خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں22%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96703 / ڈاؤنلوڈ: 4140
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

و الحظنی بالحظته من لحظاتک تنوربها قلبی بمعرفتک خاصته و معرفته اولیائک انک علی کل شیء قدیر _(۳۹۷)

امام جعفر صادق(ع) کا حکم

عنوان بصری چورا نوے سال کا کہتا ہے کہ میں علم حاصل کرنے کے لئے مالک بن انس کے پاس آتا جاتا تھا_ جب جعفر صادق علیہ السلام ہماری شہر آئے تو میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا کرتا تھا کیونکہ میں دوست رکھتا تھا کہ میں آپ سے بھی کسب فیض کروں ایک دن آپ نے مجھ سے فرمایا کہ میں ایک ایسا شخص ہوں کہ جو مورد نظر اور توجہہ قرار پاچکا ہوں یعنی میرے پاس لوگوں کی زیادہ آمد و رفت ہوتی ہے لیکن اس کے باوجود میں دن او رات میں خاص ورد اور ذکر بجا لاتا ہوں تم میرے اس کام میں مزاحم اور رکاوٹ بنتے ہو تم علوم کے حاصل کرنے کے لئے پہلے کی طرح مالک بن انس کے پاس جایا کرو_ میں آپ کی اس طرح کی گفتگو سے غمگین اور افسردہ خاطر ہوا اور آپ کے ہاں سے چلا گیا اور اپنے دل میں کہا کہ اگر امام مجھ میں کوئی خیر دیکھتے تو مجھے اپنے پاس آنے سے محروم نہ کرتے میں رسول خدا کی مسجد میں گیا اور آپ پر سلام کیا دوسرے دن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے روضہ میں گیا اور دو رکعت نماز پڑھی اور دعا کے لئے ہاتھ اٹھائے اور کہا اے میرے اللہ تعالی میرے لئے جعفر صادق علیہ اسلام کا دل نرم کردے اور اس علم سے مجھے وہ عطا کر کہ جس کے ذریعے میں صراط مستقیم کی ہدایت پاؤں_ اس کے بعد غمگین اور اندوہناک حالت میں گھر لوٹ آیا اور مالک بن انس کے ہاں نہ گیا کیونکہ میرے دل میں جعفر صادق علیہ السلا کی محبت اور عشق پیدا ہو چکا تھا بہت مدت تک سوائے نماز کے میں اپنے گھر سے باہر نہیں نکلتا تھا یہاں تک میرا صبر ختم ہوچکا اور ایک دن جعفر صادق کے دروازے پر گیا اور اندر جانے کی اجازت طلب کی آپ کا خادم باہر آیا اور کہا

۲۲۱

کہ تجھے کیا کام ہے؟ میں نے کہا کہ میں امام کی خدمت میں مشرف ہونا چاہتا ہوں اور سلام کرنا چاہتا ہوں خادم نے جواب دیا کہ آقا محراب میں نماز میں مشغول ہیں اور وہ واپس گھر کے اندر چلا گیا اور میں آپ کے دروازے پر بیٹھ گیا_ زیادہ دیر نہیں ہوئی کہ وہ خادم دوبارہ لوٹ آیا اور کہا کہ اندر آجاؤ میں گھر میں داخل ہوا آور آنحضرت پر سلام کیا آپ نے میرے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ بیٹھ جاؤ خدا تجھے مورد مغفرت قرار دے_ میں آپ کی خدمت میں بیٹھ گیا آپ نے اپنا سر مبارک جھکا دیا اور بہت دیر کے بعد اپنا سر بلند کیا اور فرمایا تمہاری کنیت کونسی ہے؟ میں نے عرض کی کہ ابوعبداللہ آپ نے فرمایا کہ خدا تجھے اس کنیت پر ثابت رکھے اور توفیق عنایت فرمائے_ تم کیا چاہتے ہو میں نے اپنے دل میں کہا کہ اگر اس ملاقات میں سوائے اس دعا کہ جو آپ نے فرمائی ہے اور کچھ بھی فائدہ حاصل نہ ہو تو یہ بھی میرے لئے بہت قیمتی اور ارزشمند ہے_ میں نے عرض کی کہ میں نے خدا سے طلب کیا ہے کہ خدا آپ کے دل کو میرے بارے میں مہربان کردے اور میں آپ کے علم سے فائدہ حاصل کروں_ امیدوار ہوں کہ خداوند عالم نے میری یہ دعا قبول کر لی ہوگی_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا _ اے عبداللہ _ علم پڑھنے سے حاصل نہیں ہوتا بلکہ علم ایک نور ہے_ جو اس انسان کے دل میں کہ خدا جس کی ہدایت چاہتا ہے روشنی ڈالتا ہے پس اگر تو طالب علم ہے تو پہلے اپنے دل پر حقیقی بندگی پیدا کر اور علم کو عمل کے وسیلے سے طلب کر اور خدا سے سمجھنے کی طلب کرتا کہ خدا تجھے سمجھائے_ میں نے کہا_ اے شریف_ اپ نے فرمایا اے ابوعبداللہ_ کہہ میں نے کہا کہ بندگی کی حقیقت کیا ہے؟ آپ نے فرمایا بندگی کی حقیقت تین چیزوں میں ہے_ پہلی بندہ کسی چیز کے مالک نہیں ہوا کرتا بلکہ مال کو اللہ تعالی کا مال سمجھے اور اسی راستے میں کہ جس کا خدا نے حکم دیا ہے خرچ کرے_ دوسری_ اپنے امور کی تدبیر میں اپنے آپ کو ناتواں

۲۲۲

اور ضعیف سمجھے_ تیسری _ اپنے آپ کو اللہ تعالی کے اوامر اور نواہی کے بجالانے میں مشغول رکھے اگر بندہ اپنے آپ کو مال کا مالک نہ سمجھے تو پھر اس کے لئے اپنے مال کو اللہ کے راستے میں خرچ کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر اپنے کاموں اور امور کی تدبیر اور نگاہ داری اللہ تعالی کے سپرد کردے تو اس کے لئے مصائب کا تحمل کرنا آسان ہوجائیگا اور اگر وہ اللہ تعالی کے احکام کی بجا آوری میں مشغول رہے تو اپنے قیمتی اور گران قدر وقت کو فخر اورمباہات اور ریاکاری میں خرچ نہیں کرے گا اگر خدا اپنے بندے کو ان تین چیزوں سے نواز دے تو اس کے لئے دنیا اور شیطن اور مخلوق آسان ہوجائے گی اور وہ اس صورت میں مال کو زیادہ کرنے اور فخر اور مباہات کے لئے طلب نہیں کرے گا اور جو چیز لوگوں کے نزدیک عزت اور برتری شمار ہوتی ہے اسے طلب نہیںکرے گا اور اپنے قیمتی وقت کو سستی اور بطالت میں خرچ نہیں کرے گا اور یہ تقوی کا پہلا درجہ ہے اور خدا قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ یہ آخرت کا گھر ہم اس کے لئے قرار دیں گے کہ جو دنیا میں علو اور فساد برپا نہیں کریں گے اور عاقبت اور انجام تو متقیوں کیلیئے ہے_

تلک الدار الاخرة نجعلها للذین لا یریدون علوا فی الارض و لا فسادا و العاقبته للمتقین _

میں نے عرض کیا کہ اے امام(ع) _ مجھے کوئی وظیفہ اور دستور عنایت فرمایئےآپ نے فرمایا کہ میں تجھے نو چیزوں کی وصیت کرتا ہوں اور یہ میری وصیت اور دستورالعمل ہر اس شخص کے لئے ہے جو حق کا راستہ طے کرنا چاہتا ہے اور میں خدا سے سوال کرتا ہوں کہ خدا تجھے ان پر عمل کرنے کی توفیق دے_ تین چیزیں اور دستور العمل نفس کی ریاضت کے لئے ہیں اور تین دستور العمل حلم اور بردباری کے لئے ہیں اور تین دستور العمل علم کے بارے میں ہیں_ تم انہیں حفظ کر لو اور خبردار کہ ان کے بارے میں سستی کرو_ عنوان بصری کہتا ہے کہ میری تمام توجہ آپ کی فرمایشات کی طرف تھی آپ نے فرمایا کہ وہ تین دستور العمل جو

۲۲۳

نفس کی ریاضت کے لئے ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ خبردار ہو کہ جس چیز کی طلب اور اشتہاء نہ ہو اسے مت کھاؤ_ ۲_ اور جب تک بھوک نہ لگے کھانا مت کھاؤ_ ۳_ جب کھانا کھاؤ تو حلال کھانا کھاؤ اور کھانے سے پہلے بسم اللہ پڑھو_ آپ نے اس کے بعد رسول اللہ کی حدیث نقل کی اور فرمایا کہ انسان بر تن کویر نہیں کرتا مگر شکم کا پر کرنا اس سے بدتر ہوتا ہے اور اگر کھانے کی ضرورت ہو تو شکم کا ایک حصہ کھانے کے لئے اور ایک حصہ پانی کے لئے اور ایک حصہ سانس لینے کے لئے قرار دے_

وہ تین دستور العمل جو حلم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ جو شخص تجھ سے کہے کہ اگر تو نے ایک کلمہ مجھ سے کہا تو میں تیرے جواب میں دس کلمے کہونگا تو اس کے جواب میں کہے کہ اگر تو نے دس کلمے مجھے کہے تو اس کے جواب میں مجھ سے ایک کلمہ بھی نہیں سنے گا_

۲_ جو شخص تجھے برا بھلا کہے تو اس کے جواب میں کہہ دے کہ اگر تم سچ کہتے ہو تو خدا مجھے معاف کردے اور اگر تم جھوٹ کہہ رہے تو خدا تجھے معاف کردے_

۳_ جو شخص تجھے گالیاں دینے کی دھمکی دے تو تو اسے نصیحت اور دعا کا وعدہ کرے وہ تین دستور العمل جو علم کے بارے میں ہیں وہ یہ ہیں_

۱_ جو کچھ نہیں جانتا اس کا علماء سے سوال کر لیکن ملتفت رہے کہ تیرا سوال کرنا امتحان اور اذیت دینے کے لئے نہیں ہونا چاہئے_ ۲_ اپنی رائے پر عمل کرنے سے پرہیز کر اور جتنا کر سکتا ہے احتیاط کو ہاتھ سے نہ جانے دے_ ۳_ اپنی رائے سے (بغیر کسی مدرک شرعی) کے فتوی دینے سے پرہیز کر اور اس سے اس طرح بچ کے جیسے پھاڑ دینے والے شیر سے بچتا ہے_ اپنی گردن کو لوگوں کے لئے پل قرار نہ دے اس کے بعد اپ نے مجھ سے فرمایا کہ اب یہاں سے اٹھ کر چلے جاؤ_ بہت کافی مقدار میں نے تجھ نصیحت کی ہے اور میرے ذکر اور اذکار کے بجالانے میں زیادہ مزاحم اور رکاوٹ نہ بنو کیونکہ میں اپنی جان کی قیمت اور ارزش کا قائل ہوں اور سلام ہو اس پر جو ہدایت کی پیروی

۲۲۴

کرتا ہے_

''و السلام علی من اتبع الهدی'' _(۳۹۸)

مرحوم مجلسی کا دستور العمل

بہت بڑے بزرگوار عالم جو مقام عرفان میں عارف ربانی ملا محمد تقی مجلسی ہیں انہوں نے لکھا ہے_ کہ میں نے اپنے آپ کو صاف کرنے اور ریاضت کرنے میں کچھ حاصل کیا ہے اور یہ اس وقت تھا جب میں قرآن کی تفسیر لکھنے میں مشغول تھا_ ایک رات نیم نیند اور بیداری میں پیغمبر علیہ السلام کو دیکھا_ میں نے اپنے آپ سے کہا کہ میں آنحضرت کے کمالات اور اخلاق میں خوب اور دقت کروں_ میں نے جتنی زیاددہ وقت کی اتنا ہی آنحضرت کی عظمت اور نورانیت کو اس طرح وسیع تر پایا کہ آپ کے نور نے تمام جنگوں کو گھیرا ہوا تھا اسی دوران میں جاگ اٹھا اور اپنے آپ میں آیا تو مجھے القاء ہوا کہ رسول خدا کا اخلاق عین قرآن ہے لہذا ہمیں قرآن میں غور اور فکر کرنا چاہئے میں جتنا قرآن میں زیادہ غور اور فکر کرتا جاتا تھا اتنا ہی زیادہ حقائق سامنے آتے جاتے تھے یہاں تک کہ ایک ہی دفعہ مجھ میں بہت زیادہ قرآن کے معارف اور حقائق آ موجود ہوئے میں جس آیت میں تدبر اور فکر کرتا تھا تو مجھے عجیب موحبت اور مطالب عطا کئے جاتے تھے گرچہ یہ مطالب اس شخص کے لئے کہ جس نے ایسی توفیق حاصل نہ کی ہو بہت دشوار اور ارشاد کرنا ہے_ نفس کی ریاضت او راپنے آپ کو سنوار نے کا دستور العمل یہ ہے کہ بے فائدہ گفتگو کرنے بلکہ اللہ تعالی کے ذکر بغیر بات کرنے سے اپنے آپ کو روکیں_ کھانے پینے اور لباس و غیرہ کی لذیذ چیزوں اور بہترین اور خوبصورت مکان اور عورتوں کو ترک کریں اور بقدر ضرورت استعمال کرنے پر اکتفاء کریں اولیاء خدا کے علاوہ لوگوں سے میل جول نہ رکھیں زیادہ سونے سے پرہیز کریں اور اللہ کے ذکر کو دائماً

۲۲۵

اور پابندی سے بجالائیں_ اولیاء خدا نے یا حی یا قیوم او ریا _ من لا الہ الا انت کا زیادہ تجربہ کیا ہے اور میں نے بھی اسی ذکر کا تجربہ کیا ہے لیکن میرا غالبا ذکر _ یا اللہ _ جب کہ دل کو خدا کے علاوہ سے نکال کر اور خداوند عالم کی طرف پوری توجہہ سے ہوا کرتا تھا_

لیکن سب سے زیادہ اہم اللہ تعالی کا پوری توجہ اور پابندی سے ذکر کرنا ہوا کرتا ہے باقی چیزیں اللہ تعالی کے ذکر کے برابر نہیں ہوا کرتیں اگر اللہ کا ذکر چالیس دن اور رات تک متصل کیا جائے تو حکمت اور معرفت اور محبت کے انوار کے دروازے ایسے کرنے والے پر کھول دیئے جاتے ہیں اس وقت وہ فناء فی اللہ اور بقاء باللہ کے مقام تک ترقی کر جاتا ہے_(۳۹۹)

ملا آخوند حسین قلی کا خط

آخوند ملا حسین قلی ہمدانی جو عالم ربانی اور زاہد اور عارف تھے انہوں نے ایک خط تبریز شہر کے ایک عالم کو لکھا کہ جس میں آپ نے فرمایا _بسم الله الرحمن الرحیم الحمد لله رب العالمین و الصلواة و اسلام علی محمد و آله الطاهرین و لعنته الله علی اعدائهم اجمعین _ دینی اور ایمانی بھائیوں پر واضح ہونا چاہئے کہ ذات الہی تک قرب حاصل کرنا سوائے اس کے اور کوئی نہیں ہے کہ انسان کو تمام حرکات اور سکنات اور تمام اوقات میں شریعت اسلامی کا پابند ہونا چاہئے_

جاہل صوفیاء کی لغویات اور خرافات سے جو ان کی عادت بن چکی ہے اس کے اپنا نے سے اجتناب کرنا چاہئے کیونکہ ان کے طریقے اور ذکر اور ورد پر عمل کرنا اللہ سے دور ہو جانے کے اور سوا اور کچھ حاصل نہیں ہوتا یہاں تک کہ اگر کوئی شخص موچھوں کو بڑھانے رکھے جیسے کہ یہ ایران کے صوفیوں کی جو اپنے آپ کو شیعہ کہلاتے ہیں علامت ہے_ ) اور اسے ضروری سمجھتے ہیں اور گوشت کو نہ کھائے تو یہ بھی خرافات اور لغویات میں شمار ہوتا ہے اگر کوئی شخص ائمہ علیہم السلام کے معصوم ہونے

۲۲۶

پر ایمان رکھتا ہے تو اسے سمجھنا چاہئے کہ وہ ایسے اعمال سے جو ایران کے شیعہ صوفی انجام دیتے ہیں اور اسی طرح خاص ذکر جو ائمہ علیہم السلام سے وارد نہیں ہوئے بجا لاتے ہیں ان سے وہ ذات خدا کے قرب سے دور ہو رہے ہوتے ہیں اور ان سے انہیں قرب الہی حاصل نہیں ہوتا_ لہذا سب سے پہلے شرعیت اسلامی کو مقدم کرے اور جو کچھ شریعت میں وارد ہوا اس پر عمل کرنے کا پابند بنے_ اس ناتوان اور کمزور بندے نے عقل اور روایات سے جو کچھ سمجھا اور استفادہ کیا ہے وہ یہ ہے کہ جو شخص اللہ تعالی کا قرب حاصل کرنا چاہتا ہے تو اس کے لئے سب سے زیادہ اہم خدا کی معصیت اور نافرمانی کو ترک کرنا ہوگا اور جب تک یہ نہیں کرے گا تب تک نہ کوئی ذکر اور نہ کوئی فکر تیرے دل کو فائدہ پہنچا سکے گا کیونکہ شیطان کی اطاعت اور خدمت کرنے والا جو ذات الہی کا نافرمان اور انکاری ہے کس طرح اس ذات کا قرب حاصل کر سکے گا کیا کوئی بادشاہ او راس کی سلطنت خداوند عالم کی سلطنت سے عظیم الشان ہے_

جو کچھ میں نے ذکر کیا ہے اسے خوب سمجھ تیرا اللہ تعالی کی محبت کو طلب کرنا جب کہ تو اس کی معصیت بجالا رہا ہے ایک غلط اور فاسد کام ہے_ کس طرح تم پر مخفی ہے کہ اللہ تعالی کی نافرمانی نفرت کا سبب ہوا کرتی ہے اور اللہ تعالی کا نفرت کرنا محبت کے ساتھ اکٹھا نہیں ہوا کرتا _ جب تیرے نزدیک ثابت ہوچکا ہے کہ نافرمانی نہ کرنا اول اور آخر ظاہر اور باطن دین ہے تو پھر مجاہدہ اور کوشش کرنے کی طرف جلدی کر اور پوری کوشش سے نیند سے بیدار ہونے سے لے کر تمام اوقات میں مراقبہ میں مشغول رہ اور اللہ تعالی کی ذات اقدس کے ادب بجالانے کی پابندی کر اور یہ جان لے کہ تو اپنے تمام وجود کے ذرہ ذرہ میں اس کی قدرت کا قیدی ہے اور اللہ تعالی کے حضور کا احترام کر اور اس کی یوں عبادت کر کہ گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو اسے نہیں دیکھ رہا تو وہ ذات تجھے دیکھ رہی ہے_ ہمیشہ اس کی عظمت اور اپنے حقیر ہونے اس کی بلندی اور اپنی پستی اس کی عزت اور اپنی ذلت اور اس کا مستفی ہوتا اور تیرا محتاج ہونے کی طرف متوجہہ رہ_ اور اس ذات کی طرف غفلت سے جب کہ وہ تیری

۲۲۷

طرف ہمیشہ ملتفت ہے غافل نہ رہ_ اس ذات کے سامنے ایک ذلیل ضعیف بندے کی طرح کھڑا ہو اور اپنے قدموں کو اس کے سامنے یوں جھکا جیسے ایک کمزور کتا اپنے قدم زمین پر رگڑتا ہے_ کیا تیرے لئے یہ شرف اور فخر کافی نہیں کہ اس نے تجھے اپنے عظیم نام لینے کی تیری کثیف اور معصیت کی گندگی سے نجس زبان سے ذکر کرنے کی اجازت دی ہے_

عزیز من_ اس رحیم اور کریم ذات نے زبان کو اپنے شریف ذکر کا مرکز قرا ردیا ہے کتنی بے حیائی ہوگی کہ اس کے مرکز کو غیبت جھوٹ گالیاں دینا آزار اور اذیت اور دوسری نافرمانیوں کی گندگی اور نجاست سے آلودہ کیا جائے_ ذات الہی کے مرکز کو خوشبو اور گلاب سے معطر ہونا چاہئے نہ کہ گندگیوں سے نجس ہو_بلا شک جب مراقبت اور حفاظت کرنے میں وقت نہیں کرے گا تو تجھے علم نہ ہوگا کہ تیرے سات اعضاء یعنی کان زبان ہاتھ پاؤں پیٹ اور شرمگاہ کیا کیا نافرمانی کرتے ہیں اور کتنی آگ لگاتے ہیں؟ اور تو ان سے قتل نہ کیا جا چکا ہو_ اگر میں ان مفاسد کی شرح بیان کروں تو اس خط میں ممکن نہیں ہے میں آیک ورقہ پر کیا کچھ لکھ سکتا ہوں_ تم نے ابھی تک اپنی اعضاء کو معصیت سے پاک نہیں کیا پھر تو کس طرح انتظار رکھتا ہے کہ میں دل کے حالات کی تیرے لئے شرح لکھ دوں پس سچی توبہ کرنے کی طرف جلدی کر اور پھر مراقبت اور کوشش کرنے کی طرف دوڑ لگا_ خلاصہ مراقبت اور حفاظت نفس کے بعد قرب الہی کو طلب کر اور سحری کے وقت بیدا ہو اور تہجد کی نماز کو آداب اور حضور قلب سے بجا لا اور اگر زیادہ وقت مل سکے تو اللہ کے ذکر اور اس کی مناجات میں مشغول ہوجا لیکن رات کے ایک خاص وقت میں حضور قلب کے ساتھ ذکر الہی میں مشغولل رہ اور تمام حالات میں حزن اور رنج سے خالی نہ رہتا اور اگر حزن اور رنج موجود نہ ہو تو اسے اس کے اسباب سے حاصل کر اور فارغ ہونے کے بعد حضرت زہرا علیہ السلام کی تسبیح اور بارہ دفعہ سورہ توحید دس مرتبہ لا الہ الا اللہ و حدہ لا

۲۲۸

شریک لہ لہ الملک کو آخر تک اور سہ مرتبہ لا الہ الا اللہ اور ستر مرتبہ استغفار_ اور تھوڑا سا قرآن پڑھ اور دعا صباح بھی ضرور پڑھا کر اور ہمیشہ با وضو رہ اور اگر ہر وضو کے بعد دو رکعت نماز پڑھ لے تو بہت اچھا ہے_ مومنین کی حاجات اور بالخصوص علما اور بالاخص جو متقی ہیں کے بجالانے میں بہت کوشش کر اور جس محفل میں گناہ کے واقع ہونے کا گمان ہو حتمی طور سے اس کے جانے سے پرہیز کر بلکہ غافل لوگوں کے ساتھ بغیر ضروری کام کے اٹھ بیٹھ کرنا نقصان وہ ہے گرچہ اس میں معصیت بھی نہ ہوتی ہو_ مباح چیزوں میں زیادہ مشغول رہنا زیادہ مزاح کرنا اور لغویات کہنا اور غلط چیزوں کو سننا انسان کے دل کو مار دیتے ہیں اور اگر مراقبہ کے بغیر ذکر اور فکر میں مشغول ہو تو وہ بھی بے فائدہ ہوگا گرچہ حال بھی لے آئے کیونکہ ایسا حال دائمی نہ ہو گا بغیر مراقبہ کے حال پیدا ہونے سے دھوکا نہ کھا_ اس سے زیادہ کہنے کی مجھ میں طاقت نہیں ہے_ التماس دعا اور تم تمام سے دعا کا ملتمس ہوں_ اس بندہ حقیر پر تقصیر اور معاصی کو فراموش نہ کرنا_ شب جمعہ میں سو دفعہ اور جمعہ کے عصر میں سو دفعہ سورہ قدر کو پڑھا کرو_(۴۰۰)

میرزا جواد آقا تبریزی کا دستور العمل

عالم ربانی عارف کامل آقا ملکی تبریزی لکھتے ہیں کہ پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے طویل سجدہ کرنے کی بہت زیادہ سفارش فرمائی ہے کہ یہ ایک بہت ہی اہم کام ہے_ طویل سجدہ کرنا بندگی کی قریب ترین کیفیت اور علامت ہے اسی لئے تو ہر ایک رکعت میں دو سجدہے قرار دیئے گئے ہیں_ ائمہ اطہار اور خالص شیعوں سے طویل سجدے کے بارے میں مہم مطالب ثقل ہوئے ہیں_ امام زین العابدین علیہ السلام کو ایک سجدے میں ایک ہزار مرتبہلا اله الا الله حقا حقا لا اله الا الله تعبدا و رقا لا اله الا ایمانا و صدقا پڑھتے سنا گیا_

امام موسی کاظم علیہ السلام کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ کبھی آپ کا سجدہ صبح کی

۲۲۹

نماز کی بعد ظہر تک ہوا کرتا تھا اور ائمہ علیہم السلام کے اصحاب میں سے ابن ابی عمیر و جمیل و خربود کے بارے میں بھی ایسا نقل کیا گیا ہے_ نجف اشرف میں طالب علمی کے زمانے میں میرے ایک استاد تھے جو متقی طلبہ کے لئے مرجع تھے میں نے آپ سے سوال کیا آپ نے کو ن سے عمل کا تجربہ کیا ہے کہ جو سالک الی اللہ کے حق میں موثر اور مفید ہو؟ آپ نے فرمایا کہ دن اور رات میں اسیک طویل سجدہ بجا لایا جائے اور سجدہ کی حالت میں یہ کہا جائےلا اله الا انت سبحانک انی کنت من الظالمین اور اس کے ذکر میں اس طرح توجہہ کرے کہ میرا خدا کسی پر ظلم کرنے سے پاک و پاکیزہ ہے بلکہ میں خود ہوں جو اپنے اوپر ظلم کرتا ہوں اور اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالتا ہوں_ میرے یہ استاد اپنے مریدوں اور علاقمندوں سے ایسے سجدہ کی سفارش کیا کرتے تھے اور جو بھی یہ سجدہ بجالاتا تھآ اس کے اثرات کا مشاہدہ کیا کرتا تھا _ بالخصوص وہ حضرات جو اس سجدے کو بہت زیادہ طویل انجام دیتے تھے ان میں سے بعض اس ذکر کو سجدہ میں تکرار کیا کرتے تھے بعض تھوڑا اور بعض زیادہ تکرار کرتے تھے میں نے سنا ہے کہ ان میں سے بعض اس ذکر کو تین ہزار مرتبہ سجدہ میں پڑھا کرتے تھے_(۴۰۱)

شیخ نجم الدین کا دستور العمل

شیخ نجم الدین رازی لکھتے ہیں کہ اداب اور شرائط کے بغیر زیادہ ذکر کرنا مفید نہیں ہوتا_ پہلے شرائط اور ترتیب سے قیام کیا جائے اور جب سچے مرید کو سلوک الی اللہ کا دل میں درد پیدا ہوجائے تو یہ علامت ہوگی کہ اس نے ذکر سے انس پیدا کر لیا ہے اور اسے مخلوق سے وحشت اور نفرت پیدا ہوگئی ہے جو تمام مخلوق سے نامید ہو کر ذکر الہی کی پناہ میں چاپہنچا ہے_ قل اللہ ثم ذرہم (یعنی اللہ کا ذکر کر اور تمام مخلوق کو چھوڑ دے کہ وہ اپنی لغویات میں کھیلتے رہیں) جب ذکر کو پے در پے بجالائے جو صحیح اور خالص توبہ کے بعد ہو اور ذکر کرنے کی حالت میں با غسل ہو اور اگر یہ نہ کر

۲۳۰

سکے تو با وضو ہو کیونکہ ذکر الہی کرنا دشمن کے ساتھ جنگ کرنے کے مانند ہوا کرتا ہے اور بغیر اسلحے کے دشمن کا مقابلہ نہیں کیا جا سکتا اور وضو مومن کا اسلحہ ہوا کرتا ہے_ الوضوء سلاح المومومن پاک کپڑے پہنے ہوا ہو اور کپڑے کے پاک ہونے کی چار شرطیں ہیں_ ۱_ نجاست سے پاک ہو_ ۲_ لوگوں پر ظلم کئے ہوئے مال سے پاک ہو_ ۳_ حرام سے یعنی ابریشم سے پاک ہو یعنی ابریشمی کپڑا نہ ہو_ ۴_ رعونت اور تکبر سے پاک ہو یعنی کپڑا کوتاہ ہو بہت لمبا نہ ہو_ ثیابک فطہر سے مراد کوتاہ کرنا ہے_ اور گھر میں خلوت اور تاریکی اور صفات ستھرا کر کے بیٹھے اور اگر تھوڑی خوشبو یعنی دھونی کرے تو بہتر ہے_ قبلہ رخ بیٹھے اور چار زانوں یعنی پلٹھی مار کر گرچہ تمام حالا میں بیٹھنا منع ہے لیکن ذکر کرنے کی حالت میں خواجہ علیہ السلام جب صبح کی نماز سے فارغ ہوتے تھے تو اسی جگہ پلتھی مار کر یعنی چار زانوں سورج کے نکلنے تک بیٹھے رہتے تھے_ ذکر کرنے کے وقت اپنے ہاتھوں کو رانوں پر رکھے اور دل کو حاضر کرے اور آنکھیں بند کر لے اور پوری تعظیم کے ساتھ ذکر کرنا شروع کردے اور لا الہ الا اللہ کے جملے کو پوری طاقت سے گویا اس کی ناف لا الہ سے اٹھے اور الا اللہ دل پر بیٹھ جائے اور اس کا تمام اعضاء پر اثر ظاہر ہو رہا ہو لیکن اپنی آواز کو بلند نہ کرے اور جتنا ہو سکے آہستہ اور کمتر آواز سے ذکر کرے جیسے کہ اللہ تعالی نے فرمایا ہے _و اذکر ربک فی نفسک تضرعا و خیفة و دون الجہر من القول اس طرح سے تحت ذکر کرتے ہوئے اس کے معنی کو دل میں فکر کرے دوسرے خیالات کو دور کرے جیسے کہ لا الہ کے معنی سے یہی مراد ہے کہ جو بھی خدا کے علاوہ خیالات ہوں انہیں دور کرے اور گویا یوں سوچے کہ میں سوائے الا اللہ کے کوئی چیز نہیں چاہتا اور میرا مقصود اور محبوب صرف الا اللہ ہے اور تمام خیالات کو الا اللہ کے ذریعے دور کر رہا ہوں اور اللہ تعالی کو اپنا مقصود اور محبوب اور مطلوب الا اللہ کے ذریعے سے کر رہا ہوں اور جان لینا چاہئے کہ ہر ذکر میں اول سے لے کر آخر تک دل نفی اور اثبات میں

۲۳۱

حاضر ہو اور لگا رہے_ اور جس وقت دل کے اندر نگاہ کرے اگر کوئی چیز دل کو لبھانے والی ہو تو اسے نظر انداز کر کے دل کو ذات الہی کی طرف توجہہ دے اور الا اللہ کے ذریعے اس چیز کو دل سے اکھیڑ دے اور اس کے ربط کو باطل کردے اور الا اللہ کو اس چیز کی محبت کی جگہ قرار دے دے اسی روش کو دوام دے تا کہ دل آہستہ آہستہ تمام چیزوں کی محبت اور انس سےے خالی ہو کر ذکر الہی سے سرشار ہوجائے_ اس کا باحال ہونا ذکر کے غالب ہوجائے سے ہو_ ذکر کرنے والے کا وجود ذکر کے نور میں مضمحل ہو جائے اور ذاکر کو ذکر مفرد بنا دے اور تمام تعلقات اور موانع کو اس کے وجود سے ختم کر دے اور اسے جسمانی دنیا سے اخروی دنیا کے لئے آمادہ کردے جیسے وارد ہوا ہے کہ سیروا فقد سبق المفردون جان لے کہ دل اللہ تعالی کے لئے خلوت کی جگہ ہے_ لا یسعنی ارضی و لا سمائی و انما یسعنی قلب عبدی المومن یعنی مجھے نہ زمین اور نہ آسمان سمو سکتا ہے مجھے صرف مومن کا دل سمو سکتا ہے_ اور جب تک دل میں اغیار کا وجود ہوگا اس وقت تک اللہ تعالی کی عظمت کی غیرت اس سے نفرت کرے گی لیکن جب لا الہ کا چابک دل کو اغیار سے خالی کر دے گا اس وقت الا اللہ کی بادشاہ کی تجلی کا انتظار کیا جا سکتا ہے_اذا فرغت فانصب و الی ربک فارغب (۴۰۲) جیسے کہ آپ نے ملاحظہ فرما لیا ہے کہ عرفان کے استاذہ نے ذکر کے دوامی بجالانے کو سیر و سلوک کے لئے بہترین طریقہ قرار دیا ہے اور اس کے پہنچنے کے لئے مختلف طریقے اور تجربات اور وصیتیں فرمائی ہیں_ اس مطلب کی علت یہ ہے کہ جتنے ذکر کے طریقے شرعیت میں وارد ہوئے ان کے بنانے کی اصلی غرض غیر خدا سے قطع تعلق کرنا اور پوری توجہہ خدا تعالی کی طرف کرنے کو حاصل کرنا ہے لیکن یہ کام افراد اور مقامات اور حالات کے لحاظ سے فرق رکھتا ہے لہذا کسی نہ کسی استاذ اور مربی کی ضرورت ہے کہ جو اس کام میں رہبری انجام دے احادیث اور دعاؤں کی کتابوں میں بہت زیادہ دعائیں نقل ہوئی ہیں_ اور ہر ایک کے لئے ثواب اور خاصیت ذکر کی گئی ہے_ مطلق دعا اور ذکر دو طرح کے ہوتے ہیں ایک مطلق اور دوسرا مقید_ بعض ذکر

۲۳۲

کے لئے خاص زمانہ اور خاص ترکیب اور خاص عدد بتلایا گیا ہے ایسے ذکر کو اسی طرح بجالانا چاہئے جیسکہ ائمہ علیہم السلام سے نقل ہوا ہے تا کہ اس کے ثواب اور خاص اثر کو حاصل کیا جا سکے_ اس کے بر عکس بعض ذکر مطلق ہیں جن میں کوئی قید نہیں ہے اسے انسان اپنے اختیار سے خاص شرائط اور حالات اور عدد اور زمانے کا تعین کر سکتا ہے_ اور اسے دائمی بجالاتا رہے یا اپنے کسی استاد اور رہنما سے اس میں راہنمایی حاصل کرے آپ اس بارے میں احادیث اور دعاؤں کی کتابوں کی طرف رجوع کر سکتے ہیں_

آخر میں دو مطلب کی طرف توجہہ دلانا ضروری ہے_ پہلا_ عارف انسان کو معلوم ہونا چاہئے کہ ذکر کرنے کی اصلی غرض و غایت خداوند عالم کی طرف حال اور حضور قلب کا حاصل کرنا ہوتا ہے لہذا ذکر کی تعداد اور زمانے اور کیفیت میں یہ مطلب مد نظر رہے اور پھر اس کو دائمی بجالائے اور جب تھک جائے یا بے میل اور رغبت ہو تو اسے چھوڑ دے اور پھر مناسب وقت میں دوبارہ شروع کر دے_ امیرالمومنین علیہ السلام فرماتے ہیں کہ '' دل اور روح کبھی حالت اقبال اور توجہہ رکھتی ہے اور کبھی سب اور بے میل اور بے رغبت نہ ہوتی ہے لہذا جب دل مائل اور رغبت رکھتا ہو اس وقت عمل کیا جائے کیونکہ اگر روح کو عمل کرنے پر مجبور کیا جائے تو وہ اندھا ہو جاتا ہے_(۴۰۳)

البتہ اس بارے میں افراد اور مقامات اور حالات کا فرق ہوا کرتا ہے_

دوسرا_ یہ جاننا چاہئے کہ ریاضت نفس اور ذکر کی اصلی غرض اور غایت نفس اور روح کا تکامل اور قرب خداوند ہے_ اللہ تعالی کا تقرب بغیر احکام پر عمل کرنے سے ممکن نہیں ہوا کرتا اگر کوئی انسان شرعی یا اجتماعی ذمہ داری رکھتا ہو تو وہ اسی حالت میں اللہ تعالی کی یاد میں ہو سکتا ہے اور جتنا ہو سکے ذکر کو بھی انجام دے اور فراغت کی حالت میں ذکر کو دائمی بجالائے گوشہ نشین نہیں ہو جانا اور اجتماعی اور شرعی ذمہ داری کو نظر کردینے سے انسان اللہ کا قرب اور تقرب حاصل نہیں کر سکتا_

۲۳۳

موانع (رکاوٹیں)

کمالات اور مقامات عالیہ تک پہنچنا اتنا سادہ اور آسان کام نہیں ہے بلکہ یہ راستہ طے کرنا بہت مشکل اور دشوار ہے اس راستے میں کئی ایک موانع اور رکاوٹیں موجود ہیں اور جو انسان کمال حاصل کرنے کا ارادہ رکھتا ہے اسے ان کو دور کرنا ہوگا ورنہ وہ کبھی کمال تک نہیں پہنچ سکے گا_

پہلی رکاوٹ

قرب الہی حاصل کرنے اور سر و سلوک الی اللہ کی سب سے بڑی رکاوٹ انسان کی قابلیت کا نہ ہونا ہے_ جو روح اور دل گناہوں کے ارتکاب کرنے کی وجہ سے تاریک اور آلودہ ہوچکا ہو وہ انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار نہیں پا سکتا_ جب انسان کا دل گناہوں کی وجہ سے شیطن کی حکومت کا مرکز پا چکا ہو وہاں کس طرح اللہ کے مقرب فرشتے داخل ہو سکے ہیں ؟ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ جب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ پیدا ہو جاتا ہے اگر تو اس نے توبہ کر لی تو وہ نقطہ مٹ جاتا ہے_ اور اگر وہ اسی طرح گناہ بجالاتا رہا

۲۳۴

تو و سیاہ نقطہ تدریجاً بڑھتا جاتا ہے یہاں تک کہ اس کے ت مام دل کو گھیر لیتا ہے اس حالت میں وہ کبھی کامیابی اور چھٹکارا حاصل نہیں کر سکے گا_(۴۰۴)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' میرے والد فرمایا ہے کہ انسان کے دل اور روح کے لئے گناہ سے کوئی چیز بدتر نہیں ہوا کرتی کیونکہ گناہ انسان کی روح اور قلب سے جنگ کرنا شروع کر دیتا ہے یہاں تک کہ اس پر قابو اور غلبہ حاصل کر لیتا ہے اس صورت میں اس کا دل الٹا اور سرنگوں ہو جاتا ہے_(۴۰۵) گناہ گار انسان کی روح سرنگوں اورالہی ہوجاتی ہے اور وہ الٹے راستے چلتی ہے تو پھر وہ کس طرح قرب الہی کے رساتے کی طرف حرکت کر سکی گی اور اللہ تعالی کے فیوضات اور اشراقات کو قبول کرے گی؟ لہذا کمال تک رسائی حاصل کرنے والے انسان کے لئے ضروری اور واجب ہوجاتا ہے کہ وہ ابتداء ہی سے اپنے نفس اور روح کو گناہوں سے پاک اور صاف کرے اور پھر ریاضت اور ذکر الہی میں داخل ہو ور نہ اس کا ذکر اور عبادت میں کوشش کرنا اس کو قرب الہی تک نہیں پہنچا سکے گا_

دوسری رکاوٹ

کمال حاصل حاصل کرنے سے ایک بڑی رکاوٹ مادی اور دنیاوی تعلقات ہیں جیسے مال اور دولت سے اہل و عیال سے یا مکان اور زندگی کے اسباب سے جاہ و جلال مقام اور منصب سے مال باپ سے بہن بھائی سے یہاں تک کہ علم اور دانش سے اور اس طرح کی دوسری چیزوں سے علاقہ اور تعلق یہ وہ تعلقات ہیں کہ انسان کو اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے اور اس کے طرف حرکت اور ہجرت کرنے سے روک دیتے ہیں_

جس دل نے محسوسات سے محبت اور انس کر رکھا ہو اور اس کا فریفتہ اور عاشق ہو کس طرح وہ ان چیزوں کو چھوڑ کر عالم بالا کی طرف حرکت کرے گا جو دل دنیاوی

۲۳۵

امور کا مرکز اور مکان بن چکا ہو وہ کب انوار الہی کی تابش کا مرکز قرار پاسکتا ہے؟ بہت سی روایات کے مطابق دنیا کی محبت تمام گناہوں کی جڑ ہے_ گناہ گار انسان اللہ تعالی سے قرب کے مقام تک نہیں پہنچ سکتا_ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' دنیا کی محبت ہر ایک گناہ کی جڑ ہے( ۴۰۶)

رسولخدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' سب سے پہلی چیز کہ جن سے اللہ تعالی کی نافرمانی کی گئی وہ چھ تھیں دنیا سے محبت حکومت اور مقام منصب سے محبت_ عورت سے محبت_ خوراک سے محبت نیند سے محبت اور آرام اور سکون سے محبت_(۴۰۷)

امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' انسان اللہ تعالی سے اس حکومت میں زیادہ دور ہوتا ہے جب اس کی غرص و غایت صرف پیٹ کا بھرنا اور شہوات حیوانی کا پورا کرنا ہو_

جناب جابر فرماتے ہیں کہ میں امام باقر علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوا آپ نے مجھ سے فرمایا اے جابر_ میں محزون اور مشغول دل والا ہوں_ میں نے عرض کی کہ میں آپ پر قربان جاؤں آپ کا محزون اور غمگین ہونا اور مشغول ہونا کس سبب اور وجہہ سے ہے_ آپ نے فرمایا کہ جس کے دل میں خالص اور صاف دین داخل ہو چکا ہو اس کا دل غیر خدا سے خالی ہوجاتا ہے_ اے جابر_ دنیا کیا ہے اور کیا قیمت رکھتی ہے؟ کیا وہ صرف لقمہ نہیں ہے کہ جسے تو کھاتا ہے اور لباس ہے کہ جسے تو پہنتا ہے یا عورت ہے کہ جس سے شادی کرتا ہے کیا اس کے علاوہ کچھ اور ہے؟ اے جابر_ مومنین دنیا اور زندگی پر بھروسہ نہیں کرتے اور آخرت کے جہاں میں جانے سے اپنے آپ کو امان میں نہیں دیکھتے_ اے جابر_ آخرت ہمیشہ رہنے والی منزل اور مکان ہے اور دنیا مرنے اور چلے جانے کا محل اور مکان ہے_ لیکن دنیا والے اس مطلب سے غافل ہیں صرف مومنین جو فکر او رعبرت اور سمجھ رکھتے ہیں انہیں جوان کے کانوں پر پڑتا ہے اللہ تعالی کے ذکر سے نہیں روکتا_ زرو جواہرات کا دیکھنا انہیں اللہ تعالی کے

۲۳۶

ذکر سے غافل نہیں کرتا وہ آخرت کے ثواب کو پالیتے ہیں گویا کہ انہوں نے اس کے علم حاصل کرلیا ہے_(۴۰۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' انسان ایمان کی شرینی کو نہیں چکھ سکتا مگر جب وہ جسے کھاتا ہے اس سے لاپرواہی نہ برتے_(۴۱۰)

لہذا عارف انسان کے لئے ضروری ہے کہ اس طرح کا علاقہ اور محبت اپنے دل سے نکال دے تا کہ اللہ تعالی کی قرب اور مقامات عالیہ کی طرف اس کا حرکت اور ہجرت کرنا ممکن ہوسکے_ دنیا کے اور اور فکر کو اپنے دل سے باہر نکال دے تا کہ اللہ کی یاد اس کے دل میں جگہ پاسکے_ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ دنیاوری امور سے علاقہ مندی اور دل دے دنیا صرف قابل خدمت ہے نہ کہ خود دنیا مذموم ہے کیونکہ عارف انسان دوسرے انسانوں کی طرح زندگی کو باقی رکھنے میں غذا اور لباس اور مکان اور بیوی کا محتاج ہے اور ان کے حاصل کرنے کے لئے اسے ضرور کام کرنا ہوگا_ نسل کی بقاء کے لئے اسے شادی ضرور کرنی ہوگی_ اجتماعی زندگی بسر کرنے کے لئے اسے اجتماعی ذمہ داریاں قبول کرنی ہونگیں اسلامی شرعیت میں ان میں کسی کی مذمت نہیں کی گئی بلکہ ان کے بجالانے میں اگر قصد قربت کرلے تو وہ عبادت بھی ہوجائیں گی اور اللہ سے تقرب کا موجب ہونگیں خود یہ چیزیں اللہ تعالی کے قرب حاصل کرنے کی مانع نہیں ہوا کرتیں وہ جو مانع ہے ان امور سے وابستگی اور محبت ہے_

اگر یہی امور زندگی کی غرض اور غایت قرار پائیں اور اللہ تعالی کے ذکر اور فکر سے غافل بنادیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ انسان خدا سے غافل ہوجائے اور پیسہ او رعورت مقام اور منصب اور علم پرست ہوجائے جو قابل مذمت ہے اور انسان کو اللہ تعالی کی طرف حرکت کرنے سے روک دیتا ہے ورنہ خود پیسہ اور زن علم اور مقام منصب اور ریاست قابل مذمت نہیں ہیں_ کیا پیغمبر اسلام امام سجاد اور امیرالمومنین علیہ السلام اور دوسرے ائمہ اطہار کام اور کوشش نہیں کیا کتے تھے اور اللہ تعالی کی نعمتوں سے استفادہ نہیں کیا کرتے تھے، اسلام کی سب سے بزرگ خصوصیت یہ ہے کہ

۲۳۷

دنیاوی اور اخروی امور کے لئے کسی خاص حد اور مرز کا قائل نہیں ہے_

تیسری رکاوٹ

خواہشات نفس اور اس کی ہوی اور ہوس سے پیروی کرنا قرب الہی حاصل کرنے کا بہت بڑا مانع ہے_ نفسانی خواہشات دل کے گھر کو سیاہ دھوئیں کی طرح سیاہ کر دیتے ہیں اس طرح کا دل اللہ تعالی کے انوار کی تابش کی قابلیت نہیں رکھتا_ نفسانی خواہشات انسان کے دل کو ادھر ادھر کھینچتے رہتے ہیں اور اسے مہلت نہیں دیتے کہ وہ خداوند عالم سے خلوت کرسکے اور اس ذات سے انس اور محبت کرسکے_ وہ دن رات نفسانی خواہشات کے پورا کرنے کی تلاش اور کوشش میں لگا رہتا ہے_ وہ کب دنیا کو چھوڑسکتا ہے تا کہ بارگاہ الہی کی طرف پرواز کرسکے_ خداوند عالم قرآن مجید میں فرماتا ہے_ '' ہوی او رہوس کی پیروی نہ کر کیونکہ وہ تجھے خدا کے راستے سے دور کئے رکھیں گے_(۴۱۱) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سب سے بہادر انسان وہ ہے جو خواہشات نفس پر غلبہ حاصل کرے _(۴۱۲)

چوتھی رکاوٹ

خدا کی یادسے ایک رکاوٹ او رمانع شکم پرستی ہے_ جو شخص دن رات کوشش کرتا رہتا ہے کہ اچھی اور لذیذ غذا مہیا کرے اور اپنے پیٹ کو مختلف قسم کی غذاؤں سے پر کرے وہ کس طرح اپنے خدا سے خلوت اور راز و نیاز اور انس کرسکتا ہے_ غذا سے بھرا ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالی کی عبادت اور دعا کرنے کی حالت پیدا کرسکتا ہے_ غذا سے بھر ہوا پیٹ کس طرح اللہ تعالی کی عبادت اور دعا کرنے کی حالت پیدا کرسکتا ہے_ جو انسان کھانے اور پینے میں لذت سمجھتا ہے وہ کس طرح اللہ تعالی سے مناجات کی لذت کو محسوس کرسکتا ہے؟ اسی لئے تو اسلام نے شکم پرستی کی مذمت کی ہے_

امام جعفر صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا ہے کہ '' انسان کا پیٹ بھر جانے

۲۳۸

سے طغیان کرتا ہے اللہ تعالی سے زیادہ نزدیک ہونے کی حالت انسان کے لئے اس وقت ہوتی ہے جب کہ اس کا پیٹ خالی ہو اور بدترین حالت اس وقت ہوتی ہے جب اس کا پیٹ بھرا ہوا ہو_( ۴۱۳)

امام صادق علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' مومن کے دل کے لئے پرخوری سے اور کوئی چیز نقصان دہ نہیں ہے_ پرخوری قساوت قلب کا سبب ہوا کرتی ہے او رشہوت کو تحریک کرتی ہے_ بھوک مومن کا سالن اور روح کی غذا اور طعام ہے اور بدن کی صحت ہے(۴۱۴) امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' جب اللہ تعالی کسی بندے کی مصلحت دیکھتا ہے تو اسے کم غذا کم کلام اور کم خواب کا الہام کرتا ہے_(۴۱۵)

امیرالمومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' نفس پر کنٹرول کرنے اور عادت کے ختم کرنے کے لئے بھوک بہترین مددگار ہے(۴۱۶) امیرالمومنین علیہ السلام نے روایت کی ہے کہ '' خداوند عالم نے معراج کی رات رسول خدا سے فرمایا_ اے احمد_ کاش تم بھوک اور ساکت رہنے اور تنہائی اور اس کے آثار کی شیرینی کو چکھتے_

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عرض کی اے میرے خدا_ بھوک کا کیا فائدہ ہے؟ اللہ تعالی نے فرمایا _ دا_نائی دل کی حفاظت میرا تقرب ہمیشگی حزن تھوڑا خرچ_ حق گوئی اور آسائشے اور تنگی میں بے خوف _(۴۱۷)

درست ہے کہ عارف انسان بھی دوسرے انسانوں کی طرح زندہ رہنے اور عبادت کی طاقت کے لئے غذا کا محتاج ہے اسے اتنی مقدار جو بدن کی ضرورت کو پورا کرے کھانا کھانا چاہئے اور شکم پری سے پرہیز کرنا چاہئے_ کیونکہ شکم پری سستی بے میلی اور عبادت کی طرف بے رغبتی قساوت قلب اور اللہ تعالی کی یاد سے غفلت کا سبب ہوا کرتی ہے اور اگر تھوڑا کھائے اور بھوکا رہے تو عبادت کے لئے آمادگی اور خداوند عالم کی ذات کی طرف توجہہ کرنے کا سبب ہوا کرتی ہے_ اس کا تجربہ کیا جا چکا ہے انسان بھوک کی حالت میں با نورانیت روح با صفا اور ہلکا پھکا رہتا ہے لیکن پیٹ بھری ہوئی حالت میں ایسا نہیں ہوا کرتا لہذا ایک عارف انسان کے لئے ضروری ہے کہ جتنی بدن

۲۳۹

کو غذا کی ضرورت ہے اتناہی کھائے بالخصوص جب عبادت اور دعا اور ذکر میں مشغول ہو تو بھوکا ہی رہے_

پانچویں رکاوٹ

عارف اور سالک انسان کو اس کے قرب الہی کے مقصد اور حضور قلب اور خدا کی طرف توجہہ سے ایک رکاوٹ غیر ضروری اور بے فائدہ گفتگو کرنا ہوا کرتی ہے_ خداوند عالم نے انسان ضرورت کی مقدار تک گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑی نعمت سے صحیح فائدہ حاصل کیا ہوگا اور اگر بیہودہ اور غیر ضروری گفتگو کرے تو اس نے اس بہت بڑی نعمت کو ضائع اور بردبار کر دیا ہوگا اس کے علاوہ زیادہ اور ادھر ادھر کی گفتگو اور باتیں کرنا انسان کی فکر کو پریشان کر دیتی ہیں اور پھر وہ پوری طرح سے اللہ تعالی کی طرف حضور قلب اور توجہہ پیدا نہیں کر سکتا_ اسی لئے احادیث میں زیادہ اور بے فائدہ باتیں کرنے کی مذمت وارد ہوئی ہے_

پیغمبر علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' سوائے اللہ تعالی کے ذکر کرنے کے زیادہ کلام کرنے سے پرہیز کرو کیونکہ اللہ تعالی کے ذکر کے علاوہ زیادہ باتیں کرنا قساوت قلب کا سبب ہوتا ہے اللہ تعالی سے سب سے زیادہ دور انسان وہ ہے کہ جس کا دل تاریک ہو_(۴۱۸)

امیر المومنین علیہ السلام نے فرمایا ہے کہ '' اپنی زبان کی حفاظت کر اور اپنی گفتگو کو شمار کرتا رہے تا کہ تیری گفتگو امر خیر کے علاوہ کمتر ہوجائے_(۴۱۹)

رسول خدا صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ہے کہ '' گفتگو تین قسم کی ہوا کرتی ہے _ مفید _ سالم _ شاحب یعنی بیہودہ_ مفید گفتگو ذکر خدا_ سالم گفتگو وہ ہے کہ جسے خدا دوست رکھے_ شاحب گفتگو وہ ہے جو لوگوں کے متعلق بیہودہ بات کی جائے_(۴۲۰)

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

کبھی اسلام دور جاہلیت کی قدروں کو مکمل طریقہ سے ختم کرتا ہے اور ان کی جگہ پر سماجی زندگی کے جدید اقدار کوروشناس کراتاہے ۔زمانہ جاہلیت میں جس چیز کو سیاسی،اخلاقی اورسماجی زندگی میں بے قیمت سمجھاجاتاتھا اسلام نے اسی چیز کو سیاسی،سماجی اور اخلاقی طور پر بیش قیمت بناکر پیش کیاہے۔

مثلاً دور جاہلیت میں عورت کی کوئی حیثیت اور قدروقیمت نہیں تھی لوگ لڑکیوں کے وجودکو ننگ وعار سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اسی بے قیمت سمجھی جانے والی چیز کو عظیم ترین بلندی عطا کی۔

قدروقیمت کا اختلاف در اصل قدروقیمت کے نظام میں اختلاف کی بنیاد پر سامنے آتاہے کیونکہ تمام اقدار حقیقتاًکسی نہ کسی اصول اورنظام کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں جن کی معرفت کے بغیر اقدار کی معرفت ممکن نہیں ہے ۔

دین اسلام نے اپنی اصطلاحات کے ذریعہ اقدار کے اصول ونظام کو تبدیل کیا ہے جسکے نتیجہ میں اقدار خودبخود تبدیل ہوجاتے ہیں اورسماج میں تبدیلی آجاتی ہے بطور نمونہ فقط اس تبدیلی کی جانب اشارہ کردینا کافی ہے جو اسلام نے فقروغنی کے معیار میں کی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے مفہوم میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔

فقرواستغنا اور اقدار کے اسلامی اصول

عام طورسے لوگوں کے درمیان فقر وغنی کا مطلب مال ودولت کی قلت وکثرت ہے۔یعنی جسکے پاس زیادہ سونا چاندی نہ ہو وہ فقیرہے اور جس کے پاس سونا چاندی و افر مقدار میں ہوا سے غنی کہاجاتاہے اور مالداری کے درجات بھی مال کی مقدارسے طے ہوتے ہیں۔یعنی جس شخص کی قوت خرید جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا مالدار شمار کیا جاتا ہے اسکے برخلاف جس کے پاس روپے پیسوں کی قلت ہووہ اتناہی غریب سمجھاجاتاہے۔اس طرح عام لوگوں کے خیال میں فقر واستغنا کا تعلق کمیّت''مال کی مقدار'' سے ہے۔

۲۸۱

دور جاہلیت کا نظام قدروقیمت

فقرواستغناکے ان معنی میں بذات خود کوئی خرابی نہیں ہے اور اگر بات یہیں تمام ہوجاتی تو اسلام اسکی مخالفت نہ کرتا لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ جاہلیت کے نظام کے تحت ثروتمندی سے سماجی اور سیاسی اقدار بھی جڑجاتے ہیں اور ثروتمندانسان معززو محترم کہلاتاہے اسکی سماجی حیثیت اوراسکے سیاسی نفوذ میں اضافہ ہوجاتاہے وہ لوگوں کا معتمدبن جاتاہے وغیرہ۔۔۔اس طرح نظام جاہلیت میں واضح طور پر کمیت( Quantity )کیفیت( Quality )میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔

جب بھی ہم غور کریں گے تو ہمیں صاف محسوس ہوگاکہ یہاں زروجواہر کی مقدارو کمیت ( Quantity )سماجی اور سیاسی کیفیت میں تبدیلی ہوگئی ہے بلاشبہ اجتماعی اور سماجی زندگی میں مقداروکمیت( Quantity )اور کیفیت میں براہ راست تعلق پایاجاتا ہے اور اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنایا اسکا انکار ناممکن ہے اور اسلام بھی اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنا نہیں چاہتابلکہ اس رابطہ کو الٹ دینا چاہتا ہے یعنی کمیت اور مقدار کو کیفیت کا تابع قرار دیتا ہے نہ کہ کیفیت کو کمیت کا۔

مثلاًاقتصادی اور کاروباری معاملات کی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئے اور اسی بنیاد پر کاروبار کو وسعت دینا چاہیے یا سیاسی میدان میں بھی ہرچیزکی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئیے اوراسی بنیاد پرووٹ حاصل کرنا چاہیے کہ یہی چیزیںصحتمند معاشرے کی پہچان ہیں۔

۲۸۲

لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو اور سماجی یا سیاسی زندگی میں کمیت ومقدار معیار بن جائے تو سماج میں پائے جانے والے اقدار و اصول کا وجود خطرہ میں پڑجاتاہے۔دور جاہلیت میں بعینہ یہی صورت حال موجود تھی کہ مادیت پرروحانیت کی حکومت ہونے کے بجائے مادیت،روحانیت پر حاکم ہوگئی تھی اور قدروقیمت کا تعیّن مادیت سے ہوتاتھا نہ کہ معنویت سے۔

اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہی صورت حال مسلمانوں کے سامنے بھی آئی اسلام نے قدروقیمت کا ایسا نظام پیش کیا تھا کہ جو دور جاہلیت کے پروردہ لوگوں کے لئے نامانوس تھا۔ اس نظام میں اسلام نے قدروقیمت اورمنزلت کا معیار روحانیت کو قرار دیا تھا اور مادیت کو روحانیت کا تابع بنایاتھا۔لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور سرحدوں کی وسعت کے ساتھ دولت میں بھی بے پناہ اضافہ ہواتو مادیت غالب آگئی اور قدروقیمت کا نظام پس پشت چلاگیا۔اور دوبارہ زروجواہر ہی تمام اقدار کا معیار بن گئے اور انکی حالت اس عہد کی سی ہوگئی جس میں خداوند عالم نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تھا اور آپ کو قائدوپیشوا اور رسول بنا کر بھیجاتھا۔

عثمان بن عفان کے بعد امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب جب حاکم مسلمین ہوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ اسلامی معاشرہ اس طرح منقلب ہوچکا ہے کہ جیسے کوئی اس طرح الٹا لباس پہن لے جسکا اندرونی حصہ باہر،اور ظاہری حصہ اندر ،اوپری حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر ہوگیا ہو۔ چنانچہ امیر المومنین بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

(ولُبس الاسلام لُبسَ الفرومقلوباً )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۸۔

۲۸۳

''اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی الٹی پوستین پہن لے''

جیسا کہ آپ نے ان الفاظ میں اسکی عکاسی کی ہے :

(ألا وان بلیّتکم قدعادت کهیئتها یوم بعث اللّٰه نبیکم،والّذی بعثه بالحقّ لتبلبلنّ بلبلةً ولتغربلنّ غربلةً،ولَتساطُنّ سَوطَ القدرحتّی یعود اسفلکم أعلاکم )( ۱ )

''یاد رکھو! تمہارا امتحان بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیغمبر کی بعثت کے دن تھا اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ وبالا کئے جائو گے اور اس طرح چھانے جائو گے جس طرح چھنّی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جائو گے جس طرح پتیلی کے کھانے کو پلٹاجاتا ہے یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہوجائیںگے ''۔

امیر المومنین فرماتے ہیں کہ عنقریب یہ قوم اسلامی اقدار ومفاہیم اور اصول کو چھوڑ کر ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہونے والی ہے اور اسکی وہ حالت ہوجائے گی جو کھولتے ہوئے شوربہ کی ہوتی ہے کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہوجاتاہے۔

فتوحات کی وسعت اور خدا کی جانب سے رزق میں فراوانی کے باعث امت اسلامیہ کی یہی حالت ہوگئی تھی جیسا کہ مال و نعمت کی زیادتی کے باعث عہد جاہلیت کی بھی یہی افسوسناک حالت تھی۔

دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلام نے فقر اوراستغنا کی نئی اصطلاحیں ایجاد کیں اور انہیں نئی اصطلاحوں اور نئے مفاہیم کے ذریعہ دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کردیا۔

قدروقیمت کا اسلامی نظام

لفظ غنی یا استغنا کے معنی کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ہے ۔ایک بیان کے مطابق استغنا کا

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۔

۲۸۴

مطلب ہے ''انسان کے پاس زر وجواہر کا بکثرت موجود ہونا''اس طرح غنی کے معنی کا تعلق عالم محسوسات سے ہے اور یہ مطلب لفظ ''ثروتمند''کے مترادف ہے۔

دوسرے بیان کے مطابق حقیقتاً استغنا سے مراد''دل کا مستغنی ہونا'' ہے جو کہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان اور توکل سے حاصل ہوتا ہے اور اس معنی کا مال کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان کے پاس بے پناہ مال ودولت ہو مگر پھر بھی وہ فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کہ مال ودولت بالکل نہ ہو پھر بھی انسان غنی ہو۔

فقر واستغنا کے یہ معنی،لغوی اور رائج معنی سے بالکل مختلف ہیں۔اور ان معنی کے لحاظ سے استغنا کا تعلق نفس انسانی سے ہے نہ کہ مال ودولت اور خزانہ سے۔

دین اسلام لفظ فقر واستغنا کو نئے معنی و مفاہیم دے کر در اصل دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرکے اسکے مقابلہ میں جدید نظام پیش کرنا چاہتا ہے۔

اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم استغنا اور فقر کے بارے میں اسلامی روایات کی روشنی میں پہلے لفظ استغنا کا مطلب بیان کریں گے اور پھر اس جدید نظام کی وضاحت کریں گے جو اسلام نے قدروقیمت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔

اسلامی روایات میں استغنا کا مفہوم

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

(لیس الغنیٰ عن کثرة العرَض،ولکن الغنیٰ غنیٰ النفس )( ۱ )

''مال ومتاع کی کثرت کانام استغنانہیں بلکہ استغناکا مطلب نفس کا مستغنی ہونا ہے''

____________________

(۱)تحف العقول ص۴۶۔

۲۸۵

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(الغنیٰ فی القلب،والفقر فی القلب )( ۱ )

''استغنا بھی دل میں ہوتا ہے اور فقر بھی دل ہی میں ہوتا ہے''

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا ہے:

(الغنی من استغنیٰ بالقناعة )( ۲ )

''غنی وہ ہے جو قناعت کے باعث مستغنی ہو''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(لاکنز اغنیٰ من القناعة )( ۳ )

''غنی(ہونے)کے لئے قناعت سے بڑھکر کوئی خزانہ نہیں ہے''

نیز آپ نے فرمایا ہے:

(طلبت الغنیٰ فماوجدت الّاالقناعة،علیکم بالقناعة تستغنوا )( ۴ )

''میں نے استغنا کو تلاش کیا تو مجھے قناعت کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ تم بھی قناعت اختیار کروتو مستغنی ہوجائوگے''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(لا فقرکفقرالقلب،ولا غنیٰ کغنیٰ القلب )( ۵ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۲ص۶۸۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۶۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۳۷۱۔

(۴)سفینةالبحارج۲ص۸۷ ،الحیات جلد ۳ ص ۳۴۲۔

(۵)تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۸۶

''دل کی فقیری جیسا کوئی فقر نہیں ہے اور دل ہی کے استغناجیسی کوئی مالداری بھی نہیں ہے''

امام ہادی کا ارشاد ہے:

(الغنیٰ قلّة تمّنِیکَ،والرضا بمایکفیک )( ۱ )

''استغناکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری خواہشات کم ہوں اور جتنا تمہارے لئے کافی ہے اسی پر راضی رہو''( خواہشات کا کم ہونا اور' بقدر کافی 'پر راضی ہوجانااستغناہے۔)

اس طرح اسلام نے استغنا کا تعلق سونے چاندی ،زمین جائداد سے ختم کر دیا اور اسے نفس کے متعلق قرار دیا ہے بلکہ اسلامی رو ایات تو اس سے بڑھ کریہاں تک بیان کرتی ہیں کہ جو افراد مال ودولت کے لحاظ سے ثروتمند ہوتے ہیں اکثر وہ افراد دل کے چھوٹے اور فقیر ہوتے ہیں۔

عموماًجب انسان دنیاوی لحاظ سے مالدار ہوتا ہے تو دل کا چھوٹا اور فقیر ہوتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ثروتمند ہونے اور نفس وقلب کے اعتبار سے چھوٹے اور فقیر ہونے میں کوئی معکوس رابطہ ہو۔نہیں ہرگز نہیں ان دونوں باتوں میں کوئی معکوس رابطہ نہیں ہے۔در حقیقت ایسی صورت حال ان عوارض کے باعث پیدا ہوتی ہے کہ جو عموماًمعاشرہ میں رائج ثروتمند ی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہے:

(۔۔۔وغنِیّها(الدنیا)فقیر )( ۲ )

'' ۔۔۔اور دنیا کا غنی فقیر ہوتا ہے''

حضرت امام زین العابدین نے فرمایا :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۸۷ص۳۶۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۱۴۔

۲۸۷

(من اصاب الدنیا اکثر،کان فیها أشَدّ فقراً )( ۱ )

''جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگا''

جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگایہ لازم و ملزوم کیوں ہیں ؟ ثروتمندی اور استغنا دونوں لفظ غنی کے ہی معنی ہیں مگر ان کے درمیان معکوس رابطہ کیوں پایا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب اوراس رابطہ کا سبب ہمیں امیر المومنین حضرت علی کی اس حدیث سے بخوبی معلوم ہو جائے گا آپ نے فرمایا :

(الغَنِیّ الشَّرِهُ فقیر )( ۲ )

''لالچی مالدار فقیر ہوتا ہے''

اس حدیث مبارک میں غنی سے مراد ثروتمند ہے اور فقیر سے مراد نفس و قلب کے اعتبار سے فقیر ہے اور اس حدیث میں جو لفظ''شرہ''حریص آیا ہے وہ اس معکوس رابطہ کو بیان کرتا ہے اس لئے کہ عام لوگوں کے لحاظ سے جس کے یہاں استغنا پایا جاتا ہے جو ثروتمند ہوتا ہے وہ عموماًحریص بھی ہوتا ہے اور عموماًجتنا مال ودولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے آدمی کی حرص و ہوس میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جب حرص و طمع میں اضافہ ہوگا تو انسان کی اذیت و پریشانی میں اضافہ ہوگا انھیں دونوں حقیقتوں کی جانب قرآن کریم نے اس آیت میںاشارہ کیا ہے ارشاد رب العزت ہے:

(انما یرید اللّٰه لیعذّبهم بها فی الحیاة الدنیا وتزهق انفسهم وهم کافرون )( ۳ )

''بس ﷲکا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت

____________________

(۱)خصال صدوق ج ۱ صفحہ ۶۴۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۲۲۔

(۳) سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

۲۸۸

کفرہی میں ان کی جان نکل جائے ''

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

(انما یرید اللّٰه أن یعذّبهم بها فی الدنیا )( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرے۔

حرص وطمع اسی وقت پایا جاتا ہے جب انسان قلب کے لحاظ سے فقیر ہو ۔نفس جتنا خالی ہو اور فقیر ہوگا حرص وہوس کا اظہار اتنا ہی شدید ہوگا ۔حضرت دائو د کے دور میں لوگوں کی یہی حالت تھی چنانچہ خداوند عالم نے انھیں تو بہ کرنے اور بارگاہ الٰہی میںواپس آنے کا حکم دیا۔

حرص و ہوس کس منزل تک پہونچ سکتے ہیں سورئہ ص کی یہ آیت اسکی بخوبی نشاندہی کرتی ہے:

(انّ هذا أخی له تسع وتسعون نعجة ولیَ نعجةً واحدة فقال:أکفلنیها و عزّنی فی الخطاب )( ۲ )

''یہ ہمارا بھائی ہے اسکے پاس ننّانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے یہ کہتا ہے وہ بھی میرے حوالے کردے اور اس بات میں سختی سے کام لیتا ہے ''

اقدار کے نظام میں انقلاب

اس طرح اسلام نے استغنا کے نئے معنی پیش کئے اور استغناکا تعلق زروجواہر اور مال و

دولت سے ختم کرکے اسے نفس اور قلب سے جوڑدیا ہے اس طرح قدروقیمت کا معیار مال وثروت کے بجائے نفس کو قرار دیا ۔

اسلام کی نگاہ میں انسان کی قدروقیمت اسکے مال ودولت اور منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے

____________________

(۱) سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

(۲)سورئہ ص آیت۲۳۔

۲۸۹

نہیں طے کی جاسکتی جیسا کہ جاہل افراد آج بھی یہی سوچتے ہیں بلکہ اسلام کی نگاہ میں انسانی قدروقیمت کی بنیاد ﷲپرایمان ،تقویٰ ،علم اور دیگر اخلاقی اقدار ہیں ۔اسلام لفظ ثروتمندی اور فقر کے اصل معنی کا منکر نہیں ہے بلکہ اسلام نے اس معنی کے مفہوم میں اضافہ کیا ہے کہ قدروقیمت کے تعیّن کے وقت بے نیازی اور فقر کے معاشی رخ کو ملحوظ نہ رکھاجائے قدروقیمت کا معیار فقروغنی ہی ہیں مگر اس مفہوم میں کہ جو اسلام نے پیش کیا ہے ۔

امیر المومنین کا ارشاد ہے :

(لیس الخیرأن یکثرمالک،ولکن الخیرأن یکثرعلمک،وأن یعظم حلمک،وأن تباهی الناس بعبادة ربک،فان أحسنت حمدت ﷲ،وأن أسأت استغفرت ﷲ )( ۱ )

''بھلائی یہ نہیں ہے کہ تمہارا مال زیادہ ہو بلکہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو۔حلم عظیم ہو اور عبادت پروردگار کو فخر ومباہات کا معیار قرار دو چنانچہ اگر تم نے اچھی طرح عبادت انجام دی ہوتو حمد خدا کرو اور اگر عبادت میں کمی کی ہوتو بارگاہ الٰہی میں استغفار کرو ''

چنانچہ جب قدروقیمت کا نظام بدل جائے گا تو خود بخود لوگوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت میں بھی فرق آجائے گا اس لئے کہ کسی بھی تہذیب میں اگر اقدار ایک جانب اپنے نظام سے جڑے ہوتے ہیں تو دوسری جانب انکا تعلق سماجی ،سیاسی معاشی اور علمی حیثیت و منزلت سے بھی ہوتا ہے ۔

اگر آج ہمیں جاہلیت زدہ مغربی تہذیب میں یہ نظر آتا ہے کہ اس تہذیب میں سرمایہ داری کا دخل کتنا ہے ،سیاست ،معاشیات اور پروپیگنڈہ پر سرمایہ کا کتنا تسلط اور غلبہ ہے ،صدراور حکومت کے انتخابات میں سرمایہ داری کا کتنا اہم کردار ہے میڈیا یہاں تک کہ سیاسی روابط سبھی کچھ سرمایہ داری

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۹۴۔

۲۹۰

کے تابع ہیں! ہماری نگاہ میں اسکا سبب یہ ہے کہ اس تہذیب کی بنیاد مادیت پر ہے نہ کہ اخلاقی اور روحانی اقدار پر۔ اسکے برخلاف اسلام کی نگاہ میں ان چیزوں کی بنیاد اخلاقی و روحانی اقدار ، بندہ کا اللہ سے رابطہ ،عدالت وتقوی اور علم پر استوار ہے ۔ارشاد پروردگار ہے:

( انّما یخشیٰ ﷲ من عباده العلمائُ ) ( ۱ )

''ﷲ سے ڈرنے والے اسکے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقیٰکُمْ ) ( ۲ )

''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ''

اسلام ،قائدا و رہبرمسلمین کے لئے تقویٰ اور عدالت کو ضروری قرار دیتا ہے اسی طرح قاضی،پیش نماز اورامین (جس کے پاس لوگ امانتیں رکھواتے ہیں) بہ الفاظ دیگر ان تمام افراد کے لئے تقوی و عدالت کو لازمی شرط قرار دیتا ہے جو سماج اور معاشرہ میں کسی بھی عنوان سے مقام ومنزلت کے مالک ہوں۔اسی لئے جب نظام اقدار میں تبدیلی آئے گی توخود بخودمعاشرہ کی سماجی،سیاسی،معاشی،علمی،دینی حیثیتوں میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔

اس طرح تین مرحلوں میں یہ عمل انجام پاتا ہے :

۱۔نظام اقدار میں تبدیلی

۲۔اقدار میں تبدیلی

۳۔سماجی اور سیاسی حیثیت میں تبدیلی

____________________

(۱)سورئہ فاطر آیت ۲۸۔

(۲)سورئہ حجرات آیت ۱۳۔

۲۹۱

اب جبکہ استغنا سے متعلق اسلامی نظریہ واضح ہو گیا اور لوگوں کی زندگی میں اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوگیا تو اب ہم نفس کے استغنا اور بے نیازی کے بارے میں کچھ بیان کرسکتے ہیں جس کے بارے میں حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں ''جعلت غناہ فی نفسہ ''

نفس کی بے نیازی

سوال یہ کہ نفس کی بے نیازی ہے کیا ؟اور ہم اپنے اندر یہ بے نیازی کیسے پیدا کرسکتے ہیں ؟

در اصل نفس کی بے نیازی اس میں مضمر ہے کہ انسان مادیات اور دنیا پر اعتماد نہ کرے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھے اس لئے کہ دنیا فانی ہے اور ذات الٰہی دائمی ، ما دیات محدود ہیں اور خدا کی سلطنت لا محدود ۔

لہٰذا جب انسان اللہ پر توکل اور بھروسہ کے سہارے مستغنی اور بے نیاز ہوگا تو کبھی بھی کمزوری اور نا توانی محسوس نہیں کرے گا ۔حالات کتنے ہی منقلب کیوں نہ ہو جا ئیں ،آسانیاں سختیوں میں تبدیل کیوں نہ ہو جا ئیں اللہ پر توکل کرنے والے کے پائے ثبات متزلزل نہ ہوں گے کیونکہ ایسی بے نیازی نفس سے تعلق رکھتی ہے اور کسی بھی عالم میں نفس سے جدا نہیں ہو سکتی ہے ۔

مو لائے کائنات متقین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(فی الزلازل وقور،وفی المکاره صبور )( ۱ )

''(متقین)مصائب وآلام میں با وقار اور دشواریوں میں صابر ہوتے ہیں''

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بے نیازی نفس کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے اور کو ئی بھی پریشانی یا سختی اس بے نیازی کو ان سے جدا نہیں کر سکتی اور یہ بے نیازی اللہ پر ایمان ،اعتماد ،توکل اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے حاصل ہو تی ہے ۔در اصل بے نیازی یہی ہے اوراس سے بڑھکر کو ئی بے نیازی

۔____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳۔

۲۹۲

نہیں ہو سکتی ہے اور حالات کی تبدیلی اس پر اثر انداز نہیں ہو تی ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاارشاد گرامی ہے :

(یا أباذراستغنِ بغنیٰ ﷲ تعالیٰ،یغنک ﷲ )( ۱ )

''ا ے ابوذراللہ کی بے نیازی کے ذریعہ مستغنی بنو اللہ (واقعاً)بے نیاز بنا دے گا ''

مولائے کائنات کا ارشاد ہے :

(الغنیٰ باللّٰه أعظم الغنیٰ،والغنیٰ بغیرﷲ أعظم الفقروالشقائ )( ۲ )

''اللہ کے ذریعہ استغناسب سے بڑا استغنا ہے اور اللہ کے بغیر استغنا سب سے بڑا فقر اور شقاوت ہے ''

اس معیار کے بموجب اللہ پر جتنا زیادہ توکل اور بھروسہ ہوگا انسان اتنا ہی زیادہ مستغنی ہوگا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرا می ہے:

(مَن أحبّ أن یکون أغنیٰ الناس فلیکن بما فی ید اللّٰه أوثق منه مما فی یده )( ۳ )

''جو سب سے بڑا مستغنی ہو نا چا ہتا ہے اسے چاہئیے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے ا س سے زیادہ اس پر بھروسہ کرے جو خدا کے پاس ہے ''

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ پر توکل کا مطلب مادی اسباب کو نظر انداز کرنا نہیں ہے مادی اسباب کو نظر انداز کرنا سنت الٰہی سے انحراف ہے اور اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔بلکہ توکل کا مطلب ہے غیر کے بجائے صرف اور صرف ذات پروردگار پر اعتماد و اعتبار کرنا ۔اگر یہ اعتماد ہے تو اپنے مقصود تک پہونچنے کے لئے کسی بھی طرح کے اسباب ووسائل اختیار کرنا توکل کے خلاف نہ ہوگا۔

____________________

(۱)مکارم الاخلاق ص ۵۳۳۔

(۲)غرر الحکم ج۱ ص۹۱۔۹۲۔

(۳)تحف العقول ص۲۶۔

۲۹۳

بے نیازی(استغنا)کے ذرائع

جن چیزوں کے ذریعہ انسان بے نیازی حاصل کرسکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ہم یہاں پر ان میں سے صرف اہم ترین عوامل کا تذکرہ کریں گے ۔

۱۔یقین:

ذات پروردگار پر یقین بے نیازی کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اس لئے کہ اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ خدا اپنے بندوں پر مہربان رہتا ہے لطف و کرم کرتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوریہ بھی یقین ہوکہ وہی رازق ہے رئووف ورحیم ہے ۔اسکی رحمت وعنایت کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والانہیں ہے اسکے خزانہ میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے اور کثرت عطا سے اسکے جود وکرم میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے تو انسان کبھی بھی فقرواحتیاج کا احساس نہیں کرسکتا۔

فقرواحتیاج کا احساس اسی وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کے پاس ایسا یقین مفقود ہو اور ایمان، یقین کی منزل تک نہ پہونچاہو۔یقین ہی ایمان کا سب سے بلند درجہ ہے بندوں کو ملنے والا سب سے بہترین رزق یقین ہے ۔

مولائے کائنات کا ارشاد گرامی ہے :

(مفتاح الغنیٰ الیقین )( ۱ )

''یقین بے نیازی کی کنجی ہے ''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(کفیٰ بالیقین غنیً،وبالعبادة شغلاً )( ۲ )

''بے نیازی کے لئے یقین کافی ہے اورعبادت بہترین مشغلہ ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۹۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۸۵۔

۲۹۴

۲۔تقویٰ:

بے نیازی کے اسباب وعوامل میں تقویٰ بھی اہم ترین عامل ہے ۔انسان جب احکام خداکا پابند ہوگا اور حدود الٰہیہ کا خیال رکھے گا تواللہ اس کے دل کو بے نیاز بنادے گا اور اس کے فقرواحتیاج کوختم کردے گا ۔

پیغمبر اکرم ْصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(کفیٰ بالتقیٰ غنیٰ )( ۱ )

''مستغنی ہونے کے لئے تقویٰ کافی ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا:

(یاجابر ان أهل التقویٰ هم الأغنیائ،أغناهم القلیل من الدنیا،فمؤنتهم یسیرة،ان نسیت الخیرذکّروک،وان عملت به أعانوک،أخّرواشهوا تهم و لذّا تهم خلفهم،وقدّموا طاعة ربّهم أمامهم )( ۲ )

''اے جابر صاحبان تقویٰ ہی مالدار ہیں ان میں بھی سب سے بڑا غنی وہ ہے دنیاجس کا میں تھوڑاحصہ ہو ان کے اسباب معیشت بہت مختصر ہوتے ہیں اگر تم عمل خیر کوبھول جائوتو یہ تمہیں یاد آوری کریں گے اگر تم عمل خیر کروگے تو تمہارے معاون ومددگار ہوںگے وہ اپنے خواہشات کو موخر اور لذتوں کو پس پشت رکھتے ہیں ان کے پیش نظر صرف اطاعت پروردگار ہوتی ہے اور وہ اسی کو مقدم رکھتے ہیں ''

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق سے مروی ہے :

(من أخرجه ﷲ تعالیٰ من ذل المعاصی الیٰ عزّ التقویٰ،أغناه ﷲبلا مال،

____________________

(۱)تحف العقول ص۳۰۔

(۲) تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۹۵

وأعزّه بلا عشیرة،وآنسه بلا أنیس )( ۱ )

''خداجسے گناہوں کی ذلت سے نکال کر تقویٰ کی عزت سے سرافراز کرتاہے اسے بغیر مال کے غنی ،بغیر خاندان و قبیلہ کے عزیز اور ساتھیوں کے بغیر تسکین قلب اور انسیت عطا کردیتا ہے''

اس حدیث شریف میں نفس کی بے نیازی کے بعینہ وہی معنی پائے جائے ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ نفس مال وثروت کے بغیر بھی غنی ہوسکتا ہے بغیر خاندان کے صاحب عزت بن سکتا ہے ہم نوا اور مونس کے بغیر بھی اپنی وحشتناک تنہائی کا مداوا کرسکتا ہے ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے نیازی کا منبع و سرچشمہ تقویٰ الٰہی ہے اسی تقوے کے ذریعہ نفس انسانی اپنے اندر عزت وانس کا احساس کرتا ہے اس لئے کہ جب انسان متقی اور حدود و احکام الٰہیہ کا پابند ہوگا تواللہ بھی اسکے نفس کو غنی بنادے گا اور اس سے فقروذلت اور وحشت کو دور رکھے گا۔

جس حدیث قدسی کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں:

(لایؤثرهوای علیٰ هواه الاجعلت غناه فی نفسه )

''کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہشات پر ترجیح نہیں دے گا مگر یہ کہ میں اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوںگا''

اور مخالفت نفس کا ہی نام تقویٰ ہے جس کا دوسرا نام اطاعت پروردگار ہے ۔

۳۔شعور :

یقین و تقویٰ اگر بے نیازی اور استغنا کی کنجی ہیں تو فہم و شعور یقین و تقویٰ کی کنجی اور ان تک پہونچنے کا راستہ ہے انسان فقط جہالت کے باعث ہی تقویٰ اور یقین سے محروم ہو سکتا ہے یہاں فہم و شعور سے ہماری مراد تدبر و تعقل ہے اسلامی روایات میں یہ معنی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)وسائل الشیعہ ج۱۱ص۱۹۱۔

(۲)عدّةالداعی،ابن فھد حلی۔

۲۹۶

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(لاغنیٰ مثل العقل )( ۱ )

''عقل کے مانند کو ئی بے نیازی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(ان أغنیٰ الغنیٰ:العقل )( ۲ )

''سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ''

نیز آپ نے فرمایا ہے :

(غنیٰ العاقل بعلمه،وغنی الجاهل بماله )( ۳ )

''عاقل اپنے علم اور جا ہل اپنے مال کے ذریعہ مستغنی ہوتا ہے''

مشہور و معروف حدیث کے مطابق امام مو سیٰ کاظم نے اپنے صحابی ہشام بن حکم سے فرمایا :

(یاهشام:من أراد الغنیٰ بلا مال،وراحة القلب من الحسد،والسلامة فی الدین،فلیتضرّع الیٰ ﷲ فی مسألته بأن یکمل عقله )( ۴ )

''اے ہشام جو انسان مال کے بغیر بے نیازی کا خواہاں ہو،اپنے قلب کو حسد سے محفوظ رکھنا چاہتا ہو ،دین کی سلامتی چاہتا ہو اس کو تضرع و زاری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں دعا کرنا چاہئے کہ خداوند عالم اس کی عقل کو سالم کردے ''

____________________

(۱)تحف العقول ص۱۴۲۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۳۸۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۴۷۔

(۴)تحف العقول ص۲۸۶۔

۲۹۷

حیات انسانی میں بے نیازی کے آثار

انسانی زندگی میں نفس کی بے نیازی کے بہت فائدے ہیں چونکہ پروردگار جس کے نفس کو بے نیازی عطا کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے خدا سے رابطہ کا احساس کرتا ہے اسے ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے اور ہر وقت تائید و عنایت الٰہی اس کے شامل حال ہے لہٰذا وہ تائید و عنایت الٰہی کے باعث سکون و اطمینان کی زندگی بسرکرتا ہے اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی کبھی مجھے میرے نفس کے حوالے کرے گا ۔

اس طرح اس کی زندگی میں مکمل اعتماد و اعتبار، اطمینان ،ثبات قدم اورسکون قلب تو نظر آتا ہے مگر کبھی بھی حرص و ہوس ،حسد ،لالچ اوراضطراب و پریشانی نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام نفسانی بیماریاں نفس کی کمزوری اور فقر سے پیدا ہوتی ہیںجس کی طرف ابھی ہم نے حضرت امام مو سیٰ کاظم کی حدیث کے ذیل میں اشارہ کیا تھا ۔

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(أغنیٰ الغنیٰ من لم یکن للحرص أسیراً )( ۱ )

''سب سے بڑا غنی وہ ہے جو حرص و ہوس کا اسیر نہ ہو ''

امیر المو منین حضر ت علی کا ارشاد ہے :

(أشرف الغنیٰ،ترک المنیٰ )( ۲ )

''شریف ترین بے نیازی ، خواہشات کا ترک کرناہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ ص۳۱۶۔

(۲)اصول کافی ج۸ ص ۲۳۔

۲۹۸

(الغنیٰ الاکبر:الیأس عمّافی أیدی الناس )( ۱ )

''سب سے بڑی بے نیازی یہ ہے کہ انسان اس کا امید وار نہ ہو جو لوگوں کے پاس ہے ''

اور جب مال نفس کو بے نیاز نہ بنا سکے تو پھر وہ اضطراب و بے چینی کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کے حرص و طمع اور مشکلات میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّمایریداللّٰه لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیا وتزهق أنفسهم ) ( ۲ )

''پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انھیں(اموال واولاد) کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر میں ہی ان کی جان نکلے ''

( انّما یرید اللّٰه أن یعذبهم بها فی الدنیا و تزهق أنفسهم ) ......( ۳ )

''اور خداان کے(اموال واولاد) ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کفر کی حالت میں ان کا دم نکلے ''

۲۔ضمنت السمٰوات:

''زمین و آسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں''

یہ جملہ ان لوگوںکی دوسری جزا ہے جو ﷲکے احکام کو اپنے خواہشات پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنے خواہشات کو حکم وارادئہ الٰہی کا تابع بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں کو خدا جزا وانعام سے نواز تا ہے ان کی پہلی جزا تو یہ تھی کہ خدا ان کے نفس کو غنی بنادیتا ہے جس کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں اور ان کی دوسری جزا اور انعام یہ ہے کہ آسمان وزمین ان کے رزق کے ضامن ہوتے ہیں۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۳۴۲۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۳)سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

۲۹۹

واضح سی بات ہے کہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان رزق حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ﷲاس کی سعی کو کامیاب بنادیتا ہے اور اسے توفیق عطا کرتا ہے۔

توفیق

ﷲنے توفیق کی بنا پر زمین وآسمان کو ضامن بنایا ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسانی کوشش رائیگاںچلی جاتی ہے اور اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان برسوں ہاتھ پیر مارتا ہے جد وجہد کرتا ہے لیکن اپنے مقصود تک نہیں پہونچ پاتا اسکے برخلاف کبھی تھوڑی سی جدو جہد ہی نیک اور با برکت ثمرات کا سبب بن جاتی ہے یہ صرف حسن توفیق اور بے توفیقی کی بات ہے۔اور یہ طے ہے کہ خدا ہی توفیق دینے والا ہے۔

مومن اپنے خواہشات پراحکام خدا کو ترجیح دیتا ہے توخداوند عالم بطورجزازمین و آسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادیتا ہے ۔تو یہ بھی توفیق کی بنیاد پر ہے ۔یہاں توفیق کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم اسکی سعی وکوشش کو مفید وکارآمد جگہ پر لگادیتا ہے جس سے یہ سعی وکوشش نتیجہ خیزبن جاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے زرخیززمین پر بارش ہوتی ہے البتہ کبھی بارش ہوتی ہے مگر زمین سے دانہ نہیں اگتاہے اور بارش کا پانی ضائع ہوجاتا ہے لیکن اگر زرخیز زمین پر تھوڑی سی بارش مناسب موقع پر ہوجائے تو خیر کثیر کا باعث بن جاتی ہے اور سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ توفیق ایک الگ چیز ہے اسکا انسان کی کوشش اور جد وجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے انسان جدوجہد کرسکتا ہے مگر توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ تھوڑے اسباب توفیق انسان کے ہاتھ میں ہیں لیکن جو اسباب توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہیں انکی تعداد کئی گنا زیادہ ہے جو سب کے سب خداکے ہاتھ میں ہیں ۔خدا جب کسی بندہ کو توفیق سے نوازتا ہے تو اسکی زندگی اور جدوجہد بابرکت بن جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے جناب عیسیٰ کی ز بانی نقل کیا ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349