خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں11%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96739 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

كيلئے سزا معين كى اور انہيں قتل كرديا يہ ايك سياسى حكم تھا اس وقت اس كا جارى كرنا حكومت كيلئے ان كے اسلام لانے سے بہتر تھا_

شورشوں كا دباجانا

پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنى زندگى كے آخرى دنوں ميں اسامہ كے ہمراہ لشكر روانہ كرنے كى ہر ممكن كوشش كى مگر اس خدمت كو ابوبكر نے انجام نہ ديا اس لشكر كے روانہ كئے جانے كے بعد خليفہ وقت اور ان كے ہمنوا افراد نے كوشش كى كہ جتنى بھى شورشيں اس وقت ابھرى تھيں يكے بعد ديگر ے دبادى جائيں _

طليحہ' سجاح' مسيلمہ اور اياس بن عبداللہ ان لوگوں ميں سے تھے جنہوں نے يا كسى گوشے ميں پيغمبرى كا دعوا كيا يا سركشى كى ، قتل كرديئے گے يا انہوں نے فرار كى راہ اختيار كى _ جنوب اور مشرق ميں آبا د قبائل اور وہاں كے شہروں ميں آباد لوگ دوبارہ مدينہ كے مطيع و فرمانبردار ہوگئے كيونكہ انہوں نے اس بات كو سمجھ ليا تھا كہ خانہ جنگى سے كوئي فائدہ نہيں بلكہ مصلحت اس ميں ہے كہ مركزى حكومت كى اطاعت قبول كرليں _

حضرت فاطمہعليه‌السلام كى وفات

جس سال رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا انتقال ہوا اسى سال آپ كى اكلوتى بيٹى فاطمہ زہراعليه‌السلام نے بھى وفات پائي باپ كى موت اور مختصر مدت كے بعد جو سانحات پيش آئے انہوں نے فاطمہ زہراعليه‌السلام كے جسم و روح كو غمگين بناديا _

حضرت زہراعليه‌السلام كے دل ودماغ پر ان واقعات كا ايسا گہرا اثر ہوا كہ آپ كے فرمانے كے بموجب اگر يہ مصائب وآلام دنوں پر پڑتے تو رات كى تاريكى ميں تبديل ہوجاتے _(۲۵) ان

۶۱

صدمات كى تاب نہ لاكر صاحب فراش ہوگئيں ، وہ لوگ جو پيغمبرا كرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خاطر جان بكف رہا كرتے تھے اور ان كے پاس جو كچھ تھا وہ آپ كے والد محترمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے وجود كى بركت سے ہى تھا اب ايسے پھرے كہ ان ميں سے چند ہى آپ كى عيادت كو آئے_

جناب صدوق اس ضمن ميں فرماتے ہيں : مہاجر وانصار كى كچھ خواتين آپ كى عيادت كے لئے گئيں آپ نے اس وقت كو غنيمت جانا اور اس موقعے پر جو خطبہ ارشاد فرمايا اس كے بعض اہم اقتباسات يہاں كئے جاتے ہيں :

افسوس تمہارے مردوں نے خلافت كو رسالت كى پائيگاہ، نبوت كى اقامت گاہ اور منزل وحى سے الگ كرديا اور دنيا ودين كے ماہروں سے زمام خلافت چھين ليں يقينا اس ميں انكا سراسر نقصان ہے انہيں ابوالحسنعليه‌السلام سے كيا عداوت تھي_

جى ہاں : انہےں علىعليه‌السلام كى راہ خدا ميں برہنہ شمشير، دليرى اور شجاعت كا خوف تھا_

قسم خدا كى اگر خلافت كو علىعليه‌السلام كے ہاتھ سے نہ ليا ہوتا تو ان كے امور و مسائل كو حل كرنے ميں وہعليه‌السلام خود حصہ ليتے اور انتہائي رضا و رغبت سے شادمانى وكامرانى كى جانب انہيں ہدايت كرتے، تشنگان عدل وانصاف آپ كے چشمہ داد و عدالت سے سيراب ہوتے محروم ولاچار لوگ ان كى پناہ صولت ميں دلير و شير دل ہوجاتے _(۲۶)

بنت رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم جب تك علالت كے باعث صاحب فراش رہيں(۲۷) كسى شخص نے آپكے چہرے پر شادابى اور مسكراہٹ نہ ديكھى آپ ہفتے ميں دو مرتبہ (پير اور جمعرات) شہداء كے مزارات پر جاتيں اور ان كے لئے دعائے خير فرماتےں _(۲۸)

اور بالاخر ہجرت كے گيارہوےں سال ميں بتاريخ سوم جمادى الآخر اٹھارہ سال كى عمر ميں آپ نے اس جہان فانى سے كنارہ كرليا اور اپنے والد بزرگوار كے پاس پہنچ گئيں _(۲۹)

حضرت علىعليه‌السلام نے دختر رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو غسل ديا نيز آپ كى وصيت كے مطابق خواص كے علاوہ ديگر افراد كى غير موجودگى ميں نماز جنازہ ادا كى اور راتوں رات آپ كے جسد مطہر كو سپرد خاك كركے

۶۲

قبركے نشان كو محو كرديا اس كے بعد آنحضرتعليه‌السلام نے مزار پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى جانب رخ كيا اور فرمايا:

يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ميرى اور اپنى دختر كى جانب سے جواب آپ كے جوار ميں پہنچ گئي ہيں اور بہت جلد آپ سے جاملى ہيں سلام قبول فرمايئے اور يا رسول اللہصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم آپ كى برگزيدہ و پاك دختر كى جدائي كے باعث ميرا پيمانہ صبر لبريز ہوچكا ہے اور اب مجھ ميں غم برداشت كرنے كى تاب نہيں

آپ كے پيارى بيٹى جلد ہى آپ كو مطلع كرديں گى كہ آپ كى امت نے ان پر ستم رواركھنے كى غرض سے كيا كيا باہمى سازشيں نہ كيں ان پر جو كچھ گذرى انہى كى زبانى سنيئے اور يہ وقت كس طرح گذرا اس كى كيفيت انہى سے دريافت فرمايئے اگرچہ آپ كى رحلت و زمانہ حيات كے درميان كافى عرصہ نہيں گذرا ہے اور آپ كى ياد دلوں سے بھى محو نہيں ہوئي ہے_(۳۰)

-

۶۳

سوالات

۱ _ حضرت علىعليه‌السلام كے گھر ميں كن لوگوں نے پناہ لى اور كيوں ؟

۲ _ واقعہ سقيفہ كے بعد حضرت عليعليه‌السلام كا كيا موقف رہا ؟ اس حساس كيفيت كى وضاحت كيجئے ؟

۳ _ حضرت علىعليه‌السلام كے اقوال كى روشنى ميں كنارہ كشى كے اسباب بيان كيجئے ؟

۴ _ حضرت علىعليه‌السلام نے خليفہ وقت سے كس وقت مصالحت كى تھى ؟

۵ _ فدك كہاں واقع ہے يہ مسلمانوں كے ہاتھ كس طرح آيا اور رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اپنے زمانہ حيات مےں كسے بخشا ؟

۶ _ فدك پر قابض ہونے كے محركات بيان كيجئے ؟

۷ _ ابوبكر كى حكومت كے مقابل اہل '' ردہ '' كا كيا ردعمل رہا كيا وہ سب مرتد ہو گئے تھے ؟

۸ _ مرتدين كے ساتھ جنگ كرنے ميں ابوبكر كے پيش نظر كيا محركات تھے اس بارے ميں خليفہ ثانى كا بھى نظريہ پيش كيجئے ؟

۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى وفات كس سنہ ميں واقع ہوئي رحلت كے وقت آپ كى كيا عمر تھى آپ كى تكفين و تدفين كى رسومات كس طرح ادا كى گئيں ؟

۶۴

حوالہ جات

۱ _ جن حضرات كے نام ديئے گئے ہيں ان مےں زبير ' عباس بن ابى لہب ' سلمان ' ابوذر ' مقداد عمار، براء ' ابى بن كعب'سعد بن ابى وقاص اور طلحہ شامل ہيں ليكن الفصول المہمة ميں ان افراد كے علاوہ ديگر حضرات كے نام بھى درج ہيں _

۲ _ الامامة والسيلة ج۱ / ۲۰ _

۳ _ الامامة والسيلمة ج۱ / ۱۹_

۴ _ الشيعة والى كمون / ۱۸ _

۵ _لو وجدت اربعين ذويى عذم منهم لنا هضت القوم شرح ابن ابى الحديد ج۲ / ۴۷ و ۲۲

۶ _ نہج البلاغہ (صبحى صالح)خلبہ ''فنظرت فاذا ليس معين الا اهل بيتيى فضنت بهم عن الموت _

۷ _ اس جماعت نے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى وفات كے بعد اسلام كى مركزى حكومت كے خلاف بغاوت شروع كر دى اور ايك مدت اس كے حملے جارى رہے _

۸ _ نہج البلاغہ خطبہ ج'' شقوا امواج الفتن بسفن النجاة ، عرجوا عن طريق المناضرة وضعوا بتيجان المفاخرة اندمجت على مكنون علم لوبحت به لاضطربتم الاشية فى الطوى البيصره'' _

۹ _'' وما محمد الا رسول قد خلت من قبلہ الرسل افان مات او قتل انقلبتم على اعقابكم ومن ينقلب على عقبيہ فلن يضراللہ شيئا وسيجزى اللہ الشاكرين'' (محمد اس كے سوا كچھ نہيں كہ بس ايك رسول نہيں ان سے پہلے اور رسول بھى گذر چكے ہيں كيا اگر وہ مر جائيں يا قتل كر ديئے جائيں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤں گے ؟ ياد ركھو جو الٹا پھرے گا وہ اللہ كا كچھ نقصان نہ كرے گا البتہ جو اللہ كے شكر گزار بندے بن كر رہيں گے انھيں وہ اس كى جزادے گا)آل عمران آيہ ۱۴۴_

۱۰ _ نہج البلاغہ خط ۶۲ _

''فامسكت يديى حتى رايت راجعة الناس قد رجعت عن الاسلام يدعون الى محق دين محمد صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم فخشيت ان لم انصر الاسلام واهله ان ارى فيه ثلما اوهدما تكون المصيبة به على اعظم من فوت ولايتكم التى هيى متاع ايام قلائل يزول منها ماكان كما يزول السراب اوكما يتقشع السحاب '' _

۶۵

۱۱ _ تفصيل كے لئے ملاحظہ ہو اسد الغابہ ج۳ / ۲۲۲ ' تاريخ يعقوبى ۲ / ۱۲۶ ' استيعاب ج۲ / ۲۴۴ ' التنبيہ والا شراف / ۲۵۰ اور الامامة والسيامة ج۱ / ۲۰ _

۱۲ _ نہج البلاغہ خطبہ ۳، يہاں يہ بات قابل ذكر ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كى مصالحت اور اجتماعا ميں شركت اسى حد تك تھى كہ جتنى اسلام و مسلمين كى حفاظت كا تقاضا تھا _

۱۳ _فدك خيبر كے نزديك مدينہ سے ۱۴۰ كلوميٹر كے فاصلے پر سرسبز و زرخيز زمين تھى فتح خيبر كے بعد رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ايك وفد ''فدك'' كے سرداروں كے پاس بھيجا اور بحث و گفتگو كے بعد وہاں كے رہنے والوں نے يہ عہد كيا كہ ہر سال خيبر كى جتنى پيداوار ہوگى اس كا نصف حصہ وہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى خدمت ميں بھيج ديا كريں گے اور اس كے عوض حكومت كى جانب سے ان كى حفاظت كى جائے گي_اسلامى نظريے كے مطابق وہ زمين جو بغير جنگ كے مسلمانوں كو حاصل ہوتى ہے وہ خالص پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و امامعليه‌السلام كا حصہ ہے اس مسئلے كى رو سے ''فدك'' صرف رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا حق تھا چنانچہ رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے بھى شيعہ محدثين و مفسرين نيز بعض سنى مفكرين كے قول كے مطابق جس وقت آيت ذالقربى حقہ (سورہ اسراء آيت ۲۶) نازل ہوئي تو آپ نے اپنى دختر حضرت فاطمہعليه‌السلام كو بلايا اور ''فدك'' انہيں ديديا(كشف الغمہ ج ۱ / ۷۶ ۴) _

۱۴_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۳۱_

۱۵_ مروج الذہب ج ۳/ ۲۳۷_

۱۶_ فتوح البلدان ۴۴ شيعہ احاديث ميں مذكورہ بالا شواہد كے علاوہ اسماء بنت عميس كا نام بھى شاہد كى حيثيت سے آيا ہے_

۱۷_ احتجاج طبرى ج ۱/ ۱۲۲_

۱۸_ اعيان الشيعہ (دس جلدي) ج۱/۳۱۸ منقول از سيرہ حلبي_

۱۹_ كامل ابن اثير ج ۲ / ۳۲۶ شرح ابن ابى الحديد ج ۲/ ۴۵ _

۲۰_ تاريخ طبرى ج۳/۲۰۲_

۲۱_ زيد بن ثابت كچھ رقم لے كر بنى عدى كى ايك خاتون كے پاس پہنچے اور كہا كہ يہ وہ رقم ہے جو خليفہ نے عورتوں كے درميان تقسيم كى ہے اور يہ تمہارا حصہ ہے اس نيك خاتون نے اپنى ذہانت كے باعث اس رقم كو قبول

۶۶

كرنے سے انكار كيا اور كہا كيا ميرا دين خريدنے كے لئے مجھے يہ رشوت دى جارہى ہے _ (شرح ابن ابى الحديدج۲/۵۳، طبقات ابن سعد ج ۳/۱۸۲)_

۲۲_البدايہ والنہايہ ج ۶ /۳۱۱ قال عمر ھو الاّ ان را يت اللہ قد شرح صدر ابى بكرللقتال فعرفت انہ الحق ''ليكن صحيح بخارى ج ۷/ ۱۷۱ ميں عمر كا جملہ اس طرح نقل كيا ہے فواللہ ما ہو الا ان قد شرح اللہ صدر ابى بكر فعرفت انہ الحق ''_

۲۳_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۱_

۲۴_ تاريخ اسلام ج ۱/ ۳۵۲_

۲۵_ صبت على مصائب لوانہاصبت على الايام صرن لياليا

۲۶_احتجاج طبرسى ج ۱/ ۱۴۹ ، شرح ابن ابى الحديد ج /۱۶ / ۲۳۳، بلاغات النساء /۱۹ اور دلائل الامامہ طبري/ ۳۹_

۲۷_ حضرت فاطمہعليه‌السلام كتنے عرصے تك عليل رہيں اس كے بارے ميں اختلاف ہے ابن شہر آشوب نے مناقب ميں بيان كيا ہے كہ آپ چاليس دن تك مريض رہيں اور اسى مرضى كے باعث آپ كى وفات واقع ہوئي حضرت امام باقرعليه‌السلام سے مروى ہے كہ آپ پندرہ تك عليل رہيں اور اس كے بعد آپ كى رحلت ہوئي_(اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹)_

۲۸_ اعيان الشيعہ ج ۱/ ۳۱۹_

۲۹ _ حضرت فاطمہ زہراعليها‌السلام كى تاريخ وفات اور رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت كے بعد آپ كى مدت عمر كے بارے ميں اختلاف ہے كتاب كے متن مےں جو بات درج كى گئي ہے وہ اقوال مشہور كے مطابق ہے مورخين نے لكھا ہے كہ حضرت فاطمہ(س)رحلت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد كم از كم چاليس دن اور زيادہ سے زيادہ آٹھ ماہ اس جہان فانى ميں تشريف فرما رہيں مذكورہ بالا دونوں اقوال كے علاوہ مختلف روايات ميں دو ماہ سے پچھتر دن ' تين ماہ اور چھ ماہ عرصہ بھى نقل كيا گيا ہے _

۳۰ _ نہج البلاعہ (صبحى صالح)خ ۲۰۲ _

۶۷

چوتھا سبق

رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى رحلت سے خلافت ظاہرى تك ۳

سر زمين شام و عراق كى فتح

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

حضرت علىعليه‌السلام ، اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

جانشينى كا تعين

قلمر و اسلام كى وسعت

فتوحات كى خوشنجريوں كے اثرات

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى و علمى مشورے

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

بيت المال كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

خليفہ دوم كا قتل

كونسى شورى ؟

مذكورہ شورى كے بارے ميں عليعليه‌السلام كا رويہ

حضرت علىعليه‌السلام كى شركت اور اس كى وجہ

۶۸

عثمان كى خلافت

مسلمانوں كا بيت المال

حضرت علىعليه‌السلام كے پند و نصايح

خليفہ سوم كا قتل

حضرت علىعليه‌السلام كى نظر ميں عثمان كا قتل

پچيس سالہ حكومت خلفاء كے دوران علىعليه‌السلام كے كارنامے

سوالات

حوالہ جات

۶۹

سرزمين شام و عراق كى فتح

داخلى جنگوں كى آگ جب خاموش ہو گئي تو خليفہ وقت نے دو اہم لشكر تيار كيئے ان ميں سے ايك لشكر خالد كے زير فرمان عراق كى جانب روانہ كياجس پر اس وقت ساسانى حكومت كا اثر و غلبہ تھا اور دوسرا لشكر ابو عبيدہ كى سركردگى ميں شام كى سمت ' مشرقى روم كى جانب روانہ كيا _

خالد سب سے پہلے '' حيرہ '' كى طرف متوجہ ہوا ليكن وہاں كے حاكم نے صلح و امن كا طريقہ اختيار كيا اور نوے ہزار درہم ادا كر كے اپنے ملك كے تابع سرزمين كو مسلمين كى در ازدستى سے بچا ليا حيرہ كے بعد '' آبلہ '' '' عين التمر '' اور '' انبار '' جيسے شہر جنگ يا معاہدہ صلح كے ذريعے تابع و مطيع كئے گئے _

عراق كى جانب جب لشكر روانہ كيا گيا تھا تو وہ كاميابى سے ہمكنار ہوا مگر جو لشكر رومى شانہشاہيت كے متصرفات كو فتح كرنے كى غرض سے بھيجا گيا تھا اس كے بارے مےں احتمال تھا كہ كہيں شكست سے دو چار نہ ہو اس خدشے كے پيش نظر ابوبكر نے خالد كو عراق سے واپس بلا ليا اور مسلمانوں كى مدد كے لئے انھيں شام كى جانب جانے پر مقرر كيا خالد كے چلے جانے كے بعد قبيلہ بكر كے سردار مثنى نے لشكر عراق كے ماندارى كى ذمہ دارى قبول كى اور حيرہ سے بابل (يہ شہر موجودہ حلہ كے نزديك واقع تھا)كى جانب روانہ ہوئے خالد جب اپنا مختصر لشكر اسلام لے كر '' يرموك '' پہنچے تو لشكر اسلام كو اس سے بہت فرحت حاصل ہوئي اور بے مثال بہادرى و دليرى سے جنگ كر

۷۰

كے انہوں نے سپاہ روم كو شكست دى چنانچہ انھوں نے پسپا ہو كر دمشق ميں پناہ لى _

خليفہ وقت كى قرآن و سنت سے واقفيت

ابوبكر اگرچہ مسند خلافت پر متمكن ہو گئے ليكن مہاجر و انصار كى نظروں ميں ان كا شمار افضل و اعلى دانشور صحابہ رسول ميں نہيں ہوتا تھا مثلا تفسير قرآن مجيد كے وہ قابل اعتناء توجہ مطالب بيان نہےں كر سكتے تھے چنانچہ جلال الدين سيوطى جيسا تتبع مفسردس سے زيادہ تفسير و مطالب تفسير ان سے نقل نہےں كر سكا ہے جبكہ وہى مفسر حضرت علىعليه‌السلام كے بارے ميں لكھتا ہے كہ علم تفسير ميں آپ كى بہت سے روايات بيان كى گئي ہيں _(۵)

حنبلى مسلك كے پيشوا مام احمد بن حنبل كو دس لاكھ احاديث ياد تھيں ''(۶) مسند'' ميں انہوں نے پچاس ہزار سات سو احاديث نقل كى ہيں او جو احاديث انہوں نے ابوبكر كے واسطے سے نقل كى ہيں ان كى تعداد اسى (۸۰) سے كم ہى ہے(۷)

ابن كثير نے بہت زيادہ تلاش و جستجو كے بعد ابوبكر سے منقول بہتر (۷۲) احاديث جمع كى ہےں اور انھيں ''مجموعہ مسند صديق '' كا نام ديا ہے جلال الدين سيوطى كى علم تفسير و احاديث پر كافى دسترس تھى اس نے مجموعہ ابن كثير كا سند كے اعتبار سے جايزہ ليا ہے اور ان كى تعداد كو اس نے ايك سو چار تك پہنچا ديا ہے(۸)

حضرت علىعليه‌السلام ' اور ابوبكر كى علمى و سياسى مشكلات

اوپر جو بيان كيا گيا ہے اس كے پيش نظر ابوبكر كے لئے علمى ہى نہيں بلكہ سياسى مشكلات ميں بھى اس كے سوا چارہ نہ تھا كہ ضرورت كے وقت حضرت علىعليه‌السلام سے رجوع كريں اور آپ سے مدد چاہيں اور يہ بات اس امر كى واضح دليل ہے كہ حضرت علىعليه‌السلام كتاب خدا ،حديث رسولعليه‌السلام اور اسلام

۷۱

كے سياسى مصالح كے بارے ميں سب سے زيادہ باخبر ، ذى ہوش شخص تھے مثال كے طور پر ہم يہاں دو واقعے بيان كر رہے ہيں _

اہل روم سے جنگ كرنے كے بارے ميں رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا خود فرمان تھا اسے نافذ كرنے مےں ابوبكر كو تردد تھا اس سلسلے ميں انہوں نے بعض صحابہ رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مشورہ بھى كيا چنانچہ ہر شخص نے اس سے متعلق اپنى رائے كا اظہار كيا بالاخر انہوں نے حضرت علىعليه‌السلام سے مشورہ كيا اور رائے جاننا چاہى آپ نے پيغمبرخداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے حكم كو نافذ كئے جانے كى ترغيب دلائي اور مزيد فرمايا '' ان فعلت ظفرت '' يعنى اگر آپ يہ اقدام كريں گے تو كامياب ہوں گے خليفہ نے بھى آپ كے كہنے پر عمل كيا _(۹)

۲ _ ايك شخص نے شراب پى ركھى تھى نشہ كى حالت ميں اسے خليفہ كے روبرو لايا گيا اس شخص نے كہا مجھے علم نہ تھا كہ شراب پينا حرام قرار ديا گيا ہے كيونكہ اب تك ميں نے اس ماحول ميں پرورش پائي ہے جہاں شراب كو حلال سمجھا جاتا ہے خليفہ كى سمجھ ميں نہيں آيا كہ كيا كريں چنانچہ انہوں نے ايك شخص كو حضرت علىعليه‌السلام كى خدمت ميں روانہ كيا اور كہا كہ اس مشكل كو حل فرمائيں _(۱۰)

جانشينى كا تعين

عمر نے ابوبكر كو خليفہ بنانے كے لئے بہت زيادہ سعى وكوشش كى جس كا مقصد يہ تھا كہ خليفہ اول كے بعد خلافت ان كو ملے ، ابوبكر نے بھى ان كى مرضى كے خلاف كوئي اقدام نہ كيا_ جس وقت بستر علالت پر وہ تھے تو انہوں نے عثمان كو بلايا اور كہا لكھو:

يہ عہد نامہ ابوبكر جانشين رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كا مسلمانوں كے لئے ہے بات يہيں تك پہنچى كہ ابوبكر پر غشى طارى ہوگئي عثمان كو يہ گمان گذرا كہ شايد خليفہ گذر گئے ہيں چنانچہ انہوں نے اس عہدنامے كى اس طرح تكميل كي_ ابوبكر نے اپنے بعد عمر بن خطاب كو اپنا جانشين مقرر كيا ہے _ اسى اثناء ميں ابوبكر كو ہوش آگيا اور جب انہيں يہ معلوم ہوا كہ عثمان نے كيا لكھا ہے تو انہوں نے كہا ''تم نے

۷۲

ٹھيك لكھا ہے اس معاملے ميں ميرى اور تمہارى ايك ہى رائے ہے_ (۱۱)

حضرت علىعليه‌السلام نے نہج البلاغہ ميں ابوبكر كے اس اقدام پر سخت تنقيد كى ہے _ چنانچہ فرماتے ہيں ''عجيب بات ہے كہ وہ شخص جو زندگى ميں لوگوں سے كہا كرتا تھا كہ وہ ميرا عذر قبول كريں اور (علىعليه‌السلام كے ہوتے ہوئے) اس كو خلافت سے معذور ركھيں خود مرتے وقت خلافت (كى دلہن) كا پلا دوسرے سے باندھ گيا _(۱۲)

قلمرواسلام كى وسعت

عمر كے دور خلافت ميں مسلمانوں كو بہت سى فتوحات نصيب ہوئيں اور ايران و روم جيسى دو عظےم شہانشاہى حكومتوں كے دروازے ان پر كھل گئے_

عراق ميں مسلمانوں نے جس تيزى سے پيشرفت كى اس كے باعث انہيں يہ اميد نظر آنے لگى كہ ساسانى حكومت كے اصل سرزمين پر بھى وہ حملہ كرسكيں گے چنانچہ عمر نے ابوعبيدہ كو ايران كى فتح كے لئے فرماندار مقرر كيا اور مثنى چونكہ عراق ميں مقيم تھے انہيں حكم ديا كہ وہ اپنے لشكر كے ساتھ ابوعبيدہ كى اطاعت و پيروى كريں _

ايران كے بادشاہ ''يزدگرد سوم'' نے اپنے سرداروں كو كثير طاقت جمع كرنے كے بعد حكم ديا كہ وہ مسلمانوں كى پيشرفت كو روكيں اگرچہ اس كے سردار ہر چند لايق و جنگجو تھے مگر وہ سب ايك دوسرے كے بعد يا تو قتل ہوئے يا انہوں نے لشكر اسلام سے صلح كرلي_ ايرانى سرداروں ميں بہمن جادويہ ہى ايسا سردار تھا جو مطيع و فرمانبردار نہ ہوا چونكہ اس كى فوج ہاتھيوں كے لشكر سے آراستہ تھى جنہيں ديكھ كر عربوں كے گھوڑے بھڑك گئے چنانچہ ''جسر'' ميں ابوعبيدہ شہيد ہوئے اورباقى لشكر نے پسپا ہوكر فرات كے پار جاكر پناہ لي_

ليكن ايك سال بعد(۱۴ ھ) ميں سپاہ اسلام نے مثنى كے زير فرمان ''بويب(۱۲) '' ميں سپاہ ايران پر فتح پائي اور اس سے جنگ جسر كى شكست كى تلافى ہوگئي_

۷۳

اس كے بعد قادسيہ وقوع پذير ہوئي اس سے قبل كہ جنگ شروع ہو ايرانى اور اسلامى افواج كے سپہ سالاروں (سعد وقاص اور رستم فرح زاد) كے درميان ايلچيوں كے ذريعے گفت وشنيد ہوتى رہى _ ايلچيوں كى اس ملاقات ميں سپاہ اسلام كے سپہ سلار نے بھى مطالبہ كيا كہ دو چيزوں ميں سے ايك چيز قبول كى جائے، اسلام يا جزيے كى ادائيگى _ ليكن رستم فرح زاد جو بڑا خود سر سردار تھا يہى كہتا رہا كہ جس وقت تك ہم تمہيں قتل نہ كرديں گے دم نہ ليں گے_

بالآخر چار دن كى جنگ كى بعد مسلمان فتح و كامرانى سے ہمكنار ہوئے اور اس طرح محرم سنہ ۱۴ ھ ميں ايران كے دروازے لشكر اسلام پر كھل گئے اور نور ايمان وتوحيد نے اس سرزمين كو اپنى آمد سے منور كيا_

دوسرى طرف شہنشاہ روم كى فوج نے يرموك ميں اپنى شكست كے بعد دمشق ميں پناہ لى اور اپنى اس شكست كے تلافى كرنے كى غرض سے اس نے عظےم فوجى طاقت جمع كى ليكن يہ لشكر بھى شكست سے دوچار ہوا اور مسلمانوں نے دمشق و اردن جيسے شہروں پر فتح پائي_ سنہ ۱۷ ميں مسلمانوں نے فلسطين كو بھى جو فوجى اور تاريخى لحاظ سے اہم شہر تھا ، تسخير كيا_ ۱۹ ھ ميں عمر وعاص نے بحر احمر كو عبور كركے مصر كى جانب رخ كيا_''بابليوں '' ميں باز نطينى سپاہ سے مقابلہ ہوا اس ميں بھى لشكر اسلام كو كاميابى نصيب ہوئي _ وہاں سے وہ عين الشمس اور روم كى جانب روانہ ہوا تاكہ شہنشاہ روم كى رضايت حاصل كركے اسكندريہ پہنچ جائے _ چنانچہ چند ماہ كے محاصرے كے بعد اسكندريہ كو بھى فتح كرليا اور اس طرح شمالى افريقہ كے لئے راستہ ہموار ہوگيا_

فتوحات كى خوشخبريوں كے اثرات

مغايرت و مخالفت سے قطع نظر جو محركات خلفاء كے زمانے ميں ان فتوحات كے ذريعے مسلمانوں كو ہوئے اگر ان كا موازنہ ان جنگوں اور فتوحات سے كياجائے جو رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے زمانے ميں ظہور پذير ہوئيں تو اس نكتے كو ملحوظ خاطر ركھنا ضرورى ہے ، ان فتوحات سے يہ ثابت نہيں ہوتا

۷۴

كہ ان كے باعث دربار خلافت كى شان وشوكت ميں اضافہ ہوا ، اس ميں شك نہيں كہ ايك طاقتور و فاتح فوج كو اعلى مقاصد ، حوصلہ مندانہ آمادگى ، فن حرب وضرب سے واقفيت اور فوجى تربيت جيسے عوامل و اوصاف كا مجموعہ ہوناچاہئے مگر اس كا چندان ربط و تعلق موجودہ سپہ سالاروں سے نہيں تھا _ مسلمانوں كى فتح وكامرانى ميں جو عوامل كار فرما تھے اور انہيں دو عظيم شہنشاہى حكومتوں سے قوت آزما ہونے كيلئے ترغيب دلاتے تھے، وہ پيغمبرا كرم صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى يہ خوش خبرى تھى كہ مسلمان ايران اور وم جيسى سرزمينوں كو فتح كريں گے ان كے علاوہ بھى ديگر ايسے عوامل تھے جن سے مسلمانوں كى ميدان جنگ ميں حوصلہ افزائي ہوتى تھى مگر انكا تعلق كسى طرح بھى حكومت وقت سے نہ تھا بلكہ ان ميں وہ شہرت ونيك نامى كے عناصر كار فرماتھے جو رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شير خدا علىعليه‌السلام جيسے پيشوايان اسلام نے اپنے كردار كے ذريعے قائم كئے تھے_

حضرت علىعليه‌السلام كے ساتھ خليفہ ثانى كے سياسى وعلمى مشورے

حضرت علىعليه‌السلام خليفہ اول كى طرح خليفہ دوم كے بھى اہم مشكل كشا تھے اور ان كى بھى سياسى و علمى مشكلات كو حل فرماتے تھے يہاں ہم بطور مثال دو واقعات پيش كررہے ہيں _

جنگ قادسيہ ميں سپاہ ايران كى شكست كے بعد ايران كے بادشاہ يزدجرد نے فيروزان كے كمانڈرى ميں عظيم لشكر مرتب كيا تاكہ وہ آيندہ عربوں كے حملات كا سد باب كرسكے ، كوفہ كے حاكم نے خط كے ذريعے تمام واقعات كى اطلاع خليفہ كو دى ، عمر مسجد ميں آئے اور اصحاب سے مشورہ كيا كہ وہ مدينہ ميں ہى رہيں يا اس علاقے ميں پہنچ كر جو بصرہ وكوفہ كے درميان واقع ہے ، سپاہ اسلام كى كمان سنبھاليں _ عثمان اور طلحہ نے دوسرے نظريے كى تائيد كى اور اس ضمن ميں مزيد كہا كہ آپ سرداران سپاہ شام ويمن كو لكھيں كہ وہ آپ سے ملحق ہوں _ ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے دونوں ہى نظريات كى مخالفت كى اور فرمايا كہ وہ شہر جو حال ہى ميں مسلمانوں كے تصرف ميں آئے ہيں انہيں فوج سے خالى نہيں رہنا چاہيئےيونكہ ايسى صورت ميں ممكن ہے كہ حبشہ كى فوج يمن پر اور روم كا لشكر

۷۵

شام پر قبضہ كرلے _ عمر كى پہلى تجويز كے بارے ميں بھى آپ نے مشورہ ديا اور فرمايا كہ اگر آپ مدينہ سے باہر چلے جائيں گے تو ممكن ہے كہ اطراف كے اعراب اس موقع كا فائدہ اٹھائيں اور يہاں كوئي فتنہ بپا كريں اس كے علاوہ اگر آپ محاذ جنگ پر پہنچيں گے تو دشمن جرى ہوجائے گا كيونكہ جب عجمى سپاہى آپ كو ديكھيں گے تو كہيں گے كہ عربوں كى جڑ بنياد يہى شخص ہے گر اس كو كاٹ ڈاليں تو سارا جھگڑا ہى پاك ہوجائے گا_

حضرت علىعليه‌السلام كى بات سننے كے بعد عمر نے روانگى كے خيال كو ترك كرديا اور كہا كہ قابل عمل رائے علىعليه‌السلام كى ہے مجھے انہى كى پيروى كرنى چاہيئے_(۱۳)

ايك شخص خليفہ كے پاس آيا اور شكايت كى كہ ميرى بيوى كے يہاں شادى كے چھ ماہ بعد ولادت ہوئي ہے عورت نے بھى اس بات كو قبول كيا اس پر خليفہ نے حكم ديا كہ اسے سنگسار كياجائے ليكن حضرت علىعليه‌السلام نے حد جارى كرنے سے منع كيا اور فرمايا كہ قرآن كى روسے عورت چھ ماہ پورے ہوجانے پر وضع حمل كرسكتى ہے كيونكہ مدت حمل اور شيرخوار تيس ماہ معين ہے_(۱۴)

اور دوسرى آيت ميں دودھ پلانے كى مدت دوسال بتائي گئي ہے _(۱۵) اور اگر تيس ماہ ميں سے دو سال كم كرديئے جائيں تو مدت حمل چھ ماہ رہ جاتى ہے _ حضرت علىعليه‌السلام كى منطقانہ گفتگو سننے كے بعد عمر نے كہا''لو لا على عليه‌السلام لهلك عمر'' _''اگر علىعليه‌السلام نہ ہوتے تو عمر ہلاك ہوجاتا''_(۱۶)

بنى ہاشم كى گوشہ نشيني

ابوبكر و عمر كے زمانہ خلافت ميں بنى ہاشم اور حضرت علىعليه‌السلام كے ہوا خواہوں كو عملى طور پر حكومت كے اہم عہدوں سے دور ركھا گيا اور يہ كوشش كى گئي كہ اس زمانے كہ دل ودماغ سے اہل بيتعليه‌السلام كى اعلى اقتدار كو محو كردياجائے_

اس كے مقابل اموى گروہ بتدريج معاشرے كى رہبرى ميں اثر رسوخ پيدا كرتا رہا _ اس

۷۶

نظريے كے بہت سے تاريخى شواہد موجود ہيں جن ميں سے چند كا ذكر ذيل ميں كياجاتا ہے_

۱_ ابوبكر نے اس زمانے كى وسيع وعريض مملكت ميں سے چھوٹا سا حصہ بھى بنى ہاشم ميں سے كسى كو نہيں ديا كہ جبكہ شام كو سياسى اہميت حاصل ہونے كے باوجود ابوسفيان كے بيٹے يزيد كے اختيار ميں ديديا تھا _(۱۷)

۲_ عمر ''حميص'' كى حكومت حضرت ابن عباس كو دينے سے منصرف ہوگئے جبكہ معاويہ كو شام پر مسلط كرنے كے سلسلہ ميں كسى قسم كا دريغ نہيں كيا _

۳_ محض چند لوگوں كى اس شكايت پر كہ عمار ياسر ايك ضعيف انسان ہيں خليفہ دوم نے كوفہ كى گورنرى سے انہيں معزول كيا اور مغيرہ كو گورنر مقرر كيا چند روز بعد مغيرہ كى بھى شكايت پہنچى ليكن اس كا ذرہ برابر اثر نہ ہوا_(۱۸)

خليفہ اول و دوم اگرچہ ابوسفيان سے بہت زيادہ خوش نہ تھے اور اسى وجہ سے انہوں نے اموى خاندان كے افراد كو حد سے زيادہ سياسى امور ميں داخل ہونے نہيں ديا مگر اس كا ميدان انہوں نے عثمان كے زمانہ خلافت ميں ہموار كرديا تھا _ مثلاً عمر جانتے تھے كہ شورى جس كى انہوں نے تشكيل كى ہے اس كانتيجہ يہ برآمد ہوگا كہ عثمان كو خليفہ منتخب كرلياجائے گا چنانچہ اس نے خود بھى يہ بات كہہ دى تھى كہ اگر عثمان حاكم ہوئے تو وہ بنى اميہ كو لوگوں پر مسلط كرديں گے_(۱۹)

احاديث نبوى كى حفاظت و كتابت پر پابندي

جيسا كہ پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى تاريخ حيات ميں بيان كياجاچكا ہے كہ آپ نے اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں چاہا تھا كہ امت كے لئے ايك نوشتہ لكھ ديں تاكہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے بعد وہ گمراہ نہ ہو مگر عمر نے منع كيا اور كہا كہ ہمارى لئے قرآن كافى ہے_

اس خيال كى پيروى كرتے ہوئے انہوں نے اپنے زمانہ خلافت ميں حكم ديا كہ احاديث پيغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كو قلم بند نہ كياجائے اور اگر انہيں كوئي حديث لكھى ہوئي مل جاتى تو اسے ضبط كركے جلوا ديتے_

۷۷

انہوں نے تمام شہروں ميں يہ منادى كرادى كہ اگر كسى كے پاس كوئي حديث ہے تو وہ اسے نيست ونابود كردے _(۲۰) چنانچہ قاسم بن محمد بن ابى بكر سے منقول ہے كہ عمر كے زمانے ميں احاديث بہت زيادہ جمع ہوگئيں جب ان كے پاس لائي گئيں تو حكم ديا كہ انہيں جلاديا جائے_(۲۱)

ابوبكر نے بھى اپنے زمانہ خلافت ميں پانچ سو احاديث جمع كيں _ عائشہ فرماتى ہيں : مجھ سے كہا كہ احاديث ميرے پاس لاؤ جب انہيں لايا گيا تو ان سب ميں آگ لگادى گئي _(۲۲) چنانچہ يہ روش عمر بن عبدالعزيز كے دور خلافت تك جار رہى _

اس رويے كو اختيار كرنے كى وجہ وہ يہ بتاتے تھے كہ اگر عوام كى توجہ احاديث كى جانب رہے تو وہ قرآن سے دور ہوجائيں گے درحاليكہ قرآن كا يہ ارشاد ہے كہ ''پيغمبر جو كچھ تمہارے لئے لائے ہيں ، اسے قبول كرلو اور جس چيز سے منع كيا ہے اس سے باز رہو ''_(۲۳) رسول اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كى اطاعت كا امكان پيدا ہونے كے لئے ضرورى ہے كہ وہ احاديث جن ميں بالخصوص اوامر و نواہى كے بارے ميں آپ نے فرمايا محفوظ رہنى چاہئے ورنہ كس طرح رسول كى اطاعت ہوسكے گى ؟

بيت المالك كى تقسيم ميں خليفہ كا رويہ

رسول خداصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے عہد ميں سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ مقرر نہ تھى بلكہ اخراجات زندگى مال غنيمت كے ذريعے مہيا كئے جاتے تھے _ اس كى تقسيم ميں لوگوں كے سابقہ زندگي' عربوں كى نسلى فضيلت يا پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم كے ساتھ قرابت دارى كو ملحوظ نہيں ركھا جاتا تھا_

خليفہ اول كے زمانے ميں بھى يہى طريقہ رائج رہا ليكن خليفہ دوم كے زمانے ميں اس طريقہ كار كو بدل ديا گيا انہوں نے سپاہيوں اور حكومت كے كاركنوں كى تنخواہ كے لئے عليحدہ رجسٹر بنايا اور اس كى تقسيم كے لئے نسل ونسبت كو معيار قرار ديا ان كے درميان عرب كو عجم پر ، قحطان كے عرب كو عدنان كے عرب پر ، مضر كو ربعيہ پر ، قريش كو غير قريش پر اور بنى ہاشم كو بنى اميہ پر برترى و

۷۸

فضيلت تھى اور انہيں بيشتر مراعات حاصل تھيں _(۲۴)

كچھ عرصہ گذرا تھا كہ ذخيرہ اندوزوں اور دنيا پرستوں نے اس طريقہ كار كى بدولت جس طرح بھى ممكن ہوسكتا تھا مال جمع كرنا شروع كرديا وہ غلاموں اور كنيزوں كو خريد ليتے اور انہيں مختلف كاموں پر زبردستى لگاديتے تاكہ ان كے لئے زندگى كى سہولتيں فراہم كرنے كے علاوہ ہر روز نقدرقم بھى اپنے آقائوں كو لاكر ديں _

خليفہ دوم كا قتل

فيرو زايرانى ابولو لو مغيرہ كا غلام تھا_ اپنى زندگى كے اخراجات پوركرنے كے علاوہ وہ مجبور تھا كہ ہر روز دو درہم مغيرہ كو ادا كرے اس نے ايك روز خليفہ كو بازار ميں ديكھا اس نے فرياد كى كہ اس كے آقانے اس سے ہرروز دو درہم وصول كرنے كا جو بار اس پر ڈالا ہے وہ اس كےلئے ناقابل برداشت ہے _ ليكن خليفہ نے بڑى بے اعتنائي سے جواب ديا كہ تجھ جيسے ہنرمند اور ماہر فن شخص كے لئے اتنى مقرر كردہ رقم كوئي زيادہ نہيں ميں نے تو يہ سنا ہے كہ تو ايسى چكى بناسكتا ہے جو ہوا كے رخ پر گردش كرتى ہے_ كيا ايسى چكى تو ميرے لئے بھى بناسكتا ہے ؟ فيروز كو چونكہ خليفہ كى بے اعتنائي سے بہت تكليف پہنچى تھى اس نے كہا كہ ميں آپ كيلئے ايسى چكى بنائوں گا جس كى مشرق و مغرب ميں كہيں مثال نہ ملے گى اور بالآخر ماہ ذى الحجہ ۲۳ ھ ميں اس نے خليفہ كو قتل كرديا_

كونسى شوري؟

عمر نے جب موت كے آثار ديكھے تو انہوں نے چھ ايسے افراد كو جن سے اس كے بقول پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اپنى زندگى كے آخرى لمحات ميں بہت خوش تھے ، بلوايا وہ يہ چھ افراد تھے:

حضرت علىعليه‌السلام _ عثمان _ طلحہ اور زبير _ عبدالرحمن بن عوف اور سعد وقاص_

۷۹

عمر نے ہر ايك كى معنوى خصوصيت بيان كرنے كے بعد كہا كہ : اگر ميرے بعد خليفہ مقرر كرنے كے سلسلے ميں تم نے اتفاق رائے سے كام ليا تو تمہيں نيز تمہارے فرزندان كو درخت خلافت كے ميوے سے فےض پہنچے گا ورنہ خلافت كى گيند كو معاويہ اچك ليگا _ اس كے بعد انہوں نے اباطلحہ كو كچھ ضرورى نصيحتيں كيں اور مزيد فرمايا اگر پانچ افراد نے اتفاق رائے كيا اور ايك نے مخالفت يا چار افراد ايك طرف ہوگئے اور دو شخص دوسرى جانب ، تو ايسى صورت ميں جو اقليت ميں ہوں ان كى گردن اڑا دينا اگر دونوں فريق برابر ہوئے تو حق اس طرف جائے گا جس طرف عبدالرحمن ہوں گے اگر تين دن گذر جائيں او ركسى بھى مرحلے پر اتفاق رائے نہ ہو تو سب كو قتل كردينا اور مسلمانوں كو ان كے حال پر چھوڑنا كہ اس كے بعد وہ جسے بھى چاہيں خليفہ مقرر كريں _(۲۵)

حضرت عمر كے انتقال كے بعد اس شورى ميں طلحہ نے اپنا حق حضرت عثمان كو دے ديا اور زبير حضرت علىعليه‌السلام كے حق ميں دستبردار اور سعد بن ابى وقاص نے اپنا ووٹ عبدالرحمن بن عوف كو دےديا ، يوں خلافت كے ليئے صرف تين اميدوار يعنى حضرت عثمان، حضرت علىعليه‌السلام اور عبدالرحمن باقى بچ گئے پھر عبدالرحمن بن عوف نے حضرت علىعليه‌السلام كى جانب رخ كيا اور كہا كہ ميں اس شرط پر آپ كى بيعت كرتاہوں كہ آپ كتاب خدا ، سنت رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور شيخين كى روش پر عمل كريں گے اس پر حضرت علىعليه‌السلام نے فرمايا كہ ميں كتاب خدا اور سنت پيغمبر اكرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور اپنے اجتہاد كى بنياد پر عمل كروں گا_ عبدالرحمن نے يہى بات عثمان كى جانب رخ كركے كہى عثمان نے ان كى اس شرط كو فوراً قبول كرليا ،ا س كے بعد انہوں نے عثمان كے ہاتھ پر ہاتھ ركھديا اور انہےں ''اميرالمؤمنين'' ہونے كى حيثيت سے سلام كيا _(۲۶)

مذكورہ شورى كے بارے ميں حضرت علىعليه‌السلام كى نظر

جس وقت شورى كے اراكين كا تعين ہوا تو حضرت علىعليه‌السلام نے ابتدا ہى ميں اس كے فيصلے سے باخبر كرديا تھا اور عباس سے كہا تھا ''عدلت عنا'' يعنى ہمارے خاندان سے خلافت كا رخ موڑ ديا گيا ہے انہوں نے دريافت كيا كہ آپ نے كيسے جانا تو آپ نے فرمايا كيونكہ عثمان كو ميرے

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

برہم معاملات معیشت کو سمیٹ دو نگااور اسمیں ''علیٰ''کے ذریعہ جو تعدیہ ہے اسکی بنا پر،برکت اور شفقت و غیرہ کے معنی میں ہے یا''علیٰ ''الیٰ کے معنی میں ہے جسکی طرف نہایہ میں اشارہ موجود ہے البتہ اس صورت میں برکت وغیرہ کے معنی مراد نہ ہونگے''

۲۔''کف''منع کرنے اور ''علیٰ ''،''فی'' کے معنی میں ہو اور'' ضیعہ''ضائع اوربربادہونے کے معنی ہو یعنی اس نے اسکی جان،مال ،محنت او ر اسکی تمام متعلقہ چیزوں کو ضائع ہونے سے بچالیا اسکی تائید اس فقرہ ''وکففت عنہ ضیعتہ''سے بھی ہوتی ہے جو شیخ صدوق(رح)کی روایت کے ذیل میں آئندہ ذکر ہوگا۔

ہمیں یہ دوسرے معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں جو حدیث کے سیاق کے مطابق اور اس سے مشابہ بھی ہیں خاص طور سے جب ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیخ صدوق (رح) نے بعینہ اسی روایت میں ''وکففت عنہ ضیعتہ''نقل کیا ہے جس میں علیٰ کی جگہ عن سے تعدیہ آیا ہے اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ کف دفع یا منع کرنے اور پلٹانے کے معنی میں ہے جو کہ رفع کے معنی سے مختلف ہیں کیونکہ دفع کے معنی ،کسی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اسے روک دینا ہیں اور رفع کے معنی کسی چیز کے وجودمیں آجانے کے بعد اسے زائل کردینا یا ختم کردینا ہیں یا دوسرے الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ رفع علاج کی طرح ہوتا ہے اور دفع بیماری آنے سے پہلے اسے روک دینے کی طرح ہے ۔

اور کف ،دفع کے معنی میں ہے نہ کہ رفع کے معنی میں جسکے مطابق اسکے معنی یہ ہونگے خداوند عالم نے اسکو ضائع نہیں ہونے دیا ،یاوہ اسکی بربادی کے لئے راضی نہ ہوا اور یہ بھی ایک قسم کی ہدایت ہے کیونکہ ہدایت کی دو قسمیںہیں :

۱۔گمراہی کے بعد ہدایت

۲۔گمراہی سے پہلے ہدایت

ان دونو ںکو ہی ہدایت کہا جاتا ہے لیکن پہلی والی ہدایت اس وقت ہوتی ہے جب انسان گمراہی اور تباہی میں مبتلا ہوچکا ہو لیکن دوسری قسم کی ہدایت اسکی گمراہی اور بربادی سے پہلے ہی پوری ہوجاتی ہے اور یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ بہتر ہے ۔

حدیث میں (کف ضیعتہ)بربادی سے حفاظت کا تذکرہ ہے نہ کہ ہدایت کا اور بربادی سے حفاظت ،

ہدایت کا نتیجہ ہے اس لئے یہ منزل مقصود تک پہونچانے کے معنی میں ہے نہ کہ راستہ دکھانے اور یاد دہانی کے معنی میں ۔

۳۲۱

ہدایت کے معنی

لفظ ہدایت دو معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ہدایت کے ایک معنی منزل مقصود تک پہونچانا ہیں اور دوسرے معنی راستہ بتا نا ،راہنمائی کرناہیں جیسا کہ خداوند عالم کے اس قول :

( انک لاتهدی من أحببت ولکن ﷲ یهدی من یشائ ) ( ۱ )

''پیغمبر بیشک آپ جسے چا ہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیدیتا ہے ''

میں یہ لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔طے شدہ بات ہے کہ یہاں جس ہدایت کی نفی کی جارہی ہے وہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ہے کہ یہ چیز صرف پروردگار عالم سے مخصوص ہے ورنہ راستہ دکھانا رہنمائی کرنا تو پیغمبر اسلام کا فریضہ اورآپ کی اہم ترین ذمہ داری ہے اس معنی میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ہدایت کا انکار کرکے اسے صرف پروردگا ر سے مخصوص کردینا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم پیغمبر کے بارے میں فرماتا ہے :

( وانک لتهدی الی صراطٍ مستقیم ) ( ۲ )

''اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کررہے ہیں ''

اسی معنی میں قرآن کریم میں مومن آل فرعون کا یہ جملہ ہے :

____________________

(۱)سورئہ قصص آیت ۵۶۔

(۲)سورئہ شوریٰ آیت۵۲۔

۳۲۲

( یا قوم اتّبعون أهدکم سبیل الرشاد ) ( ۱ )

''اے قوم والو :میرا اتباع کرو،میں تمھیں ہدایت کا راستہ دکھا دوں گا ''

یہاں پر بھی ہدایت ،راہنمائی اور راستہ دکھانے کے معنی میں ہے نہ کہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ۔۔۔اس حدیث شریف میں بھی ہدایت کے پہلے معنی (منزل تک پہنچانا) ہی زیادہ مناسب ہیںاس لئے کہ دوسرے معنی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان ضائع نہ ہو بلکہ ایصا ل الی المطلوب ہی انسان کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور انسان کو قطعی طور پر اللہ تک پہنچانے کا ضامن ہے

سیاق وسباق سے بھی یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں اس لئے کہ یہ گفتگو ان لوگوں پرخصوصی فضل الٰہی کی ہے کہ جو اپنے خواہشات پر ﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہیں لہٰذا فضل وعنایت کاخصوصی تقاضا یہ ہے کہ انھیں منزل مقصود تک پہنچا یا جائے ورنہ رہنمائی اور راستہ دکھا ناتو خدا کی عام عنایت ورحمت ہے جوصرف مومنین سے یا ان لوگوں سے مخصوص نہیں ہے کہ جوﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہوں بلکہ یہ عنایت تو ان لوگوں کے شامل حال بھی ہے کہ جو اپنی خواہشات کو ﷲ کی مرضی پر مقدم کرتے ہیں ۔

ﷲ بندہ کو بربادی اورضائع ہونے سے کیسے بچاتا ہے ؟

درحقیقت یہ کام بصیرت کے ذریعہ ہوتا ہے ۔بصیر ت کے اعلیٰ درجات پر فائز انسان قطعی طور پر ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے ۔

لہٰذا جب خداوندعالم کسی بندہ کیلئے خیر کا ارادہ کرتا ہے اور اسے بربادی سے بچانا چا ہتا ہے تو اسے بصیرت مرحمت کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نجات پاجاتا ہے اور خدا تک اس کی رسائی قطعی ہوجاتی ہے یہ بصیرت اس منطقی دلیل وبرہان سے الگ ہے کہ جس کے ذریعہ بھی انسان خدا تک پہنچتا

____________________

(۱)سورئہ غافرآیت ۳۸۔

۳۲۳

ہے اور اسلام اس کا بھی منکر نہیں ہے بلکہ اسے اپنا نے اوراختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے وہ اسے ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اتارنا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد عقل و منطق کے سہارے ہی خدا تک پہنچتی ہے ۔

بصیرت کا مطلب حق کا مکمل طریقہ سے واضح دکھائی دینا ہے ۔ایسی رویت منطقی استدلال کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور صفائے نفس اور پاکیزگی ٔ قلب کے ذریعہ بھی حاصل ہو سکتی ہے یعنی انسان کسی ایک راستہ سے اس بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے یا عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعہ یا پاکیزگی ٔ نفس کے راستہ ۔

اسلام ان میں سے کسی ایک کو کافی قرار نہیں دیتا بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے انسان کے اوپر دونوں کو اختیار کرنا ضروری ہے ۔یعنی عقلی روش کو اپنانا بھی ضروری ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانا بھی ۔اس آیۂ شریفہ میں قرآن مجید نے دونوں باتوں کی طرف ایک ساتھ اشارہ کیا ہے:

( هوالذی بعث فی الامیّین رسولاً منهم یتلوا علیهم آیاته ویزکّیهم و یعلّمهم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبلُ لفی ضلالٍ مبینٍ ) ( ۱ )

'' اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے''

تزکیہ کا مطلب صفائے قلب اور پاکیزگیٔ نفس ہے جس سے معرفت الہی کے بے شمار دروازے کھلتے ہیں ۔

معرفت کا دوسرا باب (تعلیم )ہے بہر حال بصیر ت چاہے عقل ومنطق کا ثمرہ ہویا تزکیہ وتہذیب نفس کا یہ طے ہے کہ حیات انسانی میں بصیرت کا سر چشمہ پروردگار عالم ہی ہے اسکے علاوہ کسی اور جگہ سے بصیرت کا حصول ممکن نہیں ہے اور اس تک رسائی کا دروازہ عقل وتزکیۂ نفس ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ جمعہ آیت۲۔

۳۲۴

بصیرت اور عمل

ایک بار پھر اس بات کی وضاحت کردیں کہ اسلام بصیرت کیلئے ''علم ''اور تزکیہ یا''عقل اور صفائے قلب ''دونوں کو تسلیم کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ان میں سے ایک ،دوسرے سے بے نیاز نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی طے ہے کہ حصول بصیرت کیلئے تزکیہ زیادہ اہم اور موثر ہے اسی لئے قرآنِ کریم نے آیہ ٔ بعثت میں تزکیہ کو علم پر مقدم رکھا ہے :

( یزکّیهم ویعلّمهم الکتاب والحکمة ) ( ۱ )

''ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے''

مناسب ہوگا کہ چند لمحے ٹھہرکر ہم خود (تزکیہ )کے بارے میں بھی غور کریں اور دیکھیں کہ تزکیۂ نفس کیسے ہوتا ہے ؟

رہبا نیت کے قائل مذاہب میں تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی جائے اور حیات دنیوی سے فرار اختیار کیا جائے اس طرح تزکیہ کا خواہشمند انسان جب اپنی ہویٰ وہوس اور خواہشات نفسانی اور فتنوں سے پرہیز کرے گا تو اسکا نفس پاکیزہ ہوجا ئے گا لیکن اسلامی طریقہ ٔ تربیت میں صور تحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔اسلام تزکیہ کے خواہشمندکسی بھی مسلمان کو ہر گزیہ نصیحت نہیں کرتا کہ فتنوں سے فرار کرے خواہشات اور ہویٰ وہوس کو کچل دے بلکہ اسلام فرار کے بجائے فتنوں سے مقابلہ اور خواہشات کو کچل کر ختم کر نے کے بجائے انھیں حدا عتدال میں رکھنے کی دعوت دیتاہے ۔

اسلام کا طریقۂ تربیت ،عمل کو تزکیہ کی بنیاد قرار دیتا ہے نہ کہ گوشہ نشینی ،رہبا نیت اور محرومی کو ۔اور یہی عمل بصیرت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس طرح بصیرت عمل میں ظاہر ہوتی ہے لہٰذا

____________________

(۱)سورئہ جمعہ آیت۲

۳۲۵

دیکھنا یہ ہوگا کہ عمل کیا ہے ؟بصیرت کسے کہتے ہیں ؟اور ان دونوں میں کیا رابطہ ہے ؟

بصیرت اور عمل کا رابطہ

بصیرت کے بارے میں اجمالی طور پرگفتگو ہوچکی ہے ۔۔یہاں عمل سے مراد ہروہ سعی و کو شش ہے جس کو انسان رضائے الہی کی خاطر انجام دیتا ہے اس کے دورخ ہوتے ہیں ایک مثبت ،یعنی اوا مرخدا کی اطاعت اور دوسرا سلبی یعنی اپنے نفس کو حرام کا موں سے محفوظ رکھنا ۔ اس طرح عمل سے مرادیہ ہے کہ خوشنودی پر وردگار کی خاطر کوئی کام کرے چاہے کسی کام کو بجا لا یا جائے اور چا ہے کسی کام سے پر ہیز کیا جائے ۔بصیرت اور عمل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہے ۔ بصیرت عمل کا سبب ہوتی ہے اور عمل ،بصیرت کا ۔۔۔اور دونوں کے آپسی اور طرفینی رابطے سے خود بخود بصیرت اور عمل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے عمل صالح سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور بصیرت میں زیادتی عمل صالح میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اس طرح انمیں سے ہر ایک دوسرے کے اضافہ کا موجب ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان انھیں کے سہارے بصیرت وعمل کی چوٹی پر پہونچ جاتا ہے ۔

۱۔ عمل صالح کا سرچشمہ بصیرت

بصیرت کا ثمر ہ عمل صالح ہے ۔اگر دل وجان کی گہرائیوں میں بصیرت ہے تو وہ لامحالہ عمل صالح پر آمادہ کر ے گی بصیرت کبھی عمل سے جدا نہیں ہوسکتی ہے روایات اس چیز کو صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ انسان کے عمل میں نقص اورکوتاہی دراصل اس کی بصیرت میں نقص اورکوتاہی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اس سلسلہ میں چند روایات ملا حظہ فرما ئیں ۔

۳۲۶

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل امین سے نقل فرما یا ہے :

(الموقن یعمل ﷲکأنه یراه،فان لم یکن یریٰ ﷲ فان ﷲ یراه )( ۱ )

''درجۂ یقین پر فائز انسان ﷲ کیلئے اس طرح عمل انجام دیتا ہے جیسے وہ ﷲکو دیکھ رہا ہے اگر وہ ﷲکو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم از کم ﷲ تو اس کو دیکھ رہا ہے ''

مولائے کائنات سے منقول ہے :

(یُستدل علیٰ الیقین بقصرالامل،واخلاص العمل،والزهد فی الدنیا )( ۲ )

''آرزووں کی قلت، اخلاص عمل اور زہد، یقین کی دلیلیں ہیں''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(التقویٰ ثمرةالدین،وأمارةالیقین )( ۳ )

''تقویٰ دین کا ثمر ہ اور یقین کا سردار ہے''

نیز آپ سے مروی ہے:

(من یستیقن،یعملْ جاهداً )( ۴ )

''صاحب یقین بھر پور جدوجہد کے ساتھ عمل انجام دیتا ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(ان العمل الدائم القلیل علیٰ الیقین،أفضل عندﷲ من العمل الکثیرعلیٰ غیریقین )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۷ص۲۱ ۔

(۲)غرر الحکم ج ۲ص ۳۷۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۸۵۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۶۶۔

(۵)اصول کافی ج۲ص۵۷۔

۳۲۷

''یقین کے ساتھ مسلسل تھوڑا عمل کرناﷲکے نزدیک یقین کے بغیربہت زیادہ عمل سے افضل ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(لاعمل الابیقین،ولایقین الابخشوع )( ۱ )

''یقین کے بغیر عمل اور خشوع کے بغیر یقین بے فا ئدہ ہے ''

آپ نے ارشاد فرمایا :

(العامل علیٰ غیربصیرةکالسائر علیٰ سراب بقیعة لا یزیده سرعةالسیر الابعدا )( ۲ )

''بصیرت کے بغیر عمل انجام دینے والا ایسا ہے جیسے سراب کے پیچھے دوڑنے والا کہ اسکی تیزی اسے منزل سے دور ہی کرتی جاتی ہے ''

صادق آل محمد کا ہی یہ بھی فرمان ہے :

(انکم لا تکونون صالحین حتیٰ تعرفوا،ولا تعرفون حتیٰ تصدقوا ولاتصدقون حتیٰ تسلموا )( ۳ )

''تم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے جب تک معرفت حاصل نہ کرلو اور یقین کے بغیر معرفت اور تسلیم کے بغیر تصدیق حاصل نہ ہو گی ''یعنی تصدیق معرفت اور معرفت، عمل صالح کاذریعہ ہے

امام جعفر صادق سے مروی ہے :

____________________

(۱)تحف العقول ص۲۳۳۔

(۲)وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص ۱۲۲ح۳۶۔

(۳)بحارالانوار ج ۶۹ ص۱۰۔

۳۲۸

(لایقبل عمل الا بمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،فمن عرف دلّته المعرفة علیٰ العمل )( ۱ )

''معرفت کے بغیر کو ئی عمل قابل قبول نہیں ہے اور عمل کے بغیر معرفت بھی نہیں ہو سکتی جب معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو معرفت خود عمل پر ابھارتی ہے ''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(لایقبل عمل الابمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،ومن عرف دلّته معرفته علیٰ العمل ،ومن لم یعرف فلا عمل له )( ۲ )

''معرفت کے بغیر عمل قبول نہیں ہوتا اور عمل کے بغیر معرفت حاصل نہیں ہوتی جب معرفت حاصل ہوجاتی ہے تووہ خود انسان کو دعوت عمل دیتی ہے جس کے پاس معرفت نہیں ہے اس کے پاس عمل بھی نہیں ہے''

۲۔بصیرت کی بنیاد عمل صالح

ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمل صالح کی بنیاد بصیرت ہے اسی کے با لمقابل بصیرت کا سرچشمہ عمل صالح ہے ۔دوطرفہ متبادل رابطوں کے ایسے نمونے آپ کواسلامی علوم میں اکثر مقامات پر نظر آئیں گے ۔

قرآن کریم عمل صالح اور بصیرت کے اس متبادل اور دوطرفہ رابطہ کا شدت سے قائل ہے اور بیان کرتا ہے کہ بصیرت سے عمل اور عمل صالح سے بصیرت حاصل ہوتی ہے اور عمل صالح کے ذریعہ ہی انسان خداوندعالم کی جانب سے بصیرت کا حقدار قرار پاتا ہے ۔

( والذین جاهدوا فینا لنهدینّهم سُبُلَنا وان ﷲ لمع المحسنین ) ( ۳ )

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ ص۴۴۔

(۲)تحف العقول ص۲۱۵۔

(۳)سورئہ عنکبوت ۶۹۔

۳۲۹

''اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقیناﷲحسن عمل والوں کے ساتھ ہے ''

آیت واضح طورپر بیان کر رہی ہے کہ جہاد (جوخود عمل صالح کا بہترین مصداق ہے )کے ذریعہ انسان ہدایت الہی کو قبول کرنے اور حاصل کرنے کے لائق ہوتا ہے ۔

( لنهدینّهم سبلنا ) ( ۱ )

''ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کرینگے ''

حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لایزال عبدی یتنفّل لی حتیٰ اُحبّه ، فاذا أحببته کنت سمعه الذی به یسمع، وبصره الذی یبصر به،و یده التی بها یبطش )( ۲ )

''میرا بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر نے لگتا ہو ں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ سنتا ہے اسکی

____________________

(۱)خداوند عالم ہمارے شیخ جلیل مجاہد راہ خدا شیخ عباس علی اسلامی پر رحمت نازل کرے میں ان سے اکثر یہ سنا کرتا تھا :کہ انسان کو ہر حرکت کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہو تی ہے جن کا بدل ممکن نہیں ہے ایک تو وہ اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو تحرک میں اس کی مدد کر ے اور حرکت کی تکان کو ہلکا کردے اور اسے ایسی طاقت و قوت عطا کرے جس سے وہ اپنی حرکت کو جاری رکھ سکے اور دوسرے اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو اسے صحیح راستہ کی رہنمائی کرتی رہے تا کہ وہ راستہ سے بھٹکنے نہ پائے یعنی اسے ایسی قوت وطاقت کی ضرورت ہو تی ہے جو ہدایت اور بصیرت کے مطابق اس کی حرکت کا راستہ معین کرے تاکہ وہ صراط مستقیم پر چلتا رہے اور انہیں دونوں چیزوں کا وعدہ ہم سے پروردگار عالم نے سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں فر مایا ہے :(والذین جاھدوافینالنھدینھم سبلناوانّ اللّٰہ لمع المحسنین )پس جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پروردگار عالم ان کو پہلے تو پشت پناہی اور قوت و طاقت عطا کرتا ہے اور یہی خدا کی معیت ہے '' انّ اللّٰہ لمع المحسنین) اور دوسرے ان کوبصیرت و ہدایت عطا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے (لنهدینهم سبلنا

(۲)اصول کافی ج۲ص۳۵۲۔

۳۳۰

آنکھیں بن جاتا ہوں جنکے ذریعہ وہ دیکھتا ہے اسی کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ چیزوں کو چھوتا ہے ''

یہ بہت ہی مشہور ومعروف حدیث ہے تمام محدثوں ،معتبرراویوں اور مشایخ حدیث نے اس حدیث قدسی کو نقل کیا ہے نقل مختلف ہے مگر الفاظ تقریباً ملتے جلتے ہیں اور روایت صحیح ہے اوروضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ عبادت ،معرفت ویقین کا دروازہ ہے اور بندہ قرب الٰہی کی منزلیں طے کرتارہتا ہے یہاں تک کہ ﷲ اسے بصیرت عطا کردیتا ہے پھر وہ ﷲ کے ذریعہ سنتا ہے دیکھتا ہے اور ادراک حاصل کرتا ہے ۔۔۔اور ظاہر ہے کہ جو ﷲ کے ذریعہ یہ کام انجام دے گا تو اسکی سماعت بصارت اور معرفت میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہے ۔

دوسرا رخ

عمل اور بصیرت کے درمیان دوطرفہ رابطہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح بصیرت سے عمل اور عمل سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس رابطہ کا دوسرا رخ بھی ہے جس کے مطابق برے اعمال اورکردارکی خرابی بصیرت میں کمی ،اندھے اور بہرے پن کا سبب ہوتے ہیں اس کے برعکس یہ چیزیں بے عملی اور گناہ وفساد کا باعث ہوتی ہیں ۔

گذشتہ صفحات میں ہم نے روایات کی روشنی میں عمل اور بصیرت کے درمیان مثبت رابطہ کی وضاحت کی تھی اسی طرح اس رابطہ کے دوسرے رخ کو بھی احادیث کی روشنی میں ہی پیش کررہے ہیں ۔

۳۳۱

بے عملی سے خاتمۂ بصیرت

اسلامی روایات سے یہ صاف واضح ہوجاتا ہے کہ برے اعمال سے بصیرت ختم ہوتی رہتی ہے قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پراس حقیقت کا اظہار واعلان کیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

( أفرأیت من اتّخذ الٰهه،هواه وأضلّه ﷲ علیٰ علمٍ وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوةً فمن یهدیه من بعد ﷲ ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کراسے گمراہی میں چھوڑ دیا اور اسکے کان اوردل پرمہرلگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے ''

جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر کسی دوسرے معبود کی عبادت کرکے شرک اختیار کیا ﷲ ان سے بصیرت سلب کرلیتا ہے اور ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگادیتا ہے آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے اور طے ہے کہ جب ﷲ کسی بندہ سے بصیرت سلب کرلے تو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اسی کو قرآن مجیدان الفاظ میں بیان کرتا ہے :

( کذلک یُضلّ ﷲ الکافرین ) ( ۲ )

''ﷲاسی طرح کافروں کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''یہ جملہ دراصل گذشتہ تفصیل کا اجمالی بیان ہے

( کذلک یُضل ﷲ من هومسرف مرتاب ) ( ۳ )

'' اسی طرح خدا زیادتی کرنے والے اور شکی مزاج انسانوں کو انکی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے''

اس لئے کہ اسراف گمراہی کی طرف لے جاتا ہے

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے :

( وما یُضلّ به الا الفاسقین ) ( ۴ )

''اور گمراہی صرف انکا حصہ ہے جو فاسق ہیں ''

____________________

(۱) سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

(۲)سورئہ غافرآیت۷۴۔

(۳)سورئہ غافرآیت ۳۴۔

(۴)سورئہ بقرہ آیت۲۶ ۔

۳۳۲

یا :( ویُضلّ ﷲ الظالمین ) ( ۱ )

''ﷲ ظالمین کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''

اس کا مطلب یہ ہے کہ فسق اورظلم ،گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( کَلا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۲ )

''نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ''

انسان جب گنا ہوں اور معصیتوںکا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے یہی اعمال ایک ٹیلہ کی شکل میں جمع ہو کر اس کے قلب کے سامنے رکاوٹ بن جاتے ہیں اور پھر خدا اور حق اسے نظر نہیں آتے ۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی القَوْم َ الظَّالِمِیْنَ ) ( ۳ )

''ﷲ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ''

( ان ﷲ لا یهدی القوم الکافرین ) ( ۴ )

''ﷲکافروں کی ہدایت نہیں کرتا ''

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی القَوْمَ الْفاسقین ) ( ۵ )

''یقینا ﷲ بدکار لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ''

____________________

(۱)سورئہ ابراہیم آیت۲۷۔

(۲)سورئہ مطففین آیت۱۴۔

(۳)سورئہ قصص آیت۰ ۵۔

(۴)سورئہ مائدہ آیت ۶۷۔

(۵)سورئہ منافقون آیت۶۔

۳۳۳

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی من هوَ مُسْرِف کَذَّا ب ) ( ۱ )

''بیشک ﷲ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی ہدایت نہیں کرتا ''

( انَّ اللّٰهَ لَایَهْدِی من هُوکاذب کفار ) ( ۲ )

''ﷲ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کی ہدایت نہیں کرتا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(لولا تکثیر فی کلامکم ،وتمزیج فی قلوبکم، لرأیتم ما أریٰ و سمعتم ما اسمع )( ۳ )

''اگر تمہارے کلام میں کثرت نہ ہو تی اور قلوب آلودہ نہ ہوتے تو تم بھی وہی دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں اور وہی سنتے جومیں سنتاہوں ''

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(کیف یستطیع الهدیٰ من یغلبه الهویٰ )( ۴ )

''جس پرہویٰ وہوس غالب ہو وہ کیسے ہدایت پاسکتا ہے ؟''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(انکم ان أمّرْتُم علیکم الهویٰ أصمّکم وأعماکم وأرداکم )( ۵ )

''اگر تم نے اپنے اوپر ہویٰ وہوس کوغالب کرلیاتو وہ تمہیں بہرا،اندھا اور پست بنادیں گی ''

اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل باطل اور فضول باتیں کرنااور دلوں میں حق و باطل کا گڈمڈہونایہ

____________________

(۱)سورئہ غافرآیت۲۸۔

(۲)سورئہ زمرآیت۳۔

(۳)المیزان ج۵ص۲۹۲۔

(۴)غرر الحکم ج۲ ص ۹۴۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۲۶۴۔

۳۳۴

آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرابنا دیتا ہے ۔

امام محمد باقر نے فرمایا :

(مامن عبد الا وفی قلبه نکتة بیضائ،فاذا أذنب خرج فیتلک النکتة،نکتة سودائ،فاذا تاب ذهب ذٰلک السواد،وان تمادیٰ فی الذنوب زادذلک السواد حتیٰ یغطّی البیاض،فاذا غطّیٰ البیاض لم یرجع صاحبه الیٰ خیرأبداً،وهو قول ﷲ عزّوجل: ( بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۱ )

''ہر انسان کے دل میں ایک سفیدی ہوتی ہے انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سفیدی میںایک سیاہ نقطہ نمودار ہوجاتا ہے اگر گناہگار تو بہ کرلیتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہوجاتی ہے لیکن اگر گناہوں کا سلسلہ جاری رہے تو سیاہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ سیاہی دل کی سفیدی کو ڈھانپ لیتی ہے اور جب سفیدی پوشیدہ ہوجاتی ہے تو ایسا انسان کبھی خیر کی جانب نہیں پلٹ سکتا ۔ یہی خدا وند عالم کے قول(بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون)'نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے'کے معنی ہیں''

یہی سیاہی جب قلب پر چھاجاتی ہے تو اسکے لئے حجاب بن جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان سے بصیرت سلب ہوجاتی ہے بہ الفاظ دیگر انسان جب گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے تو بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(ماشیء أفسد للقلب من الخطیئة،ان القلب لیواقع الخطیئة فماتزال به حتیٰ تغلب علیه فیصیر أسفله أعلاه،وأعلاه أسفله ،قال رسول ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۲ )

____________________

(۱)نوررالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۳۳۵

''خطا سے بڑھ کر قلب کو فاسد کرنے والی کوئی شئے نہیں ہے ،بیشک جب دل میں کوئی برائی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اسی میں باقی رہ کر اس پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے تو اسکا نچلا حصہ اوپر اور اوپری حصہ نیچے ہو جاتا ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :(انّ المؤمن اذا أذنب کانت نکتة سوداء فی قلبه،فاذا تاب ونزع واستغفرصقل قلبه، وان ازداد زادت فذلک الرین الذی ذکره ﷲتعالیٰ فی کتابه ( کلّا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوایکسبون ) ( ۱ )

''مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے اگر تو بہ واستغفارکرلے تو اسکا قلب صیقل ہوجاتا ہے لیکن اگر گناہوں میں زیادتی ہوتی رہے تو یہی (رین) یعنی زنگ بن جاتا ہے جسے خدا نے آیت (کلاّبل ران علیٰ قلوبھم)میں فرمایا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(انْ أطعت هواک اصمک وأعماک )( ۲ )

''اگر تم ہویٰ وہوس کی اطاعت کروگے تو وہ تمہیں بہرا اور اندھا بنادے گی''

فقدان بصیرت برے اعمال کا سبب

جس طرح برائیوں اور گناہوں سے گمراہی پیدا ہوتی ہے اسی کے برعکس ضلالت و گمراہی بھی گناہ اور بد عملی کاسبب ہوتی ہے اور اس طرح جہالت و ضلالت اور فقدان بصیرت کے باعث شقاوت و بدبختی ظلم واسراف جیسے برے اعمال وجود میں آتے ہیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( قالوا ربّنا غلبت علیناشِقوتنا وکنّا قوما ضالّین ) ( ۳ )

____________________

(۱)نورالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)سورئہ مومنون آیت ۱۰۶۔

۳۳۶

''وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم لوگ گمراہ ہوگئے تھے''

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا :

(لاورع مع غیّ )( ۱ )

''گمراہی کے بعد کوئی پارسائی نہیں رہتی ''

مولائے کائنات نے،معاویہ بن ابی سفیان کواپنے خط میں تحریر فرمایاہے:

(امریء لیس له بصر یهدیه،ولا قائد یرشده،قد دعاه الهویٰ فأجابه،وقاده الضلال فاتّبعه، فهجرلاغطاً،وضلّ خابطاً )( ۲ )

''(مجھے تیرا جوخط ملا ہے )یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہ راستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہدی اور گمراہی نے کھینچا تو اسکے پیچھے چل پڑا اور اسکے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من زاغ ساء ت عنده الحسنة،وحسنت عنده السیئة،وسکرسکرالضلالة )( ۳ )

''جوکجی میں مبتلا ہوا،اسے نیکی برائی اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ہے اور وہ گمراہی کے نشہ میں چور ہوجاتا ہے ''

لہٰذا معلوم ہوا کہ بصیرت اور عمل میں دوطرفہ مستحکم رابطہ ہے یہ رابطہ مثبت انداز میں بھی

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۳۴۵۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۷۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

۳۳۷

ہے اور منفی صورت میں بھی ۔جسے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔بصیرت ،عمل صالح کی طرف لے جاتی ہے ۔

۲۔عمل صالح، بصیرت و ہدایت کا سبب ہوتا ہے ۔

۳۔ضلالت اور فقدانِ بصیرت، ظلم وجور جیسے دیگر برے اعمال اور گناہوںکا سبب ہوتی ہے ۔

۴۔برے اعمال اورظلم وجور سے بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔

خلاصۂ کلام

حدیث شریف کے فقرہ ''کففت علیہ ضیعتہ''کے بارے میں جو گفتگو ہوئی ا س سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان جب خواہشات نفس کی مخالفت کرکے اپنے خواہشات کو ارادئہ الٰہی کا تابع بنادیتا ہے اور مالک کی مرضی کا خواہاں ہوتا ہے تو خدا اسے نور ہدایت اور بصیرت عنایت فرمادیتا ہے اور تاریک راستوںمیں اسکا ہاتھ تھام لیتا ہے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( یاأیّها الذین آمنوا اتقوا ﷲ وآمنوا برسوله یُؤتکم کِفلین من رحمته ویجعلْ لکم نوراً تمشون به ) ( ۱ )

''اے ایمان والو! ﷲسے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آئو تا کہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوبڑے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( یاأیّها الذین آمنوا انْ تتّقوا ﷲ یجعلْ لکم فرقاناً ) ( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت۲۸۔

(۲)سورئہ انفال آیت۲۹۔

۳۳۸

''ایمان والو! اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کروگے تو وہ تمہیں حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کردے گا ''

( واتّقوا ﷲ و یعلمکم ﷲ ) ( ۱ )

'' اوراللہ سے ڈرو تاکہ اللہ تمہیں علم عطاکرے''

حضرت علی سے مروی ہے :

(هُدی من أشعر قلبه التقویٰ )( ۲ )

''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے تقویٰ کو اپنے دل کا شعار بنالیا ''

(هُدی من تجلبب جلباب الدّین )( ۳ )

''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے دین کا لباس اوڑھ لیا''

(من غرس أشجارالتُقیٰ،جنیٰ ثمار الهدیٰ)(۴)

''جس نے تقویٰ کے درخت بوئے وہ ہدایت کے پھل کھائے گا''

والحمد للہ رب العالمین

محمد مہدی آصفی

۱۰ ذی القعدہ ۱۴۱۲ قم

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۲۸۲۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۳۱۱۔

(۳)گذشتہ حوالہ۔

(۴)غررالحکم ج۲ ص۲۴۵۔

۳۳۹

فہرست

حرف اول ۵

مقدمہ ٔ مؤلف ۸

حدیث قدسی ۹

حدیث قدسی ۱۰

پہلی فصل ۱۱

''ہویٰ'' (خواہش)قرآن وحدیث ۱۱

کی روشنی میں ۱۱

بنیادی محرکات ۱۲

۱۔فطرت: ۱۳

۲۔عقل : ۱۳

۳۔ارادہ: ۱۳

۴۔ضمیر: ۱۳

۵۔قلب ،صدر،: ۱۳

۶۔ہویٰ(خواہشیں): ۱۳

''ہویٰ'' کی اصطلاحی تعریف ۱۴

''ہویٰ''کے خصوصیات ۱۴

۱۔چاہت میںشدت ۱۵

۲۔خواہشات میں تحرک کی قوّت ۱۷

۳۔خواہشات اور لالچ کی بیماری ۱۸

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349