خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96661 / ڈاؤنلوڈ: 4139
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

سودہ زوجہ رسول(ص) کی گفتگو

چنانچہ صحاح کے اندر اور آپ کے محدثین و مورخین کی کتابوں میں درج ہے کہ سودہ زوجہ رسول خدا(ص) سے لوگوں نے کہا کہ تم حج وعمرہ کیوں نہیں کرتیں اور اس سعادت عظمی سے کس لیے محروم ہو؟ سودہ نے جواب دیا کہ مجھ پر ایک مرتبہ حج واجب تھا اس کو بجالائی، اب اس کے بعد میرا حج و عمرہ حکم خداوندی کی اطاعت ہے کیونکہ اس کا ارشاد ہے "وَ قَرْنَ فِي بُيُوتِكُنَّ " ( یعنی اپنے گھروں میں سکون سے بیٹھو 12 مترجم) بس میں اس کی تعمیل میں گھر سے باہر نہیں نکلوں گی بلکہ میرا تو ارادہ یہ ہے کہ جس حجرے میں رسول اللہ(ص) مجھ کو بٹھا گئے ہیں حتی الامکان اس سے بھی قدم باہر نہ رکھوں گی یہاں تک کہ مرجائوں ( چنانچہ انہوں نے کیا بھی یہی کہ گھر سے باہر نہیں نکلیں ان کا جنازہ ہی باہر نکلا)

ہمارے لیے سودہ یا عائشہ اور ام سلمہ میں کوئی فرق نہیں سبھی پیغمبر(ص) کی بیویاںاور امہات المومنین ہیں۔ البتہ ان کے اعمال کے لحاظ سے فرق ہے۔

امت کے نزدیک عائشہ و حفصہ کا جو احترام ہے وہ اس وجہ سے نہیں کہ ابوبکر و عمر کی بیٹیاں تھیں( اگر چہ آپ اسی جہت سے احترام کرتے ہیں) بلکہ اس لیے ہے کہ رسول اللہ(ص) کی زوجہ اور شریک حیات تھیں۔ لیکن ازواج رسول(ص) کو فخر و شرف اسی وقتحاصل ہوگا جب وہ متقی اور پرہیز گار ہوں جیسا کہ آیت نمبر31 سورہ نمبر33 ( احزاب) میں صاف صاف ارشاد ہے۔

"يا نِساءَ النَّبِيِ‏ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِنَ النِّساءِ إِنِ اتَّقَيْتُنَّ ."

جس کا مطلب یہ ہے کہ اے زنان پیغمبر(ص) تم کسی دوسری عورت کے مانند نہیں ہو ( یعنی شرافت فضیلت کی حیثیت سے سب پر فوقیت رکھتی ہو) لیکن شرط یہ ہے کہ خدا ترسی اور پرہیز گاری اختیار کرو۔

علی علیہ السلام سے عائشہ کی مخالفت اور جنگ

پس سودہ رسول اللہ(ص) کی ایک متقی اور مطیع و فرمانبردار بیوی تھیں، اور عائشہ آں حضرت(ص) کی و سرکش زوجہ تھیں جو طلحہ و زبیر کے فریب میں آکر( یا حضرت علی علیہ السلام سے اپنے ذاتی بغض و عداوت کی بنا پر) بصرہپہنچیں جہاں علی علیہ السلام کی طرف سے والی بصرہ اوربزرگ صحابی عثمان ابن حنیف کو گرفتار کر کے ان کے سر اور چہرے کے سب بال اکھاڑ ڈالے گئے۔ تازیانوں کی زبردست مار دے کر ان کو نکال دیااور بیچارے سو(100) نفر سے زیادہ نہتے لوگوں کو قتل کردیا گیا۔ چنانچہ ابن اثیر، مسعودی، محمد بن جریر طبری اور ابن ابی الحدید وغیرہ سب نے سب اس کو تفصیل سے لکھا ہے۔

۱۴۱

اس کے بعد عسکرنامی اونٹ پر سوار ہو کر جس کو تیندوے کی کھال اور زرہ پہنائی گئی تھی ایک( زمانہ جاہلیت کے ) جنگی سپاہی کے میدان میں آگئیں اور محض ان کی بغاوت کی وجہ سے ہزاروں مسلمانوں کے خون بہہ گئے۔ آیا یہ داغ نہیں تھا کہ بے حیثیت اور خدا ناشناس لوگ اپنی عورتوں کو تو گھروں کے اندر پردے میں بٹھائیں لیکن رسول خدا(ص) کی بیوی کو اس نصیحت و رسوائی کے ساتھ مجمع عام میں لا کھڑی کریں۔

آیا یہ اقدام خدا و رسول(ص) کے حکم سے سرتابی نہیں تھا؟

فضائل علی(ع) شمار سے باہر ہیں

اور وہ بھی علی ابن ابی طالب علیہ السلام کی ایسی بزرگ شخصیت کے مقابلے میں جس کے فضائل و مناقب میں خود آپ کے اکابر علماءنے اتنی کثرت سے روایتیں نقل کی ہیں کہ ان کا شمار و احصار و شواہد ہے۔

چنانچہ امام احمد ابن حنبل مسند میں، ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ میں، امام فخرالدین تفسیر کبیر میں خطیب خوارزمی مناقب میں، شیخ سلیمان بلخی حنفی ینابیع المودت میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی کفایت الطالب باب64 میں اور میر سید علی ہمدانی شافعی مودۃ القربی مودت پنجم میں خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب اور جرامت عبداللہ بن عباس سے نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلعم نے علی علیہ السلام سے فرمایا:

" لو انّ‏ البحر مداد و الغياض اقلام و الإنس كتّاب و الجنّ حسّاب ما احصوا فضائلك يا ابا الحسن"

یعنی اگر سمندر روشنی بن جائے، درخت قلم بن جائیں، سارے انسان لکھنے والے ہوں اور پوری قوم جن حساب کرنے والی ہو تب بھی اے ابو الحسن(ع) تمہارے فضائل کا شمار نہیں کرسکتے۔

جن بزرگوار کے حق میں جناب رسالت ماب ایسے کلمات ارشاد فرمائیں کہ تمام جن و انس مل کر بھی ان کے فضائل کا حساب نہیں کرسکتے تو بھلا ہم لوگ اپنی کند زبانوں اور شکستہ قلموں سے آپ کے مراتب و مناقب عالیہ کا حصر کیونکر کرسکتے ہیں؟

پھر بھی جہاں تک طاقت و قدرت تھی اکابر علمائے شیعہ کے علاوہ خود آپ کے علماء نے باوجود اپنے پورے تکلف کے اور بعض نے اپنے انتہائی تعصب کے بعد بھی جیسے قوشجی ، ابنحجر اور روز یہاں وغیرہ نے حضرت علی(ع) کا لا تعداد لا تحصی فضائل میں سے صرف ایک جز کو درج کر کے اپنی کتابوں کو بھر دیا ہے۔

۱۴۲

علی(ع) کے فضائل و مناقب میں روایتیں

آپ صحاح ستہ کو غور سے ملاحظہ فرمائیے۔ ان کے علاوہ مودت القربی پر سید علی ہمدانی ، معجم طبرانی، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی، مسند وفضائل امام احمد بن حنبل جمع بین الصحیحین حمیدی مناقب اخطب الخطباء خوازرمی، شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید جلد دوم ص449 اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی بالخصوص ص124 میں کتاب معالم العترۃ النبویہ حافظ عبدالعزیزبن الاخضر الجنابذی سے بروایت جناب فاطمہ زہرا صلوات اللہ علیہا نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا میرے پدر بزرگوار حضرت رسول خدا(ص) عرفہ کی شام کو ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا:

" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ َو جَل بَاهَى‏ بِكُمْ‏ الملَائِکةَعَامَّةً وَ غَفَرَ لَكُمْ عَامَّةً وَ لِعَلِيٍّ خَاصَّةً وَ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ غَيْرَ مُحَابٍ لِقَرَابَتِي هَذَا جَبْرَئِيلُ يُخْبِرُنِي أَنَّ السَّعِيدَ كُلَّ السَّعِيدِ حَقَّ السَّعِيدِ مَنْ أَحَبَّ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ مَوْتِهِ وَ إِنَّ الشَّقِيَّ كُلَّ الشَّقِيِّ حَقَّ الشَّقِيِّ مَنْ أَبْغَضَ عَلِيّاً فِي حَيَاتِهِ وَ بَعْدَ ممَاَتِهِ."

یعنی خدائے عزوجل فرشتوں کے سامنے بالعموم تم لوگوں پر فخر کرتا ہے اور بالعموم تم لوگوں کوبخش دیا ہے اور خصوصیت کے ساتھ علی(ع) کو اور میں جو کہ خدا کا رسول(ص) ہوں بغیر رشتے اور قرابت والے جذبہ محبت کے کہتا ہوں کہ در حقیقت پوری سعادت کے ساتھ سعید و نیک بخت وہی ہے جو علی(ع) کو ان کی زندگی میں اور وفات کے بعد دوست رکھے اور پوری شقاوت کے ساتھ شقی و بد بخت دہی ہے جو علی(ع) سے ان کی زندگی میں اور موت کے بعد بغض رکھے۔

انہیں کتابوں میں ایک مفصل حدیث جس کو غالبا میں گذشتہ شبوں میں عرض بھی کرچکاہوں۔ خلیفہ عمر ابن خطاب سے وہ رسول اللہ(ص) سے نقل کرتے ہیں جس کے آخر میں علی علیہ السلام سے فرمایا:

"كَذَبَ‏ مَنْ‏ زَعَمَ‏ أَنَّهُ‏ يُحِبُّنِي‏ وَ هو مُبْغِضُكَ يَا عَلِيُّ مَنْ اَحبَّکَ فقَد اَحبَّنی وَمَن اَحبَّنیفَقَد اَحَبّه اللهُ وَمَن اَحَبّه اللهُ اَدخَلهُ الجَنَّة وَ مَنْ أَبْغَضَكَ فَقَدْ أَبْغَضَنِي وَ مَنْ أَبْغَضَنِي فَقَدْ أَبْغَضَ اللَّهَ وَ أَدْخَلَهُ النَارَ."

یعنی جھوٹا ہے وہ شخص جو اے علی(ع) تم کو دشمن رکھتا ہو اور پھر میری دوستی کا دعوی کرے، اے علی(ع) جس نے تم کو دوست رکھا اس نے مجھ کو دوست رکھا اور جسنے مجھ کود وست رکھا اس کو خدا دوست رکھتا ہے اور جسکو خدا دوست رکھتا ہے اس کو جنت میں داخل کرتا ہے۔ اور جس نے تم کو دشمن رکھا اس نے مجھ کو دشمن رکھا اور جس نے مجھ کو دشمن رکھا اس کو خدا دشمن رکھتا ہے اور دوزخ میں ڈل دیتا ہے۔

۱۴۳

علی(ع) کی دوستی ایمان اور آپ(ع) کی دشمنی کفر و نفاق ہے

نیز کتاب الآل ابن خالویہ سے بروایت ابو سعید خدری نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے فرمایا :

"حبّک‏ إيمان‏، و بغضک نفاق و اول من يدخل الجتة مجبک و اول من يدخل النار مبغضک."

یعنی اے علی(ع) تمہاری محبت ایمان اور تمہاری عداوت نفاق ہے، اور سب سے پہلے جو شخص جنت میں داخل ہوگا، وہ تمہارا دوست ہوگا اور سب سے پہلے جو شخص جہنم واصل ہوگا وہ تمہارا دشمن ہوگا۔

میرسید علی ہمدانی شافعی مودت القربی مودت سیم میں اور حموینی فرائد میں نقل کرتے ہیں کہ پیغمبر(ص) نے اصحاب کے درمیان فرمایا:

"لا يحب عليا الا مومن و لا يبغضه الا کافر"

یعنی علی(ع) کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور ان کو دشمن نہیں رکھتا لیکن کافر۔

اور دوسرے مقام پر فرمایا:

" لا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق"

یعنی اے علی(ع) تم کو دوست نہیں رکھتا لیکن مومن اور دشمن نہیں رکھتا لیکن منافق۔

محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب باب62 ص119 میں تاریخ دمشق، محدث شام اور محدث عراق سے اور انہوں نے حذیفہ اور جابر سے روایت نقل کیا ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا:

" عَلِيٌ‏ خَيْرُ الْبَشَرِ مَنْ أَبَى فَقَدْ كَفَرَ.."

یعنی علی(ع) بہترین بشر ہیں، جو شخص اس سے انکار کرے وہ کافر ہے۔

نیز عطا سے روایت کی ہے کہ لوگوں نے عائشہ سے علی(ع) کا حال دریافت کیا تو انہوں نے کہا:

"ذَاكَ‏خَيْرُالْبَشَرِ، لاَ يَشُكُّ "( یعنی یہ بترین بشر ہیں، اس میں سوا کافر کے کوئی شک نہیں کرتا ۔)

اور کہتے ہیں کہ حافظ ابن عساکر اپنی تاریخ میں جس کو سو(100) جلدیں ہیں اور ان میں سے تین جلدیں علی علیہ السلام کے فضائل و مناقب میں ہیں پچاسویں جلد میں عائشہ سے اسی روایت کو نقل کیا ہے۔

محمد بن طلحہ شافعی مطالب السئول ص17 میں اور ابن صباغ مالکی فصول المہمہ ترمذی اور نسائی سے اور وہ ابوسعید خدری سے نقل کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا :

"مَا كُنَّا نَعْرِفُ‏ الْمُنَافِقِينَ‏ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ ص إِلَّا بِبُغْضِهِمْ عَلِيّاً "

یعنی ہم زمانہ رسول(ص) میں منافقین کو صرف علی(ع) کی عداوت سے پہنچانتے تھے۔

نیز فصول المہمہ میں نقل کرتے ہیں کہ رسول اکرم

۱۴۴

صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے امیرالمومنین علی علیہ السلام سے فرمایا:

"حربک حربی و دمک دمی و انا حارب لمن حاربک لا يحبك‏ إلّا طاهر الولادة، و لا يبغضك إلّا خبيث الولادةلا يحبك‏ الّا مؤمن و لا يبغضك الامنافق."

یعنی اے علی(ع) تم سے جنگکرنا مجھ سے جنگ کرنا ہے، تمہارا خون میرا خون ہے اور جو شخص تم سے جنگ کرے اس سے میری بھی جنگ ہے۔ تم سے وہی محبت رکھتا ہے جو حلال زادہ ہے اور تم سے وہی بغض رکھتا ہے جو ولد الحرام ہو۔ تم کو دوست نہیں رکھتا مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق۔

شیخ : اس قسم کی حدیثیں صرف علی کرم اللہ وجہہ سے مخصوص نہیں، بلکہ خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کے بارے میں بھی وارد ہوئی ہیں۔

خیر طلب: ممکن ہو تو ان حدیثوں میں سے کوئی نمونہ بیان فرمائیے تاکہ حقیقت کھل جائے۔

شیخ : عبدالرحمن ابن مالک مغول اپن سند کے ساتھ جابر سے نقل کرتے ہیں کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"لا يبغـضابابکر و عمر مومن و يحبهما منافق"

یعنی ابوبکر و عمر کا بغض مومن اور محبت منافق نہیں رکھتا۔

خیر طلب : آپ کے بیان سے پھر مجھ کو تعجب ہوا۔ کیا آپ پہلی شب کا یہ معاہدہ بھول گئے کہ ہم لوگ یکطرفہحدیثوں سے استدلال نہیں کریں گے؟ پھر بھی اگر آپ ایسا کرنا ہی چاہتے ہیں تو اس قسم کے ضعیف و موضوع اور ناقابل قبول حدیثیں نہیں جن کے راوی جھوٹے اورجعلساز ہوں بلکہ صحیح الاسناد احادیث پیش کیجئے۔

شیخ : آپ نے طے کر لیا ہے جو حدیث بھی ہم سے سنیں گے اس کو اہانت کے ساتھ رد کریں گے۔

خیر طلب: مجھ کو افسوس ہے کہ تنہا میں نے ہی تردید نہیں کی ہے بلکہ خود آپ کے اکابر علماء نے بھی رد کیا ہے بہتر ہوگا کہ آپ میزان الاعتدلال ذہبی اور تاریخ خطیب بغدادی جلد دہم ص236 کی طرف رجوع کیجئے تو نظر آئے کہ اکثر ائمہ جرح و تعدیل نے عبدالرحمن ابن مالک کے حالات میں نقل کیا ہے کہ انہ کذاباناک وضاع لا یشک فیہ احد۔ یعنی در حقیقت یہ ( عبدالرحمن) سخت جھوٹا، بڑا تہمت باندھنے والا اور بہت حدیثیں گڑھنے والا ہے جس میں کسی شخص کو بھی شک و شبہ نہیں۔

آپ کو خدا کا واسطہ انصاف سے بتائیے کہ آیا آپ کی یک طرفہ حدیث جو ایک دروغ گو اور جعل ساز شخص سے مروی ہے ان تمام احادیث وروایات کا مقابلہ کرسکتی ہے جو آپ کے اکابر علماء سے منقول ہیں اور جن میں سے بعض نمونے کے طور پر پیش کی جاچکی ہیں؟

مہربانی کر کے جامع الکبیر سیوطی جلد ششم ص390، ریاض النظرہ محب الدین جلد دوم ص215 جامع ترمذی جلد دوم ص299، استیعاب ابن عبد البر جلد سیم ص49، حلیتہ الاولیاء حافظ ابونعیم جلد ششم ص295، مطالب السئول محمد بن طلحہ شافعی ص17، اور فصول المہمہ ابن صباغ مالکی ص126، کو ملاحظہ فرمائیے کہ ہر ایک نے مختلف عبارتوں کے ساتھ ابوذر غفاری سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا :

"ما كنّا نعرف‏ المنافقين‏ على عهد رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله إلّابثلاث بتكذيبهم اللّه و رسوله،

۱۴۵

و التخلّف عن الصلوات، و بغضهم علي بن أبي طالب و عن ابی سعيد الخدری كنّا نعرف‏ المنافقين‏ إلّا ببغضهم عليّا و ما کنا نعرف المنافقين علی عهد رسول الله الا ببغضهم عليا."

یعنی ہم لوگ عہد رسول(ص) میں منافقین کو صرف تین علامتوں سے پہچانتے تھے، خدا و رسول(ص) کو جھٹلانے سے ، ترک نماز سے اور علی ابن ابی طالب(ع) کی عداوت سے ، اور ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا ہم منافقین کو بغض علی(ع) سے پہچانتے تھے اور عہد رسول(ص) میں ہمارے پاس منافقین کی سوا اس کے اور کوئی پہچان نہیں تھی کہ وہ علی(ع) سے دشمنی رکھتے تھے۔

نیز امام احمد بن حنبل نے مسند جلد اول ص95 و ص138 میں، ابن عبدالبر نے استیعاب جلد سیم ص137 میں، احمد خطیب بغدادی نے تاریخ بغداد جلد چہاردہم ص426 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص264 میں، امام نسائی نے سنن جلد ہشتم ص117، او خصائص العلوی ص27 میں، حموینی نے فرائد باب 22 میں ابن حجر نے اصابہ جلد دوم ص509 میں، حافط ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء جلد چہارم ص185 میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ ص15، سیوطی نے جامع الکبیر ص152، ص408 میں، محمد ابن طلحہ شافعی نے مطالب السئول ص17 میں اور ترمذی نےجامع جلددوم ص13 میںمختلف عبارات کےساتھ کہیں ام سلمہ اور کہیں ابنعباس سے روایت کی ہے کہ رسول اکرم صلعم نے فرمایا :

" ياعلی ال يحبک منافق و لا يبغضک مومن لا يحبک الا مومن و لا يبغضک الا منافق ال يحب عليا المنافق و لا يبغضه مومن"

یعنی اے علی(ع) منافق تم سے محبت نہیں رکھتا اور مومن تم سے بغض نہیں رکھتا۔ تم کو دوست نہیں رکھتا۔ مگر مومن اور تم کو دشمن نہیں رکھتا مگر منافق، علی سے منافق محبت نہیں رکھتا اور مومن ان سے عداوت نہیں رکھتا۔

اور ابن ابی الحدید شرح نہج البلاغہ جلد اول ص364 میں شیخ معتزلہ شیخ ابوالقاسم بلخی سے نقل کرتے ہیں کہ وہ کہتے ہیں :

"و قد اتفقت الاخبار الصحيحه التی لا ريب فيها عند المحدثين علی ان النبی قال له لايبغضک الا منافق و لا يحبک الا مومن"

یعنی اخبار صحیحہ کا اتفاق ہے اور تمام محدیثیں اس پر متفق ہیں کہ یقینا پیغمبر(ص) نے علی(ع) سے فرمایا کہ تم کو سوا منافق کے کوئی دشمن نہیں رکھتا اور سوا مومن کے کوئی دوست نہیں رکھتا۔

نیز جلد چہارم ص264 میں امیرالمومنین علیہ السلام کا ایک خطبہ نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

"لو ضربت خيشوم المؤمن بسيفي هذا على أن يبغضني ما أبغضني، و لو صببت الدنيا بجملتها على المنافق أن يحبّني ما أحبّني، و ذلك أنّه قضي فانقضى على لسان النبيّ الامّي صلّى اللّه عليه و آله و سلّم: أنّه لا يبغضك مؤمن و لا يحبّك‏ منافق."

یعنی اگر میں اپنی اس تلوار سے مومن کی ناک پر ماروں کو مجھ کو دشمن رکھے تب بھی وہمجھ سے دشمن نہ رکھے گا اور اگر میں تمام دنیا منافق کو دے دوں کہ مجھ کو دوست رکھے تب بھی وہ مجھ کو دوست نہ رکھے گا۔ اور یہ وہی فیصلہ ہے جو زبان رسول(ص) پر جاری ہوچکا ہے کہ آپ نے فرمایا اے علی(ع) مومن تم سے بغض نہیں رکھتا اور منافق تم سے محبت نہیں کرتا۔

اس قسم کے اخبار و احادیث آپ کی معتبر کتابوں میں بکثرت سے مروی ہیں۔ میں نے وقت کے لحاظ سے یہ چند حدیثیں جو اس وقت پیش نظر تھیں عرض کردیں۔

۱۴۶

اب میں آپ حضرات سے حق کے نام پر سوال کرتا ہوں کہ علی علیہ السلام سے عائشہ کیبغاوت اور جنگ آیا رسول خدا(ص) سے جنگ نہیں تھی؟ آیا یہ لڑائی اور لوگوں کو علی علیہ السلام سے جنگ کرنے پر آمادہ کرنا خلوصو محبت اور دوستی کی وجہ سے تھا یا بغض و کینہ اور عداوت کی بنا پر؟ ظاہر ہے کہ کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ دو آدمیوں کے درمیان محبت کے سبب سے جنگ ہوتی ہے لہذا قطعا بغض و عداوت کی وجہ سے تھی، تو ان تمام احادیث میں جن کا نمونہ پیش کیا گیا ہے کیا رسول اکرم(ص) نے علی(ع) سے دشمنی اور جنگ کرنے کو کفر ونفاق کی ایک علامت قرار نہیں دیا ہے؟ آیا ان اخبار و احادیث کو علی سے عائشہ کے مقابلے اور جنگ پر منطبق کرنے سے کیا نتیجہ نکلے گا؟

گذارش ہے کہ بغیر کسی طرفداری اور جذبہ محبتو عداوت کے از روئے انصاف سچا فیصلہ فرمائیے۔ عجیب چیز ہے کہ اس وقت مجھ کو ایک ایسی حدیث یاد آگئی جس کو نقیہ ہمدانی میر سید علی شافعی نے مودۃ القربی کی مودت سیم میں خود عائشہ سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے فرمایا کہ :

" أنّ اللّه قد عهد إليّ أنّ من‏ خرج‏ على‏ عليّ‏ عليه السّلام فهو كافر في النار"

یعنی بتحقیق اللہ نے قطعی طور پر مجھ سے قول و قرار فرمایا ہے کہ جو شخص بھی علی(ع) پر خروج اور بغاوت کرے وہ کافر ہے۔ اور اس کا ٹھکانہ جہنم ہے۔

پھر تعجب یہ ہے کہ جب لوگوں نے ان پر اعتراض کیا کہ جب آپ پیغمبر(ص) سے ایسی بات سن چکی تھیں تو علی (ع) پر خروج کیوں کیا؟ تو یہ پھسپھسا عذر پیش کردیا کہ:

" نسيت هذا الحديث يوم الجمل حتّى ذكرته بالبصرة"

یعنی میں اس حدیث کو جنگ جمل کے روز بھول گئی تھی یہاں تک کہ بصرے میں یاد آئی۔

شیخ : حضرت آپ خود ایسا بیان دے رہے ہیں تو اب ام المومنین رضی اللہ عنہا پر کیا اعتراض ہے؟ بدیہی چیز ہے کہ انسان سہوو نسیان کا مرکز ہے۔

خیر طلب: اگر میں بھی مان لوں کہ جنگ جمل کے روز وہ اس حدیث کو بھول گئیں تھیں تو کیا جس روز مکہ معظمہ سے واپس ہو رہی تھیں اور تمام خیر خواہوں نے یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کی پاک باز بیویوں نے بھی ان کو منع کیا تھا کہ یہ بیجا حرکت نہ کرو اس لیے کہ علی(ع) سے مخالفت کرنا پیغمبر(ص) سے مخالفت کرنا ہے اس وقت بھی یہ حدیث یاد نہیں تھی؟

آیا آپ کے مورخین جنہوں نے واقعہ جمل تحریر کیا ہے متوجہ نہیں کرچکے ہیں کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا تھا عائشہ اس راستے سے جس میں حوائب کے کتے تم پر بھونکیں۔ چنانچہ جب یہ بصرے جارہی تھیںاور چشمہ بنی کلاب پر پہنچیں تو کتوں نے چاروں طرف سے محمل کو گھیر لیا اور بھونکنا شروع کیا، انہوں نے پوچھا کہ یہ کون سا مقام ہے ؟ تو لوگوں نے جواب دیاکہ حوائب اس پر ان کو پیغمبر(ص) کا ارشاد یاد آگیا تھا تو پھر کس لیے طلحہ و زبیر کے فریب میں آئیں اور آگے بڑھتی گئیں، یہاں تک کہ بصرے پہنچ کر ایسا عظیم فتنہ برپاکردیا؟

آیا اس کے لیے بھی آپ کہہ سکتے ہیں کہ بھول گئی تھیں یا بالقصد و بالارادہ جان بوجھ کر یہ راستہ طے کیا؟ آیا یہ حقیقت میں ایک بہت بڑا دھبہ نہیں تھا جس نے ام المومنین عائشہ کا دامن آلودہ کردیا اور جو کسیپانی سے دھویا نہیں جاسکتا کیوںکہ انہوں نے

۱۴۷

سب سمجھتے ہوئے عمدا خدا و رسول(ص) کے حکم سے منہ موڑا ااور طلحہ و زبیر کی بات مان کے خلیفہ اور وصیرسول(ص) سے لڑنے کے لیے پہنچ گئیں باوجودیکہ خود بھی کہتی تھیں کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہے کہ جو شخص علی(ع) سے جنگ کرے اور ان پر خروج کرے وہ کافر ہے؟ آیا امیرالمومنین علیہ السلام سے جو رسول اللہ(ص) کے وصی اور خلیفہ تھے جنگ کرنا اور مسند خلافت پر بیٹھتے ہی آپ کے لیے پریشانی کے اسباب اور جنگی انقلاب پیدا کرنا آں حضرت صلعم کے لیے باعث تکلیف نہیں تھا ؟ کیا جیسا کہ میں گذشتہ شب مع اسناد کے عرض کرچکا ہوں حدیث میں نہیں ہے کہ رسول خدا(ص) نے فرمایا :

"من‏ آذى‏ عليا فقد آذاني!! إن عليا أولكم إيماناً و أوفاكم بعهد اللَّه، يا أيها الناس من‏ آذى‏ عليا بعث يوم القيامة يهوديّاً أو نصرانياً."

یعنی جس نے علی(ع) کو ایذا دی اس نے یقینا مجھ کو ایذا دی اور جس نے مجھ کو ایذا دی اس نے در حقیقت خدا کو ایذا دی۔ اے گروہ ناس جس نے علی(ع) کو تکلیف پہنچائی وہ قیامت کے روز یہودی یا ںصرانی اٹھایا جائے گا۔

عائشہ کے حکم سے بصرے میں صحابہ اور بے گناہ مومنین کا قتل عام

جب یہ تمام روایتیں آپ کی معتبر کتابوں میں موجود ہیں تو آپ کس حق سے شیعوں پر اعتراض فرماتے ہیں؟

آیا بے خطا مومنین کا خون، رسول اللہ(ص) کے محترم صحابیعثمان ابن حنیف کی زجر و توبیخ اور سو(100) نفر سے زیادہ خزانے کے محافظین کا قتل جو غیر مسلح تھے اور جنگی سپاہیوں میں سے نہیں تھے اور جن سے چالیس اشخاص مسجد کے اندر مارے گئے، یہ سب جنگ کے محرک اور بانی کی گردن پر نہیں تھا؟

چنانچہ علامہ مسعودی نے مروج الذہب جلد دوم ص7 میں اس عبارت کے ساتھ لکھا ہے :

" فقتل‏ منهم‏ سبعون‏ رجلا غير من جرح، و خمسون من السبعين ضرب رقابهم صبرا من بعد الاسر، و هؤلاء أول من قتل ظلما في الاسلام"

یعنی علاوہ ان لوگوں کے جو زخمی کئے گئے بیت المال کے نہتے محافظین میں سے ستر آدمیوں کو قتل کیا جن میں سے پچاس کی اسیری اور مجبوری کی حالت میں گردنیں ماری گئیں، اور یہ لوگ اسلام کے اندر سب سے پہلے ظلم کے ساتھ قتل کئے گئے۔

اور آپ کے علماء مورخیں میں سے ابن جریر اور ابن اثیر وغیرہ نے ان واقعات کو پوری تفصیل سے نقل کیا ہے ، اب آپ یا تو ان روایات کو اپنی معتبر کتابوں سے خارج کیجئے، جیسا کہ جدید مطبوعات میں آپ کے علماء تحریف سے کام لے رہے ہیں بلکہ بعض مطالب کو تو سرے سے غائب ہی کردیتے ہیں، اور اپنے علمائے اعلام و اکابر مورخین کو جھٹلائیے یا شیعوں پر طعن و تشنیع اور اعتراض کرنے سے باز آئیے کیونکہ شیعہ تو وہی کہتے ہیں جو آپ کی کتب معتبرہ میں درج ہوچکا ہے۔ خدا کی قسماس میں جماعت شیعہ کا کوئی قصور نہیں ہے، ہمارے اور آپ کے درمیان فرق صرف ؟؟؟؟؟ رہے کہ آپ اپنی معتبر کتب میں ان اخبار و احادیث کا سطحینظر سے مطالعہ کرتے ہیںاور حب الشی یعمی ویصم ( یعنی کسی چیز کی محبت اندھا اور بہرا بنادیتی

۱۴۸

ہے۔12 مترجم) کے مصداق تاریخ کے ان اہمواقعات کو اخبار کے مطابق نہیں کرتے، ہمیشہ محض حسنِ ظن اور بے موقع دفاع سے کام لیتے ہیں اور حقائق پر کوئی توجہ نہیں کرتے۔ یا اگر توجہ کرتے بھی ہیں تو پردہ پوشی کی کوشش کرتے ہوئے اس کی صفائی اس طرح سے پیش کرتے ہیں کہ پسر مردہ عورت بھی ہنس پڑے۔

لیکن ہم غیر جانبداری کے ساتھ منصفانہ اور گہری نظر ڈالتے ہیں اور کتب فریقین میں مروی اخبار و احادیث کو واقعات کے مطابق کر کے حقائق کا انکشاف کرتے ہیں۔ اس مطابقت میں بھی آپ کو جس مقام پر کوئی شبہ یا غلطی اور خود غرضی نطر آئیے۔منطقی اعتراض کے ساتھ اس کی تردید کر دیجئے میں انتہائی ممنوں ہوں گا۔

شیخ : آپ کے بیانات درست ہیں لیکن ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا بھی انسان تھیں معصوم نہیں تھیں یقینا دھوکہ میں آکر ان سے ایک خطا سرزد ہوگئی۔ اپنی سادگی کی وجہ سے دو بڑے صحابیوں کے فریب میں آگئی تھیں لیکن بعد میں توبہ کر لی اور خدا نے بھی ان سے درگذر فرمائی۔

خیر طلب: اولا آپ نے اقرار کر لیا کہ کبار صحابہ خطار کار اور فریبی تھے حالانکہ حاضرین تحت شجرہ اور بیعت رضوان والوں میں سے تھے۔ پس آپ کی وہ حدیث جو صحابہ کی پاک دامنی کے لیے آپ پچھلی راتوں میں پیش کرچکے ہیں کہ سارے اصحاب ستاروں کی مانند ہیں ان میں سے جس کی پیروی کی جائے ہدایت حاصل ہوجائی گی خود بخود باطل ہوجاتی ہے۔

دوسرے آپ نے فرمایا کہ ام المومنین عائشہ نے توبہ کرلی تو یہ محض دعوی ہی دعوی ہے۔ کیونکہ بغاوت و جنگ اور مسلمانوں کا قتل عام تو بالاتفاق ثابت ہے لیکن ان کی توبہ کا کوئی ثبوت نہیں لہذا اس کا سہارا نہیں لیا جاسکتا۔

امام حسن(ع)کو پیغمبر(ص) کے پاس دفن کرنے سے عائشہ کی ممانعت

البتہ یہ مسلم ہے کہ عائشہ کی طبیعت میں سکون نہیں تھا، ان سے پے در پے طفلانہ حرکتیں سرزد ہوتی رہیں جنمیں سے ہر ایک نے ان کی تاریخ زندگی کو فاسد بنایا۔ بقول آپ کے اگرتوبہ کر لی تھی اور پشیمان ہو کر خاموش بیٹھ گئی تھیں تو پھر کس لیے بعد کو سبط رسول(ص) امام حسن علیہ السلام کے جنازے کے ساتھ ایسا سلوک کیا اور ایسا فساد برپا کیا جس سے ہر سننے والا بغیر متاثر ہوئے نہیں رہتا؟

فقط یہی نہیں کہ رسول اللہ(ص) کو رنجیدہ اورآرزدہ کرتیتھیں یا زمانہ جاہلیت کی عورتوں کی طرح اونٹ پر سوار ہوکر پیغمبر(ص) کے وصی اور خلیفہ سے لڑنے جاتی تھیں جس سے ہم کہہ سکیں کہ صرف زندہ افراد سے ضد اور مخالفت رکھتی تھیں، بلکہ خچر پر سوار ہو کر رسول خدا(ص) کے بڑے نواسے حضرت امام حسن علیہ السلام کے جنازے کا راستہ بھی روکا چنانچہ آپ کے اکابر علماء مورخین بالخصوص یوسف سبط ابن جوزی نے تذکرہ خواص الامہ ص122 میں، علامہ مسعودی صاحب مروج الذہب نے اثبات الوصیہ ص136 میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد چہارم ص18 کے شروع میں ابو الفرج اور یحیی بن الحسن صاحب کتاب النسب سے نقل کرتے ہوئے خداوند شاہ نے

۱۴۹

روضتہ الصفا جلد دوم میں واقدی نے ، متوفی احمد بن محمد حنفی نے ترجمہ تاریخ اعثم کوفی میں، ابن شخنہ نے روضتہ المناظر میں، اور ابو الفداء وغیرہ نے اپنی تاریخوں میں نقل کیا ہے کہ جس وقت حضرت کا جنازہ لے چلے تو عائشہ خچر پر سوار ہو کر بنی امیہ اور ان کے غلاموں کی ایک جماعت کے ساتھ لیے ہوئے سد راہ ہوئیں اور کہا کہ ہم امام حسن(ع) کو قبر رسول (ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنے دیں گے۔

بروایت مسعودی ابن عباس نے کہا کہ عائشہ تمہارے حال پر تعجبہے :

"اما كفاك‏ أن‏ يقال‏ يوم‏ الجمل‏ حتى يقال يوم البغل؟ يوما على جمل و يوما على بغل بارزة عن حجاب رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله تريدين إطفاء نور اللّه؛ و اللّه متمّ نوره و لو كره المشركون، انّا للّه و انّا إليه راجعون."

یعنی آیا تمہارے لیے روز جمل کی شہرت کافی نہیں ہوئی تھی، ( یعنی اونٹ پر سوار ہو کر میدان جنگ میں نکل پڑیں) یہاں تک کہ لوگ یوم بغل کا ذکر کریں( یعنی خچر پر سوار ہوکر فرزند رسول(ص) کا جنازہ روکا) تمنے کبھی خچر پر بیٹھ کر حجاب پیغمبر(ص) کو چاک کر دیا یا تمہارا عزم ہے کہ اللہ کے نور کو بجھا دو حالانکہ خدا اپنے نور کو کامل کرنےوالا ہے چاہے مشرکین کو ناگوار ہی ہو یقینا ہم اللہ کے لیے ہیں اور یقینا ہم کو اسی کی طرف پلٹ کے جانا ہے۔

اور بعض نے لکھا ہے کہ ان سے یہ فرمایا:

تجملت‏تبغلت‏و لو عشت تفيلتلك الثمن من التسع‏و في الكل تطمعت

یعنی تم کبھی اوںٹ پر سوار ہوئیں کبھی خچر پر، اور اگر زندہ رہوگی تو ہاتھی پر بھی سوار ہوگی۔ تمہارا آٹھویں حصے میں سے صرف نواں حصہ ہے لیکن سب پر قابض ہوگئیں۔

بنی ہاشم نے چاہا کہ تلوار کھینچ کر ان لوگوں کودفع کریں لیکن حضرت امام حسین علیہ السلام مانع ہوئے اور فرمایا میرے بھائی نے وصیت فرمائی ہے کہ میں اس پر راضی نہیں ہوں کہ میرے جنازے کے پیچھے ایک فصد کے برابر بھی خون ریزی ہو، چنانچہ آپ کے حکم سے جنازہ واپس لائے اور بقیع میں دفن کیا۔

شہادت امیرالمومنین (ع) پر عائشہ کا سجدہ اور اظہار مسرت

اگر یہ صحیح ہے کہ عائشہ نے توبہ کر لی تھی اور امیرالمومنین(ع) سے جنگ کرنے پر نادم تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سننے کے بعدسجدہ شکر کیوں بجالائیں؟ جیسا کہ ابو الفرج اصفہانی صاحب اغالی نے مقاتل الطالبین میں حضرت کے حالات بیان کرتے ہوئے آخر میں نقل کیا ہے کہ "لما جاء عائشه قتل اميرالمومنين علی سجدت "( یعنی جب عائشہ کو قتل و شہادت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی خبر ملی تو انہوں نے (شکر کا) سجدہ کیا۔)

اگر واقعی توبہ کر لی تھی اور پشیمان تھیں تو حضرت کی خبر شہادت سن کر مسرت وشادمانی کا اظہار کس لیے کیا؟ جیسا کہ محمد بن جریر طبری نے اپنی تاریخ حوادث سنہ40 ہجری میں اور ابوالفرج اصفہانی نے مقاتل الطالبین آخر حالات حضرت علی علیہ السلام میں روایت کی ہے جس وقت ان کو ایک غلام نے حضرت کی شہادت سے مطلع کیا تو انہوں نے کہا:

فالقف عصاها واستفرت بها النوی کما فر عيناه بالاياب السافر

۱۵۰

القاء عصاء اطمینان قلب اور خاطر جمعی کا کنایہ ہے بعنی جس وقت کسی مخصوص موقع پر کسی شخص کے دل کو اطمینان اور دماغ کو سکون حاصل ہوتا ہے تو کہا جاتا ہے القی عصاہ (جیساکہ مسکویہ نے تجارب الامم اور میری نے حیات الحیوان میں بیان کیا ہے) یہ شعر پڑھنے سے عائشہ کا مطلب یہ تھا کہ علی(ع) کے بارے میں میرے خیالات کو تسکین میرے دل کو فرحت اور میرے دماغ کو آسودگی حاصل ہوگئی اس لیے کہ میں اسی اطلاع کی منتظر تھی، جیسے کوئی شخص اپنے مسافر کی واپسی کا انتظار کر رہا ہو اور اس کے آجانے پر اس کی آںکھیں روشن اور دل باغ باغ ہوجائے اس کے بعد خبر لانے سے دریافت کیا کہ کس نے ان کو قتل کیا؟ جواب ملا کہ قبیلہ بنی مراد کےعبدالرحمن ابن ملجم نے تو فورا کہا:

فان يک نائبا فلقد نغاه غلام ليس فی فيه التراب

یعنی اگر علی(ع) مجھ سے دور ہیں تو ان کی موت کی خبر وہ غلام لایا ہے جس کے منہ میں خاک نہ ہو۔

زینب دختر ام سلمہ موجود تھیں انہوں نے کہا۔ آیا علی(ع) کے بارے میں تم کو اس طرح خوش ہونا اور ایسی باتیں کہہ کے اظہار مسرت کرنا مناسب ہے؟ انہوں نے دیکھا کہ یہ تو برا ہوا لہذا جواب دیا کہ میں آپے میں نہیں تھی اور بھول چوک میں اس قسم کے الفاظ کہہ ریئے، چنانچہ اگر پھریہ کیفیت مجھ پر طاری ہو اور یہ باتیں دہرائوں تو مجھ کو یاد دلا دینا تاکہ باز رہوں۔

بہتر ہوگا کہ آپ حضرات محبت و عداوت کے جذبات کو الگ رکھ کے عبرت حاصل کریں تو معلوم ہو کہ مسئلہ توبہ کی کوئی حقیقت نہ تھی بلکہ یہ مرتے دم تک اپنی دشمنی پر قائم رہیں، ورنہ اظہار مسرت اور سجدہ شکر کیوں کرتیں؟ حضرات ! ان افعال کو کس چیز پرمحمول کیجئے گا؟ کیا اس کے علاوہ اور کوئی مطلب نکل سکتا ہے کہ ام المومنین عائشہ عقل کی اوچھی عورت تھیں اور زندگی بھر چین سے نہیں بیٹھیں؟ اس وقت مجھ کو ایک اوربات یاد آگئی ، آپ حضرات شیعوں پر اعتراض کرتے ہیں اور ان کو عداوت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کہ یہ لوگ خلیفہ سوم عثمان پر نکتہ چینی کیوں کرتے ہیں اور ان کے وہ مطاعن جن کو خود آپ کے علماء نے بھی نقل کیا ہے کیوں بیان کرتے ہیں؟

عثمان کی نسبت عائشہ کے متضاد فقرے

اگر یہی بات ہے و آپ کو ام المومنین عائشہ سے بھی حسن ظن نہ رکھنا چاہئیے اس لیے کہ بالعموم آپ کے اکابر علماء مورخین جیسے ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص77 میں، مسعودی نے کتاب اخبار الزمان اور اوسط میں، سبط ابن جوزی نے تذکرۃ خواص الامہ ص36 میں، نیز ابن جریر، ابن عساکر اور ابن اثیر وغیرہ نے لکھا ہے کہ ام المومنین عائشہ برابر عثمان کی بدگوئی کرتی رہتی تھیں یہاں تک کہ آواز دیتی تھیں "اقتلوا نعثلا قتله الله فقد کفر " یعنی نعثل ( عثمان) کو قتل کردو، خدا اس کو قتل کرے کیونکہ بتحقیق یہ کافر ہوگیا ہے) لیکن جیسے ہی عثمان قتل ہوئے تو علی علیہ السلام سے اپنے کینے اور عداوت کی بناء پر

۱۵۱

کہنے لگیں "قتل عثمان مظلوما والله لاطلبن بدمه فقوموا " ( یعنی عثمان مظلوم قتل ہوئے، خدا کی قسم میں ان کے خون کا مطالبہ کروں گی پس میری حمایت میں اٹھ کھڑے ہو)

ابن ابی الحدید لکھتے ہیں :

" أن‏ عائشة كانت‏ من أشد الناس على عثمان حتى إنها أخرجت ثوبا من ثياب رسول الله ص فنصبته في منزلها و كانت تقول للداخلين إليها هذا ثوب رسول الله صلی الله عليه و آله لم يبل و عثمان قد أبلى سنته."

یعنی در حقیقت عائشہ تمام لوگوں سے زیادہ عثمان کی دشمن تھیں، یہاں تک کہ رسول اللہ(ص) کا پیراہن نکال کے اپنے گھر میں لٹکا دیا تھا اور آنے والوں سے کہتی تھیں کہ ابھی رسول اللہ(ص) کا پیراہن بوسیدہ نہیں ہوا اور عثمان نے آںحضرت(ص) کی سنت کو فرسودہ اور بیکار بنا دیا۔

نیز ابن ابی الحدید کہتے ہیں کہ جس وقت مکے میں عائشہ کو قتل عثمان کی خبر ملی تو کہا:

"أبعده‏ الله‏ ذلك بما قدمت يداه و ما الله‏ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ."

یعنی خدا ان کو اپنی رحمت سے دور کرے، یہ انہیں کی کرتوت کا نتیجہ ہے، اور اللہ اپنے بندوں پر ظلم نہیں کرتا۔

آپ خلیفہ عثمان کے حق میں عائشہ سے بغیر کسی دلیل کے اس قسم کے الفاظ سنتے ہیں اور قطعا کوئی اثر نہیں لیتے لیکن یہی باتیں اگر بے چارے شیعوں کی زبانسے نکلیں تو آپ فورا رفض اور کفر کا حکم لگا کر ان کا قتل واجب جانتے ہیں۔

انسان کی نظر بے لوث ہونا چاہئیے کیونکہ بدگمانی ہی سے ساری خرابیان پیدا ہوتی ہیں۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ ام المومنین عائشہ حضرت امیرالمومنین علی علیہ السلام کی طرف سے شدید کینے اور عداوت کا جذبہ رکھتی تھیں، چنانچہجس وقت یہ سنا کہ مسلمانوں نے حضرت سے بیعت کر لی تو کہا:

" لوددت إن السماء انطبقت على الارض ، ثمّ ان اتم هذا قتلوا ابن‏ عفّان‏ مظلوما."

یعنی میرے نزدیک آسمان کو زمین پر پھٹ پڑنا بہتر ہے اگر میں اس ( خلافت ) کو مکمل ہوجانے دوں، ابن عفان (عثمان) کو مظلوم قتل کیا۔

آیا اس قسم کے مختلف اور متضاد جملے ام المومنین عائشہ کے تلون مزاج کو ثابت نہیں کرتے؟

شیخ :ام المومنین عائشہکے طرز عمل اور رفتار و گفتار میں ایسے اختلافات کثرت سے منقول ہیں لیکن دو چیزیں مسلم اور ثابت ہیں۔

ایک یہ کہ عائشہ ام المومنین رضی اللہ عنہا کو لوگوں نے فریب دیا اور وہ اس روز علی کرم اللہ وجہہ کے مرتبہ ولایت کی طرف متوجہ نہیں تھیں جیسا کہ انہوں نے خود کہا ہے کہ میں بھول گئی تھی اور مجھ کو بصرے میں یاد آیا۔

دوسرے توبہ کرنی تھی لہذا قطعا خداوند عالم پچھلی غلطیوں کو معاف کر کے ان کو بہشت کے بلند درجات میں جگہ دیگا۔

خیر طلب : توبہ کے موضوع پر میں بار بار اپنی گفتگو نہیں دہرائوں گا اور یہ نہیں پوچھوں گا کہ اتنے زیادہ بے گناہ مسلمانوں کا خون بہائے جائے، ان کی ہتک حرمت کئے جانے اور ان کے اموال تاخت و تاراج کئے جانے کے بعد کیوںکر ممکن ہے کہ بغیر محاکمے اور باز پرس کے چھٹی مل جائے؟ یہ صحیح ہے کہ خدا ارحم الراحمین ہے لیکن

" فِي‏ مَوْضِعِ‏ الْعَفْوِ وَ الرَّحْمَةِ، وَ أَشَدُّ الْمُعاقِبِينَ فِي مَوْضِعِ النَّكالِ وَ النَّقِمَةِ"

یعنی خدا عفو و رحمت کے موقع پر سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے اورعذاب و عقوبت کے

۱۵۲

محل پر سب سےزیادہ سخت سزا دینے والا بھی ہے۔

اس کے علاوہ ان کو خود مرتے دم اعتراف رہا کہ وہ عمدا ان واقعات و حوادث کی باعث ہوئیں۔ اور اسی وجہ سے جیسا کہ آپ کے اکابر علماء نے نقل کیا ہے وصیت کی تھی کہ مجھ کو پیغمبر(ص) کے پہلو میں دفن نہ کرنا اس لیے کہ میں خود جانتی ہوں کہ میں نے آں حضرت(ص) کے بعد کون کون سے حادثات رونما کئے ہیں چنانچہ حاکم نے مستدرک میں، ابن قتیبہ نے معارف میں، محمد بن یوسف زرندی نے کتاب اعلام بسیرۃ النبی میں اور ابن البیع نیشاپوری وغیرہ نے نقل کیا ہے کہ عائشہ نے عبداللہ ابن زبیر کو وصیت کی :

"ادفونی مع اخواتی بالبقيع فانی قد احدث امورا بعده"

یعنی مجھ کو بقیع کے اندر میری بہنوں کے پہلو میں دفن کرنا اس لیے کہ میں نے رسول اللہ(ص) کے بعد نئی نئی باتیں پیدا کی ہیں۔

اور آپ جو یہ فرمایا ہے کہ ام المومنین پر نسیان طاری تھا، فضائل علی(ع) کی حدیثوں کو بصرے میں یاد کیا اور اسی بنا پر پیغمبر(ص) کی ممانعت بھی بھول گئی تھیں، تو یہ آپ کی غلط فہمی ہے بہتر ہوگا کہ اپنے اکابر علماء کی معتبر کتب کا مطالعہ کیجئے تاکہ اس حسن ظن کی حقیقت واضح ہوجائے، خصوصیت کے ساتھ ابن ابی الحدید کی شرح نہج البلاغہ جلد دوم ص77 کو پڑھئیے تو اصلیت کا پتہ چل جائے۔

اب میں مطلب روشن ہونے کے لیے اس کتاب کے بعض مندرجات کی طرف اشارہ کرتا ہوں۔

عائشہ کو ام سلمہ کی نصیحتیں

ابن ابی الحدید نے تاریخ ابی مخنف لوط بن یحیی ازدی سے نقل کیا ہے کہ اس موقع پر ام المومنین ام سلمہ بھی بسلسلہ حج مکہ معظمہ میں موجود تھیں، جب انہوںنے سنا کہ عائشہ عثمان کی خون خواہی کے لیے اٹھی ہیں اور بصرہ جارہی ہیں تو بہت متاثر ہوئیں اور ہر مجمع میں علی علیہ السلام کے فضائل ومناقب بیان کرنے لگیں۔ عائشہ ام کے پاس آئیں تاکہ ان کو فریب دے کر اپنا شریک کار بنالیں تب بصرہ روانہ ہوں۔

ام سلمہ نے فرمایا کہ تم کل تک تو عثمان کو اس قدر گالیاں دیتی تھیں ، ان کی مذمت کرتی تھیں، اور ان کو نعثل کہتی تھیںاور اب انہیں کے خون کا قصاص لینے کے لیے علی علیہ السلام کے مقابلے میں اٹھی ہو۔ کیا تم ان حضرت کے فضائل سے آگاہ نہیں ہو؟ اگر بھول گئی ہوتو میں اب پھر یاد دلاتی ہوں۔

عائشہ کو فضائل علی علیہ السلام کی یاد دہانی

یاد کرو کہ ایک روز میں رسول خدا(ص) کے ہمراہ تمہارے حجرے میں آئی تھی کہ اتنے میں علی(ع) بھی آگئے اور پیغمبر(ص) سے کچھ خفیہ باتیں کرنے لگے جب اس سرگوشی میں دیر لگی تو تم ان حضرت کو سخت و سسنت کہنے کے لیے اٹھیں، میں نے منع بھی کیا لیکن تم نے دھیان

۱۵۳

نہیں دیا اور ان بزرگوار پر غصہ دکھاتے ہوئے کہا کہ نو دنوں میں سے ایک دن میری باری کا ہے اس میں بھی تم آگئے اور پیغمبر(ص) کو مشغول کر لیا، اس پر رسول اکرم(ص) اس قدر غضبناک ہوئے کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا اور تم سے فرمایا:

"ارجعى‏ ورائك‏ و اللّه لا يبغضه أحد من أهل بيتي و لا من غيرهم من الناس إلّا و هو خارج من الايمان، "

یعنی پیچھے ہٹو، خدا کی قسم کوئی میرا گھر والا ہو یا غیر شخص اگر علی(ع) سے بغض رکھے گا تو وہ قطعا ایمان سے خارج ہے۔

پس تم نادم اور شرمندہ ہو کر لوٹ آئی تھیں!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ۔ ام سلمہ نے فرمایا یاد کرو ایک روز تم پیغمبر(ص) کا سرمبارک دھو رہی تھیں اور میں حیس ( ایک قسم کا کھانا) تیار کر رہی تھی، آں حضرت (ص) نے سر مبارک بلند کر کے فرمایا کہ تم دونوں میں سے اونٹ پر بیٹھنے والی گنہ گار عورت کون ہے جس پر حواب کے کتے بھونکیں گے اور وہ پل صراط پر منہ کے بل گرے گی؟ میں نے حیس کو چھوڑ دیا اور عرض کیا یا رسول اللہ(ص) میں ایسے کام سے اللہ اور اس کے رسول(ص) سے پناہ مانگتی ہوں۔ اس کے بعد آن حضرت(ص) نے تمہاری پیٹھ پر ہاتھ مار کر فرمایا کہ بچو اس سے کہ یہ حرکت کرنے والی عورت تمہیں ہو!عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے۔

ام سلمہ نے کہا میں تم کو یاد دلاتی ہوں کہ ایک سفر میں ہم دونوں پیغمبر(ص) کے ہمراہ تھیں ایک روز علیعلیہ السلام پیغمبر صلعم کی کفشین سی رہے تھے اور ہم دونوں ایک درخت کے سائے میں بیٹھی تھیں۔ اتفاق سے تمہارے باپ ابوبکر اور عمر نے آکر اجازت چاہی میں اور تم پردے میں چلی گئیں اور یہ لوگ بیٹھ گئےتھوڑی گفتگو کے بعد انہوں نے کہا یا رسول اللہ(ص) :

" يا رسول اللّه إنا لا ندرى‏ قدر ما تصحبنا فلو أعلمتنا من يستخلف علينا ليكون بعدك لنا مفزعا، فقال لهما: أما أنّى أرى مكانه و لو فعلت لتفرّقتم عنه كما تفرّقت بنو اسرائيل عن هارون بن عمران، فسكتا ثمّ خرجا"

مطلب یہ کہ ہم لوگ آپ کی مصاحبت کی قدر نہیں جانتے پس ہماری خواہش ہے کہ ہم سے بتائیے کہ ہم پر آپ کا خلیفہ اور جانشین کون ہوگا تاکہ آپ کےبعد وہ ہمارے لیے فریاد رس اور پناہ گاہ ہو، آں حضرت(ص) نے ان دونوں (ابوبکر و عمر) سے فرمایا میں اس کے مقام اور منزل کو دیکھ رہا ہوں لیکن اگر عملا ایسا کروں اور اس کو پہنچوادوں تو تم لوگ اس کو چھوڑ کے الگ ہوجائو گے جس طرح بنی اسرائیل ہارون کو چھوڑ کر الگ ہوگئے تھے۔ پس وہ دونوں خاموش ہو کر چلے گئے ۔

ان دونوں کے جانے کے بعد ہم لوگ باہر آئے اور میں نے عرض کیا یا رسول اللہ(ص):

"من كنت يا رسول اللّه مستخلفا عليهم؟ فقال عليه السّلام: خاصف النّعل، فنزلنا و لم نر أحدا إلّا عليا، فقلت: يا رسول اللّه ما نرى إلّا عليّا، فقال: هو ذاك."

یعنی ان لوگوں پر آپ کا خلیفہ کون ہوگا؟ آں حضرت(ص) نے فرمایا جو شخص میری جوتیاں سی رہا ہے۔ ہم لوگوں نے نکل کے دیکھا تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہ آِیا پس میں ن ے عرض کیا یا رسول اللہ(ص) ! مجھ کو تو سوا علی(ع) کے اور کوئی نظر نہیں آرہا ہے فرمایا وہی ( علی(ع)) خلیفہ ہیں۔

عائشہ نے کہا ہاں مجھ کو یاد ہے ام سلمہ نےکہا کہ جب ان احادیث کو جانتی ہو تو پھر کہاں جارہی ہو؟ انہوں نے جواب دیا میں لوگوں کے درمیان اصلاح کرنے جارہی ہوں۔ اب تو آپ حضرات کو بھی تصدیقکرنا چاہئیے کہ ام المومنین عائشہ نے فریب نہیں کھایا بلکہ جان بوجھ کر فتنہ انگیزی پر آمادہ تھیں اور سب کچھ سمجھتے ہوئے عمدا بغاوت کی، باوجودیکہ ام سلمہ نے رسول اللہ(ص) کی حدیثیں بھی یاد دلائیں لیکن باز نہیں آئیں اور امیرالمومنین(ع) کی عظمت ومنزلت

۱۵۴

کا اقرار کرنے کےبعد بھی بصرے کی طرف سفر کر کےاتنا بڑا فتنہ برپا کیا جس کے نتیجے میں بے شمار مسلمانوں کا خون بہہ گیا۔ خصوصیت کے ساتھ اس حدیث خاصف النعل میں حضرت کی امامت و خلافت پر بہت بڑی نص اور حجت موجود ہے کیونکہ جس وقت ام سلمہ عرض کرتی ہیں کہ یا رسول اللہ(ص) کون ہے وہ شخص جس کو آپ اپنے بعد خلیفہ بنا رہے ہیں تو آں حضرت(ص) نے فرمایا میری نعلین کا سینے والا اور وہ سوا علی(ع) کے کوئی دوسرا نہیں تھا۔ شیعوں کا گناہ صرف یہ ہے کہ کسی عادت سے متاثر نہیں ہوتے بلکہ تحقیق کے دور میں سے چودہ سو برس قبل کے اہم واقعات کا معائنہ کرتے ہیں اور بغیر تعصب یا جانبداری کے آیات قرآن مجید اور علمائے فریقین کی معتبر کتابوں سے استفادہ کر کے سچا سچا فیصلہ کرتے ہیں۔

اسی بنا پر ان کا عقیدہ ہے کہ اگر چہ سیاسی چالبازیوں کی وجہ سے بظاہر تاریخ میں علی علیہ السلام کی خلافت چوتھے نمبر پر آتی ہے لیکن یہ پس ماندگی حضرت کی افضلیت اور حضرت کے حق میں جو نصوص وارد ہیں ان کو قطع نہیں کرسکی اور نہ کرسکے گی۔

ہمارا بھی اعتقاد ہے اور ہم بھی اقرار کرتے ہیں کہ جیسا تاریخ میں درج ہے ابوبکر (سیاسی دائوں پیچ سے) کے اندر بغیر علی علیہ السلام ، بنی ہاشم اور کبار صحابہ کی موجودگی کے اور اںصار کے قبیلہ خزرج کی مخالفت کے باوجود خلیفہ نامزد کردیئے گئے، پھر اس کے بعد شخصی ڈکٹیڑی اور شوری کے بل پر عم و عثمان ظاہری طور پر علی علیہ السلام سے قبل مسند خلافت پر قابض ہوگئے۔

لیکن فرق یہ ہے کہ یہ لوگ امت والوں کے خلیفہ تھے یعنی ان کے چند ساتھی براتی لوگوں نے زور آزمائی کر کے ان کی گردن میں خلافت کا قلادہ ڈال دیا ۔ اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام خلیفہ رسول(ص) ہیں کیونکہ اللہ اور اس کے پیغمبر(ص) کی طرف سے منصوص تھے۔

شیخ : آپ بے لطفی کیبا تیں کر رہے ہیں۔ ان کے درمیان کوئی فرق نہیں تھا، جن لوگوں نے خلفائے ثلثہ ابوبکر و عمر وعثمان رضی اللہ عنہم کو اجماع کے ساتھ مقامات خلافت پر نصب کیا انہیں نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی خلافت پر مقرر کیا۔

خلفائے ثلاثہ کی تعیین میں اختلاف ان کی خلافت باطل ہونے کی دلیل ہے

خیر طلب: خلافت خلفاء کےطریق تعیین میں مختلف پہلوئوںسے کھلا ہوا تفاوت سے اولا آپ نے اجماع کی طرف اشارہ کیا ہے تو یہ بڑی بے لطفی کی بات ہے کہ ایک ہی مطلب بار بار دہرایا جائے کیونکہ میں پچھلی راتوں میں دلیل اجماع کے بے بنیاد ہونے پر مکمل روشنی ڈال چکا ہوں اور ثابت کرچکا ہوں کہ خلفائے ثلاثہ میں سے کسی ایک کی خلافت بھی اجماع امت کے ساتھ قائم نہیں ہوئی۔ ملاحظہ ہو اسی کتاب کا ص29

بطلان اجماع پر دوسرے دلائل

دوسرے اگر دلیل اجماع پر آپ کا اعتماد ہے اور آپ کے نزدیک خدا و رسول(ص) کی جانب سے امت کے لیے یہ حق

۱۵۵

شرعا ثابت ہے تو قاعدے کے رو سے چاہئیے یہ تھا کہ جو خلیفہ بھی دنیا سے اٹھے ساری امت جمع ہو یا زمانہحالکی رسم کے مطابق ایک نمائندہ جماعت یا انتظامی کمیٹی کی تشکیل کرے جو خلیفہ معین کرنے کا مسئلہ طے کرے اور جس پر سب کا اجماع ہوجائے یا ( بقول آپ کے ) صاحبان عقل متفق ہوجائیں اور اتفاق رائے ثابت ہوجائے وہشخص لوگوں کا منتخب خلیفہ قرار پائے ( رسول خدا(ص) کا خلیفہ نہیں) نیز ضروری تھا کہ اس تمدنی اصول پر ہر زمانے میں عملدر آمد ہوتا رہے۔

یقینا آپ تصدیق کریں گے کہ کسی اسلامی خلیفہ کے لیے اس قسم کا اجماع قطعا واقع نہیں ہوا، حتی کہ ناقص اجماع بھی (جس کے متعلق ہم پہلے ہیثابتکرچکے ہیں کہ کبار صحابہ بنی ہاشم اور انصار اس میں شامل نہیں تھے ) سوا ابوبکر بن ابی قحافہ کے کسی اور کے لیے منعقد نہیںہوا۔

اس لیے کہ اسلام کے جمل مورخین و محدثین کا اتفاق ہے کہعمر کی خلافت فقط خلیفہ ابوبکر کی نص پر قائم ہوئی ۔ اگر تعیین خلافت میں اجماع شرط ہےتو ابوبکر کے بعد عمر کے لیے اجماع کی تشکیل کیوں نہیں ہوئی اور رائے عامہ کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

شیخ : کھلی ہوئی بات ہے کہ چونکہ ابو بکر کو اجماع امت نے خلافت پر معین کیا تھا لہذا اپنے بعد والے خلیفہ کے تقرر تنہا خلیفہ اول کا قول ایک مضبوط سند ہے اور ان کے بعد بھی دوبارہ اجماع یا خلیفہ کے تعیین میں امت کی رائے حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ ہر خلیفہ کا قول خلیفہ ما بعد کی تعیین میں مستحکم سند ہے اور یہ خلیفہ کا مخصوص حق ہے کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کر جائے او لوگوں کو حیران و سرگردان نہ چھوڑے ، چنانچہ مسلم الثبوت اجماعی خلیفہ ابوبکر نے جب عمر کو خلافت پر نصب کردیا تو وہ پیغمبر(ص) کے مستقل خلیفہ ہوگئے۔

خیر طلب: اول یہ کہ اگر آپ اپنے عقیدے کے مطابق، مسلم الثبوت خلیفہ کے لیے خلیفہ ما بعد کے تقرر میں ایسے حق کے قائل ہیں اور کہتے ہیں کہ خلیفہ کا فرض ہے کہ امت کو حیران نہ چھوڑے نیز اپنے بعد خلیفہ معین کرنے کے لیے پس اسی کی ںص کافی ہے، تو آپ نے اسی حق کو مسلم الثبوت پیغمبر(ص) اور رسول برحق سے آخر کیوں سلب کرلیا؟ اور ان تمام مخصوص اور واضح نصوص کو جن کے ذریعہ رسول اکرم(ص) نے صراحتہ وکنایۃ باربار اور مختلف مقامات پر علی علیہ السلام کو معین فرمایا( جن میں سے بعض کی طرف ہمپچھلی شبوں میں اشارہ کرچکے ہیں اور آج کی رات بھی حدیث ام سلمہ کی کھلی ہو نص پیش کی جاچکی ہے) کیوں نظر انداز کردیتے ہیں اور ان سے اثر لینے کے بجائے ہر ایک کے لیے فضول تاویلیں کرتے ہیں جیسے ابن ابی الحدید نے حدیث ام سلمہ میں مضحکہ خیز تاویل و ترمیم کر کے اس نص صریح کو رد کیا ہے؟

واقعی بڑے تعجب کا مقام ہے کہ آخر کس بنیاد پر آپ فرماتے ہیں کہ عمر کو خلافت پر نصب کرنے کے لیے ابوبکر کا قول سند ہے لیکن رسول خدا(ص) کے قول میں کوئی سندیت نہیں؟ اور آں حضرت(ص) کے حکیمانہ ارشادات سے بے ربط مطالب پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں؟

دوسرے آپ کہاں سے اور کس دلیل سے فرماتے ہیں کہ خلیفہ اول جو اجماع سے معین ہوئے اپنے بعد خلیفہ مقررکرنے کا حق رکھتے ہیں؟ آیا پیغمبر(ص) کی طرف سے اس قسم کی کوئی ہدایت نافذ ہوئی ہے؟ جواب قطعا نفی میں ہوگا۔

۱۵۶

تیسرے آپ کہتے ہیں کہ جب خلیفہ اول اجماع سے مقرر ہوچکے تو اب دوسرے خلفاء کی تعیین دوبارہ اجماع کی ضرورت نہیں ہے۔ وہی مںصوب خلیفہ امت کی جانب سے اس کا حق رکھتے ہیں کہ اپنے بعد کے لیے خلیفہ معین کردیں اور تنہا انہیں کی نص کافی ہے۔

مجلس شوری پر اعتراض

اگر حقیقت یہی ہے تو یہ اصول صرف عمر ہی کی خلافت میں کیوں برتا گیا؟ بلکہ خلافت عثمان میں تو اس کے برخلاف عمل کیا گیا اور عمر نے خود خلیفہ معین کرنے کے عوض یہ معاملہ چھ اشخاص کے شوری پر چھوڑ دیا۔ معلوم نہیں اثبات خلافت پر آپ حضرات کی دلیل کیا ہے؟ آپ جانتے ہیں کہ جب دلائل میں اختلاف پیدا ہوجائے تو اصل موضوع ہی باطل ہوجاتا ہے۔

اگر اثبات خلافت پر آپ کی دلیل اجماع امت ہے اور ساری امت کو جمع ہو کر متفقہ رائے دنیا چاہئیے (قطع نظر اس سے کہ ابوبکر کی خلافت میں بھی ایسا اجماع واقع نہیں ہوا) تو عمر کی خلافت میں اس طرح کا اجماع کیوں تشکیل نہیں دیا گیا؟ اگر آپ اجماع کو صرف پہلی ہی خلافت میں ضروری سمجھتے ہیں اور بعد والے خلفاء کی تعیین میں فقط اجماع کے ذریعے متنخب کئے ہوئے خلیفہ کی نص ہی کافی ہے۔ تو عثمان کی خلافت میں اس قاعدے پر کیوں عمل نہیں کیا گیا؟ اور خلیفہ عمر نے ابوبکر کے رویے کے بر خلاف خلیفہ کا انتخاب (ہٹلر شاہی نمونے کے)شوری کے اوپر کیوں چھوڑا؟ وہ بھی ایسی مجلس شوری جیسی دنیا کے کسی گوشے میں( یہاں تک کہ وحشی اقوام کے درمیان بھی) قائم نہیں ہوئی، بجائے اس کے کہ مجلس کے نمائندوں کو قوم منتخب کرے( تاکہ اس میں اکثریت کے قول اور خیال کی کچھ تو جھلک موجود ہے) خلیفہ عمر نے خود ہی نامزد کردیا۔

عبد الرحمن ابن عوف کی حکمیت پر اعتراض

اور سب سے عجیب تر بات یہ کہ جملہ ارکان کے اختیارات پامال کر کے ہر ایک ممبر کو عبدالرحمن بن عوف کا ماتحت اور محکوم بنادیا۔

معلوم نہیں کون سرشرعی، عرفی، علمی، یا عملی بنیاد پر عبدالرحمن کو یہ امتیازی ورجہ دے دیا( سوا اس کے کہ یہ عثمان کے عزیز قریب تھے اور یقین تھا کہ عثمان کو چھوڑ کے دوسرے کا ساتھ نہیں دیں گے) کہ اپنے دستور العمل میں کہہ دیا، جس طرف عبدالرحمن ہوں وہی حق ہے اور عبدالرحمن جس کی بیعت کرلیں دوسروں کو بھی اس کی اطاعت کرنا چاہئیے؟

جب ہم گہری نظر سے دیکھتے ہیں تو نظر آتا ہے کہ یہ ایک آمرانہ حکم تھا جس کو شوری کے بھیس میں نافذ کیا گیا تھا۔ ورنہ ہم آج دیکھتے ہیں کہ جمہوریت کا قانون اس طرز عمل کے بالکل برعکس ہے۔ واقعی تعجب اور افسوس کا مقام ہے کہ جیسا میں گذشتہ شبوں

۱۵۷

میں بھی سلسلہ اسناد کے ساتھ عرض کرچکا ہوں۔ باوجودیکہ رسول اللہ(ص) نے بار بار فرمایا ہے:

"عَلِيٌ‏ مَعَ‏ الْحَقِ‏ وَ الْحَقُّ مَعَ عَلِيٍّ حَيْثُ دَارَ."

یعنی علی(ع) حق کے ساتھ اور حق علی (ع) کے ساتھ ہے جدھر وہ گردش کریں۔

نیز فرمایا ہے: "هذا علی فاروق‏ هذه‏ الأمّة يفرق بين الحقّ و الباطل "

یعنی یہ علی(ع) اس امت کے فاروق ہیں جو حق و باطل کے درمیان فرق قائم کرتے ہیں۔

چنانچہ حاکم مستدرک میں، حافظ ابونعیم نے حلیتہ الاولیاء میں، طبرانی ن اوسط میں، ابن عساکر نے اپنی تاریخ میں، محمد بن یوسف گنجی شافعی نے کفایت الطالب میں، محب الدین طبری نے ریاض النظرہ میں، حموینی نے فرائد میں، ابن ابی الحدید نے شرح نہج البلاغہ میں، اور سیوطی نے در المنثور میں، ابن عباس، سلمان، ابوذر، اور حذیفہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اکرم(ص) نے فرمایا:

"ستكون‏ بعدي‏ فتنة، فإذا كان ذلك فالزموا عليّ بن أبي طالب عليه السّلام، فإنّه أوّل من يراني، و أوّل من يصافحني يوم القيامة، و هو الصدّيق الأكبر، و هو فاروق هذه الأمّة؛ يفرق بين الحقّ و الباطل، و هو يعسوب المؤمنين."

یعنی عنقریب میرے بعد ایک فتنہ برپا ہوگا پس اس موقع پر تم کو لازم ہے کہ علی ابن ابی طالب کا ساتھ پکڑو اس لیے کہ یہ پہلے وہ شخص ہیں جو قیامت کے روز مجھ سے مصافحہ کریں گے۔ یہ سب سے بڑے بڑے راست گو اور اس امت کے فاروق ہیں جو حق وباطل کے درمیان تفریق کرتے ہیں اور یہی مومنین کے بادشاہ ہیں۔

اور عمار کے مشہور حدیث میں ہے جس کو سلسلہ اسناد کے ساتھ پچھلی راتوں میں تفصیل سے عرض کرچکا ہوں کہ آں حضرت(ص) نے عمار یاسر سے فرمایا:

"إن‏ سلك‏ الناس‏ كلهم‏ واديا و علي واديا فاسلك وادي علي دخل عن الناس يا عمار علی لايردک عن هدى و لا يدلک علی ردی يا عمار طاعة علي من طاعتي و طاعتي من طاعة الله."

یعنی اگر تمام لوگ ایک راستے پر ہوجائیں اور علی(ع) ایک راستے پر تو علی(ع) ہی کے راستے پر چلنا اور تمام لوگوں کا ساتھ چھوڑ دینا۔ اے عمار علی(ع) تم کو ہدایت سے برگشتہ نہ کریں گے اور ہلاکت کی طرف نہ لے جائیں گے۔ اے عمار علی(ع) کی اطاعت میری اطاعت اور میری اطاعت خدا کی اطاعت ہے۔

حضرت امیرالمومنین کی منزلت پر بدترین ظلم

لیکن پھر بھی خلیفہ عمر پیغمبر(ص) کی ہدایت کے برخلاف علی(ع) کو شوری میں عبدالرحمن کو محکوم اور ماتحت قرار دیتے ہیں آیا ایسی حکومت حقبجانب ہوسکتی ہے جس نے دوسرے تمام بزرگان صحابہ کو دودھ کی مکھی بنا دیا اور امر خلافت میں ان کے حق رائے وہی کو کالعدم کردیا؟ پھر اسی پر اکتفاء نہیں کی بلکہ خود شوری میں بھی علی علیہ السلام پر شرمناک ظلم ڈھایا اور ان حضرت کی انتہائی اہانت کی کہ حق و باطل کے درمیان فرق کرنے والے ( فاروق ) کو عبدالرحمن کا ماتحت اور محکوم بنایا۔

محترم حضرات ! انصاف سے فیصلہ کیجئے اور استیعاب ، اصابہ، اور حلیتہ الاولیاء وغیرہ جیسی کتاب رجال کا مطالعہ کرنے کے بعد علی علیہ السلام کے حالات کا عبدالرحمن بلکہ شوری کے پانچوں ممبروں کی حیثیت کے ساتھ موازنہ کیجئے اور دیکھئے کہ حاکم بننے

۱۵۸

کی لیاقت عبدالرحمن کے اندر تھی یا حضرت امیرالمومنین علیہ السلام میں؟ اس کے بعد اندازہ کیجئےکہ سیاسی پارٹی بندی کے ماتحتبھی حضرت علی(ع) کے حق ولایت کو پامال کردیا جائے۔

خلاصہ یہ کہ اگر خلیفہ ثانی عمر ابن خطاب کا یہ دستور قابل عمل تھا کہ تعیین خلافت کے لیے مجلس شوری ضروری ہے تو حضرت امیرالمومنین(ع) کی خلافت میں اس کا سہارا کیوں نہیں لیا گیا؟

حیرت ہے کہ خلافت خلفائے اربعہ ( راشدین) ابوبکر، عمر ، عثمان اور علی(ع) میں چار طریقے بروئے کار آئے تو آیا ان چاروں قسموں میں سے کون سی قسم بنیادی برحق اور قابل اعتماد تھی اور کون سے اقسام باطل؟ اگر آپ کے حسب دل خواہ چاروں طریقے حق تھے تو ماننا پڑے گا کہ آپ کے پاس تعیین خلافت کے لیے کئی مستقل اصول اور محکم دلیل ہی موجود نہیں ہے۔

اگر آپ حضرات اپنی عادت سے ذرا ہٹ کے مںصفانہ اور گہری نظر سے حقائق کیجئے تو اعتراف کیجئے گا کہ حقیقت اس کے علاوہ ہے جس کا ظاہر بظاہر شہرہ اور رواج ہے۔

چشمباز وگوش باز و این عمی خیرتم از چشم بندی خدا

شیخ : اگر آپ کے یہ بیانات صحیح ہوںکہ (بقول آپ کے ) اس معاملے پر گہری نگاہ ڈالنا چاہئیے تو ایسی صورت میں علی کرم اللہ وجہہ کی خلافت بھی ڈانواں ڈول ہوجاتی ہے، کیونکہ جس اجماع نے خلفائے سابق( ابوبکر و عمر و عثمان رضی اللہ عنہم) کو خلافت پر نصب کیا اور تقویت دی اسی نے علی کرم اللہ وجہہ کو بھی منتخب کیا اور خلافت پر مقرر کیا ہے۔

خیر طلب: آپ کا یہ بیان اس وقت درست ہوسکتا ہے جب کہ پہلے سے رسول خدا(ص) کے نصوص اور ارشادات موجود نہ ہوں حالانکہ علی علیہ السلام کی خلافت اجماع امت کی پابند نہ تھی بلکہ خدا و رسول (ص) کی جانب سے مںصوص تھی۔

خلافت علی(ع) خدا و رسول(ص) کی طرف سے منصوص تھی

اگر حضرت نے خلافت کا بار سنھبالا تو وہ اجماع یا لوگوں کے ہجوم کی وجہ سے نہیں تھا بلکہ اپنا حق واپس پانے کے صورت میں تھا، اس لیے کہ اگر کسی حق دار کا حق غصب کر لیا جائے تو چاہے مدتین گذر جائیں لیکن جس وقت موقع ہاتھ آجائے،حالات سازگار ہوجائیں اور مانع برطرف ہوجائے وہ اپنا حق وصول کرسکتا ہے ۔ چنانچہ جس روز مانع برطرف ہوا اور ماحول مقتضی ہوگیا حضرت نے احقاق حق فرمایا اور حق اپنے مرکز سے ملحق ہوگیا۔

آپ حضرات اگر بھول گئے ہوں تو رسائل واخبارات کے صفحات او خصوصی اشاعتوں کا مطالعہ فرمائیے جن میں وہ دلائل اور نصوص خلافت درج ہیں جن کو ہم نے گذشتہ راتوں میں پیش کیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ خلافت ظاہری کی مسند پر حضرت کا قیام اجماع یا لو گوں کی توجہ کے سبب سے نہیں بلکہ آیات قرآنی و نصوص پیغمبر(ص) کی بنیاد پر تھا اور اپنے حق کی واپسی تھی۔

۱۵۹

آپ تو ایسی ایک بھی متفق علیہ حدیث نہیں پیش کرسکتے جس میں رسول اکرم(ص) نے فرمایا ہو کہ ابوبکر، عمر اور عثمان میرے وصی اور خلیفہ ہیں یا جس میں اموی اور عباسی خلفاء میں سے کسی کا نام لیا ہو۔ البتہ ( علاوہ توار کتب شیعہ کے) آپ کی تمام معتبر کتابوںمیں پیغمبر(ص) سے ایسی حدیثیں ضرور کثرت سے منقول ہیں جن میں آں حضرت (ص) نے علی علیہ السلام کو اپنی خلافت و وصایت پر نصب فرمایا ہے چنانچہ ان میں سے چند پچھلی راتوں میں اور حدیث ام سلمہ آج کی شب عرض کرچکا ہوں۔

شیخ : ہماری روایتوں میں بھی وارد ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا ابوبکر میرے خلیفہ ہیں۔

خیر طلب: گویا آپ ان دلائل کو بالکل بھول ہی گئے جو میں سابق راتوں میں ان احادیث کے بطلان پر قائم کرچکا ہوں، اور آج کی شب بھی میں آپ کو بغیر جواب کے نہیں چھوڑوں گا ۔ شیخ مجددالدین فیروز آبادی صاحب قاموس اللغات کتاب مضرالسعادت میں کہتے ہیں :

" إن‏ ما ورد في‏ فضائل‏ أبي بكر فهي من المفتريات التي يشهد بديهة العقل بكذبها "

یعنی فضائل ابوبکر میں جو کچھ بھی نقل ہوا ہے وہ ایسی افترا پروازیون میں سے ہے کہ عقل بدیہی طور پر اس کے جھوٹ ہونے کی گواہی دیتی ہے۔

علی(ع) کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی

ان چیزوں کے علاوہ اگر آپ خلافت کے ظاہری طریقے پر اچھی طرح غور کریں تو خلفائے راشدین( ابوبکر، عمر، عثمان اور علی(ع)) اور اموی و عباسی خلفاء میں سے کسی ایک کے لیے بھی کوئی اجماع منعقد نہیں ہوا کہ تمام امت جمع ہوتی یا ساری امت کے باقاعدہ چنے ہوئے نمائیندے اکٹھا ہوتے اور بالاتفاق اس کی خلافت کے لیے رائے دیتے ۔ پھر بھی ہم دیکھتے ہیں کہ دوسرےخلفاء کی نسبت بظاہر حضرت علی علیہ السلام ہی کی خلافت اجماع سے قریب تر تھی اس لیے کہ آپ کے علماء و مورخین لکھتے ہیں کہ خلافت خزرج کے ساتھ اپنی مخالفت کی وجہ سے بیعت کر لی کیونکہ اس نے سعد بن عبادہ کو امارت کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ پھر آگے چل کر بعض نے ڈرانے دھمکانے سے ( جس کی تفصیل عرض کرچکا ہوں) اور ایک جماعت نے لالچ دلانے سے بیعت کی لیکن پھر بھی ایک گروہ نے مثلا سعد بن عبادہ کی پیروی میں اںصار نے آخر تک خلافت تسلیم نہیں کی پھر عمر کی خلافت تنہا ابوبکر کی تجویز سے قائم ہوئی جس میں اجماع اور رائے عامہ کا قطعا کوئی دخل تھا بلکہ یہ خلافت شاہانہ انداز کا ایک نمونہ تھی۔

اس کے بعد عثمان عمر کی بنائی ہوئی آمرانہ مجلس شوری کی سیاسی ترکیب سے مسند خلافت پر بیٹھے ۔ البتہ علی علیہ السلام کےقیام خلافت میں تقریبا سارے بلاد مسلمین کے اکثر نمائیندوں نے جو اتفاق سے دربار خلافت سے داد خواہی کرنکے لیے مدینے آئے ہوئے تھے، شریک ہو کر ایک بڑے اجماع کی تشکیل کی اور سبھی کے اصرار سے حضرت خلافت ظاہری

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

( وجعلنی مبارکاً أینماکنت ) ( ۱ )

''اور مجھے مبارک قرار دیا ہے چاہے میں جہاں رہوں ''

جب تک ﷲ کسی بندہ کو توفیق کرامت نہ فرمائے یا اسکے لئے بھلائی کا ارادہ نہ کرے تو بندہ

اپنی جدوجہد اور عقل کے ذریعہ تھوڑے سے اسباب خیر ہی حاصل کرسکتا ہے۔

( لاینفع اجتهاد بغیرتوفیق ) ( ۲ )

''کوئی بھی کوشش توفیق کے بغیر مفید نہیں ہوتی ''

اورجب پروردگار عالم کسی بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کو توفیق مرحمت کرتا ہے اور اسکی سعی و کوشش کو فلاح و کامیابی کے راستہ پر لگادیتا ہے جس سے اسکی سعی وکوشش نتیجہ بخش ہوجاتی ہے۔

حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(خیرالاجتهاد ما قارنه التوفیق )( ۳ )

''بہترین کوشش وہ ہے جو توفیق کے ساتھ ہو''

دوسری حدیث میں وارد ہو ا ہے:

(التوفیق أشرف الحظّین )( ۴ )

''توفیق دواشر ف واعلی حصو ںمیں سے ایک ہے''

اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس کچھ ایسے اسباب خیروسعادت ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی عقل اور جدوجہد کے سہارے حاصل کرتا ہے یا وہ وسائل و ذرائع ہوتے ہیں جوﷲ نے اسے عطا

____________________

(۱)سورئہ مریم آیت ۳۱۔

(۲)غررالحکم ج۲ ص۳۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۳۵۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۸۲۔

۳۰۱

کئے ہیں یہ بھی نتیجہ تک پہونچنے میں شریک ہیں مگر ان کا حصہ اور ان کی منزلت کم ہے۔دوسرا جز اور حصہ خیروبرکت کے وہ غیبی اسباب ہیں جنہیں ﷲ اپنے بندہ کے شامل حال کرتا ہے یا جب بندہ کو اس کی سعی وکوشش سے اسباب خیر میسر نہیں ہوتے تواللہ اسے خیر و سعادت کی راہ پر لگادیتا ہے یہ دوسرا حصہ ہے جو حدیث کے مطابق زیادہ مخفی ہوتا ہے۔

بلا شبہ توفیق جوایک غیبی سبب ہے اور انسان کو خیروبرکت کی راہ دکھاتا ہے ۔انسان کے پاس

موجود دیگر عقلی اور فطری امکانات اور قوتوںسے جدا ایک چیز ہے اگر چہ یہ قوتیں اورصلاحتیں بھی عطائے پروردگار ہیں لیکن تنہا یہ صلاحتیں انسان کو خیروسعادت کی منزل تک پہونچانے کے لائق نہیں ہیں یعنی صرف انھیں کے سہارے انسان شر سے محفوظ نہیںرہ سکتا ہے بلکہ پروردگار جب کسی بندہ کے لئے خیرکا ارادہ کرتا ہے تو اسکی سعی وکوشش اور صلاحیتوں کو خیر کے صحیح راستوں پر بروئے کار لانے میں اسکی مدد کرتا ہے۔مندرجہ ذیل حدیث اس حقیقت کی صاف وضاحت کرتی ہے۔

روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق سے سوال کیا:

(یا بن رسول ﷲ! ألست أنا مستطیعاً لماکُلِّفْتُ؟فقال له عليه‌السلام :(ما الاستطاعة عندک؟) قال:القوةعلیٰ العمل،قال له عليه‌السلام :(قد اُعطیت القوة،ان اُعطیت(المعونة)،قال له الرجل:فما المعونة ؟ قال عليه‌السلام :(التوفیق)،قال(الرجل):فلم اِعطائُ التوفیق؟ قال(الامام) عليه‌السلام : هل تستطیع بتلک القوةدفع الضررعن نفسک،وأخذالنفع الیهابغیرالعون من ﷲ تبارک وتعالیٰ؟)قال:لا، قال عليه‌السلام :(فَلمَ تنتحل مالا تقدرعلیه؟)ثم قال:(أین أنت من قول العبد الصالح:(وما توفیقی الا بﷲ) ( ۱ )

____________________

(۱)بحار الانوارج۵ ص۴۲۔''وماتوفیقی الابﷲعلیه توکّلت والیه اُنیب'' ''میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسکی طرف میں توجہ کر رہاہوں''سورئہ ہو دآیت۸۸۔

۳۰۲

''فرزند رسول ﷲ !جب مجھے مکلف بنایاگیا ہے تو کیا میں مستطیع نہیں ہوں؟امام نے فرمایا:استطاعت سے تمہاری مراد کیاہے؟اس نے جواب دیا کہ عمل بجالانے کی قوت وطاقت''امام نے فرمایا:یہ درست ہے کہ تمہیں قوت دی گئی ہے مگر کیا تمہیں''معونہ''بھی نصیب ہوا ہے؟اس شخص نے سوال کیا:یہ معونہ کیاہے؟امام نے فرمایا:توفیق! اس شخص نے(تعجب سے)پوچھا:توفیق عطا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟امام نے فرمایا کہ:کیا تم اللہ کی مددکے بغیر صرف اپنی قوت کے ذریعہ اپنے کو نقصانات سے محفوظ ر کھ سکتے ہو اور فائدے حاصل کرسکتے ہو؟اس نے جواب دیا ہرگز نہیں:پھر امام نے دریافت فرمایا:پھرتم عبدصالح کے اس جملہ کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ' 'میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے ''

اس روایت کے مطابق انسانی زندگی میں تین طرح کی قوتیں اور عوامل کار فرما ہیں:

۱۔وہ طبیعی اور سماجی قوانین جو انسان کو خیریا شرکی جانب لے جاتے ہیں۔

۲۔وہ قوتیں اور صلاحتیں جو پروردگار عالم نے انسانی وجود میں رکھی ہیں اور جنہیں انسان طبیعت یا سماج میں خیروشر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

۳۔توفیق و امداد الٰہی جس کے ذریعہ پروردگار اپنے بندوں کو اسباب خیر تک پہونچاتا ہے اور ان مخفی اسباب کے لئے بندوں کی مدد کرتا ہے جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے یا جن تک رسائی ممکن نہ تھی اس آخری سبب کے بغیر خیر تک پہونچنا ممکن نہیں ہے۔

کراجکی نے اپنی کتاب'' کنز ''میں روایت کی ہے کہ امام جعفر صاد ق نے فرمایا:

(ماکلّ من نویٰ شیئاً قدرعلیه،وما کل من قدر علیٰ شیٔ وُفّق له ۔۔۔)( ۱ )

''ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان ہر اس چیز پر قدرت بھی رکھتا ہو جس کی اس نے نیت کی ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ جو مقدور ہو اسکی توفیق بھی حاصل ہواور نہ ہی ایسا ہے کہ جسکی توفیق حاصل ہو وہ شئے خود

____________________

(۱)بحارالانوار ج۵ص۲۰۹۔۲۱۰۔

۳۰۳

حاصل بھی ہوجائے۔جب نیت ، قدرت اورتوفیق کے ساتھ وہ چیزبھی حاصل ہوجائے تو سعادت مکمل کہلاتی ہے''

توفیق ،معرفت پروردگار کا بہت وسیع باب ہے اگر چہ ﷲ کی معرفت کے تین راستے ہیں:

۱۔فطرت

۲۔عقل (عقلی دلیلوںکے ذریعہ)

۳۔تعامل مع اللہ(اللہ کے ساتھ تجارت اور معاملہ)

''تعامل مع ﷲ'' معرفت کاایک وسیع در وازہ ہے لیکن اس دروازہ میں صرف صاحبان بصیرت داخل ہوسکتے ہیں اوراسکے ذریعہ انسان کو ایمان، اعتبارواطمینان اور توکل کاوہ درجہ حاصل ہوتا ہے جو فطرت اورعقل کے ذریعہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم کے ساتھ معاملہ اور اس کی عطا کے ساتھ لین دین اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی معیت کی وجہ سے ہی تائید خداوندی اوراس کی تو فیق ہر حال میں انسان کے شامل حال ہو تی ہے ۔

توفیق الٰہی یونہی کسی انسان کے شامل حال نہیں ہوجاتی بلکہ توفیق نازل ہونے کے اپنے اسباب و قوانین اور اصول ہیں۔ جسے پروردگار نے توفیق جیسی نعمت عطا کی ہے یقینا وہ اس لائق تھا کہ ایسی رحمت الٰہی اس کو نصیب ہو اور جو توفیق سے محروم ہے یقینا اس نے اس عظیم نعمت کے نزول و حصول کے مواقع ضرورگنوائے ہیں ورنہ رحمت الٰہی میں بخل و کنجو سی کا دخل نہیں ہے اور نہ ہی اسکا خزانہ ٔ رحمت ختم ہونے والا ہے ۔یہ عظیم نعمت اسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے شامل حال خدا کی توفیق ہوتی ہے اور اس نعمت سے محروم صرف وہی ہوتا ہے کہ جسے توفیق نصیب نہ ہو۔ توفیق جیسی نعمت پانے والے افراد بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ استحقاق، صلاحیت ،لیاقت اور ظرف کے اعتبار سے ان کی توفیق کے مراتب ودرجات بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔

۳۰۴

اسکی بارگاہ سے رحمت،توفیق کی شکل میں بے حساب نازل ہوتی رہتی ہے البتہ اس سے صرف وہی لوگ محروم رہتے ہیں جن کا نفس بد اعمالیوں کے باعث گھاٹے میں ہے اور جنھوںنے اپنے آپ کو اوراپنے باطن اور ظرف کواسکے حصول کے قابل نہیں بنا یاہے جبکہ ان کے برخلاف صاحبان ایمان اپنی استعداد اورظرف کے مطابق اس نعمت سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں۔( ۱ )

رزق اگر چہ عالم ظاہر و شہودکا معاملہ ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسئلہ رزق سے غیبی اسباب کا کتنا گہرا تعلق ہے ۔

عالم غیب اور عالم شہود(ظاہر)کے درمیان رابطہ

مسئلہ''غیب''اور''غیب وشہود کا تعلق''جیسے مسائل اسلامی نظریات کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیںاور اس سلسلہ میں لوگوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو سرے سے غیب کے منکر ہیں کچھ شہود کے مقابل غیب کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان رابطہ کے منکر ہیں۔

اسلام''غیب''کو صرف تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ''غیب''پر ایمان کی دعوت دیتا ہے اور ''ایمان بالغیب''کو اسلام کی سب سے پہلی شرط قرار دیتا ہے۔

( الم ٭ذٰلک الکتاب لاریب فیه هدیً للمتقین٭الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلاة و مما رزقناهم ینفقون ) ( ۲ )

''یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگارلوگوں کیلئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ

____________________

(۱)مؤلف کی کتاب ''المذہب التاریخی فی القرآن الکریم ، سے اقتباس ،معمولی تبدیلی کے ساتھ صفحہ ۴۰۔۴۹۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۱۔۳۔

۳۰۵

نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ''

( الذین یخشون ربهم بالغیب وهم من الساعة مشفقون ) ( ۱ )

''جو از غیب اپنے پروردگار سے ڈر نے والے ہیں اور قیامت کے خوف سے لرزاں ہیں''

( انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمٰن بالغیب ) ( ۲ )

''آپ صرف ان لوگوں کو ڈر ا سکتے ہیں جو نصیحت کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے ازغیب خدا سے ڈر تے رہیں ''

اسلام عالم غیب اور عالم شہود کے درمیان ربط کا بھی قائل ہے اس کا یہ نظریہ ہے کہ ان دونوں وسیع افقوں کوجوڑنے والے بہت سے پل بھی پائے جاتے ہیں ان تمام باتوں سے بڑھکر اسلام کا عقیدہ ہے کہ دونوں عالم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی عالم غیب ،عالم ظاہر و محسوس پر اثر انداز ہوتا ہے اور عالم محسوس و ظاہر غیب پر ،اگر انسان متقی وپرہیزگار ہے۔ایمان بالغیب کے باعث دل میں خشیت الٰہی پائی جاتی ہے اور وہ گناہوں سے کنارہ کش رہتا ہے تو یہ چیزیں براہ راست انسان کی مادی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔معاش حیات کی سختیاں آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور رزق کے دروازے اسکے لئے کھل جاتے ہیں۔ارشاد پروردگار ہے:

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لا یحتسب ) ( ۳ )

''اور جو بھی ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے ،اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جسکا وہ گمان بھی نہیں کرتا ہے ''

____________________

(۱)سورئہ انبیاء آیت۴۹ ۔

(۲)سور ئہ یٰس آیت۱۱۔

(۳)سورئہ طلاق آیت ۲۔۳۔

۳۰۶

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له من أمره یسرا ) ( ۱ )

اور جو ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے امرمیں آسانی پیدا کردیتا ہے ''

یہ تو تھا عالم ظاہر و محسوس کا عالم غیب سے تعلق۔ اسکے برخلاف عالم غیب کا بھی عالم ظاہر سے

تعلق پایا جاتا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے:

(لولا الخبزماصلّینا )( ۲ )

''اگر روٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہم نماز نہ پڑھتے''

آپ ہی سے منقول ہے:(وبہ (الخبز)صمتم)( ۳ )

''تم لوگوں کے روزے اسی روٹی کیلئے ہیں''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(فلولاالخبزماصلّیناولاصمنا،ولا أدّینافرائض ربناعزّوجلّ )( ۴ )

''اگر روٹی (کی بات) نہ ہوتی تو نہ ہم نماز پڑھتے اور نہ روزہ رکھتے اور نہ ہی اپنے پروردگار کے احکام بجالاتے''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۴۔

(۲)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

(۳)اصول کافی ج۶ ص۳۰۳۔

(۴)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

۳۰۷

حرکت تاریخ کے سلسلہ میں غیبی عامل کا کردار

عالم غیب اور عالم محسوس میں اسی رابطہ کی بنا پر قرآن کریم ''غیب''کو حرکت تاریخ کا اہم سبب شمار کرتا ہے اور تاریخ کے پیچھے مادی سبب کو بھی تسلیم نہیں کرتا چہ جائیکہ مادیت کو تاریخ کا تنہا محرک مانا جائے بلکہ بسا اوقات ایسا بھی دکھائی دیتا ہے کہ تاریخ مادی عوامل کے تقاضوں کے برخلاف حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ذرا قرآن کریم کی ان آیات میں غور وخوض کیجئے:

( لقدنصرکم ﷲ فی مواطن کثیرة ویوم حنینٍ اذ أعجبتکم کثرتکم فلم تغنِ عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولّیتم مدبرین٭ثم أنزل ﷲ سکینته علیٰ المؤمنین وأنزل جنوداً لم تروها وعذّب الذین کفروا وذٰلک جزاء الکافرین ) ( ۱ )

''بیشک اللہ نے اکثر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس(کثرت) نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ،پھر اسکے بعد اللہ نے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھااور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیاکہ یہی کافرین کی جزا اور ان کا انجام ہے''

ان آیات کریمہ سے پہلا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ فتح و کامرانی عطا کرنے والا خدا ہے۔

مادی اسباب و وسائل صرف ذریعہ ہیں کامیابی دینے والا اصل میں خدا ہے۔ تاریخ کی حرکت کو سمجھنے کے لئے بنیادی نقطہ یہی ہے اور یہیں سے اسلامی نظریہ،مادیت کے نظریہ سے جدا ہوجاتا ہے۔

آیات کریمہ میں دوسرا اہم تذکرہ لشکر اسلام کی کثرت کے باوجود حنین کی جنگ کا نقشہ منقلب ہونا ہے حالانکہ مادی نگاہ رکھنے والوں کے نزدیک افرادکی کثرت فتح کا سبب ہوتی ہے۔ ''اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایااور

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت۲۵۔۲۶۔

۳۰۸

تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوںسمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعدتم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

آیات کریمہ میں تیسرا تذکرہ ﷲ کی جانب سے اپنے رسول اور مومنین پرعین میدان جنگ میں سکینہ نازل ہونا ہے۔اسی سکینہ کے باعث شدت کے لمحات میں انہیں اطمینان و سکون حاصل ہوا

اور وہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکے اور ان کے دلوں سے خوف واضطراب زائل ہوایہ سکینہ فقط خدا کی جانب سے تھا ﷲ نے فرشتوں کا نہ دکھائی دینے والالشکر نازل کیا جو لشکر کفار کو ہزیمت پر مجبور کر رہا تھا ان کی صفوں میں رعب پھیلا رہا تھا اسکے بر خلاف دشمن سے مقابلہ کے لئے مومنین کے دلوں کو تقویت عطا کررہا تھا۔

اب ہم سورئہ آل عمران کی ان آیات کو پڑھیں:

( بلیٰ ان تصبروا وتتّقوا ویأ توکم من فورهم هذا یُمددکم ربّکم بخمسة آلاف من الملا ئکةمسوّمین٭ وما جعله ﷲ الابشریٰ لکم ولتطمئنّ قلوبکم به وما النصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) ( ۱ )

'' یقینا اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے اور دشمن فی الفورتم تک آجائیں تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مددکریگا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوںگے ۔اور اس امداد کو خدانے صرف تمہارے لئے بشارت اور اطمینان قلب کا سامان قرار دیا ہے ورنہ مدد تو صرف خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے ہوتی ہے ''

جنگ کی شدت اور سختیوں کے دوران پانچ ہزار ملائکہ کے ذریعہ غیبی امداد نے فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرادیا۔ﷲ نے ملائکہ کے ذریعہ مومنین کے دلو ں کو سکون واطمینان عطا کیا اور اس طرح سخت ترین لمحات میں انہیں اسطرح بشارت وخوش خبری سے نواز ا۔ اسی آیہ شریفہ میں اس

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۲۵۔۱۲۶۔

۳۰۹

بنیادی نقطہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو نقطہ تاریخ کی حرکت کے بارے میں اسلام اور مادیت کے درمیان حدفاصل ہے( وماالنصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) فتح وکامرانی صرف اور صرف ﷲ کی جانب سے ہے جنگ احد میں جیتی ہوئی جنگ کا نقشہ پلٹ جانے کے بعد مومنین کو سکھائے گئے

اسباق سورئہ آل عمران میں موجود ہیں:

( ولا تهنواولا تحزنواوأنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ) ( ۱ )

''خبر دار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا،اگر تم صاحب ایمان ہوتو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے ''

میدان جنگ میں یہ برتری خدا پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ایمان کے بعد پھر کہیں ان مادی اسباب و عوامل کی باری آتی ہے جنکی ضرورت میدان جنگ میں پڑتی ہے۔

سورئہ اعراف میں بھی یہی مضمون نظر آتا ہے:

( ولوأنّ أهل القریٰ آمنوا وا تّقوا لفتحنا علیهم برکاتٍ من السماء والارض ولکن کذّبوا فأخذناهم بماکانوا یکسبون ) ( ۲ )

''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔''

''پروردگار عالم اپنے بندوں پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیتا ہے'' یہ چیز ایمان وتقوے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اسکے ساتھ ضمنی طورپرمادی و سائل بھی درکار ہوتے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ تھا جو کہ مثبت رخ تھا کہ کس طرح میدان جنگ میں ایمان اور تقوی ٰسے

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۳۹۔

(۲)سورئہ اعراف آیت۹۶۔

۳۱۰

فتح و کامرانی ملتی ہے معاشی زندگی میں وسعت رزق ،آسانیاں اور خوشیاں میسر ہوتی ہیں۔ اسکے برخلاف عالم غیب اور عالم محسوس کا یہی تعلق اور رابطہ غلطیوں اورگناہوںمیں مبتلاہونے اور حدود الٰہی سے تجاوز ،تہذیبوں کے خاتمہ اور امتوں کی تباہی و بربادی کا سبب بھی ہوتا ہے۔

سورئہ انعام کی ان آیات کو غور سے پڑھئے:

( ألم یرواکم أهلکنامن قبلهم من قَرنٍ مکنّاهم فی الارض مالم نمکّن لکم وأرسلنا السماء علیهم مدراراً وجعلنا الانهارتجری من تحتهم فأهلکناهم بذنوبهم وأنشأنا من بعدهم قرناً آخرین ) ( ۱ )

''کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوں کو تباہ کردیا ہے جنہیں تم سے زیادہ زمین میں اقتدار دیا تھا اور ان پر موسلادھار پانی بھی برسایا تھا ان کے قدموں میں نہر یں بھی جاری تھیں پھر ان کے گناہوں کی بناپر انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری نسل جاری کردی ''

یہ ہلاکت و بربادی بے عملی، عصیان اور گناہوں کی وجہ سے تھی مادیت کو تاریخ کا محرک سمجھنے والوں کی نگاہ میں ان اسباب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے جبکہ قرآن بد اعمالیوں کو بھی بربادی کا سبب مانتا ہے ۔

اسی سورئہ مبارکہ کی یہ آیات کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں جن میں قرآن مجید نے تسلسل کو مکمل طور پر پیش کردیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

( ولقد ارسلنالیٰ امم منقبلک فاخذناهم بالبأسآء والضرّآء لعلهم یتضرعون٭ فلولااذجاء هم بأسنا تضرّعوا ولکن قست قلوبهم و زیّن لهم الشیطان ماکانوا یعملون٭فلمانسوا ما ذکّروا به فتحناعلیهم أبواب کل شیٔ حتّٰی اذا فرحوابما اُوتوا أخذنٰهم بغتة ً فاذا هم مبلسون٭فقطع )

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۶۔

۳۱۱

( دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۱ )

''ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اسکے بعد انہیں سختی اور تکلیف

میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں۔پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی ؟بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے ۔پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دئے ،یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوشحال ہوگئے تو ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ،اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے، پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیاگیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

تمام امتوں کے آغاز سے لیکر ان کے انجام تک تین مرحلے ہیں جن کی طرف ان آیات کریمہ میںاشارہ پایا جاتا ہے اسی طرح ان تینوں مرحلوں میں عالم غیب اور عالم محسوس کے درمیان رابطہ کی وضاحت پائی جاتی ہے۔

پہلا مرحلہ

یہ آزمائش کا مرحلہ ہے اس مرحلہ میں پروردگار امتوں کو نعمتوں اور صلاحتیوں سے نواز تا ہے۔اس مرحلہ میں گناہ و معصیت نزول بلا اور بارگاہ خداوندی میں تضرع وزاری بلائوں سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلّهم یتضرّعون )

''اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلاکیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

گناہ سے بلائووں کانازل ہونا اور تضرع وزاری سے بلائووں کا برطرف ہونا یہ در اصل عالم

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۴۲۔۴۵۔

۳۱۲

غیب اور عالم محسوس کے رابطہ کو بیان کرتا ہے اوراس نقطہ تک مادی فکرکی رسائی نہیں ہوسکتی ہے یہ بات ہمیںکتاب خدا سے معلوم ہوئی ہے۔

دوسرا مرحلہ

مہلت اور چھوٹ کا مرحلہ ہے ۔اس مرحلہ میں بھی عالم غیب و محسوس کا تعلق نمایاں ہے اس لئے کہ برائیوں اور گناہوں میں غرق ہوجانے اور آزمائش کے مرحلہ میں مصائب و مشکلات کو نظر انداز کرتے رہنے کے باوجود کبھی کبھی امت پر نعمت کا دروازہ بند نہیں ہوتا لیکن اس مرحلہ میں رزق،نعمت نہیںبلکہ عذاب ہوتا ہے اور ﷲ اس طرح انہیں ان کی سرکشی میں چھوٹ دیکر ان کی رسی درازکردیتا ہے تاکہ پھراچانک ایک دم پوری سختی وقوت کے ساتھ انہیں جکڑلے:

( فلما نسواماذکّروا به فتحنا علیهم أبواب کلّ شیٔ ) ( ۱ )

''پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہرچیز کے دروازے کھول دئے ''

تیسرا مرحلہ

بربادی اور نابودی کا مرحلہ ہے:

( فقطع دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۲ )

''پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیا گیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

حمد خدا یہاں عذاب پر ہے نعمت پرنہیں۔ یعنی نعمت حیات کے بجائے ''سرکش افراد کی '' نابودی اورہلاکت پر حمد وثنا ئے الٰہی کی جارہی ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت ۴۴۔

(۲)سورئہ انعام آیت۴۵۔

۳۱۳

عالم غیب ومحسوس کا رابطہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مراحل سے جدا نہیں ہے کیونکہ جب افراد قوم اکڑتے ہیں روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان چیزوں میں فرحت محسوس کرتے ہیں تو ان پر ایسا عذاب نازل ہوتا ہے کہ پوری قوم نیست ونابود ہوجاتی ہے۔

لہٰذامعلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں غیبی عامل ،حرکت تاریخ کا اہم عنصر ہے۔

غیبی عامل،مادی عوامل کا منکر نہیں

اگر چہ اسلام کی نگاہ میں حرکت تاریخ کا اہم عنصر غیبی عامل ہے مگراسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے

کہ اسلام انسانی زندگی میں مادی عوامل کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ در حقیقت حرکت تاریخ کا عامل، کسی ایک چیز کو ماننے کے بجائے اسلام متعدداور مشترکہ عوامل کا قائل ہے یعنی غیبی اور مادی عوامل ایک ساتھ مل کر تاریخ کو آگے بڑھاتے ہیں ۔اور ان میں سے صرف کوئی ایک عامل تاریخ کا محرک نہیں ہے وہ مادی عامل ہو یا معنوی۔ اسلام کی نگاہ میںزندگی بسر کرنے کے لئے ان دونوں عوامل کوبروئے کار لانا ضروری ہے۔

تقویٰ اور رزق کا تعلق

جب عالم غیب اور عالم محسوس کا تعلق اور ربط واضح ہوگیا ''تو آیئے ایک نگاہ ،حدیث قدسی کے اس فقرہ پر ڈالتے ہیں:

(لا یؤثرعبد هوای علی هواه الاضمنت السمٰوات والارض رزقه )

''کوئی بندہ اگر اپنی خواہشات پرمیرے احکام اورمرضی کو ترجیح دے گا تو میں زمین وآسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادوں گا'' عالم غیب و عالم محسوس کے درمیان تعلق کی گذشتہ توضیح کے پیش نظر غیب اور معنویت سے تعلق رکھنے والے ''تقویٰ''اور عالم غیب وعالم محسوس وشہود سے تعلق رکھنے والے ''رزق' ' کے درمیان ربط کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہ جاتی ۔

۳۱۴

اسلامی تہذیب میں یہ نظریہ بالکل واضح وروشن ہے اس لئے کہ تقویٰ بھی رحمت الٰہی کا وسیع دروازہ ہے تقوے کے ذریعہ انسان ﷲ سے رزق نازل کراسکتا ہے ۔تقوے سے ہی باران رحمت نازل ہوتی ہے اور مشکلات بر طرف ہوتی ہیں تقوے کے سہارے ہی ﷲ کی جانب سے فتح وکامیابی میسر ہوتی ہے۔اسی کے طفیل بند دروازے کھل جاتے ہیں تقوے کی ہی بدولت خداوند عالم زندگی کے مشکلات میں لوگوں کے لئے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعلْ له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لایحتسب ومن یتوکّل علی ﷲ فهوحسبه انّ ﷲ بالغ أمره قد جعل ﷲ لکلّ شی ء قدْرا )

''اور جو بھی ﷲسے ڈرتا ہے ﷲاس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کریگا خدا اسکے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے ۔ ''( ۱ )

جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعل له من أمره یُسراً ) ( ۲ )

''اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اسکے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ہے''

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

( لوأن السمٰوات والارض کانتا رتقاً علیٰ عبد ثم اتقیٰ ﷲ لجعل ﷲله منهما فرجاً ومخرجاً ) ( ۳ )

''اگر کسی بندے پر زمین وآسمان کے دروازے بالکل بند ہوجائیں پھر وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکو زمین وآسمان میں کشادگی اور آسانیاں عطا کردے گا ''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۲۔۳۔

(۲)سورئہ طلاق آیت ۴۔

(۳)بحارالانوار ج۷۰ص ۲۸۵۔

۳۱۵

روایت کے مطابق جب حضرت ابوذر(رح) ربذہ کے لئے جلا وطن کئے گئے توان سے امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(یاأباذر؛انک غضبت ﷲ فارجُ من غضبت له،ولوأن السمٰوات والارض کانتاعلیٰ عبد رتقاً ثم اتقیٰ ﷲلجعل منهمافرجاًومخرجاً )( ۱ )

''اے ابوذر تمہاری ناراضگی اور غضب ﷲ کے لئے تھا لہٰذا اسی کی ذات سے لولگائے رکھنا۔اگر زمین وآسمان کے راستے کسی بندہ پر بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکے لئے زمین وآسمان میں آسانیاں فراہم کردے گا ''

مولائے کائنات حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(من أخذ بالتقویٰ عزبت(غابت)عنه الشدائد بعد دنوّها،واحلولت له الاموربعد مرارتها،وانفرجت عنه الامواج بعد تراکمها،وأسهلت له الصعا ب بعد انصابها )( ۲ )

''جوتقویٰ اختیار کرے گا شدائد و مصائب اس سے نزدیک ہونے کے بعد دور ہو جائیں گے تلخیوں کے بعد حلاوت محسوس کرے گا۔ امواج بلا اسکے گرد جمع ہونے کے بعد پراکندہ ہوجائیں گی مشکلات پڑنے کے بعد آسانیوں میں تبدیل ہوجائیں گی ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے:

(من اعتصم بﷲ بتقواه عصمه ﷲ،ومن أقبل ﷲ علیه وعصمه لم یبال لوسقطت السماء علیٰ الارض،وان نزلت نازلة علیٰ أهل الارض فتشملهم بلیة،کان فی حرزﷲ بالتقویٰ من کل بلیة،ألیس ﷲ تعالیٰ یقول:ان المتقین فی مقام أمین )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۳۰۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸۔

۳۱۶

''جو تقوائے الٰہی کی پناہ میں آئے گا ﷲ اسے محفوظ رکھے گا اور جس کی طرف ﷲ کی توجہ ہوجائے اور ﷲ اسے محفوظ رکھے توچاہے آسمان، زمین پر گرجائے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی اگر تمام اہل زمین پرکوئی بلا نازل ہوتو وہ تقوے کے باعث امان خدا میں رہے گا ۔کیا خدا کایہ قول نہیں ہے:

(ان المتقین فی مقام أمین )( ۱ )

''بیشک متقین امن کے مقام پر ہیں''

امام جعفرصادق سے مروی ہے کہ:

(ان ﷲ قد ضمن لمن اتّقاه أن یحوّله عمایکره الیٰ مایحب ویرزقه من حیث لایحتسب )( ۲ )

''ﷲ نے متقی کی ضمانت لی ہے کہ اسکے ناپسند یدہ امور کو پسندیدہ امور میںتبدیل کردے گا اور اسے ایسے راستہ سے رزق عطا کرے گا جس کا اسے گمان بھی نہ ہوگا''

امام محمد تقی نے سعد الخیرکو تحریر فرمایا:

(ان ﷲ عزّوجل یقی بالتقویٰ عن العبد ماغرب عنه عقله،ویجلّی بالتقویٰ عماه وجهله،وبالتقویٰ نُجّی نوح ومن معه فی السفینة،وصالح ومن معه من الصاعقة،وبالتقویٰ فازالصابرون ونجت تلک العصب من المهالک )( ۳ )

''پروردگار عالم، تقویٰ کے ذریعہ اپنے بندہ سے ان چیزوں کومحفوظ رکھتا ہے جو اسکی عقل سے مخفی تھیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسے مکمل بینائی عطا کردیتا ہے اور ان چیزوں کو بھی دکھادیتا ہے جو جہالت کے باعث اس سے پوشیدہ تھیں۔تقویٰ کے باعث ہی نوح اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۰ ص۲۸۵۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)فروع کافی ج۸ص۵۲۔

۳۱۷

نے نجات پائی ،صالح اور ان کے ساتھی آسمانی بجلی سے محفوظ رہے۔ تقویٰ کی بناء پر ہی صبر کرنے والے بلند درجات پر فائز ہوئے اور ہلاکت خیز مشکلات سے نجات حاصل کرسکے''

خلاصۂ کلام یہ کہ جو لوگ ﷲ کی مرضی اور احکام کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں اور حکم خدا کے سامنے اپنی ضرورتوں ،خواہشوں اور ترجیحات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں تو خداوند عالم زمین وآسمان کو ان کے رزق کا ضامن بنادیتا ہے۔ان کے امور کا خود ذمہ دار ہوجاتا ہے اور انھیں ان کے نفسوں کے حوالہ نہیں کرتا اور انکی سعی وکوشش میں توفیق و برکت عطا کرتا ہے۔

یہاں پھرسے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان باتوں کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تقوی کے بعدرزق حاصل کرنے کے لئے سعی وجستجو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔حصول رزق کے لئے صرف تقویٰ کوکافی سمجھ لینا اسلامی نظریہ نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ تقویٰ کے ذریعہ بندہ پر رزق نازل ہوتا ہے اوراس طرح آسانی کے ساتھ مختصر زحمت سے ہی رزق حاصل ہوجاتا ہے۔

تقویٰ کی بنا پر نجات پانے والے تین لوگوں کا واقعہ

نافع نے ابن عمر سے نقل کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:تین آدمی چلے جار ہے تھے کہ بارش ہونے لگی تو وہ لوگ پہاڑکے دامن میں ایک غار میں چلے گئے اتنے میں پہاڑ کی بلندی سے ایک بڑا سا پتھر گرااور اسکی وجہ سے غار کا دروازہ بند ہوگیا۔تو ان لوگوں نے آپس میں کہا:اپنے اپنے اعمال صالحہ پر نظر دوڑائو اور انھیں کے واسطہ سے خدا سے دعاکرو شائد خدا کوئی آسانی پیداکردے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے والدین بہت بوڑھے تھے اورمیرے بچے بھی بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بکریاں چراکر ان کا پیٹ پالتا تھا واپس آکر بکریوں کا دودھ نکالتا تو پہلے والدین کے سامنے پیش کرتا اس کے بعد اپنے بچوں کودیتا۔

۳۱۸

اتفاقاً میں ایک دن صبح سویرے گھر سے نکل گیا اور شام تک واپس نہ آیا۔جب میں واپس پلٹا تومیرے والدین سوچکے تھے میں نے روزانہ کی طرح دودھ نکالا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا مجھے یہ گوارہ نہ ہوا کہ انھیںبیدار کروں اور نہ ہی یہ گوارہ ہوا کہ والدین سے پہلے بچی کو دودھ پیش کروں حالانکہ بچی بھوک کی وجہ سے رو رہی تھی اور میرے قدموں میں بلبلا رہی تھی مگر میری روش میں تبدیلی نہ آئی یہاں تک کہ صبح ہوگئی پروردگار ا!اگر تو یہ جانتا ہے کہ یہ عمل میں نے صرف تیری رضا کے لئے انجام دیا ہے تو اسی عمل کے واسطہ سے اتنی گنجائش پیدا کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ﷲ نے اتنی گنجائش پیدا کردی اور ان لوگوں کو آسمان دکھائی دینے لگا۔

دوسرے نے کہا:میرے چچاکی ایک لڑکی تھی میں اس سے ایسی شدید محبت کرتا تھا جیسے کہ مرد عورتوں سے کرتے ہیں میں نے اس سے مطلب برآری کی خواہش کی اس نے سودینار کی شرط رکھی میں نے کوشش کرکے کسی طرح سودینار جمع کئے انھیں ساتھ لے کر اسکے پاس پہونچ گیا۔اور جب شیطانی مطلب پورا کرنے کی غرض سے اس کے نزدیک ہو ا تو اس نے کہا''اے بندئہ خدا ﷲ سے ڈرو اور ناحق میرا لباس مت اتارو''یہ بات سن کر میں نے اسے چھوڑدیا۔پروردگار اگر میرا یہ عمل تیرے لئے ہے تو تھوڑی گنجائش اور مرحمت کردے۔اللہ نے تھوڑی سی گنجائش اور عطا کردی۔

تیسرے آدمی نے کہا میں نے ایک شخص کوتھوڑے چا ول کی اجرت پراجیرکیا جب کام مکمل ہوگیا تو اس نے اجرت کا مطالبہ کیا میں نے اجرت پیش کردی لیکن دہ چھوڑ کر چلا گیا میں اسی سے کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ اسکی قیمت سے بیل اور اسکا چرواہاخرید لیا۔ایک دن وہ مزدور آیا اور مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو اور میرا حق مجھے دے دو۔میں نے کہا جائووہ بیل اور چرواہا لے لو اس نے پھر کہا خدا سے ڈرو اور میرا مذاق مت اڑائو۔میں نے کہا میں ہرگز مذاق نہیں کررہا ہوں یہ بیل اور چرواہا لے لو۔چنانچہ وہ لے کر چلاگیا۔پروردگار میرا یہ عمل اگر تیرے لئے تھاتوہمارے لئے بقیہ راستہ کھول دے ۔ ﷲ نے راستہ کھول دیا۔( ۱ )

____________________

(۱)صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اجابةدعاء من بَرّوالدیہ ج۵ ص۴۰ط؛مصر۱۲۸۶ھ ق۔فتح الباری للعسقلانی ج۱۰ص۳۳۸شرح القسطلانی ج۹ص۵۔صحیح مسلم کتاب الرقاق باب قصةاصحاب الغار الثلاثةوالتوسّل بصالح الاعمال ج۸ص۸۹ط؛دارالفکر۔ وشرح النووی ج۱۰ص۳۲۱وذم الہوی لابن الجوزی ص۲۴۶

۳۱۹

۳۔کففت علیہ ضیعتہ

اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں کیونکہ''کف'' جمع کرنے اوراکٹھاکرنے کے معنی میں بھی ہے اور یہی لفظ منع کرنے اورروکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لہٰذاپہلے معنی کے لحاظ سے اس جملہ'' و کففت علیہ ضیعتہ''کے معنی یہ ہوں گے ''میں اس کے درہم برہم امور کو جمع کردوں گا اس کے سامان واسباب کانگہبان ،اسکے امور کا ذمہ دار اور اسکی معیشت کا ضامن ہوں''ابن اثیر اپنی کتاب ''النہایة''میں ''کف''کے معنی کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ احتمال ہے کہ یہ لفظ ''جمع کرنے ''کے معنی میں ہو جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:

(المؤمن أخ المؤمن یکفّ علیه ضیعته )( ۱ )

''ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے جو اسکے سرمایہ کو اسکے لئے اکٹھاکرکے رکھتا ہے ''

اسکے دوسرے معنی منع کرنا،روکنا اور دفع کرنا ہیں جیسے :

(کفّه عنه فکفّ، أی دفعه وصرفه ومنعه،فاندفع وانصرف،وامتنع )

اس نے اسکو روکا یعنی اسکا دفاع کیا منع کیا اور واپس پلٹایا تو وہ دفع ہوگیا ،پلٹ گیا اور رک گیا اس معنی کے لحاظ سے مذکورہ حدیث کے معنی یہ ہونگے :

''میں نے اسکی بربادی کو دفع کردیا اور اسکی بربادی اور اسکے درمیان حائل ہوگیا اور اسے ہدایت دیدی اور راستے کے تمام نشانات واضح و روشن کردئے''( ۲ )

علامہ مجلسی(رح)نے اس فقرہ کی تفسیر میں اپنی کتاب بحار الانوار میں تحریر کیا ہے :کہ اس جملہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں :۱۔وہ معنی جو ابن ثیر نے نہایہ میں ذکر کئے ہیں یعنی اسکے درہم

____________________

(۱)النہایة لا بن ا لاثیرج۴ص۹۰۔

(۲)اقرب المواردج۲ص۱۰۹۳۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349