خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96757 / ڈاؤنلوڈ: 4144
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

آپ کی شان میں نازل ہونے والی آیات

آپ کی فضیلت اورعظیم الشان منزلت کے بارے میں جوآیات نازل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں بعض آیات پیش کرتے ہیں :

۱۔اللہ کا ارشاد ہے :''انماانت منذرولکل قوم هاد'' ۔(۱)

''آپ کہہ دیجئے کہ میں صرف ڈرانے والا ہوں اور ہر قوم کے لئے ایک ہادی اور رہبر ہے ''۔

طبری نے ابن عباس سے نقل کیا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہو ئی تو نبی نے اپنا دست مبارک اپنے سینہ پر رکھ کر فرمایا:''اناالمنذرولکل قوم هاد '' ،اور آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے علی کے کندھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا:''انت الہاد بک یھتد المھتدون بعد''۔(۲)

''آپ ہا دی ہیں اور میرے بعد ہدایت پانے والے تجھ سے ہدایت پا ئیں گے ''۔

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :''وتعیهااذن واعیة'' ۔(۳)

''تاکہ اسے تمہارے لئے نصیحت بنائیںاور محفوظ رکھنے والے کان سُن لیں''۔

امیر المو منین حضرت علی اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ مجھ سے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا:

''سألتُ رَبِّیْ اَن یَجْعَلَهَااذُنُکَ یاعلیُّ،فماسمعتُ مِنْ رسُولِ اللّٰهِ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم شَیْئاًفنَسِیْتُهُ '' ۔(۴)

''میں نے پروردگار عالم سے دعا کی کہ وہ کان تمہارا ہے لہٰذا میں نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے جو کچھ سنا ہے اسے کبھی نہیں بھولا''۔

____________________

۱۔سورئہ رعد، آیت ۷۔

۲۔تفسیر طبری ،جلد ۱۳،صفحہ ۷۲۔اور تفسیر رازی میں بھی تقریباً یہی مطلب درج ہے ۔کنز العمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۵۷ ۔ تفسیر حقائق، صفحہ ۴۲۔مستدرک حاکم، جلد ۳، صفحہ ۱۲۹۔

۳۔سورئہ حاقہ، آیت ۱۲۔

۴۔کنزالعمال ،جلد ۶،صفحہ ۱۰۸۔اسباب النزول ِ واحدی، صفحہ ۳۲۹۔تفسیر طبری، جلد ۲۹،صفحہ ۳۵۔تفسیر کشاف، جلد ۴، صفحہ ۶۰۔در منثور ،جلد ۸،صفحہ ۲۶۷۔

۴۱

۳۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( الَّذِینَ یُنفِقُونَ َمْوَالَهُمْ بِاللَّیْلِ وَالنَّهَار ِسِرًّا وَعَلاَنِیَةً فَلَهُمْ َأجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلاَخَوْف عَلَیْهِمْ وَلاَهُمْ یَحْزَنُونَ ) ۔(۱)

''جو لوگ اپنے اموال کو راہ خدا میں رات میں ،دن میں خا مو شی سے اور علی الاعلان خرچ کرتے ہیں اُن کے لئے پیش پروردگار اجر بھی ہے اور انھیں نہ کو ئی خوف ہو گا اور نہ حزن و ملال ''۔

امام کے پاس چار درہم تھے جن میں سے آپ نے ایک درہم رات میں خرچ کیا ،ایک درہم دن میں ،ایک درہم مخفی طور پر اور ایک درہم علی الاعلان خرچ کیا ۔تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے آپ سے فرمایا : آپ نے ایساکیوں کیا ہے ؟مولائے کا ئنات نے جواب دیا:میں وعدہ ٔ پروردگار کامستحق بنناچاہتا ہوں اسی لئے میں نے ایسا کیا ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی۔(۲)

۴۔خدا وند عالم کا ارشاد ہے: ( إنَّ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ أُوْلَئِکَ هُمْ خَیْرُ الْبَرِیَّةِ ) ۔(۳)

''اور بیشک جو لوگ ایمان لائے ہیںاور انھوں نے نیک اعمال کئے ہیںوہ بہترین خلائق ہیں ''۔

ابن عساکر نے جابر بن عبد اللہ سے روایت کی ہے : ہم نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ علی وہاں پر تشریف لائے تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:''وِالَّذِیْ نَفْسِيْ بِیَدِهِ اِنَّ هٰذَا وَشِیْعَتَهُ هُمُ الْفَائِزُوْنَ یَوْمَ الْقِیَامَةِ '' ۔''خدا کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے بیشک یہ اور ان کے شیعہ قیامت کے دن کامیاب ہیں ''۔

اسی موقع پر یہ آیۂ کریمہ نازل ہو ئی ،اس کے بعد سے جب بھی مو لائے کا ئنات اصحاب کے پاس آتے تھے تو نبی کے یہ اصحاب کہا کرتے تھے :خیر البریہ آئے ہیں۔(۴)

۵۔خداوند عالم کا فرمان ہے :( فَاسْأَلُوا َهْلَ الذِّکْرِ ِإنْ کُنْتُمْ لاَتَعْلَمُونَ ) ۔(۵)

____________________

۱۔سورئہ بقرہ ،آیت ۲۷۴۔

۲۔اسد الغابہ، جلد ۴،صفحہ ۲۵،صواعق المحرقہ، صفحہ ۷۸۔اسباب النزول مؤلف واحدی، صفحہ ۶۴۔

۳۔سورئہ بینہ، آیت ۷۔

۴۔در المنثور ''اسی آیت کی تفسیر میں ''جلد ۸ ،صفحہ ۳۸۹۔تفسیر طبری، جلد ۳۰،صفحہ ۱۷۔صواعق المحرقہ ،صفحہ ۹۶۔

۵۔سورئہ نحل، آیت ۴۳۔

۴۲

''اگر تم نہیں جانتے ہو تو جاننے والوں سے دریافت کرو''۔

طبری نے جابر جعفی سے نقل کیا ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو حضرت علی نے فرمایا :''ہم اہل ذکر ہیں ''۔(۱)

۶۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( یَاَیُّهَاالرَّسُولُ بَلِّغْ مَا أُنزِلَ ِلَیْکَ مِنْ رَبِّکَ وَإنْ لَمْ تَفْعَلْ فَمَابَلَّغْتَ رِسَالَتَهُ وَاﷲُ یَعْصِمُکَ مِنْ النَّاسِ ِإنَّ اﷲَ لاَیَهْدِ الْقَوْمَ الْکَافِرِین ) ۔(۲)

''اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پہنچا دیں جوآپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو گو یا اس کے پیغام کو نہیں پہنچایا اور خدا آپ کو لوگوں کے شر سے محفوظ رکھے گا بیشک اللہ کافروں کی ہدایت نہیں کرتا ہے ''۔

جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم حجة الوداع سے واپس تشریف لا رہے تھے تو غدیر خم کے میدان میں یہ آیت اس وقت نازل ہوئی جب آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنے بعد حضرت علی کواپنا جانشین معین کرنے کا حکم دیا گیا اس وقت رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے حضرت علی کو اپنے بعد اس امت کا خلیفہ و جا نشین معین فرمایااور آپ نے اپنا مشہور قول ارشاد فرمایا :''من کنت مولاه فعلی مولاه ،اللّهم وال من والاه،وعادِمَن عاداه، وانصرمَن نصره،واخذُلْ مَنْ خَذَلَهُ'

'' جس کا میں مو لا ہوں اس کے یہ علی بھی مو لا ہیںخدا یا جو اسے دو ست رکھے تو اسے دوست رکھ اورجو اس سے دشمنی کرے اسے دشمن رکھ اور جو اس کی مدد کرے اس کی مدد کر جو اسے چھوڑ دے اسے ذلیل و رسوا کر '' ۔

عمر نے کھڑے ہو کر کہا :مبارک ہو اے علی بن ابی طالب آپ آج میرے اورہر مومن اور مومنہ کے مولا ہوگئے ہیں ' '۔(۳)

۷۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( الْیَوْمَ أکْمَلْتُ لَکُمْ دِینَکُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِ وَ رَضِیتُ لَکُمْ الْإِسْلاَمَ دِینًا ) ۔(۴)

____________________

۱۔تفسیر طبری ،جلد ۸ ،صفحہ ۱۴۵۔ ۲۔سورئہ مائدہ ،آیت ۶۷۔

۳۔ا سباب النزول، صفحہ ۱۵۰۔تاریخ بغداد، جلد ۸،صفحہ ۲۹۰۔تفسیر رازی، جلد ۴،صفحہ ۴۰۱۔در منثور، جلد ۶،صفحہ ۱۱۷۔

۴۔سورئہ مائدہ ،آیت ۳

۴۳

''آج میں نے تمہارے لئے دین کو کا مل کردیاہے اوراپنی نعمتوںکو تمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندیدہ بنا دیا ہے''۔

یہ آیت ۱۸ ذی الحجہ ۱۰ ھ کواس وقت نازل ہو ئی جب رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے بعد کیلئے حضرت علی کو خلیفہ معین فرمایااور آنحضرت نے اس آیت کے نازل ہونے کے بعد فرمایا :''اللّٰه اکبر علیٰ اِکمالِ الدِّین،وَاِتْمَامِ النِّعْمَةِ،ورضِیَ الرَّبِّ بِرِسَالَتِ وَالْوِلایَةِ لِعَلِى ْبنِ اَبِیْ طَالِب'' ۔(۱)

''اللہ سب سے بڑا ہے دین کا مل ہو گیا ،نعمتیں تمام ہو گئیں ،اور پروردگار میری رسالت اور علی بن ابی طالب کی ولایت سے راضی ہو گیا ''۔

جلیل القدر صحابی جناب ابوذر سے روایت ہے :میں رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم خدا کے ساتھ مسجد میں نمازظہر پڑھ رہا تھا تو ایک سائل نے مسجد میں آکر سوال کیا لیکن کسی نے اس کو کچھ نہیں دیا تو سائل نے آسمان کی طرف ہاتھ اٹھا کر کہا :خدا یا گواہ رہنا کہ میں نے مسجد رسول میں آکر سوال کیا لیکن مجھے کسی نے کچھ نہیں دیا ، حضرت علی نے رکوع کی حالت میں اپنے داہنے ہاتھ کی انگلی سے انگوٹھی اتارنے کا اشارہ کیاسائل نے آگے بڑھ کر نبی کے سامنے ہاتھ سے انگوٹھی نکال لی ،اس وقت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اسلام نے فرمایا :خدایا !میرے بھا ئی مو سیٰ نے تجھ سے یوں سوال کیا :( رَبِّ اشْرَحْ لِى صَدْرِ وَیَسِّرْلى أ َمْرِى وَاحْلُلْ عُقْدَةً مِنْ لِسَانِی یَفْقَهُوا قَوْلِى وَاجْعَلْ لِى وَزِیرًامِنْ أَهْلِ هَارُونَ َأخى اشْدُدْ بِهِ َزْرِى وَأَشْرِکْهُ فِى َمْرِی ) ۔(۲)

''خدایا ! میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ، اور میری زبان کی گرہ کو کھول دے تاکہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں ،اورمیرے اہل میںسے میرا وزیر قرار دے ،ہارون کو جو میرا بھا ئی بھی ہے اس سے میری پشت کو مضبوط کردے اسے میرے کام میں شریک کردے ''تونے قرآن ناطق میں نازل کیا: ( سَنَشُدُّ عَضُدَکَ بِأَخِیکَ وَنَجْعَلُ لَکُمَا سُلْطَانًا ) ۔(۳)

'' ہم تمہارے بازئووں کو تمہارے بھا ئی سے مضبوط کر دیں گے ،اور تمہارے لئے ایسا غلبہ قراردیں

____________________

۱۔دلائل الصدق ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۲۔

۲۔سورئہ طہ، آیت ۲۵۔۳۲۔

۳۔سورئہ قصص، آیت ۳۵۔

۴۴

گے کہ یہ لوگ تم تک پہنچ ہی نہ سکیں گے ''۔

''خدایا میں تیرا نبی محمد اور تیرا منتخب کردہ ہوں میرے سینہ کو کشادہ کردے ،میرے کام کو آسان کردے ،میرے اہل میںسے علی کو میرا وزیر قرار دے اور ان کے ذریعہ میری پشت کو مضبوط کردے ' ' ۔

جناب ابوذر کا کہنا ہے :خدا کی قسم یہ کلمات ابھی ختم نہیں ہونے پائے تھے کہ جبرئیل خدا کا یہ پیغام لیکر نازل ہوئے ،اے رسول پڑھئے: ( اِنَّمَا وَلِیُّکُمُ اللّٰهُ وَرَسُوْلُهُ ) (۱)

اس روایت نے عام ولایت کو اللہ ،رسول اسلام اور امیر المو منین میں محصور کر دیا ہے ،آیت میں صیغہ ٔ جمع تعظیم و تکریم کے لئے آیا ہے ،جو جملۂ اسمیہ کی طرف مضاف ہوا ہے اور اس کولفظ اِنَّما کے ذریعہ محصور کردیا ہے ،حالانکہ ان کے لئے عمومی ولایت کی تا کید کی گئی ہے اور حسان بن ثابت نے اس آیت کے امام کی شان میں نازل ہونے کو یوں نظم کیا ہے :

مَن ذَابِخَاتِمِهِ تَصَدَّقَ رَاکِعاً

وَأَسَرَّهَافِىْ نَفْسِهِ اِسْرارا(۲)

''علی اس ذات کا نام ہے جس نے حالت رکوع میں زکات دی اور یہ صدقہ آپ نے نہایت مخفیانہ انداز میں دیا''۔

اہل بیت کے سلسلہ میں نازل ہونے والی آیات

قرآن کریم میں اہل بیت کی شان میں متعدد آیات نازل ہو ئی ہیں جن میں ان کے سید و آقا امیر المو منین بھی شامل ہیں اُن میں سے بعض آیات یہ ہیں :

۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( ذَلِکَ الَّذِی یُبَشِّرُاﷲُ عِبَادَهُ الَّذِینَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ قُلْ لاَأَسْأَلُکُمْ عَلَیْهِ أَجْرًاِلاَّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی وَمَنْ یَقْتَرِفْ حَسَنَةً نَزِدْ لَهُ فِیهَاحُسْنًاِإنَّ اﷲَ غَفُورشَکُور ) ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر رازی ،جلد ۱۲،صفحہ ۲۶،نورالابصار ،صفحہ ۱۷۰۔تفسیر طبری، جلد ۶،صفحہ ۱۸۶۔

۲۔در منثور، جلد ۳،صفحہ ۱۰۶۔کشاف، جلد ۱،صفحہ ۶۹۲۔ذخائر العقبیٰ ،صفحہ ۱۰۲۔مجمع الزوائد ،جلد ۷،صفحہ ۱۷۔کنز العمال، جلد ۷صفحہ ۳۰۵۔

۳۔سورئہ شوریٰ آیت ۲۳۔

۴۵

''یہی وہ فضل عظیم ہے جس کی بشارت پروردگار اپنے بندوں کو دیتا ہے جنھوں نے ایمان اختیار کیا ہے اور نیک اعمال کئے ہیں ،تو آپ کہہ دیجئے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت کا کو ئی اجر نہیں چا ہتا علاوہ اس کے کہ میرے اقرباء سے محبت کرو اور جو شخص بھی کو ئی نیکی حاصل کرے گا ہم اس کی نیکی میں اضافہ کر دیں گے کہ بیشک اللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور قدر داں ہے ''۔

تمام مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اللہ نے اپنے بندوں پر جن اہل بیت کی محبت واجب کی ہے ان سے مراد علی ،فاطمہ ،حسن اور حسین علیہم السلام ہیں ،اور آیت میں اقتراف الحسنہ سے مراد اِن ہی کی محبت اور ولایت ہے اور اس سلسلہ میں یہاں پردوسری روایات بھی بیان کریں گے جنھوں نے اس محبت و مؤدت کی وجہ بیان کی ہے :

ابن عباس سے مروی ہے :جب یہ آیت نازل ہو ئی تو سوال کیا گیا :یارسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ کے وہ قرابتدارکو ن ہیں جن کی آپ نے محبت ہم پر واجب قرار دی ہے؟

آنحضرت نے فرمایا :''علی ،فاطمہ اور ان کے دونوں بیٹے ''۔(۱)

جابر بن عبد اللہ سے روایت ہے :ایک اعرابی نے نبی کی خدمت میں آکر عرض کیا :مجھے مسلمان بنا دیجئے تو آپ نے فرمایا :'' تَشْهَدُ اَنْ لَااِلٰهَ اِلَّااللّٰهُ وَحْدَهُ لَاشَرِیْکَ لَهُ،وَاَنَّ مُحَمَّداًعَبْدُهُ وَرَسُوْلُهُ'' ''تم خدا کی وحدانیت اور محمد کی رسالت کی گو اہی دو میں قرابتداروں کی محبت کے علاوہ اور کچھ نہیں چا ہتا ''۔

اعرابی نے عرض کیا :مجھ سے اس کی اجرت طلب کر لیجئے ؟رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :''ِلا َّالْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبَی'' ۔

اعرابی نے کہا :میرے قرابتدار یا آپ کے قرابتدار ؟فرمایا :'' میرے قرابتدار ''۔اعرابی نے کہا :

میں آپ کے دست مبارک پر بیعت کرتا ہوں پس جو آپ اور آپ کے قرابتداروں سے محبت نہ کرے اس

____________________

۱۔مجمع الزوائد، جلد ۷، صفحہ ۱۰۳۔ذخائر العقبیٰ، صفحہ ۲۵۔نور الابصار ،صفحہ ۱۰۱۔در المنثور، جلد ۷،صفحہ ۳۴۸۔

۴۶

پر اللہ کی لعنت ہے ۔۔۔نبی نے فوراً فرمایا :''آمین ''۔(۱)

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے :(فَمَنْ حَاجَّکَ فِیهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَائَکَ مِنْ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْانَدْعُ أَبْنَائَنَاوَأَبْنَائَکُمْ وَنِسَائَنَاوَنِسَائَکُمْ وَأَنْفُسَنَاوَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَةَ اﷲِ عَلَی الْکَاذِبِینَ(۲)

''پیغمبر علم آجانے کے بعد جو لوگ تم سے کٹ حجتی کریں ان سے کہہ دیجئے کہ آئو ہم لوگ اپنے اپنے فرزند،اپنی اپنی عورتوں اور اپنے اپنے نفسوں کو بلائیں اور پھر خدا کی بارگاہ میں دعا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت قرار دیں ''۔

مفسرین قرآن اور راویان حدیث کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیہ ٔ کریمہ اہل بیت ِ نبی کی شان میں نازل ہو ئی ہے ،آیت میں ابنائ(بیٹوں) سے مراد امام حسن اور امام حسین ہیںجوسبط رحمت اور

امام ہدایت ہیں ،نساء ''عورتوں '' سے مراد فاطمہ زہرا دختر رسول سیدئہ نساء العالمین ہیں اور انفسنا سے مراد سید عترت امام امیر المو منین ہیں ۔(۳)

۳۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( هَلْ اَتیٰ عَلَی الاِنْسَانِ ) کامل سورہ ۔

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ یہ سورہ اہل بیت ِنبوت کی شان میں نازل ہوا ہے۔(۴)

۴۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ۔(۵)

____________________

۱۔حلیة الاولیائ، جلد ۳،صفحہ ۱۰۲۔

۲۔سورئہ آل عمران، آیت ۶۱۔

۳۔تفسیر رازی، جلد ۲،صفحہ ۶۹۹۔تفسیر بیضاوی ،صفحہ ۷۶۔تفسیر کشّاف، جلد ۱،صفحہ۴۹۔تفسیر روح البیان، جلد ۱،صفحہ ۴۵۷۔تفسیر جلالین، جلد ۱،صفحہ ۳۵۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۴۷۔صحیح ترمذی ،جلد ۲،صفحہ ۱۶۶۔سنن بہیقی ،جلد ۷،صفحہ ۶۳۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۱،صفحہ ۱۸۵۔مصابیح السنّة، بغوی، جلد ۲،صفحہ ۲۰۱۔سیر اعلام النبلائ، جلد ۳،صفحہ ۱۹۳۔

۴۔تفسیر رازی، جلد ۱۰، صفحہ ۳۴۳۔اسباب النزول ، واحدی صفحہ۱۳۳۔ روح البیان ،جلد ۶،صفحہ ۵۴۶۔ینابیع المؤدة ،جلد ۱،صفحہ ۹۳۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۲۲۷۔امتاع الاسماع ،صفحہ ۵۰۲۔

۵۔سورئہ احزاب، آیت ۳۳۔

۴۷

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''۔

مفسرین اور راویوں کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت پانچوں اصحاب کساء کی شان میں نازل ہو ئی ہے(۱) ان میں سرکار دو عالم رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ،ان کے جا نشین امام امیر المو منین ،جگر گوشۂ رسول سیدئہ نسا ء العالمین جن کے راضی ہونے سے خدا راضی ہوتا ہے اور جن کے غضب کرنے سے خدا غضب کرتا ہے ، ان کے دونوں پھول حسن و حسین جوانان جنت کے سردار ہیں ،اور اس فضیلت میں نہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے خاندان میں سے اور نہ ہی بڑے بڑے اصحاب کے خاندان میں سے ان کا کو ئی شریک ہے۔ اس بات کی صحاح کی کچھ روایات بھی تا ئید کر تی ہیںجن میں سے کچھ روایات مندرجہ ذیل ہیں :

۱۔ام المو منین ام سلمہ کہتی ہیں :یہ آیت میرے گھر میں نازل ہو ئی جبکہ اس میں فاطمہ ،حسن، حسین اور علی علیہم السلام مو جود تھے ،آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اُن پر کساء یما نی اڑھاکر فرمایا :اللَّھُمَّ اَھْلُ بَیْتِیْ فَاذْھِبْ عنْھمْ الرِّجْسَ وَطَھِّرْھُمْ تَطْہِیرًا''''خدایا !یہ میرے اہل بیت ہیں ان سے رجس کو دور رکھ اور ان کو اس طرح پاک رکھ جو پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''آپ نے اس جملہ کی اپنی زبان مبارک سے کئی مرتبہ تکرار فر ما ئی ام سلمہ سنتی اور دیکھتی رہیں،ام سلمہ نے عرض کیا :یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کیا میں بھی آپ کے ساتھ چادر میں آسکتی ہوں ؟اور آپ نے چادر میں داخل ہونے کیلئے چا در اٹھائی تو رسول نے چادر کھینچ لی اور فر مایا : ''اِنَّکِ عَلیٰ خَیْر''''تم خیر پر ہو ''۔(۲)

۲۔ابن عباس سے مروی ہے کہ میں نے رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو سات مہینے تک ہر نماز کے وقت پانچ مرتبہ حضرت علی بن ابی طالب کے دروازے پر آکر یہ فرماتے سناہے :''السَّلامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَةُ اللّٰهِ وَ

____________________

۱۔تفسیررازی، جلد ۶، صفحہ ۷۸۳۔صحیح مسلم، جلد ۲،صفحہ ۳۳۱۔الخصائص الکبریٰ ،جلد ۲،صفحہ ۲۶۴۔ریاض النضرہ ،جلد ۲،صفحہ ۱۸۸۔تفسیر ابن جریر، جلد ۲۲،صفحہ ۵۔مسند احمد بن حنبل، جلد ۴،صفحہ ۱۰۷۔سنن بیہقی ،جلد ۲،صفحہ ۱۵۰۔مشکل الآثار ،جلد ۱،صفحہ ۳۳۴۔خصائص النسائی صفحہ ۳۳۔

یہ بات شایان ذکر ہے کہ ابن جریر نے اپنی تفسیر میں۱۵،روایات میں مختلف اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے کہ یہ آیت اہل بیت علیہم السلام کی شان میں نازل ہو ئی ہے ۔

۲۔مستدرک حاکم، جلد ۲،صفحہ ۴۱۶۔اسدالغابہ، جلد ۵،صفحہ ۵۲۱۔

۴۸

بَرَکَاتُهُ اَهْلَ الْبَیْتِ: ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَیُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ، الصَّلَاةُ یَرْحَمُکُمُ اللّٰهُ''

'' اے اہل بیت تم پر سلام اور اللہ کی رحمت وبرکت ہو !''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے''،نماز کا وقت ہے اللہ تم پر رحم کرے''آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہر روز پانچ مرتبہ یہی فرماتے۔(۱)

۳۔ابو برزہ سے روایت ہے :میں نے سات مہینے تک رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ہمراہ نماز ادا کی ہے جب بھی آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بیت الشرف سے باہر تشریف لاتے تو حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہاکے دروازے پر جاتے اور فرماتے :''السَّلامُ عَلَیْکُمْ : ( إنَّمَایُرِیدُ اﷲُ لِیُذْهِبَ عَنْکُمْ الرِّجسَ أَهْلَ الْبَیْتِ وَ یُطَهِّرَکُمْ تَطْهِیرًا ) ۔(۲)

''تم پر سلام ہو:''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے اے اہل بیت کہ تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے ''

بیشک رسول اللہ کے اس فرمان کا مطلب امت کی ہدایت اور اُن اہل بیت کے اتباع کوواجب قرار دینا ہے جو امت کو ان کی دنیوی اور اُخروی زندگی میں اُ ن کے راستہ میں نفع پہنچانے کیلئے ان کی ہدایت کرتے ہیں۔

امام اور نیک اصحاب کے بارے میں نازل ہو نے والی آیات

قرآن کریم کی کچھ آیات امام اور اسلام کے کچھ بزرگ افراد اور نیک و صالح اصحاب کے سلسلہ میں نازل ہو ئی ہیں ،جن میں سے بعض آیات یہ ہیں :

۱۔خداوند عالم کا ارشاد ہے: ( وَعَلَی الْأَعْرَافِ رِجَال یَعْرِفُونَ کُلًّابِسِیمَاهُم ) ۔(۳)

''اور اعراف پر کچھ لوگ ہوں گے جو سب کو ان کی نشانیوں سے پہچان لیں گے ''۔

____________________

۱۔در منثور ،جلد ۵،صفحہ ۱۱۹۔

۲۔ذخائر عقبیٰ ،صفحہ ۲۴۔

۳۔سورئہ اعراف، آیت ۴۶۔

۴۹

ابن عباس سے روایت ہے :اعراف صراط کی وہ بلند جگہ ہے جس پر عباس ،حمزہ ،علی بن ابی طالب اور جعفر طیار ذو الجناحین کھڑے ہوں گے جو اپنے محبوں کو ان کے چہروں کی نورانیت اور اپنے دشمنوں کو اُن کے چہروں کی تاریکی کی بنا پر پہچان لیں گے ۔(۱)

۲۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( مِنْ الْمُؤْمِنِینَ رِجَال صَدَقُوامَا عَاهَدُوا اﷲَ عَلَیْهِ فَمِنْهُمْ مَنْ قَضَی نَحْبَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ یَنْتَظِرُوَمَابَدَّلُوا تَبْدِیلًا ) ۔(۲)

''مو منین میں ایسے بھی مرد میدان ہیں جنھوں نے اللہ سے کئے وعدہ کو سچ کر دکھایا ہے ان میں بعض اپنا وقت پورا کر چکے ہیں اور بعض اپنے وقت کا انتظار کر رہے ہیں اور اُن لوگوں نے اپنی بات میں کو ئی تبدیلی نہیں پیدا کی ہے ''۔

اس آیت کے متعلق امیر المو منین سے اس وقت سوال کیا گیا جب آپ منبر پر تشریف فر ما تھے تو آپ نے فرمایا:''خدایا ! بخش دے یہ آیت میرے ، میرے چچا حمزہ اور میرے چچا زاد بھا ئی عبیدہ بن حارث کے بارے میں نازل ہو ئی ہے ،عبیدہ جنگ بدر کے دن شہید ہوئے ،حمزہ احد کے معرکہ میں شہید کر دئے گئے لیکن میں اس شقی کے انتظار میں ہوں جو میری اس ''ڈاڑھی اور سر مبارک کوخون سے رنگین کر دے گا ''۔(۳)

آپ کے حق اور مخالفین کی مذمت میں نازل ہونے والی آیات

قرآن کریم کی کچھ آیات آپ کے حق اور اُن مخالفین کی مذمت میں نازل ہو ئی ہیں جنھوں نے آپ کے سلسلہ میں مروی روایات اور فضائل سے چشم پوشی کی ہے :

۱۔خداوند عالم کا فرمان ہے: ( أجَعَلْتُمْ سِقَایَةَ الْحَاجِّ وَعِمَارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ کَمَنْ آمَنَ بِاﷲِ وَالْیَوْمِ الْآخِر ) ۔(۴)

''کیا تم نے حاجیوں کے پانی پلانے اور مسجد الحرام کی آبا دی کو اس جیسا سمجھ لیا ہے جو اللہ اورآخرت

____________________

۱۔صواعق محرقہ، صفحہ ۱۰۱۔

۲۔سورئہ احزاب ،آیت ۲۳۔

۳۔صواعق محرقہ ،صفحہ ۸۰۔نورالابصار، صفحہ ۸۰۔

۴۔سورئہ برائت ،آیت ۱۹۔

۵۰

پر ایمان رکھتا ہے اور راہ خدا میں جہاد کرتا ہے ہر گز یہ دونوں اللہ کے نزدیک برابر نہیں ہو سکتے اور اللہ ظالم قوم کی ہدایت نہیں کر تا ہے ''۔

یہ آیت امیر المو منین کی شان میں اس وقت نازل ہو ئی جب عباس اور طلحہ بن شیبہ بڑے فخر کے ساتھ یہ بیان کر رہے تھے ۔طلحہ نے کہا :میں بیت اللہ الحرام کا مالک ہوں ،میرے ہی پاس اس کی کنجی ہے اور میرے ہی پاس اس کے کپڑے ہیں ۔عباس نے کہا :میںاس کا سقّہ اور اس کے امور کے سلسلہ میں قیام کرنے والا ہوں ۔امام نے فرمایا :''ماادری ماتقولون ؟لقدْ صلّیتُ الیٰ القِبْلَةِ سِتَّةَ اَشْھُرقَبْلَ النَّاسِ،واَنا صاحب الجہاد ''۔''مجھے نہیں معلوم تم کیا کہہ رہے ہو ؟میں نے لوگوں سے چھ مہینے پہلے قبلہ کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی ہے اور میں صاحب جہاد ہو ں ''اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی ۔(۱)

۲۔خدا وند عالم کا فرمان ہے: ( أفَمَنْ کَانَ مُؤْمِنًاکَمَنْ کَانَ فَاسِقًالَایَسْتَوُون ) ۔(۲)

''کیا وہ شخص جو صاحب ایمان ہے اس کے مثل ہو جائے گاجو فاسق ہے ہر گز نہیں دونوں برابر نہیں ہو سکتے ''۔

یہ آیت امیر المو منین اور ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہو ئی ہے جب وہ اس نے امام پر فخر و مباہات کرتے ہوئے کہا :میں آپ سے زیادہ خوش بیان ہوں ،بہترین جنگجو ہوں،اور آپ سے بہتر دشمنوں کو پسپا کر نے والا ہوں ''اس وقت امام نے اس سے فرمایا :'' اسکُتْ، فَاِنَّکَ فَاسِق '' ''خاموش رہ بیشک تو فاسق ہے ''،اس وقت دونوں کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی ۔(۳)

____________________

۱۔تفسیر طبری ،جلد ۱۰،صفحہ ۶۸،تفسیر رازی، جلد ۱۶،صفحہ ۱۱۔در منثور،جلد ۴،صفحہ ۱۴۶۔اسباب النزول، مؤلف واحدی ،صفحہ ۱۸۲۔

۲۔سورئہ سجدہ، آیت ۱۸۔

۳۔تفسیر طبری ،جلد ۲۱، صفحہ ۶۸۔اسباب نزول واحدی ،صفحہ ۲۶۳۔تاریخ بغداد، جلد ۱۳،صفحہ ۳۲۱۔ریاض النضرہ ،جلد ۲، صفحہ ۲۰۶۔

۵۱

امام روایات کی رو شنی میں

صحاح اور سنن جیسے مصادر امام کے متعلق نبی سے مروی روایات سے پُر ہیں جو اسلامی عدالت کے قائد و رہبر امام کے فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہیں اور اسلامی معاشرہ میں ان کے مقام کو بلند کرتی ہیں ۔

احادیث کی کثرت اور راویوں کے درمیان اُ ن کی شہرت میں غور کرنے والا پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے اس بلند مقصد سے آگاہ ہو سکتا ہے جو امام کی مر کزیت اور ان کے خلیفہ ہونے کی نشاندہی کرتا ہے تاکہ اس کے ذریعہ نبوت ہمیشہ کے لئے باقی رہے اور وہ امت کی مشکلات حل کر سکے ،اُ ن کے امور کی اصلاح کر سکے اور اُن کو ایسے راستہ پر چلائے جس میں کسی طرح کی گمرا ہی کا امکان نہ ہو نیز امت مسلمہ پوری دنیا کے لئے نمونہ ٔ عمل بن سکے ۔

بہر حال جب ہم امام کی فضیلت کے سلسلہ میں روایات پر نظر ڈالتے ہیں تو ہم یہ دیکھتے ہیں کہ روایات کا ایک گروہ آپ کی ذات سے مخصوص ہے ،روایات کا دوسرا طائفہ اہل بیت کے فضائل پر مشتمل ہے جس میں لازمی طور آپ بھی شامل ہیں چونکہ آپ عترت کے سید و آقا ہیں اور ان کے علم کے منارے ہیں ہم اس سلسلہ میں ذیل میں چند روایات پیش کرتے ہیں :

پہلا دستہ

یہ روایات تعظیم و تکریم کی متعددصورتوں پر مشتمل ہیں اور امام فضائل کا قصیدہ پڑھتی ہوئی نظر آتی ہیں،ملاحظہ کیجئے:

نبی کے نزدیک آپ کا مقام و مرتبہ

امام لوگوں میں سب سے زیادہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے نزدیک تھے ،ان میں سب سے زیادہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے قربت رکھتے تھے ،آپ ابو سبطین ،رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے شہر علم کا دروازہ ،آپ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سب سے زیادہ اخلاص رکھتے تھے ،احادیث کی ایک بڑی تعداد رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے نقل کی گئی ہے جو آپ کی محبت و مودت کی گہرا ئی پر دلالت کرتی ہے اس میں سے کچھ احادیث مندرجہ ذیل ہیں :

۵۲

۱۔امام نفس نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم

آیہ ٔ مباہلہ میں صاف طور پر یہ بات واضح ہے کہ بیشک امام نفس نبی ہیں ،ہم گذشتہ بحثوں میں اس بات کی طرف اشارہ کر چکے ہیں اور یہ بھی بیان کر چکے ہیں کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے خود یہ اعلان فرمادیا تھا کہ امام ان کے نفس ہیں منجملہ ذیل میں چند احادیث ملاحظہ کیجئے :

عثمان کے سوتیلے بھا ئی ولید بن عقبہ نے نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو خبر دی کہ بنی ولیعہ اسلام سے مرتد ہو گیا ہے ،تو نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے غضبناک ہو کر فرمایا :''لَیَنْتَهِیَنَّ بَنُوْوَلِیْعَةَ اَوْلَاَبْعَثَنَّ اِلَیْهِمْ رَجُلاً کَنَفْسِیْ،یَقْتُلُ مَقَاتِلَهُمْ وَیَسْبِیْ ذَرَارِیْهِمْ وَهُوَ هٰذا'' ،''بنو ولیعہ میرے پاس آتے یا میں ان کی طرف اپنے جیسا ایک شخص بھیجوںجو ان کے جنگجوئوں کوقتل کرے اور ان کے اسراء کولے کر آئے اور وہ یہ ہے''،اس کے بعد امام کے کندھے پر اپنا دست مبارک رکھا ۔(۱)

عمرو بن عاص سے روایت ہے :جب میں غزوئہ ذات سلاسل سے واپس آیا تو میں یہ گمان کر تا تھا کہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم مجھ سے سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں ،میں نے عرض کیا :یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کو ن ہے ؟آپ نے چندلوگوں کاتذکرہ کیا۔میں نے عرض کیا: یارسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم علی کہاں ہیں ؟تو رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے اصحاب سے مخاطب ہو کر فرمایا :''اِنَّ ھٰذایَسْأَلُنِْ عن النفسِ''،(۲) ''بیشک یہ میرے نفس کے بارے میں سوال کر رہے ہیں ''۔

۲۔امام نبیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بھا ئی

نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے سامنے اعلان فرمایا کہ امام علی آپ کے بھا ئی ہیں ،اس سلسلہ میں متعدد روایات نقل ہوئی ہیں ہم ان میں سے ذیل میں چند روایات پیش کر تے ہیں :

ترمذی نے ابن عمر سے روایت کی ہے :رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اصحاب کے ما بین صیغۂ اخوّت پڑھا ،تو علی کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نے عرض کیا :یارسو لصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اللہ آپ نے اصحاب کے درمیان صیغۂ اخوت پڑھاہے لیکن میرے اور کسی اور شخص کے درمیان صیغہ ٔ اخوت نہیں پڑھا ہے؟تورسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے

____________________

۱۔مجمع الزوائد، جلد ۷،صفحہ ۱۱۰،ولید اپنی بات کے ذریعہ بنی ولیعہ کی تردید کر رہا تھا اس وقت یہ آیت نازل ہو ئی :(یَاَیُّہَا الَّذِینَ آمَنُوا ِنْ جَائَکُمْ فَاسِق بِنَبٍَ فَتَبَیَّنُوا َنْ تُصِیبُوا قَوْمًا بِجَہَالَةٍ۔۔۔)سورئہ حجرات، آیت ۶۔''ایمان والو اگر کو ئی فاسق کو ئی خبر لے کر آئے تو اس کی تحقیق کرو ایسا نہ ہو کہ کسی قوم تک نا واقفیت میں پہنچ جائو ۔۔۔''

۲۔کنز العمال، جلد ۶،صفحہ ۴۰۰۔

۵۳

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

جنم لیتی ہیں مثلاًاگر آنکھیں شہوت کا ایک دروزہ اور کان دوسرا دروازہ ہے تومعدہ ( پیٹ ) شہوت کی پیدا ئش کاپہلامرکز اور شرم گاہ دوسرا مرکزہے ۔

لہٰذا جب انسان کے اندر شرم وحیاء پیدا ہوجاتی ہے تو پھر ذہن ودماغ کے برے خیالات (سر کے وسوسے )اور پیٹ کی شہوت کے سارے راستے خود بخود بندہوجاتے ہیں اور انسان ان کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔

آپ ہی سے مروی ہے :

(مِن أفضل الورع أن لاتبدی فی خلواتک ما تستحی من اظهاره فی علانیتک )( ۱ )

''سب سے بڑا ورع اور پارسائی یہ ہے کہ جس کام کو تم کھلم کھلا کرنے سے شرماتے ہو اسے تنہائی میں بھی انجام نہ دو''

بارگاہ خدا میں قلت حیا کی شکایت

متعدد دعائوں میں یہ ملتا ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں اس سے حیاکی قلت کی شکایت کرتا ہے جو ایک بہت ہی لطیف اور عجیب بات ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ شکایت کرے کہ اسکے اندر خود ذات پروردگار سے شرم وحیاء کی قلت پائی جاتی ہے جس میں خدا قاضی ہے کیونکہ اسکا فیصلہ اسی کے اوپر چھوڑدیاگیا ہے شکایت کرنے والا خود انسان (انا،میں )ہے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے وہ نفس ہے اور شکایت (مقدمہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نفس اس خدا کے سامنے بے حیائی پر اتر آیا ہے جو خود اس مقدمہ میں قاضی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گویا انسان خدا کی بارگاہ میں اپنے نفس کی یہ شکایت کررہا ہے کہ وہ خود خدا سے حیاء نہیں کرتا ہے بطورنمونہ دعائے

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۲۵۳۔

۱۴۱

ابوحمزہثمالی(رح) کے یہ جملات ملاحظہ فرمائیں:

(أنا یاربّ الذی لم أستحیک فی الخلائ،ولم اُراقبک فی الملأ،أناصاحب الدواهی العظمیٰ،أناالذی علیٰ سیده اجتریٰاناالذی سترت علیّ فمااستحییت،وعملت بالمعاصی فتعدّیت،واسقطتنی من عینیک فما بالیت )( ۱ )

''پروردگارا !میں وہی ہوں جس نے تنہائی میں تجھ سے حیا نہیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نہیںکیا میرے مصائب عظیم ہیں میں نے اپنے مولا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔۔۔میں وہی ہوں ۔۔۔ جس کی تونے پردہ پوشی کی تو میں نے حیا نہیں کی، گناہ کئے ہیں تو بڑھتا ہی چلا گیا اور تو نے نظروں سے گرا دیا تو کوئی پروا نہیں کی ''

امام زین العابدین کی مناجات شاکین(شکایت اور فریاد کرنے والوں کی مناجات ) میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے نفس اور گناہوں سے پرہیز نہ کرنے کی شکایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:

(الٰهی أشکوالیک نفساًبالسوء أمّارة،والیٰ الخطیئة مبادرة، وبمعا صیک مولعة،ولسختک متعرّضة )( ۲ )

''خدایا میں تجھ سے اس نفس کی شکایت کر رہا ہوں جو برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خطائوں کی طرف تیزی سے دوڑ تا ہے اور تیری معصیتوں پر حریص ہے اور تیری ناراضگی کی منزل میں ہے ''۔

____________________

(۱)دعا ئے ابو حمزہ ثمالی۔

(۲)مفاتیح الجنان: مناجات الشاکین ۔

۱۴۲

دوسری فصل

جو شخص اپنی ہویٰ وہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیتا ہے۔

۱۔ہوی وہوس کے معنی

۲۔اسکے خصائل اور صفات

۳۔اسکا طریقہ ٔ علاج

حدیث شریف کے پہلے فقرے کی وضاحت کے بعد اب ہم آپ کے سامنے اس حدیث کے دوسرے اور تیسرے جملے ''جو شخص خداوند عالم کی مرضی پر اپنی خواہش اور ہوس کو مقدم کرتا ہے'' اور اسکے برخلاف ''جو انسان مرضی خدا کو اپنی مرضی اوراپنی خوشی پرفوقیت اور ترجیح دیتا ہے '' کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

جو شخص اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر فوقیت دیتا ہے۔ اس (دوسرے)جملہ کی وضاحت متعلقہ حدیث قدسی میں کچھ اس طرح کی گئی ہے۔

عن رسول ﷲ یقو ل ﷲ تعالیٰ :

(وعزّتی وجلا لی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعلوّی،وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هواه علیٰ هوای لّا شتّت أمره،ولبّست علیه دنیاه،وشغلت قلبه بها،ولم اُوته منها لاماقدّرت له)(۱)

____________________

(ا)عدةالداعی ص۷۹۔اصول کافی ج۲ص۲۳۵۔ان دونوںسے علامہ مجلسی (رح)نے بحارالانوار ج۷۰ص۷۸حدیث۱۴ اور ج۷۰ص۸۵نیزص۸۶پر اس حدیث کو نقل کیاہے۔اس سے پہلے بھی ہم نے کتاب کے مقدمہ میں اس حدیث کے بعض حوالے نقل کئے ہیں۔

۱۴۳

''میری عزت وجلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم ،کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے معاملات کودرہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا اور اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے''

حدیث قدسی کے اس فقرہ میں تین اہم نکات پائے جاتے ہیں:

۱۔جو لوگ اپنی خواہش کو مرضی خدا پر ترجیح دینگے انہیں خداوند عالم تین قسم کی سزائیں دیگا:

الف۔ان کے معاملات مشتبہ اوردرہم برہم ہوجائیں گے۔

ب۔ دنیاان کی نگاہ میں آراستہ ہوجائے گی۔

ج۔ان کادل، دنیا کا دیوانہ ہوکر رہ جائے گا۔

۲۔مذکورہ سزائوںکے تذکرہ سے پہلے اس حدیث شریف میں متعدد طرح کی عظیم قسمیں کھائی گئی ہیں(جیسے میری عزت،جلالت،عظمت،کبریائی، نوراور میرے مقام و منزلت کی رفعت کی قسم) جن سے اُس بات کی اہمیت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسکا تذکرہ ان کے بعد کیا گیا ہے۔

۳۔حدیث شریف میں جس طرز کلام کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے دائرہ کلام بالکل محصور اور محدودہوجاتا ہے کیونکہ پہلے جملہ یعنی (لایؤثرعبدھواہ۔۔۔الاشتت أمرہ) میں نفی اور دوسرے جملہ(الاشتت أمرہ) میں اثبات کا لہجہ موجود ہے لہٰذا اس حصر کے معنی یہ ہیں کہ جب کبھی بھی انسان اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیگا تو وہ کسی بھی طرح خداوند عالم کی ان سزائوں سے نہیں بچ سکتا ہے اب آپ حدیث قدسی میں مذکور، ان تینوں سزائوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

۱۔اسکے امور کو درہم برہم کردوںگا

جو لوگ خوداپنی مرضی کے مطابق چلتے ہیں اور خداوند عالم کی مرضی کاکوئی خیال نہیں کرتے ہیں ان کو خداوند عالم سب سے پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ ان کے معاملات درہم برہم کردیتا ہے اور ان کے ہر کام میں بے ثباتی ،تزلزل اور بے ترتیبی آجاتی ہے کیونکہ وہ ان سے طریقۂ کار، راہ وروش، مقصد اور وسیلہ کی یکسانیت اور یکسوئی کو سلب کرلیتا ہے۔جسکے نتیجہ میں وہ ہوا میں کٹی پتنگ یا کسی تنکے کی طرح ہر طر ف اڑتے رہتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا انکو ایک نئی سمت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔کیونکہ لوگ عام طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں:

۱۴۴

۱۔منظم اور ٹھوس شخصیت کے مالک۔

۲۔بے نظم اوربے ترتیب

ٹھوس شخصیت

ٹھوس اور مستحکم شخصیت ایسی شخصیتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی ایک حاکم کے ماتحت رہتی ہیں جب کہ متزلزل ،مضطرب اور بد حواس قسم کے افراد متعدد اسباب وعوامل کے آلۂ کار بنے رہتے ہیں۔

چنانچہ پہلے طریقۂ کار کو توحیدی طریقہ اور دوسرے طریقہ کوشرک کا نتیجہ کہا جاتاہے کیونکہ جو شخص توحید الٰہی کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ ہر اعتبار سے خداوند عالم کے ارادہ ،حکمت اور اسکے احکام کا تابع ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے اسی کی مشیت اور مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہتا ہے۔

اسی طرح ہرخوشی اور مصیبت میں وہ حکم الٰہی کا پابند رہتا ہے اور خداوند عالم کی خو شنودی ہی اسکا اصل مقصد ہے اور اسکے علاوہ اسے کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں ہوتی اور وہ ہرطرح سے اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتا ہے اوراسکی نظر صرف اپنے اس پاک مقصد پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اسکی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔اور کیونکہ احکام الٰہی کا نظام صرف ایک ہی مرکز سے متصل ہے اور اس میں مکمل طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا اس پر عمل کر نے کے بعد ہر انسان کی شخصیت مقدس ہو جا تی ہے اور اس میں یکسوئی پیدا ہو جا تی ہے یعنی کبھی مختلف قسم کی سیاسی یا سما جی ردو بدل اور اتھل پتھل کی وجہ سے جنگ اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے جسکی بناپرانہیں اسلحہ اٹھا نا پڑ تاہے ۔اور کبھی صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ اسلحہ کو زمین پر رکھنا پڑتا ہے مگرحالات کے اس پورے اتار چڑھائو کے باوجود انسان کی شخصیت کے اندر کسی طرح کا اختلاف یا ردو بدل پیدا نہیں ہوتی اور اسکی شخصیت کی یکسا نیت اور توحید کے سرچشمہ سے پیدا ہو نے والی ترتیب ویگانگت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اسی کو (توحید عملی ) کہا جاتا ہے جو توحید نظری کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے کیونکہ یہ صورت حال دراصل انسان کی زندگی میں توحید نظری کے پر توکاہی نتیجہ ہے ۔

۱۴۵

توحید عملی کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد انسان اپنے نفس کے اندر اور باہر موجودتمام حاکمو ں جیسے ہوی وہو س اور طاغوت وغیرہ کی ماتحتی سے خارج ہو جاتا ہے اور احکام الٰہی کے دائر ہ حکومت میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح تنہا حکم الٰہی ہی اسکے ہر عمل کا حاکم ومختار ہوتا ہے اور اسکی رفتار وگفتار اور کردار وعمل میں ہر جگہ توحید ی رنگ نظر آتا ہے اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث شریف کا مصداق بن جاتا ہے :

(لایؤمن أحدکم حتیٰ یکون هواه تبعاً لما جئت به )( ۱ )

''تم میں سے کو ئی شخص بھی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ہر خو ا ہش اس دین کی تا بع نہ بن جا ئے جو میں لیکر آیا ہوں ''

جبکہ شر ک کی صورتحال اس کے برخلاف ہو تی ہے کیونکہ شرک آجا نے کے بعد انسان سوفیصد خدا وند عالم کے احکام کا پا بند نہیں رہتا بلکہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ خوا ہش نفس اور طاغوت وغیرہ کی پیروی بھی شروع کر دیتا ہے اور جب انسان تو حید کے قلعہ کی چار دیواری سے با ہر نکل جاتا ہے توپھر ہوس اور طا غوت اس کے سر پر سوار ہو جا تے ہیں اس کی بنیا دوںکو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور گویااسے با لکل تباہ و بر باد کر ڈالتے ہیں اس با رے میں قرآنی تعبیرات ملاحظہ فر ما ئیے :

( ﷲ ولی الذین آمنوا والذین کفرواأولیاؤهم الطاغوت) (۲)

____________________

(۱)جا مع الکبیرطبری ۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۲۵۷۔

۱۴۶

''ﷲ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے ۔۔۔اور جو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں''

جسکا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مومن ہیں ان کا صرف ایک ولی وسرپرست ہے ایک ذریعہ اور ایک ہی سرچشمہ ہے اور صرف اسی سے ان کو نسبت ہے لیکن مشرکین مختلف لیڈروں اور حاکموں کے آلہ کار اور تابع ہوتے ہیں انہیںجو ذریعہ اور وسیلہ بھی نظر آجاتا ہے وہ اسی کے پیچھے لگ لیتے ہیں اسی لئے ان کے واسطے جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے :

( والذین کفروا أولیاؤهم الطاغوت )

''اورجو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں ''(اس میں لفظ اولیاء جمع ہے )

یہاں تک یہ بالکل واضح ہوگیا کہ جو شخص ،ٹھوس شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس پر صرف شرعی قانون کی حکومت چلتی ہے اور وہ مرضی خدا کا پابند ہوتا ہے ایسے افراد کسی غوروفکر ،شرم وحیا اور خوف وہراس کے بغیر اپنی شرعی ذمہ داریوںپر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہ خوف وہراس ،شرمندگی اور اضطرابی حالت انسان کی اندرونی کشمکش اور تذبذب کی دلیل ہے جو نفس کے اندرونی یا بیرونی اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا جب انسان کسی ایک طاقت کا پابنداور پیرو ہوتا ہے اور اسکی نظر ہمیشہ ایک ہی مرکز پر رہتی ہے تو اس پر ان چیزوں کا اثرنہیں پڑتا ہے ۔

ایسے افراد کی پہچان یہ ہے کہ وہ ثقہ، قابل اطمینان، ثابت قدم ،ٹھوس رائے ،پاکیزہ نفس صاف وشفاف ضمیر کے مالک ،شجاع اورتنہائی یا چاہنے والوں اور مددگاروں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باوجود اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں ۔امیر المومنین نے فرمایا ہے :

(لایزیدنی کثرة الناس عزّة،ولاتفرُّقهم عنی وحشة )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب۳۶۔

۱۴۷

''لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت اوراستحکام میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ان کے متفرق ہوجانے سے مجھے کوئی وحشت ہوتی ہے ''دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے ان خصائل اور صفات پر وقتی سکون واطمینان ،زحمت ومشکلات رزم وبزم ،فتح ونصرت یا ناکامی اورشکست کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور وہ پرچم توحید کے سایہ میں سدا بہار رہتے ہیں ۔

عماربن یاسر

خداوند عالم جناب عمار یاسر پر رحمتیں نازل فرمائے وہ ایک مثالی ،ٹھوس اور عظیم شخصیت کے مالک تھے ۔جنگ صفین میں آپ نے حضرت علی کی رکاب میں اس وقت معاویہ سے جنگ کی تھی جب آپ کی عمر ،نوے برس سے زیادہ تھی آپ نڈر،بہادر،ثابت قدم، جنگ کے شعلوں میں کودجانے والے اورامام کے ایسے جانثار ساتھی تھے جن کے دل میں حضرت علی کی حقانیت اور معاویہ کے ناحق اور باطل ہونے کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک پیدا نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ صفین کی جنگ کے دوران ہی حضرت علی کے سامنے آپ نے پروردگار عالم سے یہ دعا کی:

(اللّٰهم انکتعلم أنی لوأعلم أن رضاک فی أن اقذف بنفسی فی هذاالبحرلفعلت،اللّٰهم انک تعلم أنی لوأعلم انّ رضاک أن أضع ضُبّةسیفی فی بطنی ثم أنحنی علیها حتیٰ یخرج من ظهری لفعلت،اللّٰهم وانی أعلم مماعلّمتنی أنی لاأعمل الیوم عملاًهو أرضیلک من جهاد هؤلاء الفاسقین،ولوأعلم الیوم عملاً أرضیٰلک منه لفعلت )( ۱ )

____________________

(۱)صفین:نصربن مزاحم ۳۱۹۔۳۲۰تحقیق ڈاکٹر عبدالسلام ہارون۔

۱۴۸

''بارالٰہاتوجانتاہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس سمندر میں کودجانے میں تیری خوشنودی ہے تو میں یقینا کودجائوں گا۔بارالٰہا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری خوشی اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار اپنے پیٹ پر رکھکر اس کے اوپر اتنا جھک جائوں کہ وہ میری کمر کے پار نکل جائے تو میں یہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔بارالٰہا تونے مجھے جو علم دیا ہے اسکی بنا پر مجھے معلوم ہے کہ آج تجھے ان فاسقین سے جہاد کرنے سے زیادہ میرا کوئی عمل پسند نہیں ہے (لہٰذا میں ان سے جہاد کررہا ہوں)اور اگر مجھے اس سے زیادہ تیراپسندیدہ عمل معلوم ہوجائے تو میں اسکو ضرورانجام دونگا''

اسماء بن حکم فزاری کا بیان ہے کہ ہم صفین کے میدان میں حضرت علی کے لشکر میں جناب

عمار یاسر کی سپہ سالاری میں دو پہر کے وقت سرخ چادر کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اس وقت ایک شخص(جو سب کے چہرے غورسے دیکھ رہاتھا)آیا اور اس نے کہا کیا تمہارے درمیان عمار یاسر ہیں ؟

جناب عمار نے کہا :میں عمار ہوں ۔

اس نے کہا! ابوالیقظان؟

جواب دیا :جی ہاں۔

پھر اس نے کہا :کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے ،فرمائیے یہیں سب کے سامنے عرض کروں یا تنہائی میں،جناب عمار بولے جو تم چاہو۔اس نے کہا ٹھیک ہے سب کے سامنے ہی عرض کئے دیتا ہوںجناب عمار نے کہا بتائو کیا کام ہے ؟

کہا! میں جب اپنے گھر سے نکلا تھا تو مجھے اپنی حقانیت اور اس قوم(لشکر معاویہ)کی گمراہی کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں تھااور مسلسل میری یہی کیفیت تھی مگر آج رات عجیب اتفاق ہوا کہ جب صبح ہوئی تو ہمارے مؤذن نے(اشهد أن لاالٰهَ الاﷲ وأن محمداًرسول ﷲ )کی صدا بلند کی اور ان کے موذن نے بھی اسی طرح اذان دی جب نماز شروع ہوئی تو ہم سب نے ایک ہی طرح نماز پڑھی ایک ہی طرح دعا کی،ایک ہی کتاب (قرآن مجید )کی تلاوت کی اور ہمارے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایک ہیں، یہیں سے میرے دل میں کچھ شک پیدا ہوا ۔چنانچہ خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں نے بقیہ وقت کیسے گذارا ہے، صبح ہوئی تو میں امیر المومنین کے پاس گیا اور ان کی خدمت میں پورا ماجرا بیان کردیا تو انھوں نے فرمایا :کیا تم عمار بن یاسر سے ملے ہو؟میں نے عرض کی نہیں، فرمایا جائو ان سے ملاقات کرو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا ۔

۱۴۹

لہٰذا اسی کام کے لئے میں آپ کی خدمت حاضر ہوا ہوں تو جناب عمار یاسر(رح) نے اس سے کہا: کیا تم ہمارے مقابلہ میں موجود اس سیاہ پرچم والے لشکر کے سپہ سالار کوجانتے ہو؟وہ عمروبن عاص ہے، رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہ کر میں نے اس سے تین بارجنگ کی ہے اور آج اس سے یہ میری چوتھی جنگ ہے ۔اور یہ جنگ ان جنگوں سے کچھ بہتر نہیں ہے بلکہ بدتر ہی ہے بلکہ اس کا شروفساد ان سب سے زیادہ ہے ،کیا تم بدر واحد اور حنین میں تھے یا تمہارے والد ان میں موجود تھے کہ انھوں نے تم سے ان جنگوں کے کچھ حالات بتائے ہوں؟اس نے کہا نہیں آپ نے کہا کے بدرواحد وحنین کے دن ہم سب رسول ﷲکے پرچم تلے جمع تھے اور وہ لوگ، مشرکین کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا تھے۔کیا تم اس لشکر اوراہل لشکرکو دیکھ رہے؟خدا کی قسم ! معاویہ کے ساتھ یہ جتنے لوگ حضرت علی کے مقابلہ میںہم سے لڑنے آئے ہیں ۔ یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور میرادل تویہ چاہتا ہے کہ ان سب کو ایک ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں۔

خدا کی قسم ان سب کا خون ایک چڑیا کے خون سے زیادہ حلال ہے ۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو؟اس نے کہا :نہیں بلکہ حلال ہے تو جناب عمار نے کہا بس سمجھ لو کہ ان کا خون بھی اسی طرح حلال ہے ۔کیا میری بات تمہارے لئے واضح ہوگئی؟اس نے کہا :جی ہاں آپ نے درست وضاحت فرمائی جناب عمار نے کہا: لہٰذا اب جسے چاہومنتخب کرسکتے ہوپھرجب وہ شخص واپس چلنے لگا تو جناب عمار نے اسے واپس بلایا اور اس سے یہ کہا کہ ان لوگوں نے ہم پر اپنی تلوارکا وارکیا تو تم میں سے بعض افراد شک وشبہ کا شکار ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ اگر یہ لوگ حق پر نہ ہوتے تو ہمارے خلاف جنگ کے لئے نہ نکلتے ،خدا کی قسم ان کے پاس مکھی کے ایک آنسوکے برابر بھی حق موجود نہیں ہے ۔

۱۵۰

ﷲ کی قسم اگر وہ ہم پر اپنی تلوار وں سے حملہ کریں یہاں تک کہ وہ ہمیںسعفات ہجر (ایک مقام کانام)تک پہونچادیں تب بھی مجھے یہی معلوم ہوگا کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پر ہیں اور خدا کی قسم اس وقت تک امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ہے جب تک فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنے حق ہونے کا منکر نہ ہواور وہ یہ گواہی نہ دے کہ اسکا مخالف فریق بر حق ہے ا ور ان کے مقتولین اور مردے جنّتی ہیں اور دنیا کے دن اس وقت تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ ان کے مردے اور مقتولین جہنمی اور زندہ رہنے والے اہل باطل ہیں۔( ۱ )

کھوکھلااوربے ہنگم انسان(شخصیت )

کھوکھلے اور بے ہنگم لوگوں کے نفس میں اندرونی کشمکش اور بیقراری کا آغاز سب سے پہلے عقل اور خواہشوں کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے کیونکہ خواہشیں انسان کے نفس کو اسکی عقل کی ماتحتی اور کنٹرول سے باہر نکالنے کی در پے رہتی ہیں جس سے آدمی کا نفس دو متصادم دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔

اس داخلی جنگ کے نتیجہ میں انسان کی مشکلات اور زحمتیں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں کیونکہ انسان کے اوپراسکے ضمیر، فطرت اور عقل کی حکومت بہت مستحکم ہوتی ہے اور یہ اسباب اسکے اندر ہوس کے نفوذ(داخلے)کاسختی سے مقابلہ کرتے ہیں اور انکی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ انسان کی شخصیت کوتقویت دیکراسے اسکی پہلی حالت اور فطرت کی طرف لوٹا دیں اس مرحلہ میں انسانی نفس کے اندر ایک خلفشار اور خانہ جنگی کی صورت حال رہتی ہے جسکی بنا پر اسے سخت زحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جب انسا ن کی عقل اس کی رفتار وکردار کو کنڑول کرنے اور اسے استقامت عطا کرنے سے عاجز ہوجاتی ہے اور انسان کے لئے اسکے نفس کااندرونی خلفشار اور خانہ جنگی بھی ناقابل برداشت

____________________

(۱)صفین،نصربن مزاحم ص۳۲۲۳۲۱

۱۵۱

ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرنے لگتا ہے جو ان مشکلات کا منفی اور غلط راہ حل ہے بلکہ اسکا صحیح راہ حل تویہ ہے کہ اپنی عقل وفطرت کو پھر سے زندہ کرکے اسے استحکام بخشے اور اسکے احکامات کے مطابق عمل کرے۔

لیکن اسکے بجائے صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ انسان خواہشات کی سلطنت کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے اور ان مشکلات سے نجات پانے کے لئے اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرتا ہے ؟اور نشہ،جو ا،جرائم یا جنسیات کے دامن میں پناہ تلاش کرتا ہے ۔

مزید تعجب کی بات تویہ ہے کہ انسان اپنی ہوس سے اپنی ہوس ہی کی طرف فرار کرتا ہے اور ایک جرم سے دوسرے جرم کی طرف بھاگتا ہے ورنہ اگر وہ اپنی ہوس کے برخلاف قدم اٹھائے اور خواہش نفس اور ہوس سے خدا کی طرف آگے بڑھے توبآسانی ان سے نجات پاکرسکون حاصل کرسکتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میںمتوجہ کیا ہے :

(ففرّوا الیٰ ﷲ انی لکم منه نذیرمبین )( ۱ )

''لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑپڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرا نے والا ہوں''

لہٰذا جب تک انسان خداوند عالم کی پناہ حاصل نہ کرلے وہ اپنی ہوس کے سامنے لاچار اور مجبور ہی رہتا ہے اسی لئے وہ مشکلات اور زحمتوں نیز اپنی زندگی کے دردسر سے نجات پانے کے لئے نشے اور جنسیات کارخ کرتا ہے جنکے بارے میں قرآن کریم کی یہ تعبیر کتنی صحیح ہے کہ :

(نسوا ﷲ فأنساهم أنفسهم )( ۲ )

''انھوں نے خدا کو بھلاڈالاتو خدا نے خود ان کو بھی نظر انداز کردیا''

کیونکہ جو لوگ اپنی فطرت اور ضمیر سے فرار کرکے شراب یا جوئے وغیرہ کی طرف بھاگتے

____________________

(۱)سورئہ ذاریات آیت ۵۰۔

(۲)سورئہ حشر آیت ۱۹۔

۱۵۲

ہیں در اصل وہ اپنے کو بھلادینا چاہتے ہیں اور انسان کا یہ فرار ذکر(یاد)سے نسیان (بھول)کی طرف ہے جو خود فرار سے بدترہے ۔

بالآخرانسان کے نفس اور اسکی شخصیت کے اندر ہوی وہوس کا مقابلہ کرنے والی آخری طاقت کا نام ضمیر ہے جو حتی الامکان اپنی کوشش بھر انسان کواسکی ہوس اور شیطان کے خونخوار پنجوں سے

بچانے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ جب ضمیر بھی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پھر انسانی وجود کے اندر اسکے خواہشات کا مقابلہ کرنے والا آخری قلعہ بھی منہدم ہوجاتا ہے اور یہی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے جسکے بعد انسان دائمی دردسر اور تشنج کا شکار ہوجاتا ہے ۔

جب خواہشات ہر اعتبار سے فتح یاب ہوجاتے ہیں اور انسان کے اوپر ان کی سلطنت کا نفوذ ہوجاتا ہے اور وہ پورے طورپر ان کے دائرہ اختیار کے اندرآجاتا ہے ۔۔۔تب بھی اسے اپنے خیالات کے برخلاف اس اندرونی خلفشاراور خانہ جنگی سے نجات نہیں مل پاتی بلکہ نفس کے اندرہی خود ان خواہشات کے درمیان ایک اور خانہ جنگی اور خلفشار شروع ہوجاتا ہے بلکہ اس بار اسکا انداز اورزیادہ خطرناک اور سخت ہوتا ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں مختلف قسم کے خواہشات نفس (اور ہوس)کے درمیان تذبذب کاشکاررہتاہے لہٰذا اسکا خلفشار پہلے مرحلہ کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوجاتا ہے اور اگر اسکی دردسر ی اورذہنی پریشانی گذشتہ مرحلہ سے زیادہ نہ ہو تو بہر حال اس سے کم ہرگز نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مرحلہ کی طرح اسکے معاملات بالکل متفرق اوردرہم برہم ہوجاتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان یہ فرق ضرورہوتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں انسان کی مشکلات کے دوران اسکی عقل اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو ہواتھا لیکن اس مرحلہ میں خوداسکی خواہشات اور ہوس کے درمیان ٹکرائورہتا ہے کیونکہ اسکی ہر خواہش (ہوس)دوسری خواہشات کے مقابلہ میںآگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اسی لئے ان کے درمیان یہ جنگ جاری رہتی ہے ۔

اس سلسلہ میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

۱۵۳

۱۔جب کبھی انسان جذبۂ انتقام اورغصہ یا محبت دنیا اور عہدہ کی محبت کے درمیان تذبذب کا شکار ہوتا ہے تو حکومت ،عہدہ اور پوسٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ نرم رویہ سے پیش آئے مگر جذبۂ انتقام یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقابلہ میں آنے والے ہردشمن کا قلع قمع کردے ۔۔۔اور ہمیں بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ نرمی اور مدارات ،حلم کی قسم نہیں ہے (جو عقل کے لشکروں میں سے ہے)بلکہ یہ درحقیقت ایک ہوس کودوسری ہوس پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے ۔

۲۔کبھی عہدہ یا حکومت کی لالچ اور سماجی مقام یاعظمت ووقار جیسے دو جذبات اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ انسان کی سماجی عزت ووقار اس سے کچھ خاص اقدار وآداب کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے خواہشات ان سے کنارہ کشی کے خواہاں ہوتے ہیں جیسے جنسی خواہش،لہٰذا ان سیاسی یا سماجی عہدوں اور کرسیوں تک پہونچنے کے لئے اپنے جنسیات پر کنٹرول کرنا، یہ کسی عفت کی بنا پر نہیں ہے ۔بلکہ یہ ایک خواہش(ہوس) کو دوسری ہوس پر ترجیح دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جنسی ہوس دوسرے خواہشات (عہدہ کی لالچ)پر غالب آجاتی ہے جسکے نتیجہ میں ارباب حکومت کے یہاںبھی جنسی اسکینڈل رونما ہوجاتے ہیں اور انہیں بد نام کرکے رکھ دیتے ہیں ۔

۳۔کبھی انسان کسی عہدے کی محبت اوراپنی جان کے خوف کا نوالہ بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ عہدہ کی تمنا اس سے دوسروں پر حملہ کرنے انہیں قتل وغارت کرنے اور خطرات میں کو د پڑنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن جان کا خطرہ اس کو حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر اکساتا ہے ۔

۱۵۴

دومختلف قسم کی خواہشات کی بناء پر انسانی نفس کے اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی یہ تین مثالیں آپکے سامنے حاضرہیںان کے علاوہ بھی مختلف خواہشات کے درمیان نہ جانے ایسے کتنے حادثات ہر روز رو نما ہوتے رہتے ہیں جوانسانی زندگی کے لئے ایک عام بات ہیں اور اس میں متعدد خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے ٹکراکر اسے اپنی سمت کھینچنا چاہتے ہیں اور انسان خوف اور لالچ ، حب جاہ ،بخل وحسد ،جنسیات اور غصہ و انتقام نیز حب مال جیسے خواہشات کے کھنچائو کی بناپر،تتر بتر ہو کر رہ جاتا ہے جسکے بعد وہ اپنے ذہنی بوجھ اور مشکلات کے دلدل میں اور زیادہ دردسری کاشکار ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّما یریدﷲ لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیاوتزهق أنفسهم وهم کافرون ) ( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے ''

یہی معاملات کادرہم برہم ہوناہے جس کی طرف حدیث قدسی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

ہوس کے عذاب

جب انسان اپنی ہوس کا شکار ہو جاتا ہے تو اسکے خواہشات کا ٹکرائو بھی اسکے لئے وبال جان بن جاتا ہے جبکہ اس کے پنجوں میں پھنسے کے بعد انسان جس دوسرے دردسر اور زحمت میں مبتلا ہو تا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ عذاب خود اس ہوس سے مربوط ہوتا ہے لہٰذا انسان کی ہوس اور خواہش جیسی ہوگی اسکا ویسا ہی عذاب اور دردسر سامنے آئے گاجیسے حرص ،لالچ اورحسد جیسے خواہشات اگر ہمارے نفس کے اندر جگہ بنالیں تو ان کی خواہش ہمیں ایک الگ مصیبت میں مبتلا کردے گی اوریہ طے شدہ بات ہے کہ جو شخص اپنے معاملات کو ان خواہشات کے حوالے کردیگا وہ ان مصائب سے نجات نہیں پاسکتا ہے ۔

خواہشات کے چنگل میں رہ کر انسان جس عذاب اور وبال جان میں مبتلا ہوتا ہے اسکی طرف اس روایت میں اشارہ موجود ہے جسے شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الارشاد(۲) میں امیرالمو منین سے نقل کیا ہے :

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۲)ارشاد مفیدص ۱۵۹ ۔

۱۵۵

(ماأعجب أمرالانسان،ان سنح له الرجاء أذلّه الطمع،وان هاج به الطمع هلکه الحرص،وان ملکه الیأس قتله الأسف،وان سعد نسی التحفظ،وان ناله خوف حیّره الحذر،وان اتسع له الامن أسلمته الغرّة''الغفلة''وان أصابته ۔۔۔)

''اس انسان کے معاملات کتنے تعجب آور ہیں کہ اگر اسے امید کی کرن نظر آنے لگے تو طمع اسکو ذلیل کر دیتی ہے اور اگر اسکی لا لچ بھڑک اٹھے توحرص اسے ہلاک کر ڈا لتی ہے اور اگر اس پر نا امیدی کا غلبہ ہوجائے تو افسوس اسے قتل کردیتا ہے اور اگر وہ کامیاب اورخوشحال ہوجائے تو پھر (دین کی)پابندی کو بھول جاتا ہے ،اگر اسے خوف لاحق ہوجائے تو دہشت متحیر وسرگردان کردیتی ہے اور اگر ہر طرف امن وسکو ن رہے تو غفلت (دھوکہ)میں گرفتارہوجاتاہے اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو بے صبری اور آہ وفریاد ذلیل کردیتی ہے اگر کہیں سے مال مل جائے تودولت اسے باغی بنادیتی ہے اگر وہ فاقہ کے چنگل میں پھنس جائے توبلائیں اسکے شامل حال ہوجاتی ہیں اور اگر بھوک لاغر بنادے تو کمزوری نڈھال کردیتی ہے اور اگر کھانے پینے میں افراط کر بیٹھے تو پرخوری سے اس کا سانس رک جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ اسکے لئے ہر تقصیر مضر ہے اور ہر زیادہ روی (افراط)مفسد ہے اور اس (افراط)کے بعد ہر خیر شر بن جاتا ہے اور ہر شر اسکے لئے ایک آفت ہے ''

مختصر یہ کہ دنیا کے بارے میں پرامیدہونا ہر انسان کو طمع کی ذلت کے حوالہ کردیتا ہے اور طمع (لالچ)ہلاکتوں کے سپردکردیتی ہے کسی چیز سے مایوسی کے بعد وہ کف افسوس ہی ملتا رہتا ہے اور کوئی خوف پیدا ہوجائے تو وہ دہشت کے منھ میں جھونک دیتا ہے اس طرح ہرخواہش اور ہوس ایک نئی خواہش اور ہوس کے حوالے کردیتی ہے اور آخر کار وہ ہلاکت کے منھ میں پہونچ جاتا ہے ۔

۱۵۶

دنیا اپنے خواہشمند کے لئے ایک وبال جان

انسان کے دنیا وی عذاب کا پہلا رخ اور پہلا مرحلہ تو اسکے خواہشات (ہوس)ہیں مگر دوسری منزل میں خود یہ دنیا اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا خواہشات (ہوس) کا کھلا میدان،ان کی آخری منزل، انکے حصول کا سرچشمہ،ان کی آماجگاہ اور انکو ابھارنے اور ان کی پرورش کی جگہ ہے

لہٰذا جب خداوند عالم کسی انسان کو خواہشات نفس کی پیروی کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرتا ہے تواس پر یہ عذاب لا محالہ، طلب دنیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے کیونکہ انسانی ہوس اور دنیا طلبی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے اور اسلامی افکار کے اہم مسائل کا حصہ ہے جس کی ہم یہاںوضاحت کر رہے ہیں ۔

اگر کوئی انسان اپنے ضروریات زندگی اور ضروریات دین اور تکامل کے لئے دنیا حاصل کرے تو اس حصول دنیا اور حتی دنیا میںکوئی چیزشر اور عذاب نہیں ہے جس کی تصدیق اسلام میں موجود ہے کیونکہ اسلام کا یہ کہنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز شر نہیں ہے بلکہ سب خیر ہی خیر ہے اسی لئے اس نے دنیا حاصل کرنے اور رزق تلاش کرنے کے لئے دوڑدھوپ کرنے کو شریعت کا جزء قرار دیا ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دنیا اولیاء خدا کا میدان تجارت (منڈی)اور اسکے محبین کی مسجد ہے :

(متجرأولیاء ﷲ،ومسجدأحبّاء ﷲ )( ۱ )

''(دنیا)اللہ کے اولیاء کا میدان تجار ت اور اسکے محبین کی مسجد ہے''

لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا شر اور عذاب ہو

اس دنیا میں محنت ومشقت کرنا اور رزق تلاش کرنا شریعت اسلامیہ کاجزہے جس کی تائید کے لئے قرآن مجید کی اس آیت میں مہر تصدیق ثبت ہے :

(فاذاقضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل ﷲ )( ۲ )

''جب نماز تمام ہوجائے تو روئے زمین پر پھیل جائو اور فضل الٰہی تلاش کرو ''

لہٰذاجب یہ سب خیر ہے تو شر اور عذاب کا وجود کہاں رہے گا؟

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۱۳۱۔

(۲)سورئہ جمعہ آیت ۱۰۔

۱۵۷

لہٰذا جب تک یہ دنیا خداوند عالم تک پہونچنے کا ذریعہ اور اسکی مرضی حاصل کرنے کاوسیلہ ہو اور اس سے بڑھ کر خودخدا تک جانے کا ارادہ ہو تو یہ پوری دنیا اور اس میں ہونے والی ہر کوشش خیر ہی خیر ہے۔۔۔

لیکن اگر انسان کی محنت و مشقت اوراسکی حرکت کا رخ خداوند عالم اور اسکی مرضی حاصل کرنے کے بجائے دنیا کی طرف مڑجائے تو یہ اسلام کی نظر میں ناقابل برداشت بات ہے ۔اور اسے اس نے شر قرار دیا ہے اور اسی کو خداوند عالم انسان کے لئے عذاب دنیا بنا دیتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ دنیا انسان کی نظر میں خدا تک پہونچنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہونے کے بجائے خودایک مستقل مقصد میں تبدیل ہوجائے تو پھر انسان اپنی گمراہی کی وجہ سے خدا کی طرف جانے کے بجائے دنیا کی طرف چل دیتا ہے اور اسکی نظر یںذات خدا کے بجائے دنیا کی رنگینیوں پر ٹکی رہتی ہیں اور جب وہ دنیا میں گھرارہ جائے تو اسکا ہر عمل باطل اور محنت بیکارنیز اسکی ترقی اور تکامل معطل ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تنزلی ،لغزش اور خسارہ کا شکار ہوجاتا ہے ۔

بلکہ کبھی کبھی انسان خداوند عالم سے منحرف ہوکر اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خداوندعالم سے جنگ کی ٹھان لیتا ہے اور کھلم کھلا خدا ورسول کی دشمنی کا اعلان کرتا ہے ۔

بہر حال چاہے جو کچھ بھی ہواگر یہ دنیا انسان کے لئے خدا تک پہونچنے کا وسیلہ ہونے کے بجائے منزل مقصود میں تبدیل ہوجا ئے اور انسان کی کل دوڑدھوپ دنیا طلبی تک محدودرہے تو پھر یہی دنیاانسان کیلئے دردسر اور عذاب جان بن جاتی ہے ۔

جودنیا، انسان کی خواہشمند ہوتی ہے اور جس دنیا کا خواہشمند انسان ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان یہی فرق ہے کہ انسان کی خواہشمند دنیا اسے خدا تک پہونچاتی ہے لیکن جب انسان دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے تو یہی دنیاخدا تک پہونچنے کا راستہ ہونے کے بجائے اس کے لئے سنگ راہ بن کر عذاب اور وبال جان بن جاتی ہے ۔

۱۵۸

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے :

(لما خلق ﷲ الدنیا أمرها بطاعة ربّها،فقال لها خالفی مَنْطلبکِ ووافقی من خالفک،فهی علیٰ ماعهد الیها ﷲ وطبعهاعلیه )( ۱ )

''جب خداوند عالم نے دنیا کو خلق فرمایا تو اس سے ارشاد فرمایا کہ جو تجھے طلب کرے (تیرا خواہشمند ہو )اسکی مخالفت کرنا اور جو تیرامخالف ہو اسکی موافقت کرنا لہٰذایہ دنیا خداوند عالم سے کئے ہوئے عہد کے مطابق اپنی طبیعت پر باقی ہے ''

روایت میں بطور کنایہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص فکر دنیا میں پڑجائے اور اسی کو اپنا سب کچھ سرمایہ اور مقصد قرار دیدے توخداوند عالم اسی دنیا کو اسکے لئے عذاب بنا دیتا ہے اور جو شخص دنیا سے دل نہ لگائے اور اسکی مخالفت کرتا رہے تو پروردگار اسکے لئے دنیا کو چین اور سکون میں بدل دیتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(أوحیٰ ﷲالیٰ الدنیا:اخدمی من خدمنی،وا تعبی من خدمک )( ۲ )

''ﷲ تعالی نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی جو میری خدمت کرے اسکی خدمت گذار بننا اور جو تیری خدمت کرے اسکے لئے عذاب بن جانا''

اس روایت میں بھی گذشتہ روایت کی طرح یہ کنایہ موجود ہے کہ اگر انسان کا مقصد خداوندعالم کو خوش کرنا ہو،تو یہ دنیا اسکی خدمت کے لئے خلق کی گئی ہے لیکن جب اسکا مقصد خدا کے بجائے دنیا ہوجائے تو پھر اسکے لئے دنیا کی خدمت کرنا ضروری ہے اور دنیا کی خدمت کرنا کسی عذاب

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۵۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ص۲۰۳۔

۱۵۹

اور درد سر سے کم نہیں ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہی یہ بھی روایت ہے :

(ان ﷲ جل جلاله أوحیٰ(الیٰ)الدنیا أن اتعبی منخد مک واخدمی من رفضکِ )( ۱ )

''خداوند عالم نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی کہ جو تیری خدمت کرے اسے عذاب میں مبتلا کردینا اور جو تجھے چھوڑدے اسکی خدمت کرنا''

اس روایت کا بھی انداز اور لہجہ بعینہ وہی ہے بلکہ اگر کوئی روایات کے اندازبیان سے واقف ہوتو اسے بخوبی محسوس ہوگا کہ اس روایت میں گذشتہ روایات کے بالمقابل کچھ زیادہ صراحت موجود ہے ۔

حضرت علی سے مروی ہے :

(من خدم الدنیا استخدَ متْه ومن خدم ﷲخد مه )( ۲ )

'' جو شخص دنیا کی خدمت کریگا وہ اسے اپنا نو کر بنائے رکھے گی اور جو شخص خداوند عالم کی خدمت(اطاعت)کریگا تو خداوند عالم دنیا کواس کا خدمت گذار بنادیگا''

ﷲ تعالی نے جناب موسیٰ کی طرف یہ وحی فرمائی :

(ما من خلقی أحد عظّمها(۳)فقرّت عینه ،ولم یحقّرها أحد الا انتفع بها )( ۴ )

''یعنی میری مخلوقات کے درمیان کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے دنیا کو بڑا سمجھا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۱۔

(۲)غرر الحکم ج۲ ص۲۳۷۔

(۳)یعنی دنیا۔

(۴)بحارالانوارج۷۳ص۱۲۱۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349