خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں11%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96701 / ڈاؤنلوڈ: 4140
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اسی لئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں نفس کی پیروی کرنے سے بار بار منع کیا ہے اور اسکی مخالفت کی تاکید فرمائی ہے ۔نمونہ کے طورپرمندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:

( فلا تتبعوا الهویٰ ) ( ۱ )

''لہٰذا ہوی وہوس کی پیروی نہ کرنا''

( ولاتتبع الهویٰ فیضلّک عن سبیل ﷲ ) ( ۲ )

''اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں''

( ولاتتبع اهوائهم عماجائک من الحق ) ( ۳ )

''اور جوکچھ حق تمہارے پاس آیا ہے اسکے مقابلہ میں ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو''

ہویٰ و ہوس کی پیروی سے بچنے کی مانند خداوند عالم نے ہمیں ''طاغوت ''کا انکار کرنے اور اس سے دور رہنے کا بھی حکم دیا ہے:

( یریدون ان یتحاکموا لی الطاغوت وقد أمروا أن یکفروا به ) ( ۴ )

____________________

(۱)سورئہ نساء آیت ۱۳۵۔

(۲)سورئہ ص آیت ۲۶۔

(۳)سورئہ مائدہ آیت ۴۸۔

(۴)سورئہ نساء آیت ۶۰۔

۴۱

''وہ یہ چاہتے ہیں کے سرکش لوگوں (طاغوت)کے پاس فیصلہ کرائیں جبکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں''

( والذین اجتنبوا الطاغوت أن یعبدوها وأنابوا الی ﷲ لهم البشریٰ ) ( ۱ )

''اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے علیٰحدگی اختیار کی اور خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ان کے لئے ہماری طرف سے بشارت ہے''

( ولقدبعثنافی کل أمةرسولاأن اعبدواﷲواجتنبواالطاغوت ) ( ۲ )

''اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو''

عقل اور دین

ہویٰ وہوس اور طاغوت کے مقابلہ میں انسان کو راہ راست پر ثبات قدم عطا کرنے کیلئے خداوند عالم نے دوراستے کھول دئے ہیں ایک عقل اور دوسرے دین۔عقل انسان کے اندر رہ کر اسکی اصلاح کرتی ہے اور دین باہرسے اسکی ہدایت کا کام انجام دیتا ہے۔

اسی لئے حضرت امیر المومنین نے فرمایا ہے:

(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج )( ۳ )

''عقل اندرونی شریعت ہے اورشریعت بیرونی عقل کا نام ہے''

امام کاظم کا ارشاد ہے:

____________________

(۱)سورئہ زمر آیت ۱۷۔

(۲)سورئہ نحل آیت ۳۶۔

(۳)مجمع البحرین للطریحی مادہ عقل۔

۴۲

(ان للّٰه علی الناس حجتین حجة ظاهرة وحجة باطنة فأماالحجة الظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة وأماالباطنة فالعقول )( ۱ )

''لوگوں کے اوپرخداوند عالم کی دو حجتیں اور دلیلیں ہیں جن میں ایک ظاہری اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت ہے۔ظاہری حجت انبیاء ،مرسلین اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ اور باطنی حجت''عقل'' ہے ۔ ''

عقل اور دین کے سہارے انسان داخلی وخارجی سطح پر بخوبی ہویٰ و ہوس اور طاغوت کا مقابلہ کرسکتاہے۔جیسا کہ مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

خواہشات کی تباہ کاریاں

یہ بے لگام قوت جسکے مطالبات کی بھی کوئی حد نہیں ہے یہ انسان کے اندر تخریب کا ری اور فسادوانحراف کی اتنی زیاد ہ قوت و طاقت رکھتی ہے کہ اس کی طاقت کے برابرشیطان اور طاغوت جیسی طاقتوں کے اندربھی قوت وطاقت نہیں پائی جاتی ہے۔

اور سب سے زیادہ خطرناک بات تو یہ ہے کے انسان کو نیست ونابود کرنے والی یہ طاقت انسان کے وجود میں ہی سمائی ہوئی ہے اور انسان کے پاس اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جن دوچیزوں کا خوف لاحق تھاان میں سے ایک'' خواہشات نفس'' ہے جیسا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشادگرامی ہے :

____________________

(۱)بحارج۱ص۱۳۷۔اصول کافی ج۱ص۱۶۔

(۲)نہج البلاغہحکمت۴۲۴

۴۳

(ن أ خوف ماأخاف علیٰ اُمتّی:الهویٰ وطول الأمل،أماالهویٰ فاِنه یصد عن الحق،وأماطول الأمل فینسی الآخرة )( ۱ )

''مجھے اپنی امت کے بارے میں دو چیزوں کا سب سے زیادہ خوف لاحق رہتا ہے ہویٰ وہوس، لمبی لمبی آرزوئیں،کیونکہ خواہشات ، حق تک پہنچنے کے راستے بند کردیتی ہیں اور لمبی لمبی آرزوئیں آخر ت کا خیال ذہن سے نکال دیتی ہیں''

اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہوی وہوس انسان کے اندر رہ کر اسے گمراہ کرتی ہے اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(اللذات مفسدات )( ۲ )

''لذتیں تباہ کن ہیں''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۸۸حدیث ۱۹ ج۷۰ص۷۵ حدیث ۳وح۷۰ص۷۷ح۹و۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۳۔

۴۴

تباہ کا ری کے مراحل

حیات انسانی میں خواہشات کے منفی اور تخریبی کردارپر بھی ہمیں غور کر نا چاہئے کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انسانی وجود میںکچھ ایسے بنیادی محرکات پائے جاتے ہیں جن کی بناپر علم و معرفت پیدا ہوتی ہے اورانہیں کے ذریعہ انسان کی مادی اور معنوی زندگی پروان چڑھتی ہے اسی طرح اسکے انسانی اور حیوانی دونوں پہلووں کی انہیں محرکات کے ذریعہ تکمیل ہوتی ہے ۔

مگر ان تمام محرکات کے درمیان خواہشات اور ہویٰ وہوس ایسا محرک ہے کہ اگر خواہشات اپنی رو میں ہوں اوران میں طغیانی آجائے تو پھریہ انسان کے اندر موجود دوسرے محرکات کو بالکل معطل اور ناکارہ بنا دیتے ہیں اور عقل،دل،ضمیر،فطرت اورارادہ کی حیثیت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔وسیع پیمانہ پر ۔۔۔ ان محرکات کی معطّلی کے بعد انسانی پہلو بالکل نیست و نابود ہوجاتاہے اور انسانی نفس میں محرک کی حیثیت سے خواہشات کے علاوہ کچھ اور باقی نہیں رہتاہے جبکہ تمام حیوانی پہلووں کی تشکیل انہیں خواہشات سے ہوتی ہے۔

اس طرح انسانی زندگی کے اندر یہ مفیداور کارآمد عنصرہلاکت اور بربادی کا موجب ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :

(ولاتطع من أغفلناقلبه عن ذکرناواتبع هواه وکان أمره فرطا )( ۱ )

''اور ہرگز اس کی اطاعت نہ کر نا جسکے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنے خواہشات کا پیرو کار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے ''

فرط تفریط سے بنا ہے جسکے معنی ضائع و برباد کرنا ہیں۔

انسانی زندگی میںہو یٰ و ہوس کے تخریبی کردار کی طرف قرآن وحدیث میں خصوصی توجہ دلائی گئی ہے تا کہ لوگ خواہشات کے خطرات سے بخوبی آگاہ رہیں اور اسکی تباہ کا ریو ںکاشکار نہ ہو نے پائیں ۔

ذیل میںہم اسلامی نکتہ نظر سے خواہشات اورہویٰ و ہوس کی تباہیوں اور بربادیوں کا جائزہ پیش کررہے ہیں ۔

ہمیں آیات اورروا یا ت کے مطابق خواہشات کی تخریبی کار روائی کے دو مرحلے دکھائی دیتے ہیں پہلے مرحلہ میں توخواہشات ،انسان کے اندر علم ومعرفت اور خداوندعالم کی طرف لے جانے والے تمام ذرائع کو معطل اور نیست ونابود کرکے رکھ دیتی ہیں۔

دوسرے مرحلہ میں ان تمام ذرائع کومعطل کرنے کے بعدخواہشات انسان کو مکمل طورپر

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۴۵

اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور اس پر خواہشات کی حکمرانی ہوتی ہے انسان ہر اعتبار سے ان کی حکومت کے سا منے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اورخواہشات کا ا سیربن کررہ جاتاہے جسکے نتیجہ میں خداوندعالم نے انسان کو جو کچھ طاقتیں، صلاحیتیں اور فہم و فراست عطا فرمائی تھی وہ سب ہویٰ و ہوس کا آلۂ کار بن جاتی ہیں۔

اب آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں خواہشات کے ان دونوںمرحلوں کی تفصیل ملاحظہ فر ما ئیں۔

خواہشات کی تخریبی کارروائیوں کا پہلا مرحلہ

ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں ہویٰ و ہوس علم و عمل کی تمام خدا داد صلاحیتوں کو معطل کردیتی ہے۔اسکے علاوہ بھی یہ انسان کے اندربہت خرابیاں پیدا کرتی ہے آیات و روایات میں مختلف عناوین کے تحت ان خرابیوں کا تذکرہ موجودہے ہم موضوع کی مناسبت سے صرف چند نمونے پیش کررہے ہیں ۔

۱۔خواہشا ت ،قلب پر ہدایت کے در وازے بند کر دیتے ہیں۔

ﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :

(أفرأیت من اتخذ لٰهه هواه وأضله ﷲعلیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوةً فمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون )( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیا ہے اور اسکے کا ن اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہو ئے ہیں اور خدا کے بعد کو ن ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو''

دوسرے مقام پر خداوندعالم کا ارشاد ہے:

____________________

(۱)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

۴۶

( فن لم یستجیبوالک فاعلم أنمایتبعون أهوائهم ومن أضل ممن تبع هواه ) ( ۱ )

''پھر اگر یہ آپ کی بات کو قبول نہ کریں تو سمجھ لیجئے کہ یہ صرف اپنی خواہشات کا اتباع کرنے والے ہیں اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو خدا کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کا اتباع کرے ''

ان آیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواہشات انسان کے دل کے اوپر خدا،رسول،خدائی آیات ودلائل اور ہدایت کے تمام راستے مکمل طورپر بندکر دیتے ہیں اورقلب سے خدا ورسول کی دعوت پر لبیک کہنے کی صلاحیت کوسلب کر لیتے ہیں ۔

مزید تائید کے لئے مو لا ئے کا ئنات کے یہ ارشادات ملا حظہ فرما ئیے :

(من اتبع هواه أعماه،وأصمّه،وأذلّه )( ۲ )

''جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے گاخواہشات اس کو اندھا بہرابنادیں گی اوراس کوذلیل ورسواکردیں گی ۔''

٭(الهوی شریک العمی )( ۳ )

''خواہشیں نابینائی کے شریک کار ہوتی ہیں ۔''

٭(نک نْ أطعت هواک أصمّک وأعماک )( ۴ )

''اگرتم اپنے خواہشات کی پیروی کروگے تو وہ تم کو بہرا اور اندھا بنا دینگے ''

____________________

(۱)سورئہ قصص آیت۵۰۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۲۴۲۔

(۳)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

(۴)غررالحکم ج ۱ص۲۶۰ ۔

۴۷

(اوصیکم بمجا نبة الهویٰ،فن الهویٰ یدعولی العمی وهوالضلال فی الآخرةوالدنیا )( ۱ )

میں تم کوخواہشات سے دور رہنے کی وصیت کرتاہوں کیونکہ خواہشات اند ھے پن کی طرف لیجاتی ہیں اور وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی گمراہی ہے ۔''

۲۔خواہشات گمراہی کا ذریعہ

خدا وند عالم کا ارشادہے :

( فخلف من بعدهم خلف أضاعوا الصلاة واتبعوا الشهوات فسوف یلقون غیّا ) ( ۲ )

''پھر ان کے بعد ان کی جگہ پر وہ لوگ آگئے جنھوںنے نماز کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پس عنقریب یہ اپنی گمراہی سے جا ملیں گے''

اور ﷲتعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے :

( ولا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل ﷲان الذ ین یضلون عن سبیل ﷲ لهم عذاب شدید ) ( ۳ )

''اور(اے دائود)! خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منصرف کردیں بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے شدید عذاب ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(نّ أخوف ماأخاف علیٰ اُمتی،الهویٰ،وطول الأ مل،أماالهویٰ فنّه

____________________

(۱)مستدرک ومسائل الشیعہ ۳۴۵۲طبع قدیم ۔

(۲)سورئہ مریم آیت۵۹۔

(۳)سورئہ ص آیت ۲۶۔

۴۸

یصد ُّعن الحق،وأماطول الأمل فینسی الآخرة )( ۱ )

''مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کا خوف ہے ۔خواہشات نفس اور لمبی لمبی آرزوئیں کیونکہ خواہشات اور ہویٰ و ہوس حق تک پہو نچنے کے راستے بند کردیتی ہیں اور لمبی لمبی آرزو ئیں آخرت کا خیا ل ذہن سے نکال دیتی ہیں ''

۳۔خواہشات ایک مہلک زہر

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(الشهوات سمومات قاتلات )( ۲ )

'' خواہشات مہلک زہر ہیں ''

۴۔خواہشات آفت اور بیماری

اس سلسلہ میں حضرت علی کے یہ اقوال ملا حظہ فرما ئیں :

(من تسرّع الیٰ الشهوات تسرّعت الیه الآفات )( ۳ )

''جو خواہشات کی طرف جتنی تیزی سے بڑھے گا اسکے اوپر اتنی ہی تیزی سے آفتیںآن پڑیں گی''

(احفظ نفسک من الشهوات،تسلم من الآفات )( ۴ )

''اپنے نفس کو خواہشات سے بچاکر رکھو تو آفتوں سے محفوظ رہوگے ''

____________________

(۱)خصال صدوق جلد ۱صفحہ ۲۷ ،بحارالانوارج۷۰ص۷۵حدیث۳وج۷۰ص۷۷حدیث۷وج۷۰ ص ۸۸ حدیث۱۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۴ ۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۴)گذشتہ حوالہ۔

۴۹

(رأس الآفات الوله باللذ ات )( ۱ )

''آفتوں کی اصل وجہ لذات و خواہشات کا دلدادہ ہوناہے۔''

(قرین الشهوة مریض النفس معلول العقل )( ۲ )

''شہوتوں اور خواہشوں کے دلد اد ہ کا نفس مریض اور عقل بیمار ہو تی ہے ''

(الشهوات أعلال قاتلات،وأفضل دوائهااقتناء الصبرعنها )( ۳ )

''خواہشات مہلک بیماریاں ہیں اور ان سے پرہیز کر نا ہی ان کی بہترین دوا ہے''

(أول الشهوةطرب وآخرهاعطب )( ۴ )

''خواہشات کاآغاز لطف انگیز اور انجام زحمت خیز ہوتاہے۔''

۵۔خواہشات آزمائشوں کی بنیاد

حضرت علی کا ارشاد ہے:

(الهویٰ اُسّ المحن )( ۵ )

''ہوس آزمائشوں کی بنیاد ہے ''

۶۔خواہشات فتنوں کی چر اگاہ

حضرت علی کا ارشادہے:(الهویٰ مطیّةالفتن )( ۶ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۳۷۲۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۷۷و۷۸۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۹۰۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۹۵۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۵۰ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۵۱۔

۵۰

''خواہشات فتنوں کی چر اگاہ ہیں ۔''

آپ ہی کا ارشاد ہے:

(انّمابدء وقوع الفتن أهواء تُتّبع )( ۱ )

''فتنوں کے واقع ہو نے کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جنکی پیروی کی جائے ۔ ''

(ایاکم وتمکّن الهویٰ منکم،فان أوّله فتنة،وآخره محنة )

''ذرا سنبھل کر ،کہیں تمہار ی خواہشات تم پر حاوی نہ ہو جائیں کیونکہ انکی ابتداء فتنہ اور انتہا آزمائش طلب ہوتی ہے ۔''

۷۔خواہشات ایک پستی

حضرت علی :

(الهویٰ یُردی )( ۲ )

''ہویٰ و ہوس پستی میں گرادیتی ہے ۔''

آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :

(الهویٰ هوّی الیٰ اسفل السافلین )( ۳ )

''انسانی ہوس ،پستیوں کی آخری تہوں میں گرا دیتی ہے ''

امام جعفر صادق کا قول ہے :

(لاتدع النفس وهواها،فان هواها رداها )( ۴ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ ۵۰ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۶۵۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۸۹حدیث۲۰۔

۵۱

''نفس کو اس کی خو اہشات کے اوپر نہ چھوڑ دو کیونکہ اس کی خو اہشات ہی اس کی پستی ہیں ''

۸۔خو اہشات موجب ہلا کت

حضرت علی کا ارشادہے:

(أهلک شیٔ الهویٰ) ( ۱ )

''سب سے زیادہ مہلک چیز خو ا ہشات ہیں''

(الهویٰ قرین مهلک )( ۲ )

''خو اہشات مہلک سا تھی ہیں ''

۹۔خو اہشات انسان کی دشمن

حضرت امام جعفر صادق کا ارشادہے:

(أحذروا اهوائکم کماتحذرون أعدائکم،فلیس شی ء أعدیٰ للرجال من اتّباع أهوائهم )( ۳ )

''اپنی خو اہشات سے اسی طرح ڈرو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو کیونکہ لو گوں کے لئے ان کی خو ا ہشات سے بڑا کو ئی دشمن نہیں ہے''

۱۰۔عقل کی بربادی

حضرت علی کا ارشادہے:(آفة العقل الهویٰ )( ۴ )

____________________

(۱)غرر الحکم ج ۱ ص ۱۸۰۔

(۲)غرر الحکم ج ۱ ص۴۷۔

(۳)بحا رالانوار ج ۷۰ ص ۸۲ حدیث ۱۲۔

(۴)غرر الحکم ج ۱ ص۲ ۲۷۔

۵۲

''خواہشات عقل کو برباد کرنے والی آفت ہیں۔''

(من لمیملک شهوته لم یملک عقله )( ۱ )

''جس کا اپنی خواہشوں کے او پر اختیار نہیں رہتا وہ اپنی عقل کا اختیار بھی کھو بیٹھتا ہے ''

(زوال العقل بین دواعی الشهوةوالغضب )

'' عقل دو چیزوں میں زائل ہو تی ہے :شہوت اور غضب''

ہویٰ و ہوس اور خواہشات کا عالم یہ ہے کہ جب ان میں طغیانی پیداہوتی ہے تو یہ مفید اورکار آمد عنصر،تعمیر کے بجائے تخریب اور دوسرے اہم بنیادی منابع و محرکات کی بربادی کا سبب بن جاتاہے

یہ تھا خواہشات کی کارروائی کا پہلا مرحلہ ،جس میں انسانی زندگی پر خواہشات کا منفی اور تخریبی کردار بخوبی واضح ہوگیا۔

خو ا ہشات کی تباہ کاری کا دو سرا مر حلہ

خو اہشات کی جن تباہ کا ریوں کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے بات اسی مرحلہ پر تمام نہیں ہوتی بلکہ خواہشات فتنہ و فساد بر پا کر نے میں دو چار قدم اور آگے نظر آتے ہیں چنا نچہ پہلے مر حلہ میں یہ خواہشات انسان کے ارا دہ ،عقل ،ضمیر ،دل اور فطرت کونا کارہ اور معطل کر دیتی ہیں اس مرحلہ کو قرآن مجید نے'اغفال قلب '(دل کو غافل بنا دینے )کا نام دیا ہے ۔

لیکن جب خواہشات ان تمام اہم محرکات کو نیست و نا بود کر دیتے ہیں اور انسان کو ہر لحاظ سے اپنی گرفت میں لے کر اس پر غلبہ اور تسلط حاصل کر لیتے ہیں تو پھر انسان خواہشات کا تا بع اور فرماں بردار ہو کر رہ جاتا ہے اس مرحلہ کو قرآن مجید نے''اتباع ہویٰ'' کا نا م دیا ہے ۔مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ میں آپ دونوں مراحل بخوبی ملاحظہ کرسکتے ہیں :

____________________

(۱)مستد رک و سائل الشیعہ ج ۲ ص ۲۸۷ طبع قدیم ۔

۵۳

(ولاتطع من أغفلناقلبه عن ذکرنا واتّبع هواه وکان أمره فُرطا )( ۱ )

''اور ہر گز اسکی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کر دیا ہے۔ وہ اپنے خواہشات کا پیر و کا ر ہے ۔اور اسکا کام سراسر زیادتی کر نا ہے ''

پہلے مر حلہ میں خواہشات نے انسانوں کے دل کو بالکل غافل بنادیااور اسمیں علم ومعرفت اور ہدایت وبصیرت کا کو ئی امکان باقی نہیں رہ گیااور دوسرے مرحلہ میں ہویٰ و ہوس نے اسے مکمل طورپراپنی گرفت میں لے لیا نتیجتاًانسان خواہشات کا تابع محض بن کر رہ گیا اور جب یہ سب کچھ ہوجائے کہ ایک طرف اسکا دل غافل رہے اور دو سری جانب وہ ہوس کاغلام بن جائے تو اسکا آخر ی انجام واقعاً وہی تلخ حقیقت ہے جسکی طرف قرآن مجیدنے اشارہ کیاہے۔( ''وکان أمره فرطا'' )

خواہشات کا قیدی

دوسرے مرحلہ میں انسان ہر اعتبار سے خواہشات کے قبضہ میں چلا جاتا ہے اورواقعاً ''خواہشات'' کااسیر بن کر رہ جاتاہے بلکہ اپنے اسیر پر خواہشات کا اختیارو تسلط جنگی قیدی کے بالمقابل کہیں زیادہ ہوتاہے کیونکہ قیدی پر فاتح کااختیار و تسلط محدودحد تک ہوتاہے ۔مثلاًوہ اسے فرارنہیں ہونے دیتایا مقابلہ سے معذور کردیتاہے ،اسے کسی خاص راہ و روش کا پابند بنادیاجاتاہے ، اوراسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیا جاتاہے اسے اپنی مرضی کے مطابق بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی مگر ان تمام باتوں کے باوجود یہ قیدی تین اعتبار سے بالکل آزاد رہتاہے۔

۱۔اپنے احساسات اورسماعت و بصارت میں آزاد ہوتاہے اور دوسروں کے احساسات سے قطع نظر وہ اپنے طورپر مسقتل سنتاہے دیکھتا ہے اور کسی بھی چیز کا احساس کر سکتا ہے اور قید کرنے والا چاہے جتنی بڑی حکومت اور اقتدار کا مالک ہو پھر بھی وہ اسکے احساسات پر پابند ی نہیں لگاسکتا جیسے

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۵۴

اسکے اوپر یہ پابندی نہیں لگا سکتا کہ وہ اچھی چیز کو برا دیکھنے لگے ۔یا بری چیز کو اچھا محسوس کرے۔

۲۔اسکی عقل بھی بالکل آزاد رہتی ہے اوروہ جس طرح چا ہے سوچ سکتا ہے اور اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے نہ کہ قید کرنے والوں کی عقل کے مطابق اسے اسیرکر نے والے اسکی عقل کو قیدی بنا کر اپنی مرضی کے مطابق اسکے لئے کوئی خاص طرز تفکر معین نہیں کر سکتے ہیں ۔

۳۔اسی طرح اسکا دل بھی بالکل آزادہو تا ہے یعنی اس کا دل جس سے چاہے محبت یا نفرت کر سکتا ہے یہ اسے اختیار ہے اور اسے قیدی بنا نے والے اسمیں کو ئی مد اخلت نہیں کرسکتے بلکہ وہ جن کی قید میں ہوتا ہے انھیں سے نفرت کرتا ہے اور انکے دشمنوں سے محبت کر تا ہے کیونکہ اسکے دل پران کا کوئی اختیار نہیں ہوتاہے۔

بقول شاعر

''مجھے اسیر کرو یا مری زباں کاٹو

مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے ''

لیکن خو اہشات کے قیدیوں میں معا ملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ خواہشات اپنے اسیر کے احساسات اسکی عقل اور دل سب کومکمل طورپر اپنے قابومیں کرلیتی ہیں اوران کے اندر اپنے مطابق مداخلت کرتی ہیں اور اسیر پر ان کی مکمل حکمرانی ہوتی ہے۔

اب وہ خواہشات ہی کے مطابق فیصلہ کرتاہے برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی، نیک و طیب کو خبیث اور خبیث کوطیب سمجھتا ہے۔

اور ہر چیز کے بارے میں اسکا انداز فکر وہی ہوجاتا ہے جواس کے خواہشات چاہتے ہیں گویا اسکی عقل و منطق اور فہم و ادراک سب تبدیل ہوجاتے ہیں۔

پھریہ خواہشات انسان کے قلب پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے بھی اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور پھر اسکا انداز محبت ونفرت خواہشات کے اشاروں پر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔چنانچہ خداوند عالم کے جن دشمنوں سے نفرت ضروری ہے وہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے اور خدا کے جن محبوب بندوں سے محبت ضروری ہے ان سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔

۵۵

ان خواہشات کا آخری حملہ انسان کے ضمیرکے او پرہوتا ہے کیونکہ انسانی وجودمیںضمیر ہی ان کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ثبات قدم کا مظاہر ہ کرتا ہے اور آخرکار اس جنگ میں انسان کا ضمیر بھی پیچھے ہٹنے لگتاہے اور جب یہ خواہشات انسان سے اسکا ضمیر بھی چھین لیتے ہیں تو پھر انسان اپنی خواہشات، شیاطین اورطاغوت کے مقابلہ میں بالکل بے یارومددگارہوکرہتھیار ڈال دیتا ہے۔

اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ خواہشات کی زنجیریںبدن کوقیدکرنے والی زنجیروں اور سلاخوں سے کتنی زیادہ مؤثر اور کاری ہوتی ہیں ،ایک انسان کی قید اور خواہشات کی اسیری کے اس فرق کی جانب مولائے کائنات کی اس حدیث میں بھی اشارہ موجود ہے :

(عبدالشهوة أذل من عبدالرق )( ۱ )

'' خواہشات کا اسیر ہونا کسی انسان کے ہاتھوں اسیر ہونے سے کہیںزیادہ ذلت و رسوائی کا باعث ہے''

اگر چہ بظاہر ان دونوں کو ہی اسیری کہا جاتا ہے اور دونوںطرح کی اسیری میں انسان ذلیل ہوتا ہے اوردونوں صورتوں میںقیدی دوسرے کا محکوم ہوتاہے لیکن پھر بھی کسی انسان کی قید میں رہنا اتنا دشوارنہیں ہے جتنی دشوار اور باعث ذلت خواہشات کی اسیری ہوتی ہے۔

خواہشات کی قیدقرآن و حدیث کی روشنی میں

مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ کے بارے میں غوروفکر کرنے کے بعد انسانی وجودپر قابض اس اسیری کی گہرائیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔خداوند عالم کا ارشاد ہے:

(أفرأیت من اتخذالٰهه هواه وأضله ﷲ علیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه

____________________

(۱) غرر الحکم ج۲ص۴۰۔

۵۶

وجعل علیٰ بصره غشا وةفمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون )( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیا ہے اور اسکے کان اوردل پر مہر لگادی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو؟''

اس طرح خداوند عالم ایسے انسان سے سماعت ،بصارت اور دل سب کچھ چھین لیتاہے اور وہ دوسروں کے اشاروں پر اس طرح حرکت کرتاہے کہ اس کو اپنے اوپر ذرہ برابر اختیار نہیں رہ جاتااور وہ ہر معاملہ میں خواہشات کا ہی تابع رہتا ہے یہاں تک کہ اسکے خواہشات ہی اسکا خدا بن جاتے ہیں جو کہ خواہشات کی غلامی کی آخری منزل ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے مولائے کائنات کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرمائیے:

(مَن ملک نفسه علا امره،ومن ملکته نفسه ذل قدره )( ۲ )

''جو اپنے نفس کا مالک ومختار ہووہ باوقار اور بلند مرتبہ ہے اور جس کا مالک ومختار اسکا نفس ہے وہ ذلیل اورر سوا ہوتاہے''

(أزری بنفسه من ملکته الشهوة واستعبدته المطامع )( ۳ )

''اس نے اپنے نفس کو معیوب بنا لیاجو شہوت کا محکوم ہوگیااورلالچوں نے اسے غلام بنا لیا''

(عبدالشهوةأسیرلا ینفک أسره )( ۴ )

''خواہشات کا غلام ایک ایسا قیدی ہے جو کبھی آزاد نہیں ہوسکتا ہے''

____________________

(۱)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

(۲)مستدرک الو سائل ج۲ص۲۸۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۹۵۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۴۰۔

۵۷

(کم من عقل أسیرتحت هویٰ أمیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں ،خواہشات کی فرما نروائی میں اسیر ہیں''

(الشهوات تسترق الجهول )( ۲ )

''خواہشات جاہلوں کو غلام بناکر رکھتی ہیں''

یہ بہترین تعبیر ہے کہ جاہل جب خواہشات کے پیچھے چلتا ہے تو وہ اسے نفس کے اختیار سے نکال کر اپنی سلطنت کے ماتحت لے لیتی ہیں اور انسان اپنی عقل ،ارادہ اورضمیر کے دائرئہ اختیار سے باہر نکل کر خواہشات کی حکومت اور اختیار میں چلا جاتا ہے جس طرح چورتاریکی میںبڑی خاموشی کے ساتھ گھر کے سامان کا صفایاکردیتا ہے اسی طرح جہالت کی تاریکی میں خاموشی سے انسان پر اسکے خواہشات کی حکمرانی ہوجاتی ہے اوراسے خبر بھی نہیں ہوپاتی ہے۔

انسان اور خواہشات کی غلامی

جب اس حد تک انسان کے اوپر خواہشات کی حکمرانی ہوجاتی ہے توانسان خواہشات کا غلام بن جاتاہے کیونکہ خواہشات کاایسا غلبہ ایک قسم کی بندگی ہے۔

قرآن مجیدکی یہ دونوںآیتیںہمیں بیحد غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں :

( أفرأیت من اتخذالٰهه هواه وأضله ﷲعلیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوة فمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون ) ( ۳ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیاہے اور اسکے کان اوردل پر مہر لگادی ہے اور اسکی آنکھ پر

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۲۱۱۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

۵۸

پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیںکرتے ہو ''

( أرأیت من اتخذلٰهه هواه أفأنت تکون علیه وکیلا ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے کیا آپ اسکی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں''

بات اگر چہ بہت عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک منزل وہ آتی ہے کہ جب انسان پر وردگار عالم کو چھو ڑکر اپنی خواہشات کو خدا بنالیتا ہے اور انھیں کی عبادت کرتا ہے۔' '

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے :

(ماتحت ظل السماء من الٰه یعبد من دون ﷲأعظم عندﷲ من هویً متّبع )( ۲ )

''اس آسمان کے نیچے خداوندعالم کے بعد سب سے زیادہ جس معبود کی عبادت کی گئی ہے وہ خواہشات کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے''۔

حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(الجاهل عبد شهوته )( ۳ )

''جاہل اپنی خواہش کا غلام ہوتاہے''

اللہ نے بھی اسے نظر انداز کردیا

جب انسان خداوندعالم کی بندگی اور عبودیت سے نکل کر خواہشات نفس سے رشتہ جوڑدیتا ہے اور اطاعت الٰہی کے بجائے اپنے نفس کا تابع ہو جاتاہے تو پھر وہ عملی اعتبار سے اس حدتک پستی

____________________

(۱)سورئہ فرقان آیت ۴۳۔

(۲)درمنثور ج۵ص۷۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

۵۹

میں چلا جاتا ہے کہ رب العالمین کی اطاعت وبندگی چھوڑکر اپنے خواہشات نفس کی پرستش شروع کردیتا ہے ۔

لہٰذاایسے افراد کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے( نسواﷲ فنسیهم ) کہ

'' انھوں نے خداوندعالم کو بھلا دیا تو اس نے انھیں فرامو ش کردیا ۔''اسکی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کیونکہ جب وہ خود خدا کی عبودیت وبندگی اوراسکی اطاعت کے حدود سے باہر نکل گئے اور انھوں نے خدا سے اپنا رابطہ توڑکر اسے بھلا دیا تو پروردگار عالم نے بھی ان کو بھلادیا ۔۔۔ان کے بھلادینے کا جواب انہیں بھلاکردیااور انہیں ان کے حوالہ کردیا اورجس لمحہ بھی خداوند عالم کسی بندے سے اپنی نظر کرم موڑکر اسے اسکے نفس کے حوالہ کر دیتا ہے اسی لمحہ وہ شیطان کا شکار بن جاتاہے ۔

خواہشات کی تباہیاں قرآن مجید کی روشنی میں

بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے عالم ''بلعم بن باعورا'']۱[کا قصہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

( واتل علیهم نبأالذی آتیناه آیاتنافانسلخ منهافأتبعه الشیطان فکان من الغاوین ولوشئنالرفعناه بها ولکنه أخلد لیٰ الارض واتّبع هواه فمثله کمثل الکلب ن تحمل علیه یلهث أوتترکْه یلهث ذلک مثل القوم الذین )

____________________

(۱)مشہورروایات کی بنیادپر ان آیات میں بلعم باعورا کی ہی مذمت کی گئی ہے۔اگر چہ دیگر اقوال بھی موجود ہیں جن کے مطابق وہ شخص صیفی راہب تھا جس نے پیغمبر اکرم کو فاسق کہا تھا ۔بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد امیہ بن ا بی الصلت ہے وغیرہ وغیرہ ۔

۶۰

( کذّبوا بآیاتنافاقصص القصص لعلهم یتفکّرون ) ( ۱ )

''اور انھیں اس شخص کی خبرسنا ئیے جسکو ہم نے اپنی آیتیں عطا کیں پھر وہ ان سے بالکل الگ ہوگیا اور شیطان نے اسکا پیچھاپکڑلیا تو وہ گمراہوں میں ہو گیااور ہم چاہتے تو اسے انھیں آیتوں کے سبب بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا اور اس نے خواہشات کی پیروی اختیار کر لی تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے یہ اس قوم کی مثال ہے جس نے ہماری آیات کی تکذیب کی،تواب آپ ان قصوں کو بیان کریں کہ شاید یہ غور وفکر کر نے لگیں ''

ان آیات کی تفسیر یہ ہے کہ '' بلعم بن باعور ا'' بنی اسرائیل کا ایک بہت ہی بڑا اور مشہور عالم تھا اسکو خداوندعالم نے اپنی روشن آیات نیز علم ومعرفت سے اس حد تک نوازاتھا کہ اسے مستجاب الدعوات قرار دے دیا تھا اور جناب موسیٰ بعض معاملات میں اس سے مدد لیتے تھے۔۔۔مگر وہ اپنی ہویٰ وہوس کا اسیر ہو گیا۔

چنا نچہ ایسے افراد جب اپنی خواہشات کا شکار ہو تے ہیں تو عام طور سے اسکے دوہی اسباب ہو تے ہیں یا تو وہ اپنے علم کو ذاتی فا ئدہ کیلئے استعمال کر نے لگتے ہیں مثلاً علم کے ذریعہ شہرت وعزت یا عہدہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیںاور لوگوںکے درمیان علم کے ذریعہ اپنی شخصیت کا اظہار کرتے ہیں یا یہ کہ دولت کی لا لچ میں اپنے علم سے اہل حکومت اورطاغوت کی خدمت شروع کردیتے ہیں اور علم کے بدلہ مال دنیا کماتے ہیںاس طرح دونوں صورتوں کا ایک ہی نتیجہ نکلتا ہے کہ علم ہویٰ وہوس اور خواہشات کا شکا ر ہو جا تا ہے ۔

کیونکہ کسی بھی عالم کی اہمیت کا معیار در اصل اسکے علم کی کثرت نہیں ہے ،جیسے اکثر کتب

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۱

خانوں میں اتنی زیادہ کتابیں ہوتی ہیں کہ علماء کی ایک کثیر تعداد مل کربھی انہیں نہ اٹھا سکے مگر اسکی کوئی اہمیت نہیں ہے ۔ علم کی قدروقیمت در اصل صاحب علم اور اس علم کے مصرف اور محل استعمال کو دیکھ کر لگا ئی جا تی ہے ۔ اگر عالم انبیاء کے دین اوراخلاق سے مزین ہو اور اس کاعلم لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی نیز انکی خدمت میں کام آئے تو یہ اس عالم کی قدروقیمت کاسبب ہے اور اگر خدا نخواستہ ایسا کچھ نہیں ہے تو پھراس عالم کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔

مو لا ئے کا ئنات نے خطبہ شقشقیہ میں عالم کی منزلت اور اسکی ذمہ دار یاں ان الفاظ میں بیان فرمائی ہیں:

(وما أخذ ﷲعلی العلماء أن لایقارّوا علی کظة ظالم ولاسغب مظلوم )

'' ﷲکا اہل علم سے یہ عہدہے کہ خبردار ظالم کی شکم پری اور مظلوم کی گر سنگی پر چین سے نہ بیٹھنا۔۔۔''

لہٰذااگرعالم خدا سے کئے ہوئے عہد کو پوار کر نے کیلئے اٹھ کھڑا ہو تو اسکی قدر ومنزلت اور مقام ومرتبہ میںاضافہ ہوتاہے ۔

بلعم بن باعور(اگر ان آیات کی تفسیربیان کرنے والی روایات کے مطابق بلعم باعوراہی مراد ہو)ان لوگو ں میں سے تھا جنھوں نے اپنے علم کی لگام خواہشات کے سپردکر دی اور انھیں کے پیچھے چل پڑے اب قرآن مجید کے الفا ظ میں اس شخص کا انجام ملاحظہ فرما ئیے :

اگران روایات کو تسلیم کر لیا جائے تو آیۂ کر یمہ میں اگر چہ بلعم باعور کے قصہ کی طرف ہی اشارہ ہے لیکن یہ باتیں ہراس شخص کیلئے ہیں جو اپنے نفس کے اوپر اپنے خواہشات کو حاکم بنادے۔

۶۲

جیسا کہ امام محمد باقر کا ارشاد گرامی ہے :

(ن الاصل فی ذلک بلعم،ثم ضرب ﷲمثلاًلکل مؤثرهواه علی هدیٰ ﷲ،من أهل القبلة )( ۱ )

''یعنی یہ تذکرہ تو در اصل بلعم کا ہی ہے لیکن خداوندعالم نے اسمیں ہر اس مسلمان کی مثال بیان کر دی ہے جو اپنی خواہشات کو ﷲ تعالیٰ کی ہدایت پر ترجیح دیتا ہو ''

ایسے لوگوں کا انجام کیا ہوتاہے ہمیں قرآنی بیانات کی روشنی میں اس پر بھی غور کرنا چاہئے۔

۱۔زمین کی جانب رغبت

زمین کی طرف رغبت ،دنیاوی زندگی سے دلبستگی کو کہتے ہیں یعنی انسان دنیا کا ہو کر رہ جائے۔کیونکہ زمین دنیاہی کا دوسرا نام ہے اور زمین کی طرف جھکا ئو ،رغبت اس سے بیزاری کے ذریعہ رفعت و بلندی کے مقابلہ میں ہے جیسا کہ آیۂ کریمہ میں اللہ تعا لیٰ کا ارشاد ہے :

( ولوشئنا لرفعناه بها ولکنه اخلد الیٰ الارض )

'' اگر ہم چا ہتے تو اسے انھیں آیات کے ذریعہ بلند کردیتے لیکن وہ خود زمین کی طرف جھک گیا ''

یعنی اس نے خود دنیا وی ذلت کو گلے لگا لیا ۔کیونکہ جس طرح سطح زمین سے بلندی کی طرف اوپر جا تے ہوئے زمین کی قوت جاذبہ اور کشش کا مقابلہ کر نے میںزحمت ومشقت ہوتی ہے مگر اس کے برعکس اوپر سے زمین کی طرف آتے وقت زمین کی کشش کا سہار ا مل جاتاہے ۔۔۔بالکل یہی حال زندگانی دنیا کی پستی اور بلندی کابھی ہوتا ہے کہ اگر کوئی بلندیوں کا خواہاں ہے تو اسے اتنی ہی مشقتیں برداشت کرنا ہو نگی لیکن اگر کوئی پستیوںمیں جانا چاہتاہے تو اس میں کوئی زحمت نہیں ہے ۔

۲۔آیات خدا سے محرومی

(فانسلخ منہا )آیات الٰہیہ سے ''انسلاخ'' یعنی اسکے پاس آیات کی جومعرفت اورعلم

____________________

(۱)مجمع البیان تفسیرسورئہ اعراف آیت ۱۷۵۔۱۷۶۔

۶۳

و حکمت و بصیرت کی جو دولت تھی وہ اس سے واپس لے لی گئی۔

''انسلاخ'' ''ا لتصاق'' کے مقابلہ میں بولا جاتا ہے التصاق اس وقت کہا جاتاہے کہ جب دوچیزیں آپس میں ملی ہوئی یاچپکی ہوتی ہیں اور جب ان کے در میان مکمل علاحدگی یابالکل جدا ئی ہو جائے تو اہل عرب اسکو'' انسلاخ ''کہتے ہیں لہٰذا جو لوگ اپنی شہو توں اور خواہشات کے تحت ،قدم اٹھا تے ہیں انکا ر ابطہ علم ومعرفت اور آیات الٰہیہ سے با لکل ختم ہو جاتا ہے اور جس طرح کسی مریض کا معدہ کھانے کوقبول کرنے کے بجائے اسے رد کردیتا ہے اسی طرح انکا نفس علم وحکمت جیسی پا کیزہ اورنفیس اشیا ء کوقبول نہیں کر پاتا ہے ۔

کیونکہ اگراسکا وجود ہو س اور خواہشات کا دلدا دہ ہو جائے تو پھر اسمیں آیات الٰہیہ ،علم و حکمت اوربصیرت کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی اور نہ ہی اسکے وجود میں اخلاقی اقدار وفضائل کا گذر ہوسکتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے :

(حرام علیٰ کل قلب متولّه بالشهوات أن یسکنه الورع )( ۱ )

''یعنی جو دل بھی خواہشات کا دلداد ہ ہو اسکے اندر ورع و پرہیزگاری کا بسیرا حرام ہے '' آپ کا ہی ارشاد ہے :

(حرام علیٰ کل قلب اُغری بالشهوات أن یحل فی ملکوت السمٰوات )( ۲ )

''جودل خواہشات کا فریب خوردہ ہو اس کیلئے ''ملکوت السمٰوات''کی سکونت حرام ہے ' '

____________________

(۱)مجمو عہ ورا م تنبیہ خواطرص ۳۶۲۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۶۴

(حرام علی کل قلب مغلول بالشهوة أن ینتفع بالحکمة )( ۱ )

''جو دل خواہشات کی زنجیروں سے جکڑاہو اسکے لئے حکمت سے استفادہ کر ناحرام ہے ۔''

کیونکہ دل ایک ظرف کی مانند ہے اور ایک ظرف میں خواہشات نفس اوریاد الٰہی ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے ہیں لہٰذااسکے اندریا ذکر الٰہی رہے گا یا خواہشات رہیں گے کیونکہ( مَاجعل ﷲ لرجل من قلبین فی جوفه ) ( ۲ )

'' خداوندعالم نے ایک انسان کے جسم میں دو قلب نہیں بنا ئے ہیں ''

لہٰذا جب انسان اپنی خواہشات کا اتباع کرتا ہے تو پھر خود بخود اسکے دل سے یا دخدا نکل جاتی ہے اور اگر اسمیں یاد خدا آجا تی ہے تو پھر خواہشات کاامکان نہیں رہ جاتاہے۔

لہٰذا جس دل سے یاد خدا نکل جا ئے وہ خواہشات کے راستے پر چل پڑتا ہے جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولاتطع من أغفلنا قلبه عن ذکرنا واتّبع هواه وکان أمره فرطا ) ( ۳ )

''اور ہر گز اس کی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یادسے محروم کردیا ہے وہ اپنی خواہشات کا پیرو کار ہے اور اسکا کام سراسر زیادتی کرنا ہے ۔ ''

خواہشات کی پیروی کایہ دوسرا انجام ہے۔

۳۔شیطان کا تسلط

ارشاد رب العزت ہے :(فأتبعہ الشیطان )''اور شیطان نے اسکا پیچھا پکڑلیا ۔'' پہلے

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۳۴۴۔

(۲)سورئہ ا حزاب آیت ۴۔

(۳)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۶۵

شیطان اس تک پہنچنے یا اس پر قبضہ کر نے سے عاجزتھا مگرخواہشات کی پیروی انسان پر شیطان کے قبضہ کو مستحکم بنادیتی ہے اور انسان جتنی زیادہ خواہشات کی پیروی کرے گا اس پر شیطان کا تسلط اور غلبہ بھی اتنا ہی زیادہ مستحکم ہو جائے گا اور یہ خواہشات کی پیروی کا تیسرا نتیجہ ہے ۔

۴۔ضلا لت و گمراہی

(فکان من الغاوین)''تو وہ گمراہوں میں ہوگیا ''ایسے لوگوں کے سلسلہ میں یہ ایک فطری چیز ہے کیونکہ جب انسان ہویٰ وہوس میں مبتلا ہو جاتاہے اور اس کے دل سے یاد الٰہی نکل جاتی ہے اس پر شیطان کا تسلط قائم ہوجاتاہے تو پھر اسکی ہدایت کا بھی کوئی امکان باقی نہیں رہ جاتا اور اسکی زندگی میںاصلاح کا امکان نہیں ہے لہٰذا وہ جس مقدار میں ہاتھ پیرمارتا ہے اتنا ہی پستیوں میں اترتا چلا جاتا ہے ۔اوریہ خواہشات کی پیروی کا چوتھا نتیجہ ہے۔

۵۔لالچ

ان لوگوں کے بارے میں ارشادا لٰہی ہے :

( فمثلُه کمثل الکلب اِنْ تحملْ علیه یَلْهَثْ او تترکه یلهثْ )

''تو اب اسکی مثال اس کتّے جیسی ہے کہ اس پر حملہ کرو تو بھی زبان نکالے رہے اور چھوڑدو تو بھی زبان نکالے رہے''

۶۶

زبان باہر نکلی رہنا یہ کتوں کی ایک مشہور بیماری ہے اور اسمیں کتے کو ہر وقت پیا س لگی رہتی ہے چنانچہ اسے چاہے جتنا پانی پلا یا جائے اسکی پیاس نہیں بجھ پاتی اور اسی لئے وہ ہمیشہ اپنی زبان باہر نکالے رہتا ہے اورچاہے کوئی اس پر حملہ کرے یا اسے اسی طرح چھوڑ دیا جائے ہر وقت اسکا ایک ہی حال رہتا ہے چنانچہ بالکل اسی صور تحال سے اہل ہوس بھی دوچار رہتے ہیں کہ دنیاوی لذتوں اور رنگینیوں میں غرق ہو نے کے باوجود انکی پیاس نہیںبجھتی چاہے وہ ما لدارہوں یا فقیر انہیں دنیا مل گئی ہو یانہ ملی ہو ان سب کا حال پیاس کے مریض اس کتے کی طرح رہتا ہے جسکی پیاس بہتے دریا بھی نہیں بجھا پاتے ہیں ۔

اسی بارے میں رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا ہے :

( لوکان لابن آدم وادیان من ذهب لابتغیٰ وراء هما ثالثاً ) ( ۱ )

''اگر فرزند آدم کے پاس سونے سے بھری ہوئی دو وادیاں ہوں تب بھی اسے تیسری وادی کی خواہش رہتی ہے''

امام جعفر صادق سے جب ایک آدمی نے اپنے اندر دنیا کی لا لچ اور اسکی طرف توجہ رہنے کی شکایت کی تو آپ نے فرمایا :جو چیز تمہا رے لئے کافی ہے اوروہ تمھیں مستغنی بنادے تو اسکی معمولی مقدار بھی تمہیں مستغنی بنا سکتی ہے لیکن جو چیز تمہارے لئے کا فی ہے اگروہ تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پور ی دنیا بھی تمھیں مستغنی نہیں بنا سکتی ہے اور یہ اس کا پا نچواں نتیجہ ہے ۔( ۲ )

____________________

(۱)مجمو عہ وارم تنبیہ خوا طرص ۱۶۳۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۱۳۹

۶۷

خواہشات کا علاج

ہوس کی تخریبی طاقت

انسانی خو اہشات اس کیلئے جس مقدار میں مفید ہیں اس کے مطا بق انکے اندر قدرت اور طاقت بھی پا ئی جاتی ہے چنانچہ اگر یہ غلط راستے پر لگ جائیں تو پھر یہ اپنی طاقت کے اعتبار سے ہی انسانی زندگی کو تہہ وبالا کر کے رکھ دیتی ہیں ۔۔۔انسانی نفس کے اندر اسکے یہ دونوں (مثبت اورمفید منفی اورمضر )پہلو بالکل طے شدہ ہیں اور اس میں کسی شک وشبہ کی گنجا ئش نہیں ہے کیونکہ خواہشات ہی دراصل انسان کی زندگی کے پہیوںکو گردش دینے والی قوت ہیں اور اگر خداوندعالم نے انسان کے

نفس میں جنسیات ،مال ،خود ی (حب ذات )،کھا نے پینے اور اپنے دفاع کی محبت نہ رکھی ہوتی تو قافلۂ انسانی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھ سکتاتھا ۔لہٰذا خواہشات کے اندر جتنے فا ئد ے ہیں انکے اندر اتنی ہی طاقت موجود ہے اور انکے اندر جتنی طاقت پائی جاتی ہے انکے بہک جانے کی صورت میں انکے نقصانات بھی اسی کے مطابق ہونگے جیسا کہ مولا ئے کا ئنات نے ارشاد فرمایا ہے:

۶۸

(الغضب مفسد للالباب ومبعد عن الصواب )( ۱ )

''غصہ عقلوں کو برباد اور راہ حق سے دور کر دینے والی چیز ہے ''

آپ نے یہ بھی فرما یا ہے :

(أکثرمصارع العقول تحت بریق المطامع )( ۲ )

''عقلوں کی اکثر قتل گاہیں طمع کی جگہوںکی چمک دمک کے آس پاس ہیں''

خواہشات کی پیروی پر روک اور انکی آزادی کے درمیان

یہی وجہ ہے کہ خواہشات کو ایکدم کچل کر رکھ دینا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ خواہش انسانی زندگی کیلئے ایک مفید طاقت ہے جس کے سہار ے کا روان حیات انسانی رواں دواںہے اور اس کو معطل اور نا کارہ بنا دینا یا اسکی مذمت کرنا اور اسکی اہمیت کا اعتراف نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی شخصیت کے ایک بڑے حصہ کا انکار کردیا جائے اور اسکو نقل و حرکت میں رکھنے والی اصل طاقت کو نا کار ہ قرار دیدیا جائے ۔

اسی طرح خواہشات اور ہوس کی لگام کو بالکل ڈھیلا چھوڑ دینا اور انکے ہر مطالبہ کی تکمیل کرنا اور ان کی ہر بات میںہاں سے ہاں ملا نا بھی صحیح نہیں ہے کیونکہ اگر ان کی رسی ڈھیلی چھو ڑدی جائے تو

____________________

(۱)غرر الحکم ج۱ص۶۷ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۹۸۔

۶۹

یہ فائد ہ مند ہو نے کے بجائے انسان کیلئے مضر بن جاتے ہیں ۔

لہٰذا ہمیں یہ اعتراف کر نا پڑیگا کہ شرعی اعتبار سے خواہشات کی محدود تکمیل کی بہت اہمیت ہے اور جس طرح انکو بالکل آزاد چھوڑ دینا صحیح نہیں ہے اسی طرح ہر بات میں انکی تکمیل بھی صحیح نہیں ہے ۔

اسی معیار پر اسلام نے خواہشات کے بارے میں اپنے احکام بنائے ہیں یعنی پہلے وہ خواہشات کو انسان کیلئے ضروری سمجھتا ہے اور اسے فضول چیز قرار نہیں دیتا جیسا کہ قرآن کریم میں پروردگار عالم کاارشاد ہے :

( زُیّن للناسِ حبُّ الشهواتِ من النسائِ والبنینَ والقناطیرِالمقنطرةِمن الذهبِ والفضة ِوالخیلِ المسوّمةِ والأنعام والحرثِ ) ( ۱ )

''لوگوں کے لئے خواہشات دنیا ،عورتیں،اولاد،سونے چاندی کے ڈھیر،تندرست گھوڑے یا چوپائے کھیتیاںسب مزین اور آراستہ کردی گئیں ہیں ''

دوسری آیت میں ارشاد ہے :

( ٔلمالُ والبنونَ زینة الحیاةِ الدنیا ) ( ۲ )

''مال اور اولاد، زندگانی دنیا کی زنیت ہیں ''

ان آیات میں نہ صرف یہ کہ خواہشات کی مذمت نہیں ہے بلکہ اسکو زینت اور جمال زندگانی قرار دیا گیاہے اور اسی اہم نکتہ سے خواہشات کے بار ے میں اسلام کا واضح نظر یہ بھی معلوم ہوجاتا ہے ۔

دوسر ے مرحلہ پر اس نے ہمیں اپنی خواہشات کو پورا کر نے اور دنیاوی لذتوں سے بہرہ مند ہونے کا حکم دیا ہے :

____________________

(۱)آل عمر ان آیت۱۴۔

(۲) سورئہ کہف آیت۴۶ ۔

۷۰

( کلوا من طیبات مارزقناکم ) ( ۱ )

''تم ہمارے پاکیزہ رزق کو کھائو ''

یایہ ارشاد الٰہی ہے :

( ولا تنس نصیبک من الدنیا ) ( ۲ )

''اور دنیا میں اپنا حصہ بھول نہ جائو''

اور اسی طرح یہ بھی ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعبادهِ والطیبات من الرزق ) ( ۳ )

''پیغمبر آپ ان سے پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کیلئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ہے''

خواہشات کے بارے میں اسلام نے یہ دوسرا نظریہ پیش کیا ہے جس کے اندر نہ اپنی خواہشات کی تکمیل کی کھلی چھوٹ ہے کہ جس کا جس طرح دل چاہے وہ اپنی خواہشات کی پیاس بجھاتا رہے اور کسی قاعد ہ وقانون کے بغیر سر جھکا کر انھیں کے پیچھے چلتا رہے ۔

امام جعفر صادق نے فرما یا ہے :

(لاتدع النفس وهواها فن هواها رداها )( ۴ )

''اپنے نفس کو اسکے خواہشات کے اوپر نہ چھو ڑدو کیونکہ اسکے خواہشات میں اسکی پستی اور

____________________

(۱)سورئہ طہ آیت۸۱ ۔

(۲)سورئہ قصص آیت۷۷ ۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۳۲ ۔

(۴)اصول کافی ج۲ص۳۳۶۔

۷۱

ذلت ہے ''

ان تمام پا بند یوں اور سختیوں کے باوجود اسلام نے انسانی خواہشات کی تسلی کیلئے ایک نظام بنا کر خود بھی اس کے بیحد موا قع فراہم کئے ہیں جیسے اسلام نے جنسیات کو حرام قرار نہیں دیا ہے اور نہ اس سے منع کیا ہے اور نہ ہی اسے کوئی بر ایا پست کام کہا ہے بلکہ خود اسکی طرف رغبت دلا ئی ہے اور اسکی تاکید کی ہے البتہ اسکے لئے کچھ شرعی قواعد و ضوابط بھی بنائے ہیں اسی طرح مال سے محبت کرنے کونہ اسلام منع کر تاہے اور نہ اسے بر اکہتا ہے بلکہ یہ تمام انسانو ں کیلئے مباح ہے البتہ اسکے لئے بھی کچھ قو اعد وقوانین مرتب کردئے گئے ہیں تا کہ مالی یا جنسی خواہشات وغیرہ کی تسلی کیلئے ہر شخص کے سامنے مواقع موجود رہیں اور کوئی شخص بھی بے راہ رو ی کا شکار نہ ہو نے پا ئے یہ خواہشات کے بارے میں اسلامی نظر یہ کا تیسر ا نکتہ ہے۔

خواہشات کو قابو میں رکھنے کے لئے ''عقل ''کا کردار

خواہشات کو بغاوت اور سر کثی سے روکنے اور ہرلحاظ سے انکی تکمیل سے منع کرنے اور اسی طرح انکی تسلی کی معقول حدبندی کیلئے انسانی عقل میدان عمل میں ہمیشہ فعال رہتی ہے اور شاید اسی لئے عربی زبان میں عقل کو عقل کہا جاتا ہے کہ عقل کسی کو لگام لگانے یا پھند ے کو کہتے ہیںاور خدا نے عقل کو یہی ذمہ دار ی سونپی ہے کہ وہ خواہشات کو لگام لگا کر اپنے قابو میں رکھے جیسا کہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرما یا ہے :

(ن العقل عقال من الجهل،والنفس مثل أخبث الدواب )( ۱ )

''عقل جہالت سے بچانے والی لگام ہے اور نفس خبیث ترین چو پائے کی طرح ہے ''

روایات میں اسی مضمون کی طرف کثر ت سے اشارے موجود ہیں بطورنمونہ حضرت علی

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۱۷ ۔

۷۲

کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرما ئیں :

٭(فکرک یهدیک لی الرشاد )( ۱ )

''تمہار ی فکر تمہیں رشدو ہدایت کی طرف رہنما ئی کرتی ہے ''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهی ٰ)( ۲ )

''نفس کے اندر مختلف قسم کی خواہشات ابھرتی رہتی ہیں اور عقل ان سے منع کرتی رہتی ہے ''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجر منها )( ۳ )

''دلوں کے اندر برے خیالات پید ا ہو تے ہیں اور عقل ان سے بازر کھتی ہے ''

٭ (النفوس طلقة،لکن أیدی العقول تمسک اعنتها )( ۴ )

''نفس تو با لکل آزاد ہوتے ہیں لیکن عقلوں کے ہاتھ انکی لگام تھامے رہتے ہیں ''

٭ (ثمرةالعقل مقت الدنیا وقمع الهویٰ) ( ۵ )

''عقل کا پھل دنیا کی نا راضگی اور خو اہشات کی تا راجی ہے ''

مختصر یہ کہ انسانی زندگی میں اسکی عقل کا کار نامہ یہ ہے کہ وہ خواہشات کواپنے محدود تقاضو ں کے تحت کنٹرول کر تی ہے اور اس کی ہوس کو سر کشی اور بغا وت سے رو کتی رہتی ہے اور انسان کو اس کی خو اہشات کی تکمیل میں بے لگام نہیں رہنے دیتی لہٰذا جس کی عقل جتنی کامل اور پختہ ہو تی ہے وہ اپنی خو اہشات پر اتنی ہی مہارت اور آسانی سے غلبہ حا صل کر لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

(۲)تحف العقول ص۹۶۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۵)غررالحکم ج۲ص۳۲۳۔

۷۳

حضرت علی :

(العقل الکامل قاهرالطبع السوئ )( ۱ )

''عقل کا مل بری طبیعتوں پر غالب رہتی ہے ''

اور یہی نہیں بلکہ خواہشات پر کنڑول ہی انسان کی عقل سلیم کی پہچان ہے ۔

حضرت علی :

(حفظ العقل بمخالفة الهویٰ والعزوف عن الدنیا )( ۲ )

''خواہشات کی مخالفت اور دنیاسے بے رغبتی کے ذریعہ عقل محفوظ رہتی ہے ''

امام محمد باقر :

(لاعقل کمخالفة الهویٰ )( ۳ )

''خواہشات کی مخالفت سے بہتر کوئی عقل نہیں ہے''

حضرت علی :

(من جانب هواه صح عقله )( ۴ )

''جس نے اپنی خواہشات سے کنارہ کشی اختیار کرلی اسکی عقل صحیح وسالم ہو جا ئے گی ''

ان احادیث سے بھی یہ روشن ہوتا ہے کہ عقل اور خواہشات دونوں ہی انسان کی زندگی کے دو اہم ستون ہیں ان میںسے خواہشات، انسانی حیات کے سفینہ کی نقل وحرکت اور اسکی تعمیرو ترتی میں پتوار کا فریضہ ادا کرتے ہیں اور عقل اسکو بغاوت وسر کشی اور فتنہ وفساد کے خطرناک نشیب وفرازسے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۹۔

(۲)غرر الحکم ج۱ص۳۴۵۔

(۳)بحارالانوار ج۷۸ص۱۶۴۔

(۴)بحارالانوار ج۱ص۱۶۰۔

۷۴

نکال کر ساحل تک پہنچا نے کی اہم ذمہ داری ادا کرتی ہے ۔۔۔لہٰذا ہر انسان کے لئے جس طرح جسم وروح ضردری ہیں اسی طرح اس کے لئے ان دونوں کاوجودبھی ضروری ہے ۔

عقل اور دین

انسانی زندگی میں دین بھی وہی کردار ادا کرتا ہے جو عقل کا کر دار ہے یعنی جس طرح عقل ، خواہشات کو مختلف طریقوں سے اپنے قابو میں رکھتی ہے اسی طرح دین بھی انھیں بہکنے سے بچاتا رہتا

ہے یعنی عقل اور دین کے اندرہر طرح کی فکری اور عملی یکسانیت اور مطابقت پائی جاتی ہے کیونکہ دین ایک الٰہی فطرت ہے جیسا کہ آیۂ کر یمہ میں ارشاد ہے :

( فطرةﷲ التی فطرالناس علیهالاتبدیل لخلق ﷲذلک الدین القیم ) ( ۱ )

''دین وہ فطرت الٰہی ہے جس پر اس نے انسانوں کو پیدا کیا ہے اور خلقت الٰہی میں کوئی تبدیلی نہیں ہوسکتی ہے یقینا یہی سید ھا اور مستحکم دین ہے ''

وہ فطرت جو انسان کے اوپر حکمراں ہو تی ہے اور عقل بھی اسی کے ساتھ ساتھ چلتی ہے وہ ''دین' 'ہے جسکے ذریعہ ﷲ تعالی نے حیات بشری کو دوام بخشا اور حیات بشری کے ذریعہ اسے قائم ودائم فرمایا لہٰذا دین بھی خواہشات کو کنڑول کر نے کے سلسلہ میں عقل کی امداد کرتاہے اور خود بھی اسی ذمہ داری کو ادا کرتاہے مختصر یہ کہ عقل اور دین ایک ہی سکے کے دورخ ہیں ۔

حضرت علی :

(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج )( ۲ )

''عقل بدن کی اندرونی شریعت اور شریعت بدن کے باہر موجود عقل کا نام ہے ''

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۳۰۔

(۲)کتاب جوان :آقا ئے محمد تقی فلسفی ج۱ص۲۶۵۔

۷۵

امام مو سیٰ کا ظم :

(ﷲ علی الناس حجتین :حجة ظاهرة وحجة باطنة، فاماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام واماالباطنة فالعقول )( ۱ )

''لوگوں پر خدا وندعالم کی دوحجتیں (دلیلیں )ہیں ایک ظاہر ی حجت اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت و دلیل۔ ظاہر ی دلیل انبیاء اور ائمہ ہیں جبکہ باطنی حجت عقل ہے ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(حجة ﷲعلیٰ العبادالنبی،والحجة فیما بین العباد وبین ﷲ العقل )( ۲ )

''بندوں کے اوپر خدا وندعالم کی حجت اسکے انبیاء ہیں اور خداوندعالم اور اسکے بندوں کے درمیان ،عقل حجت ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ص۱۳۷۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۶

عقل کے تین مراحل

انسانی زندگی میں عقل کے تین اہم کردار ہوتے ہیں :

۱۔ معرفت الٰہی۔

۲۔خداوندعالم نے جو کچھ اپنے بندوں پر واجب کیا ہے اسکی اطاعت کرنا کیونکہ ﷲتعالیٰ کی صحیح معرفت کا نتیجہ اسکی اطاعت اور بندگی کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔

۳۔تقوائے ا لٰہی: یہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کا دوسرا رخ ہے کیونکہ خداوندعالم کی اطاعت وبندگی کی بھی دوقسمیں ہیں ۔

۱۔واجبات کو بجالانا اور محرمات سے پر ہیز کرنا اور تقویٰ درحقیقت نفس کو محرمات سے باز

رکھنے کا نام ہے ۔اور شاید مندرجہ ذیل روایت میں بھی عقل کے مذکورہ تینوں مرحلوں کی وضاحت موجود ہے:

۷۷

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(قُسّم العقل علیٰ ثلاثة أجزائ،فمن کانت فیه کمل عقله،ومن لم تکن فیه فلا عقل له:حسن المعرفة بﷲعزوجل،و حسن الطاعة ﷲ،وحسن الصبرعلیٰ أمره )( ۱ )

''عقل کے تین حصے کئے گئے ہیں لہٰذا جسکے اندر یہ تینوں حصے موجود ہوں اسکی عقل کامل ہے اور جسکے اندر یہ موجود نہ ہوں تواسکے پاس عقل بھی نہیں ہے !

۱۔حسن معرفت الٰہی (خداوندعالم کی بہتر ین شناخت ومعرفت اور حجت آوری)۔

۲۔ﷲکی بہترین اطاعت وبندگی ۔

۳۔اسکے احکامات پر اچھی طرح صبر کرنا ''

خدا کے احکام پر صبر کرنے کا دوسرا نام خواہشات پر قابو پانا ہے اور اس کو تقویٰ بھی کہا جاتا ہے کیونکہ خواہشات پر قابو پانا اور انھیں اپنے کنڑول میں رکھنے کیلئے جتنا زیادہ صبر درکار ہے اتنا صبر کسی اور کام کیلئے درکار نہیں ہوتا ہے ۔

اب ان تینوں مراحل کی تفصیل ملا حظہ فرمائیں :

۱۔معر فت اور حجت آوری

عقل کی پہلی ذمہ داری معرفت اور شناخت ہے ۔کیونکہ اس دنیا کے حقائق اور اسرار سے پر دہ اٹھا نے کا ذریعہ(آلہ )عقل ہی ہے اگرچہ اہل تصوف اسکے مخالف ہیں اور وہ عقل کی معرفت اور

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۰۶۔

۷۸

شناخت کے قائل ہی نہیں ہیں انکا کہنا ہے کہ اس دنیا کے حقائق اور خداوندعالم اور اسی طرح غیب کی معرفت کے بارے میں عقل کا کوئی دخل نہیں ہوتاہے ۔جبکہ اسلام عقل کی قوت تشخیص کا قائل ہے اور وہ اسے علم ومعرفت کا ایک آلہ قراردیتا ہے اور دنیا کے مادی یا غیر مادی تمام مقامات پریا اس دنیا کے خالق یا واجبات اور محرمات جیسے تمام مسائل میں اس کی مز ید تا ئید کرتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اس سلسلہ میں یہ ارشاد فرمایا ہے :

(نمایدرک الخیرکله فی العقل )( ۱ )

'' ہرخیر کو عقل میں تلاش کیا جاسکتا ہے ''

آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :

(استرشدوا العقل ترشدوا ولا تعصوه فتندموا )( ۲ )

''عقل سے رہنمائی حاصل کرو تو راستہ مل جائے گا اوراسکی نافرمانی نہ کرنا ورنہ شرمندگی اٹھانا پڑے گی ''

حضرت علی :

(العقل أصل العلم وداعیة الفهم )( ۳ )

''عقل ،علم کی بنیاد اور فہم (غوروفکر)کی طرف دعوت دینے والی ہے''

امام جعفر صادق :

(العقل دلیل المؤمن )( ۴ )

____________________

(۱)تحف العقول ص۵۴ ۔ بحارالانوا ر ج ۷۷ ص۱۵۸۔

(۲)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۲۔

(۴)اصول کافی ج۱ص۲۵۔

۷۹

''عقل مومن کی رہنما ہے''

دنیا کے حقائق اور اسرار ورموز کی معرفت کیلئے عقل کی قدروقیمت اور اہمیت کیا ہے؟ اسکو روایات میں یوں بیان کیا گیا ہے:''خداوند عالم اپنے بندوں پر عقل کے ذریعہ ہی احتجاج (دلیل) پیش کریگا اور اسی کے مطابق ان کو جزا یا سزا دی جائیگی ''اس مختصر سے جملہ کے ذریعہ انسانی زندگی میں عقل کی قدروقیمت اور دین خدا میں اسکی اہمیت کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔

امام موسی کاظم :

(أن ﷲ علیٰ الناس حجتین حجة ظاهرة وحجة باطنة،فأماالظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة عليه‌السلام ،وأما الباطنة فالعقول )( ۱ )

''بندوں پر خداوند عالم کی دوحجتیں (دلیلیں)ہیں ایک کھلی ہوئی اور ظاہر ہے اور دوسری پوشیدہ ہے ظاہری حجت اسکے رسول، انبیاء اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ حجت کا نام عقل ہے''

آپ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے:

(ان ﷲ عزوجل أکمل للناس الحجج بالعقول،وأفضیٰ لیهم بالبیان،ودلّهم علیٰ ربوبیته بالادلة )( ۲ )

''خداوند عالم نے عقلوں کے ذریعہ لوگوں پر اپنی سب حجتیں تمام کردی ہیں اوربیان سے ان کی وضاحت فرمادی اور دلیلوں کے ذریعہ اپنی ربوبیت کی طرف ان کی رہنمائی کردی ہے''

لہٰذاعقل ،انسان کے اوپر خداوند عالم کی حجت اور دلیل ہے جسکے ذریعہ وہ اپنے بندوں کا فیصلہ کرتا ہے اوراگر فہم وادراک کی اسی صلاحیت کی بناء پر اسلام نے عقل کو اس اہمیت اور عظمت سے

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱ ص ۱۳۷۔

(۲)بحارالانوار ج۱ص۱۳۲۔

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349