خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: اخلاقی کتابیں
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 96711 / ڈاؤنلوڈ: 4140
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

اسی لئے خداوند عالم نے قرآن مجید میں نفس کی پیروی کرنے سے بار بار منع کیا ہے اور اسکی مخالفت کی تاکید فرمائی ہے ۔نمونہ کے طورپرمندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں:

( فلا تتبعوا الهویٰ ) ( ۱ )

''لہٰذا ہوی وہوس کی پیروی نہ کرنا''

( ولاتتبع الهویٰ فیضلّک عن سبیل ﷲ ) ( ۲ )

''اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منحرف کردیں''

( ولاتتبع اهوائهم عماجائک من الحق ) ( ۳ )

''اور جوکچھ حق تمہارے پاس آیا ہے اسکے مقابلہ میں ان کی خواہشوں کی پیروی نہ کرو''

ہویٰ و ہوس کی پیروی سے بچنے کی مانند خداوند عالم نے ہمیں ''طاغوت ''کا انکار کرنے اور اس سے دور رہنے کا بھی حکم دیا ہے:

( یریدون ان یتحاکموا لی الطاغوت وقد أمروا أن یکفروا به ) ( ۴ )

____________________

(۱)سورئہ نساء آیت ۱۳۵۔

(۲)سورئہ ص آیت ۲۶۔

(۳)سورئہ مائدہ آیت ۴۸۔

(۴)سورئہ نساء آیت ۶۰۔

۴۱

''وہ یہ چاہتے ہیں کے سرکش لوگوں (طاغوت)کے پاس فیصلہ کرائیں جبکہ انہیں حکم دیا گیا ہے کہ طاغوت کا انکار کریں''

( والذین اجتنبوا الطاغوت أن یعبدوها وأنابوا الی ﷲ لهم البشریٰ ) ( ۱ )

''اور جن لوگوں نے طاغوت کی عبادت سے علیٰحدگی اختیار کی اور خدا کی طرف متوجہ ہوگئے ان کے لئے ہماری طرف سے بشارت ہے''

( ولقدبعثنافی کل أمةرسولاأن اعبدواﷲواجتنبواالطاغوت ) ( ۲ )

''اور یقینا ہم نے ہر امت میں ایک رسول بھیجا ہے کہ تم لوگ ﷲ کی عبادت کرو اور طاغوت سے اجتناب کرو''

عقل اور دین

ہویٰ وہوس اور طاغوت کے مقابلہ میں انسان کو راہ راست پر ثبات قدم عطا کرنے کیلئے خداوند عالم نے دوراستے کھول دئے ہیں ایک عقل اور دوسرے دین۔عقل انسان کے اندر رہ کر اسکی اصلاح کرتی ہے اور دین باہرسے اسکی ہدایت کا کام انجام دیتا ہے۔

اسی لئے حضرت امیر المومنین نے فرمایا ہے:

(العقل شرع من داخل،والشرع عقل من خارج )( ۳ )

''عقل اندرونی شریعت ہے اورشریعت بیرونی عقل کا نام ہے''

امام کاظم کا ارشاد ہے:

____________________

(۱)سورئہ زمر آیت ۱۷۔

(۲)سورئہ نحل آیت ۳۶۔

(۳)مجمع البحرین للطریحی مادہ عقل۔

۴۲

(ان للّٰه علی الناس حجتین حجة ظاهرة وحجة باطنة فأماالحجة الظاهرة فالرسل والانبیاء والائمة وأماالباطنة فالعقول )( ۱ )

''لوگوں کے اوپرخداوند عالم کی دو حجتیں اور دلیلیں ہیں جن میں ایک ظاہری اور دوسری پوشیدہ اور باطنی حجت ہے۔ظاہری حجت انبیاء ،مرسلین اور ائمہ ہیں اور پوشیدہ اور باطنی حجت''عقل'' ہے ۔ ''

عقل اور دین کے سہارے انسان داخلی وخارجی سطح پر بخوبی ہویٰ و ہوس اور طاغوت کا مقابلہ کرسکتاہے۔جیسا کہ مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

خواہشات کی تباہ کاریاں

یہ بے لگام قوت جسکے مطالبات کی بھی کوئی حد نہیں ہے یہ انسان کے اندر تخریب کا ری اور فسادوانحراف کی اتنی زیاد ہ قوت و طاقت رکھتی ہے کہ اس کی طاقت کے برابرشیطان اور طاغوت جیسی طاقتوں کے اندربھی قوت وطاقت نہیں پائی جاتی ہے۔

اور سب سے زیادہ خطرناک بات تو یہ ہے کے انسان کو نیست ونابود کرنے والی یہ طاقت انسان کے وجود میں ہی سمائی ہوئی ہے اور انسان کے پاس اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا کوئی راستہ بھی نہیں ہے یہی وجہ ہے کہ پیغمبراکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ جن دوچیزوں کا خوف لاحق تھاان میں سے ایک'' خواہشات نفس'' ہے جیسا کہ آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشادگرامی ہے :

____________________

(۱)بحارج۱ص۱۳۷۔اصول کافی ج۱ص۱۶۔

(۲)نہج البلاغہحکمت۴۲۴

۴۳

(ن أ خوف ماأخاف علیٰ اُمتّی:الهویٰ وطول الأمل،أماالهویٰ فاِنه یصد عن الحق،وأماطول الأمل فینسی الآخرة )( ۱ )

''مجھے اپنی امت کے بارے میں دو چیزوں کا سب سے زیادہ خوف لاحق رہتا ہے ہویٰ وہوس، لمبی لمبی آرزوئیں،کیونکہ خواہشات ، حق تک پہنچنے کے راستے بند کردیتی ہیں اور لمبی لمبی آرزوئیں آخر ت کا خیال ذہن سے نکال دیتی ہیں''

اور اس کی وجہ یہی ہے کہ ہوی وہوس انسان کے اندر رہ کر اسے گمراہ کرتی ہے اسی لئے مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(اللذات مفسدات )( ۲ )

''لذتیں تباہ کن ہیں''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۸۸حدیث ۱۹ ج۷۰ص۷۵ حدیث ۳وح۷۰ص۷۷ح۹و۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۳۔

۴۴

تباہ کا ری کے مراحل

حیات انسانی میں خواہشات کے منفی اور تخریبی کردارپر بھی ہمیں غور کر نا چاہئے کہ ہم پہلے بیان کرچکے ہیں کہ انسانی وجود میںکچھ ایسے بنیادی محرکات پائے جاتے ہیں جن کی بناپر علم و معرفت پیدا ہوتی ہے اورانہیں کے ذریعہ انسان کی مادی اور معنوی زندگی پروان چڑھتی ہے اسی طرح اسکے انسانی اور حیوانی دونوں پہلووں کی انہیں محرکات کے ذریعہ تکمیل ہوتی ہے ۔

مگر ان تمام محرکات کے درمیان خواہشات اور ہویٰ وہوس ایسا محرک ہے کہ اگر خواہشات اپنی رو میں ہوں اوران میں طغیانی آجائے تو پھریہ انسان کے اندر موجود دوسرے محرکات کو بالکل معطل اور ناکارہ بنا دیتے ہیں اور عقل،دل،ضمیر،فطرت اورارادہ کی حیثیت بالکل ختم ہو جاتی ہے۔وسیع پیمانہ پر ۔۔۔ ان محرکات کی معطّلی کے بعد انسانی پہلو بالکل نیست و نابود ہوجاتاہے اور انسانی نفس میں محرک کی حیثیت سے خواہشات کے علاوہ کچھ اور باقی نہیں رہتاہے جبکہ تمام حیوانی پہلووں کی تشکیل انہیں خواہشات سے ہوتی ہے۔

اس طرح انسانی زندگی کے اندر یہ مفیداور کارآمد عنصرہلاکت اور بربادی کا موجب ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :

(ولاتطع من أغفلناقلبه عن ذکرناواتبع هواه وکان أمره فرطا )( ۱ )

''اور ہرگز اس کی اطاعت نہ کر نا جسکے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کردیا ہے اور وہ اپنے خواہشات کا پیرو کار ہے اور اس کا کام سراسر زیادتی کرنا ہے ''

فرط تفریط سے بنا ہے جسکے معنی ضائع و برباد کرنا ہیں۔

انسانی زندگی میںہو یٰ و ہوس کے تخریبی کردار کی طرف قرآن وحدیث میں خصوصی توجہ دلائی گئی ہے تا کہ لوگ خواہشات کے خطرات سے بخوبی آگاہ رہیں اور اسکی تباہ کا ریو ںکاشکار نہ ہو نے پائیں ۔

ذیل میںہم اسلامی نکتہ نظر سے خواہشات اورہویٰ و ہوس کی تباہیوں اور بربادیوں کا جائزہ پیش کررہے ہیں ۔

ہمیں آیات اورروا یا ت کے مطابق خواہشات کی تخریبی کار روائی کے دو مرحلے دکھائی دیتے ہیں پہلے مرحلہ میں توخواہشات ،انسان کے اندر علم ومعرفت اور خداوندعالم کی طرف لے جانے والے تمام ذرائع کو معطل اور نیست ونابود کرکے رکھ دیتی ہیں۔

دوسرے مرحلہ میں ان تمام ذرائع کومعطل کرنے کے بعدخواہشات انسان کو مکمل طورپر

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۴۵

اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور اس پر خواہشات کی حکمرانی ہوتی ہے انسان ہر اعتبار سے ان کی حکومت کے سا منے گھٹنے ٹیک دیتا ہے اورخواہشات کا ا سیربن کررہ جاتاہے جسکے نتیجہ میں خداوندعالم نے انسان کو جو کچھ طاقتیں، صلاحیتیں اور فہم و فراست عطا فرمائی تھی وہ سب ہویٰ و ہوس کا آلۂ کار بن جاتی ہیں۔

اب آپ قرآن وحدیث کی روشنی میں خواہشات کے ان دونوںمرحلوں کی تفصیل ملاحظہ فر ما ئیں۔

خواہشات کی تخریبی کارروائیوں کا پہلا مرحلہ

ہم یہ عرض کر چکے ہیں کہ پہلے مرحلہ میں ہویٰ و ہوس علم و عمل کی تمام خدا داد صلاحیتوں کو معطل کردیتی ہے۔اسکے علاوہ بھی یہ انسان کے اندربہت خرابیاں پیدا کرتی ہے آیات و روایات میں مختلف عناوین کے تحت ان خرابیوں کا تذکرہ موجودہے ہم موضوع کی مناسبت سے صرف چند نمونے پیش کررہے ہیں ۔

۱۔خواہشا ت ،قلب پر ہدایت کے در وازے بند کر دیتے ہیں۔

ﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے :

(أفرأیت من اتخذ لٰهه هواه وأضله ﷲعلیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوةً فمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون )( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیا ہے اور اسکے کا ن اور دل پر مہر لگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہو ئے ہیں اور خدا کے بعد کو ن ہدایت کر سکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو''

دوسرے مقام پر خداوندعالم کا ارشاد ہے:

____________________

(۱)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

۴۶

( فن لم یستجیبوالک فاعلم أنمایتبعون أهوائهم ومن أضل ممن تبع هواه ) ( ۱ )

''پھر اگر یہ آپ کی بات کو قبول نہ کریں تو سمجھ لیجئے کہ یہ صرف اپنی خواہشات کا اتباع کرنے والے ہیں اور اس سے زیادہ گمراہ کون ہے جو خدا کی ہدایت کے بغیر اپنی خواہشات کا اتباع کرے ''

ان آیات سے اندازہ ہوتا ہے کہ خواہشات انسان کے دل کے اوپر خدا،رسول،خدائی آیات ودلائل اور ہدایت کے تمام راستے مکمل طورپر بندکر دیتے ہیں اورقلب سے خدا ورسول کی دعوت پر لبیک کہنے کی صلاحیت کوسلب کر لیتے ہیں ۔

مزید تائید کے لئے مو لا ئے کا ئنات کے یہ ارشادات ملا حظہ فرما ئیے :

(من اتبع هواه أعماه،وأصمّه،وأذلّه )( ۲ )

''جو اپنی خواہشات کی پیروی کرے گاخواہشات اس کو اندھا بہرابنادیں گی اوراس کوذلیل ورسواکردیں گی ۔''

٭(الهوی شریک العمی )( ۳ )

''خواہشیں نابینائی کے شریک کار ہوتی ہیں ۔''

٭(نک نْ أطعت هواک أصمّک وأعماک )( ۴ )

''اگرتم اپنے خواہشات کی پیروی کروگے تو وہ تم کو بہرا اور اندھا بنا دینگے ''

____________________

(۱)سورئہ قصص آیت۵۰۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۲۴۲۔

(۳)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

(۴)غررالحکم ج ۱ص۲۶۰ ۔

۴۷

(اوصیکم بمجا نبة الهویٰ،فن الهویٰ یدعولی العمی وهوالضلال فی الآخرةوالدنیا )( ۱ )

میں تم کوخواہشات سے دور رہنے کی وصیت کرتاہوں کیونکہ خواہشات اند ھے پن کی طرف لیجاتی ہیں اور وہ دنیا اور آخرت دونوں جگہ کی گمراہی ہے ۔''

۲۔خواہشات گمراہی کا ذریعہ

خدا وند عالم کا ارشادہے :

( فخلف من بعدهم خلف أضاعوا الصلاة واتبعوا الشهوات فسوف یلقون غیّا ) ( ۲ )

''پھر ان کے بعد ان کی جگہ پر وہ لوگ آگئے جنھوںنے نماز کو برباد کردیا اور خواہشات کا اتباع کرلیا پس عنقریب یہ اپنی گمراہی سے جا ملیں گے''

اور ﷲتعالیٰ کا یہ ارشاد بھی ہے :

( ولا تتبع الهویٰ فیضلک عن سبیل ﷲان الذ ین یضلون عن سبیل ﷲ لهم عذاب شدید ) ( ۳ )

''اور(اے دائود)! خواہشات کی پیروی نہ کرو کہ وہ راہ خدا سے منصرف کردیں بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کیلئے شدید عذاب ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(نّ أخوف ماأخاف علیٰ اُمتی،الهویٰ،وطول الأ مل،أماالهویٰ فنّه

____________________

(۱)مستدرک ومسائل الشیعہ ۳۴۵۲طبع قدیم ۔

(۲)سورئہ مریم آیت۵۹۔

(۳)سورئہ ص آیت ۲۶۔

۴۸

یصد ُّعن الحق،وأماطول الأمل فینسی الآخرة )( ۱ )

''مجھے اپنی امت کے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کا خوف ہے ۔خواہشات نفس اور لمبی لمبی آرزوئیں کیونکہ خواہشات اور ہویٰ و ہوس حق تک پہو نچنے کے راستے بند کردیتی ہیں اور لمبی لمبی آرزو ئیں آخرت کا خیا ل ذہن سے نکال دیتی ہیں ''

۳۔خواہشات ایک مہلک زہر

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(الشهوات سمومات قاتلات )( ۲ )

'' خواہشات مہلک زہر ہیں ''

۴۔خواہشات آفت اور بیماری

اس سلسلہ میں حضرت علی کے یہ اقوال ملا حظہ فرما ئیں :

(من تسرّع الیٰ الشهوات تسرّعت الیه الآفات )( ۳ )

''جو خواہشات کی طرف جتنی تیزی سے بڑھے گا اسکے اوپر اتنی ہی تیزی سے آفتیںآن پڑیں گی''

(احفظ نفسک من الشهوات،تسلم من الآفات )( ۴ )

''اپنے نفس کو خواہشات سے بچاکر رکھو تو آفتوں سے محفوظ رہوگے ''

____________________

(۱)خصال صدوق جلد ۱صفحہ ۲۷ ،بحارالانوارج۷۰ص۷۵حدیث۳وج۷۰ص۷۷حدیث۷وج۷۰ ص ۸۸ حدیث۱۹۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۴ ۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۲۰۱۔

(۴)گذشتہ حوالہ۔

۴۹

(رأس الآفات الوله باللذ ات )( ۱ )

''آفتوں کی اصل وجہ لذات و خواہشات کا دلدادہ ہوناہے۔''

(قرین الشهوة مریض النفس معلول العقل )( ۲ )

''شہوتوں اور خواہشوں کے دلد اد ہ کا نفس مریض اور عقل بیمار ہو تی ہے ''

(الشهوات أعلال قاتلات،وأفضل دوائهااقتناء الصبرعنها )( ۳ )

''خواہشات مہلک بیماریاں ہیں اور ان سے پرہیز کر نا ہی ان کی بہترین دوا ہے''

(أول الشهوةطرب وآخرهاعطب )( ۴ )

''خواہشات کاآغاز لطف انگیز اور انجام زحمت خیز ہوتاہے۔''

۵۔خواہشات آزمائشوں کی بنیاد

حضرت علی کا ارشاد ہے:

(الهویٰ اُسّ المحن )( ۵ )

''ہوس آزمائشوں کی بنیاد ہے ''

۶۔خواہشات فتنوں کی چر اگاہ

حضرت علی کا ارشادہے:(الهویٰ مطیّةالفتن )( ۶ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۳۷۲۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۷۷و۷۸۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۹۰۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۱۹۵۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۵۰ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۵۱۔

۵۰

''خواہشات فتنوں کی چر اگاہ ہیں ۔''

آپ ہی کا ارشاد ہے:

(انّمابدء وقوع الفتن أهواء تُتّبع )( ۱ )

''فتنوں کے واقع ہو نے کی ابتدا ان خواہشات سے ہوتی ہے جنکی پیروی کی جائے ۔ ''

(ایاکم وتمکّن الهویٰ منکم،فان أوّله فتنة،وآخره محنة )

''ذرا سنبھل کر ،کہیں تمہار ی خواہشات تم پر حاوی نہ ہو جائیں کیونکہ انکی ابتداء فتنہ اور انتہا آزمائش طلب ہوتی ہے ۔''

۷۔خواہشات ایک پستی

حضرت علی :

(الهویٰ یُردی )( ۲ )

''ہویٰ و ہوس پستی میں گرادیتی ہے ۔''

آپ ہی کا یہ ارشاد بھی ہے :

(الهویٰ هوّی الیٰ اسفل السافلین )( ۳ )

''انسانی ہوس ،پستیوں کی آخری تہوں میں گرا دیتی ہے ''

امام جعفر صادق کا قول ہے :

(لاتدع النفس وهواها،فان هواها رداها )( ۴ )

____________________

(۱)نہج البلا غہ خطبہ ۵۰ ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۶۵۔

(۴)بحارالانوار ج۷۰ص۸۹حدیث۲۰۔

۵۱

''نفس کو اس کی خو اہشات کے اوپر نہ چھوڑ دو کیونکہ اس کی خو اہشات ہی اس کی پستی ہیں ''

۸۔خو اہشات موجب ہلا کت

حضرت علی کا ارشادہے:

(أهلک شیٔ الهویٰ) ( ۱ )

''سب سے زیادہ مہلک چیز خو ا ہشات ہیں''

(الهویٰ قرین مهلک )( ۲ )

''خو اہشات مہلک سا تھی ہیں ''

۹۔خو اہشات انسان کی دشمن

حضرت امام جعفر صادق کا ارشادہے:

(أحذروا اهوائکم کماتحذرون أعدائکم،فلیس شی ء أعدیٰ للرجال من اتّباع أهوائهم )( ۳ )

''اپنی خو اہشات سے اسی طرح ڈرو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو کیونکہ لو گوں کے لئے ان کی خو ا ہشات سے بڑا کو ئی دشمن نہیں ہے''

۱۰۔عقل کی بربادی

حضرت علی کا ارشادہے:(آفة العقل الهویٰ )( ۴ )

____________________

(۱)غرر الحکم ج ۱ ص ۱۸۰۔

(۲)غرر الحکم ج ۱ ص۴۷۔

(۳)بحا رالانوار ج ۷۰ ص ۸۲ حدیث ۱۲۔

(۴)غرر الحکم ج ۱ ص۲ ۲۷۔

۵۲

''خواہشات عقل کو برباد کرنے والی آفت ہیں۔''

(من لمیملک شهوته لم یملک عقله )( ۱ )

''جس کا اپنی خواہشوں کے او پر اختیار نہیں رہتا وہ اپنی عقل کا اختیار بھی کھو بیٹھتا ہے ''

(زوال العقل بین دواعی الشهوةوالغضب )

'' عقل دو چیزوں میں زائل ہو تی ہے :شہوت اور غضب''

ہویٰ و ہوس اور خواہشات کا عالم یہ ہے کہ جب ان میں طغیانی پیداہوتی ہے تو یہ مفید اورکار آمد عنصر،تعمیر کے بجائے تخریب اور دوسرے اہم بنیادی منابع و محرکات کی بربادی کا سبب بن جاتاہے

یہ تھا خواہشات کی کارروائی کا پہلا مرحلہ ،جس میں انسانی زندگی پر خواہشات کا منفی اور تخریبی کردار بخوبی واضح ہوگیا۔

خو ا ہشات کی تباہ کاری کا دو سرا مر حلہ

خو اہشات کی جن تباہ کا ریوں کی طرف ہم نے ابھی اشارہ کیا ہے بات اسی مرحلہ پر تمام نہیں ہوتی بلکہ خواہشات فتنہ و فساد بر پا کر نے میں دو چار قدم اور آگے نظر آتے ہیں چنا نچہ پہلے مر حلہ میں یہ خواہشات انسان کے ارا دہ ،عقل ،ضمیر ،دل اور فطرت کونا کارہ اور معطل کر دیتی ہیں اس مرحلہ کو قرآن مجید نے'اغفال قلب '(دل کو غافل بنا دینے )کا نام دیا ہے ۔

لیکن جب خواہشات ان تمام اہم محرکات کو نیست و نا بود کر دیتے ہیں اور انسان کو ہر لحاظ سے اپنی گرفت میں لے کر اس پر غلبہ اور تسلط حاصل کر لیتے ہیں تو پھر انسان خواہشات کا تا بع اور فرماں بردار ہو کر رہ جاتا ہے اس مرحلہ کو قرآن مجید نے''اتباع ہویٰ'' کا نا م دیا ہے ۔مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ میں آپ دونوں مراحل بخوبی ملاحظہ کرسکتے ہیں :

____________________

(۱)مستد رک و سائل الشیعہ ج ۲ ص ۲۸۷ طبع قدیم ۔

۵۳

(ولاتطع من أغفلناقلبه عن ذکرنا واتّبع هواه وکان أمره فُرطا )( ۱ )

''اور ہر گز اسکی اطاعت نہ کرنا جس کے قلب کو ہم نے اپنی یاد سے محروم کر دیا ہے۔ وہ اپنے خواہشات کا پیر و کا ر ہے ۔اور اسکا کام سراسر زیادتی کر نا ہے ''

پہلے مر حلہ میں خواہشات نے انسانوں کے دل کو بالکل غافل بنادیااور اسمیں علم ومعرفت اور ہدایت وبصیرت کا کو ئی امکان باقی نہیں رہ گیااور دوسرے مرحلہ میں ہویٰ و ہوس نے اسے مکمل طورپراپنی گرفت میں لے لیا نتیجتاًانسان خواہشات کا تابع محض بن کر رہ گیا اور جب یہ سب کچھ ہوجائے کہ ایک طرف اسکا دل غافل رہے اور دو سری جانب وہ ہوس کاغلام بن جائے تو اسکا آخر ی انجام واقعاً وہی تلخ حقیقت ہے جسکی طرف قرآن مجیدنے اشارہ کیاہے۔( ''وکان أمره فرطا'' )

خواہشات کا قیدی

دوسرے مرحلہ میں انسان ہر اعتبار سے خواہشات کے قبضہ میں چلا جاتا ہے اورواقعاً ''خواہشات'' کااسیر بن کر رہ جاتاہے بلکہ اپنے اسیر پر خواہشات کا اختیارو تسلط جنگی قیدی کے بالمقابل کہیں زیادہ ہوتاہے کیونکہ قیدی پر فاتح کااختیار و تسلط محدودحد تک ہوتاہے ۔مثلاًوہ اسے فرارنہیں ہونے دیتایا مقابلہ سے معذور کردیتاہے ،اسے کسی خاص راہ و روش کا پابند بنادیاجاتاہے ، اوراسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیا جاتاہے اسے اپنی مرضی کے مطابق بولنے کی بھی اجازت نہیں ہوتی مگر ان تمام باتوں کے باوجود یہ قیدی تین اعتبار سے بالکل آزاد رہتاہے۔

۱۔اپنے احساسات اورسماعت و بصارت میں آزاد ہوتاہے اور دوسروں کے احساسات سے قطع نظر وہ اپنے طورپر مسقتل سنتاہے دیکھتا ہے اور کسی بھی چیز کا احساس کر سکتا ہے اور قید کرنے والا چاہے جتنی بڑی حکومت اور اقتدار کا مالک ہو پھر بھی وہ اسکے احساسات پر پابند ی نہیں لگاسکتا جیسے

____________________

(۱)سورئہ کہف آیت۲۸۔

۵۴

اسکے اوپر یہ پابندی نہیں لگا سکتا کہ وہ اچھی چیز کو برا دیکھنے لگے ۔یا بری چیز کو اچھا محسوس کرے۔

۲۔اسکی عقل بھی بالکل آزاد رہتی ہے اوروہ جس طرح چا ہے سوچ سکتا ہے اور اپنی عقل کے مطابق فیصلہ کرتا ہے نہ کہ قید کرنے والوں کی عقل کے مطابق اسے اسیرکر نے والے اسکی عقل کو قیدی بنا کر اپنی مرضی کے مطابق اسکے لئے کوئی خاص طرز تفکر معین نہیں کر سکتے ہیں ۔

۳۔اسی طرح اسکا دل بھی بالکل آزادہو تا ہے یعنی اس کا دل جس سے چاہے محبت یا نفرت کر سکتا ہے یہ اسے اختیار ہے اور اسے قیدی بنا نے والے اسمیں کو ئی مد اخلت نہیں کرسکتے بلکہ وہ جن کی قید میں ہوتا ہے انھیں سے نفرت کرتا ہے اور انکے دشمنوں سے محبت کر تا ہے کیونکہ اسکے دل پران کا کوئی اختیار نہیں ہوتاہے۔

بقول شاعر

''مجھے اسیر کرو یا مری زباں کاٹو

مرے خیال کو بیڑی پنہا نہیں سکتے ''

لیکن خو اہشات کے قیدیوں میں معا ملہ اس سے بھی زیادہ سنگین ہے کیونکہ خواہشات اپنے اسیر کے احساسات اسکی عقل اور دل سب کومکمل طورپر اپنے قابومیں کرلیتی ہیں اوران کے اندر اپنے مطابق مداخلت کرتی ہیں اور اسیر پر ان کی مکمل حکمرانی ہوتی ہے۔

اب وہ خواہشات ہی کے مطابق فیصلہ کرتاہے برائی کو اچھائی اور اچھائی کو برائی، نیک و طیب کو خبیث اور خبیث کوطیب سمجھتا ہے۔

اور ہر چیز کے بارے میں اسکا انداز فکر وہی ہوجاتا ہے جواس کے خواہشات چاہتے ہیں گویا اسکی عقل و منطق اور فہم و ادراک سب تبدیل ہوجاتے ہیں۔

پھریہ خواہشات انسان کے قلب پر حملہ آور ہوتے ہیں اور اسے بھی اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں اور پھر اسکا انداز محبت ونفرت خواہشات کے اشاروں پر تبدیل ہوتا رہتا ہے۔چنانچہ خداوند عالم کے جن دشمنوں سے نفرت ضروری ہے وہ ان سے محبت کرنے لگتا ہے اور خدا کے جن محبوب بندوں سے محبت ضروری ہے ان سے اسے نفرت ہوجاتی ہے۔

۵۵

ان خواہشات کا آخری حملہ انسان کے ضمیرکے او پرہوتا ہے کیونکہ انسانی وجودمیںضمیر ہی ان کے مقابلہ میں سب سے زیادہ ثبات قدم کا مظاہر ہ کرتا ہے اور آخرکار اس جنگ میں انسان کا ضمیر بھی پیچھے ہٹنے لگتاہے اور جب یہ خواہشات انسان سے اسکا ضمیر بھی چھین لیتے ہیں تو پھر انسان اپنی خواہشات، شیاطین اورطاغوت کے مقابلہ میں بالکل بے یارومددگارہوکرہتھیار ڈال دیتا ہے۔

اس سے بخوبی اندازہ ہوجاتا ہے کہ خواہشات کی زنجیریںبدن کوقیدکرنے والی زنجیروں اور سلاخوں سے کتنی زیادہ مؤثر اور کاری ہوتی ہیں ،ایک انسان کی قید اور خواہشات کی اسیری کے اس فرق کی جانب مولائے کائنات کی اس حدیث میں بھی اشارہ موجود ہے :

(عبدالشهوة أذل من عبدالرق )( ۱ )

'' خواہشات کا اسیر ہونا کسی انسان کے ہاتھوں اسیر ہونے سے کہیںزیادہ ذلت و رسوائی کا باعث ہے''

اگر چہ بظاہر ان دونوں کو ہی اسیری کہا جاتا ہے اور دونوںطرح کی اسیری میں انسان ذلیل ہوتا ہے اوردونوں صورتوں میںقیدی دوسرے کا محکوم ہوتاہے لیکن پھر بھی کسی انسان کی قید میں رہنا اتنا دشوارنہیں ہے جتنی دشوار اور باعث ذلت خواہشات کی اسیری ہوتی ہے۔

خواہشات کی قیدقرآن و حدیث کی روشنی میں

مندرجہ ذیل آیۂ کریمہ کے بارے میں غوروفکر کرنے کے بعد انسانی وجودپر قابض اس اسیری کی گہرائیوں کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔خداوند عالم کا ارشاد ہے:

(أفرأیت من اتخذالٰهه هواه وأضله ﷲ علیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه

____________________

(۱) غرر الحکم ج۲ص۴۰۔

۵۶

وجعل علیٰ بصره غشا وةفمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون )( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیا ہے اور اسکے کان اوردل پر مہر لگادی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیں کرتے ہو؟''

اس طرح خداوند عالم ایسے انسان سے سماعت ،بصارت اور دل سب کچھ چھین لیتاہے اور وہ دوسروں کے اشاروں پر اس طرح حرکت کرتاہے کہ اس کو اپنے اوپر ذرہ برابر اختیار نہیں رہ جاتااور وہ ہر معاملہ میں خواہشات کا ہی تابع رہتا ہے یہاں تک کہ اسکے خواہشات ہی اسکا خدا بن جاتے ہیں جو کہ خواہشات کی غلامی کی آخری منزل ہے ۔

مزید وضاحت کے لئے مولائے کائنات کے مندرجہ ذیل اقوال ملاحظہ فرمائیے:

(مَن ملک نفسه علا امره،ومن ملکته نفسه ذل قدره )( ۲ )

''جو اپنے نفس کا مالک ومختار ہووہ باوقار اور بلند مرتبہ ہے اور جس کا مالک ومختار اسکا نفس ہے وہ ذلیل اورر سوا ہوتاہے''

(أزری بنفسه من ملکته الشهوة واستعبدته المطامع )( ۳ )

''اس نے اپنے نفس کو معیوب بنا لیاجو شہوت کا محکوم ہوگیااورلالچوں نے اسے غلام بنا لیا''

(عبدالشهوةأسیرلا ینفک أسره )( ۴ )

''خواہشات کا غلام ایک ایسا قیدی ہے جو کبھی آزاد نہیں ہوسکتا ہے''

____________________

(۱)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

(۲)مستدرک الو سائل ج۲ص۲۸۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۹۵۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۴۰۔

۵۷

(کم من عقل أسیرتحت هویٰ أمیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں ،خواہشات کی فرما نروائی میں اسیر ہیں''

(الشهوات تسترق الجهول )( ۲ )

''خواہشات جاہلوں کو غلام بناکر رکھتی ہیں''

یہ بہترین تعبیر ہے کہ جاہل جب خواہشات کے پیچھے چلتا ہے تو وہ اسے نفس کے اختیار سے نکال کر اپنی سلطنت کے ماتحت لے لیتی ہیں اور انسان اپنی عقل ،ارادہ اورضمیر کے دائرئہ اختیار سے باہر نکل کر خواہشات کی حکومت اور اختیار میں چلا جاتا ہے جس طرح چورتاریکی میںبڑی خاموشی کے ساتھ گھر کے سامان کا صفایاکردیتا ہے اسی طرح جہالت کی تاریکی میں خاموشی سے انسان پر اسکے خواہشات کی حکمرانی ہوجاتی ہے اوراسے خبر بھی نہیں ہوپاتی ہے۔

انسان اور خواہشات کی غلامی

جب اس حد تک انسان کے اوپر خواہشات کی حکمرانی ہوجاتی ہے توانسان خواہشات کا غلام بن جاتاہے کیونکہ خواہشات کاایسا غلبہ ایک قسم کی بندگی ہے۔

قرآن مجیدکی یہ دونوںآیتیںہمیں بیحد غوروفکر کی دعوت دیتی ہیں :

( أفرأیت من اتخذالٰهه هواه وأضله ﷲعلیٰ علم وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوة فمن یهدیه من بعد ﷲ أفلا تذکّرون ) ( ۳ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کر اسے گمراہی میں چھوڑدیاہے اور اسکے کان اوردل پر مہر لگادی ہے اور اسکی آنکھ پر

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۲۱۱۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۴۵۔

(۳)سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

۵۸

پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کرسکتا ہے کیا تم اتنا بھی غور نہیںکرتے ہو ''

( أرأیت من اتخذلٰهه هواه أفأنت تکون علیه وکیلا ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے کہ جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنا لیا ہے کیا آپ اسکی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں''

بات اگر چہ بہت عجیب وغریب محسوس ہوتی ہے مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک منزل وہ آتی ہے کہ جب انسان پر وردگار عالم کو چھو ڑکر اپنی خواہشات کو خدا بنالیتا ہے اور انھیں کی عبادت کرتا ہے۔' '

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے منقول ہے :

(ماتحت ظل السماء من الٰه یعبد من دون ﷲأعظم عندﷲ من هویً متّبع )( ۲ )

''اس آسمان کے نیچے خداوندعالم کے بعد سب سے زیادہ جس معبود کی عبادت کی گئی ہے وہ خواہشات کے علاوہ اور کوئی نہیں ہے''۔

حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(الجاهل عبد شهوته )( ۳ )

''جاہل اپنی خواہش کا غلام ہوتاہے''

اللہ نے بھی اسے نظر انداز کردیا

جب انسان خداوندعالم کی بندگی اور عبودیت سے نکل کر خواہشات نفس سے رشتہ جوڑدیتا ہے اور اطاعت الٰہی کے بجائے اپنے نفس کا تابع ہو جاتاہے تو پھر وہ عملی اعتبار سے اس حدتک پستی

____________________

(۱)سورئہ فرقان آیت ۴۳۔

(۲)درمنثور ج۵ص۷۲۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

۵۹

میں چلا جاتا ہے کہ رب العالمین کی اطاعت وبندگی چھوڑکر اپنے خواہشات نفس کی پرستش شروع کردیتا ہے ۔

لہٰذاایسے افراد کے بارے میں یہ کہنا بالکل بجا ہے( نسواﷲ فنسیهم ) کہ

'' انھوں نے خداوندعالم کو بھلا دیا تو اس نے انھیں فرامو ش کردیا ۔''اسکی وجہ بھی صاف ظاہر ہے کیونکہ جب وہ خود خدا کی عبودیت وبندگی اوراسکی اطاعت کے حدود سے باہر نکل گئے اور انھوں نے خدا سے اپنا رابطہ توڑکر اسے بھلا دیا تو پروردگار عالم نے بھی ان کو بھلادیا ۔۔۔ان کے بھلادینے کا جواب انہیں بھلاکردیااور انہیں ان کے حوالہ کردیا اورجس لمحہ بھی خداوند عالم کسی بندے سے اپنی نظر کرم موڑکر اسے اسکے نفس کے حوالہ کر دیتا ہے اسی لمحہ وہ شیطان کا شکار بن جاتاہے ۔

خواہشات کی تباہیاں قرآن مجید کی روشنی میں

بنی اسرائیل کے ایک بہت بڑے عالم ''بلعم بن باعورا'']۱[کا قصہ قرآن مجید نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :

( واتل علیهم نبأالذی آتیناه آیاتنافانسلخ منهافأتبعه الشیطان فکان من الغاوین ولوشئنالرفعناه بها ولکنه أخلد لیٰ الارض واتّبع هواه فمثله کمثل الکلب ن تحمل علیه یلهث أوتترکْه یلهث ذلک مثل القوم الذین )

____________________

(۱)مشہورروایات کی بنیادپر ان آیات میں بلعم باعورا کی ہی مذمت کی گئی ہے۔اگر چہ دیگر اقوال بھی موجود ہیں جن کے مطابق وہ شخص صیفی راہب تھا جس نے پیغمبر اکرم کو فاسق کہا تھا ۔بعض حضرات کے نزدیک اس سے مراد امیہ بن ا بی الصلت ہے وغیرہ وغیرہ ۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

ايسٹ انڈيا كمپنى اور انگلستان گورنمنٹ كى پاليسى باعث بنى كہ ہندوستان جوكہ خودكپڑے بنانے اور برآمد كرنے والا ملك تھا اب كپڑا درآمد كرنے والا ملك بن گيا اس كى برآمدات صرف روئي تك محدود رہ گئيں _ ايشيا كے جنوب مشرقى اور جنوبى ممالك بھى اس مشكل سے بچ نہ سكے _ اہل ہالينڈ نے انڈونيشيا كو اپنے قبضہ ميں كيا ہوا تھا اور انہوں نے اس سرزمين پر كافى اور چينى كى كاشت كو بڑھايا اور انگريزوں كى ہندوستانى طرز كى اقتصادى تبديلياں يہاں بھى وجود ميں لائے_

فرانسيسى لوگ بھى انڈيا اور چين ميں داخل ہوئے اور انہى كى طرز كى استعمارى سياست كو لاگو كيا اسطرح كہ سن ۱۷۴۷ ء سے ۱۸۵۰ ء تك انڈيا اور چين كے تمام علاقے سوائے تھائي لينڈ كے انكے كنٹرول ميں آگئے_ تھائي لينڈ ميں انہوں نے بالواسطہ مداخلت كى _ اپنے استعمارى مفادات كو پورا كرنے كيلئے انہوں نے اس ملك ميں بہت سے امور ميں سہوليات حاصل كيں مثلاً جہاز راني، تجارتى فعاليت اور كسٹم ڈيوٹى سے چھوٹ جيسے امور ميں رعايتيں حاصل كيں يہاں تك كہ انہوں نے كيپيٹلائزيشن كا حق بھى حاصل كيا_

اسى طرح چين بھى انكے استعمارى حملات كى زد ميں آيا _ كيونكہ اس بہت بڑى آبادى والے ملك نے استعمارى طاقتوں كى ماركيٹ كو اپنى طرف متوجہ كرليا تھا_ مثلاً يورپى لوگوں بالخصوص انگريزوں نے چين ميں افيون (منشيات كى ايك قسم )درآمد كرتے تھے ، چين كى حكومت نے اس تجارت كو محدود كرنے كيلئے اقدامات كئے جس كے نتيجہ ميں سنہ ۱۸۴۲ ء ميں جنگ افيون واقع ہوئي اور چين كو شكست ہوئي اس جنگ كے ايك سال بعد فرانس اور انگلستان نے چين پر مشتركہ حملہ كيا اور اس ملك كو شكست ہوئي اس كے نتيجہ ميں انہوں نے چين كو مجبور كيا كہ وہ انہيں مختلف امور مثلاً جہاز رانى ، كسٹم اور تجارت وغيرہ ميں بہت سے امتيازى حقوق دے_ يوں چين كا اقتصاد بھى استعمارى كنڑول ميں آگيا اور نابود ہوگيا_ جس كى وجہ سے كئي ميلين چينى لوگوں نے روزگار كى تلاش ميں اپنے وطن كو ترك كيا اور يورپى ممالك اور امريكا ميں سخت كام كرنے پر مجبور ہوئے _(۲)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ، ص۱۷۱ _ ۱۴۶_

۲) سابقہ حوالہ ، ص ص ۲۴۹ _ ۲۳۱ _ ۱۴۳_ ۱۲۱ _

۲۶۱

مشرقى وسطى اور خليج فارس ميں استعمار

اہل يورپ كى يہ كوشش تھى كہ بحرى راستوں سے نئي نئي جگہوں كو دريافت كرتے ہوئے اپنى طاقت اور تسلط كو بڑھائيں _ اور سب سے زيادہ ثروت ومال كے ذخائر كو جمع كريں _ سولہويں صدى كے ابتدائي سالوں ميں پرتگالى لوگ خليج فارس ميں داخل ہوئے اور پرتگالى بحرى سردارايلبو كرك نے سن ۱۵۱۴ ء ميں جزيرہ ہرمز پر قبضہ كرليا _ انہوں نے ۵۱۲ ۱ ء سے گمبرون (بندرعباس ) جو كہ ايك عمدہ تجارتى مركز تھا ، پر بھى قبضہ كيا ہوا تھا_(۱)

انكا تقريباً ايك صدى تك خليج فارس كے علاقوں پر كنٹرول رہا _ يہاں تك كہ صفوى بادشاہ ، شاہ عباس نے انگريزوں سے ايك قرار داد طے كى اور انكى بحرى طاقت كى مدد سے اس قابل ہوا كہ پرتگاليوں كوہميشہ كے ليے خليج فارس سے نكال دے _ ليكن انگريزوں نے اپنے اثر نفوذ كو بڑھانا جارى ركھا جس كى بڑى وجہ خليج فارس كى تزويرى (اسٹرٹيجك) اہميت تھى _ انہوں نے عرب شيوخ سے بھى قرار داد باندھي، ان شيوخ نے انگريزوں كو بعنوان قاضى ، مصالحت كروانے والے اور ثالث مانتے ہوئے يہ عہد كيا كہ درياى قزاقى ، اسلحہ اور غلاموں كى سمگلنگ سے پرہيز كريں گے _

سنہ ۱۸۰۰ عيسوى (فتحعلى شاہ قاجاركے دور ميں ) ايران كى طرف سے انگلستان كو بہت سے تجارتى حقوق ديے گئے ، انہوں نے سال ۱۸۵۶ ء ميں بوشہرميں فوج كو لاكر اس پر قبضہ كرليا ليكن آخر كار ايران كے تمام شہروں كو ترك كرديا _(۲)

مشرق وسطى ميں تيل كے ذخيروں نے دنيا كى ديگر قوتوں مثلاً امريكا اور جرمنى كو دلچسپى لينے پر مجبور كيا_ بيسوى صدى كے اوائل ميں اس علاقے كا تيل انگريزى اور امريكى كمپنيوں ميں تقسيم ہوا _ انگريزوں نے قطر ، كويت ، عراق ، عمان اور ايران كے تيل پر كنٹرول حاصل كرليا جبكہ امريكى نے بھى سعودى عرب اور بحرين

____________________

۱) وادلا، خليج فارس در عصر استعمار، ترجمہ شفيع جوادى ، تہران ،ص ۷۷_ ۳۹_

۲)سابقہ حوالہ _

۲۶۲

كے تيل پر اپنا تسلط جماليا_ البتہ يہ بات نہيں بھولنى چاہئے كہ ايران نے اس استعمارى دور ميں سب سے زيادہ ضرراٹھايا كيونكہ ايران كى جغرافيائي حيثيت ايسى تھى كہ بڑى قوتوں كے ميدان جنگ ميں بدل گيا مثلاً انگلستان اور فرانس ، ہندوستان پر قبضہ جمانے كيلئے باہمى رقابت كا شكار تھے يہ جھگڑا ايران تك بڑھتا گيا اور اس ملك كى سياسى اور اقتصادى خود مختارى پر بہت زيادہ ضربيں لگيں _

انيسويں صدى ميں روس اور انگلستان كے مدمقابل ايران كى بار بار عسكرى شكست سے قاجارى حكومت نے اپنے استحكام كو باقى ركھنے كيلئے مجبوراً بہت سے اقتصادى اور تجارتى حقوق ان ممالك كو عطا كيے _ يوں يہ ملك نصف حد تك استعمارى طاقتوں كى زد ميں آگيا _(۱)

ايران كا اپنا اقتصاد بھى روس و انگلينڈ كى طرف سے سيلاب كى طرح وارد ہونے والى اجناس كے مدمقابل تاب نہ لاسكا اور ايران بھى ہندوستان كى مانند خام زراعتى پيداوار مثلاً روئي اور تمباكو كى حدتك رہ گيا _ استعمارى طاقتوں كے بينكوں (انگلينڈ كے شاہى بينك اور روس كے بينك نے) ايران كے مالى معاملات پر كنٹرول كر ليا اور قاجارى بادشاہوں اور سرداروں كو بار بار قرض ديكر ايران كى سياست اوراقتصاد پر روز بروز اپنا قبضہ وكنٹرول بڑھانا شروع كرديا_

انيسويں اور بيسويں صدى كے درميان مشرق وسطى كے تمام ممالك يورپى استعمار گروں كے كنٹرول ميں آگئے _ استعمار گر لوگوں كى كوشش تھى كہ مشرق وسطى كے اقتصاد اور سياست كو مكمل طور پر اپنے قبضہ ميں كرليں اور اسكے علاوہ ان ممالك كى سياسى جغرافيائي سرحدوں كو اپنے مفادات كى روسے خود ترتيب ديں _ ان سرزمينوں كى تقسيم اس انداز سے ہوئي كہ بہت سے قومى ، مذہبى اور سياسى جھگڑوں نے جنم ليا_ مثلاً استعمار نے كردوں كو ايران ، تركي، شام اور عراق ميں تقسيم كرديا_ لبنان ميں بھى مختلف اقوام اور مذاہب پر مشتمل ناہموار تركيب سامنے آئي كہ مختلف مذاہب اور اقوام كے درميان سياسى قوت عدم استحكام كا شكار رہى اور قومى و مذہبي

____________________

۱) فيروز كاظم زادہ ، روس و انگليس در ايران ، ترجمہ منوچھر اميري، تہران ،ص ۲۵_ ۱۵_

۲۶۳

جھگڑوں نے جنم ليا_

پورى دنيا سے يہودى لوگوں نے استعمار ى طاقتوں كى پشت پناہى كى وجہ سے فلسطين كى طرف ہجرت كى _ اور ايك يہودى حكومت تشكيل ديكر مشرق وسطى اور دنيا ميں ايك بڑى پيچيدگى كو وجود ميں لائے(۱) _ مجموعى طور پر مشرق وسطى كے ممالك ميں استعمار ى طاقتوں كے اقدامات نے دنيا كے اس خطہ كو فتنوں اور جھگڑوں كا مركز بناديا كہ اب بھى مشرق وسطى كانام سنتے ہى ذہن ميں لڑائي اور ناآرامى كى ايك تصوير نقش ہوجاتى ہے_

مختصر يہ كہ استعمار نے دنيا كے مختلف ممالك ميں داخل ہو كر انكے معاشرتى ، سياسى اور اقتصادى حالات اور كلچر كو بلاواسطہ يا بالواسطہ ايسے متاثر كيا كہ اب بھى ان ممالك ميں استعمار كى موجودگى كے بہت سے اثرات اور نتائج مشاہدہ كيے جاسكتے ہيں ،اسلامى ممالك ان مسائل سے جدا نہ تھے جيسا كہ ہم نے كہا ہے كہ استعمار كى موجودگى سے ان ممالك كے اقتصادى حالات تبديل ہوئے ،قدرتى اور انسانى ذخائر سے ان ممالك كو خالى كيا گيا اور يہ سب ذخائر استعمار ى ممالك ميں درآمد كيے گئے جسكے نتيجے ميں ان ممالك كے اجتماعى ڈھانچے اور طبقات ميں تبديلى واقع ہوئي اور ان سے بڑھ كر ان ممالك كى تہذيب و تمدن پر منفى اثرات پڑے ان سب امور پر نئے استعمار كے عنوان كے تحت بحث كى جائے گي_

استعمار جديد

جيسا كہ اشارہ ہوا ہے كہ استعمار كى پہلى صورت ايسى تھى كہ استعمارى طاقتوں نے اپنے رقيبوں كى قوت و طاقت سے موازنہ كرتے ہوئے اپنے عسكرى تحفظ اور اقتصادى مفادات كو بڑھانے كيلئے يہ اقدامات كيے _ يورپى استعمار نے عسكرى فتوحات يا ہجرت كے ذريعے ديگر ممالك پر قبضہ جماليا اور تجارتى كمپنياں قائم كرتے ہوئے ان ممالك كے اقتصاد كو اپنى تجارتى پالسيوں كے سخت كنٹرول ميں لے آئے_

____________________

۱) احمد ساعى ،سابقہ حوالہ ، ص ۷۳_

۲۶۴

سنہ ۱۷۶۳ ء سے ۱۸۷۰ ء تك استعمار كى پيش رفت ميں سستى آگئي كيونكہ اس عرصہ ميں يورپى ممالك اپنے اندرونى مسائل، آزادى پسند انقلابات اور صنعتى انقلابات سے نمٹ رہے تھے_

سنہ ۱۸۷۰ ء سے پہلى جنگ عظیم تك استعمار كى پيشرفت و تحرك بہت وسيع پيمانے پر تھا سارا افريقہ اور مشرق بعيد انكى لپيٹ ميں آگيا ليكن دوسرى جنگ عظیم اور اقوام متحدہ كے وجود ميں آنے كے بعد بالخصوص دو عشروں ۱۹۵۰ اور ۱۹۶۰ ء ميں ہم استعمار كے خلاف (سياسى خودمختارى كے حصول كيلئے)تحريكوں كا مشاہدہ كرتے ہيں _ اس طرح كہ اقوام متحدہ كے ممبر ممالك كى تعداد دوگنى ہوگئي _

ان ممالك نے جنرل اسمبلى ميں اپنى كثير تعداد كے باعث اپنے اقتصادي، سياسى اوراجتماعى مسائل كو اقوام متحدہ كى توجہ كا مركز قرار دلوايا_ ان ممالك پرقديم استعمار كے شديد اثرات كے باعث استعمار سے چھٹكارے كى تحريك نہ صرف يہ كہ انكى مشكلات حل نہ كرسكى بلكہ اس نے ان ممالك كو دو راہے پر لاكھڑا كيا _ يہ ممالك ايك طرف تو ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمارى ممالك) سے اقتصادى امداد چاہتے ہيں اور دوسرى طرف اپنے اندرونى مسائل ميں كوئي مداخلت بھى پسند نہيں كرتے جبكہ ترقى يافتہ ممالك اب بھى ان ممالك اور بالخصوص انكے بازاروں اور ابتدائي خام پيداوار كے محتاج ہيں اور چاہتے ہيں ان اہداف تك پہنچيں(۱) _

مجموعى طور پر ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار ) كے آزاد شدہ ممالك (سابقہ مستعمرہ ممالك ) سے روابط ايسى صورت اختيار كرگئے ہيں كہ اسے جديد استعمار كا نام ديا گياہے _ اس نئي صورت ميں سابقہ استعمار گر ممالك انہيں اپنے ہاتھوں بنائي ہوئي بظاہر خود مختار حكومتوں اور بين الاقوامى كمپنيوں كے قوانين اور روابط كے ذريعے بغير كسى براہ راست سياسى اور عسكرى كنٹرول كى ضرورت كے ، اپنى اغراض اور مفادات كو پہلے سے بہتر صورت ميں پورا كررہے ہيں _

بہت سے اہل نظر كى رائے كے مطابق ترقى يافتہ ممالك (سابقہ استعمار )ملٹى نيشنل كمپنيوں اورعالمى اداروں مثلاً عالمى بينك، آئي ايم ايف اور ورلڈ ٹريڈ آرگنائزيشن WTO كے ذريعے مختلف بين الاقوامي

____________________

۱) جك پلنو وآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص ۳۰_

۲۶۵

حالات اور روز بروز بڑھتے ہوئے پيچيدہ معاملات اور روابط سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اسى كوشش ميں ہيں كہ محروم ممالك يا ترقى پذير ممالك پر تسلط جماليں _ لہذا ہم ان تنظيموں اور عالمگيريت كا تجزيہ كرتے ہوئے كوشش كريں گے كہ جديد استعمار اور اسكے دنيا كے ممالك بالخصوص اسلامى ممالك پر اثرات كا تجزيہ كريں _

ملٹى نيشنل ( كثير القومى ) كمپنياں

چند اقوام پر مشتمل كمپنياں بنانے كا نام بنيادى طور پر امريكہ سے شروع ہوا ،ان كمپنيوں كا ہيڈكوارٹر بھى كسى ايك ہى ملك ميں ہے انكے امورآزاد كمپنيوں يا وابستہ كمپنيوں كے ذريعے تمام ممالك ميں انجام پاتے ہيں _ يہ كثير القومى كمپنياں جديد ٹيكنالوجى اور وسيع پيمانے پر پيداوار كى بناء پر ديگر ممالك تك اپنے كام كا دائرہ بڑھانے پر مجبور ہيں _ اس كے بعد كا مرحلہ انہيں ديگر ممالك ميں بيچنے كے ليے اداروں كے قيام كا ہے_ يہيں سے چند اقوام پر مشتمل ہونے كى طرف رجحان بڑھتا ہے اور وہ عام طور پر اپنے كام كا دائرہ كار بڑھاتے ہيں تاكہ اسباب اور شرائط قيمت ميں بچت كرتے ہوئے زيادہ سے زيادہ منافع حاصل كريں يعنى چيز كى پيداوار كو بڑھاكر پيداوار پراٹھنے والے اخراجات كى اوسط مقدار كو كم كرديتے ہيں _

مثلاً كوكا كولا كمپنى ، جنرل اليكٹرك اورويسٹنگ ہاؤس كمپنياں آزاد كمپنيوں سے قرار داد باندھتى ہيں اور منافع كى شرح ميں سے كچھ فيصد وصول كرتے ہوئے انہيں اجازت ديتى ہيں كہ وہ انكى پيداوار يا خدمات كو اصلى كمپى كے نام سے بنائيں اور فروخت كريں _(۱)

بعض اہل نظر كے مطابق يہ كمپنياں اپنے سرمايہ كے ساتھ تيسرى دنيا كى اقتصادى ركاوٹوں كو ختم كرسكتى ہيں اور اپنى فعاليت سے ان ممالك ميں جديد طرز كے صنعتى نظام كو منتقل كرسكتى ہيں _ ان سے رقابت كرتے ہوئے ان تيسرى دنيا كے ممالك كى اندرونى كمپنياں اور ادارے بھى فعال ہوجائيں گے جسكے نتيجہ ميں ثمر آور

____________________

۱) سابقہ حوالہ ، ص ۳۱_

۲۶۶

اقتصاديات، منظم بازار اور آسايش فراہم ہونگيں _

جبكہ انكے مد مقابل بہت سے اہل نظر كے مطابق سرمايہ كى وہ مقدار جو ان كمپنيوں كے ذريعہ تيسرى دنيا ميں داخل ہو رہى ہيں اس تعداد سے انتہائي كم ہے كہ جو منافع كى شكل ميں وہ ان ممالك سے نكال رہى ہيں _ يہ كمپنياں مختلف صورتوں ميں ابتدائي معمولى سا سرمايہ لگاتى ہيں مثلاً ميزبان ملك سے حاصل شدہ قرض (كريڈٹ) اور سہوليات سے فائدہ اٹھاتے ہيں پھر اپنے ذيلى اداروں اور كمپنيوں ميں دوبارہ سرمايہ گزارى كرتے ہوئے ڈائريكٹ خالص منافع ان ممالك سے نكال ليتے ہيں _(۱)

ان اہل نظر افراد كے مطابق ان كمپنيوں كا سرمايہ عام طور پر كام كے ان مراحل پر لگتا ہے كہ جنكا ميزبان ملك كے مقامى اقتصاد كى ضروريات سے كوئي ربط نہيں ہوتا _ استعمار كے دور ميں يہ سرمايہ اور يہ كمپنياں عام طور پر معدنيات اور زراعت كے امور كے متعلق ہوتى تھيں اور ميزبان ممالك كے طبيعى ذخائر سے بہرہ مند ہوتى تھيں _ اور آج يہ ميزبان ممالك ميں صنعتى پيداوار كے كام كرتى ہيں يعنى يہ كثير القومى كمپنياں تيسرى دنيا كے ممالك ميں كسى چيز كے فقط پارٹس تيار كرتى ہيں پھر انہيں باہم جوڑنے كيلئے ديگر ذيلى كمپنيوں يا اصلى ملك كى طرف منتقل كرتى ہيں _

اس كے علاوہ ان كمپنيوں كے بلند سطح كى سرمايہ كارى ، جديد ٹيكنالوجى اور پروگرام كے ذريعے فعاليت اس ملك كى اندرونى كمپنيوں سے رقابت كا موقع چھين ليتى ہيں اور انہيں بند كروا ديتى ہيں انہى اہل نظر لوگوں كے مطابق ايسى كثير القومى كمپنياں اقتصادى تسلط كے ساتھ ساتھ اپنے ميزبان ممالك كے سياسى امور ميں بھى دخل اندازى كرتى ہيں تاكہ سياسى صورت حال انكے مفادات كے مطابق ہوجائے اسى طرح ان كمپنيوں كے كام كى وجہ سے ان ممالك ميں معاشرتى يا ثقافتى سطح پر بعض پيچيدگياں پيدا ہوتى ہيں كيونكہ وہ ايسى اقدار اور عادات اپنے ہمراہ لاتى ہيں جو اس ملك كى مقامى تہذيب كے ساتھ سازگار نہيں ہوتي_(۲)

____________________

۱) احمد ساعى ، سابقہ حوالہ ، ص ۱۵۰_ ۱۳۹_

۲)سابقہ حوالہ _

۲۶۷

بين الاقوامى مالياتى ادارے

اقوام متحدہ سے وابستہ بعض ادارے كہ جن ميں سے عالمى بينك اور آئي ايم ايف كى طرف اشارہ كياجاسكتا ہے يہ سب دوسرى جنگ عظیم كے بعد بين الاقوامى سطح پر مالى امور كو منظم كرنے اور مالى بحرانوں كو روكنے كيلئے بنائے گئے تھے ،مثلاً ۱۹۳۰ ء كے عشرے كا مالى بحران قابل ذكر ہے كہ جسميں عالمى سطح پر نرخوں كى تبديلى اور رقابت ميں كرنسى كى تقابلى قيمت گھٹنے سے عالمى اقتصاد كو شديد جھٹكے لگے_

اگر چہ يہ ادارے دنيا كے اكثر ممالك سے تعلق ركھتے ہيں ليكن طاقتور اور سابق استعمارى ممالك كا ان اداروں كے بنيادى فيصلوں پر غلبہ مكمل طور پر واضح ہے _ مثلاً آئي _ ايم_ ايف ميں امريكاكا پانچواں حصہ ہے كيونكہ ہر ملك كى رائے كى اہميت اس كے حصہ كى مقدار سے ربط ركھتى ہے _ لہذا امريكا كى رائے كسى فيصلہ ميں بنيادى كردار اد ا كرتى ہے_(۱)

چونكہ ترقى پذير ممالك اپنى مشكلات محض براہ راست غير ملكى سرمايہ كارى اور ان كثير القومى كمپنيوں كى فعاليت كى مدد سے حل نہيں كرسكتے اس لئے وہ ديگر ممالك سے قرضہ كے طالب ہوتے ہيں _

قرضہ حاصل كرنے كے مختلف طريقوں ميں سے ايك طريقہ يہى ہے كہ ان بين الاقوامى مالى اداروں مثلاً آئي _ ايم _ ايف اور عالمى بينك كى مدد حاصل كى جائے_ ليكن اس قسم كے قرضہ جات حاصل كرنے سے ضرورى نہيں ہے كہ قرضہ لينے والے ملك كے اقتصاد پر مثبت اثر پڑے بلكہ اس كے برعكس يہ قرضے مختلف اقتصادى بحرانوں كے موجب بھى بنتے ہيں جيسا كہ ستر كى دھائي ميں تيسرى دنيا كے ممالك كا مقروض ہونے كا بحران ہے_

اسى طرح يہ قرضہ جات كا حصول ان بين الاقوامى اداروں كى پاليسيوں كو قبول كرنے سے مشروط ہے اور يہ پاليسياں ان ترقى يافتہ (سابقہ استعمار ى ) ممالك كے مفادات كو پورا كرتى ہيں _

____________________

۱) جك يلنووآلٹون روى ،سابقہ حوالہ ، ص ۲۱۹_

۲۶۸

بعض دانشوروں كى رائے كے مطابق آئي ، ايم ، ايف اور عالمى بينك اپنے تسلط كے تحت ممالك كى اقتصادى ترقى كى يہ تعبير كرتے ہيں كہ يہ ترقى پذير ممالك صنعتى ممالك كيلئے اپنے دروازے كھول ديں _ اسى قسم كى ترقى تك پہنچنے كےلئے ضرورى ہے كہ جہاں تك ممكن ہے قرض لياجائے، كسٹم ٹيكس لينے سے ليكر اشياء اور اجناس پرعوام كے ليے ٹيكس كى معافى جيسى شرائط كہ جو تجارتى معاملات كو بہت ضرر پہنچاتى ہيں سے بچنا چاہيے اور بيرونى سرمايہ كارى كو آسان بنانا چاہيے_

بالفاظ ديگر تيسرى دنيا كيلئے ضرورى ہوتا ہے كہ وہ ترقى يافتہ ممالك كى اقتصادى حالت سے خود كو مطابقت ديں _ا س ترقى كے سفر پر ہميشہ خسارے ميں رہتے ہوئے اپنى ضروريات كو پورا كرنے كيلئے غير ملكى قرضوں كے حصول كى خاطر آئي ، ايم ، ايف كے اقدامات پر انحصار كريں _ عالمى بينك اور آئي ، ايم ، ايف كے پسنديدہ قوانين اور تدبير جن ممالك ميں جارى ہوتى ہيں وہاں يہ انكى آمدنى كے تناسب ميں بہت زيادہ خلل كا باعث بنتى ہيں _ بہرحال آئي ، ايم ، ايف كے پروگرامز بين الاقوامى اقتصادى معاملات اور مغربى ممالك كے مفادات كيلئے سود مند ثابت ہوتے ہيں بالفاظ ديگرترقى پذير ممالك كو اس وقت مالى تعاون حاصل ہوگا كہ جب وہ آئي ، ايم ، ايف كى شرائط اور سياسى اقتصادى تدابير كو اپنے ہاں جارى كريں گے _(۱)

عالمگير يت(۲) اور اسكے نتائج

ايك اورمسئلہ كہ جسكا آج دنيا تجربہ كر رہى ہے وہ عالمگيريت ہے _خلاصةً يہ بھى كہاجاسكتا ہے كہ عالمگيريت كى ايك تعريف عمل (پراسس) كى صورت ميں اور ايك ''منصوبے '' كى صورت ميں كى جاسكتى ہے_ يعنى بعض اہل نظر كے خيال كے مطابق ذرائع ابلاغ ميں ترقى اور وسعت كى بناء پر انسانى معاملات

____________________

۱) على رضا ثقفى خراسانى ، سير تحولات استعمار در ايران ، مشہد ص ۲۱۲_ ۲۰۶_

۲) Globalization

۲۶۹

انتہائي سرعت اور آسانى سے انجام پا رہے ہيں ايسے لگ رہا ہے كہ روز بروز ممالك كى حد بندياں اور سرحديں غير اہم ہو رہى ہيں اور ان ممالك كى حكومتيں غير ملكى ہاتھوں ميں كھيلنے پر مجبور ہيں _

مجموعاً كہاجاسكتا ہے كہ دنيا ايك چھوٹى سى كالونى ميں بدل رہى ہے _ دنيا كے كسى گوشہ ميں ايك معمولى سا مسئلہ فورا سارى دنيا كے مختلف نقاط ميں نشر ہوجا تا اہے اس دنيا ميں ممالك اب مكڑى كے جالے كى طرح باہم متصل اور پيوست ہيں كہ انٹر نيٹ كے چينل نے بھى دنيا كو اس شكل ميں لانے ميں بہت زيادہ تعاون كيا ہے تاكہ پورى دنيا ميں ايك ہى تہذيب تشكيل پاياجائے _(۱)

انكے مد مقابل ديگر اہل نظر لوگوں كے خيال كے مطابق عالمگيريت ايك سازش اور منصوبہ ہے كہ جسے ترقى يافتہ ممالك نے لاگو كيا ہے تاكہ زيادہ سے زيادہ ترقى پذير ممالك يا پس ماندہ ممالك كو لوٹ ليں _انكے نظريہ كے مطابق عالمگيريت فقط تيسرى دنيا كے نقصان ميں ہے _ كيونكہ جب حكومتوں كى حد بندياں اور حكومتوں كا كسٹم كے قوانين اورقيمتوں پر كنٹرول ختم ہوجائے تو ان ممالك كا اقتصاد بھى تباہ ہوجائے گااور وہ ترقى يافتہ ممالك كے احكام وقوانين كے غلام بن كر رہ جائيں گے_

انہى اہل نظر كے ايك اور گروہ كے مطابق عالمگيريت كے منفى اثرات صرف ممالك كى اقتصاديات تك محدود نہيں ہوتے بلكہ ان استعمارى ممالك كى كوشش بھى ہے كہ اپنى تہذيب وكلچر كو ديگر ممالك پر لاگو كريں مثلاً امريكہ ہالى ووڈ كى فلموں كى صورت ميں كوشش كر رہا ہے كہ امريكى كلچر اور طرز زندگى كو عالمى سطح تك پھيلائے اسى لئے بعض عالمگيريت كو امريكى ہونے كے مترادف سمجھتے ہيں _ ڈيموكريسى اور ليبرل اقدار كے پرچم تلے ايك سياسى اور ماڈل حكومتى نظام كى ترويج ايك اور مشكل ہے كہ جو تيسرى دنيا كے ممالك كى خودمختارى كو كمزور كرنے ميں اپنا كردار ادا كر رہى ہے_ مغربى ممالك اس قسم كے نظام حكومت كى ترويج سے اس كوشش ميں ہيں كہ پورى دنيا كے ممالك (بالخصوص مشرق وسطى كے ممالك) كى حكومتوں كو اپنے پسنديدہ طرز حكومت سے

____________________

۱) اس كے بارے ميں زيادہ مطالعہ كيلئے رجوع كريں ، احمد گل محمدى ، جہانى شدن ہويت ، تہران_

۲۷۰

مطابقت ديں _ا س مقصد كے پيش نظر وہ ہر قسم كے اقدام سے دريغ نہيں كر رہے ہيں لہذا عالمگيريت كمزور ممالك كى حكومتوں كے حالات اور سسٹم كو روز بروز تيزى سے تباہ كر رہى ہے او ريہ چيز فقط ترقى يافتہ ممالك كےلئے سود مند ہے _(۱)

مجموعى طور پر كہاجاسكتا ہے كہ اگرچہ قديم استعمار كا دور ختم ہوچكا ہے اور تحت تسلط ممالك خودمختار ہوچكے ہيں ليكن جو صورت اب سامنے آرہى ہے وہ قديم استعمار سے كئي درجے زيادہ پيچيدہ اور مستحكم انداز سے اپنا كام كر رہى ہے _ جديد استعمار مختلف زاويوں سے اس كوشش ميں ہے كہ ديگر ممالك پر اپنا نفوذ بڑھا كر ان ممالك سے فكرى اور مادى ثروت كو نكالنے كے راستے بنائے كہ جو گذشتہ ادوار سے كہيں زيادہ خطرناك اور تباہ كن ہے _

۲_مشرق شناسي

عہد حاضر ميں مطالعہ كيلئے ايك اہم سبجيكٹ Subject مشرق شناسى ہے _ اس حوالے سے كام كرنے والے مغربى دانشوروں كا دعوى ہے كہ مشرق كے بارے ميں واقعيت پر مبنى تحقيقات كے ساتھ انہوں نے اہل مشرق كو بہت سے مخفى نكات اور زاويوں سے آگاہ كيا ہے جن سے اہل مشرق بذات خود آگاہ ہونے كى استعداد نہيں ركھتے تھے_ ماركسس بھى سمجھتا تھا كہ اہل مشرق ميں اپنے آپ كو اور اپنى صلاحيتوں كو كھولنے اور نماياں كرنے كى استعداد نہيں ہے _ لہذا اس بارے ميں ان سے تعاون كياجانا چاہئے _

آيا واقعاً يہ موضوع ايك علمى اور حقيقت پر مبنى موضوع ہے جيسا كہ بہت سے مستشرقين كا دعوى بھى ہے يا جيسا كہ مغرب پر تنقيد كرنے والے اہل نقد ونظر كا نظريہ ہے كہ يہ مسئلہ محض طاقت اور طاقت كو دوسروں پر مسلط كرنے كا بہانہ ہے _ يعنى استعمار گر اہل مغرب كى قوت و طاقت اورتسلط كى توجيہ كا ايك وسيلہ ہے_ مشرق صرف يورپ سے متصل ايك ہمسايہ نہيں ہے بلكہ قدرتى دولت سے مالامال يورپ كے سب سے بڑے مستعمرات ميں سے ہے اور يورپ كى تہذيب كا سرچشمہ بھى ہے نيز تہذيب و تمدن ميں يورپ كا رقيب بھي

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۱۲_ ۱۰۵_

۲۷۱

ہے_ مشرق شناسى كا مضمون بھى اسى موضوع كى ثقافتى اور نظرياتى تعريف كو بيان كرتا ہے _ اس طرح مشرق شناسى گفتگو كا ايك غالب مغربى موضوع ہے كہ جو خاص اداروں ، نصاب ، يا مطالعات اور استعمارى بيوركريسى پر مشتمل ہے(۱)

مشرق شناسى كى معروف ترين تعريف اسكى علمى تعريف ہے _ اس كے مطابق جو بھى اپنى تدريس ، تصنيف اور تحقيق كا موضوع مشرق كو قرار دے خواہ اسكا تعلق نفسيات، معاشرت ، تاريخ ، زبان كسى بھى مضمون سے تعلق ہو وہ مشرق شناس ہے جو كچھ بھى انجام دے يہى مشرق شناسى ہے ليكن يہ كالجوں اور يونيورسٹيوں كا مضمون ، مشرق شناسى كے ايك عام معنى سے بھى وابستہ ہے وہ يہ كہ مشرق شناسى دراصل فكر ونظر كى ايك روش ہے كہ جو مشرق اور مغرب كى وجود شناسى اور علم شناسى كے فرق كى بنياد پر استوار ہے _(۲)

بطور اختصار مشرق شناسى كو بھى مشرق پر قبضہ اور اسے اپنا مستعمرہ بنانے كيلئے مغرب كى ايجاد شدہ ايك روش كے طور پر محور تجزيہ قرار دياجاسكتا ہے چونكہ جب تك مشرق شناسى ايك غالب سياسى موضوع كى مانندمورد تجزيہ قرار نہ پائے گى كبھى بھى اسكى منظم اور مرتب خصوصيات درك نہيں كى جاسكتيں كہ جن كے ذريعے مغرب اور مغربى كلچرنے مشرق كى سياسى ، معاشرتى ، فكرى اور علمى محافل اور ميدانوں سے آگاہى حاصل كى بلكہ اسے تشكيل ديا اور اسے نئے سرے سے ايك ايسا موضوع بنايا جس پر تحقيق كى جاسكتى ہو_(۳)

مشرق شناسى پر مطالعہ كب شروع ہواا س موضوع پر محققين باہم اختلاف نظر ركھتے ہيں _ بعض دانشور حضرات مشرق شناسى كے مطالعات كى تاريخ كو بہت قديم سمجھتے ہيں انكے نظر كے مطابق اسكو شرو ع كرنے والا ہيروڈٹ تھا وہ مشرقى اقوام كے بارے ميں مطالعہ كيا كرتا تھا_(۴)

____________________

۱) ايڈورڈ سعيد ، الاسشراق ، ترجمہ كمال ابواديب ، بيروت ۱۹۸۱ ، ص ۳۷_

۲) سابقہ حوالہ ص ۳۸_

۳) سابقہ حوالہ ص ۳۹_

۴) احمد سمايلو ، فتش،فلسفہ الاستشراق داثر ھا فى الادب العربى المعاصر ، قاہرہ ، ص ۷۱ _۷۰_

۲۷۲

جبكہ بعض ديگر كہ جن ميں سے ايڈورڈ سعيد قابل ذكر ہيں جس نے متعلقہ اداروں پر تحقيق كے بعد شرق شناسى كا آغاز ۱۳۱۲ ء ميں وين كے كليسا كى كو نسل كے پروگرام كے تحت پيرس ، آكسفورڈ، اوينين اور سلامانكا كى يونيورسٹيوں ميں عربي، يونانى ، عبرى اور سريانى زبانوں كے ذريعے مشرق شناسى كے مطالعہ پر كام كے شروع ہونے كو قرار ديا _(۱)

بعض ديگر دانشور كلمہ ''مشرق شناسى '' اور اسكے مشتقات كا علمى محافل ميں ظہور كے زمانہ كو اس علم كى تحقيقات كے شروع كا زمانہ سمجھتے ہيں ،كيونكہ انگلستان ميں لفظ ''مستشرق'' سنہ ۱۷۷۹ ء اور فرانس ميں ۱۷۹۹ء ميں رائج ہوا اور ۱۸۳۸ء ميں پہلى بار فرانس كى يونيورسٹى ڈكشنرى ميں مشرق شناسى كا مفہوم ومعنى داخل ہوا_(۲)

ليكن درحقيقت يورپ ميں مشرق شناسى كے بارے ميں مطالعات كے عروج كا دور انيسويں صدى اور بيسويں صدى كے اوائل كا زمانہ ہے _ اگرچہ خود مشرق شناسى كى تاريخ اس سے كہيں طولانى ہے ، مجموعى طور پر مشرق شناسى كے مطالعات كا دومراحل ميں تجزيہ كيا جاسكتا ہے اور ان دو مراحل ميں سے ہر مرحلہ ميں مشرق شناسى ايك خاص صورت ميں سامنے آتى ہے:

۱) _ مشرق شناسى كے موضوعات پر مطالعات كا نقطہ آغاز يورپى كليسا كے ساتھ تعلق ركھتا ہے اور اس موضوع پر مطالعات كا مقصد يہ تھا كہ اسلامى نظريہ اور اسكى برترى سے پيدا ہونے والے خطرات سے عيسائي عقائد كا دفاع كرنا تھا اس لحاظ سے اس دور ميں مشرق شناسى ايك دفاعى صورت ميں تھى اور اپنے اندرونى مسائل پر توجہ ركھے ہوئے تھى اس سے انكا يہ ہدف تھا كہ وہ اسلام اور نظريہ اسلام كا حقيقى چہرہ بگاڑ كر اور اسے غير مناسب اور ناپسنديدہ صورت ميں پيش كريں تاكہ وہ يورپى شخص كو اسلامى عقائد سے دور كرسكيں اور اس دور پر غالب عيسائي عقائد ونظريات كا دفاع كرسكيں _(۳)

____________________

۱) ايڈوڈ سعيد ،سابقہ حوالہ ،ص۸۰_

۲) نصر محمد عارف ،التنمية السياسية المعاصرة ، ہيرندن فير جينسا ، امريكہ ، ص۱۱۵_

۳) نصر محمد عارف ، سابقہ حوالہ ،ص ۱۱۷_

۲۷۳

بعض محققين مثلاً فواد زكريا كے بقول مشرق شناسى كے مطالعہ كا يہى ہدف تھا بلكہ اس علم كى مكمل تاريخ ميں يہى ملتا ہے كہ وہ مشرق شناسى كے ذريعے دراصل اپنے تشخص كا دفاع كرنا چاہتے تھے_(۱)

بہرحال كم از كم اس حوالے سے قطعى طور پر يہى كہاجاسكتا ہے كہ پہلے دور ميں مشرق شناسى كے مقصد كو عيسائيت سے وابستہ سمجھتا جاتا تھا اور وہ يہ تھا كہ اس دور ميں يورپى ماحول ومعاشرہ پر حاكم عيسائي تہذيب اور نظريات كا دفاع اور كليسا كے اقتدار كى نگہبانى كى جائے_ بالفاظ ديگر اس قسم كے تجزيے اور تحقيقات يورپى دانشوروں اور وشن خيال حضرات كيلئے كى جاتى تھيں _ وہ بھى ايك معين دور ميں ، ايك معين ہدف و مقصد اور خاص روش سے كہ جسكى غرض پس پردہ پنہاں تھى _

يہاں مقصد يہ نہيں تھا كہ محض حقيقت تك پہنچا جائے اور يہ ايك خالص علمى تحقيق ہو بلكہ يورپى دانشوروں كى آراء اور دانائي كے ثبوت كيلئے ايك مضبوط ڈھال بنائي جائے اور اس ميں انقلاب پيدا كرنے والے آراء و افكار بالخصوص اسلامى آراء كے مد مقابل دفاع كياجائے اور عيسائيت كى مخالفت ميں جانے والا ہر راستہ بند كرديا جائے_(۲)

۲) پہلے مرحلہ ميں مشرق شناسى كے مطالعات كا محور يورپ اور عيسائي دنيا كے اندرونى مسائل تھے _ اس مرحلہ كے بعد ايسے دور كا آغاز ہوا كہ جس ميں مشرق شناسى استعمار سے وابستہ ہوگئي يہاں بيرونى مسائل اور معاملات محور قرار پاگئے اب اس ميں عيسائي نظريات اور رجحانات كے ساتھ ساتھ مشرقى اقوام پر تسلط كا رنگ ڈھنگ بھى پيدا ہوگيا _ اسى دور كے آغاز سے ہى محققين نے اپنے موضوع مطالعہ سرزمينوں كے بارے ميں حقائق پر مبنى دقيق تصوير اپنى حكومتوں كو پيش كى _ تاكہ وہ حكومتيں ان تحقيقات اور تجزيات كى بناء پر ان مشرقى معاشروں اور تہذيب سے ٹكرائيں اور ان پر تسلط پاتے ہوئے انكے زرخيز منابع اور سرچشمے لوٹ ليں _(۳)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۳۱_ فواد زكريا ، نقد الاستشراق وازمة الثقافة العربيہ المعاصرة ، دراسة فى المنہج ، مجلہ فكر للدراسات والابحاث ، ش ۱۰ ، ۱۹۸۶ ، ص ۴۷_ ۳۵_

۲) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ،ص ۱۳۱ ، محمود شاكر ، المتنبى رسالة فى الطريق الى ثقافتنا ، قاہرة ، كتاب الھلال ، اكتوبر ، ۱۹۷۸، ص ۹۲_

۳) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ص ۱۱۹_

۲۷۴

انيسويں صدى كے فرانسيسى ، جرمن اور انگلستانى نظريات كى تاريخ كا تجزيہ كريں تو مغرب كے اقتصادى اور جغرافيائي توسيع پسندى پر مشتمل رجحانات كا آغاز اور معاشرہ شناسى ميں جديد نظريات كے ظہور كے درميان واضح وابستگى نماياں محسوس ہوتى ہے_ اسطرح سماجيات كى جديد شاخيں محض ايسے استعمارى علوم كى صورت ميں سامنے آتى ہيں كہ جو محكوم اور ماتحت اقوام كے مفادات سے قطع نظر محض استعمار ى حكومتوں كى خدمت كرتى ہيں _(۱)

بيسويں صدى ميں بھى مشرق شناسى دو صورتوں كے ذريعے مغرب كے دنيا پر تسلط ميں اپنا كردا ادا كرتى تھى :

الف _ علم ودانش كے حصول اوراسكے پھيلاؤ كے ليے جديد ذرائع اور وسائل سے فائدہ اٹھانا مثلاً اسكول، يونيورسٹياں اور ذرائع ابلاغ وغيرہ _ تاكہ اہل مشرق كے افكار اورعقليت كو نئے سرے سے تيار كياجائے اور انہيں اس انداز سے مغربى تہذيب ميں مخلوط كياجائے تاكہ مشرق والے اپنے آپ كو فكر و تدبير ميں اہل مغرب كى مانند سمجھيں اور انكى اقدار كو اپناليں _

ب)_ بعض مشرق شناس لوگوں كا علمى محدوديت اور تھيورى كى حدود سے نكلنا اور عملى ميدان ميں داخل ہونا تاكہ يورپى حكومتوں كے ديگر ممالك پر تسلط كے اہداف كو عملى جامہ پہنايا جائے_(۲)

اسطرح جديد مطالعات سياسى اہداف كے پيش نظر انجام پائے ہيں اور غير علمى سرگرميوں سے بھى فائدہ اٹھايا گيا ہے اگرچہ اس مشرق شناسى كے بعض نتائج مفيد بھى تھے ، انہوں نے اس ذريعے سے مشرقى سرزمينوں كے بہت زيادہ حد تك اہم حقائق كو دريافت كرليا تھا ليكن ان حقائق كا رخ كبھى بھى خالص علمى مقاصد كے حصول كيلئے نہ رہا _(۳)

____________________

۱) سابقہ حوالہ ص ۱۳۲_

۲) احمد ابوزيد ''لااستشراق والمستشرقون'' در مجلہ عالم الكفر،كويت ص ۸۶ _ ۸۵_

۳) محمد محمد امزيان ، منہج البحث الاجتماعى ، بين الوضيعة والمعيارية ،حيرندن ، فير جنيا، امريكہ ص ۱۵۰_

۲۷۵

لہذا مشرق شناسى كو مشرق و مغرب كے عمومى تصادم كے تناظر ميں محورتجزيہ قرار دينا چاہئے كيونكہ كہ يہ مشرق شناسى ايسى گفتگو ہے كہ جو اہل مغرب نے مشرقيوں بالخصوص مسلمانوں كو محور قرار ديتے ہوئے شروع كى _(۱)

اسى لئے يہ ايك قدرتى بات ہے كہ اس موضوع پر بعض مشرقى دانشور حصرات تنقيد كريں البتہ انكى سخت تنقيد صرف مغربى مشرق شناس لوگوں كيلئے نہيں ہے بلكہ اس تنقيد كے دائرہ ميں وہ مشرقى لوگ بھى ہيں كہ جو مغرب كى طرف رجحان ركھتے ہيں اور انكے نظريات پر عمل كرنے كيلئے انہيں اپنے مطالعات سے مطابقت ديتے ہيں(۲)

بعض معترضين اور اہل تنقيد نے واضح طور پر كہاہے كہ يہ مشرق شناس اسلام كے بارے ميں بات كرنے كى صلاحيت نہيں ركھتے كيونكہ انكى نظر كے مطابق يہ مشرق شناس ايك علمى تجزيہ كيلئے ضرورى غير جانبدارى كا كوئي بھى معيار نہيں ركھتے _ انكى مسلمانوں كے خلاف صليبى جنگوں ، پيغمبر اسلام (ص) پر تہمتوں ، معنويت اور وحى كے انكار سے بھرى ہوئي تاريخ ، عربى زبان سے ناآگاہى اور مسلمانوں كے مخالف يہوديوں كى حمايت كرنا يہ سب انكى غير جانبدارى كو مشكوك اور مخدوش كررہاہے_(۳)

البتہ ان لوگوں كى مشرق شناسى پر تنقيد ، انكے نقائص اور خاص جہات كى طرف انكى جانبدارى كا اعتراض صرف مشرقى دانشوروں كى حد تك منحصر نہيں رہا بلكہ خود مغربى دانشوروں اور مشرق شناسوں نے بھى يہى راستہ اختيار كيا اور تنقيد كى _

____________________

۱) محمد اركون وآخرون ، الاستشراق بين دعاتہ ومعارضيہ ،ترجمہ ہاشم صالح ، دارالساقى ، بيروت ص ۷_

۲) آركون وآخرون،سابقہ حوالہ ص ۱۸۹_

۳)سابقہ حوالہ ص ۱۹۰_ بانقل از جريدة النور ، ۱۰/۱۰/۱۹۸۴ ، ص ۱۰_

۲۷۶

ايونزبريچرڈ كى رائے ہے كہ مشرق شناسى استعمار ى حكومتوں كى خادم رہى ہے ،وہ اس نكتہ كى طرف اشارہ كرتے ہيں كہ اگر استعمار ى حكومتوں كى پاليسى يہ ہے كہ سرداروں اور حكام طبقہ كے ذريعہ اپنے استعمار شدہ علاقوں پر حكومت جارى ركھيں تو اس مقصد كے پيش نظر بہتر يہى تھا كہ ان مشرقى معاشروں ميں انكے سرداروں اور مخصوص فعال افراد سے آگاہ ہوں اور معاشرہ ميں انكى طاقت كى مقدار اور ان اختيارات كو پہچانا جائے كہ جس سے وہ بہرہ مند ہيں كيونكہ اگر ہمارا مقصد يہ ہے كہ ہم ايك سرزمين پر انكے علاقائي قوانين اور رسم و رواج كے مطابق حكومت كريں تو ضرورى ہے كہ پہلے ان قوانين كى نوعيت جاننى چاہئے _(۱)

ميكسم روڈنسن(۲) جو كہ بذات خود مشرق شناسى كے حوالے سے ايك معروف شخصيت ہيں ، وہ اسلامى اصولوں كے بارے ميں ہارٹ مين اور ليون كيٹين كے طرز عمل اور تحرير كى طرف اشارہ كرتے ہيں اور بتاتے ہيں كہ ان دو افراد نے اسلام اور اس كى تاريخ كا تجزيہ كرتے ہوئے محض اقتصادى مسئلہ كو محور قرار ديا ہے اور اسى پر اپنى آراء ديں _ روڈ نسن، ان دونوں كے نظريات پر تنقيد كرتے ہوئے ان نظريات اور آراء كو اس زمانہ ميں موجود اور حالات سے متاثر شدہ قرار ديتے ہيں _ نيز وہ اس بارے ميں ديگر دانشوروں كى تحقيقات ، فعاليت كى طرف اشارہ كرتے ہوئے انكے نتائج كو تباہ كن سے توصيف كرتے ہيں _(۳)

روڈنسن يورپ ميں مشرق شناسوں كے موضوع اور محور پر تنقيد كرتے ہوئے اس نتيجہ پر پہنچتے ہيں كہ انيسويں صدى اور بيسويں صدى كے اوائل ميں كلاسيك مشرق شناسى اس دور كے افكار ونظريات كى پيروى كررہى تھى كہ جو يورپ كے حالات چھائے ہوئے تھے اور انكى اساس مركزى يورپ اورآئيڈيالزم تھا_(۴)

____________________

۱) ايفانزبريتشارد ، الانثروپولو جيا الاجتماعية ، ترجمہ احمد ابوزيد ، قاہرہ ، ص ۱۶۲ با نقل از امزيان ص ۱۴۹_

۲- Maxime Rodinson

۳) ماكسيم روڈنسون ، الدراسات العربية والاسلامية فى اوروبا ، دراكون وديگران، ص ۴۸_

۴) سابقہ حوالہ ص ص ۵۰_ ۴۹_

۲۷۷

البتہ روڈنسن ان تمام نقائص كو شمار كرنے كے ساتھ ساتھ يہ نظريہ بھى ركھتے ہيں كہ اس ذريعے سے جو بہت سى معلومات ملى ہيں انكى اہميت كو نظر انداز نہيں كياجاسكتا اور ان بہت سى مفيد معلومات كے ذخيرے كا انكار نہيں كياجاسكتا _ روڈنسن كے بقول آج ہم انكى معلومات كے ذريعے ايسے مطالب تك پہنچ گئے ہيں كہ اس دور كے محققين ان سے بے خبر تھے_(۱)

اسلامى دنيا ميں مشرق شناسى پر تنقيد كے حوالے سے دو بنيادى اوركليدى نكات پائے جاتے ہيں ;

ايك كا تعلق مصرى مصنف انور عبدالملك كے مقالہ ''مشرق شناسى بحران ميں '' سے ہے يہ مقالہ ۱۹۶۳ ء ميں فرانس ميں نشر ہوا اور دوسراايڈورڈ سعيد كى كتاب ''مشرق شناسي'' سے تعلق ركھتا ہے كہ جو ۱۹۸۷ء ميں نشر ہوئي _(۲)

انور عبدالملك كى نگاہ ميں يورپى سياحوں اور عيسائي مبلغين كى اسلام كے بارے ميں آراء جو مشرق شناسى كے اہم ماخذات ميں شمار ہوتى ہيں ،وہ اسلامى عقائد ونظريات كے خلاف ہيں اور سخت كينہ توز، جھوٹى ، جعلى اور تحريف شدہ ہيں _(۳)

انور عبدالملك نے مشرق شناسى كے مطالعات پر اپنى تنقيد ميں انتہائي دقت كے ساتھ اس مسئلہ پر گفتگو كى ہے كہ مشرق شناسوں نے قابل اطمينان حد تك اپنى ہم عصر مشرقى اقوام كے بارے ميں كام نہيں كيا _ عبدالملك كى نگاہ ميں اسكى وجہ مشرق شناسوں كا مشرق كى جديد تاريخ ميں تحقيق سے فرار تھا_ كيونكہ اس دور ميں استعماريت كى بناء پر وہ ہميشہ ان اقوام ميں مغرب اور اہل مغرب سے دشمنى جيسے حقائق كا سامنا كر رہے تھے_(۴)

____________________

۱)سابقہ حوالہ ص ۵_

۲)سابقہ حوالہ ص ۷_ انورعبدالملك ،الاستشراق فى ازمة، الفكر العربى ، ۱۹۸۳_ ش ۳۱ ص ۱۰۶ _ ۷۰، ايڈورڈسعيد ،الاستشراق ، ترجمہ كمال ابوديہب بيروت ،۱۹۸۱_

۳)انور عبدالملك ،سابقہ حوالہ ص ۷۷_۷۶_

۴) سابقہ حوالہ ، مختلف جگہ سے ہے ، محمد اركون وآخرون ، سابقہ حوالہ،ص ۳۶_

۲۷۸

بہت زيادہ اہميت كا حامل ايك اور نكتہ يہ ہے كہ اٹھارہويں ، نويں اور بيسويں صدى ميں اكثر مشرق شناس اپنى حكومت كى وزارت خارجہ كے ملازمين كى حيثيت سے استعمار شدہ ، سرزمينوں پر كام كر رہے تھے_ اس حوالے سے فرانس كے معروف مشرق شناس ارنسٹ رينن كى طرف اشارہ كيا جاسكتا ہے جو فرانسيسى استعمار كيلئے پروگرام بنانے والوں ميں سے شمار ہوتا تھا_(۱)

مشرق شناسى پر اعتراض وتنقيد كے حوالے سے ان بنيادوں كى طرف اشارہ كياجاسكتا ہے كہ جن پر مشرق شناسى قائم ہوتى ہے ان ستونوں ميں سے چند يہ ہيں _:

۱) يورپى عيسائيت كو ديگر اديان كيلئے ايك معيار سمجھنا اور وہ اسطرح كہ اگر ديگر اديان دين عيسائيت كے اساسى مسائل كے ساتھ ہم آہنگ اور مطابقت نہ ركھتے ہوں تو انہيں رد كرديا جائے گا_ان اديان كى قبوليت كا معيار صرف يہ ہے كہ يہ يورپ ميں رائج عيسائيت كے ساتھ مطابقت كريں _

۲)_ مشرقى معاشروں كا تجزيہ وتحليل ان متضاد معياروں اور نكات كى رو سے كہ جو خود يورپيوں كے تجربات كى بناء پر جمع ہوئے ہيں _

۳)_ نسلى اور قومى تعصب كے ساتھ نگاہ ، يعنى عالم بشر كو دو گروہوں ''ہم '' اور ''دوسرے'' ميں تقسيم كرنا اور دنيا كى اقوام كو بلند اقوام اور حقير اقوام كے معيار سے تقسيم كرنا _

اس ترتيب سے مشرق شناس لوگ يورپيوں كى خصوصيات ميں انہيں تمدن ساز اور صاحبان ايجادات سے ياد كرتے ہيں ،جبكہ سامى اور عرب انكى نگاہ و تحقيق ميں فكر و آراء كے اعتبار سے سطحى ذہن ركھنے والے ہيں _

۴)_ يورپى تجربہ كو عالم بشريت ميں انقلاب كيلئے قابل عمل معيار سمجھنا اور پورى دنيا كى تاريخ كو يورپ كى تاريخ كى اساس اور يورپ كے دريچہ سے ديكھنا_

____________________

۱) احمد سمايلو فتش ،سابقہ حوالہ ص ۱۲۴_

۲۷۹

۵) مشرق كے بارے ميں تجزيہ كرتے ہوئے انتہائي سادگى اور متضاد رويے كا مظاہرہ كرنا كہ جو كچھ بھى يورپ كے علاوہ تھا اسے مشرق سے ربط دينا اور يورپ سے مشابہ قرار دينا اور ان خيالات كے گوناگون مجموعات پر مشرق كے نام كا اطلاق كرنا_(۱)

مجموعى طور پر مشرق شناسوں اور استعمار ميں وابستگى اور مشرق شناسوں كے استعمار گر حكومتوں كى خدمت كرنے كو ''ايلن رشين '' كے نظر كے مطابق مندرجہ ذيل صورت ميں واضح كيا جاسكتا ہے _

بعض مشرق شناس مشرقى ممالك اور اقوام كے بارے ميں مطالعہ كرتے ہيں اور انكى ايك تصوير پيش كرتے ہيں پھر اس تصوير كو ديكھتے ہوئے استعمار گر حكومتوں كو راہنمائي اور نصيحت كرتے ہيں تاكہ وہ مشرقى ممالك پر اپنے تسلط اور حكومت كو جارى ركھيں _

عہد حاضر كا مشرق شناس بھى اگر كوشش كرے كہ مشرقى ممالك اور اقوام كے بارے ميں ايك حقيقى تصوير كشى كرے پھر بھى وہ اس قسم كى تصوير كو پيش كركے استعمار ى ممالك كى خدمت كر ے گا _

____________________

۱) نصر محمد عارف ،سابقہ حوالہ ،ص ۱۲۵_۱۲۱_

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349