منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)13%

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ) مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: رسول اکرم(صلّی علیہ وآلہ وسلّم)
صفحے: 296

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 296 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 140957 / ڈاؤنلوڈ: 6502
سائز سائز سائز
منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

منارۂ ہدایت،جلد ١ (سیرت رسول خداۖ)

مؤلف:
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


نوٹ: اس کتاب کو الیکٹرانک اور برقی شکل میں ،اسلامی ثقافتی ادارے " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے قارئین کرام کیلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

اس کتاب کی پہلی جلد ڈاؤنلوڈ کرنے کےلئےدرج ذیل لنک پر کلک کیجئے

http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۳۷۹&preview

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کےسوالات کو ادارہ کےایمیل(ihcf.preach@gmail.com)پر سینڈ کرسکتے ہیں


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

ربنا و ربکم لنا اعمالنا و لکم اعمالکم لا حجة بیننا و بینکم اللّه یجمع بیننا و الیه المصیر ) ۔( ۱ )

اس نے تمہارے لئے دین میں وہ راستہ مقرر کیا ہے جس کی نوح کو نصیحت کی تھی اور تمہاری طرف بھی اس کی وحی کی ہے ابراہیم، موسیٰ و عیسیٰ کو بھی اسی کی نصیحت کی تھی کہ وہ دین قائم کریںاور تفرقہ کا شکار نہ ہوں مشرکوں کو وہ بات بہت ناگوارہے جس کی تم انہیں دعوت دے رہے ہو اور اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کے لئے چن لیتا ہے اور جو اس سے لو لگاتا ہے اسے ہدایت دے دیتا ہے...لہذا آپ اسی کے لئے دعوت دیں اور اس طرح استقامت سے کام لیں جیسا کہ آپ (ص) کو حکم دیا گیا ہے ، ان کی خواہشوں کا اتباع نہ کریں، ، اور یہ کہیں کہ میرا ایمان اس کتاب پر ہے جو خدا نے نازل کی ہے اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ تمہارے درمیان انصاف کروں، اللہ ہمارا اور تمہارا رب ہے ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے، ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی جھگڑا نہیں ہے اللہ ہم سب کو ایک دن جمع کرے گا اور اسی کی طرف سب کی بازگشت ہوگی۔

۳۔( اللّه الذی انزل الکتاب بالحق و المیزان ) ۔( ۲ )

اللہ ہی وہ ہے جس نے کتاب و میزان کو حق کے ساتھ نازل کیا۔

۴۔( ام یقولون افتریٰ علیٰ اللّه کذباًفان یشاء اللّه یختم علیٰ قلبک و یمح اللّه الباطل و یحق الحق بکلماته انه علیم بذات الصدور ) ( ۳ )

کیا ان لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ رسول(ص)، اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتا ہے حالانکہ خدا چاہے تو تمہارے دل پر بھی مہر لگا دے اور اللہ باطل کو محو کرتا ہے اور حق کو اپنے کلمات کے ذریعہ ثابت کر دیتا ہے ۔ بیشک وہ دلوں کے راز کو جانتا ہے ۔

____________________

۱۔شوریٰ۱۵۔

۲۔شوریٰ ۱۷ ۔

۳۔ شوریٰ۲۴ ۔

۸۱

۵۔( وما کان لبشر ان یکلمه الله الا و حیاً او من و رای حجاب او یرسل رسولاً فیوحی باذنه ما یشاء انه علیّ حکیم و کذالک اوحینا الیک ر وحاً من امرنا ما کنت تدری ما الکتاب ولا الایمان ولکن جعلنٰهُ نورا نهدی من نشاء من عبادنا و انک لتهدی الیٰ صراط مستقیم ) ( ۱ )

اور کسی انسان کے لئے یہ نہیں ہوسکتا کہ خدا اس سے کلام کرے مگر یہ کہ وہ وحی کر ے یا پردے کے پیچھے سے بات کرے یا کسی فرشتے کو نمائندہ بنا کر بھیج دے اور پھر وہ اس کی اجازت سے جو وہ چاہتا ہے وہ وحی پہنچا دے یقینا اسی طرح ہم نے اپنے حکم سے آپ کی طرف (قرآن) روح کی وحی کی ہے اور آپ کو معلوم نہیں تھا کہ کتاب اور ایمان کیا ہے لیکن ہم نے اسے ایک نور قرار دیا ہے جس کے ذریعہ ہم اپنے بندوں میں سے جسے چاہتے ہیں ہدایت دیدیتے ہیں یقینا آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کرتے ہیں۔

جن لوگوں نے بعثت سے پہلے رسول(ص) کے ساتھ زندگی گذاری ہے بلکہ جو وفات تک آپ کے ساتھ رہے ہیں انہوں نے بھی رسول(ص) کی بعثت سے پہلے اور بعثت کے وقت کی صحیح اور واضح تصویر کشی نہیں کی ہے ، سب سے مضبوط و محکم نص وہ ہے جو آپ کی آغوش کے پالے ابن عم اور وصی نے بیان کی ہے وہ آپ(ص) سے بعثت سے پہلے بھی جدا نہیں رہے ، آپ(ص) کی وفات تک آپ کے ساتھ رہے۔ اس شخصیت کی تصویر کشی میں انہوں نے پوری امانت داری اور دقتِ نظر سے کام لیا ہے بعثت سے پہلے زمانہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

ولقد قرن اللّه به من لدن ان کان فطیما اعظم ملک من ملائکته یسلک به طریق المکارم و محاسن اخلاق العالم لیله و نهاره لقد کنت اتبعه اتباع الفصیل اثر امه یرفع لی کل یوم من اخلاقه علماً و قد کان یجاور کل سنة بحراء فاراه ولا یراه غیری ۔( ۲ )

____________________

۱۔شوریٰ ۵۱،۵۲۔

۲۔ نہج البلاغہ خبطۂ قاصعہ ۲۹۲ ۔

۸۲

اور خدا وند عالم نے ، ان کی دودھ بڑھائی کے زمانہ ہی سے ، ایک عظیم فرشتے کو ان کے ساتھ لگا دیا تھا وہ آپ کو رات دن اعلیٰ خصلتوں اور پاکیزہ سیرتوں پر چلاتا تھا اور میں اس طرح آپ کا اتباع کرتا تھا جس طرح اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے چلتا ہے آپ(ص) ہر روز میرے لئے اپنے اخلاق کا پرچم بلند کرتے تھے اور ہر سال آپ(ص) کچھ مدت کے لئے غار حراء میں قیام کرتے تھے وہاں انہیں میرے علاوہ اور کوئی نہیں دیکھتا تھا۔

آپ کا یہ قول خدا وند عالم کے اس قول:( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ( ۱ ) کے موافق ہے ۔ یہ آیت ابتداء بعثت میں نازل ہوئی تھی، واضح رہے خُلق ایک نفسانی ملکہ ہے نفس کے اندر راسخ ہوتا ہے، مرورِ زمانہ سے پیدا نہیں ہوتا۔آپ(ص) کے خُلقِ عظیم کے ساتھ خدا نے آپ(ص) کی توصیف کی ہے اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ آپ(ص) بعثت سے پہلے ہی خلقِ عظیم سے متصف تھے۔

آپ(ص) کے نواسے حضرت امام جعفرصادق کی حدیث سے آپ(ص) کی شخصیت کی وہ خوبیاں روشن ہو جاتی ہیں جو قبلِ بعثت بھی آپ(ص) کے اندر پائی جاتی تھیں۔ فرماتے ہیں:

'' ان اللّه عزّ وجلّ ادب نبیه فاحسن ادبه فلما اکمل له الادب قال :( انک لعلیٰ خلق عظیم ) ثم فوّض الیه امر الدین والا مة لیسوس عباده'' ( ۲ )

خدا نے اپنے نبی کو ادب و اخلاق سے آراستہ کیا چنانچہ آپ (ص) کااخلاق بہترین ہو گیا جب آپ کا اخلاق و ادب کامل ہو گیاتو فرمایا: بیشک آپ اخلاق کے بلند درجہ پر فائز ہیں پھر دین و امت کی زمام ان کے سپرد کی تاکہ اس کے بندوں کی قیادت کریں۔

خلق عظیم ان تمام مکارم کو اپنے اندر لئے ہے جن کی تفسیر رسول(ص) سے منقول حدیث میں بیان ہوئی ہے ۔

''انما بعثت لاتمم مکارم الاخلاق'' مجھے تو بس مکارم اخلاق کی تکمیل کے لئے بھیجا گیا ہے پس جو مکارم سے تہی دامن ہو، وہ مکارم اخلاق کی کیسے تعلیم دے سکتا ہے؟! ماننا پڑے گا کہ رسول(ص) نے بعثت سے

____________________

۱۔قلم:۴۔

۲۔اصول کافی ج۲ ص ۶۶ ج۴۔

۸۳

پہلے ہی تمام مکارم حاصل کر لئے تھے تاکہ آپ کے لئے خلق عظیم کی صفت صحیح اور منطقی قرار پائے۔

بعثت سے پہلے رسول کی شخصیت مثالی، موزوں، معتدل مزاج ،روشن خیال اور مکارم اخلاق، اعلیٰ صفات اور شائستہ افعال کے حوالہ سے مشہور تھی۔

قرآن مجید کی وہ آیتیں جو کہ رسالی و پیغامی وحی اور رسول(ص) کی وحی فہمی کی طرف اشارہ کرتی ہیں ان سے واضح ہوتاہے کہ رسول باطمانیت اور صاحب ثبات و استقلال تھے اور خدا کی طرف سے آپ کے قلب پر جو امر و نہی ہوتی تھی آپ اسے تہہ دل سے قبول کرتے تھے ملاحظہ فرمائیں سورۂ شوریٰ کی وہ آیتیں جو ہم پہلے نقل کر چکے ہیں نیز درج ذیل آیتیں ملاحظہ ہوں:

۱۔( و النجم اذا هوی، ما ضل صاحبکم وما غویٰ، وما ینطق عن الهویٰ، ان هو الا وحی یوحیٰ، علمه شدید القویٰ، ذو مرة فاستویٰ،و هو بالافق الاعلیٰ، ثم دنا فتدلیٰ فکان قاب قوسین او ادنیٰ، فاوحیٰ الیٰ عبده ما اوحیٰ، ما کذب الفواد ما رأیٰ ) ( ۱ )

قسم ہے ستارے کی جب وہ ٹوٹا، تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا نہ بہکا اور وہ اپنی خواہش سے کلام بھی نہیں کرتا ہے اس کا کلام تووہ وحی ہے جو اس پر نازل ہوتی ہے ۔وہ اسے نہایت طاقت والے نے تعلیم دی ہے ۔حسن و جمال والا سیدھا کھڑا ہوا جبکہ وہ بلند ترین افق پر تھا پھر وہ قریب ہوا اور آگے بڑھا، یہاں تک کہ دوکمان یا اس سے بھی کم فاصلہ رہ گیا پھر خدا نے اپنے بندہ پر جو چاہا وحی کی دل نے اس بات کو جھٹلایا نہیںجو دیکھا۔

۲۔( قل انی علیٰ بینة من ربی ) ( ۲ )

کہہ دو کہ میں اپنے پروردگار کی طرف سے کھلی ہوئی نشانی رکھتا ہوں۔

۳۔( قل انما انا بشر مثلکم یوحیٰ الی ) ( ۳ )

کہ دو کہ میں بھی تمہاری طرح بشر ہوں لیکن میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔

____________________

۱۔ النجم: ۱ تا ۱۱ ۔

۲۔ انعام: ۵۷۔

۳۔ کہف:۱۱۰۔

۸۴

۴۔( قل انما انذرکم بالوحی ) ( ۱ )

کہہ دو کہ میں تو تمہیں وحی کے ذریعہ ڈراتاہوں۔

۵۔( قل انما یوحیٰ ال انما الٰهکم الٰه واحد ) ( ۲ )

کہہ دو کہ بس میرے اوپر وحی ہوتی رہتی ہے ۔ تمہارا خد ابس ایک ہے ۔

۶۔( ولا تعجل بالقرآن من قبل ان یقضی الیک وحیه و قل رب زدنی علماً ) ( ۳ )

اور آپ وحی تمام ہونے سے پہلے قرآن کے بارے میں عجلت سے کام نہ لیا کریں اور یہ کہا کریں پروردگار میرے علم میں اضافہ فرما۔

۷۔( و ان اهتدیت فبما یوحیٰ ) ( ۴ )

اگر میں نے ہدایت حاصل کر لی ہے تو یہ میرے رب کی وحی کا نتیجہ ہے۔

۸۔( قل هذه سبیلی ادعوا الیٰ اللّه علیٰ بصیرة انا و من اتبعنی ) ( ۵ )

کہہ دو کہ میرا یہی راستہ ہے کہ میں بصیرت کے ساتھ خدا کی طرف بلاتا ہوں اور میرے ساتھ میرا اتباع کرنے والا بھی ہے ۔

جب آپ پر قرآن مجید کی ان آیتوں کا مفہوم واضح ہو گیا تو اب آپ حدیث و تاریخ کے بعض ماخذ و مصادر کا مطالعہ فرما سکتے ہیں تاکہ ان کے محکم و متشابہات سے واقف ہو جائیں۔ امام احمد کہتے ہیں: ہم سے عبد الرزاق نے بیان کیا اور کہا: ہم سے معمر نے بیان کیا اور انہوں نے زہری سے ، انہوں نے عروہ سے اور انہوں نے عائشہ سے روایت کی ہے کہ عائشہ نے کہا:

____________________

۱۔ انبیاء :۴۵ ۔

۲۔ انبیائ: ۱۰۸ ۔

۳۔ طہ: ۱۱۴۔

۴۔یوسف:۱۰۸۔

۵۔ سبائ:۵۰۔

۸۵

سب سے پہلے رسول(ص) پر جو وحی ہوئی تھی وہ از راہ رویا ئے صادقہ تھی۔

آپ غار حراء میںگوشہ نشیں ہو جاتے اور وہیں عبادت کرتے تھے پھر جناب خدیجہ کے پاس لوٹ آتے تھے پھر ایسا ہی کرتے تھے یہاں تک کہ غار حراء میں آپ پروحی نازل ہوئی۔

مذکورہ روایت میں کوئی چیز قابل گرفت نہیں ہے سوائے اس کے کہ جب آپ(ص) پر وحی نازل ہوئی تو عائشہ موجود نہیں تھیں اور روایت میں اس بات کی وضاحت و تصریح نہیں ہے کہ یہ معلومات انہیں کہاں سے فراہم ہوئی ہیںبراہ راست انہوں نے رسول(ص) سے روایت نہیں کی ہے لیکن روایت میں کچھ تعجب خیز چیزیں بھی ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ پھر خدیجہ انہیں اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل بن اسد بن عبد العزیٰ بن قصی کے پاس لے گئیں زمانۂ جاہلیت میں وہ نصرانی تھے۔ عربی میں کتاب لکھتے تھے، انہوں نے انجیل کو عربی میں لکھا تھا وہ بہت ضعیف تھے، نابینا ہو گئے تھے جناب خدیجہ نے ان سے کہا: ابن عم اپنے بھتیجے سے بھی تو کچھ سنئے ورقہ نے کہا: بھتیجے! تمہیں کیا دکھائی دیتا ہے ، رسول(ص) نے جو دیکھاتھا بیان کیا۔ ورقہ نے کہا: یہ وہ ناموس(فرشتہ)ہے جو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا تھا۔اے کاش میں اس وقت تک زندہ رہتا جب آپ کی قوم آپ کو وطن سے نکالے گی۔ رسول(ص) نے فرمایا: کیا وہ مجھے نکالیں گے؟ ورقہ نے کہا: ہاں۔ کوئی شخص ایسی چیز نہیں لایا جیسی آپ لائے ہیں اگر میں اس زمانہ میں رہا تو میں ایک پشت پناہ کی حیثیت سے آپ کی مدد کروںگا۔

ورقہ بن نوفل مسلمان نہیں ہوا جبکہ وہ جانتا تھا کہ رسول(ص) کن حالات سے دوچار ہونگے اور یہ بھی جانتا تھا کہ آپ(ص) نبی(ص) ہیںلیکن صاحب رسالت و دعوت کے لئے بات واضح نہیں تھی اور انہیں اپنی رسالت کا علم نہیں تھا حالانکہ ورقہ اس بات سے مطمئن تھے کہ آپ(ص) نبی ہیں، اور قرآن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ رسول(ص) اپنے رب کی طرف سے واضح دلیل پر ہیں۔ اکثر آیتوں میں بھی یہی بیان ہوا ہے کہ لوگوں کے ہادی رسول ہی ہیں اور وہی واضح دلیل رکھتے ہیں اگر اس کے برعکس ہو تو صحیح نہیں ہے ۔ اس روایت سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ ورقہ نبی(ص) کی رسالت کو پہلے ہی سے جانتے تھے اور اسی لئے انہوں نے آپ کو اطمینان دلایا تھا۔

۸۶

یہ ہی وہ چیز ہے جس کی بنا پر اہل کتاب کو آپ(ص) کی رسالت سے چشم پوشی کرنے کا راستہ مل گیا کیونکہ وہ یہ کہتے ہیںکہ-تمہاری اس نص کے بموجب- تمہارے نبی اپنے رسول(ص) ہونے سے مطمئن نہیں تھے بلکہ ورقہ، جو کہ مسیحی تھے، کے اطمینان دلانے سے مطمئن ہوئے تھے،ان میں سے بعض نے تو، اس روایت کا سہارا لیتے ہوئے جو کہ حدیث کی کتابوں میں نقل ہوئی ہے اور مورخین کے درمیان مشہورہے یہاں تک کہہ دیا کہ ( محمد صلی اللہ علیہ و آلہ )ان قسیسوں میں سے ایک تھے جن کو ورقہ نے تعلیم و تربیت دی تھی۔ یہ عظیم رخنہ عقل ، قرآن اور سنت سے دور رہنے کی وجہ سے پیدا ہوا ہے ۔

جو شخص قرآن کی نظر میں انبیاء کی شخصیت کا علم رکھتا ہے اور قرآنی منطق سے آگاہ ہے کیا وہ اس بات کی تصدیق کر سکتا ہے ؟ وہ اس حدیث کے مضمون کو محض اس لئے کیسے صحیح تسلیم کر سکتا ہے کہ یہ حدیث زوجہ رسول(ص) عائشہ سے منسوب ہے؟!

اس روایت کے علاوہ تاریخ طبری میں ایک حدیث اور نقل ہوئی ہے جو قباحت میں اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اس کے مضمون ہی میں شک ہوتا ہے؛ یہاں کہا گیا ہے: رسول(ص) محو خواب تھے کہ فرشتہ آپ کے پاس آیا اور سورة علق کی ابتدائی آیتیں آپ کو تعلیم کیں اس کے بعد روایت کا سلسلہ آگے بڑھتا ہے اور خود رسول(ص) کی زبانی منقول ہے۔ پس میں نیند سے بیدار ہوا تو ایسا محسوس ہوا جیسے میرے صفحۂ دل پر کتاب لکھ دی گئی ہے ۔ پھر فرماتے ہیں: میری نظر میں شاعر یا مجنون سے بدتر کوئی اور نہیں تھا، میں انہیں ایک نظر نہیں دیکھ سکتا تھا۔ نیز فرمایا: میں شاعر و مجنون سے بہت دور رہتا تھا۔ ان کے بارے میں قریش مجھ سے ہرگز گفتگو نہیں کرتے تھے۔ میں پہاڑ کی بلندی پر چڑھ گیا میں چاہتا تھا کہ وہاں سے خود کو گرا کر خودکشی کر لوں تاکہ نفس کو آرام مل جائے چنانچہ میں اسی ارادہ سے نکلا اور جب پہاڑ پر پہنچا تو میں نے آسمان سے ایک آواز سنی وہ یہ تھی: اے محمد! تم اللہ کے رسول(ص) ہو اور میں جبرئیل ہوں۔( ۱ )

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۲۰۱تحقیق محمد ابو الفضل ابراہیم طبع دار سویدان بیروت۔

۸۷

نبی (ص) کے ذہنی خلفشار اور خوف کی یہ حالت ہو گئی تھی کہ آپ(ص) نے خود کشی کا ارادہ کر لیا تو خدا نے چاہا کہ آپ(ص) کو نبی(ص) ؛ لوگوں کی ہدایت کرنے والا اور انہیں حق کی طرف بلانے والا بنا دے ۔ کیا روایت کا مضمون آپ کی عظمت و شوکت کے مطابق ہے؟!

ہم کو چاہئے کہ نصوص کو قرآن و عقل نیز سنت کے محکمات پر پرکھیں تاکہ تاریخ سے معتبر اور موثق چیزیں اخذ کریں اور ان چیزوں کو چھوڑ دیںجو علمی تنقید کے سامنے ثابت نہیں رہ سکتیں۔

جب ہم کتاب خدا کی صریح آیتوں کو ملاحظہ کرنے کے بعد ان روایتوں کو دیکھتے ہیں جو حدیث و سیرت کی کتابوں میں آپ پر پہلی بار وحی نازل ہونے سے متعلق ہیں تو وہ نصوص قرآن کے خلاف نظر آتی ہیں، اس سے ہمیں اطمینان ہوجاتاہے کہ روایتوںمیں اسرائیلیات شامل ہو گئے ہیں۔

ہم چاہتے ہیں کہ مذکورہ روایتوں کا اس روایت سے موازنہ کریں جس کو علامہ مجلسی نے بحار الانوار میں نقل کیا ہے یہ حدیث وحی کے حصول کی آمادگی اور اس سے متعلق امداد اور رسول(ص) کی شخصیت و کردار کی عکاسی کرتی ہے۔

حضرت امام علی نقی سے روایت ہے :

اللہ کے رسول(ص) نے جب تجارت کے لئے شام جانا بند کر دیا اور جو کچھ تجارت کی وجہ سے نفع ہوا تھا اسے خیرات کر دیاتو اس کے بعدہر صبح کوکوہ حراء کی چوٹی پر تشریف لے جاتے اور وہاں سے خدا کی رحمت کے آثار، اس کی رحمت کے کرشمے اور اس کی حکمت کی بوقلمونیاں دیکھتے ، آسمان کے آفاق اور زمین کے اطراف پر نظر ڈالتے، سمندروں کو دیکھتے ان سے عبرت و معرفت حاصل کرتے اور اس طرح خدا کی عبادت کرتے جیسے عبادت کا حق ہے ۔ جب آپ پورے چالیس سال کے ہو گئے تو خدانے آپ(ص) کے قلب کو دیکھا، تو اسے تمام قلوب سے افضل زیادہ روشن ومنور زیادہ مطیع و خاشع اور خضوع کرنے والا پایا تو آسمان کے دروازوں کو کھول دیا تاکہ محمد(ص) انہیں دیکھیں، ملائکہ کو اجازت دیدی وہ نازل ہونے لگے

۸۸

محمد(ص) انہیں دیکھنے لگے، رحمت کو حکم ملا تو وہ ساقِ عرش سے محمد(ص) کے سروپیشانی پر نچھاور ہونے لگی ، روح الامین، طاوس ملائکہ کو دیکھا وہ آپ(ص) پر نازل ہوئے اور آپ کا شانہ پکڑ کر ہلایا اور کہا:

اے محمد! پڑھو! فرمایا: کیا پڑھوں؟! کہا: اے محمد(ص)!

( اقرأ باسم ربک الّذی خلق خلق الانسان من علق، اقرأ و ربّک الاکرم الّذی علّم بالقلم علّم الانسان ما لم یعلم ) ( ۱ )

اپنے رب کے نام سے پڑھو، جس نے پیدا کیا ہے ، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیدا کیا، پڑھو کہ تمہارا پروردگار بڑی شان والا ہے۔ جس نے قلم کے ذریعہ تعلیم دی۔ اس نے انسان کو اس چیز کی تعلیم دی جس کو وہ نہیں جانتا تھا۔

پھر جبرئیل نے آپ پر وحی کی جو کہ ان پر خدا نے کی تھی اور اس کے بعد پرواز کر گئے۔

محمد(ص) پہاڑ سے اترآئے لیکن خدا کی عظمت و جلالت کی وجہ سے آپ(ص) پر غشی اور حرارت و کپکپی کی سی کیفیت طاری تھی، آپ(ص) کواس بات کا شدید خوف تھا کہ اس سلسلہ میں قریش آپ کی تکذیب کریں گے اور آپ(ص) کو مجنون کہیں گے (معاذ اللہ) یہ کہیں گے کہ ان پر شیطان سوار ہو گیا ہے ۔ حالانکہ آپ(ص) خداکی مخلوق میں سب سے زیادہ عقلمند اور مخلوقات میں سب سے بلند و بالا تھے۔ آپ(ص) کی نظر میں شیطان اور مجنونوںکے افعال و اقوال نہایت ہی قابل نفرت تھے، پس خدا نے چاہا کہ آپ کا سینہ کشادہ اور دل جری ہو جائے تو خدا نے پہاڑوں، چٹانوں اورسنگریزوں کو گویائی عطا کر دی چنانچہ آپ جس چیز کے پاس سے گزرتے تھے وہ آپ سے اس طرح مخاطب ہوتی تھی:

''السّلام علیک یا محمد السّلام علیک یا ولیّ اللّه، السّلام علیک یا رسول اللّه''

اے محمد! آپ پر سلام ہو اے اللہ کے ولی آپ پر سلام، اے اللہ کے رسول آپ پر سلام، بشارت ہو کہ خدا نے آپ کو فضیلت دی ہے ، جمال و زینت بخشی ہے اور اولین و آخرین سب پر فوقیت و برتری دی ہے آپ(ص)

____________________

۱۔ العلق:۱۔۵۔

۸۹

اس بات سے نہ ڈریں کہ قریش آپ کو مجنون کہیں گے اورکہیں گے کہ آپ دین سے ہٹ گئے ہیں کیونکہ با فضیلت وہی ہے جس کو خدا فضیلت دے، کریم و سر فراز وہی ہے جس کو خدا سر فرازی عطا کرے پس آپ قریش اور عرب کے سر کشوں کی تکذیب سے خوف نہ کھائیں، عنقریب آپ کا رب آپ(ص) کو انتہائی بلندیوں پر پہنچا دے گا اور اعلیٰ مراتب پر فائز کرے گا اور آپ(ص) کے وصی حضرت علی کے سبب آپ(ص) کے چاہنے والوں کو خوش کرے گا اور عنقریب آپ کے بابِ حکمت علی بن ابی طالب کے ذریعہ آپ کے علوم کو پوری دنیا میں پھیلا دے گا۔ جلدہی وہ آپ کو ایک بیٹی فاطمہ عطا کرے گااس کے بطن اور صلب علی سے اہل جنت کے سردار حسن و حسین کو پیدا کرے گا آپ کے دین کو دنیا میں پھیلا دے گا ، آپ کے اور آپ کے بھائی کے دوستوں کے اجر کو عظیم قراردے گا، آپ(ص) کے ہاتھ میں لوائے حمد دے گا آپ اسے اپنے بھائی علی کو عطا کر یں گے چنانچہ ہر نبی صدیق اور شہید اس کے نیچے ہوگا۔ اور علی ان سب کو جنت کی طرف لے جائیںگے۔( ۱ )

جب ہم اس روایت اور طبری کی روایت کا موازنہ کرتے ہیں تو ہمیں دونوں کے لحاظ سے رسول(ص) کی ابتدائے بعثت اور بعثت کے بعد کی زندگی میں واضح فرق نظر آتا ہے ، طبری کی روایت کے لحاظ سے بعثت سے پہلے آپ کی زندگی اضطرابی و بے چینی و بے یقینی کی زندگی ہے -ظاہر ہے کہ اضطراب وبے چینی کا سبب نادانی ہوتی ہے -جبکہ بحار الانوار کی روایت کی رو سے آپ کی زندگی میں ابتدا ہی سے اطمینان و سکون اور علم نظر آتا ہے۔ آپ کی زندگی کی یہی تصویر، قرآن و حدیث اور تاریخ کے محکمات و معیارکے مطابق ہے ۔

____________________

۱۔ بحار الانوار ج۱۸ ص ۲۰۷ و ۲۰۸۔

۹۰

دوسری فصل

مکہ کی زندگی میں تحریک رسالت کے مراحل

۱۔ ایمانی خلیوں کی ساخت

پہلی وحی کے نازل ہونے کے بعد، قرآنی آیتیں بتدریج آ پ پر نازل ہونے لگیں، شروع میںسورۂ مزمل کی ابتدائی آیتیں نازل ہوئیں تو رسول(ص) نے اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت اور اسلامی معاشرہ کی تشکیل کے لئے درج ذیل اقدامات کا ارادہ کیا، آپ(ص) کے لئے ضروری تھا کہ پیش آنے والی مشکلوں اور دشواریوں سے نمٹنے کے لئے خود کو آمادہ کر یں اور عزم بالجزم کے ساتھ کام کریں۔

سب سے پہلے آپ نے اپنے گھر والوں کو اسلام کی دعوت دی۔ جناب خدیجہ کا رسول(ص) کی تائید کرنا تو فطری بات تھی کیونکہ انہوں نے آپ(ص) کے ساتھ ایک طویل عمر گزاری تھی اور آپ(ص) کے اندر اخلاق کی بلندیوں اور روح کی پاکیزگی و بلند پروازی کا مشاہدہ کیا تھا۔

اپنے چچا زاد بھای علی بن ابی طالب کو دعوت اسلام دینے میں بھی آپ(ص) کو زحمت نہیں کرنی پڑی کیونکہ ان کے سینہ میں طیب و طاہر دل تھا۔ علی نے کبھی بتوں کی پرستش نہیں کی تھی چنانچہ انہوں نے فوراً نبی(ص) کی تصدیق کی اس طرح آپ مسلم ِ اول قرار پائے۔( ۱ )

پھر رسول(ص) کے لئے حضرت علی کاا نتخاب بالکل صحیح تھا کیونکہ ان میں طاعت و فرمانبرداری کا جو ہر بھی تھا اور

____________________

۱۔ السیرة النبویہ، ابن ہشام ج۱ص ۲۴۵، باب علی بن ابی طالب۔

۹۱

وہ قوی و شجاع بھی تھے اور رسول(ص) کو ایک مددگار و پشت پناہ کی شدید ضرورت تھی، حضرت علی تبلیغِ رسالت میں شروع ہی سے ایک پشت پناہ کی حیثیت رکھتے ہیں۔ آپ رسالت کی چشم بینا اور تبلیغ کی زبان گویا تھے۔

سب سے پہلے آپ ہی نے اسلام ظاہر کیا کہ آپ رسول(ص) کے ساتھ غار حراء کی تنہائی میںبھی رہتے تھے، آپ کے بعد جناب خدیجہ ایمان لائیں اور سب سے پہلے انہیں دونوں نے خدا کی وحدانیت کا اقرار کرکے رسول(ص) کے ساتھ نماز پڑھی یہ دونوں بھی رسول(ص) کے مانند، شرک و ضلالت کی طاقتوں کیلئے( ۱ ) رکاوٹ تھے ان کے بعد زید بن حارثہ مسلمان ہوئے یہ نیک لوگوں کی جماعت تھی اور یہ وہ افراد تھے جن سے اسلامی معاشرہ وجود میں آیا۔

۲۔ مکی عہد کے ادوار

رسول(ص) کی تبلیغ کم سے کم تین ادوار سے گزری ہے تب جاکے پہلی اسلامی حکومت کی تشکیل کے حالات فراہم ہوئے وہ ادوار درج ذیل ہیں:

۱۔ پہلے دور میں اسلامی رسالت کا مرکز و پائے تخت بنایا بعض لوگوں نے اس دور کو مخفیانہ تبلیغ، یا دعوتِ خاص کے عنوان سے بھی یاد کیا ہے ۔

۲۔ دوسرے دور میں آپ(ص) نے محدود پیمانہ پر قرابتداروں کو اسلام کی دعوت دی اور محدود طریقہ سے بت پرستوں سے مقابلہ کیا۔

۳۔ اس دور میں آپ(ص) نے عام طریقہ سے جنگ کی۔

۳۔اوّلین مرکز کی فراہمی کا دور

جب خداوند عالم نے اپنے نبی(ص) کو یہ حکم دیا کہ قیام کریں اور لوگوں کو ڈرائیں( ۲ ) تو آپ(ص) نے لوگوں کو اسلام

____________________

۱۔ اسد الغابہ ج۴ ص ۱۸، حلیة الاولیائ، ج۱ ص۶۶، شرح بن ابی الحدید ج۳ ص ۲۵۶، مستدرک الحاکم ج۳ ص ۱۱۲۔

۲۔سورۂ مدثر کی ابتدائی آیتیں۔

۹۲

قبول کرنے کی دعوت دیتے ہوئے ایک ایسی با ایمان جماعت بنانے کی کوشش کی جو معاشرہ کی ہدایت کے لئے مشعل بن جائے۔ اس طرح تقریباً تین سال گذر گئے۔ رسالی و پیغامی تحریک، خطرات و مشکلات میںلپٹی ہوئی تھی لیکن رو بہ استحکام و تکامل پذیر تھی۔ اس مرحلہ میں رسول(ص) کا طرز تبلیغ یہ تھا کہ آپ نے اپنے پیرئوں کو ان کے پہلے رجحان جغرافائی اعتبار سے مختلف قسم کے اختیارات ان کے سپرد کئے تاکہ آپ کی رسالت وسعت پذیر ہو اور جہاں تک ممکن ہو سکے معاشرہ میں اس کو فروغ دیا جائے۔بعثت کے ابتدائی زمانہ میں کچلے ہوئے افراد اور ناداروں نے آپ کی دعوت اسلام کو قبول کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلام اعلیٰ زندگی اور امن و امان کا پیغام لایا تھا۔ شرفاء میں ان لوگوں نے آپ کی دعوت کو قبول کیا کہ جو پاکیزہ سرشت اور عقل سلیم کے حامل تھے۔

جابر و سرکش قریش اس پیغام کی ہمہ گیری اور وسعت پذیری کا اندازہ نہیں کر سکے بلکہ انہوں نے یہ خیال کیاکہ یہ تحریک دیرپا نہیں ہے، چند دنوں کے بعد مٹ جائے گی لہذا انہوں نے اس تحریک کو اس کے ابتدائی زمانے ہی میں مٹانے کے سلسلہ میں کوئی موثر قدم نہیں اٹھایا۔

رسول(ص) نے اسی مختصر وقت میں اپنے اوپر ایمان لانے والوں میں کچھ کو فعال بنایا اور اس پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری ان کے سپرد کی تاکہ یہ پیغام دوسرے لوگوں تک پہنچ جائے، یہ لوگ اپنے اسلام کے بارے میں بڑے حساس اور اپنے ایمان پر یقین رکھنے والے تھے انہوں نے شرک کے اس من گھڑت عقیدہ و طریقہ کو ٹھکرا دیا تھا جس پر ان کے آباء و اجداد تھے اور ان کے اندر ایسی صلاحیت و طاقت پیدا ہو گئی تھی کہ یہ رسالت کے آثار کوعلیٰ الاعلان اپنا سکتے تھے۔

روایت ہے کہ اس عہد میں نماز عصر کے وقت رسول(ص) اور ان کے اصحاب مختلف گروہوں میں چلے جاتے تھے اکیلے اور دو، دو کرکے نماز پڑھتے تھے۔

۹۳

چنانچہ ایک مرتبہ دو مسلمان مکہ کے ایک خاندان کے درمیان نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کے دوا فراد نے انہیں اس سلسلہ میںطعن و تشنیع کی ، نتیجہ میں مار پیٹ ہوئی اور یہ دونوںواپس لوٹ آئے۔( ۱ )

اس کے بعد آئے دن مشرکوں سے ایسے ٹکرائو ہونے لگے تو سلسلہ عبادت کو جاری رکھنے کے لئے رسول(ص) چھپ کر اور قریش کی نظر سے بچ کر عبادت کرنے لگے اس زمانہ میں زید بن ارقم کا گھر مسلمانوں کے لئے بہترین پناہ گاہ تھا۔( ۲ )

۴۔ پہلا مقابلہ اور قرابتداروں کو ڈران

جب جزیرہ نما عرب کے اطراف میں اسلام کی خبر عام ہوگئی اور جب ایک مومن گروہ روحی استقلال کا مالک و حامل ہو گیااور اپنے روحی استحکام کے لحاظ سے معرکہ میں اترنے کا اہل بن گیا تو اسلام کی دعوت کو مرحلۂ اعلان میں داخل ہونے کی منزل تھی اور اس مرحلہ کا پہلا قدم اپنے قرابتداروںکو ڈرانا تھا کیونکہ اس معاشرہ پر قبائلی رسم و رواج کی چھاپ تھی لہٰذا بہتر یہی تھا کہ دوسروں کو ڈرانے سے پہلے اپنے قبیلے والوں کو ڈرائیں پس خدا کا حکم نازل ہوا۔

( وانذر عشیرتک الاقربین ) ( ۳ ) اے رسول(ص)!اپنے قرابتداروںکو ڈرائو، اس آیت کے نازل ہونے کے بعد آنحضرت (ص) نے اپنے خاندان والوں کو بلایا اور ان کے سامنے رسالت اور مقصد نیز مستقبل میں رسالت کی وضاحت فرمائی ان لوگوں میں وہ بھی شامل تھا جس سے خیر کی امید اور ایمان کی پوری توقع تھی، جب ابو لہب نے کھڑے ہو کر کھلم کھلا اپنی دشمنی کا اظہار کیا تو ابو طالب نبی(ص) کی پشت پناہی اور ان کی رسالت کی حمایت میں اٹھ کھڑے ہوئے۔

روایت ہے کہ جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو رسول(ص) نے حضرت علی سے فرمایا کہ کھانے کا بند و بست کرو، کھانا تیار ہو گیا تو آپ(ص) نے اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، یہ چالیس اشخاص تھے۔ رسول(ص) نے ابھی اپنی

____________________

۱۔ انساب الاشراف ج۱ ص۱۱۷، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۴۵۶۔

۲۔ سیرت حلبیہ ج۱ ، اسد الغابہج۴ ص ۴۴۔

۳۔شعرائ: ۲۱۴۔

۹۴

گفتگو شروع ہی کی تھی کہ آپ(ص) کے چچا عبد العزیٰ-ابولہب-نے آپ کی گفتگو کا سلسلہ منقطع کر دیا اور آپ (ص) کو تبلیغ کرنے اور ڈرانے سے روکا۔ رسول(ص) کا مقصد پورا نہ ہو سکا دعوت میں آنے والے چلے گئے دوسرے دن رسول(ص) نے پھر حضرت علی کو کھانا تیار کرنے کا حکم دیا اور اپنے خاندان والوں کو دعوت دی، جب وہ کھانا کھا چکے تو آپ(ص) نے انہیں مخاطب کرکے فرمایا:

''یا بنی عبد المطلب انی وا اللهِ ما اعلم شاباًفی العرب جاء قومه بافضل مما جئتکم به انی جئتکم بخیر الدنیا والأخرة و قد امرنی اللّه عزّ و جلّ ان ادعوکم الیه فایکم یؤمن بی و یؤازرنی علیٰ هذا الامر علیٰ ان یکون اخی و وصی و خلیفتی فیکم؟''

اے عبد المطلب کے بیٹو! خدا کی قسم مجھے عرب میں کوئی ایسا جوان نظر نہیں آتا جو اپنی قوم کے لئے اس سے بہتر پیغام لایا ہو جو میںتمہارے لئے لایا ہوں، میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی نیکیاں لایا ہوں خدا نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمہیں اس کی طرف بلائوں اب یہ بتائو کہ اس سلسلہ میں تم میں سے میری مدد کون کرے گا؟ تاکہ وہ تمہارے درمیان میرا بھائی، میرا وصی اور میرا خلیفہ بن جائے۔

آپ(ص) کی بات کا کسی نے کوئی جواب نہ دیا صرف علی ابن ابی طالب یہ کہتے ہوئے اٹھے: ''انا یا رسول اللّہ اکون وزیرک علیٰ ما بعثک اللّہ'' اے اللہ کے رسول(ص) جس چیز پر خدانے آپ کو مبعوث کیا ہے میںاس میں آپ کا وزیر ہوں۔ رسول(ص) نے فرمایا: بیٹھ جائو! اور پھر آنحضرت (ص) نے وہی جملہ دہرایا اس بار بھی کسی نے کوئی جواب نہیں دیا علی نے آپ کی آواز پر لبیک کہا اور آپ کی مدد و پشت پناہی کا اعلان کیا تو رسول(ص) نے اپنے خاندان کے لوگوں کو مخاطب کرکے فرمایا:''ان هذا اخی و وصی و خلیفتی فیکم ( او علیکم) فاسمعوا له و اطیعوا'' بے شک یہ میر ابھائی ہے اور تمہارے درمیان یہ میرا وصی و خلیفہ ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو، اس کے بعد سارے حاضرین اٹھ گئے

۹۵

اورمذاق اڑاتے ہوئے ابو طالب کو مخاطب کرکے کہنے لگے: تمہیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔( ۱ )

۵۔ دعوت عام

پہلے مرحلہ میں رسول(ص) نے بہت احتیاط سے کام لیا اور براہ راست مشرکوں اور بت پرستوں کے مقابلہ میں آنے سے پرہیز کرتے رہے اسی طرح مسلمانوںنے بھی احتیاط سے کام لیا کیونکہ اس سے خود آپ کے لئے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے خطرہ بڑھ جاتا۔

جب آپ (ص) نے بنی ہاشم کو نئے دین کی طرف بلایا تو عرب قبائل میں اس کو بہت اہمیت دی گئی، اس سے ان پر یہ بات آشکار ہو گئی کہ محمد(ص) نے جس نبوت کا اعلان کیا ہے اور جس پر بعض لوگ ایمان لا چکے ہیں وہ بر حق و سچی ہے ۔

بعثت کے پانچ یا تین سال کا عرصہ گزر جانے کے بعد خدا کی طرف سے آپ کو یہ حکم ہواکہ رسالت الٰہیہ کا کھل کے اعلان کریںاور تمام لوگوں کو خدا سے ڈرائیںتاکہ دعوت اسلام عام ہو جائے اور چند افراد میں محدود نہ رہے ، ابھی تک خفیہ طریقہ سے دعوت دی جاتی تھی اب علیٰ الاعلان دعوت دی جائے۔ لہذا آپ(ص) نے تمام لوگوں کو اسلام قبول کرنے اور ایک اکیلے خدا پر ایمان لانے کی دعوت دی ۔ خدا نے درج ذیل آیت میں اپنے نبی(ص) سے یہ وعدہ کیا کہ دشمنوں اور مذاق اڑانے والوں کے مقابلہ میں ہم تمہیں استوار و ثابت قدم رکھیں گے چنانچہ ارشاد ہے :

( فاصدع بما تؤمروا عرض عن المشرکین، انا کفیناک المستهزئین ) ( ۲ )

جس چیز کا آپ کو حکم دیا جا رہا ے اسے کھل کے بیان کیجئے اور مشرکین کی قطعاًپروانہ کیجئے آپ کامذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔

____________________

۱۔ یہ حدیث بہت سی کتابوں میں مرقوم ہے سب کی عبارتیں ملتی جلتی ہیں، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۴، سیرة حلبیہ ج۱ ص ۴۶۰ شرح نہج البلاغہ ج۱۳ ص۲۱۰، حیات محمد ص ۱۰۴، مولفہ محمد حسین ہیکل طبع اول۔

۲۔ حجر: ۹۴ و ۹۵۔

۹۶

رسول(ص) نے حکم خدا کے تحت اور عزم بالجزم کے ساتھ علیٰ الاعلان تبلیغ شروع کی ، شرک و شر پسند طاقتوں کو چیلنج کیا، کوہِ صفا پر تشریف لے گئے اور قریش کو آواز دی وہ آپ(ص) کے پاس آئے تو فرمایا:

''ارائیتکم ان اخبرتک ان العدو مصبحکم او ممسیکم ما کنتم تصدقوننی'' ( ۱ )

اگر میں تمہیں یہ خبر دوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے تمہارے دشمن نے پڑائو ڈال رکھا ہے جو صبح ہوتے ہی تم پر ٹوٹ پڑے گا تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟

انہوں نے کہا: ہاں! تو آپ(ص) نے فرمایا: فانی نذیر لکم بین ید عذاب شدید، آگاہ ہو جائو میں تمہیں شدید عذاب سے ڈراتاہوں۔ یہ سن کر ابو لہب کھڑا ہوا تاکہ آنحضرت(ص) کی باتوں کی تردید کرے کہنے لگا: وائے ہوتم پر کیا تم نے ہمیں یہی کہنے کے لئے بلایا ہے؟ اس وقت خدا کی طرف سے یہ آیت نازل ہوئی:( تبت یدا ابی لهب وتب ) ( ۲ ) ابو لہب کے ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ ہلاک ہو جائے۔

یہ بہت بڑا خطرہ تھا جس نے قریش کو پریشان کر دیا تھا، کیونکہ یہ ان کے تمام معتقدات کے خلاف کھلا چیلنج تھا اور انہیں رسول(ص) کے حکم کی مخالفت سے ہوشیار کر دیا گیا تھا۔ نئے دین کا معاملہ اہل مکہ کے لئے واضح ہو گیا بلکہ پورے خطۂ عرب میں آشکار ہو گیا اور انہیں یہ محسوس ہوا کہ اب انسانیت کی ڈگر میں حقیقی انقلاب رونما ہونے والا ہے اب آسمانی دستورات کے مطابق انسانیت کے اقدار، معیار اور اجتماعی حیثیت بلند ہو گی۔ شر اور برائی کو جڑ سے اکھاڑ دیا جائیگا، شرک و تمرد اور سرکشی کے پیشوائوں سے مقابلہ، حقیقی مقابلہ تھا، اس میں اتفاق و اشتراک کے پہلو نہیں تھے۔

اسی عہد میں کچھ عرب اور کچھ غیر عرب لوگوں نے اسلام قبول کر لیا تھا، اس طرح مسلمانوں کی تعداد چالیس ہو گئی تھی اور قریش اس نو خیز تحریک کو محدود نہیں کر پارہے تھے کیونکہ مومنوں کا تعلق مختلف قبائل سے تھا، اس لئے قریش نے ابتداء میں صلح آمیز رویہ اپنایا، ابو طالب نے انہیں شائستہ طریقہ سے سمجھایا اور وہ واپس لوٹ گئے۔( ۳ )

____________________

۱۔ المناقب ج۱ ص ۴۶، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۳۔ ۲۔ السد ،۱

۳۔سیرة ابن ہشام ج۱ ص ۲۶۴ و ۲۶۵، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۶۔

۹۷

تیسری فصل

رسول(ص) کے بارے میں بنی ہاشم کا موقف

ابو طالب رسول(ص) اور رسالت کا دفاع کرتے ہیں

رسول(ص) تبلیغ رسالت سے دست بردار نہیں ہوئے بلکہ آپ کی فعالیت وکا رکردگی میں وسعت پیدا ہو گئی، آپ کا اتباع کرنے والے مومنوں کی فعالیت میں بھی اضافہ ہوا، لوگوں کی نظر میں یہ نیا دین پر کشش بن گیا، اس سے قریش چراغ پا ہو گئے اور اسلام کے بڑھتے ہوئے قدم روکنے کے لئے شازشیں کرنے لگے وہ پھر ابو طالب کی خدمت میں آئے اور ایک بار پھر انہوں نے لالچ دی کہ وہ رسول(ص) کو تبلیغ رسالت سے دست بردار ہو جانے اور اپنا دین چھوڑ نے پر راضی کریں، جب اس سے کام نہ چلا تو انہوں نے آپ کو دھمکیاں دیں اور کہنے لگے: اے ابو طالب! ہمارے درمیان آپ کا بڑا مرتبہ ہے عظیم قدر و منزلت ہے ہم نے آپ سے یہ گزارش کی تھی کہ اپنے بھتیجے کو روکئے لیکن آپ نے انہیں نہیں روکا ، خدا کی قسم! اب ہم یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ ہمارے آباء و اجداد کو برا کہا جائے، ہمیں بے وقوف کہا جائے اور ہمارے خدائوں کو برا کہا جائے، آپ انہیں ان باتوں سے منع کریں یا ہمیں اور انہیں چھوڑ دیں یاوہ نہیں یاہم نہیں۔

بنی ہاشم کے سید و سردارجناب ابو طالب قریش کے محکم ارادہ کو سمجھ گئے اور یہ محسوس کیا کہ وہ میرے بھتیجے اور ان کی رسالت کو مٹا دینا چاہتے ہیں لہذا انہوں نے ایک یہ کوشش کی کہ رسول(ص) نرم رویہ اختیار کریں تاکہ قریش کا غصہ ٹھنڈا ہو جائے لیکن رسول(ص) نے فرمایا: میں حکمِ خدا پر عمل کرتے ہوئے تبلیغ رسالت کرتا رہوںگا خواہ حالات کتنے ہی سنگین ہو جائیں خواہ انجام کچھ بھی ہو۔

۹۸

''یا عم واللّٰه لو وضعوا الشَّمس فی یمینی و القمر فی شمالی علیٰ ان اترک هذا الامر حتی یظهره اللّٰه او اهلک فیه ما ترکته''

اے چچا خدا کی قسم اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ دیں اور چاہیں کہ میں تبلیغ رسالت چھوڑ دوں تو میں اسے نہیں چھوڑونگا یہاں تک کہ خدا اسے کا میابی سے ہمکنار کرے یا اس میں میری جان ہی چلی جائے۔

پھر آپ(ص) کی آنکھوں میں آنسو بھر آئے آپ(ص) چلنے کے لئے کھڑے ہوئے اس صورت حال سے ابو طالب کا دل بھر آیا ، کیونکہ وہ اپنے بھتیجے کی صداقت و سچائی کو جانتے تھے ان پر ایمان رکھتے تھے، لہذا بھتیجے کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:''اذهب یابن اخی فقل ما احببت فواللّٰه لا اسلمک لشیء ابدا'' بیٹے جائو! اور جیسے تمہارا دل چاہے تبلیغ کرو خدا کی قسم! میں کسی بھی چیز کے عوض تمہیں ان کے حوالے نہیں کروںگا۔

قریش اپنی سرکشی و گمراہی سے باز نہیں آئے پھر ابو طالب کے پاس گئے اور انہیں رسول(ص) کو چھوڑ نے پر اکسانا چاہا کہنے لگے: اے ابو طالب!یہ عمارہ بن ولید قریش کا حسین و جمیل جوان ہے اسے آپ لے لیجئے یہ آپ کی مدد کرے گا۔ اسے آپ اپنا بیٹا سمجھئے اور اپنے بھتیجے کو ہمارے سپرد کر دیجئے کہ جس نے آپ کی قوم میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے ، اور انہیں بیوقوف بتاتا ہے ہم اسے قتل کر دیں گے۔ اس طرح آپ کو مرد کے بدلے مرد مل جائیگا ابو طالب نے ان کی اس ظالمانہ پیشکش کوٹھکرا دیا۔ فرمایا: تم نے بہت بری پیشکش کی ہے تم مجھے اپنا فرزند دے رہے ہو تاکہ میں تمہارے لئے اس کی پرورش کروں اور اس کے عوض میں اپنا بیٹا تمہیں دیدوں تاکہ تم اسے قتل کردو، خدا کی قسم !یہ کبھی نہ ہوگا-ابو طالب کا یہ جواب سن کرمطعم کہنے لگا:ابو طالب ! خدا کی قسم آپ کی قوم نے انصاف کی بات کہی ہے اور ان مکروہ باتوں سے بچنا چاہا ہے جسے آپ دیکھ رہے ہیں، اصل خطرہ یہ ہے کہ وہ آپ کے خلاف کوئی اقدام نہ کر بیٹھیں، ابو طالب(ص) نے مطعم کوجو اب دیا خدا کی قسم! تم لوگوں نے میرے ساتھ انصاف نہیں کیا ہے

۹۹

بلکہ تم نے مجھے چھوڑ نے اور مجھ پر کامیاب ہونے کا راستہ اختیار کیا ہے ۔ اس پر ان لوگوں نے کہا: اب آپ جو چاہیں سو کریں۔( ۱ )

ابو طالب کی ان باتوں سے قریش کو یہ یقین ہو گیا کہ وہ ابو طالب کو اس بات پر راضی نہیں کرپائیں گے کہ وہ رسول(ص) کو چھوڑ کر الگ ہو جائیں، دوسری طرف جب ابو طالب نے قریش کی نیت خراب دیکھی تو انہوں نے ان سے بچنے کی تدبیر سوچی تاکہ بھتیجے پر آنچ نہ آئے اور ان کی رسالت کی تبلیغ متاثر نہ ہو۔ چنانچہ انہوں نے بنی ہاشم اور اولادِ عبد المطلب سے فرمایا کہ محمد(ص) سے خبردار رہنا دیکھو ان پرآنچ نہ آئے ، ابو طالب کی اس بات پر ابولہب کے علاوہ سب نے لبیک کہا ابو طالب نے بنی ہاشم کے اس موقف کو بہت سراہا، بنی(ص) کی حفاظت و حمایت کرنے کے سلسلہ میں انہیں شجاعت دلائی۔( ۲ )

قریش کا موقف

بعثت کے چار سال پورے ہو گئے کہ اس عرصہ میں قرآن مجید کی بہت سی آیتیں نازل ہو چکی تھیں ان میں عظمتِ توحید اور خدا کی وحدانیت کی طرف دعوت، اعجاز بلاغت اور مخالفوں کے لئے دھمکیاںتھیں یہ آیتیںمومنوںکے دلوں میں راسخ اور ان کی زبان پر جاری تھیں، دور و نزدیک سے لوگ انہیں سننے کے لئے آتے تھے۔

تبلیغ ِ رسالت کو روکنے کے لئے قریش نے ابھی تک جتنے حربے استعمال کئے تھے وہ سب ناکام ہو چکے تھے، انہوں نے رسول(ص) کو سلطنت و بادشاہت کی لالچ دینے، بے پناہ مال سے نوازنے ، اپنا سردار بنانے کی پیش کش کی لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہ ہوئے تو انہوں نے تبلیغِ رسالت کو روکنے کے لئے متعدد حربے استعمال کرنے کا منصوبہ بنایا۔ چونکہ فصیح و بلیغ کلام کا دلوں پر گہر ا اثر ہوتا ہے اس لئے قریش نے پہلا قدم تویہ اٹھایا کہ رسول(ص) کو عام لوگوں سے نہ ملنے دیا جائے، اس طرح وہ ان کے سامنے اسلام پیش نہیں کر سکیں گے ۔ اور جو لوگ مکہ میں آتے ہیں انہیں قرآن کی آیتیں نہ سننے دی جائیں، اس کے علاوہ انہوںنے آپ(ص)

____________________

۱۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۰۹، سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۸۶۔

۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۰، سیرت حلبیہ ج۱ ص ۲۶۹۔

۱۰۰

کے دعوائے نبوت کے صحیح ہونے میں شک پیدا کرنے کی کوشش کی، وہ یہ سمجھے تھے کہ رسول(ص) پر یہ حالت مرض کی بنا پر طاری ہوتی ہے لہذا اس کا علاج کرایا جائے، رسول(ص) نے انہیں ایسا جواب دیا جس میں ان کے لئے سراسر بھلائی، عزت و شرف اور نجات تھی۔ فرمایا:''کلمة واحدة تقولونها تدین لکمبها العرب و تؤدی الیکم بها العجم الجزیة...'' وہ ایک بات کہہ دو جس کے ذریعہ عرب تمہارے قریب آجائیں گے اور اسی سبب غیر عرب تمہیں جزیہ دیں گے...آپ کی اس بات سے وہ ہکا بکا رہ گئے انہوں نے یہ سمجھا یہی آخری حربہ ہے ، کہنے لگے: ہاں خدا آپ کا بھلا کرے۔

آپ(ص) نے فرمایاکہہ دو:''لاالٰه الا اللّه...'' اس دو ٹوک جواب نے انہیں رسوا کر دیا چنانچہ وہ ناک بھوں چڑھاکر اٹھ گئے۔ اور کہنے لگے: ''اجعل الالٰھة الٰھاً واحداً ان ھذا لشیء عجاب '' کیا انہوں نے سارے خدائوں کو ایک خدا قرار دیدیا ہے یہ تو عجیب بات ہے ۔( ۱ )

اب قریش نے یہ طے کیا کہ وہ رسول(ص) اور ان کا اتباع کرنے والوں کی اہانت کریں گے، جن کی تعداد روز بروز بڑھتی ہی جا رہی ہے ، وہ ان کی دعوت کو اپنے اندر راسخ کر رہے ہیں، چنانچہ ابولہب اور اس کی بیوی ام جمیل آپ(ص) کے دروازہ پر کانٹے ڈالدیتی تھی کیونکہ آپکا گھر اس کے گھر کے پاس ہی تھا( ۲ ) ابوجہل آپ(ص) کو پریشان کرتا تھا، آپ(ص) کو برا کہتا تھا۔ لیکن خدا ظالموںکی گھات میں ہے جب آنحضرت(ص) کے چچا جناب حمزہ کو یہ معلوم ہوا کہ ابو جہل نے رسول(ص) کی شان میں گستاخی کی ہے تو انہوں نے قریش کے سربرآوردہ لوگوں کے سامنے ابو جہل کو اس کی گستاخی کا جواب دیا اور اپنے مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا اوران کے مجمع کو دھمکی دی کہ اب تم رسول(ص) کو پریشان کر کے دکھانا۔( ۳ )

____________________

۱۔ سیرت حلبیہ ج۱ ص ۳۰۳، تاریخ، طبری ج۲ ص ۴۰۹۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۸۰۔

۳۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۱۶۔

۱۰۱

کفر عقل کی بات نہیں سنتا

قریش نے یہ سوچا کہ ہم چالاکیوں کے باوجود محمد(ص) کو تبلیغ رسالت سے باز نہیں رکھ سکے، اور وہ یہ بھی دیکھ رہے تھے کہ لوگ اسلام کی طرف آپ(ص) کی دعوت کو قبول کر رہے ہیں تو اس وقت قریش کے سربرآوردہ افراد کے سامنے عتبہ بن ربیعہ نے یہ بات رکھی کہ میں محمد(ص) کے پاس جاتا ہوں اور انہیں دعوت اسلام سے باز رکھنے کے سلسلہ میں گفتگو کرتا ہوں۔ عتبہ آنحضرت (ص) کے پاس گیا ۔اس وقت آپ مسجد الحرام میں تنہا بیٹھے تھے، عتبہ نے پہلے تو آپ(ص) کی تعریف کی اور قریش میں جو آپ(ص) کی قدر و منزلت تھی اسے سراہا پھر آپ(ص) کے سامنے اپنا مدعابیان کیا نبی(ص) خاموشی سے اس کی بات سنتے رہے۔ عتبہ نے کہا: بھتیجے اگر تم اس طرح (نئے دین کی تبلیغ کے ذریعہ) مال جمع کرنا چاہتے ہو تو ہم تمہارے لئے اتنا مال جمع کر دیں گے کہ ہم میں سے اتنا مال کسی کے پاس نہ ہوگا اور اگر اس سے تمہارا مقصد عزت و شرف حاصل کرنا ہے تو ہم تمہیں اپنا سردار بنا لیتے ہیں اور تمہارے کسی حکم کی مخالفت نہیں کریں گے اور اگرتمہیں بادشاہت چاہئے تو ہم تم کو اپنا بادشاہ تسلیم کرتے ہیں اور اگرتم کوئی ایسی چیز دکھائی دیتی ہے کہ جس سے خودکو نہیں بچا سکتے تو ہم اپنا مال خرچ کرکے تمہاراعلاج کرادیں یہاں تک کہ تم اس سے شفاپا جائو۔ جب عتبہ کی بات ختم ہو گئی تو رسول(ص) نے فرمایا: اے ابو ولید! کیاتمہاری بات پوری ہو گئی؟ اس نے کہا: ہاں! آپ(ص) نے فرمایا تو اب میری سنو! پھر آپ(ص) نے خدا وند عالم کے اس قول کی تلاوت کی:

( حم تنزیل من الرحمن الرحیم ، کتاب فصّلت آیاته قراناً عربیاً لقوم یعلمون،بشیراً و نذیراً فاعرض اکثرهم فهم لا یسمعون، قالوا قلوبنا فی اکنّة مما تدعوننا الیه ) ( ۱ )

حم۔ یہ رحمن رحیم خدا کی نازل کی ہوئی ہے ۔ اس کتاب کی آیتیں تفصیل کے ساتھ بیان کی گئی ہیں یہ سمجھنے والی قوم کے لئے عربی کا قرآن ہے ۔ اس قرآن کو بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر نازل کیا گیا ہے لیکن اکثریت نے اس سے رو گردانی کی ہے۔ کیا وہ کچھ سنتے ہی نہیں ہیں اور کہتے ہیںکہ ہمارے دل ان

____________________

۱۔ فصلت ۴۱ آیت ۱ تا ۵۔

۱۰۲

باتوں سے پردے میں ہیں جن کی تم دعوت دے رہے ہو۔

رسول(ص) آیتیں پڑھتے رہے عتبہ سنتا رہا اس نے اپنے ہاتھ پشت کی طرف کئے اور ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا، سجدہ کی آیت آئی تو رسول (ص) نے سجدہ کیا پھر فرمایا: اے ابو ولید جو تم نے سنا سو سنا اب تم جانو۔

عتبہ نے کوئی جواب نہ دیا۔ اپنی قوم کے پاس جاکر بیٹھ گیا اور کہنے لگا: خدا کی قسم !میں نے ایسا کلام سنا ہے کہ آج تک ایسا کلام نہیں سنا تھا۔ خدا کی قسم! نہ وہ کلام نہ شعر ہے ۔ نہ سحر ہے اور نہ کہانت ہے ۔ اے قریش والو! میری پیروی کرو اور اسے میرے اوپر چھوڑ دو اور اس کی تبلیغ رسالت اور اس شخص کو درگذر کرو۔

لیکن یہ مردہ دل لوگ اس بات کو کہاں قبول کرنے والے تھے۔ کہنے لگے اے ابو ولید خدا کی قسم! محمد(ص) نے تم پر اپنی زبان سے جادو کر دیا ہے ۔ عتبہ نے کہا: ان کے بارے میں یہ میری رائے ہے اب تم جو چاہو کرو۔( ۱ )

سحر کی تہمت

قریش نے اپنے اتحاد کو برقرار رکھنے اور تبلیغ رسالت سے ٹکرانے والے اپنے محاذ کو محفوظ رکھنے اور لوگوں میں رسول(ص) کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو روکنے کا منصوبہ اس وقت بنایا جبکہ حج کا زمانہ قریب تھا۔ قریش نے ایسا حربہ استعمال کرنے کے بارے میں غور کیا کہ جس سے ان کی بت پرستی بھی متاثر نہ ہو اور رسول(ص) کے کردار کو - معاذ اللہ-داغدار بنا دیا جائے لہذا وہ سن رسیدہ و جہاں دیدہ ولید بن مغیرہ کے پاس جمع ہوئے لیکن ان کے درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہو گیا کہ رسول(ص) پر کیا تہمت لگائی جائے کسی نے کہا: کاہن کہا جائے ، کسی نے کہا: مجنون کہا جائے کسی نے کہا: شاعرکہا جائے کسی نے کہا جادوگر کسی نے کہا: وسوسہ کا مریض کہا جائے جب کسی نتیجہ پر نہ پہنچے تو انہوں نے ولید سے مشورہ کیا اس نے کہا:

خدا کی قسم! ان کے کلام میں چاشنی و شیرینی ہے ۔ ان کے کلام کی اصل مٹھاس اور اس کی فرع چنے ہوئے پھل کی مانند ہے اور ان چیزوں کو تم بھی تسلیم کرتے ہو تہمتوں سے بہتر ہے کہ تم یہ کہو کہ وہ ساحر و جادوگرہیں،

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۹۳۔

۱۰۳

ان کے پاس ایسا جادو ہے کہ جس سے یہ باپ بیٹے میں، بھای بھائی اور میاں بیوی میں جدائی ڈال دیتے ہیں ۔ ولید کی یہ بات سن کر قریش وہاں سے چلے گئے اور لوگوں کے درمیان اس ناروا تہمت کا پروپیگنڈہ کرنے لگے۔( ۱ )

اذیت و آزار

رسول(ص) اور حق کے طرف داروں کوتبلیغ رسالت سے روکنے میں کفار و مشرکین اسی طرح ناکام رہے جیسے ان کی عقلیں توحید اور ایمان کو سمجھنے میں ناکام رہی تھیں، تبلیغ رسالت کو روکنے میں انہوں نے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی تھی لیکن انہیں اس کے علاوہ کوئی چارہ نظر نہیں آیا کہ وہ خدا کی وحدانیت اور محمد (ص) کی رسالت پر عقیدہ رکھنے والوں کو اذیت و آزار پہنچائیں اور سنگدلانہ موقف اختیار کریں چنانچہ ہر قبیلہ نے ان لوگوں کو دل کھول کر ستانا شروع کر دیا جولوگ مسلمان ہو گئے تھے۔ انہیں قید کر دیا، زد و کوب کیا، نہ کھانا دیا نہ پانی ، ان کی یہ کوشش اس لئے تھی تاکہ مسلمان اپنے دین اور خدا کی رسالت کا انکار کر دیں۔

امیہ بن خلف ٹھیک دو پہر کے وقت جناب بلال کو مکہ کی تپتی ہوئی زمین پر لٹا دیتا ہے تاکہ انہیں عبرت آموز سزادے سکے۔ عمر بن خطاب نے اپنی کنیز کو اس لئے زد و کوب کیا کہ اس نے اسلام قبول کر لیا تھا۔ اسے مارتے مارتے عاجز ہو گئے تو کہنے لگے میں نے تجھے اس لئے چھوڑ دیا کیونکہ میں تھک گیا ہوں۔ قبیلہ مخزوم عمار یاسر اور ان کے ماں، باپ کو مکہ کی شدید گرمی میں کھینچ لائے، ادھر سے رسول(ص) کا گزر ہوا تو فرمایا:صبراً آل یاسر موعدکم الجنة ۔ یاسر کے خاندان والو! صبر سے کام لو تمہاری وعدہ گاہ جنت ہے ان لوگوں نے ان مظلوموں کو اتنی سخت سزا دی کہ جناب عمار کی والدہ سمیہ شہید ہو گئیں( ۲ ) ، عالم اسلام میں یہ پہلی شہید عورت تھیں ۔

اگر ہم رسول(ص)، رسالت اور پیروانِ رسول(ص) سے قریش کے ٹکرانے کے عام طریقوں کو بیان کرناچاہیں تو خلاصہ کے طور پر انہیں اس طرح بیان کر سکتے ہیں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷و ص ۳۲۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۱۷ تا ص ۳۲۰ ۔

۱۰۴

۱۔ نبی(ص) کا مضحکہ اڑانا اور لوگوں کی نظر میں آپ(ص) کی شان گھٹانا ان کے لئے آسان طریقہ تھا اس کام میں ولید بن مغیرہ-خالد کا باپ-عقبہ بن ابی معیط، حکم بن عاص بن امیہ اور ابو جہل پیش پیش تھے لیکن خدا ئی طاقت نے ان کے سارے منصوبوں کو خاک میں ملا دیا۔ قرآن کہتا ہے:

( انا کفیناک المستهزئین (۱) ولقد استهزیٔ برسل من قبلک فحاق بالذین سخروا منهم ما کانوا به یستهزئون ) ( ۲ )

آپ(ص) کا مذاق اڑانے والوں کے لئے ہم کافی ہیں۔ آپ(ص) سے پہلے بہت سے رسولوں کا مذاق اڑایا گیا ہے ، نتیجہ میں وہ مذاق، مذاق اڑانے والوں ہی کے گلے پڑ گیا۔

۲۔ نبی(ص) کی اہانت، تاکہ آپ(ص) کمزور ہو جائیں، روایت ہے کہ مشرکین نے ایک مرتبہ آپ پر گندگی اور کوڑا ڈالدیا اس پر آپ(ص) کے چچا جناب ابوطالب کو بہت غصہ آیا اور قریش کو ان کی اس حرکت کا جواب دیا اور ابو جہل کی حرکت کا جواب جناب حمزہ بن عبد المطلب نے دیا۔

۳۔ آپ(ص) کو اپنا بادشاہ وہ سردار بنانے اور آپ(ص) کو کافی مال و دولت دینے کی پیشکش کی۔

۴۔ جھوٹی تہمتیں لگائیں:

جھوٹا، جادوگر مجنون اور شاعر و کاہن کہا۔ ان تمام باتوں کو قرآن نے بیان کیا ہے ۔

۵۔ قرآن مجید میں شک کیا، رسول(ص) پر یہ تہمت لگائی کہ آپ(ص) خدا پر بہتان باندھتے ہیںکہ یہ قرآن خدا کا کلام ہے تو قرآن نے انہیں چیلنج کیا کہ اس کا جواب لے آئو۔ واضح رہے کہ رسول(ص) نے اپنی عمر کا بڑا حصہ انہیں کے درمیان گزارا تھا۔ قریش نے جن چیزوں کی نسبت آپ کی طرف دی تھی وہ آپ(ص) میں دیکھنے میں نہیں آئی تھیں۔

۶۔ آپ کی نبوت و رسالت پر ایمان لانے والے مومنوں کو ستانا اور قتل کرنا۔

۷۔ اقتصادی و سماجی بائیکاٹ۔

____________________

۱۔ حجر: ۹۵۔

۲۔حجر: ۹۴ و ۹۵۔

۱۰۵

۸۔ رسالتمآب(ص) کے قتل کا منصوبہ( ۱ )

نبی (ص) نے وہ طریقہ اختیار فرمایا جس سے رسالت اور اس کے مقاصد کی تکمیل ہوتی تھی۔

حبشہ کی طرف ہجرت

علیٰ الاعلان تبلیغ رسالت کے دو سال بعد رسول(ص) نے یہ محسوس فرمایا کہ آپ(ص) مسلمانوں کو ان مصائب و آلام سے نہیں بچا سکتے جو قریش کے سرکش اور بت پرستوں کے سرداروں کی طرف سے ڈھائے جاتے ہیں۔

مستضعف و کمزور مسلمانوں کے حق میں مشرکین اور ان کے سرداروںکا رویہ بہت سخت ہو گیا تھا لہذا رسول(ص) نے ظلم کا نشانہ بننے والے مسلمانوں سے فرمایا کہ تم لوگ حبشہ چلے جائو۔

ظلم سے کچلے ہوئے مسلمانوں کو آپ سکون و آرام حاصل کرنے کی غرض سے حبشہ بھیجنا چاہتے تھے تاکہ واپس آنے کے بعد وہ اسلامی رسالت و تبلیغ میں سرگرم ہو جائیں یا جزیرہ نما عرب سے باہر قریش پردبائو ڈالیں اور ان سے جنگ کرنے کے لئے ایک نیا محاذ قائم کریں ، اور ممکن ہے اس زمانہ میںخدا کوئی دوسری صورت پیدا کر دے۔ رسول(ص) نے ہجرت کرنے والوں کو یہ خبر دی تھی حبشہ کا بادشاہ عادل ہے اس کے یہاں کسی پر ظلم نہیں کیا جاتا۔ مسلمانوں نے حبشہ کی طرف ہجرت کرنا قبول کر لیا چنانچہ ان میں سے بعض لوگ خفیہ طریقہ سے ساحل کی طرف روانہ ہو گئے قریش نے ان کا تعاقب کیا لیکن وہ سمندر پا رجا چکے تھے؛ اس کے بعد بھی مسلمان تنہا یا اپنے خاندان کے ساتھ حبشہ جاتے رہے یہاں تک کہ حبشہ میں ان کی تعداد بچوں سے قطع نظر اسّی سے زیادہ ہو گئی، لہذا رسول(ص) نے جعفر بن ابی طالب کو ان کا امیر مقرر کر دیا۔( ۲ )

حبشہ کو ہجرت کے لئے منتخب کرنا یقینا رسول(ص) کے قائدانہ اقدامات میں سے بہترین اقدام تھا۔ رسول(ص) سے ایک حدیث مروی ہے جس میں آپ(ص) نے حبشہ کے بادشاہ کی تعریف کی ہے ۔ پھر وہاں کا سفر کشتیوں کے ذریعہ ہو گیا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام نصرانیت سے اچھے مذہبی روابط استوارکرنا چاہتا ہے۔

____________________

۱۔ انفال:۳۰۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۲۱، تاریخ یعقوبی ج ۲ ص ۲۹، بحار الانوار ج۱۸ ص ۴۱۲۔

۱۰۶

مسلمانوں کے حبشہ ہجرت کرنے سے قریش کو بہت دکھ ہوا، ہجرت کے نتیجہ سے انہیں خوف لاحق ہوا انہوں نے یہ خیال کیا کہ اسلامی تبلیغ کرنے والوں کو کہیں وہاں امان نہ مل جائے لہذا قریش نے عمرو بن العاص اور عمارہ بن ولید کو حبشہ کے بادشاہ نجاشی کے پاس بھیجا اور نجاشی کے لئے ان کے ہاتھ تحفے بھیجے، اس سے ان کا مقصد یہ تھا کہ نجاشی انہیں اپنے ملک سے نکال دے اور ان کے سپرد کر دے قریش کے ان دونوں نمائندوں نے نجاشی کے بعض سپہ سالاروں سے بھی ملاقات کی اور ان سے رسم و راہ پیدا کی اور ان سے یہ گزارش کی کہ مسلمانوں کو واپس لو ٹانے میں آپ لوگ ہماری مدد کر یں چنانچہ انہوں نے بھی ان کی سفارش کی مگر نجاشی نے ان کے مطالبہ کو یہ کہہ کر مسترد کر دیا کہ جب تک میں تمہاری اس تہمت کے بارے میں خود مسلمانوںسے یہ معلوم نہیں کرلونگاگا کہ انہوں نے کیسا نیا دین بنا لیا ہے اس وقت تک انہیں واپس نہیں لوٹا ئوںگا۔

مسلمانوں کی بادشاہ سے اس ملاقات میں خدا کی رحمت ان کے شامل حال رہی جعفر بن ابی طالب نے ایسے دلچسپ انداز میں دین کے بارے میں گفتگو کی کہ جو نجاشی کے دل میں اتر گئی اس کے نتیجہ میں وہ مسلمانوں کی اور زیادہ حمایت کرنے لگا۔ جعفر بن ابی طالب کی یہ گفتگو قریش کے نمائندوں کے سروں پر بجلی بن کر گری۔ ان کے تحفے بھی ان کے کسی کام نہ آ سکے اپنے موقف میں نجاشی کے سامنے ذلیل ہو گئے اور مسلمان اپنے مسلک و موقف میں سرخ رو اور سربلند ہو گئے ان کی حجّت مضبوط تھی جس سے اس تربیت کی عظمت کا پتہ چلتا تھا جو رسول(ص) نے انسان کو فکر و اعتقاد اور کردار کے لحاظ سے بلند کرنے کے لئے کی تھی چنانچہ جب قریش کے وفد نے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظر یہ بیان کرکے فتنہ بھڑکانے کی کوشش کی تو اس کا مسلمانوں پر کوئی اثر نہیں ہوا۔ بلکہ جب نجاشی نے جعفر بن ابی طالب سے حضرت عیسیٰ کے بارے میں قرآن کا نظریہ معلوم کیا تو انہوں نے حضرت عیسیٰ کے متعلق قرآن کی آیتوں کی تلاوت کی نجاشی نے ان آیتوں کو سن کر کہا: جائو تم لوگ امان میں ہو۔( ۱ )

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۳۵، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۲۹۔

۱۰۷

جب قریش کا وفدناکام حبشہ سے واپس لوٹ آیا تو انہیں اپنی کوششوں کے رائیگاں جانے کا یقین ہو گیا اب انہوں نے یہ طے کیا کہ وہ مکہ کے مسلمانوں کا کھانا پانی بند کر دیں گے اور اجتماعی امور میں ان کا بائیکاٹ کریں گے اس سے ابو طالب اور بنی ہاشم نبی (ص) کی امداد سے دست بردار ہو جائیںگے۔

مقاطعہ اور بنی ہاشم

جب ابو طالب نے قریش کی ہر پیشکش کو مسترد کر دیا اور یہ اعلان کر دیا کہ میں رسول(ص) کی حمایت کر ونگا چاہے انجام کچھ بھی ہو تو قریش نے ایک دستاویز لکھی جس میں بنی ہاشم کے ساتھ خرید و فروخت، نشست و برخاست اور بیاہ شادی نہ کی جانے کی بات تھی۔

یہ دستاویز قریش کے چالیس سرداروں کی طرف سے تحریر کی گئی تھی۔

جناب ابو طالب اپنے بھتیجے، بنی ہاشم اور اولادِ مطلب کو لے کر غار میں جانے پر تیار ہو گئے اور فرمایا: جب تک ہم میں سے ایک بھی زندہ ہے اس وقت تک رسول(ص) پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔ ابو لہب قریش کے پاس چلا گیا اور اولاد مطلب کے خلاف ان کی مدد کی ان لوگوں میں سے ہر ایک غار میں داخل ہو گیا خواہ وہ مومن تھا یا کافر۔( ۱ )

اس زمانہ میں اگر کوئی شخص ترس کھا کر عصبیت کی بنا پر بنی ہاشم کی مدد کرنا چاہتا تھا تو وہ قریش سے چھپا کر ہی کوئی چیز ان تک پہنچا تا تھا۔ اس زمانہ میں بنی ہاشم اور رسول(ص) نے بہت سختی برداشت کی ، بھوک ، تنہائی اور نفسیاتی جنگ جیسی تکلیف دہ سختیاں تھیں خدا نے قریش کی اس دستاویز پرجس کو انہوں نے خانہ کعبہ میں لٹکا رکھا تھا دیمک کو مسلط کر دیا چنانچہ دیمک نے باسمک اللھم کو چھوڑ کر ساری عبارت کو کھا لیا۔

خدا نے اپنے نبی (ص) کو خبر دی کہ دستاویز کو دیمک نے کھا لیا، رسول(ص) نے اپنے چچا ابو طالب سے بتایا۔ جناب ابو طالب رسول(ص) کو لیکر مسجد الحرام میں آئے قریش نے انہیں دیکھ کر یہ خیال کیا کہ ابو طالب اب

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۵۰، اعیان الشیعہ ج۱ ص ۲۳۵۔

۱۰۸

رسالت کے بارے میں اپنے موقف سے ہٹ گئے ہیں لہذا اپنے بھتیجے کو ہمارے حوالے کرنے کے لئے آ رہے ہیں، لیکن ابو طالب نے ان سے فرمایا: میرے اس بھتیجے نے مجھے یہ خبر دی ہے کہ خدا نے تمہاری دستاویز پر دیمک کو مسلط کر دیا ہے اور اس نے اللہ کے نام کے علاوہ ساری دستاویز کو کھا لیا ہے اگر یہ قول سچا ہے تو تم اپنے غلط فیصلہ سے دست بردار ہو جائو اور اگر یہ (معاذ اللہ) جھوٹا ہے تو میں اسے تمہارے سپرد کر دونگا....انہوں نے کہا: تم نے ہمارے ساتھ انصاف کیا۔ انہوں نے دستاویز کو کھولا تو اسے ویسا ہی پایا جیسا کہ رسول(ص) نے خبر دی تھی شرم و حیا سے ان کے سر جھک گئے۔( ۱ )

یہ بھی روایت ہے کہ قریش میں سے کچھ بزرگوں اور نوجوانوں نے بنی ہاشم سے اس قطع تعلقی پر ان کی مذمت کی اور غارمیں ان پر گزرنے والی مصیبتوں کو دیکھ کر انہوں نے اس دستاویز کو پھاڑ کر پھینک دینے اور بائیکاٹ کو ختم کرنے کا عہد کیا انہوںنے اس دستاویز کو کھول کر دیکھا تو معلوم ہوا کہ اسے دیمک نے کھا لیا ہے۔( ۲ )

عام الحزن

بعثت کے دسویں سال قریش شعب ابی طالب سے باہر آئے اب وہ اور زیادہ سخت ، تجربہ سے مالا مال اور اپنے اس مقصد کی طرف بڑھنے میں اور زیادہ سخت ہو گئے تھے کہ جس کو انہوں نے جان سے عزیز سمجھ رکھا تھا اور یہ طے کر رکھا تھا کہ ہر مشکل سے گزر جائیں گے لیکن اس مقصد کو نہیں چھوڑ یں گے۔ اس اقتصادی پابندی کی وجہ سے اسلام اور مسلمانوں کو بہت شہرت ملی، اسلام جزیرہ نما عرب کے گوشہ گوشہ میں مشہور ہو گیا، رسول(ص) کے سامنے بہت سی دشواریاں تھیں ان میں سے ایک یہ بھی دشواری تھی کہ مکہ سے باہر دوسرے علاقوں میں اپنے مقاصد کو سمجھایا جائے ،اور دوسرے علاقوں میں محفوظ مراکز قائم کئے جائیں تاکہ وہاںسے اسلام کی تحریک آگے بڑھ سکے۔

____________________

۱۔تاریخ یعقوبی ج۲ ص۲۱، طبقات ابن سعد ج۱ ص ۱۷۳، سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۷۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص۳۷۵ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۳۔

۱۰۹

جب ابو طالب کا انتقال ہو گیا تومکہ میں اسلام کی تبلیغ کی راہ میں بہت زیادہ دشوار یاں پیش آئیں کیونکہ رسول(ص) اور رسالت کا طاقتور محافظ اور رسالت کا وہ نگہبان اٹھ گیا تھا جس کی اجتماعی حیثیت تھی ان کے بعد رسول(ص) کا سہارا ام المومنین جناب خدیجہ تھیں ان کابھی انتقال ہوگیا چونکہ ان دونوں حوادث کی وجہ سے تبلیغ کی راہ شدید طور پر متاثر ہوئی تھی لہذا رسول(ص) نے اس سال کا نام''عام الحزن'' یعنی غم کا سال رکھا۔

''مازالت قریش کاعة منی حتی مات ابو طالب'' ( ۱ )

جب تک ابو طالب زندہ تھے قریش میرے قریب نہیں آتے تھے۔

رسول(ص) کے خلاف قریش کی جرأت اس وقت سے زیادہ بڑھ گئی تھی جب قریش میں سے کسی نے رسول(ص) کے سر پر اثنائے راہ میں خاک ڈال دی تھی۔ جناب فاطمہ(ص) نے روتے ہوئے اس مٹی کو صاف کیا۔ آنحضرت (ص)نے فرمایا:

''یا بنیة لا تبکی فان الله مانع اباک'' ( ۱ )

بیٹی رؤئو نہیں بیشک خدا تمہارے باپ کی حفاظت کرے گا۔

معراج

اسی عہد میں رسول(ص) کو معراج ہوئی تاکہ رسول(ص) مقاومت کے طویل راستہ کو طے کر سکیں اور آپ(ص) کی گذشتہ محنت و ثابت قدمی کی قدر کی جاسکے اور شرک و ضلالت کی طاقتوں کی طرف سے جو آپ(ص) نے تکلیفیں اٹھائی تھیں ان کا بھی مداویٰ ہو جائے۔ لہذا خدا آپ(ص) کو آسمانوں کی بلندیوں پر لے گیا تاکہ آپ(ص) کو وسیع کائنات میں اپنے ملک کی عظمت دکھائے اور اپنی خلقت کے اسرار سے آگاہ کرے اور نیک و بد انسان کی سر گذشت سے مطلع کرے۔

یہ رسول(ص) کے اصحاب کا امتحان بھی تھا کہ وہ اس تصور و نظریہ کو کس حد تک برداشت کر سکتے ہیں کہ جس کے

____________________

۱۔ کشف الغمہ ج۱ ص ۶۱، مستدرک حاکم ج۲ ص ۶۲۲۔

۱۱۰

تحت و اپنے رسول(ص) وقائد کے دوش بدوش ہو کر اس لئے لڑ رہے ہیں تاکہ پیغامِ خدا لوگوں تک پہنچ جائے اور صالح و نیک انسان وجود میں آجائے یقینا یہ آپ(ص) کے ان اصحاب کے لئے سخت امتحان تھا جن کے نفس کمزور تھے۔

قریش معراج کے بلند معنی و مفہوم کو نہیں سمجھ سکے چنانچہ جب رسول(ص) نے انہیں معراج کا واقعہ بتایا تو وہ معراج کی مادی صورت ، اس کے ممکن ہونے اور اس کی دلیلوں کے بارے میں سوال کرنے لگے کسی نے کہا: قافلہ ایک مہینے میں شام سے لو ٹتا ہے اور ایک مہینہ میں شام جاتا ہے ۔ اور محمد ایک رات میں گئے بھی اور لوٹ بھی آئے؟! رسول(ص) نے ان کے سامنے مسجد اقصی کی تعریف و توصیف بیان کی اور یہ بتایا کہ آپ(ص) کا گزر ایک قافلہ والوں کی طرف سے ہوا جو اپنے گمشدہ اونٹ کو ڈھونڈ رہے تھے ان کے سامان سفر میں پانی کا ظرف تھا جو کھلا تھا آپ(ص) نے اسے ڈھانک دیا۔

انہوں نے دوسرے قافلہ کے بارے میں سوال کیا تو آپ(ص) نے فرمایا: میں اس کے پاس سے تنعیم میں گذرا تھا، آپ(ص) نے انہیں اس قافلہ کے اسباب اور ہیئت کے بارے میں بھی بتایا، نیز فرمایا: تمہاری طرف ایک قافلہ آ رہا ہے جو صبح تک پہنچ جائے گا۔ چنانچہ جس چیز کی آپ(ص) نے خبر دی تھی وہ حرف بحرف پوری ہوئی۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۱۶، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۶۔

۲۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۳۹۶۔

۱۱۱

چوتھی فصل

کشائش و خوشحالی ہجرت تک

طائف والوں نے اسلامی رسالت کو قبول نہیں کیا( ۱ )

رسول(ص) کو اس بات کا بخوبی علم تھا کہ اب قریش کی ایذا رسانیوں میں روز بروز اضافہ ہوگا اور رسالت کو ختم کرنے کے لئے مشرکین کی کوششیں موقوف نہیں ہوںگی۔ ابو طالب کی رحلت سے آپ کا امن و امان ختم ہو چکا تھا دوسری طرف اسلامی رسالت کی نشر و اشاعت وسیع پیمانہ پر ہونا چاہئے تھی ۔ جس وقت رسول(ص)، اسلام کے مبلغین کی تربیت کر رہے تھے اسی وقت ایک ایسا مرکز قائم کرنے کے لئے بھی غور کر رہے تھے کہ جس میں استقلال و خود مختاری کے نقوش واضح ہوں اور معاشرہ کا نظام ایسا ہو کہ جس میں فرد اپنی زندگی بھی گزارے اور خدا کے ساتھ اپنی صنف کے دوسرے افراد سے بھی اس کا رابطہ رہے تاکہ رفتہ رفتہ آسمانی قوانین کے مطابق اسلامی و انسانی تہذیب قائم ہو جائے۔ اس مرکز کی تشکیل کے لئے آپ(ص) کی نظر طائف پر پڑی جہاں قریش کے بعد عرب کاسب سے بڑا قبیلہ ''ثقیف'' آباد تھا۔ جب آپ(ص) تنہا، یا زید بن حارثہ یا علی بن ابی طالب کے ساتھ وہاں تشریف لے گئے( ۲ ) اور قبیلۂ ثقیف کے بعض شرفاء و سرداروں سے گفتگو کی اور انہیں خدا کی طرف بلایا اور ان کے سامنے وہ چیز بیان کی جس کے لئے آپ (ص) کو نبی (ص) بنا کر بھیجا گیا تھا کہ آپ(ص) کی تبلیغ میں وہ مدد کریں اور آپ(ص) کو قریش وغیرہ سے بچائیں توانہوں نے آپ(ص) کی یہ بات تسلیم نہ کی

____________________

۱۔ آپ(ص) نے بعثت کے دسویں سال طائف کا سفر کیا تھا۔

۲۔نہج بلاغہ، ابن ابی الحدید، ج ۴ ص ۲۷ ۱ ص ج۱۴ ص ۹۷۔

۱۱۲

بلکہ آپ(ص) کا مذاق اڑاتے ہوئے ان میں سے کسی نے کہا: اگر خدا نے تمہیں رسول بنا کر بھیجا ہے تو میں خانہ کعبہ کا پردہ پھاڑ ڈالوںگا دو سرے نے کہا: اگرآپ خدا کی طرف سے رسول(ص) ہیں تو میں آپ سے ہرگز کلام نہیں کروںگا کیونکہ اس صورت میں آپ کی بات کا جواب دینا خطرہ سے خالی نہیں ہے ہاں اگر آپ(ص) نے خدا پر بہتان باندھا ہے تو میرے لئے ضروری نہیں کہ آپ(ص) سے گفتگو کروں تیسرے نے کہا: کیا خدااس سے عاجز تھا کہ تمہارے علاوہ کسی اور کو بھیج دیتا۔( ۱ )

اس سوکھے اور سپاٹ جواب کو سن کر رسول(ص) ان کے پاس سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ان سے یہ کہا: تمہارے اور میرے درمیان جو بھی گفتگو ہوئی ہے اس کو کسی اور سے بیان نہ کرنا کیونکہ آپ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ یہ واقعہ قریش کو معلوم ہواورآپ(ص) کے خلاف ان کی جرأت بڑھ جائے ۔ لیکن ثقیف کے سرداروں نے آپ(ص) کی اس بات کو قبول نہ کیا بلکہ اپ(ص) کے خلاف اپنے لڑکوں اور غلاموں کو اکسایا تو وہ آپ(ص) کوبر بھلا کہنے لگے آپ(ص) کو ڈھیلے پتھر مارنے لگے، آپ(ص) کے پیچھے شور مچانے لگے۔ ان لوگوں نے اتنا پتھرائو کیا تھا کہ آپ کا جو قدم بھی پڑتا تھا وہ پتھر پر پڑتا تھا۔ بہت سے تماشائی اکھٹا ہو گئے یہاں تک کہ انہوں نے آپ(ص) کو ربیعہ کے بیٹوں، عتبہ و شیبہ کے باغ میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا، وہ دونوں باغ میں موجود تھے، انہوں نے ان لوگوں کو بھگایا، آپ کے دو نوںپیروں سے خون بہہ رہا تھا آپ انگور کی بیل کے سایہ میں بیٹھ گئے اور اس طرح شکوہ کیا:

''الّلهم الیک اشکو ضعف قوّتی و قلّة حیلت و هوان علیٰ الناس یا ارحم الرحمین انت رب المستضعفین و انت رب الیٰ من تکلن؟ الیٰ بعید یتجهمن ام الیٰ عدو ملکته امری؟ ان لم یکن بک غضب علّ فلا ابال ولکن عافیتک هی اوسع''

اے اللہ! میں اپنی ناتوانی، بے سرو سامانی اور اپنے تئیں لوگوں کی اہانت کی تجھ سے فریاد کرتا ہوں،اے رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والے! عاجز و در ماندہ لوگوں کا مالک تو ہی ہے ۔ میرا مالک بھی تو ہی ہے ، مجھے کس پر چھوڑا ہے کیا اس بندے پر جو مجھ پر تیوری چڑھائے؟ یا اس دشمن پر جو میرے کام پر

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰، بحار الانوار ج۱۹ ص ۶ و ۱۷ اور ص ۲۲، اعلام الوریٰ ج۱ ص ۱۳۳۔

۱۱۳

پردسترسی رکھتا ہے؟ لیکن جب مجھ پرتیرا غضب نہیں ہے تو مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے کیونکہ تیری عطا کی ہوئی عافیت میرے لئے بہت وسیع ہے ۔

رسول(ص) ابھی خدا کی بارگاہ میں اسی طرح شکوہ کناںتھے کہ ایک نصرانی آپ(ص) کی طرف متوجہ ہوا اس نے آپ میں نبوت کی علامتیں دیکھیں۔( ۱ )

جب رسول(ص) قبیلۂ ثقیف کی نجات و بھلائی سے مایوس ہو کر طائف سے مکہ کی طرف واپس لوٹ رہے تھے اس وقت آپ کو اس بات پر بہت افسوس تھا کہ کسی نے بھی ان کی بات نہ مانی، مکہ و طائف کے درمیان آپ نخلہ میں ٹھہرے، رات میں جب نماز میں مشغول تھے، اس وقت آپ کے پاس سے جناتوں کا گذرہوا، انہوں نے قرآن سنا آپ نماز پڑھ چکے تو وہ اپنی قوم میں واپس آئے وہ خود رسول(ص) پر ایمان لا چکے تھے اب انہوں نے اپنی قوم والوں کو ڈرایا، خداوند عالم نے ان کے اس واقعہ کو اس طرح بیان کیا ہے:

( واذا صرفنا الیک نفراً من الجن یستمعون القرآن...و یجرکم من عذاب الیم ) ( ۲ )

اور جب ہم نے جنوںمیں سے ایک گروہ کو آپ کی طرف پلٹایا تاکہ وہ غور سے قرآن سنیں لہذا جب وہ حاضر ہوئے تو آپس میں کہنے لگے کہ خاموشی سے سنو پھر جب تلاوت تمام ہو گی تو فوراً اپنی قوم کی طرف پلٹ کر ڈرانے والے بن کر آگئے ،کہنے لگے اے قوم والو! ہم نے آیات کتاب کو سنا ہے جو موسیٰ کے بعد نازل ہوئی ہے یہ اپنی سابقہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے اور حق و انصاف اور سیدھے راستے کی جانب ہدایت کرنے والی ہے ،قوم والو! اللہ کی طرف دعوت دینے والے کی آواز پر لبیک کہو اور اس پر ایمان لے آئو تاکہ اللہ تمہارے گناہوں کو بخش دے اور تمہیں دردناک عذاب سے پناہ دے ۔

____________________

۱۔طبری ج۲ ص ۴۲۶، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۲۷، تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۶، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۰۔

۲۔طبری ج۲ ص ۳۴۶، سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۶۳، الطبقات الکبریٰ ص ۳۱۲، ملاحظہ ہو سورۂ احقاف: ۲۹ تا ۳۱۔

۱۱۴

مکہ میں راہ رسالت میں رکاوٹیں

رسول(ص) کی تحریک ایک ترقی پذیر و تعمیری جہاد تھا۔ آپ کا قول و فعل اورحسن معاشرت؛ فطرت سلیم اور بلند اخلاق کا پتہ دیتا تھا آپ نفوس میں حق کو اجاگر کرتے تھے تاکہ انہیں زندہ کر سکیں اور انہیں فضائل کی طرف بلاتے تھے تاکہ بشریت ان سے آراستہ ہو سکے یہی وجہ ہے کہ قریش کی ایذا رسانیوں ،ان کی سنگدلی اور طائف والوں کے ظلم و ستم کے باوجود رسول(ص) مایوس نہیں ہوئے بلکہ لوگوں کو دین خدا کی طرف دعوت دیتے رہے۔ خصوصاً عمرہ وحج کے زمانہ میں کیونکہ اس وقت تبلیغ کا بہترین موقعہ ملتا تھاآپ قبائل کی قیام گاہ پر جاتے اور ان سب کو دینِ خدا قبول کرنے کی دعوت دیتے اور فرماتے تھے:

''یا بنی فلان انی رسول الله الیکم یا مرکم ان تتعبدوا الیه ولا تشرکوا به شیئاً و ان تومنوا بی و تصدقونی و تمنعونی حتی ابین عن الله ما بعثنی به'' ۔( ۱ )

اے فلاں خاندان والو! مجھے تمہاری طرف رسول(ص) بنا کر بھیجا گیا ہے ۔ خدا تمہیں یہ حکم دیتا ہے کہ تم اس کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہرائو، میرے اوپر ایمان لائو، میری تصدیق کرو اور میری حفاظت کرتے رہو یہاں تک کہ میں تمہارے سامنے اس چیز کو کھول کر بیان کر دوں جس کے ساتھ مجھے مبعوث کیا گیا ہے ۔

رسول(ص) نے قبیلوں سے ملاقات کرنے کا سلسلہ جاری رکھا بعض نے سنگدلی سے آپ کی دعوت کو رد کر دیا اور بعض نے معذرت کر لی ،کچھ لوگوں کے اندر آپ(ص) نے اسلام کی طرف سیاسی رجحان پایا وہ اسلام کے ذریعہ حکومت حاصل کرنا چاہتے تھے لہذا انہوں نے اسی کے مطابق کوشش کرنا شروع کی لیکن رسول(ص) نے سختی سے ان کو ٹھکرا دیا اور انہیں موقعہ سے فائدہ نہیں اٹھانے دیا رسول(ص) نے فرمایا:''الامر الیٰ اللّٰه یضعه حیث یشاء'' یہ معاملہ خدا کے ہاتھ ہے وہ جہاں چاہتا ہے قرار دیتا ہے۔( ۲ )

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۲۹، انساب الاشراف ج۱ ص ۲۳۷۔

۲۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۴ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۱۔

۱۱۵

اکثر ابو لہب رسول(ص) کے پیچھے پیچھے جاتا اور لوگوں کو آپ(ص) کی متابعت کرنے سے منع کرتا تھا اور کہتا تھا: اے فلاں خاندان والو! یہ تو بس تمہیں لات و عزی کو ٹھکرانے اور بدعت و ضلالت کو قبول کرنے کی دعوت دیتا ہے پس تم اس کی اطاعت نہ کرنا اور اس کی بات نہ سننا۔( ۱ )

دوسری طرف ام جمیل عورتوں کے بیچ میں کھڑی ہوتی اور رسول(ص) اور آپ(ص) کی تبلیغ کا مذاق اڑاتی تاکہ عورتیں آپ(ص) کی متابعت نہ کریں۔

نبی(ص) قبائل کو اسلامی رسالت کے ذریعہ مطمئن نہیں کر سکتے تھے کیونکہ قریش کو دوسرے قبائل کے درمیان دینی اعتبار سے فوقیت حاصل تھی اور خانۂ کعبہ کی خدمت و دربانی بھی قریش ہی کے پاس تھی اور جزیرہ نما عرب کی تجارت و اقتصاد کا مرکزبھی مکہ ہی تھاپھر جن قبائل کو رسول(ص) نے اسلام کی دعوت دی تھی قریش سے ان کے تعلقات اور معاہدے بھی تھے ان کے لئے ان معاہدوں اور پابندیوںکو توڑنا بہت مشکل تھا۔ پس اسلام قبول کرنے میں لوگوں کا متردد ہونا یقینی تھا اس کے باوجود قریش کو رسول(ص) کی تحریک اور آپ کی تبلیغ رسالت سے خوف لاحق تھا لہذا انہوں نے ایک منصوبہ بنایا کہ ممکن ہے بت پرستوں کی عقلیں اس کو قبول کر لیں انہوں نے بالاتفاق لوگوں کے درمیان یہ پروپیگنڈہ کرنا شروع کیاکہ محمد اپنے بیان کے ذریعہ جادو کر دیتا ہے اور مرد سے عورت کو بھائی کو بھائی سے جدا کر دیتا ہے لیکن جب لوگ رسول(ص) سے ملاقات کرتے اور ان پر رسول(ص) و رسالت کی عظمت آشکار ہوتی تھی تو قریش کا یہ پروپیگنڈہ ناکام ثابت ہوتا تھا۔( ۱ )

عقبۂ اولیٰ کی بیعت

تبلیغ رسالت کے سلسلہ میں رسول(ص) نے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہیں کیا بلکہ آپ (ص)مکہ میں آنے والے ہر اس شخص کو دعوت اسلام دیتے تھے جس میں بھلائی و بہتری دیکھتے یا اس کا اثر و نفوذ محسوس کرتے تھے۔ مدینہ میں دو قوی ترین قبیلوں اوس و خزرج کے درمیان مدتوں سے سیاسی و فوجی معرکہ آرائی چلی آ رہی تھی یہود اپنی خباثت و مکاری سے اس ماحول میں ان کی جنگ کو مستقل ہوا دیتے تھے تاکہ اسلامی قانون کا نفاذ نہ ہو سکے۔

____________________

۱۔سیرت نبویہ ج۱ ص ۲۷۰۔

۱۱۶

یثرب سے جو لوگ حلیف بنا کراپنی طاقت بڑھانے کے لئے مکہ آتے تھے ان میں سے بعض سے رسول(ص) نے ملاقات کی اور دیکھتے ہی دیکھتے رسالت کا اثر اور نبوّت کی صداقت ان کے نفوس میں جا گزیں ہو گئی۔ ایک ملاقات میں رسول(ص) نے بنی عفراء کی ایک جماعت سے گفتگو کی یہ جماعت خزرج سے منسوب تھی ان کے سامنے اسلام پیش کیا اور قرآن کے ایک حصہ کی تلاوت کی تو ان کی آنکھوں اور دلوں میں مزید آیتوں کے سننے کا اشتیاق پایا...رسول(ص) کی گفتگو سے وہ سمجھ گئے کہ یہ وہی نبی(ص) ہے کہ جس کا ذکر یہود ،مشرکین سے نزاع کے وقت انہیں ڈرانے کے لئے کرتے ہیں اور کہتے ہیں: ایک نبی کی بعثت ہو گی اور اس کا زمانہ قریب ہے ہم اس کا اتباع کریں گے اورپھر ہم تمہیں ارم و عاد والوں کی طرح قتل کریں گے۔( ۱ )

ان چھہ اشخاص نے اسی وقت اپنے اسلام کا اعلان کر دیا،رسول(ص) کی خدمت میںعرض کی: ہم نے اپنی قوم کو اس حال میں چھوڑ ا ہے کہ کسی قوم میں اتنی عداوت و دشمنی نہیں ہے جتنی ان کے درمیان ہے امید ہے کہ خدا آپ(ص) کے ذریعہ ان کے درمیان صلح کرادے۔ ہم ان کے سامنے اسلام پیش کریں گے اور انہیں آپ(ص) کے دین کی طرف بلائیں گے اس دین کی طرف جو آپ(ص) نے ہم سے قبول کرایا ہے ۔

اس کے بعد وہ یثرب کی طرف لوٹے ؛ نبی(ص) اور رسالت کے بارے میںآپس میں گفتگو کرتے ہوئے اور آنے والی امن و امان کی زندگی سے متعلق اظہار خیال کرنے لگے ان کے درمیان دیکھتے ہی دیکھتے اسلام کا پیغام پھیل گیا، یثرب میں کوئی گھر ایسا نہیں بچا جس میں رسول کا ذکر نہ پہنچا ہو۔( ۲ )

دن گزرتے دیر نہیں لگتی پھر گیارہویں بعثت کو جب حج کا زمانہ آ گیا یثرب سے اوس و خزرج کا ایک وفد آیا جو بارہ افراد پر مشتمل تھا ان میں چھہ افراد وہ تھے جو عقبہ اولیٰ میں خفیہ طریقہ سے رسول(ص) سے ملاقات کرکے اسلام قبول کر چکے تھے-عقبہ وہ جگہ ہے جہاں سے یثرب والے مکہ پہنچتے ہیں-اس مرتبہ ان لوگوں نے یہ اعلان کیا کہ ہم نے اس بات پر رسول(ص) کی بیعت کر لی ہے کہ کسی کو خدا کا شریک قرار نہیں دیں گے چوری نہیں

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۸، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۵۔

۲۔ تاریخ یعقوبی ج۲ ص ۳۷ و ص۳۸، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۲۹، بحار الانوار ج۱۹ ص ۲۳۔

۱۱۷

کریں گے۔ زنا نہیں کریں گے ، اپنی اولاد کو قتل نہیں کریں گے اوراز خود گڑھی ہوئی باتوں کے ذریعہ بہتان نہیں باندھیںگے اور نیک کاموں میں آپ(ص) کی نافرمانی نہیں کریں گے۔( ۱ )

رسول(ص) ان پر اس سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالنا چاہتے تھے ان کے ساتھ آپ(ص) نے جوان مسلمان مصعب بن عمیر کو یثرب بھیجا تاکہ وہ ان کے درمیان عقائد کی تبلیغ کریں۔ عقبۂ اولیٰ کی بیعت اسی پر تمام ہوئی۔

عقبۂ ثانیہ

مصعب یثرب کے گلی کوچوں میں اور ان کے مجامع میں قرآن کی آیتوں کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کے ذریعہ ان کے دلوں اور عقلوں کو جھنجھوڑتے رہے یہاں تک کہ بہت سے لوگ رسالت اسلامیہ پر ایمان لے آئیے۔

اسلام نے لوگوں کے دلوں میں رسول(ص) سے ملنے کا بڑا اشتیاق پیدا کر دیا انہوں نے والہانہ انداز میں رسول(ص)سے گزارش کی کہ آپ(ص) ہمارے یہاں تشریف لائیں۔

بعثت کے بارہویں سال جب حج کا زمانہ آیا تو یثرب سے حاجیوں کے قافلہ چلے ان میں ۷۳ مسلمان مرد اور دو عورتیں بھی تھیں رسول(ص) نے ان سے یہ وعدہ کیا کہ آپ(ص) ان سے عقبہ میں ایام تشریق میں رات کے وقت ملاقات کریں گے؛ یثرب کے مسلمان اس وقت تک اپنا اسلام چھپائے ہوئے تھے۔

جب تین حصہ رات گذر گئی اور آنکھوں سے نیند اچٹ گئی تو مسلمان چھپ کراپنے خیموں سے نکلے اور رسول(ص) کے انتظار میں جمع ہو گئے رسول(ص) آئے آپ(ص) کے ساتھ آپ(ص) کے اہل بیت (ص) میں سے بھی کچھ لوگ تھے، سب جمع ہو گئے، ان لوگوں نے گفتگو شروع کی، پھر رسول(ص) نے گفتگو کا آغاز کیا، قرآن مجید کی چند آیتوں کی تلاوت کی اس کے بعد انہیں خدا کی طرف بلایا اور اسلام کی ترغیب دلائی۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۳، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۳۶۔

۱۱۸

اس بار اسلام کے ہر پہلو، اس کے احکام اور جنگ و صلح کے بارے میں صریح طور پر بیعت ہوئی؛ رسول(ص) نے فرمایا:

''ابایعکم علیٰ ان تمنعونی مما تمنعون منه نسائکم و ابنائکم''

میں تم سے اس بات پر بیعت لیتا ہوں کہ تم ہر اس چیز سے میری حفاظت کرو گے جس سے تم اپنے بیوی بچوں کی حفاظت کرتے ہو۔ اس پر ان لوگوں نے رسول(ص) کی بیعت کی۔

اس موقعہ پر یثرب کے مسلمانوں کی طرف سے خدشہ کا اظہار ہوا، ابو الہیثم ابن تیہان نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول(ص)! ہمارے اور یہودیوں کے درمیان کچھ معاہدے ہیں اگرہم انہیں توڑ دیں تو کیا ایسا کرنے سے ہم گناہگار ہونگے اور اگر خدا آپ(ص) کو کامیاب کر دے توکیاآپ اپنی قوم کی طرف پلٹ جائیں گے ؟اس پر رسول(ص) مسکرائے اور فرمایا:''بل الدم الدم و الهدم الهدم احارب من حاربتم و اسالم من سالمتم'' ( ۱ ) بلکہ خون کا بدلہ خون اور مباح کئے ہوئے خون کا عوض مباح ہے ۔ میں اس سے جنگ کرونگا جس سے تم جنگ کروگے میں اس سے صلح کرونگا جس سے تم صلح کروگے۔

اس کے بعد رسول(ص) نے فرمایا: تم میں سے بارہ افراد میرے پاس آئیں تاکہ وہ اپنی قوم میں میرے نمائندے قرار پائیں چنانچہ ان میں سے نو افراد خزرج میں سے اور تین اوس میں سے نکلے ان سے رسول(ص) نے فرمایا:

''انتم علیٰ قومکم بما فیهم کفلاء ککفالة الحواریین لعیسیٰ بن مریم و انا کفیل علیٰ قوم'' ۔( ۲ )

تم اپنی قوم کے درمیان ان کے معاملات کے ایسے ہی ذمہ دار و ضامن ہو جیسے حضرت عیسیٰ کے حواری ضامن و ذمہ دار تھے اور میں اپنی قوم کا ذمہ دار ہوں۔

____________________

۱۔ سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۳۸، تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۱، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۱۔

۲۔ تاریخ طبری ج۲ ص ۴۴۲، سیرت نبویہ ج۱ ص ۴۴۳، مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲۔

۱۱۹

رسول(ص) نے ہرکام کے لئے حکیمانہ راہنمائی پختہ اور عمدہ تدبیر ، گہری سیاسی سوجھ بوجھ سے کام لیا اور اس مقصد کی طرف رسالت کو لیکر بڑھے جس کی وحی ِ الٰہی نے تائید کی تھی اور بیعت کرنے والوں سے فرمایا کہ تم اپنی قیام گاہ کی طرف لوٹ جائو مشرکین سے نہ ٹکرانا کہ خدا نے قتال و خونریزی کا حکم نہیں دیا۔

قریش نے جب یہ محسوس کیا کہ یثرب کے مسلمان نبی(ص) کی مدد کر رہے ہیں توانہوں نے اسے اپنے لئے بہت بڑا خطرہ سمجھا اور وہ غیظ وغضب میں آپے سے باہر ہو گئے اور چاہا کہ نبی(ص) اور مسلمانوں کے درمیان حائل ہو جائیں لیکن عقبہ کے اجتماع میں جناب حمزہ و علی پاسبان و محافظ تھے لہذا قریش ناکام واپس لوٹ گئے۔( ۱ )

ہجرت کی تیاری

قریش غفلت سے بیدار ہو چکے تھے جبکہ مسلمانوں میں کامیابی کی امید جاگ اٹھی تھی جس کی وجہ سے مشرکوں کی طرف سے ایذا رسانی میں بھی اضافہ ہو گیا اور قریش نے مسلمانوں کے ساتھ سخت و سنگدلی کا رویہ اختیار کیا ان پر شدید ظلم کئے اور یہ کوشش کی کہ مسلمانوں کا شیراز ہ بننے سے پہلے ہی ان کا صفایاکر دیں،مسلمانوں نے رسول(ص) سے اس ظالمانہ سلوک کی شکایت کی اور آنحضرت سے مکہ چھوڑنے کے لئے اجازت چاہی آپ(ص) نے ان سے چند روز کی مہلت طلب کی پھر فرمایا:''لقد اخبرت بدار هجرتکم و هی یثرب فمن اراد الخروج فلیخرج الیها'' ( ۲ ) مجھے تمہارے جس دار ہجرت کی خبر دی گئی ہے وہ مدینہ ہے پس جو تم میںسے مکہ چھوڑنا چاہتا ہے وہ مدینہ چلا جائے۔

دوسری روایت میں اس طرح نقل ہوا ہے :''ان اللّٰه قد جعل لکم دارا تامنون بها و اخوانا'' ( ۳ ) بیشک خدا نے تمہارے لئے ایک جگہ مقرر کر دی ہے جہاں تم امن و اخوت کی زندگی گزار وگے۔

بعض مسلمانوں نے خفیہ طریقہ سے مکہ سے مدینہ کی طرف ہجرت شروع کر دی تاکہ قریش کو شک نہ ہو۔

____________________

۱۔ تفسیر قمی ج۱ ص۲۷۲۔

۲۔ الطبقات الکبریٰ ج۱ ص۲۲۶۔

۳۔مناقب آل ابی طالب ج۱ ص ۱۸۲، السیرة النبویہ ج۱ ص ۴۶۸۔

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296