خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96736 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

جانے والے !تو اسی سے دھوکا بھی کھاتا ہے اور اسکی مذمت بھی کرتا ہے ؟یہ بتائو کہ تجھے اس پر الزام لگانے کا حق ہے یا اسے تجھ پر الزام لگانے کا حق ہے ؟آخر اس نے کیا تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟کیا تیرے آبا ء و اجداد کی کہنگی کی بناء پر گرنے سے دھوکا دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیر خاک خواب گاہ سے دھوکا دیا ہے ؟کتنے بیمار ہیںجن کی تم نے تیمار داری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے انکا علاج کیا ہے اور چاہاکہ وہ شفا یاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے ۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچارہا تھا۔نہ تمہاری ہمدردی کسی کوکوئی فائدہ پہنچاسکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہوسکا اور نہ تم موت کو دفع کرسکے۔اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمھیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا (لیکن تمھیں ہوش نہ آیا)یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر اور سمجھ دار کے لئے امن وعافیت کی منزل اور نصیحت حاصل کرنے والے کیلئے نصیحت کا مقام ہے ۔یہ دوستان خدا کے لئے سجود کی منزل اور ملائکہ ٔ آسمان کا مصلی ہے یہیں وحی الٰہی کانزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیںجس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں کسے حق ہے کہ اسکی مذمت کرے جبکہ اس نے اپنی جدائی کا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاسے ان کے ابتلا کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرور سے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے ۔اسکی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میںرغبت بھی پیدا ہو اور خوف بھی ۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے ۔کچھ لوگ ندامت کی صبح اسکی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اسکی تعریف کریں گے۔جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انھوںنے اسے قبول کرلیا اس نے حقائق بیان کئے تو اسکی تصدیق کردی اور موعظہ کیا تو اسکے موعظہ سے اثر لیا''

۲۶۱

۹۔دنیا بازار ہے

حضرت امام علی نقی نے فرمایا ہے :

(الدنیا سوق ربح فیها قوم وخسرآخرون )( ۱ )

''دنیا ایک بازار ہے جہاںایک قوم فائدہ میں ہے اوردوسری قوم خسارہ میں ''

۱۰۔دنیا آخرت کے لئے مددگار ہے ۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(نعم العون الد نیا علیٰ الآخرة )( ۲ )

''دنیا آخرت کے لئے بہترین مددگار ہے ''

۱۱۔دنیا ذخیرہ (خزانہ )ہے ۔

امیر المومنین کا ارشاد ہے :

(الدنیا ذخر والعلم دلیل )( ۳ )

''دنیا خزانہ ہے اور علم رہنما''

۱۲۔دنیا دارالمتقین ہے ۔

قول پروردگار ''ولنعم دارالمتقین''کی تفسیر کے ذیل میںامام محمد باقر نے فرمایا کہ:

''اس سے مراد ''دنیا ''ہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۳۶۶۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۷۔

(۳)غررالحکم۔

۲۶۲

۱۳۔دنیاکا ماحصل آخرت ۔

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(بالدنیا تحرز الآخرة)( ۱ )

'' دنیاکے ذریعہ آخرت حاصل کی جاتی ہے''

اس طرح اسلام کی نگاہ میں دنیا قابل مدح وستائش، اولیائے الٰہی کی محل تجارت ،محبان خدا کی مسجد ،آخرت تک رسائی کا ذریعہ اور مومنین کے لئے زاد آخرت حاصل کرنے کا مقام ہے لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ جب دنیا سے عبرت و نصیحت حاصل کی جائے لیکن اگر دنیا کومنظورنظر بنا لیا جائے تو پھر یہی دنیا انسان کو اندھا بنا دیتی ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

منقول ہے کہ جب آپ نے یہ فرمایا :

(أیهاالذام الدنیا أنت المتجرّم علیها أم هی المتجرّمه علیک؟قال قائل: بل أناالمتجرّم علیهایاامیرالمؤمنین فقال:''فلم ذممتها؟ألیست دارصدق لمن صدقها؟ )( ۲ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے!تو نے اسکے اوپر تہمت لگائی ہے یا اس نے تیرے اوپر تہمت لگائی ہے ؟''تو اس شخص نے کہا :اے امیر المومنین میں نے اس پر تہمت لگائی ہے! تو آپ نے فرمایا :

''تو پھرتم دنیا کی کیوں مذمت کرتے ہو؟کیا یہ دنیا تصدیق کرنے والوں کیلئے دار صدق نہیں ہے ''

____________________

(۱) بحارالانوارج ۶۷ص۶۷۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ ص۷ ۱۔

۲۶۳

ج۔اسکے دل کو اسکا دلدادہ بنا دونگاجرم اور سزا کے درمیان تبادلہ

''اور اسکے دل کو دنیا سے وابستہ کردوں گا'' یہ ان لوگوں کی تیسری سزا ہے جو خدا سے منھ موڑ کر اپنی خواہشات کی جانب دوڑتے ہیں یہاں سزا اور جرم ایک ہی طرح کے ہیں ۔اور جب جرم وسزا کی نوعیت ایک ہوتی ہے تو وہ کوئی قانونی سزا نہیں بلکہ''تکوینی''سزا ہوتی ہے اور تکوینی سزا زیادہ منصفانہ ہوتی ہے اور اس سے بچنے کا امکان بھی نہیں ہوتا ۔ جرم یہ ہے کہ انسان خدا کو چھوڑکر خواہشات سے دل لگارہاہے اور سزا بھی ایسی ہی ہے یعنی خدا بندہ کو دنیا میں ہی مشغول کردیتا ہے ''واشغلت قلبہ بھا ''

اس طرح جرم و سزا میںدو طرفہ رابطہ ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں خدا کو چھوڑکر''خواہشات میں الجھنے''کی سزا ''دنیا میں الجھنا ''ہے اس سزا سے جرم میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جرم میں اضافہ ،مزید سزا کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ سزا وہی ملتی ہے جو جرم کیا ہے بلکہ خود سزا جرم کو بڑھاتی ہے اور اسے شدید کردیتی ہے نتیجتاً انسان کچھ اورشدید سزا کا مستحق ہوجاتا ہے ۔

انسان جب پہلی مرتبہ جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسکے پاس گناہوں سے اجتناب اور سقو ط وانحراف سے بچانے والی خدا داد قوت مدافعت کا مکمل اختیارہوتا ہے لیکن جب گناہوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور انسان اپنے نفس کو نہیں روکتا تو خدا بھی سزا کے طورپراسے اسی جرم کے حوالہ کردیتا ہے اوراس سے گناہوں سے اجتناب کرنے اور نفس پر تسلط قائم رکھنے کی فطری اور خدا داد صلاحیت کوسلب کرلیتا ہے ۔

اور سزا کا درجہ جتنا بڑھتا جاتا ہے انسان اتنا ہی جرم کے دلدل میں پھنستا رہتا ہے ،اپنے نفس پر اسکی گرفت کمزور ہوتی رہتی ہے اور گناہوں سے پرہیز کی صلاحیت دم توڑتی جاتی ہے یہاں تک کہ خداوند عالم اس سے گناہوں سے اجتناب کی فطری صلاحیت اور نفس پر تسلط و اختیار کو مکمل طریقہ سے سلب کرلیتا ہے ۔

۲۶۴

اس مقام پر یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہئیے کہ جب مجرم کے پاس نفس پر تسلط اور گناہوں سے اجتناب کی صلاحیت بالکل ختم ہوگئی اور گویا اسکا اختیار ہی ختم ہوگیا تو اب سزا کیسی ؟یہ خیال ناروا ہے اس لئے کہ ابتداء میں مجرم نے جب جرم کا ارتکاب کیا تھا اس وقت تواسکے پاس یہ صلاحیت اور نفس کے اوپر تسلط بھرپور طریقہ سے موجودتھا اور وہ مکمل اختیار کا مالک تھا جو شخص اپنے ہاتھوں دولت اختیار ضائع کردے اسے بے اختیار نہیں کہاجاتا جیسے بلندی سے کود نے والا گرنے کے بعد یقینابے اختیار ہوجاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص خود جان بوجھ کربلندی سے چھلانگ لگائے تو اسکے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بے اختیار ہے اوراسکے پاس بچنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔

دنیاداری کے دورخ یہ بھی!

جب انسان دنیا داری میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس کا پہلا اثر اور ایک رخ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سارا ہم وغم اسکی دنیا ہی ہوتی ہے اور یہ کیفیت ایک خطرناک بیماری کی شکل اختیار کرکے قلب انسانی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک دعا میں منقول ہے :

(اللّهم أقسم لنامن خشیتک مایحول بیننا وبین معاصیک،ولاتجعل الدنیا أکبرهمنا،ولامبلغ علمنا )( ۱ )

''پروردگارا! ہمیںوہ خوف وخشیت عطا فرما جو ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل

____________________

(۱)بحارالانوارج۹۵ص۳۶۱۔

۲۶۵

ہوجائے اور ہمارے لئے دنیا کو سب سے بڑا ہم وغم اور ہمارے علم کی انتہا قرار مت دینا ''

اگرانسان دنیاوی معاملات کو اہمیت دے تواس میں کوئی قباحت نہیں لیکن دنیا کو اپنا

سب کچھ قرار دینااور اسکو اپنے قلب کا حاکم اور زندگی کا مالک تسلیم کرلینا غلط ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنے اشاروں پر انسان کو نچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ صورت حال قلب کے لئے بیمار ی کا درجہ رکھتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ کے نا م اپنی وصیت میں فرمایاہے :

(ولا تکن الدنیا أکبرهمک )( ۱ )

''دنیا تمہارا سب سے بڑا ہم وغم نہ ہونے پائے ''

دنیا داری میں مشغول ہونے کامنفی رخ یہ ہے کہ خدا سے انسان کا تعلق ختم ہوجاتا ہے ۔ معاملات دنیا میں کھوجانے کا مطلب خدا سے قطع تعلق کرلینا ہے اورفطری بات ہے کہ جب انسان کا ہم وغم اسکی دنیا ہوگئی تو پھر انسان کے ہر اقدام کا مقصد دنیا ہوگی نہ کہ رضائے الٰہی ،اس طرح انسانی قلب پر دنیا کے دریچے جس مقدار میں کھلتے جائیں گے اسی مقدار میں الٰہی دریچے بند ہوتے جائیں گے لہٰذا اگر انسان کی نگاہ میںدنیاوی کاموں کی سب سے زیادہ اہمیت ہوگی تو خدا کی جانب تو جہ کمترین درجہ تک پہونچ جائے گی ۔اور جب سب ہم وغم اور فکر وخیال دنیا کے لئے ہوجائے گا تو یہ کیفیت در حقیقت گذشتہ صورت حال کا نتیجہ اور قلب انسانی کی بدترین بیماری ہے ۔

قرآن کریم نے اس خطرناک بیماری کو متعدد مقامات پر مختلف عناوین کے ذریعہ بیان کیا ہے ۔ہم یہاں پر آیات قرآن کے ذیل میں چند عناوین کا تذکرہ کررہے ہیں :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۴۲ص۲۰۲۔

۲۶۶

دل کے اوپر خدائی راستوں کی بندش کے بعض نمونے

۱۔غبار اور زنگ

( کلا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۱ )

''نہیں نہیں بلکہ انکے دلو ں پر انکے (برے )اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ''

راغب اصفہانی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ''ان کے دلوں کی چمک دمک زنگ آلودہوگئی لہٰذا وہ خیروشرکی پہچان کرنے سے بھی معذورہوگئے ہیں۔

۲۔الٹ،پلٹ

یہ ایک طرح کا عذاب ہے جس میں خدا، غافل دلوں کو اپنی یاد سے دور کردیتا ہے جیسا کہ ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

( صرف ﷲ قلو بهم بأنهم قوم لایفقهون ) ( ۲ )

''تو خدا نے بھی انکے قلوب کو پلٹ دیا ہے کہ وہ سمجھنے والے لوگ نہیں ہیں ''

۳۔زنگ یامُہر

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( ونطبعُ علیٰ قلوبهم فهم لایسمعون ) ( ۳ )

''ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں اور پھر انھیں کچھ سنائی نہیں دیتا ''

____________________

(۱)سورئہ مطففین آیت۱۴۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۱۲۷۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۱۰۰۔

۲۶۷

یعنی ان کو غیر خدائی ر نگ میںرنگ دیاہے اور وہ ہویٰ وہوس اور دنیا کا رنگ ہے ۔

۴۔مہُر

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( ختم ﷲ علیٰ قلوبهم وعلیٰ سمعهم وعلیٰ أبصارهم غشاوة ) ( ۱ )

''خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر بھی پر دے پڑگئے ہیں ''

ختم(مہر)طبع (چھاپ لگنے)سے زیادہ محکم ہوتی ہے کیونکہ کسی چیز کومُہر کے ذریعہ سیل بند کردینے کو ''ختم''کہتے ہیں ۔

۵۔قفل

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( أفلا یتد بّرون القرآن أم علیٰ قلوب أقفالها ) ( ۲ )

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ''

۶۔غلاف

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( وقالوا قلوبنا غُلْف بل لعنهم ﷲ بکفرهم ) ( ۳ )

''اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بیشک ان کے کفر کی بنا

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۷۔

(۲) سورئہ محمدآیت ۲۴۔

(۳)سورئہ بقرہ آیت ۸۸۔

۲۶۸

پر، ان پر ﷲکی مار ہے ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہے :

( وقولهم قلوبناغلف بل طبع ﷲ علیهابکفرهم ) ( ۱ )

''اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلو ں پر فطرتا غلاف چڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ خدانے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے ''

۷۔پردہ

ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

( وقالوا قلوبنافی أکنّة مماتدعونا الیه وفی آذاننا وقر ) ( ۲ )

''اور وہ کہتے ہیں کہ تم جن باتوں کی طرف دعوت دے رہے ہو ہمارے دل ان کی طرف سے پردہ میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بہرا پن ہے ''

دوسری جگہ ارشاد ہے :

( وجعلناعلیٰ قلوبهم أکنّة أن یفقهوه وفی آذانهم وقراً ) ( ۳ )

''لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پرد ے ڈال دئے ہیں ۔وہ سمجھ نہیں سکتے ۔اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے ''

۸۔سختی

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ نساء آیت ۱۵۵۔

(۲)سورئہ فصلت آیت ۵۔

(۳)سورئہ انعام آیت ۲۵۔

۲۶۹

( ربنا اطمس علیٰ أموالهم واشد د علیٰ قلوبهم ) ( ۱ )

''خدا یا ان کے اموال کو برباد کردے اوران کے دلوں پر سختی فرما''

۹۔قساوت

( فویل للقاسیة قلوبهم من ذکرﷲ ) ( ۲ )

''افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا ( کینہ کرنے )سے سخت ہوگئے ہیں ''

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( فطال علیهم الأمد فقست قلوبهم ) ( ۳ )

''تو ایک عرصہ گذرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے ''

یہ انسانی دل کے اتار،چڑھائو،اور بند ہونے یا ذکر خدا سے روگرداںہونے کی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن مجید نے مختلف انداز سے ذکر کیا ہے ۔

دنیا قید خانہ کیسے بنتی ہے ؟

جب قلب انسانی پر الٰہی راستہ مکمل طریقہ سے بند ہوجائے تو یہی دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے انسان پر ہوس اس طرح غالب آجاتی ہے کہ اس کے لئے رہائی حاصل کرنا ممکن نہیں رہ جاتا ۔کیونکہ قیدخانہ کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نکلنا ممکن نہیںہوتا اور اسکی حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں یہی حالت اس وقت ہوتی ہے کہ جب دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے کہ انسان اسی میں مقید ہوکررہ جاتا ہے حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں اور اس سے ہرطرح کی آزادی سلب ہوجاتی ہے اور وہ اسکے

____________________

(۱)سورئہ یونس آیت ۸۸۔

(۲)سورئہ زمر آیت ۲۲۔

(۳)سورئہ حدیدآیت۱۶۔

۲۷۰

لئے اہتمام اوراسکی حرص ولالچ کی بناپر خداوند عالم سے بالکل الگ ہوجاتا ہے ۔یہی تفصیلات روایات میں بھی وارد ہو ئی ہیں۔حضرت امام محمد باقر کی دعا کا فقرہ ہے:

(ولاتجعل الدنیا علیّ سجناً )( ۱ )

'' دنیا کو میرے لئے قید خانہ قرارمت دینا ''

حضرت امام جعفر صادق کی دعا ہے :

(ولاتجعل الدنیاعلیّ سجناً،ولا تجعل فراقها لی حزناً )( ۲ )

''دنیا کو میرے لئے قید خانہ اور اس کے فراق کو میرے لئے حزن و ملال کا باعث مت قرار دینا ''

یہ بالکل عجیب و غریب بات ہے کہ قیدی پر قیدخانہ کا فراق گراں گذر رہا ہے اور وہ رہائی پانے کے بعد حزن و ملال میں مبتلا ہے ؟اس کا راز یہ ہے کہ یہ قید خانہ دو سرے قید خانوں کے مانند نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ایسا قید خانہ ہے کہ انسان اس سے انس و الفت کی وجہ سے خود اپنے آپ کوقیدی بناتا ہے چونکہ خود قید کو اختیار کرتا ہے لہٰذا وہ اس سے جدائی گوارا نہیں کرتا اور اگر اسے قید سے جدا کردیا جائے تواس رہا ئی سے اسے حزن وملال ہوتا ہے اور قید کا فراق اس کیلئے دشوار اور باعث زحمت ہو تا ہے ۔

جب انسان اپنا اختیار دنیا کے حوالے کر دیتا ہے تو دنیا اسے کیکڑے کے مانند اپنے چنگل میں د بوچ کر اس کے ہاتھ اور پیر وںکوجکڑ دیتی ہے اور اس کی حرکتوں کو مقید و محدود کرکے اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد گرا می ہے :

(ان الدنیا کالشبکة تلتفّ علیٰ من رغب فیها )

''دنیا جال کے مانند ہے جو اس کی طرف راغب ہو گا اسی میںالجھتا جا ئے گا ''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۹۷ص۳۷۹۔

(۲)بحارالانوار ج۹۷ص۳۳۸۔

(۳)غررالحکم۔

۲۷۱

آپ کا یہ قول ہمارے سامنے ایک بار پھر قید خانہ اور قیدی کے تعلق اور رابطہ کو اجا گر کرتا ہے ''تلتف علیٰ من رغب فیھا ''جو اسکی طرف راغب ہوا وہ اسی پر لپٹتا چلاجائے گا۔

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(من أحبّ الدینار والدرهم فهوعبد الدنیا )( ۱ )

''جو درہم و دینار سے محبت کرتا ہے وہ دنیا کا غلام ہے ''

اہل دنیا

کچھ افراد دنیا دارہو تے ہیں اور کچھ '' اہل آخرت ''دنیا داروہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی کو دائمی زندگی سمجھ کراسی کے دلداہ ہو تے ہیںاور دنیا کی فرقت انھیں اسی طرح نا گوار ہو تی ہے جیسے انسان کو اپنے اہل و عیال کی جدائی برداشت نہیں ہو تی ہے ۔

اہل آخرت ،دنیا میں اسی طرح رہتے ہیں جیسے دوسرے رہتے ہیں ۔اوردنیا کی حلال لذتوں سے ایسے ہی لطف اندوز ہو تے ہیں جیسے دوسرے ان سے مستفیدہو تے ہیں بس فرق یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو دا ئمی زند گی مان کر اس سے دلبستگی کا شکار نہیں ہو تے ۔ایسے افراد درحقیقت '' اہل ﷲ '' ہو تے ہیں ۔

اہل آخرت اوردنیا داروںکے صفات ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔چنانچہ حدیث معراج میں دنیا داروںکے صفات یوں نظر آتے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

ٔهل الدنیا من کثر أ کله وضحکه ونومه وغضبه،قلیل الرضا،لایعتذر الیٰ من أساء الیه،ولایقبل معذرة من اعتذرالیه،کسلان عند الطاعة ۔)( ۲ )

'' دنیاداروں کی غذا ،ہنسی ، نیند ،اور غصہ زیادہ ہو تا ہے ۔یہ لوگ بہت کم راضی ہو تے ہیں،

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۳ ص۲۲۵ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۷ص ۲۴۔

۲۷۲

جس کے ساتھ ناروابرتائو کرتے ہیں اس سے معذرت نہیں کرتے ۔کو ئی ان سے معذرت کاخواہاں ہو تو اس کی معذرت کو قبول نہیں کرتے، اطاعت کے مو قع پر سست اور معصیت کے مقام پر بہادر ہو تے ہیں ان کے یہاں امن مفقود اور موت نزدیک ہو تی ہے ۔کبھی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے ، ان کے یہاں منفعت برائے نام ،باتیں زیادہ اور خوف کم ہو تا ہے یقینادنیا دارنہ آسا ئشوں میں شکر خدا کرتے ہیں اور نہ ہی مصیبت کی گھڑی میں صبر ۔جو کام انجام نہیں دیتے اس پر اپنی تعریف کرتے ہیں ، جو صفا ت ان میں نہیں پائے جاتے ان کے بھی مد عی ہوتے ہیں،جو دل میں آتا ہے بول دیتے ہیں لوگوں کے عیوب تو ذکر کرتے ہیں مگر ان کی خوبیاںبیان نہیں کرتے ''

دنیادار دنیا سے سکون حاصل کرتے ہیں اسی سے مانوس ہو تے ہیں اور اسی کو اپنا دائمی مستقر سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا ''دارالقرار ''نہیں ہے ۔چنانچہ جب کوئی انسان اس سے مانوس ہوکر تسکین قلب حاصل کرلے تو وہ فریب دنیا کے شرک میں مبتلاہوجاتا ہے کیونکہ وہ اسے دارالقرار سمجھتے ہیں جبکہ وہ ایسی نہیں ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی فر ماتے ہیں :

(واعلم انک انماخُلقت للآخرة لا للدنیا،وللفناء لاللبقائ،وللموت لاللحیاة،وأنک فی منزل قلعة وداربلغة،وطریق الیٰ الآخرة وایاک أن تغترّبما تریٰ من اخلادأهل الدنیاالیها،وتکالبهم علیها،فقدنبّأک ﷲعنها،ونَعَتْلک نفسها،وتکشّفت لک عن مساویها )( ۱ )

''۔۔۔اوربیٹا!یادرکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایاگیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ،تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۷۳

لئے نہیں تم اس گھر میں ہوجہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے اور تم آخرت کے راستہ پر ہو ۔۔۔اور خبر داردنیاداروں کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پر مرتے دیکھ کر تم دھوکے میں نہ آجاناکہ پروردگار تمہیں اسکے بارے میں بتاچکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سناچکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کرچکی ہے ۔۔۔''

دنیا کابہروپ

یہ ایک بہروپ ہی ہے کہ انسان دنیا کو دارالقرار سمجھ کر اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور اس سے دل لگا بیٹھتا ہے حالانکہ دنیا صرف ایک گذر گاہ ہے ۔نہ خوددنیا کو قرار ہے اورنہ ہی دنیا میںکسی کیلئے قرار ممکن ہے ۔یہاں انسان کی حیثیت مسافر کی سی ہے کہ جہاں چند دن گذار کر آخرت کے لئے روانہ ہوجاتا ہے تعجب ہے کہ اس کے باوجودبھی انسان اسی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور اسے دائمی قیام گاہ مان لیتا ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(کن فی الدنیاکانک غریب،أوکأنک عابرسبیل )( ۱ )

''دنیا میںایک مسافر کی طرح رہو جیسے کہ راستہ طے کر رہے ہو ''

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(أیهاالناس انّماالدنیادارمجاز،والآخرةدارقرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم )( ۲ )

'' اے لوگو !یہ دنیا ایک گذرگاہ ہے قرار کی منزل آخرت ہی ہے لہٰذا اسی گذرگاہ سے وہاں کا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ ص۹۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۳۔

۲۷۴

سامان لے کر آگے بڑھو جو تمہارا دار قرار ہے ''

اس مسئلہ پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔جو انسان راستہ سے گذر تار ہے وہ کبھی راستہ کا ہو کر نہیں رہ جاتا اسکے برخلاف گھر میں رہنے والے انسان کو گھر سے محبت ہو تی ہے اور آدمی گھر کا ہوتا ہے اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا ایک معرکة ا لآرا جملہ نقل کیا جاتا ہے حضرت عیسیٰ نے فر مایا ہے :

(من ذا الذی یبنی علیٰ موج البحرداراً،تلکم الدنیا فلا تتخذوها قراراً )( ۱ )

''سمندر کی لہروں پر کون گھر بناتا ہے ؟دنیا کا بھی یہی حال ہے لہٰذا دنیا کو قرار گاہ مت بنائو ''

جیسے سمند ر کی لہروں کو قرار و بقا نہیں ہے ایسے ہی دنیا بھی ہے۔توپھر نفس اس سے کیسے سکون حاصل کر سکتا ہے اوراسے کیسے دائمی تسلیم کر سکتا ہے کیا واقعا کو ئی انسان سمندر کی لہروں کے اوپراپنا گھر بنا سکتا ہے ؟

روایت ہے کہ جناب جبرئیل نے حضرت نوح سے سوال کیا :

(یا أطول الانبیاء عمراً،کیف وجدت الدنیا؟قال:کدار لها بابان،دخلت من أحدهما،وخرجت من الآخر )( ۲ )

''اے طویل ترین عمر پانے والے نبی خدا، آپ نے دنیا کو کیسا پایا ؟حضرت نوح نے جواب دیا ''ایک ایسے گھر کی مانند جس میں دو دروازے ہوں کہ میں ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے باہر نکل آیا ''

عمر کے آخری حصہ میں شیخ الانبیائ(حضرت نوح ) کا دنیا کے بارے میں یہ احساس در اصل اس شخص کا صادقانہ احساس ہے کہ جو فریب دنیا سے محفوظ رہا ہو ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۲۶۔

(۲)میزان الحکمت ج۳ ص۳۳۹۔

۲۷۵

لیکن اگر انسان دنیا سے مانوس ہو جا ئے اور دنیا اس کے لئے وجہ سکون بن جائے تو پھر یہ احساس تبدیل ہو جاتا ہے اور دنیا اس کو اپنے جال میں الجھا لیتی ہے انسان فریب دنیا کا شکار ہو کر شرک دنیا میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔یہ '' ان دنیا داروں''کا حال ہو تا ہے جن کے خیال خام میں دنیا دارالقرار اور وجہ سکون ہے۔

۲۷۶

تیسری فصل

جو شخص خداوند عالم کی مرضی کو

اپنی خواہشات کے اوپر ترجیح دیتا ہے

گذشتہ فصل میں ہم نے ''اپنی خواہش کو خدا کی مرضی کے اوپر ترجیح دینے والے شخص کے بارے میں ''تفصیلی گفتگو کی ہے اور اب انشاء ﷲ''خدا کی مرضی کو اپنی مرضی پر ترجیح دینے والے کے بارے میں ''گفتگو کریں گے ۔لیکن اصل بحث چھیڑنے سے پہلے ہم ان تمام روایات کوان کے حوالوں کے ساتھ بیان کر رہے ہیں جن میں اس حدیث قدسی کا تذکرہ ہے ۔

شیخ صدوق(رح)نے اپنی کتاب''خصال''میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا کہ :

(ان ﷲعزوجل یقول:بجلالی وجمالی وبهائی وعلا ئی وارتفاعی لایؤثر عبد هوای علیٰ هواه الاجعلت غناه فی نفسه،وهمّه فی آخرته،وکففت عنه ضیعته،وضمنت السموات والارض رزقه،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر )( ۱ )

خداوند عالم کا ارشاد ہے :''میرے جلال وجمال،حسن ،ارتفاع اوربلندی کی قسم کوئی بندہ اپنی خواہش پر میری مرضی کو ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اسکے نفس کے اندر استغناپیدا کردوںگا اور اسکی پونجی کا ذمہ دار رہوں گا۔زمین وآسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میں اسکے لئے ہر تاجر کی تجارت سے بہتر ہوں''

شیخ صدوق نے ''ثواب الاعمال''میں امام زین العابدین سے یہ روایت مع سند نقل کی ہے

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۰ ص۷۵ ۔

۲۷۷

(انّ ﷲعزّوجل یقول:وعزّتی وعظمتی وجلالی و بهائی وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه الاجعلت همه فی آخرته،وغناه فی قلبه،وکففت علیه ضیعته،وضمنت السمٰوات والارض رزقه،وأتته الدنیا وهی راغمة )( ۱ )

''آپ نے فرمایا کہ خداوند عزوجل ارشاد فرماتا ہے: میری عزت،عظمت،جلالت،جمال، رفعت اور میرے مکان کی بلندی اور ارتفاع کی قسم کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اس کی کل فکر اس کی آخرت کے لئے قرار دیدونگااوراسکے قلب میں استغنا پیدا کر دونگااور اس کی پونجی کا ذمہ دار رہونگا ۔ آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور اسکے سامنے جب دنیا آئے گی تو اسکی ناک رگڑی ہوئی ہوگی''

ابن فہد حلی(رح)نے اپنی کتاب ''عدةالداعی''میں رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے :کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

(وعزّتی وجلالی وعظمتی وکبریائی ونوری وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه،الا استحفظته ملا ئکتی وکفّلت السمٰوات والارض رزقة،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر،وأتته الدنیا وهی راغمة )( ۲ )

''میری عزت ،جلالت،عظمت،کبریائی،نور،بلندی اور رفیع مقام کی قسم کوئی بندہ میری (خواہش )مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ ملائکہ اسکی حفاظت کرینگے ۔آسمان اور زمین اسکے رزق کے ذمہ دار ہیں اور ہر تاجر کی تجارت کے پس پشت میں اسکے ساتھ موجود ہوں اور دنیا اسکے سامنے ذلت و رسوائی کے ساتھ حاضر ہوگی''

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۰ص۷۷از ثواب الاعمال۔

(۲)بحارالانوار ج۷۰ص۷۸۔

۲۷۸

شیخ کلینی نے اصول کافی میں سند کے ساتھ یہ روایت امام محمد باقر سے یوںنقل کی ہے :

(۔۔۔الاکففت علیہ ضیعتہ وضمنت السموات والارض رزقہ،وکنت لہ وراء تجارةکل تاجر)( ۱ )

''مگر یہ کہ میں اسکے ضروریات زندگی (پونجی)کا ذمہ دارہوں اور آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میںہر تاجر کی تجارت کے پس پشت اسکے ساتھ ہوں ''

مرضی خدا کو اپنی خواہش پر ترجیح دینا

اس ترجیح دینے کے معنی یہ ہیں کہ انسان خداوند عالم کے ارادہ کو اپنی خواہشات کے اوپر حاکم بنالے اور احکام الٰہیہ کے مطابق اپنے نفس کو اسکی خواہش سے روکتا رہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

( وأما من خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهویٰ فان الجنة هی الماوی ٰ ) ( ۲ )

''اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا، جنت اسکا ٹھکانہ اور مرکز ہے ''

تقویٰ اور فسق وفجور (برائیوں)کے راستے جس نقطہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں وہ نقطہ وہی ہے جہاں خداوند عالم کی خواہش (اسکا حکم اور قول)اور انسان کی خواہش (ہوس)کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوتا ہے ۔چنانچہ جب انسان خدا کی خواہش (مرضی )کو اپنی خواہش کے اوپر ترجیح دیتا ہے تو وہ تقوے کے راستہ پر چلنے لگتاہے اور جب اپنی خواہشوں کو خداکی مرضی کے اوپر ترجیح دینے لگتا ہے تو فجور(برائیوں)کے راستے پر لگ لیتا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۰ص۷۹۔

(۲)سورئہ نازعات آیت ۴۰۔۴۱۔

۲۷۹

۱۔جعلت غناہ فی نفسہ

''اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوں گا''

لوگوں کے درمیان عام تاثر یہ ہے کہ فقر وغنی ٰکا تعلق سونے اور چاندی اور زروجواہرات سے ہے اور نفس و قلب سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسلام میں فقرو غنیٰ کا مفہوم اسکے برعکس ہے اسلام کی نگاہ میں فقر اور غنیٰ کا تعلق نفس سے ہے نہ کہ مال ودولت سے، لہٰذا ہوسکتاہے کہ ایک ایساانسان غنی ہوجومالی اعتبار سے فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کوئی انسان فقیر ہوچاہے وہ مالی اعتبار سے ثروتمند ہی کیوں نہ ہو ۔

امام حسین کی دعائے عرفہ میں وارد ہواہے:

(اللّٰهم اجعل غنای فی نفسی،والیقین فی قلبی،والاخلاص فی عملی، والنور فی بصری،والبصیرة فی دینی )

''پروردگار میرے نفس کو غنی بنادے ،میرے قلب کو یقین،عمل میں اخلاص ،آنکھوں میں نور اور دین میں بصیرت عطافرما''

آخر فقر و غنی کا مفہوم مال ودولت کے بجائے نفس سے متعلق کیسے ہوتاہے؟اسکاراز کیا ہے ؟ در حقیقت تبدیلی کا یہ راز دین اسلام کے پراسرار عجائبات میں شامل ہے۔ہمیں گاہے بگاہے اسکے بارے میں غوروخوض کرنا چاہئے۔

افکار کی تبدیلی میں اسلامی اصطلاحات کا کردار

''فقر''اور''استغنا''دواسلامی اصطلاحیں ہیں اور اسلام اپنی اصطلاحات کے لئے بہت اہمیت کا قائل ہے اسی لئے اسلام نے دور جاہلیت کی کچھ اصطلاحوں کو کا لعدم قرار دیا ہے اور انکی جگہ پر بہت سی نئی اصطلاحات پیش کی ہیں اور انھیں اصطلاحات کے ذریعہ فکروخیال میں تبدیلی کی ہے اور قدروقیمت کا نیا نظام پیش کیاہے۔دورجاہلیت میں اقدار کے اصول جدا تھے جبکہ اسلام کے اصول الگ ہیں۔

۲۸۰

فضیلتوں کے حامل تھے اور ہم فضائل صحابہ کے منکر نہیں ہیں لیکن ان کے فضائل باب علم پیغمبر(ص) کا مقابلہ ہرگز نہیں کرسکتے۔ کیونکہ آپ کا مقام و مرتبہ سب سے افضل ہے۔

اگر صحابہ میں سے کسی فرد کو حق تقدم اور ترجیح حاصل ہوتی تو رسول اللہ(ص) قطعا امت کو اس کی پیروی کا حکم دیتے۔ ظاہر ہے کہ یہ ایک امر الہی ہے جس کو پیری اور جوانی سے ہرگز ربط نہیں ہے بلکہ خداوند عالم جس شخص کو اس مںصب کے لائق پاتا ہے اسی کی اطاعت کا حکم دیتا ہے چاہے وہ بوڑھا ہو یا نوجوان۔

پیغمبر(ص) کا علی(ع) کوعہدہ قضاوت پریمن بھیجنا

چنانچہ عام طور پر آپ کے اکابر علمائ نے علی علیہ السلام کو اہل یمن کی ہدایت اور قضاوت کے لئے بھیجے جانے کو تفصیل سے نقل کیا ہے بالخصوص ( ائمہ صحاح ستہ میں سے) امام ابوعبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی کے اندر اس بارے میں چھ حدیثیں درج کی ہیں۔ نیز ابوالقاسم حسین بن محمد راغب اصفہانی نے محاضرات الادبائ جدل دوم ص212 میں اور دوسروں نے نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ مع سلسلہ اسناد یہ ہے کہ جس وقت رسول خدا صلعم نے علی علیہ السلام کو مامور فرمایا کہ قضاوت اور ہدایت خلق کے لئے یمن جائیں تو آپ نے عرض کیا کہ میں جوان ہوں آپ مجھ کو قوم کے بوڑھے لوگوں پر کیوں مقرر فرما رہے ہیں؟ آن حضرت(ص) نے فرمایا

" فان اللّه تعالى يهدي قلبك و يثبت‏ لسانك‏."( یعنی عنقریب خدا ( علم قضا میں) تمہاری رہنمائی کرے گا اور تمہاری زبان کو قائم کرے گا اگر فوقیت کے لئے کمسن ہونا ضروری تھا تو بزرگان صحابہ اور ابوبکر جیسے بوڑھے اور سن رسیدہ اشخاص کی موجودگی میں علی علیہ السلام کو کس لئے یمن والوں کی قضاوت و ہدایت پر مامور فرمایا؟ پس معلوم ہوا کہ امت کا قاضی اور ہادی بننے میں عمر کی کمی و بیشی اور پیری وجوانی کو کوئی دخل نہیں ہے، بلکہ فقط علم و فضل، تقوی اور خصوصیت کے ساتھ نص کا ہونا لازمی ہے۔

پیغمبر(ص) کے بعد علی(ع) امت کے ہادی تھے

اور ایسی نص قرآن و احادیث میں سوا علی علیہ السلام کے اور کسنی کے لئے نہیں تھی۔ چنانچہ آیت نمبر8 سورہ نمبر13 ( رعد) میں پیغمبر(ص) سے کھلا ہوا خطاب ہو رہا ہے کہ:

"إِنَّما أَنْتَ‏ مُنْذِرٌ وَ لِكُلِّ قَوْمٍ هادٍ" ( یعنی سوا اس کے نہیں ہے کہ تم ڈرانے والے ہو اور ہر قوم کے لئے ایک راہنما ہے اور وہ ہادی ورہنما پیغمبر(ص) کے بعد علی(ع) اور عترتِ رسول ہے، جیسا کہ امام ثعلبی تفسیر کشف البیان میں، محمد بن جریر طبری ا پنی تفسیر میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالبباب 62 میں اسناد تاریخ

۲۸۱

ابن عساکرسے اور شیخ سلیمان حنفی نیابیع المودت آخر باب 26 میں ثعلبی، حموینی، حاکم ابوالقاسم حسکانی، ابن صباغ مالکی، میر سید علی ہمدانی اور مناقب خوارزمی سے ابن عباس، حضرت امیرالمومنین اورابوبریدہ اسلمی کے اسناد کے ساتھ مختلف الفاظ و عبارات میں گیارہ حدیثیں نقل کی ہیں، اور ان سب کا خلاصہ یہ ہے کہ جس وقت نازل ہوئی تو رسول اکرم صلی اللہ و آلہ و سلم نے اپنے سینہ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا انا : " أنا المنذر "( یعنی میں ڈرانے والا ہوں) پھر علی علیہ السلام کے سینے پر ہاتھ رکھا اور فرمایا :

" و انت‏ الهادى‏ بك يا على يهتدى المهتدون من بعدى‏"(یعنی تم ( میرے بعد اس امت کے) ہادی ہو اور تم سے ہدایت پانے والے ہدایت پائیں گے۔

اگر ایسی کوئی نص دوسروں کے بارے میں بھی آئی ہوتی تو یقینا ہم ان کی پیروی کرتے، لیکن چونکہ یہ خصوصیت صرف علی علیہ السلام کو عطا کی گئی ہے لہذا ہم بھی مجبور ہیں کہ انہیں بزرگوار کی اطاعت کریں اور پیروی و جوانی پر نظر نہ کریں۔

دشمنوں کی سازشیں اور مجازی و حقیقی سیاست میں فرق

اور جو آپ نے یہ فرمایا ہے کہ علی علیہ السلام جوان اورناتجربہ کار تھے لہذا خلافت کی طاقت و قدرت نہیں رکھتے تھے، چنانچہ پچیس سال کے بعد بھی جب مسند خلافت پر آئے تو آپ کی سیاسی ناواقفیت کی وجہ سے اس قدر اس قدر خوں ریزیاں اور انقلابات برپا ہوئے۔ تو میں نہیں جانتا کہ آپ نے یہ بیان عمدا دیا ہے یا سہوا، یا محض اپنے اسلاف کی پیروی مقصود ہے؟ ورنہ ایک نکتہ رس عالم ہرگز ایسے الفاظ منہ سے نہیں نکالے گا۔

میری سمجھ میں نہیں آتا کہ آخر آپ حضرات کی نظر میں سیاست کا مطلب کیا ہے؟ اگر جھوٹ بولنا، حیلہ سازی کرنا۔ سازش کر جال بچھانا، حق و باطل کو خلط ملط کردینا اور نفاق پر عمل کرنا مراد ہے( جیسا کہ ہرزمانے کے دنیا دار لوگ اپنے اقتدار اور منصب کو محفوظ رکھنے کے لئے اس پر عامل رہے اور ہیں) تو میں تصدیق کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام اس قسم کی سیاست سے بہت دور تھے اورآپ ہرگز اس معنی میں سیاسی انسان نہیں تھے۔ کیونکہ ایسا طریقہ کار و حقیقت سیاست نہیں ہے بلکہ سراپا شرارت، مکاری، فریب کاری، حیلہ جوئی اور جعل سازی ہے جس پر دنیا پرست لوگ اپنا مقصد حاصل کرنے اور اپنے جاہ و ثروت کا تحفظ کرنے کے لئے عمل پیرا ہوتے ہیں۔

حقیقی سیاست یہ ہے کہ عدل و اںصاف کا دامن نہ چھوڑتے ہوئے ہرکام کو اس کے صحیح محل پر انجام دیا جاۓ ایسی سیاست ان حق پرست لوگوں کے یہاں نشو ونما پاتی ہے جو فانی جاہ و منصب کے طالب نہیں ہیں بلکہ ان کی خواہش صرف یہ ہے کہ حق کا رواج ہو، لہذا حضرت علی علیہ السلامجو حق و حقیقت، عدالت و اںصاف اور صداقت صلاحیت کے مجسمہ تھے اس طرح کی سیاست سے الگ تھے جس پر دوسرے لوگ کار بند تھے۔

۲۸۲

چنانچہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ جس وقت آپ کو خلافت ظاہری حاصل ہوئی تو فورا تمام پچھلے حکام اور کارندوں کو معزول کردیا۔ عبداللہ ابن عباس(آپ کے ابن عم) اور دوسرے لوگوں نے عرض کیا کہ بہتر ہوگا اگر آپ یہ حکم چند روز کے لئے ملتوی فرمادیں تاکہ ساری ریاستوں اور دلایتوںکے حکام و عمال آپ کے اقتدار خلافت کو تسلیم کرلیں، اس کے بعد آہستہ آہستہ ان کی معزولی کا فرمان نافذ فرمائیں۔

حضرت نے فرمایا، تم نے ظاہری سیاست کا لحاظ کرتے ہوتے یہ مشورہ دیا ہے لیکن یہ بھی جانتے ہو کہ اس ظاہری سیاست کے خیال سے میں جتنے زمانے تک ظالم و جابر حکام کو ان کے عہدوں پر باقی رکھوں گااور ان کی بقا پر راضی رہوں گا چاہے وہ وقتی اور ظاہری حیثیت سے کیوں نہ ہو، خدا کے نزدیک ان کے اعمال کا ذمہ دار قرار پاؤں گا اور موقف حساب میں مجھ کو اس کا جواب دینا پڑے گا؟

قطعی طور پر سمجھ لو کہ علی(ع) سے ہرگز ایسا نہیں ہوسکتا۔

غرضیکہ عدل و انصاف کی حفاظت کے لئے فورا ان کی معزولی کے احکام روانہ فرماۓ اور یہی فرمان معاویہ اور طلحہ و زبیر وغیرہ کی مخالفت کا باعث ہوا،جنہوںنے علم بغاوت بلند کر کے نفسانی خواہشات اور شیطانی خیالات کی بنا پرانقلاب اور خون ریزی کا بازار گرم کیا۔

طبری نے اپنی تاریخ میں، ابن عبدربہ نے عقد الفرید میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں نیز اوروں نے نقل کیا ہے کہ علی علیہ السلام بار بار یہی فرماتے تھے کہ اگر مجھے دین و تقوی نے اور عدل و انصاف کا لحاظ نہ ہوتا تو میں تمام عرب سے زیادہ چالاکی اور مکاری کرسکتا تھا اور میری ہوشیاری سب سے بڑھی ہوئی تھی۔

محترم حضرات! آپ کو دھوکا ہوا ہے اور بغیر تحقیق کے غلط پروپیگنڈے کے شکار ہورہے ہیں جو یہ سمجھ رہے ہیں کہ حضرت کے زمانہ خلافت کا انقلاب اورلوگوں کی پراگندگی آپ کے سیاست نہ جاننے کے وجہ سے تھی۔ در آں حالیکہ حقیقت یہ نہیں تھی بلکہ کچھ دوسرے ہی وجود و اسباب کام کررہے تھے جن کی پوری تفصیل تو اس تنگ وقت میں پیش نہیں کی جاسکتی لیکن آپ کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے ان میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتا ہوں تاکہ یہ معما حل ہوجاۓ۔

امیرالمومنین(ع) کے دورِ خلافت میں انقلاب کے اسباب

اولا تو تقریبا پچیس سال تک جن لوگوں کو حضرت سے کینہ اور بغض و عداوت رکھنے کی تربیت دی جاچکی تھی ان کے لئے بہت مشکل تھا کہ دفعتا سب کے سب آپ کی ولایت و خلافت پر رضامند ہوکر آپ کی بلند منزلت کی تصدیق کریں (چنانچہ خلافت کے پہلے ہی روز اس زمانے کے شریف زادوں میں سے ایک صاحب مسجد کے دروازے سے داخل

۲۸۳

ہوۓ اور حضرت کو منبر پر دیکھا تو بآواز بلند کہا کہ اندھی ہوجاۓ وہ آنکھ جو بجاۓ خلیفہ عمر کے علی کو منبر کے اوپر دیکھے)

دوسرے دنیا طلب لوگوں کے لئے حضرت کے عدل و اںصاف کو قبول کرنا ممکن نہیں تھا( بالخصوص خلافت عثمان کے اندر حکومت بنی امیہ کے آخری برسوں میں جب کہ ان کو مکمل آزادی حاصل تھی) لہذا انہوں نے مخالفت کی آواز بلند کی تاکہ کوئی ایسا شخص برسر اقتدار آجاۓ جو ان کی دنیا پرستی اور ہوا و ہوس کے جذبات پورے کرسکے( چنانچہ خلافت معاویہ کے زمانے میں ان کی تمنائیں اور مرادیں بر آئیں اور دنیا طلبی کے مقاصد پورے ہوۓ) اسی بنائ پر طلحہ و زبیر نےپہلے تو بیعت کی لیکن جب حضرت سے حکومت کا تقاضا کیا اور وہ پورا نہیں کیا گیا تو فورا بیعت توڑ دی اور جنگ جمل کا فتنہ اٹھا کر کھڑا کردیا۔

تیسرے بہتر ہوگا کہ تاریخ کو ذرا غور سے پڑھئے اور انصاف کی نظر ڈالئے تو ظاہر ہو کہ ابتداۓ خلافت ہی سے فتنہ و فساد اور انقلاب انگیزی کا بانی کون تھا اور کس شخص نے لوگوں کو تحریص و ترغیب دے کر مخالفت اور بغاوت پر آمادہ کیا جس سے اس کثرت کے ساتھ خون ریزی ہوئی؟ آیا وہ شخص علاوہ ام المومنین عائشہ کے کوئی اور تھا؟ آیا وہ عائشہ ہی نہیں تھیں جو اسلام کے تمام شیعہ و سنی علمائ اور محدثین و مورخین کی شہادت کی روشنی میں اونٹ پر سوار ہوکر خدا و رسول کے اس فرمان کے برخلاف کہ اپنے گھر کے اندر بیٹھو) بصرہ پہنچیں اور انقلاب وفتنہ و فساد کی آگ بھڑکا کر لاتعداد مسلمانوں کا خون بہانے کی ذمہ دار ہوئیں؟

پس حضرت کی سیاسی ناواقفیت انقلاب اور فتنہ و فساد کا سبب نہیں بنی بلکہ پچیس سال تکتربیت پاۓ ہوۓ لوگوں کا طرزِ عمل ام المومنین عائشہ کی عداوت اور کینہ اور دنیا طلب اشخاص کی حرص و ہوس انقلاب اور خون ریزی کی باعث ہوئی۔

چوتھے آپ نے اشارہ کیا ہے کہ اندرونی لڑائیاں اور خون ریزیاں حضرت کی سیاسی کمزوری کی وجہ سے رونما ہوئیں تو یہ بھی ایک بہت بڑا اشتباہ ہے جو آپ نے بغیر تاریخ پر غور کئے بیان کیا ہے۔

اول تو عقل و اںصاف سے جائزہ لینے کے بعد نظر ہی آجاتا ہےکہ ان اندرونی لڑائیوں اور خون ریزیوں کی بانی ام المومنین عائشہ تھیں جو پیغمبر(ص) کی صریحی ممانعت کے باوجود حضرت علی(ع) کے مقابلے پر اٹھ کھڑی ہوئیں اور تمام لڑائیوں اور قتل و خون ریزی کی جڑ ثابت ہوئیں۔ اس لئے کہ اگر عائشہ نے بغاوت نہ کی ہوتی تو اور کسی کو حضرت کے مقابلے پر آنے کی جرات ہی نہ ہوتی جب کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے صاف صاف فرمادیا تھا کہ علی(ع) سے جنگ کرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے۔ پس جس شخص نے لوگوں کو جرات دلائی اور حضرت سے جنگ کرنے پر تیار کیا وہ عائشہ تھیں،جنہوں نے جنگ جمل کی تشکیل کی اور علی علیہ السلام کے حق میں بیہودہ باتیں کہہ کے میدان جنگ کو گرمایا اور لوگوں کی ہمت بڑھائی۔

۲۸۴

جمل و صفین اور نہروان کے لئے پیغمبر(ص) کی پشین گوئی

دوسرے بصرہ اور صفین و نہروان میں منافقین و مخالفین سے آپ کی لڑائیاں وہی نوعیت رکھتی تھیں جو کفار کے مقابلے میں رسول اللہ(ص) کی جنگیں۔

شیخ: مسلمانون کے مقابلے میں لڑائیاں مشرکین سے لڑائیوں کے مانند کیوکر تھیں؟

خیر طلب: اس صورت سے کہ بنا بر ان اخبار و احادیث کے جن کو آپ کے اکابر علمائ نے مثلا امام احمد حنبل نے مسند میں، سبط ابن جوزی نے تذکرہ میں، سلیمان بلخی نے ینابیع المودت میں، امام عبدالرحمن نسائی نے خصائص العلوی میں، محمد بن طلحہ شافعی نے مطالب السئول میں، محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب37 میں اور ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ ( مطبوعہ مصر) جلد اول ص67 میں نقل کیا ہے کہ رسول خدا صلعم نے ناکثین و قاسطین و مارقین سے علی علیہ السلام کی جنگوں کی خبر دی ہے۔ جن میں ناکثین سے طلحہ و زبیر اور ان کے ساتھی، قاسطین سے معاویہ اور ان کے پیرو اور مارقین سے نہروان کے خوارج مراد تھے، یہ سب کے سب باغی اور واجب القتل تھے اور خاتم الانبیائ صلعم نے ان لڑائیوں کی خبر دیتے ہوۓ اسی کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ محمد ابن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب37 میں اسناد کے ساتھ ایک حدیث سعید ابن جبیر سے اور انہوں نے ابن عباس( جرامت) سے نقل کی ہے کہ رسول اللہ صلعم نے ام المومنین ام سلمہ سے فرمایا:

" هذا علي بن أبي طالب لحمه‏ من‏ لحمي‏، و دمه من دمي، و هو مني بمنزلة هارون من موسى غير أنه لا نبي بعدي. و قال: يا أم سلمة اشهدي و اسمعي هذا علي أمير المؤمنين و سيد المسلمين و وعاء علمي، و بابي الذي أوتي منه، و أخي في الدنيا و الآخرة، و معي في السنام الأعلى، يقتل القاسطين و الناكثين و المارقين."

یعنی یہ علی ابن ابی طالب ہیں ان کا گوشت میرے گوشت سے اور ان کا خون میرے خون سے ہے اور یہ مجھ سے بمنزلہ ہارون ہیں موسی سے لیکن یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہ ہوگا۔ اے ام سلمہیہ علی مومنین کے امیر مسلمانوں کے سردار، میرے علم کے مخزن، میرے وصی اور میرے علوم کے دروازہ ہیں جو ان سے حاصل ہوتے ہیں یہ دنیا و آخرت میں میرے بھائی اور مقام اعلیٰ میں میرے ساتھ ہیں۔ یہ ناکثین ، قاسطین اور مارقین سے جنگ کریں گے۔

اس حدیث کو نقل کرنے کے بعد محمد بن یوسف اس پر تبصرہ کرتے ہوۓ کہتے ہیں کہ یہ حدیث اس بات

۲۸۵

پر پوری دلالت کرتی ہے کہ رسول اللہ نے علی علیہ السلام سے ان تینوں گروہوں کے ساتھ جنگ کا وعدہ کیا اور قطعا آں حضرت(ص) کا ارشاد برحق اور جو وعدہ فرمایا تھا وہ سچا تھا اور یقینا آں حضرت(ص) نے علی کو ان تینوں گروہوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا چنانچہ مخنف بن سلیم کی سند سے مروی ہے کہ انہوں نے کہا، ابوایوب اںصاری ( جو رسول خدا(ص) کے بزرگ صحابہ میں سے تھے) ایک لشکر کے ساتھ جنگ پر آمادہ ہوۓ تو میں نے ان سے کہا کہ اے ابوایوب تمہارا معاملہ عجیب ہے، تم وہی ہو جس نے رسول خدا(ص) کے ہمراہ مشرکین سے جنگ کی اور اب مسلمانوں سے جنگ کرنے پر تلے ہوۓ ہو۔ انہوں نے جواب دیا :

"ان رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله امرنى‏ بقتال‏ الناكثين و القاسطين و المارقين."

رسول اللہ(ص) نے مجھ کو تین گروہوں سے جنگ کرنے کا حکم دیا ہے اور وہ ناکثین قاسطین اور مارقین ہیں۔

اورجو میں نے یہ عرض کیا کہ اہل بصرہ(جمل) معاویہ ( صفین) اور اہل نہروان سے امیرالمومنین علیہ السلام کی جنگیں اسی طرح کی تھیں جس طرح کفار و مشرکین سے رسول کی جنگ، تو آپ کے اکابر علمائ جیسے امام ابو عبدالرحمن نسائی خصائص العلوی حدیث، ص155 میں ابو سعیدخدری کی سند سے اور سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت باب10 ص59 میں جمع الفوائد سے بروایت ابوسعید نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا، ہم صحابہ کے ساتھ بیٹھے ہوۓ رسول اللہ(ص) کے منتظر تھے کہ ا تنے میں آں حضرت(ص) ہماری طرف اس حالت میں تشریف لاۓ کہ آں حضرت(ص) کی نعلین کا تسمہ کٹ گیا تھا۔ اس جوتی کو علیعلیہ السلام کی طرف ڈال دیا اور علی(ع) اس کو سینے میں مشغول ہوگئے، اس وقت آں حضرت(ص) نے فرمایا:

"إنّ‏ منكم‏ من‏ يقاتل‏ على تأويل القرآن كما قاتلت على تنزيله». فقال أبو بكر: أنا ؟ قال: «لا». فقال عمر: أنا ؟ قال: «لا، و لكنّه خاصف النعل"

یعنی یقینا تم میں سے ایک شخص وہہے جو قرآن کی تاویل پر جنگ کرے گا جس طرح میں نے اس کی تنزیل پر جنگ کی ہے۔ پس ابوبکر نے عرض کیا وہ شخص میں ہوں؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا نہیں۔ پھر عمر نے کہا میں ہوں؟ فرمایا نہیں، بلکہ جوتی سینے والا شخص ہے(یعنی علی علیہ السلام)۔

پس یہ حدیث ایک نص صریح ہے اس چیز پر کہ علی علیہ السلام کی جنگیں جہاد برحق اور قرآن مجید کی تاویل اور اس کے حقیقی مفہوم کی حفاظت کے لئے تھیں جیسا کہ رسول اللہ(ص) کی جنگیں قرآن کی تنزیل اور اس کے ظاہری نزول کے لئے تھیں یہ تینوں لڑائیاں جو علی علیہ السلام نے لڑیں ارشاد پیغمبر(ص) کے مطابق مسلمانوں کے مقابلے میں نہیں تھیں، کیونکہ اگرمسلمانوں سے جنگ ہوتی تو یقینا آں حضرت(ص) اس سے منع فرماتے نہ یہ کہ اس کے لئے حکم دیتے اور مخالفین کو ناکثین و قاسطین و مارقین کے ناموں سے یاد کرتے جو خود اپنی جگہ پر ان لوگوں کے ارتداد اور قرآن سے بغاوت کرنے کی دلیل ہے، جس طرح مشرکین قرآن کے مقابلے پر آچکے تھے معلوم ہوا کہ یہ سارے انقلابات اور لڑائیاں امیرالمومنین علیہ السلام کی سیاسی ناتجربہ کاری سے نہیں بلکہ مخالفین کے بغض و نفاق اور رسول اللہ(ص) کے قواعد و قوانین اور ہدایات پر ان کے توجہ نہ کرنے کے سبب سے تھیں۔ اگر آپ حضرات از روۓ علم و اںصاف اور غیر جانب داری کے ساتھ اس مکمل شرعی حکومت کے طور طریقے

۲۸۶

آپ کی پنج سالہ خلافت اور ان احکام پر جو آپ ولایتوں کے حکام اور فوجی وملکی افسروں کے نام صادر فرماتے تھے غور کیجئے ( مثلا وہ احکام و ہدایات جو حکومت مصر میں مالک اشتر اور محمد ابن ابی بکر کو، بصرے کی حکومت میں عثمان بن حنیف اور عبداللہ ابن عباس کو اور حکومت مکہ میں قثم ابن عباس کو نیز اپنے دوسرے عمال کو ان کی تقرری کے زمانے میں دیئے اور جو نہج البلاغہ کے اندر جمع ہیں) تو تصدیق کیجئے گا کہ رسول اللہ(ص) کے بعد علی علیہ السلام کا ایسا عادل اور قوم پرور سیاست دان چشم روزگار نے نہیں دیکھا، جس کا دوست و دشمن سبھی کواعتراف ہے۔ اس لئے کہ حضرت تقوی و پرہیزگاری میں امام المتقین تھے، علم ودانش میں کتاب اللہ کی تفسیر وتاویل، ناسخ و منسوخ ، محکم و متشابہ اور اس کے مجمل ومفصل کے اور اس کے علاوہ غیب و شہود کے عالم تھے۔

شیخ : میں اس مبہم جملے کے معنی نہیں سمجھا کہ آپ نے سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کو غیب و شہود کا عالم کہہ دیا۔ غیب و شہود کا مطلب میری سمجھ میں نہیں آیا، التماس ہے کہ وضاحب کے ساتھ بیان فرمائیے۔

خیر طلب: اس مطلب میں کوئی ابہام نہیں ہے۔ علم غیب امور عالم کے باطنی حالات سے واقفیت اور کائنات کے پوشیدہ اسرار سے آگاہی کو کہتے ہیں جس کے عالم غیب الغیوب یعنی خداۓ عزوجل کے افاضات سے انبیائ اور ان کے اوصیائ تھے، البتہ ہرایک کو غیبی امور پر اسی حد تک آگاہی ملی جس قدر خداوند عالم نے ان کے لئے مناسب اور ان کے تبلیغات کے واسطے ضروری جانا اور خاتم الانبیائ(ص) کے بعد ایسے علم کی عالم امیرالمومنین علی (ع) کی ذات تھی۔

شیخ: جناب عالی سے مجھ کو یہ توقع نہیں تھی کہ غالی شیعوں کے باطل عقاید کو ( باوجودیکہ ان سے بیزاری کا اظہار بھی کرتے ہیں) بیان کیجئے گا۔

بدیہی چیز ہے کہ یہ ایسی تعریف ہے جس سے خود صاحب تعریف بھی راضی نہیں اس لئے کہ علم غیب ذات باری تعالی کے مخصوص صفات میں سے ہے اور بندوں میں سے کوئی شخص اس میں دخل نہیں رکھتا۔

خیر طلب : آپ کی یہ گفتگو اسی غلط فہمی کا نتیجہ ہے جس میں عمدا یا سہوا آپ کے اسلاف مبتلا رہ چکے ہیں اور اب آپ بھی بغیر سوچے سمجھے اور غور و فکر کے انہیں کی پیروی میں یہ باتیںزبان پر جاری کررہے ہیں۔ اگر آپ تھوڑی دقت نظر سے کام لیتے تو حقیقت بے نقاب ہوجاتی ہے معلوم ہوجاتا کہ انبیاۓ عظام و اوصیاۓ کرام اور خدا کے برگزیدہ بندوں کے لئے علم غیب کا معتقد ہونا ہرگز غلو سے کوئی ربط نہیں رکھتا، بلکہ یہ تو ان کی ایک صفت اور ان کے لئےخالص مقام عبودیت کا اثبات تھا جس پر عقل و نقل اور قرآن مجید کی نص صریح شہادت دے رہے ہیں۔

۲۸۷

علم غیب سواۓ خدا کے کوئی نہیں جانتا

شیخ: یہ بے لطفی کی بات ہے کہ آپ نے قرآن کا حوالہ دیا ہے، حالانکہ قرآن کریم کی نص آپ کے اس بیان کے خلاف وارد ہوئی ہے۔

خیر طلب: میں بہت ممنوں ہوں گا جن آیات کو آپ مخالف بتارہے ہیں ان کی تلاوت فرمائیے۔

شیخ: قرآں کریم کے اندر کئی آیتیں ایسی ہیں جو میری اس گذارش پر گواہ ہیں۔ آیت نمبر59 سورہ6 ( انعام) میں صاف صاف ارشاد ہے:

" وَ عِنْدَهُ‏ مَفاتِحُ‏ الْغَيْبِ لا يَعْلَمُها إِلَّا هُوَ وَ يَعْلَمُ ما فِي الْبَرِّ وَ الْبَحْرِ وَ ما تَسْقُطُ مِنْ وَرَقَةٍ إِلَّا يَعْلَمُها وَ لا حَبَّةٍ فِي ظُلُماتِ الْأَرْضِ وَ لا رَطْبٍ وَ لا يابِسٍ إِلَّا فِي كِتابٍ مُبِينٍ‏."

یعنی خزانہ غیب کی کنجیاں خدا کے پاس ہیں سوا خدا کےآگاہ نہیں ہے، نیز خشکی اور سمندر میں جو کچھ ہے اس سے واقف ہے اور درخت کا کوئی پتا نہیں گرتا ہے لیکن یہ کہ اس کو جانتا ہے اور زمین کی تاریکیوں میں کوئی دانہ ایسا نہیں ہے اور نہ کوئی خشک و تر ایسا ہے جو کتاب مبین میں درج نہ ہو۔

یہ آیت دلیل قاطع ہے کہ سوا ذات پروردگار کے کوئی شخص علم غیب کا عالم نہیں ہے اور جو شخص غیر خدا کے لئے علم غیب کا قائل ہو اس نے غلو کیا اور ایک ضعیف بندے کو خدائی کی صفت میں شریک قرار دیا اور آں حالیکہ ذات الہی ذاتی اور مفاتی دونوں حیثیتوں میں شریک سے معرا و مبرا ہے۔ آپ نے جو یہ فرمایا کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ علم غیب سے واقف تھے تو علاوہ اس کے کہ آپ نے ان کو خدا کی مخصوص صفت میں شریک قرار دے دیا، ان کی منزل کو پیغمبر(ص) کی بلند منزل سے بھی اونچا کردیا، کیونکہ خود رسول اللہ(ص) مکرر فرماتے تھے کہ میں تمہارا ایسا ایک انسان ہوں۔ اور علم غیب کا عالم خدا ہے۔ اور آں حضرت(ص) صریحی طور پر علم غیب سے اپنی عاجزی کا اظہار کرتے تھے۔ کیا آپ نے سورہ نمبر18(کہف) کی آیت 110 نہیں پڑھیں ہے جس میں ارشاد ہے کہ:

"قُل إِنَّما أَنَا بَشَرٌ مِثْلُكُمْ‏ يُوحى‏ إِلَيَّ- أَنَّما إِلهُكُمْ إِلهٌ واحِدٌ"( یعنی (اے رسول(ص)) امت سے کہہ دو کہ میں تمہارا ہی ایسا انسان ہوں(صرف فرق اتنا ہے کہ) مجھ پر وحی نازل ہوتی ہے۔ سوا اس کے نہیں ہے کہ تمہارا معبود خداۓ واحد ہے) ؟ نیز آیت نمبر188 ( اعراف) فرمایا ہے:

"قُلْ لا أَمْلِكُ‏ لِنَفْسِي‏ نَفْعاً وَ لا ضَرًّا إِلَّا ما شاءَ اللَّهُ وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ الْغَيْبَ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ وَ ما مَسَّنِيَ السُّوءُ إِنْ أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ وَ بَشِيرٌ لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ"

یعنی (اے رسول(ص)) امتسے کہہ دو کہ میں اپنے نفع اور ضرر کا مالک نہیں ہوں سوا اس کے کہ جو خدا نے چاہا ہے۔ اور اگر میں(از خود) غیب کا عالم ہوتا تو اپنے لئے کثیر فائد مہیا کرلیتا اور کبھی نقصان و رنج نہ اٹھاتا میں صرف ایمان لانے والوں کو ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں۔

اور آیت نمبر33 سورہ نمبر11( ہود) میں فرماتا ہے:

" وَ لا أَقُولُ‏ لَكُمْ‏ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ ..."

۲۸۸

یعنی میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ خدا کے خزانے میرے پاس ہیں اور نہ میں خود علم غیب سے آگاہ ہوں۔

مزید بر آں آیت 201 سورہ نمبر27( النمل) میں ارشاد ہے:

" قُلْ لا يَعْلَمُ مَنْ فِي السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ الْغَيْبَ إِلَّا اللَّهُ وَ ما يَشْعُرُونَ أَيَّانَ‏ يُبْعَثُونَ‏."

یعنی (اے رسول(ص)) کہہ دو کہ آسمانوں اور زمین میں سوا خدا کے کوئی علم غیب سے آگاہ نہیں ہے اور یہ بھی شعور نہیں رکھتے کہ کب محشور ہوں گے۔

ایسی صورت میں کہ خود پیغمبر(ص) ان آیات شریفہ کے کھلے ہوۓ اعلان سے علم غیب نہ جاننے پر یقین رکھتے ہیں اور اس علم کو ذاتِ الہی کے مخصوصات میں سے سمجھتے ہیں، آپ کیونکر علی(ع) کے لئے ایسے علم کے قائل ہیں؟ پس اس عقیدے کا مطلب سوا اس کے اور کچھ نہیں ہے کہ علی(ع) کی منزل پیغمبر(ص) کی منزل سے بالاتر ثابت کی جاۓ۔ آخر آپ کس قاعدے سے غیر خدا کے لئے علم غیب کے قائل ہیں؟ اگر علی(ع) کو خدا کا شریک قرار دینے والا آپ کا یہ عقیدہ غلو نہیں ہے تو پھر غلو کیا چیز ہے۔

خیر طلب: آپ کے بیانات کے مقدمات صحیح ہیں جو ہمارے لئے قابل قبول ہیں اور یہی ہم سب کا عقیدہ ہے لیکن ان سے آپ نے جو نتیجہ نکالا ہے وہ ناقص ہے۔

انبیائ(ص) و اوصیائ(ع) کو علم غیب خدا کی طرف سے ملتا ہے

آپ نے فرمایا ہے کہ عالم غیب ذات پروردگار ہے۔ غیب کی کنجیاں خداۓ تعالیٰ کے پاس ہیں اور سورہ کہف کی آخری آیت کے پیش نظر خاتم الانبیائ حضرت رسول خدا صلعم تمام انبیاۓ عظام، اوصیاء کرام اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین بھی دوسرے انسانوں کے مانند انسان ہیں جو اپنی جسمانی ساخت میں کوئی زیادتی نہیں رکھتے اور ان حضرات کے اجسام طاہرہ بھی اسی طرح پیدا ہوۓ ہیں جس طرح دوسروں کے تو اسمیں ہرگز کوئی شک و شبہ نہیں ہے اور سارے فرقہ امامیہ کے یہی عقائد ہیں۔ نیز جو آیتیں آپ نے تلاوت کیں وہ سب اپنے اپنے محل پر صحیح ہیں۔ لیکن آپ نے سورہ ہود کی جو آیت پڑھی ہے وہ شیخ الانبیائ حضرت نوح علی نبینا و آلہ و علیہ وسلم کے بارے میں ہے۔ البتہ سورہ نمبر6( انعام) کی آیت نمبر50 ہمارے عظیم المرتبت پیغمبر(ص) کے لئے مخصوص ہے، کیونکہ جب کفار و مشرکین آں حضرت سے علامتوں کا مطالبہ کرتے تھے کہ ان پر کوئی خزانہ کیوں نہیں اترتا اور وہ مستقل غیب سے کیوں واقف نہیں ہیں؟ تو ان کے جواب میں یہ آیہ شریفہ نازل ہوئی:

"

‏ قُلْ‏لا أَقُولُ لَكُمْ عِنْدِي خَزائِنُ اللَّهِ وَ لا أَعْلَمُ الْغَيْبَ- وَ لا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ- إِنْ‏ أَتَّبِعُ‏ إِلَّا ما يُوحى‏ إِلَيَ‏"

یعنی کہہ دو کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا کہ میرے پاس خدا کے خزانے ہیں، نہ یہ کہ میں عالم الغیب ہوں اور نہ اس کا مدعی ہوں کہ فرشتہ ہوں( میں فقط اتنا کہتا ہوں کہ ) میں صرف اسی کی پیروی کرتا ہوں جس کی مجھ پر وحی ہوتی ہے۔

اس آیہ مبارکہ کے نزول کا مقصد یہ تھا کہ جاہل لوگوں کی ہوس بازیوں کی روک تھام کی جاۓ تاکہ وہ جان لیں کہ خدائی

۲۸۹

کارخانہ اور نبوت و رسالت کی منزل اس سے بالاتر ہے کہ شعبدہ بازی کے اسٹیج کے مانند ان کو خوش کرنے اور ان کے مطالبات پورے کرنے کا ذریعہ بنے۔ رہا وہ علم غیب جس کے ہم انبیاء اور ان کے اوصیائ کے لئےقائل ہیں، وہ وہ خدائی کی صفت میں شریک نہیں ہے بلکہوحی والہام کا ایک حصہ ہے جو من جانب خدا ن حضرات پر نازل ہو کر ان کے سامنے سے پردے اٹھاتا تھا اورحقائق کو ان پر ظاہر کرتا تھا۔ بہتر ہوگا کہ ہم اس سے زیادہ وضاحت کے ساتھ مطالب کی تشریح کریں تاکہ حقیقت کھل جاۓ اور دھوکا دینے والے لوگ شیعوں کے عقائد میں بے جا دخل اندازی نہ کریں، ان پر تہمتیں نہ لگائیں اور یہ نہ کہیں کہ شیعہ اپنے اماموں کا علم خداوندی میں شریک سمجھتے ہیں لہذا مشرک ہیں۔

علم کی دو قسمین ہیں، ذاتی اور عرضی

ہماری شیعہ امامیہ جماعت کا اعتقاد یہ ہے کہ علم کی دو قسمیں ہیں ذاتی اور عرضی۔

علم ذاتی وہ ہے جس میں الگ سے قطعا کوئی چیز عارض نہیں ہوتی اور ایک فرد اکمل پر اس کا اطلاق انحصار ہے۔ یہ خداۓ عزوجل کی ذات سے مخصوص ہے اور ہم سوا اس اجمال اقرار کے اس کی حقیقت کا کوئی تصور کرنے سے قاصر ہیں ہم اس کی جو بھی تعبیر یا اندازہ کریں وہ چند محدود الفاظ سے زیادہ نہ ہوگا۔ ورنہ علم بالذات کی انسان عاجز کا احاطہ عقل و خیال میں سمائی نہیں ہوسکتی۔

اور علم عرضی کا مطلب یہ ہے کہ کوئی انسان پیغمبر(ص) ہو یا امت میں سے امام ہو ماموم، ذاتی طور پر علم کا مالک نہیں ہوتا بلکہ بعد کو اس سے مستفیض ہوتا ہے، اور اس کی بھی دو قسمیں ہیں، تحصیلی اور لدنی۔ یہ دونوں قسمیں خداوند عالم کے فیضان قدرت سے تعلق رکھتی ہیں۔ پہلی قسم میں جو طالب العلم تحصیل علم کرتا ہے اس کی کوششیں اس وقت تک بار آور نہیں ہوسکتیں جب تک فیضاں الہی اس کی تائید نہ کرے۔ اور چاہے جس قدر زحمت برداشت کرے عالم نہیں بن سکتا، سوا اس کے اسباب تعلیم یعنی مدرسہ جانے اور استاد کے آگے زانوۓ ادب تہ کرنے کے ساتھ ساتھ توفیق خداوندی بھی شاملِ حال ہو ایسی صورت میں جتنی مدت تک اور جس قدر مشقت برداشت کرے گا کسب فیض کرتا رہے گا۔

رہی دوسری قسم یعنی علم لدنی تو اس میں انسان بلا واسطہ کسب فیض کرتا ہے اور بغیر حروف و الفاظ کی تحصیل و تعلیم کے مبدا فیاض مطلق سے براہِ راست افاضہ ہوتا ہے جس سے وہ عام ہو جاتا ہے چنانچہ آیت نمبر64 سورہ نمبر18( کہف) میں ارشاد ہے:"وَ عَلَّمْناهُ مِنْ‏ لَدُنَّا عِلْماً "(یعنی ہم نے ان کو اپنے پاس سے علم لدنی ( اور اسرار غیب) کی غیب تعلیم دی۔)

کسی ایک شیعہ نے بھی اس کا دعوی نہیں کیا ہے کہ غیبی امور کا علم پیغمبر(ص) یا امام کا جزئ ذات تھا یعنی رسول اللہ(ص) اور ائمہ(ع) ذاتی حیثیت سے اسی طرح علم غیب کے عالم تھے جس طرح خداۓ تعالی عالم الغیب ہے۔البتہ جو ہم کہتے ہیں

۲۹۰

اور جو ہمارا عقیدہ ہے وہ یہ ہے کہ خداۓ بزرگ و برتر کی ذات مجبور اور محدود نہیں ہے بلکہ جو اس کی مشیت ہو اس میں سب سے زیادہ خود مختار اور قادر مطلق ہے اور جن مواقع پر اس کی مشیت و مصلحت کا تعلق ہو وہ اپنی کسی بھی مخلوق کو حسب ضرورت اور مناسب علم و قدرت دینے پر قادر و توانا ہے۔چنانچہ کبھی تو بشری معلم کے واسطے اور ذریعے سے اور کبھی بلا واسطہ اپنے فیض کا افاضہ فرماتا ہے اور اسی کو بلا واسطہ علم لدنی اور علم غیب سے تعبیر کرتے ہیں جس میں بغیر مکتب میں یا استاد کے پاس حاضری کے فیض حاصل کیا جاتا ہے۔ بقول شاعر؎

نگار من کہ بہ مکتب نہ رفت و خط نہ نوشتبغمزہ مسئلہ آموزِ صدر مدرس شد

شیخ : آپ کا مقدماتی بیان درست ہے لیکن مشیت خداوندی ایسے غیر فطری امر سے متعلق نہیں ہوتی کہ بغیر معلم اور مدرس کے اپنے علم غیب کا اضافہ کرے۔

خیر طلب: آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو اسی مقام پر دھوکاہوا ہے کیونکہ کہ تھوڑے سے غور و فکر سے کام نہیںلیتے یہاں تک کہ اپنے اکثرمحققین علمائ کے برخلاف گفتگو کرتے ہیں، ورنہ مطلب اس قدر صاف اور واضح ہے کہ اس میں بحث کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اس حقیقت میں کہ خداۓ تعالی نے تمام انبیائ اور ان کے اوصیائ کو جو اس کے برگزیدہ بندے ہیں جس قدر ہر ایک کی استعداد اور حلقہ عمل کے لحاظ سے ضروری تھا علم غیب کا افاضہ فرمایا ہے۔ کوئی شک و شبہ نہیں ہے۔

شیخ : قرآن مجید کی ان منفی آیتوں کے مقابلے میں جو صریحی طور سے جملہ افراد بشر سے علم غیب کی نفی کر رہی ہیں۔ آپ کے پاس اپنے دعوے کے ثبوت میں کیا دلیل ہے؟

خیر طلب: ہم قرآن مجید کی منفی آیتوں کے مخالف نہیں ہیں، اس لئے کہ قرآن کی آیت ایک مخصوص امر کے لئے نازل ہوئی ہے جو صورتِ حال کے لحاظ سے کبھی منفی اورکبھی مثبت ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے بزرگوں کا قول ہے کہ "آیات القرآن یشددد بعضها بعضا " یعنی آیات قرآن میں سے ایک آیت دوسرے کو مضبوط کرتی ہے۔ در اصل کفار مشرکین کے تقاضے کے مقابلے میں جو برابر آں حضرت سے علامات اور نشانیاں طلب کرتے رہتے تھے اور در حقیقت چاہتے یہ تھے کہ منصب نبوت کو اپنے ہاتھوں کا کھلونا بنادیں) یہ منفی آیتیں نازل ہوتی تھیں لیکن اصل مقصد کو ثابت کرنے کے لئے مثبت آیات کا بھی نزول ہوا تاکہ حقیقت کا انکشاف ہوجاۓ۔ رہے قرآن مجید اخبار صحیحہ اور تاریخ کے دلائل جن کا آپ کے علمائ کو بھی اعتراف ہے حتی کہ غیروں نے بھی تصدیق کی ہے بکثرت ہیں۔

۲۹۱

انبیائ(ص) و اوصیائ(ع) کے علمِ غیب پر قرآنی دلائل

شیخ: سخت تعجب ہے کہ آپ فرماتے ہیں دلیل مثبت قرآن کریم کے اندر ہے مہربانی کر کے وہ آیتیں پڑھئے۔

خیر طلب: تعجب نہ فرمائیے، آپ خود بھی واقف ہیں لیکن اقرار کرنا آپ کی مصلحت کے خلاف ہے،کیونکہ اس طرح آپ کو اپنے عقیدے کے مطابق خلافت کا ثبوت دینے میں بہت زحمت ہوجاۓ گی یا پھر اپنے اسلاف کی پیروی نے آپ کو تعجب پر مجبور کیا ہے۔ ارشاد الہی ہے :

"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏ الخ".(سورہ جن آیت26 ( وہی اللہ) غیب داں ہے اور اپنی غیب کی بات کسی پر ظاہر نہیں کرتا مگر جس کو پسند فرماۓ تو اس کے آگے اور پیچھے نگہبان فرشتے مقرر کردیتا ہے تاکہ دیکھ لے کہ انہوں نے اپنے پروردگار کے پیغامات پہنچا دئیے یہ آیت بتاتی ہے کہ حق تعالیٰ کے برگزیدہ مرسلین اس بارے میں مستثنی ہیں جن کو وہ علم غیب کا فیض پہنچاتا ہے۔

دوسرے یہی سورہ آل عمران کی آیت جس کا کچھ حصہ آپ نے پڑھا اور باقی چھوڑ دیا ہے، میرے دعوے اور مقصد ثابت کررہی ہے۔ پوری آیت یہ ہے:

"وَ ما كانَ اللَّهُ لِيُطْلِعَكُمْ‏ عَلَى‏ الْغَيْبِ‏ وَ لكِنَ‏ اللَّهَ‏ يَجْتَبِي مِنْ رُسُلِهِ مَنْ يَشاءُ ‏ فَآمِنُوا بِاللَّهِ ‏ وَ تَتَّقُوا ‏ فَلَكُمْ‏ أَجْرٌ عَظِيمٌ‏"

یعنی اللہ تم سب کو علم غیب سے آگاہ نہیں کرتا لیکن اس کے لئے اپنے رسولوں میں سے جس کو چاہتا ہے منتخب کرلیتا ہے۔ یہ دونوں آیتیں صاف صاف بتارہی ہیں کہ چند برگزیدہ ہستیاں جو خدا کی طرف سے رسالت پر مبعوث ہوئی ہیں امر الہی سے علم غیب پر فائز ہیں۔ اور اگر ذات خداندی کے علاوہ کسی اور کو علم غیب حاصل نہ ہوتا تو لفظ الا کے ساتھ الا من ارتضی من رسول کا جملہ استثنائیہ مہمل ہوجاتا۔ ظاہر ہے کہ اس مقام پر کوئی استثنا ضرور موجود ہے اور ان صاحبان استثناء کو معین بھی فرمایا کہ وہ اس کے رسول اور پیغام رساں یعنی انبیاۓ عظام اور اوصیاۓ کرام تھے۔ (چنانچہ سورہ ہود )میں فرمااتا ہے:

"تِلْكَ‏مِنْ‏ أَنْباءِ الْغَيْبِ‏ نُوحِيها إِلَيْكَ ما كُنْتَ تَعْلَمُها أَنْتَ وَ لا قَوْمُكَ مِنْ قَبْلِ هذا"

یعنی یہ خبر اخبار غیب میں سے ہے جو میں تمہاری طرف وحی کے ذریعے بھیج رہا ہوں۔ اس سے قبل نہ تم اس سے واقف تھے نہ تمہاری قوم۔

اور سورہ شوری میں ارشاد فرمایا ہے کہ:

" وَ كَذلِكَ أَوْحَيْنا إِلَيْكَ‏ رُوحاً مِنْ أَمْرِنا ما كُنْتَ تَدْرِي مَا الْكِتابُ وَ لَا الْإِيمانُ وَ لكِنْ جَعَلْناهُ نُوراً نَهْدِي بِهِ مَنْ نَشاءُ مِنْ عِبادِنا "

یعنی اور اسی طرح ہم نے روح یعنی ایک بزرگ فرشتے کو اپنے فرمان سے وحی کے لئے تمہاری طرف بھیجا تم ( علم تحصیلی سے ) یہنہیں جانتے تھے کہ کتاب خدا کیا چیز ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔ لیکن ہم نے اس کو نور علم دیا۔ جس کے ذریعے ہم اپنے بندوں میں سے جس کو چاہتے ہیں ہدایت کرتے ہیں۔

کہ دنیا علم غیب کا افاضہ نہ ہوتا تو انبیائ(ع)

۲۹۲

کیونکر باطنی امور کی خبر دیتے اور لوگوں کو ان کے باطنی حالات سے مطلع کرتے؟ حضرت بنی اسرائیل سے فرماتے :"وَ أُنَبِّئُكُمْ بِما تَأْكُلُونَ وَ ما تَدَّخِرُونَ‏ فِي بُيُوتِكُمْ" ( یعنی میں تم کو علم غیب سے اس کی خبر دیتا ہوں کہ تم اپنے گھروں میں کھایا کرتے ہو اور ذخیرہ کرتے ہو) آیا لوگوں کے اندرونی معاملات کی خبر دینا علم غیب سے تعلق نہیں رکھتا؟ اگر میں قرآن مجید کی وہ تمام آیتیں پیش کرنا چاہوں جو اس سلسلے میں وارد ہوئی ہیں تو جلسے کا وقت کافی نہ ہوگا میرا خیال ہے کہ ثبوت کے لئے اس قدر کافی ہوگا۔

شیخ: آپ لوگوں کے اسی قسم کے بیانات اور عقاید سے قوم کے اندر یایوں، جفاروں، نجومیوں، زائچہ بنانے والوں اسی طرح کے دوسرے فریب کاروں کے گروہ پیدا ہوگئے جو ناواقف لوگوں کو بیوقوف بنا کر اپنی جیبیں بھرتے اور خلق خدا کو گمراہی اور حق و حقیقت سے دوری کی طرف لے جاتے ہیں۔

سچے ذرائع سے علمِ غیب کے مدعی جھوٹے ہیں

خیر طلب : سچے عقائد بدبختی کے باعث نہیں ہوتے، یہ قوموں کی جہالت اور نادانی ہے جو ان کو ہر کس و ناکس کے دروازے پر کھینچ کے لے جاتی ہے، ورنہ مسلمان اگر عقل سے کام لیتے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی تاکیدی ہدایتوں کے مطابق علم اور عالم کی پیروی کرتے، بالخصوص قرآن کی معرفت حاصل کرتے اور روز اول ہی سے باب علم کو مسدود نہ کرتے تو ایرے غیرے اور خود غرض اشخاص کے پیچھے نہ دوڑتے، ہر شغال و روباہ کے شکار نہ بنتے اورسمجھ لیتے کہ قرآن صریحی اعلان کررہا ہے کہ" الا من ارتضی من رسول" خصوصیت کے ساتھ لفظ رسول نے تو شعبدہ بازوں اور بازیگروں کا راستہ باکل ہی بند کردیا ہے کیونکہ یہ لفظ اس چیز کی پوری وضاحت کررہا ہے کہ بغیر اسباب و ذرائع اور وسائل تحصیل علم کے مخصوص خداوندی علم غیب کے عالم صرف خدا کے بھیجے ہوۓ برگزیدہ افراد ہیں۔

اگر کوئی شخص جنبہ رسالت نہ رکھتا ہو یعنی پیغمبر یا امام نہ ہو پھر بھی رمل یا جفر یا قیافہ شناسی یا صوفیت یا مجذوبیت یا زائچہ بنانے یا ہتھیلی دیکھنے یا فال نکالنےیا اسی قسم کی دوسری ترکیبوں کے ذریعہ اللہ کے مخصوص علم سے متعلق غیبی خبریں دینے کا مدعی ہوتو وہ قطعا جھوٹا ہے اور قرآن مجید کے سمجھنے اور پیروی کرنے والے سچے مسلمان نہ ان کو حق پر سمجھتے ہیں نہ ان کی طرف دوڑتے ہیں اور ان کے فریب میں آتے ہیں۔ اس لئے کہ وہ اچھی طرح سمجھ بوجھ چکے ہیں کہ سوا قرآن مجید اور حاملین ومفسرین قرآن یعنی محمد و آل محمد صلوات اللہ علیہم اجمعین کے جو عدیل قرآن ہیں اور کسی کی پیروی نہ کرنا چاہیئے۔

خلاصہ کلام یہ کہ بجز پیغمبر(ص) اور آن حضرت(ص) کے اوصیاۓ طاہرین(ع) کے جو خدا کے برگزیدہ بندے ہیں اس امت میں جو شخص بھی غیب دانی کا دعوی کرے اور کہے کہ میں غیب کی خبر دیتا ہوں وہ لازمی اور مسلمہ حیثیت سے کذاب و شعبدہ باز ہے چاہے جو وسیلہ اور طریقہ اختیار کرے۔

۲۹۳

شیخ: انبیاء چونکہ نزول وحی کے مرکز تھے لہذا بقول آپ کے غیبی امور پر علم و اطلاع حاصل کرتے تھے لیکن کیا سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بھی پیغمبر تھے۔ یا امررسالت میں شریک تھے جس سے غیب کی باتوں پر آگاہی رکھتے تھے، جیسا کہ آپ ان کے لئے اس منزلت کو ثابت کررہے ہیں۔

انبیائ(ع) و اصیائ(ع) عالم غیب تھے

خیر طلب: اول یہ کہ آپ نے فرمایا ہے بقول آپ کے "تو آخر آپ قصدا سہو کر کےمغالطہ کیوں دے رہے ہیں؟ اور بقول آپ کے فرمانے کے عوض یہ کیون نہیں فرماتے کہ" بقول خداۓ تعالی"؟ میں نہ اپنی طرف سے کوئی چیز ایجاد کرتا ہوں نہ اپنی مرضی سے کوئی عقیدہ اور دعوی پیشکرتا ہوں بلکہ قرآن مجید کا حکم نقل کر کے مبین قرآن حضرت رسول خدا صلعم کے ارشادات سے اس کے حقائق کا انکشاف کررہا ہوں۔

ایک تو جیسا میں نے آیات قرآںی کے شواہد سے بتایا ہے کہ انبیائ ومرسلین حق تعالی کے برگزیدہ اور علم غیب کےعالم ہیں، خود آپ کے اکابر علمائ نے بھی اس مطلب کی تصدیق کی ہے اور حضرت خاتم الانبیاء(ص) سے اخبار غیبیہ نقل کرنے میں دلچسپی دکھائی ہے۔

من جملہ ان کے ابن ابی الحدید معتزلی شرح نہج البلاغہ جلد اول ص67( مطبوعہ مصر) میں رسول اللہ(ص) سے ایک حدیث نقل کرنے کےبعد کہ آں حضرت نے علی(ع) سے فرمایا:

" سَيُقَاتِلُ‏ بَعْدِيَ‏ النَّاكِثِينَ وَ الْقَاسِطِينَ وَ الْمَارِقِينَ "

یعنی عنقریب تم میرے بعد ناکثین و قاسطین و مارقین سے جنگ کروگے۔

کہتے ہیں ک یہ حدیث آں حضرت کے دلائل نبوت میں سے ہے، اس لئے کہ اس میں صریحی طور سے غیب کی خبر دی گئی ہے جس کے اندر ہرگز کسی شک اور شبے کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ اپنےبعد کے لئے جن واقعات کی خبر دی ہے وہ تقریبا تیس سال کے بعدبعینہ اسی طرح سے رونما ہوۓ۔ آں حضرت(ص) نے فرمایا تھا کہ تم ان تین گروہوں سے جنگ کرو گے جن میں ناکثین سے اہل جمل مراد تھے جنہوں نے طلحہ و زبیر کے اغوا سے عائشہ کی قیادت میں حضرت علی(ع) سے جنگ کی، قاسطین سے اہل صفین یعنی معاویہ کے پیرو مقصود تھے اور مارقین خوارج نہروان تھے جو دین سے خارج ہوگئے تھے انتہی( جیسا کہ پہلے تشریح کے ساتھ عرض کرچکا ہوں)۔

دوسرے فرقہ امامیہ اور شیعوں میں سے ایک شخص نے بھی امیرالمومنینعلی ابن ابی طالب(ع) اور ائمہ طاہرین سلام اللہ علیہم اجمعین کے لئے نبوت کا دعوی نہیں کیا ہے۔ بلکہ ہم خود مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کو خاتم النبیین اور بلاشرکت غیر کے امر نبوت میں مستقل جانتے ہیں اور مذکورہ بالا امر باطل کے مدعی اور معقد کو کافر سمجھتے ہیں۔ البتہ حضرت کو اور حضرت کی

۲۹۴

نسل سے گیارہ اماموں کو ائمہ برحق اور رسول اللہ(ص) کے منصوص اوصیائ خلفائ جانتے ہیں جن کو خداوند عالم نے آں حضرت(ع) کے واسطے اور ذریعے سے اسرار و غیوب پر آگاہ مطلع فرمایا ہے۔ ہمارا اعتقاد ہے اہل عالم کی نگاہوں کے سامنے جو ایک پردہ کھنچا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ دنیا کے اندر صرف انہیں چیزوں کو دیکھتے ہیں جو ظاہر و نمایاں ہیں وہی پردہ انبیائ(ع) و اصیائ(ع) کے سامنے بھی ہے لیکن وقت اور موقع کے لحاظ سے خداۓ عالم الغیب نے جو ہر قسم کے اضافے پر پوری قدرت رکھتا ہے جسقدر ضروری اور مصلحت کے مطابق تھا یہ حجاب ان کی نگاہوں سے ہٹا دیا جس سے وہ حالات پس پردہ کا بھی مطالعہ کرتے تھے اور اسی وجہ سے غیب کی خبریں دیتے تھے اور جس وقت مصلحت نہیں ہوتی تھی پردہ پڑا رہتا تھا اور یہ حضرات بھی بے خبر رہتے تھے۔( اسی بنا پر بعض روایتوں میں ہے کہ کبھی کبھی اپنی ناواقفیت کا اظہار کرتے تھے) چنانچہ ارشاد ہے:

"‏ وَ لَوْ كُنْتُ أَعْلَمُ‏ الْغَيْبَ‏ لَاسْتَكْثَرْتُ مِنَ الْخَيْرِ "

یعنی اگر میں عالم الغیب ہوتا تو یقینا اپنی خوبیوں میں اضافہ کرلیتا۔

مطلب یہ کہ میںبذاتِ خود مستقل طور پر غیب سے آگاہی نہیں رکھتا جب تک پردہ نہ اٹھے اور فیضان الہی شامل حال نہ ہو۔

شیخ: کہاں اور کس مقام پر پیغمبر(ص) نے امت والوں کو اس قسم کی خبریں دیہیں جس سے لوگ پوشیدہ حقائق پر آگاہ ہوۓ ۔

خیر طلب: آیا قرآنی آیتوں کی روشنی میں جن میں سے بعض کی جانب اشارہ کیا جاچکا ہے۔ آپ خاتم الانبیائ حضرت رسول خدا صلعم کومرتضی برگزیدہ خلائق اور خدا کا رسول برحق سمجھتے ہیں یا نہیں؟

شیخ: آپ نے یہ عجیب سوال کیا۔ بدیہی چیز ہے کہ آں حضرت(ص) مرتضی اور خاتم الانبیائ تھے۔

خیر طلب: بس آیہ شریفہ :"عالِمُ‏ الْغَيْبِ‏ فَلا يُظْهِرُ عَلى‏ غَيْبِهِ أَحَداً إِلَّا مَنِ ارْتَضى‏ مِنْ رَسُولٍ‏ " کے حکم سے پیغمبر(ص)خاتم علم غیب کے عالم تھے کیونکہ اس آیت میں ارشاد ہے کہ خداۓ عالم الغیب اپنے علم غیب سے صرف رسول مرتضی و برگزیدہ کو آگاہ کرتا ہے۔

شیخ: اگر فرض کر لیا جاۓ کہ آں حضرت(ص) غیب کے مالک تھے تو اس چیز کو اس چیز سے کیا ربط ہے کہ سیدنا علی کرم اللہ وجہہ بھی ضرور عالم غیب ہوں؟

خیر طلب: اگر آپ حضرات جمود اور تقلید اسلاف سے ہٹ کے دل و دماغ کو ذرا وسعت دیں اور اخبار صحیحہ اور حالات رسول اللہ صلعم پر غور کریں تو مطلب خود بخود واضح و آشکار ہوجاۓ۔

شیخ: اگر ہماری عقل محدود ہے ماشائ اللہ آپ کا دماغ تو کشادہ ہے اور زبان بھی روان ہے۔ فرمائیے کونسی حدیث ہے جو سیدنا علی اکرم اللہ وجہہ کے لئے علم غیب کو ثابت کرتی ہے؟

اگر عل غیب پیغمبر(ص) کے اوصیائ وخلفائ کے لئے ضروری ہو تو استثناء کے کوئی معنی نہیں اور لازمی طور پر سارے

۲۹۵

خلفائ بالخصوص خلفاۓ راشدین رضوان اللہ علیہم اجمعین کو عالم غیب ہونا چاہیئے حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ کسی ایک خلیفہ نے بھی ایسا دعوی نہیں کیا بلکہ خود پیغمبر(ص) کے مانند اپنے عجز کا اظہار کرتے تھے۔ پھر آپ تنہا علی کرم اللہ وجہہ کو کیونکر مستثنی کررہے ہیں۔

خیر طلب: اولا میں پیغمبر(ص) کے اظہار عجز کے سلسلے میں پہلے ہی آپ کو جواب دے چکا ہوں کہ آں حضرت غیبی امور کی آگاہی میں بذات خود استقلال اور قدرت نہیں رکھتے تھے بلکہ ذاتِ علام الغیوب کے افاضے سے حقائق پر مطلع ہوتے تھے۔ جس مقام پر یہ فرماتے ہیں کہ اگر میں غیب جانتا ہوتا تو اپنی خوبیاں بڑھا لیتا وہاں اس چیز کی طرف اشارہ ہے کہ میں خداۓ تعالی کے مانند علم حضوری کا حامل نہیں ہوں۔ یعنی جس وقت ادھر سے فیضان ہوتا تھا اور پردہ دار عالم الغیب آں حضرت(ص) کے سامنے سے حجات اٹھالیتا تھا تو آپ پر پوشیدہ حقیقتیں منکشف ہوجاتی تھیں اور آپ غیب کی خبریں دیا کرتے تھے۔

ائمہ طاہرین(ع) خلفاۓ برحق اور عالمِ غیب تھے

دوسرے آپ نے فرمایا کہ اگر علم غیب تھا تو خلفائ کے درمیان استثنائ نہ ہونا چاہیئے۔ آپ نے یہ ایک صحیح اور مضبوط بات کہی ہے ہم بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور یہیں سے ہمارا اور آپ کا اختلاف بھی شروع ہوتا ہے۔ ہم بھی کہتے ہیں کہ خلفاۓ رسول کو آں حضرت(ص) کے مانند امور ظاہری و باطنی کا علم ہونا چاہیئے بلکہ سوا مقام نبوت و رسالت اور نبوت کی خاص شرطوں کے (جن سے وحی اور کتاب و احکام کا نزول مراد ہے) جملہ صفات میں خلفائ و اوصیائ کو آں حضرت کا نمونہ ہونا چاہیئے۔ البتہ آپ مخلوق کے چنے ہوۓ خلفائ یعنی ان لوگوں کو جنہیں چند اشخاص نے اکٹھا ہو کر خلیفہ کہہ دیا ہو چاہے پیغمبر(ص)نے ان پر لعنت ہی کی ہو( جیسے معاویہ وغیرہ) خلیفہ رسول(ص) کہتے ہیں۔

لیکن ہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ(ص) کے خلفائ و اوصیائ وہ حضرات ہیں جن کی خلافت پر خود آں حضرت نے نص فرمائی ہو جس طرح انبیاۓ ماسلف کے نصوص ان کے اوصیائ کے لئے وارد ہوۓ ہیں۔ قطعی طور پر وہ خلفائ و اوصیائ جن کے لئے رسول اکرم صلعم نے نص فرمائی ہے بلا استثنا آں حضرت(ص) کے صفات کے مکمل نمونے تھے اور اسی جہت سے علم غیب اور باطنی امور کے عالم بھی تھے۔

وہ منصوص اور برحق خلفائ بارہ نفر تھے جن کی تعداد اور نام آپ کے اخبار و احادیث میں بھی منقول ہیں اور شیعوں کے وہبارہ برحق امام عترت و اہل بیت رسالت(ع) میں سے امیرالمومنین علی علیہ السلام اور آپ کے گیارہ بزرگوار فرزند ہیں اور اس بات کی دلیل کہ دوسرے لوگ رسول اللہ صلعم کے منصوص خلیفہ نہیں تھے، خود آپ ہی کا وہقول ہے جس کی آپ کے جملہ اکابر علمائ نے بھی تصدیق کی ہے کہ یہ لوگ برابر معمولی علم سے بھی اپنی عاجزی کا اظہار کرتے رہتے تھے علم غیب اور باطنی حالات سے آگاہی کا کیا ذکر۔

۲۹۶

تیسرے آپ نے فرمایا ہے کہ کس حدیث سے امیرالمومنین علی علیہ السلام ک لئے علم غیب ثابت ہوتا ہے تو اس بارے میں حضرت رسول خدا صلعم سے بکثرت حدیثیں مروی ہیں۔ من جملہ ان کے ایک خاص حدیث ہے جو مختلف مقامات و اوقات میں باربار آں حضرت(ص) کی زبان مبارک پر جاری ہوئی ہے اور احادیث کے درمیان اس کو حدیث مدینہ کے نام سے شہرت حاصل ہے نیز تقریبا فریقین ( شیعہ و سنی) کے متواترات میں سے ہے کہ آںحضرت(ص) نے انحصار کے ساتھ صرف علی علیہ السلام کو اپنے علم و حکمت کا دروازہ بتایا اور یہ الفاظ ارشاد فرماۓ:

"‏أَنَا مَدِينَةُ الْعِلْمِ‏ وَ عَلِيٌّ بَابُهَا- فَمَنْ أَرَادَ الْعِلْمَ فَلْيَأْتِ الْبَابَ."

یعنی میں شہر علم ہوں اور علی(ع) اس کے در ہیں پس جو شخص علم کا خواہاں ہو وہ دروازے کے پاس آۓ۔

شیخ: یہ حدیث ہمارے علمائ کے نزدیک ثابت نہیں ہے اور اگر ہو بھی تو خبر واحد ہے یا ضعیف حدیثوں میں سے ہوگی۔

حدیث مدینہ کے ناقلین و روات

خیر طلب: افسوس کی بات ہے کہ ایسی محکم اور متواتر حدیث کو آپ نے خبر واحد اور ضعیف احادیث میں شمار کیا حالانکہ آپ کے اکابر علمائ اس کی صحت کیتصدیق کرچکے ہیں۔

بہتر ہوگا کہ آپ جمع الجامع سیوطی، تہذیب الاثار محمد بن جریرطبری، تذکرۃ الابرار سید محمد بخاری مستدرک حاکم نیشاپوری، نقدالصحیح فیروز آبادی، کنزالعمال متقی ہندی، کفایت الطالب گنجی شافعی اور تذکرۃ الوضورات جمال الدین ہندی جیسی اپنی معتبر کتابوں کی طرف رجوع کیجئے جن میں کہتے کہ " فمن حکم بکذبہ فقد خطائ" یعنی جو شخص اس حدیث کو جھٹلاۓ وہ یقینا غلطی پر ہے نیز روضتہ الندایہ امیرمحمد کافی بحرالاسانید و حافظ ابو محمد سمرقندی اور مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی وغیرہ میں عام طور سے اس حدیث شریف کی صحت کا حکم دیا ہے۔

اس لئے کہ یہ با عظمت حدیث متفاوت اور مختلف طرق و اسناد کے ساتھ بکثرت اصحاب و تابعین سے مثلا صحابہ عظام میں سے حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام ، سبط اکبر ابومحمد حسن بن علی علیہما السلام، امام المفسرین( جرامت) عبداللہ ابن عباس، جابر ابن عبداللہ انصاری، عبداللہ ابن مسعود، حذیفہ بن الیمان، عبداللہ ابن عمر، انس ابن مالک اور عمرو بن عاص تھے۔

تابعین میں سے امام زین العابدین علی الحسین اور امام محمد ابن علی الباقر علیہم السلام، اصبغ ابن نباتہ، جریر الضبی، حارث بن عبداللہ ہمدانی کوفی، سعدبن طریف الحنظلی کوفی، سعید بن جبیر اسدی کوفی، سلمہ بن کہیل حضرمی کوفی، سلیمان بن مہران اعمش کوفی، عاصم بن حمزہ سلولی کوفی، عبداللہ بن عثمان بن خیثم القاری المکی، عبدالرحمن ابن عثمان بن عیلتہ المرادی

۲۹۷

ابو عبداللہ صنابحی اور مجاہد ابو الحاج المخزرمی المکی سے مروی ہے۔

اور ( علاوہ جمہور علماۓ شیعہ کے خود آپ ہی کے کثیر التعداد علماۓ اعلام، محدثیں عظام اور مورخین کرام اس کے ناقل ہیں، چنانچہ جہاں تک میں نے دیکھا ہے آپ کے تقریبا دوسو علماء اور بزرگان دین نے اس حدیث مبارک کو نقل کیا ہے۔ اس وقت جس قدر میرے پیش نظر ہیں ان میں سے چند اقوال کا حوالہ پیش کرتا ہوں تاکہ شیخ صاحب زیادہ شرمندہ نہ ہوں اور سمجھ لیں کہ انہوں نے محض عادتا اور اپنے اسلاف کی پیروی میں اس حدیث کی سند میں شک وارد کیا ہے ورنہ بالعموم سب کے نزدیک مطلب بالکل صاف اور واضح ہے۔

منجملہ اکابر علماۓ اہل سنت

1۔ تیسرے صدی کے مفسر و مورخ محمد بن جریر طبری متوفی سنہ310 ہجری تہذیب الآثار میں۔

2۔ حاکم نیشاپوری متوفی سنہ405 ہجری مستدرک جلد سیم صفحہ 126و 128و 226 میں،

3۔ ابو عیسی محمد بن ترمذی متوفی سنہ289ہجری اپنی صحیح میں،

4۔ جلال الدین سیوطی متوفی سنہ911 ہجری جمع الجوامع میں اور جامع الصغیر جلد اول ص374 میں،

5۔ ابوالقاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی سنہ360 ہجری کبیر اور اوسط میں،

6۔ حافظ ابو محمد حسن سمرقندی متوفی سنہ491 ہجری بحرالاسانید میں،

7۔ حافظ ابو نعیم احمد بن عبداللہ اصفہانی متوفی سنہ430ہجری معرفتہ الصحابہ میں،

8۔ حافظ ابو عمر یوسف بن عبداللہ بن عبدالبر قرطبی متوفی سنہ463 ہجری استیعاب جلد دوم ص461 میں،

9۔ ابوالحسن فقیہ شافعی علی بن محمد بن طبیب الجلابی ابن مغازلی متوفی سنہ483 ہجری مناقب میں،

10۔ ابو شجاع شیرویہ ہمدانی دیلمی متوفی سنہ509 ہجری فردوس الاخبار میں،

11۔ ابو الموید خطیب خوارزمی متوفی سنہ568 ہجری مناقب ص49 اور مقتل الحسین جلد اول ص93 میں،

12۔ ابو القاسم ابن عساکر علی بن حسن دمشقی متوفی سنہ571ہجری تاریخ کبیر میں،

13۔ ابو الحجاج یوسف بن محمد آندلسی متوفی سنہ605 ہجری" الف باء" جلد اول ص222 میں،

14۔ ابوالحسن علی بن محمد بن اثیر جزری متوفی سنہ630 ہجری اسد الغابہ جلد چہارم ص22 میں،

15۔ محب الدین احمد بن عبداللہ طبری شافعی متوفی سنہ694ہجری ریاض النفرہ جلد اول ص129 اور ذخائر العقطی ص77 میں،

16۔ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی شافعی متوفی سنہ478ہجری تذکرۃ الحفاظ جلد چہارم ص28 میں،

۲۹۸

17۔ بدر الدین محمد زرکشی مصری شافعی متوفی سنہ749 ہجری فیض القدر جدل سیم ص47 میں،

18۔ حافظ علی بن ابی بکر ہیثمی متوفی سنہ807 ہجری مجمع الزوائد جدل نہم ص114 میں،

19۔ کمال الدین محمد بن موسی و میری متوفی سنہ808 ہجیر حیات الحیوان جلد اول ص55 میں،

20۔ شمس الدین محمد بن محمد جزری متوفی سنہ833ہجری اسنی المطالب ص14 میں،

21۔ شہاب الدین ابن حجر بن علی عسقلانی متوفی سنہ852ہجری تہذیب التہذیب جلد ہفتم ص337 میں،

22۔ بدر الدین محمود بن احمد عینی حنفی متوفی سنہ855ہجری عمدۃ القاری جلد ہفتم ص631 میں،

23۔ علی بن حسام الدین متفقی ہندی متوفی سنہ975 ہجری کنز العمال جلد ششم ص156 میں،

24۔ عبدالرؤف المنادی شافعی متوفی سنہ1031ہجری فیض القدیر شرح جامع الصغیر جلد سیم ص46 میں،

25۔ حافظ علی بن احمد عزیزی شافعی متوفی سنہ1070 ہجری سراج المنیر جامع الصغیر جلد دوم ص63 میں،

26۔ محمد بن یوسف شافعی متوفی سنہ942 ہجری سبل الہدی والرشاد فی اسمائ خیر العباد میں،

27۔ محمد بن یعقوب فیروز آبادی متوفی سنہ817ہجری نقد الصحیح میں،

28۔ امام احمد بن حنبل متوفی سنہ241ہجری مکرر مجلدات مناقب مسند میں،

29۔ ابوسالم محم بن طلحہ شافعی متوفی سنہ652ہجری مطالب السئول میں،

30۔ شیخ الاسلام ابراہیم بن محمد حموینی متوفی سنہ722ہجری فرائد السمطین میں،

31۔ شہاب الدین دولت آبای متوفی سنہ849ہجری ہدایت السعدائ میں،

32۔ علامہ سہودی سید نور الدینشافعی متوفی سنہ911ہجری جواہر العقدین میں،

33۔ قاضی فضل بن رزبہان شیرازی ابطال الباطل میں،

34۔ نور الدین بن صباغمالکی متوفی سنہ955 ہجری فصول المہمہ ص18 میں،

35۔ شہاب الدین ابن حجر مکی( متعصب عنید) متوفی سنہ974ہجری صواعق محرقہ ص73 میں،

36۔ جمال الدین عطا اللہ محدث شیرازی متوفی سنہ1000ہجری اربعین میں،

37۔ علی قاری ہروی متوفی سنہ1014 ہجری مرقاۃ شرح مشکوۃ میں،

38۔ محمد بن علی الضبان متوفی سنہ1205 ہجری اسعاف الراغبین ص156 میں،

39۔ قاضی محمد بن شوکانی متوفی سنہ1250ہجری فوائد المجموعہ الاحادیث الموضوعہ میں،

40۔ شہاب الدین سید محمود آلوسی بغدادی متوفی سنہ1270ہجری تفسیر روح المعانی میں،

41۔ امام غزالی احیائ العلوم میں،

۲۹۹

دو صفحے نہیں ہیں

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349