خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96751 / ڈاؤنلوڈ: 4144
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

خدا وند عالم کی گواھی:

اس آیہء شریفہ میں پیغمبر خدا صلی الله علیہ وآلہ وسلم کی رسالت کے پہلے گواہ کے طور پر خدا وندمتعال کا ذکرہوا ہے۔ خدا وند متعال کی اس گواہی کے دوفرض ہیں:

۱ ۔ممکن ہے یہ گواہی قولی ہو اور گفتگو و کلام کے مقولہ سے ہو اس صورت میں وہی آیتیں جو آنحضرت کی رسالت کو بیان کرتی ہیں خداوندمتعال کی اس گواہی کی مصداق ہوں گی، جیسے :( والقران الحکیم انّک لمن المرسلین ) (۱) ” قرآن حکیم کی قسم آپ مرسلین میں سے ہیں“

۲ ۔ ممکن ہے یہ گواہی فعلی ہو اور خدا وندمتعال نے اسے معجزہ کی صورت میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ذر یعہ ظاہر کیا ہو، یہ معجزے آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے سلسلہ میں دعویٰ کے لئے ایک قوی سند ، واضح دلیل اور گو یا گواہ ہیں، خاص کر قرآن مجید ، جو آنحضرتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاایک لافانی معجزہ ہے اورہر زمانہ میں باقی رہنے والا ہے اوران معجزات کی حیثیت ایک طرح سے خداوندمتعال کے فعل کی سی ہے جو پیغمبر خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت پر گواہ ہیں۔

من عندہ علم الکتاب - سے مرادکون ہے؟

دوسرے محورمیں بحث اس جہت سے ہوگی کہ ” کتاب“ سے مراد کیا ہے؟ اور جس کے پاس ” کتاب کا علم“ ہے ، وہ کون ہے؟ اس سلسلہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں کہ ہم ان پر بحث کریں گے:

پہلا احتمال :” کتاب“سے مرادقرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور کتاب کے عالم سے مرادعلمائے یہودو نصاریٰ ہیں:

اس صورت میں اس آیہ شریفہ کے معنی یوں ہوں گے: ” کہدےجئے اے پیغمبر! ہمارے

_____________________

۱-۔ سورہ یاسین/۱۔۲

۲۴۱

اورتمھارے درمیان رسالت کی گواہی کے لئے کافی ہے خدا وندمتعال اور وہ لوگ جن کے پاس گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم ہے جیسے علمائے یہودونصاری چونکہ ان کتابوں میں پیغمبر)صلی الله علیہ وآلہ وسلم) کا نام آیا ہے اور آنحضرت کی رسالت بیان ہوئی ہے ۔ اسی لئے علمائے یہودو نصاری اس مطلب سے آگاہی رکھتے ہیں اور اس پر گواہ ہیں۔

یہ احتمال صحیح نہیں ہے، کیونکہ اگر چہ علمائے یہودونصاری اپنی آسمانی کتابوں کے عالم تھے ، لیکن وہ کافر تھے اور ہر گز اپنے خلاف گواہی دینے کے لئے حاضر نہیں تھے۔

دوسرا احتمال : ” کتاب “سے مراد وہی قرآن مجید سے پہلے نازل ہونے والی آسمانی کتابیں ہیں اور ان کے عالم سے مراد وہ لوگ ہیں جن کا شمار پہلے علمائے یہودونصاری ٰ میں ہوا کر تا تھالیکن بعد میں اسلام قبول کرکے وہ مسلمان ہوگئے تھے، جیسے : سلمان فارسی ، عبدالله بن سلام اور تمیم الداری۔ یہ لوگ ایک جہت سے توریت اور انجیل جیسی گزشتہ آسمانی کتابوں کا علم رکھتے تھے اور ایک جہت سے آمادہ تھے تاکہ اسلام کی حقانیت اور پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی رسالت کے بارے میں جو کچھ انہیں معلوم ہے اس کی گواہی دیں۔

یہ احتمال بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ سورہ رعد اور من جملہ زیر بحث آیہء شریفہ جو اس سورہ کی آخری آیت ہے ، مکہ میں نازل ہوئی ہے اور مذکورہ افراد مدینہ میں مسلمان ہوئے ہیں۔ اس لئے اس کاکوئی مفہوم نہیں ہے جو ابھی کافر ہیں اور مسلمان نہیں ہوئے ہیں اپنے دین کے خلاف گواہی دینے کے لئے مدعو ہوجائیں۔

شبعی اور سعید بن جبیر سے نقل ہوئی روآیت کے مطابق انہوں نے بھی مذکورہ احتمال یعنی ” من عندہ علم الکتاب“ سے عبدالله بن سلام کو مراد لینا اس کو مسترد کر دیا ہے ۔ اس کی دلیل یہ پیش کی ہے کہ یہ سورہ مکی ہے اور عبداللهبن سلام مدینہ میں مسلمان ہوا ہے۔(۱)

تیسرا احتمال: ”من عنده علم الکتاب “ سے مقصود خداوندمتعال اور

____________________

۱۔ معالم التنزیل ، ج ۳-، ص ۴۶۴، ۴۶۵-۔ الاتقان ، ج ۱، ص ۳۶، دار ابن کثیر بیروت

۲۴۲

”کتاب“سے مرادلوح محفوظ ہے اور ”من عند ه علم الکتاب “ کا ” الله“ پر عطف ہونا صفت کا اسم ذات پر عطف ہونے کے باب سے ہے۔ اس صورت میں معنی یوں ہوتا ہے: خداوندمتعال اور وہ شخص جو لوح محفوظ )جس میں تمام کائنات کے حقائق ثبت ہیں ) کا علم رکھتا ہے، وہ تمہاری رسالت پر گواہ ہے۔

اول یہ کہ : جملہء( قل کفی باالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں بظاہر عطف یہ ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“ خدا وندمتعال کے علاوہ ہے کہ جس کا ذکر ابتداء میں پہلے گواہ کے طور پرآیا ہے۔

دوسرے یہ کہ: عربی ادبیات میں صفت کا عطف ، صفت پر موصوف کے سلسلہ میں مشہور اور رائج ہے۔ قرآن مجید میں بھی اس قسم کا استعمال پایاجاتا ہے، جیسے :آیہء شریفہ :( تنزیل الکتاب من اللهالعزيز العلیم غافر الذّنب وقابل التوب ) (۱) میں ”غافرالذّ نب “)گناہ کو بخشنے والا) اور ”قابل التوب “ )توبہ کو قبول کرنے والا) دوصفتیں ہیں جو حرف عطف کے فاصلہ سے ایک دوسرے کے بعدہیں اور خدا وندمتعال کے لئے بیان ہوئی ہیں۔ لیکن جن مواقع پر پہلے اسم ذات ذکر ہوا ہے، کبھی بھی مشہور اور رائج استعمالات میں صفت اس پر عطف نہیں ہوتی ہے۔ اس لحاظ سے یہ نہیں کہا جاسکتا ہے کہ : آیہ کریمہ میں ” من عندہ علم الکتاب“ سے مرادخدا وندمتعال ہے۔

چوتھا احتمال: کتاب سے مراد ” لوح محفوظ“ ہے اور ” جس کے پاس کتاب کا علم ہے اس سے مراد امیرلمومنین علی علیہ السلام ہیں۔

اب ہم اس احتمال پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔

____________________

۱۔ سورہ غافر/۲

۲۴۳

لوح محفوظ اور حقائق ھستی

قرآن مجید کی متعدد آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ کائنات کے تمام حقائق ایک مجموعہ کی شکل میں موجود ہیں کہ قرآن مجید نے اسے ” کتاب مبین“(۱) یا ” امام مبین“(۲) یا ” لوح محفوظ“(۳) کے نام سے تعبیر کیا ہے۔ من جملہ سورہ نمل میں فرماتا ہے:( وما من غائبة فی السّماء والارض إلّا فی کتاب مبین ) (۴) یعنی: اور آسمان و زمین میں کوئی پوشیدہ چیزایسی نہیں ہے جس کا ذکر کتاب مبین ) لوح محفوظ ) میں نہ ہو۔

اس بنا پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا لوح محفوظ میں درج شدہ حقائق سے آگاہی حاصل کی جاسکتی ہے؟ اور اگر یہ ممکن ہے تو کون لوگ ان حقائق سے با خبر اور آگاہ ہیں اور کس حد تک؟

مطھّرون اور لوح محفوظ سے آگاہی

اس سلسلہ میں ہم سورہ واقعہ کی چند آیتوں پر غوروخوض کرتے ہیں:

( فلا اٴُ قسم بمواقع النجوموإنّه لقسم لوتعلمون عظیم إنّه لقرآن کریمفی کتاب مکنون لایمسّه إلّا المطهّرون ) ) سورہ واقعہ/ ۷۵ ۔-- ۷۹)

ان آیات میں ، پہلے ستاروں کے محل و مدارکی قسم کھائی گئی ہے۔ اس کے بعد اس قسم کی عظمت و اہمیت پر زور دیا گیا ہے اور اس کی نشاندھی کی گئی ہے۔ اس نکتہ پرتو جہ کرنا ضروری ہے کہ قسم کا معیار اور اس کی حیثیت اس حقیقت کے مطابق ہونا چا ہئیے کہ جس کے متعلق یا جس کے

____________________

۱-۔ سورہ یونس/۶۱، سورہ سبا/۱۳، سورہ نمل/۷۵

۲۔ سورہ یسین/۱۲

۳۔ سورہ بروج/ ۲۲

۴۔ سورہ نمل/۷۵

۲۴۴

اثبات کے لئے قسم کھائی جارہی ہے ۔ اگر قسم با عظمت اور بااہمیت ہے تو یہ اس حقیقت کی اہمیت کی دلیل ہے کہ جس کے لئے قسم کھائی گئی ہے۔

جس حقیقت کے لئے یہ عظیم قسم کھائی گئی ہے، وہ یہ ہے: - إنّہ لقرآن کریم فی کتاب مکنون لایمسّہ الّا المطھرون یعنی بیشک یہ بہت ہی با عظمت قرآن ہے جسے ایک پو شیدہ کتاب میں رکھاگیا ہے اسے پاک و پاکیزہ افراد کے علاوہ کوئی چھو بھی نہیں سکتا ہے۔ ) اس کے ساتھ رابطہ نہیں کرسکتا ہے۔)آیہ شریفہ کا یہ جملہ لا یمسّہ الّاالمطھرون بہت زیادہ قابل غور ہے۔

ابتدائی نظر میں کہاجاتا ہے کہ بے طہارت لوگوں کا قرآن مجید سے مس کرنا اور اس کے خط پر ہاتھ لگانا حرام ہے، لیکن اس آیہ شریفہ پر عمیق غور وفکر کرنے سے یہ اہم نکتہ و اضح ہو جاتا ہے کہ مس سے مراد مس ظا ہری نہیں ہے اور ” مطھرون“ سے مراد باطہارت )مثلاً باوضو) افراد نہیں ہیں ۔ بلکہ مس سے مراد مس معنوی )رابطہ) اور”مطھرون “ سے مرادوہ افراد ہیں جنہیں خدا وندمتعال نے خاص پاکیزہ گی عنآیت کی ہے، اور ”لایمسہ“ کی ضمیر کتاب مکنون )لوح محفوظ) کی طرف پلٹتی ہے ۔

آیہ کریمہ سے یہ معنی )مس معنوی) استفادہ کرنے کے لئے چند نکات کی طرف توجہ کرنا ضروری ہے:

۱ ۔ جملہء ”لا یمسہ “ کا ظہور اخبار ہے نہ انشاء ، کیونکہ بظا ہر یہ جملہ دوسرے اوصاف کے مانند کہ جو اس سے قبل ذکر ہوئے ہیں، صفت ہے اور انشاء صفت نہیں بن سکتا ہے، جبکہ آیت میں غیر مطہرون کے مس سے حکم تحریم )حرمت) کا استفادہ اس بنا پر کیا جاتا ہے کہ جملہ ”لا یمسہ “ انشاء ہو ، نہ اخبار۔

۲ ۔ ” لایمسہ“ کی ضمیر بلا فاصلہ ” کتاب مکنوں“ کی طرف پلٹتی ہے ، کہ جو اس جملہ سے پہلے واقع ہے نہ قرآن کی طرف کہ جواس سے پہلے مذکور ہے اور چند کلمات نے ان کے درمیان فاصلہ ڈال دیا ہے۔

۲۴۵

۳ ۔ قرآن مجید کی یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ ایک پوشیدہ اور محفوظ کتاب میں واقع ہے کہ جس تک عام انسانوں کی رسائی نہیں ہے اور یہ مطلب اس کے ساتھ مس کرنے سے کوئی تناسب نہیں رکھتا ہے۔

۴ ۔ طہارت شرعی ، یعنی وضو )جہاں پر وضو واجب ہو) یا غسل یا تیمم )جہاں پر ان کا انجام دینا ضروری وفرض)رکھنے والے کو ” متطھرّ“ کہتے ہیں نہ ”مطھّر“۔

اس تشریح سے واضح ہوجاتا ہے کہ جو کچھ جملہ ء ”( لا یمسه الّا المطهرون ) “ سے استفادہ ہوتا ہے، وہ یہ ہے کہ ” مطھر“ ) پاک قرار دئے گئے)افراد کے علاوہ کوئی بھی ”کتاب مکنون“ )لوح محفوظ) کو مس نہیں کرسکتا ہے، یعنی اس کے حقائق سے آگاہ نہیں ہوسکتا ہے۔

اب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خصوصی طہارت کے حامل افراد کون لوگ ہیں اور ”مطھرون“ سے مرادکون لوگ ہیں کہ جو ” لوح محفوظ“ سے اطلاع حاصل کرتے ہیں؟

” مطھرون “سے مرادکون ہیں؟

کیا ” مطھرون“کی اصطلاح فر شتوں سے مخصوص ہے جیسا کہ بعض مفسرین نے اشارہ کیا ہے ۔(۱) یایہ کہ اس میں عمومیت ہے یعنی وہ افراد جو خدا کی جانب سے خصوصی طہارت کے حامل ہیں وہ بھی اس میں شامل ہو سکتے ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس پر بحث کرنے کی ضرورت ہے:

حضرت آدم علیہ السلام کی خلقت ، اور خدا کی جانب سے انھیں جانشین مقرر کیا جا نا نیز

____________________

۱۔جیسے ” روح المعانی“ ج ۲۷،۱۵۴،دار احیاء التراث العربی، بیروت

۲۴۶

”اسماء“الہی کا علم رکھنا یعنی ایک ایسی حقیقت سے آگاہی کہ جس کے بارے میں ملا ئکہ نے بھی لا علمی کا اظہار کیا۔ پھر حضرت آدم علیہ السلام کے لئے ملائکہ کو سجدے کا حکم دیناو غیرہ ان واقعات اور قرآنی آیات ۱ کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت معلوم ہو جاتی ہے کہ خاص علوم سے آگاہی اور تعلیم حاصل کرنے کی صلاحیت انسان کامل میں ملائکہ سے کہیں زیادہ ہے۔

مذکورہ ان صفات کے پیش نظر کوئی دلیل نہیں ہے کہ جملہ لا یمسہ الّا المطھرون کو فرشتوں سے مخصوص کیا جائے جبکہ قرآن مجید کے مطابق خدا کے ایسے منتخب بندے موجود ہیں جو خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں۔

آیہ تطہیر اور پیغمبر کا محترم خاندان

( إنّمایریدالله ليذهب عنکم الرجس اٴهل البیت و یطهر کم تطهیرا )

) سورہ احزاب/ ۳۳)

” بس الله کا ارادہ ہے اے اہل بیت : کہ تم سے ہرطرح کی برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزہ رکھے جو پاک و پاکیزہ رکھنے کا حق ہے“

یہ آیہ شریفہ دلالت کرتی ہے کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا خاندان خدا وندمتعال کی طرف سے ایک خاص اور اعلی قسم کی پاکیزگی کا مالک ہے۔ آیہ کریمہ میں ” تطھیرا“ کا لفظ مفعول مطلق نوعی ہے جو ایک خاص قسم کی طہارت و پاکیزگی کو بیان کرتا ہے۔

ہم یہاں پر اس آیہ شریفہ سے متعلق مفصل بحث کرنا نہیں چاہتے، اس لئے کہ آیت تطہیر سے مربوط باب میں اس پر مکمل بحث گزر چکی ہے، اور اس کا نتےجہ یہ ہے کہ پیغمبر اکرم (ص)کے اہل بیت کہ جن میں سب سے نمایاں امیرالمومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں، اس آیہ شریفہ کے مطابق خداکی طرف سے خاص طہارت و پاکیزگی کے مالک ہیں اور

____________________

۱۔ سورہ بقرہ/۳۴۔۳۰

۲۴۷

”مطھرون“ میں شمار ہوتے ہیں ۔ وہ لوح محفوظ کے حقائق سے آگاہی رکھ سکتے ہیں۔

”آصف بر خیا“ اور کتاب کے کچھ حصہ کا علم

ہم جانتے ہیں کہ خدا وندمتعال نے حضرت سلیمان علیہ السلام کو ایک ایسی وسیع سلطنت عطا کی تھی کہ انسانوں کے علاوہ جناّت اور پرندے بھی ان کے تابع تھے ۔ ایک دن جب جن وانس ان کے گرد جمع تھے حضرت سلیمان نے ان سے کہا: تم میں سے کون ہے جو بلقیس کے مسلمان ہونے سے پہلے اس کے تخت کو میرے پاس حاضر کردے؟جنّات میں سے ایک عفریت نے سلیمان نبی سے کہا:قبل اس کے کہ آپ اپنی جگہ سے اٹھے ہیں تخت کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا۔ قرآن مجید فرماتا ہے(۱) ” کتاب کے کچھ حصہ کا علم رکھنے والے ایک شخص نے کہا: میں اتنی جلدی تخت بلقیس کو آپ کے پاس حاضر کردوں گا کہ آپ کی پلک بھی جھپکنے نہیں پائے گی اور اسی طرح اس نے حاضر کیا ۔

جیسا کہ مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ کتاب ” لوح محفوظ “ہے اور ش یعہ و سنی احادیث کے مطابق مذکورہ شخص حضرت سلیمان کا وزیر ” آصف بر خیا“ تھا ۔ قرآن مجید سے استفادہ ہوتا ہے آصف کی یہ غیر معمولی اور حیرت انگیز طاقت وصلاحیت کتاب )لوح محفوظ) کے کچھ حصہ کا علم جاننے کے سبب تھی۔

واضح رہے کہ طہارت و پاکیزگی کے چند مراحل ہیں۔ جس قدر طہارت کامل تر ہوگی اسی اعتبار سے علم وقدرت میں بھی اضا فہ ہو گا۔

جب ہمیں آیہ کریمہ( لا یمسّه إلا المطهرون ) سے یہ معلوم ہوگیا کہ لوح محفوظ کے حقایق کا علم خدا کی خاص طہارت کے نتیجہ میں حاصل ہوتا ہے اور آیہ تطہیر نے اس خاص طہارت اور پاکیزگی کو اہل بیت علیہم السلام کے لئے ثابت کیا ہے، وہ بھی ایک ایسی تطہیر جو

____________________

۱۔سورہ نمل/۴۰

۲۔کچھ اردو قوال بھی ہیں کہ تفاسیر کی طرف رجوع کرنا چاہئے

۲۴۸

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی تطہیر کے ہم پلہ ہے۔لہذا ان صفات کے پیش نظربعید نہیں ہے کہ امیرالمؤمنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) علیہم السلام) لوح محفوظ کے تمام حقائق کا علم رکھتے ہوں اس لئے ہم مشاہدہ کرتے ہیں کہ ثعلبی کہ جو اھل سنت(۱) کے نزدیک تفسیر کے استاد نیزحافظ اور امام کے لقب سے یاد کئے جاتے ہیں اور اہل سنت کے ائمہ رجال(۲) کے مطابق جن کی روایتیں صحیح اورقابل اعتماد جانی جاتیں ہیں ، تفسیر”الکشف و البیان“(۳) میں اور حاکم حسکانی(۴) تفسیر شواہد التنزیل(۵) میں ، ابوسعید خدری، عبداللہ بن سلام اور ابن عباس جیسے چند اصحاب سے روایت کرتے ہیں کہ ”من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیر المومنین علی، علیہ السلام ہیں۔

بلکہ ابو سعیدخدریاور عبداللهبن سلام سے نقل کیا گیا ہے کہ انہوں نے پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد کون ہے؟ جواب میں پیغمبر (ص)نے علی علیہ السلام کو” من عندہ الکتاب“کے مصداق کے طور پر پیش کیا۔ اسی مطلب کو )من عندہ علم الکتاب،سے مرادعلی علیہ السلام ہیں)سعید بن جبیر ،ابی صالح نیزمحمد بن حنفیہ سے بھی نقل کیا گیا ہے۔

اسی طرح کئی طریقوں سے نقل کیا گیا ہے کہ عبدالله بن عطاء کہ جو امام باقر علیہ السلام کے ہمراہ تھے، جب انھوں نے عبدالله بن سلام کے بیٹے کو دیکھا تو امام باقر علیہ السلام سے سوال کیا: کیا یہ )عبداللهبن سلام کا بیٹا) اس شخص کا بیٹا ہے جس کے پاس کتاب کا علم تھا؟ حضرت نے فرمایا: نہیں،”من عندہ علم الکتاب“سے مراد )عبداللهبن سلام نہیں ہے، بلکہ) امیر

____________________

۱۔اہل سنت کے علم رجال کے جلیل القدرامام ذہبی نے ” سیر اعلام النبلاء“ ج۱۷، ص۴۳۵ میں ثعلبی کے بارے میں کہا ہے : ” الامام الحافظ العلامة شیخ التفسیر“، ۲۔ عبدالغافر نیشابوری کتاب” تاریخ نیشاپوری“ ص۱۰۹ میں اس کے بارے میں کہتا ہے: الثقة الحافظو ہو صحیح النقل موثوق بہ، ۳۔ الکشف وا لبیان، ج۵، ص ۳۰۳۔۳۰۲، داراحیا التراث العربی، بیروت، ۴۔ذہبی کی عبادت کو ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس کے متقن، محکم اسناد کے عالی ہونے کے سلسلہ میں ذکر کیا ہے۔ ملاحظہ ہو ۵۔” شواہد التنزیل“ با تحقیق شیخ محمد باقر محمود، ج۱، ص۴۰۰

۲۴۹

المؤمنین علی بن ابیطالب علیہ السلام ہیں۔

اس کے علاوہ ابن شہر آشوب(۱) نے اپنی ”کتاب مناقب(۲) “ میں کہا ہے:

” محمدبن مسلم، ابوحمزہ ثمالی اور جابربن یزید نے امام باقر(علیہ السلام) سے اسی طرح علی بن فضل،فضیل بن یسار اور ابو بصیر نے امام صادق(علیہ السلام) سے نیز احمد بن محمدحلبی اور محمد بن فضیل نے امام رضا(علیہ السلام) سے روایت نقل کی ہے اور اس کے علاوہ موسی بن جعفر(علیہ السلام)، زیدبن علی، محمد بن حنفیہ، سلمان فارسی، ابوسعید خدری اور اسماعیل سدی سے روایت کی گئی ہے کہ انہوں خداوند متعال کے قول:( کل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) کے بارے میں کہا ہے کہ:”من عندہ علم الکتاب“سے مراد علی بن ابیطالب (علیہ السلام) ہیں۔“

شیعہ احادیث میں مختلف طریقوں سے آیا ہے کہ ” من عندہ علم الکتاب“سے مراد امیرالمومنین علی علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصو مین علیہم السلام ہیں۔ نمونہ کے طور پر مندرجہ ذیل حدیث پر غور فرماہئے: ثقة الاسلام کلینی نے اصول کافی(۳) میں معتبر سند سے بریدبن معاویہ سے کہ جو امام باقر علیہ السلام کے اصحاب میں سے تھے روایت کی ہے انھوں نے حضرت سے عرض کی:”آیہ کریمہ( قل کفی بالله شهیداً بینی و بینکم و من عنده علم الکتاب ) میں ”من عندہ علم الکتاب“ سے مراد کون ہے؟حضرت نے فرمایا:اس سے صرف ہم اھل بیت معصومین(ع) کا قصد کیا گیا ہے اور علی ) علیہ السلام) پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے بعدسب سے مقدم اورہم میں افضل ترین فرد ہیں۔

____________________

۱۔ ہم نے آیہ صادقین کی تفسیر میں اس )شہر آشوب) کی صداقت کے بارے میں ابن ابی طما کی زبانی زہبی کی ستائش بیان کی ہے۔

۲۔ مناقب، ابن شہر آشوب، ج۲، ص۲۹، موسسہ انتشارات علامہ قم،

۳۔ اصول کافی، ج۱،ص۱۷۹

۲۵۰

احادیث میں جس کے پاس کتاب کا علم ہے)علی بن ابیطالب علیہ السلام اور دوسرے ائمہ معصومین) اور جس کے پاس کتاب کا کچھ علم موجود ہے)آصف برخیا) کے در میان دلچسپ موازنہ کیا گیا ہے:

عن اٴبی عبد الله قال: ” الذي عنده علم الکتاب“ هو امیرالمؤمنین - علیه السلام - و سئل عن الذي عنده علم من الکتاب اٴعلم اٴم الذي عنده علم الکتاب؟ فقال: ما کان علم الّذي عنده علم من الکتاب عند الذي عنده علم الکتاب إلّا بقدر ما تاٴخذ البعوضة بجناحها من مائ البحر(۱)

یعنی: امام صادق) علیہ السلام) نے فرمایا:

”جس کے پاس کتاب کا علم تھا علی بن ابیطالب(علیہ السلام) تھے۔ سوال کیا گیا: کیا وہ شخص جس کے پاس کتاب کا کچھ علم تھا یعنی آصف برخیازیادہ عالم تھا یا وہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا)یعنی حضرت علی علیہ السلام)امام نے فرمایا:جس کے پاس کتاب کا تھوڑا ساعلم تھا،اس کاموازنہ اس شخص سے کہ جس کے پاس مطلق کتاب کا علم تھا ایسا ہے جیسے مچھرکے بھیگے ہوئے پر کا موازنہ سمندرسے کیاجائے۔“

یہ بحث وگفتگواس بناپرتھی کہ جب”من عندہ علم الکتاب“میں ”کتاب“سے مرادلوح محفو ظ ہو۔لیکن اگر”الکتاب“سے مرادجنس کتاب ہو،اس بنا پرکہ” الف ولام“جنس کے لئے ہے اور کوئی خاص چیز مد نظرنہ ہوتوہرکتاب اس میں شامل ہو سکتی ہے حتی لوح محفوظ بھی اس کے مصادیق میں سے ایک ہوگا،اس میں گزشتہ آسمانی کتابیں اور قرآن مجید سبھی شامل ہیں۔

____________________

۱۔ نورالثقلیب،ج۴،ص۸۸۔۸۷

۲۵۱

اس صورت میں بھی”من عندہ علم الکتاب“سے مرادحضرت علی علیہ السلام ہی ہوں گے کیونکہ حضرت کالوح محفوظ کے حقائق سے آگاہ ہونا آیہ کریمہ”( لایمسه الّا المطهرون ) “کوآیہ تطہیرکے ساتھ ضمیمہ کرنے سے معلوم ہوجا تا ہے،اورحضرت کاقرآن مجید کے تمام ابعاد سے واقف ہو نابہت سی دلیلوں من جملہ حدیث ثقلین(۱) کے ذریعہ ثابت ہے۔

اس لئے اس حدیث شریف میں آیا ہے کہ پیغمبراکرم )صلی الله علیہ و آلہ وسلم )کے اہل بیت )علیہم السلام)ہرگزقرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اور یہ حضرت علی علیہ السلام کے قرآن مجید کے تمام علوم سے آگاہی رکھنے کی دلیل ہے۔ کیونکہ اگرحضرت قرآن مجید کے کسی پہلوکو نہیں جانتے ہیں تو گو یاوہ اس اعتبار سے قرآن مجید سے اتنا دور ہو گئے ہیں اور یہ حدیث میں بیان کئے گئے مطلب کے خلاف ہے۔

آسمانی کتا بوں کے متعلق حضرت علی علیہ السلام کے علم کے بارے میں شیعہ اور اہل سنت کی احا دیث کی کتا بوں میں ایا ہے، من جملہ مندرجہ ذیل حدیث سے جوخود حضرت سے نقل کی گئی ہے:

لو ثنّیت لي الوسادة لحکمت بین اٴهل التوراة بتوراتهم، و بین اٴهل الإنجیل بإنجیلهم، و بین اٴهل الزبور بزبورهم(۲)

”اگر میرے لئے مسند قضا بچھادی جائے تو میں اہل توریت کے لئے توریت سے، اہل انجیل کے لئے انجیل سے اور اہل زبو ر کے لئے زبور سے فیصلہ کروں گا۔“

____________________

۱۔ سنن الترمذی،ج۵ص۶۲۲ مسنداحمد،ج۳،ص۱۴،۱۷،۲۶،۹۵وج۵،ص۱۸۹۔۱۸۸خصائص امیرالمؤمنین علی نسائی ص ۸۵۔۸۴

۲۔فرائد السمطن،ج۱،ص۳۴۱۔۹۳۳۔شواہد التنزیل ج۱،ص۳۶۶،ح۳۸۴

۲۵۲

منابع کی فہرست

(الف)

۱ ۔القرآن الکریم

۲ ۔ الاتقان،سیوطی، ۹۱۱ ئھ-،دار ابن کثیر، بیروت، لبنان

۳ ۔ احقاق الحق، قاضی سید نورالله تستری، شہادت ۱۰۱۹ ئہ-

۴ ۔ احکام القرآن، جصاص،ت ۷۳۰ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۵ ۔ احکام القرآن، ابوبکر ابن العربی المعافري، ت ۵۴۶ ئہ-

۶ ۔ اربعین، محمد بن ابی الفوارس، مخطوط کتابخانہ آستان قدس، رقم ۸۴۴۳

۷ ۔ ارجح المطالب، عبدالله الحنفي، ت ۱۳۸۱ ئہ-، طبع لاہور )بہ نقل احقاق الحق)

۸ ۔ ارشاد العقل السلیم، ابو السعود، ت ۹۵۱ ء، داراحیاء التراث العربی،بیروت، لبنان

۹ ۔ اسباب النزول،و احدی النیسابوری، ت ۴۶۸ ئہ-، دارالکتاب العلمیة، بیروت، لبنان

۱۰ ۔ اسد الغابة فی معرفة الصحابة، ابن اثیر،ت ۶۳۰ ئہ- داراحیائ التراث العر بی،بیروت،لبنان

۱۱ ۔ الإصابة فی تمییز الصحابة، احمد بن علی، ابن حجر عسقلانی،ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۱۲ ۔ اضوائ البیان،شنقیطی،ت ۳۹۳ ئہ-، عالم الکتب، بیروت

۱۳ ۔اعیان الشیعة، سیدمحسن الامین، ت حدود ۱۳۷۲ ئہ-،دارالتعارف للمطبوعات، بیروت

۱۴ ۔ الامامة و السیاسة، ابن قتیبة دینوری، ت ۲۷۶ ء ہ-، منشورات الشریف الرضی،قم

۱۵ ۔انساب الاشراف،احمد بن یحیی بلاذری،ت ۲۷۹ ئہ-،دارالفکر

۱۶ ۔ایضاح المکنون، اسماعیل باشا،ت ۴۶۳ ئہ-، دارالفکر

۲۵۳

(ب)

۱۷ ۔ بحار الانوار، محمد باقر مجلسی، ت ۱۱۱۱ ئہ- مؤسسة الوفاء، بیروت

۱۸ ۔ بحر العلوم، نصر بن محمد سمرقندی، ت ۳۷۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة،بیروت

۱۹ ۔ البحر المحیط، ابوحیان اندلسی، ت ۷۵۴ ء،المکتبة التجاریة

احمد الباز، مکة المکرمة

۲۰ ۔ البدایة و النہایة، ابن کثیر الدمشقی،ت ۷۷۴ ئہ-،دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۱ ۔ البرہان، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسہ مطبوعاتی اسماعیلیان

۲۲ ۔ البہجة المرضیة، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتب المفید)ت)

۲۳ ۔ التاج الجامع للاصول، منصور علی ناصف، ت ۱۳۷۱ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت

۲۴ ۔ تاج الفردوس، محمد مرتضی حسینی زبیدی، ت ۱۲۵۰ ء ہ-، دار الہدایة للطباعة والنشر و التوزیع، دارمکتبة الحیاة، بیروت

۲۵ ۔ تاریخ الاسلام، شمس الدین ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتاب العربی

۲۶ ۔ تاریخ بغداد، احمد بن علی خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ء ہ-، دارالفکر

۲۷ ۔ تاریخ طبری، محمد بن جریر طبری،ت ۳۱۰ ئہ-، مؤسسة عزالدین للطباعة والنشر، بیروت، لبنان

۲۸ ۔ تاریخ مدینة دمشق، ابن عساکر، ت ۵۷۱ ئہ-، دارالفکر، بیروت

۲۹ ۔ تاریخ نیسابور، عبدالغافر نیشابوری،ت ۵۲۹ ہ-

۳۰ ۔ تذکرة الحفّاظ، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت، لبنان

۳۱ ۔ تذکرة الخواص، سبط بن جوزی ت ۶۵۴ ئہ-، چاپ نجف

۳۲ ۔التسہیل لعلوم التنزیل، ابن حزی الکلبی، ت ۲۹۲ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۳۳ ۔ تفسیر ابن ابی حاتم، عبد الرحمن بن محمد بن ادریسی الرازی، ت ۳۲۷ ہ-، المکتبة المصریة، بیروت

۳۴ ۔ تفسیر البیضاوی، قاضی بیضاوی،ت ۷۹۱ ئہ-

۲۵۴

۳۵ ۔ تفسیر الخازن )لباب التاویل)، علاء الدین بغدادی، ت ۷۲۵ ئہ-، دارالفکر

۳۶ ۔ تفسیر علی بن ابراہیم قمی، متوفی اواخر قرن سوم ہ-، مطبعہ نجف

۳۷ ۔ تفسیر القرآن العظیم، ابن کثیر، ت ۷۷۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۳۸ ۔ التفسیر الکبیر، فخر رازی، ت ۶۰۶ ئہ-، دار احیائ التراث العربی بیروت، لبنان

۳۹ ۔ تفسیر الماوردی، محمد بن حبیب ماوردی بصری، متوفی ۴۵۰ ہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۰ ۔ تفسیر النسفی )مدارک التنزیل وحقائق التاویل) حاشیہ تفسیر خازن، عبدالله النسفی،ت ۷۱۰ ئہ-، دارالفکر

۴۱ ۔ تفسیر المنار، رشید رضا،ت ۱۳۵۴ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۴۲ ۔ تلخیص المستدرک، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-،دارالمعرفة، بیروت

۴۳ ۔ تہذیب التہذیب، ابن حجر عسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-، دارالفکر

۴۴ ۔تہذیب الکمال، مزّی، ت ۷۴۲ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

(ج)

۴۵ ۔جامع الاحادیث، سیوطی،ت ۹۱۱ ئہ-، دارالفکر

۴۶ ۔جامع البیان، محمد بن جریر طبری، ت ۳۱۰ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۴۷ ۔جامع احکام القرآن، قرطبی، ت ۶۷۱ ئہ-،دارالفکر

۴۸ ۔ الجامع الصحیح الترمذی، محمد بن عیسی ت ۲۷۹ ئہ-، دارالفکر

۴۹ ۔جمع الجوامع، سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-

۵۰ ۔جمہرةاللغة،ابن درید،ت ۳۲۱ ئہ-

۵۱ ۔الجواہر الحسان ابوزید الثعالبی ت ۸۷۶ ء ہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت

۵۲ ۔ جواہر العقدین، سمہودی، ت ۹۱۱ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۲۵۵

(ح)

۵۳ ۔الحاوی للفتاوی سیوطی، ت ۹۱۱ ئہ-، مکتبة القدس قاہرة)بہ نقل احقاق الحق)

۵۴ ۔حاشیة الشہاب علی تفسیر البیضاوی احمد خفاجی مصری حنفی، ت ۱۰۶۹ ئہ-،دار احیائ التراث العربی، بیروت

۵۵ ۔حاشیہ الصاوی علی تفسیر الجلالین، شیخ احمد الصاوی المالکی، ت ۱۲۴۱ ئہ-، دارالفکر

۵۶ ۔حلیة الاولیاء، ابونعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ-، دارالفکر

(خ)

۵۷ ۔ خصائص امیرالمؤمنین علیہ السلام، احمد بن شعیب نسائی ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتاب العربی

۵۸ ۔خصال، محمد بن علی بن بابویہ قمی)صدوق)، ت ۳۸۱ ئہ-، دفتر انتشارات اسلامی

(س)

۵۹ ۔سفینة البحار، شیخ عباس قمی ت ۱۳۵۹ ئہ-، انتشارات کتابخانہ محمودی

۶۰ ۔السنن الکبری، ابوبکر احمد بن حسین بیہقی، ت ۴۵۸ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت، لبنان

۶۱ ۔السنن الکبری، نسائی، ت ۳۰۳ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۶۲ ۔سیر اعلام النبلاء، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت، لبنان

۶۳ ۔ السیرة النبویة و الآثار المحمدیة )حاشیة السیرة الحلویة)، سیدزینی دحلان، ت ۱۳۰۴ ئہ-، دار احیائ التراث العربی، بیروت، لبنان

۶۴ ۔ السیرة النبویة، ابن ہشام،ت ۲۱۸ ئہ-، داراحیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

۲۵۶

(ش)

۶۵ ۔شرح التجرید، قوشجی، ت ۸۷۹ ئہ-

۶۶ ۔شرح السنة، بغوی، ت ۵۱۰ ئہ-، المکتب الاسلامی، بیروت

۶۷ ۔ شرح المقاصد، تفتازانی، ت ۷۹۳ ئہ-،منشورات الشریت الرضی

۶۸ ۔شرح المواقف،جرجانی،ت ۸۱۲ ئئئہ-، منشورات الشریف الرضی

۶۹ ۔ شرح التنزیل، حاکم حسکانی، ت اواخر القرن الخامس، مؤسسة الطبع و النشر

(ص)

۷۱ ۔صحاح اللغة، جوہری، ت ۳۹۳ ئہ-

۷۲ ۔صحیح ابن حبان، محمد بن حبان بستی، ت ۳۵۴ ئہ-، مؤسسة الرسالة

۷۳ ۔ صحیح بخاری، محمد بن اسماعیل بخاری، ت ۲۵۶ ئہ-، دارالقلم، بیروت، لبنان-دارالمعرفة، بیروت،لبنان

۷۴ ۔ صحیح مسلم، مسلم بن حجاج نیشابوری، ت ۲۶۱ ئہ-، مؤسسة عز الدین للطباعة و النشر، بیروت، لبنان

۷۵ ۔ الصلاة و البشر،فیروز آبادی ،ت ۸۱۷ ئھجری دارالکتب العلمیہ،بیروت،لبنان۔

۷۶ ۔الصواعق المحرقة، ابن حجر ہیتمی،ت ۹۵۴ ئہ-،مکتبة القاہرة

(ط)

۷۷ ۔ الطبقات الکبری، ابن سعد، ت ۲۳۰ ئہ-،داربیروت للطباعة والنشر

۷۸ ۔ الطرائف، علی بن موسی بن طاووس،ت ۶۶۲ ئہ-، مطبعة الخیام،قم

(ع)

۷۹ ۔العمدة، ابن بطریق، ت ۵۳۳ ئہ-، مؤسسة النشرالاسلامی

۸۰ ۔عوالم العلوم، سید ہاشم بحرانی، ت ۱۱۰۷ ئہ-، مؤسسة الامام المہدی علیہ السلام

۸۱ ۔عیون خبارالرضا، صدوق، ت ۳۸۱ ئہ-

۲۵۷

(غ)

۸۲ ۔غایة المرام، سید ہاشم بحرانی،ت ۱۱۰۷ ئہ-

۸۳ ۔غرائب القرآن،نیشابوری ت ۸۵۰ ئہ-، دارالکتب العلمیة بیروت

۸۴ ۔فتح الباری، ابن حجر العسقلانی، ت ۸۵۲ ئہ-

۸۵ ۔ فتح القدیر، شوکانی، ت ۱۲۵۰ ئہ-، داراکتاب العلمیة بیروت لبنان

۸۶ ۔فرائد السمطین، ابراہیم بن محمد بن جوینی،ت ۷۲۲ ئہ-، مؤسسة المحمودی للطباعة والنشر، بیروت

۸۷ ۔الفصول المہمة، ابن صباغ مالکی،ت ۸۵۵ ئہ-

۸۸ ۔فضائل الصحابة، سمعانی، ت ۵۶۲ ئہ-

(ق)

۸۹ ۔القاموس المحیط، فیروزآبادی،ت ۸۱۷ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۹۰ ۔قواعد فی علوم الحدیث، ظفر احمد تہانوی شافعی، تحقیق ابوالفتاح ابوغدة

(ک)

۹۱ ۔ الکافی، کلینی، ت ۳۲۹ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۹۲ ۔کتاب الثقات، ابن حبان، ت ۳۵۴ ء ہ-، مؤسسة الکتب الثقافیة، بیروت

۹۳ ۔کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی، ت ۱۷۵ ئہ-، مؤسسة دارالہجرة

۹۴ ۔الکشاف، زمخشری، ت ۵۸۳ ئہ-، دارالکتاب العربی، بیروت

۹۵ ۔الکشف و البیان، ثعلبی نیسابوری، ت ۴۲۷ ئیا ۴۳۷ ئہ-، داراحیائ التراث العربی،بیروت، لبنان

۹۶ ۔ کفایة الطالب، محمد بن یوسف گنجی شافعی، ت ۶۵۸ ئہ-، داراحیائ تراث اہل البیت

۹۷ ۔کمال الدین، محمد بن علی بن بابویہ، ت ۳۸۱ ئہ-

۹۸ ۔کنز العمال، متقی ہندی، ت ۹۷۵ ئہ-، مؤسسة الرسالة، بیروت

۲۵۸

(ل)

۹۹ ۔اللباب فی علوم الکتاب، عمر بن علی بن عادل الدمشقی الحنبلی، متوفی بعد ۸۸۰ ئہ-، دار الکتب العلمیة، بیروت

۱۰۰ ۔لسان العرب، ابن منظور، ت ۷۱۱ ئہ-، دار احیاء التراث العربی، بیروت، لبنان

(م)

۱۰۱ ۔ما نزل من القرآن فی علی،ابوبکر الشیرازی، ت ۴۰۷ ئہ-

۱۰۲ ۔ ما نزل من القرآن فی علی، ابو نعیم اصفہانی، ت ۴۳۰ ئہ- )بہ نقل احقاق)

۱۰۳ ۔المتفق و المتفرق خطیب بغدادی، ت ۴۶۳ ئہ-)بہ واسطہ کنزالعمال)

۱۰۴ ۔ مجمع البحرین، طریحی، ت ۱۰۸۵ ئہ-، دفتر نشر فرہنگ اسلامی

۱۰۵ ۔مجمع البیان،طبرسی، ت ۵۶۰ ئہ-، دارالمعرفة،بیروت

۱۰۶ ۔ مجمع الزوائد،ہیثمی، ت ۸۰۷ ئہ-،دارالکتاب العربی-دارالفکر، بیروت

۱۰۷ ۔المستدرک علی الصحیحین،حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالمعرفة، بیروت

۱۰۸ ۔مسند ابی داوود طیالسی،ت ۲۰۴ ئہ-،دارالکتاب اللبنانی

۱۰۹ ۔مسند ابی یعلی موصلی،ت ۳۰۷ ئہ-

۱۱۰ ۔مسند احمد،احمد بن حنبل،ت ۲۴۱ ئہ-، دارصادر،بیروت-دارالفکر

۱۱۱ ۔مسند اسحاق بن راہویہ، ت ۲۳۸ ئہ-،مکتبة الایمان، مدینة المنورة

۱۱۲ ۔مسند عبد بن حمید،ت ۲۴۹ ئہ-، عالم الکتب

۱۱۳ ۔مشکل الآثار، طحاوی، ت ۳۲۱ ئہ-،ط مجلس دائرة المعارف النظامیة بالہند

۱۱۴ ۔ المصباح المنیر احمد فیومی، ت ۷۰ ء ۷ ہ- طبع مصطفی البابی الحلبی و اولادہ بمصر

۱۱۵ ۔مصباح الہدایة، بہبہانی، ط سلمان فارسی،قم

۱۱۶ ۔المصنف،ابن ابی شیبة،ت ۲۳۵ ئہ-

۲۵۹

۱۱۷ ۔مطالب السؤول ابن طلحة نصیبی شافعی، ت ۶۵۲ ئہ-

۱۱۸ ۔معالم التنزیل، بغوی،ت ۲۱۰ ئہ-

۱۱۹ ۔المعجم الاوسط، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-،مکتبة المعارف الریاض

۱۲۰ ۔المعجم الصفیر، طبرنی، ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۱ ۔المعجم الکبیر، طبرانی،ت ۳۶۰ ئہ-

۱۲۲ ۔ المعجم المختص بالمحدثین، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، مکتبة الصدیق سعودی

۱۲۳ ۔معجم مقاییس اللغة، ابن فارسی بن زکریا القزوینی الرازی،ت ۳۹۰ ہ-

۱۲۴ ۔معرفة علوم الحدیث، حاکم نیشابوری، ت ۴۰۵ ئہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۵ ۔المعرفة والتاریخ، یعقوب بن سفیان بن بسوی،ت ۲۷۷ ئہ-

۱۲۶ ۔مغنی اللبیب، ابن ہشام،ت ۷۶۱ ئ ہ-، دارالکتب العلمیة، بیروت

۱۲۷ ۔المفردات،راغب اصفہانی،ت ۵۰۲ ئہ-

۱۲۸ ۔مقتل الحسین، خوارزمی، ت ۵۶۸ ئہ-، مکتبة المفید

۱۲۹ ۔المناقب،موفق بن احمد خوارزمی،ت ۵۶۸ ئہ-

۱۳۰ ۔مناقب ابن مغازلی شافعی،ت ۴۸۳ ئہ-،المکتبة الاسلمة

۱۳۱ ۔مناقب آل ابی طالب، ابن شہر آشوب،ت ۵۸۸ ئہ-،ذوالقربی

۱۳۲ ۔منتہی الارب عبدالرحیم بن عبدالکریم الہندی ت ۱۲۵۷ ئہ-

۱۳۳ ۔المیزان، محمد حسین طباطبائی، ت ۱۴۰۲ ئہ-، دارالکتب الاسلامیة

۱۳۴ ۔میزان الاعتدال، ذہبی، ت ۷۴۸ ئہ-، دارالفکر

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

کبھی اسلام دور جاہلیت کی قدروں کو مکمل طریقہ سے ختم کرتا ہے اور ان کی جگہ پر سماجی زندگی کے جدید اقدار کوروشناس کراتاہے ۔زمانہ جاہلیت میں جس چیز کو سیاسی،اخلاقی اورسماجی زندگی میں بے قیمت سمجھاجاتاتھا اسلام نے اسی چیز کو سیاسی،سماجی اور اخلاقی طور پر بیش قیمت بناکر پیش کیاہے۔

مثلاً دور جاہلیت میں عورت کی کوئی حیثیت اور قدروقیمت نہیں تھی لوگ لڑکیوں کے وجودکو ننگ وعار سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اسی بے قیمت سمجھی جانے والی چیز کو عظیم ترین بلندی عطا کی۔

قدروقیمت کا اختلاف در اصل قدروقیمت کے نظام میں اختلاف کی بنیاد پر سامنے آتاہے کیونکہ تمام اقدار حقیقتاًکسی نہ کسی اصول اورنظام کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں جن کی معرفت کے بغیر اقدار کی معرفت ممکن نہیں ہے ۔

دین اسلام نے اپنی اصطلاحات کے ذریعہ اقدار کے اصول ونظام کو تبدیل کیا ہے جسکے نتیجہ میں اقدار خودبخود تبدیل ہوجاتے ہیں اورسماج میں تبدیلی آجاتی ہے بطور نمونہ فقط اس تبدیلی کی جانب اشارہ کردینا کافی ہے جو اسلام نے فقروغنی کے معیار میں کی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے مفہوم میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔

فقرواستغنا اور اقدار کے اسلامی اصول

عام طورسے لوگوں کے درمیان فقر وغنی کا مطلب مال ودولت کی قلت وکثرت ہے۔یعنی جسکے پاس زیادہ سونا چاندی نہ ہو وہ فقیرہے اور جس کے پاس سونا چاندی و افر مقدار میں ہوا سے غنی کہاجاتاہے اور مالداری کے درجات بھی مال کی مقدارسے طے ہوتے ہیں۔یعنی جس شخص کی قوت خرید جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا مالدار شمار کیا جاتا ہے اسکے برخلاف جس کے پاس روپے پیسوں کی قلت ہووہ اتناہی غریب سمجھاجاتاہے۔اس طرح عام لوگوں کے خیال میں فقر واستغنا کا تعلق کمیّت''مال کی مقدار'' سے ہے۔

۲۸۱

دور جاہلیت کا نظام قدروقیمت

فقرواستغناکے ان معنی میں بذات خود کوئی خرابی نہیں ہے اور اگر بات یہیں تمام ہوجاتی تو اسلام اسکی مخالفت نہ کرتا لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ جاہلیت کے نظام کے تحت ثروتمندی سے سماجی اور سیاسی اقدار بھی جڑجاتے ہیں اور ثروتمندانسان معززو محترم کہلاتاہے اسکی سماجی حیثیت اوراسکے سیاسی نفوذ میں اضافہ ہوجاتاہے وہ لوگوں کا معتمدبن جاتاہے وغیرہ۔۔۔اس طرح نظام جاہلیت میں واضح طور پر کمیت( Quantity )کیفیت( Quality )میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔

جب بھی ہم غور کریں گے تو ہمیں صاف محسوس ہوگاکہ یہاں زروجواہر کی مقدارو کمیت ( Quantity )سماجی اور سیاسی کیفیت میں تبدیلی ہوگئی ہے بلاشبہ اجتماعی اور سماجی زندگی میں مقداروکمیت( Quantity )اور کیفیت میں براہ راست تعلق پایاجاتا ہے اور اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنایا اسکا انکار ناممکن ہے اور اسلام بھی اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنا نہیں چاہتابلکہ اس رابطہ کو الٹ دینا چاہتا ہے یعنی کمیت اور مقدار کو کیفیت کا تابع قرار دیتا ہے نہ کہ کیفیت کو کمیت کا۔

مثلاًاقتصادی اور کاروباری معاملات کی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئے اور اسی بنیاد پر کاروبار کو وسعت دینا چاہیے یا سیاسی میدان میں بھی ہرچیزکی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئیے اوراسی بنیاد پرووٹ حاصل کرنا چاہیے کہ یہی چیزیںصحتمند معاشرے کی پہچان ہیں۔

۲۸۲

لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو اور سماجی یا سیاسی زندگی میں کمیت ومقدار معیار بن جائے تو سماج میں پائے جانے والے اقدار و اصول کا وجود خطرہ میں پڑجاتاہے۔دور جاہلیت میں بعینہ یہی صورت حال موجود تھی کہ مادیت پرروحانیت کی حکومت ہونے کے بجائے مادیت،روحانیت پر حاکم ہوگئی تھی اور قدروقیمت کا تعیّن مادیت سے ہوتاتھا نہ کہ معنویت سے۔

اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہی صورت حال مسلمانوں کے سامنے بھی آئی اسلام نے قدروقیمت کا ایسا نظام پیش کیا تھا کہ جو دور جاہلیت کے پروردہ لوگوں کے لئے نامانوس تھا۔ اس نظام میں اسلام نے قدروقیمت اورمنزلت کا معیار روحانیت کو قرار دیا تھا اور مادیت کو روحانیت کا تابع بنایاتھا۔لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور سرحدوں کی وسعت کے ساتھ دولت میں بھی بے پناہ اضافہ ہواتو مادیت غالب آگئی اور قدروقیمت کا نظام پس پشت چلاگیا۔اور دوبارہ زروجواہر ہی تمام اقدار کا معیار بن گئے اور انکی حالت اس عہد کی سی ہوگئی جس میں خداوند عالم نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تھا اور آپ کو قائدوپیشوا اور رسول بنا کر بھیجاتھا۔

عثمان بن عفان کے بعد امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب جب حاکم مسلمین ہوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ اسلامی معاشرہ اس طرح منقلب ہوچکا ہے کہ جیسے کوئی اس طرح الٹا لباس پہن لے جسکا اندرونی حصہ باہر،اور ظاہری حصہ اندر ،اوپری حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر ہوگیا ہو۔ چنانچہ امیر المومنین بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

(ولُبس الاسلام لُبسَ الفرومقلوباً )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۸۔

۲۸۳

''اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی الٹی پوستین پہن لے''

جیسا کہ آپ نے ان الفاظ میں اسکی عکاسی کی ہے :

(ألا وان بلیّتکم قدعادت کهیئتها یوم بعث اللّٰه نبیکم،والّذی بعثه بالحقّ لتبلبلنّ بلبلةً ولتغربلنّ غربلةً،ولَتساطُنّ سَوطَ القدرحتّی یعود اسفلکم أعلاکم )( ۱ )

''یاد رکھو! تمہارا امتحان بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیغمبر کی بعثت کے دن تھا اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ وبالا کئے جائو گے اور اس طرح چھانے جائو گے جس طرح چھنّی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جائو گے جس طرح پتیلی کے کھانے کو پلٹاجاتا ہے یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہوجائیںگے ''۔

امیر المومنین فرماتے ہیں کہ عنقریب یہ قوم اسلامی اقدار ومفاہیم اور اصول کو چھوڑ کر ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہونے والی ہے اور اسکی وہ حالت ہوجائے گی جو کھولتے ہوئے شوربہ کی ہوتی ہے کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہوجاتاہے۔

فتوحات کی وسعت اور خدا کی جانب سے رزق میں فراوانی کے باعث امت اسلامیہ کی یہی حالت ہوگئی تھی جیسا کہ مال و نعمت کی زیادتی کے باعث عہد جاہلیت کی بھی یہی افسوسناک حالت تھی۔

دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلام نے فقر اوراستغنا کی نئی اصطلاحیں ایجاد کیں اور انہیں نئی اصطلاحوں اور نئے مفاہیم کے ذریعہ دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کردیا۔

قدروقیمت کا اسلامی نظام

لفظ غنی یا استغنا کے معنی کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ہے ۔ایک بیان کے مطابق استغنا کا

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۔

۲۸۴

مطلب ہے ''انسان کے پاس زر وجواہر کا بکثرت موجود ہونا''اس طرح غنی کے معنی کا تعلق عالم محسوسات سے ہے اور یہ مطلب لفظ ''ثروتمند''کے مترادف ہے۔

دوسرے بیان کے مطابق حقیقتاً استغنا سے مراد''دل کا مستغنی ہونا'' ہے جو کہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان اور توکل سے حاصل ہوتا ہے اور اس معنی کا مال کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان کے پاس بے پناہ مال ودولت ہو مگر پھر بھی وہ فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کہ مال ودولت بالکل نہ ہو پھر بھی انسان غنی ہو۔

فقر واستغنا کے یہ معنی،لغوی اور رائج معنی سے بالکل مختلف ہیں۔اور ان معنی کے لحاظ سے استغنا کا تعلق نفس انسانی سے ہے نہ کہ مال ودولت اور خزانہ سے۔

دین اسلام لفظ فقر واستغنا کو نئے معنی و مفاہیم دے کر در اصل دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرکے اسکے مقابلہ میں جدید نظام پیش کرنا چاہتا ہے۔

اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم استغنا اور فقر کے بارے میں اسلامی روایات کی روشنی میں پہلے لفظ استغنا کا مطلب بیان کریں گے اور پھر اس جدید نظام کی وضاحت کریں گے جو اسلام نے قدروقیمت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔

اسلامی روایات میں استغنا کا مفہوم

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

(لیس الغنیٰ عن کثرة العرَض،ولکن الغنیٰ غنیٰ النفس )( ۱ )

''مال ومتاع کی کثرت کانام استغنانہیں بلکہ استغناکا مطلب نفس کا مستغنی ہونا ہے''

____________________

(۱)تحف العقول ص۴۶۔

۲۸۵

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(الغنیٰ فی القلب،والفقر فی القلب )( ۱ )

''استغنا بھی دل میں ہوتا ہے اور فقر بھی دل ہی میں ہوتا ہے''

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا ہے:

(الغنی من استغنیٰ بالقناعة )( ۲ )

''غنی وہ ہے جو قناعت کے باعث مستغنی ہو''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(لاکنز اغنیٰ من القناعة )( ۳ )

''غنی(ہونے)کے لئے قناعت سے بڑھکر کوئی خزانہ نہیں ہے''

نیز آپ نے فرمایا ہے:

(طلبت الغنیٰ فماوجدت الّاالقناعة،علیکم بالقناعة تستغنوا )( ۴ )

''میں نے استغنا کو تلاش کیا تو مجھے قناعت کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ تم بھی قناعت اختیار کروتو مستغنی ہوجائوگے''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(لا فقرکفقرالقلب،ولا غنیٰ کغنیٰ القلب )( ۵ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۲ص۶۸۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۶۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۳۷۱۔

(۴)سفینةالبحارج۲ص۸۷ ،الحیات جلد ۳ ص ۳۴۲۔

(۵)تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۸۶

''دل کی فقیری جیسا کوئی فقر نہیں ہے اور دل ہی کے استغناجیسی کوئی مالداری بھی نہیں ہے''

امام ہادی کا ارشاد ہے:

(الغنیٰ قلّة تمّنِیکَ،والرضا بمایکفیک )( ۱ )

''استغناکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری خواہشات کم ہوں اور جتنا تمہارے لئے کافی ہے اسی پر راضی رہو''( خواہشات کا کم ہونا اور' بقدر کافی 'پر راضی ہوجانااستغناہے۔)

اس طرح اسلام نے استغنا کا تعلق سونے چاندی ،زمین جائداد سے ختم کر دیا اور اسے نفس کے متعلق قرار دیا ہے بلکہ اسلامی رو ایات تو اس سے بڑھ کریہاں تک بیان کرتی ہیں کہ جو افراد مال ودولت کے لحاظ سے ثروتمند ہوتے ہیں اکثر وہ افراد دل کے چھوٹے اور فقیر ہوتے ہیں۔

عموماًجب انسان دنیاوی لحاظ سے مالدار ہوتا ہے تو دل کا چھوٹا اور فقیر ہوتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ثروتمند ہونے اور نفس وقلب کے اعتبار سے چھوٹے اور فقیر ہونے میں کوئی معکوس رابطہ ہو۔نہیں ہرگز نہیں ان دونوں باتوں میں کوئی معکوس رابطہ نہیں ہے۔در حقیقت ایسی صورت حال ان عوارض کے باعث پیدا ہوتی ہے کہ جو عموماًمعاشرہ میں رائج ثروتمند ی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہے:

(۔۔۔وغنِیّها(الدنیا)فقیر )( ۲ )

'' ۔۔۔اور دنیا کا غنی فقیر ہوتا ہے''

حضرت امام زین العابدین نے فرمایا :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۸۷ص۳۶۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۱۴۔

۲۸۷

(من اصاب الدنیا اکثر،کان فیها أشَدّ فقراً )( ۱ )

''جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگا''

جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگایہ لازم و ملزوم کیوں ہیں ؟ ثروتمندی اور استغنا دونوں لفظ غنی کے ہی معنی ہیں مگر ان کے درمیان معکوس رابطہ کیوں پایا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب اوراس رابطہ کا سبب ہمیں امیر المومنین حضرت علی کی اس حدیث سے بخوبی معلوم ہو جائے گا آپ نے فرمایا :

(الغَنِیّ الشَّرِهُ فقیر )( ۲ )

''لالچی مالدار فقیر ہوتا ہے''

اس حدیث مبارک میں غنی سے مراد ثروتمند ہے اور فقیر سے مراد نفس و قلب کے اعتبار سے فقیر ہے اور اس حدیث میں جو لفظ''شرہ''حریص آیا ہے وہ اس معکوس رابطہ کو بیان کرتا ہے اس لئے کہ عام لوگوں کے لحاظ سے جس کے یہاں استغنا پایا جاتا ہے جو ثروتمند ہوتا ہے وہ عموماًحریص بھی ہوتا ہے اور عموماًجتنا مال ودولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے آدمی کی حرص و ہوس میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جب حرص و طمع میں اضافہ ہوگا تو انسان کی اذیت و پریشانی میں اضافہ ہوگا انھیں دونوں حقیقتوں کی جانب قرآن کریم نے اس آیت میںاشارہ کیا ہے ارشاد رب العزت ہے:

(انما یرید اللّٰه لیعذّبهم بها فی الحیاة الدنیا وتزهق انفسهم وهم کافرون )( ۳ )

''بس ﷲکا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت

____________________

(۱)خصال صدوق ج ۱ صفحہ ۶۴۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۲۲۔

(۳) سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

۲۸۸

کفرہی میں ان کی جان نکل جائے ''

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

(انما یرید اللّٰه أن یعذّبهم بها فی الدنیا )( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرے۔

حرص وطمع اسی وقت پایا جاتا ہے جب انسان قلب کے لحاظ سے فقیر ہو ۔نفس جتنا خالی ہو اور فقیر ہوگا حرص وہوس کا اظہار اتنا ہی شدید ہوگا ۔حضرت دائو د کے دور میں لوگوں کی یہی حالت تھی چنانچہ خداوند عالم نے انھیں تو بہ کرنے اور بارگاہ الٰہی میںواپس آنے کا حکم دیا۔

حرص و ہوس کس منزل تک پہونچ سکتے ہیں سورئہ ص کی یہ آیت اسکی بخوبی نشاندہی کرتی ہے:

(انّ هذا أخی له تسع وتسعون نعجة ولیَ نعجةً واحدة فقال:أکفلنیها و عزّنی فی الخطاب )( ۲ )

''یہ ہمارا بھائی ہے اسکے پاس ننّانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے یہ کہتا ہے وہ بھی میرے حوالے کردے اور اس بات میں سختی سے کام لیتا ہے ''

اقدار کے نظام میں انقلاب

اس طرح اسلام نے استغنا کے نئے معنی پیش کئے اور استغناکا تعلق زروجواہر اور مال و

دولت سے ختم کرکے اسے نفس اور قلب سے جوڑدیا ہے اس طرح قدروقیمت کا معیار مال وثروت کے بجائے نفس کو قرار دیا ۔

اسلام کی نگاہ میں انسان کی قدروقیمت اسکے مال ودولت اور منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے

____________________

(۱) سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

(۲)سورئہ ص آیت۲۳۔

۲۸۹

نہیں طے کی جاسکتی جیسا کہ جاہل افراد آج بھی یہی سوچتے ہیں بلکہ اسلام کی نگاہ میں انسانی قدروقیمت کی بنیاد ﷲپرایمان ،تقویٰ ،علم اور دیگر اخلاقی اقدار ہیں ۔اسلام لفظ ثروتمندی اور فقر کے اصل معنی کا منکر نہیں ہے بلکہ اسلام نے اس معنی کے مفہوم میں اضافہ کیا ہے کہ قدروقیمت کے تعیّن کے وقت بے نیازی اور فقر کے معاشی رخ کو ملحوظ نہ رکھاجائے قدروقیمت کا معیار فقروغنی ہی ہیں مگر اس مفہوم میں کہ جو اسلام نے پیش کیا ہے ۔

امیر المومنین کا ارشاد ہے :

(لیس الخیرأن یکثرمالک،ولکن الخیرأن یکثرعلمک،وأن یعظم حلمک،وأن تباهی الناس بعبادة ربک،فان أحسنت حمدت ﷲ،وأن أسأت استغفرت ﷲ )( ۱ )

''بھلائی یہ نہیں ہے کہ تمہارا مال زیادہ ہو بلکہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو۔حلم عظیم ہو اور عبادت پروردگار کو فخر ومباہات کا معیار قرار دو چنانچہ اگر تم نے اچھی طرح عبادت انجام دی ہوتو حمد خدا کرو اور اگر عبادت میں کمی کی ہوتو بارگاہ الٰہی میں استغفار کرو ''

چنانچہ جب قدروقیمت کا نظام بدل جائے گا تو خود بخود لوگوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت میں بھی فرق آجائے گا اس لئے کہ کسی بھی تہذیب میں اگر اقدار ایک جانب اپنے نظام سے جڑے ہوتے ہیں تو دوسری جانب انکا تعلق سماجی ،سیاسی معاشی اور علمی حیثیت و منزلت سے بھی ہوتا ہے ۔

اگر آج ہمیں جاہلیت زدہ مغربی تہذیب میں یہ نظر آتا ہے کہ اس تہذیب میں سرمایہ داری کا دخل کتنا ہے ،سیاست ،معاشیات اور پروپیگنڈہ پر سرمایہ کا کتنا تسلط اور غلبہ ہے ،صدراور حکومت کے انتخابات میں سرمایہ داری کا کتنا اہم کردار ہے میڈیا یہاں تک کہ سیاسی روابط سبھی کچھ سرمایہ داری

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۹۴۔

۲۹۰

کے تابع ہیں! ہماری نگاہ میں اسکا سبب یہ ہے کہ اس تہذیب کی بنیاد مادیت پر ہے نہ کہ اخلاقی اور روحانی اقدار پر۔ اسکے برخلاف اسلام کی نگاہ میں ان چیزوں کی بنیاد اخلاقی و روحانی اقدار ، بندہ کا اللہ سے رابطہ ،عدالت وتقوی اور علم پر استوار ہے ۔ارشاد پروردگار ہے:

( انّما یخشیٰ ﷲ من عباده العلمائُ ) ( ۱ )

''ﷲ سے ڈرنے والے اسکے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقیٰکُمْ ) ( ۲ )

''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ''

اسلام ،قائدا و رہبرمسلمین کے لئے تقویٰ اور عدالت کو ضروری قرار دیتا ہے اسی طرح قاضی،پیش نماز اورامین (جس کے پاس لوگ امانتیں رکھواتے ہیں) بہ الفاظ دیگر ان تمام افراد کے لئے تقوی و عدالت کو لازمی شرط قرار دیتا ہے جو سماج اور معاشرہ میں کسی بھی عنوان سے مقام ومنزلت کے مالک ہوں۔اسی لئے جب نظام اقدار میں تبدیلی آئے گی توخود بخودمعاشرہ کی سماجی،سیاسی،معاشی،علمی،دینی حیثیتوں میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔

اس طرح تین مرحلوں میں یہ عمل انجام پاتا ہے :

۱۔نظام اقدار میں تبدیلی

۲۔اقدار میں تبدیلی

۳۔سماجی اور سیاسی حیثیت میں تبدیلی

____________________

(۱)سورئہ فاطر آیت ۲۸۔

(۲)سورئہ حجرات آیت ۱۳۔

۲۹۱

اب جبکہ استغنا سے متعلق اسلامی نظریہ واضح ہو گیا اور لوگوں کی زندگی میں اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوگیا تو اب ہم نفس کے استغنا اور بے نیازی کے بارے میں کچھ بیان کرسکتے ہیں جس کے بارے میں حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں ''جعلت غناہ فی نفسہ ''

نفس کی بے نیازی

سوال یہ کہ نفس کی بے نیازی ہے کیا ؟اور ہم اپنے اندر یہ بے نیازی کیسے پیدا کرسکتے ہیں ؟

در اصل نفس کی بے نیازی اس میں مضمر ہے کہ انسان مادیات اور دنیا پر اعتماد نہ کرے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھے اس لئے کہ دنیا فانی ہے اور ذات الٰہی دائمی ، ما دیات محدود ہیں اور خدا کی سلطنت لا محدود ۔

لہٰذا جب انسان اللہ پر توکل اور بھروسہ کے سہارے مستغنی اور بے نیاز ہوگا تو کبھی بھی کمزوری اور نا توانی محسوس نہیں کرے گا ۔حالات کتنے ہی منقلب کیوں نہ ہو جا ئیں ،آسانیاں سختیوں میں تبدیل کیوں نہ ہو جا ئیں اللہ پر توکل کرنے والے کے پائے ثبات متزلزل نہ ہوں گے کیونکہ ایسی بے نیازی نفس سے تعلق رکھتی ہے اور کسی بھی عالم میں نفس سے جدا نہیں ہو سکتی ہے ۔

مو لائے کائنات متقین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(فی الزلازل وقور،وفی المکاره صبور )( ۱ )

''(متقین)مصائب وآلام میں با وقار اور دشواریوں میں صابر ہوتے ہیں''

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بے نیازی نفس کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے اور کو ئی بھی پریشانی یا سختی اس بے نیازی کو ان سے جدا نہیں کر سکتی اور یہ بے نیازی اللہ پر ایمان ،اعتماد ،توکل اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے حاصل ہو تی ہے ۔در اصل بے نیازی یہی ہے اوراس سے بڑھکر کو ئی بے نیازی

۔____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳۔

۲۹۲

نہیں ہو سکتی ہے اور حالات کی تبدیلی اس پر اثر انداز نہیں ہو تی ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاارشاد گرامی ہے :

(یا أباذراستغنِ بغنیٰ ﷲ تعالیٰ،یغنک ﷲ )( ۱ )

''ا ے ابوذراللہ کی بے نیازی کے ذریعہ مستغنی بنو اللہ (واقعاً)بے نیاز بنا دے گا ''

مولائے کائنات کا ارشاد ہے :

(الغنیٰ باللّٰه أعظم الغنیٰ،والغنیٰ بغیرﷲ أعظم الفقروالشقائ )( ۲ )

''اللہ کے ذریعہ استغناسب سے بڑا استغنا ہے اور اللہ کے بغیر استغنا سب سے بڑا فقر اور شقاوت ہے ''

اس معیار کے بموجب اللہ پر جتنا زیادہ توکل اور بھروسہ ہوگا انسان اتنا ہی زیادہ مستغنی ہوگا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرا می ہے:

(مَن أحبّ أن یکون أغنیٰ الناس فلیکن بما فی ید اللّٰه أوثق منه مما فی یده )( ۳ )

''جو سب سے بڑا مستغنی ہو نا چا ہتا ہے اسے چاہئیے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے ا س سے زیادہ اس پر بھروسہ کرے جو خدا کے پاس ہے ''

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ پر توکل کا مطلب مادی اسباب کو نظر انداز کرنا نہیں ہے مادی اسباب کو نظر انداز کرنا سنت الٰہی سے انحراف ہے اور اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔بلکہ توکل کا مطلب ہے غیر کے بجائے صرف اور صرف ذات پروردگار پر اعتماد و اعتبار کرنا ۔اگر یہ اعتماد ہے تو اپنے مقصود تک پہونچنے کے لئے کسی بھی طرح کے اسباب ووسائل اختیار کرنا توکل کے خلاف نہ ہوگا۔

____________________

(۱)مکارم الاخلاق ص ۵۳۳۔

(۲)غرر الحکم ج۱ ص۹۱۔۹۲۔

(۳)تحف العقول ص۲۶۔

۲۹۳

بے نیازی(استغنا)کے ذرائع

جن چیزوں کے ذریعہ انسان بے نیازی حاصل کرسکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ہم یہاں پر ان میں سے صرف اہم ترین عوامل کا تذکرہ کریں گے ۔

۱۔یقین:

ذات پروردگار پر یقین بے نیازی کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اس لئے کہ اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ خدا اپنے بندوں پر مہربان رہتا ہے لطف و کرم کرتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوریہ بھی یقین ہوکہ وہی رازق ہے رئووف ورحیم ہے ۔اسکی رحمت وعنایت کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والانہیں ہے اسکے خزانہ میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے اور کثرت عطا سے اسکے جود وکرم میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے تو انسان کبھی بھی فقرواحتیاج کا احساس نہیں کرسکتا۔

فقرواحتیاج کا احساس اسی وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کے پاس ایسا یقین مفقود ہو اور ایمان، یقین کی منزل تک نہ پہونچاہو۔یقین ہی ایمان کا سب سے بلند درجہ ہے بندوں کو ملنے والا سب سے بہترین رزق یقین ہے ۔

مولائے کائنات کا ارشاد گرامی ہے :

(مفتاح الغنیٰ الیقین )( ۱ )

''یقین بے نیازی کی کنجی ہے ''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(کفیٰ بالیقین غنیً،وبالعبادة شغلاً )( ۲ )

''بے نیازی کے لئے یقین کافی ہے اورعبادت بہترین مشغلہ ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۹۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۸۵۔

۲۹۴

۲۔تقویٰ:

بے نیازی کے اسباب وعوامل میں تقویٰ بھی اہم ترین عامل ہے ۔انسان جب احکام خداکا پابند ہوگا اور حدود الٰہیہ کا خیال رکھے گا تواللہ اس کے دل کو بے نیاز بنادے گا اور اس کے فقرواحتیاج کوختم کردے گا ۔

پیغمبر اکرم ْصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(کفیٰ بالتقیٰ غنیٰ )( ۱ )

''مستغنی ہونے کے لئے تقویٰ کافی ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا:

(یاجابر ان أهل التقویٰ هم الأغنیائ،أغناهم القلیل من الدنیا،فمؤنتهم یسیرة،ان نسیت الخیرذکّروک،وان عملت به أعانوک،أخّرواشهوا تهم و لذّا تهم خلفهم،وقدّموا طاعة ربّهم أمامهم )( ۲ )

''اے جابر صاحبان تقویٰ ہی مالدار ہیں ان میں بھی سب سے بڑا غنی وہ ہے دنیاجس کا میں تھوڑاحصہ ہو ان کے اسباب معیشت بہت مختصر ہوتے ہیں اگر تم عمل خیر کوبھول جائوتو یہ تمہیں یاد آوری کریں گے اگر تم عمل خیر کروگے تو تمہارے معاون ومددگار ہوںگے وہ اپنے خواہشات کو موخر اور لذتوں کو پس پشت رکھتے ہیں ان کے پیش نظر صرف اطاعت پروردگار ہوتی ہے اور وہ اسی کو مقدم رکھتے ہیں ''

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق سے مروی ہے :

(من أخرجه ﷲ تعالیٰ من ذل المعاصی الیٰ عزّ التقویٰ،أغناه ﷲبلا مال،

____________________

(۱)تحف العقول ص۳۰۔

(۲) تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۹۵

وأعزّه بلا عشیرة،وآنسه بلا أنیس )( ۱ )

''خداجسے گناہوں کی ذلت سے نکال کر تقویٰ کی عزت سے سرافراز کرتاہے اسے بغیر مال کے غنی ،بغیر خاندان و قبیلہ کے عزیز اور ساتھیوں کے بغیر تسکین قلب اور انسیت عطا کردیتا ہے''

اس حدیث شریف میں نفس کی بے نیازی کے بعینہ وہی معنی پائے جائے ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ نفس مال وثروت کے بغیر بھی غنی ہوسکتا ہے بغیر خاندان کے صاحب عزت بن سکتا ہے ہم نوا اور مونس کے بغیر بھی اپنی وحشتناک تنہائی کا مداوا کرسکتا ہے ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے نیازی کا منبع و سرچشمہ تقویٰ الٰہی ہے اسی تقوے کے ذریعہ نفس انسانی اپنے اندر عزت وانس کا احساس کرتا ہے اس لئے کہ جب انسان متقی اور حدود و احکام الٰہیہ کا پابند ہوگا تواللہ بھی اسکے نفس کو غنی بنادے گا اور اس سے فقروذلت اور وحشت کو دور رکھے گا۔

جس حدیث قدسی کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں:

(لایؤثرهوای علیٰ هواه الاجعلت غناه فی نفسه )

''کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہشات پر ترجیح نہیں دے گا مگر یہ کہ میں اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوںگا''

اور مخالفت نفس کا ہی نام تقویٰ ہے جس کا دوسرا نام اطاعت پروردگار ہے ۔

۳۔شعور :

یقین و تقویٰ اگر بے نیازی اور استغنا کی کنجی ہیں تو فہم و شعور یقین و تقویٰ کی کنجی اور ان تک پہونچنے کا راستہ ہے انسان فقط جہالت کے باعث ہی تقویٰ اور یقین سے محروم ہو سکتا ہے یہاں فہم و شعور سے ہماری مراد تدبر و تعقل ہے اسلامی روایات میں یہ معنی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)وسائل الشیعہ ج۱۱ص۱۹۱۔

(۲)عدّةالداعی،ابن فھد حلی۔

۲۹۶

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(لاغنیٰ مثل العقل )( ۱ )

''عقل کے مانند کو ئی بے نیازی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(ان أغنیٰ الغنیٰ:العقل )( ۲ )

''سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ''

نیز آپ نے فرمایا ہے :

(غنیٰ العاقل بعلمه،وغنی الجاهل بماله )( ۳ )

''عاقل اپنے علم اور جا ہل اپنے مال کے ذریعہ مستغنی ہوتا ہے''

مشہور و معروف حدیث کے مطابق امام مو سیٰ کاظم نے اپنے صحابی ہشام بن حکم سے فرمایا :

(یاهشام:من أراد الغنیٰ بلا مال،وراحة القلب من الحسد،والسلامة فی الدین،فلیتضرّع الیٰ ﷲ فی مسألته بأن یکمل عقله )( ۴ )

''اے ہشام جو انسان مال کے بغیر بے نیازی کا خواہاں ہو،اپنے قلب کو حسد سے محفوظ رکھنا چاہتا ہو ،دین کی سلامتی چاہتا ہو اس کو تضرع و زاری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں دعا کرنا چاہئے کہ خداوند عالم اس کی عقل کو سالم کردے ''

____________________

(۱)تحف العقول ص۱۴۲۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۳۸۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۴۷۔

(۴)تحف العقول ص۲۸۶۔

۲۹۷

حیات انسانی میں بے نیازی کے آثار

انسانی زندگی میں نفس کی بے نیازی کے بہت فائدے ہیں چونکہ پروردگار جس کے نفس کو بے نیازی عطا کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے خدا سے رابطہ کا احساس کرتا ہے اسے ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے اور ہر وقت تائید و عنایت الٰہی اس کے شامل حال ہے لہٰذا وہ تائید و عنایت الٰہی کے باعث سکون و اطمینان کی زندگی بسرکرتا ہے اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی کبھی مجھے میرے نفس کے حوالے کرے گا ۔

اس طرح اس کی زندگی میں مکمل اعتماد و اعتبار، اطمینان ،ثبات قدم اورسکون قلب تو نظر آتا ہے مگر کبھی بھی حرص و ہوس ،حسد ،لالچ اوراضطراب و پریشانی نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام نفسانی بیماریاں نفس کی کمزوری اور فقر سے پیدا ہوتی ہیںجس کی طرف ابھی ہم نے حضرت امام مو سیٰ کاظم کی حدیث کے ذیل میں اشارہ کیا تھا ۔

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(أغنیٰ الغنیٰ من لم یکن للحرص أسیراً )( ۱ )

''سب سے بڑا غنی وہ ہے جو حرص و ہوس کا اسیر نہ ہو ''

امیر المو منین حضر ت علی کا ارشاد ہے :

(أشرف الغنیٰ،ترک المنیٰ )( ۲ )

''شریف ترین بے نیازی ، خواہشات کا ترک کرناہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ ص۳۱۶۔

(۲)اصول کافی ج۸ ص ۲۳۔

۲۹۸

(الغنیٰ الاکبر:الیأس عمّافی أیدی الناس )( ۱ )

''سب سے بڑی بے نیازی یہ ہے کہ انسان اس کا امید وار نہ ہو جو لوگوں کے پاس ہے ''

اور جب مال نفس کو بے نیاز نہ بنا سکے تو پھر وہ اضطراب و بے چینی کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کے حرص و طمع اور مشکلات میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّمایریداللّٰه لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیا وتزهق أنفسهم ) ( ۲ )

''پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انھیں(اموال واولاد) کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر میں ہی ان کی جان نکلے ''

( انّما یرید اللّٰه أن یعذبهم بها فی الدنیا و تزهق أنفسهم ) ......( ۳ )

''اور خداان کے(اموال واولاد) ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کفر کی حالت میں ان کا دم نکلے ''

۲۔ضمنت السمٰوات:

''زمین و آسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں''

یہ جملہ ان لوگوںکی دوسری جزا ہے جو ﷲکے احکام کو اپنے خواہشات پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنے خواہشات کو حکم وارادئہ الٰہی کا تابع بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں کو خدا جزا وانعام سے نواز تا ہے ان کی پہلی جزا تو یہ تھی کہ خدا ان کے نفس کو غنی بنادیتا ہے جس کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں اور ان کی دوسری جزا اور انعام یہ ہے کہ آسمان وزمین ان کے رزق کے ضامن ہوتے ہیں۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۳۴۲۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۳)سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

۲۹۹

واضح سی بات ہے کہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان رزق حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ﷲاس کی سعی کو کامیاب بنادیتا ہے اور اسے توفیق عطا کرتا ہے۔

توفیق

ﷲنے توفیق کی بنا پر زمین وآسمان کو ضامن بنایا ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسانی کوشش رائیگاںچلی جاتی ہے اور اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان برسوں ہاتھ پیر مارتا ہے جد وجہد کرتا ہے لیکن اپنے مقصود تک نہیں پہونچ پاتا اسکے برخلاف کبھی تھوڑی سی جدو جہد ہی نیک اور با برکت ثمرات کا سبب بن جاتی ہے یہ صرف حسن توفیق اور بے توفیقی کی بات ہے۔اور یہ طے ہے کہ خدا ہی توفیق دینے والا ہے۔

مومن اپنے خواہشات پراحکام خدا کو ترجیح دیتا ہے توخداوند عالم بطورجزازمین و آسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادیتا ہے ۔تو یہ بھی توفیق کی بنیاد پر ہے ۔یہاں توفیق کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم اسکی سعی وکوشش کو مفید وکارآمد جگہ پر لگادیتا ہے جس سے یہ سعی وکوشش نتیجہ خیزبن جاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے زرخیززمین پر بارش ہوتی ہے البتہ کبھی بارش ہوتی ہے مگر زمین سے دانہ نہیں اگتاہے اور بارش کا پانی ضائع ہوجاتا ہے لیکن اگر زرخیز زمین پر تھوڑی سی بارش مناسب موقع پر ہوجائے تو خیر کثیر کا باعث بن جاتی ہے اور سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ توفیق ایک الگ چیز ہے اسکا انسان کی کوشش اور جد وجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے انسان جدوجہد کرسکتا ہے مگر توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ تھوڑے اسباب توفیق انسان کے ہاتھ میں ہیں لیکن جو اسباب توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہیں انکی تعداد کئی گنا زیادہ ہے جو سب کے سب خداکے ہاتھ میں ہیں ۔خدا جب کسی بندہ کو توفیق سے نوازتا ہے تو اسکی زندگی اور جدوجہد بابرکت بن جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے جناب عیسیٰ کی ز بانی نقل کیا ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349