خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96735 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

کرتی ہیں۔ہم یہاں پر ان احادیث میں سے چند نمونے پیش کرتے ہیں:

پہلی حدیث:

ابرھیم بن محمدبن مؤیدجومنی(۱) کتاب”فرائدالسبطین(۲) ‘ میں اپنے اسناد سے اورشیخ صدوق ابن بابویہ قمی کتاب”کمال الدین(۳) ‘ میں سلیم بن قیس سے روایت کرتے ہیں:

”میں نے خلافت عثمان کے زمانہ میں مسجد النبی (ص)میں دیکھا کہ حضرت علی(علیہ السلام)مسجد میں تشریف فر ماتھے اور کچھ لوگ آپس میں گفتگو کرنے میں مشغول تھے۔وہ قریش اوران کے فضائل نیز ان کے سوابق اور جوکچھ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے قریش کے بارے میں فرمایا ہے، کے بارے میں گفتگو کرر ہے تھے اوراسی طرح انصار کی فضیلت اوران کے شاندار ماضی اورقرآن مجید میں ان کے بارے میں خدا وند متعال کی تعریف و تمجیدکا ذکر رہے تھے اورہر گروہ اپنی اپنی فضیلت گنوا رہا تھا۔

اس گفتگو میں دوسو سے زیادہ لوگ شریک تھے ان میں حضرت علی(علیہ السلام)سعد بن ابی وقاص،عبدالرحمن بن عوف،طلحہ،زبیر،مقداد،ابوذر،حسن وحسین )علیہما السلام)اورابن عباس-بھی شامل تھے۔

____________________

۱۔ذہبی ،کتاب”المعجم المختص بالمحدثین“ص۶۵،طبع مکتبةالصدیق سعودی،طائفمیں لکھاہے:”ابراھیم بن محمد۔۔۔الامام الکبیر المحدث شیخ المشایخ“ یعنی:بہت بڑے امام محدث اور استادالاسا تذہ ۶۴۴ئ ہجری میں پیدا ہوئے اور۷۲۲ئ ہجری میں خراسان میں و فات پائی ۔ابن حجرکتاب”الدررالکامنہ“ج۱،ص۶۷ میں کہتے ہیں:“وسمع بالحلة وتبریز-----وله رحلة واسعة وعنی بهذاالشان وکتب وحصل وکان دینا وقوراً ملیح الشکل جید القرا ۔۔۔“یعنی: حلہ اور تبریزمیں )حدیث کے اساتذہ کے دوسرے شہروں کے بارے میں )سنا ہے۔۔۔ علم حدیث کے بارے میں ایک خاص مہارت رکھتے تھے۔۔۔اور متدین ،باوقار،خوبصورت اوراچھی قرائت کے مالک تھے۔

۲۔فرائدالبطین ،ج۱،ص۲۱۲،مؤسسہ المحمودی للطباعة والنشر،بیروت اسماعیل با شا کتاب ایضاح المکنون میں کشف الظنون،ج۴،ص۱۸۲،دارالفکر کے ذیل میں کہتا ہے:فرائد السبطین،فی فضائل المرتضیٰ والبتول والسبطین لابی عبداللّٰہ ابراھیم بن سعد الدین محمد بن ابی بکر بن محمدبن حمویہ الجوینی۔۔۔فرغ منہ سنة۷۱۶

۳۔کمال الدین،ص۲۷۴

۱۲۱

یہ جلسہ صبح سے ظہرتک جاری رہا اورعلی) علیہ السلام) بدستور خاموش بیٹھے رہے یہاں تک کہ لوگوں نے آپ(ع) کی طرف مخاطب ہوکر آپ سے کچھ فرمانے کی خواہش ظاہر کی۔

حضرت علی(علیہ السلام)نے فرمایا:تم دونوں گروہوں میں سے ہرایک نے اپنی فضیلت بیان کی اور اپنی گفتگو کا حق ادا کیا۔میں قریش وانصاردونوں سے یہ پوچھنا چاہتاہوں:خدا وند متعال نے یہ فضیلت تمھیں کس کے ذریعہ عطاکی ہے؟ کیا تم لوگ اپنی اوراپنے قبیلے کی خصوصیات کی وجہ سے ان فضیلتوں کے مالک بنے ہو؟ یاکسی دوسرے کی وجہ سے یہ فضیلتیں تمھیں عطا کی گئی ہیں؟

انہوں نے کہا:خدا وندمتعال نے محمد (ص)اورآپ کے اہل بیت)علیہم السلام)کے طفیل میں ہمیں یہ فضیلتیں عطا کی ہیں۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا:صحیح کہاتم لوگوں نے اے گروہ انصار وقریش!کیا تم نہیں جانتے ہو کہ جوکچھ تم کوخیر دینا وآخرت سے ملا ہے وہ صرف ہم اہل بیت(ع)کی وجہ سے تھا؟ اس کے بعدحضرت علی (علیہ السلام)نے اپنے اور اپنے اہل بیت )علیہم السلام)کے بعض فضائل گنوائے اوران سے تصدیق اور گواہی چاہی انہوں نے گواہی دی،آپ(ع)نے من جملہ فرمایا:

فانشدکم اللّٰہ،اتعلمون حیث نزلت( یااٴیّهاالذین آمنوا اٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسّول واٴُولی الاٴمر منکم ) (۱) وحیث نزلت ا( ٕنّماولیّکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالذین یقیمون الصلوة ویؤ تون الزکوة وهمصراکعون ) (۲) وحیث نزلت( اٴم حسبتم اٴن تترکواولماّ یعلم اللّٰه الّذیم جاهدوامنکم ولم یتّخذ وا من دون اللّٰه ولا رسوله ولاالمؤمنین ولیجة ) (۳) قال الناس:یا رسول اللّٰه،خاصة فی بعض

____________________

۱۔نساء/۵۹ ۲۔مائدہ/۵۵

۳۔توبہ/۱۶

۱۲۲

المؤمنین اٴم عامة لجمیعهم؟فاٴمراللّٰه - عزّوجلّ - نبیّه( ص) اٴن یُعلّمهم ولاةاٴمرهم واٴن یفسّر لهم من الولایة مافسّرلهم من صلا تهم وزکاتهم وحجهم،فینصبنی للناس بغدیر خمثمّ خطب وقال:اٴیّهاالنّاس،إنّ اللّٰه اٴرسلنی برسالة ضاق بها صدری وظننت اٴن الناس مکذبیفاوعدنی لاُ بلّغها اٴولیعذّبنیثمّ اٴمرفنودی بالصلاة جامعةثمّ خطب فقال:اٴیّهاالناس،اٴتعلمون اٴنّاللّٰه - عزّوجل - مولای اٴنامولی المؤمنین،واٴنا اٴولی بهم من اٴنفسهم؟

قالوا:بلی یارسول اللّٰهقال:قُم یاعلیّفقمت فقال:”من کنت مولاه فهذاعلیّ مولاه،اللّهمّ وال من والاه،وعادمن عاداه“

فقام سلمان فقال:یارسول اللّٰه،ولاء کماذا؟فقال:ولاء کولایتی، منکنت اٴولی به من نفسه فاٴنزل اللّٰه تعالی ذکره:( الیوم اٴکملت لکم دینکم واٴتممت علیکم نعمتی ورضیت لکم الإسلام دیناً ) (۱)

فکبّرالنبّی( ص) وقال:اللّٰه اٴکبر!تمام نبوّتی وتمام دین اللّٰه علیُّ بعدیفقام اٴبوبکر و عمر فقالا: یارسول اللّٰه،هؤلاء الآیات خاصّةفی علیّ؟قال:بلی،فیه وفی اٴوصیائی إلی یوم القیامةقالا:یارسول اللّٰه، بیّنهم لناقال:علیّ اٴخی ووزیری ووارثی ووصیّی وخلیفتی فی اُمّتی وولّی کل ّمؤمن بعدی ثمّ ابنی الحسن ثمّ الحسین ثمّ تسعة من ولدابنی الحسین واحد بعد واحد،القرآن معهم وهم مع القرآن لایفارقونه ولایفارقهم حتی

____________________

۱۔مائدہ/۳

۱۲۳

یردوا علیّ الحوض

فقالوا کلّهم:اللّهمّ نعم،قد سمعناذلک وشهدناکماقلت سواء وقال بعضهم:قدحفظناجلّ ماقلت ولم نحفظه کلّه،وهؤلاء الّذین حفظوااٴخیارناواٴفاضلنا

یعنی:میں تمھیں خدا کی قسم دلاتاہوں،کیا تم جانتے ہو کہ جبخداوندمتعال کا یہ فر مان:( یا اٴیّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعوا الرّسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل ہوا اورجب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( إنّما ولیّکم اللّٰه ورسول ) ۔۔۔ )یعنی بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اور وہ صاحبان ایمان جو نمازقائم کرتے ہیں اور حالت رکوع میں زکوٰة دیتے ہیں)اسی طرح جب یہ آیہء شریفہ نازل ہوئی:( اٴم حسبتم اٴن تترکوا ) ۔۔۔ )یعنی :کیاتمہارا خیال ہے کہ تم کواسی طرح چھوڑدیا جائے گا جب کہ ابھی ان لو گوں نے کہ جنھوں نے تم میں سے جہاد کیا ہے اور خدا و رسول نیز مومنین کے علا وہ کسی کو اپنا محرم راز نہیں بنا یا ہے مشخص نہیں ہو ئے ہیں؟ تو لوگوں نے کہا:یارسول اللہ!کیا یہ آیتیں بعض مؤمنین سے مخصوص ہیں یا عام ہیں اوران میں تمام مؤ منین شامل ہیں؟

خداوند متعال نے اپنے پیغمبر کو حکم دیا:تاکہ ان)مو منین) کے امور کے سلسلہ میں ان کے سرپرست کا اعلان کردیں اورجس طرح نماز،زکوٰةاورحج کی ان کے لئے تفسیربیان کی ہے،مسئلہ ولایت وسر پرستی کو بھی ان کے لئے واضح کردیں۔)اورخدا نے حکم دیا)تاکہ غدیر خم میں مجھے اپنا جا نشین منصوب کریں۔

اس کے بعدپیغمبر خداصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خطبہ پڑھااورفرمایا:

”اے لوگو!خدا وند متعال نے مجھے ایک ایسی رسالت سونپی ہے کہ جس کی وجہ سے میرا سینہ تنگی محسوس کر رہا ہے اورمیں نے گمان کیا کہ لوگ میری اس رسالت کو جھٹلادیں گے۔پھر مجھے خدا نے تہدید دی کہ یا میں اس)رسالت) کوپہنچاؤں یا اگر نہیں پہونچاتا تووہ مجھے عذاب کرے گا۔“

۱۲۴

اس کے بعد پیغمبراکرم (ص)نے حکم دیا اورلوگ جمع ہو گئے اورآپنے خطبہ پڑھا اور فرمایا: اے لوگو! کیاتم جانتے ہوکہ خداوند متعال میرامولا)میراصاحب اختیار)ہے اورمیں مؤمنین کامولاہوں اورمجھے ان کی جانوں پرتصرف کا زیادہ حق ہے ؟انہوں نے کہا:ہاں،یارسول اللہ۔فرمایا:اے علی(علیہ السلام)کھڑے ہوجاؤ!میں کھڑا ہوا۔فرمایا:جس جس کا میں مولا ہوں اس کے یہ علی(ع)بھی مولا ہیں۔خداوندا!اس کو دوست رکھ جو علی(ع)کودوست رکھے اوراس کو اپنا دشمن قرار دے جوعلی(ع)سے دشمنی کرے۔

سلمان اٹھے اورکہا:یارسول اللہ!یہ کونسی ولایت ہے؟پیغمبر (ص)نے فرمایا:یہ ولایت وہی ہے جو میں رکھتاہوں ۔جس کی جان کے بارے میں ،میں اولیٰ ہوں علی(ع)بھی اسی طرح اس کی جان کے بارے میں اولیٰ ہے۔اس کے بعدخدا وند متعال نے یہ آیہء شریفہ نازل فرمائی:( الیوم اٴکملت لکم دینکم ) ۔۔۔ یعنی:”آج میں نے تمہارے لئے دین کو کامل کردیااوراپنی نعمتوں کوتمام کردیاہے اورتمہارے لئے دین اسلام کو پسندکر لیا۔“

اس کے بعد ابوبکراورعمراٹھے اورکہا:یارسول اللہ ! کیا یہ آیتیں علی(ع)سے مخصوص ہیں؟فرمایا:جی ہاں،یہ علی(ع)اور میرے قیامت تک کے دوسرے اوصیاء سے مخصوص ہیں۔انہوں نے کہا:یارسول اللہ!ان کو ہمارے لئے بیان کر دیجئے آنحضرت نے فرمایا: میرابھائی علی،امت کے لئے میراوزیر،وارث،وصی اورجانشین ہے اورمیرے بعد ہرمؤمن کا سرپرست ہے۔اس کے بعد میرے فرزندحسن وحسین(ع)اس کے بعد یکے بعد دیگرے میرے حسین(ع)کے نوفرزند ہیں۔قرآن مجید ان کے ساتھ ہے اور وہ قرآن مجید کے ساتھ ہیں۔وہ قرآن مجید سے جدا نہیں ہوں گے اورقرآن مجیدان سے جدا نہیں ہوگا یہاں تک کہ حوض کوثرپرمجھ سے ملیں گے۔اس کے بعد علی علیہ السلام نے اس مجمع میں موجود ان لوگوں سے،کہ جومیدان غدیر میں موجوتھے اورپیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی ان با توں کواپنے کا نوں سے سن چکے تھے،کہا کہ اٹھ کراس کی گواہی دیں۔

۱۲۵

زیدبن ارقم،براء بن عازب،سلمان،ابوذراورمقداداپنی جگہ سے کھڑے ہوئے اور کہا :ہم شہادت دیتے ہیں اورپیغمبر (ص)کے بیانات یاد ہیں کہ آنحضرت منبرپرکھڑے تھے اوران کے ساتھ آپ(ع)بھی ان کی بغل میں کھڑے تھے اورآنحضرتفرمارہے تھے:

”اے لوگو! خداوند متعال نے مجھے حکم دیا ہے کہ تمہارے لئے امام کہ جو میرے بعد تم لوگوں کی رہنمائی اور سر پرستی کرے اورمیراوصی اورجانشین ہو،کو نصب کروں،اس کونصب کروں جس کی اطاعت کوخداوند متعال نے اپنی کتاب میں واجب قراردیا ہے نیزاس کی اطاعت کواپنی اورمیری اطاعت کے برابرقراردیا ہے کہ جس سے)آیہ اولوالامرکی طرف اشارہ ہے) اے لوگو!خداوند متعال نے تمھیں نماز،زکوٰة،روزہ اورحج کا حکم دیا ۔میں نے تمہارے لئے اس کی تشریح ووضاحت کی ۔اوراس نے تمھیں ولایت)کا ایمان رکھنے) کابھی حکم دیااورمیں ، تمھیں گواہ بناتا ہوں کہ یہ ولایت اس)شخص)سے مربوط ہے )یہ جملہ بیان فرماتے وقت آنحضرت اپنادست مبارک علی(ع)کے شانہ پر رکھے ہوئے تھے)اوران کے بعداس کے دونوں بیٹوں)حسن وحسین(ع))اوران کے بعد ان کے فرزندوں میں سے ان کے جانشیوں سے مربوط ہے--“

حدیث مفصل و طولانی ہے۔ہم نے اس میں سے فقط اتنے ہی حصہ پراکتفا کیا کہ جوآیہء شریفہ”اولوالامر“سے مربوط ہے ۔محققین مذکورہ منابع میں مفصل حدیث کا مطلعہ کرسکتے ہیں۔

دوسری حدیث

یہ وہ حدیث ہے جسے مرحوم شیخ صدوق نے ”کمال الدین(۱) ‘ میں جابر بن یزید جعفی سے روایت کی ہے وہ کہتا ہے:

”میں نے سنا کہ جابر بن عبداللہ انصاری کہتے تھے:جب خدا وند متعال نے اپنے پیغمبر (ص)پر یہ آیہء شریفہ:( یاایّهاالذین آمنوااٴطیعواللّٰه واٴطیعواالرسول واولی الاٴمرمنکم ) نازل فرمائی،تو میں نے کہا:یارسول اللہ!ہم نے خدا اوراس کے رسولتو کو پہچان لیا۔اب وہ اولوالامرکہ جن کی اطاعت کو خداوندمتعال نے آپ کی اطاعت سے مربوط قراردیا ہے،وہ کون ہیں؟

آنحضرت (ص)نے فرمایا:”اے جابر!وہ میرے جانشین ہیں اورمیرے بعد مسلمانوں کے امام ہیں۔ان میں سب سے پہلے علی بن ابیطالب، پھرحسن وحسین،پھر علی بن حسین،پھر محمد بن علی،جوتوریت میں باقر کے نام سے معروف

____________________

۱۔کمال الدین،ص۲۵۳

۱۲۶

ہیں اوراے جابر!تم جلدی ہی اس سے ملاقات کروگے لہذاجب انھیں دیکھنا توانھیں میرا سلام پہنچانا۔پھرصادق جعفر بن محمد،پھر موسیٰ بن جعفر،پھر علی بن موسیٰ،پھر محمدبن علی،پھر علی بن محمد،پھرحسن بن علی،پھر میراہم نام اورہم کنیت)جو)زمین پر خدا کی حجت اورخدا کی طرف سے اس کے بندوں کے در میان باقی رہنے والا حسن بن علی)عسکری)کا فر زندہے،جس کے ذریعہ خدا وند متعال مشرق ومغرب کی زمین کو فتح کرے گا۔وہ شیعوں او ر ان کے چاہنے والوں کی نظروں سے غائب ہوگا۔وہ ایسی غیبت ہوگی کہ ان کی امامت پر خدا کی طرف سے ایمان کے سلسلہ میں آزمائے گئے دلوں کے علاوہ کوئی ثابت قدم نہیں رہے گا“

تیسری حدیث:

یہ حدیث اصول کافی ۱ میں برید عجلی سے روایت کی گئی ہے وہ کہتے ہیں:

”امام باقر(علیہ السلام) نے فرمایا:خدا وند متعال نے)آیہء شریفہ)( یا اٴیّها الذین آمنوا اٴطیعو اللّٰه و اٴطیعوا الرسول و اولی الاٴمر منکم ) کے بارے میں صرف ہماراقصد کیاہے۔تمام مؤمنین کو قیامت تک ہماری)ائمہ معصومین) اطاعت کرنے کا کاحکم دیا ہے۔“

اس کے علاوہ شیعہ وسنی منابع میں اوربھی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ”اولوالامر“سے مراد ائمہء معصو مین کو لیا گیا ہے۔اہل تحقیق،”فرائد السمطین“اور”ینا بیع المودة“جیسی سنی کتابوں اور”اصول کافی“،”غا یةالمرام“اور”منتخب الاثر“ جیسی شیعوں کی کتابوں کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

____________________

۱۔اصول کافی،ج۱،ص۲۱۷

۱۲۷

چوتھا باب:

امامت آیہء ولایت کی روشنی میں

( ( إنّماولیکم اللّٰه ورسوله والّذین آمنواالّذین یقیمون الصلوٰةویؤ تون الزکوٰة وهم راکعون ) ) ( مائدہ/۵۵)

”بس تمہاراولی اللہ ہے اوراس کا رسول اوروہ صاحبان ایمان ہیں،جونمازقائم کرتے ہیں اورحالت رکوع میں زکوٰةدیتے ہیں“۔

امیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کی امامت اوربلافصل ولایت کے سلسلہ میں شیعہ امامیہ کی ایک اوردلیل آیہء شریفہ ولایت ہے۔آیہء شریفہ کے استدلال کی تکمیل کے سلسلہ میں پہلے چندمو ضوعات کا ثابت کرنا ضروری ہے:

۱ ۔آیہ شریفہ میں ”إنما“ حصر کے لئے ہے۔

۲ ۔آیہ ئ شریفہ میں لفظ ”ولی“ حص کے معنی اولی بالتصرف اورصاحب اختیار نیزسرپرست ہو نے کے ہے۔

۳ ۔آیت میں ”راکعون“سے مراد نماز میں رکوع ہے، نہ کہ خضوع وخشوع۔

۴ ۔اس آیہء شریفہ کے شان نزول میں ، کہ جوامیرالمؤمنین حضرت علی علیہ السلام کے بارے میں ہے، ذکر ہواہے کہ حضرت(ع)نے رکوع کی حالت میں زکوٰةدی ،)یعنی اپنے مال کوخداکی راہ میں انفاق کیاہو)ثابت ہو۔

اس باب میں ہم ان موضوعات کوثابت کرنے کی کوشش کریں گے اورآخر پر اس آیہء شریفہ سے مربوط چند سوالا ت کا جواب دیں گے۔

لفظ”إنما“کی حصر پر دلالت

علما ئے لغت اورادبیات نے اس بات کی تاکید کیہے کہ لفظ”إنما“حصرپر دلالت کرتا ہے۔یعنی عربی لغت میں یہ لفظ حصر کے لئے وضع کیا گیا ہے۔

۱۲۸

ابن منظورنے کہاہے:اگر ”إنّ“پر”ما“کا اضافہ ہو جائے تو تعیین وتشخیص پر دلالت کرتاہے۔جیسے خداوند متعال کا قول ہے:( إنّماالصدقات للفقراء والمساکین ) ۔۔۔(۱) چونکہ اس کی دلا لت اس پر ہے کہ حکم مذکور کو ثابت کرتا ہے اوراس کے غیر کی نفی کرتا ہے۔(۲)

جوہری نے بھی اسی طرح کی بات کہی ہے۔(۳)

فیروزآبادی نے کہاہے:”انّما“،”إنّما“کے مانند مفید حصرہے۔

اور یہ دونوں لفظ آیہء شریفہء:( قل إنّمایوحی إلیّ اٴنّماإلٰهکم إلٰه واحد ) (۴) میں جمع ہوئے ہیں۔(۵)

ابن ہشام نے بھی ایساہی کہا ہے۔(۶)

اس لئے اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ لغت کے اعتبار سے لفظ”إنّما“کوحصرکے لئے وضع کیا گیاہے۔اگرکوئی قرینہ موجو ہوتواس قرینہ کی وجہ سے غیرحصرکے لئے استفادہ کیا

جاسکتا ہے،لیکن اس صورت میں ”إنّما“کااستعمال مجازی ہوگا۔

”ولیّ“کے معنی کے بارے میں تحقیق

”ولّی“ولایت سے مشتق ہے۔اگرچہ یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے لیکن اس کے موارد استعمال کی جستجو و تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کا اصلی معنی سر پرستی ،اولویت

____________________

۱۔توبہ/۶۰

۲۔لسان العرب،ج۱،ص۲۴۵

۳۔صحاح اللغة،ج۵،ص۲۰۷۳

۴۔انبیاء/۱۰۸ ۵۔القاموس المحیط،ج۴،ص۱۹۸،دارالمعرفة،بیروت۔

۶۔مغنی اللبیب ،ج۱،ص۸۸،دارالکتب العلمیة بیروت

۱۲۹

اورصاحب اختیار ہو نے کے ہے۔

ابن منظورکا”لسان العرب“میں کہنا ہے”الولیّ ولیّ الیتیم الّذی یلی اٴمره ویقوم بکفایته،وولیّ المرئةالّذی یلی عقدالنکاح علیهاوفی الحدیث:اٴیّماامرئة نکحت بغیرإذن مولیها فنکاحهاباطلوفی روایة:”ولیّها“اٴی متولّی اٴمرها(۱)

یتیم کا ولی وہ ہے جو یتیم کے امور اور اس کی کفالت کا ذمہ دار ہے اوراس کے امورکی نگران کرتا ہے۔عورت کا ولی وہ ہے کہ جس کے اوپر اس کے عقد ونکاح کی ذمہ داری ہو۔

حدیث میں آیا ہے:جوبھی عورت اپنے مولا)سرپرست)کی اجازت کے بغیرشادی کرے تواس کا نکاح باطل ہے۔ایک روایت میں لفظ”ولیھا‘ ‘کے بجائے لفظ”مولیھا“آیا ہے کہ جس کے معنی سرپرست اورصاحب اختیار کے ہیں۔

فیومی”المصباح المنیر“میں کہتا ہے:

الولیّ فعیل به معنی فاعل من ولیه إذقام بهومنه اللّٰه ولیّ الّذین آمنوا ،والجمع اٴولیاء،قال ابن فارس:وکلّ من ولی اٴمراٴحد فهوولیّهوقد یطلق الولیّ اٴیضاًعلی المعتق والعتیق،وابن العم والناصروالصدّیقویکون الولیّ بمعنی مفعول فی حق المطیع،فیقال:المؤمن ولیّ اللّٰه“ ۔(۲)

”فعیل)کے وزن پر(ولی فاعل کے معنی میں ہے ) ۔(۳) کہا جاتا ہے):ولیہ یہ اس

_____________________

۱۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۴،دار احیاء التراث العربی ،بیروت

۲۔المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰،طبع مصطفی البابی الحلبی واولادہ بمصر

۳۔”فعیل“صفت مشبہ ہے۔کبھی فاعل کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے، جیسے ”شریف“ اورکبھی مفعول کے معنی میں آتا ہے۔فیومی نے اپنے بیان میں اس کی طرف اشار ہ کیا ہے کہ آیہء شریفہ میں ”فعیل“فاعل کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔چنانچہ مؤمن کو کہا جاتا ہے”ولی خدا“ یعنی جس کے امورکی تدبیر خدا کے ہاتھ میں ہے اور وہ ا سے اپنے الطاف سے نواز تا ہے۔

۱۳۰

صورت میں ہے جب کسی کے امو ر کے لئے عملاً قیام کرے اس کے کام کواپنے ذمہ لے لے۔ آیہء شریفہ:( اللّٰه ولیّ الذین آمنوا ) میں ولایت اسی کی ہے۔یعنی خداوند متعال مؤمنین کے امور کے حوالے سے صاحب اختیارا ور اولی بالتصرف ہے۔ابن فارس نے کہا ہے:جو بھی کسی کے امورکاذمہ دار ہوگا وہ اس کا ”ولی“ہوگا۔اور بعض اوقات”ولی“)دوسرے معانی میں جیسے) غلام کوآزاد کرنے والا،آزاد شدہ غلام ،چچازاد بھائی،یاوراوردوست کے معنی میں بھی استعمال ہوا ہے۔

ان بزرگ ماہرین لغت کے بیان سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یاور اوردوست جیسے مفاہیم ولی کے حقیقی معنی نہیں ہیں بلکہ کبھی کبھی ان معنوں میں استعمال ہو تا ہے اوراس قسم کا استعمال مجازی ہے۔

”ولی“کے معنی میں یہ جملہ معمولاًلغت ۱ کی کتابوں میں بہ کثرت نظر آتا ہے وہ ناقابل اعتناء ہے ”من ولی امر احدفہوولیہ“یعنی:”جو کسی کے کام کی سر پرستی اپنے ذمہ لے لے وہ اس کا ولی ہے“

ان معانی کے پیش نظر،ایسا لگتا ہے کہ لفظ”ولی“کا حقیقی اور معروف ومشہور معنی وہی صاحب اختیاروسر پرست ہو ناہے۔ قرآن مجید میں اس لفظ کے استعمال پر جستجو و تحقیق بھی اسی مطلب کی تائید کرتی ہے۔

ہم لفظ”ولی“کے قرآن مجید میں استعما ل ہونے کے بعض موارد کا ذکر کرکے بعض دوسرے موارد کی طرف اشارہ کرتے ہیں:(۱)

____________________

۱۔لسان العرب،ج۱۵،ص۴۱۰،المصباح المنیر،ج۲،ص۳۵۰طبع مصطفٰی البابی الحلبی بمصر،النہا یةج۵،ص۲۲۸المکتبة العلمیة،بیروت،منتہی الارب ،ج۴،ص۱۳۳۹،انتشارات کتابخانہ سنائی،مجمع البحرین،ج۲ص۵۵۴،دفتر نشر فرھنگ اسلامی،الصحاح،ص۲۵۲۹،دارالعلم للملابین، المفردات، ص۵۳۵، دفتر نشر کتابمعجم مقا ییس اللغة،ج۶،ص۱۴۱۔

۱۳۱

چند بنیادی نکات کی یاد دہانی

یہاں پر چند نکات کی طرف اشارہ کرناضروری ہے:

پہلانکتہ:عام طور پر لغت کی کتابوں میں ایک لفظ کے لئے بہت سے موارداستعمال اور مختلف معانی ذکر کئے جاتے ہیں۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ لفظ ہر معانی کے لئے الگ الگ وضع کیا گیا ہے اوروہ لفظ مشترک ہے اوران معانی میں سے ہرایک،اس کا حقیقی معنی ہے لفظی اشتراک)یعنی ایک لفظ کے کئی معانی ہوں اور ہر معنی حقیقی ہو )اصول کے خلاف ہے۔اور علم لغت اورادبیات کے ماہرین نے جس کی وضاحت کی ہے وہ یہ ہے کہ اصل عدم اشتراک ہے۔

۱ ۔قرآن مجید میں لفظ”ولی“کے استعمال کے مواقع:

الف۔( اٴللّٰه ولی الذّین آمنوا یخرجهم من الظلمات إلی النور ) (بقرہ/ ۲۵۷)” اللہ صاحبان ایمان کا ولی ہے وہ انہیں تاریکوں سے نکال کرروشنی میں لے آ تاہے۔“

ب۔( انّ ولی اللّٰه الذّی نزل الکتاب و هو یتولّی الصالحین ) (اعراف/ ۱۹۶)” بیشک میرا مالک ومختار وہ خدا ہے جس نے کتاب نازل کی ہے اور وہ نیک بندوں کاولی ووارث ہے۔“

ج۔( ام إتّخذ وا من دونه اٴولیائ فاللّٰه هوالولی وهو یحیی الموتی ) (شوریٰ/ ۹)” کیاان لوگو ں نے اس کے علاوہ کو اپنا سر پرست بنایا ہے جب کہ وہی سب کاسرپرست ہے اور وہی مردوں کو زندہ کرتا ہے۔“

د۔( قل اٴغیراللّٰه اٴتخذوا ولیاًفاطرالسموات والارض وهو یطعم ولا یطعم ) ۔۔۔ (انعام/ ۱۴)” آپ کہئے کہ کیا میں خد ا کے علاوہ کسی اورکواپنا ولی بنالوں جب کہ زمین وآسمان کاپیداکرنے والا وہی ہے، وہی سب کوکھلاتاہے اس کوکوئی نہیں کھلاتاہے۔“

۱۳۲

ہ ۔( و انت ولینا فاغفر لنا وارحمنا وانت خیرالغافرین ) )اعراف/ ۱۵۵)” توہمارا ولی ہے،ہمیں معاف کردے اورہم پررحم کر کہ توبڑابخشنے والاہے۔“

و۔( فإن کان الذی علیه الحق سفیهاًاو ضعیفاًاولا یستطیع ان یمل هو فلیملل ولیه بالعدل ) )بقرہ/ ۲۸۲)” اب اگر حق اس کے خلاف ہو اوروہ نادان یاکمزورہو اور اس کو لکھنے کی صلا حیت نہ ہو تو اس کے ولی کو چاہئیے کہ عدل و انصاف کے ساتھ اسے لکھے۔

ز۔( ومن قتل مظلوماً فقدجعلنا لولیه سلطاناً ) )اسراء/ ۳۳)” جومظلوم قتل ہوتاہے ہم اس کے ولی کوبدلہ کااختیاردیتے ہیں۔

دوسر ی آیات: یوسف/ ۱۰۱ ، ہود/ ۱۱۳ ، شوریٰ/ ۴۶ ،فصلت/ ۳۱ ، نحل/ ۶۳ ، بقرہ/ ۱۰۷ و ۱۲۰ توبہ/ ۷۴ و ۱۱۶ ، عنکبوت/ ۲۲ ،شوریٰ/ ۸ و ۳۱ ،نساء/ ۴۵ ،

۷۵،۸۹،۱۲۳ و ۱۷۳ ،احزاب/ ۱۷ و ۶۵ ،فتح/ ۲۲) مذکورہ ۱۵ آیات میں ولی اورنصیرایک ساتھ استعمال ہوئے ہیں نساء/ ۱۱۹ ، مریم/ ۵ ،سباء/ ۴۱ ، نمل ۴۹ ،نساء/ ۱۳۹ ،یونس/ ۶۲ ، اسراء/ ۹۷ ،الزمر/ ۳ ، شوریٰ/ ۶ ، ممتحنہ/ ۱ ،آل عمران/ ۱۷۵ ،انفال/ ۴۰ ،محمد/ ۱۱ بقرہ/ ۲۸۶ ،توبہ/ ۵۱ ،حج/ ۷۸ ۔

کتاب”مغنی اللبیب“کے مصنف،جمال الدین ابن ہشام مصری،جواہل سنت میں علم نحو کے بڑے عالم مانے جاتے ہیں جب آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملائکته یصلّون علی

۱۳۳

النّبی ) (۱) میں قرائت رفع(ملائکتُہ)کی بنیاد پر بعض علمائے نحو جو”إنّ“کی خبر)یصلّی ہے)کو محذوف اورمقدر جانتے ہیں،نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں:

واماّقول الجماعةفبعیدمن جهات:إحداهااقتضاؤه للإشترا والاٴصل عدمه لما فیه من الإلباس حتیّ إنّ قوماًنفوهثمّ المثبتون له یقولون:متی عارضه غیره ممّایخالف الاٴصل کالمجاز قدّم علیه (۲)

”ان کی بات کئی جہتوں سے حقیقت سے بعید ہے۔اول اس لحاظ سے کہ ان کے بیان کا لازمہ یہ ہے کہ صلاة کو مشترک لفظی تسلیم کریں جبکہ اشتراک خلاف اصل ہے یہاں تک کہ بعض نے اسے بنیادی طو ر پر مسترد کیا ہے اور جنہوں نے اسے ثابت جا نا ہے انھوں نے اسے مجاز اور اشتراک کی صورت میں مجاز کو اشتراک پر مقدم جانا ہے۔“

فیروزآبادی،صاحب قاموس نے بھی صلوٰت کے بارے میں ایک کتاب لکھی ہے کہ جس میں آیہء شریفہ( إنّ اللّه وملا ئکته یصلّون علی النبیّ ) ۔۔۔ کے بارے میں تحقیق کی ہے اورمذکورہ بیان کو ابن ہشام سے نقل کیا ہے۔(۳)

اس بناء پر،ولایت کے مفہوم میں )جو کئی معانی ذکر ہوئے ہیں)سے جو معنی قدر متیقّن اوریقینی ہیں وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے ہیں،اور دوسرے معانی جیسے،دوستی اوریاری اس کے حقیقی معنی کے حدود سے خارج ہیں اور ان کے بارے میں اشتراک لفظی کا سوال ہی پیدا

____________________

۱۔احزاب/۵۶

۲۔مغنی اللبیب،ج۲،باب پنجم،ص۳۶۵

۳۔الصلوةوالبشرفی الصلوة علی خیرالبشر،ص۳۳،دار الکتب العلمیة،بیروت

۱۳۴

نہیں ہوتا۔

لہذا اگر مادئہ ”ولی“قرینہ کے بغیر استعمال ہو تو وہ سرپرستی اورصاحب اختیار ہو نے کے معنی میں ہوگا۔

دوسر ا نکتہ بعض اہل لغت نے مادہ ”و لی“کو ایک اصل پر مبنی جانا ہے اورمفہوم کا اصلی ریشہ)جڑ) کو ”قرب“ قراردیا ہے۔اور بعض مفسرین نے کلمہ”ولی“کو اسی بنیاد پرذکر کیا ہے، اس سلسلہ میں چندمطالب کی طرف توجہ کر نا ضروری ہے:

سب سے پہلے اس بات کو ملحوظ رکھناچاہئے کہ لغوی معنی کے اس طرح کی تحلیل اوراس کاتجزیہ ایک حدس وگمان اور خوامخواہ کے اجتہاد کے سواء کچھ نہیں ہے اوراس پرکوئی دلیل نہیں ہے۔

دوسرے یہ کہ وہ چیز جومعنی کے سمجھنے اوراس لفظ سے تبادر کے لئے معیار ہے وہ اس کے استعمال کازمانہ ہے۔بیشک بہت سے مواقع پر”ولی“کے معنی سے قرب کامفہوم ذہن میں پیدا نہیں ہوتاہے۔بعض مواقع پرکہ جہاں قرینہ موجودہوجیسے”المطرالولی“)وہ بارش جوپہلی بارش کے بعدیااس کے بہت قریب واقع ہو ئی ہو )میں اس قسم کے استعمال کوقبول کیا جاسکتا ہے۔

اس بناپراگرفرض بھی کر لیاجائے کہ”قرب“اس معنی کی اصلی بنیادتھی اورآغاز میں لفظ”ولی“کامفہوم”قرب“کے معنی میں استعمال ہوتا تھا،لیکن موجودہ استعمال میں وہ معنی متروک ہو چکاہے اوراب اس کااستعمال نہیں ہے۔

تیسرا بعض اہل لغت جیسے ابن اثیرنے”النہایة ۱“ میں اورابن منظورنے”لسان العرب ۲“ میں ”ولی“ کے معنی بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ”ولی“ خداکے

____________________

۱۔النہا یة،ج۵،ص۲۲۸

۲۔لسان العرب ،ج۱۵،ص۱۰۶

۱۳۵

ناموں میں سے ایک نام ہے اوریہ ناصرکے معنی میں ہے اورکہاگیاہے کہ اس کے معنی امورجہان کے متولی و منتظم کے ہیں۔

اس بیان سے استفادہ ہوتاہے کہ”ولی“جوخداکے ناموں میں سے ایک نام ہے،ان کے نزدیک ناصرکے معنی میں ہے،جبکہ مطلب صحیح نہیں ہے کیو نکہ اگر ”ولی“کے معنی ناصر کے

ہوں گے)چونکہ”ولی“کاایک مادہ اورایک ہیئت ہے،اوراس کامادہ”ولی“”ول ی“وہیئت فعیل ہے)تواس کاتقاضایہ ہے کہ مادہ”ولی“نصرکے معنی میں اوراس کی ہیئت)ہیئت فعیل) فاعل کے معنی میں ہے۔

ایک بات یہ کہ یہ دونوں نظریہ، بغیردلیل کے ہیں اوردوسرے یہ کہ:فعیل صفت مشبہ ہے جس کی دلا لت ثبوت پرہے جبکہ فاعل حدوث پردلالت کرتاہے اوریہ دونوں مفہوم کے اعتبار سے ایک دوسرے کے متغائیرہ ہیں۔

اس لئے”ولی“اسم الہی، اسی صاحب اختیاراورکائنات کے امورمیں متولی کے معنی میں ہے کہ جس کو دونوں اھل لغت نے اپنے مختارنظریہ کے بعد“قیل“کے عنوان سے بیان کیاہے۔

چوتھانکتہ:قرآن مجیدکی بہت سی آیتوں میں ”ولی“،”نصیر“ کے مقابلہ میں آیاہے، جیسے( ومالکم من دون اللّٰه من ولیّ ولانصیرا ً ) (۱) تمہارے لئے اس کے علاوہ نہ کوئی سرپرست ہے اورنہ مددگار“

اگر”نصیر“،”ولی“کے معنی میں ہوتاتواس کے مقابلہ میں قرارنہیں دیا جا تااوران دونوں لفظوں کاایک دوسرے سے مقابلہ میں واقع ہو نااس بات کی دلیل ہے کہ مفہوم کے لحاظ سے یہ دونوں ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔

_____________________

۱۔بقرہ/۱۰۷

۱۳۶

پانچواں نکتہ:بعض افرادنے قرآن مجید کی بہت سی آیات کے بارے میں یہ تصورکیا ہے کہ ولی اورولایت نصرت اورمددکے معنی میں استعما ل ہوا ہے،جیسے:( مالکم من ولایتهم من شیء ) (۱) جب کہ ولایت سے مراد”نصرت کی ولایت“ہوسکتاہے نہ یہ کہ ولایت”نصرت“کے معنی میں ہے،کیونکہ نصرت ومددولایت و سر پرستی کی علا متوں میں سے ایک

علا مت ہے اس لحاظ سے ولایت کامعنی سرپرستی کے علاوہ کچھ نہیں ہے اوراس سے نصرت ویاری میں سرپرستی مرادہے۔

”ولی“کے معنی کے سلسلہ میں جوکچھ بیان کیاگیا،اس کے پیش نظر،آیہء کریمہ میں صرف سرپرست اورصاحب اختیارہی والا معنی مراد ہے۔

اس کے علاوہ آیہء شریفہ میں قطعی ایسے قرینہ موجودہیں کہ جس سے مراد ”دوست“اور”یاور“نہیں ہوسکتے ہیں۔اس کی مزیدوضاحت سوالات کے جواب میں ائے گی۔

رکوع کے معنی

لغت میں ”رکوع“کے معنی جھکنااورخم ہوناہے۔اسی لئے نمازمیں جھکنے کو”رکوع“کہتے ہیں۔(۲)

زبیدی”تاج العروس(۳) “ میں کہتاہے:

”اگررکوع کوتنگدستی اورمفلسی کے لئے استعمال کیاجائے اور ایسے شخص کوجوامیری کے بعدفقیری اورتنگدستی میں مبتلا ہو جا ئے اورزوال سے دوچارہو تواسے”رکع

____________________

۱۔انفال/۷۲

۲۔الصاح جوہری،ج۳،ص۱۲۲۲،دارالعلم للملابین،القاموس المحیط،فیروزآبادی،ج۳، ص۳۱، دارالمعرفہ، بیروت،المنیر،فیومی،ص۲۵۴،ط مصر،جمھرة اللغة،ابن درید،ج۲، ص۱۷۷۰کتاب العین، خلیل بن احمد فراہیدی،ج۱،ص۲۰۰

۳۔تاج العروس،ج۲۱،ص۱۲۲،دارالہدایة للطباعة والنشر والتوزیع۔

۱۳۷

الرجل“کہتے ہیں اوریہ استعمال مجازی ہے۔“

اس لئے رکوع کاحقیقی معنی وہی جھکنااورخم ہوناہے اوراگراسے دوسرے کسی معنی،جیسے زوال اورخضوع میں استعمال کیاجائے تویہ اس کے مجازی معنی ہیں اوراس کے لئے قرینہ کی ضرورت ہے۔

آیہء ولایت کی شان نزول

شیعہ اوراہل سنّت تفسیروں کے منابع میں موجودبہت سی احادیث کے مطابق یہ آیہ شریفہ حضرت علی بن ابیطالب علیہ السلام کے بارے میں ناز ل ہو ئی ہے اور الذین آمنوا۔۔۔ سے مرادوہی حضرت(ع)ہیں۔

ہم اس سلسلہ میں ایک حدیث کو درج کرتے ہیں،جس کوثعلبی ۱ نے اپنی تفسیر ۲ میں سنی محدثین اور مفسرین سے نقل کیا ہے اورشیعوں کے بڑے مفسرشیخ طبرسی نے بھی اس کو”مجمع البیان ۳“ میں درج کیاہے:

”عن عبایة بن الربعی قال:بیناعبداللّٰه بن عباس جالس علی شفیرزمزم إذااٴقبل رجل متعمّم بالعمامة؛فجعل ابن عباس لایقول:”قال رسول اللّٰه( ص) إلاّقال الرجل:قال رسول اللّٰه( ص) “!!فقال ابن عباس:ساٴلتک باللّٰه،من اٴنت؟قال:فکشف العمامةعن وجهه وقال:یا اٴیّهاالناس،من عرفنی فقد عرفنی ومن لم یعرفنی فاٴنا “

جندب من جنادةالبدری،اٴبوذرالغفاری،سمعت رسول اللّٰه

___________________

۱ ۔ثعلبی کے بارے میں ذہبی کا قول دوسرے اعتراض کے جواب میں بیان کیاجائے گا۔

۲” الکشف والبیان“ج ۴ ،ص ۸۱ ۔ ۸۰ ،داراحیائ التراث العربی

۳ ۔مجمع البیان،ج ۳ ،ص ۳۲۴

۱۳۸

( ص) بها تین وإلاّصمّتا،وراٴیته بها تین وإلاّفعمیتا،یقول:علیّ قائد البررة،وقاتل الکفرة،منصورمن نصره،مخذول منخذ لهاٴماّ إنّی صلّیت مع رسول اللّٰهصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم یوماًمن الاٴیاّم صلاةالظّهر،فدخل سائل فی المسجدفلم یعطه اٴحد،فرفع السائل یده إلی السّماء وقال:اللّهمّ اٴشهد إنّی ساٴلت فی مسجدرسول اللّٰه فلم یعطنی احد شیئاً - وکان علیّ راکعاً - فاٴومی إلیه بخنصره الیمنی - وکان یتختّم فیها - فاٴقبل السائل حتیّاٴخذالخاتم من خنصره!وذلک بعین النبیّی

فلماّ فرغ النّبیّی( ص) من الصلاةرفع یده إلیالسّماء وقال:اللّهمّ إنّ اٴخی موسی ساٴلک فقال:( ربّ اشرح لی صدری ویسّرلی امری،واٴجعل لی وزیراً من اٴهلی هارون اٴخی اشدد به اٴزری ) فاٴنزلتَ علیه قرآناًناطقاً( سنشدّعضدک باٴخیک ونجعل لکما سلطا ناً )

اللّهمّ واٴنامحمّدنبیّک وصفیکاللّهمّ فاشرح لی صدری ویسّرلی اٴمری،واٴجعل لی وزیراًمن اٴهلی علیّاً اشددبه ظهری

قال اٴبوذر:فواللّٰه مااستتمّ رسول اللّٰه الکلمة حتّی اُنزل علیه جبرئیل من عنداللّٰه،فقال یامحمّد!إقراٴ،فقال:ومااٴقراٴ؟قال:إقراٴ:، ”إنّما ولیّکم اللّٰه ورسوله إلی راکعون“الآیة

”عبایہ بن ربیع سے روایت ہے کہ اس نے کہا:اس وقت جب عبداللہ بن عباس)مسجد الحرام میں )زمزم کے کنارے بیٹھے تھے ) اور پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے حدیث روایت کررہے تھے)اچانک ایک عمامہ پوش شخص آپہونچا)اوررسول خدا (ص)سے اس طرح حدیثیں نقل کرنا شروع کیں)کہ جب عبداللہ ابن عباس کہتے تھے:”قال رسول اللہ، (ص)“وہ شخص بھی کہتاتھا:”قال رسول اللہ (ص)۔“ابن عباس نے کہ:تمھیں خدا کی قسم ہے یہ بتاؤکہ تم کون ہو؟اس شخص نے اپنے چہرے سے نقاب ہٹائی اورکہا:اے لوگو!جومجھے پہچانتاہے،وہ پہچانتاہے،اورجومجھے نہیں پہچانتامیں اسے اپنے بارے میں بتادیناچاہتاہوں کہ میں جندب،جنادئہ بدری کابیٹا،ابوذرغفاری ہوں۔میں نے رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے اپنے ان دونوں)کانوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے)کا نوں سے سنا اگریہ با ت صحیح نہ ہو تو)میرے کان)بہرے ہو جائیں اوران دونوں انکھوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) آنکھوں سے دیکھا اگر یہ با ت درست نہ ہو تو میری آنکھیں اندھی ہوجائیں)میں نے سنا اور دیکھا) فرما رہے تھے: علی (علیہ السلام) نیکوں کے پیشوااور کافروں کے قاتل ہیں۔جوان کی مددکرے گااس کی خدا نصرت کرے گا،اورجوانھیں چھوڑدے گاخدااسے بھی چھوڑدے گا۔

۱۳۹

ایک دن میں رسول خدا (ص)کے ساتھ ظہرکی نمازپڑھ رہاتھاکہ ایک سائل نے اہل مسجد سے سوال کیا،کسی نے اس کی حاجت پوری نہیں کی۔سائل نے اپنے ہاتھآسمان کی طرف بلند کئے اورکہا:

خداوندا! تو گواہ رہناکہ میں نے مسجدالنبی میں سوال کیااورکسی نے میری حاجت پوری نہیں کی۔علی(علیہ السلام)رکوع کی حالت میں تھے،اپنی چھوٹی)انگلی جس میں انگوٹھی تھی)سے اس کی طرف اشارہ کیا۔سائل نے سامنے سے آکرانگوٹھی آپ(ع)کے ہاتھ سے نکال لی۔رسول خدا (ص)اس واقع کے شاہد اور گواہ ہیں جب پیغمبراسلام (ص)نمازسے فارغ ہوئے آسمان کی طرف رخ کرکے عرض کی:خداوندا!میرے بھائی موسیٰ(علیہ السلام) نے تجھ سے سوال کیا اور کہا”پروردگارا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کو آسان کر دے اور میری زبان کی گرہوں کوکھول دے،تا کہ یہ لوگ میری بات سمجھ سکیں اور میرے اہل میں سے میرے بھائی ہارون کومیراوزیرقراردیدے،اس سے میری پشت کومضبوط کردے،اسے میرے کام میں شریک بنادے۔“)اس کی درخواست کو بر لا)اور تو نے اس داستان کے بارے میں قرآن مجیدمیں یوں فرمایا:”ہم تمھارے بازؤں کوتمھارے بھائی)ہارون)سے مضبوط کردیں گے اورتمھیں ان پرمسلط کردیں گے۔“

خداوندا!میں تیرا بر گزیدہ پیغمبرہوں،خداوندا!میرے سینے کوکشادہ کردے،میرے کام کوآسان کر،میرے اہل میں سے میرے بھائی علی(ع)کومیر اوزیرقراردے اوراس سے میری پشت کومضبوط کر۔)ابوذرکہتے ہیں:)خدا کی قسم رسول خدا (ص)نے ابھی اپنی بات تمام بھی نہیں کی تھی کہ جبرئیل امین خداکی طرف سے نازل ہوئے اورکہا:اے محمد!پڑھئے!) آنحضرت نے) کہا:کیا پڑھوں؟ )جبرئیل نے کہا)پڑھئیے: إ( نّماولیکم اللّٰه ورسوله ) ۔۔۔ “

شیخ طبرسی نے اس حدیث کے خاتمہ پرکہاہے:اس روایت کوابواسحاق ثعلبی نے اپنی تفسیر میں اسی سند سے)کہ جیسے میں نے ذکرکی ہے)نقل کیاہے۔اس شان نزول کو بیان کر نے والی بہت ساری حدیثیں ہیں ان میں سے بعض کوہم دوسری مناسبتوں کے سلسلہ میں بیان کریں گے اوران میں سے بعض دوسری احادیث کے حوالہ ابن تیمہ کے جواب کے ذیل میں عرض کریں گے۔ان احادیث کے پیش نظرواضح ہو گیا کہ یہ شان نزول قطعی ہے اوراس میں کسی قسم کے شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

( وجعلنی مبارکاً أینماکنت ) ( ۱ )

''اور مجھے مبارک قرار دیا ہے چاہے میں جہاں رہوں ''

جب تک ﷲ کسی بندہ کو توفیق کرامت نہ فرمائے یا اسکے لئے بھلائی کا ارادہ نہ کرے تو بندہ

اپنی جدوجہد اور عقل کے ذریعہ تھوڑے سے اسباب خیر ہی حاصل کرسکتا ہے۔

( لاینفع اجتهاد بغیرتوفیق ) ( ۲ )

''کوئی بھی کوشش توفیق کے بغیر مفید نہیں ہوتی ''

اورجب پروردگار عالم کسی بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کو توفیق مرحمت کرتا ہے اور اسکی سعی و کوشش کو فلاح و کامیابی کے راستہ پر لگادیتا ہے جس سے اسکی سعی وکوشش نتیجہ بخش ہوجاتی ہے۔

حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(خیرالاجتهاد ما قارنه التوفیق )( ۳ )

''بہترین کوشش وہ ہے جو توفیق کے ساتھ ہو''

دوسری حدیث میں وارد ہو ا ہے:

(التوفیق أشرف الحظّین )( ۴ )

''توفیق دواشر ف واعلی حصو ںمیں سے ایک ہے''

اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس کچھ ایسے اسباب خیروسعادت ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی عقل اور جدوجہد کے سہارے حاصل کرتا ہے یا وہ وسائل و ذرائع ہوتے ہیں جوﷲ نے اسے عطا

____________________

(۱)سورئہ مریم آیت ۳۱۔

(۲)غررالحکم ج۲ ص۳۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۳۵۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۸۲۔

۳۰۱

کئے ہیں یہ بھی نتیجہ تک پہونچنے میں شریک ہیں مگر ان کا حصہ اور ان کی منزلت کم ہے۔دوسرا جز اور حصہ خیروبرکت کے وہ غیبی اسباب ہیں جنہیں ﷲ اپنے بندہ کے شامل حال کرتا ہے یا جب بندہ کو اس کی سعی وکوشش سے اسباب خیر میسر نہیں ہوتے تواللہ اسے خیر و سعادت کی راہ پر لگادیتا ہے یہ دوسرا حصہ ہے جو حدیث کے مطابق زیادہ مخفی ہوتا ہے۔

بلا شبہ توفیق جوایک غیبی سبب ہے اور انسان کو خیروبرکت کی راہ دکھاتا ہے ۔انسان کے پاس

موجود دیگر عقلی اور فطری امکانات اور قوتوںسے جدا ایک چیز ہے اگر چہ یہ قوتیں اورصلاحتیں بھی عطائے پروردگار ہیں لیکن تنہا یہ صلاحتیں انسان کو خیروسعادت کی منزل تک پہونچانے کے لائق نہیں ہیں یعنی صرف انھیں کے سہارے انسان شر سے محفوظ نہیںرہ سکتا ہے بلکہ پروردگار جب کسی بندہ کے لئے خیرکا ارادہ کرتا ہے تو اسکی سعی وکوشش اور صلاحیتوں کو خیر کے صحیح راستوں پر بروئے کار لانے میں اسکی مدد کرتا ہے۔مندرجہ ذیل حدیث اس حقیقت کی صاف وضاحت کرتی ہے۔

روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق سے سوال کیا:

(یا بن رسول ﷲ! ألست أنا مستطیعاً لماکُلِّفْتُ؟فقال له عليه‌السلام :(ما الاستطاعة عندک؟) قال:القوةعلیٰ العمل،قال له عليه‌السلام :(قد اُعطیت القوة،ان اُعطیت(المعونة)،قال له الرجل:فما المعونة ؟ قال عليه‌السلام :(التوفیق)،قال(الرجل):فلم اِعطائُ التوفیق؟ قال(الامام) عليه‌السلام : هل تستطیع بتلک القوةدفع الضررعن نفسک،وأخذالنفع الیهابغیرالعون من ﷲ تبارک وتعالیٰ؟)قال:لا، قال عليه‌السلام :(فَلمَ تنتحل مالا تقدرعلیه؟)ثم قال:(أین أنت من قول العبد الصالح:(وما توفیقی الا بﷲ) ( ۱ )

____________________

(۱)بحار الانوارج۵ ص۴۲۔''وماتوفیقی الابﷲعلیه توکّلت والیه اُنیب'' ''میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسکی طرف میں توجہ کر رہاہوں''سورئہ ہو دآیت۸۸۔

۳۰۲

''فرزند رسول ﷲ !جب مجھے مکلف بنایاگیا ہے تو کیا میں مستطیع نہیں ہوں؟امام نے فرمایا:استطاعت سے تمہاری مراد کیاہے؟اس نے جواب دیا کہ عمل بجالانے کی قوت وطاقت''امام نے فرمایا:یہ درست ہے کہ تمہیں قوت دی گئی ہے مگر کیا تمہیں''معونہ''بھی نصیب ہوا ہے؟اس شخص نے سوال کیا:یہ معونہ کیاہے؟امام نے فرمایا:توفیق! اس شخص نے(تعجب سے)پوچھا:توفیق عطا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟امام نے فرمایا کہ:کیا تم اللہ کی مددکے بغیر صرف اپنی قوت کے ذریعہ اپنے کو نقصانات سے محفوظ ر کھ سکتے ہو اور فائدے حاصل کرسکتے ہو؟اس نے جواب دیا ہرگز نہیں:پھر امام نے دریافت فرمایا:پھرتم عبدصالح کے اس جملہ کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ' 'میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے ''

اس روایت کے مطابق انسانی زندگی میں تین طرح کی قوتیں اور عوامل کار فرما ہیں:

۱۔وہ طبیعی اور سماجی قوانین جو انسان کو خیریا شرکی جانب لے جاتے ہیں۔

۲۔وہ قوتیں اور صلاحتیں جو پروردگار عالم نے انسانی وجود میں رکھی ہیں اور جنہیں انسان طبیعت یا سماج میں خیروشر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

۳۔توفیق و امداد الٰہی جس کے ذریعہ پروردگار اپنے بندوں کو اسباب خیر تک پہونچاتا ہے اور ان مخفی اسباب کے لئے بندوں کی مدد کرتا ہے جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے یا جن تک رسائی ممکن نہ تھی اس آخری سبب کے بغیر خیر تک پہونچنا ممکن نہیں ہے۔

کراجکی نے اپنی کتاب'' کنز ''میں روایت کی ہے کہ امام جعفر صاد ق نے فرمایا:

(ماکلّ من نویٰ شیئاً قدرعلیه،وما کل من قدر علیٰ شیٔ وُفّق له ۔۔۔)( ۱ )

''ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان ہر اس چیز پر قدرت بھی رکھتا ہو جس کی اس نے نیت کی ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ جو مقدور ہو اسکی توفیق بھی حاصل ہواور نہ ہی ایسا ہے کہ جسکی توفیق حاصل ہو وہ شئے خود

____________________

(۱)بحارالانوار ج۵ص۲۰۹۔۲۱۰۔

۳۰۳

حاصل بھی ہوجائے۔جب نیت ، قدرت اورتوفیق کے ساتھ وہ چیزبھی حاصل ہوجائے تو سعادت مکمل کہلاتی ہے''

توفیق ،معرفت پروردگار کا بہت وسیع باب ہے اگر چہ ﷲ کی معرفت کے تین راستے ہیں:

۱۔فطرت

۲۔عقل (عقلی دلیلوںکے ذریعہ)

۳۔تعامل مع اللہ(اللہ کے ساتھ تجارت اور معاملہ)

''تعامل مع ﷲ'' معرفت کاایک وسیع در وازہ ہے لیکن اس دروازہ میں صرف صاحبان بصیرت داخل ہوسکتے ہیں اوراسکے ذریعہ انسان کو ایمان، اعتبارواطمینان اور توکل کاوہ درجہ حاصل ہوتا ہے جو فطرت اورعقل کے ذریعہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم کے ساتھ معاملہ اور اس کی عطا کے ساتھ لین دین اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی معیت کی وجہ سے ہی تائید خداوندی اوراس کی تو فیق ہر حال میں انسان کے شامل حال ہو تی ہے ۔

توفیق الٰہی یونہی کسی انسان کے شامل حال نہیں ہوجاتی بلکہ توفیق نازل ہونے کے اپنے اسباب و قوانین اور اصول ہیں۔ جسے پروردگار نے توفیق جیسی نعمت عطا کی ہے یقینا وہ اس لائق تھا کہ ایسی رحمت الٰہی اس کو نصیب ہو اور جو توفیق سے محروم ہے یقینا اس نے اس عظیم نعمت کے نزول و حصول کے مواقع ضرورگنوائے ہیں ورنہ رحمت الٰہی میں بخل و کنجو سی کا دخل نہیں ہے اور نہ ہی اسکا خزانہ ٔ رحمت ختم ہونے والا ہے ۔یہ عظیم نعمت اسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے شامل حال خدا کی توفیق ہوتی ہے اور اس نعمت سے محروم صرف وہی ہوتا ہے کہ جسے توفیق نصیب نہ ہو۔ توفیق جیسی نعمت پانے والے افراد بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ استحقاق، صلاحیت ،لیاقت اور ظرف کے اعتبار سے ان کی توفیق کے مراتب ودرجات بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔

۳۰۴

اسکی بارگاہ سے رحمت،توفیق کی شکل میں بے حساب نازل ہوتی رہتی ہے البتہ اس سے صرف وہی لوگ محروم رہتے ہیں جن کا نفس بد اعمالیوں کے باعث گھاٹے میں ہے اور جنھوںنے اپنے آپ کو اوراپنے باطن اور ظرف کواسکے حصول کے قابل نہیں بنا یاہے جبکہ ان کے برخلاف صاحبان ایمان اپنی استعداد اورظرف کے مطابق اس نعمت سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں۔( ۱ )

رزق اگر چہ عالم ظاہر و شہودکا معاملہ ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسئلہ رزق سے غیبی اسباب کا کتنا گہرا تعلق ہے ۔

عالم غیب اور عالم شہود(ظاہر)کے درمیان رابطہ

مسئلہ''غیب''اور''غیب وشہود کا تعلق''جیسے مسائل اسلامی نظریات کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیںاور اس سلسلہ میں لوگوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو سرے سے غیب کے منکر ہیں کچھ شہود کے مقابل غیب کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان رابطہ کے منکر ہیں۔

اسلام''غیب''کو صرف تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ''غیب''پر ایمان کی دعوت دیتا ہے اور ''ایمان بالغیب''کو اسلام کی سب سے پہلی شرط قرار دیتا ہے۔

( الم ٭ذٰلک الکتاب لاریب فیه هدیً للمتقین٭الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلاة و مما رزقناهم ینفقون ) ( ۲ )

''یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگارلوگوں کیلئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ

____________________

(۱)مؤلف کی کتاب ''المذہب التاریخی فی القرآن الکریم ، سے اقتباس ،معمولی تبدیلی کے ساتھ صفحہ ۴۰۔۴۹۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۱۔۳۔

۳۰۵

نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ''

( الذین یخشون ربهم بالغیب وهم من الساعة مشفقون ) ( ۱ )

''جو از غیب اپنے پروردگار سے ڈر نے والے ہیں اور قیامت کے خوف سے لرزاں ہیں''

( انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمٰن بالغیب ) ( ۲ )

''آپ صرف ان لوگوں کو ڈر ا سکتے ہیں جو نصیحت کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے ازغیب خدا سے ڈر تے رہیں ''

اسلام عالم غیب اور عالم شہود کے درمیان ربط کا بھی قائل ہے اس کا یہ نظریہ ہے کہ ان دونوں وسیع افقوں کوجوڑنے والے بہت سے پل بھی پائے جاتے ہیں ان تمام باتوں سے بڑھکر اسلام کا عقیدہ ہے کہ دونوں عالم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی عالم غیب ،عالم ظاہر و محسوس پر اثر انداز ہوتا ہے اور عالم محسوس و ظاہر غیب پر ،اگر انسان متقی وپرہیزگار ہے۔ایمان بالغیب کے باعث دل میں خشیت الٰہی پائی جاتی ہے اور وہ گناہوں سے کنارہ کش رہتا ہے تو یہ چیزیں براہ راست انسان کی مادی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔معاش حیات کی سختیاں آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور رزق کے دروازے اسکے لئے کھل جاتے ہیں۔ارشاد پروردگار ہے:

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لا یحتسب ) ( ۳ )

''اور جو بھی ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے ،اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جسکا وہ گمان بھی نہیں کرتا ہے ''

____________________

(۱)سورئہ انبیاء آیت۴۹ ۔

(۲)سور ئہ یٰس آیت۱۱۔

(۳)سورئہ طلاق آیت ۲۔۳۔

۳۰۶

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له من أمره یسرا ) ( ۱ )

اور جو ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے امرمیں آسانی پیدا کردیتا ہے ''

یہ تو تھا عالم ظاہر و محسوس کا عالم غیب سے تعلق۔ اسکے برخلاف عالم غیب کا بھی عالم ظاہر سے

تعلق پایا جاتا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے:

(لولا الخبزماصلّینا )( ۲ )

''اگر روٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہم نماز نہ پڑھتے''

آپ ہی سے منقول ہے:(وبہ (الخبز)صمتم)( ۳ )

''تم لوگوں کے روزے اسی روٹی کیلئے ہیں''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(فلولاالخبزماصلّیناولاصمنا،ولا أدّینافرائض ربناعزّوجلّ )( ۴ )

''اگر روٹی (کی بات) نہ ہوتی تو نہ ہم نماز پڑھتے اور نہ روزہ رکھتے اور نہ ہی اپنے پروردگار کے احکام بجالاتے''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۴۔

(۲)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

(۳)اصول کافی ج۶ ص۳۰۳۔

(۴)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

۳۰۷

حرکت تاریخ کے سلسلہ میں غیبی عامل کا کردار

عالم غیب اور عالم محسوس میں اسی رابطہ کی بنا پر قرآن کریم ''غیب''کو حرکت تاریخ کا اہم سبب شمار کرتا ہے اور تاریخ کے پیچھے مادی سبب کو بھی تسلیم نہیں کرتا چہ جائیکہ مادیت کو تاریخ کا تنہا محرک مانا جائے بلکہ بسا اوقات ایسا بھی دکھائی دیتا ہے کہ تاریخ مادی عوامل کے تقاضوں کے برخلاف حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ذرا قرآن کریم کی ان آیات میں غور وخوض کیجئے:

( لقدنصرکم ﷲ فی مواطن کثیرة ویوم حنینٍ اذ أعجبتکم کثرتکم فلم تغنِ عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولّیتم مدبرین٭ثم أنزل ﷲ سکینته علیٰ المؤمنین وأنزل جنوداً لم تروها وعذّب الذین کفروا وذٰلک جزاء الکافرین ) ( ۱ )

''بیشک اللہ نے اکثر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس(کثرت) نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ،پھر اسکے بعد اللہ نے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھااور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیاکہ یہی کافرین کی جزا اور ان کا انجام ہے''

ان آیات کریمہ سے پہلا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ فتح و کامرانی عطا کرنے والا خدا ہے۔

مادی اسباب و وسائل صرف ذریعہ ہیں کامیابی دینے والا اصل میں خدا ہے۔ تاریخ کی حرکت کو سمجھنے کے لئے بنیادی نقطہ یہی ہے اور یہیں سے اسلامی نظریہ،مادیت کے نظریہ سے جدا ہوجاتا ہے۔

آیات کریمہ میں دوسرا اہم تذکرہ لشکر اسلام کی کثرت کے باوجود حنین کی جنگ کا نقشہ منقلب ہونا ہے حالانکہ مادی نگاہ رکھنے والوں کے نزدیک افرادکی کثرت فتح کا سبب ہوتی ہے۔ ''اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایااور

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت۲۵۔۲۶۔

۳۰۸

تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوںسمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعدتم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

آیات کریمہ میں تیسرا تذکرہ ﷲ کی جانب سے اپنے رسول اور مومنین پرعین میدان جنگ میں سکینہ نازل ہونا ہے۔اسی سکینہ کے باعث شدت کے لمحات میں انہیں اطمینان و سکون حاصل ہوا

اور وہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکے اور ان کے دلوں سے خوف واضطراب زائل ہوایہ سکینہ فقط خدا کی جانب سے تھا ﷲ نے فرشتوں کا نہ دکھائی دینے والالشکر نازل کیا جو لشکر کفار کو ہزیمت پر مجبور کر رہا تھا ان کی صفوں میں رعب پھیلا رہا تھا اسکے بر خلاف دشمن سے مقابلہ کے لئے مومنین کے دلوں کو تقویت عطا کررہا تھا۔

اب ہم سورئہ آل عمران کی ان آیات کو پڑھیں:

( بلیٰ ان تصبروا وتتّقوا ویأ توکم من فورهم هذا یُمددکم ربّکم بخمسة آلاف من الملا ئکةمسوّمین٭ وما جعله ﷲ الابشریٰ لکم ولتطمئنّ قلوبکم به وما النصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) ( ۱ )

'' یقینا اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے اور دشمن فی الفورتم تک آجائیں تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مددکریگا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوںگے ۔اور اس امداد کو خدانے صرف تمہارے لئے بشارت اور اطمینان قلب کا سامان قرار دیا ہے ورنہ مدد تو صرف خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے ہوتی ہے ''

جنگ کی شدت اور سختیوں کے دوران پانچ ہزار ملائکہ کے ذریعہ غیبی امداد نے فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرادیا۔ﷲ نے ملائکہ کے ذریعہ مومنین کے دلو ں کو سکون واطمینان عطا کیا اور اس طرح سخت ترین لمحات میں انہیں اسطرح بشارت وخوش خبری سے نواز ا۔ اسی آیہ شریفہ میں اس

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۲۵۔۱۲۶۔

۳۰۹

بنیادی نقطہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو نقطہ تاریخ کی حرکت کے بارے میں اسلام اور مادیت کے درمیان حدفاصل ہے( وماالنصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) فتح وکامرانی صرف اور صرف ﷲ کی جانب سے ہے جنگ احد میں جیتی ہوئی جنگ کا نقشہ پلٹ جانے کے بعد مومنین کو سکھائے گئے

اسباق سورئہ آل عمران میں موجود ہیں:

( ولا تهنواولا تحزنواوأنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ) ( ۱ )

''خبر دار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا،اگر تم صاحب ایمان ہوتو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے ''

میدان جنگ میں یہ برتری خدا پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ایمان کے بعد پھر کہیں ان مادی اسباب و عوامل کی باری آتی ہے جنکی ضرورت میدان جنگ میں پڑتی ہے۔

سورئہ اعراف میں بھی یہی مضمون نظر آتا ہے:

( ولوأنّ أهل القریٰ آمنوا وا تّقوا لفتحنا علیهم برکاتٍ من السماء والارض ولکن کذّبوا فأخذناهم بماکانوا یکسبون ) ( ۲ )

''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔''

''پروردگار عالم اپنے بندوں پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیتا ہے'' یہ چیز ایمان وتقوے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اسکے ساتھ ضمنی طورپرمادی و سائل بھی درکار ہوتے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ تھا جو کہ مثبت رخ تھا کہ کس طرح میدان جنگ میں ایمان اور تقوی ٰسے

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۳۹۔

(۲)سورئہ اعراف آیت۹۶۔

۳۱۰

فتح و کامرانی ملتی ہے معاشی زندگی میں وسعت رزق ،آسانیاں اور خوشیاں میسر ہوتی ہیں۔ اسکے برخلاف عالم غیب اور عالم محسوس کا یہی تعلق اور رابطہ غلطیوں اورگناہوںمیں مبتلاہونے اور حدود الٰہی سے تجاوز ،تہذیبوں کے خاتمہ اور امتوں کی تباہی و بربادی کا سبب بھی ہوتا ہے۔

سورئہ انعام کی ان آیات کو غور سے پڑھئے:

( ألم یرواکم أهلکنامن قبلهم من قَرنٍ مکنّاهم فی الارض مالم نمکّن لکم وأرسلنا السماء علیهم مدراراً وجعلنا الانهارتجری من تحتهم فأهلکناهم بذنوبهم وأنشأنا من بعدهم قرناً آخرین ) ( ۱ )

''کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوں کو تباہ کردیا ہے جنہیں تم سے زیادہ زمین میں اقتدار دیا تھا اور ان پر موسلادھار پانی بھی برسایا تھا ان کے قدموں میں نہر یں بھی جاری تھیں پھر ان کے گناہوں کی بناپر انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری نسل جاری کردی ''

یہ ہلاکت و بربادی بے عملی، عصیان اور گناہوں کی وجہ سے تھی مادیت کو تاریخ کا محرک سمجھنے والوں کی نگاہ میں ان اسباب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے جبکہ قرآن بد اعمالیوں کو بھی بربادی کا سبب مانتا ہے ۔

اسی سورئہ مبارکہ کی یہ آیات کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں جن میں قرآن مجید نے تسلسل کو مکمل طور پر پیش کردیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

( ولقد ارسلنالیٰ امم منقبلک فاخذناهم بالبأسآء والضرّآء لعلهم یتضرعون٭ فلولااذجاء هم بأسنا تضرّعوا ولکن قست قلوبهم و زیّن لهم الشیطان ماکانوا یعملون٭فلمانسوا ما ذکّروا به فتحناعلیهم أبواب کل شیٔ حتّٰی اذا فرحوابما اُوتوا أخذنٰهم بغتة ً فاذا هم مبلسون٭فقطع )

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۶۔

۳۱۱

( دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۱ )

''ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اسکے بعد انہیں سختی اور تکلیف

میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں۔پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی ؟بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے ۔پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دئے ،یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوشحال ہوگئے تو ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ،اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے، پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیاگیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

تمام امتوں کے آغاز سے لیکر ان کے انجام تک تین مرحلے ہیں جن کی طرف ان آیات کریمہ میںاشارہ پایا جاتا ہے اسی طرح ان تینوں مرحلوں میں عالم غیب اور عالم محسوس کے درمیان رابطہ کی وضاحت پائی جاتی ہے۔

پہلا مرحلہ

یہ آزمائش کا مرحلہ ہے اس مرحلہ میں پروردگار امتوں کو نعمتوں اور صلاحتیوں سے نواز تا ہے۔اس مرحلہ میں گناہ و معصیت نزول بلا اور بارگاہ خداوندی میں تضرع وزاری بلائوں سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلّهم یتضرّعون )

''اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلاکیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

گناہ سے بلائووں کانازل ہونا اور تضرع وزاری سے بلائووں کا برطرف ہونا یہ در اصل عالم

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۴۲۔۴۵۔

۳۱۲

غیب اور عالم محسوس کے رابطہ کو بیان کرتا ہے اوراس نقطہ تک مادی فکرکی رسائی نہیں ہوسکتی ہے یہ بات ہمیںکتاب خدا سے معلوم ہوئی ہے۔

دوسرا مرحلہ

مہلت اور چھوٹ کا مرحلہ ہے ۔اس مرحلہ میں بھی عالم غیب و محسوس کا تعلق نمایاں ہے اس لئے کہ برائیوں اور گناہوں میں غرق ہوجانے اور آزمائش کے مرحلہ میں مصائب و مشکلات کو نظر انداز کرتے رہنے کے باوجود کبھی کبھی امت پر نعمت کا دروازہ بند نہیں ہوتا لیکن اس مرحلہ میں رزق،نعمت نہیںبلکہ عذاب ہوتا ہے اور ﷲ اس طرح انہیں ان کی سرکشی میں چھوٹ دیکر ان کی رسی درازکردیتا ہے تاکہ پھراچانک ایک دم پوری سختی وقوت کے ساتھ انہیں جکڑلے:

( فلما نسواماذکّروا به فتحنا علیهم أبواب کلّ شیٔ ) ( ۱ )

''پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہرچیز کے دروازے کھول دئے ''

تیسرا مرحلہ

بربادی اور نابودی کا مرحلہ ہے:

( فقطع دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۲ )

''پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیا گیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

حمد خدا یہاں عذاب پر ہے نعمت پرنہیں۔ یعنی نعمت حیات کے بجائے ''سرکش افراد کی '' نابودی اورہلاکت پر حمد وثنا ئے الٰہی کی جارہی ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت ۴۴۔

(۲)سورئہ انعام آیت۴۵۔

۳۱۳

عالم غیب ومحسوس کا رابطہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مراحل سے جدا نہیں ہے کیونکہ جب افراد قوم اکڑتے ہیں روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان چیزوں میں فرحت محسوس کرتے ہیں تو ان پر ایسا عذاب نازل ہوتا ہے کہ پوری قوم نیست ونابود ہوجاتی ہے۔

لہٰذامعلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں غیبی عامل ،حرکت تاریخ کا اہم عنصر ہے۔

غیبی عامل،مادی عوامل کا منکر نہیں

اگر چہ اسلام کی نگاہ میں حرکت تاریخ کا اہم عنصر غیبی عامل ہے مگراسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے

کہ اسلام انسانی زندگی میں مادی عوامل کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ در حقیقت حرکت تاریخ کا عامل، کسی ایک چیز کو ماننے کے بجائے اسلام متعدداور مشترکہ عوامل کا قائل ہے یعنی غیبی اور مادی عوامل ایک ساتھ مل کر تاریخ کو آگے بڑھاتے ہیں ۔اور ان میں سے صرف کوئی ایک عامل تاریخ کا محرک نہیں ہے وہ مادی عامل ہو یا معنوی۔ اسلام کی نگاہ میںزندگی بسر کرنے کے لئے ان دونوں عوامل کوبروئے کار لانا ضروری ہے۔

تقویٰ اور رزق کا تعلق

جب عالم غیب اور عالم محسوس کا تعلق اور ربط واضح ہوگیا ''تو آیئے ایک نگاہ ،حدیث قدسی کے اس فقرہ پر ڈالتے ہیں:

(لا یؤثرعبد هوای علی هواه الاضمنت السمٰوات والارض رزقه )

''کوئی بندہ اگر اپنی خواہشات پرمیرے احکام اورمرضی کو ترجیح دے گا تو میں زمین وآسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادوں گا'' عالم غیب و عالم محسوس کے درمیان تعلق کی گذشتہ توضیح کے پیش نظر غیب اور معنویت سے تعلق رکھنے والے ''تقویٰ''اور عالم غیب وعالم محسوس وشہود سے تعلق رکھنے والے ''رزق' ' کے درمیان ربط کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہ جاتی ۔

۳۱۴

اسلامی تہذیب میں یہ نظریہ بالکل واضح وروشن ہے اس لئے کہ تقویٰ بھی رحمت الٰہی کا وسیع دروازہ ہے تقوے کے ذریعہ انسان ﷲ سے رزق نازل کراسکتا ہے ۔تقوے سے ہی باران رحمت نازل ہوتی ہے اور مشکلات بر طرف ہوتی ہیں تقوے کے سہارے ہی ﷲ کی جانب سے فتح وکامیابی میسر ہوتی ہے۔اسی کے طفیل بند دروازے کھل جاتے ہیں تقوے کی ہی بدولت خداوند عالم زندگی کے مشکلات میں لوگوں کے لئے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعلْ له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لایحتسب ومن یتوکّل علی ﷲ فهوحسبه انّ ﷲ بالغ أمره قد جعل ﷲ لکلّ شی ء قدْرا )

''اور جو بھی ﷲسے ڈرتا ہے ﷲاس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کریگا خدا اسکے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے ۔ ''( ۱ )

جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعل له من أمره یُسراً ) ( ۲ )

''اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اسکے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ہے''

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

( لوأن السمٰوات والارض کانتا رتقاً علیٰ عبد ثم اتقیٰ ﷲ لجعل ﷲله منهما فرجاً ومخرجاً ) ( ۳ )

''اگر کسی بندے پر زمین وآسمان کے دروازے بالکل بند ہوجائیں پھر وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکو زمین وآسمان میں کشادگی اور آسانیاں عطا کردے گا ''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۲۔۳۔

(۲)سورئہ طلاق آیت ۴۔

(۳)بحارالانوار ج۷۰ص ۲۸۵۔

۳۱۵

روایت کے مطابق جب حضرت ابوذر(رح) ربذہ کے لئے جلا وطن کئے گئے توان سے امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(یاأباذر؛انک غضبت ﷲ فارجُ من غضبت له،ولوأن السمٰوات والارض کانتاعلیٰ عبد رتقاً ثم اتقیٰ ﷲلجعل منهمافرجاًومخرجاً )( ۱ )

''اے ابوذر تمہاری ناراضگی اور غضب ﷲ کے لئے تھا لہٰذا اسی کی ذات سے لولگائے رکھنا۔اگر زمین وآسمان کے راستے کسی بندہ پر بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکے لئے زمین وآسمان میں آسانیاں فراہم کردے گا ''

مولائے کائنات حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(من أخذ بالتقویٰ عزبت(غابت)عنه الشدائد بعد دنوّها،واحلولت له الاموربعد مرارتها،وانفرجت عنه الامواج بعد تراکمها،وأسهلت له الصعا ب بعد انصابها )( ۲ )

''جوتقویٰ اختیار کرے گا شدائد و مصائب اس سے نزدیک ہونے کے بعد دور ہو جائیں گے تلخیوں کے بعد حلاوت محسوس کرے گا۔ امواج بلا اسکے گرد جمع ہونے کے بعد پراکندہ ہوجائیں گی مشکلات پڑنے کے بعد آسانیوں میں تبدیل ہوجائیں گی ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے:

(من اعتصم بﷲ بتقواه عصمه ﷲ،ومن أقبل ﷲ علیه وعصمه لم یبال لوسقطت السماء علیٰ الارض،وان نزلت نازلة علیٰ أهل الارض فتشملهم بلیة،کان فی حرزﷲ بالتقویٰ من کل بلیة،ألیس ﷲ تعالیٰ یقول:ان المتقین فی مقام أمین )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۳۰۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸۔

۳۱۶

''جو تقوائے الٰہی کی پناہ میں آئے گا ﷲ اسے محفوظ رکھے گا اور جس کی طرف ﷲ کی توجہ ہوجائے اور ﷲ اسے محفوظ رکھے توچاہے آسمان، زمین پر گرجائے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی اگر تمام اہل زمین پرکوئی بلا نازل ہوتو وہ تقوے کے باعث امان خدا میں رہے گا ۔کیا خدا کایہ قول نہیں ہے:

(ان المتقین فی مقام أمین )( ۱ )

''بیشک متقین امن کے مقام پر ہیں''

امام جعفرصادق سے مروی ہے کہ:

(ان ﷲ قد ضمن لمن اتّقاه أن یحوّله عمایکره الیٰ مایحب ویرزقه من حیث لایحتسب )( ۲ )

''ﷲ نے متقی کی ضمانت لی ہے کہ اسکے ناپسند یدہ امور کو پسندیدہ امور میںتبدیل کردے گا اور اسے ایسے راستہ سے رزق عطا کرے گا جس کا اسے گمان بھی نہ ہوگا''

امام محمد تقی نے سعد الخیرکو تحریر فرمایا:

(ان ﷲ عزّوجل یقی بالتقویٰ عن العبد ماغرب عنه عقله،ویجلّی بالتقویٰ عماه وجهله،وبالتقویٰ نُجّی نوح ومن معه فی السفینة،وصالح ومن معه من الصاعقة،وبالتقویٰ فازالصابرون ونجت تلک العصب من المهالک )( ۳ )

''پروردگار عالم، تقویٰ کے ذریعہ اپنے بندہ سے ان چیزوں کومحفوظ رکھتا ہے جو اسکی عقل سے مخفی تھیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسے مکمل بینائی عطا کردیتا ہے اور ان چیزوں کو بھی دکھادیتا ہے جو جہالت کے باعث اس سے پوشیدہ تھیں۔تقویٰ کے باعث ہی نوح اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۰ ص۲۸۵۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)فروع کافی ج۸ص۵۲۔

۳۱۷

نے نجات پائی ،صالح اور ان کے ساتھی آسمانی بجلی سے محفوظ رہے۔ تقویٰ کی بناء پر ہی صبر کرنے والے بلند درجات پر فائز ہوئے اور ہلاکت خیز مشکلات سے نجات حاصل کرسکے''

خلاصۂ کلام یہ کہ جو لوگ ﷲ کی مرضی اور احکام کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں اور حکم خدا کے سامنے اپنی ضرورتوں ،خواہشوں اور ترجیحات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں تو خداوند عالم زمین وآسمان کو ان کے رزق کا ضامن بنادیتا ہے۔ان کے امور کا خود ذمہ دار ہوجاتا ہے اور انھیں ان کے نفسوں کے حوالہ نہیں کرتا اور انکی سعی وکوشش میں توفیق و برکت عطا کرتا ہے۔

یہاں پھرسے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان باتوں کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تقوی کے بعدرزق حاصل کرنے کے لئے سعی وجستجو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔حصول رزق کے لئے صرف تقویٰ کوکافی سمجھ لینا اسلامی نظریہ نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ تقویٰ کے ذریعہ بندہ پر رزق نازل ہوتا ہے اوراس طرح آسانی کے ساتھ مختصر زحمت سے ہی رزق حاصل ہوجاتا ہے۔

تقویٰ کی بنا پر نجات پانے والے تین لوگوں کا واقعہ

نافع نے ابن عمر سے نقل کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:تین آدمی چلے جار ہے تھے کہ بارش ہونے لگی تو وہ لوگ پہاڑکے دامن میں ایک غار میں چلے گئے اتنے میں پہاڑ کی بلندی سے ایک بڑا سا پتھر گرااور اسکی وجہ سے غار کا دروازہ بند ہوگیا۔تو ان لوگوں نے آپس میں کہا:اپنے اپنے اعمال صالحہ پر نظر دوڑائو اور انھیں کے واسطہ سے خدا سے دعاکرو شائد خدا کوئی آسانی پیداکردے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے والدین بہت بوڑھے تھے اورمیرے بچے بھی بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بکریاں چراکر ان کا پیٹ پالتا تھا واپس آکر بکریوں کا دودھ نکالتا تو پہلے والدین کے سامنے پیش کرتا اس کے بعد اپنے بچوں کودیتا۔

۳۱۸

اتفاقاً میں ایک دن صبح سویرے گھر سے نکل گیا اور شام تک واپس نہ آیا۔جب میں واپس پلٹا تومیرے والدین سوچکے تھے میں نے روزانہ کی طرح دودھ نکالا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا مجھے یہ گوارہ نہ ہوا کہ انھیںبیدار کروں اور نہ ہی یہ گوارہ ہوا کہ والدین سے پہلے بچی کو دودھ پیش کروں حالانکہ بچی بھوک کی وجہ سے رو رہی تھی اور میرے قدموں میں بلبلا رہی تھی مگر میری روش میں تبدیلی نہ آئی یہاں تک کہ صبح ہوگئی پروردگار ا!اگر تو یہ جانتا ہے کہ یہ عمل میں نے صرف تیری رضا کے لئے انجام دیا ہے تو اسی عمل کے واسطہ سے اتنی گنجائش پیدا کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ﷲ نے اتنی گنجائش پیدا کردی اور ان لوگوں کو آسمان دکھائی دینے لگا۔

دوسرے نے کہا:میرے چچاکی ایک لڑکی تھی میں اس سے ایسی شدید محبت کرتا تھا جیسے کہ مرد عورتوں سے کرتے ہیں میں نے اس سے مطلب برآری کی خواہش کی اس نے سودینار کی شرط رکھی میں نے کوشش کرکے کسی طرح سودینار جمع کئے انھیں ساتھ لے کر اسکے پاس پہونچ گیا۔اور جب شیطانی مطلب پورا کرنے کی غرض سے اس کے نزدیک ہو ا تو اس نے کہا''اے بندئہ خدا ﷲ سے ڈرو اور ناحق میرا لباس مت اتارو''یہ بات سن کر میں نے اسے چھوڑدیا۔پروردگار اگر میرا یہ عمل تیرے لئے ہے تو تھوڑی گنجائش اور مرحمت کردے۔اللہ نے تھوڑی سی گنجائش اور عطا کردی۔

تیسرے آدمی نے کہا میں نے ایک شخص کوتھوڑے چا ول کی اجرت پراجیرکیا جب کام مکمل ہوگیا تو اس نے اجرت کا مطالبہ کیا میں نے اجرت پیش کردی لیکن دہ چھوڑ کر چلا گیا میں اسی سے کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ اسکی قیمت سے بیل اور اسکا چرواہاخرید لیا۔ایک دن وہ مزدور آیا اور مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو اور میرا حق مجھے دے دو۔میں نے کہا جائووہ بیل اور چرواہا لے لو اس نے پھر کہا خدا سے ڈرو اور میرا مذاق مت اڑائو۔میں نے کہا میں ہرگز مذاق نہیں کررہا ہوں یہ بیل اور چرواہا لے لو۔چنانچہ وہ لے کر چلاگیا۔پروردگار میرا یہ عمل اگر تیرے لئے تھاتوہمارے لئے بقیہ راستہ کھول دے ۔ ﷲ نے راستہ کھول دیا۔( ۱ )

____________________

(۱)صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اجابةدعاء من بَرّوالدیہ ج۵ ص۴۰ط؛مصر۱۲۸۶ھ ق۔فتح الباری للعسقلانی ج۱۰ص۳۳۸شرح القسطلانی ج۹ص۵۔صحیح مسلم کتاب الرقاق باب قصةاصحاب الغار الثلاثةوالتوسّل بصالح الاعمال ج۸ص۸۹ط؛دارالفکر۔ وشرح النووی ج۱۰ص۳۲۱وذم الہوی لابن الجوزی ص۲۴۶

۳۱۹

۳۔کففت علیہ ضیعتہ

اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں کیونکہ''کف'' جمع کرنے اوراکٹھاکرنے کے معنی میں بھی ہے اور یہی لفظ منع کرنے اورروکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لہٰذاپہلے معنی کے لحاظ سے اس جملہ'' و کففت علیہ ضیعتہ''کے معنی یہ ہوں گے ''میں اس کے درہم برہم امور کو جمع کردوں گا اس کے سامان واسباب کانگہبان ،اسکے امور کا ذمہ دار اور اسکی معیشت کا ضامن ہوں''ابن اثیر اپنی کتاب ''النہایة''میں ''کف''کے معنی کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ احتمال ہے کہ یہ لفظ ''جمع کرنے ''کے معنی میں ہو جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:

(المؤمن أخ المؤمن یکفّ علیه ضیعته )( ۱ )

''ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے جو اسکے سرمایہ کو اسکے لئے اکٹھاکرکے رکھتا ہے ''

اسکے دوسرے معنی منع کرنا،روکنا اور دفع کرنا ہیں جیسے :

(کفّه عنه فکفّ، أی دفعه وصرفه ومنعه،فاندفع وانصرف،وامتنع )

اس نے اسکو روکا یعنی اسکا دفاع کیا منع کیا اور واپس پلٹایا تو وہ دفع ہوگیا ،پلٹ گیا اور رک گیا اس معنی کے لحاظ سے مذکورہ حدیث کے معنی یہ ہونگے :

''میں نے اسکی بربادی کو دفع کردیا اور اسکی بربادی اور اسکے درمیان حائل ہوگیا اور اسے ہدایت دیدی اور راستے کے تمام نشانات واضح و روشن کردئے''( ۲ )

علامہ مجلسی(رح)نے اس فقرہ کی تفسیر میں اپنی کتاب بحار الانوار میں تحریر کیا ہے :کہ اس جملہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں :۱۔وہ معنی جو ابن ثیر نے نہایہ میں ذکر کئے ہیں یعنی اسکے درہم

____________________

(۱)النہایة لا بن ا لاثیرج۴ص۹۰۔

(۲)اقرب المواردج۲ص۱۰۹۳۔

۳۲۰

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349