خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96654 / ڈاؤنلوڈ: 4138
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اسی لئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں نفس کی پیروی کرنے سے بار بار منع کیا ہے اور اسکی مخالفت کی تاکید فرمائی ہے ۔نمونہ کے طورپرمندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:

( فلا تتبعوا الهویٰ ) ( ۱ )

''لہٰذا ہوی وہوس کی پیروی نہ کرنا''

( ولاتتبع الهویٰ فیضلّک عن سبیل ﷲ ) ( ۲ )

''اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں''

( ولاتتبع اهوائهم عماجائک من الحق ) ( ۳ )

''اور جوکچھ حق تمہارے پاس آیا ہے اسکے مقابلہ میں ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو''

ہویٰ و ہوس کی پیروی سے بچنے کی مانند خداوند عالم نے ہمیں ''طاغوت ''کا انکار کرنے اور اس سے دور رہنے کا بھی حکم دیا ہے:

( یریدون ان یتحاکموا لی الطاغوت وقد أمروا أن یکفروا به ) ( ۴ )

____________________

(۱)سورئہ نساء آیت ۱۳۵۔

(۲)سورئہ ص آیت ۲۶۔

(۳)سورئہ مائدہ آیت ۴۸۔

(۴)سورئہ نساء آیت ۶۰۔

۴۱

''وہ یہ چاہتے ہیں کے سرکش لوگوں (طاغوت)کے پاس فیصلہ کرائیں جبکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں''

( والذین اجتنبوا الطاغوت أن یعبدوها وأنابوا الی ﷲ لهم البشریٰ ) ( ۱ )

''اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے علیٰحدگی اختیار کی اور خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ان کے لئے ہماری طرف سے بشارت ہے''

( ولقدبعثنافی کل أمةرسولاأن اعبدواﷲواجتنبواالطاغوت ) ( ۲ )

''اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو''

عقل اور دین

ہویٰ وہوس اور طاغوت کے مقابلہ میں انسان کو راہ راست پر ثبات قدم عطا کرنے کیلئے خداوند عالم نے دوراستے کھول دئے ہیں ایک عقل اور دوسرے دین۔عقل انسان کے اندر رہ کر اسکی اصلاح کرتی ہے اور دین باہرسے اسکی ہدایت کا کام انجام دیتا ہے۔

اسی لئے حضرت امیر المومنین نے فرمایا ہے:

(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج )( ۳ )

''عقل اندرونی شریعت ہے اورشریعت بیرونی عقل کا نام ہے''

امام کاظم کا ارشاد ہے:

____________________

(۱)سورئہ زمر آیت ۱۷۔

(۲)سورئہ نحل آیت ۳۶۔

(۳)مجمع البحرین للطریحی مادہ عقل۔

۴۲

(ان للّٰه علی الناس حجتین حجة ظاهرة وحجة باطنة فأماالحجة الظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة وأماالباطنة فالعقول )( ۱ )

''لوگوں کے اوپرخداوند عالم کی دو حجتیں اور دلیلیں ہیں جن میں ایک ظاہری اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت ہے۔ظاہری حجت انبیاء ،مرسلین اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ اور باطنی حجت''عقل'' ہے ۔ ''

عقل اور دین کے سہارے انسان داخلی وخارجی سطح پر بخوبی ہویٰ و ہوس اور طاغوت کا مقابلہ کرسکتاہے۔جیسا کہ مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

خواہشات کی تباہ کاریاں

یہ بے لگام قوت جسکے مطالبات کی بھی کوئی حد نہیں ہے یہ انسان کے اندر تخریب کا ری اور فسادوانحراف کی اتنی زیاد ہ قوت و طاقت رکھتی ہے کہ اس کی طاقت کے برابرشیطان اور طاغوت جیسی طاقتوں کے اندربھی قوت وطاقت نہیں پائی جاتی ہے۔

اور سب سے زیادہ خطرناک بات تو یہ ہے کے انسان کو نیست ونابود کرنے والی یہ طاقت انسان کے وجود میں ہی سمائی ہوئی ہے اور انسان کے پاس اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جن دوچیزوں کا خوف لاحق تھاان میں سے ایک'' خواہشات نفس'' ہے جیسا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشادگرامی ہے :

____________________

(۱)بحارج۱ص۱۳۷۔اصول کافی ج۱ص۱۶۔

(۲)نہج البلاغہحکمت۴۲۴

۴۳

(ن أ خوف ماأخاف علیٰ اُمتّی:الهویٰ وطول الأمل،أماالهویٰ فاِنه یصد عن الحق،وأماطول الأمل فینسی الآخرة )( ۱ )

''مجھے اپنی امت کے بارے میں دو چیزوں کا سب سے زیادہ خوف لاحق رہتا ہے ہویٰ وہوس، لمبی لمبی آرزوئیں،کیونکہ خواہشات ، حق تک پہنچنے کے راستے بند کردیتی ہیں اور لمبی لمبی آرزوئیں آخر ت کا خیال ذہن سے نکال دیتی ہیں''

اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہوی وہوس انسان کے اندر رہ کر اسے گمراہ کرتی ہے اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(اللذات مفسدات )( ۲ )

''لذتیں تباہ کن ہیں''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۸۸حدیث ۱۹ ج۷۰ص۷۵ حدیث ۳وح۷۰ص۷۷ح۹و۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۳۔

۴۴

تباہ کا ری کے مراحل

حیات انسانی میں خواہشات کے منفی اور تخریبی کردارپر بھی ہمیں غور کر نا چاہئے کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انسانی وجود میںکچھ ایسے بنیادی محرکات پائے جاتے ہیں جن کی بناپر علم و معرفت پیدا ہوتی ہے اورانہیں کے ذریعہ انسان کی مادی اور معنوی زندگی پروان چڑھتی ہے اسی طرح اسکے انسانی اور حیوانی دونوں پہلووں کی انہیں محرکات کے ذریعہ تکمیل ہوتی ہے ۔

مگر ان تمام محرکات کے درمیان خواہشات اور ہویٰ وہوس ایسا محرک ہے کہ اگر خواہشات اپنی رو میں ہوں اوران میں طغیانی آجائے تو پھریہ انسان کے اندر موجود دوسرے محرکات کو بالکل معطل اور ناکارہ بنا دیتے ہیں اور عقل،دل،ضمیر،فطرت اورارادہ کی حیثیت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔وسیع پیمانہ پر ۔۔۔ ان محرکات کی معطّلی کے بعد انسانی پہلو بالکل نیست و نابود ہوجاتاہے اور انسانی نفس میں محرک کی حیثیت سے خواہشات کے علاوہ کچھ اور باقی نہیں رہتاہے جبکہ تمام حیوانی پہلووں کی تشکیل انہیں خواہشات سے ہوتی ہے۔

اس طرح انسانی زندگی کے اندر یہ مفیداور کارآمد عنصرہلاکت اور بربادی کا موجب ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :

(ولاتطع من أغفلناقلبه عن ذکرناواتبع هواه وکان أمره فرطا )( ۱ )

''اور ہرگز اس کی اطاعت نہ کر نا جسکے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنے خواہشات کا پیرو کار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے ''

فرط تفریط سے بنا ہے جسکے معنی ضائع و برباد کرنا ہیں۔

انسانی زندگی میںہو یٰ و ہوس کے تخریبی کردار کی طرف قرآن وحدیث میں خصوصی توجہ دلائی گئی ہے تا کہ لوگ خواہشات کے خطرات سے بخوبی آگاہ رہیں اور اسکی تباہ کا ریو ںکاشکار نہ ہو نے پائیں ۔

ذیل میںہم اسلامی نکتہ نظر سے خواہشات اورہویٰ و ہوس کی تباہیوں اور بربادیوں کا جائزہ پیش کررہے ہیں ۔

ہمیں آیات اورروا یا ت کے مطابق خواہشات کی تخریبی کار روائی کے دو مرحلے دکھائی دیتے ہیں پہلے مرحلہ میں توخواہشات ،انسان کے اندر علم ومعرفت اور خداوندعالم کی طرف لے جانے والے تمام ذرائع کو معطل اور نیست ونابود کرکے رکھ دیتی ہیں۔

دوسرے مرحلہ میں ان تمام ذرائع کومعطل کرنے کے بعدخواہشات انسان کو مکمل طورپر

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۴۵

اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور اس پر خواہشات کی حکمرانی ہوتی ہے انسان ہر اعتبار سے ان کی حکومت کے سا منے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اورخواہشات کا ا سیربن کررہ جاتاہے جسکے نتیجہ میں خداوندعالم نے انسان کو جو کچھ طاقتیں، صلاحیتیں اور فہم و فراست عطا فرمائی تھی وہ سب ہویٰ و ہوس کا آلۂ کار بن جاتی ہیں۔

اب آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں خواہشات کے ان دونوںمرحلوں کی تفصیل ملاحظہ فر ما ئیں۔

خواہشات کی تخریبی کارروائیوں کا پہلا مرحلہ

ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں ہویٰ و ہوس علم و عمل کی تمام خدا داد صلاحیتوں کو معطل کردیتی ہے۔اسکے علاوہ بھی یہ انسان کے اندربہت خرابیاں پیدا کرتی ہے آیات و روایات میں مختلف عناوین کے تحت ان خرابیوں کا تذکرہ موجودہے ہم موضوع کی مناسبت سے صرف چند نمونے پیش کررہے ہیں ۔

۱۔خواہشا ت ،قلب پر ہدایت کے در وازے بند کر دیتے ہیں۔

ﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :

(أفرأیت من اتخذ لٰهه هواه وأضله ﷲعلیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوةً فمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون )( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیا ہے اور اسکے کا ن اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہو ئے ہیں اور خدا کے بعد کو ن ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو''

دوسرے مقام پر خداوندعالم کا ارشاد ہے:

____________________

(۱)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

۴۶

( فن لم یستجیبوالک فاعلم أنمایتبعون أهوائهم ومن أضل ممن تبع هواه ) ( ۱ )

''پھر اگر یہ آپ کی بات کو قبول نہ کریں تو سمجھ لیجئے کہ یہ صرف اپنی خواہشات کا اتباع کرنے والے ہیں اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو خدا کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کا اتباع کرے ''

ان آیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواہشات انسان کے دل کے اوپر خدا،رسول،خدائی آیات ودلائل اور ہدایت کے تمام راستے مکمل طورپر بندکر دیتے ہیں اورقلب سے خدا ورسول کی دعوت پر لبیک کہنے کی صلاحیت کوسلب کر لیتے ہیں ۔

مزید تائید کے لئے مو لا ئے کا ئنات کے یہ ارشادات ملا حظہ فرما ئیے :

(من اتبع هواه أعماه،وأصمّه،وأذلّه )( ۲ )

''جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے گاخواہشات اس کو اندھا بہرابنادیں گی اوراس کوذلیل ورسواکردیں گی ۔''

٭(الهوی شریک العمی )( ۳ )

''خواہشیں نابینائی کے شریک کار ہوتی ہیں ۔''

٭(نک نْ أطعت هواک أصمّک وأعماک )( ۴ )

''اگرتم اپنے خواہشات کی پیروی کروگے تو وہ تم کو بہرا اور اندھا بنا دینگے ''

____________________

(۱)سورئہ قصص آیت۵۰۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۲۴۲۔

(۳)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

(۴)غررالحکم ج ۱ص۲۶۰ ۔

۴۷

(اوصیکم بمجا نبة الهویٰ،فن الهویٰ یدعولی العمی وهوالضلال فی الآخرةوالدنیا )( ۱ )

میں تم کوخواہشات سے دور رہنے کی وصیت کرتاہوں کیونکہ خواہشات اند ھے پن کی طرف لیجاتی ہیں اور وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی گمراہی ہے ۔''

۲۔خواہشات گمراہی کا ذریعہ

خدا وند عالم کا ارشادہے :

( فخلف من بعدهم خلف أضاعوا الصلاة واتبعوا الشهوات فسوف یلقون غیّا ) ( ۲ )

''پھر ان کے بعد ان کی جگہ پر وہ لوگ آگئے جنھوںنے نماز کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پس عنقریب یہ اپنی گمراہی سے جا ملیں گے''

اور ﷲتعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے :

( ولا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل ﷲان الذ ین یضلون عن سبیل ﷲ لهم عذاب شدید ) ( ۳ )

''اور(اے دائود)! خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منصرف کردیں بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے شدید عذاب ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(نّ أخوف ماأخاف علیٰ اُمتی،الهویٰ،وطول الأ مل،أماالهویٰ فنّه

____________________

(۱)مستدرک ومسائل الشیعہ ۳۴۵۲طبع قدیم ۔

(۲)سورئہ مریم آیت۵۹۔

(۳)سورئہ ص آیت ۲۶۔

۴۸

یصد ُّعن الحق،وأماطول الأمل فینسی الآخرة )( ۱ )

''مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کا خوف ہے ۔خواہشات نفس اور لمبی لمبی آرزوئیں کیونکہ خواہشات اور ہویٰ و ہوس حق تک پہو نچنے کے راستے بند کردیتی ہیں اور لمبی لمبی آرزو ئیں آخرت کا خیا ل ذہن سے نکال دیتی ہیں ''

۳۔خواہشات ایک مہلک زہر

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(الشهوات سمومات قاتلات )( ۲ )

'' خواہشات مہلک زہر ہیں ''

۴۔خواہشات آفت اور بیماری

اس سلسلہ میں حضرت علی کے یہ اقوال ملا حظہ فرما ئیں :

(من تسرّع الیٰ الشهوات تسرّعت الیه الآفات )( ۳ )

''جو خواہشات کی طرف جتنی تیزی سے بڑھے گا اسکے اوپر اتنی ہی تیزی سے آفتیںآن پڑیں گی''

(احفظ نفسک من الشهوات،تسلم من الآفات )( ۴ )

''اپنے نفس کو خواہشات سے بچاکر رکھو تو آفتوں سے محفوظ رہوگے ''

____________________

(۱)خصال صدوق جلد ۱صفحہ ۲۷ ،بحارالانوارج۷۰ص۷۵حدیث۳وج۷۰ص۷۷حدیث۷وج۷۰ ص ۸۸ حدیث۱۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۴ ۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۴)گذشتہ حوالہ۔

۴۹

(رأس الآفات الوله باللذ ات )( ۱ )

''آفتوں کی اصل وجہ لذات و خواہشات کا دلدادہ ہوناہے۔''

(قرین الشهوة مریض النفس معلول العقل )( ۲ )

''شہوتوں اور خواہشوں کے دلد اد ہ کا نفس مریض اور عقل بیمار ہو تی ہے ''

(الشهوات أعلال قاتلات،وأفضل دوائهااقتناء الصبرعنها )( ۳ )

''خواہشات مہلک بیماریاں ہیں اور ان سے پرہیز کر نا ہی ان کی بہترین دوا ہے''

(أول الشهوةطرب وآخرهاعطب )( ۴ )

''خواہشات کاآغاز لطف انگیز اور انجام زحمت خیز ہوتاہے۔''

۵۔خواہشات آزمائشوں کی بنیاد

حضرت علی کا ارشاد ہے:

(الهویٰ اُسّ المحن )( ۵ )

''ہوس آزمائشوں کی بنیاد ہے ''

۶۔خواہشات فتنوں کی چر اگاہ

حضرت علی کا ارشادہے:(الهویٰ مطیّةالفتن )( ۶ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۳۷۲۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۷۷و۷۸۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۹۰۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۹۵۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۵۰ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۵۱۔

۵۰

''خواہشات فتنوں کی چر اگاہ ہیں ۔''

آپ ہی کا ارشاد ہے:

(انّمابدء وقوع الفتن أهواء تُتّبع )( ۱ )

''فتنوں کے واقع ہو نے کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جنکی پیروی کی جائے ۔ ''

(ایاکم وتمکّن الهویٰ منکم،فان أوّله فتنة،وآخره محنة )

''ذرا سنبھل کر ،کہیں تمہار ی خواہشات تم پر حاوی نہ ہو جائیں کیونکہ انکی ابتداء فتنہ اور انتہا آزمائش طلب ہوتی ہے ۔''

۷۔خواہشات ایک پستی

حضرت علی :

(الهویٰ یُردی )( ۲ )

''ہویٰ و ہوس پستی میں گرادیتی ہے ۔''

آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :

(الهویٰ هوّی الیٰ اسفل السافلین )( ۳ )

''انسانی ہوس ،پستیوں کی آخری تہوں میں گرا دیتی ہے ''

امام جعفر صادق کا قول ہے :

(لاتدع النفس وهواها،فان هواها رداها )( ۴ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ ۵۰ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۶۵۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۸۹حدیث۲۰۔

۵۱

''نفس کو اس کی خو اہشات کے اوپر نہ چھوڑ دو کیونکہ اس کی خو اہشات ہی اس کی پستی ہیں ''

۸۔خو اہشات موجب ہلا کت

حضرت علی کا ارشادہے:

(أهلک شیٔ الهویٰ) ( ۱ )

''سب سے زیادہ مہلک چیز خو ا ہشات ہیں''

(الهویٰ قرین مهلک )( ۲ )

''خو اہشات مہلک سا تھی ہیں ''

۹۔خو اہشات انسان کی دشمن

حضرت امام جعفر صادق کا ارشادہے:

(أحذروا اهوائکم کماتحذرون أعدائکم،فلیس شی ء أعدیٰ للرجال من اتّباع أهوائهم )( ۳ )

''اپنی خو اہشات سے اسی طرح ڈرو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو کیونکہ لو گوں کے لئے ان کی خو ا ہشات سے بڑا کو ئی دشمن نہیں ہے''

۱۰۔عقل کی بربادی

حضرت علی کا ارشادہے:(آفة العقل الهویٰ )( ۴ )

____________________

(۱)غرر الحکم ج ۱ ص ۱۸۰۔

(۲)غرر الحکم ج ۱ ص۴۷۔

(۳)بحا رالانوار ج ۷۰ ص ۸۲ حدیث ۱۲۔

(۴)غرر الحکم ج ۱ ص۲ ۲۷۔

۵۲

''خواہشات عقل کو برباد کرنے والی آفت ہیں۔''

(من لمیملک شهوته لم یملک عقله )( ۱ )

''جس کا اپنی خواہشوں کے او پر اختیار نہیں رہتا وہ اپنی عقل کا اختیار بھی کھو بیٹھتا ہے ''

(زوال العقل بین دواعی الشهوةوالغضب )

'' عقل دو چیزوں میں زائل ہو تی ہے :شہوت اور غضب''

ہویٰ و ہوس اور خواہشات کا عالم یہ ہے کہ جب ان میں طغیانی پیداہوتی ہے تو یہ مفید اورکار آمد عنصر،تعمیر کے بجائے تخریب اور دوسرے اہم بنیادی منابع و محرکات کی بربادی کا سبب بن جاتاہے

یہ تھا خواہشات کی کارروائی کا پہلا مرحلہ ،جس میں انسانی زندگی پر خواہشات کا منفی اور تخریبی کردار بخوبی واضح ہوگیا۔

خو ا ہشات کی تباہ کاری کا دو سرا مر حلہ

خو اہشات کی جن تباہ کا ریوں کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے بات اسی مرحلہ پر تمام نہیں ہوتی بلکہ خواہشات فتنہ و فساد بر پا کر نے میں دو چار قدم اور آگے نظر آتے ہیں چنا نچہ پہلے مر حلہ میں یہ خواہشات انسان کے ارا دہ ،عقل ،ضمیر ،دل اور فطرت کونا کارہ اور معطل کر دیتی ہیں اس مرحلہ کو قرآن مجید نے'اغفال قلب '(دل کو غافل بنا دینے )کا نام دیا ہے ۔

لیکن جب خواہشات ان تمام اہم محرکات کو نیست و نا بود کر دیتے ہیں اور انسان کو ہر لحاظ سے اپنی گرفت میں لے کر اس پر غلبہ اور تسلط حاصل کر لیتے ہیں تو پھر انسان خواہشات کا تا بع اور فرماں بردار ہو کر رہ جاتا ہے اس مرحلہ کو قرآن مجید نے''اتباع ہویٰ'' کا نا م دیا ہے ۔مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ میں آپ دونوں مراحل بخوبی ملاحظہ کرسکتے ہیں :

____________________

(۱)مستد رک و سائل الشیعہ ج ۲ ص ۲۸۷ طبع قدیم ۔

۵۳

(ولاتطع من أغفلناقلبه عن ذکرنا واتّبع هواه وکان أمره فُرطا )( ۱ )

''اور ہر گز اسکی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کر دیا ہے۔ وہ اپنے خواہشات کا پیر و کا ر ہے ۔اور اسکا کام سراسر زیادتی کر نا ہے ''

پہلے مر حلہ میں خواہشات نے انسانوں کے دل کو بالکل غافل بنادیااور اسمیں علم ومعرفت اور ہدایت وبصیرت کا کو ئی امکان باقی نہیں رہ گیااور دوسرے مرحلہ میں ہویٰ و ہوس نے اسے مکمل طورپراپنی گرفت میں لے لیا نتیجتاًانسان خواہشات کا تابع محض بن کر رہ گیا اور جب یہ سب کچھ ہوجائے کہ ایک طرف اسکا دل غافل رہے اور دو سری جانب وہ ہوس کاغلام بن جائے تو اسکا آخر ی انجام واقعاً وہی تلخ حقیقت ہے جسکی طرف قرآن مجیدنے اشارہ کیاہے۔( ''وکان أمره فرطا'' )

خواہشات کا قیدی

دوسرے مرحلہ میں انسان ہر اعتبار سے خواہشات کے قبضہ میں چلا جاتا ہے اورواقعاً ''خواہشات'' کااسیر بن کر رہ جاتاہے بلکہ اپنے اسیر پر خواہشات کا اختیارو تسلط جنگی قیدی کے بالمقابل کہیں زیادہ ہوتاہے کیونکہ قیدی پر فاتح کااختیار و تسلط محدودحد تک ہوتاہے ۔مثلاًوہ اسے فرارنہیں ہونے دیتایا مقابلہ سے معذور کردیتاہے ،اسے کسی خاص راہ و روش کا پابند بنادیاجاتاہے ، اوراسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیا جاتاہے اسے اپنی مرضی کے مطابق بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی مگر ان تمام باتوں کے باوجود یہ قیدی تین اعتبار سے بالکل آزاد رہتاہے۔

۱۔اپنے احساسات اورسماعت و بصارت میں آزاد ہوتاہے اور دوسروں کے احساسات سے قطع نظر وہ اپنے طورپر مسقتل سنتاہے دیکھتا ہے اور کسی بھی چیز کا احساس کر سکتا ہے اور قید کرنے والا چاہے جتنی بڑی حکومت اور اقتدار کا مالک ہو پھر بھی وہ اسکے احساسات پر پابند ی نہیں لگاسکتا جیسے

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۵۴

اسکے اوپر یہ پابندی نہیں لگا سکتا کہ وہ اچھی چیز کو برا دیکھنے لگے ۔یا بری چیز کو اچھا محسوس کرے۔

۲۔اسکی عقل بھی بالکل آزاد رہتی ہے اوروہ جس طرح چا ہے سوچ سکتا ہے اور اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے نہ کہ قید کرنے والوں کی عقل کے مطابق اسے اسیرکر نے والے اسکی عقل کو قیدی بنا کر اپنی مرضی کے مطابق اسکے لئے کوئی خاص طرز تفکر معین نہیں کر سکتے ہیں ۔

۳۔اسی طرح اسکا دل بھی بالکل آزادہو تا ہے یعنی اس کا دل جس سے چاہے محبت یا نفرت کر سکتا ہے یہ اسے اختیار ہے اور اسے قیدی بنا نے والے اسمیں کو ئی مد اخلت نہیں کرسکتے بلکہ وہ جن کی قید میں ہوتا ہے انھیں سے نفرت کرتا ہے اور انکے دشمنوں سے محبت کر تا ہے کیونکہ اسکے دل پران کا کوئی اختیار نہیں ہوتاہے۔

بقول شاعر

''مجھے اسیر کرو یا مری زباں کاٹو

مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے ''

لیکن خو اہشات کے قیدیوں میں معا ملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ خواہشات اپنے اسیر کے احساسات اسکی عقل اور دل سب کومکمل طورپر اپنے قابومیں کرلیتی ہیں اوران کے اندر اپنے مطابق مداخلت کرتی ہیں اور اسیر پر ان کی مکمل حکمرانی ہوتی ہے۔

اب وہ خواہشات ہی کے مطابق فیصلہ کرتاہے برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی، نیک و طیب کو خبیث اور خبیث کوطیب سمجھتا ہے۔

اور ہر چیز کے بارے میں اسکا انداز فکر وہی ہوجاتا ہے جواس کے خواہشات چاہتے ہیں گویا اسکی عقل و منطق اور فہم و ادراک سب تبدیل ہوجاتے ہیں۔

پھریہ خواہشات انسان کے قلب پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے بھی اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور پھر اسکا انداز محبت ونفرت خواہشات کے اشاروں پر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔چنانچہ خداوند عالم کے جن دشمنوں سے نفرت ضروری ہے وہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے اور خدا کے جن محبوب بندوں سے محبت ضروری ہے ان سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔

۵۵

ان خواہشات کا آخری حملہ انسان کے ضمیرکے او پرہوتا ہے کیونکہ انسانی وجودمیںضمیر ہی ان کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ثبات قدم کا مظاہر ہ کرتا ہے اور آخرکار اس جنگ میں انسان کا ضمیر بھی پیچھے ہٹنے لگتاہے اور جب یہ خواہشات انسان سے اسکا ضمیر بھی چھین لیتے ہیں تو پھر انسان اپنی خواہشات، شیاطین اورطاغوت کے مقابلہ میں بالکل بے یارومددگارہوکرہتھیار ڈال دیتا ہے۔

اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ خواہشات کی زنجیریںبدن کوقیدکرنے والی زنجیروں اور سلاخوں سے کتنی زیادہ مؤثر اور کاری ہوتی ہیں ،ایک انسان کی قید اور خواہشات کی اسیری کے اس فرق کی جانب مولائے کائنات کی اس حدیث میں بھی اشارہ موجود ہے :

(عبدالشهوة أذل من عبدالرق )( ۱ )

'' خواہشات کا اسیر ہونا کسی انسان کے ہاتھوں اسیر ہونے سے کہیںزیادہ ذلت و رسوائی کا باعث ہے''

اگر چہ بظاہر ان دونوں کو ہی اسیری کہا جاتا ہے اور دونوںطرح کی اسیری میں انسان ذلیل ہوتا ہے اوردونوں صورتوں میںقیدی دوسرے کا محکوم ہوتاہے لیکن پھر بھی کسی انسان کی قید میں رہنا اتنا دشوارنہیں ہے جتنی دشوار اور باعث ذلت خواہشات کی اسیری ہوتی ہے۔

خواہشات کی قیدقرآن و حدیث کی روشنی میں

مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ کے بارے میں غوروفکر کرنے کے بعد انسانی وجودپر قابض اس اسیری کی گہرائیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔خداوند عالم کا ارشاد ہے:

(أفرأیت من اتخذالٰهه هواه وأضله ﷲ علیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه

____________________

(۱) غرر الحکم ج۲ص۴۰۔

۵۶

وجعل علیٰ بصره غشا وةفمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون )( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیا ہے اور اسکے کان اوردل پر مہر لگادی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو؟''

اس طرح خداوند عالم ایسے انسان سے سماعت ،بصارت اور دل سب کچھ چھین لیتاہے اور وہ دوسروں کے اشاروں پر اس طرح حرکت کرتاہے کہ اس کو اپنے اوپر ذرہ برابر اختیار نہیں رہ جاتااور وہ ہر معاملہ میں خواہشات کا ہی تابع رہتا ہے یہاں تک کہ اسکے خواہشات ہی اسکا خدا بن جاتے ہیں جو کہ خواہشات کی غلامی کی آخری منزل ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے مولائے کائنات کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرمائیے:

(مَن ملک نفسه علا امره،ومن ملکته نفسه ذل قدره )( ۲ )

''جو اپنے نفس کا مالک ومختار ہووہ باوقار اور بلند مرتبہ ہے اور جس کا مالک ومختار اسکا نفس ہے وہ ذلیل اورر سوا ہوتاہے''

(أزری بنفسه من ملکته الشهوة واستعبدته المطامع )( ۳ )

''اس نے اپنے نفس کو معیوب بنا لیاجو شہوت کا محکوم ہوگیااورلالچوں نے اسے غلام بنا لیا''

(عبدالشهوةأسیرلا ینفک أسره )( ۴ )

''خواہشات کا غلام ایک ایسا قیدی ہے جو کبھی آزاد نہیں ہوسکتا ہے''

____________________

(۱)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

(۲)مستدرک الو سائل ج۲ص۲۸۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۹۵۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۴۰۔

۵۷

(کم من عقل أسیرتحت هویٰ أمیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں ،خواہشات کی فرما نروائی میں اسیر ہیں''

(الشهوات تسترق الجهول )( ۲ )

''خواہشات جاہلوں کو غلام بناکر رکھتی ہیں''

یہ بہترین تعبیر ہے کہ جاہل جب خواہشات کے پیچھے چلتا ہے تو وہ اسے نفس کے اختیار سے نکال کر اپنی سلطنت کے ماتحت لے لیتی ہیں اور انسان اپنی عقل ،ارادہ اورضمیر کے دائرئہ اختیار سے باہر نکل کر خواہشات کی حکومت اور اختیار میں چلا جاتا ہے جس طرح چورتاریکی میںبڑی خاموشی کے ساتھ گھر کے سامان کا صفایاکردیتا ہے اسی طرح جہالت کی تاریکی میں خاموشی سے انسان پر اسکے خواہشات کی حکمرانی ہوجاتی ہے اوراسے خبر بھی نہیں ہوپاتی ہے۔

انسان اور خواہشات کی غلامی

جب اس حد تک انسان کے اوپر خواہشات کی حکمرانی ہوجاتی ہے توانسان خواہشات کا غلام بن جاتاہے کیونکہ خواہشات کاایسا غلبہ ایک قسم کی بندگی ہے۔

قرآن مجیدکی یہ دونوںآیتیںہمیں بیحد غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں :

( أفرأیت من اتخذالٰهه هواه وأضله ﷲعلیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوة فمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون ) ( ۳ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیاہے اور اسکے کان اوردل پر مہر لگادی ہے اور اسکی آنکھ پر

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۲۱۱۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

۵۸

پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیںکرتے ہو ''

( أرأیت من اتخذلٰهه هواه أفأنت تکون علیه وکیلا ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے کیا آپ اسکی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں''

بات اگر چہ بہت عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک منزل وہ آتی ہے کہ جب انسان پر وردگار عالم کو چھو ڑکر اپنی خواہشات کو خدا بنالیتا ہے اور انھیں کی عبادت کرتا ہے۔' '

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے :

(ماتحت ظل السماء من الٰه یعبد من دون ﷲأعظم عندﷲ من هویً متّبع )( ۲ )

''اس آسمان کے نیچے خداوندعالم کے بعد سب سے زیادہ جس معبود کی عبادت کی گئی ہے وہ خواہشات کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے''۔

حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(الجاهل عبد شهوته )( ۳ )

''جاہل اپنی خواہش کا غلام ہوتاہے''

اللہ نے بھی اسے نظر انداز کردیا

جب انسان خداوندعالم کی بندگی اور عبودیت سے نکل کر خواہشات نفس سے رشتہ جوڑدیتا ہے اور اطاعت الٰہی کے بجائے اپنے نفس کا تابع ہو جاتاہے تو پھر وہ عملی اعتبار سے اس حدتک پستی

____________________

(۱)سورئہ فرقان آیت ۴۳۔

(۲)درمنثور ج۵ص۷۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

۵۹

میں چلا جاتا ہے کہ رب العالمین کی اطاعت وبندگی چھوڑکر اپنے خواہشات نفس کی پرستش شروع کردیتا ہے ۔

لہٰذاایسے افراد کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے( نسواﷲ فنسیهم ) کہ

'' انھوں نے خداوندعالم کو بھلا دیا تو اس نے انھیں فرامو ش کردیا ۔''اسکی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کیونکہ جب وہ خود خدا کی عبودیت وبندگی اوراسکی اطاعت کے حدود سے باہر نکل گئے اور انھوں نے خدا سے اپنا رابطہ توڑکر اسے بھلا دیا تو پروردگار عالم نے بھی ان کو بھلادیا ۔۔۔ان کے بھلادینے کا جواب انہیں بھلاکردیااور انہیں ان کے حوالہ کردیا اورجس لمحہ بھی خداوند عالم کسی بندے سے اپنی نظر کرم موڑکر اسے اسکے نفس کے حوالہ کر دیتا ہے اسی لمحہ وہ شیطان کا شکار بن جاتاہے ۔

خواہشات کی تباہیاں قرآن مجید کی روشنی میں

بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے عالم ''بلعم بن باعورا'']۱[کا قصہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

( واتل علیهم نبأالذی آتیناه آیاتنافانسلخ منهافأتبعه الشیطان فکان من الغاوین ولوشئنالرفعناه بها ولکنه أخلد لیٰ الارض واتّبع هواه فمثله کمثل الکلب ن تحمل علیه یلهث أوتترکْه یلهث ذلک مثل القوم الذین )

____________________

(۱)مشہورروایات کی بنیادپر ان آیات میں بلعم باعورا کی ہی مذمت کی گئی ہے۔اگر چہ دیگر اقوال بھی موجود ہیں جن کے مطابق وہ شخص صیفی راہب تھا جس نے پیغمبر اکرم کو فاسق کہا تھا ۔بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد امیہ بن ا بی الصلت ہے وغیرہ وغیرہ ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349