خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96719 / ڈاؤنلوڈ: 4140
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

جنم لیتی ہیں مثلاًاگر آنکھیں شہوت کا ایک دروزہ اور کان دوسرا دروازہ ہے تومعدہ ( پیٹ ) شہوت کی پیدا ئش کاپہلامرکز اور شرم گاہ دوسرا مرکزہے ۔

لہٰذا جب انسان کے اندر شرم وحیاء پیدا ہوجاتی ہے تو پھر ذہن ودماغ کے برے خیالات (سر کے وسوسے )اور پیٹ کی شہوت کے سارے راستے خود بخود بندہوجاتے ہیں اور انسان ان کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔

آپ ہی سے مروی ہے :

(مِن أفضل الورع أن لاتبدی فی خلواتک ما تستحی من اظهاره فی علانیتک )( ۱ )

''سب سے بڑا ورع اور پارسائی یہ ہے کہ جس کام کو تم کھلم کھلا کرنے سے شرماتے ہو اسے تنہائی میں بھی انجام نہ دو''

بارگاہ خدا میں قلت حیا کی شکایت

متعدد دعائوں میں یہ ملتا ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں اس سے حیاکی قلت کی شکایت کرتا ہے جو ایک بہت ہی لطیف اور عجیب بات ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ شکایت کرے کہ اسکے اندر خود ذات پروردگار سے شرم وحیاء کی قلت پائی جاتی ہے جس میں خدا قاضی ہے کیونکہ اسکا فیصلہ اسی کے اوپر چھوڑدیاگیا ہے شکایت کرنے والا خود انسان (انا،میں )ہے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے وہ نفس ہے اور شکایت (مقدمہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نفس اس خدا کے سامنے بے حیائی پر اتر آیا ہے جو خود اس مقدمہ میں قاضی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گویا انسان خدا کی بارگاہ میں اپنے نفس کی یہ شکایت کررہا ہے کہ وہ خود خدا سے حیاء نہیں کرتا ہے بطورنمونہ دعائے

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۲۵۳۔

۱۴۱

ابوحمزہثمالی(رح) کے یہ جملات ملاحظہ فرمائیں:

(أنا یاربّ الذی لم أستحیک فی الخلائ،ولم اُراقبک فی الملأ،أناصاحب الدواهی العظمیٰ،أناالذی علیٰ سیده اجتریٰاناالذی سترت علیّ فمااستحییت،وعملت بالمعاصی فتعدّیت،واسقطتنی من عینیک فما بالیت )( ۱ )

''پروردگارا !میں وہی ہوں جس نے تنہائی میں تجھ سے حیا نہیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نہیںکیا میرے مصائب عظیم ہیں میں نے اپنے مولا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔۔۔میں وہی ہوں ۔۔۔ جس کی تونے پردہ پوشی کی تو میں نے حیا نہیں کی، گناہ کئے ہیں تو بڑھتا ہی چلا گیا اور تو نے نظروں سے گرا دیا تو کوئی پروا نہیں کی ''

امام زین العابدین کی مناجات شاکین(شکایت اور فریاد کرنے والوں کی مناجات ) میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے نفس اور گناہوں سے پرہیز نہ کرنے کی شکایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:

(الٰهی أشکوالیک نفساًبالسوء أمّارة،والیٰ الخطیئة مبادرة، وبمعا صیک مولعة،ولسختک متعرّضة )( ۲ )

''خدایا میں تجھ سے اس نفس کی شکایت کر رہا ہوں جو برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خطائوں کی طرف تیزی سے دوڑ تا ہے اور تیری معصیتوں پر حریص ہے اور تیری ناراضگی کی منزل میں ہے ''۔

____________________

(۱)دعا ئے ابو حمزہ ثمالی۔

(۲)مفاتیح الجنان: مناجات الشاکین ۔

۱۴۲

دوسری فصل

جو شخص اپنی ہویٰ وہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیتا ہے۔

۱۔ہوی وہوس کے معنی

۲۔اسکے خصائل اور صفات

۳۔اسکا طریقہ ٔ علاج

حدیث شریف کے پہلے فقرے کی وضاحت کے بعد اب ہم آپ کے سامنے اس حدیث کے دوسرے اور تیسرے جملے ''جو شخص خداوند عالم کی مرضی پر اپنی خواہش اور ہوس کو مقدم کرتا ہے'' اور اسکے برخلاف ''جو انسان مرضی خدا کو اپنی مرضی اوراپنی خوشی پرفوقیت اور ترجیح دیتا ہے '' کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

جو شخص اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر فوقیت دیتا ہے۔ اس (دوسرے)جملہ کی وضاحت متعلقہ حدیث قدسی میں کچھ اس طرح کی گئی ہے۔

عن رسول ﷲ یقو ل ﷲ تعالیٰ :

(وعزّتی وجلا لی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعلوّی،وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هواه علیٰ هوای لّا شتّت أمره،ولبّست علیه دنیاه،وشغلت قلبه بها،ولم اُوته منها لاماقدّرت له)(۱)

____________________

(ا)عدةالداعی ص۷۹۔اصول کافی ج۲ص۲۳۵۔ان دونوںسے علامہ مجلسی (رح)نے بحارالانوار ج۷۰ص۷۸حدیث۱۴ اور ج۷۰ص۸۵نیزص۸۶پر اس حدیث کو نقل کیاہے۔اس سے پہلے بھی ہم نے کتاب کے مقدمہ میں اس حدیث کے بعض حوالے نقل کئے ہیں۔

۱۴۳

''میری عزت وجلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم ،کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے معاملات کودرہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا اور اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے''

حدیث قدسی کے اس فقرہ میں تین اہم نکات پائے جاتے ہیں:

۱۔جو لوگ اپنی خواہش کو مرضی خدا پر ترجیح دینگے انہیں خداوند عالم تین قسم کی سزائیں دیگا:

الف۔ان کے معاملات مشتبہ اوردرہم برہم ہوجائیں گے۔

ب۔ دنیاان کی نگاہ میں آراستہ ہوجائے گی۔

ج۔ان کادل، دنیا کا دیوانہ ہوکر رہ جائے گا۔

۲۔مذکورہ سزائوںکے تذکرہ سے پہلے اس حدیث شریف میں متعدد طرح کی عظیم قسمیں کھائی گئی ہیں(جیسے میری عزت،جلالت،عظمت،کبریائی، نوراور میرے مقام و منزلت کی رفعت کی قسم) جن سے اُس بات کی اہمیت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسکا تذکرہ ان کے بعد کیا گیا ہے۔

۳۔حدیث شریف میں جس طرز کلام کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے دائرہ کلام بالکل محصور اور محدودہوجاتا ہے کیونکہ پہلے جملہ یعنی (لایؤثرعبدھواہ۔۔۔الاشتت أمرہ) میں نفی اور دوسرے جملہ(الاشتت أمرہ) میں اثبات کا لہجہ موجود ہے لہٰذا اس حصر کے معنی یہ ہیں کہ جب کبھی بھی انسان اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیگا تو وہ کسی بھی طرح خداوند عالم کی ان سزائوں سے نہیں بچ سکتا ہے اب آپ حدیث قدسی میں مذکور، ان تینوں سزائوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

۱۔اسکے امور کو درہم برہم کردوںگا

جو لوگ خوداپنی مرضی کے مطابق چلتے ہیں اور خداوند عالم کی مرضی کاکوئی خیال نہیں کرتے ہیں ان کو خداوند عالم سب سے پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ ان کے معاملات درہم برہم کردیتا ہے اور ان کے ہر کام میں بے ثباتی ،تزلزل اور بے ترتیبی آجاتی ہے کیونکہ وہ ان سے طریقۂ کار، راہ وروش، مقصد اور وسیلہ کی یکسانیت اور یکسوئی کو سلب کرلیتا ہے۔جسکے نتیجہ میں وہ ہوا میں کٹی پتنگ یا کسی تنکے کی طرح ہر طر ف اڑتے رہتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا انکو ایک نئی سمت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔کیونکہ لوگ عام طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں:

۱۴۴

۱۔منظم اور ٹھوس شخصیت کے مالک۔

۲۔بے نظم اوربے ترتیب

ٹھوس شخصیت

ٹھوس اور مستحکم شخصیت ایسی شخصیتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی ایک حاکم کے ماتحت رہتی ہیں جب کہ متزلزل ،مضطرب اور بد حواس قسم کے افراد متعدد اسباب وعوامل کے آلۂ کار بنے رہتے ہیں۔

چنانچہ پہلے طریقۂ کار کو توحیدی طریقہ اور دوسرے طریقہ کوشرک کا نتیجہ کہا جاتاہے کیونکہ جو شخص توحید الٰہی کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ ہر اعتبار سے خداوند عالم کے ارادہ ،حکمت اور اسکے احکام کا تابع ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے اسی کی مشیت اور مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہتا ہے۔

اسی طرح ہرخوشی اور مصیبت میں وہ حکم الٰہی کا پابند رہتا ہے اور خداوند عالم کی خو شنودی ہی اسکا اصل مقصد ہے اور اسکے علاوہ اسے کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں ہوتی اور وہ ہرطرح سے اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتا ہے اوراسکی نظر صرف اپنے اس پاک مقصد پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اسکی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔اور کیونکہ احکام الٰہی کا نظام صرف ایک ہی مرکز سے متصل ہے اور اس میں مکمل طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا اس پر عمل کر نے کے بعد ہر انسان کی شخصیت مقدس ہو جا تی ہے اور اس میں یکسوئی پیدا ہو جا تی ہے یعنی کبھی مختلف قسم کی سیاسی یا سما جی ردو بدل اور اتھل پتھل کی وجہ سے جنگ اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے جسکی بناپرانہیں اسلحہ اٹھا نا پڑ تاہے ۔اور کبھی صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ اسلحہ کو زمین پر رکھنا پڑتا ہے مگرحالات کے اس پورے اتار چڑھائو کے باوجود انسان کی شخصیت کے اندر کسی طرح کا اختلاف یا ردو بدل پیدا نہیں ہوتی اور اسکی شخصیت کی یکسا نیت اور توحید کے سرچشمہ سے پیدا ہو نے والی ترتیب ویگانگت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اسی کو (توحید عملی ) کہا جاتا ہے جو توحید نظری کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے کیونکہ یہ صورت حال دراصل انسان کی زندگی میں توحید نظری کے پر توکاہی نتیجہ ہے ۔

۱۴۵

توحید عملی کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد انسان اپنے نفس کے اندر اور باہر موجودتمام حاکمو ں جیسے ہوی وہو س اور طاغوت وغیرہ کی ماتحتی سے خارج ہو جاتا ہے اور احکام الٰہی کے دائر ہ حکومت میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح تنہا حکم الٰہی ہی اسکے ہر عمل کا حاکم ومختار ہوتا ہے اور اسکی رفتار وگفتار اور کردار وعمل میں ہر جگہ توحید ی رنگ نظر آتا ہے اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث شریف کا مصداق بن جاتا ہے :

(لایؤمن أحدکم حتیٰ یکون هواه تبعاً لما جئت به )( ۱ )

''تم میں سے کو ئی شخص بھی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ہر خو ا ہش اس دین کی تا بع نہ بن جا ئے جو میں لیکر آیا ہوں ''

جبکہ شر ک کی صورتحال اس کے برخلاف ہو تی ہے کیونکہ شرک آجا نے کے بعد انسان سوفیصد خدا وند عالم کے احکام کا پا بند نہیں رہتا بلکہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ خوا ہش نفس اور طاغوت وغیرہ کی پیروی بھی شروع کر دیتا ہے اور جب انسان تو حید کے قلعہ کی چار دیواری سے با ہر نکل جاتا ہے توپھر ہوس اور طا غوت اس کے سر پر سوار ہو جا تے ہیں اس کی بنیا دوںکو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور گویااسے با لکل تباہ و بر باد کر ڈالتے ہیں اس با رے میں قرآنی تعبیرات ملاحظہ فر ما ئیے :

( ﷲ ولی الذین آمنوا والذین کفرواأولیاؤهم الطاغوت) (۲)

____________________

(۱)جا مع الکبیرطبری ۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۲۵۷۔

۱۴۶

''ﷲ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے ۔۔۔اور جو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں''

جسکا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مومن ہیں ان کا صرف ایک ولی وسرپرست ہے ایک ذریعہ اور ایک ہی سرچشمہ ہے اور صرف اسی سے ان کو نسبت ہے لیکن مشرکین مختلف لیڈروں اور حاکموں کے آلہ کار اور تابع ہوتے ہیں انہیںجو ذریعہ اور وسیلہ بھی نظر آجاتا ہے وہ اسی کے پیچھے لگ لیتے ہیں اسی لئے ان کے واسطے جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے :

( والذین کفروا أولیاؤهم الطاغوت )

''اورجو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں ''(اس میں لفظ اولیاء جمع ہے )

یہاں تک یہ بالکل واضح ہوگیا کہ جو شخص ،ٹھوس شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس پر صرف شرعی قانون کی حکومت چلتی ہے اور وہ مرضی خدا کا پابند ہوتا ہے ایسے افراد کسی غوروفکر ،شرم وحیا اور خوف وہراس کے بغیر اپنی شرعی ذمہ داریوںپر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہ خوف وہراس ،شرمندگی اور اضطرابی حالت انسان کی اندرونی کشمکش اور تذبذب کی دلیل ہے جو نفس کے اندرونی یا بیرونی اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا جب انسان کسی ایک طاقت کا پابنداور پیرو ہوتا ہے اور اسکی نظر ہمیشہ ایک ہی مرکز پر رہتی ہے تو اس پر ان چیزوں کا اثرنہیں پڑتا ہے ۔

ایسے افراد کی پہچان یہ ہے کہ وہ ثقہ، قابل اطمینان، ثابت قدم ،ٹھوس رائے ،پاکیزہ نفس صاف وشفاف ضمیر کے مالک ،شجاع اورتنہائی یا چاہنے والوں اور مددگاروں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باوجود اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں ۔امیر المومنین نے فرمایا ہے :

(لایزیدنی کثرة الناس عزّة،ولاتفرُّقهم عنی وحشة )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب۳۶۔

۱۴۷

''لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت اوراستحکام میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ان کے متفرق ہوجانے سے مجھے کوئی وحشت ہوتی ہے ''دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے ان خصائل اور صفات پر وقتی سکون واطمینان ،زحمت ومشکلات رزم وبزم ،فتح ونصرت یا ناکامی اورشکست کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور وہ پرچم توحید کے سایہ میں سدا بہار رہتے ہیں ۔

عماربن یاسر

خداوند عالم جناب عمار یاسر پر رحمتیں نازل فرمائے وہ ایک مثالی ،ٹھوس اور عظیم شخصیت کے مالک تھے ۔جنگ صفین میں آپ نے حضرت علی کی رکاب میں اس وقت معاویہ سے جنگ کی تھی جب آپ کی عمر ،نوے برس سے زیادہ تھی آپ نڈر،بہادر،ثابت قدم، جنگ کے شعلوں میں کودجانے والے اورامام کے ایسے جانثار ساتھی تھے جن کے دل میں حضرت علی کی حقانیت اور معاویہ کے ناحق اور باطل ہونے کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک پیدا نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ صفین کی جنگ کے دوران ہی حضرت علی کے سامنے آپ نے پروردگار عالم سے یہ دعا کی:

(اللّٰهم انکتعلم أنی لوأعلم أن رضاک فی أن اقذف بنفسی فی هذاالبحرلفعلت،اللّٰهم انک تعلم أنی لوأعلم انّ رضاک أن أضع ضُبّةسیفی فی بطنی ثم أنحنی علیها حتیٰ یخرج من ظهری لفعلت،اللّٰهم وانی أعلم مماعلّمتنی أنی لاأعمل الیوم عملاًهو أرضیلک من جهاد هؤلاء الفاسقین،ولوأعلم الیوم عملاً أرضیٰلک منه لفعلت )( ۱ )

____________________

(۱)صفین:نصربن مزاحم ۳۱۹۔۳۲۰تحقیق ڈاکٹر عبدالسلام ہارون۔

۱۴۸

''بارالٰہاتوجانتاہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس سمندر میں کودجانے میں تیری خوشنودی ہے تو میں یقینا کودجائوں گا۔بارالٰہا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری خوشی اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار اپنے پیٹ پر رکھکر اس کے اوپر اتنا جھک جائوں کہ وہ میری کمر کے پار نکل جائے تو میں یہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔بارالٰہا تونے مجھے جو علم دیا ہے اسکی بنا پر مجھے معلوم ہے کہ آج تجھے ان فاسقین سے جہاد کرنے سے زیادہ میرا کوئی عمل پسند نہیں ہے (لہٰذا میں ان سے جہاد کررہا ہوں)اور اگر مجھے اس سے زیادہ تیراپسندیدہ عمل معلوم ہوجائے تو میں اسکو ضرورانجام دونگا''

اسماء بن حکم فزاری کا بیان ہے کہ ہم صفین کے میدان میں حضرت علی کے لشکر میں جناب

عمار یاسر کی سپہ سالاری میں دو پہر کے وقت سرخ چادر کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اس وقت ایک شخص(جو سب کے چہرے غورسے دیکھ رہاتھا)آیا اور اس نے کہا کیا تمہارے درمیان عمار یاسر ہیں ؟

جناب عمار نے کہا :میں عمار ہوں ۔

اس نے کہا! ابوالیقظان؟

جواب دیا :جی ہاں۔

پھر اس نے کہا :کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے ،فرمائیے یہیں سب کے سامنے عرض کروں یا تنہائی میں،جناب عمار بولے جو تم چاہو۔اس نے کہا ٹھیک ہے سب کے سامنے ہی عرض کئے دیتا ہوںجناب عمار نے کہا بتائو کیا کام ہے ؟

کہا! میں جب اپنے گھر سے نکلا تھا تو مجھے اپنی حقانیت اور اس قوم(لشکر معاویہ)کی گمراہی کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں تھااور مسلسل میری یہی کیفیت تھی مگر آج رات عجیب اتفاق ہوا کہ جب صبح ہوئی تو ہمارے مؤذن نے(اشهد أن لاالٰهَ الاﷲ وأن محمداًرسول ﷲ )کی صدا بلند کی اور ان کے موذن نے بھی اسی طرح اذان دی جب نماز شروع ہوئی تو ہم سب نے ایک ہی طرح نماز پڑھی ایک ہی طرح دعا کی،ایک ہی کتاب (قرآن مجید )کی تلاوت کی اور ہمارے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایک ہیں، یہیں سے میرے دل میں کچھ شک پیدا ہوا ۔چنانچہ خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں نے بقیہ وقت کیسے گذارا ہے، صبح ہوئی تو میں امیر المومنین کے پاس گیا اور ان کی خدمت میں پورا ماجرا بیان کردیا تو انھوں نے فرمایا :کیا تم عمار بن یاسر سے ملے ہو؟میں نے عرض کی نہیں، فرمایا جائو ان سے ملاقات کرو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا ۔

۱۴۹

لہٰذا اسی کام کے لئے میں آپ کی خدمت حاضر ہوا ہوں تو جناب عمار یاسر(رح) نے اس سے کہا: کیا تم ہمارے مقابلہ میں موجود اس سیاہ پرچم والے لشکر کے سپہ سالار کوجانتے ہو؟وہ عمروبن عاص ہے، رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہ کر میں نے اس سے تین بارجنگ کی ہے اور آج اس سے یہ میری چوتھی جنگ ہے ۔اور یہ جنگ ان جنگوں سے کچھ بہتر نہیں ہے بلکہ بدتر ہی ہے بلکہ اس کا شروفساد ان سب سے زیادہ ہے ،کیا تم بدر واحد اور حنین میں تھے یا تمہارے والد ان میں موجود تھے کہ انھوں نے تم سے ان جنگوں کے کچھ حالات بتائے ہوں؟اس نے کہا نہیں آپ نے کہا کے بدرواحد وحنین کے دن ہم سب رسول ﷲکے پرچم تلے جمع تھے اور وہ لوگ، مشرکین کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا تھے۔کیا تم اس لشکر اوراہل لشکرکو دیکھ رہے؟خدا کی قسم ! معاویہ کے ساتھ یہ جتنے لوگ حضرت علی کے مقابلہ میںہم سے لڑنے آئے ہیں ۔ یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور میرادل تویہ چاہتا ہے کہ ان سب کو ایک ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں۔

خدا کی قسم ان سب کا خون ایک چڑیا کے خون سے زیادہ حلال ہے ۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو؟اس نے کہا :نہیں بلکہ حلال ہے تو جناب عمار نے کہا بس سمجھ لو کہ ان کا خون بھی اسی طرح حلال ہے ۔کیا میری بات تمہارے لئے واضح ہوگئی؟اس نے کہا :جی ہاں آپ نے درست وضاحت فرمائی جناب عمار نے کہا: لہٰذا اب جسے چاہومنتخب کرسکتے ہوپھرجب وہ شخص واپس چلنے لگا تو جناب عمار نے اسے واپس بلایا اور اس سے یہ کہا کہ ان لوگوں نے ہم پر اپنی تلوارکا وارکیا تو تم میں سے بعض افراد شک وشبہ کا شکار ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ اگر یہ لوگ حق پر نہ ہوتے تو ہمارے خلاف جنگ کے لئے نہ نکلتے ،خدا کی قسم ان کے پاس مکھی کے ایک آنسوکے برابر بھی حق موجود نہیں ہے ۔

۱۵۰

ﷲ کی قسم اگر وہ ہم پر اپنی تلوار وں سے حملہ کریں یہاں تک کہ وہ ہمیںسعفات ہجر (ایک مقام کانام)تک پہونچادیں تب بھی مجھے یہی معلوم ہوگا کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پر ہیں اور خدا کی قسم اس وقت تک امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ہے جب تک فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنے حق ہونے کا منکر نہ ہواور وہ یہ گواہی نہ دے کہ اسکا مخالف فریق بر حق ہے ا ور ان کے مقتولین اور مردے جنّتی ہیں اور دنیا کے دن اس وقت تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ ان کے مردے اور مقتولین جہنمی اور زندہ رہنے والے اہل باطل ہیں۔( ۱ )

کھوکھلااوربے ہنگم انسان(شخصیت )

کھوکھلے اور بے ہنگم لوگوں کے نفس میں اندرونی کشمکش اور بیقراری کا آغاز سب سے پہلے عقل اور خواہشوں کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے کیونکہ خواہشیں انسان کے نفس کو اسکی عقل کی ماتحتی اور کنٹرول سے باہر نکالنے کی در پے رہتی ہیں جس سے آدمی کا نفس دو متصادم دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔

اس داخلی جنگ کے نتیجہ میں انسان کی مشکلات اور زحمتیں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں کیونکہ انسان کے اوپراسکے ضمیر، فطرت اور عقل کی حکومت بہت مستحکم ہوتی ہے اور یہ اسباب اسکے اندر ہوس کے نفوذ(داخلے)کاسختی سے مقابلہ کرتے ہیں اور انکی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ انسان کی شخصیت کوتقویت دیکراسے اسکی پہلی حالت اور فطرت کی طرف لوٹا دیں اس مرحلہ میں انسانی نفس کے اندر ایک خلفشار اور خانہ جنگی کی صورت حال رہتی ہے جسکی بنا پر اسے سخت زحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جب انسا ن کی عقل اس کی رفتار وکردار کو کنڑول کرنے اور اسے استقامت عطا کرنے سے عاجز ہوجاتی ہے اور انسان کے لئے اسکے نفس کااندرونی خلفشار اور خانہ جنگی بھی ناقابل برداشت

____________________

(۱)صفین،نصربن مزاحم ص۳۲۲۳۲۱

۱۵۱

ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرنے لگتا ہے جو ان مشکلات کا منفی اور غلط راہ حل ہے بلکہ اسکا صحیح راہ حل تویہ ہے کہ اپنی عقل وفطرت کو پھر سے زندہ کرکے اسے استحکام بخشے اور اسکے احکامات کے مطابق عمل کرے۔

لیکن اسکے بجائے صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ انسان خواہشات کی سلطنت کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے اور ان مشکلات سے نجات پانے کے لئے اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرتا ہے ؟اور نشہ،جو ا،جرائم یا جنسیات کے دامن میں پناہ تلاش کرتا ہے ۔

مزید تعجب کی بات تویہ ہے کہ انسان اپنی ہوس سے اپنی ہوس ہی کی طرف فرار کرتا ہے اور ایک جرم سے دوسرے جرم کی طرف بھاگتا ہے ورنہ اگر وہ اپنی ہوس کے برخلاف قدم اٹھائے اور خواہش نفس اور ہوس سے خدا کی طرف آگے بڑھے توبآسانی ان سے نجات پاکرسکون حاصل کرسکتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میںمتوجہ کیا ہے :

(ففرّوا الیٰ ﷲ انی لکم منه نذیرمبین )( ۱ )

''لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑپڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرا نے والا ہوں''

لہٰذا جب تک انسان خداوند عالم کی پناہ حاصل نہ کرلے وہ اپنی ہوس کے سامنے لاچار اور مجبور ہی رہتا ہے اسی لئے وہ مشکلات اور زحمتوں نیز اپنی زندگی کے دردسر سے نجات پانے کے لئے نشے اور جنسیات کارخ کرتا ہے جنکے بارے میں قرآن کریم کی یہ تعبیر کتنی صحیح ہے کہ :

(نسوا ﷲ فأنساهم أنفسهم )( ۲ )

''انھوں نے خدا کو بھلاڈالاتو خدا نے خود ان کو بھی نظر انداز کردیا''

کیونکہ جو لوگ اپنی فطرت اور ضمیر سے فرار کرکے شراب یا جوئے وغیرہ کی طرف بھاگتے

____________________

(۱)سورئہ ذاریات آیت ۵۰۔

(۲)سورئہ حشر آیت ۱۹۔

۱۵۲

ہیں در اصل وہ اپنے کو بھلادینا چاہتے ہیں اور انسان کا یہ فرار ذکر(یاد)سے نسیان (بھول)کی طرف ہے جو خود فرار سے بدترہے ۔

بالآخرانسان کے نفس اور اسکی شخصیت کے اندر ہوی وہوس کا مقابلہ کرنے والی آخری طاقت کا نام ضمیر ہے جو حتی الامکان اپنی کوشش بھر انسان کواسکی ہوس اور شیطان کے خونخوار پنجوں سے

بچانے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ جب ضمیر بھی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پھر انسانی وجود کے اندر اسکے خواہشات کا مقابلہ کرنے والا آخری قلعہ بھی منہدم ہوجاتا ہے اور یہی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے جسکے بعد انسان دائمی دردسر اور تشنج کا شکار ہوجاتا ہے ۔

جب خواہشات ہر اعتبار سے فتح یاب ہوجاتے ہیں اور انسان کے اوپر ان کی سلطنت کا نفوذ ہوجاتا ہے اور وہ پورے طورپر ان کے دائرہ اختیار کے اندرآجاتا ہے ۔۔۔تب بھی اسے اپنے خیالات کے برخلاف اس اندرونی خلفشاراور خانہ جنگی سے نجات نہیں مل پاتی بلکہ نفس کے اندرہی خود ان خواہشات کے درمیان ایک اور خانہ جنگی اور خلفشار شروع ہوجاتا ہے بلکہ اس بار اسکا انداز اورزیادہ خطرناک اور سخت ہوتا ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں مختلف قسم کے خواہشات نفس (اور ہوس)کے درمیان تذبذب کاشکاررہتاہے لہٰذا اسکا خلفشار پہلے مرحلہ کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوجاتا ہے اور اگر اسکی دردسر ی اورذہنی پریشانی گذشتہ مرحلہ سے زیادہ نہ ہو تو بہر حال اس سے کم ہرگز نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مرحلہ کی طرح اسکے معاملات بالکل متفرق اوردرہم برہم ہوجاتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان یہ فرق ضرورہوتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں انسان کی مشکلات کے دوران اسکی عقل اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو ہواتھا لیکن اس مرحلہ میں خوداسکی خواہشات اور ہوس کے درمیان ٹکرائورہتا ہے کیونکہ اسکی ہر خواہش (ہوس)دوسری خواہشات کے مقابلہ میںآگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اسی لئے ان کے درمیان یہ جنگ جاری رہتی ہے ۔

اس سلسلہ میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

۱۵۳

۱۔جب کبھی انسان جذبۂ انتقام اورغصہ یا محبت دنیا اور عہدہ کی محبت کے درمیان تذبذب کا شکار ہوتا ہے تو حکومت ،عہدہ اور پوسٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ نرم رویہ سے پیش آئے مگر جذبۂ انتقام یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقابلہ میں آنے والے ہردشمن کا قلع قمع کردے ۔۔۔اور ہمیں بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ نرمی اور مدارات ،حلم کی قسم نہیں ہے (جو عقل کے لشکروں میں سے ہے)بلکہ یہ درحقیقت ایک ہوس کودوسری ہوس پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے ۔

۲۔کبھی عہدہ یا حکومت کی لالچ اور سماجی مقام یاعظمت ووقار جیسے دو جذبات اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ انسان کی سماجی عزت ووقار اس سے کچھ خاص اقدار وآداب کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے خواہشات ان سے کنارہ کشی کے خواہاں ہوتے ہیں جیسے جنسی خواہش،لہٰذا ان سیاسی یا سماجی عہدوں اور کرسیوں تک پہونچنے کے لئے اپنے جنسیات پر کنٹرول کرنا، یہ کسی عفت کی بنا پر نہیں ہے ۔بلکہ یہ ایک خواہش(ہوس) کو دوسری ہوس پر ترجیح دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جنسی ہوس دوسرے خواہشات (عہدہ کی لالچ)پر غالب آجاتی ہے جسکے نتیجہ میں ارباب حکومت کے یہاںبھی جنسی اسکینڈل رونما ہوجاتے ہیں اور انہیں بد نام کرکے رکھ دیتے ہیں ۔

۳۔کبھی انسان کسی عہدے کی محبت اوراپنی جان کے خوف کا نوالہ بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ عہدہ کی تمنا اس سے دوسروں پر حملہ کرنے انہیں قتل وغارت کرنے اور خطرات میں کو د پڑنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن جان کا خطرہ اس کو حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر اکساتا ہے ۔

۱۵۴

دومختلف قسم کی خواہشات کی بناء پر انسانی نفس کے اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی یہ تین مثالیں آپکے سامنے حاضرہیںان کے علاوہ بھی مختلف خواہشات کے درمیان نہ جانے ایسے کتنے حادثات ہر روز رو نما ہوتے رہتے ہیں جوانسانی زندگی کے لئے ایک عام بات ہیں اور اس میں متعدد خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے ٹکراکر اسے اپنی سمت کھینچنا چاہتے ہیں اور انسان خوف اور لالچ ، حب جاہ ،بخل وحسد ،جنسیات اور غصہ و انتقام نیز حب مال جیسے خواہشات کے کھنچائو کی بناپر،تتر بتر ہو کر رہ جاتا ہے جسکے بعد وہ اپنے ذہنی بوجھ اور مشکلات کے دلدل میں اور زیادہ دردسری کاشکار ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّما یریدﷲ لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیاوتزهق أنفسهم وهم کافرون ) ( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے ''

یہی معاملات کادرہم برہم ہوناہے جس کی طرف حدیث قدسی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

ہوس کے عذاب

جب انسان اپنی ہوس کا شکار ہو جاتا ہے تو اسکے خواہشات کا ٹکرائو بھی اسکے لئے وبال جان بن جاتا ہے جبکہ اس کے پنجوں میں پھنسے کے بعد انسان جس دوسرے دردسر اور زحمت میں مبتلا ہو تا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ عذاب خود اس ہوس سے مربوط ہوتا ہے لہٰذا انسان کی ہوس اور خواہش جیسی ہوگی اسکا ویسا ہی عذاب اور دردسر سامنے آئے گاجیسے حرص ،لالچ اورحسد جیسے خواہشات اگر ہمارے نفس کے اندر جگہ بنالیں تو ان کی خواہش ہمیں ایک الگ مصیبت میں مبتلا کردے گی اوریہ طے شدہ بات ہے کہ جو شخص اپنے معاملات کو ان خواہشات کے حوالے کردیگا وہ ان مصائب سے نجات نہیں پاسکتا ہے ۔

خواہشات کے چنگل میں رہ کر انسان جس عذاب اور وبال جان میں مبتلا ہوتا ہے اسکی طرف اس روایت میں اشارہ موجود ہے جسے شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الارشاد(۲) میں امیرالمو منین سے نقل کیا ہے :

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۲)ارشاد مفیدص ۱۵۹ ۔

۱۵۵

(ماأعجب أمرالانسان،ان سنح له الرجاء أذلّه الطمع،وان هاج به الطمع هلکه الحرص،وان ملکه الیأس قتله الأسف،وان سعد نسی التحفظ،وان ناله خوف حیّره الحذر،وان اتسع له الامن أسلمته الغرّة''الغفلة''وان أصابته ۔۔۔)

''اس انسان کے معاملات کتنے تعجب آور ہیں کہ اگر اسے امید کی کرن نظر آنے لگے تو طمع اسکو ذلیل کر دیتی ہے اور اگر اسکی لا لچ بھڑک اٹھے توحرص اسے ہلاک کر ڈا لتی ہے اور اگر اس پر نا امیدی کا غلبہ ہوجائے تو افسوس اسے قتل کردیتا ہے اور اگر وہ کامیاب اورخوشحال ہوجائے تو پھر (دین کی)پابندی کو بھول جاتا ہے ،اگر اسے خوف لاحق ہوجائے تو دہشت متحیر وسرگردان کردیتی ہے اور اگر ہر طرف امن وسکو ن رہے تو غفلت (دھوکہ)میں گرفتارہوجاتاہے اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو بے صبری اور آہ وفریاد ذلیل کردیتی ہے اگر کہیں سے مال مل جائے تودولت اسے باغی بنادیتی ہے اگر وہ فاقہ کے چنگل میں پھنس جائے توبلائیں اسکے شامل حال ہوجاتی ہیں اور اگر بھوک لاغر بنادے تو کمزوری نڈھال کردیتی ہے اور اگر کھانے پینے میں افراط کر بیٹھے تو پرخوری سے اس کا سانس رک جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ اسکے لئے ہر تقصیر مضر ہے اور ہر زیادہ روی (افراط)مفسد ہے اور اس (افراط)کے بعد ہر خیر شر بن جاتا ہے اور ہر شر اسکے لئے ایک آفت ہے ''

مختصر یہ کہ دنیا کے بارے میں پرامیدہونا ہر انسان کو طمع کی ذلت کے حوالہ کردیتا ہے اور طمع (لالچ)ہلاکتوں کے سپردکردیتی ہے کسی چیز سے مایوسی کے بعد وہ کف افسوس ہی ملتا رہتا ہے اور کوئی خوف پیدا ہوجائے تو وہ دہشت کے منھ میں جھونک دیتا ہے اس طرح ہرخواہش اور ہوس ایک نئی خواہش اور ہوس کے حوالے کردیتی ہے اور آخر کار وہ ہلاکت کے منھ میں پہونچ جاتا ہے ۔

۱۵۶

دنیا اپنے خواہشمند کے لئے ایک وبال جان

انسان کے دنیا وی عذاب کا پہلا رخ اور پہلا مرحلہ تو اسکے خواہشات (ہوس)ہیں مگر دوسری منزل میں خود یہ دنیا اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا خواہشات (ہوس) کا کھلا میدان،ان کی آخری منزل، انکے حصول کا سرچشمہ،ان کی آماجگاہ اور انکو ابھارنے اور ان کی پرورش کی جگہ ہے

لہٰذا جب خداوند عالم کسی انسان کو خواہشات نفس کی پیروی کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرتا ہے تواس پر یہ عذاب لا محالہ، طلب دنیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے کیونکہ انسانی ہوس اور دنیا طلبی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے اور اسلامی افکار کے اہم مسائل کا حصہ ہے جس کی ہم یہاںوضاحت کر رہے ہیں ۔

اگر کوئی انسان اپنے ضروریات زندگی اور ضروریات دین اور تکامل کے لئے دنیا حاصل کرے تو اس حصول دنیا اور حتی دنیا میںکوئی چیزشر اور عذاب نہیں ہے جس کی تصدیق اسلام میں موجود ہے کیونکہ اسلام کا یہ کہنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز شر نہیں ہے بلکہ سب خیر ہی خیر ہے اسی لئے اس نے دنیا حاصل کرنے اور رزق تلاش کرنے کے لئے دوڑدھوپ کرنے کو شریعت کا جزء قرار دیا ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دنیا اولیاء خدا کا میدان تجارت (منڈی)اور اسکے محبین کی مسجد ہے :

(متجرأولیاء ﷲ،ومسجدأحبّاء ﷲ )( ۱ )

''(دنیا)اللہ کے اولیاء کا میدان تجار ت اور اسکے محبین کی مسجد ہے''

لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا شر اور عذاب ہو

اس دنیا میں محنت ومشقت کرنا اور رزق تلاش کرنا شریعت اسلامیہ کاجزہے جس کی تائید کے لئے قرآن مجید کی اس آیت میں مہر تصدیق ثبت ہے :

(فاذاقضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل ﷲ )( ۲ )

''جب نماز تمام ہوجائے تو روئے زمین پر پھیل جائو اور فضل الٰہی تلاش کرو ''

لہٰذاجب یہ سب خیر ہے تو شر اور عذاب کا وجود کہاں رہے گا؟

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۱۳۱۔

(۲)سورئہ جمعہ آیت ۱۰۔

۱۵۷

لہٰذا جب تک یہ دنیا خداوند عالم تک پہونچنے کا ذریعہ اور اسکی مرضی حاصل کرنے کاوسیلہ ہو اور اس سے بڑھ کر خودخدا تک جانے کا ارادہ ہو تو یہ پوری دنیا اور اس میں ہونے والی ہر کوشش خیر ہی خیر ہے۔۔۔

لیکن اگر انسان کی محنت و مشقت اوراسکی حرکت کا رخ خداوند عالم اور اسکی مرضی حاصل کرنے کے بجائے دنیا کی طرف مڑجائے تو یہ اسلام کی نظر میں ناقابل برداشت بات ہے ۔اور اسے اس نے شر قرار دیا ہے اور اسی کو خداوند عالم انسان کے لئے عذاب دنیا بنا دیتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ دنیا انسان کی نظر میں خدا تک پہونچنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہونے کے بجائے خودایک مستقل مقصد میں تبدیل ہوجائے تو پھر انسان اپنی گمراہی کی وجہ سے خدا کی طرف جانے کے بجائے دنیا کی طرف چل دیتا ہے اور اسکی نظر یںذات خدا کے بجائے دنیا کی رنگینیوں پر ٹکی رہتی ہیں اور جب وہ دنیا میں گھرارہ جائے تو اسکا ہر عمل باطل اور محنت بیکارنیز اسکی ترقی اور تکامل معطل ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تنزلی ،لغزش اور خسارہ کا شکار ہوجاتا ہے ۔

بلکہ کبھی کبھی انسان خداوند عالم سے منحرف ہوکر اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خداوندعالم سے جنگ کی ٹھان لیتا ہے اور کھلم کھلا خدا ورسول کی دشمنی کا اعلان کرتا ہے ۔

بہر حال چاہے جو کچھ بھی ہواگر یہ دنیا انسان کے لئے خدا تک پہونچنے کا وسیلہ ہونے کے بجائے منزل مقصود میں تبدیل ہوجا ئے اور انسان کی کل دوڑدھوپ دنیا طلبی تک محدودرہے تو پھر یہی دنیاانسان کیلئے دردسر اور عذاب جان بن جاتی ہے ۔

جودنیا، انسان کی خواہشمند ہوتی ہے اور جس دنیا کا خواہشمند انسان ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان یہی فرق ہے کہ انسان کی خواہشمند دنیا اسے خدا تک پہونچاتی ہے لیکن جب انسان دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے تو یہی دنیاخدا تک پہونچنے کا راستہ ہونے کے بجائے اس کے لئے سنگ راہ بن کر عذاب اور وبال جان بن جاتی ہے ۔

۱۵۸

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے :

(لما خلق ﷲ الدنیا أمرها بطاعة ربّها،فقال لها خالفی مَنْطلبکِ ووافقی من خالفک،فهی علیٰ ماعهد الیها ﷲ وطبعهاعلیه )( ۱ )

''جب خداوند عالم نے دنیا کو خلق فرمایا تو اس سے ارشاد فرمایا کہ جو تجھے طلب کرے (تیرا خواہشمند ہو )اسکی مخالفت کرنا اور جو تیرامخالف ہو اسکی موافقت کرنا لہٰذایہ دنیا خداوند عالم سے کئے ہوئے عہد کے مطابق اپنی طبیعت پر باقی ہے ''

روایت میں بطور کنایہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص فکر دنیا میں پڑجائے اور اسی کو اپنا سب کچھ سرمایہ اور مقصد قرار دیدے توخداوند عالم اسی دنیا کو اسکے لئے عذاب بنا دیتا ہے اور جو شخص دنیا سے دل نہ لگائے اور اسکی مخالفت کرتا رہے تو پروردگار اسکے لئے دنیا کو چین اور سکون میں بدل دیتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(أوحیٰ ﷲالیٰ الدنیا:اخدمی من خدمنی،وا تعبی من خدمک )( ۲ )

''ﷲ تعالی نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی جو میری خدمت کرے اسکی خدمت گذار بننا اور جو تیری خدمت کرے اسکے لئے عذاب بن جانا''

اس روایت میں بھی گذشتہ روایت کی طرح یہ کنایہ موجود ہے کہ اگر انسان کا مقصد خداوندعالم کو خوش کرنا ہو،تو یہ دنیا اسکی خدمت کے لئے خلق کی گئی ہے لیکن جب اسکا مقصد خدا کے بجائے دنیا ہوجائے تو پھر اسکے لئے دنیا کی خدمت کرنا ضروری ہے اور دنیا کی خدمت کرنا کسی عذاب

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۵۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ص۲۰۳۔

۱۵۹

اور درد سر سے کم نہیں ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہی یہ بھی روایت ہے :

(ان ﷲ جل جلاله أوحیٰ(الیٰ)الدنیا أن اتعبی منخد مک واخدمی من رفضکِ )( ۱ )

''خداوند عالم نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی کہ جو تیری خدمت کرے اسے عذاب میں مبتلا کردینا اور جو تجھے چھوڑدے اسکی خدمت کرنا''

اس روایت کا بھی انداز اور لہجہ بعینہ وہی ہے بلکہ اگر کوئی روایات کے اندازبیان سے واقف ہوتو اسے بخوبی محسوس ہوگا کہ اس روایت میں گذشتہ روایات کے بالمقابل کچھ زیادہ صراحت موجود ہے ۔

حضرت علی سے مروی ہے :

(من خدم الدنیا استخدَ متْه ومن خدم ﷲخد مه )( ۲ )

'' جو شخص دنیا کی خدمت کریگا وہ اسے اپنا نو کر بنائے رکھے گی اور جو شخص خداوند عالم کی خدمت(اطاعت)کریگا تو خداوند عالم دنیا کواس کا خدمت گذار بنادیگا''

ﷲ تعالی نے جناب موسیٰ کی طرف یہ وحی فرمائی :

(ما من خلقی أحد عظّمها(۳)فقرّت عینه ،ولم یحقّرها أحد الا انتفع بها )( ۴ )

''یعنی میری مخلوقات کے درمیان کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے دنیا کو بڑا سمجھا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۱۔

(۲)غرر الحکم ج۲ ص۲۳۷۔

(۳)یعنی دنیا۔

(۴)بحارالانوارج۷۳ص۱۲۱۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

ترجمہ : انسانوں ميں ايسے لوگ بھى ہيں جنكى باتيں زندگانى دنيا ميں بھلى لگتى ہيں اور وہ اپنے دل كى باتوں پر خدا كو گواہ بناتے ہيں حالانكہ وہ بد ترين دشمن ہيں ، كو حضرت على (ع) سے منسوب كر دے اور'' و من الناس من يشرى نفسہ بتغاء مرضات اللہ واللّہ رئوف با العباد '' سورہ بقرہ آيت ۲۰۷كو جو حضرت على (ع) كى شان ميں نازل ہوئي تھى اسكے متعلق ايك حديث رسول (ص) سے منسوب كر كے امير المومنين كے قاتل ابن ملجم كے نام كر دے ، سمرہ بن جندب نے قبول نہيں كيا _

معاويہ نے مزيد دو لاكھ درہم بھجوائے پھر بھى قبول نہيں كيا ليكن جب معاملہ چار لاكھ درہم تك پہونچ گيا تب جا كر سمرہ بن جندب نے رسول اكرم (ص) سے جھوٹى حديث ان آيتوں كے سلسلے ميں گڑھى اور لوگوں سے بيان كيا(۱)

معاويہ كے مقابلے ميں بعض دليروں كا كردار

پرو پيگنڈے كى جنگ اتنى خطرناك تھى كہ ايمان كى اساس طوفان كے زد پر اكر فنا ہو رہى تھى ، اور بعض صحابہ و تابعين نے معاويہ كى آواز پر لبيك كہہ كر اپنا خوب پيٹ بھرا_

مملكت اسلامى كے با رسوخ افراد مسلمانوں كے بيت المال سے خريدے جانے لگے اور ان لوگوں كو خوب سونے اور چاندى كى تھيلياں دى جانے لگيں يا كسى حكومتى عہدے پر فائز كر ديا گيا ، مگر ايك چھوٹا سا گروہ تھا جس نے دين و شرافت كو مد نظر ركھتے ہوئے معاويہ كى ہونكارى نہيں بھرى تھى ، ان لوگوں كو اتنا ستايا گيا كہ انھوں نے اپنى جان و مال سب كچھ راہ خدا ميں قربان كر ديا _

جس كا نتيجہ يہ ہوا كہ ہزاروں جھوٹى حديثيں منظر عام پر اگئيں اور اسلامى معاشرہ تاريك ماحول ميں چلا گيا ، ان گڑھى ہوئي حديثوں كے ہوتے ہوئے كون انسان اسلام حقيقى كو پہچان سكتا تھا اور دوسرے يہ كہ وہ ہزاروں افراد جو متقى و پرہيزگار تھے وہ سختيوں كو جھيل كر موت كے دامن ميں سو چكے تھے _

ہم نے اس سے پہلے ان لوگوں كا تذكرہ كيا ہے جنھوں نے معاويہ كے دام فريب ميں اكر جھوٹى حديثيں گڑھيں كہ انہى ميں ايك سمرہ بن جندب ہے ، يہ وہ شخص ہے جو معاويہ كے اشارے پر ناچتا رہا جسكى وجہ سے اسكو بصرہ كى حكومت ملى تھى _

سمرہ كى اور سياہكاريوں كو چھوڑ كر صرف جو كوفہ ميں تباہياں اور قتل و غارتگرى كا اس نے بازار گرم كيا تھا ، اسكو طبرى يوں بيان كرتا ہے _

____________________

۱_شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۳۶۱

۱۸۱

مشہور عالم ابن سيريں سے پوچھا گيا كہ سمرہ بن جندب نے كسى كو قتل كيا ہے يا نہيں سيرين نے جواب ديا ، تم لوگ سمرہ كے قتل كو شمار كر لو گے ؟

ايك مرتبہ زياد نے بصرہ ميں اپنا جا نشين بنا ديا تو چھہ مہينے كے اندر اس نے اٹھ ہزار بے گناہ مسلمانوں كو قتل كيا جن ميں پينتاليس افراد وہ تھے جو حافظان قران تھے(۲)

طبرى مزيد كہتا ہے ، جب معاويہ نے زياد كى جگہ سمرہ بن جندب كو چند مہينے تك حاكم بصرہ بنا كر معزول كر ديا تو اس نے كہا ، خدا معاويہ كو غارت كرے ، خدا كى قسم ، ميں نے جس طرح معاويہ كے حكم كو مانا تھا اگر اسى طرح اپنے پروردگار كى اطاعت كرتا تو ہرگز مستحق عذاب نہ ہوتا(۳)

انھيں ميں دوسرا ضمير فروش مغيرہ بن شعبہ تھا ، جس نے سات سال كچھ مہينے كوفہ پر حكومت كى اور ايك لمحہ بھى حضرت على (ع) اور قاتلان عثمان پر نفريں كئے بغير اور عثمان كے حق ميں دعا كئے بغير چين و سكون سے نہيں بيٹھا _

البتہ مغيرہ اپنى چالاكى و ذہانت كيوجہ سے حكومتى امور كو كبھى نرميت اور خاطر مدارات كے ذريعے تو كبھى سختى سے انجا م ديتا تھا _

طبرى لكھتے ہيں :

ايك روز مغيرہ بن شعبہ نے صحابى امام (ع) صعصہ بن صوحان سے كہا ، ذرا كان كھول كر سن لو ، ايسا نہ ہو كہ ايك دن تمھارى خبر عثمان كى بد گوئي كرتے ہوئے ميرے كانوں تك پہونچے ، اگر على (ع) كے فضائل كو بيان كرنا ہے تو علنى طور پر بيان نہ كرنا بلكہ مخفى مقام پر بيان كرنا جس طرح على (ع) كے فضائل تم جانتے ہو اسى طرح ميں بھى واقف ہوں ليكن كيا كروں حكومت اموى كى طرف سے ڈنڈا ہے كہ على (ع) كو برا بھلا كہو ، البتہ ميں نے اكثر مقامات پر ان امور ميں رو گردانى كى ہے مگر جہاں پر مجبور ہو جاتا ہوں تو اپنى محافظت كے لئے بعض جملے برائي كے كہہ ڈالتا ہوں ، اگر زياد ہ فضائل على (ع) كے بيان كرنے كا شوق ركھتے ہو تو اپنے قريبى رشتہ داروں كے گھروں ميں بيان كرنا مگر مسجد اور شاہراہ پر بيان كرنا ايك ايسا مسئلہ ہے جسكو خليفہ ( معاويہ ) برداشت نہيں كر سكتا ، اور نہ ہى اس سلسلے ميں ميرے عذر كو قبول كر سكتا ہے(۴)

____________________

۲_ طبرى ج۶ ص ۱۳۲ ، ابن اثير ج۳ ص ۱۸۹

۳_طبرى ج۶ ص ۱۶۴ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۱۲

۴_طبرى ج۶ ص ۱۰۸

۱۸۲

اخر ى فرد زياد بن ابيہ كى ہے جس نے معاويہ كے حكم كو نافذ كرنے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا ہے ، حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ جو اس نے سلوك كيا تھا اسكو اپ نے ملاحظہ فرمايا ليكن اس وقت اسى واقعہ كى ايك كڑى جو زياد اور صيفى بن فسيل كے درميان آيا تھا اسكو بيان كر رہا ہوں _

ايك روز زياد نے صيفى كو بلوايا اور اس سے كہا ، اے دشمن خدا تم ابو تراب كے بارے ميں كيا كہتے ہو ، صيفى نے كہا ، ابو تراب كس كا نام ہے _

زياد نے كہا _ تمھيں نہيں معلوم ہے ارے تم اچھى طرح سے ان كو پہچانتے ہو _

صيفى نے كہا _ مجھے نہيں معلوم ہے _

زياد نے كہا _ على بن ابيطالب كا لقب ہے _

صيفى نے كہا _ اچھا وہ ہيں _

ايك طويل مدت تك ايسے ہى مكالمہ ہوتا رہا ، اخر زياد نے چھڑى منگوائي اور صيفى سے كہا كہ اب بتائو تمھارا على (ع) كے بارے ميں كيا خيال ہے _

صيفى نے كہا ، اس بندئہ خدا ميں جو خوبى ہو گى اسى كو بيان كرونگا _

زياد نے اپنے جلادوں سے كہا كہ اسكو اتنا مارو كہ انكى گردن ٹوٹ جائے ، ان لوگوں نے صيفى كى خوب پٹائي كى _

زياد نے پھر پوچھا ، اب على (ع) كے بارے ميں كيا كہتے ہو _

صيفى نے كہا خدا كى قسم ، اگر تم لوگ مجھے تلوار سے ٹكڑے ٹكڑے بھى كر دو گے تو وہى كہوں گا جو انكى خوبى كى علامت ہے _

زياد نے كہا _ اگر على (ع) پر نفرين نہيں كرو گے تو تمہارى گردن اڑا دو نگا _

صيفى نے جواب ديا _ تم ميرى گردن كو تن سے جدا كر سكتے ہو مگر جس چيز كو سننا چاہتے ہو اسكو ميرى زبان سے نہيں سن سكتے ہو ، ميں قتل ہو كر خوش نصيب بن جائو نگا اور تم قتل كر كے بدبخت ہو جائو گے _

يہ سننا تھا كہ زياد نے حكم ديا كہ اسكو زنجيروں ميں جكڑ كر قيد خانہ ميں ڈال ديا جائے اخر اس شخص ( صيفى ) كو بھى حجر اور انكے ساتھيوں كے ساتھ شھيد كر ديا گيا(۵)

____________________

۵_ طبرى ج۶ ص ۱۴۹ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۴ ، اغانى ج ۱۶ ص ۷ ، ابن عساكر ج ۶ ص ۴۵۹

۱۸۳

،واقعہ يہ ہے كہ زياد نے حضر موت كے اطراف سے دو ادميوں كو معاويہ كے پاس بھيجا اور اس نے خط ميں يہ لكھا كہ يہ لوگ دين على (ع) اور انكے چاہنے والے ہيں _

معاويہ نے جواب ديا _ جو بھى دين على (ع) اور انكى اطاعت ميں ہے انكو قتل كر كے ان كى لاشوں كو پا ئمال كر دو _

زياد نے ان دونوں محبان على (ع) كو كوفے كے دار الامارہ پر سولى ديدى(۶)

ايك دوسرا خط معاويہ كے پاس يہ لكھا كہ ايك قبيلہ خثعمى كے فرد نے ميرے سامنے على (ع) كى مدح سرائي كى ہے اور عثمان كو

برے الفاظ سے ياد كيا ہے ، اس سلسلہ ميں تمھارا حتمى فيصلہ كيا ہے _

معاويہ نے جواب ديا _ اس شخص كو زندہ در گور كر دو ، زياد نے يہ كام معاويہ كے كہنے پر انجام ديا كہ لوگ خوف و دہشت كے مارے فضائل على (ع) كو بيان نہ كر سكيں(۷) _

مورخين نے زياد كى تباہكاريوں كے سلسلے ميں بہت كچھ تحرير كيا ہے خود ابن عساكر لكھتا ہے ، ايك روز زياد نے تمام اہل كوفہ كو دعوت دى جب مسجد كوفہ لوگوں سے بھر گئي تو زياد نے اس جم غفير كو حكم ديا كہ تم لوگ على (ع) پر نفريں كرو(۸) _

مسعودى لكھتے ہيں :

زياد نے اہل كوفہ كو اپنے قصر ميں بلايا اور ان لوگوں سے كہا كہ تم لوگ على (ع) كو برا بھلا كہو اور اپنے مامورين سے جتا ديا كہ اگر كوئي شخص على (ع) پر نفرين كرنے سے كترائے تو اسكى گردن فوراً اڑا دو مگر خوش قسمتى يہ رہى كہ اسى وقت مرض طاعون ميں مبتلا ہو گيا اور اس دنيا سے مر كھپ گيا اس طرح اہل كوفہ نے چين و سكون كى سانس لى(۹)

____________________

۶_ المحبر ص ۴۷۹

۷_طبرى ج۶ ص ۱۶۰ ، ابن اثير ج۳ ص ۲۰۹ ، ا غانى ج ۱۶ ص ۱۰ ، ابن عساكر ج۲ ص ۳۷۹

۸_ ابن عساكر ج۲ ص ۵۱۷

۹_ مروج الذھب ج۳ ص ۳۰

۱۸۴

عمرو بن حمق خزاعى كى ذات وہ تھى جن كا شماربہادروں ميں ہوتا تھا ، مگر حاكم كوفہ زياد نے انكے قتل كا فرمان جارى كر ديا تھا ، يہ امام عليہ السلام پر تبرا نہ بھيجنے كے ڈر سے جنگل ميں جا كر چھپ گئے ، ليكن حاكم كوفہ ( زياد ) كے ظالم سپاہيوں نے انكو چراغ كے ذريعہ ڈھونڈھنا شروع كيا اخر كار عراق كے تپتا صحراء كے ايك غار ميں انكو گرفتار كر ليا گيا اور حاكم كوفہ كى خدمت ميں پيش كيا گيا ، مگر عمر و بن حمق خزاعى نے امام (ع) كو كچھ نہ كہا جسكے بدلے ميں انكو زياد نے قتل كر ديا پھر انكے سر كو معاويہ كے پاس بھيجا اس نے حكم ديا كہ اس سر كو بازار ميں لٹكا ديا جائے تاكہ لوگ اس سر سے عبرت ليں _

چند دنوں بعد اس سر كو عمرو بن حمق كى بيوى كے پاس بھيجا گيا جو خود اسى محبت على (ع) كيوجہ سے قيد خانہ كى صعوبتوں كو برداشت كر رہى تھيں ، جب انھوں نے اپنے شوہر كے كٹے ہوئے سر كو ديكھا تو حسرت و ياس كے مارے يہ كہا ، كتنا زمانہ ہو گيا كہ تم لوگوں نے ميرے شوہر كو مجھ سے چھڑا ديا تھا ، ليكن اب اسكے سر كو ميرى خدمت ميں تحفہ بنا كر پيش كرتے ہو ارے يہ تحفہ بڑا قيمتى _(۱۰) _

بلاد اسلامى كے منبروں سے امير المومنين پر نفرين

امام عليہ السلام كے اصحاب كو صفحہ ہستى سے مٹانے كى كوشش اور جھوٹى حديثوں كے ذريعہ نيك كردار كو بد نام كرنا نيز بد كردار كو نيك كردار كرنے كى سازش يہ سارى كى سارى معاويہ كى سياست تھى جو تمام بلاد اسلامى ميں اگ كى طرح پھيل چكى تھى ، زياد بن ابيہ اور معاويہ كے ديگر حكمرانوں نے اس سياست كو تر ويج دينے ميں بہت مشكلات كا سامنا كيا تھا اور اس سلسلہ ميں مورخين نے ان حكمرانوں كى زيادتيوں اور تباہكاريوں كو بيان بھى كيا ہے _

يہ تمام تباہكارياں اور گندى سياست بنى اميہ كے دور ميں ديكھنے ميں اتى ہے ، كيونكہ ان لوگوں نے مسلمانوں كے ذہن و دماغ كو اسى لئے حقائق سے دور ركھا تھا تاكہ تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا كہا جائے اور صرف ايك سيستان كا صوبہ تھا جو معاويہ كے حكم كو نہيں مان رہا تھا اور ايك مرتبہ كے علاوہ اہل سيستان نے منبروں سے حضرت على (ع) كو برا بھلا نہيں كہا :

____________________

۱۰_ابن قتيبہ كى المعارف ص ۱۲۷ ، استيعاب ج۲ ص ۵۱۷ ، اصابہ ج۲ ص ۵۲۶ ، ابن كثير ج۸ ص ۴۸ ، المعبر ص ۴۹۰

۱۸۵

اس ايك مرتبہ كے بعد سيستانيوں نے اموى اركان خلافت سے عہد و پيمان كيا كہ ہم كو حضرت امير المومنين (ع) پر نفرين كرنے سے باز ركھا جائے ، درانحاليكہ اسى زمانے ميں شہر اسلامى كے دو مقدس ترين شھروں ( مكہ و مدينہ ) ميں منبروں سے امام (ع) پر لعنت بھيجى جا رہى تھى(۱۱)

ضمير فروش خطيبوں نے خاندان علوى (ع) كے سامنے امام (ع) بزرگوار پر لعن و طعن كى تھى جنھيں مورخين نے نقل كئے ہيں ،ليكن ميں ان تمام واقعات كو چھوڑتے ہوئے صرف ايك واقعہ پيش كر رہا ہوں _

ايك مرتبہ عمر و بن عاص نے منبر سے حضرت على (ع) كو خوب برا بھلا كہا ، جب يہ اترگيا تو اسكے بعد مغيرہ بن شعبہ منبر پر اگيا اور اس نے بھى امام (ع) كے حق ميں نا زيبا كلمات زبان پر جارى كئے ، درانحاليكہ اس مجلس ميں حضرت امام حسن مجتبى (ع) موجود تھے ، حاضرين نے امام (ع) سے ان دونوں ( عمر و عاص، مغيرہ ) كا جواب دينے كے لئے كہا :

انحضرت (ص) نے ايك صورت ميں جواب دينے كى پيشكش كو قبول كيا كہ اگر ميں حق بات كہوں تو تم سب ميرى تصديق كرنا اور اگر نا حق بات كہوں تو ( العياذ باللہ ) ميرى تكذيب كرنا ، امام عليہ السلام اس عہد و پيمان كے بعد منبر پر گئے اور حمدالہى كے بعد عمر واور مغيرہ سے خطاب كرتے ہوئے كہا كہ ، تم دونوں سے خدا كى قسم ديكر پوچھتا ہوں كہ آيا تم دونوں بھول گئے ہو جو رسول (ص) نے مہار پكڑنے والے كو اور مركب ہنكانے والے كو نيز سوار پر لعنت بھيجى تھى جن ميں ايك فلاں شخص ( معاويہ ) تھا(۱۲) _

حاضرين نے كہا اپ سچ كہتے ہيں :

دوسرى مرتبہ پھر عمر و عاص و مغيرہ كو مخاطب كرتے ہوئے كہا :

ايا تم دونوں كو معلوم نہيں ہے جو پيغمبر اسلام (ص) نے عمر و عاص كے ہر شعركے بيت پر لعنت بھيجى تھى(۱۳) ، تمام لوگوں نے كہا خدا كى قسم اپ سچ كہتے ہيں(۱۴) _

____________________

۱۱_ياقوت حموى ج۵ ص ۳۸ مطبوعہ مصر

۱۲_ سوار ابو سفيان، مہار تھامنے والا يزيد بن ابو سفيان نيز ہنكانے والا معاويہ تھا اور پيغمبر اسلام (ص) نے ان تينوں پر لعنت بھيجى تھي

۱۳_ عمر و عاص نے عصر جاہليت ميں ايك قصيدہ رسول (ص) كى مذمت ميں كہا تھا انحضرت نے بد دعا كر كے خدا وند عالم سے درخواست كى كہ اسكے ہر بيت پر ايك لعنت بھيجے

۱۴_ تطہير اللسان ص۵۵

۱۸۶

ليكن جو مومن اور اہلبيت عليہم السلام كے چاہنے والے تھے كبھى بھى خطبوں ميں نيز جس نشست ميں على (ع) كو برا بھلا كہا جاتا تھا اس ميں شريك نہيں ہوتے تھے ، اور قبل اسكے كہ خطبہ ديا جائے مسجد كو چھوڑ ديتے تھے _

يہى وجہ تھى جو معاويہ كے حكمرانوں نے حكم خدا و رسو ل(ص) كو بدل ديا تھا ، اور جس نماز ميں پہلے خطبہ تھا اسكو بعد ميں پڑھا گيا _

كتاب محلى ميں ابن حزم رقمطراز ہيں :

بنى اميہ كى حكومت ميں سب سے پہلے جو كام انجام ديا گيا وہ يہ تھا كہ خطبہ نماز كو نماز پر مقدم كر ديا گيا ، ان لوگوں نے اپنے نا مشروع فعل كى توجيہ و تاويل اس طرح كى كہ لوگ نماز ختم ہونے كے بعد چلے جاتے ہيں اور خطبہ كو نہيں سنتے ہيں _

ليكن حقيقت تو يہ ہے كہ ان لوگوں نے اتنا على (ع) كو برا بھلا كہا كہ نمازى اپنى نماز تمام كر كے مسجد سے بھاگ جاتے تھے اور مسلمان كا يہ فعل صحيح معنوں ميں درست و حق تھا(۱۵)

صحيح بخارى اور صحيح مسلم نيز حديث كى دوسرى معتبر كتابوں ميں ابو سعيد خدرى سے يوں نقل ہوا ہے _

ميں ( سعيد ) حاكم مدينہ مروان كے ساتھ عيد الاضحى يا عيد الفطر كى نماز عيد گاہ ميں پڑھنے گيا ، كثير بن صلت كے بنائے ہوئے منبر كے قريب جيسے ہى مروان پہونچا تو اس پر چڑھ گيا اور نماز سے پہلے خطبہ دے ڈالا ، ميں نے اسكو لاكھ روكا مگر وہ نہ مانا ، جب خطبہ ديكر مروان نيچے اترا تو ميں نے اس سے كہا كہ خدا كى قسم ، تم نے تو دين و شريعت كو بدل ڈالا ہے

مروان نے كہا ، اے ابو سعيد جن چيزوں كو تم بنام دين سمجھتے ہو وہ تمام كى تمام دنيا سے اٹھ گئي ہيں _

ابو سعيد نے كہا ، خدا كى قسم ، ان بدعتوں سے بھتر يہ تھا كہ كچھ جانتے ہى نہيں ، مروان نے كہا ، اگر نماز سے پہلے خطبہ نہ ديتے تو لوگ ميرے خطبے كو ہرگز نہيں سنتے اسى وجہ سے ميں نے نماز سے پہلے خطبہ ديديا ہے(۱۶)

____________________

۱۵_ محلى ج۵ ص ۱۸۶ ، امام شافعى ج۱ ص ۲۰۸

۱۶_بخارى ج۲ ص ۱۱۱ ، مسلم ج۳ ص ۲۰ ، سنن ابى داو د ج۱ ص ۱۷۸ ، ابن ماجہ ج۱ ص ۳۸۶ ، بيہقى ج۳ ص ۲۹۷ ، مسند احمد ج۳ ص ۲۰

۱۸۷

بعض لوگوں كا لعنت سے گريز خلافت اموى كے حكام و مامورين نے صرف عام لوگوں سے حضرت على (ع) پر لعنت نہيں بھجوائي ، بلكہ اصحاب رسول (ص) جو اسلام كى معرفت ركھنے كيوجہ سے زيادہ مستحق پيروى تھے ان سے بھى كہا كہ ميرے حكم كو مانيں اور على (ع) پر لعنت بھيجيں _

سہل بن سعد كہتے ہيں :

ايك روز ال مروان(۱۷) كے ايك حاكم نے مدينہ ميں مجھے طلب كيا اور ہم سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، ميں نے حاكم مدينہ كى بات كو ٹھكرا ديا _

حاكم نے كہا اچھا ابو تراب(ع) پر لعنت بھيج دو _

سہل نے كہا ، حضرت على (ع) كو سارے ناموں ميں سب سے زيادہ محبوب نام ابو تراب(ع) تھا اور جب لوگوں نے اس نام سے ياد كيا تو اپ بہت خوش ہوئے _

حاكم مدينہ نے كہا _ مجھے اس نام كى داستان سے مطلع كرو اور خوش ہونے كا سبب بتائو ، ميں نے كہا ايك مرتبہ پيغمبر(ص)

اسلام جناب سيدہ(ع) كے گھر تشريف لائے اور على (ع) كو وہاں موجود نہ پاكر اپنى بيٹى سے پوچھا كہ تمھارے چچا زاد بھائي كہا ں ہيں _

فاطمہ(ع) نے كہا كہ ميرے اور ان كے درميان تھوڑا سا سخت كلامى ہو گئي ہے اور اسكے بعد انھوں نے گھر ميں ارام نہيں كيا اور باہر چلے گئے _

انحضرت (ص) نے ايك شخص سے كہا كہ جا كر ديكھوكہ على (ع) كہا ں ہيں اس نے جب مسجد ميں حضرت على (ع) كو ليٹے ہوئے ديكھا تو رسول اكرم (ص) سے جا كر كہا كہ وہ مسجد ميں سو رہے ہيں ، جب رسول اكرم (ص) نے على (ع) كو خاك ميں اٹے ہوئے ديكھا تو بڑى مہر بانى سے انكے جسم سے خاك كو جھاڑا اور كہا ، اٹھو ابو تراب ، اٹھو ابو تراب(۱۸)

____________________

۱۷_مقصود مروان بن حكم ہو گا

۱۸_صحيح مسلم ج ۷ ص ۱۲۴

۱۸۸

ابو تراب كے معنى مٹى كو دوست ركھنے والا ہے بنى اميہ نے يہ گمان كر ليا تھا كہ على (ع) كى يہ كيفييت ذليل و حقير ہے درانحاليكہ انكو يہ بھى نہ معلوم ہو سكا كہ يہ لقب خود على (ع) كے كمال كى دليل ہے جو اس طرح رسول (ص) اپ سے لطف و مہربانى سے پيش ارہے تھے ، ورنہ بنى اميہ لوگوں سے يہ نہ كہتے كہ ابو تراب(ع) پر لعنت بھيجو _

عامر بن سعد جو خود اس واقعہ كا چشم ديد گواہ ہے كہتا ہے :

ايك مرتبہ معاويہ نے ميرے باپ ( سعد ) كو اپنى خدمت ميں بلايا اور ان سے كہنے لگا كہ تم على (ع) كو برا بھلا كيوں نہيں كہتے ہو ؟

ميرے باپ نے جواب ديا كہ _ اے معاويہ جب تك مجھے يہ تين حديثيں ياد رہيں گى كبھى على (ع) كو برا بھلا نہيں كہہ سكتا ، اور رسول (ص) كى يہ حديثيں ميرى نظر ميں عرب كے سرخ رنگ كے اونٹوں سے زيادہ قيمتى ہيں _

۱_ جب رسول (ص) ايك جنگ ( تبوك ) ميں جا رہے تھے اور على (ع) كو ساتھ نہ لے گئے اور انكو شہر مدينہ كے منافقوں سے نپٹنے كے لئے چھوڑ ديا تھا تو اس وقت على (ع) نے بہت گريہ كيا اور انحضرت (ص) سے فرمايا : اے رسول(ص) خدا مجھے عورتوں اور بچوں كے درميان چھوڑ كر جاتے ہيں تو ميں نے اپنے كانوں سے رسول(ص) اكرم كو يہ فرماتے ہوئے سنا تھا ''اما ترضى ان تكون منى بمنزلة هارون من موسى الّا انه لا نبى بعدى ''

ترجمہ : آيا تم راضى نہيں ہو كہ تمھارا وہى مرتبہ ہے جو موسى كے لئے ہارون كا تھا فرق اتنا ہے كہ ميرے بعد كوئي نبى ہونے والا نہيں ہے _

۲_ دوسرى مرتبہ جنگ خيبر ميں كہتے ہوئے سنا تھا''لاعطينّ الراية غدا رجلا ً يحب الله و رسوله و يحبه الله و رسوله ''

ترجمہ : كل ميں اس مرد كو علم دوں گا جو خدا و رسول كو دوست ركھتا ہے اور خدا و رسول (ص) اسے دوست ركھتے ہيں ،ہم تمام لوگ گردنوں كو بلند كر كے رسول (ص) خدا كو ديكھنے لگے اپ (ص) نے فرمايا : على (ع) كہاں ہيں ؟

۱۸۹

حاضرين ان كو بلانے كے لئے دوڑے جبكہ على (ع) كے انكھوں ميں شديد درد تھا وہ اسى حالت ميں پيغمبر اكرم (ص) كى خدمت ميں لائے گئے ، انحضرت (ص) نے ان كى انكھوں ميں اپنا لعاب دہن لگايا پھر علم جنگ انكے ہاتھوں ميں ديا جسكے بعد خدا وند عالم نے انكو فتحيابى سے ہمكنار كيا _

مجھے وہ بھى وقت ياد ہے جب يہ آيت نازل ہوئي تھى ،كہ''فقل تعالوا ندع ابنا ئنا الخ_

ترجمہ : پس ان سے كہو كہ ائو اس طرح فيصلہ كر ليں كہ ہم اپنے بيٹوں كو لاتے ہيں تم اپنے بيٹوں كو لائو ، پيغمبر(ص) اسلام نے على (ع) ، فاطمہ(ع) ، حسن(ع) ، حسين(ع) كو بلايا اور كہا ، اے ميرے مالك يہى ہمارے اہلبيت(ع) ہيں _

مسعودى سعد بن وقاص اور معاويہ كى ملاقات كو طبرى سے يوں نقل كرتا ہے _

جب معاويہ حج كرنے كے لئے مكہ آيا تو سعد بن وقاص سے طواف كعبہ كے وقت ملاقات ہوئي ، جب طواف كر چكا تو سعد كو ليكر دار الندوہ ( جو عصر جاہليت ميں بزرگان قريش كے اجتماع كى جگہ تھى ) آيا اور سعد سے كہا كہ تم على (ع) پر لعنت بھيجو ، معاويہ كى اس بات پر سعد كو اتنا غصہ آيا كہ اپنى جگہ سے كھڑے ہو گئے اور كہا :

اے معاويہ ، تو مجھے اسى لئے ليكر آيا ہے تاكہ على (ع) جيسے شخص پر لعن و طعن كروں خدا كى قسم ، اگر على كے فضائل و كمالات ميں سے ايك فضيلت ميرے اندر ہوتى تو دنيا كى تمام چيزوں سے زيادہ محبوب و قيمتى ہوتى(۱۹)

مسعودى نے اس واقعہ كو لكھنے كے بعد ايك عبارت پيش كى ہے جو اس واقعہ سے تھوڑا سا فرق ركھتى ہے_

سعد نے معاويہ سے كہا كہ ، خدا كى قسم ، جب تك زندہ رہو نگا تيرے گھر ميں قدم نہيں ركھوں گا يہ كہا اور اٹھ كھڑے ہوئے(۲۰)

ابن عبد ربہ اندلسى اپنى كتاب ميں لكھتے ہيں :

امام حسن (ع) مجتبى كى شہادت كے بعد معاويہ خليفہ بن كر مكہ حج كرنے گيا پھر مدينہ كى طرف رخ كيا اسكى اس سفر ميں يہ خواہش تھى كہ مسجد النبوى (ص) كے منبر سے على (ع) كو برا بھلا كہے_

____________________

۱۹_صحيح مسلم ج۷ ص ۱۲۰ ، ترمذى ج ۱۳ ص ۱۷۱ ، مستدرك ج۳ ص ۱۰۹ ، اصابہ ج۲ ص ۵۰۲

۲۰_مروج الذھب ج۳ ص ۲۴

۱۹۰

معاويہ كے اطرافيوں نے اس سے كہا ، اس شہر ( مدينہ ) ميں فاتح ايران اور با عظمت صحابى سعد بن وقاص رہتے ہيں ، وہ اس كام كو ہرگز ہونے نہيں ديں گے لہذا بہتر يہى ہے كہ انكے پاس جا كر ان سے پوچھ ليا جائے _

مامورين معاويہ، سعد كے پاس گئے جيسے ہى انھوں نے سنا تو ان لوگوں سے كہا _ اگر اس كام كو انجام ديا گيا تو ياد ركھو جس مسجد كے در سے على (ع) كو برا بھلا كہا گيا اس در ميں ہرگز قدم نہيں ركھےں گے_

يہ بات اس وقت واضح ہوگى جب ہميں يہ معلوم ہو جائے كہ مدينہ ميں مسجد نبوى (ص) كے بارے ميں گفتگو ہوئي تھى يا كوئي اور مسجد تھى _

معاويہ سعد كے نفوذ كے سامنے مات كھا گيا اورجب تك وہ زندہ رہے معاويہ اس كام كو انجام نہ دے سكا _

ليكن جب سعد بن وقاص اس دنيا سے چلے گئے تو معاويہ نے مدينہ كے اندر بار ديگر سعى و كوشش كى اور امام على (ع) كو مسجد نبوى (ص) كے منبر سے گالى دي_

يہى وہ دور تھا جس ميں معاويہ نے اپنے تمام كارندوں كو خط لكھا اور حضرت على (ع) پر تمام بلاد اسلامى كے منبروں سے لعن و طعن كروائي _

زوجہ رسول (ص) ام سلمى نے كئي خطوط معاويہ كے پاس بھيجے جن ميں ان باتوں كو لكھا اے معاويہ ، تو تمام منبروں سے على (ع) اور انكے ساتھيوں پر نفرين كروا رہا ہے جبكہ يہ نفرين خدا و رسول (ص) پر ہو رہى ہے _

ميں قسم كھاتى ہوں كہ خدا اور پيغمبر(ص) اسلام اسكو دوست ركھتے تھے ، مگر ام سلمى كے خط نے كوئي خاص اثر معاويہ پر نہيں ڈالا

۱۹۱

بلكہ اس نے ان خطوط كو ردى كى ٹوكرى ميں ڈال ديا تھا _(۲۱) _

معاويہ كا اخرى ہدف

جب بھى معاويہ اپنے حسب و نسب اور اپنے خاندان كے كرتوت پر (جو اسلام كے مقابلے ميں جنگ كى تھى )نظر دوڑاتا تھا تو شرم و حياء كے مارے اسكا سر جھك جاتا تھا اور يہ تمام چيزيں اسكى حيرانى و پريشانى كى باعث بن جاتى تھيں ، كيونكہ ايك طرف اسلام نے اس كو اور اسكے خاندان كو ضرب كارى لگا كر ذلت و رسوائي كے كھنڈر ميں ڈال ديا تھا _

دوسرى طرف اس كے ديرينہ رقيب بنى ہاشم شہرت كے فلك چہارم پر جا رہے تھے ، يہ تمام مشكلات اسكے ذہن و دماغ پر پہاڑ كى طرح بوجھ بنى ہوئي تھى ، جنكو ہلكا كرنے كے لئے اس نے اصحاب پيغمبر (ص) سے جنگ كى تھى _

ليكن ان تمام جنگوں ميں امير شام معاويہ كى يہى كوشش رہى كہ كہيں سے اپنے كينے كا اظہار نہ ہو كيونكہ ابھى حكومت نئي ہے ورنہ جان و مال خطرے ميں پڑ جائے گا ، ليكن جب ايك دن مغيرہ بن شعبہ كے ساتھ تنہائي ميں بيٹھا، چونكہ دونوں عصر جاہليت سے اپس ميں دوست تھے نيز سالہا سال دونوں سياہكاريوں و تباہكاريوں ميں ايك دوسرے كا ہاتھ بٹا رہے تھے تو معاويہ نے اپنى سياست كو فاش كر ديا _

كتاب الموفقيات ميں زبير بن بكار ، مطرف بن مغيرہ ، سے نقل كرتے ہيں ، ميں اپنے والد (مغيرہ ) كے ساتھ شام گيا ہم دونوں كا قيام معاويہ كے يہاں تھا ميرے والد ہر روز امير شام معاويہ كے پاس جا يا كرتے تھے اور جا كر گھنٹوں باتيں كيا كرتے تھے اور جب معاويہ كے پاس سے اتے تھے تو سارى باتوں كو بيان كرتے تھے _ايك دن معاويہ كے پاس سے آئے تو ميں نے كھانا حاضر كيا ، ليكن انھوں نے نہيں كھايا ، ميں اپنے دل ميں سوچنے لگا كہ كہيں ہم سے كوئي خطا تو سرزد نہيں ہو گئي ہے _

لہذا ميں نے اپنے باپ ( مغيرہ ) سے سوال كيا كہ اج كى شب اپ كيوں اتنا كبيدہ خاطر ہيں _

____________________

۲۱_عقد الفريد ج۳ ص ۱۲۷

۱۹۲

ميرے باپ نے جواب ديا كہ ، اے ميرے لال ، اج ہم خبيث ترين و كافر ترين شخص كے پاس سے ارہے ہيں _

ميں نے پوچھا وہ كون ہے ؟

ميرے باپ نے كہا ارے وہى معاويہ ہے اج اسكى مجلس اغيار سے خالى تھى ، تو ميں نے اس سے كہا كہ اے امير المومنين اپ تو اپنے ہدف تك پہونچ گئے ہيں _

لہذا اس بوڑھاپے ميں عدل و انصاف سے كام ليجئے اور اپنے رشتہ داروں ( بنى ہاشم ) پر رحم و كرم كيجئے تاكہ لوگ اپكى تعريف و تمجيد كريں _

خدا كى قسم ، اب ان لوگوں سے كسى چيز كا خوف نہيں ہے _

اس پر معاويہ نے كہا ، جو كچھ تم نے كہا ہے بہت مشكل ہے ، ابو بكر تخت خلافت پر آئے عدل و انصاف كيا تمام زحمتوں كو برداشت كيا مگر خدا كى قسم ، ايك موذن بھى ان كا نام اذان ميں نہيں ليتا ہے _

عمر خليفہ بنے دس سال كى طويل مدت تك سختيوں كو جھيلا مرنے كے بعد كوئي بھى ان كا نام ليوا نہيں ہے _

اخر ميں ہمارے بھائي عثمان تخت خلافت پربرا جمان ہوئے جو نسب كے اعتبار سے كوئي بھى ان كا ہم پلہ نہيں ہے اور جو كچھ كرنا تھا انھوں نے انجام ديا ليكن ان كے ساتھ كيسا حادثہ پيش آيا جسكى وجہ سے مار ڈالے گئے ، مگر ان كا بھى كوئي نام نہيں ليتا ہے ، اور لوگوں نے انكى كار كردگى كو بالائے طاق ركھ ديا ہے درانحاليكہ اس مرد ہاشمى ( محمد(ص) ) كا نام موذن ہر روز پانچ مرتبہ تمام بلاد اسلامى كے گلدستہ اذان سے ليتا ہے كہ

اشھد ان محمد رسول(ص) اللہ_

اے مغيرہ تم ہى فيصلہ كرو كہ ايسى صورت ميں كون سا اچھا كام اور كس كا نام باقى رہ سكتا ہے _

خدا كى قسم ، جب تك اس نام كو نہ مٹادونگا اس وقت تك چين و سكون سے نہيں بيٹھوں گا(۲۲) رسول خدا (ص) كى شہرت

عامہ سے معاويہ كا سينہ اگ كى بھٹى ہو رہا تھا ( كيونكہ معاويہ كے بھائي ، ماموں اور دوسرے رشتہ داروں كو جنگ بدر ميں مارا تھا ) لہذا اس نام كو مٹانے كے لئے اس نے ان دو سياستوں انتخاب كيا ، اسكى پہلى سياست يہ تھى جس كا خلاصہ يہ ہے ، كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى زمين پر زندہ نہ رہے يہ بات صرف ميں نہيں كہہ رہا ہوں ، بلكہ اسكى وضاحت خود مولائے

____________________

۲۲_مروج الذھب ج ۹ ص ۴۹ ، شرح نہج البلاغہ ج۱ ص ۴۶۳

۱۹۳

كائنات امير المومنين (ع) نے بھى كى ہے كہ خدا كى قسم معاويہ چاہتا ہے كہ بنى ہاشم كى ايك فرد بھى روئے زمين پر باقى نہ رہے اور خدا كا نور بجھ جائے درانحاليكہ خدا وند عالم اپنے نور كو تمام عالم ميں پھيلا كر رہے گا چاہے كافروں كو برا ہى كيوں نہ لگے(۲۳)

معاويہ كى دوسرى سياست يہ تھى كہ بنى ہاشم كے نام و نشان كو صفحہ ہستى سے مٹا ديا جائے اسى لئے جھوٹى حديثوں اور سيرت و تاريخ كا ايك بڑا كارخانہ كھولا تاكہ ان كى منقصت كر كے كردار كو بد نام كر ديا جائے اور بنى اميہ كى فضيلت و منزلت كا پر چار كيا جائے ، يہى وجہ تھى كہ اس نے رسول (ص) كى لعنت والى حديث جو خود اسكے اور ابو سفيان يا خاندان اموى كى كسى ايك فرد جسيے عمر و بن عاص كے سلسلے ميں تھى كے مقابلے ميں رسول اسلام (ص) سے جھوٹى حديث منسوب كر كے لوگوں كے درميان پر چار كرائي كہ ، بارالہا ميں انسان ہوں _

اگر غصے كى حالت ميں كسى پر غلطى سے لعنت بھيجدى ہے يا اسكى مذمت كر دى ہے تو اس لعن و تشنيع كے بدلہ ميں اسكے گناہوں كو معاف كر دے تاكہ پاك و پاكيزہ ہو جائے _

ان جعلى حديثوں نے معاويہ كے حق ميں شمشير برّان كا كام كيا ، ايك طرف رسول اكرم (ص) نے جو كچھ ا س كے يا اس كے خاندان والوں كے سلسلے ميں كہا تھا جو حقيقت ميں سچ تھا ان حديثوں سے اس نے داغدار دامن كو پاك و صاف كر ليا _

دوسرى طرف پيغمبروں (ص) كو ايك معمولى انسان دكھايا كہ انھوں نے جو كچھ كہا تھا وہ سب غصے ميں كہا ، جبكہ اپ لوگ اچھى طرح سے جانتے ہيں كہ خدا وند عالم نے اپنے رسول(ص) كے اخلاق و كردار كى كتنى تعريف و تمجيد كى ہے ، اور انكو انك لعلى خلق عظيم سے ياد كيا ہے ، اور اپكے متعلق سورہ ال عمران ميں ارشاد فرمايا ہے ، ''فبما رحمة من اللہ لنت لھم ولو كنت فظا غليط القلب لا نفضوا من حولك ''نيز دوسرى جگہ كہا كہ ، انكى تمام باتيں وحى الہى كا سر چشمہ ہيں '' وما ينطق عن الھوى ان ھو الّا وحى يوحى '' سورہ نجم آيت۳_۳

معاويہ كى اس برى سياست كو ہر كس و نا كس نہيں سمجھ پايا تھا يہى وجہ تھى جو سادہ لوح افراد تھے اور وہ اپنى ذات سے بے بہرہ تھے اسكى آواز پر دوڑنے لگے ، اور معاويہ كى ہاں ميں ہاں ملانے لگے ، اور جو ضمير فروشوں نے اسكے حكم سے بناوٹى حديثيں تيار كى تھيں انھيں ہر جگہ بيان كرنے لگے اگر چہ معاويہ نے اپنے اندر ونى كينے كو لوگوں كے سامنے ظاہر نہيں كيا

____________________

۲۳_ مروج الذھب ج۳ ص ۲۸

۱۹۴

ليكن اپنى نا پاك تمنائوں كو كھلے عام انجام ديا ہاں ،اس نے ايك طرف عثمان اور ان كے ہمراہيوں كا كھل كر ساتھ ديا_ اور دوسرى طرف على (ع) اور ان كے خاندان والوں نيز ان كے چاہنے والوں پر كہ جنھوں نے اس كى سياہكاريوں ميں ہاتھ نہيں بٹايا تھا ظلم و ستم كا پہاڑ ڈھايا ، اور كسى كو اذيت دى تو كسى كو قيد خانے ميں ڈلوايا تو كسى كو زندہ در گور كيا گيا ، ہمارى بحث كى محور ام المومنين عائشه كى ذات ہے كہ جس وقت انسانيت سولى پر چڑھائي جا رہى تھى اور شيعيان على (ع) كو شكنجوں اور قيد خانوں كى اذيتوں ميں مبتلا كيا جا رہا تھا اپ اسوقت بھى اركان حكومت اموى كى نظر ميں باعث صد احترام تھيں اور معاويہ نے جو امير المومنين (ع) سے جنگ كى تھى تو اس ميں بھى اپ نے معاويہ ہى كا ساتھ ديا تھا ،جب اپ حضرات نے يہاں تك ان كى كاركردگى كو ملاحظہ فرما ليا تو اس بات كو بھى ذہن نشين كر ليجئے كہ انھوں نے معاويہ كى جعلى حديثوں كے كار خانے ميں كتنا حصہ ليا ہے_

سعد بن ہشام نے حكيم بن افلح سے عائشه كے گھر جانے كو كہا ، اس نے كہا كہ ہم ان كے يہاں ہر گز نہيں جائيں گے ، ميں نے عائشه كو جب دو گروہوں (حزب علوى اور حزب عثمان ) ميں اختلاف چل رہا تھا تو ان كو مداخلت كرنے سے منع كيا ليكن انھوں نے ميرى بات نہيں مانى اور اپنى ڈگر پر چلتى رہيں(۲۴) يہ جو افلح نے عائشه كے بارے ميں كہا كہ حزب علوى (ع) اور حزب عثمان كے اختلاف ميں مداخلت كي، اس كا مطلب كيا ہے ؟

اپ نے پہلے ديكھا نيز ائندہ ملاحظہ فرمائيں گے كہ عائشه نے ان حالات ميں عثمان كے پارٹى كى خوب تعريف و تمجيد كى اور ان كے حق ميں رسول اسلام(ص) سے جھوٹى حديثوں كو منسوب كر كے بيان كيا تھا _

انھوں نے حزب علوى (ع) كى خدمت ميں يقيناً حديثيں گڑھى ہو نگى ، ان ہى باتوں كى وجہ سے حكيم افلح نے انكو منع كيا ليكن انھوں نے اسكى بات پر كان نہيں دھرا _

عائشه كى ايك حديث

احمد بن حنبل اپنى مسند ميں نعمان بن بشير سے نقل كرتے ہيں :

معاويہ نے مجھے ايك خط ديكر عائشه كے يہاں بھيجا ، ميں نے اس خط كو عائشه كى خدمت ميں پيش كيا تو اپ نے فرمايا ، اے ميرے لال ، ميں نے جو كچھ پيغمبر(ص) اسلام سے سنا ہے اس كو تم سے بيان نہ كروں ؟

___________________

۲۴_مسند احمد ج۶ ص ۵۶ ، تہذيب التہذيب ج۲ ص ۴۴۴

۱۹۵

نعمان نے كہا ، ضرور بيان كيجئے :

عائشه نے كہا ، ايك روز ہم اور حفصہ رسول (ص) كى خدمت ميں بيٹھى ہوئي تھى كہ اپ(ص) نے فرمايا كہ كتنا اچھا ہوتا كہ كوئي بات كرنے والا اجاتا _

عائشه نے كہا اے رسول خدا (ص) ہم اپنے باپ ( ابو بكر ) كو بلا ديں

انحضرت (ص) نے كچھ جواب نہيں ديا

رسول (ص) نے بار ديگر اپنى خواہش بيان كى حفصہ نے كہا ہم اپنے باپ ( عمر )كو بلاديں حضور (ص) خاموش رہے _

اس كے بعد رسول اسلام (ص) نے ايك شخص كو بلايا اور چپكے سے اسكے كان ميں كچھ كہا وہ ادمى چلا گيا ، تھوڑى دير بعد عثمان اگئے ، انحضرت(ص) نے ان سے خوب باتيں كيں ، گفتگو كے درميان ميں نے سنا كہ حضور(ص) يہ فرما رہے ہيں _

اے عثمان ، عنقريب خدا وند متعال تمہارے جسم پر ايك لباس ( خلافت ) پہنانے والا ہے اگر لوگوں نے اس لباس كو تم سے چھيننے كى كوشش كى تو تم اسكو ہر گز نہ اتارنا _

رسول(ص) خدا نے اس فقرے كو تين بار دہرايا

نعمان بن بشير كہتا ہے كہ ميں نے كہا :

اے ام المومنين يہ حديث عثمان كى مخالفت كرتے وقت اور لوگوں كو انكے خلاف بھڑكاتے وقت ياد نہيں رہى تھى _

عائشه نے كہا اے نعمان ميں اسكو ايسا بھول گئي تھى گويا كبھى سنا ہى نہيں تھا(۲۵)

يہ واقعہ اس زمانہ ميں پيش آيا كہ خليفہ وقت معاويہ نے عائشه كو خط لكھا اور نعمان اس كو ليكر گيا اور يہ اس كا منتظر ہے كہ يہ

جواب ديں ايسے وقت ميں رسول (ص) كى ايك حديث عائشه كو ياد ائي ہے اور قاصد سے بيان فرمائي كہ رسول (ص) نے عثمان كے بارے ميں وصيت كى تھى كہ ائندہ كا خليفہ عثمان ہے پھر لباس خلافت كو ہرگز جسم سے نہ اتارنا _

غور طلب بات يہ ہے كہ اس خط سے حديث كا كيا ربط ہے ؟

ايا معاويہ نے اپنے خط ميں ان سے سفارش كى تھى كہ عثمان كا دفاع كريں ؟

__________________

۲۵_مسند احمد ج۶ ص ۱۴۹

۱۹۶

يا يہ كہ جب قاصد امير شام معاويہ كے يہاں پلٹ كر جائے تو انكى حديث كو معاويہ سے بيان كرے ؟

يا كوئي دوسرى بات تھى ؟

ايا ممكن ہے كہ جو عائشه ايك طويل مدت تك عثمان سے جھگڑا كرتى رہيں اور لوگوں كو ان كے خلاف بھڑكاتى رہيں يا اسى قسم كى دوسرى باتيں جو معاويہ كے زمانے ميں پيش ائيں ، اور لوگوں سے بيان كيا تھا اسكى وجہ صرف اتنى ہے كہ معاويہ كے زمانے ميں عائشه ايك كنيز كى طرح زندگى گذار رہى تھيں _

اور جو كچھ جھوٹى حديثيں اپنے باپ يا عمر و طلحہ نيز خاندان كى فضيلت ميں بيان كى تھى اسكى وجہ يہ تھى كہ معاويہ كى حديث گڑھنے والى سياست كو كامياب بنا كر اس كو خوش كرنا تھا اور اس سلسلہ ميں انھوں نے اپنے رشتہ دار اور چاہنے والوں كے فضائل كو نشر كرنے ميں ايڑى چوٹى كا زور بھى لگايا تھا اسى لئے محاورہ بھى ہے كہ جسكو چوٹ لگتى ہے اسى كو درد ہوتا ہے '' ليست الثكلى المستاجرہ ''

ہم نے ان بحثوں ميں نہ كسى كے فضائل كو بڑھا چڑھا كر بيان كيا ہے اور نہ ہى ميرا مقصد كسى كى عيب جوئي كرنا تھا ، بلكہ ہمارا واحد ہدف يہ تھا كہ ان حديثوں كى جانچ پڑتال كى جائے جو رسول اسلام (ص) سے جھوٹ منسوب كر كے بيان كى گئي ہيں جسكو انشاء اللہ اس كتاب كى اخرى بحث ميں ملاحظہ فرمائيں گے _

تحقيق اور نتيجہ

ہم نے اس سے پہلے زندگانى عائشه كى اچھى طرح تحقيق كى تاكہ ان كى سياسى و اجتماعى اور معاشراتى كارناموں كے ساتھ انكے اغراض و مقاصد سامنے اجائيں ، اب اس كے پس منظر ميں ان چيزوں كو پيش كروں گا كہ وہ كون سى چيز باعث بنى جنھوں نے حديث نقل كرنے پر بر انگيختہ كيا تھا _

اگر اس كا خلاصہ كيا جائے تو يہ ہو گا كہ ، عائشه ايك تيز طرار عورت كے ساتھ ساتھ ايك بہترين خطيبہ تھيں جس كے ذريعہ عالم و جاہل سب كے افكار و قلوب كو جذب كر ليتى تھيں ، ايك بہترين سياستدان تھيں جس كى وجہ سے لشكر عظيم كو كنٹرول كر ليتى تھيں ، ان كا عوام ميں اتنا اثر و رسوخ تھا كہ ايك اشارے پر لوگوں كو خليفہ وقت كے خلاف ايسا بھڑكا ديا كہ انھوں نے اسكى بساط حكومت كو پلٹ ديا _

۱۹۷

عائشه جاہ و حشم كى بھوكى عورت كا نام ہے جس كو حاصل كرنے ميں كسى چيز سے خوف نہيں كھايا تھا ، بلكہ كسى نہ كسى طرح اس كو حاصل كر كے رہيں ، انھوں نے اپنے چاہنے والوں كے ساتھ اتنا مہربانى كى كہ حد سے اگے بڑھ گئيں _

اپنے خاندان اور اپنے مخالفوں كى نسبت اتنى كينہ توز تھيں كہ ان كے دشمنوں سے مرنے مارنے پر اجاتى تھيں ، المختصر يہ كہ ايسى عورت تاريخ ميں ڈھونڈھنے سے بھى نہ ملے گى ، اگر كوئي بات اپنے خاندان يا چاہنے والوں كے حق ميں كہہ دى تو وہ سب كے زبان پر چڑھ جاتى تھى ، اور تاريخ كے صفحات ميں زندہ جاويد ہو جاتى تھى تاكہ لوگوں كے لئے مشعل راہ بن جائے اور انے والى پيڑياں انكى معرفت و شہرت سے پہچان ليں _

اگر كوئي بات اپنے دشمنوں كو شكست دينے كے لئے بيان كر دى تو تاريخ نے ہميشہ كےلئے اپنے دامن ميں جگہ ديدى ، يا يوں كہوں كہ اگر اس نے كسى كى حمايت يا مخالفت ميں كوئي بات كسى سے كہہ ڈالى تو يہ بات مسافروں و كاردانوں كے ذريعہ ايك دوسرے تك پہونچ جاتى تھى اور لوگ اس كو حديث سمجھ كر ايك شہر سے دوسرے شہر تحفہ سمجھ كرلے جاتے تھے اخر ميں يہ باتيں كتابوں ميں منتقل ہو گئيں اور انے والى نسلوں نے ان باتوں كو حديث كا نام دے ديا _

يہ تمام باتيں خود ام المومنين عائشه كى عظمت و منزلت كى بڑى دليليں ہيں ، ہم نے جب عائشه كے چہرے كو تاريخ كى حقيقت ميں ديكھا اور جن لوگوں نے ان كى ذات كو عظمت كے سانچے ميں ڈھال كے پيش كيا تو ان دونوں ميں بہت

۱۹۸

فرق پايا ، ليكن جن لوگوں نے ان كى عظمتوں كا گيت گايا ہے ان سے ميرى ايك درخواست ہے كہ عائشه كے بطن سے ايك رسول (ص) كا بيٹا دكھا ديجئے ، البتہ يہ دونوں فضيلتيں حقيقت سے كوسوں دور ہيں _

ہميں صدر اسلام كى شخصيتوں كى اپنى طرف سے تعريف نہيں كرنى چاہيئے ، كيونكہ ايسى صورت ميں مدح و ثنا ء ايك خيالى ہو كر رہ جائيگى جسكى كوئي حيثيت نہيں ہے ، ہمارى پيش كى ہوئي سارى باتيں حقيقت سے تعلق ركھتى ہيں _

زندگانى عائشه كى تحقيق كا مقصد ہم نے بارہا كہا اور اخر ميں پھر كہتا ہوں كہ ام المومنين عائشه نے اپنے مقاصد تك پہونچنے كے لئے دو زبردست چيزوں كا سہارا ليا تھا _

۱_ عائشه نے اپنى پورى زندگى ميں زوجہء رسول (ص) نيز ام المومنين كے لقب كا سہارا ليا اور اس سے اپنى طرف لوگوں كى توجہ مبذول كروائي ، اور اس موثر حربے كو استعمال كر كے اپنے مخالفوں كى زد و كوب كى اور اپنے چاہنے والوں كى ہمت افزائي كى _

۲_ وقت كى نزاكت كو ديكھتے ہوئے پيغمبر(ص) اسلام سے ان كى حديث نقل كى ، يا اپنى قابليت جھاڑنے كے لئے زوجيت كا فائدہ اٹھا كر جھوٹى حديثيں گڑھيں ، عائشه نے جن جگہوں پر رسول (ص) كى بيوى ہونے كے ناطے فائدہ اٹھايا ہے اس كو اس مختصر بحث ميں بيان كرنا بہت مشكل ہے ، ليكن نمونے كے طور پر دو تين حديثيں پيش كر رہا ہوں _

۱_ مسلم اپنى صحيح ميں نقل كرتے ہيں :

عائشه فرماتى ہيں : جب رسول خدا (ص) بستر مرگ پر تھے تو انھوں نے ہم سے فرمايا:

اے عائشه _ اپنے باپ ( ابو بكر )اور بھائي كو بلا لائو تاكہ ايك وصيت لكھدوں كيونكہ مجھے ڈر ہے كہ كہيں لوگ ارزو نہ كرنے لگيں اور كہنے والے يہ نہ كہنے لگيں كہ ميں خلافت كا زيادہ مستحق تھا ، درانحاليكہ ، خدا اور مومنين ابو بكر ہى كو چاہتے ہيں _

۲_ صحيح بخارى ميں ہے كہ : عائشه فرماتى ہيں ، جب رسول خدا (ص) پر مرض نے شدت پكڑلى تو عبد الرحمن بن ابو بكر سے فرمايا : ہڈى يا كوئي تختى لے ائو تاكہ ميں ابو بكر كے حق ميں نوشتہ لكھدوں تاكہ ميرے بعد كوئي اس ( ابوبكر ) سے خلافت كے

۱۹۹

سلسلے ميں جھگڑا كرنے نہ لگے ، عبد الرحمن ادھر تختى وغيرہ لينے گئے تو پيغمبر اسلام (ص) نے فرمايا :اے ابو بكر خدا اور مومنين تمھارے سلسلہ ميں تھوڑا سا بھى اختلاف نہيں ركھتے ہيں _

اپ نے ديكھا كہ عائشه نے ان دو حديثوں سے اپنے باپ كى حكومت و خلافت كو رسول (ص) كى بيمارى سے ملتے جلتے واقعات سے كس طرح ثابت كر ديا اور اپنے باپ كى خلافت كے لئے دو دليليں پيش كر ديں _

۳_ جب عائشه كے روابط عثمان سے مسالمت اميز تھے تو ان كى خوب مدد كى اور ان كى حكومت كى حمايت ميں بولتى رہيں ، اور زوجيت رسول (ص) سے فائدہ اٹھا تے ہوئے عثمان كے حق ميں ايك حديث بھى گڑھ ڈالى تھى ، جس كو صحيح مسلم نے عائشه سے نقل كيا ہے كہ :

ميں رسول (ص) كے ساتھ ايك چادر ميں ارام كر رہى تھى كہ ابو بكر اگئے ، پيغمبر(ص) اسلام نے انكو اندر بلا ليا ، پھر تھوڑى دير بعد عمر بن خطاب چلے آئے رسول(ص) اسلام نے انكو بھى اسى حالت ميں بلاليا ; ليكن جب حضرت عثمان آئے تو رسول خدا (ص) چادر سے باہر اگئے پھر عثمان كو گھر ميں بلايا ، جب عثمان چلے گئے تو ميں نے رسول(ص) اسلام سے سوال كيا كہ يا رسول(ص) اللہ جب ابو بكر اور عمر آئے تو اپ چادر كے اندر ليٹے رہے ليكن جب عثمان آئے تو اپنے كو چادر سے باہر كر ليا ، اس ميں كيا راز ہے ، پيغمبر(ص) اسلام نے فرمايا : چونكہ عثمان ايك شرم و حيا كا پيكر ہے لہذا ميں ڈرا كہ اگر اسى حالت ميں عثمان سے ملاقات كر ليتا تو وہ شدت شرم سے مجھ سے بات نہ كر پاتا _

۴_ صحيح مسلم نے اسى حديث كو دوسرى طرح سے عائشه كا يوں بيان نقل كيا ہے:

ايك دن پيغمبر(ص) اسلام ميرے ساتھ چادر اوڑھے ليٹے ہوئے تھے ، جيسے ہى عثمان آئے تو رسول (ص) نے مجھ سے كہا اے عائشه تم اپنا لباس وغيرہ ٹھيك كر لو ، ميں نے كہا ، يا رسول(ص) اللہ ، ابو بكر اور عمر كے انے پر اپ نے مجھ سے لباس ٹھيك كرنے كو نہيں كہا ليكن جب عثمان آئے تو اپنے ہوش و حواس كو كھو ديا نيز ان سے ملاقات كرنے كے لئے اپنے جسم پر لباس بھى پہن ليا _

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349