خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں22%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96752 / ڈاؤنلوڈ: 4144
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے

دھوپ ہم پر ہی نہیں بے سائباں وہ بھی تو ہے

*

شکوہ بیداد موسم اس سے کیجے بھی تو کیوں

کیا کرے وہ بھی کہ زیر آسماں وہ بھی تو ہے

*

اور اب کیا چاہتے ہیں لوگ دیکھیں تو سہی

دربدر ہم ہی نہیں بے خانماں وہ بھی تو ہے

*

ایک ہی دستک جہاں چونکائے رکھے ساری عمر

ایک انداز ِ شکست ِ جسم و جاں وہ بھی تو ہے

*

اس طرف بھی اک نظر اے راہرو منزل نصیب

وہ جو منزل پر لٹا ہے کارواں وہ بھی تو ہے

٭٭٭

۴۱

کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں

سمائے ہیں مری آنکھوں میں خواب جیسے دن

وہ ماہتاب سی راتیں گلاب جیسے دن

وہ کنج شہر وفا میں سحاب جیسے دن

*

وہ دن کے جن کا تصور متاع قریہ دل

وہ دن کہ جن کی تجلی فروغ ہر محفل

گئے وہ دن تو اندھیروں میں کھو گئی منزل

*

فضا کا جبر شکستہ پروں پہ آ پہنچا

عذاب دربدری بے گھروں پہ آ پہنچا

ذرا سی دیر میں سورج سروں پہ آ پہنچا

*

کسے دکھائے یہ بے مائیگی خزینوں کی

کٹی جو فصل تو غربت بڑھی زمینوں کی

یہی سزا ہے زمانے میں بے یقینوں کی

٭٭٭

۴۲

اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

اک خواب ِ دل آویز کی نسبت سے ملا کیا

جز دربدری اس درِ دولت سے ملا کیا

*

آشوب فراغت! ترے مجرم ترے مجبور

کہہ بھی نہیں سکتے کہ فراغت سے ملا کیا

*

اک نغمہ کہ‌ خود کو اپنے ہی آہنگ سے محجوب

اک عمر کے پندار ِ سماعت سے ملا کیا

*

اک نقش کہ خود اپنے ہی رنگوں سے ہراساں

آخر کو شب و روز کی وحشت سے ملا کیا

*

جاں دے کر بھی بالا نہ ہوئے نرخ ہمارے

بازار معانی میں مشقت سے ملا کیا

*

جیتا ہوا میدان کہ ہاری ہوئی بازی

اس خانہ خرابی کی اذیت سے ملا کیا

*

اک خلعت دشنام و کلاہ سخن ِ بد

شہرت تو بہت پائی پہ شہرت سے ملا کیا

٭٭٭

۴۳

کوچ

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہو گی

شیریں سخنوں کے حرف ِ دشنام

بے مہر زبانیں بند ہو ں گی

*

پلکوں پہ نمی کا ذکر ہی کیا

یادوں کا سراغ تک نہ ہوگا

ہمواری ہر نفس سلامت

دل پر کوئی داغ تک نہ ہوگا

پامالی خواب کی کہانی

کہنے کو چراغ تک نہ ہوگا

*

معبود! اس آخری سفر میں

تنہائی کو سرخرو ہی رکھنا

جز تیرے نہیں کوئی نگہدار

اُس دن بھی خیال تو ہی رکھنا

جس آنکھ نے عمر بھر رلایا

اس آنکھ کو بے وضو ہی رکھنا

*

جس روز ہمارا کوچ ہوگا

پھولوں کی دکانیں بند ہوں گی

٭٭٭

۴۴

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

ہمارے بعد تم کو یہ جہاں کیسا لگے گا

*

تھکے ہارے ہوئے سورجوں کی بھیگی روشنی میں

ہواؤں سے الجھتا بادباں کیسا لگے گا

*

جمے قدموں کے نیچے سے پھسلتی جائے گی ریت

بکھر جائے گی جب عمر رواں کیسا لگے گا

*

اسی مٹی میں مل جائے گی پونجی عمر بھر کی

گرے گی جس گھڑی دیوار ِ جاں کیسا لگے گا

*

بہت اترا رہے ہو دل کی بازی جیتنے پر

زیاں بعد از زیاں بعد از زیاں کیسا لگے گا

*

وہ جس کے بعد ہوگی ایک مسلسل بے نیازی

گھڑی بھر کا وہ سب شور فغاں کیسا لگے گا

*

ابھی سے کیا بتائیں مرگ مجنوں کی خبر پر

سلوک ِ کوچۂ نا مہرباں کیسا لگے گا

*

بتاؤ تو سہی اے جان جاں کیسا لگے گا

ستاروں سے بھرا یہ آسماں کیسا لگے گا

٭٭٭

۴۵

ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

ہمیں خبر تھی کہ یہ درد اب تھمے گا نہیں

یہ دل کا ساتھ بہت دیر تک رہے گا نہیں

*

ہمیں خبر تھی کوئی آنکھ نم نہیں ہو گی

ہمارے غم میں کہیں کوئی دل دکھے گا نہیں

*

ہمیں خبر تھی کہ اک روز یہ بھی ہونا ہے

کہ ہم کلام کریں گے کوئی سنے گا نہیں

*

ہماری دربدری جانتی تھی برسوں سے

گھر جائیں بھی تو کوئی پناہ دے گا نہیں

*

ہماری طرح نہ آئے گا کوئی نرغے میں

ہماری طرح کوئی قافلہ لٹے گا نہیں

*

نمود خواب کی باتیں شکست خواب کا ذکر

ہمارے بعد یہ قصے کوئی کہے گا نہیں

*

غریب شہر ہو یا شہر یار ہفت اقلیم

یہ وقت ہے یہ کسی کے لیے رکے گا نہیں

*

مگر چراغ ہنر کا معاملہ ہے کچھ اور

یہ ایک بار جلا ہے تو اب بجھے گا نہیں

٭٭٭

۴۶

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

یہ بستیاں ہیں کہ مقتل دعا کیے جائیں

دعا کے دن ہیں مسلسل دعا کیے جائیں

*

کوئی فغاں، کوئی نالہ، کوئی بکا، کوئی بین

کھلے گا باب مقتل دعا کیے جائیں

*

یہ اضطراب یہ لمبا سفر، یہ تنہائی

یہ رات اور یہ جنگل دعا کیے جائیں

*

بحال ہو کے رہے گی فضائے خطۂ خیر

یہ حبس ہوگا معطل دعا کئے جائیں

*

گزشتگان ِ محبت کے خواب کی سوگند

وہ خواب ہوگا مکمل دعا کیے جائیں

*

ہوائے سرکش و سفاک کے مقابل بھی

یہ دل بجھیں گے نہ مشعل دعا کیے جائیں

*

غبار اڑاتی جھلستی ہوئی زمینوں پر

امنڈ کے آئیں گے بادل دعا کیے جائیں

*

قبول ہونا مقدر ہے حرف خالص کا

ہر ایک آن ہر اک پل دعا کیے جائیں

٭٭٭

۴۷

دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

دل کو دیوار کریں، صبر سے وحشت کریں ہم

خاک ہو جائیں جو رسوائی کو شہرت کریں ہم

*

اک قیامت کہ تلی بیٹھی ہے پامالی پر

یہ گزر لے تو بیان ِ قد و قامت کریں ہم

*

حرف تردید سے پڑ سکتے ہیں سو طرح کے پیچ

ایسے سادہ بھی نہیں ہیں کہ وضاحت کریں ہم

*

دل کے ہمراہ گزارے گئے سب عمر کے دن

شام آئی ہے تو کیا ترک ِ محبت کریں ہم

*

اک ہماری بھی امانت ہے تہ خاک یہاں

کیسے ممکن ہے اس شہر سے ہجرت کریں ہم

*

دن نکلنے کو ہے چہروں پہ سجا لیں دنیا

صبح سے پہلے ہر اک خواب کو رخصت کریں

*

شوق ِ آرائش گل کا یہ صلہ ہے کہ صبا

کہتی پھرتی ہے کہ اب اور نہ زحمت کریں ہم

*

عمر بھی دل میں سجائے پھرے اوروں کی شبیہ

کبھی ایسا ہو کہ اپنی بھی زیارت کریں ہم

٭٭٭

۴۸

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

مقدر ہو چکا ہے بے در و دیوار رہنا

کہیں طے پا رہا ہے شہر کا مسمار رہنا

*

نمود خواب کے اور انہدام خواب کے بیچ

قیامت مرحلہ ہے دل کا ناہموار رہنا

*

دلوں کے درمیاں دوری کے دن ہں اور ہم کو

اسی موسم میں تنہا برسرپیکار رہنا

*

اندھیری رات اور شور سگاں کوئے دشنام

اور ایسے میں کسی آنکھ کا بیدار رہنا

*

تماشا کرنے والے آ رہے ہیں جوک در جوک

گروہ پابجولاں! رقص کو تیار رہنا

*

ہوائے کوئے قاتل بے ادب ہونے لگی ہے

چراغ جادہ صدق و صفا ہشاور رہنا

*

یہ دشواری تو آسانی کا خمیازہ ہے ورنہ

بہت ہی سہل تھا ہم کو بہت دشوار رہنا

*

ادھر کچھ دن سے اس بستی کو راس آنے لگا ہے

ہم آشفتہ سروں کے در پے آزار رہنا

٭٭٭

۴۹

ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ہم نہ ہوئے تو کوئی افق مہتاب نہیں دیکھے گا

ایسی نیند اڑے گی پھر کوئی خواب نہیں دیکھے گا

*

نرمی اور مٹھاس میں ڈوبا یہی مہذب لہجہ

تلخ ہوا تو محفل کے آداب نہیں دیکھے گا

*

پیش لفظ سے اختتام تک پڑھنے والا قاری

جس میں ہم تحریر ہیں بس وہی باب نہیں دیکھے گا

*

لہو رلاتے خاک اڑاتے موسم کی سفاکی

دیکھتے ہیں کب تک یہ شہر گلاب نہیں دیکھے گا

*

بپھرے ہوئے دریا کو ہوا کا ایک اشارہ کافی

کوئی گھر کوئی بھی گھر سیلاب نہیں دیکھے گا

*

بے معنی بے مصرف عمر کی آخری شام کا آنسو

ایک سبب دیکھے گا سب اسباب نہیں دیکھے گا

*

اک ہجرت اور ایک مسلسل دربدری کا قصہ

سب تعبر یں دیکھیں گے کوئی خواب نہیں دیکھے گا

٭٭٭

۵۰

روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے

روش میں گردش ساارگاں سے اچھی ہے

زمین کہںش کی بھی ہو آسماں سے اچھی ہے

*

جو حرف حق کی حمایت مںب ہو وہ گمنامی

ہزار وضع کے نام و نشاں سے اچھی ہے

*

عجب نہںع کل اسی کی زبان کھنچ جائے

جو کہہ رہا ہے خموشی زباں سے اچھی ہے

*

بس ایک خوف کہںا دل یہ بات مان نہ جائے

یہ خاک غرک ہمں آشاہں سے اچھی ہے

*

ہم ایسے گل زدگاں کو بہار یک ساعت

نگار خانۂ عہد خزاں سے اچھی ہے

٭٭٭

۵۱

شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں

شہر بے مہر سے پما ن وفا کا باندھیں

خاک اڑتی ہے گل تر کی ہوا کاا باندھیں

*

جانتے ہیں سفر شوق کی حد کیا ہوگی

زور باندھںت بھی تو ہم آبلہ پا کا باندھیں

*

کوئی بولے گا تو آواز سنائی دے گی

ہو کا عالم ہو تو مضمون صدا کان باندھیں

*

ساری بستی ہوئی اک موجۂِ سفاک کی نذر

اب کوئی بند سر سلا بلا کا باندھیں

*

آخرش ہر نفس گرم کا انجام ہے ایک

سو گھڑی بھر کو طلسم من و ما کا باندھیں

٭٭٭

۵۲

محبت کی ایک نظم

مری زندگی مں بس اک کتاب ہے اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم ہو

یہ کتاب و خواب کے درماون جو منزلںس ہںا، مںچ چاہتا تھا

تمہارے ساتھ بسر کروں

ییہ کل اثاثہ ِ زندگی ہے اسی کو زاد ِ سفر کروں

کسی اور سمت نظر کروں تو مری دعا مں اثر نہ ہو

مرے دل کے جادۂِ خوش خبر پہ بجز تمہارے کبھی کسی کا گزر نہ ہو

مگر اس طرح کہ تمہںر بھی اس کی خبر نہ ہو

اسی احتایط مںت ساری عمر گزر گئی

وہ جو آرزو تھی کتاب و خواب کے ساتھ تم بھی شریک ہو وہی مر گئی

اسی کشمکش نے کئی سوال اٹھائے ہںا

وہ سوال جن کا جواب مر ی کتاب مںھ ہے نہ خواب مںہ

مرے دل کے جادۂ خوش خبر کے رفقں

تم ہی بتاؤ پھر کہ یہ کاروبار ِ حاےت کس کے حساب مںت

مری زندگی مںب بس اک کتاب اک چراغ ہے

ایک خواب ہے اور تم

٭٭٭

۵۳

جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا

جو فضل سے شرف ِ استفادہ رکھتے ہںا

کچھ اہل ِ درد سے نسبت زیادہ رکھتے ہںی

*

رموز ِ مملکت ِ حرف جاننے والے

دلوں کو صورت ِ معنی کشادہ رکھتے ہںک

*

شب ِ ملال بھی ہم رہ روان ِ منزل ِ عشق

وصال ِ صبح سفر کا ارادہ رکھتے ہںا

*

جمال ِ چہرہ ِ فردا سے سرخرو ہے جو خواب

اس ایک خواب کو جادہ بہ جادہ رکھتے ہں

*

مقام ِ شکر کہ اس شہر ِ کج ادا مںد بھی لوگ

لحاظ ِ حرف دل آویز و سادہ رکھتے ہں

*

بنام ِ فضف، بجان ِ اسد فقرر کے پاس

جو آئے آ گئے ہم دل کشادہ رکھتے ہںے

٭٭٭

۵۴

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

تیری شوریدہ مزاجی کے سبب تیرے نہیں

اے مرے شہر ترے لوگ بھی اب تیرے نہیں

*

میں نے ایک اور بھی محفل میں انھیں دیکھا ہے

یہ جو تیرے نظر آتے ہیں یہ سب تیرے نہیں

*

یہ بہ ہر لمحہ نئی دھن پہ تھرکتے ہوے لوگ

کون جانے کہ یہ کب تیرے ہیں کب تیرے نہیں

*

تیرا احسان کہ جانے گئے پہچانے گئے

اب کسی اور کے کیا ہوں گے یہ جب تیرے نہیں

*

در بدر ہوکے بھی جو تیری طرف دیکھتے تھے

وہ ترے خانماں برباد بھی اب تیرے نہیں

*

اب گلہ کیا کہ ہوا ہو گئے سب حلقہ بگوش

میں نہ کہتا تھا کہ یہ اہل طلب تیرے نہیں

*

ہو نہ ہو دل پہ کوئ بوجھ ہے بھائی ورنہ

بات کہنے کے یہ انداز یہ ڈھب تیرے نہیں

٭٭٭

۵۵

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں

جو ہم سے مل کے بچھڑ جائے وہ ہمارا نہیں

*

ابھی سے برف اُلجھنے لگی ہے بالوں سے

ابھی تو قرضِ ماہ و سال بھی اُتارا نہیں

*

سمندورں کو بھی حیرت ہوئی کہ ڈوبتے وقت

کسی کو ہم نے مد د کے لیے پکارا نہیں

*

جو ہم نہیں تھے تو پھر کون تھا سرِ بازار

جو کہ رہا تھا کہ بکنا ہمیں گوارا نہیں

*

ہم اہلِ دل ہیں محبت کی نسبتوں کے امیں

ہمارے پاس زمینوں کا گوشوارہ نہیں

٭٭٭

۵۶

ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

ہو کے دنیا میں بھی دنیا سے رہا اور طرف

دل کسی اور طرف دستِ دعا اور طرف

*

اک رجز خوان ہنر کاسہ و کشکول میں طاق

جب صفِ آرا ہوئے لشکر تو ملا اور طرف

*

اے بہ کہ ہر لمحہ نئے وہم میں الجھے ہوئے شخص

میری محفل میں الجھتا ہے تو جا اور طرف

*

اہلِ تشیری و تماشا کے طلسمات کی خیر

چل پڑے شری کے سب شعلہ نوا اور طرف

*

کیا مسافر تھا سفر کرتا رہا اس بستی میں

اور لو دیتے تےل نقشِ کفِ پا اور طرف

*

شاخِ مژگاں سے جو ٹوٹا تھا ستارہ سرِ شام

رات آئ تو وہی پھول کھلا اور طرف

*

نرغۂ ظلم میں دکھ سیھل رہی خلقتِ شرج

اہلِ دنیا نے کیے جشن بپا اور طرف

٭٭٭

۵۷

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

شہرِ گل کے خس و خاشاک سے خو ف آتا ہے

جس کا وارث ہوں اُسی خاک سے خوف آتا ہے

*

شکل بننے نہیں پا تی کہ بگڑ جا تی ہے

نئی مٹی کو ابھی چا ک سے خوف آتا ہے

*

وقت نے ایسے گھمائے افق آفاق کہ بس

محورِ گردشِ سفّا ک سے خوف آتا ہے

*

یہی لہجہ تھا کہ معیار سخن ٹھہرا تھا

اب اسی لہجۂ بے باک سے خوف آتا ہے

*

آگ جب آگ سے ملتی ہے تو لو دیتی ہے

خاک کو خاک کی پو شاک سے خوف آتا ہے

*

قامتِ جاں کو خوش آیا تھا کبھی خلعتِ عشق

اب اسی جامۂ صد چاک سے خوف آتا ہے

*

کبھی افلاک سے نا لوں کے جواب آتے تھے

ان دنوں عالمِ افلاک سے خوف آتا ہے

*

رحمتِ سیدِؐ لولاک پہ کامل ایمان

امتِ سیدِؐ لولاک سے خوف آتا ہے

٭٭٭

۵۸

فہرست

وہی پیاس ہے وہی دشت ہے وہی گھرانا ہے ۴

آخری آدمی کا رجز ۵

ایک رخ ۷

خوف کے موسم میں لکھی گئی ایک نظم ۸

بستی بھی سمندر بھی بیاباں بھی مرا ہے ۹

پتہ نہیں کیوں ۱۰

دن گزرا آشفتہ سر خاموش ہوئے ۱۱

سرگوشی ۱۲

سمجھ رہے ہیں مگر بولنے کا یارا نہیں ۱۳

رنگ تھا روشنی تھا قامت تھا ۱۴

ہوائیں ان پڑھ ہیں ۱۵

دعا ۱۶

کہیں سے کوئی حرف معتبر شاید نہ آئے ۱۷

پھول مہکیں مرے آنگن میں صبا بھی آئے ۱۸

ابو الہول کے بیٹے ۱۹

جھوٹ ۲۰

استغاثہ ۲۱

ذرا سی دیر کو آئے تھے خواب آنکھوں میں ۲۲

۵۹

ان وعدہ اللہ حق ۲۳

صحرا میں ایک شام ۲۴

ھل من ناصراً ینصرنا ۲۵

خواب کی طرح بکھر جانے کو جی چاہتا ہے ۲۶

اے میری زندگی کے خواب، شام بخیر شب بخیر ۲۷

جن کی پرواز کے چرچے کبھی افلاک میں تھے ۲۸

ایک پل کا فاصلہ ۲۹

التجا ۳۰

دکھ اور طرح کے ہیں دعا اور طرح کی ۳۱

یہ اب کھلا کہ کوئی بھی منظر مرا نہ تھا ۳۲

یہ معجزہ بھی کسی کی دعا کا لگتا ہے ۳۳

امید و بیم کے محور سے ہٹ کے دیکھتے ہیں ۳۴

جیسا ہوں ویسا کیوں ہوں سمجھا سکتا تھا میں ۳۵

میرے خدا میرے لفظ و بیاں میں ظاہر ہو ۳۶

انھیں بستیوں میں جیتے انھیں بستیوں میں مر رہتے ۳۷

قلم جب درہم و دینار میں تولے گئے تھے ۳۸

فریب کھا کے بھی اک منزل قرار میں ہیں ۳۹

جہاں بھی رہنا ہمیں یہی اک خیال رکھنا ۴۰

اب کے بچھڑا ہے تو کچھ نا شادماں وہ بھی تو ہے ۴۱

کھوئے ہوئے ایک موسم کی یاد میں ۴۲

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

کبھی اسلام دور جاہلیت کی قدروں کو مکمل طریقہ سے ختم کرتا ہے اور ان کی جگہ پر سماجی زندگی کے جدید اقدار کوروشناس کراتاہے ۔زمانہ جاہلیت میں جس چیز کو سیاسی،اخلاقی اورسماجی زندگی میں بے قیمت سمجھاجاتاتھا اسلام نے اسی چیز کو سیاسی،سماجی اور اخلاقی طور پر بیش قیمت بناکر پیش کیاہے۔

مثلاً دور جاہلیت میں عورت کی کوئی حیثیت اور قدروقیمت نہیں تھی لوگ لڑکیوں کے وجودکو ننگ وعار سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اسی بے قیمت سمجھی جانے والی چیز کو عظیم ترین بلندی عطا کی۔

قدروقیمت کا اختلاف در اصل قدروقیمت کے نظام میں اختلاف کی بنیاد پر سامنے آتاہے کیونکہ تمام اقدار حقیقتاًکسی نہ کسی اصول اورنظام کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں جن کی معرفت کے بغیر اقدار کی معرفت ممکن نہیں ہے ۔

دین اسلام نے اپنی اصطلاحات کے ذریعہ اقدار کے اصول ونظام کو تبدیل کیا ہے جسکے نتیجہ میں اقدار خودبخود تبدیل ہوجاتے ہیں اورسماج میں تبدیلی آجاتی ہے بطور نمونہ فقط اس تبدیلی کی جانب اشارہ کردینا کافی ہے جو اسلام نے فقروغنی کے معیار میں کی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے مفہوم میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔

فقرواستغنا اور اقدار کے اسلامی اصول

عام طورسے لوگوں کے درمیان فقر وغنی کا مطلب مال ودولت کی قلت وکثرت ہے۔یعنی جسکے پاس زیادہ سونا چاندی نہ ہو وہ فقیرہے اور جس کے پاس سونا چاندی و افر مقدار میں ہوا سے غنی کہاجاتاہے اور مالداری کے درجات بھی مال کی مقدارسے طے ہوتے ہیں۔یعنی جس شخص کی قوت خرید جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا مالدار شمار کیا جاتا ہے اسکے برخلاف جس کے پاس روپے پیسوں کی قلت ہووہ اتناہی غریب سمجھاجاتاہے۔اس طرح عام لوگوں کے خیال میں فقر واستغنا کا تعلق کمیّت''مال کی مقدار'' سے ہے۔

۲۸۱

دور جاہلیت کا نظام قدروقیمت

فقرواستغناکے ان معنی میں بذات خود کوئی خرابی نہیں ہے اور اگر بات یہیں تمام ہوجاتی تو اسلام اسکی مخالفت نہ کرتا لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ جاہلیت کے نظام کے تحت ثروتمندی سے سماجی اور سیاسی اقدار بھی جڑجاتے ہیں اور ثروتمندانسان معززو محترم کہلاتاہے اسکی سماجی حیثیت اوراسکے سیاسی نفوذ میں اضافہ ہوجاتاہے وہ لوگوں کا معتمدبن جاتاہے وغیرہ۔۔۔اس طرح نظام جاہلیت میں واضح طور پر کمیت( Quantity )کیفیت( Quality )میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔

جب بھی ہم غور کریں گے تو ہمیں صاف محسوس ہوگاکہ یہاں زروجواہر کی مقدارو کمیت ( Quantity )سماجی اور سیاسی کیفیت میں تبدیلی ہوگئی ہے بلاشبہ اجتماعی اور سماجی زندگی میں مقداروکمیت( Quantity )اور کیفیت میں براہ راست تعلق پایاجاتا ہے اور اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنایا اسکا انکار ناممکن ہے اور اسلام بھی اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنا نہیں چاہتابلکہ اس رابطہ کو الٹ دینا چاہتا ہے یعنی کمیت اور مقدار کو کیفیت کا تابع قرار دیتا ہے نہ کہ کیفیت کو کمیت کا۔

مثلاًاقتصادی اور کاروباری معاملات کی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئے اور اسی بنیاد پر کاروبار کو وسعت دینا چاہیے یا سیاسی میدان میں بھی ہرچیزکی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئیے اوراسی بنیاد پرووٹ حاصل کرنا چاہیے کہ یہی چیزیںصحتمند معاشرے کی پہچان ہیں۔

۲۸۲

لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو اور سماجی یا سیاسی زندگی میں کمیت ومقدار معیار بن جائے تو سماج میں پائے جانے والے اقدار و اصول کا وجود خطرہ میں پڑجاتاہے۔دور جاہلیت میں بعینہ یہی صورت حال موجود تھی کہ مادیت پرروحانیت کی حکومت ہونے کے بجائے مادیت،روحانیت پر حاکم ہوگئی تھی اور قدروقیمت کا تعیّن مادیت سے ہوتاتھا نہ کہ معنویت سے۔

اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہی صورت حال مسلمانوں کے سامنے بھی آئی اسلام نے قدروقیمت کا ایسا نظام پیش کیا تھا کہ جو دور جاہلیت کے پروردہ لوگوں کے لئے نامانوس تھا۔ اس نظام میں اسلام نے قدروقیمت اورمنزلت کا معیار روحانیت کو قرار دیا تھا اور مادیت کو روحانیت کا تابع بنایاتھا۔لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور سرحدوں کی وسعت کے ساتھ دولت میں بھی بے پناہ اضافہ ہواتو مادیت غالب آگئی اور قدروقیمت کا نظام پس پشت چلاگیا۔اور دوبارہ زروجواہر ہی تمام اقدار کا معیار بن گئے اور انکی حالت اس عہد کی سی ہوگئی جس میں خداوند عالم نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تھا اور آپ کو قائدوپیشوا اور رسول بنا کر بھیجاتھا۔

عثمان بن عفان کے بعد امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب جب حاکم مسلمین ہوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ اسلامی معاشرہ اس طرح منقلب ہوچکا ہے کہ جیسے کوئی اس طرح الٹا لباس پہن لے جسکا اندرونی حصہ باہر،اور ظاہری حصہ اندر ،اوپری حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر ہوگیا ہو۔ چنانچہ امیر المومنین بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

(ولُبس الاسلام لُبسَ الفرومقلوباً )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۸۔

۲۸۳

''اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی الٹی پوستین پہن لے''

جیسا کہ آپ نے ان الفاظ میں اسکی عکاسی کی ہے :

(ألا وان بلیّتکم قدعادت کهیئتها یوم بعث اللّٰه نبیکم،والّذی بعثه بالحقّ لتبلبلنّ بلبلةً ولتغربلنّ غربلةً،ولَتساطُنّ سَوطَ القدرحتّی یعود اسفلکم أعلاکم )( ۱ )

''یاد رکھو! تمہارا امتحان بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیغمبر کی بعثت کے دن تھا اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ وبالا کئے جائو گے اور اس طرح چھانے جائو گے جس طرح چھنّی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جائو گے جس طرح پتیلی کے کھانے کو پلٹاجاتا ہے یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہوجائیںگے ''۔

امیر المومنین فرماتے ہیں کہ عنقریب یہ قوم اسلامی اقدار ومفاہیم اور اصول کو چھوڑ کر ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہونے والی ہے اور اسکی وہ حالت ہوجائے گی جو کھولتے ہوئے شوربہ کی ہوتی ہے کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہوجاتاہے۔

فتوحات کی وسعت اور خدا کی جانب سے رزق میں فراوانی کے باعث امت اسلامیہ کی یہی حالت ہوگئی تھی جیسا کہ مال و نعمت کی زیادتی کے باعث عہد جاہلیت کی بھی یہی افسوسناک حالت تھی۔

دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلام نے فقر اوراستغنا کی نئی اصطلاحیں ایجاد کیں اور انہیں نئی اصطلاحوں اور نئے مفاہیم کے ذریعہ دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کردیا۔

قدروقیمت کا اسلامی نظام

لفظ غنی یا استغنا کے معنی کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ہے ۔ایک بیان کے مطابق استغنا کا

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۔

۲۸۴

مطلب ہے ''انسان کے پاس زر وجواہر کا بکثرت موجود ہونا''اس طرح غنی کے معنی کا تعلق عالم محسوسات سے ہے اور یہ مطلب لفظ ''ثروتمند''کے مترادف ہے۔

دوسرے بیان کے مطابق حقیقتاً استغنا سے مراد''دل کا مستغنی ہونا'' ہے جو کہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان اور توکل سے حاصل ہوتا ہے اور اس معنی کا مال کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان کے پاس بے پناہ مال ودولت ہو مگر پھر بھی وہ فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کہ مال ودولت بالکل نہ ہو پھر بھی انسان غنی ہو۔

فقر واستغنا کے یہ معنی،لغوی اور رائج معنی سے بالکل مختلف ہیں۔اور ان معنی کے لحاظ سے استغنا کا تعلق نفس انسانی سے ہے نہ کہ مال ودولت اور خزانہ سے۔

دین اسلام لفظ فقر واستغنا کو نئے معنی و مفاہیم دے کر در اصل دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرکے اسکے مقابلہ میں جدید نظام پیش کرنا چاہتا ہے۔

اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم استغنا اور فقر کے بارے میں اسلامی روایات کی روشنی میں پہلے لفظ استغنا کا مطلب بیان کریں گے اور پھر اس جدید نظام کی وضاحت کریں گے جو اسلام نے قدروقیمت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔

اسلامی روایات میں استغنا کا مفہوم

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

(لیس الغنیٰ عن کثرة العرَض،ولکن الغنیٰ غنیٰ النفس )( ۱ )

''مال ومتاع کی کثرت کانام استغنانہیں بلکہ استغناکا مطلب نفس کا مستغنی ہونا ہے''

____________________

(۱)تحف العقول ص۴۶۔

۲۸۵

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(الغنیٰ فی القلب،والفقر فی القلب )( ۱ )

''استغنا بھی دل میں ہوتا ہے اور فقر بھی دل ہی میں ہوتا ہے''

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا ہے:

(الغنی من استغنیٰ بالقناعة )( ۲ )

''غنی وہ ہے جو قناعت کے باعث مستغنی ہو''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(لاکنز اغنیٰ من القناعة )( ۳ )

''غنی(ہونے)کے لئے قناعت سے بڑھکر کوئی خزانہ نہیں ہے''

نیز آپ نے فرمایا ہے:

(طلبت الغنیٰ فماوجدت الّاالقناعة،علیکم بالقناعة تستغنوا )( ۴ )

''میں نے استغنا کو تلاش کیا تو مجھے قناعت کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ تم بھی قناعت اختیار کروتو مستغنی ہوجائوگے''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(لا فقرکفقرالقلب،ولا غنیٰ کغنیٰ القلب )( ۵ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۲ص۶۸۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۶۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۳۷۱۔

(۴)سفینةالبحارج۲ص۸۷ ،الحیات جلد ۳ ص ۳۴۲۔

(۵)تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۸۶

''دل کی فقیری جیسا کوئی فقر نہیں ہے اور دل ہی کے استغناجیسی کوئی مالداری بھی نہیں ہے''

امام ہادی کا ارشاد ہے:

(الغنیٰ قلّة تمّنِیکَ،والرضا بمایکفیک )( ۱ )

''استغناکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری خواہشات کم ہوں اور جتنا تمہارے لئے کافی ہے اسی پر راضی رہو''( خواہشات کا کم ہونا اور' بقدر کافی 'پر راضی ہوجانااستغناہے۔)

اس طرح اسلام نے استغنا کا تعلق سونے چاندی ،زمین جائداد سے ختم کر دیا اور اسے نفس کے متعلق قرار دیا ہے بلکہ اسلامی رو ایات تو اس سے بڑھ کریہاں تک بیان کرتی ہیں کہ جو افراد مال ودولت کے لحاظ سے ثروتمند ہوتے ہیں اکثر وہ افراد دل کے چھوٹے اور فقیر ہوتے ہیں۔

عموماًجب انسان دنیاوی لحاظ سے مالدار ہوتا ہے تو دل کا چھوٹا اور فقیر ہوتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ثروتمند ہونے اور نفس وقلب کے اعتبار سے چھوٹے اور فقیر ہونے میں کوئی معکوس رابطہ ہو۔نہیں ہرگز نہیں ان دونوں باتوں میں کوئی معکوس رابطہ نہیں ہے۔در حقیقت ایسی صورت حال ان عوارض کے باعث پیدا ہوتی ہے کہ جو عموماًمعاشرہ میں رائج ثروتمند ی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہے:

(۔۔۔وغنِیّها(الدنیا)فقیر )( ۲ )

'' ۔۔۔اور دنیا کا غنی فقیر ہوتا ہے''

حضرت امام زین العابدین نے فرمایا :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۸۷ص۳۶۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۱۴۔

۲۸۷

(من اصاب الدنیا اکثر،کان فیها أشَدّ فقراً )( ۱ )

''جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگا''

جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگایہ لازم و ملزوم کیوں ہیں ؟ ثروتمندی اور استغنا دونوں لفظ غنی کے ہی معنی ہیں مگر ان کے درمیان معکوس رابطہ کیوں پایا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب اوراس رابطہ کا سبب ہمیں امیر المومنین حضرت علی کی اس حدیث سے بخوبی معلوم ہو جائے گا آپ نے فرمایا :

(الغَنِیّ الشَّرِهُ فقیر )( ۲ )

''لالچی مالدار فقیر ہوتا ہے''

اس حدیث مبارک میں غنی سے مراد ثروتمند ہے اور فقیر سے مراد نفس و قلب کے اعتبار سے فقیر ہے اور اس حدیث میں جو لفظ''شرہ''حریص آیا ہے وہ اس معکوس رابطہ کو بیان کرتا ہے اس لئے کہ عام لوگوں کے لحاظ سے جس کے یہاں استغنا پایا جاتا ہے جو ثروتمند ہوتا ہے وہ عموماًحریص بھی ہوتا ہے اور عموماًجتنا مال ودولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے آدمی کی حرص و ہوس میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جب حرص و طمع میں اضافہ ہوگا تو انسان کی اذیت و پریشانی میں اضافہ ہوگا انھیں دونوں حقیقتوں کی جانب قرآن کریم نے اس آیت میںاشارہ کیا ہے ارشاد رب العزت ہے:

(انما یرید اللّٰه لیعذّبهم بها فی الحیاة الدنیا وتزهق انفسهم وهم کافرون )( ۳ )

''بس ﷲکا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت

____________________

(۱)خصال صدوق ج ۱ صفحہ ۶۴۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۲۲۔

(۳) سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

۲۸۸

کفرہی میں ان کی جان نکل جائے ''

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

(انما یرید اللّٰه أن یعذّبهم بها فی الدنیا )( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرے۔

حرص وطمع اسی وقت پایا جاتا ہے جب انسان قلب کے لحاظ سے فقیر ہو ۔نفس جتنا خالی ہو اور فقیر ہوگا حرص وہوس کا اظہار اتنا ہی شدید ہوگا ۔حضرت دائو د کے دور میں لوگوں کی یہی حالت تھی چنانچہ خداوند عالم نے انھیں تو بہ کرنے اور بارگاہ الٰہی میںواپس آنے کا حکم دیا۔

حرص و ہوس کس منزل تک پہونچ سکتے ہیں سورئہ ص کی یہ آیت اسکی بخوبی نشاندہی کرتی ہے:

(انّ هذا أخی له تسع وتسعون نعجة ولیَ نعجةً واحدة فقال:أکفلنیها و عزّنی فی الخطاب )( ۲ )

''یہ ہمارا بھائی ہے اسکے پاس ننّانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے یہ کہتا ہے وہ بھی میرے حوالے کردے اور اس بات میں سختی سے کام لیتا ہے ''

اقدار کے نظام میں انقلاب

اس طرح اسلام نے استغنا کے نئے معنی پیش کئے اور استغناکا تعلق زروجواہر اور مال و

دولت سے ختم کرکے اسے نفس اور قلب سے جوڑدیا ہے اس طرح قدروقیمت کا معیار مال وثروت کے بجائے نفس کو قرار دیا ۔

اسلام کی نگاہ میں انسان کی قدروقیمت اسکے مال ودولت اور منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے

____________________

(۱) سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

(۲)سورئہ ص آیت۲۳۔

۲۸۹

نہیں طے کی جاسکتی جیسا کہ جاہل افراد آج بھی یہی سوچتے ہیں بلکہ اسلام کی نگاہ میں انسانی قدروقیمت کی بنیاد ﷲپرایمان ،تقویٰ ،علم اور دیگر اخلاقی اقدار ہیں ۔اسلام لفظ ثروتمندی اور فقر کے اصل معنی کا منکر نہیں ہے بلکہ اسلام نے اس معنی کے مفہوم میں اضافہ کیا ہے کہ قدروقیمت کے تعیّن کے وقت بے نیازی اور فقر کے معاشی رخ کو ملحوظ نہ رکھاجائے قدروقیمت کا معیار فقروغنی ہی ہیں مگر اس مفہوم میں کہ جو اسلام نے پیش کیا ہے ۔

امیر المومنین کا ارشاد ہے :

(لیس الخیرأن یکثرمالک،ولکن الخیرأن یکثرعلمک،وأن یعظم حلمک،وأن تباهی الناس بعبادة ربک،فان أحسنت حمدت ﷲ،وأن أسأت استغفرت ﷲ )( ۱ )

''بھلائی یہ نہیں ہے کہ تمہارا مال زیادہ ہو بلکہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو۔حلم عظیم ہو اور عبادت پروردگار کو فخر ومباہات کا معیار قرار دو چنانچہ اگر تم نے اچھی طرح عبادت انجام دی ہوتو حمد خدا کرو اور اگر عبادت میں کمی کی ہوتو بارگاہ الٰہی میں استغفار کرو ''

چنانچہ جب قدروقیمت کا نظام بدل جائے گا تو خود بخود لوگوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت میں بھی فرق آجائے گا اس لئے کہ کسی بھی تہذیب میں اگر اقدار ایک جانب اپنے نظام سے جڑے ہوتے ہیں تو دوسری جانب انکا تعلق سماجی ،سیاسی معاشی اور علمی حیثیت و منزلت سے بھی ہوتا ہے ۔

اگر آج ہمیں جاہلیت زدہ مغربی تہذیب میں یہ نظر آتا ہے کہ اس تہذیب میں سرمایہ داری کا دخل کتنا ہے ،سیاست ،معاشیات اور پروپیگنڈہ پر سرمایہ کا کتنا تسلط اور غلبہ ہے ،صدراور حکومت کے انتخابات میں سرمایہ داری کا کتنا اہم کردار ہے میڈیا یہاں تک کہ سیاسی روابط سبھی کچھ سرمایہ داری

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۹۴۔

۲۹۰

کے تابع ہیں! ہماری نگاہ میں اسکا سبب یہ ہے کہ اس تہذیب کی بنیاد مادیت پر ہے نہ کہ اخلاقی اور روحانی اقدار پر۔ اسکے برخلاف اسلام کی نگاہ میں ان چیزوں کی بنیاد اخلاقی و روحانی اقدار ، بندہ کا اللہ سے رابطہ ،عدالت وتقوی اور علم پر استوار ہے ۔ارشاد پروردگار ہے:

( انّما یخشیٰ ﷲ من عباده العلمائُ ) ( ۱ )

''ﷲ سے ڈرنے والے اسکے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقیٰکُمْ ) ( ۲ )

''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ''

اسلام ،قائدا و رہبرمسلمین کے لئے تقویٰ اور عدالت کو ضروری قرار دیتا ہے اسی طرح قاضی،پیش نماز اورامین (جس کے پاس لوگ امانتیں رکھواتے ہیں) بہ الفاظ دیگر ان تمام افراد کے لئے تقوی و عدالت کو لازمی شرط قرار دیتا ہے جو سماج اور معاشرہ میں کسی بھی عنوان سے مقام ومنزلت کے مالک ہوں۔اسی لئے جب نظام اقدار میں تبدیلی آئے گی توخود بخودمعاشرہ کی سماجی،سیاسی،معاشی،علمی،دینی حیثیتوں میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔

اس طرح تین مرحلوں میں یہ عمل انجام پاتا ہے :

۱۔نظام اقدار میں تبدیلی

۲۔اقدار میں تبدیلی

۳۔سماجی اور سیاسی حیثیت میں تبدیلی

____________________

(۱)سورئہ فاطر آیت ۲۸۔

(۲)سورئہ حجرات آیت ۱۳۔

۲۹۱

اب جبکہ استغنا سے متعلق اسلامی نظریہ واضح ہو گیا اور لوگوں کی زندگی میں اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوگیا تو اب ہم نفس کے استغنا اور بے نیازی کے بارے میں کچھ بیان کرسکتے ہیں جس کے بارے میں حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں ''جعلت غناہ فی نفسہ ''

نفس کی بے نیازی

سوال یہ کہ نفس کی بے نیازی ہے کیا ؟اور ہم اپنے اندر یہ بے نیازی کیسے پیدا کرسکتے ہیں ؟

در اصل نفس کی بے نیازی اس میں مضمر ہے کہ انسان مادیات اور دنیا پر اعتماد نہ کرے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھے اس لئے کہ دنیا فانی ہے اور ذات الٰہی دائمی ، ما دیات محدود ہیں اور خدا کی سلطنت لا محدود ۔

لہٰذا جب انسان اللہ پر توکل اور بھروسہ کے سہارے مستغنی اور بے نیاز ہوگا تو کبھی بھی کمزوری اور نا توانی محسوس نہیں کرے گا ۔حالات کتنے ہی منقلب کیوں نہ ہو جا ئیں ،آسانیاں سختیوں میں تبدیل کیوں نہ ہو جا ئیں اللہ پر توکل کرنے والے کے پائے ثبات متزلزل نہ ہوں گے کیونکہ ایسی بے نیازی نفس سے تعلق رکھتی ہے اور کسی بھی عالم میں نفس سے جدا نہیں ہو سکتی ہے ۔

مو لائے کائنات متقین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(فی الزلازل وقور،وفی المکاره صبور )( ۱ )

''(متقین)مصائب وآلام میں با وقار اور دشواریوں میں صابر ہوتے ہیں''

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بے نیازی نفس کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے اور کو ئی بھی پریشانی یا سختی اس بے نیازی کو ان سے جدا نہیں کر سکتی اور یہ بے نیازی اللہ پر ایمان ،اعتماد ،توکل اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے حاصل ہو تی ہے ۔در اصل بے نیازی یہی ہے اوراس سے بڑھکر کو ئی بے نیازی

۔____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳۔

۲۹۲

نہیں ہو سکتی ہے اور حالات کی تبدیلی اس پر اثر انداز نہیں ہو تی ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاارشاد گرامی ہے :

(یا أباذراستغنِ بغنیٰ ﷲ تعالیٰ،یغنک ﷲ )( ۱ )

''ا ے ابوذراللہ کی بے نیازی کے ذریعہ مستغنی بنو اللہ (واقعاً)بے نیاز بنا دے گا ''

مولائے کائنات کا ارشاد ہے :

(الغنیٰ باللّٰه أعظم الغنیٰ،والغنیٰ بغیرﷲ أعظم الفقروالشقائ )( ۲ )

''اللہ کے ذریعہ استغناسب سے بڑا استغنا ہے اور اللہ کے بغیر استغنا سب سے بڑا فقر اور شقاوت ہے ''

اس معیار کے بموجب اللہ پر جتنا زیادہ توکل اور بھروسہ ہوگا انسان اتنا ہی زیادہ مستغنی ہوگا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرا می ہے:

(مَن أحبّ أن یکون أغنیٰ الناس فلیکن بما فی ید اللّٰه أوثق منه مما فی یده )( ۳ )

''جو سب سے بڑا مستغنی ہو نا چا ہتا ہے اسے چاہئیے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے ا س سے زیادہ اس پر بھروسہ کرے جو خدا کے پاس ہے ''

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ پر توکل کا مطلب مادی اسباب کو نظر انداز کرنا نہیں ہے مادی اسباب کو نظر انداز کرنا سنت الٰہی سے انحراف ہے اور اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔بلکہ توکل کا مطلب ہے غیر کے بجائے صرف اور صرف ذات پروردگار پر اعتماد و اعتبار کرنا ۔اگر یہ اعتماد ہے تو اپنے مقصود تک پہونچنے کے لئے کسی بھی طرح کے اسباب ووسائل اختیار کرنا توکل کے خلاف نہ ہوگا۔

____________________

(۱)مکارم الاخلاق ص ۵۳۳۔

(۲)غرر الحکم ج۱ ص۹۱۔۹۲۔

(۳)تحف العقول ص۲۶۔

۲۹۳

بے نیازی(استغنا)کے ذرائع

جن چیزوں کے ذریعہ انسان بے نیازی حاصل کرسکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ہم یہاں پر ان میں سے صرف اہم ترین عوامل کا تذکرہ کریں گے ۔

۱۔یقین:

ذات پروردگار پر یقین بے نیازی کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اس لئے کہ اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ خدا اپنے بندوں پر مہربان رہتا ہے لطف و کرم کرتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوریہ بھی یقین ہوکہ وہی رازق ہے رئووف ورحیم ہے ۔اسکی رحمت وعنایت کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والانہیں ہے اسکے خزانہ میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے اور کثرت عطا سے اسکے جود وکرم میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے تو انسان کبھی بھی فقرواحتیاج کا احساس نہیں کرسکتا۔

فقرواحتیاج کا احساس اسی وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کے پاس ایسا یقین مفقود ہو اور ایمان، یقین کی منزل تک نہ پہونچاہو۔یقین ہی ایمان کا سب سے بلند درجہ ہے بندوں کو ملنے والا سب سے بہترین رزق یقین ہے ۔

مولائے کائنات کا ارشاد گرامی ہے :

(مفتاح الغنیٰ الیقین )( ۱ )

''یقین بے نیازی کی کنجی ہے ''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(کفیٰ بالیقین غنیً،وبالعبادة شغلاً )( ۲ )

''بے نیازی کے لئے یقین کافی ہے اورعبادت بہترین مشغلہ ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۹۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۸۵۔

۲۹۴

۲۔تقویٰ:

بے نیازی کے اسباب وعوامل میں تقویٰ بھی اہم ترین عامل ہے ۔انسان جب احکام خداکا پابند ہوگا اور حدود الٰہیہ کا خیال رکھے گا تواللہ اس کے دل کو بے نیاز بنادے گا اور اس کے فقرواحتیاج کوختم کردے گا ۔

پیغمبر اکرم ْصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(کفیٰ بالتقیٰ غنیٰ )( ۱ )

''مستغنی ہونے کے لئے تقویٰ کافی ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا:

(یاجابر ان أهل التقویٰ هم الأغنیائ،أغناهم القلیل من الدنیا،فمؤنتهم یسیرة،ان نسیت الخیرذکّروک،وان عملت به أعانوک،أخّرواشهوا تهم و لذّا تهم خلفهم،وقدّموا طاعة ربّهم أمامهم )( ۲ )

''اے جابر صاحبان تقویٰ ہی مالدار ہیں ان میں بھی سب سے بڑا غنی وہ ہے دنیاجس کا میں تھوڑاحصہ ہو ان کے اسباب معیشت بہت مختصر ہوتے ہیں اگر تم عمل خیر کوبھول جائوتو یہ تمہیں یاد آوری کریں گے اگر تم عمل خیر کروگے تو تمہارے معاون ومددگار ہوںگے وہ اپنے خواہشات کو موخر اور لذتوں کو پس پشت رکھتے ہیں ان کے پیش نظر صرف اطاعت پروردگار ہوتی ہے اور وہ اسی کو مقدم رکھتے ہیں ''

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق سے مروی ہے :

(من أخرجه ﷲ تعالیٰ من ذل المعاصی الیٰ عزّ التقویٰ،أغناه ﷲبلا مال،

____________________

(۱)تحف العقول ص۳۰۔

(۲) تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۹۵

وأعزّه بلا عشیرة،وآنسه بلا أنیس )( ۱ )

''خداجسے گناہوں کی ذلت سے نکال کر تقویٰ کی عزت سے سرافراز کرتاہے اسے بغیر مال کے غنی ،بغیر خاندان و قبیلہ کے عزیز اور ساتھیوں کے بغیر تسکین قلب اور انسیت عطا کردیتا ہے''

اس حدیث شریف میں نفس کی بے نیازی کے بعینہ وہی معنی پائے جائے ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ نفس مال وثروت کے بغیر بھی غنی ہوسکتا ہے بغیر خاندان کے صاحب عزت بن سکتا ہے ہم نوا اور مونس کے بغیر بھی اپنی وحشتناک تنہائی کا مداوا کرسکتا ہے ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے نیازی کا منبع و سرچشمہ تقویٰ الٰہی ہے اسی تقوے کے ذریعہ نفس انسانی اپنے اندر عزت وانس کا احساس کرتا ہے اس لئے کہ جب انسان متقی اور حدود و احکام الٰہیہ کا پابند ہوگا تواللہ بھی اسکے نفس کو غنی بنادے گا اور اس سے فقروذلت اور وحشت کو دور رکھے گا۔

جس حدیث قدسی کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں:

(لایؤثرهوای علیٰ هواه الاجعلت غناه فی نفسه )

''کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہشات پر ترجیح نہیں دے گا مگر یہ کہ میں اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوںگا''

اور مخالفت نفس کا ہی نام تقویٰ ہے جس کا دوسرا نام اطاعت پروردگار ہے ۔

۳۔شعور :

یقین و تقویٰ اگر بے نیازی اور استغنا کی کنجی ہیں تو فہم و شعور یقین و تقویٰ کی کنجی اور ان تک پہونچنے کا راستہ ہے انسان فقط جہالت کے باعث ہی تقویٰ اور یقین سے محروم ہو سکتا ہے یہاں فہم و شعور سے ہماری مراد تدبر و تعقل ہے اسلامی روایات میں یہ معنی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)وسائل الشیعہ ج۱۱ص۱۹۱۔

(۲)عدّةالداعی،ابن فھد حلی۔

۲۹۶

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(لاغنیٰ مثل العقل )( ۱ )

''عقل کے مانند کو ئی بے نیازی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(ان أغنیٰ الغنیٰ:العقل )( ۲ )

''سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ''

نیز آپ نے فرمایا ہے :

(غنیٰ العاقل بعلمه،وغنی الجاهل بماله )( ۳ )

''عاقل اپنے علم اور جا ہل اپنے مال کے ذریعہ مستغنی ہوتا ہے''

مشہور و معروف حدیث کے مطابق امام مو سیٰ کاظم نے اپنے صحابی ہشام بن حکم سے فرمایا :

(یاهشام:من أراد الغنیٰ بلا مال،وراحة القلب من الحسد،والسلامة فی الدین،فلیتضرّع الیٰ ﷲ فی مسألته بأن یکمل عقله )( ۴ )

''اے ہشام جو انسان مال کے بغیر بے نیازی کا خواہاں ہو،اپنے قلب کو حسد سے محفوظ رکھنا چاہتا ہو ،دین کی سلامتی چاہتا ہو اس کو تضرع و زاری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں دعا کرنا چاہئے کہ خداوند عالم اس کی عقل کو سالم کردے ''

____________________

(۱)تحف العقول ص۱۴۲۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۳۸۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۴۷۔

(۴)تحف العقول ص۲۸۶۔

۲۹۷

حیات انسانی میں بے نیازی کے آثار

انسانی زندگی میں نفس کی بے نیازی کے بہت فائدے ہیں چونکہ پروردگار جس کے نفس کو بے نیازی عطا کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے خدا سے رابطہ کا احساس کرتا ہے اسے ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے اور ہر وقت تائید و عنایت الٰہی اس کے شامل حال ہے لہٰذا وہ تائید و عنایت الٰہی کے باعث سکون و اطمینان کی زندگی بسرکرتا ہے اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی کبھی مجھے میرے نفس کے حوالے کرے گا ۔

اس طرح اس کی زندگی میں مکمل اعتماد و اعتبار، اطمینان ،ثبات قدم اورسکون قلب تو نظر آتا ہے مگر کبھی بھی حرص و ہوس ،حسد ،لالچ اوراضطراب و پریشانی نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام نفسانی بیماریاں نفس کی کمزوری اور فقر سے پیدا ہوتی ہیںجس کی طرف ابھی ہم نے حضرت امام مو سیٰ کاظم کی حدیث کے ذیل میں اشارہ کیا تھا ۔

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(أغنیٰ الغنیٰ من لم یکن للحرص أسیراً )( ۱ )

''سب سے بڑا غنی وہ ہے جو حرص و ہوس کا اسیر نہ ہو ''

امیر المو منین حضر ت علی کا ارشاد ہے :

(أشرف الغنیٰ،ترک المنیٰ )( ۲ )

''شریف ترین بے نیازی ، خواہشات کا ترک کرناہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ ص۳۱۶۔

(۲)اصول کافی ج۸ ص ۲۳۔

۲۹۸

(الغنیٰ الاکبر:الیأس عمّافی أیدی الناس )( ۱ )

''سب سے بڑی بے نیازی یہ ہے کہ انسان اس کا امید وار نہ ہو جو لوگوں کے پاس ہے ''

اور جب مال نفس کو بے نیاز نہ بنا سکے تو پھر وہ اضطراب و بے چینی کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کے حرص و طمع اور مشکلات میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّمایریداللّٰه لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیا وتزهق أنفسهم ) ( ۲ )

''پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انھیں(اموال واولاد) کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر میں ہی ان کی جان نکلے ''

( انّما یرید اللّٰه أن یعذبهم بها فی الدنیا و تزهق أنفسهم ) ......( ۳ )

''اور خداان کے(اموال واولاد) ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کفر کی حالت میں ان کا دم نکلے ''

۲۔ضمنت السمٰوات:

''زمین و آسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں''

یہ جملہ ان لوگوںکی دوسری جزا ہے جو ﷲکے احکام کو اپنے خواہشات پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنے خواہشات کو حکم وارادئہ الٰہی کا تابع بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں کو خدا جزا وانعام سے نواز تا ہے ان کی پہلی جزا تو یہ تھی کہ خدا ان کے نفس کو غنی بنادیتا ہے جس کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں اور ان کی دوسری جزا اور انعام یہ ہے کہ آسمان وزمین ان کے رزق کے ضامن ہوتے ہیں۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۳۴۲۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۳)سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

۲۹۹

واضح سی بات ہے کہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان رزق حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ﷲاس کی سعی کو کامیاب بنادیتا ہے اور اسے توفیق عطا کرتا ہے۔

توفیق

ﷲنے توفیق کی بنا پر زمین وآسمان کو ضامن بنایا ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسانی کوشش رائیگاںچلی جاتی ہے اور اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان برسوں ہاتھ پیر مارتا ہے جد وجہد کرتا ہے لیکن اپنے مقصود تک نہیں پہونچ پاتا اسکے برخلاف کبھی تھوڑی سی جدو جہد ہی نیک اور با برکت ثمرات کا سبب بن جاتی ہے یہ صرف حسن توفیق اور بے توفیقی کی بات ہے۔اور یہ طے ہے کہ خدا ہی توفیق دینے والا ہے۔

مومن اپنے خواہشات پراحکام خدا کو ترجیح دیتا ہے توخداوند عالم بطورجزازمین و آسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادیتا ہے ۔تو یہ بھی توفیق کی بنیاد پر ہے ۔یہاں توفیق کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم اسکی سعی وکوشش کو مفید وکارآمد جگہ پر لگادیتا ہے جس سے یہ سعی وکوشش نتیجہ خیزبن جاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے زرخیززمین پر بارش ہوتی ہے البتہ کبھی بارش ہوتی ہے مگر زمین سے دانہ نہیں اگتاہے اور بارش کا پانی ضائع ہوجاتا ہے لیکن اگر زرخیز زمین پر تھوڑی سی بارش مناسب موقع پر ہوجائے تو خیر کثیر کا باعث بن جاتی ہے اور سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ توفیق ایک الگ چیز ہے اسکا انسان کی کوشش اور جد وجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے انسان جدوجہد کرسکتا ہے مگر توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ تھوڑے اسباب توفیق انسان کے ہاتھ میں ہیں لیکن جو اسباب توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہیں انکی تعداد کئی گنا زیادہ ہے جو سب کے سب خداکے ہاتھ میں ہیں ۔خدا جب کسی بندہ کو توفیق سے نوازتا ہے تو اسکی زندگی اور جدوجہد بابرکت بن جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے جناب عیسیٰ کی ز بانی نقل کیا ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349