خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96738 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

شیریںاور خوش گوار نظر آتی ہے تو دوسرے رُخ سے تلخ اور بلا خیز ہوتی ہے ۔کوئی انسان اس کی تازگی سے اپنی خواہش پوری نہیں کرتا ہے مگر یہ کہ اس کے پے درپے مصائب کی بنا پر رنج وتعب کا شکار ہو جاتا ہے اور کوئی شخص شام کو امن وامان کے پروں پر نہیں رہتا ہے مگر یہ کہ صبح ہوتے ہوتے خوف کے بالوں پر لاد دیا جاتا ہے ۔یہ دنیا دھو کہ باز ہے اور اس کے اندر جو کچھ ہے سب دھو کہ ہے ۔یہ فانی ہے اور اس میں جو کچھ ہے سب فنا ہونے والاہے ۔اس کے کسی زادراہ میں کوئی خیر نہیں ہے سوائے تقویٰ کے ۔ اس میں سے جوکم حاصل کرتا ہے اسی کو راحت زیادہ نصیب ہوتی ہے اور جو زیادہ کے چکّر میں پڑجاتا ہے اس کے مہلکات بھی زیادہ ہوجاتے ہیں اور یہ بہت جلد اس سے الگ ہوجاتی ہے ۔کتنے اس پراعتبار کرنے والے ہیں جنہیں اچانک مصیبتوں میں ڈال دیا گیا اور کتنے اس پر اطمینان کرنے والے ہیں جنہیں ہلاک کردیا گیا اور کتنے صاحبان حیثیت تھے جنہیں ذلیل بنا دیاگیا اور کتنے اکڑنے والے تھے جنہیں حقارت کے ساتھ پلٹا دیاگیا ۔اس کی بادشاہی پلٹا کھانے والی ۔اس کا عیش مکدّر ۔اس کا شیریں شور ۔اس کا میٹھا کڑوا ۔اس کی غذاز ہر آلود اور اس کے اسباب سب بوسیدہ ہیں ۔اس کازندہ معرض ہلاکت میں ہے اور اس کا صحت مندبیمار یوں کی زدپر ہے ۔اس کا ملک چھننے والا ہے اور اس کا صاحب عزت مغلوب ہونے والا ہے ۔اس کا مالدار بدبختیوں کا شکار ہونے والا ہے اور اس کا ہمسا یہ لُٹنے والا ہے ۔کیا تم انھیں کے گھر وں میں نہیں ہو جوتم سے پہلے طویل عمر ،پائید ارآثار اور دوررس امیدوں والے تھے ۔بے پناہ سامان مہیا کیا ،بڑے بڑے لشکر تیار کئے اور جی بھر کر دنیا کی پر ستش کی اور اسے ہر چیز پر مقدم رکھا لیکن اس کے بعد یوں روانہ ہو گئے کہ نہ منزل تک پہونچا نے والا زادراہ ساتھ تھا اور نہ راستہ طے کرانے والی سواری ۔کیا تم تک کوئی خبر پہو نچی ہے کہ اس دنیا نے ان کو بچانے کے لئے کوئی فدیہ پیش کیا ہو یا ان کی کوئی مدد کی ہو یا ان کے ساتھ اچھا وقت گزاراہو ۔؟بلکہ اُس نے تو ان پر مصیبتوں کے پہاڑ توڑے ،آفتوں سے اُنھیں عاجز ودر ماندہ کردیا اور لَوٹ لَو ٹ کرآنے والی زحمتوں سے انھیں جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور ناک کے بل اُنھیں خاک پر پچھاڑ دیا اور اپنے گھروں سے کچُل ڈالا ،اور ان کے خلاف زمانہ کے حوادث کا ہاتھ بٹا یا ۔تم نے تو دیکھا ہے کہ جو ذرا دُنیا کی طرف جھکا اور اسے اختیار کیا اور اس سے لپٹا ،تو اس نے (اپنے تیّور بدل کر ان سے کیسی )ا جنبیّت اختیار کرلی ۔

۱۸۱

یہاں تک کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اس سے جُدا ہوکر چل دئیے ،اور اس نے انھیں بھُوک کے سوا کچھ زادِراہ نہ دیا ،اور ایک تنگ جگہ کے سوا کوئی ٹھہر نے کا سامان نہ کیا ،اور سواگھُپ اندھیرے کے کوئی روشنی نہ دی اور ندامت کے سوا کوئی نتیجہ نہ دیا ،تو کیا تم اسی دنیا کو ترجیح دیتے ہو،یا اسی پر مطمئن ہو گئے ہو یا اسی پر مرے جا رہے ہو ؟جو دنیا پر بے اعتماد نہ رہے اور اس میں بے خوف و خطر ہو کر رہے اس کے لئے یہ بہت برا گھر ہے ۔جان لو اور حقیقت میں تم جانتے ہی ہو ،کہ (ایک نہ ایک دِن)تمھیں دنیا کو چھوڑنا ہے ،اور یہاں سے کوچ کرنا ہے ان لوگوں سے عبرت حاصل کرو جو کہا کرتے تھے کہ ''ہم سے زیادہ قوت و طاقت میں کون ہے ۔''انھیں لاد کر قبروں تک پہونچایا گیا مگر اس طرح نہیں کہ انھیں سوار سمجھا جائے انھیں قبروں میں اتار دیا گیا ،مگر وہ مہمان نہیں کہلاتے پتھروں سے اُن کی قبریں چن دی گئیں ،اور خاک کے کفن ان پر ڈال دئے گئے اور گلی سڑی ہڈیوں کو ان کا ہمسایہ بنا دیا گیا ہے ۔وہ ایسے ہمسایہ ہیں جو پکارنے والے کو جواب نہیں دیتے ہیں اور نہ زیادتیوں کو روک سکتے ہیں اور نہ رونے دھونے والوں کی پروا کرتے ہیں ۔اگر بادل (جھوم کر )ان پر برسیں ،تو خوش نہیں ہوتے اور قحط آئے تو ان پر مایوسی نہیں چھا جاتی ۔وہ ایک جگہ ہیں ،مگر الگ الگ ،وہ آپس میں ہمسایہ ہیں مگر دور دور ،پاس پاس ہیں مگر میل ملاقات نہیں،قریب قریب ہیں مگر ایک دوسرے کے پاس نہیں پھٹکتے، وہ بردبار بنے ہوئے بے خبر پڑے ہیں ،ان کے بغض و عناد ختم ہو گئے اور کینے مٹ گئے ۔نہ ان سے کسی ضرر کا اندیشہ ہے ،نہ کسی تکلیف کے دور کرنے کی توقع ہے انھوں نے زمین کے اوپر کا حصہ اندر کے حصہ سے اور کشادگی اور وسعت تنگی سے

۱۸۲

،اور گھر بار پردیس سے اور روشنی اندھیرے سے بدل لی ہے اور جس طرح ننگے پیر اور ننگے بدن پیدا ہوئے تھے ،ویسے ہی زمین میں (پیوند خاک )ہوگئے اور اس دنیا سے صرف عمل لے کر ہمیشہ کی زندگی اور سدا رہنے والے گھر کی طرف کوچ کر گئے ۔جیسا کہ خداوندقدوس نے فرمایا ہے :

(کما بدأنا أول خلق نعیده وعداًعلینا انّا کنا فاعلین )( ۱ )

''جس طرح نے ہم نے مخلوقات کو پہلی دفعہ پیدا کیا تھا اسی طرح دو بارہ پیدا کریں گے ۔ اس وعدہ کا پورا کرنا ہمارے ذمہ ہے اور ہم اسے ضرور پورا کرکے رہیں گے ''

آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا:

( واُحذّرکم الدنیا فانهامنزل قُلعة،ولیست بدارنُجعة،قد تزیّنت بغرورها، وغرّت بزینتها،دارهانت علیٰ ربها،فخلط حلالهابحرامها،وخیرهابشرها، وحیاتهابموتها،وحلوها بمرّها،لم یصفّهاﷲ تعالیٰ لاولیائه،ولم یَضنّ بهاعلیٰ أعدائه ) ( ۲ )

''میں تمہیں اس دنیا سے ہو شیار کر رہا ہوں کہ یہ کوچ کی جگہ ہے ۔آب ودانہ کی منزل نہیں ہے ۔یہ اپنے دھوکے ہی سے آراستہ ہوگئی ہے اور اپنی آرائش ہی سے دھو کا دیتی ہے ۔اس کا گھر پروردگار کی نگاہ میں با لکل بے ارزش ہے اسی لئے اس نے اس کے حلال کے ساتھ حرام ۔خیر کے ساتھ شر، زندگی کے ساتھ موت اور شیریں کے ساتھ تلخ کو رکھ دیاہے اور نہ اسے اپنے اولیاء کے لئے مخصوص کیا ہے اور نہ اپنے دشمنوں کو اس سے محروم رکھا ہے ۔اس کا خیر بہت کم ہے اور اس کا شر ہر وقت حاضر ہے ۔اس کا جمع کیا ہو ا ختم ہوجانے والا ہے اور اس کا ملک چھن جانے والا ہے اور اس کے آباد کو ایک دن خراب ہوجانا ہے ۔بھلا اُس گھر میں کیا خوبی ہے جوکمز ور عمارت کی طرح گرجائے اور اس عمر میں کیابھلائی ہے جو زادراہ کی طرح ختم ہوجائے اور اس زندگی میں کیا حسن ہے جو چلتے پھرتے تمام ہوجائے ۔

دیکھو اپنے مطلوبہ امور میں فرائض الٰہیہ کو بھی شامل کرلو اور اسی سے اس کے حق کے ادا

____________________

(۱) نہج البلاغہ خطبہ ۱۱۱،آیت ۱۰۴ ازسورئہ انبیائ۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۱۱۳۔

۱۸۳

کرنے کی توفیق کا مطالبہ کرواپنے کانوں کو موت کی آواز سنادوقبل اسکے کہ تمہیں بلالیا جائے ''

دنیا کے سلسلہ میں ہی فرماتے ہیں :

(۔۔۔عبادﷲاُوصیکم بالرفض لهذه الدنیاالتارکة لکم وان لم تحبوا ترکها،والمبلیة لأجسامکم وان کنتم تحبون تجدیدها،فانّمامثلکم ومثلهاکسَفْرٍسلکواسبیلاً فکأنّهم قد قطعوه ۔۔۔)( ۱ )

''بندگانِ خدا !میں تمھیں وصیت کرتا ہوں کہ اس دنیا کو چھوڑ دو جو تمہیں بہر حال چھوڑنے والی ہے چاہے تم اسکی جدائی کو پسند نہ کرو۔وہ تمہارے جسم کو بہرحال بوسیدہ کردے گی تم لاکھ اس کی تازگی کی خواہش کرو ۔تمہاری اور اسکی مثال ان مسافروں جیسی ہے جو کسی راستہ پر چلے اور گویا کہ منزل تک پہونچ گئے ۔کسی نشان راہ کا ارادہ کیا اور گویا کہ اسے حاصل کرلیا اور کتنا تھوڑا و قفہ ہوتا ہے اس گھوڑا دوڑانے والے کے لئے جو دوڑاتے ہی مقصد تک پہونچ جائے ۔اس شخص کی بقا ہی کیا ہے جس کا ایک دن مقرر ہو جس سے آگے نہ بڑھ سکے اور پھر موت تیز رفتاری سے اسے ہنکا کرلے جارہی ہو یہانتک کہ بادل ناخواستہ دنیا کو چھوڑدے ۔خبردار دنیا کی عزت اور اسکی سربلندی میں مقابلہ نہ کرنا اور اسکی زینت و نعمت کو پسند نہ کرنا اور اسکی دشواری اور پریشانی سے رنجیدہ نہ ہونا کہ اسکی عزت وسربلندی ختم ہوجانے والی ہے اور اسکی زنیت و نعمت کو زوال آجانے والا ہے اوراسکی تنگی اور سختی بہرحال ختم ہوجانے والی ہے ۔یہاں ہر مدت کی ایک انتہا ہے اور ہر زندہ کے لئے فنا ہے ۔کیا تمہارے لئے گذشتہ لوگوں کے آثار میں سامان تنبیہ نہیں ہے ؟اور کیا آباء واجداد کی داستانوں میں بصیرت وعبرت نہیں ہے ؟اگر تمہارے پاس عقل ہے!کیا تم نے یہ نہیں دیکھا ہے کہ جانے والے پلٹ کر نہیں آتے ہیں اور بعد میں آنے والے رہ نہیں جاتے ہیں ؟کیا تم نہیں دیکھتے ہو کہ اہل دنیا

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۹۹۔

۱۸۴

مختلف حالات میںصبح وشام کرتے ہیں ۔کوئی مردہ ہے جس پر گریہ ہو رہا ہے اور کوئی زندہ ہے تو اسے پرسہ دیاجارہا ہے ۔ ایک بستر پر کوئی غفلت میں پڑا ہوا ہے تو زمانہ اس سے غافل نہیں اور اس طرح جانے والوں کے نقش قدم پر رہ جانے والے چلے جارہے ہیں ۔آگاہ ہوجائو کہ ابھی موقع ہے اسے یاد کرو جو لذتوں کو فنا کردینے والی ۔خواہشات کو مکدر کردینے والی اور امیدوں کو قطع کردینے والی ہے ایسے اوقات میں جب برے اعمال کا ارتکاب کر رہے ہو اور ﷲسے مدد مانگو تاکہ اس کے واجب حق کو ادا کردو اور ان نعمتوں کا شکریہ ادا کر سکو جن کا شمار کرنا ناممکن ہے ''

یہ زندگانی دنیا کا پہلا رخ ہے چنانچہ دنیا کے اس چہرے کی نشاندہی کرنے کے لئے ہم نے روایات کو اسی لئے ذرا تفصیل سے ذکر کیا ہے کیونکہ اکثر لوگ دنیا کے باطن کو چھوڑ کراسکے ظاہر پر ہی ٹھہرجاتے ہیں اور ان کی نظر یں باطن تک نہیں پہونچ پاتیں ۔شاید ہمیں انہیں روایات میں ایسے اشارے مل جائیں جن کے سہارے ہم ظاہر دنیا سے نکل کر اسکے باطن تک پہونچ جائیں ۔

۱۸۵

ب۔دنیا کاظاہری رخ(روپ)

دنیاوی زندگی کا ظاہری روپ بے حد پر فریب ہے کیونکہ جسکے پاس چشم بصیرت نہ ہو اسکو یہ زندگانی دنیا دھوکے میں مبتلا کرکے اپنی طرف کھینچ لیتی ہے اور پھراسے آرزووں ،خواہشات ، فریب اور لہوولعب کے حوالے کردیتی ہے ۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

(وما الحیاة الدنیا الا لعب ولهو )( ۱ )

''اور یہ زندگانی دنیا صرف کھیل تماشہ ہے ''

(ما هذه الحیاة الدنیا الا لهوولعب )( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت ۳۲۔

(۲)سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔

۱۸۶

''اور یہ زندگانی دنیا ایک کھیل تماشے کے سوا اور کچھ نہیں ہے ''

(انماالحیاة الدنیالعب ولهووزینة وتفاخر بینکم )( ۱ )

''یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش باہمی فخرومباہات اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے ''

خداوند عالم نے دنیا کے جس رخ کو لہو ولعب قرار دیا ہے وہ اسکا ظاہری رخ ہے ۔اور لہو ولعب سنجیدگی اور متانت کے مقابلہ میں بولاجاتا ہے ۔۔۔

البتہ انسان اسی وقت لہو ولعب میں گرفتار ہوتا ہے کہ جب وہ دنیا کے ظاہری روپ پر نظر رکھے اور سنجیدگی و متانت سے دو ر رہے چنانچہ اگر وہ دنیا کے ظاہرکے بجائے اسکے باطن پر توجہ رکھے تو لہو ولعب (کھیل کود)سے بالکل دور ہوکر زاہد وپارسا بن جائیگا اور دنیا کے دوسرے معاملات میں الجھنے کے بجائے اسے صرف اپنے نفس کی فکر لاحق رہے گی۔کیونکہ دنیا''لُماظة''ہے ۔

مولائے کائنات فرماتے ہیں :

(ألا مَن یدع هذه اللُّماظة )( ۲ )

''کون ہے جو اس لماظہ کو چھوڑ دے ''لماظہ منھ کے اندر بچی ہوئی غذا کو کہا جاتا ہے

حضرت علی :

(اُحذّرکم الدنیا فانهاحلوة خضرة،حُفّت بالشهوات )( ۳ )

''میں تمہیں دنیا سے ڈراتا ہوں کیونکہ یہ ایسی شیرین وسرسبز ہے جوشہوتوں سے گھری ہوئی ہے ''

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت ۲۰۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص ۱۳۳۔

(۳)بحارالانوار ج ۷۳ص۹۶۔

۱۸۷

دنیاوی زندگی کے ظاہر اور باطن کا موازنہ

قرآن کریم میں دنیاوی زندگی کے دونوں رخ (ظاہر وباطن )کا بہت ہی حسین موازنہ پیش کیا گیا ہے نمونہ کے طورپر چند آیات ملاحظہ فرمائیں :

۱۔( انّمامثل الحیاةالدنیاکمائٍ أنزلناه من السماء فاختلط به نبات الارض ممایأکل الناس والانعام حتیٰ اذا أخذت الارض زُخرفها وازّیّنت وظنّ أهلها أنّهم قادرون علیها أتاها أمرنا لیلاً أونهاراً فجعلناها حصیداً کأن لم تغن بالامس کذٰلک نفصّل الآیات لقومٍ یتفکّرون ) ( ۱ )

''زندگانی دنیا کی مثال صرف اس بارش کی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا پھر اس سے مل کر زمین سے نباتات برآمد ہوئیں جن کو انسان اور جانور کھاتے ہیں یہاں تک کہ جب زمین نے سبز ہ زارسے اپنے کو آراستہ کرلیا اور مالکوں نے خیال کرنا شروع کردیا کہ اب ہم اس زمین کے صاحب اختیار ہیں تو اچانک ہمارا حکم رات یا دن کے وقت آگیا اور ہم نے اسے بالکل کٹا ہواکھیت بناد یا گویا اس میں کل کچھ تھا ہی نہیں ہم اس طرح اپنی آیتوں کو مفصل طریقہ سے بیان کرتے ہیں اس قوم کے لئے جو صاحب فکر ونظر ہے ''

اس آیۂ کریمہ میں زندگانی دنیا ،اسکی زینت اور آرائشوں اور اسکی تباہی و بربادی اور اس میں اچانک رو نما ہو نے والی تبدیلیوں کی عکاسی مو جود ہے ۔

چنانچہ دنیا کو اس بارش کے پانی سے تشبیہ دی گئی ہے جو آسمان سے زمین پر برستا ہے اور اس سے زمین کے نباتات ملتے ہیں تو ان نباتات میں نمو پیدا ہوتا ہے اور وہ انسانوں اور حیوانوں کی غذانیززمین کی زینت بنتے ہیں ۔یہاں تک کہ جب زمین اپنی آرائشوں اور زینتوں سے آراستہ

____________________

(۱)سورئہ یونس آیت ۲۴۔

۱۸۸

ہوجاتی ہے۔۔۔تو اچانک یہ حکم الٰہی کسی بجلی، آندھی(ہوا)وغیرہ کی شکل میں اسکی طرف نازل ہوجاتا ہے اور اسے بالکل ویرانے اور خرابے میں تبدیل کردیتا ہے جیسے کل تک وہ آباد ،سرسبز و شاداب ہی نہ تھی یہ دنیا کے ظاہری اور باطنی دونوں چہروںکی بہترین عکاسی ہے کہ وہ اگر چہ سر سبزو شاداب ، پُرفریب ، برانگیختہ کرنے والی،پرکشش (جالب نظر)دلوں کے اندر خواہشات کو بھڑکانے والی ہے لیکن جب دل اس کی طرف سے مطمئن ہو جاتے ہیں تواچانک حکم الٰہی نازل ہوجاتا ہے اور اسے کھنڈر اور بنجر بناڈالتا ہے جس سے لوگوں کو کراہیت محسوس ہو تی ہے ۔

اس سورہ کا پہلا حصہ دنیا کے ظاہری چہرہ کی وضاحت کر رہا ہے جو انسان کو دھوکہ اور فریب میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا حصہ وعظ و نصیحت اور عبرت حاصل کرنے کا سرچشمہ ہے ۔جو کہ دنیا کا باطنی رخ ہے ۔

۲۔:( انّاجعلنا ماعلیٰ الارض زینةً لهالنبلوهم أیّهم أحسن عملاً ) ( ۱ )

''بیشک ہم نے روئے زمین کی ہر چیز کو زینت قرار دیدیا ہے تاکہ ان لوگوں کا امتحان لیں کہ ان میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے ''

دنیا یقینا ایک زینت ہے جس میں کسی قسم کے شک و شبہہ کی گنجائش نہیں ہے اور یہی زینت و آرائش انسانی خواہشات کو اپنی طرف کھینچ لیتی ہے مگر ان آرائشوں کی کوکھ میں مختلف قسم کے امتحانات بلائیں اور آزما ئشیںپو شیدہ رہتی ہیں جن کے اندر انسان کی تنزلی کے خطرات چھپے رہتے ہیں اور یہ بالکل اسی طرح ہیں جیسے کسی شکار کو پکڑنے کے لئے چارا ڈالا جاتا ہے ۔

۳۔( اعلموا أنماالحیاةالدنیا لعب ولهووزینة وتفاخربینکم وتکاثرفی الاموال والاولادکمثل غیث أعجب الکفّارنبا ته ثم یهیج فتراه )

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت ۷۔

۱۸۹

( مصفرّا ثم یکونحطاماً وفی الآخرةعذاب شدیدومغفرةمن ﷲ ورضوان وماالحیاة الدنیاالامتاع الغرور ) ( ۱ )

''یاد رکھو کہ زندگانی دنیا صرف ایک کھیل تماشہ ،آرائش ،باہمی فخرومباہات،اور اموال واولاد کی کثرت کا مقابلہ ہے اور بس ۔جیسے کوئی بارش ہو جسکی قوت نامیہ کسان کو خوش کردے اور اسکے بعد وہ کھیتی خشک ہوجائے پھر تم اسے زرد دیکھو اور آخر میں وہ ریزہ ریزہ ہوجائے اور آخرت میں شدید عذاب بھی ہے اور مغفرت اور رضائے الٰہی بھی ہے اور زندگانی دنیا تو بس ایک دھوکہ کا سرمایہ ہے اور کچھ نہیں ہے ''

دنیا کے بارے میں نگاہوں کے مختلف زاوئے

در حقیقت دنیا کو متعدد زاویوںسے دیکھنے کی وجہ سے ہی دنیا کے مختلف رخ دکھائی دیتے ہیں اسی لئے زاویہ نگاہ تبدیل ہوتے ہی دنیا کا رخ بھی تبدیل ہوجاتا ہے ورنہ دنیا تو ایک ہی حقیقت کا نام ہے مگر لوگ اسکی طرف دو رخ سے نظر کرتے ہیں ۔

کچھ لوگ تو ایسے ہیں جو دنیا کو پر غرور اور پرفریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں جبکہ بعض حضرات اسے عبرت کی نگاہوں سے دیکھاکرتے ہیں ان دونوں نگاہوںکے زاویوںمیں ایک انداز نگا ہ سطحی ہے جو دنیا کی ظاہری سطح پر رکا رہتا ہے اور انسان کو شہوت وغرور (فریب)میں مبتلا کردیتا ہے جبکہ دوسرا انداز نظر اتنا گہرا ہے کہ وہ دنیا کے باطن کو بھی دیکھ لیتا ہے لہٰذا یہ اندازنظر رکھنے والے حضرات اس دنیا سے دوری اور زہد اختیار کرتے ہیں مختصر یہ کہ اس مسئلہ کا دارو مدار دنیا کے بارے میں ہمارے زاویہ نگاہ اور انداز فکر پر منحصر ہے ۔لہٰذا دنیا کے معاملات کو صحیح کرنے کے لئے سب سے پہلے اسکے بارے میں انسان کا انداز فکر صحیح ہوناچاہئیے جس کے لئے ضروری ہے کہ پہلے وہ دنیا کے بارے میں اپنا زاویۂ

____________________

(۱)سورئہ حدیدآیت ۲۰۔

۱۹۰

نگاہ صحیح کرے اسکے بعد وہ اسکو جس نگاہ سے دیکھے گا اسی اعتبار سے اسکے ساتھ پیش آئے گا ۔

لہٰذا جو حضرات دنیا کو پر فریب نگاہوں سے دیکھتے ہیں انہیں دنیا دھوکہ میں ڈال دیتی ہے اور خواہشات میں مبتلا کردیتی ہے اور ان کے لئے یہ زندگانی ایک کھیل تماشہ بن کر رہ جاتی ہے جسکی طرف قرآن مجید نے متوجہ کیا ہے ۔اور جو لوگ دنیا کو عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں تو وہ اپنے اعمال میں صداقت اور سنجیدگی کا خیال رکھتے ہیں اور آخرت کا واقعی احساس انہیں دنیا کے کھیل تماشہ سے دور کردیتا ہے ۔

مولائے کائنات کے کلمات میں دنیا کے بارے میں موجود مختلف نگاہوں کی طرف واضح اشارے موجود ہیںجن میں سے ہم یہاں بعض کا تذکرہ کر رہے ہیں:

(کا ن لی فیما مضیٰ أخ فی ﷲ،وکان یعظّمه فی عینی صغرالدنیا فی عینه )( ۱ )

''گذشتہ زمانہ میں میرا ایک بھائی تھا جس کی عظمت میری نگاہوں میں اس لئے تھی کہ دنیا اسکی نگاہ میں حقیر تھی ''

دنیا کی توصیف میں آپ فرماتے ہیں :

(ما أصف من دارأوّلهاعنائ،وآخرها فنائ، فی حلالهاحساب،وفی حرامهاعقاب،من استغنیٰ فیها فُتن،ومن افتقرفیهاحزن )( ۲ )

''میں اس دنیا کے بارے میں کیا کہوں جسکی ابتدا رنج وغم اور انتہا فناونیستی ہے اسکے حلال میں حساب اور حرام میں عقاب ہے۔جو اس میںغنی ہوجاتاہے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور جو فقیر ہوجاتاہے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجاتاہے ''

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۸۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔

۱۹۱

یہی رخ دنیا کا باطنی رخ اور وہ دقت نظر ہے جو دنیا کے باطن میں جھانک کردیکھ لیتی ہے ۔

پھر آپ فرماتے ہیں :

(من ساعاهافا تته،ومن قعدعنهاواتته )( ۱ )

''جو اسکی طرف دوڑلگاتاہے اسکے ہاتھ سے نکل جاتی ہے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اسکے پاس حاضر ہوجاتی ہے ''

دنیا سے انسانی لگائو کے بارے میں خداوند عالم کی یہ ایک سنت ہے جس میں کبھی بھی خلل یا تغیر پیدا نہیں ہوسکتا ہے چنانچہ جو شخص دنیا کی طرف دوڑلگائے گا اور اسکے لئے سعی کریگا اور اسکی قربت اختیار کریگا تو وہ اسے تھکاڈالے گی۔اور اسکی طمع کی وجہ سے اسکی نگاہیں مسلسل اسکی طرف اٹھتی رہیں گی۔چنانچہ اسے جب بھی کوئی رزق نصیب ہوگا تو اسے اس سے آگے کی فکر لاحق ہوجائیگی۔اور وہ اسکے لئے کوشش شروع کردیگا مختصر یہ کہ وہ دنیا کا ساتھی ہے اور اسکے پیچھے دوڑلگاتا رہے گا مگر اسے دنیا میں اسکا مقصد ملنے والا نہیں ہے ۔

البتہ جو دنیا کی تلاش اور طلب میں صبروحوصلہ سے کام لیکر میانہ روی اختیار کریگا تو دنیا خود اسکے قدموں میں آکر اسکی اطاعت کرے گی اور وہ بآسانی اپنی آرزو تک پہونچ جائے گا۔

پھر آپ ارشاد فرماتے ہیں:

(من أبصربهابصّرته،ومن أبصرالیها أعمته )( ۲ )

''جو اسکو ذریعہ بنا کر آگے دیکھتارہے اسے بینابنادیتی ہے اور جو اسکو منظور نظر بنالیتاہے اسے اندھا کردیتی ہے ''

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۸۲۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۱۹۲

سید رضی علیہ الرحمہ نے اس حدیث کی یہ تشریح فرمائی ہے: کہ اگر کوئی شخص حضرت کے اس ارشاد گرامی (من ابصربھا بصرتہ)میں غور وفکر کرے تو عجیب و غریب معانی اور دور رس حقائق کا ادراک کرلے گا جن کی بلندیوں اور گہرائیوں کا ادراک ممکن نہیں ہے ۔

مولائے کائنات نے دنیا کے بارے میں نگاہ کے ان دونوں زاویوں کا تذکرہ فرمایا ہے جس میں سے ایک یہ ہے ''کہ دنیا کو ذریعہ بناکر آگے دیکھا جائے ''اس نگاہ میں عبرت پائی جاتی ہے اور دوسرا زاویہ نظر یہ ہے کہ انسان دنیا کو اپنا منظور نظر اور اصل مقصد بنالے اس نگاہ کا نتیجہ دھوکہ اور فریب ہے جسکی وضاحت کچھ اس طرح ہے :

یہ دنیا کبھی انسان کے لئے ایک ایسا آئینہ بن جاتی ہے جس میں وہ مختلف تصویریں دیکھتا ہے اور کبھی اسکی نظر خود اسی دنیا پر لگی رہتی ہے ۔

چنانچہ جب دنیا انسان کے لئے ایک آئینہ کی مانند ہوتی ہے جس میں جاہلیت کے تمدن اور زمین پر فساد برپا کرنے والے ان متکبرین کا چہرہ بخوبی دیکھ لیتا ہے جن کو خدا نے اپنے عذاب کا مزہ اچھی طرح چکھادیا ۔۔۔تو یہ نگاہ ،عبرت ونصیحت کی نگاہ بن جاتی ہے ۔

لیکن جب دنیا انسان کے لئے کل مقصد حیات کی شکل اختیار کرلے اور وہ ہمیشہ اسی نگاہ سے اسے دیکھتا رہے تو دنیا اسے ہویٰ وہوس اور فتنوں میں مبتلا کرکے اندھا کردیتی ہے اور وہ اسے بہت ہی سر سبز و شیرین دکھائی دیتی ہے۔

اس طرح پہلی نگاہ میں عبرت کا مادہ پایا جاتا ہے اور دوسری نظر میں فتنہ وفریب کا مادہ ہوتا ہے ۔پہلی نگاہ میں فقط بصیرت پائی جاتی ہے جبکہ دوسری نگاہ میںعیاری اور دھوکہ ہے ۔

انہیں جملوں کی شرح کے بارے میں ابن الحدید کا بیان ہے کہ جب میں نے حضرت کے یہ جملات پڑھے تو اسکی تشریح میں یہ دو اشعار کہے :

دنیاک مثل الشمس تدنی ال

یک الضوء لکن دعوةَ المهلکِ

ان أنت أبصرت الیٰ نو ر ها

تَعْشُ و ان تُبصر به تد ر ک

۱۹۳

تمہاری دنیا کی مثال اس سورج جیسی ہے جس کی ضیاء تمہارے سامنے ہے لیکن ایک مہلک انداز میں کہ اگر تم اس (نور)کی طرف دیکھو گے تو تمہاری نگاہ میں خیرگی پیدا ہوجائیگی اور اگر اسکے ذریعہ کسی چیز کو دیکھنا چاہو گے تو اسے دیکھ لو گے ۔

اسی زاویہ نگاہ کی بنیاد پر مولائے کائنات نے یہ ارشاد فرمایا ہے :

(جعل لکم أسماعاً لتعی ماعناها،أبصاراً لتجلوعن عشاهاوکأن الرشدَ فی احرازدنیا ها )( ۱ )

''اس نے تمہیں کان عطا کئے ہیں تاکہ ضروری باتوں کو سنیں اور آنکھیں دی ہیں تاکہ بے بصری میں روشنی عطا کریں ۔۔۔اور تمہارے لئے ماضی میں گذر جانے والوں کے آثار میں عبرتیں فراہم کردی ہیں ۔۔۔لیکن موت نے انہیں امیدوں کی تکمیل سے پہلے ہی گرفتار کرلیا۔۔۔انہوں نے بدن کی سلامتی کے وقت کوئی تیاری نہیں کی تھی اور ابتدائی اوقات میں کوئی عبرت حاصل نہیں کی تھی ۔۔۔ تو کیا آجتک کبھی اقرباء نے موت کودفع کیا ہے یا فریاد کسی کے کام آئی ہے (ہرگز نہیں )مرنے والے کو قبرستان میں گرفتار کردیا گیا ہے اور تنگی قبر میں تنہاچھوڑدیا گیا ہے اس عالم میں کہ کیڑے مکوڑے اسکی جلد کو پارہ پارہ کررہے ہیں۔۔۔اور آندھیوں نے اسکے آثار کو مٹادیاہے اور روز گار کے حادثات نے نشانات کو محو کردیا ہے ۔۔۔تو کیا تم لوگ انہیں آباء واجداد کی اولاد نہیں ہو اور کیا انہیں کے بھائی بندے نہیں ہو کہ پھر انہیں کے نقش قدم پر چلے جارہے ہو اور انہیں کے طریقے کو اپنائے ہوئے ہو اور انہیں کے راستے پر گامزن ہو؟حقیقت یہ ہے کہ دل اپنا حصہ حاصل کرنے میں سخت ہوگئے ہیں اور راہ ہدایت سے غافل ہوگئے ہیں غلط میدانوں میں قدم جمائے ہوئے ہیں ایسا معلوم

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔

۱۹۴

ہوتا ہے کہ اللہ کامخاطب ان کے علاوہ کوئی او ر ہے اور شاید ساری عقلمندی دنیا ہی کے جمع کرلینے میں ہے ''

اس بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

(وانما الدنیا منتهیٰ بصرالاعمیٰ،لا یبصرمماوراء ها شیئاً،والبصیر ینفذها بصره،ویعلم أن الدار ورائها،فالبصیرمنها شاخص،والأعمیٰ الیها شاخص،والبصیر منها متزود،والأعمیٰ لهامتزود )( ۱ )

''یہ دنیا اندھے کی بصارت کی آخری منزل ہے جو اسکے ماوراء کچھ نہیں دیکھتا ہے جبکہ صاحب بصیرت اس سے کوچ کرنے والا ہے اور اندھا اسکی طرف کوچ کرنے والا ہے بصیر اس سے زادراہ فراہم کرنے والا ہے اور اندھا اسکے لئے زاد راہ اکٹھاکرنے والاہے''

واقعاً اندھا وہی ہے جس کی نگاہیں دنیا سے آگے نہ دیکھ سکیں اور وہ اس سے وابستہ ہوکر رہ جائے (اس طرح دنیا اندھے کی نگاہ کی آخری منزل ہے )لیکن صاحب بصیرت وہ ہے جسکی نگاہیں ماوراء دنیا کا نظارہ کرلیتی ہیں اور اس کی عاقبت کو دیکھ لیتی ہیں آخرت اسکی نظروں کے سامنے ہے لہٰذا (اسکی نگا ہیں )اور اسکے قدم اس دنیا پر نہیںٹھہرتے بلکہ وہ اس سے عبرت حاصل کرکے آ گے کی طرف کوچ کرجاتا ہے ۔

ابن ابی الحدید نے اس جملہ کی مذکورہ شرح کے علاوہ ایک اور حسین تشریح کی ہے جس کے الفاظ کچھ یوں ہیں ۔دنیا اور مابعد دنیا کی مثال ایسی ہے جیسے اندھا کسی خیالی تاریکی کا تصور کرتا ہے اور یہ تصور کرتا ہے کہ وہ اس تاریکی،کو محسوس کررہا ہے جبکہ وہ واقعاً اسکاا حساس نہیں کرپاتا بلکہ وہ عدم ضیاء ہے (وہاں نور کا وجود نہیں ہے )بالکل اس طرح جیسے کوئی شخص کسی تنگ و تاریک گڑھے میں گھس

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۳۳۔

۱۹۵

جائے اور تا ریکی کا خیال کرے مگر اسے کچھ نہ دکھائی دے اور اسکی نگاہیںکسی چیز کا مشاہدہ کرتے وقت کام نہیں کرپاتیں مگر وہ یہ خیال کرتا ہے کہ وہ تاریکی وظلمت کو دیکھ رہا ہے ۔لیکن جو شخص روشنی میں کسی چیز کو دیکھتا ہے اسکی بصارت (نگاہ)کام کرتی ہے اور وہ واقعاًمحسوسات کو دیکھتا ہے ۔چنانچہ دنیا اور آخرت کی بھی بالکل یہی حالت ہے :کیونکہ اہل دنیا کی نگاہوں کی آخری منزل اور ان کی پہنچ صرف ان کی دنیا تک ہے ۔او ر ان کا خیال یہ ہے کہ وہ کچھ دیکھ رہے ہیں جبکہ واقعاً انہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا ہے اور نہ ان کے حواس کسی چیز کے اوپر کام کرتے ہیں ۔ لیکن اہل آخرت کی نگاہیں بہت کارگر ہیں اور انہوں نے آخرت کو باقاعدہ دیکھ لیا ہے لہٰذا دنیا پر ان کی نگاہیں نہیں ٹھہرتی ہیں ،تو در حقیقت یہی حضرات صاحبان بصارت ہیں ''( ۱ )

طرز نگاہ کا صحیح طریقہ کار

جس طرح انسان کے تمام اعمال وحرکات میں کچھ صحیح ہوتے ہیںاور کچھ غلط ۔ اسی طرح کسی چیزکے بارے میں اسکا طرز نگاہ بھی صحیح یا غلط ہوسکتا ہے ۔جیسا کہ قرآن کریم نے رفتار وکردار کے صحیح طریقوں کی تعلیم دیتے ہوئے صحیح طرز نگاہ کی تعلیم ان الفاظ میں دی ہے :

( ولا تمدّنَّ عینیک الیٰ ما متّعنابه أزواجاً منهم زهرة الحیاة الدنیا لنفتنهم فیه ورزق ربک خیروأبقیٰ ) ( ۲ )

''اور خبر دار ہم نے ان میں سے بعض لوگوں کو جو زندگانی دنیا کی رونق سے مالامال کردیا ہے اسکی طرف آپ نظر اٹھاکر بھی نہ دیکھیں کہ یہ ان کی آزمائش کا ذریعہ ہے اور آپ کے پروردگار کا رزق

اس سے کہیں زیادہ بہتر اور پائیدار ہے ''

____________________

(۱)شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدیدج۸ص۲۷۶۔

(۲)سورئہ طہ آیت ۱۳۱۔

۱۹۶

نظر اٹھاکر دیکھنا بھی کسی چیز کو دیکھنے کا ایک طریقہ ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی نگاہ اس مال ودولت اور رزق کے اوپر پڑتی رہے جو خداوند عالم نے دوسروں کو عنایت فرمائی ہے اس مد نظر (نگاہیں اٹھاکر دیکھنے)میں اپنی حد سے تجاوز کرنے کے معنی پائے جاتے ہیں ۔گویا انسان کی نگاہیں اپنے پاس موجود خداوند عالم کی عطا کردہ نعمتوں سے تجاوز کرکے دوسروں کے دنیاوی راحت وآرام اور نعمتوں کی سمت اٹھتی رہیں اور مسلسل انہیں پر جمی رہیں ۔

حد سے یہ تجاوزہی انسانی مشکلات اور عذاب کا سرچشمہ ہے ۔۔۔کیونکہ جب تک خداوند عالم اسے مال نہ دیگا اسے مسلسل اسکی تمنا رہے گی اور وہ اسکے لئے کوشش کرتا رہے گا۔اور جب خداوند عالم اسے اس نعمت سے نواز دیگا تو پھر وہ ان دوسری نعمتوں کی خواہش اور تمنا شروع کردیگا جو دوسروں کے پاس ہیں اور اسکے پاس نہیں ہیں ۔۔۔اور اس طرح دنیا سے اسکی وابستگی اور اسکے لئے سعی وکوشش میں دوام پیدا ہوجاتا ہے۔( جیسا کہ مولائے کائنات نے ارشادفرمایا ہے )نیزاسکے پیچھے دوڑنے سے عذاب مزید طولانی ہوجاتا ہے اور وہ اپنے آخری مقصد تک نہیں پہونچ پاتا ہے، دنیا کے بارے میں اس طرز نگاہ سے انسا ن کو یاس وحسرت کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آ نے والا نہیں ہے ۔

واضح رہے کہ لوگوں کے پاس موجود نعمتوںپر نگاہیں نہ جمانے اور ان کی طرف توجہ نہ کرنے کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ انسان سعی وکوشش اور محنت و مشقت کرنا ہی چھوڑدے کیونکہ ایک مسلمان ہمیشہ متحرک رہتا ہے ۔مگر لوگوں کے پاس موجود نعمتوں کو دیکھ کر حسرت اورغصہ کے گھونٹ پینے کی وجہ سے نہیں ۔

مختصر یہ کہ: کسی بھی چیز کے بارے میں انسان کی طرز نگاہ اسکے نفس کی سلامتی یا بربادی میں اہم کردار اداکرتاہے ۔کیونکہ کبھی کبھی ایک نظر انسان کی روح کو آلودہ اور گندھلا بنادیتی ہے اور اسے ایک طولانی مصیبت اور عذاب میں مبتلا کردیتی ہے ۔جیسا کہ روایت میں ہے :

(رُبَّ نظرة تورث حسرة )( ۱ )

''کتنی نگاہوں سے حسرت ہی ہاتھ آتی ہے ''

جبکہ کبھی کبھی یہی نگاہ انسان کی استقامت اور استحکام عمل کا سرچشمہ قرار پاتی ہے بیشک اسلام ہمیں''نگاہ ونظر''سے منع نہیں کرتا ہے بلکہ ہمیں یہ تعلیم دیتا ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے میں ہمارا زاویہ نگاہ کیا ہونا چاہئے!

____________________

(۱) وسائل الشیعہ ج۱۴ص۱۳۸۔فروع کافی ج۵ص۵۵۹۔میزان الحکمت ج۱۰۔

۱۹۷

نفس کے اوپر طرز نگاہ کے اثرات اورنقوش

محبت یا زہددنیا

انسان اپنی زندگی میں کسی چیز کے بارے میں چاہے جو طرز نگاہ اپنا لے اسکے کچھ نہ کچھ مثبت یا منفی (اچھے یا برے )اثرات ضرور پیدا ہو تے ہیں اور انسان اسی زاویۂ دید کے مطابق اسکی طرف قدم ا ٹھاتا ہے اس طرح انسان دنیا کے بارے میں چاہے جو زاو یہ نگاہ رکھتا ہو یا اسے جس زاویہ نگاہ سے دیکھتا ہو اسکے فکر وخیال اور رفتار وکردار حتی اسکے نفس کے اوپر اسکے واضح آثار ونتائج اور نقوش نظر آئیں گے جن میں اس وقت تک کسی قسم کا تغیّریا تبدیلی ممکن نہیں ہے جب تک انسان اپنا انداز فکر تبدیل نہ کرلے ۔

اس حقیقت کی بیحدا ہمیت ہے اوریہ اسلامی نظام تربیت کی ریڑ ھ کی ہڈی کا ایک حصّہ ہے اسی بنیاد پر ہم دنیا کے بارے میںسطحی طرز نگاہ ۔(جو دنیا سے آ گے نہیں دیکھتی )اور جسے مولا ئے کائنات نے ۔(الابصار الی الد نیا)دنیا کو منظور نظر بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے ۔۔۔اور دنیا کے بارے میں عمیق طرز نگاہ جسے امیرالمو منین نے (ابصاربالدنیا)دنیا کو ذریعہ بنا کر دیکھنے سے تعبیر کیا ہے ان دونوں کے نفسیاتی اور عملی اثرات کا جائز ہ پیش کریں گے البتہ ان دونوں نگاہوں کا

سب سے بڑا اثرحب دنیا یا زہد دنیا ہے ۔۔۔کیونکہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے اورزہد دنیا اسکے بارے میں عمیق طرز نگاہ کا فطری نتیجہ ہے ۔

لہٰذا اس مقام پر ہم انسانی زندگی کی ان دونوں حالتوں پر روشنی ڈال رہے ہیں ۔

۱۹۸

حب دنیا

جیسا کہ ہم نے عرض کیا ہے کہ حب دنیا دراصل دنیا کے بارے میں سطحی انداز فکر کا نتیجہ ہے اور اس انداز نگاہ میں ماور ائے دنیا کو دیکھنے کی طاقت نہیں پائی جاتی ہے لہٰذا یہ دنیا کی رنگینیوں اور آسائشوں تک محدود رہتی ہے اور اسی کی طرف متوجہ کرتی رہتی ہے ۔جبکہ زہد وپارسائی،دنیا کے بارے میں باریک بینی اور دقت نظر کا نتیجہ ہے ۔

حب دنیا ہر برائی کا سر چشمہ

انسانی زندگی میں حب دنیا ہی ہر برائی اور شروفساد کا سرچشمہ ہے چنانچہ حیات انسانی میں کوئی برائی اور مشکل ایسی نہیں ہے جسکی کل بنیاد یااسکی کچھ نہ کچھ وجہ حب دنیا نہ ہو!

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(حبّ الدنیا أصل کل معصیة،وأول کل ذنب )( ۱ )

''دنیاکی محبت ہر معصیت کی بنیاد اور ہر گناہ کی ابتدا ہے ''

حضرت علی کا فرمان ہے :

(حبّ الدنیا رأس الفتن وأصل المحن )( ۲ )

____________________

(۱)میزان الحکمت ج۳ص۲۹۴۔

(۲)غرر الحکم ج۱ص۳۴۲۔

۱۹۹

''محبت دنیا فتنوں کا سر اور زحمتوںکی اصل بنیاد ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(رأس کل خطیئة حبّ الدنیا )( ۱ )

''ہر برائی کی ابتدا (سر چشمہ )دنیاکی محبت ہے ''

حب دنیا کا نتیجہ کفر ؟

حب دنیا کا سب سے خطر ناک نتیجہ کفر ہے جیسا کہ قرآن مجید میں محبت دنیا اور کفر کے درمیان موجود رابطہ اور حب دنیا کے خطر ناک نتائج کا تذکر ہ بار بار کیا گیا ہے ۔

۱۔خدا وندعالم کا ارشاد ہے :

( ولکن من شرح با لکفرصدراً فعلیهم غضب من ﷲ ولهم عذاب عظیم ذلک بأنهم استحبوا الحیاة الدنیاعلیٰ الآخرة وأن ﷲ لا یهدی القوم الکافرین ) ( ۲ )

'' لیکن جو شخص کفر کے لئے سینہ کشادہ رکھتا ہو ان کے اوپر خدا کا غضب ہے اور اسکے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔یہ اس لئے کہ ان لوگوں نے زندگانی دنیا کو آخرت پر مقدم کیا اور ﷲ،ظالم قوموں کو ہر گز ہدایت نہیں دیتا ہے ''

اس آیۂ کریمہ میں صرف کفرہی کو حب دنیا کا اثر نہیں قرار دیا گیا ہے بلکہ آیۂ کریمہ نے اس سے کہیں آگے اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ حب دنیا سے کفر کیلئے سینہ کشادہ ہو جاتا ہے اور انسان اپنے کفر پر اطمینان خاطر پیدا کر لیتا ہے اور اسکے لئے کھلے دل (سعہ صدر )کا مظاہر ہ کرتا ہے اور یہ صور تحال کفر سے بھی بدتر ہے ایسے لوگوں پر خدا وند عالم غضبناک ہوتا ہے اور انھیں اپنی رحمت سے دور کر دیتا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الا نوار ج۷۳ص۷ ۔

(۲) سورئہ نحل آیت ۱۰۶۔۱۰۷۔

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

۳۰۱

صحت کا حکم کیا ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا:

" أَنَا دَارُ الْحِكْمَةِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعلمَ فَلْيَأْتِ الْبَابِ."

یعنی میں حکمت کا گھر ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں پس جو شخص حکمت کا طلبگار ہو وہ دروازے کے پاس آۓ۔

محمد بن یوسف گنجی نے کفایت الطالب کے باب21 کو اس حدیث شریف کے لئے مخصوص کردیا ہے۔ اور سلسلہ اسناد کے ساتھ یہ حدیث نقل کرنے کے بعد اپنا تبصرہ اور بیان بھی درج کیا ہے، یہاں تک کہ کہتے ہیں یہ حدیث بہت بلند و بہتر ہے یعنی خداوند عالم نے حکمت و فلسفہ اشیائ نیز امر ونہی اور حلال وحرام کی جو تعلیم پیغمبر(ص) کودی ہے اس میں سے علی علیہ السلام کو بھی مرحمت فرمایا ہے لہذا آں حضرت(ص) نے ارشاد فرمایا کہ علی میری حکمت کے در ہیں (پس اگر تم میری حکمت سے فیض حاصل کرنا چاہتے ہو تو) ان کی طرف رجوع کرو تاکہ حقائق منکشف ہوں۔

ابن مغازلی شافعی نے مناقب میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں اپنے مشائخ سے طرق حدیث کا ذکر کرتے ہوۓ خطیب خوارزمی نے مناقب میں، شیخ الاسلام حموینی نے فرائد میں، دیلمی ن فردوس میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب58 میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب14 میں، اور آپ کے بہت سے اکابر علمائ نے ابن عباس اور جابر ابن عبداللہ انصاری سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام کا بازو پکڑ کے فرمایا۔

" هَذَا أَمِيرُ الْبَرَرَةِ وَ قَاتِلُ الْفَجَرَةِ مَنْصُورٌ مَنْ نَصَرَهُ مَخْذُولٌ مَنْ خَذَلَهُ ثُمَّ مَدَّ بِهَا صَوْتَهُ ثم قَالَأَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ."

یعنی یہ(علی(ع)) نیکو کار انسانوں کا رئیس و سردار اور کافروں کا قاتل ہے، جو شخص اس کی مدد کرے وہ نصرت یافتہ ہے اور جو شخص اس کی تذلیل کرے وہ خود ذلیل و خوار کردیاجاۓ گا۔ پس آں حضرت نے آواز مبارک بلند کی اور فرمایا میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں پس جو شخص میرے علم کا خواہاں ہو وہ دروازے سے آۓ۔

نیز شافعی نے روایت کی ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"انا مدينة العلم‏ و علىّ بابها فمن اراد العلم فليأته من بابه".

یعنی میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کا دروازہ ہیں اور کوئی شخص گھروں کے اندر داخل نہیں ہوتا لیکن دروازے سے۔

صاحب مناقب فاخرہ نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا میں علم کا شہر ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں پس جو شخص علم دین چاہتا ہے اس کو اسی درازے سے آنا چاہیئے۔ اس کے بعد فرمایا میں شہر علم ہوں اور تم

۳۰۲

اے علی(ع( اس کے دروازہ ہو۔ جھوٹا ہے وہ شخص جو یہ سمجھتا ہے کہ بغیر تمہارے ذریعے کے مجھ تک پہنچ جاۓ گا۔

اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں کئی مقامات پر ابواسحق ابراہیم بن سعد الدین محمد حموینی نے فرائد السمطین میں ابن عباس سے، اخطب الخطبائ خوارزمی نے مناقب میں عمرو بن عاص سے، امام الحرم احمد بن عبداللہ شافعی نے ذخائر العقبی میں، امام احمد بن حںبل نے مسند میں، میر سید علی ہمدانی نے مودۃ القربی میں، یہاں تک کہ ابن حجر جیسے متعصب نے صواعق محرقہ باب9 فصل دوم ص75 میں ان چالیس حدیثوں میں سے جو انہوں نے فضائل علی علیہ السلام میں نقل کی ہیں، نویں حدیث بزاز سے، طبرانی نے اوسط میں جابر ابن عبداللہ انصاری سے، ابن عدی نے عبداللہ ابن عمر سے اور حاکم و ترمذی نے علی علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا۔

" أنا مدينة العلم‏ و علي بابها، فمن أراد العلم فليأت الباب."

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں پس جو شخص علم چاہتا ہو وہ دروازے سے آۓ۔

پھر اسی حدیث کے ذیل میں کہتے ہیں کہ کوتاہ عقل لوگوں نے اس حدیث میں پس و پیش کیا ہے اور ایک جماعت نے کہہ دیا کہ یہ حدیث موضوعات میں سے ہے( جیسے ابن جوزی اور نووی) لیکن حاکم(صاحب مستدرک جن کا قول آپ حضرات کے نزدیک سند ہے) نے جس وقت یہ باتیں سنیں تو کہا:ان الحدیث صحیح ۔ یقینا یہ حدیث صحیح ہے۔ انتہی۔

اس قسم کی حدیثیں آپ کی معتبر کتابوں میں کثرت سے وارد ہوئی ہیں، لیکن جلسے کا وقت اس سے زیادہ نقل کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

حدیث کی توضیح

بدیہی چیز ہے کہ حدیث مبارک میں العلم کا الف و لام ، الف و لام جنس ہے یعنی ظاہری و باطنی اور صوری و معنوی حیثیت سے جس چیز پر بھی علم کا اطلاق ہوتا ہے وہ رسول خدا(ص) کے پاس تھ۔ ان سارے علوم کا دروازہ علی علیہ السلام تھے۔

صاحب عبقات الانوار علامہ سید حامد حسین صاحب مرحوم لکھنوی اعلی اللہ مقامہ نے عبقات الانوار کی دو ضخیم جلدیں اس حدیث شریف کے اسناد اور صحت کے بارے میں تالیف کی ہیں جن میں سے ہر جلد صحیح بخاری کے برابر بلکہ اس سے بھی بڑی ہے۔ اس وقت میرے پیشِ نظر نہیں ہے کہ اس حدیث کا تواتر ثابت کرنے کے لئے انہوں نے صرف اکابر علماۓ اہل سنت کی طرف سے کس قدر اسناد پیش کئے ہیں۔ لیکن اتنا بخوبی یاد ہے کہ

۳۰۳

جب میں اس کتاب کو پڑھتا تھا تو برابر اس بزرگِ شخصیت کی روح پرفتوح کے لئے طلب رحمت کرتا رہتا تھا کہ کس قدر زحمت اٹھائی ہے اور کتنا تبحر حاصل تھا بہتر ہوگا کہ آپ حضرات اس کتاب کو حاصل کر کے مطالعہ فرمائیے تاکہ اس بات کی تصدیق کیجئے کہ اصحاب رسول کے اندر علی علیہ السلام کی ذات بے مثال تھی۔

علی علیہ السلام کی خلافت بلافصل کے ثبوت میں جو کھلی ہوئی دلیلیں موجود ہیں ان میں سے ایک یہ حدیث بھی ہے اس لئے کہ باتفاق عقل و نقل ہر قوم و ملت کے اندر عالموں کو جاہلوں پر فوقیت اور حق تقدم حاصل ہے بالخصوص ایسی صورت میں جب رسول اللہ(ص) کا فرمان موجود ہو کہ جو شخص میرے علم سے بہر اندوز ہونا چاہتا ہے اس کو چاہیئے کہ علی کے دروازے پر آۓآپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا یہ مناسب تھا کہ جو باب علم خود پیغمبر(ص) نے امت کے سامنے کھولا تھا لوگ اس کو بند کر کے اپنے حسبِ دل خواہ ایسا دروازہ کھولیں جس کی مراتبِ علمی سے کوئی ربط ہی نہ ہو؟

شیخ: اس حدیث کے بارے میں اور اس موضوع پر کہ یہ حدیث ہمارے علمائ کے نزدیک عام طور سے مبقول ہے کافی بحث ہوچکی، اس میں شبہ نہیں کہ بعض نے اس کو ضعیف اور خبر واحد کہا ہے تو بعضوں کے نزدیک یہ تواتر کی حد تک پہنچی ہوئی ہے، لیکن اس کو علم لدنی سے اور اس بات سے کیا ربط ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ علم غیب کے عالم اور باطنی امور سے آگاہ تھے؟

علی علیہ السلام عالم غیب تھے

خیر طلب: یا تو آپ میرے معروضات اور دلائل پر توجہ نہیں کرتے یا محض مخالفت کے جذبے میں مغالطہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔

کیا میں پہلے عرض نہیں کرچکا ہوں کہ جیسا آپ کو خود اعتراف ہے پیغمبر خاتم الانبیاء(ص) سارے خلقت میں مرتضی اور برگزیدہ تھے اور بحکم آیہ مبارکہ:

"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏"

یعنی وہ عالم الغیب ہے، پس اپنے غیب سے کسی کو آگاہ نہیں کرتا سوا اس رسول کے جس کو مرتضی اور برگزیدہ کیا ہے۔

خداوند عالم نے آں حضرت(ص) کی نگاہوں کے سامنے سے پردے ہٹا دیے تھے اور بطور استثنائ آں حضرت(ص) کو علوم غیبی عنایت فرماۓتھے؟ پس من جملہ ان علوم کے جو آپ کے شہر وجود میں جمع تھے عالم وجود کے اسرار و غیوب کا علم و وقوف بھی تھا۔ چنانچہ اس خداداد قوت کے اثرت سے جملہ باطنی امور آں حضرت کے پیشِ نظر تھے اور آں حضرت(ص)

۳۰۴

کے ارشاد کے مطابق جس کو ہم اور آپ اور سارے اکابر علماۓاہل سنت جن میں سے بعض کا حوالہ بھی دے چکا ہوں تسلیم کرتے ہیں کہ فرمایا:

"انا مدينة العلم‏ و على بابها، "

( میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے دروازہ ہیں۔)

لہذا ان تمام علوم میں سے جو آں حضرت(ص) کے شہر وجود میں اکٹھا تھے اور باب علم( علی علیہ السلام) کے ذریعہ ان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے، حالات غیب پر علم و اطلاع بھی ہے، اور قطعا علی علیہ السلام اسرار کائنات اور امورِ باطنی سے اسی طرح باخبر تھے جس طرح ظاہری احکام و حقائق سے۔

چونکہ اس خاندان جلیل کی بنیاد علم قرآن مجید کے اوپر تھی لہذا رسول خدا(ص) کے بعد قرآن کے ظاہری و باطنی علوم کے جاننے والے بھی علی علیہ السلام تھے، جیسا کہ خود آپ کے اکابر علمائ نے اس حقیقت کی تصدیق کی ہے۔

علی(ع) قرآن کے ظاہر و باطن سے آگاہ تھے

من جملہ ان کے حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص656 میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب74 ؟؟؟؟؟؟؟ میں اور سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودت باب14 ص74 میں فصل الخطاب سے بسند معتبر عبداللہ ابن مسعود کاتب وحی سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

"إن‏ القرآن‏ أنزل‏ على سبعة أحرف ما منها إلا و له ظهر و بطن و إن علي بن أبي طالب ع علم الظاهر و الباطن."

یعنی حقیقتا قرآن سات حرفوں پر نازل ہوا ہے جس کے ہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن اور یقینا علی علیہ السلام کے پاس قرآن کے ظاہر و باطن کا علم ہے۔

پیغمبر(ص) نے سینہ علی(ع) میں علم ک ہزار باب کھولے

آپ کے بڑے بڑے علمائ نے اپنی معتبر کتابوں میں تصدیق کی ہے کہ علی علیہ السلام علمِ لدنی کے حامل تھے ۔ کیونکہ آپ رسول اللہ(ص) کے بعد ساری مخلوق میں مرتضی تھے۔ من جملہ ان کے ابو حامد غزالی نے کتاب بیان علم لدنی میں نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا، رسول خدا(ص) نے اپنی زبان میرے دہن میں دی۔ پس آں حضرت(ص) کے لعابِ دہن سے مجھ پر علم کے ایک ہزار باب کھل گئے اور ہر باب سے مزید ایک ایک ہزار باب کشادہ ہوۓ۔

۳۰۵

آپ کے بزرگ پیشوا سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب14 میں ص77 میں، اصبع ابن نباتہ سے نقل کرتے ہٰن کہ انہوں نے کہا میں نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے سنا کہ آپ فرماتے تھے:

"إنّ‏ رسول‏ اللّه‏ علّمني‏ ألف باب من الحلال و الحرام، و ممّا كان و ما هو كائن و ممّا يكون إلى يوم القيامة، كلّ يوم يفتح ألف باب، فذلك ألف ألف باب، حتّى علمت المنايا و الوصايا و فصل الخطاب."

یعنی در حقیقت رسول خدا(ص) نے مجھ کو ایک ہزار باب تعلیم کئے جن میں ہر باب سے ایک ایک ہزار باب کشادہ ہوتے ہیں، پس یہ ہزار ہزار(یعنی دس لاکھ) باب ہوۓ۔ یہاں تک کہ میں نے جان لیا جو کچھ ہوچکا ہے اور جو کچھ روز قیامت تک ہونے والا ہے نیز اموات و آفات اور سچے فیصلہ کا علم۔

اور اسی باب میں ابن مغازلی فقیہ شافعی سے انہیں کی سند کے ساتھ ابوالصباح سے، وہ ابن عباس سے اور وہ رسول اکرم صلعم سے نقل کرتے ہیں کہ فرمایا:

" فلما صرت بين يدي ربي كلمني‏ و ناجاني‏ فما علمني شيئا إلا علمه عليافهوباب علمی"

یعنی شب معراج جب میں مقام قرب خدا میں پہنچا تو خدا نے مجھ سے کلام اور رازدارانہ گفتگو کی پس جو کچھ بھی مجھ کو معلوم ہوا وہ سب میں نے علی(ع) کو سکھا دیا، پس وہ میرے باب علم ہیں۔

نیز اسی حدیث کو اخطب الخطباء موفق ابن احمد خوارزمی سے اس طریقے پر نقل کرتے ہیں کہ آں حضرت(ص) نے فرمایا:

" أَتَانِي جَبْرَئِيلُ عَلَيْهِ السَّلَامُ بِدُرْنُوكٍ مِنْ دَرَانِيكِ الْجَنَّةِ فَجَلَسْتُ عَلَيْهِ، فَمَا صِرْتُ بَيْنَ يَدَيْ رَبِّي، وَ كَلَّمَنِي‏وَنَاجَانِي‏ بِمَا عَلِمْتُ مِنَ الْأَشْيَاءِ، فَمَا عَلِمْتُ شَيْئاً، إِلَّا عَلَّمْتُهُ ابْنَ عَمِّي عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَهُوَ بَابُ مَدِينَةِ عِلْمِي ثم دعاه الیه فقال یا علی سلمک سلمی و حربک حربی و انت العلم فیما بینی وبین امتی ."

یعنی جبرئیل میرے پاس جنت کی ایک بساط لے کر آۓ پس میں اس کے اوپر بیٹھا یہاں تک کہ اپنے پروردگار کے قرب میں پہنچا تو اس نے مجھ سے کلام کیا اور مجھ سے راز کی با تیں کیں پس میں نے کچھ معلوم کیا سب علی(ع) کو بتادیا، چنانچہ وہ میرے باب علم ہیں۔ اس کے بعد علی(ع) کو بلایا اور کہا اے علی تمہارے ساتھ صلح میرے ساتھ صلح اور تم سے جنگ مجھ سے جنگ کرنا ہے اور تم میرے اور میری امت کے درمیان میرے نشان ہو۔

اس بارے میں امام احمد ابن حنبل، محمد ابن طلحہ شافعی، اخطب الخطباء خوارزمی، ابوحامد غزالی، جلال الدین سیوطی، امام احمد ثعلبی اور میر سید علی ہمدانی وغیرہ آپ کے اکابر علماء سے بکثرت حدیثیں مروی ہیں جن میں مختلف طرق اور الفاظ و عبارات کے ساتھ منقول ہے کہ رسول اکرم(ص) نے علم کے ہزار باب جن کے ہر باب سے اور ایک ایک ہزار باب منکشف ہوتے ہیں علی علیہ السلام کے سینے میں ودیعت فرماۓ۔

۳۰۶

اورحافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیائ میں، مولوی علی متقی نے کنزالعمال جلد ششم نمبر294 اور ابو یعلی نے کامل بن طلحہ سے انہوں نے ابن الہیعہ سے انہوں نے حی بن عبد مغافری سےانہوں نے عبدالرحمان جبلی سے اور انہوں نے عبداللہ بن عمر سے روایت کی ہے کہ رسول ِ خدا(ص) نے اپنے مرض الموت میں ارشاد فرمایا:

"ادعوا لي أخي! فجاء أبا بكر، فأعرض عنه!.ثمّ قال: ادعوا لي أخي! فجاء عثمان، فأعرض عنه!ثمّ دعی له عليّ فستره بثوب و أكبّ عليه فلمّا خرج‏ من‏ عنده‏ قيل له: ما قال؟قال: علّمني ألف باب، يفتح لي من كلّ باب ألف باب»

یعنی میرے بھائی کو میرے پاس بلاؤ، پس ابوبکر آۓ تو آں حضرت(ص) نےان کی طرف سے منہ پھیر لیا، پھر فرمایا میرے پاس میرے بھائی کو بلاؤ، پس عثمان آۓ تو آں حضرت(ص) نے ان کی طرف سے بھی منہ پھیر لیا، دوسری روایتوں میں ہے کہ ابوبکر کے بعد عمر آۓ اور ان کے بعدعثمان) پھر علی(ع) بلاۓ گئے تو آں حضرت(ص) نے ان کو اپنے کپڑوں میں چھپا لیا اور ان کے اوپر سر نہوڑالیا۔ جن آپ خدمت رسول سے باہر آۓ تو لوگوں نے پوچھا یا علی(ع) پیغمبر(ص) نے تم سے کیا کہا؟ آپ نے فرمایا مجھ کو علم کے ایک ہزار باب تعلیم کئے جن میں سے ہر ایک باب ایک ایک ہزار باب کھولتا ہے۔

حافظ ابونعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ430ہجری نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص65 فضائل علی(ع) میں، محمد جزوی نے اسنی المطالب ص14 میں اور محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب28 میں اسناد کے ساتھ احمد بن عمران بن سلمہ بن عبداللہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا ہم رسول اللہ(ص) کے پاس حاضر تھے پس علی ابن ابی طالب(ع) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"قُسِّمَتِ‏ الْحِكْمَةُ عَشَرَةَ أَجْزَاءٍ فَأُعْطِيَ عَلِيٌّ تِسْعَةَ أَجْزَاءٍ وَ النَّاسُ جُزْءاً وَاحِداً."

یعنی حکمت کے دس حصے کئے گئے جن میں سے نو حصے علی(ع) کو اور باقی ایک تمام انسانوں کو عطا ہوا۔

ابوالموید موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں اور مولوی علی متقی نے کنزالعمال جلد پنجم ص156 و ص400 میں بہت سے اکابر علمائ سے ابن مغازلی فقیہ شافعی نے فضائل میں اور سلیمان بلخی نے ینابیع المودت باب14 میں انہیں اسناد کے ساتھ(کاتب وحی) عبداللہ ابن مسعود سے اور محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص21 میں حلیتہ اور علقمہ بن عبداللہ سے نقل کرتے ہوۓ روایت کی ہے کہ رسول اللہ(ص) سے علی(ع) کے بارے میں سوال کیا گیا تو آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"قسّمت‏ الحكمة عشرة اجزاء فاعطي عليّ تسعة اجزاء و النّاس جزء واحدا و عليّ اعلم بالجزء الواحد منهم) وهواعلم بالعشرالباقی".

یعنی حکمت دس حصوں پر تقسیم کی گئی جن میں سے علی(ع) کو نو حصےعطا ہوۓ اور تمام انسانوں کو ایک حصہ ملا، اور

۳۰۷

علی اس دسویں حصے کے بھی سب سے زیادہ عالم ہیں۔

نیز ینابیع المودت کے اسی باب میں شرح رسالہ" فتح المبین" ابو عبداللہ محمد بن علی الحکیم ترمذی سے بروایت ( امام المفسرین وجہ مت) عبداللہ بن عباس نقل کرتے ہیں کہ:

"العلم‏ عشرة اجزاء،لعلىّ تسعةاجزاء والنّاس عشرةالباقی و هو اعلمه به."

یعنی علم کے دس حصے ہیں نو حصے علی کے لئے اور باقی دسواں حصہ سارے انسانوں کے لئے اور علی(ع) اس ایک جز کے بھی سب سے بڑے عالم ہیں۔

اور متقی ہندی کنزالعمال جلد ششم ص153 میں، خطیب خوارزمی مناقب ص49 اور مقتل الحسین جلد اول ص43 میں، دیلمی فردوس الاخبار میں اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب10 میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا:

" اعلم امتی من بعدی علی ابن ابی طالب"

یعنی میرے بعد میری امت میں سب سے زیادہ علم و دانا علی ابن ابی طالب(ع) ہیں۔

علی(ع) کو علمِ رسول(ص) کی تفویض

پا ان مشتے ازخروارے حدیثوں سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ(ص) ساری مخلوق میں مرتضی اور عالم غیب تھے اور ظاہر و باطن کا جو علم مبدا فیاض سے حاصل کیا تھا وہ علی علیہ السلام کو تفویض کردیا تھا۔ ہم یہ نہیں کہتے کہ علی ابن ابی طالب(ع) اور آپ کی اولاد سے گیارہ ائمہ علیہم الصلوۃ و السلام کا ایک پیغمبر(ص) کے مانند پروردگار عالم سے بصورت وحی کوئی مستقل اور براہ راست سلسلہ تھا بلکہ قطعی اور یقینی طور سے یہ اعتقاد رکھتے ہیں کہ مبدا فیاض کی طرف سے جو فیضان ہوتا تھا اس کا مرکز حضرت خاتم الانبیائ(ص) کی ذات اقدس تھی آں حضرت کی زندگی میں اور بعد وفات تمام موجودات کو اور بالخصوص ہمارے ائمہ اثنا عشریہ علیہم السلام کو جس قدر فیض پہنچایا پہنچ رہا ہے وہ حق تعالی کی جانب سے حضرت رسولِ خدا صلعم کے ذریعے پہنچا ہے۔ غرضی کہ سارے علوم اور گذشتہ و آئندہ زمانے کے اہم واقعات و حالات پیغمبر(ص) کے حیات ہی میں ان حضرت کو خداۓ تعالی کی طرف سے بتاۓ جاتے تھے جن میں سے کچھ باتیں جب آںحضرت(ص) اس دنیا سے رخصت ہونے والے تھے آپ کو تفویض فرمادیا۔ جیسا کہ اس بارے میں(علاوہ شیعوں کے معتبر روایات کے) خود آپ کے اکابر علماء کے طرف سے بکثرت روایتیں منقول ہیں جن میں سے ایک نمونہ پیش کیا گیا۔ چنانچہ آپ کے علماء نے ام المومنین عائشہ سے ایک مفصل حدیث نقل کی ہے جس کے آخر میں کہتیہیں کہ پیغمبر(ص) نے علی(ع) کو بلایا اور ان کو اپنے سینے سے چپکا لیا اور سر سے چادر اوڑھ لی۔ میں اپنا سرقریب لے گئی اور ہرچند کان لگاۓ لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ جس وقت علی(ع) نے سر اٹھایا تو ان کی پیشانی سے پسینہ جاری تھا۔ لوگوں نے کہا یا علی(ع) پیغمبر(ص) اتنی

۳۰۸

طولانی مدت تک آپ سےکیا کہتے رہے؟ آپ نے کہا:

"قد علّمني‏ رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و سلّم ألف‏ باب‏ من العلم يفتح كلّ باب ألف باب."

یعنی در حقیقت رسول خدا(ص) نے مجھ کو علم کے ہزار باب تعلیم فرماۓ جن میں ہر باب سے اور ایک ہزار باب کھلتے ہیں۔

بعثت کی ابتدا ہی میں( جیسا کہ اس کی پوری تفصیل گذشتہ راتوں میں عرض کرچکا ہوں) جب رسول اللہ(ص) نے اپنے عم محترم جناب ابوطالب کے گھر میں اپنے چالیس قریبی اعزہ کی دعوت کی اور ان کو رسالت کا پیغام پہنچایا تو علی علیہ السلام پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے اپنا ایمان ظاہر کیا۔ پیغمبر(ص) نے ان کو بغل میں لیا اور اپنا لعاب دہن ان کے منہ میں ڈالا۔ چنانچہ علی علیہ السلام فرماتے ہیں کہ اسی وقت علوم کے چشمے میرے سینے میں پھوٹ نکلے۔ چنانچہ آپ کے بڑے بڑے علماء نے نقل کیا ہے کہ آپ نے بر سرمنبر خطبہ دیتے ہوۓ اسی مفہوم کی طرف اشارہ کیا ہے کہ فرمایا:

"سلوني‏ قبل‏ أن تفقدوني، فإنما بين جوانحي علم جم"

یعنی مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ۔ کیونکہ سوا، اس کے نہیں ہے کہ میرے سینے کے اندر بے پناہ علم موجود ہے۔

اس کے بعد اپنے شکم مبارک کی طرف اشارہ کرتے ہوۓ فرمایا:

" هَذَا سَفَطُ الْعِلْمِ هَذَا لُعَابُ‏ رَسُولِ‏ اللَّهِ‏ صلی الله علیه وآله هَذَا مَا زَقَّنِي رَسُولُ اللَّهِ زَقّاً زَقّاً "

یعنی یہ علم کا مخزان ہے۔ یہ رسول اللہ(ص) کالعاب دہن ہے یہ ہے وہ جو رسول خدا(ص) نے مجھ کو دانے کی طرح بھرایا ہے۔

اورآں حضرت(ص) اپنے وقتِ وفات تک مختلف طریقوں سے علی علیہ السلام پر برابر فیض ربانی کا اضافہ فرماتے رہے اور مبدا فیاض غیب الغیوب سے جو کچھ حاصل ہوتا رہا وہ علی علیہ السلام کے سینے میں ودیعت فرماتے رہے۔

نورالدین ابن صباغ مالکی فصول المہمہ میں کہتے ہیں کہ پیغمبر خاتم النبیین(ص) نے بچپن ہی سے علی کو ا پنے آغوشِ محبت میں علمی اور عملی تربیت دی۔

جفر جامعہ اور اس کی کیفیت

جن طریقوں سے من جانب خدا اور خاتم الانبیائ(ص) کے وسیلے سے علی علیہ السلام پر فیوض ربانی کا فیضان ہوا۔ ان میں سے ایک جفر جامعہ تھا جو حروف رمز کے ساتھ علم ماکان وما یکون پر مشتمل ایک صحیفہ اورکتاب تھی۔ جس کے لئے خود

۳۰۹

آپ کے بزرگ علمائ بھی معترف ہیں کہ وہ کتاب اور علم حضرت علی اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین کے مخصوصات میں سے تھا۔

چنانچہ حجتہ الاسلام ابوحامد غزالی نے لکھا ہے کہ امام المتقین علی ابن ابی طالب(ع) کے لئے ایک کتاب ہے جس کا نام ہے جفر جامع الدنیا والاخرۃ اور وہ کتاب تمام علوم و حقائق، وقائق و اسرار حالات غیب، خواصِ اشیائ اثراتِ مافی العالم اور خواص اسماء و حروف پر مشتمل ہے جس سے سوا آپ کے اور آپ کے ان گیارہبزرگوار فرزندوں کے جو بنص رسول خدا(ص) امامت و ولایت کے منصب پر فائز ہیں اور کوئی شخص آگاہی نہیں رکھتا، کیونکہ یہ چیز ان حضرات کو وراثت میں ملی ہے۔ اسی طرح سلیمان بلخی نے ینابیع المودت ص403 میں درالنظم محمد بن طلحہ حلبی شافعی سے اس بارے میں ایک مبسوط تشریح نقل کی ہے کہ جفر جامع مفاتیح علوم کے سلسلہ میں ایک ہزار سات سو صفحات پر مشتمل اور امام علی ابن ابی طالب(ع) سےمخصوص ہے۔ لہذا ایک مشہور شاعر نے ان بزرگوا کی مدح میں کہا ہے۔

من مثله کان ذا جفرو جامعة له قدون سر الغیب تدوینا

یعنی کون ہے ان کے مانند جو جفر جامعہ کے حامل تھے۔ اس کتاب میں اسرار غیب کی تدوین کی گئی ہے۔

نیز تاریخ نگارستان میں شرح مواقف سے نقل کرتے ہیں۔

" ان‏ الجفر و الجامعة كتابان لعلى عليه السلام قد ذكر فيهما على طريقة علم الحروف الحوادث الى انقراض العالم و كان الأئمّة المعروفون من أولاده يعرفونها و يحكمون بها "

یعنی حقیقتا جفر اور جامعہ دو کتابین ہیں جو علی(ع) کے لئے مخصوص ہیں، ان میں علم حروف کے طریقہ پر اختتام عالم تک سارے حادثات کا ذکر ہے۔ اور آپ کی اولاد انہیں کتابوں کے ذریعہ حکم کرتی ہے۔( مطلب یہ کہ ان کتابوں کے رموز و علوم کے حامل صرف علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد ہے۔)

نواب: قبلہ صاحب کتاب جفر جس کے لئے آپ فرماتے ہیں کہ ہمارے علمائ بھی اس کی تصدیق کرتے ہیں کیا چیز ہے اور کیسی ہے۔ گذارش ہے کہ اگر مناسب ہوتو اس کی کیفیت بیان فرمائیے۔

خیر طلب: وقت تنگ ہے اس وجہ سے اس علم اور کتاب کی تشریح اور تفصیل سے معذور ہوں۔

نواب: جس قدر ممکن ہو مفصل تشریحات کا خلاصہ ہی بیان فرمادیجئے۔

خیر طلب: ہجرت کے دسویں سال حجتہ الوداع سے واپسی کے بعد جبرئیل امین آۓ اور رسول اللہ(ص) کو موت کی خبر دی کہ اب آپ کی عمر ختم ہور ہی ہے۔ آں حضرت(ص) نے درگارہ واہب العطایا میں دستِ مبارک بلند کئے اور عرض کیا۔

"اللَّهُمَّ وعدتک التی وَعَدْتَنی إِنَّكَ‏ لا تُخْلِفُ‏ الْمِيعادَ."

۳۱۰

خداوندا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے اور تو ہرگز وعدہ خلافی نہیں کرتا۔

خدا کی طرف سے خطاب ہوا کہ علی(ع) کو لے جائیے اور کوہ احد پر پشت بقبلہ بیٹھ کر صحرائی جانوروں کو آواز دیجئے وہ آپ کی آواز پر لبیک کہیں گے، ان میں ایک سرخ رنگ کی بڑی بکری ہے جس کے سینگ تھوڑے تھوڑے ابھرے ہیں، علی(ع) کو حکم دیجئے کہ اس کو ذبح کر کے گردن کی طرف سے اس کی کھال اتاریں اور اس کو الٹ دیں۔ تو وہ دباغت کی ہوئی ملے گی، اس وقت جبرئیل دوات و قلم اور روشنائی لے کر آئیں گے جو زمین کی روشنائی سے الگ ہوگی، جو کچھ جبرئیل کہیں آپ علی(ع) سے کہئے کہ اس کو لکھ لیں، وہ تحریر اور کھال اسی طرح باقی رہے گی اور ہرگز بوسیدہ نہ ہوگی، وہ ہمیشہ محفوظ رہے گی اور جس وقت کھولی جاۓ گی تازہ ہوجاۓ گی۔

رسولِ خدا صلعم نے کوہ احد پر اسی ہدایت کے مطابق عمل فرمایا، جبرئیل آۓ اور آں حضرت(ص) کے سامنے قلم دوات پیش کی، آں حضرت(ع) نے علی(ع) کو حکم دیا کہ عمل کے لئے مستعد ہوجائیں، اس کے بعد جبرئیل خداوند جلیل کی جانب سے عالم کی جزو کل اہم واقعات پیغمبر(ص) کے سامنے بیان کرتے جاتے تھے اور پیغمبر(ص) علی(ع) سے فرماتے تھے آپ اس کھال پر لکھتے جاتے تھے، یہاں تک کہ ہاتھوں اور پاوؤں کی باریک کھال پر بھی لکھا اور اس نوشتے میں درج ہوگیا۔

"کلمَا كَانَ وَ مَا هُوَ كَائِنٌ‏ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "

یعنی جو کچھ ہوچکا تھا اور جو کچھ ہونےوالا تھا روز قیامت تک۔

آپ نے ہرچیز لکھ دی حتی کہ اپنی اولاد و احفاد اور ان کے دوستوں اور دشمنوں کے نام اور ہر ایک کے اوپر روز قیامت تک جو کچھ گزرنے والا تھا سب ہی کچھ اس کتاب میں درج کردیا۔

پھر خاتم الانبیاء(ص) نے وہ مکتوب اور علم جفر علی علیہ السلام کو دیا اور وہ اسباب وراثت اور ولایت و امامت کا ایک جزئ قرار دیا۔ چنانچہ جو امام دنیا سے جاتا ہے وہ اس کو اپنے ہونے والے امام معلوم کے سپرد کر کے جاتا ہے یہ وہی کتاب ہے جس کے متعلق ابوحامد غزالی کہتے ہیں کہ جفر جامعہ ایک کتاب ہے جو علی(ع) اور آپ کے گیارہ فرزندوں کے لئے مخصوص ہے اور اس میں ہرچیز موجود ہے۔

" من‏ علم‏ المنايا و البلايا والقفایا و فصل الخطاب."

یعنی علم اموات و بلایا، احکام اور برحق باتیں۔

نواب: یہ کیونکر ممکن ہے کہ روز قیامت تک کے سارے واقعات اور علوم بکری کی ایک کھال پر لکھ دیئے گئے ہوں؟

خیرطلب: اول تو اس روایت کا اندازہ بتاتا ہے کہ بکری کوئی معمولی نہیں تھی بلکہ بہت بڑی اور اسی مقصد کے لئے پیدا کی گئی تھی۔ دوسرے کتابوں اور رسالوں کے طریقے سے نہیں لکھا گیا بلکہ حروف رمز و اشارات کی صورت میں تحریر کیا گیا۔ چنانچہ میں پہلے ہی عرض کرچکا ہوں کہصاحب تاریخ نگارستان نے شرح مواقف سے نقل کیا ہے کہ "قدذکر فیهما علی طریقة علم الحروف " یعنی جفر اور جامعہ میں علم الحروف کے طریقے

۳۱۱

پر ذکر کیا گیا ہے۔

اس کے بعد اس رمز کی مفتاح اور کنجی رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام کو عطا فرمائی اور آپ نے آں حضرت(ص) کے حکم سے اپنےبعد آنے والے آئمہ کو دی۔

جس شخص کے پاس وہ کلید ہو وہی اس کتاب سے اسرار و حوادث کا استخراج کرسکتا ہے ورنہ مجبور و عاجز رہے گا۔ جس طرح کوئی بادشاہ اپنے وزیر یا والیان و حکام، سرداران لشکر اور افسران فوج کو جنہیں صوبوں اور ریاستوں کی طرفبھیجتا ہے، حروف یا اعداد کی صورت میں ایک خفیہ تحریر سپرد کرتا ہے اور اس مکتوب کی مفتاح وکلید صرف بادشاہ اور اس وزیر یا والی و حاکم اور سردار فوج ہی کےپاس ہوتی ہے، کیونکہ وہ تحریر بغیر کلید کے اگر کسی کے ہاتھ آبھی جاۓ تو وہ اس سے کچھ معلوم نہیں کرسکتا ۔ اسی طرح سے کتاب جفر جامعہ ہے جس سے امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کی اولاد میں سے گیارہ اماموں کے علاوہ اور کوئی شخص مطلب کا استخراج نہیں کرسکتا۔

چنانچہ ایک روز حضرت امیرعلیہ السلام نے جب آپ کے سارے فرزند اکٹھا تھے وہ جلد اپنے فرزند محمد حنفیہ کو دی لیکن وہ ( باوجودیکہ بہت عالم و دانا تھے) اس میں سے کچھ بھی نہیں سمجھ سکے۔(1)

اکثر احکام اور اہم واقعات جن کی خبر آئمہ معصومین علیہم السلام دیا کرتے تھے، اسی کتاب سے تھے یہ حضرات کلیات وجزئیات امور سے با خبر تھے اور اپنے اور اپنے اہلبیت(ع) اور شیعوں کے اوپرپڑنے والے مصائب و آلام کو اسی کتاب سے استخراج فرماتے تھے، جیسا کہ کتب اخبار میں مکمل اور مفصل طریقے سے درج ہے۔

عہد نامہ ماموں امام رضا(ع)کا اپنی موت کی خبر دینا

شرح مواقف میں مامون الرشید عباسی اور امام ہشتم حضرت علی رضا علیہ السلام کے عہد نامے کاقضیہ درج ہے کہ جب مامون نے امام رضا علیہ السلام کو چھ مہینے کی خط و کتابت اور دھمکی دینے کے بعد اپنے ولی عہدی قبولکرنے پر مجبور کیا تو ایک عہدنامہ لکھا گیا اور مامون نے اس کے اس مضمون پر دسخط کیا کہ اس کے مرنے کے بعد خلافت حضرت

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

1 ۔ چونکہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام علم خدا داد سے جانتے تھے کہ میرے بعد چند بازیگر لوگ میرے آزاد کردہ غلام کیسانی کے بہکانے سے میرے فرزند محمدحنفیہ کی امامت کے قائل ہوجائیں گے، لہذا گویا آپ نے اس امتحان کے ذریعہ پہلے ہی یہ ثابت کردینا چاہا کہ محمد حںفیہ منصب امامتکے اہل نہیں ہیں۔ یعنی اگر امامت پرفائز ہوۓتو ان کے پاس کتاب جفر کی کلید کا ہونا ضروری تھا۔

۳۱۲

رضا علیہ السلام کی طرف منتقل ہوگی۔ جب کاغذ امام رضا علیہ السلام کے سامنے پیش کیا گیا تو آپ نے اپنے دستخط سے مندرجہ ذیل عبارت تحریر فرمائی۔

" أَقُولُ وَ أَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ إِنَّ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَضَدَهُ‏ اللَّهُ‏ بِالسَّدَادِ وَ وَفَّقَهُ لِلرَّشَادِ عَرَفَ مِنْ حَقِّنَا مَا جَهِلَهُ غَيْرُهُ فَوَصَلَ أَرْحَاماً قُطِعَتْ وَ آمَنَ أَنْفُساً فَزِعَتْ بَلْ أَحْيَاهَا وَ قَدْ تَلِفَتْ وَ أَغَنْاهَا إِذِ افْتَقَرَتْ مُبْتَغِياً رِضَا رَبِّ الْعَالَمِينَ لَا يُرِيدُ جَزَاءً مِنْ غَيْرِهِ‏ وَ سَيَجْزِي اللَّهُ الشَّاكِرِينَ‏ وَ لا يُضِيعُ أَجْرَ الْمُحْسِنِينَ‏ فَإِنَّهُ جَعَلَ إِلَيَّ عَهْدَهُ وَ الْإِمْرَةَ الْكُبْرَى إِنْ بَقِيتُ بَعْدَهُ "

یعنی میں علی ابن موسی جعفر(علیہم السلام) کہتا ہوں کہ مومنین کے فرمانبردار(مامون الرشید) نے خدا اس کو راستی پر قائم رکھے اور اس کو ر شید و ہدایت کی توفیق دے، ہمارے اس حق کو پہچانا جس کو دوسروں نے نہیںپہچانا، پس ان رشتوں کو جوڑا جن کو قطع کردیا گیا تھا اور ان نفوس کو امن و اطمینان دیا جو خوف زدہ تھے بلکہ ان کو زندگی بخشی جب وہ گویا فنا گھاٹ اترچکے تھے اور ان کو خوش حال بے نیاز بنایا جب وہ پریشان حال تھے تاکہ پروردگار کی رضامندی حاصل ہو۔ اور عنقریب خدا شکر گذاروں کو جزا عنایت کرے گا اور وہ نیکو کاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔ یقینا اس نے مجھ کو اپنا ولی عہد بنایا ہے اور زبردت امارت سپرد کی ہے بشرطیکہ میں اس کے بعد زندہ رہوں۔

یہاں تک کہ اس مضمون کے آخر میں تحریر فرمایا:

"ولکنالجفر و الجامعة يدلان على ضد ذلك او «ما أَدْرِي ما يُفْعَلُ بِي وَ لا بِكُمْ‏ إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ يَقُصُّ الْحَقَّ وَ هُوَ خَيْرُ الْفاصِلِينَ."

لیکن جفر اور جامعہ اس بات کے خلاف دلالت کرتے ہیں (یعنی میں اس کے بعد تک زندہ نہیں رہوں گا) اور میں خود سے نہیں جانتا کہ میرے اور تمہارے ساتھ کیا برتاؤ ہوگا، حکم دینا تو صرف اللہ کا کام ہے جو بالکل سچا حکم دیتا ہے اور وہ سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے۔

اور سعد بن مسعود بن عمر تفتازانی شرح مقاصد الطالبین فی علم اصول الدین میں عہد نامے کے اندر حضرت کے قلم سے نکلے ہوۓ جفر جامعہ کے جملے پر اپنے مفصل بیان میں اشارہ کرتے ہیں کہ مقصد یہ ہے کہ علم جفر و جامعہ کے مطابق اپنے عہد پر قائم نہیں رہے گا۔ چنانچہ ہم نے دیکھ لیا کہ جو کچھ ہونا تھا ہوا اور اس پیغمبر(ص) کے فرزند پارہ جگر کو زہر جفا سے شہید کردیا۔ حضرت کی صداقت اور علم کی سچائی ظاہر ہوگئی اور سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ جلیل القدر خاندان تمام ظاہری و باطنی امور سےبا خبر ہے۔

۳۱۳

جبرئیل کا وصی رسول(ص) کے لئے ایک مہر کی ہوئی کتاب لانا

رسول اللہ(ص) کے ذریعہ جن طریقوں سے علی علیہ السلام کو فیوض حاصل ہو ۓ ان میں ایک مہر کی ہوئی کتاب بھی ہے جو جبرئیل حضرت کے لئے لاۓ تھے۔

چنانچہ مقبول فریقین محقق و مورخ علامہ ابوالحسن علی بن الحسین مسعودی کتاب اثبات الوصیہ ص92 میں تفصیل سے نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے۔

" أنزل اللّه جل و علا إليه من السماء كتابا مسجّلا نزل به جبرئيل عليه السّلام مع امناء الملائكة "

یعنی جبرئیل امناء ملائکہ کے ہمراہ خداۓ عزوجل کی جانب سے ایک مہر شدہ کتاب پیغمبر(ص) کے پاس لاۓ اور عرض کیا کہ جو لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہیں وہ علاوہ آپ کے وصی کے یہاں سے باہر چلے جائیں تاکہ میں کتاب وصیت کو پیش کروں۔

"فأمر رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله من كان عنده في البيت بالخروج ما خلا أمير المؤمنين‏ عليه السّلام و فاطمة و الحسن و الحسين عليهم السّلام فقال جبرئيل: يا رسول اللّه ان اللّه يقرأ عليك السلام و يقول لك: هذا كتاب بما كنت عهدت و شرطت عليك و اشهدت عليك ملائكتي و كفى بي شهيدا.فارتعدت مفاصل سيّدنا محمّد صلّى اللّه عليه و آله فقال: هو السلام و منه السلام و إليه يعود السلام"

یعنی پس رسول اللہ نے امیرالمومنین فاطمہ اور حسن و حسین علیہم السلام کے علاوہ جملہ حاضرین کو گھر سے باہر جانے کا حکم دیا جبرئیل نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) خدا آپ کو سلام کہتا ہے اور فرماتا ہے کہ یہ وہ تحریر ہے جس پر میں نے تم سے یہ عہد و پیمان کیا ہے اور اپنے ملائکہ کو گواہ بنایا ہے اور میں بھی گواہ ہوں۔ پس حضرت رسول خدا(ص) کا جسم کانپنے لگا اور آں حضرت(ص) نے فرمایا وہی ہے سلام اور اسی کی طرف سے سلام ہے اور اسی کی طرف بازگشت ہے سلام کی۔

اس کے بعد وہکتاب جبرئیل سے لے کر پڑھی اور علی(ع) کو دے کر فرمایا یہ میری طرف میرے پروردگار کا عہد اور اس کی امانت ہے جس کو میں نے یقینا ادا کردیا اور خدا کا پیغام پہنچا دیا۔

امیرالمومنین(ع) نے عرض کیا میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوجائیں میں بھی اس تبلیغ و نصیحت کی اور جو کچھ آپ نے فرمایا ہے۔ اس کی سچائی پر گواہی دیتا ہوں اور اس حقیقت پر میرے کان، آنکھ، گوشت اور خون سبھی گواہ ہیں۔

۳۱۴

اس وقت آں حضرت(ص) نے علی علیہ السلام سے فرمایا، لو یہ پروردگار کی جانب سے میری وصیت ہے اس کو قبول کرواور خداۓ تعالی کے لئے اس کی ضمانت کرو۔ اورمیرے لئے اس پر دعا کرنا فرض ہے علی نے عرض کیا میںنے اس کی ضمانت قبول کی اور یہ خدا کے ذمے ہے کہ میری مدد فرماۓ اس کتاب میں امیرالمومنین علیہ السلام سے ان چیزوں کا عہد لیا گیا ہے۔

"الموالاة لأولياء اللّه‏ و المعاداة لأعداءاللّه و البراءة منهم، و الصبر على الظلم، و كظم الغيظ، و أخذ حقّك منك و ذهاب خمسك و انتهاك حرمتك، و على أن تخضب لحيتك من رأسك بدم عبيط.فقال أمير المؤمنين عليه السّلام: قبلت و رضيت و ان انتهكت الحرمة و عطلت السنن و مزّق الكتاب و هدمت الكعبة و خضبت لحيتي من رأسي صابرا محتسبا."

یعنی خدا کے دوستوں سے دوستی، خدا کے دشمنوں سے دشمنی اور ان سے بیزاری، ظلم کے اوپر صبر، ا پنا حق چھینے جانے اپنے خمس پر تصرف کئے جانے، اپنی حرمت کے ضائع کئے جانے اور بے خطا اپنے سر کے خون سے اپنی ڈاڑھی رنگین کئ جانے پر ضبط و تحمل اور غصے کو پی جانا۔ پس امیرالمومنین(ع) نے کہا میں نے قبول کیا اور راضی ہوا۔ اگر میری حرمت ضائع کی جاۓ، سنتوں کو معطل کردیا جاۓ احکام کتاب پارہ پارہ کردیئے جائیں کعبہ ڈھا دیا جاۓ اور میری ڈاڑھی میرے خون سے رنگین کی جاۓ تب بھی صبرو تحمل سے کام لیا۔

اس کےبعد جبرئیل و میکائیل اور ملائکہ مقربین کو امیرالمومنین پر گواہ قرار دیا۔ اور حسن و حسین و فاطمہ صلوات اللہ علیہم اجمعین کو بھی اسی طرح ذمہ داری سپرد کی اور ان حضرات کو پیش آنے والے تمام واقعات کی تفصیل بیان کی پھر اس وصیت نامے پربغیر تپاۓ ہوۓ سونے کی مہرین لگائیں اور علی علیہ السلام کو دے دیا۔

"و في‏ الوصية سنن‏ اللّه‏ جلّ و علا و سنن رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله و خلاف من يخالف و يغيّر و يبدّل و شي‏ء شي‏ء من جميع الأمور و الحوادث بعده صلّى اللّه عليه و آله و هو قول اللّه عز و جل‏ « وَ كُلَّ شَيْ‏ءٍ أَحْصَيْناهُ فِي إِمامٍ مُبِينٍ"_ انتهی"

یعنی اس وصیت نامے کے اندر خداۓ عزوجل کی سنتیں، رسول خدا(ص) کی سنتیں، جو لوگ مخالف اور احکام خداوندی میں تغیر و تبدل کرنے والے ہیں ان کی مخالفت اور آں حضرت(ص) کے بعد واقع ہونے والے جملہ امور و حادثات کے تذکرے موجود ہیں۔ اور یہ وہی چیز ہے جو خداوند عالم فرماتا ہے کہ امام مبین(علی ابن ابی طالب(ع)) کو ہم نے ہر شئی کا علم عطا کیا ہے۔

خلاصہ یہ کہ امیرالمومنین(ع) اور آپ اولاد وعترت رسول(ص) میں سے ائمہ معصومین علیہم السلام کو جو کچھ ملا تھا وہ

۳۱۵

رسول خدا(ص) سے ملا تھا اور آں حضرت(ص) کے تمام علوم ان حضرات کے پاس تھے۔ اگر اس کے خلاف ہوتا تو آں حضرت(ص) علی(ع) کو اپنا باب علم نہ فرماتے اور یہ حکم نہ دیتے کہ اگر تم میرے علم سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہو تو علی ابن ابی طالب(ع) کے دروزے پر جاؤ۔ اور اگر آپ رسول اللہ(ص) کے علوم خاص کے حامل نہ ہوتے اور آپ کے سارے علوم پر قابو حاصل نہ ہوتا تو دوست و دشمن سب ہی کے سامنے یہ اعلان نہ فرماتے کہ"سلونی قبل ان تفقدونی " یعنی مجھ سے جو چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ۔

اس لئے کہ اس پر فریقین کا اتفاق ہے کہ سوا امیرالمومنین کے اور کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس نے سلونی کی آواز دی ہو اور آپ کی اس مخصوص منزلت کا دعوی کیا ہو اور پھر علوم ظاہری و باطنی کے متعلق لوگوں کے سوالات کے مقابلے میں لاجواب نہ ہوگیا ہو۔ آپ کے علاوہ جس نے بھی ایسا اعادہ کیا وہ ذلیل و رسوا ہوکررہا۔ چنانچہ حافظ ابن عبدالبر مغربی اندلسی کتاب استیعاب فی معرفتہ الاصحاب میں کہتے ہیں:

"ان کلمةسلونی قبل ان تفقدونی ماقال لهااحدغیرعلی ابن ابی طالب الاکان کاذبا"

یعنی کلمہ سلونی قبل ان تفقدونی کو سوا علی ابن ابی طالب(ع) کے اور جس شخص نے زبان سے نکالا وہ جھوٹا تھا۔

چنانچہ ابوالعباس احمد بن مسکان شافعی نے وفیات میں اور خطیب بغدادی نے اپنی تاریخ جلد سیزدہم ص163 میں نقل کیا ایک روز مقاتل بن سلیمان نے جو آپ کے بزرگ علمائ میں سے اور ہر مسئلے میں بہت حاضر جواب تھے عام مجمع کے سامنے برسر منبر کہا" سلونی عما دون العرش" یعنی عرش کے نیچے جو کچھ بھی ہے اس کے متعلق مجھ سے پوچھ لو۔ ایک شخص نے سوال کیا کہ جب حضرت آدم فریضہ حج بجالاۓ تو حلق و تقصیر کے موقع پر ان کے سر کے بال کس نے کاٹے؟ مقاتل پریشان اور لاجواب ہوکر خاموش ہوگئے۔ دوسرے نے پوچھا کہ چیونٹی معدے کی نلی سے غذا جذب کرتی ہے یا کسی اور ذریعہ سے؟ اگر معدے کا ذریعہ ہے تو اس کے جسم میں معدہ اور آنتیں کس مقام پر ہیں؟ مقاتل پھر حیرت میں پڑ گئے کہ کیا جواب دیں۔ مجبور ہوکر کہا کہ یہ سوالتمہارے دل میں خدا نے ڈالا ہے تاکہ زیادتی علم کی بنا پر میرے دل میں جو غرور پیدا ہوگیا تھا اور میں اپنی حد سے تجاوز کر گیا تھا اس کی وجہ سے میں ذلیل و رسوا ہوجاؤں۔

بدیہی چیز ہے کہ یہ دعوی اسی شخص کو کرنا چاہیئے جو ہر سوال کے جواب پر کما حقہ، قدرت رکھتا ہو اور قطعی و یقینی امت کے اندر سوا امیرالمومنین علی ابن ابی طالب(ع) کے اور کوئی بھی اس منزل پر فائز نہیں تھا۔

آپ چونکہ رسول اللہ(ص) کے باب علم تھے لہذا آں حضرت(ص) ہی کے مانند تمام ظاہری و باطنی امور پر حاوی اور علوم اولین و آخرین سے آگاہ تھے۔ اسی بنا پر پوری قدرت کے ساتھ سلونی کی آواز دیتے تھے اور ہر سوال کا شافی جواب عنایت فرماتے تھے۔ جس کی تفصیل پیش کرنے کا وقت نہیں ہے۔

۳۱۶

علاوہ امیرالمومنین علی علیہ الصلوۃ والسلام کے صحابہ میں سے بھی کسی نے ایسا اعلان نہیں کیا۔ چنانچہ امام احمد بن حنبل نے مسند میں، موفق بن احمد خوارزمی نے مناقب میں، خواجہ بزرگ حنفی نے ینابیع المودۃ میں، بغوی نے معجم میں محب الدین طبری نے ریاض النضرہ جلد دوم ص198 میں اور ابن حجر نے صواعق ص76 میں، سعید ابن مسیب سے نقل کیا ہے کہ انہوں نےکہا"لم یکن من الصحابه یقول سلونی الاعلی ابن ابی طالب(ع)" یعنی صحابہ میں سے علی ابن ابی طالب(ع) کے سوا اور کسی نے یہ نہیں کہا کہ مجھ سے جو چاہو پوچھ لو۔

علی علیہ السلام کی نداۓ سلونی اور اخبار اہلِ سنت

لہذا خود آپ کے اکابر علمائ مثلا ابن کثیر نے اپنی تفسیر جلد چہارم میں، ابن عبدالبر نے استیعاب میں، سلیمنا بلخی حنفی نے ینابیع المودت میں، موید الدین خوارزمی نے مناقب میں، امام احمد نے مسند میں، حموینی نے فرائد میں، ابن طلحہ نے در المنظوم میں، میر سید علی شافعی نے مودۃ القربی میں، حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیۃ الاولیاء میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں اور آپ کے دیگر محققین نے مختلف الفاظ و عبارات کے ساتھ متعدد و مقامات پر عامرین واثلہ، ابن عباس، ابی سعید البحری، انس ا بن مالک اور عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا ہے کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے بالاۓ منبر فرمایا:

" يا أيها الناس سلوني قبل أن تفقدوني، فإن‏ بين‏ جوانحي‏ لعلما جما، سألوني فان عندی علم الاولین والاخرین"

یعنی لوگو مجھ سے (جو چاہو پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ) کیونکہ در حقیقت میرے سینے میں علم بھرا پڑا ہے۔ مجھ سے دریافت کر لو کیونکہ یقینا میرے پاس اولین و آخرین کا علم موجود ہے۔

ابوداؤدنے سنن ص356 میں، امام احمد حنبل نے مسند جلد اول ص278 میں، بخاری نے اپنی صحیح جلد اول ص46 اور جلد دہم ص241 میں سند کے ساتھ نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا:

"سَلُونِي‏ عَمَّا شِئْتُمْ‏ وَ لَا تَسْأَلُونِي عَنْ شَيْ‏ءٍ إِلَّا أَنْبَأْتُكُمْ بِهِ "

یعنی جس چیز کے بارے میں چاہو مجھ سے پوچھ لو۔ اور کوئی شے ایسی نہیں ہے جس کے متعلق تم دریافت کرو اور میں اس کی خبر نہ دوں۔

شیخ سلیمان بلخی حنفی نے ینابیع المودۃ باب14 ص74 میں موفق بن احمد خوارزمی سے اور شیخ الاسلام حموینی نے اپنی سند کے ساتھ ابوسعید بختری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا:

۳۱۷

" رَأَيْتُ عَلِيّاً ع صَعِدَ الْمِنْبَرَ بِالْكُوفَةِ وَ عَلَيْهِ مِدْرَعَةٌ كَانَتْ لِرَسُولِ اللَّهِ ص مُتَقَلِّداً بِسَيْفِ رَسُولِ اللَّهِ ص مُتَعَمِّماً بِعِمَامَةِ رَسُولِ اللَّهِ ص فِي إِصْبَعِهِ خَاتَمُ رَسُولِ اللَّهِ ص فَقَعَدَ عَلَى الْمِنْبَرِ وَ كَشَفَ عَنْ بَطْنِهِ فَقَالَ سَلُونِي مِنْ قَبْلِ أَنْ تَفْقِدُونِي فَإِنَّمَا بَيْنَ‏ الْجَوَانِحِ‏ مِنِّي‏ عِلْمٌ جَمٌّ هَذَا سَفَطُ الْعِلْمِ هَذَا لُعَابُ رَسُولِ اللَّهِ ص هَذَا مَا زَقَّنِي رَسُولُ اللَّهِ زَقّاً مِنْ غَيْرِ وَحْيٍ أُوحِيَ إِلَيَّ فَوَ اللَّهِ لَوْ ثُنِيَتْ لِي وِسَادَةٌ فَجَلَسْتُ عَلَيْهَا لَأَفْتَيْتُ لِأَهْلِ التَّوْرَاةِ بِتَوْرَاتِهِمْ وَ لِأَهْلِ الْإِنْجِيلِ بِإِنْجِيلِهِمْ حَتَّى يُنْطِقَ اللَّهُ التَّوْرَاةَ وَ الْإِنْجِيلَ فَتَقُولَ صَدَقَ عَلِيٌّ قَدْ أَفْتَاكُمْ بِمَا أُنْزِلَ فِيَ‏ وَ أَنْتُمْ تَتْلُونَ الْكِتابَ أَ فَلا تَعْقِلُونَ‏."

یعنی میں نے حضرت علی(ع) کو منبر کوفہ پر اس صورت سے دیکھا کہ پیغمبر(ص) کی اونی چادر اوڑھے ہوۓ، آں حضرت(ص) کیتلوار باندھے ہوۓ اور آں حضرت(ص) کاعمامہ سر پر رکھے ہوۓ تھے پس منبر پر بیٹھے اور اپنا شکم مبارککھول کر فرمایا کہ مجھ سے پوچھ لو( جو چاہو) قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ، کیونکہ سواۓ اس کے نہیں ہے کہ میرے سینے میں کثیر علم موجود ہے۔ یہ میرا شکم علم کا مخزن ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا لعاب دہن ( یعنی اس کا اثر) ہے یہ وہ چیز ہے جسے رسول خدا(ص) نے مجھ کو دانے کی طرح بھرایا ہے۔ پس قسم خدا کی اگر میرے لئے مسند بچھا دی جاۓ اور میں اس کے اوپر تمسکن ہوں تو یقینا توریت والوں کو ان کی توریت سے اور انجیل والوں کو ان کی انجیل سے فتوی یہاں تک کہ خدا توریت و انجیل کو گویا کردے اور گواہی دی کہ علی(ع) نے سچ کہا اور جو کچھ خدانے ہمارے اندر نازل کیا ہے اسی کے مطابق تم کو فتوی دیا ہے اور تم لوگ کتاب کی تلاوت کرتے ہو تو کیا اتنا بھی نہیں سمجھتے۔

شیخ الاسلام حموینی فرائد میں اور موئد الدین خوارزمی مناقب میں نقل کرتے ہیں کہ آپ نے بالاۓ منبر فرمایا:

" سلونيقبل ان تفقدونی فو الذیفلق الحبةوبرالنسمةلا تسألوني من آية من كتاب اللَّه إلّا حدثتكم عنها متى‏ نزلت‏ [ظ] بليل أو بنهار أو في مقام أو فی میسر في سهل أو في جبل، و فيمن نزلتفي مؤمن أو منافق و ما عنى بها أم عام او خاصّ "

یعنی پوچھ لو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ پس قسم اس خدا کی جس نے دانے کو شگافتہ کیا اور آدمی کو پیدا کیا کہ مجھ سے کتاب خدا کی کسی آیت کے بارے میں سوال نہ کروگے مگر یہ کہ میں تم کو اس کے متعلق بتاؤں گا کہ کس وقت نازل ہوئی، رات کو یا دن کو، منزل میں راستے میں، زمین ہموار میں یا پہاڑ میں، اور کس کے بارے میں نازل ہوئی، مومن کے حق میں یا منافق کے اور خدا نے اس سے کیا مراد لیا ہے یہ آیت عام ہے یا خاص۔

ابن کوا خارجی اٹھا اور اس نے کہا:

۳۱۸

" أخبرني عن قول الله جل و عز- الَّذِينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ خَيْرُ الْبَرِيَّةِ أولئك نحن و أتباعنا يوم القيامة غرا محجلين رواء مرويين يعرفون‏ بسيماهم‏"

یعنی مجھ کو خداۓ تعالی کے اس قول کا مطلب بتائیے کہ " جو لوگ ایمان لاۓ اور عمل صالح بجالاۓ وہی لوگ تمام انسانوں سے بہتر ہیں" آپ نے فرمایا وہ ہم اور ہمارے پیرو ہیں جن کے چہرے اور ہاتھ پاؤں قیامت کے روز چمکتے ہوں گے اور اپنی پیشانیوں سے پہچانے جائیں گے۔

امام احمد بن حنبل مسند میں اور شیخ سلیمان بلخی ینابیع المودت باب14 ص74 میں ابن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ علی(ع) نے بالاۓ منبر فرمایا:

" سَلُونِي‏ عَنْ‏ كِتَابِ‏ اللَّهِ‏ تَعَالَى وَ مَا مِنْ آيَةٍ إِلَّا وَ أَعْلَمُ حَيْثُ أُنْزِلَتْ بِحَضِيضِ جَبَلٍ أَوْ سَهْلِ أَرْضٍ وَ سَلُونِي عَنِ الْفِتَنِ وَ مَا مِنْ فِتْنَةٍ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ كَبْشَهَا وَ مَنْ يُقْتَلُ فِيهَا."

یعنی دریافت کر لو جو مجھ سے قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ اور کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق سب سے زیادہ نہ جانتا ہوں کہ وہ کیونکہ نازل ہوئی ہے، پہاڑ کے دامن یا زمین ہموار میں اور پوچھو مجھ سے فتنوں کے بارے میں پس کوئی فتنہ ایسا نہیں ہے جس کے لئے میں نہ جانتا ہوں کہ کس نے اس کو اٹھایا ہے اور کون اس میں قتل ہوگا۔

ابن سعد نے طبقات میں، ابو عبداللہ محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب کے باب52 میں جس کو اسی موضوع کے لئے مخصوص کیا ہے، اور حافظ ابونعیم اصفہانی نے حلیتہ الاولیاء جلد اول ص68 میں معتبر اسناد کے ساتھ امیرالمومنین علیہ السلام سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا:

" وَ اللَّهِ‏ مَا نَزَلَتْ‏ آيَةٌ إِلَّا وَ قَدْ عَلِمْتُ فِيمَا نَزَلَتْ- وَ أَيْنَ نَزَلَتْ وَ عَلَى مَنْ نَزَلَتْ- إِنَّ رَبِّي تَعَالَى وَهَبَ لِي قَلْباً عَقُولًا وَ لِسَاناً طَلْقاً."

یعنی خدا کی قسم کوئی آیت نازل نہیں ہوئی لیکن یہ کہ میں قطعا جانتا ہوں کہ کس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے کہاں نازل ہوئی ہے اور کس پر نازل ہوئی ہے یقینا خدا نے مجھ کو فہم و ادراک رکھنے والا اور فصیح و گویا زبان عطا کی ہے۔

نیز انہیں کتابوں میں نقل کرتے ہیں کہ امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا:

"سلوني‏ عن‏ كتاب‏ اللّه‏ فانه ليس من آية إلا و قد عرفت بليل نزلت أم بنهار، في سهل نزلت أم في جبل."

۳۱۹

یعنی مجھ سے کتاب خدا کے بارے میں سوال کرو کیونکہ کوئی آیت ایسی نہیں ہے جس کے متعلق مجھ کو معلوم نہ ہو کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں، پہاڑ میں نازل ہوئی ہے یا ہموار زمین میں۔

مناقب خوارزمی میں اعمش سے اور انہوں نے عبایہ بن ربعی سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

" كَانَ عَلِيٌّ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ ع كَثِيراً مَا يَقُولُ سَلُونِي قَبْلَ أَنْ تَفْقِدُونِي فَوَ اللَّهِ مَا مِنْ‏ أَرْضٍ‏ مُخْصِبَةٍ وَ لَا مُجْدِبَةٍ وَ لَا فِئَةٌ تُضِلُّ مِائَةً أَوْ تَهْدِي مِائَةً إِلَّا وَ أَنَا أَعْلَمُ قَائِدَهَا وَ سَائِقَهَا وَ نَاعِقَهَا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ."

یعنی علی علیہ السلام کثرت سے یہفرماتے تھے کہ مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ مجھ کو نہ پاؤ، پس خدا کی قسم کوئی سرسبز خطہ اور بے آب و گیاہ زمین اور کوئی ایسا گروہ جو سو آدمیوں کو گمراہ کرے یا سو آدمیوں کی ہدایت کرے۔ ایسا نہیں ہے جس کی قیادت کرنے والے اور جس کو پیچھے سے چلانے والے اور جس کو ابھارنے والے کو روز قیامت تک میں سب سے بہتر نہ جانتا ہوں۔

اور جلال الدین سیوطی تاریخ الخلفاء ص124 میں بدرالدین حنفی عمدۃ القاری میں، محب الدین طبری ریاض النضرہ جلد دوم ص198 میں، سیوطی تفسیر اتقان جلد دوم ص319 میں، اور ابن حجر عسقلانی فتح الباری جلد ہشتم ص485 میں، نیز تہذیب التہذیب جلد ہفتم ص338 میں نقل کرتے ہیں کہ علی علیہ السلام نے فرمایا:

"سلوني فو اللّه لا تسالوني عن شي‏ء يكون الى يوم القيامة الا حدثتكم، سلوني‏ عن‏ كتاب‏ اللّه‏ فو اللّه ما من آية الا انا اعلم ابليل نزلت ام بنهار ام في سهل ام في جبل"

یعنی سوال کرو مجھ سے روز قیامت تک ہونے والی جس چیز کے متعلق بھی پوچھو گے میں تم کو اس کی خبر دوں گا اور کتاب خدا کے بارے میں مجھ سے دریافت کرو، پس خدا کی قسم کوئی آیت ایسی نہیں جس کے متعلق میں سب سے زیادہ نہ جانتا ہوں کہ رات میں نازل ہوئی ہے یا دن میں، زمین ہموار میں یا پہاڑ میں۔

آیا ان بیانات میں علم غیب کا دعوی نہیں ہے؟ اور سوا علم غیب جاننے والے کے کوئی دوسرا شخص دوست دشمن سب کے سامنے ایسا اعلان کرسکتا ہے؟ اگر آپ تھوڑی دیر کے لئے اپنی عادت کو چھوڑ دیں اور انصاف کی نظرسے دیکھیں تو صاف ظاہر ہوجاۓ گا کہ حضرت علم غیب کے عالم تھے جس کا عملی طور سے اظہار بھی فرماتے تھے اور غیبی باتوں کی خبر دیا کرتے تھے۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349