خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96683 / ڈاؤنلوڈ: 4140
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

ائمہ اہل بیت علیہم السلام

ہم ائمہ اہل بیت علیہم السلام کے روبرو حاضرہیں جنھوں نے معاشرہ کی اصلاح کی دعوت دی ، وہ دنیائے عرب و اسلام میں شعور و فکر کے چراغ ہیں ،انھوں نے انسانی فکر ،اس کے ارادے ، سلوک و روش کی بنیاد ڈالی ، خالق کا ئنات اور زندگی دینے والے کے علاوہ کسی اورکی عبادت کرنے سے مخلوق خداکو نجات دی

بیشک ائمہ اہل بیت علیہم السلام شجرئہ نبوت کے روشن چراغ ہیں ،یہ اس شجرۂ طیبہ سے تعلق رکھتے ہیں جس کی اصل ثابت ہے اور اس کی شاخیں آسمان تک پھیلی ہو ئی ہیں یہ شجرہ ہر زمانہ میںحکم پروردگار سے پھل دیتا رہتا ہے،یہ حضرات رسول اعظمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حیات کا ایسا جزء ہیں جن کو کبھی بھی ان سے جدا نہیں کیا جاسکتا ہے وہ رسول جنھوں نے انسان کو پستی نکال کر بلندی عطا کی اوراسے نور سے منور فرمایا۔۔۔ہم اپنی گفتگو کا آغاز اس سلسلۂ جلیلہ سید و سردار یعنی امام علی کی سوانح حیات سے کرتے ہیں:

حضرت علی علیہ السلام

آپ اپنی جود و سخا ،عدالت، زہد،جہاد اور حیرت انگیز کارنامو ں میں اس امت کی سب سے عظیم شخصیت ہیں دنیائے اسلام میں رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اصحاب میں سے کو ئی بھی آپ کے بعض صفات کا مثل نہیں ہوسکتا چہ جائیکہ وہ آپ کے بعض صفات تک کا مثل ہو ۔آپ کے فضائل و کمالات اور آپ کی شخصیت کے اثرات زمین پر بسنے والے پرتمام مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے زبان زد عام ہیں ، تمام مؤ رخین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ عرب یا غیرعرب کی تاریخ میں آپ کے بھائی اور ابن عم کے علاوہ آپ کا کو ئی ثانی نہیں ہے ہم ذیل میں آپ کے بعض صفات و خصوصیات کو قلمبند کررہے ہیں :

۲۱

کعبہ میں ولادت

تمام مؤرخین اورراویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ کی ولادت با سعادت خانۂ کعبہ میں ہوئی۔(۱) آپ کے علاوہ کو ئی اور خانۂ کعبہ میں نہیں پیدا ہوا ،اور یہ اللہ کے نزدیک آ پ کے بلند مرتبہ اور عظیم شرف کی علامت ہے ،اسی مطلب کی طرف عبد الباقی عمری نے اس شعر میں اشارہ کیا ہے :

اَنْت العلیُّ الذی فوق العُلیٰ رُفِعا

ببطن مکة عند البیت اِذْوُضِعَا

____________________

۱۔مروج الذہب ،جلد ۲ صفحہ ۳،فصول مہمہ مؤلف ابن صبّاغ، صفحہ ۲۴۔مطالب السئول، صفحہ ۲۲۔تذکرة الخواص، صفحہ ۷۔کفایة الطالب، صفحہ ۳۷۔ نور الابصار ،صفحہ ۷۶۔نزھة المجالس ،جلد۲،صفحہ ۲۰۴۔شرح الشفا ،جلد ۲،صفحہ ۲۱۵۔غایة الاختصار ،صفحہ ۹۷۔عبقریة الامام (العقاد)، صفحہ ۳۸۔مستدرک حاکم، جلد ۳،صفحہ ۴۸۳۔اور اس میں وارد ہوا ہے کہ :''متواتر احادیث میں آیا ہے کہ امیر المو منین علی بن ابی طالب فاطمہ بنت اسد کے بطن سے کعبہ میں پیدا ہوئے ''۔

۲۲

''آپ وہ بلند و بالا شخصیت ہی ںجو تمام بلند یوں سے بلند و بالا ہیںاس لئے کہ آپ کی ولادت مکہ میں خانہ کعبہ میں ہوئی ہے ''۔

بیشک نبی کے بھائی اور ان کے باب شہر علم کی ولادت اللہ کے مقدس گھر میں ہو ئی تاکہ اس کی چوکھٹ کو جلا بخشے،اس پر پرچم توحید بلند کرے ،اس کو بت پرستی اور بتوںکی پلیدی سے پاک وصاف کرے ، اس بیت عظیم میں ابوالغرباء ،اخو الفقراء ، کمزوروں اور محروموں کے ملجأ و ماویٰ پیدا ہوئے تاکہ ان کی زندگی میں امن ،فراخدلی اور سکون و اطمینان کی روح کوفروغ دیں ، ان کی زندگی سے فقر و فاقہ کا خاتمہ کریں ،آپکے پدر بزرگوار شیخ بطحاء اور مو من قریش نے آپ کا اسم گرامی علی رکھاجو تمام اسماء میں سب سے بہترین نام ہے۔

اسی لئے آپ اپنی عظیم جود و سخا اور حیرت انگیز کارناموں میں سب سے بلند تھے اور خداوند عالم نے جو آپ کو روشن و منورعلم و فضیلت عطا فرمائی تھی اس کے لحاظ سے آپ اس عظیم بلند مرتبہ پر فائز تھے جس کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔

امیر بیان اور عدالت اسلامیہ کے قائد و رہبرنبی کی بعثت سے بارہ سال پہلے تیرہ رجب ۳۰ عام الفیل کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے ۔(۱)

القاب

امیر حق نے آپ کو متعدد القاب سے نوازا جو آپ کے صفات حسنہ کی حکایت کرتے ہیں ،آپ کے القاب مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔صدیق(۲)

آپ کو اس لقب سے اس لئے نوازا گیا کہ آپ ہی نے سب سے پہلے رسول اللہ کی مدد کی اور اللہ کی طرف سے رسول ر نازل ہونے والی چیزوں پر ایمان لائے ، مولائے کائنات خود فرماتے ہیں :

''اَناالصدیق الاکبرآمنت قبل ان یومن ابوبکرواسلمتُ قبل ان یسلّم '(۳)

''میں صدیق اکبر ہوں ابوبکر سے پہلے ایمان لایاہوں اور اس سے پہلے اسلام لایاہوں ''۔

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱،صفحہ ۳۲۔منقول از مناقب آل ابوطالب ،جلد۳،صفحہ۹۰۔

۲۔تاریخ خمیس ،جلد ۲،صفحہ ۲۷۵۔

۳۔معارف ،صفحہ ۷۳۔ذخائر ،صفحہ ۵۸۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۵۷۔

۲۳

۲۔وصی

آپ کو یہ لقب اس لئے عطا کیا گیا کہ آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے وصی ہیں اور رسول خدا نے اس لقب میں اضافہ کرتے ہوئے فرمایا: ''اِنَّ وَصِیّ،وَمَوْضِعَ سِرِّی،وَخَیْرُمَنْ اَتْرُکَ بَعْدِیْ،وَیُنْجِزُعِدَتِیْ،وَیَقْضِیْ دَیْنِیْ،عَلِیُّ بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ'' ۔(۱)

''میرے وصی ،میرے راز داں ،میرے بعد سب سے افضل ،میرا وعدہ پورا کرنے والے اور میرے دین کی تکمیل کرنے والے ہیں ''۔

۳۔فاروق

امام کو فاروق کے لقب سے اس لئے یاد کیا گیا کہ آپ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ہیں۔یہ لقب نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی احادیث سے اخذ کیا گیا ہے ،ابو ذر اور سلمان سے روایت کی گئی ہے کہ نبی نے حضرت علی کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا :''اِنّ هٰذَااَوَّلُ مَنْ آمَنَ بِیْ،وهٰذَا اَوَّلُ مَنْ یُصَافِحُنِیْ یَوْمَ القِیَامَةِ،وَهٰذَا الصِّدِّیْقُ الْاَکْبَرُ،وَهٰذَا فَارُوْقُ هٰذِهِ الاُمَّةِ یَفْرُقُ بَیْنَ الْحَقِّ وَالْبَاطِلِ'' ۔(۲)

''یہ مجھ پر سب سے پہلے ایمان لائے ،یہی قیامت کے دن سب سے پہلے مجھ سے مصافحہ کریں

گے ،یہی صدیق اکبر ہیں ،یہ فاروق ہیں اور امت کے درمیان حق و باطل میں فرق کرنے والے ہیں ''۔

۴۔یعسوب الدین

لغت میں یعسوب الدین شہد کی مکھیوں کے نَر کو کہا جاتا ہے پھر یہ قوم کے صاحب شرف سردار کیلئے بولا جا نے لگا،یہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے القاب میں سے ہے ،نبی اکر مصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو یہ لقب دیتے ہوئے فرمایا:هٰذَا ( واشارَالی الامام ) یَعْسُوْبُ المُؤمِنِیْنَ،وَالْمَالُ یَعْسُوْبُ الظَّا لِمِیْنَ'' ۔(۳)

''یہ (امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا)مو منین کے یعسوب ہیں اور مال ظالموں کا یعسوب ہے ''۔

____________________

۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۱۵۴۔

۲۔مجمع الزوائد، جلد ۹، صفحہ ۱۰۲،فیض القدیر،جلد ۴، صفحہ ۳۵۸۔کنز العمال ،جلد ۶ ،صفحہ ۱۵۶۔فضائل الصحابة، جلد ۱، صفحہ ۲۹۶۔

۳۔ مجمع الزوائد، جلد ۹،صفحہ ۱۰۲۔

۲۴

۵۔امیر المو منین

آپ کا سب سے مشہور لقب امیر المو منین ہے یہ لقب آپ کو رسول اللہ نے عطا کیا ہے روایت ہے کہ ابو نعیم نے انس سے اور انھوں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا ہے :'' یاانس، ''اسْکُبْ لِیْ وَضُوء اً ''اے انس میرے وضو کرنے کے لئے پانی لائو''پھر آپ نے دورکعت نماز پڑھنے کے بعد فرمایا:'' اے انس اس دروازے سے جو بھی تمہارے پاس سب سے پہلے آئے وہ امیر المو منین ہے ، مسلمانوں کا سردار ہے ،قیامت کے دن چمکتے ہوئے چہرے والوں کا قائد اور خاتم الوصیین ہے '' ، انس کا کہنا ہے :میں یہ فکر کررہاتھا کہ وہ آنے والا شخص انصار میں سے ہو جس کو میں مخفی رکھوں ، اتنے میں حضرت علی تشریف لائے تو رسول اللہ نے سوال کیا کہ اے انس کون آیا ؟ میں (انس) نے عرض کیا : علی ۔ آپ نے مسکراتے ہوئے کھڑے ہوکر علی سے معانقہ کیا ،پھر ان کے چہرے کا پسینہ اپنے چہرے کے پسینہ سے ملایااور علی کے چہرے پر آئے ہوئے پسینہ کو اپنے چہرے پر ملا اس وقت علی نے فرمایا: ''یارسول اللہ میں نے آپ کو اس سے پہلے کبھی ایسا کرتے نہیں دیکھا؟ آنحضرت نے فرمایا:''میں ایسا کیوں نہ کروں جب تم میرے امور کے ذمہ دار،میری آواز دوسروں تک پہنچانے والے اور میرے بعد پیش آنے والے اختلافات میںصحیح رہنما ئی کرنے والے ہو ''۔(۱)

۶ حجة اللہ

آپ کا ایک عظیم لقب حجة اللہ ہے، آپ خدا کے بندوں پر اللہ کی حجت تھے اور ان کومضبوط و محکم راستہ کی ہدایت دیتے تھے ،یہ لقب آپ کو پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے عطا فرمایا تھا ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''میںاور علی اللہ کے بندوں پر اس کی حجت ہیں''۔(۲)

یہ آپ کے بعض القاب تھے ان کے علاوہ ہم نے آپ کے دوسرے چھ القاب امام امیر المومنین کی سوانح حیات کے پہلے حصہ میںبیان کئے ہیںجیسا کہ ہم نے آپ کی کنیت اور صفات کا تذکرہ بھی کیا ہے۔

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۱،صفحہ ۶۳۔

۲۔کنوز الحقائق ''المناوی''،صفحہ ۴۳۔

۲۵

آپ کی پرورش

حضرت امیر المو منین نے بچپن میں اپنے والد بزرگوار شیخ البطحاء اورمو منِ قریش حضرت ابوطالب کے زیر سایہ پرورش پائی جو ہر فضیلت ،شرف اور کرامت میں عدیم المثال تھے ،اور آپ کی تربیت جناب فاطمہ بنت اسدنے کی جو عفت ،طہارت اور اخلاق میں اپنے زمانہ کی عورتوں کی سردار تھیں انھوں نے آپ کو بلند و بالا اخلاق ،اچھی عا دتیں اور آداب کریمہ سے آراستہ و پیراستہ کیا۔

پرورش امام کے لئے نبی کی آغوش

امام کے عہد طفولیت میں نبی نے آپ کی پرورش کرنے کی ذمہ داری اس وقت لے لی تھی جب آپ بالکل بچپن کے دور سے گذر رہے تھے ،جس کا ماجرا یوں بیان کیا جاتا ہے کہ جب آنحضرت کے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کچھ بہتر نہیں تھے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے چچاعباس اور حمزہ کے پاس گفتگو کرنے کیلئے تشریف لے گئے اور ان سے اپنے چچا ابوطالب کے اقتصادی حالات کے سلسلہ میںگفتگو کی اور ان کا ہاتھ بٹانے کا مشورہ دیاتو انھوں نے آپ کی اس فرمائش کو قبول کرلیا ، چنانچہ جناب عباس نے طالب ، حمزہ نے جعفر اور نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کی پرورش کی ذمہ داری اپنے اوپر لے لی، لہٰذا اس وقت سے آپ (علی) رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی آغوش تربیت میں آگئے اور آنحضرت ہی کے زیر سایہ اورانھیں کے دامن محبت و عطوفت میں پروان چڑھے ،اسی لئے آپ کی رگ و پئے اور آپ کی روح کی گہرائی میںپیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے کردار اور اخلاق اور تمام صفات کریمہ اسی وقت سے سرایت کر چکے تھے اسی لئے آپ نے زندگی کے آغاز سے ہی ایمان کو سینہ سے لگائے رکھا ،اسلام کو بخوبی سمجھا اور آپ ہی پیغمبر کے سب سے زیادہ نزدیک تھے ، ان کے مزاج و اخلاق نیز آنحضرت کی رسالت کو سب سے بہتر انداز میں سمجھتے تھے ۔

۲۶

مو لائے کا ئنات نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی پرورش کے انداز اور آپ سے اپنی گہری قرابت داری کے بارے میں ارشاد فرمایا :''تم جانتے ہی ہو کہ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قریب کی عزیز داری اور مخصوص قدر و منزلت کی وجہ سے میرا مقام اُن کے نزدیک کیا تھا ؟میں بچہ ہی تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے مجھے گود میں لے لیا تھا،آنحضرت مجھے اپنے سینہ سے چمٹائے رکھتے تھے، بستر میں اپنے پہلو میں جگہ دیتے تھے، اپنے جسم مبارک کو مجھ سے مس کر تے تھے اور اپنی خوشبو مجھے سونگھاتے تھے ،پہلے آپ کسی چیز کو چباتے پھر اس کے لقمے بنا کر میرے منھ میں دیتے تھے ،اُنھوں نے نہ تو میری کسی بات میں جھوٹ کا شائبہ پایا نہ میرے کسی کام میں لغزش و کمزوری دیکھی ۔۔۔ میں ان کے پیچھے پیچھے یوں لگا رہتا تھا جیسے اونٹنی کا بچہ اپنی ماں کے پیچھے رہتا ہے، آپ ہر روز میرے لئے اخلاق حسنہ کے پرچم بلند کر تے تھے اور مجھے ان کی پیروی کا حکم دیتے تھے ''۔

آپ نے نبی اور امام کے مابین بھروسہ اور قابل اعتماد رابطہ کا مشاہدہ کیااور ملاحظہ کیاکہ کس طرح نبی اکرم حضرت علی کی مہربانی اور محبت کے ساتھ تربیت فرماتے اور آپ کو بلند اخلاق سے آراستہ کرتے تھے ؟اور نبی نے کیسے حضرت علی کی لطف و مہربانی اور بلند اخلاق کے ذریعہ تربیت پا ئی ؟

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حمایت

جب رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے عظیم انقلاب کا آغاز فرمایاجس سے جاہلیت کے افکار ، اور رسم و رواج متزلزل ہوگئے ،تو قریش آپ کی مخالفت کے لئے اٹھ کھڑے ہوئے ،انھوں نے جان بوجھ کرتحریک کو خاموش کرنے کیلئے بھرپور کو شش کی اور اس کیلئے ہرممکنہ طریقۂ کاراختیارکیا ،اپنے بچوں کو نبی پر پتھروں کی بارش کرنے کے لئے بھڑکایا، اس وقت امام ہی ایک ایسے بچے تھے جو نبی کی حمایت کر رہے تھے اور ان بچوں کو ڈانٹتے اور مارتے تھے جب وہ اپنی طرف اس بچہ کو آتے ہوئے دیکھتے تھے تو ڈر کر اپنے گھروں کی طرف بھاگ جاتے تھے ۔

۲۷

اسلام کی راہ میں سبقت

تمام مو رخین اور راوی اس بات پر متفق ہیں کہ امام ہی سب سے پہلے نبی پر ایمان لائے ، آپ ہی نے نبی کی دعوت پر لبیک کہا،اور آپ ہی نے اپنے اس قول کے ذریعہ اعلا ن فرمایا کہ اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کرنے والا میں ہو ں :''لَقَدْ عَبَدْتُ اللّٰہَ تَعَالیٰ قَبْلَ اَنْ یَعْبُدَہُ اَحَدُ مِنْ ھٰذِہِ الاُمَّةِ ''۔ ''میں نے ہی اس امت میں سب سے پہلے اللہ کی عبادت کی ہے ''۔(۱)

اس بات پر تمام راوی متفق ہیں کہ امیر المو منین دور جا ہلیت کے بتوں کی گندگی سے پاک و پاکیزہ رہے ہیں ،اور اس کی تاریکیوں کا لباس آپ کو ڈھانک نہیں سکا،آپ ہر گز دوسروں کی طرح بتوں کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔

مقریزی کا کہنا ہے :(علی بن ابی طالب ہاشمی نے ہر گز شرک نہیں کیا،اللہ نے آپ سے خیر کا ارادہ کیا تو آپ کو اپنے چچازاد بھائی سید المرسلین کی کفالت میں قرار دیدیا)۔(۲)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ سیدہ ام المو منین خدیجہ آپ کے ساتھ ایمان لا ئیں، حضرت علی اپنے اور خدیجہ کے اسلام پر ایمان لانے کے سلسلہ میں فرماتے ہیں :''وَلَم یَجْمَعْ بَیْتُ یَومَئِذٍ واحدُ فی الاسلام غیرَرسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم وَخَدِیْجَةَ وَاَنَا ثَالِثُهُمَا'' ۔(۳) ''اس دن رسول اللہ خدیجہ اور میرے علاوہ کو ئی بھی مسلمان نہیں ہوا تھا ''۔

ابن اسحاق کا کہنا ہے :اللہ اور محمد رسول اللہ پر سب سے پہلے علی ایمان لائے ''۔(۴)

حضرت علی کے اسلام لانے کے وقت آپ کی عمر سات سال یا دوسرے قول کے مطابق نو سال تھی۔(۵) مسلمانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ سب سے پہلے اسلام لائے ،جو آپ کیلئے بڑے ہی شرف اور فخر کی بات ہے ۔

آپ کی نبی سے محبت

آپ رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص سے پیش آتے تھے ایک شخص نے امام سے

____________________

۱۔صفوة الصفوہ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۲۔

۲۔ امتاع الاسمائ، جلد ۱،صفحہ ۱۶۔

۳۔حیاةالامام امیر المومنین ،جلد ۱،صفحہ ۵۴۔

۴۔شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید ،جلد ۴،صفحہ ۱۱۶۔

۵۔صحیح ترمذی، جلد ۲،صفحہ ۳۰۱۔طبقات ابن سعد ،جلد ۳،صفحہ ۲۱۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ۵۵۔

۲۸

رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے محبت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے اس سے فرمایا:''کَانَ وَاللّٰہِ احبَّ الینامِن مالناواولادِناوَامَّھَاتِنَاومِن المائِ الباردِعلیَ الظّمْأ۔۔۔''۔(۱)

''خدا کی قسم وہ مجھے میرے مال ،اولاد ،ماںاور پیا س کے وقت ٹھنڈے گوارا پانی سے بھی زیادہ محبوب تھے ''۔

حضرت علی کی نبی سے محبت کا یہ عالم تھا کہ ایک باغ آپ کے حوالہ کیا گیا ،باغ کے مالک نے آپ سے کہا :کیا آپ میرے باغ کی سینچا ئی کردیں گے میں آپ کو ہر ڈول کے عوض ایک مٹھی خرما دوںگا؟ آپ نے جلدی سے اس باغ کی سینچا ئی کر دی تو باغ کے مالک نے آپ کو خرمے دئے یہاں تک کہ آپ کی مٹھی بھرگئی آپ فوراً ان کو نبی کے پاس لیکر آئے اور انھیں کھلادئے ۔(۲)

نبی سے آپ کی محبت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ خود ان کی خدمت کرتے ، ان کی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لئے آمادہ رہتے تھے اور ہم اس سلسلہ کے چند نمونے اپنی کتاب'' حیاة الامام امیر المومنین ''میںذکر کرچکے ہیں ۔

یوم الدار

حضرت علی کی بھر پور جوانی تھی جب سے آپ نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے قدم بہ قدم چلنا شروع کیا،یہ وہ دور تھا جب آنحضرت نے اپنی اسلامی دعوت کا اعلان کیاتھا کیونکہ جب خداوند عالم نے آپ کو اپنے خاندان میں تبلیغ کرنے کا حکم دیا تو رسول نے علی کو بلاکر ان کی دعوت کرنے کوکہا جس میںآپ کے چچا :ابوطالب ،حمزہ ،عباس اور ابو لہب شامل تھے ،جب وہ حاضر ہوئے تو امام نے ان کے سامنے دسترخوان بچھایا،ان سب کے کھانا کھانے کے بعد بھی کھانا اسی طرح باقی رہااور اس میں کوئی کمی نہ آئی ۔

جب سب کھانا کھاچکے تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے کھڑے ہوکر ان کو اسلام کی دعوت دی اور بتوں کی پوجاکرنے سے منع فرمایا ،ابو لہب نے آپ کا خطبہ منقطع کر دیا اور قوم سے کہنے لگا :تم نے ان کا جادو دیکھا ،

____________________

۱۔خزانة الادب، جلد ۳،صفحہ ۲۱۳۔

۲۔تاریخ طبری ،جلد ۲،صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ،صفحہ ۲۴۔مسند احمد بن حنبل، صفحہ ۲۶۳۔

۲۹

اور یہ نشست کسی نتیجہ کے بغیر ختم ہو گئی ،دوسرے دن پھر رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے سب کو بلایا، جب سب جمع ہوگئے سب کو کھانا کھلایا اور جب سب کھانا کھا چکے تو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یوں خطبہ دیا :''اے بنی عبد المطلب! خدا کی قسم میں نے قوم عرب میں کسی ایسے جوان کا مشاہدہ نہیں کیا جو قوم میں مجھ سے بہتر چیزیں لیکر آیا ہو ،میں تمہارے لئے دنیا و آخرت کی بھلا ئی لیکر آیا ہوں ،خدا وند عالم نے مجھے یہ حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اس کی دعوت دوں، تو تم میں سے جو بھی میری اس کام میں مدد کرے گا وہ میرا بھائی ،وصی اور خلیفہ ہوگا ؟''۔

پوری قوم پر سنّاٹا چھاگیا گو یاکہ ان کے سروں پر، پرندے بیٹھے ہوں ،اس وقت امام کی نوجوا نی تھی لہٰذا آپ نے بڑے اطمینان اور جوش کے ساتھ کہا :''اے نبی اللہ!میں اس کام میں، آپ کی مدد کروں گا ''۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ کے کندھے پر ہاتھ رکھ کر قوم سے مخاطب ہو کر فرمایا : '' بیشک یہ میرے بھائی ،وصی اور تمہارے درمیان میرے خلیفہ ہیں ان کی باتیں سنو اور ان کی اطاعت کرو ''۔

یہ سن کر مضحکہ خیز آوازیں بلند ہونے لگیںاور انھوں نے مذاق اڑاتے ہوئے ابوطالب سے کہا:''تمھیں حکم دیا گیا ہے کہ تم اپنے بیٹے کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو ''۔(۱)

علماء کا اتفاق ہے کہ یہ حدیث واضح طور پر امیر المو منین کی امامت پر دلالت کر تی ہے ،آپ ہی نبی کے وصی ،وزیر اور خلیفہ ہیں ،اور ہم نے یہ حدیث اپنی کتاب''حیاة الامام امیرالمو منین ''کے پہلے حصہ میں مفصل طور پر بیان کی ہے ۔

شعب ابی طالب

قریش کے سر کردہ لیڈروں نے یہ طے کیا کہ نبی کو شِعب ابو طالب میں قید کردیاجائے، اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

کو وہاں رہنے پر مجبور کیاجائے تا کہ آپ کا لوگوں سے ملنا جلنا بند ہو جائے اور ان کے عقائدمیں کو ئی تبدیلی نہ ہو سکے ، اور وہ آپ کے اذہان کو جا ہلیت کے چنگل سے نہ چھڑاسکیں،لہٰذا انھوں نے بنی ہاشم کے خلاف مندرجہ ذیل معاہدے پر دستخط کئے :

____________________

۱۔تاریخ طبری ،جلد ۲، صفحہ ۶۳۔تاریخ ابن اثیر، جلد ۲،صفحہ ۲۴۔مسند احمد، صفحہ ۲۶۳۔

۳۰

۱۔وہ ہاشمیوںسے شادی بیاہ نہیں کریں گے ۔

۲۔ان میں سے کو ئی ایک بھی ہاشمی عورت سے شادی نہیں کر ے گا ۔

۳۔وہ ہاشمیوں سے خرید و فروخت نہیں کریں گے ۔انھوں نے یہ سب لکھ کر اور اس پر مہر لگا کرکعبہ کے اندر لٹکادیا ۔

پیغمبر کے ساتھ آپ پر ایمان لانے والے ہاشمی جن میں سر فہرست حضرت علی تھے سب نے اس شعب میں قیام کیا ، اور وہ مسلسل وہیں رہے اور اس سے باہر نہیں نکلے وہ بد ترین حالات میں ایک دوسرے کی مدد کرتے رہے اور ام المومنین خدیجہ نے ان کی تمام ضروریات کو پورا کیا یہاں تک کہ اسی راستہ میں ان کی عظیم دولت کام آگئی ،نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شعب میں اپنے اہل بیت کے ساتھ دو یا دو سال سے زیادہ رہے ، یہاں تک کہ خدا نے دیمک کو قریش کے معاہدہ پر مسلط کیا جس سے وہ اس کو کھا گئیں ،اُدھر رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جناب ابوطالب کے ذریعہ یہ خبر پہنچا ئی کہ عہد نامہ کو دیمک نے کھا لیا ہے وہ جلدی سے عہد نامہ کے پاس آئے توانھوں نے اس کو ویسا ہی پایا جیسا کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس کی خبر دی تھی تو ان کے ہوش اڑگئے ، قریش کی ایک جماعت نے ان کے خلاف آواز اٹھا ئی اور ان سے نبی کو آزاد کرنے کا مطالبہ کیا جس سے انھوں نے نبی کو چھوڑ دیا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنے اہل بیت کے ساتھ قید سے نکلے جبکہ ان پر قید کی سختیوں کے آثار نمایاں تھے۔

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے شعب سے باہر نکل کر قریش کی دھمکیوں کی پروا نہیں کی اور پھر سے دعوت توحید کا اعلان کیا ،ان کا مقابلہ کرنے میں آپ کے چچا ابو طالب ،حضرت علی اور بقیہ دوسرے افراد نے بڑی مدد کی،یہی لوگ آپ کی مضبوط و محکم قوت بن گئے ،اور ابو طالب رسالت کا حق ادا کرنے کے متعلق یہ کہہ کر آپ کی ہمت افزائی کر رہے تھے :

اذهب بنّى فماعلیک غضاضةُ

اذهب وقرّ بذاک منک عیونا

واللّٰه لَنْ یَصِلُوا الیک بِجَمْعِهِمْ

حتی اُوسد فی التراب دفینا

وَدعوتن وعلِمتُ انکّ ناصِحِ

ولقد صدقتَ وکنتَ قَبْلُ اَمِیْنا

۳۱

وَلقد علِمتُ بِاَنَّ دِینَ محمدٍ

مِنْ خیرِ اَدیانِ البریة دِیْنا

فَاصدَعْ بِاَمْرِکَ مَاعَلَیْکَ غضَاضَةُ

وَابْشِرْ بِذَاکَ وَقُرَّ عُیُوْنَا(۱)

''بیٹے جائو تمھیں کو ئی پریشانی نہیں ہے ،جائو اور اس طرح اپنی آنکھیں روشن کر و۔

خدا کی قسم وہ اپنی جماعت کے ساتھ اس وقت تک تم تک نہیں پہنچ سکتے جب تک میں دنیا سے نہ اٹھ جائوں ۔

تم نے مجھے دعوت دی اور مجھے یقین ہو گیا کہ تم میرے خیر خواہ ہو ،تم نے سچ کہا اور پہلے بھی تم امانتدار تھے ۔

مجھے یقین ہو گیا ہے محمدصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا دین دنیا کا سب سے بہترین دین ہے۔

لہٰذا اپنی دعوت کا اعلان کرو اور تمھیںذرہ برابر ملال نہ ہو ،تم خوش رہواپنی آنکھیں ٹھنڈی کرو ''۔

یہ اشعار ابوطالب کے صاحب ایمان ،اسلام کے حا می اور مسلمانوں میں پہلے مجاہد ہونے پر دلالت کر تے ہیں ،اور ان کے ہاتھ ٹوٹ جا ئیںجو ابو طالب کو صاحب ایمان نہیں سمجھتے ،اس طرح کی فکر کرنے والوں کا ٹھکانا جہنم ہے ،حالانکہ ان کو یہ علم ہے کہ ابوطالب کا بیٹا جنت و جہنم کی تقسیم کرنے والا ہے ۔

بیشک ابو طالب اسلامی عقائد کے ایک رکن ہیں ،اگر آپ ابتدا میں پیغمبر کے موافق نہ ہوتے تو اسلام کا نام اور دستور و قواعد کچھ بھی باقی نہ رہتے اور قریش ابتدا ہی میں اس کا کام تمام کردیتے ۔

امام کا نبی کے بستر پر آرام کرنا (شب ہجرت)

یہ امام کی ایسی خو بی ہے جس کا شمارآپ کے نمایاں فضائل میں ہوتا ہے یعنی آپ نے اپنی جان خطرے میں ڈال کر نبی کی حفاظت کی ہے اور نبی کی محبت میںموت کا بخو شی استقبال کیاہے اسی لئے عالم اسلام میں آپ سب سے پہلے فدا ئی تھے۔

جب قریش نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو قتل کرنے اور ان کی زندگی کا خاتمہ کرنے کے لئے آپ کے

____________________

۱۔حیاةالامام امیر المو منین ،جلد ۱، صفحہ ۱۳۷۔

۳۲

بیت الشرف کا اپنی ننگی تلواروں سے محاصرہ کیاتو آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو بلا بھیجا اور ان کو قوم کے ارادہ سے آگاہ کیا ، ان کو اپنے بستر پرسبزچادر اوڑھ کر سونے کا حکم دیا تاکہ کفار آپ کو نبی سمجھتے رہیں ،امام نے نبی کے حکم کا خنداں پیشانی کے ساتھ استقبال کیاگویا آپ کو ایسی قابل رشک چیزمل گئی جس کا کبھی خواب تک نہیں دیکھا تھا، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اُن کے درمیان سے نکل گئے اور ان کو خبر بھی نہ ہو ئی اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن کے منحوس چہروں کی طرف ایک مٹھی خاک یہ کہتے ہوئے پھینکی:''شاھت الوجوہ ذُلّاً'' ، ''رسوائی کی بنا پر چہرے بگڑ جا ئیں ' '، اس کے بعد قرآن کریم کی اس آیت کی تلاوت فرمائی:

( وَجَعَلْنَامِنْ بَیْنِ اَیْدِیْهِمْ سَدّاً وَمِنْ خَلْفِهِمْ سَدّاً فَاَغْشَیْنَاهُمْ فَهُمْ لَایُبْصِرُوْنَ ) ۔(۱)

'' اور ہم نے ایک دیوار ان کے سامنے اور ایک دیوار ان کے پیچھے بنا دی ہے پھر انھیں عذاب سے ڈھانک دیا ہے کہ وہ کچھ دیکھنے کے قابل نہیں رہ گئے ہیں ''۔

حضرت علی کا نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بستر پر رات گذارنا آپ کے جہاد کی درخشاں تصویر اور ایسی بے مثال منقبت ہے جس کا جواب نہیں لایا جا سکتا اور خداوند عالم نے آپ کی شان میںیہ آیت نازل فرما ئی :

( وَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْرِی نَفْسَهُ ابْتِغَائَ مَرْضَاتِ اللّٰهِ ) ۔(۲)

''لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو اپنے نفس کوبیچ کر مرضی الٰہی خرید لیتے ہیں ''۔

____________________

۱۔سورئہ یس، آیت ۹۔

۲۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۰۷۔

۳۳

اس عزت و شرف کی اسلامی پیغام میںبڑی اہمیت ہے جس تک کو ئی بھی مسلمان نہیں پہنچ سکا ، شاعر کبیر شیخ ہاشم کعبی امام کی یوں مدح سرا ئی کرتے ہیں :

وَمَوَاقِفُ لَکَ دُوْنَ اَحْمَدَ جَاوَزَتْ

بِمَقَامِکَ التَّعْرِیْفَ وَالتَّحْدِیْدا

فَعَلیٰ الْفِرَاشِ مَبِیْتُ لَیْلِکَ وَالْعِدْ

تُهْدِیْ اِلَیْکَ بَوَارِقا ًوَرُعُوْداً

فَرْقَدْتَ مَثْلُوْ جَ الْفُؤَادِ کَاَنَّمَا

یُهْدِ الْقَرَاعُ لِسَمْعِکَ التَّغْرِیْداً

فَکَفَیْتَ لَیْلَتَهُ وَقُمْتَ مُعَارِضا

جَبَلاً اَشَمَّ وَفَارِساً صِنْدِیْدا

رَصَدُواالصَبَاحَ لِیُنْفِقُواکَنْزَالهُدیٰ

أَوَمَا دَرَوْاکَنْزَالهُدیٰ مَرْصُوداً؟

''(اے علی)حضور اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو چھوڑ کر آپ کے درجات اور مقامات تعریف و ثنا کی حد سے بالا ہیں ۔

چنانچہ آپ شب ہجرت اس عالم میں بستر رسول پر سوئے کہ دشمن شمشیروں کے ذریعہ آپ کو گھیرے ہوئے تھے ۔

پھر بھی آپ نہایت سکون کے ساتھ سوئے گویا،آپ کے گوش مبارک میں نغمہ ٔ معنویت گونج رہا تھا ۔

آپ نے اس شب رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی حفاظت کی اور صبح کے وقت مضبوط پہاڑاور بے مثال شہسوار کی مانند بیدار ہوئے ۔

انھوں نے مخزن ہدایت کوخرچ کرنے کے لئے صبح کا انتظار کیا جبکہ انھیں نہیں معلوم تھا کہ خود خزانہ ٔ ہدایت ان کے انتظار میں تھا''۔

۳۴

امام نے پوری رات خدا سے اس دعا میں گذاردی کہ خدا ان کی اس محنت و مشقت کے ذریعہ ان کے بھا ئی کو بچائے اور ان کو دشمنوں کے شر سے دور رکھے ۔

جب صبح نمودار ہو ئی تو سرکشوں نے ننگی تلواروں کے ساتھ نبی کے بستر پر دھاوا بول دیا تو حضرت علی ان کی طرف اپنی ننگی تلوار لئے ہوئے شیر کی مانند بڑھے جب انھوں نے علی کو دیکھا تو ان کے ہوش اُڑگئے وہ سب ڈر کر اما م سے کہنے لگے :محمد کہا ں ہیں ؟

امام نے ان کے جواب میں فرمایا:''جَعَلْتُمُوْنِیْ حَارِساًعَلَیْهِ؟''

''کیا تم نے مجھے نبی کی حفاظت کے لئے مقرر کیا تھا ؟''۔

وہ بہت ہی مایوسی ا ور ناراضگی کی حالت میں الٹے پیر پھر گئے، چونکہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ان کے ہاتھ سے نکل چکے تھے وہ نبی جو ان کو آزاد ی دلانے اور اُن کے لئے عزم و ہمت کا محل تعمیر کرنے کیلئے آئے تھے ،قریش جل بھُن گئے اور آپ کو بہت ہی تیز نگاہوں سے دیکھنے لگے لیکن امام نے کو ئی پروا نہیں کی اور صبح وشام ان کا مذاق اڑاتے ہوئے رفت و آمد کرنے لگے ۔

امام کی مدینہ کی طرف ہجرت

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مکہ سے مدینہ ہجرت کر گئے تو علی نے نبی کے پاس مو جودہ امانتوں کو صاحبان امانت کے حوالہ کیا، نبی جن کے مقروض تھے ان کا قرض اداکیا ،چونکہ آپ ان کے متعلق نبی سے وعدہ کر چکے تھے، آپ وہاں کچھ دیر ٹھہر کر اپنے چچازاد بھا ئی سے ملحق ہونے کیلئے مدینہ کی طرف ہجرت کر گئے، آپ کے ساتھ عورتیں اور بچے تھے ، راستہ میں سات سرکشوں نے آپ کا راستہ روکنا چاہا ،لیکن آپ نے بڑے عزم وہمت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا اور ان میں سے ایک کو قتل کیا اور اس کے باقی ساتھی بھاگ نکلے ۔

امام بغیر کسی چیز کے مقام بیداء پر پہنچے ،آپ صرف رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کرنے کا شوق رکھتے تھے لہٰذا آپ مدینہ پہنچ گئے ،ایک قول یہ ہے :آپ نے مدینہ میں داخل ہونے سے پہلے مسجدقبا میں آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ملاقات کی ، نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کی آمد سے بہت خوش ہوئے کیونکہ آپ کی ہر مشکل میں کام آنے والے مددگار آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے پاس پہنچ گئے تھے ۔

۳۵

امام ، قرآن کی نظرمیں

حضرت علی کے متعلق قرآن کریم میں متعدد آیات نا زل ہو ئی ہیں ، قرآن نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعد آپ کواسلام کی سب سے بڑی شخصیت کے عنوان سے پیش کیا ہے ،اللہ کی نگاہ میں آپ کی بڑی فضیلت اوربہت اہمیت ہے ۔متعدد منابع و مصادر کے مطابق آپ کی شان میں تین سو آیات نازل ہو ئی ہیں(۱) جو آپ کے فضل و ایمان کی محکم دلیل ہے۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ کسی بھی اسلا می شخصیت کے سلسلہ میں اتنی آیات نازل نہیں ہوئیںآپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات کی مندرجہ ذیل قسمیں ہیں :

۱۔وہ آیات جو خاص طور سے آپ کی شان میں نازل ہوئی ہیں ۔

۲۔وہ آیات جو آپ اور آپ کے اہل بیت کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۳۔وہ آیات جو آپ اور نیک صحابہ کی شان میں نازل ہو ئی ہیں ۔

۴۔وہ آیات جو آپ کی شان اور آپ کے دشمنوں کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں ۔

ہم ذیل میں ان میں سے کچھ آیات نقل کر رہے ہیں :

____________________

۱۔تاریخ بغداد، جلد ۶،صفحہ ۲۲۱۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۲۷۶۔نورالابصار ،صفحہ ۷۶،وغیرہ ۔

۳۶

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

جنم لیتی ہیں مثلاًاگر آنکھیں شہوت کا ایک دروزہ اور کان دوسرا دروازہ ہے تومعدہ ( پیٹ ) شہوت کی پیدا ئش کاپہلامرکز اور شرم گاہ دوسرا مرکزہے ۔

لہٰذا جب انسان کے اندر شرم وحیاء پیدا ہوجاتی ہے تو پھر ذہن ودماغ کے برے خیالات (سر کے وسوسے )اور پیٹ کی شہوت کے سارے راستے خود بخود بندہوجاتے ہیں اور انسان ان کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔

آپ ہی سے مروی ہے :

(مِن أفضل الورع أن لاتبدی فی خلواتک ما تستحی من اظهاره فی علانیتک )( ۱ )

''سب سے بڑا ورع اور پارسائی یہ ہے کہ جس کام کو تم کھلم کھلا کرنے سے شرماتے ہو اسے تنہائی میں بھی انجام نہ دو''

بارگاہ خدا میں قلت حیا کی شکایت

متعدد دعائوں میں یہ ملتا ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں اس سے حیاکی قلت کی شکایت کرتا ہے جو ایک بہت ہی لطیف اور عجیب بات ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ شکایت کرے کہ اسکے اندر خود ذات پروردگار سے شرم وحیاء کی قلت پائی جاتی ہے جس میں خدا قاضی ہے کیونکہ اسکا فیصلہ اسی کے اوپر چھوڑدیاگیا ہے شکایت کرنے والا خود انسان (انا،میں )ہے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے وہ نفس ہے اور شکایت (مقدمہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نفس اس خدا کے سامنے بے حیائی پر اتر آیا ہے جو خود اس مقدمہ میں قاضی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گویا انسان خدا کی بارگاہ میں اپنے نفس کی یہ شکایت کررہا ہے کہ وہ خود خدا سے حیاء نہیں کرتا ہے بطورنمونہ دعائے

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۲۵۳۔

۱۴۱

ابوحمزہثمالی(رح) کے یہ جملات ملاحظہ فرمائیں:

(أنا یاربّ الذی لم أستحیک فی الخلائ،ولم اُراقبک فی الملأ،أناصاحب الدواهی العظمیٰ،أناالذی علیٰ سیده اجتریٰاناالذی سترت علیّ فمااستحییت،وعملت بالمعاصی فتعدّیت،واسقطتنی من عینیک فما بالیت )( ۱ )

''پروردگارا !میں وہی ہوں جس نے تنہائی میں تجھ سے حیا نہیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نہیںکیا میرے مصائب عظیم ہیں میں نے اپنے مولا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔۔۔میں وہی ہوں ۔۔۔ جس کی تونے پردہ پوشی کی تو میں نے حیا نہیں کی، گناہ کئے ہیں تو بڑھتا ہی چلا گیا اور تو نے نظروں سے گرا دیا تو کوئی پروا نہیں کی ''

امام زین العابدین کی مناجات شاکین(شکایت اور فریاد کرنے والوں کی مناجات ) میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے نفس اور گناہوں سے پرہیز نہ کرنے کی شکایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:

(الٰهی أشکوالیک نفساًبالسوء أمّارة،والیٰ الخطیئة مبادرة، وبمعا صیک مولعة،ولسختک متعرّضة )( ۲ )

''خدایا میں تجھ سے اس نفس کی شکایت کر رہا ہوں جو برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خطائوں کی طرف تیزی سے دوڑ تا ہے اور تیری معصیتوں پر حریص ہے اور تیری ناراضگی کی منزل میں ہے ''۔

____________________

(۱)دعا ئے ابو حمزہ ثمالی۔

(۲)مفاتیح الجنان: مناجات الشاکین ۔

۱۴۲

دوسری فصل

جو شخص اپنی ہویٰ وہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیتا ہے۔

۱۔ہوی وہوس کے معنی

۲۔اسکے خصائل اور صفات

۳۔اسکا طریقہ ٔ علاج

حدیث شریف کے پہلے فقرے کی وضاحت کے بعد اب ہم آپ کے سامنے اس حدیث کے دوسرے اور تیسرے جملے ''جو شخص خداوند عالم کی مرضی پر اپنی خواہش اور ہوس کو مقدم کرتا ہے'' اور اسکے برخلاف ''جو انسان مرضی خدا کو اپنی مرضی اوراپنی خوشی پرفوقیت اور ترجیح دیتا ہے '' کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

جو شخص اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر فوقیت دیتا ہے۔ اس (دوسرے)جملہ کی وضاحت متعلقہ حدیث قدسی میں کچھ اس طرح کی گئی ہے۔

عن رسول ﷲ یقو ل ﷲ تعالیٰ :

(وعزّتی وجلا لی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعلوّی،وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هواه علیٰ هوای لّا شتّت أمره،ولبّست علیه دنیاه،وشغلت قلبه بها،ولم اُوته منها لاماقدّرت له)(۱)

____________________

(ا)عدةالداعی ص۷۹۔اصول کافی ج۲ص۲۳۵۔ان دونوںسے علامہ مجلسی (رح)نے بحارالانوار ج۷۰ص۷۸حدیث۱۴ اور ج۷۰ص۸۵نیزص۸۶پر اس حدیث کو نقل کیاہے۔اس سے پہلے بھی ہم نے کتاب کے مقدمہ میں اس حدیث کے بعض حوالے نقل کئے ہیں۔

۱۴۳

''میری عزت وجلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم ،کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے معاملات کودرہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا اور اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے''

حدیث قدسی کے اس فقرہ میں تین اہم نکات پائے جاتے ہیں:

۱۔جو لوگ اپنی خواہش کو مرضی خدا پر ترجیح دینگے انہیں خداوند عالم تین قسم کی سزائیں دیگا:

الف۔ان کے معاملات مشتبہ اوردرہم برہم ہوجائیں گے۔

ب۔ دنیاان کی نگاہ میں آراستہ ہوجائے گی۔

ج۔ان کادل، دنیا کا دیوانہ ہوکر رہ جائے گا۔

۲۔مذکورہ سزائوںکے تذکرہ سے پہلے اس حدیث شریف میں متعدد طرح کی عظیم قسمیں کھائی گئی ہیں(جیسے میری عزت،جلالت،عظمت،کبریائی، نوراور میرے مقام و منزلت کی رفعت کی قسم) جن سے اُس بات کی اہمیت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسکا تذکرہ ان کے بعد کیا گیا ہے۔

۳۔حدیث شریف میں جس طرز کلام کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے دائرہ کلام بالکل محصور اور محدودہوجاتا ہے کیونکہ پہلے جملہ یعنی (لایؤثرعبدھواہ۔۔۔الاشتت أمرہ) میں نفی اور دوسرے جملہ(الاشتت أمرہ) میں اثبات کا لہجہ موجود ہے لہٰذا اس حصر کے معنی یہ ہیں کہ جب کبھی بھی انسان اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیگا تو وہ کسی بھی طرح خداوند عالم کی ان سزائوں سے نہیں بچ سکتا ہے اب آپ حدیث قدسی میں مذکور، ان تینوں سزائوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

۱۔اسکے امور کو درہم برہم کردوںگا

جو لوگ خوداپنی مرضی کے مطابق چلتے ہیں اور خداوند عالم کی مرضی کاکوئی خیال نہیں کرتے ہیں ان کو خداوند عالم سب سے پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ ان کے معاملات درہم برہم کردیتا ہے اور ان کے ہر کام میں بے ثباتی ،تزلزل اور بے ترتیبی آجاتی ہے کیونکہ وہ ان سے طریقۂ کار، راہ وروش، مقصد اور وسیلہ کی یکسانیت اور یکسوئی کو سلب کرلیتا ہے۔جسکے نتیجہ میں وہ ہوا میں کٹی پتنگ یا کسی تنکے کی طرح ہر طر ف اڑتے رہتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا انکو ایک نئی سمت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔کیونکہ لوگ عام طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں:

۱۴۴

۱۔منظم اور ٹھوس شخصیت کے مالک۔

۲۔بے نظم اوربے ترتیب

ٹھوس شخصیت

ٹھوس اور مستحکم شخصیت ایسی شخصیتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی ایک حاکم کے ماتحت رہتی ہیں جب کہ متزلزل ،مضطرب اور بد حواس قسم کے افراد متعدد اسباب وعوامل کے آلۂ کار بنے رہتے ہیں۔

چنانچہ پہلے طریقۂ کار کو توحیدی طریقہ اور دوسرے طریقہ کوشرک کا نتیجہ کہا جاتاہے کیونکہ جو شخص توحید الٰہی کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ ہر اعتبار سے خداوند عالم کے ارادہ ،حکمت اور اسکے احکام کا تابع ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے اسی کی مشیت اور مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہتا ہے۔

اسی طرح ہرخوشی اور مصیبت میں وہ حکم الٰہی کا پابند رہتا ہے اور خداوند عالم کی خو شنودی ہی اسکا اصل مقصد ہے اور اسکے علاوہ اسے کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں ہوتی اور وہ ہرطرح سے اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتا ہے اوراسکی نظر صرف اپنے اس پاک مقصد پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اسکی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔اور کیونکہ احکام الٰہی کا نظام صرف ایک ہی مرکز سے متصل ہے اور اس میں مکمل طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا اس پر عمل کر نے کے بعد ہر انسان کی شخصیت مقدس ہو جا تی ہے اور اس میں یکسوئی پیدا ہو جا تی ہے یعنی کبھی مختلف قسم کی سیاسی یا سما جی ردو بدل اور اتھل پتھل کی وجہ سے جنگ اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے جسکی بناپرانہیں اسلحہ اٹھا نا پڑ تاہے ۔اور کبھی صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ اسلحہ کو زمین پر رکھنا پڑتا ہے مگرحالات کے اس پورے اتار چڑھائو کے باوجود انسان کی شخصیت کے اندر کسی طرح کا اختلاف یا ردو بدل پیدا نہیں ہوتی اور اسکی شخصیت کی یکسا نیت اور توحید کے سرچشمہ سے پیدا ہو نے والی ترتیب ویگانگت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اسی کو (توحید عملی ) کہا جاتا ہے جو توحید نظری کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے کیونکہ یہ صورت حال دراصل انسان کی زندگی میں توحید نظری کے پر توکاہی نتیجہ ہے ۔

۱۴۵

توحید عملی کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد انسان اپنے نفس کے اندر اور باہر موجودتمام حاکمو ں جیسے ہوی وہو س اور طاغوت وغیرہ کی ماتحتی سے خارج ہو جاتا ہے اور احکام الٰہی کے دائر ہ حکومت میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح تنہا حکم الٰہی ہی اسکے ہر عمل کا حاکم ومختار ہوتا ہے اور اسکی رفتار وگفتار اور کردار وعمل میں ہر جگہ توحید ی رنگ نظر آتا ہے اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث شریف کا مصداق بن جاتا ہے :

(لایؤمن أحدکم حتیٰ یکون هواه تبعاً لما جئت به )( ۱ )

''تم میں سے کو ئی شخص بھی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ہر خو ا ہش اس دین کی تا بع نہ بن جا ئے جو میں لیکر آیا ہوں ''

جبکہ شر ک کی صورتحال اس کے برخلاف ہو تی ہے کیونکہ شرک آجا نے کے بعد انسان سوفیصد خدا وند عالم کے احکام کا پا بند نہیں رہتا بلکہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ خوا ہش نفس اور طاغوت وغیرہ کی پیروی بھی شروع کر دیتا ہے اور جب انسان تو حید کے قلعہ کی چار دیواری سے با ہر نکل جاتا ہے توپھر ہوس اور طا غوت اس کے سر پر سوار ہو جا تے ہیں اس کی بنیا دوںکو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور گویااسے با لکل تباہ و بر باد کر ڈالتے ہیں اس با رے میں قرآنی تعبیرات ملاحظہ فر ما ئیے :

( ﷲ ولی الذین آمنوا والذین کفرواأولیاؤهم الطاغوت) (۲)

____________________

(۱)جا مع الکبیرطبری ۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۲۵۷۔

۱۴۶

''ﷲ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے ۔۔۔اور جو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں''

جسکا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مومن ہیں ان کا صرف ایک ولی وسرپرست ہے ایک ذریعہ اور ایک ہی سرچشمہ ہے اور صرف اسی سے ان کو نسبت ہے لیکن مشرکین مختلف لیڈروں اور حاکموں کے آلہ کار اور تابع ہوتے ہیں انہیںجو ذریعہ اور وسیلہ بھی نظر آجاتا ہے وہ اسی کے پیچھے لگ لیتے ہیں اسی لئے ان کے واسطے جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے :

( والذین کفروا أولیاؤهم الطاغوت )

''اورجو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں ''(اس میں لفظ اولیاء جمع ہے )

یہاں تک یہ بالکل واضح ہوگیا کہ جو شخص ،ٹھوس شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس پر صرف شرعی قانون کی حکومت چلتی ہے اور وہ مرضی خدا کا پابند ہوتا ہے ایسے افراد کسی غوروفکر ،شرم وحیا اور خوف وہراس کے بغیر اپنی شرعی ذمہ داریوںپر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہ خوف وہراس ،شرمندگی اور اضطرابی حالت انسان کی اندرونی کشمکش اور تذبذب کی دلیل ہے جو نفس کے اندرونی یا بیرونی اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا جب انسان کسی ایک طاقت کا پابنداور پیرو ہوتا ہے اور اسکی نظر ہمیشہ ایک ہی مرکز پر رہتی ہے تو اس پر ان چیزوں کا اثرنہیں پڑتا ہے ۔

ایسے افراد کی پہچان یہ ہے کہ وہ ثقہ، قابل اطمینان، ثابت قدم ،ٹھوس رائے ،پاکیزہ نفس صاف وشفاف ضمیر کے مالک ،شجاع اورتنہائی یا چاہنے والوں اور مددگاروں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باوجود اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں ۔امیر المومنین نے فرمایا ہے :

(لایزیدنی کثرة الناس عزّة،ولاتفرُّقهم عنی وحشة )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب۳۶۔

۱۴۷

''لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت اوراستحکام میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ان کے متفرق ہوجانے سے مجھے کوئی وحشت ہوتی ہے ''دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے ان خصائل اور صفات پر وقتی سکون واطمینان ،زحمت ومشکلات رزم وبزم ،فتح ونصرت یا ناکامی اورشکست کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور وہ پرچم توحید کے سایہ میں سدا بہار رہتے ہیں ۔

عماربن یاسر

خداوند عالم جناب عمار یاسر پر رحمتیں نازل فرمائے وہ ایک مثالی ،ٹھوس اور عظیم شخصیت کے مالک تھے ۔جنگ صفین میں آپ نے حضرت علی کی رکاب میں اس وقت معاویہ سے جنگ کی تھی جب آپ کی عمر ،نوے برس سے زیادہ تھی آپ نڈر،بہادر،ثابت قدم، جنگ کے شعلوں میں کودجانے والے اورامام کے ایسے جانثار ساتھی تھے جن کے دل میں حضرت علی کی حقانیت اور معاویہ کے ناحق اور باطل ہونے کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک پیدا نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ صفین کی جنگ کے دوران ہی حضرت علی کے سامنے آپ نے پروردگار عالم سے یہ دعا کی:

(اللّٰهم انکتعلم أنی لوأعلم أن رضاک فی أن اقذف بنفسی فی هذاالبحرلفعلت،اللّٰهم انک تعلم أنی لوأعلم انّ رضاک أن أضع ضُبّةسیفی فی بطنی ثم أنحنی علیها حتیٰ یخرج من ظهری لفعلت،اللّٰهم وانی أعلم مماعلّمتنی أنی لاأعمل الیوم عملاًهو أرضیلک من جهاد هؤلاء الفاسقین،ولوأعلم الیوم عملاً أرضیٰلک منه لفعلت )( ۱ )

____________________

(۱)صفین:نصربن مزاحم ۳۱۹۔۳۲۰تحقیق ڈاکٹر عبدالسلام ہارون۔

۱۴۸

''بارالٰہاتوجانتاہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس سمندر میں کودجانے میں تیری خوشنودی ہے تو میں یقینا کودجائوں گا۔بارالٰہا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری خوشی اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار اپنے پیٹ پر رکھکر اس کے اوپر اتنا جھک جائوں کہ وہ میری کمر کے پار نکل جائے تو میں یہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔بارالٰہا تونے مجھے جو علم دیا ہے اسکی بنا پر مجھے معلوم ہے کہ آج تجھے ان فاسقین سے جہاد کرنے سے زیادہ میرا کوئی عمل پسند نہیں ہے (لہٰذا میں ان سے جہاد کررہا ہوں)اور اگر مجھے اس سے زیادہ تیراپسندیدہ عمل معلوم ہوجائے تو میں اسکو ضرورانجام دونگا''

اسماء بن حکم فزاری کا بیان ہے کہ ہم صفین کے میدان میں حضرت علی کے لشکر میں جناب

عمار یاسر کی سپہ سالاری میں دو پہر کے وقت سرخ چادر کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اس وقت ایک شخص(جو سب کے چہرے غورسے دیکھ رہاتھا)آیا اور اس نے کہا کیا تمہارے درمیان عمار یاسر ہیں ؟

جناب عمار نے کہا :میں عمار ہوں ۔

اس نے کہا! ابوالیقظان؟

جواب دیا :جی ہاں۔

پھر اس نے کہا :کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے ،فرمائیے یہیں سب کے سامنے عرض کروں یا تنہائی میں،جناب عمار بولے جو تم چاہو۔اس نے کہا ٹھیک ہے سب کے سامنے ہی عرض کئے دیتا ہوںجناب عمار نے کہا بتائو کیا کام ہے ؟

کہا! میں جب اپنے گھر سے نکلا تھا تو مجھے اپنی حقانیت اور اس قوم(لشکر معاویہ)کی گمراہی کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں تھااور مسلسل میری یہی کیفیت تھی مگر آج رات عجیب اتفاق ہوا کہ جب صبح ہوئی تو ہمارے مؤذن نے(اشهد أن لاالٰهَ الاﷲ وأن محمداًرسول ﷲ )کی صدا بلند کی اور ان کے موذن نے بھی اسی طرح اذان دی جب نماز شروع ہوئی تو ہم سب نے ایک ہی طرح نماز پڑھی ایک ہی طرح دعا کی،ایک ہی کتاب (قرآن مجید )کی تلاوت کی اور ہمارے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایک ہیں، یہیں سے میرے دل میں کچھ شک پیدا ہوا ۔چنانچہ خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں نے بقیہ وقت کیسے گذارا ہے، صبح ہوئی تو میں امیر المومنین کے پاس گیا اور ان کی خدمت میں پورا ماجرا بیان کردیا تو انھوں نے فرمایا :کیا تم عمار بن یاسر سے ملے ہو؟میں نے عرض کی نہیں، فرمایا جائو ان سے ملاقات کرو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا ۔

۱۴۹

لہٰذا اسی کام کے لئے میں آپ کی خدمت حاضر ہوا ہوں تو جناب عمار یاسر(رح) نے اس سے کہا: کیا تم ہمارے مقابلہ میں موجود اس سیاہ پرچم والے لشکر کے سپہ سالار کوجانتے ہو؟وہ عمروبن عاص ہے، رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہ کر میں نے اس سے تین بارجنگ کی ہے اور آج اس سے یہ میری چوتھی جنگ ہے ۔اور یہ جنگ ان جنگوں سے کچھ بہتر نہیں ہے بلکہ بدتر ہی ہے بلکہ اس کا شروفساد ان سب سے زیادہ ہے ،کیا تم بدر واحد اور حنین میں تھے یا تمہارے والد ان میں موجود تھے کہ انھوں نے تم سے ان جنگوں کے کچھ حالات بتائے ہوں؟اس نے کہا نہیں آپ نے کہا کے بدرواحد وحنین کے دن ہم سب رسول ﷲکے پرچم تلے جمع تھے اور وہ لوگ، مشرکین کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا تھے۔کیا تم اس لشکر اوراہل لشکرکو دیکھ رہے؟خدا کی قسم ! معاویہ کے ساتھ یہ جتنے لوگ حضرت علی کے مقابلہ میںہم سے لڑنے آئے ہیں ۔ یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور میرادل تویہ چاہتا ہے کہ ان سب کو ایک ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں۔

خدا کی قسم ان سب کا خون ایک چڑیا کے خون سے زیادہ حلال ہے ۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو؟اس نے کہا :نہیں بلکہ حلال ہے تو جناب عمار نے کہا بس سمجھ لو کہ ان کا خون بھی اسی طرح حلال ہے ۔کیا میری بات تمہارے لئے واضح ہوگئی؟اس نے کہا :جی ہاں آپ نے درست وضاحت فرمائی جناب عمار نے کہا: لہٰذا اب جسے چاہومنتخب کرسکتے ہوپھرجب وہ شخص واپس چلنے لگا تو جناب عمار نے اسے واپس بلایا اور اس سے یہ کہا کہ ان لوگوں نے ہم پر اپنی تلوارکا وارکیا تو تم میں سے بعض افراد شک وشبہ کا شکار ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ اگر یہ لوگ حق پر نہ ہوتے تو ہمارے خلاف جنگ کے لئے نہ نکلتے ،خدا کی قسم ان کے پاس مکھی کے ایک آنسوکے برابر بھی حق موجود نہیں ہے ۔

۱۵۰

ﷲ کی قسم اگر وہ ہم پر اپنی تلوار وں سے حملہ کریں یہاں تک کہ وہ ہمیںسعفات ہجر (ایک مقام کانام)تک پہونچادیں تب بھی مجھے یہی معلوم ہوگا کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پر ہیں اور خدا کی قسم اس وقت تک امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ہے جب تک فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنے حق ہونے کا منکر نہ ہواور وہ یہ گواہی نہ دے کہ اسکا مخالف فریق بر حق ہے ا ور ان کے مقتولین اور مردے جنّتی ہیں اور دنیا کے دن اس وقت تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ ان کے مردے اور مقتولین جہنمی اور زندہ رہنے والے اہل باطل ہیں۔( ۱ )

کھوکھلااوربے ہنگم انسان(شخصیت )

کھوکھلے اور بے ہنگم لوگوں کے نفس میں اندرونی کشمکش اور بیقراری کا آغاز سب سے پہلے عقل اور خواہشوں کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے کیونکہ خواہشیں انسان کے نفس کو اسکی عقل کی ماتحتی اور کنٹرول سے باہر نکالنے کی در پے رہتی ہیں جس سے آدمی کا نفس دو متصادم دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔

اس داخلی جنگ کے نتیجہ میں انسان کی مشکلات اور زحمتیں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں کیونکہ انسان کے اوپراسکے ضمیر، فطرت اور عقل کی حکومت بہت مستحکم ہوتی ہے اور یہ اسباب اسکے اندر ہوس کے نفوذ(داخلے)کاسختی سے مقابلہ کرتے ہیں اور انکی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ انسان کی شخصیت کوتقویت دیکراسے اسکی پہلی حالت اور فطرت کی طرف لوٹا دیں اس مرحلہ میں انسانی نفس کے اندر ایک خلفشار اور خانہ جنگی کی صورت حال رہتی ہے جسکی بنا پر اسے سخت زحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جب انسا ن کی عقل اس کی رفتار وکردار کو کنڑول کرنے اور اسے استقامت عطا کرنے سے عاجز ہوجاتی ہے اور انسان کے لئے اسکے نفس کااندرونی خلفشار اور خانہ جنگی بھی ناقابل برداشت

____________________

(۱)صفین،نصربن مزاحم ص۳۲۲۳۲۱

۱۵۱

ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرنے لگتا ہے جو ان مشکلات کا منفی اور غلط راہ حل ہے بلکہ اسکا صحیح راہ حل تویہ ہے کہ اپنی عقل وفطرت کو پھر سے زندہ کرکے اسے استحکام بخشے اور اسکے احکامات کے مطابق عمل کرے۔

لیکن اسکے بجائے صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ انسان خواہشات کی سلطنت کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے اور ان مشکلات سے نجات پانے کے لئے اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرتا ہے ؟اور نشہ،جو ا،جرائم یا جنسیات کے دامن میں پناہ تلاش کرتا ہے ۔

مزید تعجب کی بات تویہ ہے کہ انسان اپنی ہوس سے اپنی ہوس ہی کی طرف فرار کرتا ہے اور ایک جرم سے دوسرے جرم کی طرف بھاگتا ہے ورنہ اگر وہ اپنی ہوس کے برخلاف قدم اٹھائے اور خواہش نفس اور ہوس سے خدا کی طرف آگے بڑھے توبآسانی ان سے نجات پاکرسکون حاصل کرسکتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میںمتوجہ کیا ہے :

(ففرّوا الیٰ ﷲ انی لکم منه نذیرمبین )( ۱ )

''لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑپڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرا نے والا ہوں''

لہٰذا جب تک انسان خداوند عالم کی پناہ حاصل نہ کرلے وہ اپنی ہوس کے سامنے لاچار اور مجبور ہی رہتا ہے اسی لئے وہ مشکلات اور زحمتوں نیز اپنی زندگی کے دردسر سے نجات پانے کے لئے نشے اور جنسیات کارخ کرتا ہے جنکے بارے میں قرآن کریم کی یہ تعبیر کتنی صحیح ہے کہ :

(نسوا ﷲ فأنساهم أنفسهم )( ۲ )

''انھوں نے خدا کو بھلاڈالاتو خدا نے خود ان کو بھی نظر انداز کردیا''

کیونکہ جو لوگ اپنی فطرت اور ضمیر سے فرار کرکے شراب یا جوئے وغیرہ کی طرف بھاگتے

____________________

(۱)سورئہ ذاریات آیت ۵۰۔

(۲)سورئہ حشر آیت ۱۹۔

۱۵۲

ہیں در اصل وہ اپنے کو بھلادینا چاہتے ہیں اور انسان کا یہ فرار ذکر(یاد)سے نسیان (بھول)کی طرف ہے جو خود فرار سے بدترہے ۔

بالآخرانسان کے نفس اور اسکی شخصیت کے اندر ہوی وہوس کا مقابلہ کرنے والی آخری طاقت کا نام ضمیر ہے جو حتی الامکان اپنی کوشش بھر انسان کواسکی ہوس اور شیطان کے خونخوار پنجوں سے

بچانے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ جب ضمیر بھی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پھر انسانی وجود کے اندر اسکے خواہشات کا مقابلہ کرنے والا آخری قلعہ بھی منہدم ہوجاتا ہے اور یہی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے جسکے بعد انسان دائمی دردسر اور تشنج کا شکار ہوجاتا ہے ۔

جب خواہشات ہر اعتبار سے فتح یاب ہوجاتے ہیں اور انسان کے اوپر ان کی سلطنت کا نفوذ ہوجاتا ہے اور وہ پورے طورپر ان کے دائرہ اختیار کے اندرآجاتا ہے ۔۔۔تب بھی اسے اپنے خیالات کے برخلاف اس اندرونی خلفشاراور خانہ جنگی سے نجات نہیں مل پاتی بلکہ نفس کے اندرہی خود ان خواہشات کے درمیان ایک اور خانہ جنگی اور خلفشار شروع ہوجاتا ہے بلکہ اس بار اسکا انداز اورزیادہ خطرناک اور سخت ہوتا ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں مختلف قسم کے خواہشات نفس (اور ہوس)کے درمیان تذبذب کاشکاررہتاہے لہٰذا اسکا خلفشار پہلے مرحلہ کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوجاتا ہے اور اگر اسکی دردسر ی اورذہنی پریشانی گذشتہ مرحلہ سے زیادہ نہ ہو تو بہر حال اس سے کم ہرگز نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مرحلہ کی طرح اسکے معاملات بالکل متفرق اوردرہم برہم ہوجاتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان یہ فرق ضرورہوتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں انسان کی مشکلات کے دوران اسکی عقل اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو ہواتھا لیکن اس مرحلہ میں خوداسکی خواہشات اور ہوس کے درمیان ٹکرائورہتا ہے کیونکہ اسکی ہر خواہش (ہوس)دوسری خواہشات کے مقابلہ میںآگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اسی لئے ان کے درمیان یہ جنگ جاری رہتی ہے ۔

اس سلسلہ میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

۱۵۳

۱۔جب کبھی انسان جذبۂ انتقام اورغصہ یا محبت دنیا اور عہدہ کی محبت کے درمیان تذبذب کا شکار ہوتا ہے تو حکومت ،عہدہ اور پوسٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ نرم رویہ سے پیش آئے مگر جذبۂ انتقام یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقابلہ میں آنے والے ہردشمن کا قلع قمع کردے ۔۔۔اور ہمیں بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ نرمی اور مدارات ،حلم کی قسم نہیں ہے (جو عقل کے لشکروں میں سے ہے)بلکہ یہ درحقیقت ایک ہوس کودوسری ہوس پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے ۔

۲۔کبھی عہدہ یا حکومت کی لالچ اور سماجی مقام یاعظمت ووقار جیسے دو جذبات اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ انسان کی سماجی عزت ووقار اس سے کچھ خاص اقدار وآداب کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے خواہشات ان سے کنارہ کشی کے خواہاں ہوتے ہیں جیسے جنسی خواہش،لہٰذا ان سیاسی یا سماجی عہدوں اور کرسیوں تک پہونچنے کے لئے اپنے جنسیات پر کنٹرول کرنا، یہ کسی عفت کی بنا پر نہیں ہے ۔بلکہ یہ ایک خواہش(ہوس) کو دوسری ہوس پر ترجیح دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جنسی ہوس دوسرے خواہشات (عہدہ کی لالچ)پر غالب آجاتی ہے جسکے نتیجہ میں ارباب حکومت کے یہاںبھی جنسی اسکینڈل رونما ہوجاتے ہیں اور انہیں بد نام کرکے رکھ دیتے ہیں ۔

۳۔کبھی انسان کسی عہدے کی محبت اوراپنی جان کے خوف کا نوالہ بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ عہدہ کی تمنا اس سے دوسروں پر حملہ کرنے انہیں قتل وغارت کرنے اور خطرات میں کو د پڑنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن جان کا خطرہ اس کو حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر اکساتا ہے ۔

۱۵۴

دومختلف قسم کی خواہشات کی بناء پر انسانی نفس کے اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی یہ تین مثالیں آپکے سامنے حاضرہیںان کے علاوہ بھی مختلف خواہشات کے درمیان نہ جانے ایسے کتنے حادثات ہر روز رو نما ہوتے رہتے ہیں جوانسانی زندگی کے لئے ایک عام بات ہیں اور اس میں متعدد خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے ٹکراکر اسے اپنی سمت کھینچنا چاہتے ہیں اور انسان خوف اور لالچ ، حب جاہ ،بخل وحسد ،جنسیات اور غصہ و انتقام نیز حب مال جیسے خواہشات کے کھنچائو کی بناپر،تتر بتر ہو کر رہ جاتا ہے جسکے بعد وہ اپنے ذہنی بوجھ اور مشکلات کے دلدل میں اور زیادہ دردسری کاشکار ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّما یریدﷲ لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیاوتزهق أنفسهم وهم کافرون ) ( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے ''

یہی معاملات کادرہم برہم ہوناہے جس کی طرف حدیث قدسی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

ہوس کے عذاب

جب انسان اپنی ہوس کا شکار ہو جاتا ہے تو اسکے خواہشات کا ٹکرائو بھی اسکے لئے وبال جان بن جاتا ہے جبکہ اس کے پنجوں میں پھنسے کے بعد انسان جس دوسرے دردسر اور زحمت میں مبتلا ہو تا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ عذاب خود اس ہوس سے مربوط ہوتا ہے لہٰذا انسان کی ہوس اور خواہش جیسی ہوگی اسکا ویسا ہی عذاب اور دردسر سامنے آئے گاجیسے حرص ،لالچ اورحسد جیسے خواہشات اگر ہمارے نفس کے اندر جگہ بنالیں تو ان کی خواہش ہمیں ایک الگ مصیبت میں مبتلا کردے گی اوریہ طے شدہ بات ہے کہ جو شخص اپنے معاملات کو ان خواہشات کے حوالے کردیگا وہ ان مصائب سے نجات نہیں پاسکتا ہے ۔

خواہشات کے چنگل میں رہ کر انسان جس عذاب اور وبال جان میں مبتلا ہوتا ہے اسکی طرف اس روایت میں اشارہ موجود ہے جسے شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الارشاد(۲) میں امیرالمو منین سے نقل کیا ہے :

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۲)ارشاد مفیدص ۱۵۹ ۔

۱۵۵

(ماأعجب أمرالانسان،ان سنح له الرجاء أذلّه الطمع،وان هاج به الطمع هلکه الحرص،وان ملکه الیأس قتله الأسف،وان سعد نسی التحفظ،وان ناله خوف حیّره الحذر،وان اتسع له الامن أسلمته الغرّة''الغفلة''وان أصابته ۔۔۔)

''اس انسان کے معاملات کتنے تعجب آور ہیں کہ اگر اسے امید کی کرن نظر آنے لگے تو طمع اسکو ذلیل کر دیتی ہے اور اگر اسکی لا لچ بھڑک اٹھے توحرص اسے ہلاک کر ڈا لتی ہے اور اگر اس پر نا امیدی کا غلبہ ہوجائے تو افسوس اسے قتل کردیتا ہے اور اگر وہ کامیاب اورخوشحال ہوجائے تو پھر (دین کی)پابندی کو بھول جاتا ہے ،اگر اسے خوف لاحق ہوجائے تو دہشت متحیر وسرگردان کردیتی ہے اور اگر ہر طرف امن وسکو ن رہے تو غفلت (دھوکہ)میں گرفتارہوجاتاہے اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو بے صبری اور آہ وفریاد ذلیل کردیتی ہے اگر کہیں سے مال مل جائے تودولت اسے باغی بنادیتی ہے اگر وہ فاقہ کے چنگل میں پھنس جائے توبلائیں اسکے شامل حال ہوجاتی ہیں اور اگر بھوک لاغر بنادے تو کمزوری نڈھال کردیتی ہے اور اگر کھانے پینے میں افراط کر بیٹھے تو پرخوری سے اس کا سانس رک جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ اسکے لئے ہر تقصیر مضر ہے اور ہر زیادہ روی (افراط)مفسد ہے اور اس (افراط)کے بعد ہر خیر شر بن جاتا ہے اور ہر شر اسکے لئے ایک آفت ہے ''

مختصر یہ کہ دنیا کے بارے میں پرامیدہونا ہر انسان کو طمع کی ذلت کے حوالہ کردیتا ہے اور طمع (لالچ)ہلاکتوں کے سپردکردیتی ہے کسی چیز سے مایوسی کے بعد وہ کف افسوس ہی ملتا رہتا ہے اور کوئی خوف پیدا ہوجائے تو وہ دہشت کے منھ میں جھونک دیتا ہے اس طرح ہرخواہش اور ہوس ایک نئی خواہش اور ہوس کے حوالے کردیتی ہے اور آخر کار وہ ہلاکت کے منھ میں پہونچ جاتا ہے ۔

۱۵۶

دنیا اپنے خواہشمند کے لئے ایک وبال جان

انسان کے دنیا وی عذاب کا پہلا رخ اور پہلا مرحلہ تو اسکے خواہشات (ہوس)ہیں مگر دوسری منزل میں خود یہ دنیا اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا خواہشات (ہوس) کا کھلا میدان،ان کی آخری منزل، انکے حصول کا سرچشمہ،ان کی آماجگاہ اور انکو ابھارنے اور ان کی پرورش کی جگہ ہے

لہٰذا جب خداوند عالم کسی انسان کو خواہشات نفس کی پیروی کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرتا ہے تواس پر یہ عذاب لا محالہ، طلب دنیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے کیونکہ انسانی ہوس اور دنیا طلبی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے اور اسلامی افکار کے اہم مسائل کا حصہ ہے جس کی ہم یہاںوضاحت کر رہے ہیں ۔

اگر کوئی انسان اپنے ضروریات زندگی اور ضروریات دین اور تکامل کے لئے دنیا حاصل کرے تو اس حصول دنیا اور حتی دنیا میںکوئی چیزشر اور عذاب نہیں ہے جس کی تصدیق اسلام میں موجود ہے کیونکہ اسلام کا یہ کہنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز شر نہیں ہے بلکہ سب خیر ہی خیر ہے اسی لئے اس نے دنیا حاصل کرنے اور رزق تلاش کرنے کے لئے دوڑدھوپ کرنے کو شریعت کا جزء قرار دیا ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دنیا اولیاء خدا کا میدان تجارت (منڈی)اور اسکے محبین کی مسجد ہے :

(متجرأولیاء ﷲ،ومسجدأحبّاء ﷲ )( ۱ )

''(دنیا)اللہ کے اولیاء کا میدان تجار ت اور اسکے محبین کی مسجد ہے''

لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا شر اور عذاب ہو

اس دنیا میں محنت ومشقت کرنا اور رزق تلاش کرنا شریعت اسلامیہ کاجزہے جس کی تائید کے لئے قرآن مجید کی اس آیت میں مہر تصدیق ثبت ہے :

(فاذاقضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل ﷲ )( ۲ )

''جب نماز تمام ہوجائے تو روئے زمین پر پھیل جائو اور فضل الٰہی تلاش کرو ''

لہٰذاجب یہ سب خیر ہے تو شر اور عذاب کا وجود کہاں رہے گا؟

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۱۳۱۔

(۲)سورئہ جمعہ آیت ۱۰۔

۱۵۷

لہٰذا جب تک یہ دنیا خداوند عالم تک پہونچنے کا ذریعہ اور اسکی مرضی حاصل کرنے کاوسیلہ ہو اور اس سے بڑھ کر خودخدا تک جانے کا ارادہ ہو تو یہ پوری دنیا اور اس میں ہونے والی ہر کوشش خیر ہی خیر ہے۔۔۔

لیکن اگر انسان کی محنت و مشقت اوراسکی حرکت کا رخ خداوند عالم اور اسکی مرضی حاصل کرنے کے بجائے دنیا کی طرف مڑجائے تو یہ اسلام کی نظر میں ناقابل برداشت بات ہے ۔اور اسے اس نے شر قرار دیا ہے اور اسی کو خداوند عالم انسان کے لئے عذاب دنیا بنا دیتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ دنیا انسان کی نظر میں خدا تک پہونچنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہونے کے بجائے خودایک مستقل مقصد میں تبدیل ہوجائے تو پھر انسان اپنی گمراہی کی وجہ سے خدا کی طرف جانے کے بجائے دنیا کی طرف چل دیتا ہے اور اسکی نظر یںذات خدا کے بجائے دنیا کی رنگینیوں پر ٹکی رہتی ہیں اور جب وہ دنیا میں گھرارہ جائے تو اسکا ہر عمل باطل اور محنت بیکارنیز اسکی ترقی اور تکامل معطل ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تنزلی ،لغزش اور خسارہ کا شکار ہوجاتا ہے ۔

بلکہ کبھی کبھی انسان خداوند عالم سے منحرف ہوکر اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خداوندعالم سے جنگ کی ٹھان لیتا ہے اور کھلم کھلا خدا ورسول کی دشمنی کا اعلان کرتا ہے ۔

بہر حال چاہے جو کچھ بھی ہواگر یہ دنیا انسان کے لئے خدا تک پہونچنے کا وسیلہ ہونے کے بجائے منزل مقصود میں تبدیل ہوجا ئے اور انسان کی کل دوڑدھوپ دنیا طلبی تک محدودرہے تو پھر یہی دنیاانسان کیلئے دردسر اور عذاب جان بن جاتی ہے ۔

جودنیا، انسان کی خواہشمند ہوتی ہے اور جس دنیا کا خواہشمند انسان ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان یہی فرق ہے کہ انسان کی خواہشمند دنیا اسے خدا تک پہونچاتی ہے لیکن جب انسان دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے تو یہی دنیاخدا تک پہونچنے کا راستہ ہونے کے بجائے اس کے لئے سنگ راہ بن کر عذاب اور وبال جان بن جاتی ہے ۔

۱۵۸

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے :

(لما خلق ﷲ الدنیا أمرها بطاعة ربّها،فقال لها خالفی مَنْطلبکِ ووافقی من خالفک،فهی علیٰ ماعهد الیها ﷲ وطبعهاعلیه )( ۱ )

''جب خداوند عالم نے دنیا کو خلق فرمایا تو اس سے ارشاد فرمایا کہ جو تجھے طلب کرے (تیرا خواہشمند ہو )اسکی مخالفت کرنا اور جو تیرامخالف ہو اسکی موافقت کرنا لہٰذایہ دنیا خداوند عالم سے کئے ہوئے عہد کے مطابق اپنی طبیعت پر باقی ہے ''

روایت میں بطور کنایہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص فکر دنیا میں پڑجائے اور اسی کو اپنا سب کچھ سرمایہ اور مقصد قرار دیدے توخداوند عالم اسی دنیا کو اسکے لئے عذاب بنا دیتا ہے اور جو شخص دنیا سے دل نہ لگائے اور اسکی مخالفت کرتا رہے تو پروردگار اسکے لئے دنیا کو چین اور سکون میں بدل دیتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(أوحیٰ ﷲالیٰ الدنیا:اخدمی من خدمنی،وا تعبی من خدمک )( ۲ )

''ﷲ تعالی نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی جو میری خدمت کرے اسکی خدمت گذار بننا اور جو تیری خدمت کرے اسکے لئے عذاب بن جانا''

اس روایت میں بھی گذشتہ روایت کی طرح یہ کنایہ موجود ہے کہ اگر انسان کا مقصد خداوندعالم کو خوش کرنا ہو،تو یہ دنیا اسکی خدمت کے لئے خلق کی گئی ہے لیکن جب اسکا مقصد خدا کے بجائے دنیا ہوجائے تو پھر اسکے لئے دنیا کی خدمت کرنا ضروری ہے اور دنیا کی خدمت کرنا کسی عذاب

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۵۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ص۲۰۳۔

۱۵۹

اور درد سر سے کم نہیں ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہی یہ بھی روایت ہے :

(ان ﷲ جل جلاله أوحیٰ(الیٰ)الدنیا أن اتعبی منخد مک واخدمی من رفضکِ )( ۱ )

''خداوند عالم نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی کہ جو تیری خدمت کرے اسے عذاب میں مبتلا کردینا اور جو تجھے چھوڑدے اسکی خدمت کرنا''

اس روایت کا بھی انداز اور لہجہ بعینہ وہی ہے بلکہ اگر کوئی روایات کے اندازبیان سے واقف ہوتو اسے بخوبی محسوس ہوگا کہ اس روایت میں گذشتہ روایات کے بالمقابل کچھ زیادہ صراحت موجود ہے ۔

حضرت علی سے مروی ہے :

(من خدم الدنیا استخدَ متْه ومن خدم ﷲخد مه )( ۲ )

'' جو شخص دنیا کی خدمت کریگا وہ اسے اپنا نو کر بنائے رکھے گی اور جو شخص خداوند عالم کی خدمت(اطاعت)کریگا تو خداوند عالم دنیا کواس کا خدمت گذار بنادیگا''

ﷲ تعالی نے جناب موسیٰ کی طرف یہ وحی فرمائی :

(ما من خلقی أحد عظّمها(۳)فقرّت عینه ،ولم یحقّرها أحد الا انتفع بها )( ۴ )

''یعنی میری مخلوقات کے درمیان کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے دنیا کو بڑا سمجھا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۱۔

(۲)غرر الحکم ج۲ ص۲۳۷۔

(۳)یعنی دنیا۔

(۴)بحارالانوارج۷۳ص۱۲۱۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349