱۰۴، مولفہ محمد حسین ہیکل طبع اول۔

۲۔ حجر: ۹۴ و ۹۵۔

۹۶

رسول(ص) نے حکم خدا کے تحت اور عزم بالجزم کے ساتھ علیٰ الاعلان تبلیغ شروع کی ، شرک و شر پسند طاقتوں کو چیلنج کیا، کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور قریش کو آواز دی وہ آپ(ص) کے پاس آئے تو فرمایا:

''ارائیتکم ان اخبرتک ان العدو مصبحکم او ممسیکم ما کنتم تصدقوننی'' ( ۱ )

اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے تمہارے دشمن نے پڑائو ڈال رکھا ہے جو صبح ہوتے ہی تم پر ٹوٹ پڑے گا تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟

انہوں نے کہا: ہاں! تو آپ(ص) نے فرمایا: فانی نذیر لکم بین ید عذاب شدید، آگاہ ہو جائو میں تمہیں شدید عذاب سے ڈراتاہوں۔ یہ سن کر ابو لہب کھڑا ہوا تاکہ آنحضرت(ص) کی باتوں کی تردید کرے کہنے لگا: وائے ہوتم پر کیا تم نے ہمیں یہی کہنے کے لئے بلایا ہے؟ اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:( تبت یدا ابی لهب وتب ) ( ۲ ) ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔

یہ بہت بڑا خطرہ تھا جس نے قریش کو پریشان کر دیا تھا، کیونکہ یہ ان کے تمام معتقدات کے خلاف کھلا چیلنج تھا اور انہیں رسول(ص) کے حکم کی مخالفت سے ہوشیار کر دیا گیا تھا۔ نئے دین کا معاملہ اہل مکہ کے لئے واضح ہو گیا بلکہ پورے خطۂ عرب میں آشکار ہو گیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ اب انسانیت کی ڈگر میں حقیقی انقلاب رونما ہونے والا ہے اب آسمانی دستورات کے مطابق انسانیت کے اقدار، معیار اور اجتماعی حیثیت بلند ہو گی۔ شر اور برائی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائیگا، شرک و تمرد اور سرکشی کے پیشوائوں سے مقابلہ، حقیقی مقابلہ تھا، اس میں اتفاق و اشتراک کے پہلو نہیں تھے۔

اسی عہد میں کچھ عرب اور کچھ غیر عرب لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس طرح مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی تھی اور قریش اس نو خیز تحریک کو محدود نہیں کر پارہے تھے کیونکہ مومنوں کا تعلق مختلف قبائل سے تھا، اس لئے قریش نے ابتداء میں صلح آمیز رویہ اپنایا، ابو طالب نے انہیں شائستہ طریقہ سے سمجھایا اور وہ واپس لوٹ گئے۔( ۳ )

____________________

۱۔ المناقب ج۱ ص ۴۶، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۳۔ ۲۔ السد ،۱

۳۔سیرة ابن ہشام ج۱ ص ۲۶۴ و ۲۶۵، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۶۔

۹۷

تیسری فصل

رسول(ص) کے بارے میں بنی ہاشم کا موقف

ابو طالب رسول(ص) اور رسالت کا دفاع کرتے ہیں

رسول(ص) تبلیغ رسالت سے دست بردار نہیں ہوئے بلکہ آپ کی فعالیت وکا رکردگی میں وسعت پیدا ہو گئی، آپ کا اتباع کرنے والے مومنوں کی فعالیت میں بھی اضافہ ہوا، لوگوں کی نظر میں یہ نیا دین پر کشش بن گیا، اس سے قریش چراغ پا ہو گئے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے شازشیں کرنے لگے وہ پھر ابو طالب کی خدمت میں آئے اور ایک بار پھر انہوں نے لالچ دی کہ وہ رسول(ص) کو تبلیغ رسالت سے دست بردار ہو جانے اور اپنا دین چھوڑ نے پر راضی کریں، جب اس سے کام نہ چلا تو انہوں نے آپ کو دھمکیاں دیں اور کہنے لگے: اے ابو طالب! ہمارے درمیان آپ کا بڑا مرتبہ ہے عظیم قدر و منزلت ہے ہم نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو روکئے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا ، خدا کی قسم! اب ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے آباء و اجداد کو برا کہا جائے، ہمیں بے وقوف کہا جائے اور ہمارے خدائوں کو برا کہا جائے، آپ انہیں ان باتوں سے منع کریں یا ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں یاوہ نہیں یاہم نہیں۔

بنی ہاشم کے سید و سردارجناب ابو طالب قریش کے محکم ارادہ کو سمجھ گئے اور یہ محسوس کیا کہ وہ میرے بھتیجے اور ان کی رسالت کو مٹا دینا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے ایک یہ کوشش کی کہ رسول(ص) نرم رویہ اختیار کریں تاکہ قریش کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے لیکن رسول(ص) نے فرمایا: میں حکمِ خدا پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ رسالت کرتا رہوںگا خواہ حالات کتنے ہی سنگین ہو جائیں خواہ انجام کچھ بھی ہو۔

۹۸

''یا عم واللّٰه لو وضعوا الشَّمس فی یمینی و القمر فی شمالی علیٰ ان اترک هذا الامر حتی یظهره اللّٰه او اهلک فیه ما ترکته''

اے چچا خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور چاہیں کہ میں تبلیغ رسالت چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑونگا یہاں تک کہ خدا اسے کا میابی سے ہمکنار کرے یا اس میں میری جان ہی چلی جائے۔

پھر آپ(ص) کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے آپ(ص) چلنے کے لئے کھڑے ہوئے اس صورت حال سے ابو طالب کا دل بھر آیا ، کیونکہ وہ اپنے بھتیجے کی صداقت و سچائی کو جانتے تھے ان پر ایمان رکھتے تھے، لہذا بھتیجے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:''اذهب یابن اخی فقل ما احببت فواللّٰه لا اسلمک لشیء ابدا'' بیٹے جائو! اور جیسے تمہارا دل چاہے تبلیغ کرو خدا کی قسم! میں کسی بھی چیز کے عوض تمہیں ان کے حوالے نہیں کروںگا۔

قریش اپنی سرکشی و گمراہی سے باز نہیں آئے پھر ابو طالب کے پاس گئے اور انہیں رسول(ص) کو چھوڑ نے پر اکسانا چاہا کہنے لگے: اے ابو طالب!یہ عمارہ بن ولید قریش کا حسین و جمیل جوان ہے اسے آپ لے لیجئے یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اسے آپ اپنا بیٹا سمجھئے اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیجئے کہ جس نے آپ کی قوم میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے ، اور انہیں بیوقوف بتاتا ہے ہم اسے قتل کر دیں گے۔ اس طرح آپ کو مرد کے بدلے مرد مل جائیگا ابو طالب نے ان کی اس ظالمانہ پیشکش کوٹھکرا دیا۔ فرمایا: تم نے بہت بری پیشکش کی ہے تم مجھے اپنا فرزند دے رہے ہو تاکہ میں تمہارے لئے اس کی پرورش کروں اور اس کے عوض میں اپنا بیٹا تمہیں دیدوں تاکہ تم اسے قتل کردو، خدا کی قسم !یہ کبھی نہ ہوگا-ابو طالب کا یہ جواب سن کرمطعم کہنے لگا:ابو طالب ! خدا کی قسم آپ کی قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور ان مکروہ باتوں سے بچنا چاہا ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں، اصل خطرہ یہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی اقدام نہ کر بیٹھیں، ابو طالب(ص) نے مطعم کوجو اب دیا خدا کی قسم! تم لوگوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے

۹۹

بلکہ تم نے مجھے چھوڑ نے اور مجھ پر کامیاب ہونے کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: اب آپ جو چاہیں سو کریں۔( ۱ )

ابو طالب کی ان باتوں سے قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ ابو طالب کو اس بات پر راضی نہیں کرپائیں گے کہ وہ رسول(ص) کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں، دوسری طرف جب ابو طالب نے قریش کی نیت خراب دیکھی تو انہوں نے ان سے بچنے کی تدبیر سوچی تاکہ بھتیجے پر آنچ نہ آئے اور ان کی رسالت کی تبلیغ متاثر نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے بنی ہاشم اور اولادِ عبد المطلب سے فرمایا کہ محمد(ص) سے خبردار رہنا دیکھو ان پرآنچ نہ آئے ، ابو طالب کی اس بات پر ابولہب کے علاوہ سب نے لبیک کہا ابو طالب نے بنی ہاشم کے اس موقف کو بہت سراہا، بنی(ص) کی حفاظت و حمایت کرنے کے سلسلہ میں انہیں شجاعت دلائی۔( ۲ )

قریش کا موقف

بعثت کے چار سال پورے ہو گئے کہ اس عرصہ میں قرآن مجید کی بہت سی آیتیں نازل ہو چکی تھیں ان میں عظمتِ توحید اور خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت، اعجاز بلاغت اور مخالفوں کے لئے دھمکیاںتھیں یہ آیتیںمومنوںکے دلوں میں راسخ اور ان کی زبان پر جاری تھیں، دور و نزدیک سے لوگ انہیں سننے کے لئے آتے تھے۔

تبلیغ ِ رسالت کو روکنے کے لئے قریش نے ابھی تک جتنے حربے استعمال کئے تھے وہ سب ناکام ہو چکے تھے، انہوں نے رسول(ص) کو سلطنت و بادشاہت کی لالچ دینے، بے پناہ مال سے نوازنے ، اپنا سردار بنانے کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے تبلیغِ رسالت کو روکنے کے لئے متعدد حربے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ فصیح و بلیغ کلام کا دلوں پر گہر ا اثر ہوتا ہے اس لئے قریش نے پہلا قدم تویہ اٹھایا کہ رسول(ص) کو عام لوگوں سے نہ ملنے دیا جائے، اس طرح وہ ان کے سامنے اسلام پیش نہیں کر سکیں گے ۔ اور جو لوگ مکہ میں آتے ہیں انہیں قرآن کی آیتیں نہ سننے دی جائیں، اس کے علاوہ انہوںنے آپ(ص)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۹، سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۸۶۔

۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۰، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۲۶۹۔

۱۰۰