خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96647 / ڈاؤنلوڈ: 4138
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مصنف : آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی مد ظلہ

مترجم : سید کمیل اصغر زیدی

تصحیح: سید منظر صادق زیدی

نظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیشکش: معاونت فرہنگی ادارۂ ترجمہ

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت

کمپوزنگ: سید حسن اصغرنقوی

طبع اول: ۱۴۲۷ ھ ۲۰۰۶ ئ

تعداد ۳۰۰۰

مطبع : اسراء

۳

بِسْمِ ﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ

بنام خدائے رحمان ورحیم

قُلْ أَعُوذُبِرَبِّ النَّاسِ٭مَلِکِ النَّاسِ٭

اے رسول کہہ دیجئے کہ میں انسانوں کے پروردگار کی پناہ چاہتا ہوںجو تمام لوگوں کا مالک و بادشاہ

اِلٰهِ النَّاسِ٭مِنْ شَرِّالوَسْوَاسِ الخَنَّاسِ٭الَّذِی

اور سارے انسانوں کا معبود ہے شیطانی وسواس کے شر سے جو نام خدا سن کر پیچھے ہٹ جاتا ہے

یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِالنَّاسِ٭مِنَ الجِنَّةِوَالنّاسِ٭

اور جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کراتا ہے وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچے و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور ،عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے اپنی قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۵

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہلبیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہلبیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنہوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہلبیت کونسل) مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہلبیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہلبیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۶

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہلبیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّامہ آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی مد ظلہ کی گرانقدر کتاب ( الہویٰ فی حدیث اہل البیت )کوسید کمیل اصغر زیدی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام

۷

مقدمہ ٔ مؤلف

آپ کے سامنے اس حدیث قدسی سے متعلق کچھ فکری کا وشوں کا نتیجہ حاضر خدمت ہے جو خواہشات نفس،ان کی پیروی اور مخالفت نیز انسانی زندگی میں ان کے آثار کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔

یہ فکری کوشش درحقیقت ا ن یا دداشتوں کا مجموعہ ہے جنہیں میں نے حوزہ علمیہ قم کے کچھ طلاب کے درمیان درس کے عنوان سے بیان کیا تھا ،اور اب خداوند عالم نے انہیں اس شکل وصورت میںمرتب اور نشر کرنے کی توفیق عنایت فرمادی ہے ۔

ان تمام عنایتوں پر اسکی حمد ہے ۔اور ﷲتعالی سے دعا ہے کہ اسے مومنین کے لئے مفید بنادے اور اسکے صاحب تحریر کے لئے بھی اس دن فائدہ مند قرار دے کہ جس دن مال واولاد کچھ کام نہ آئیںگے۔

محمد مہدی آصفی

قم مقدسہ

۲۸شوال ۱۴۱۲ھ

۸

بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ

حدیث قدسی

عن الامام الباقرعليه‌السلام :عن رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:یقول ﷲ عزوجل:

''وعزتی،وجلالی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعُلُوّی،وارتفاعِ مکانی، لایؤثرعبد هواه علیٰ هوای لاشتّتُ أمره،ولبّست علیه دنیاه،وشغلت قلبه بها،ولم أوته منهالاماقدّرت له وعزتی،وجلالی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعُلُوّی،وارتفاع مکانی، لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه لااستحفظته ملا ئکتی،وکفّلت السماوات والارض رزقه،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر،وأتته الدنیاوهی راغمة''( ۱ )

____________________

(۱)عدةالداعی:ص۷۹۔اصول کافی :ج۲ص۳۳۵۔بحارالانوار:ج۷۰ص۷۸۔بحار الانوار ج۷۰ ص۸۵ و ۸۶۔الجواہر السنیةفی الاحادیث القدسیة:ص۳۲۲۔اور شیخ محمد مدنی نے تقریباً انہیں الفاظ میں اسے :الاتحافات السنیةفی الاحادیث القدسیہ:ص۳۷پر نقل کیا ہے ۔

۹

بِسْمِ ﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ

حدیث قدسی

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ خداوند عالم کاارشاد ہے :

''میری عزت و جلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے امور کو درہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا ۔اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے''

''اورمیری عزت وجلالت،عظمت وکبریائی،نورورفعت اورمقام ومنزلت کی بلندی کی قسم کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ ملائکہ اسکی حفاظت کرینگے ۔آسمان اور زمین اسکے رزق کے ذمہ دار ہیں اور ہر تاجر کی تجارت کی پشت پرمیں اسکے ساتھ موجود ہوں گااور دنیا اسکے سامنے ذلت و رسوائی کے لبادہ میں حاضر ہوگی''

یہ حدیث شریف ان روایات میں سے ہے جن کی شہرت کتب فریقین میں مستفیضہ ہونے کی حد تک ہے ۔

ہم نے اس حدیث کو مختلف سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے جن میں سے بعض سندیں ہمارے نزدیک صحیح ہیں ۔

اس حدیث کی تشریح تین فصلوں میں پیش کی گئی ہے۔

پہلی فصل:ہوائے نفس کی تعریف ،اس کے عوارض کی تشخیص ،اسکے علاج اور اس پر قابو پانے کے راستے پر مشتمل ہے یہ فصل در حقیقت اس کتاب (حدیث کی تشریح)کا مقدمہ ہے ۔

دوسری فصل:اپنی خواہش کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دینے والوں کے ذکر میں ہے ۔

تیسری فصل:خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح دینے والوں کے ذکر میں ہے ۔

۱۰

پہلی فصل

خواہش

قرآن وسنت کی روشنی میں

''ہویٰ'' (خواہش)قرآن وحدیث

کی روشنی میں

ہویٰ (خواہش )ایک اسلامی اصطلاح ہے جو قرآن و حدیث سے ماخوذہے ۔اسلامی تہذیب میں اسکے اپنے ایک خاص معنیٰ مراد لئے جاتے ہیں۔

یہ لفظ قرآن اور احادیث میں کثرت سے استعمال ہوا ہے جیسا کہ ﷲ تعالی کا ارشاد ہے :

( أرایت من اتخذإلٰهه هواه أفأنت تکون علیه وکیلا ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنالیا ہے کیا آپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے:( وأما من خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهویٰ فإن الجنة هی المأویٰ ) ( ۲ )

''اور جس نے رب کی بار گاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے ''

____________________

(۱)سورئہ فرقا ن آیت ۴۳۔

(۲)سورئہ نازعات آیت۴۰۔۴۱۔

۱۱

سید رضی نے مولائے کائنات حضرت علی کا یہ قول نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے:

(إن أخوف ماأخاف علیکم إثنان:إتباع الهویٰ وطول الأمل )

''مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کاخوف رہتا ہے :خواہشات کی پیروی اورآرزووںکا طولانی ہونا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امام جعفر صادق دونوں سے ہی یہ حدیث نقل ہوئی ہے کہ آپ حضرات نے فرمایا :

(حذرواأهوائکم کماتحذرون أعدائکم،فلیس شی أعدیٰ للرجال من اتباع أهوائهم وحصائدألسنتهم )( ۱ )

'' اپنی خواہشات سے اسی طرح ڈرتے رہو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو۔ کیونکہ انسان کیلئے خواہشات کی پیروی اور زبان کے نتائج سے بڑاکوئی دشمن نہیں ہے۔''

اور امام جعفر صادق ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ:

(لاتدع النفس وهواها،فن هواهارداها )( ۲ )

'' نفس اور اسکی خواہشات کو ہرگز یونہی نہ چھوڑدینا کیونکہ نفسانی خواہشیں ہی اسکی پستی کا باعث ہیں''

بنیادی محرکات

انسانی زندگی میں نفس اور''خواہشات ''کیا کردار ادا کرتے ہیں اسکے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خداوند عالم نے ہر انسان کو متحرک وفعال رکھنے اور علم وکمال کی جانب گامزن کرنے کے لئے

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۳۳۵۔

(۲)گذشتہ حوالہ اسکے وجودمیں کچھ بنیادی محرکات رکھے ہیں اور انسان کی تمام ارادی اور غیر ارادی حرکات نیز اسکی مادی و معنوی ترقی ا نھیں بنیادی محرکات کی مرہون منت ہے یہ چھ محرکات ہیں اور ان میںبھی سب سے اہم محرک ''ہویٰ''یعنی خواہشات نفس ہے۔

۱۲

۱۔فطرت:

اس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنی معرفت نیز وفاء ، عفت ،رحمت،اور کرم جیسے اخلاقی اقدارکی طرف رجحان کی قوت ودیعت فرمائی ہے۔

۲۔عقل :

یہ انسانی وجودمیں حق و باطل کے درمیان تشخیص اور تمیز دینے کی ذمہ دار ہے۔

۳۔ارادہ:

کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا انحصار اسی پر ہوتاہے اور شخصیت کا استقلال اسی سے وابستہ ہے۔

۴۔ضمیر:

عدل و انصاف پر مبنی درونی و باطنی آوازہے جس کا کام انسان کو صحیح فیصلہ سے آگاہ اور غلط باتوں پر اسکی توبیخ کرنا ہے تاکہ انسان حد اعتدال پر قائم رہے ۔

۵۔قلب ،صدر،:

آیات قرآنی کے مطابق علم ومعرفت کا ایک اور دروازہ ہے۔ اسی پر خداوند عالم کی جانب سے علم ومعرفت کی تجلی ہوتی ہے ۔

۶۔ہویٰ(خواہشیں):

وہ خواہشات اور جذبات جو انسان کے نفس میں پائے جاتے ہیںاور ہر حال میں انسان سے اپنی تکمیل کامطالبہ کرتے ہیں اور ان کی تکمیل کے دور ان انسان لذت محسوس کرتاہے انسان کو متحر ک رکھنے اور اسے علم ومعرفت سے مالا مال کرنے کے یہ اہم ترین محرکات ہیںجنہیںاللہ تعالیٰ نے انسانی وجود میںودیعت فرمایاہے ۔سردست ان کی تعداداورتفصیلات کے بارے میں کسی قسم کی علمی اور تفصیلی گفتگو مقصودنہیں ہے ۔

۱۳

نفسیات کے اس گوشہ پر ابھی اسلامی نقطہ نظر سے مزید غور وفکر اور بحث وجستجو کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ کو ئی ایسا بلند پایہ مفکر سامنے آجائے جو آیات و روایات کی روشنی میں اس گوشے سے متعلق فکری جولانیاں دکھا سکے۔۔فکر اسلامی کا یہ گوشہ نہایت شاداب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھوتابھی ہے اور یہی دونوں خصوصیات علماء و مفکرین کے اشہب فکر کو مہمیز کرنے کیلئے کافی ہیں۔

لہٰذا خدا وند کریم سے یہ دعا ہے کہ جو شخص اسلامی علوم کے خزانوں کے سہارے اس مہم کو سر کرنے کا بیڑا اٹھا ئے وہ اسکے لئے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کردے ۔

فی الحال اس کتاب میں ہویٰ کے معنی ،اسکی تعریف ،اور انسانی زندگی میں اسکے کردار نیز اسکے خصوصیات ،اثرات ،اس سے مقابلہ کا طریقہ اور اس سے متعلق دوسرے امور کا جائزہ لینا مقصودہے لہٰذا ہم انسانی وجود میں موجود دوسرے محرکات سے صرف نظر کرکے صرف اور صرف''ہویٰ''خواہشوںکے بارے میں گفتگوکریںگے ۔

''ہویٰ'' کی اصطلاحی تعریف

جب ہم اسلامی علوم میں ہویٰ کے معانی تلاش کرتے ہیں تو ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب وتمدن میں ہویٰ ''انسان کے اندر پو شیدہ ان خواہشات اور تمنائوں کو کہا جاتا ہے جو انسان سے اپنی تکمیل کے خواہاں ہوتے ہیں ۔''

انسان کی شخصیت میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کو متحرک بنانے اوراسے آگے بڑھانے کا ایک بنیادی سبب نیز اسکی تمام ارادی اور غیرارادی حرکتوں کی اہم کنجی ہیں ۔

''ہویٰ''کے خصوصیات

انسانی زندگی کی تعمیر یا بربادی میں اسکی نفسانی خواہشوں کے مثبت اور منفی کردارسے وا قفیت کے لئے سب سے پہلے ان کی اہم خصوصیات کوجاننا ضروری ہے لہٰذا ہم آئندہ صفحات میں اسلامی نقطۂ نگاہ سے خواہشات نفس کے اہم خصوصیات کا جائز ہ لیں گے ۔

۱۴

۱۔چاہت میںشدت

اپنی چاہت کی تکمیل میں بالکل آزاد اور بے لگام ہونا انسانی خواہشات کی سب سے پہلی اور اہم ترین خصوصیت ہے البتہ سیر ہو نے یانہ ہونے کے اعتبار سے اس کے مختلف درجات ہیں کیونکہ کچھ خواہشات تو ایسی ہو تی ہیں جن سے کبھی سیری نہیںہو پاتی اور چاہے جتنا بھی اس کی تکمیل کی جائے اس کی طلب اور چاہت میں کمی نہیںآتی ۔جبکہ کچھ خواہشات ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ سردتو پڑجاتی ہیں مگر بہت دیر کے بعد۔مختصر یہ کہ ان تمام خواہشات کے درمیان اعتدال اور توازن کے بجائے شدت طلبی ایک مشترکہ صفت ہے۔

جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

(لَوْکَانَ لِاِبْنِ آدَم وادٍمن مال لابتغیٰ لیه ثانیاً،ولوکان له وادیان لابتغیٰ لهماثالثاً،ولایملأ جوف ابن آدم لاالتراب )( ۱ )

''اگرفرزند آدم کے پاس مال ودولت کی ایک وادی ہو تی تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرتا اور اگر اس کے پاس ایسی ہی دو وادیاں ہو تیں تب بھی اس کو تیسری وادی کی تمنا رہتی اور اولاد آدم کا پیٹ مٹی کے علا وہ کسی اور چیزسے نہیں بھر سکتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے :

(لوکان لابن آدم وادیان من ذهب لابتغیٰ وراء هما ثالثاً )( ۲ )

''اگر آدمی کو سونے کی دو وادیاں مل جائیں تو بھی اسے تیسری وادی کی تلاش رہے گی ''

جناب حمزہ بن حمران کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں یہ شکایت کی کہ مجھے جس چیز کی خواہش ہو تی ہے وہ مجھے مل جاتی ہے تب بھی میرا دل اس پرقانع نہیں ہوتا ہے اور مزیدکی خواہش باقی رہتی ہے ،لہٰذا مجھے کو ئی ایسی چیز تعلیم فر مائیے جس سے میرے اندر قناعت پیدا ہو جائے اور مزیدکی خواہش نہ رہے توامام نے فرمایا:

____________________

(۱)الجامع الصغیرللسیوطی بشرح المناوی۔ ج۲ص۲۲۰ط ۱۳۷۳۔

(۲)مجموعۂ ورام ص۱۶۳۔

۱۵

''جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ تمھیں مستغنی بنا دے تو دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا معمولی سا حصہ بھی تمھیں مستغنی بنا نے کے لئے کافی ہے اور جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ بھی تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پوری دنیا پاکر بھی تم مستغنی نہیں ہو سکتے ہو ''( ۱ )

امیرالمو منین فرمایا کرتے تھے :

''اے فرزندآدم، اگر تجھے دنیا صرف اتنی مقدار میںدرکارہو جو تیری ضروریات کے لئے کافی ہو سکے تو اس کا معمولی ساحصہ بھی تیرے لئے کافی ہے اور اگر تجھے وہ چیزبھی درکار ہے جو تیرے لئے ضروری نہیںتو پوری دنیا بھی تیرے لئے ناکا فی ہے ''( ۲ )

مذکورہ روایات میں خواہشات کی مزید طلب برقراررہنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کبھی ان کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے بلکہ ان کی شدت طلب کو بتانا مقصود ہے اور یہ کہ عموماًخواہشات حد اعتدال پر قائم نہیں رہتے ۔ورنہ بعض خواہشات ایسی ہو تی ہیں جو زند گی کے آخری مرحلہ میں بالکل کمزور پڑجاتی ہیں حالانکہ کچھ ایسی خواہشات بھی ہیں جوانسان کے آخری سانس تک بالکل جوان رہتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو تی ہے ۔( ۳ )

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۹۔

(۲)بحار الانوار ج ۷۳ ص ۱۷۰۔

(۳)انس نے رسول سے (جامع صغیر سیوطی حر ف (ی)ج۲ص۳۷۱)پر روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے ٔ''فرزند آدم بالکل بوڑھا پھوس ہوجاتا ہے مگر اس کے ساتھ دو چیزیں باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور آرزو ۔''

۱۶

میں خداوند عالم کے ایک ایسے بندہ ٔصالح کو پہچانتاہوںجس نے توفیق الٰہی کے سہارے جوانی میں ہی اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ جب ان کی عمر ۹۰سال کے قریب ہوئی توان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی وہ فرمایا کرتے تھے کہ بنیادی طور پر صرف تین خواہشات ہیں : ۱۔جنسیات ۲۔مال ۳۔عہدہ پہلی دو خواہشات کو تو میں نے اپنی جوانی میںہی رام کرکے ان پر غلبہ حاصل کرلیاتھا لیکن تیسری خواہش اب بھی میرے دل میں مسلسل ابھرتی رہتی ہے اور مجھے اس کی بنا پر شرک میں پڑنے کا خطرہ لاحق رہتاہے۔

۲۔خواہشات میں تحرک کی قوّت

خواہشات، انسان کی حرکت و فعالیت کا سب سے اہم اور طاقتور ذریعہ ہیں اور ان کے اندر پائی جانے والی قوت متحرکہ کے بارے میں صرف اتنا کہناکافی ہے کہ خواہشات نفس و ہ تنہا سبب ہیں جوجاہلانہ تہذیب و تمدن کو پروان چڑھاتے رہے ہیں اورتاریخی نیز جغرافیائی لحاظ سے یہی جاہلانہ تمدن روئے زمین کے بیشتر حصوں پر حکم فرمارہاہے ۔اس جاہلانہ تمدن میں فطرت،ضمیراورعقل کی حکم فرمائی کا سرے سے انکار تو نہیں کیا جاسکتاہے لیکن یہ طے شدہ ہے کہ اس تمدن کی پیشرفت میں خواہشات ہی سب سے بڑاعامل اور سبب ہیں چاہے وہ جنگ و صلح کے معاملات ہو ں یا اقتصاد اور علو م وفنون کے میدان یا دیگر جرائم سب اسی کی کوکھ سے جنم لیتے رہے ہیں ۔

انسانی تاریخ کے بیشتر ادوارمیںجاہلیت کی حکمفرمائی دیکھنے کے بعد خواہشات میں پائی جانے والی قوت متحرکہ کی وسعت کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔روایت میں ہے کہ جناب زیدبن صوحان نے امیر المومنین سے سوال کیا :

(ای سلطان اغلب وأقویٰ) '' کس بادشاہ کا کنٹرول اور غلبہ سب سے زیادہ ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا : (الھوی)'' خواہشات کا ۔''( ۱ ) اسی طرح قرآن مجید نے عزیز مصر کی بیوی کا یہ اقراری جملہ نقل کیا ہے :

( إن النفس لأمارة بالسوء إلامارحم ربی ) ( ۲ )

''نفس تو برائیوں کی طرف ہی اکسا تاہے مگر یہ کہ جس پرخدا رحم وکرم کردے (وہی اس سے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۷۶حدیث۶۔

(۲)سورئہ یوسف آیت ۵۳۔علمائے نحو کے بقول اس جملے میں نحوی اعتبارسے اتنی تاکیدیں پائی جاتی ہیں جو بہت کم جملوں میں ہوتی ہیں جیسے یہ جملہ اسمیہ ہے اور اسکی ابتداء میں انّ پھرا مارہ صیغۂ مبالغہ اور اسکے شروع میں لام تاکید یہ سب کثرت تاکید کی علامتیں ہیں۔

۱۷

محفوظ رہ سکتا ہے)''یہ مختصر سا جملہ انسانی زندگی پر خواہشات کے مستحکم کنڑول کی ایک مضبوط سند ہے ۔

اور امیر المومنین سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

(الخطایا''الشهوات''خیل شُمُس حُمِل علیهاأهلها،وخُلِعَت لُجُمها،فتقحمت بهم فی النار،ألاوان التقویٰ مطایاذُلُلُ،حُمِل علیهاأهلها،واُعطواأزِمّتها،فأوردتهم الجنة )( ۱ )

'' خطائیں اور''خواہشات'' وہ سرکش گھوڑے ہیں جن پر کسی کو سوار کرکے انکی لگام اتاردی جائے اور وہ اپنے سوار کو لیکر جہنّم میں پھاند پڑیں لیکن تقویٰ وہ رام کی ہوئی سواریاں ہیں جن پر صاحبان تقویٰ کو سوار کرکے ان کی لگام انکے ہاتھ میں دیدی جائے اور وہ ان کو جنّت میں پہونچادیں ''

شمس در اصل شموس کی جمع ہے اور شموس اس سرکش اور اڑیل گھوڑے کو کہتے ہیں جو کسی کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیتا اورنہ ہی سوار کا تابع رہتاہے۔گویاسوار اسے لگام لگائے بغیر اس پر سوار ہوگیا تووہ اسکے قابو میں نہیںرہتااور وہ سوار کو لے اڑتاہے اور سواربھی اسے اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ پاتا ۔یہی حال خواہشات کا بھی ہوتا ہے جو اپنے اسیرانسان کوہر طرف لئے پھرتی ہیں اور وہ ان خواہشات کو صحیح جہت نہیں دے پاتا اور ان پر اپنا قابو اسی طرح کھو بیٹھتا ہے جس طرح ایک سرکش گھوڑا بے قابو رہتا ہے۔

اسکے برخلاف تقویٰ انسان کو اسکے خواہشات نفس اور ہوی وہوس پر قابو رکھنے کی قوت عطا کرتا ہے اور نفس کو اسکا مطیع اور فرمانبردار بنا دیتا ہے جسکے بعدانسان جدھر چاہے انکا رخ موڑ سکتا ہے اورانہیں خواہشات کے ذریعہ وہ جنت میں پہنچ سکتا ہے ۔

۳۔خواہشات اور لالچ کی بیماری

طمع اور لالچ خواہشات کی تیسری خصوصیت ہے جس کی بنا پر خواہشات کی طلب میں

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۔

۱۸

اوراضافہ ہوجاتا ہے اور اسکی خواہش بڑھتی رہتی ہے ۔جبکہ دیگر مطالبات میں معاملہ اسکے بالکل بر عکس ہوتاہے کیونکہ جب انسان کسی اور مطالبہ کو پورا کرتا ہے تو اسکی گذشتہ شدت اور کیفیت و کمیت باقی نہیں رہتی بلکہ شدت میں کمی آتی ہے اورسیرابی کا احساس ہوتاہے ۔

لیکن خواہشات( ۱ ) کامعاملہ یہ ہے کہ اگر ان کے مطابق عمل کرتے رہیں تو ان کی طلب میں اضافہ ہوتاجاتاہے ،ان کی چاہت کا لاوا مزید ابلنے لگتاہے ۔جسکے بعد دھیرے دھیرے ان پر انسان کا کنٹرول نہیں رہ جاتا لیکن اگر معقول ضابطہ کے تحت ،اعتدال کے دائرہ میںرہ کر ان خواہشات کو پورا کیا جائے تو پھر ان کے مطالبات خود بخود سردپڑجاتے ہیںاورانسان بخوبی انکے او پر غلبہ حاصل کرلیتاہے۔

مختصر یہ کہ بالکل آگ کی طرح ہوتی ہیں کہ اس میں جتنی زیادہ پھونک ماری جاتی ہے اسکے شعلے مزیدبھڑکنے لگتے ہیں اسکی لپٹیںاور بلند ہو جا تی ہیں ۔لہٰذا شرعی حدود میں رہ کر مناسب اور معقول انداز میں ان خواہشات کو پورا کرناان کو آزاد اور بے لگام چھوڑدینے سے بہتر ہے کیونکہ اگر بلاقید و شرط ان کی پیروی کی جائے تو ہر قدم پر تشنگی کا احساس ہوتارہے گااور خواہشات پر انسان کا اختیاربالکل ختم ہو جائے گا ۔

ان دونوں ہی باتوں کی طرف روایات میں اشارہ موجود ہے۔

۱۔خواہشات کی بلاقید و شرط تکمیل سے ان کی شدت میں اور اضافہ ہوتاہے اور ان کے مطالبات بڑھتے ہی رہتے ہیں اور اسکے برعکس اگر صرف شرعی حدود کے دائرہ میںان کی تکمیل ہوتو سیرابی حاصل ہوتی ہے ۔جیسا کہ مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(ردالشهوة أقضی لها،وقضاؤهاأشدّلها )( ۲ )

____________________

(۱)خواہشات سے ہماری مراد تمام چاہتیں نہیں ہیں ۔کیونکہ بعض چاہتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ قاعدہ درست نہیں ہے ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۳۸۰۔

۱۹

''شہوت اور خواہش کو ٹھکرادینا ہی اسکے ساتھ بہترین انصاف ہے اور اسکو پورا کرنا اسے مزید بڑھاوا دینا ہے۔''

یہاں خواہش کو ٹھکرادینے سے مراد محدود اور معقول پیمانہ پر ان کی تکمیل ہے ۔اور تکمیل سے مراد انہیںبے لگام چھوڑدینا اور ان کی تکمیل میں کسی قاعدہ و قانون کا لحاظ نہ رکھناہے۔

۲۔خواہشات کی بے جاتکمیل اور اس راہ میں افراط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان خواہشات کے سامنے انسان اتنابے بس اور مجبورہو جاتا ہے کہ اپنی خواہشات پر اس کا کوئی اختیار نہیں رہ جاتااوروہ ان کاغلام اور نوکر بن کر رہ جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف اگر انسان واقعاً کسی اصول وضابطہ کے مطابق محدود پیمانہ پران کی تکمیل کرے تو پھر اپنی خواہشات پر اسکا مکمل اختیار رہتا ہے اور وہ انہیں جدھر چاہے موڑسکتاہے۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(مثل الحریص علی الدنیاکمثل دود القز،کلماازدادت من القزعلی نفسها لفّاًکان أبعد لها من الخروج حتیٰ تموت )( ۱ )

دنیا کے لالچی انسان کی مثال ریشم کے اس کیٹرے جیسی ہے کہ جو اپنے اوپر جتنا ریشم لپیٹا جاتاہے اسکے نکلنے کا راستہ اتنا ہی تنگ ہوتاجاتا ہے اور آخر کا روہ موت کے منھ میں چلا جاتا ہے۔

____________________

(۱)بحار الانوارج۷۳ص۲۳۔

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

وجہ سے آپ کی سانس رکنے لگ جاتی تھی_(۴۷۳)

امام حسن علیہ السلام کے حالات میں لکھا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا بدن مبارک لرزنے لگتا تھا اور جب بہشت یا دوزخ کی یاد کرتے تو اس طرح لوٹتے پوٹتے کہ جیسے سانپ نے ڈس لیا ہو اللہ تعالی سے بہشت کی خواہش کرتے اور دوزخ سے پناہ مانگتے تھے_(۴۷۴)

حضرت عائشےہ رسول خدا(ص) کے بارے میں فرماتی ہیں کہ میں رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے گفتگو کر رہی ہوتی جب نماز کا وقت آیات تو آپ اس طرح منقلب ہوتے کہ گویا آپ مجھے نہیں پہچانتے اور میں انہیں نہیں پہچانتی_(۴۷۵)

امام زین العابدین علیہ السلام کے بارے میں لکھا ہے کہ آپ نماز کی حالت میں تھے کہ آپ کے کندھے سے عبا گر گئی لیکن آپ متوجہ نہیں ہوئے جب آپ نماز سے فارغ ہوئے تو آپ کے اصحاب میں سے ایک نے عرض کی اے فرزند رسول(ص) آپ کی عباء نماز کی حالت میں گر گئی اور آپ نے توجہ نہیں کی؟ آپ نے فرمایا کہ افسوس ہو تم پر جانتے ہو کہ میں کس ذات کے سامنے کھڑا ہوا تھا؟ اس ذات کی توجہ نے مجھے عباء کے گرنے کی توجہ سے روکا ہوا تھا_ کیا تم نہیں جانتے کہ بندہ کی نماز اتنی مقدار قبول ہوتی ہے کہ جتنا وہ خدا کی طرف حضور قلب رکھتا ہو_ اس نے عرض کی _ اے فرزند رسو ل(ص) پس ہم تو ہلاک ہوگئے؟ آپ نے فرمایا '' نہیں _ اگر تم نوافل پڑھو تو خدا ان کے وسیلے سے تمہاری نماز کو پورا کر دے گا_(۴۷۶)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ نماز کی حالت میں آپ کا چہرہ متغیر ہوجاتا تھا اور آپ کے سینے سے غلفے کی طرح آواز اٹھتی ہوئی سنی جاتی تھی اور جب آپ نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو اس لباس کی طرح جو زمین پر گرا ہوا ہو حرکت نہیں کیا کرتے تھے_

۲۶۱

حضور قلب کے مراتب

حضور قلب اول اللہ تعالی کی طرف توجہ کرنے کے مختلف درجات ہیں کہ ان میں سے بعض کامل اور دوسرے بعض زیادہ کامل ہیں_ عارف انسان آہستہ آہستہ ان درجات کو طے کرے تا کہ قرب اور شہود کے اعلی درجے اور عالیتر مقام کو حاصل کر لے_ یہ ایک طویل راستہ ہے اور متعدد مقامات رکھتا ہے کہ جس کی وضاحت مجھ جیسے محروم انسان سے دور ہے دور سے دیکھتے والا جو حسرت کی آگ میں جل رہا ہے یہ اس کی قدرت اور طاقت سے خارج ہے لیکن اجمالی طور سے بعض مراتب کی طرف اشارہ کرتا ہوں شاید کہ عارف انسان کے لئے فائدہ مند ہو_

پہلا مرتبہ

یوں ہے کہ نماز پڑھنے والا تمام نماز یا نماز کے بعض حصے میں اجمالی طور سے توجہ کرے کہ خداوند عالم کے سامنے کھڑا ہوا ہے اور اس ذات کے ساتھ ہم کلام اور راز و نیاز کر رہا ہے گرچہ اسے الفاظ کے معانی کی طرف توجہ نہ بھی ہو اور تفضیلی طور سے نہیں جانتا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے_

دوسرا مرتبہ

قلب کے حضور اور توجہ کا یوں ہونا کہ نمازی علاوہ اس کے کہ وہ نماز کی حالت میں اپنے آپ کو یوں جانے کہ خدا کے سامنے کھڑا اور آپ سے راز و نیاز کر رہا ہے ان کلمات کے معانی کی طرف بھی توجہ کرے جو پڑھ رہا ہے اور سمجھے کہ وہ خدا سے کیا کہہ رہا ہے اور کلمات اور الفاظ کو اس طرح ادا کرے کہ گویا ان کے معانی کو اپنے دل پر خطور دے رہا ہے مثل اس ماں کے جو الفاظ کے ذریعے اپنے فرزند کو معانی کو تعلیم دیتی ہے_

۲۶۲

تیسرا مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی تمام سابقہ مراتب بجا لاتے ہوئے تکبیر اور تسبیح تقدیس اور تحمید اور دیگر اذکار اور کلمات کی حقیقت کو خوب جانتا ہو اور ان کو علمی دلیلوں کے ذریعے پہچانتا ہو اور نماز کی حالت میں ان کی طرف متوجہ ہو اور خوف جانے کہ کیا کہہ رہا ہے اور کیا چاہتا ہے اور کس ذات سے ہم کلام ہے_

چوتھے مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی ان سابقہ مرحلوں کے ساتھ کلمات اور اذکار کے معانی اور معارف کو اچھی طرح اپنی ذات کے اندر سموئے اور کامل یقین اور ایمان کے درجے پر جا پہنچے اس حالت میں زبان دل کی پروی کرے گی اور دل چونکہ ان حقائق کا ایمان رکھتا ہے زبان کو ذکر کرنے پر آمادہ اور مجبور کرے گا_

پانچواں مرتبہ

یہ ہے کہ نمازی سابقہ تمام مراحل کے ساتھ کشف اور شہود اور حضور کامل تک جاپہنچے اللہ تعالی کے کمالات اور صفات کو اپنی باطنی آنکھوں سے مشاہدہ کرے اور سوائے خدا کے اور کسی چیز کو نہ دیکھے یہاں تک کہ اپنے آپ اور اذکار اور افعال اور حرکات کی طرف بھی متوجہ نہ ہو خدا سے ہم کلام ہے یہاں تک کہ متکلم اور کلام سے بھی غافل ہے اپنے آپ کو بھی گم اور ختم کر چکا ہے_ اور اللہ تعالی کے جمال کے مشاہدے میں محو اور غرق ہے_ یہ مرتبہ پھر کئی مراتب اور درجات رکھتا ہے کہ عارف انسانوں کے لحاظ سے فرق کر جاتا ہے _ یہ مرتبہ ایک عمیق اور گہرا سمندر ہے بہتر یہی ہے کہ مجھ جیسا محروم انسان اس میں وارد نہ ہو اور اس کی وضاحت ان کے اہل اور مستحق لوگوں کی طرف منتقل کردے_اللهم ارزقنا حلاوة ذکرک و

۲۶۳

مشاهدة جمالک

حضور قلب اور توجہ کے اسباب

جتنی مقدار حضور قلب اور توجہ کی ارزش اور قیمت زیادہ ہے اتنی مقدار یہ کام مشکل اور سخت دشوار بھی ہے _ جب انسان نماز میں مشغول ہوتا ہے تو شیطان وسوسہ ڈالنا شروع کردیتا ہے او ردل کو دائما ادھر ادھر لے جاتا ہے اور مختلف خیالات اور افکارمیں مشغول کر دیتا ہے_ اسی حالت میں انسان حساب کرنا شروع کر دیتا ہے بقشے بناتا ہے اور گذرے ہوئے اور آئندہ کے مسائل میں فکر کرنا شروع کر دیتا ہے_ علمی مطالب کو حل کرتا ہے اور بسا اوقات ایسے مسائل اور موضوعات کو کہ جن کو بالکل فراموش کر چکا ہے نماز کی حالت میں یاد کرتا ہے اور اس وقت اپنے آپ میں متوجہ ہوتا ہے کہ جب نماز ختم کر چکا ہوتا ہے اور اگر اس کے درمیان تھوڑا سا نماز کی فکر میں چلا بھی جائے تو اس سے فورا منصرف ہوجاتا ہے_

بہت سی تعجب اور افسوس کا مقام ہے _ کیا کریں کہ اس سرکش اور بیہودہ سوچنے والے نفس پر قابو پائیں کس طرح نماز کی حالت میں مختلف خیالات اور افکار کو اپنے آپ سے دور کریں اور صرف خدا کی یاد میں رہیں_ جن لوگوں نے یہ راستہ طے کر لیا ہے اور انہیں اس کی توفیق حاصل ہوئی ہے وہ ہماری بہتر طریقے سے راہنمایی کر سکتے ہیں_ بہتر یہ تھا کہ یہ قلم اور لکھنا اس ہاتھ میں ہوتا لیکن یہ حقیر اور محروم بھی چند مطالب کی طرف اشارہ کرتا ہے جو حضور قلب اور توجہہ کے فائدہ مند ہوں گے_

۱_ گوشہ نشینی

اگر مستحب نماز یا فرادی نماز پڑھے تو بہتر ہے کہ کسی تنہائی کے مکان کو منتخب کرے کہ ج ہاں شور و شین نہ ہو اور وہاں کوئی فوٹو و غیرہ یا کوئی ایسی چیز نہ ہو کہ جو نمازی کو اپنی طرف متوجہ کرے اور عمومی جگہ پر نماز پڑھے اور اگر گھر میں نماز پڑھے تو

۲۶۴

بہتر ہے کہ کسی خاص گوشے کو منتخب کر لے اور ہمیشہ وہاں نماز پڑھتا رہے نماز کی حالت میں صرف سجدہ گاہ پر ن گاہ رکھے یا اپنی آنکھوں کو بند رکھے اور ان میں سے جو حضور قلب اور توجہہ کے لئے بہتر ہو اسے اختیار کرے اور بہتر یہ ہے کہ چھوٹے کمرے یا دیوار کے نزدیک نماز پڑھے کہ دیکھنے کے لئے زیادہ جگہ نہ ہو اور اگر نماز کو جماعت کے ساتھ پڑھے تو پھر صرف سجدہ گاہ پر نگاہ کرے اور اگر پیش نماز بلند آواز سے قرات پڑھے تو اس کی قرائت کی طرف خوب توجہ کرے_

۲_ رکاوٹ کا دور کرنا

نماز شروع کرنے سے پہلے جو حضور قلب اور توجہ کا مانع اور رکاوٹ ہے اسے دور کرے پھر نماز پڑھنے میں مشغول ہوجائے اور اگر پیشاب اور پاخانے کا زور ہو تو پہلے اس سے فارغ ہو جائے اس کے بعد وضو کرے اور نماز میں مشغول ہو اور اگر سخت بھوک اور پیاس لگی ہوئی ہو تو پہلے کھانا اور پانی پی لے اور اس کے بعد نماز پڑھے اور اگر پیٹ کھانے سے بھرا ہوا اور نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو تو پھر ٹھہر جائے اور صبر کرے یہاں تک کہ نماز پڑھنے کو دل چاہنے لگے_

اور اگر زیادہ تھکاوٹ یا نیند کے غلبے سے نماز پڑھنے کو دل نہ چاہتا ہو_ تو پہلے اپنی تکاوٹ اور نیند کو دور کرے اس کے بعدنماز پڑھے_ اور اگر کسی مطلب کے واضح نہ ہونے یا کسی واقعہ کے رونما ہونے سے پریشان ہو اگر ممکن ہو تو پہلے اس پریشانی کے اسباب کو دور کرے اور پھر نماز میں مشغول ہو سب سے بڑی رکاوٹ دنیاوی امور سے محبت اور علاقہ اور دلبستگی ہوا کرتی ہے_ مال و متاع _ جاہ و جلال اور منصب و ریاست اہل و عیال یہ وہ چیزیں ہیں جو حضور قب کی رکاوٹ ہیں ان چیزوں سے محبت انسان کے افکار کو نماز کی حالت میں اپنی طرف مائل کر دیتے ہیں اور ذات الہی کی طرف متوجہ ہونے کو دور کر دیتے ہیں_ نماز کو ان امور سے قطع تعلق کرنا چاہئے تا کہ اس کی توجہ اور حضور قلب اللہ تعالی کی طرف آسان ہوجائے_

۲۶۵

۳_ قوت ایمان

انسان کی اللہ تعالی کی طرف توجہ اس کی معرفت اور شناخت کی مقدار کے برابر ہوتی ہے اگر کسی کا اللہ تعالی پر ایمان یقین کی حد تک پہنچا ہوا ہو اور اللہ تعالی کی قدرت اور عظمت اور علم اور حضور اور اس کے محیط ہونے کا پوری طرح یقین رکھتا ہو تو وہ قہر اللہ تعالی کے سامنے خضوع اور خشوع کرے گا_ اور اس غفلت اور فراموشی کی گنجائشے باقی نہیں رہے گی_ جو شخض خدا کو ہر جگہ حاضر اور ناظر جانتا ہو اور اپنے آپ کو اس ذات کے سامنے دیکھتا ہو تو نماز کی حالت میں جو ذات الہی سے ہم کلامی کی حالت ہوتی ہے کبھی بھی اللہ تعالی کی یاد سے غافل نہیں ہوگا_ جیسے اگر کوئی طاقت ور بادشاہ کے سامنے بات کر رہا ہو تو اس کے حواس اسی طرف متوجہ ہونگے اور جانتا ہے کہ کیا کہہ رہاہے اور کیا کر رہا ہے اگر کوئی اللہ تعالی کو عظمت اور قدرت والا جانتا ہو تو پھر وہ نماز کی حالت میں اس سے غافل نہیں ہوگا لہذا انسان کو اپنے ایمان اور معرفت الہی کو کامل اور قوی کرنا چاہئے تا کہ نماز میں اسے زیادہ حضور قلب حاصل ہوسکے_

پیغمبر اکرم نے فرمایا ہے کہ '' خدا کی اس طرح عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ تجھے دیکھ رہا ہے_(۴۷۸)

ابان بن تغلب کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت میں عرض کیا کہ میں نے امام زین العابدین علیہ السلام کو دیکھا ہے کہ آپ کا نماز میں ایک رنگ آتا تھآ اور جاتا تھا؟ آپ نے فرمایا '' ہاں وہ اس مبعود کو کہ جس کے سامنے کھڑے تھے کامل طور سے پہچانتے تھے_(۴۷۹)

۴_ موت کی یاد

حضور قلب اور توجہ کے پیدا ہونے کی حالت کا ایک سبب موت کا یاد کرنا ہو

۲۶۶

سکتا ہے اگر انسان مرنے کی فکر ہیں اور متوجہ ہو کہ موت کا کوئی وقت نہیں ہوتا ہر وقت اور ہر شرائط میں موت کاواقع ہونا ممکن ہے یہاں تک کہ شاید یہی نماز اس کی آخری نماز ہو تو اس حالت میں وہ نماز کو غفلت سے نہیں پڑھے گا بہتر ہے کہ انسان نماز سے پہلے مرنے کی فکر میں جائے اور یوں تصور کرے کہ اس کے مرنے کا وقت آ پہنچا ہے اور حضرت عزرائیل علیہ السلام اس کی روح قبض کرنے کے لئے حاضر ہو چکے ہیں تھوڑا سا وقت زیادہ نہیں رہ گیا اور اس کے اعمال کا دفتر اس کے بعد بند ہو جائیگا اور ابدی جہاں کی طرف روانہ ہوجائے گا وہاں اس کے اعمال کا حساب و کتاب لیا جائے گا جس کا نتیجہ یا ہمیشہ کی سعادت اور اللہ تعالی کے مقرب بندوں کے ساتھ زندگی کرنا ہوگا اور یا بدبختی اور جہنم کے گڑھے میں گر کر عذاب میں مبتلا ہونا ہوگا_

اس طرح کی فرک اور مرنے کو سامنے لانے سے نماز میں حضور قلب اور توجہ کی حالت بہتر کر سکے گا اور اپنے آپ کو خالق کائنات کے سامنے دیکھ رہا ہوگا اور نماز کو خضوع اور خشوع کی حالت میں آخری نمازسمجھ کر بجا لائیگا نماز کے شروع کرنے سے پہلے اس طرح اپنے آپ میں حالت پیدا کرے اور نماز کے آخر تک یہی حالت باقی رکھے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' واجب نماز کو اس کے وقت میں اس طرح ادا کرو کہ وہ تمہاری وداعی اور آخری نماز ہے اور یہ خوف رہے کہ شاید اس کے بعد نماز پڑھنے کی توفیق حاصل نہ ہو_ نماز پڑھنے کی حالت میں سجدہ گاہ پر نگاہ رکھے اور اگر تجھے معلوم ہوجائے کہ تیرے نزدیک کوئی تجھے دیکھ رہا ہے اور پھر تو نماز کو اچھی طرح پڑھنے لگے تو جان لے کہ تو اس ذات کے سامنے ہے جو تجھے دیکھ رہا ہے لیکن تو اس کو نہیں دیکھ رہا_(۴۸۰)

۵_ آمادگی

جب نمازی نے تمام رکاوٹیں دور کر لی ہوں تو پھر کسی خلوت اور تنہائی کی

۲۶۷

مناسب جگہ جا کر نماز پڑھنے کے لئے تیار ہوجائے اور نماز شروع کرنے سے پہلے اللہ تعالی کی بے پناہ عظمت اور قدرت اور اپنی ناتوانی اور کمزوری کو یاد کرے اور یہ یاد کرے کہ وہ پروردگار اور تمام چیزوں کے مالک کے سامنے کھڑا ہے اور اس سے ہمکلام ہے_ ایسی عظیم ذات کے سامنے کھڑا ہے کہ جو تمام افکار یہاں تک کہ مخفی سوچ اور فکر کو جانتا ہے_ موت اور اعمال کے حساب اور کتاب بہشت اور دوزخ کو سامنے رکھے اور احتمال دے کہ شاید یہ اس کی آخری نماز ہو اپنی اس سوچ اور فکر اتنا زیادہ کرے کہ اس کی روح اس کی تابع اور مطیع ہوجائے اس وقت توجہ اور حضور قلب سے اذان اور اقامہ کہتے اور اس کے بعد نماز کی طرف مہیا ہونے والی یہ دعا پڑھے _ اللہم الیک توجہت و مرضاتک طلبت و ثوابک ابتقیت و بک امنت و علیک توکلت اللہم صل علی محمد و آلہ محمد و افتح مسامع قلبی لذکرک و ثبتنی علی دینک و دین نبیک و لا تزغ قلبی بعد اذ ہدیتنی و ہب لی من لدنک رحمة انک انت الوہاب

اس دعا کے پڑھتے کے وقت ان کلمات کی معانی کی طرف توجہ کرے پھر یہ کہے _ یا محسن قد اتاک المسئی یا محسن احسن الی

اگر حضور قلب اور توجہہ پیدا ہوجائے تو پھر تکبیر الاحرام کہے اور نماز میں مشغول ہوجائے اور اگر احساس ہوجائے کہ ابھی وہ حالت پیدا نہیں ہوئی تو پھر استغفار کرے اور شیطانی خیالات سے خداوند عالم سے پناہ مانگے اور اتنا اس کو تکرار کرے کہ اس میں وہ حالت پیدا ہوجائے تو اس وقت حضور قلب پیدا کر کے تکبیرة الاحرام کے معنی کی طرف توجہہ کرے نماز میں مشغول ہوجائے لیکن متوجہ رہے کہ وہ کس ذات سے ہمکلام ہے اور کیا کہہ رہا ہے اور متوجہ رہے کہ زبان اور دل ایک دوسرے کے ہمراہوں اور جھوٹ نہ بولے کیا جانتا ہے کہ اللہ اکبر کے معنی کیا ہیں؟ یعنی اللہ تعالی اس سے بلند و بالا ہے کہ اس کی تعریف اور وصف کی جا سکے درست متوجہ رہے کہ کیا

۲۶۸

کہتا ہے آیا جو کہہ رہا ہے اس پر ایمان بھی رکھتا ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب تو نماز کے قصد سے قبلہ رخ کھڑا ہو تو دنیا اور جو کچھ اس میں ہے لوگوں اور ان کے حالات اور اعمال سب کو ایک دفعہ بھولا دے اور اپنے دل کو ہر قسم کے ایسے کام سے جو تجھے یاد خدا سے روکتے ہوں دل سے نکال دے اور اپنی باطنی آنکھ سے ذات الہی کی عظمت اور جلال کا مشاہدہ کر اور اپنے آپ کو خدا کے سامنے اس دن کے لئے حاضر جان کہ جس دن کے لئے تو نے اپنے اعمال اگلی دنیا کے لئے بھیجے ہیں اور وہ ظاہر ہونگے اور خدا کی طرف رجوع کریں گے اور نماز کی حالت میں خوف اور امید کے درمیان رہ تکبرة الاحرام کہنے کے وقت جو کچھ زمین اور آسمان کے درمیان ہے معمولی شمار کر کیونکہ جب نمازی تکبیرة الاحرام کہتا ہے خداوند عالم اسکے دل پر نگاہ کرتا ہے اگر تکبیر کی حقیقت کی طرف متوجہ نہ ہو تو اسے کہتا ہے اے جھوٹے_ مجھے دھوکا دینا چاہتا ہے؟ مجھے عزت اور جلال کی قسم میں تجھے اپنے ذکر کی لذت سے محروم کرونگا اور اپنے قرب اور اپنی مناجات کرنے کی لذت سے محروم کر دونگا_(۴۸۱)

درست ہے کہ نیت اور تکبرة الاحرام کے وقت اس طرح کی تیاری قلب کے حضور کے لئے بہت زیادہ اثر انداز ہوتی ہے لیکن سب سے مہم تر یہ ہے کہ ایسی حالت استمرار پیدا کرے اگر معمولی سے غفلت طاری ہوگئی تو انسان کی روح ادھر ادھر پرواز کرنے لگے گی اور حضور اور توجہہ خداوند عالم کی طرف سے ہٹ جائیگی_ لہذا نمازی کو تمام نماز کی حالت میں اپنے نفس کی مراقبت اور حفاظت کرنی چاہئے اور مختلف خیالات اور افکار کو روکنا چاہئے ہمیشہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے حاضر سمجھے اور اس طرح نماز پڑھے کہ خدا کے ساتھ کلام کر رہا ہے اور اس کے سامنے رکوع اور سجود کر رہا ہے اور کوشش کرے کہ قرائت کرتے وقت ان کے معانی کی طرف متوجہ رہے اور غور کرے کہ کیا کہہ رہا ہے اورکس عظیم ذات کے ساتھ گفتگو کر رہا ہے اس حالت کو

۲۶۹

نماز کے آخر تک باقی رکھے گرچہ یہ کام بہت مشکل اور دشوار ہے لیکن نفس کی مراقبت اور کوشش کرنے سے آسان ہو سکتا ہے و الذین جاہدوا فینا لنہدینہم سبلنا اگر اسے اس کی ابتداء میں توفیق حاصل نہ ہو تو ناامید نہ ہو بلکہ بطور حتمی اور کوشش کر کے عمل میں وارد ہوتا کہ تدریجاً نفس پر تسلط حاصل کرلے_ مختلف خیالات کو دل سے نکالے اور اپنے آپ کو خدا کی طرف توجہ دے اگر ایک دن یا کئی ہفتے اور مہینے یہ ممکن نہ ہوا ہو تو مایوس اور نا امید نہ ہو اور کوشش کرے کیونکہ یہ بہرحال ایک ممکن کام ہے_ انسانوں کے درمیان ایسے بزرگ انسان تھے اور ہیں کہ جو اول نماز سے آخر نماز تک پورا حضور قلب رکھے تھے اور نماز کی حالت میں خدا کے علاوہ کسی طرف بالکل توجہ نہیں کرتے تھے_ ہم بھی اس بلند و بالا مقام تک پہنچنے سے نا امید نہ ہوں اگر کامل مرتبہ تک نہیں پہنچے پائے تو کم از کم جتنا ممکن ہے اس تک پہنچ جائیں تو اتنا ہی ہمارے لئے غنیمت ہے_(۴۸۲)

دوم _ نوافل

پہلے بیان ہوچکا ہے کہ سیر اور سلوک اور اللہ تعالی سے تقرب کا بہترین راستہ نماز ہے_ اللہ تعالی انسان کی خلقت کی خصوصیت کے لحاظ سے اس کے تکامل اور کمال حاصل کرنے کے طریقوں کو دوسروں سے زیادہ بہتر جانتا ہے_ اللہ تعالی نے نماز کو بنایا ہے اور پیغمبر علیہ السلام کے ذریعے انسانوں کے اختیار میں دیا ہے تا کہ وہ اپنی سعادت اور کمال حاصل کرنے کے لئے اس سے فائدہ حاصل کریں _ نماز کسی خاص حد تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے ہر زمانے میں ہر مکان اور ہر شرائط میں فائدہ حاصل کیا جا سکتا ہے نماز کی دو قسمیں ہیں ایک واجب نمازیں اور دوسری مستحب نمازیں_

چھ نمازیں واجب ہیں پہلی پنجگانہ نمازیں یعنی دن اور رات میں پانچ نمازیں دوسری نماز آیات تیسری نماز میت چوتھی نماز اطراف پانچویں وہ نمازیں جو نذر یا قسم یا

۲۷۰

عہد سے انسان پر واجب ہوتی ہیں چھٹی باپ کی نمازیں جو بڑے لڑکے پر واجب ہیں_

پنجگانہ نمازیں تو تمام مکلفین مرد اور عورت پر واجب ہیں لیکن باقی نمازیں خاص زمانے اور خاص شرائط سے واجب ہوتی ہیں_ جو انسان اپنی سعادت اور کمال کا طالب ہے اس پر پہلے ضروری ہے کہ وہ واجب نمازوں کو اس طرح جس طرح بنائی گئی ہیں انجام دے_ اگر انہیں خلوص اور حضور قلب سے انجام دے تو یہ بہترین اللہ تعالی سے تقرب کا موجب ہوتی ہیں_ واجبات کو چھوڑ کر مستحبات کا بجا لانا تقرب کا سبب نہیں ہوتا_ اگر کوئی خیال کرے کہ فرائض اور واجبات کو چھوڑ کر مستحبات اور اذکار کے ذریعے تقرب یا مقامات عالیہ تک پہنچ سکتا ہے تو اس نے اشتباہ کیا ہے_ ہاں فرائض کے بعد نوافل اور مستحبات سے مقامات عالی اور تقرب الہی کو حاصل کر سکتا ہے_ دن اور رات کے نوافل پینتیں ہیں ظہر کی آٹھ ظہر سے پہلے اور عصر کی آٹھ عصر سے پہلے اور تہجد کی گیارہ رکعت ہیں_ احادیث کی کتابوں میںنوافل کے پڑھنے کی تاکید کی گئی ہے اور انہیں واجب نمازوں کا متمم اور نقص کو پر کرنے والا بتلایا گیا ہے_ دن اور رات کی نوافل کے علاوہ بھی بعض نوافل خاص خاص زمانے اور مکان میں بجالانے کا کہا گیا ہے او ران کا ثواب بھی بیان کیا گیا ہے آپ مختلف مستحب نمازوں اور ان كّے ثواب اور ان کے فوائد اور اثرات کو حدیث اور دعا کی کتابوں سے دیکھ سکتے ہیں اور نفس کے کمال تک پہنچنے میں ان سے استفادہ کرسکتے ہیں ان سے فائدہ حاصل کرنے کا طریقہ ہمیشہ کے لئے کھالا ہوا ہے_ اس کے علاوہ بھی ہر وقت ہر جگہ اور ہر حالت میں نماز پڑھنا مستحب ہے_

امام رضا علیہ السلام نے فرمایا '' مستحب نمازیں مومن کے لئے تقرب کا سبب ہوا کرتی ہیں_(۴۸۳)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' کبھی آدھی اور کبھی تہائی اور چوتھائی نماز اوپر جاتی ہے_ یعنی قبول ہوتی ہے_ اتنی نماز اوپر جاتی ہے اور قبول ہوتی ہے کہ

۲۷۱

جتنی مقدار اس میں حضور قلب ہو اسی لئے مستحب نمازوں کے پڑھنے کا کہا گیا ہے تا کہ ان کے ذریعے جو نقصان واجب نماز میں رہ گیا ہے پورا کیا جائے_(۴۸۴)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' مومن بندہ میرے نزدیک محبوب ہے اور اس کے لئے واجبات پر عمل کرنے سے اور کوئی چیز بہتر نہیں ہے مستحبات کے بجالانے سے اتنا محبوب ہوجاتا ہے کہ گویا میں اس کی آنکھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ دیکھتا ہے اور گویا میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ بولتا ہے اور گویا میں اس کا ہاتھ ہوجاتا ہوں کہ جس سے وہ چیزوں کو پکڑتا ہے اور گویا میں اس کا پاؤں ہو جاتا ہوں کہ جس سے وہ چلتا ہے اگر وہ مجھے پکارے تو میں قبول کرتا ہوں اور جواب دیتا ہوں اور اگر کوئی چیز مجھ سے مانگے تو اسے عطا کرتا ہوں میں نے کسی چیز میں تردید اور ٹھہراؤ پیدا نہیں کیا جتنا کہ مومن کی روح قبض کرنے میں کیا ہے وہ مرنے کو پسند نہیں کرتا اور میں بھی اس کا ناپسندی کو ناپسند کرتا ہوں_(۴۸۵)

سوّم_ تہجّد

مستحبات میں سے تہجد کی نماز کی بہت زیادہ فضیلت حاصل ہے قرآن مجید اور احادیث میں اس کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے خداوند عالم کی ذ ات پیغمبر علیہ السلام کو فرماتا ہے کہ ''رات کو تھوڑے سے وقت میں تہجد کی نماز کے لئے کھڑا ہو یہ تیرے لئے مستحب ہے شاید خدا تجھے خاص مقام کے لئے مبعوث قرار دے دے_(۴۸۶)

اللہ تعالی اپنے خاص بندوں کے بارے میں فرماتا ہے کہ '' کچھ لوگ رات کو اپنے پروردگار کے لئے سجدے اور قیام کے لئے رات گذارتے ہیں_(۴۸۷)

اللہ تعالی مومنین کی صفات میں یوں ذکر کرتا ہے کہ '' رات کو بستر سے اپنے آپ کو جدا کرتے ہیں اور امید اور خوف میں خدا کو پکارتے ہیں اور جو کچھ انہیں دیا گیا ہے

۲۷۲

خرچ کرتے ہیں کوئی نہیں جان سکتا کہ کتنی نعمتیں ہیں جو ان کی آنکھ کے روشنی اور ٹھنڈک کا موجب بنیں گی جنہیں ان کے اعمال کی جزاء کے طور پر محفوظ کیا جاچکا ہے_(۴۸۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ خداوند عالم نے دنیا کو وحی کی ہے کہ اپنی خدمت کرنے والوں کو مصیبت اورمشقت میں ڈال اور جو ترک کر دے اس کی خدمت کر جب کوئی بندہ رات کی تاریکی میں اپنے خالق سے خلوت اور مناجات کرتا ہے تو خدا اس کے دل کو نورانی کردیتا ہے جب وہ کہتا ہے با رب یا رب تو خدا کی طرف سے کہا جاتا ہے_ لبیک یا عبدی_ تو جو چاہتا ہے طلب کرتا کہ میں تجھے عطا کروں مجھ پر توکل اور آسرا کرتا کہ میں تجھے کفایت کروں اس کے بعد اپنے فرشتوں سے کہتا ہے کہ میرے بندے کو دیکھو کس طرح تاریکی میں میرے ساتھ مناجات کر رہا ہے جب کہ بیہودہ لوگ لہو اور لعب میں مشغول ہیں اور غافل انسان سوئے ہوئے ہیں تم گواہ رہو کہ میں نے اسے بخش دیا ہے_(۴۸۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرماتے ہیں کہ '' جبرائیل مجھے تہجد کی نماز میں اتنی سفارش کر رہا تھا کہ میں نے گمان کیا کہ میری امت کے نیک بندے رات کو کبھی نہیں سوئیں گے_(۴۹۰)

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' آدھی رات میں دو رکعت نماز پڑھنا میرے نزدیک دنیا اور اس کی تمام چیزوں سے زیادہ محبوب ہے_(۴۹۱)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز شکل کو خوبصورت اور اخلاق کو اچھا اور انسان کو خوشبودار بناتی ہے اور رزق کو زیادہ کرتی ہے اور قرض کو ادا کراتی ہے اور غم اور اندوہ کو دور کرتی ہے اور آنکھوں کو روشنائی اور جلادیتی ہے_(۴۹۲)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' تہجد کی نماز اللہ تعالی کی خوشنودی اورملائکہ سے دوستی کا وسیلہ ہے_ تہجد کی نماز پیغمبروں کاطریقہ اور سنت اور ایمان اور معرفت کے لئے نور اور وشنی ہے_ کیونکہ تہجد کی نماز کے ذریعے ایمان قوی ہوتا ہے) بدن کو آرام دیتی ہے اور شیطان کو غضبناک کرتی ہے_ دشمنوں

۲۷۳

کے خلاف ہتھیار ہے دعا اور اعمال کے قبول ہونے کا ذریعہ ہے انسان کی روزی کو وسیع کرتی ہے_ نمازی اور ملک الموت کے درمیان شفیع ہوتی ہے_ قبر کے لئے چراغ اور فرش ہے اور منکر اور نکیر کا جواب ہے_ قبر میں قیامت تک مونس اور نمازی کی زیارت کرتی رہے گی_ جب قیامت برپا ہوگی تو نمازی پر سایہ کرے گی اس کے سرکا تاج اور اس کے بدن کا لباس ہوگی_ اس کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے نور اور روشنی ہوگی اور جہنم اور دوزخ کی آگ کے سامنے رکاوٹ بنے گی_ مومن کے لئے اللہ تعالی کے نزدیک حجت ہے اور میران میں اعمال کو بھاری اور سنگین کردے گی پل پر عبور کرنے کا حکم ہے اور بہشت کی چابی ہے کیونکہ نماز تکبیر اور حمد تسبیح اور تمجید تقدیس اور تعظیم قرات اور دعا ہے_ یقینا جب نماز وقت میں پڑھی جائے تو تمام اعمال سے افضل ہے_(۴۹۳)

تہجد کی نماز میں بہت زیادہ آیات اوراحادیث وارد ہوئی ہیں_ تہجد کی نماز کو پڑھنا پیغمبروں اور اولیاء خدا کا طریقہ اور سنت ہے_ رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور آئمہ اطہار نماز تہجد کے بارے میں خاص اہمیت اور توجہ اور عنایت رکھتے تھے_ اللہ کے اولیاء اور عرفاء شب کو ہمیشہ بجالانے سے اور سحر کیوقت دعا اور ذکر سے عالی مراتب تک پہنچے ہیں_ کتنا ہی اچھا اور بہتر اور لذت بخش ہے کہ انسان سحری کے وقت نیند سے بیدار ہوجائے اور نرم اور آرام وہ بستر کو چھوڑ دے اور وضوء کرے اور رات کی تاریکی میں جب کہ تمام آنکھیں نیند میں گم اور سوئی ہوئی ہیں اللہ تعالی کے حضور راز و نیاز کرے اور اس کے وسیلے روحانی معراج کے ذریعے بلندی کی طرف سفر کرے اور آسمان کے فرشتوں سے ہم آواز بنے اور تسبیح اور تہلیل تقدیس اور تمجید الہی میں مشغول ہوجائے اس حالت میں اس کا دل اللہ تعالی کے انوار اور اشراقات مرکز قرار اپائیگا اورخدائی جذب سے مقام قرب تک ترقی کرے گا (مبارک ہو ان لوگوں کو جو اس کے اہل ہے)

۲۷۴

نماز شب کی کیفیت

تہجد کی نماز گیارہ رکعت ہے دو دو رکعت کر کے صبح کی نماز کی طرح پڑھی جائے باین معنی کہ اٹھ رکعت کو تہجد کی نیت سے اور دور رکعت نماز شفع کی نیت سے اور ایک رکعت نماز وتر کی نیت سے پڑھے_ کے لئے کچھ آداب اور شرائط بیان کئے گئے ہیں_ جنہیں دعاؤں اور احادیث کی کتابوں میں دیکھےا جا سکتا ہے_

۲۷۵

چوتھا وسیلہ

جہاد اور شہادت

اسلام کو وسعت دینے اور کلمہ توحید کے بلند و بالا کرنے اسلام کی شوکت اور عزت سے دفاع کرنے قرآن کے احکام اور قوانین کی علمداری اور حاکمیت کو برقرار کرنے ظلم اور تعدی سے مقابلہ کرنے محروم اور مستضعفین کی حمایت کرنے کے لئے جہاد کرنا ایک بہت بڑی عبادت ہے اور نفس کے تکامل اور ذات الہی سے تقرب اور رجوع الی اللہ کا سبب ہے_ جہاد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات اور آیات وارد ہوئی ہیں_

خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ '' جو لوگ ایمان لے آئے ہیں اور اپنے وطن سے ہجرت کر لی ہے اور اپنے مال اور جان سے خدا کے راستے میں جہاد کرتے ہیں وہ اللہ کے نزدیک ایک بلند و بالا مقام اور رتبہ رکھتے ہیں اور وہی نجات پانے والے لوگ ہیں خدا انہیں اپنی رحمت اور رضوان اور بہشت کی کہ جس میں دائمی نعمتیں موجود ہیں خوشخبری اور بشارت دیتا ہے_ وہ بہشت میں ہمیشہ رہیں گے اور یقینا اللہ تعالی کے نزدیک یہ ایک بہت بڑی جزا اور ثواب ہے_(۴۹۴)

اللہ تعالی فرماتا ہے کہ '' اللہ تعالی نے مجاہدوں کو جہاد نہ کرنے والوں پر بہت زیادہ ثواب دیئے جانے میں برتری اور بلندی دی ہوئی ہے_(۴۹۵)

۲۷۶

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' بہشت کا ایک دروازہ ہے کہ جس کا نام باب المجاہدین ہے_ جب مجاہد بہشت کی طرف روانہ ہوں گے تووہ دروازہ کھل جائیگا جب کے جانے والوں نے اپنی تلواروں کو اپنے کندھوں پر ڈال رکھا ہو گا دوسرے لوگ قیامت کے مقام پر کھڑے ہونگے اور فرشتوں ان کا استقبال کریں گا_(۴۹۶)

پیغمبر اسلام نے فرمایا ہے کہ '' ہر نیکی کے اوپر کوئی نہ کوئی اور نیک موجود ہے یہاں تک کہ انسان اللہ کے راستے میں مارا جائے کہ پھر اس سے بالاتر اور کوئی نیکی موجود نہیں ہے_(۴۹۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جو شخص اللہ کے راستے میں شہادت پالے تو خداوند عالم سے اس کا کوئی یاد نہیں دلائے گا_(۴۹۸)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' خداوند عالم شہید کو سات چیزیں عنایت فرمائیگا_ ۱_ جب اس کے خون کا پہلا قطرہ بہتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کر دیتا ہے_ ۲_ شہادت کے بعد اس کا سر دو حوروں کے دامن میں قرار دیتا ہے اور وہ اس کے چہرے سے غبار کو ہٹاتی ہیں اور کہتی ہیں_ تم پر شاباش ہو وہ بھی ان کے جواب میں ایسا کہتا ہے_ ۳_ اسے بہشت کا لباس پہنایا جاتا ہے_ ۴_ بہشت کے خزانچی اس کے لئے بہترین عطر اور خوشبو پیش کرتے ہیں کہ ان میں سے جسے چاہے انتخاب کرلے_

۵_ شہادت پانے کے وقت وہ اپنی جگہ بہشت میں دیکھتا ہے_ ۶_ شہادت کے بعد اس کی روح کی خطاب ہوتا ہے کہ بہشت میں جس جگہ تیرا دل چاہتا ہے گردش کر_ ۷_ شہید اللہ تعالی کے جمال کا مشاہدہ کرتا ہے اور اس میں ہر پیغمبر اور شہید کو آرام اور سکون ہے_(۴۹۹)

خدا قرآن میں فرماتا ہے کہ '' خداوند عالم مومنین کے جان اور مال کو خرید تا ہے تا کہ اس کے عوض انہیں بہشت عنایت فرمائے یہ وہ مومن ہیں جو اللہ کے راستے میں جنگ کرتے ہیں اور دشمنوں کو قتل کرتے ہیں اور خود بھی قتل ہوجاتے ہیں یہ ان سے

۲۷۷

اللہ تعالی کا وعدہ ہے جو تو رات اور انجیل اور قرآن میں اللہ تعالی نے لکھ دیا ہے اور اللہ تعالی سے کون زیادہ وعدہ کو پورا کرنے والا ہے؟ تمہیں یہ معاملہ مبارک ہو کہ جو تم نے خدا سے کر لیا ہوا ہے اور یہ ایک بڑی سعادت ہے_(۵۰۰)

قرآن مجید کی یہ آیت ایک بڑی لطیف اور خوش کن آیت ہے کہ جو لوگوں کو عجیب اور لطیف ارو ظریف انداز سے جہاد کا شوق دلاتی ہے _ ابتداء میں کہتی ہے _ کہ اللہ تعالی نے مومنین کے مال اور جان کو خرید لیا ہے اور اس کے عوض ان کو بہشت دیتا ہے یہ کتنا بہترین معاملہ ہے؟ اللہ تعالی جو غنی مطلق اور جہان کا مالک ہے وہ خریدار ہے اور فروخت کرنے والے مومنین ہیں جو خدا اور آخرت پر ایمان رکھتے ہیں_ اور جن چیزوں پر معاملہ کیا ہے وہ مومنین کے مال اور جان ہیں اور اس معاملہ کا عوض بہشت ہے اس کے بعد خدا فرماتا ہے کہ تورات اورانجیل اور قرآن یعنی تین آسمانی بڑی کتابیں ہیں جن میں اس طرح کا ان سے وعدہ درج کیا گیا ہے_ پھر خدا فرماتا ہے کہ کس کو پیدا کر سکتے ہو کہ اللہ تعالی سے وعدہ پر عمل کرے آخر میں خدا مومنین کو خوشخبری دیتا ہے کہ یہ ایک بہت بڑی نیک بختی اورسعادت ہے_

قرآن مجید ان لوگوں کے لئے جو خدا کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں مقامات عالیہ کو ثابت کرتا ہے اور فرماتا ہے کہ '' ان لوگوں کو مردہ گمان نہ کرو جو اللہ کے راستے میں شہید ہوجاتے ہیں بلکہ وہ زندہ ہیں اور اللہ تعالی کے ہاں روزی پاتے ہیں_(۵۰۱) لفظ عندہم جو اس آیت میں ہے وہ بلند و بالا مقام کی طرف اشارہ ہے مرنے کے بعد انسان کی روح کا زندہ رہنا شہیدکے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام انسان زندہ ہیں لیکن شہداء کی خصوصیت یہ ہے کہ شہید اللہ کے ہاں عالیترین مقامات اور درجات میں زندہ رہتا ہے اور انہیں مقامات عالیہ میں روزی دیا جاتا ہے اور یہ واضح ہے کہ ان مقامات میں روزی دیا جانا دوسروں کے ساتھ مساوی اور برابر نہیں ہے_ اللہ تعالی کے راستے میں شہادت بہت بڑی قیمت اور بڑی عبادت ہے_ عارف اس ممتاز راستے میں عالی مقامات تک جاپہنچتا ہے_ اس بزرگ عبادت کو دوسری عبادت سے دو چیزوں کی وجہ

۲۷۸

سے خصوصیت اورامتیاز حاصل ہے_ پہلی_ مجاہد انسان کی غرض اور غایت اپنے ذاتی مفاد اور لواحقین کے مفاد کو حاصل کرنا نہیں ہوتا وہ کوتاہ نظر اور خودخواہ نہیں ہوتا بلکہ وہ جہاں میں خدا خواہ ہوا کرتا ہے_ مجاہد انسان کلمہ توحید اور اسلام کی ترویج اور وسعت کو چاہتا ہے اور ظلم اور ستم اور استکبار کے ساتھ مبارزہ اور جہاد کرتا ہے اور محروم طبقے اور مستضعفین سے دفاع کرتا ہے اور اجتماعی عدالت کے جاری ہونے کا طلبکار ہوتا ہے اور چونکہ یہ غرض سب سے بلند اور بالا ترین غرض ہے لہذا وہ اعلی درجات اور مراتب کو پالیتا ہے_

دوسری _ ایثار کی مقدار

مجاہد انسان اللہ تعالی سے تقرب اور اس کی ذات کی طرف سیر اور سلوک کے لئے ارزشمند اور قیمتی چیز کا سرمایہ ادا کرتا ہے اگر کوئی انسان صدقہ دیتا ہے تو تھوڑے سے مال سے درگذر اور صرف نظر کرتا ہے اور اگر عبادت کرتا ہے تو تھوڑا سا وقت اور طاقت اس میں خرچ کرتا ہے لیکن مجاہد انسان تمام چیزوں سے صرف نظر اور درگذر کرتا ہے اور سب سے بالاتر اپنی جان سے ہاتھ دھولیتا ہے اور اپنی تمام ہستی کو اخلاص کے ساتھ اللہ تعالی کے سپرد کر دیتا ہے_ مال اور جاہ و جلال مقام اور منصب اور اہل اور عیال اور رشتہ داروں سے صرف نظر کرتا ہے اور اپنی جان اور روح کو اپنے پروردگار کے سپرد کر دیتا ہے_ جس کام کو متدین اور عارف لوگ پوری عمر کرتے ہیں مجاہد انسان ان سب سے زیادہ تھوڑے سے وقت میں انجام دے دیتا ہے_ مجاہد انسان کی عظیم او رنورانی روح کے لئے مادیات اور مادی جہان تنگ ہوتا ہے اسی واسطے وہ شیر کی طرح مادی جہان کے پنجرے کو توڑتا ہے اور تیز پرواز کبوتر کی طرح وسیع عالم اور رضایت الہی کی طرف پرواز کرتا ہے اور اعلی مقامات اور مراتب تک اللہ تعالی کی طرف جاپہنچتا ہے_ اگر دوسرے اولیاء خدا ساری عمر میں تدریجاً محبت اور عشق اور شہود کے مقام تک پہنچتے ہیں تو مجاہد شہید ایک رات میں سو سال کا راستہ طے کر لیتا ہے اور

۲۷۹

مقام لقاء اللہ تک پہنچتا ہے _ اگر دوسرے لوگ ذکر اور ورد قیام اور قعود کے وسیلے سے اللہ کا تقرب حاصل کرتے ہیں_ تو اللہ تعالی کے راستے میں جہاد کرنے والا انسان زخم اور درد سختی اور تکلیف کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جان کی قربانی دے کر اللہ تعالی کا تقرب ڈھونڈتا ہے_

ان دو میں بہت زیادہ فرق ہے_ جنگ اور جہاد کا میدان ایک خاص قسم کی نورانیت اور صفا اور معنویت رکھتا ہے_ شور و شفب اور عشق اور حرکت اور ایثار کا میدان ہے_ محبوب کے را ستے میں بازی لے جانے اور ہمیشگی زندگی کا میدان ہے_ مورچے میں بیٹھتے والوں کا زمزمہ ایک خاص نورانیت اور صفا اور جاذبیت رکھتا ہے کہ جس کی نظیر اور مثال مساجد اورمعابد میں بہت کم حاصل ہوتی ہے_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349