تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت25%

تاریخ وہابیت مؤلف:
زمرہ جات: ادیان اور مذاھب

تاریخ وہابیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 28 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 26747 / ڈاؤنلوڈ: 5974
سائز سائز سائز
تاریخ وہابیت

تاریخ وہابیت

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

آٹھواں باب:

جمعیة الاخوان یا انجمن امر بالمعروف و نھی عن المنکر

تاریخ وہا بیت کے آخری دور میں ”جمعیة الاخوان“نے دینی احکام اجراء کر نے میں اہم کردار ادا کیا ہے لہٰذایہ مناسب معلوم ہوا کہ اس انجمن کے بارے میں اس کتاب میں ایک مستقل باب کا اضافہ کردیا جائے تا کہ ہما رے قار ئین کو اسکے اکناف وجوانب سے بخوبی آشنائی پیداہو سکے ۔

”جمعیة الاخوان“ کی ابتداء کے اسبا ب کے بارے میں صلاح الدین مختار کا بیان ہے کہ ۔ ملک عبدالعزیز آل سعود نے جب یہ دیکھا کہ انکی قوم صحرا میں پر اکندہ ہے اور یہ لوگ بہت جلد لڑائی جھگڑے کے لئے تیار ہو جاتے ہیں اور معمولی سے معمولی بات پر فساد شروع کردیتے ہیں تو انھیں یہ فکر لاحق ہوئی کہ کسی طرح اس جاہل اور جھگڑالو قوم کو متحد کیا جائے اور اپنے اسی منصوبہ کو عملی جامہ پہنانے کے لئے یہ صورت نکالی کہ اس سلسلہ میں دین سے بھتر کوئی طریقہ کا ر نہیں ہے لہٰذا ان کے درمیان دینی احکامات رائج کر کے ہی انھیں ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا جاسکتا ہے ۔

ابن سعود نے اپنے اس منصوبہ کو کامیاب کرنے کے لئے نجدکے ایک عالم شیخ عبداللہ بن محمد بن عبد اللطیف سے یہ خواہش ظاہرکی کہ وہ حنبلی مذہب کے مطابق کچھ دینی کتا بیں لکھیں جن کی زبان اتنی سادہ اور عام فہم ہو کہ یہ بدو (صحرانشین عرب)ان کو باآسانی پڑھ کر سمجھ سکیں، ابن سعودنے اسی طرح شیخ عبداللہ کے بعض شاگردوں کو خطیب اور مبلغ کی حیثیت سے ان قبیلو ں کے درمیان بھیجااور انھوں نے اسی طرح سادہ اور واضح طریقہ سے بدووں کے درمیان دینی احکاما ت بیان کئے جنھیں وہ دل وجان سے یاد رکھتے تھے اور اس طرح تما م بدووں کے درمیان دینی رابطہ کی بنا پر الفت پیدا ہو گئی اور انھیں اسباب کے نتیجہ میں انجمن الا خوان وجود میں آئی ۔

یہ صورت حال اس وقت سامنے آئی جب خود صحرانشین بدو، آل سعود اور آل رشید کی خونریزیوں سے تنگ آچکے تھے اور وہ بھی اس سے کسی طرح اپنی جان چھڑا کر ایک نئی زندگی کی طرف بڑھنا چاہتے تھے لہٰذا وہ مذکورہ تعلیمات کے لئے آمادہ اور تشنہ تھے،یعنی ایسی تعلیمات جو ان کوخونریزی سے روکے، اور امن واتحاد کی طرف دعوت دے، چنانچہ یہ تعلیمات ان کے اوپر بہت اثرانداز ثابت ہوئی کیونکہ وہ قوم،جو جنگل راج کی بدترین تاریکی میں پڑی ہوئی تھی اور چھ ماہ یا سال بھر میں ایک بار بھی نھانے کی عادی نہ تھی، اب صفائی اور طھارت کی طرف سخت تو جہ دینے لگی تاکہ حدیث شریف نبوی” النظافة من الایمان“ یعنی صفائی ایمان کا ایک حصہ ہے، اس پر بخوبی عمل کرسکے ۔

وہ بدّو جو اب تک لوٹ مار اور قتل وغارت گری کوھی اپنی زندگی کا مقصد سمجھتے تھے اب مسلسل ان کی زبان پر یہ دعا جاری تھی : ” اللہم اغننا بحلالک عن حرامک“خدا یا ہمیں اپنی حلال چیزوں کے ذریعہ اپنے محرمات سے مستغنی کردے، چنانچہ اس طریقہ کار کی بنا پر ایک کم نظیر امن وامان قائم ہوگیا اور پھر صورت حال بدل کر یہ ہوگئی کہ اگر کسی کوکوئی چیزیا نقدی وغیرہ راستہ ،جنگل یا کسی اور جگہ دکھائی دیتی تھی تو وہ فوراً پولیس کو ا س کی اطلا ع دیتا تھا۔(۷۰۳)

بدّو تیزی کے سا تھ شھروں کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گئے البتہ اس وجہ سے ان کے اندر دینی تعلیمات اور افراط وتفریط نے جنم لیا، جو ابن سعود کی ناراضگی کا سبب قرار پایا اور ملک ابن سعودنے اس کی روک تھام کے لئے علماء سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ ”جمعیة الاخوان“کو ایک خط لکھیں اور انھیں خلاف شریعت کاموں، نیزبے جا تعصبات سے باز رکھیں، خود ملک نے بھی ا پنی طرف سے ان کے لئے ایک پُر زوربیان جاری کیا۔(۷۰۴)

حافظ وھبہ”جمعیة الاخوان“کے بارے میں کھتے ہیں: جب کبھی عراق، مشرقی اردن یا کویت میں جمعیةالاخوان کانام لیا جاتاتھا تو لوگوں پر خوف وھراس طاری ہوجاتا تھا،اور سب لو گ قلعوں یا برجوں کے اندر پناہ لے لیتے تھے عربی ممالک میں خوف و ھراس کون پھیلا تا ہے؟

گذشتہ چند دہائیوں تک الاخوان ان بدووں کو کہا جاتاتھا جنھوںنے خانہ بدوشی کو تر ک کرکے کسی مستقل جگہ سکونت اختیار کرلی اور گارے مٹی سے اپنے لئے گھر بھی بنالئے جنھیں حجرہ کہاجاتاہے گویا وہ اس ابتر زندگی سے اچھی زندگی کی طرف آگئے خیموں کی جگہ یہ مٹی کے گھر پہلی بار ۱۳۳۰ھ میں بنائے گئے جن میں رہنے والے افراد چند مختلف قبیلوں سے تعلق رکھتے تھے ان اعراب نے گذشتہ زندگی کو جاہلیت اور موجودہ جدید دور کو اسلام کا نام دیا ۔(۷۰۵)

سنٹ زان فیلبی (عبد اللہ)نے ”جمعیة الاخوان“ کی ابتد ا کے بارے میں اس طرح لکھا ہے جو لوگ ابن سعود کی طرف سے لوگوں کی رہنمائی و ہدایت اور دین کی طرف را غب کرنے نیزعذاب آخرت سے ڈرانے کے لئے جگہ جگہ تبلیغ کرنے جاتے تھے ان کی یہ کوشش۱۹۱۲ ء مطابق۱۳۳۱ ھ میں نتیجہ خیز ثابت ہوئی اس سال حرب ومطیر نامی قبیلوں کے کچھ لوگوں نے (حرمانامی علاقہ میں (نجد کے قریب) ایک اجتماع کیا ۔

یہ جماعت ابتدا ء میں جس کی کل تعداد(۵۰)افراد سے زیادہ نہ تھی انھوں نے اپنا نام ”جمعیة الاخوان“طے کیا اور اپنا صدر دفتر کویت سے قسیم جانے والی سڑک پر (نجد کے اہم علاقہ میں )بنایا، اور آہستہ آہستہ ان کی تعداد میں اضافہ ہونے لگا ،اور دین کے نام پر ایک مکمل فوج تیار ہو گئی ۔

ابن سعو د کا مقصد صرف یہ تھا کہ ایسی انجمن کے ذریعہ ایک بے باک اور نڈر فوج تیار کی جائے، لہٰذا ملک سعود نے ان کے لئے ہر قسم کے وسائل مھیا کئے جیسے مال و دولت، پہل، کھیتی باڑی کے تمام وسائل ،اورآخر کار دین کا دفاع کرنے کے لئے جنگی سازو سامان بھی ان کے حوالہ کردیاگیا، چنانچہ ”جمعیة الاخوان“ نے تمام قبائل کے درمیا ن قتل غارت گری، رہزنی ،سگریٹ اورحقہ نوشی، اور آرام طلب زندگی کو حرام قرار دیدیا ان کا کل اہتمام اخروی زندگی کے لئے تھا، وہ لوگ اپنے علاوہ دوسرے تمام اسلامی فرقوں کومشرک اور بت پرست سمجھتے تھے ۔

ابھی ۱۹۱۲ عیسوی تمام نہیں ہواتھا کہ ابن سعود نے خود کو ایک ایسی سرفروش اور بے باک فوج کا سربراہ پایا جو شھرمیں رہنے والے بدووںسے وجود میں آئی تھی ایسی فوج جوآخری سانس تک لڑلنے مرنے پرتھی لیکن ایک نا منظم فوج جس میں کسی قسم کا نظم وضبط نہ تھا ،جنگ کے وقت یہ لشکر بھی دوسری منظم اور تر بیت یافتہ فوج کے ساتھ ساتھ رہتا تھا لیکن اس سے بالکل الگ، یہاں تک کہ اسکے پرچم اور جھنڈے اس سے بالکل جداتھے ۔ ”جمعیة الاخوان“ پندرہ سال تک اسی طرح رہی، اور اسکے بعد دولت وآرام نے ان کے اندرایساغرور وتکبر بھر دیا کہ یہ لوگ ابن سعود کی تمام تر کامیابیوں کو اپنا کارنامہ سمجھنے لگے۔(۷۰۶)

”جمعیة الاخوان“ کی تشکیل سے پیدا ہو نے والی مشکلات

یہ خا نہ بدوش اور بدو جب شھری ہو گئے تو آہستہ آہستہ انکا یہ عقیدہ ہو گیا کہ دین صرف وھی ہے جو انھوں نے سیکھا ہے ا ور اسکے علاوہ سب گمراہی ہے اسی بنا پر یہ اپنے علاوہ حتی کہ نجد کے پرانے شھریوں میں سے ہر ایک کو بد گمانی کی نظر سے دیکھتے تھے یہاں تک کہ ابن مسعود کے بارے میں بھی اچھے خیالات نہیں رکھتے تھے ان کایہ نظریہ تھا کہ عمامہ باندہنا سنت ہے لیکن عقال(وہ ڈوری جو بعض عرب سرپر باندہتے ہیں) لگانا بدعت ہے اور بعض نے تو غلو کر کے یہ تک کہہ دیا کہ عقال کفار کا لباس ہے لہٰذا جو عقال لگائے اس سے قطع تعلق کرلیا جائے ۔

ان میں سے اکثرکا یہ نظریہ تھاکہ جو شخص خانہ بدوشی اور بادیہ نشینی کو ترک نہ کرے وہ چاہے جتنابڑامومن ہو وہ مسلمان نہیں ہے اسی بناپر انھیں سلام نہیں کیا کرتے تھے اور نہ ان کے سلام کا جواب دیتے تھے اور ان کے ھاتھ کا ذبیحہ بھی نہیں کہاتے تھے ،کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ انکے علما ء ابن سعود کی چاپلوسی کرتے ہیں اس طرح انھوں نے کتمان حق کیا ہے لہٰذا وہ خطا کار ہیں ۔

ان کا یہ عقیدہ بھی تھا کہ تمام شھری گمراہ ہیں اور ان سے جنگ کرنا واجب ہے اور یہ با ت خدا کی طرف سے انھیں ا لھام ہوئی ہے اس لئے وہ جنگ سے باز رہنے میں کسی کی رائے کو خاطر میں نہ لاتے تھے ۔

کچھ لوگوں نے عبد العزیز پر بھی اعتراض کیا کہ وہ کفار کا دوست اور دین کے معاملہ میں سست ہے،لمبے لمبے کپڑے پہنتاہے اپنی مونچھیں نہیں کٹاتا اور سرپر عقال رکھتا ہے ،مختصر یہ : یہ فرقہ اپنی مرضی کے خلاف ہر شی کو حرام سمجھتا تھا(۷۰۷)

ابن سعود کی چارہ جوئی

یہ سرکش فکرو خیالات ،اور تعصبات ان غلط تبلیغات کا نتیجہ تھے جو شیخ عبداللہ کے شاگردوں نے بدووں کے درمیان اپنی تبلیغ کے دوران پھیلائے تھے ۔

اس سلسلہ میں حافظ وھبہ کا بیان ہے کہ ۱۳۳۵ھ کو تاریخ نجد کا سخت ترین سال کہنا چاہئے کیونکہ اس سال وہاں ایک داخلی فتنہ اٹھنے والا تھا جس میں ایک طرف ”جمعیة الاخوان“ دوسری جانب سعودی حکومت اور عوام الناس تھے ۔

ابن سعود نے نجد کے سر پر منڈلاتے ہوئے اس خطرہ کو ٹالنے کے لئے دینی ماہر طلاب کو اخوان کے درمیان بھیجا تا کہ وہ گذشتہ مبلغین کے پیدا کئے ہوئے فساد کو ختم کرنے کی کو شش کریں۔ نتیجتاً شیخ عبداللہ کے جو شاگرد پہلے سے وہاں موجود تھے اور انھوں نے ہی اس جھالت وگمراہی کے بیج بوئے تھے آہستہ آہستہ میدان ان کے ھاتھ سے نکلتا گیا اور انھیں حجروں (وہ مٹی کے گھرجو”جمعیة الاخوان“ نے اپنے لئے بنوائے تھے)میں رہنے سے منع کردیا گیا ۔

یہ تد بیر اگرچہ بہت سودمند واقع ہوئی لیکن اس سے ”جمعیة الاخوان“ کے ذہنوں میں بھرا ہوا خناس مکمل طریقہ سے ختم نہ ہوسکا اور اگر انھیں سلطان عبدالعزیز کی تلوار اور سطوت وھیبت کا خوف نہ ہوتا تو پورے عربستان میں جنگ کے شعلے بھڑک سکتے تھے۔(۷۰۸)

”جمعیة الاخوان“ کے عادات واطوار

حافظ وھبہ کا بیان ہے کہ ”جمعیة الاخوان“ اب سڑکوں کے محافظ ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ مسافرپر ظلم کرنا حرام ہے وہ مسلمان اور پڑوسی کا احترام کرتے ہیں، اورمسلمانوں کے مال میں تصرف کو حرام سمجھتے ہیں ۔

اخوان موت سے نہیں ڈرتے اور (اپنے عقیدہ کے مطابق)شھادت اور خدا تک پہنچنے کے لئے موت کوبہترین ذریعہ سمجھتے ہیں ، وہاں جب کوئی ماں اپنے بیٹے کو جھاد کے لئے روانہ کرتی ہے تو یہ کہتی ہے کہ اب خدا ہمیں اور تمھیں جنت میں ایک دوسرے کا دیدار کرائے ۔ حملہ کرتے وقت انکا نعرہ” ایاک نعبدوایاک نستعین“ہوتا تھا۔

میں (حافظ وھبہ)نے انکی بعض جنگیں دیکھی ہیں اور خود دیکھا ہے کہ یہ لوگ کس طرح موت کے منھ میں کود جاتے ہیں یہ ٹولیوں کی شکل میں دشمن کی طرف بڑھتے ہیںاور اس دم انھیں دشمن کو مارنے کا ٹنے کے علاوہ کوئی فکر نہیں ہوتی ۔

اخوان کے دلوں میں ذرہ برابرا رحم نہیں پایا جاتا ان کے ھاتھ سے کو ئی نہیں بچ سکتا، وہ جہاں جاتے تھے موت کے قاصد ہوتے تھے، جنگ میں اخوان کی قدرت وطاقت اس وقت معلوم ہوئی جب انھوں نے بار بار عراق، کویت اور مشرقی اردن پر حملے کئے، اگرچہ ان کے لیڈر ابن سعود نے ان کو جنگ سے منع کیا تھا اور اس کا یہ حکم تھا کہ لوگوں سے انسانیت کا سلوک کیا جائے کسی کو قتل نہ کیاجائے علماء بھی ان کو اسی بات کی تاکید کرتے تھے کہ قیدیوں کو اور پناہ لینے والوں کو قتل نہ کریں لیکن انھیں کسی بات کی پرواہ نہ تھی ۔ ”جمعیة الاخوان“ کا کوئی آدمی اگرکسی کو راستہ میں دیکھتا تھا کہ اس کی مونچھیں لمبی ہیں تو اسے سنت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پرعمل کرنے کی دعوت دیتا تھا اور پھر اپنے ھاتھ سے اسکی فالتو مونچھیں کاٹ دیتا تھا ۔ اور اگر کوئی گذرنے والا ان کے محلے سے گذرتاتھا تو پھراسے لمبی مونچھیں رکھنے سےروکنے کے لئے یہ لوگ زبر دستی کرتے تھے جس میں نصیحت اور نرمی کا کو ئی پہلو نہیں رہتا تھا ،اسی طرح اگر یہ کسی کے بدن پر لمبے کپڑے دیکھ لیتے تھے تو اس کو قینچی سے کاٹ کر چھوٹا کر دیتے تھے ۔ ان تمام باتوں کے باوجود اور حکومت کے بالمقابل حد سے تجاوز کر نے کے باوجود بھی ابن سعود نے ان کی ایذا رسانیوں سے چشم پوشی کرکے بہت ہی صبر وتحمل اور بر دباری سے کام لیا، ملک کا کہنا تھا کہ آہستہ آہستہ وقت گذ رنے کے ساتھ ساتھ ان کے تعصبات اور شدت میں کمی آجائے گی اور یہ خود بخود راہ راست پر آجائیں گے ۔(۷۰۹)

نئی ایجادات کی مخالفت اور ٹیلیفون کے تاروں کوکاٹ دینا

”جمعیة الاخوان“ جب پہلی بار مکہ میں داخل ہوئے تو انھیں حکومت کی کسی بات کی پرواہ نہ تھی اور ان کی نظر میں جوکام غلط ہوتا تھا وہ اسکو گولی یا ڈنڈوں سے نیست ونا بو د کردیتے تھے اکثر اوقات ابن سعود کو بھی فتنوں سے بچاؤ کی خاطر انکے آگے ھتھیار ڈالنا پڑتا تھا لیکن اگر سلطان کو یہ محسوس ہوجاتا تھا کہ ان کا ساتھ دینے کی وجہ سے حکومت کمزور ہو سکتی ہے تو پھر ان کے ساتھ سختی کی جاتی تھی ۔

ابن سعود نے سب سے پہلے مکہ میں ٹیلیفون کا مشاہدہ کیا تو اسے احساس ہوا کہ یہ بہت فائدہ مند چیز ہے جس کے ذریعہ کاموں کو تیزی سے انجام دیا جاسکتا ہے اور خبر دینے یا خبر پہونچا نے کے نظام میں بہت سرعت پیدا ہو سکتی ہے اس لئے اس نے یہ ارادہ کیا کہ فون کا ایک تا رمکہ اور ”حدّاء“ (فوجی چھاؤنی) کے درمیان اوردوسراتار ”رغامہ“ اور ” حدّا ء“ کے درمیان کھینچ دیا جائے لیکن پھر اپنے ارادہ کو تبدیل کرکے اسے ٹال دیا کیونکہ یہ ممکن تھا کہ تار کھینچتے ہی اخوان بھڑک جائیں اور شورش بر پا کردیں ۔

”جمعیة الاخوان“کے لوگ جہاں کہیں بھی ٹیلیفون کے تار دیکھتے تھے انھیں کا ٹ دیتے تھے، ان کے خیال میں فون ایک حرام چیزھے اور اس کو نابود کر ناواجب ہے، اکثر اوقات جب کہ بادشاہ مکہ میں ہی موجود ہوتا تھا یہ لوگ شاہی محل کے ٹیلیفون کے تار بھی کاٹ دیتے تھے ان کا گمان تھا کہ ٹیلیفون سے سنائی دی جانے والی آواز شیطان کی آواز ہے،اس خیال کو دور کرنے کے لئے فیلبی کے بقول انھیں فون سننے کی دعوت دی گئی لیکن جب انھیں اپنے ساتھی کی زبان میں تلاوت قرآن کی آواز سنائی دی تو بہت حیرت زدہ رہ گئے(۷۱۰) (کیونکہ شیطان قرآن نہیں پڑھتا ہے)۔

اس سے بڑھکریہ کہ جب کسی اخوانی نے سلطان کے ایک نوکر کو سائیکل پر سوار دیکھا تو اسے ایک طمانچہ ماردیا، نجد ی لوگ سائیکل کو شیطان کی گاڑی یا شیطان کا گھوڑا کہتے تھے اور اسے بدعت کہتے تھے ان کا عقیدہ یہ تھا کہ یہ جادو کی طاقت اور شیطانی پیروں کے ذریعہ حرکت کرتی ہے۔(۷۱۱)

آخر کار۱۹۲۶ ء میں سلطان عبدالعزیز کو ان کے سامنے تسلیم ہونا پڑا اور مدینہ کے وائر لیس سسٹم کوروکنا پڑا ۔

اخوان وائرلیس اور ٹیلیگراف کے سلسلے میں بہت حساس تھے ابن سعود پر سخت اعتراضات کرتے تھے حافظ وھبہ کا بیان ہے کہ ۱۳۵۱ ھ میں جب میں ریاض میں تھا تو ابن سعود نے مجھے بتایا کہ۱۳۳۱ ھ میں جب ”جمعیة الاخوان“ کے کچھ علمائے دین کویہ معلوم ہوا کہ ریاض اورنجد کے دوسرے شھروں میں وائر لیس لگا نے کا ارادہ ہے تو انھوں نے مجھ سے کہا کہ اے پیر مرد جس نے بھی تمھیں ہمارے ملک میں وائر لیس لگا نے اور باہر سے اسکے سیٹ منگوانے کا مشوارہ دیا ہے اس نے تمھیں دہوکا دیاہے اور یہ فیلبی(۷۱۲) بھت جلدہمارے اوپر ایسی مصیبت نازل کریگا کہ ہمارا پوراملک ہی انگلینڈ کے قبضہ میں چلا جائیگا ۔(۷۱۳)

جب ریاض میں وائر لیس سسٹم تیار ہوگیا اور اس سے استفادہ ہونے لگا تو لوگ ایک دوسرے سے یہ کہتے تھے کہ وائر یس ایکسچینج خیر و شرکے درمیا ن ایک سرحد ہے، اسی لئے ان کے علماء اپنے قابل اعتماد افراد کو اس کی تفتیش کے لئے بھیجتے تھے کہ وہ وہا ںجاکر شیطان اور اس کے لئے کی جانے والی قربانیوں کو دیکھیں ،لیکن انھیں ایسی کوئی چیز دکھائی نہ دی، ایکسچینج کے ذمہ دار نے مجھ (حافظ وھبہ) سے کہا کہ ایک مدت تک کچھ چھوٹے چھوٹے ”جمعیة الاخوان“ کے ملااور شیوخ اس کے پاس آتے تھے تاکہ اس سے یہ راز معلوم کر سکیں کہ شیاطین کو کب دیکھا جاسکتا ہے اور بڑا شیطان مکہ میں ہے یاریاض میں ؟

اور اس کی اولاد کے نمبرکیا ہیںجو اہم خبریں اس تک پہونچاتے ہیں؟،وہ انھیں جواب دیتا تھا کہ اس کے کا موں میں شیطان کا کوئی دخل نہیں ہے(۷۱۴)

۱۳۴۶ھ میں ملک (بن سعود) نے مجھے (حافظ وھبہ) ایک نجدی عالم کے ساتھ دینی اور دفتری امور کی تفتیش کے لئے مدینہ بھیجا درمیان میں ٹیلیگرف اور وائر لیس کی بات نکل آئی، تو شیخ نے کہا کہ ان سب کاموں میں جناّت سے خدمت لی جاتی ہے اس نے کہا کہ ایک قابل اعتماد شخص نے مجھے بتایا ہے کہ ٹیلیگراف اس وقت کام کرنا شروع کرتا ہے جب اس کے لئے قربانی کی جائے اور قربانی کرتے وقت زبان پر شیطان کا نام جاری کیا جائے ۔(۷۱۵)

اسی طرح کچھ دہائی پہلے ”الارم “والی سب سے پہلی گھڑی کو نجد میں توڑ دیا گیا اور اسے شیطان کا کام قرار دیکر علماء نے اس کے استعمال کو ممنوع قرار دیدیا اور کہا کہ کم ازکم اس سے استفادہ کرنا بدعت ہے، چنانچہ شیخ سعید بن سحمان نے اس کی رد میں ایک رسالہ لکھا جو۱۹۲۳ھ میں مصر میں طبع ہوا ۔(۷۱۶)

لیکن گاڑیاں اور کار وغیرہ کے بارے میں وہابی پہلے یہ کہتے تھے کہ اگر یہ شیطانی کام نہ بھی ہو تب بھی یہ کفار کی ایجادات ہیں لہٰذا غصہ اور اعتراض کے ساتھ انھیں دیکھتے تھے یہاں تک کہ نجد کے متعصب شھر حوطہ میں جب پہلی کار داخل ہوئی تو شھر کے بازار میں اسے کھلے عام آگ لگا دی گئی،(۷۱۷) اس کے علاوہ بھی دوسرے واقعات ہیں جن کو اختصار کی بنا پر ہم ترک کرر ہے ہیں۔(۷۱۸)

ابن سعود نے مسلسل بردباری کے ساتھ اس کو برداشت کیا اور حسن تد بیر سے انھیں ختم کردیا لیکن”جمعیة الاخوان“یا امر بالمعروف نھی عن المنکرکرنے والوں کو ان کے حال پر چھوڑ دیا اور شرعی کاموں میں وہ انھیں کی رائے کے مطابق عمل کرتا تھا۔

۱۹۵۰ھ میں (ریاض پر قبضہ کی پچاسویں سال گرہ کے موقع پر)سلطان نے یہ ارادہ کیا کہ ایک قدرتمند بادشاہ کے عنوان سے جشن طلائی (گولڈن جبلی)منایا جائے تاکہ وہ حکومتیں جن سے اس کے سیاسی تعلقات ہیں اس کی اس بات کی تعریف کریں کہ اس نے اپنی قوم کو صحراوں اور بیابانوںسے نکال کربین الاقوامی پلیٹ فارم پرلاکر کھڑا کردیا ہے اور وہ اس کی خبریں اپنے اپنے ریڈیو سے نشر کریں ۔

اور اسی طرح پورے جزیرة العرب میں عالیشان جشن منائے جائیں ۔ لیکن سلطان کو اس سلسلے میں یہ فکر لاحق تھی کہ شرعاً اس کو یہ اجازت ہے یا نہیں ؟لہٰذا اس نے ریاض کے مفتی اعظم شیخ محمد بن ابراہیم اور دوسرے علماء سے اس سلسلے میں مشورہ کیا ۔

اس کے بارے میں علماء کا فتویٰ یہ تھا کہ سنت پیغمبر اکرم میں اس کا کہیں وجود نہیں ملتا اور یہ یہودیوں اور عیسائیوں کی ایجاد ہے، چنانچہ مدتوں سے جشن کی تیاری ہونے کے باوجود یہ جشن ملتوی کردیا گیا جب کہ جدہ میں باقاعدہ اس کی تیاریاں مکمل ہو چکی تھیں اور سیاسی سطح پر دعوت نامے بھی تقسیم ہو چکے تھے ۔(۷۱۹)

”جمعیة الاخوان“ کے مفتیوں کی قدرت، دینی احکام کے اجراء میں اب تک اپنی جگہ باقی ہے لیکن جدیدتمدن کے مقابلے کی طاقت اب ان کے اندر باقی نہیں رہ گئی بلکہ وہ خود بھی جدید ترین آلات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔

ابن سعود کا طریقہ کار یہ تھا کہ وہ شدت پسندی پر کسی طرح روک لگانے کے بجائے اس کو اسی طرح چھوڑ دیتاتھا، تاکہ وہ اپنی اصل منزل تک پہونچ جائے اور جیسے ہی اس میں سستی نظر آتی تھی تو اپنے دشمنوںکی سر کوبی کے لئے کسی فرصت کو ھاتھ سے نہ جانے دیتا تھا۔

اسی دور میں جب ابن سعود کا ”جمعیة الاخوان“ کے ساتھ نرم رویہ تھا تو اس کی جانب سے متعین احساء کا حاکم امیر عبداللهبن جلوی اخوانیوں کے ساتھ بہت سختی سے پیش آتاتھا ۔ اور وہ عام طور سے ”جمعیة الاخوان“ کے قبیلوں کے سرداروں کو ان کی شدت پسندی پر سر زنش کرتا تھا اس کا کہنا تھا کہ گذشتہ حالات موجودہ حالات سے بہت بھتر تھے ۔ احسا ء میں ”جمعیة الاخوان“ کے کسی آدمی میں یہ جرات نہیں تھی کہ وہ کسی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھ سکے ۔ اور ذرا سی غلط حرکت پر اسے سزا ملتی تھی، اس بناپر ”جمعیة الاخوان“ کے کارندے وہاں ناشناختہ طریقوں سے جاتے تھے اور بڑی خاموشی کے ساتھ اپنا کام انجام دیتے تھے۔(۷۲۰)

ابن سعود پر ”جمعیة الاخوان“ کے اعتراضات

روز عید فطر ۱۳۴۳ھ میں نماز عید کے بعد فیصل دویش (”جمعیة الاخوان“ کا ایک لیڈر) اور اس کے کچھ ساتھیوں نے ایک جلسہ کیا اور اس میں فیصل نے ایک تقریر کی جس میں وعظ ونصیحت کے بعد کہا کہ ہمارا مقصد صرف برائیوں اور بدعتوں کو نیست ونابود کرنا ہے ہم شریف مکہ کے راستہ پر چلنے والے ہر شخص کا مقابلہ کریں گے۔

یہ وہ پہلی دہمکی تھی جو ”جمعیة الاخوان“ کے کسی لیڈر کی طرف سے عبد العزیز کو دی گئی تھی، اس کے تقریباً ایک سال بعد”جمعیة الاخوان“ کے تمام لیڈروں کا ایک جلسہ ہوا جس میں انھوں نے یہ عہد کیا کہ وہ دین خدا کی مدد کریں گے، اور راہ خدا میں جھاد کریں گے اور اس کے بعد ملک عبد العزیز پر مندرجہ ذیل اعتراضات بھی کئے:

۱۔ کفار سے دوستی اور دین کے معاملہ میں سستی کرتا ہے، لمبے کپڑے پہنتا ہے، مونچھیں نہیں بنواتا، اور سر پر عقال باندہتا ہے۔

۲۔ اپنے بیٹے کو مصر بھیجا جو مشرکین کا ملک ہے۔

۳۔ اپنے دوسرے بیٹے کو لندن بھیجا ہے۔

۴۔ کار اور ٹیلیگرام استعمال کرتا ہے۔

۵۔ حجاز اور نجد میں ٹیکس لگا رہا ہے۔

۶۔ عراق اور مشرقی اردن کے خانہ بدوشوں کو اجازت دے رکھی ہے کہ وہ مسلمانوں کی سر زمین (نجد وحجاز) میں اپنے چو پائے چراتے پھریں۔

۷۔ کویت سے تجارت بند کررکھی ہے اگر وہ کافر ہیں تو ان سے جنگ کی جائے اور اگر مسلمان ہیں تو پھر ان سے قطع تعلق کس لئے؟

۸۔ احساء اور قطیف کے شیعوں کو مذہب اہل سنت اختیار کرنے پر مجبور کرے۔

سلطان عبد العزیز کو جیسے ہی اس واقعہ کی اطلاع ملی وہ فوراً نجد واپس آگیا تاکہ اس بحران کو تدبیر کے ساتھ حل کرسکے، اس لئے اس نے تمام ”جمعیة الاخوان“کے لیڈروں کو(۲۵)رجب ۱۳۴۵ھ کو ریاض میں ایک جلسہ میں بلایا، چنانچہ ”جمعیة الاخوان“ کے تمام لیڈر مذکورہ تاریخ پر ریاض پہونچ گئے صرف سلطان بن بجاد (”جمعیة الاخوان“ کا ایک لیڈر) اس میں شریک نہیں ہوا، سلطان عبد العزیز نے اس جلسہ میں اپنے احوال وخدمات پر ایک مفصل تقریر کی جس میں اس بات پر زور دیاکہ میں شریعت اسلام کا ایک خادم اور نگھبان ہوں، اور میں اب بھی وھی ہوں جو پہلے تھا، اور جیسا کہ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ میں بدل گیا ہوں، نھیں! میرے اندر کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی ہے، میں ہر لمحہ بیدار اور عربوں نیز مسلمانوں کے حقوق کا پاسباں ہوں۔

المختصر یہ کہ اس اجتماع کا نتیجہ یہ نکلا کہ علمائے مجلس نے اس میں ایک فتویٰ صادر کیا جس میں ”جمعیة الاخوان“ کی تمام مشکلات کا حل پیش کیا گیا تھا اس سے بڑھ کر حاضرین مجلس نے اپنے بادشاہ (ابن سعود) سے اپنی محبت کا اظھار کیا اور بادشاہ نجد کے عنوان سے اس کی بیعت کی جس کے بعد اسے حجاز ونجد اور اس کے اطراف کا قانونی بادشاہ بھی تسلیم کیا گیا۔

مذکورہ فتویٰ جس کی مکمل تحریر حافظ وھبہ نے ذکر کی ہے،یہ اس اجتماع میں حاضر علماء(جن کا نام فتوی میں ذکرہے)کی طرف سے ”جمعیة الاخوان“ کے ان سوالات کا جواب ہے جو انھوں نے ملک عبدالعزیز کے بارے میں کئے تھے جسکا خلاصہ یہ ہے ۔

لیکن ٹیلیگراف یا (وائر یس)(جسے نجدی برقی کہتے تھے) یہ ایک جدید چیز ہے جسکی حقیقت سے ہمیں کوئی آگاہی نہیں ہے اور اس سلسلہ میں کسی بھی عالم سے کو ئی بات سننے میں نہیں آ ئی لہٰذا اس مسئلہ میں ہم کچھ حکم نہیں دے سکتے اور اسکے مباح یا حرام ہونے کا قطعی حکم اس وقت دیا جا سکتا ہے جباس کی واقعیت معلوم ہوجائے ۔

مسجد حمزہ اور ابی رشید کے بارے میں ہمارا فتویٰ یہ ہے کہ امام (سلطان عبدالعزیز)فورا ً ان کو منہدم کردیں، ملکی اور سماجی قو اعدو قوانین جوکچھ بھی حجاز میں موجود ہیں انھیں ختم کیاجائے اور صرف شرعی احکام لاگو کئے جائیں ۔

مصری حجاج اسلحہ اور طاقت کے ساتھ مکہ میں داخل نہ ہو ں ہمارا فتویٰ یہ ہے کہ امام (سلطان) ان کے داخلہ پر پابند ی لگائیں نیزشرک اور منکر ات کے اظھار کی روک تھام کی جائے۔

لیکن محمل، تو اس سلسلہ میں ہمارا فتوی یہ ہے کہ مسجد الحرام میں محمل کے داخلے پر پابندی لگائی جائے اور کسی کو اسے مس کرنے یا چومنے کی اجازت نہ دی جائے اور اگر ممکن ہو اور کسی فساد کا خطرہ نہ ہو، تو پورے شھرمکہ میں ہی اسکے داخلے پر مکمل پابند ی لگا دی جائے،(۷۲۱) (محمل کی تفصیل آئندہ صفحات میں ملاحظ کریں)

رافضیوں کے بارے میں ہمارا فتوی یہ ہے کہ امام (ابن سعود)ان کو اسلام کی بیعت پر مجبور کریں اور ان کے تمام دینی پر وگراموں پر پابند ی لگائی جائے، اسی طرح امام پر لازم ہے کہ وہ احساء میں اپنے نمائند وں کو یہ احکامات جاری کرے کہ وہاں کے تمام شیعوں کو شیخ ابن بشیر (وہابی عالم)کے پاس بلاکر ان سے دین خدا ورسول کی بیعت لے اور انھیں مجبور کرے کہ وہ اہلبیت رسول(علیهم السلام)سے توسل نہ کریں اور دوسری بد عتیں جیسے عزاداری(۷۲۲) یا اپنے دوسرے مذہبی رسومات کو ترک کریں، روضوں کی زیارت پر پابندی لگائی جائے انھیں مجبور کیا جائے کہ نماز پنجگانہ میں مسجد میں حاضر ہو ں اور ان کے لئے سنی امام جماعت اورموذن معین کئے جائیں ،انھیں مجبور کیا جائے کہ اصول دین کوتین مانیں(۷۲۳) اور اگر بد عتوں کے لئے انھوں نے کوئی مخصوص جگہ بنا رکھی ہے اسے بھی مسمارکردیاجائے، اسی طرح وہ اپنی بدعتوں کو مساجد یا کسی دوسری جگہوں پر انجام نہ دیں لہٰذا احساء کے شیعوں میں جوشخص بھی ان احکامات پر عمل نہ کرے اسے اس اسلامی ملک (سعودیہ)سے جلا وطن کردیاجائے ۔

قطیف کے رافضیوں پر بھی ابن بشیر احساء کے رافضیوں کی طرح احکامات جاری کرے،عراق کے رافضی (شیعہ)جو نجد کے دیھا تی علاقوں میں مسلما نوں (وہابیوں)کے ساتھ رہتے ہیں ان کے بارے میں ہمارا فتویٰ یہ ہے کہ امام ان کو مسلمانوں کے علاقوں اور ان کی چراگاہوں میں داخل ہونے سے منع کریں ۔

چنانچہ اس فتوی نے ملک کو مجبور کردیا کہ محمل پر پابندی لگائے اور مسجد حمزہ کومسمار کردیا اور وائریس کا استعمال بھی بند کردےا۔(۷۲۴)

محمل کا واقعہ

ابراہیم رفعت پاشاجو ۱۳۱۸ھ،۱۳۲۰ھ، ۱۳۲۱ ہجری قمری میں مصری محمل، اور حجاج کا سربراہ تھا ،محمل کے بارے میں اس کا بیان ہے کہ محمل ہو دج کی طرح چوکور لکڑی سے بنائی جاتی ہے اور پھر چاروں طرف سے ھلالی شکل میں درمیان میں گنبد کی شکل پیدا کرلیتی ہے اس پر عام طور سے حریر یا کسی دوسرے کپڑے پڑے رہتے ہیں سفرکے دوران اسے اونٹ کی پیٹھ پر باند ھ دیا جاتا ہے۔

سیوطی نے کنزالمدفون میں تحریر کیا ہے کہ سب سے پہلے حجاج بن یوسف ثقفی نے محمل کو مکہ لیجانے کی رسم نکالی ،صاحب دررالفوائدکے بقول عراق، مصر، شام اور یمن سے چار محملیںمکہ لائی جاتی تھیں، اور مختلف سالوں میں کچھ دوسرے علاقوں سے بھی محملیں مکہ جاتی تھی،ان میں خلفائے عباسی کے دور میں عراق کی محمل سب سے عالیشان اور مجلل ہو تی تھی ،شامی محمل دسویں صدی ہجری سے حجاز جاتی تھی ،آخری دور میں سلطان سلیم عثمانی، ایک محمل استامبول (ترکی)سے بھیجاکرتا تھا جس میں ایک خانہ کعبہ کا غلاف بھی رہتا تھا ،دوسری صدی ہجری کے دوسرے حصہ میں یمن سے بھی ایک محمل مکہ آتی تھی ۔ مصری محمل کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ سب سے پہلی بار۶۴۸ھ میں شجرة الدر مصری حاکم (کنیز ملک صالح ومادر ملک جلیل)کے دو رمیں مکہ لائی گئی ،جس کی مختصر داستان یہ ہے کہ سلطان شجرة الدر ایک محمل لیکر خود حج کے لئے آیا ،یہ محمل حریر کے کپڑے اور قیمتی پتھروں سے مزین تھی ،اس کے علاوہ خانہ کعبہ ،اور حجرہ پیغمبر ،کے لئے بھی وہ قیمتی ہدایا لایا تھا ،اور اس کے بعد خانہ کعبہ نیزحجرہ پیغمبرکے لئے قیمتی تحفوں کے ساتھ محمل کا یہ سلسلہ جاری رہا(۷۲۵) اس زمانہ سے ہر سال اس عمل کے لئے خاص اہتمام کرنا قاہرہ کا معمول تھا ا ور جیسا کہ ابن بطوطہ کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ محمل کے جلوس کے ساتھ شتربان مختلف قسم کی حدی اور موسیقی گایا کرتے تھے اس سے لوگوں کے اندر حج کرنے کا ذوق اورشوق پیدا ہوتا تھا۔(۷۲۶)

ایرانی محمل

سلطان محمد خدا بندہ کے بیٹے سلطان ابو سعید نے عراقی محمل پر حریر چڑھایا اور اس کو سونے چاندی اور ھیرے جواہرات سے مزین کیا جن کی قیمت ڈھائی لاکھ دینار تھی اس کے علاوہ اس محمل کے اوپر ڈالنے والی ایک چادر بھی دی کہ جب بھی اس محمل کو کہیں زمین پر رکھا جاتا تھا تو خز کی یہ چادر اس پر ڈال دی جاتی تھی ۔(۷۲۷)

ایک اور محمل ایران سے مکہ لے جائی جاتی تھی جس کی تفصیل حقیر نے اپنی کتاب تاریخ قم میں بیان کی ہے البتہ اس کا خلاصہ یہ ہے کہ حسن بیگ روملو کی تحریر کے مطابق اس محمل کو۸۷۵ھ کے واقعات کی بناپر ”ارزون حسن“ کے حکم سے تیار کیا گیا اور اس کو ا یک خاص اہتمام کے ساتھ یزد سے قم لایا گیا اور قم میں داخل ہوتے وقت اس کے لئے اہم انتظامات کئے گئے اور وہاں سے اویس بیگ امیر حجاج اور دوسرے حاجیوں کے ساتھ اسے مکہ معظمہ کی جانب روانہ کردیا گیا۔(۷۲۸)

ایک احتمال یہ بھی ہے کہ کئی دہائیوں سے ہمارے سماج میں جو یہ رواج ہے کہ عاشورکے دن یزد، یا ایران کے دوسرے شھروں میں نذر و نیاز کے طبق ایک خاص اہتما م کے ساتھ سجاکر جگہ جگہ لیجاتے ہیں اور آج بھی اس کے اثرات بعض جگہوں پر دیکھنے میں آتے ہیں یہ ان محملوں سے بیحدشباہت رکھتے ہیں اور بہت ممکن ہے کہ یہ رسم اُسی کی دین ہو۔

محمل پر پابندی

۱۳۴۵ھ تک(جس سال علمائے نجد نےمحمل پر پابندی کا فتوی دیا ہے) مصر اور شام سے دو محملیں خاص تزئینات اور اہتمام کے ساتھ مکہ آتی تھیں ،جن کومسجدالحرام کے دروازے تک اونٹ پر لایا جاتا تھا اورپھر وہاں سے کاندہوں پر اٹھاکر مسجدالحرام کے اندر لاتے تھے ،وہاں سے عرفات، مزدلفہ ،اور منیٰ لیجایا جاتا تھا اور اختتامِ حج کے بعد مدینہ اور وہاں سے مصر اور شام واپس لے جایا کرتے تھے۔

محمل کے ہمراہ بہت سارے لوگ سوار یا پیدل چلتے تھے ،اور ایک میوزک کا دستہ باقاعدہ میوزک بجاتے ہوئے اس کے ساتھ چلتا تھا ،اسی طرح اس ملک کے تمام حاجیوں کا سربراہ اور دوسرے تمام حاجی بھی اسی محمل کے ساتھ حج کرنے جاتے تھے ۔

لوگ اس محمل کو مس کرتے تھے اس کا بوسہ لیتے تھے ،محمل کے کاروانوں کی حرکت اس کے احترام اور دیگر رسومات نیز مکہ کے گورنر کی وہاں تشریف آوری کی تمام تفصیلات کے لئے مراة الحرمین نامی کتاب ملاحظہ فرمائیں جو رفعت پاشا کی تالیف ہے ۔(۷۲۹)

مذکورہ کتا ب میں محمل اوراس کے قافلوں کے متعدد فوٹو بھی ہیں ۔

غلاف کعبہ اور غسل کعبہ کی سنت

غلاف کعبہ ،کعبہ کے لئے موقوف غلام وغیرہجیسے موضوعات ہمارے قارئین کے لئے یقیناً دلچسپ ہیں لہٰذا اس مقام پر ان کی مختصر تفصیلات بھی ذکر کی جارہی ہیں۔

غلاف کعبہ

ارزقی کے بقول دور جاہلیت میں سب سے پہلے جس نے کعبہ کے اوپر مکمل غلاف چڑھایا تھا اس کا نام تُبَّعْ(۷۳۰) (یمن کے قدیم بادشاہوں کا لقب) ہے یہ غلاف نطع (بر وزن فرش)ایک قسم کی کہال) سے بنا ہوا تھا اس کے بعد تبع نے اس پر” حِبَرَہ“ (یمن کا ایک خاص قسم کا کپڑا)کے کپڑے کا غلاف چڑھایا۔

اس کے بعد ہر سال کعبہ پر غلاف چڑھانا ایک معمول بن گیا لیکن جس کپڑے سے کعبہ کا غلاف بناتے تھے وہ ایک خاص قسم کا ہوتاتھا بلکہ متعدد کپڑے جوڑ کر ایک غلاف تیار کیا جاتا تھا،اور جب اس کا کوئی حصہ کہنہ ہو جاتا تھا، تو اسی جگہ نیا کپڑا لگا دیا جاتا تھا ،جس زمانہ میں پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم مکہ میں رہتے تھے اور ابھی آپ نے ہجرت نہیں کی تھی تو اس دور میں بھی کعبہ کا غلاف مختلف قسم کے کپڑوں جیسے نطع ،خیش،اور دشت میشان کے مرغوب کپڑوں سے تیار ہوتا تھا۔(۷۳۱)

ایک قول کے مطابق ظہور اسلام سے پہلے دور جاہلیت میں قریش نے یہ طے کیا تھا کہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لئے ہر قبیلہ سے اس کی استطاعت کے مطابق کچھ مبلغ وصول کیاجائے، اوریہ رسم ربیعہ بن مغیرہ کے زمانہ تک جاری رہی، کیونکہ ربیعہ کو یمن کی طرف تجارتی مال لے جانے کی وجہ سے کافی فائدہ ہواتھالہٰذا ربیعہ نے قریش سے یہ طے کیا کہ ایک سال وہ تنھا کعبہ پر غلاف چڑھا ئے اور دوسرے سال قریش غلاف چڑھائیں گے چنانچہ پوری زندگی وہ حبرہ یا دوسرے قیمتی کپڑوں کا غلاف چڑھاتا رہا۔(۷۳۲)

اسلامی دور میں کعبہ کا غلاف

پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے دور میں یہ معمول تھا کہ کعبہ کا غلاف(۱۰)محرم الحرام کو تبدیل کیاجاتاتھا کیونکہ تمام حجاج عام طور پر د س محرم تک مکہ سے چلے جاتے تھے(لہٰذا حاجیوں کی بناپر اس کے پارہ پارہ ہونے کا خطرہ نہیں رہتا تھا) لیکن اس کے بعد یہ ہونے لگا کہ غلاف کے اوپری حصہ پر جہاں تک ھاتھ نہیں پہونچتا ہے ۸ذی الحجہ کو اور جہاں تک ھاتھ پہونچ جاتا ہے اس حصہ پر عاشور کے دن غلاف چڑھایا جاتا تھا۔

پیغمبر اکرمصلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے کعبہ پر یمن کے بنے ہوئے کپڑوں کا غلاف چڑھایا، اس کے بعد حجاج بن یوسف نے دیبا کا غلاف چڑھایا ،معاویہ نے کعبہ پر دو غلاف چڑھائے ایک دیبا کے کپڑے کا بناہوا جسے عاشور کے دن چڑھا یا جاتاتھا، اور دوسرا قباطی (مصر کا بنا ہوا سفید اور باریک کپڑا)جو رمضان کے آخر میں چڑھایا جاتا تھا ۔

زید اور عبداللهبن زبیر نے کعبہ پر خسروانی (بقول بعض خراسانی)دیبا کپڑے کا غلاف چڑھایا عبدالملک مروان بھی ہر سال دیبا کا ہی غلاف کعبہ کے لئے بھیجاکرتا تھااور مدینہ سے گذرتے وقت اسے مسجد نبوی کے ستونوں میں باندہ دیا جاتا تھاکہ سب لوگ اسے دیکھ لیں اور اس کے بعد اسے مکہ لے جاتے تھے۔

دور جاہلیت کے بر خلاف دور اسلام میں اگر کعبہ کا غلاف پرانا ہو جاتا تھا یا کہیں سے پھٹ جاتا تھا تو اسے نکال کر دوسرا کپڑا ڈال دیتے تھے اور کبھی کبھی پرانا غلاف حاجیوں میں تقسیم کر دیا جاتا تھاجیسا کہ عمر نے ایسا ہی کیا تھا ۔(۷۳۳)

خلفاء اپنے اعتبار سے غلاف کو تبدیل کرتے رہتے تھے تیسری اور چوتھی صدی ہجری میں پورے خانہ کعبہ پر غلاف رہتا تھا صرف حجر اسود والے گوشے پر قد آدم سے کچھ بلند حصہ کھلا رکھتے تھےجب حج کا زمانہ نزدیک آتا تھاتو کعبہ پر خرا سان کا بنا ہوا سفید دیبا کا کپڑا ڈال دیتے تھے اور عید قربان کے دن جس دن حاجیوں کا احرام کھل جاتا ہے اس پر خراسانی سرخ دیبا ڈال دیا جاتا تھا۔(۷۳۴)

حاکم عبیدی اور اس کے نواسہ مستنصر(قرن پنجم میں مصر کے فاطمی خلیفہ)نے سفید دیبا سے کعبہ کا غلاف تیار کیا تھا۔

سلطان محمود غزنوی نے ۴۶۶ھ میں کعبہ کے لئے زرد دیباکا غلاف بھیجا تھا(چھٹی صدی ہجری میں )ناصر عباسی کی خلافت کے آغاز کے ساتھ کعبہ پر سبز رنگ کا غلاف چڑھایا گیااسی زمانہ میں غلاف سیاہ کپڑے سے تیار کیا گیا جس کے کنارے زرد رنگ کے تھے اور آج بھی خانہ کعبہ پر اسی طرح کا غلاف چڑھایا ہوا ہے۔(۷۳۵)

بغدادمیں عباسیوں کی حکومت کے خاتمہ کے بعد خانہ کعبہ کا غلاف مصری اور کبھی یمنی بادشاہ بھیجا کرتے تھے ۵۷۰ھ میں مصری شاہ صالح اسماعیل نے مصر میں غلاف کعبہ کے لئے تین دیھات وقف کر دئے تھے جس کی آمدنی سے ہر سال غلاف کعبہ اور ہر پانچویں سال حجرہ و منبر نبوی کا غلاف بناکر بھیجا جاتا تھا-(۷۳۶)

۹۴۷ھ میں سلطان سلیمان عثمانی نے چند دوسرے دیھات خرید کر ملک صالح کے مو قوفات(۷۳۷) کے ساتھ وقف کر دیا اس زمانہ میں غلاف کعبہ کے حاشیہ پر قرآنی آیات تحریر کرنا ایک معمول تھا اور اسے مکہ پہونچانے کا یہ طریقہ تھا کہ تما م حاجیوں کا سر براہ اور سرپرست خاص بڑے اہتمام کے ساتھ اس غلاف کو مکہ لیجاتا تھا۔

سعودی امراء بھی مختلف اوقات میں کعبہ پر غلاف چڑھاتے رہے ہیں جیسے۲۱۸(۱)ھ سے۱۲۲۹ھ تک سعودبن عبد العزیز نے نوبار حج کیا اور ہر سال کعبہ پر دیبا کا غلاف چٹر ھایا ۔(۷۳۸)

دور حاضر میں کعبہ کا غلاف

مذکورہ موقوفات تقریباًچار صدی تک باقی رہے اور غلاف ان کی آمدنی سے تیار ہو تا رہا۱۳ویںصدی ہجری کے اوائل میں محمد علی پاشا نے اس وقف کو ختم کر دیا ،اور اس زمین کو عمومی اموال میں داخل کر دیا ،اوریہ طے کیا کہ اس کی جگہ کعبہ کا غلاف حکومتی خزانے سے تیار کیا جائے گا چنانچہ یہ طریقہ کار امیر الحاج رفعت پاشا کے زمانہ یعنی(۱۳۲۰،۱۳۲۱و۱۳۲۵) ہجری تک اسی طرح جاری رہا۔(۷۳۹)

۱۳۴۰ھ تک کعبہ کا غلاف تقریباً ہر سال مصر سے آتا رہا۱۳۴۱ھ میں مصری حکومت اور شریف حسین کے درمیان اختلاف کی وجہ یہ تھی کہ اس سال مصری محمل ،کعبہ کا غلاف ،گندم(مکہ و مدینہ کے لوگوں کے درمیان تقسیم کرنے کے لئے)اور محمل کے محافظ ،ڈاکٹروں کی ایک طبی ٹیم جب ایک مخصوص کشتی سے جدہ پہنچی تو شریف حسن نے ڈاکٹروں کی طبی ٹیم کو مکہ جانے سے منع کر دیا تو وہ کشتی اپنے پورے ساز وسامان کے ساتھ مصر کی طرف پلٹ گئی ۔

پہلی جنگ عظیم (۱۹۱۸ء۱۹۱۴ ء) میں عثمانی حکو مت کو یہ خطرہ محسوس ہو اکہ شاید انگلینڈ مصری حکومت کو کعبہ کا غلاف بھیجنے سے منع کردے اور خانہ کعبہ غلاف کے بغیر رہ جائے لہٰذااس نے ایک بہت ہی ظریف مضبوط اور خو بصورت غلاف جس کے کنارے پر سونے اور چاندی کا کام تھا کعبہ کے لئے بھیج دیا، لیکن غلاف کعبہ حسب معمول م-صر سے آگیا اور عثمانی حکو مت کا غلاف مدینہ میں رہ گیا ۔ جس وقت مصری محمل اور غلاف مصر واپس چلاگیا تھا اور حج کا وقت بھی کم رہ گیا تھا تو شریف حسن نے امیر مدینہ کوٹیلی گرام کیا کہ عثمانی حکومت والا غلاف کعبہ فوراً ”رابغ بندر گاہ “پر بھیج دے اور خود جدہ سے ایک کشتی جس کا نام رشدی تھا اس نے رابغ بندرگاہ پر بھیج دی، اور اس طرح مذکورہ غلاف بہت سرعت کے ساتھ مدینہ سے مکہ پہونچ گیا، یہ غلاف عین اسی دن مکہ پہونچا جس دن عام طور سے کعبہ کا غلاف تبدیل کیا جاتا تھا یعنی(۱۰)ذی الحجہ کے دن۔

جب ۱۳۴۴ھ میں شریف حسن کے ھاتھ سے حجاز کی حکومت نکل گئی اور عبد العزیز بن سعود نے حجاز پر قبضہ کرلیا تو کعبہ کا غلاف حسب معمول مصر سے آیا، لیکن اسی سال منیٰ میں محمل کا واقعہ پیش آگیا، تو آئندہ سال مصری حکومت نے غلاف نہیں بھیجا اس سال ۱۳۴۵ھ میں ذی الحجہ کی پہلی تاریخ کو ابن سعود نے اپنے وزیر خزانہ شیخ عبد اللہ سلیمان کو یہ حکم دیا کہ ۱۰ذی الحجہ تک غلاف تیار ہوجانا چاہئے، چنانچہ بر وقت غلاف تیار ہوگیا۔(۷۴۰)

غلاف کعبہ کا مخصوص کار خانہ

غلاف کعبہ اگرچہ پہلے نیک اعمال میں شمارکیا جاتا تھا لیکن آہستہ آہستہ اسے بھی حکومتوں نے اپنے لئے ایک سیاسی حربہ بنالیا اسی لئے ابن سعود نے ۱۳۴۶ ھ میں عبداللہ مذکور کو یہ حکم دیا کہ کعبہ کاغلاف بنانے کے لئے ایک مخصوص کار خانہ بنایا جائے اس نے مکہ کے ”محلہ اجیاد“ میں وزارت خزانہ کے دفترکے سامنے ایک ہزار پانچ سو مربع میڑزمین اسی کام کے لئے مخصوص کردی اور چھ مھینہ میں ایک منزلہ عمارت بن کر تیارہو گئی ،تاریخ میں پہلی مرتبہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لئے کوئی مخصوص جگہ بنائی گئی تھی۔

اس کے بعد ملک نے یہ حکم دیا کہ غلاف کعبہ کی تیاری کے لئے ہنددستان سے ایسے ماہر کاریگر لائے جائیں جو باقاعدہ اس کو زردوزی کے ساتھ تیار کر سکیں، کاریگروں کی فراہمی کا کام ہندوستان کے ایک عالم شیخ اسماعیل غزانوی نے انجام دیا ۔

رجب ۱۳۴۶ھ کی ابتدا میں ہندوستانی کا ریگر اپنے تمام لوازمات اور وسائل کے ساتھ مکہ میں داخل ہوئے جن کے پاس کپڑا بننے کے بارہ سانچے تھے، اور کپڑا بننے کے ماہر ین اور زردوزوں کی تعداد چالیس تھی اور دوسرے بیس آدمی ان کے معاون تھے اس طرح اسی سال ذیقعدہ کے آخر تک خانہ کعبہ کا غلاف بہترین انداز میں اسی کارخانہ میں تیار ہوگیا ۔ اس کا مخصوص کپڑا کالا اور ریشمی تھا اسکے اندر بنائی میں ہی ”لاالہ الا اللّٰہ محمدرسول اللّٰہ “ھرجگہ تحریر تھا اور دوسرے حصہ پر کوئی نہ کوئی آیت قرآنی نقش تھی ۔(۷۴۱)

پردہ کے شمالی حصہ میں یعنی حجر اسماعیل کی طرف شاہ عبد العزیز کا نام تحریر تھا جس کا مضمون یہ تھا کہ ”یہ پردہ، مکہ معظمہ میں خادم حرمین شریفین اعلی حضرت امام عبد العزیز بن عبد الرحمن فیصل آل سعود شہنشاہ مملکت سعودیہ عربیہ کے حکم سے(۴۶)۱۳ھ میں تیار کیا گیا “۔

رمضان المبارک ۱۳۵۵ھ تک کعبہ کا پردہ اسی کارخانہ میں تیار ہوتا رہا لیکن جب اس سال مصر اور سعودیہ حکومت کے اختلافات ایک معاہدے کے بعد ختم ہوگئے تو پھر یہ طے ہوگیا کہ گذشتہ کی طرح حسب معمول خانہ کعبہ کا پردہ مصر سے آئے گا، لہٰذا حکومت مصر کے اس وعدے کے بعد مکہ کا کارخانہ بند کردیا گیا مصر سے آنے والے پردے پر یہ تحریر درج ہوتی تھی:

”اعلی حضرت بادشاہ مصر، فاروق اول کے حکم سے یہ پردہ تیار کیا گیا، اور اعلی حضرت عبد العزیز آل سعود بادشاہ سعودیہ عربیہ کے عہد میں ۱۳۵۵ھ میں اسے خانہ کعبہ کے لئے ہدیہ کیا گیا“۔

یہ سلسلہ۱۳۸۲ھ تک چلتا رہا اس کے بعد پھر مصری اور سعودی حکومتوں کے درمیان کچھ اختلافات پیدا ہوگئے جس کے نتیجہ میں خانہ کعبہ کے پردہ کی تیاری کے لئے مخصوص کار خانہ دوبارہ شروع ہوگیا اور اب کعبہ شریف کا غلاف اسی کارخانہ میں تیار ہوتا ہے۔(۷۴۲)

خانہ کعبہ کا غلاف آٹھ ٹکڑوں سے تیار ہوتا ہے یعنی کعبہ کی چاروں دیواروں میں سے ہر دیوار کے لئے دو کپڑے ہوتے ہیں جنھیں پہلے مسجد الحرام کے صحن میں پھیلایا جاتا ہے اور ان ٹکڑوں کو ایک ساتھ سل دیا جاتا ہے،پھر ہر دیوار کے غلاف کو لپیٹ دیا جاتا ہے، پھر کچھ لوگ کعبہ کی چھت سے کچھ رسّیاں نیچے پھینکتے ہیں اور ان میں یہ چاروں پردے باندہ دئے جاتے ہیں اور انھیں چھت پر کھینچ لیتے ہیں۔

غلاف کا یہ کام ہر سال(۸)ذی الحجہ کو ہوتا ہے اور پھر(۱۰)ذی الحجہ کو پرانا پردہ اتار کر اس کی جگہ یہ نیا پردہ لگا دیا جاتا ہے اور چند دن کے اندر کعبہ پر لٹکے ہوئے پردے ایک ساتھ سِل دئے جاتے ہیں، کعبہ کے گرد جو پٹکہ ہوتا ہے اس کے آٹھ حصے ہوتے ہیں جن پر آیات قرآنی تحریر ہوتی ہیں اور ان آیات کے درمیانی فاصلہ میں ”یَا حَنَّانُ“”یَا مَنَّانُ“ لکھا رہتا ہے۔

اس پٹکے کے علاوہ (حذام کے نام سے) چار پارچے اور ہوتے ہیں جن پر سورہ قل ھو اللہ نقش ہوتا ہے جن کو ھررکن پرپٹکے کے نیچے سلا جاتا ہے ان کی سلائی کا طریقہ یہ ہے کہ کعبہ کی چھت سے لکڑی کے تختے باندہ کر لٹکادئے جاتے ہیں اور سلائی کرنے والا ان پر بیٹھ کر حذام کی سلائی کرتا ہے۔(۷۴۳)

خادمان و خواجگان

سب سے پہلے معاویہ نے مسجد الحرام کی خدمت کے لئے کچھ غلام معین کئے تھے لیکن اب کعبہ کے خدام اور خواجگان (اَغوات) ہیں جو غلام نہیں ہیں بلکہ ان کے آقاوں نے انھیں آزاد کرکے کعبہ کی خدمت پر لگا دیا ہے، اب انھیں مسجد الحرام کی طرف سے ہر مھینہ تنخواہ ملتی ہے، اوران کی باقاعدہ ایک کمیٹی ہے جس کا ایک منتظم ہوتا ہے، اور منتظم کے انتخاب کا طریقہ یہ ہے کہ جو شخص جتنا زیادہ پرانا خادم ہوتا ہے اس کو اس کا منتظم بنادیا جاتا ہے۔

ان خدام کافریضہ یہ ہے کہ مطاف (طواف کرنے کی جگہ) ،حجر اسماعیل (ع) اور مقام ابراہیم (ع) کی صفائی کریں، لائٹ کی سہولت ہونے سے پہلے یہ لوگ نماز مغرب سے نماز عشاء تک اور طلوع فجر سے لے کر سویراہونے تک شمعدانوں میں شمع روشن کرکے انھیں مسجد کے ستونوں پر لگے ہوئے فانوس کے اندر رکھ دیتے تھے۔ ان کے در میان اس طرح کاہر کام انجام دینے سے پہلے ایک مخصوص رسم ہوتی تھی جو گذشتہ دور سے چلی آرہی ہے ۔

ایک قول کے مطابق ”صلاح الدین ایولی“ یا ”نور الدین کرد“ نے سب سے پہلے مسجد النبوی کے لئے خادم معین کئے تھے۔(۷۴۴)

کعبہ کے اندرونی حصہ کا غسل

کعبہ کے اندرونی حصہ کے غسل کادستور پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے زمانہ (فتح مکہ)سے ابتک جاری ہے اس دور میں عام طور سے کعبہ کوھر سال دوبار غسل دیا جاتاہے ایک بار حج شروع ہونے سے پہلے (یعنی ذیقعدہ کے اواخر میں )اور دوسری بار حاجیوں کے مکہ سے چلے جانے کے بعد۔

غسلِ کعبہ کا طریقہ یہ ہے کہ جس دن کعبہ کی دہلائی کا وقت ہوتاہے کعبہ کے کلید داروں کا سرپرست آل شیبہ(۷۴۵) کے دوسرے کلید داروں کے ساتھ طلوع آفتاب کے کچھ دیر بعد کعبہ کے پاس آتا ہے پھر کعبہ کا دروازہ کھولاجاتا ہے پھر کلید دار اور ان کے ہمراہ افراد آب گلاب سے بھرے ہوئے تشت اور گل سرخ کے عطر سے بھری شیشیاں اور عود و عنبر وغیرہ جیسے عطر لیکر آتے ہیں جو لوگ کعبہ کو غسل دیتے ہیں وہ کشمیری شالوں کی لنگی باندہے رہتے ہیں ۔

اس کے علاوہ یہ بھی معمول ہے کہ کلید د ار کعبہ ،بادشاہوں اور امراء اور وزیروں نیز قاضیوں اور اداروں کے سرپرستوں کو (جو حج کرنے آتے ہیں) اس سعادت میں شرکت کی دعوت دیتاہے جب تمام ضروری وسائل آمادہ ہو جاتے ہیں تو پھر چاہ زمزم پر مامور افراد زمزم سے کچھ بالٹیاں پانی بھر کر کعبہ تک پہونچاتے ہیں کلید دار ان کو کعبہ کے اندر رکھ دیتے ہیں ان تمام انتظامات کے بعد تمام مدعوین کعبہ کے اندر داخل ہوتے ہیں جن کی کمر پر لنگی اور ھاتھ میں جھاڑو ہوتی ہے (یہ جھاڑو اوقاف کا مدیر مھیا کرتا ہے) اور پھر آب گلاب۷۴۶ سے مخلوط آب زمزم سے غسل کعبہ کا کام شروع کرتے ہیں ۔

پہلے کعبہ کے فرش ،اور اس کی دیواروں کو غسل دیا جاتا ہے پھر تا حد قامت ان پر گلاب ملا جاتا ہے ،اور پھر گل سرخ اور دوسرے عطروں سے دیواروں کو معطر کیا جاتا ہے کعبہ کی دہلائی اورزمین اور دیواروں کو خشک کرنے کے بعد تمام جھاڑووں کو وہاں موجود لوگوں میں تقسیم کر دیا جاتا ہے۔(۷۴۷)

”جمعیة الاخوان“ اور ابن سعود کے اختلافات

”فیصل دویش“ جو جمعیة الاخوان کا ایک لیڈر تھا اس نے اخوان کو بھڑکاکر ابن سعود کے خلاف ایسی شورش برپا کی کہ جس نے ابن سعود کو ایک نئی مشکل میں ڈال دیا اس نے اکتوبر۱۹۲۷ء میں اپنی طرف سے کچھ فوج عراق اور نجد کی سرحد پر واقع” بصیہ“ نامی علاقہ میں بھیجی اور اس فوج نے سرحد پر مامور کچھ فوجیوں کو قتل کر ڈالا جس کی وجہ سے سعودیہ اور انگلینڈ کی حکومتوں کے درمیان تناو پیدا ہو گیا تو” سر گلبرٹ کلوٹیون“ کو حکومت انگلینڈ کی طرف سے سعودیہ روانہ کیا گیا تاکہ وہ اس بارے میں سلطان عبدالعزیزسے مذاکرات کرے دونوں کے درمیان جدہ میں کچھ گفتگو تو ہوئی مگر اس کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا ۔

ان مذاکرات کے بعد سلطان، حجاز سے نجد آیا اور جمادی الاولیٰ ۱۳۴۷ ھ میں ایک جلسہ کا حکم دیا یہ جلسہ ریاض کے شاہی محل میں کیا گیا جس میں تقریباًشھری اور دیھاتی۸۰۰ علماء اور قبیلوں کے سرداروںنے شرکت کی، مگر دویش اور ابن بجاد (جمعیة الاخوان کے اہم لیڈر)نے اس کا بائیکاٹ کیا اور وہ اس میں شریک نہ ہوئے ۔

ابن سعود نے اپنی تقریر کی ابتداء میں جزیرة العرب میں اپنی اتحادی کو ششوں کا تذکرہ کیا اور پھر یہ اعلان کیا کہ میں حکومت سے بالکل الگ ہو رہا ہوں اور یہ عہد کرتا ہوں کہ آپ لوگ آل سعود میں جس کا بھی انتخاب کریں گے میں اس کی بھر پور مدد کروں گا اس نے اپنی تقریر میں انگلینڈ کے ساتھ پیدا ہونے والے اختلاف کا ذمہ دار دویش کو قرار دیا ابن سعود کا یہ استعفیٰ حاضرین نے قبول نہیں کیا اور سب نے اس کی دوبارہ بیعت کر لی۔

اس جلسہ سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ عوام کے جذبات اخوا ن کے خلاف بھڑک اٹھے مگر ابن بجاد اور فیصل دویش کے ساتھیوں نے اس کو کوئی اہمیت ہی نہ دی اور ا خوان کے درمیان یہ مشہور کر دیا کہ ابن سعود جس دین و شریعت کو برباد کررہا ہے یہ اس کی تعمیر نو کرنا چاہتے ہیں،نیز ابن سعود کفار کا دوست اور ہر کام میں ان کا شریک نیز سلطنت و حکومت کا دلدادہ ہے۔

”جمعیة الاخوان“ کے یہ لوگ عراق اور کویت کے علاقوں میں لوٹ مار کرتے تھے یہاں تک کہ نجد ی قافلوں کو بھی لوٹ لیتے تھے اور دوسروں کو کیونکہ کافر سمجھتے تھے لہٰذا اگر انھیں کو ئی مل جاتاتھا تو اسے قتل کر دیتے تھے ابن سعود کو یہ دکھائی دے رہا تھا کہ اس کی تیس سالہ محنت ضائع ہو جائے گی چنانچہاس نے نجد اور ”جمعیة الاخوان“ کے کافی لوگوں کو اپناہمنوا بنا لیا جن کے ساتھ کچھ علماء بھی تھے اور انھوں نے مل کر ابن بجاد اور دویش کا مقابلہ شروع کر دیا ۔

شروع میں ان کے درمیان پیغامات یا مکالمات کی رد وبدل ہوئی تو اسی دور میں جب ابن بجاد کا ایک آدمی اس کا خط لیکر ابن سعود کے پاس پہونچا تو اس نے اس کو سلام تک نہیں کیا (کیونکہ وہلوگ اسے بدعتی سمجھتے تھے)

المختصر یہ کہ آخر کا ر جنگ و جدال کی نوبت پہونچ گئی جنگ کے دوسرے ہی دن ”جمعیة الاخوان“ کے پیر اکھڑ گئے اور وہ میدان سے فرار کر گئے ابن بجاد بھی فرار ہو گیا اور فیصل دویش کو زخمی حالت میں گرفتار کر لیا گیا ابن بجاد نے بھی تین دن کے بعداپنے کو حکومت کے حوالہ کر دیا اور پھر (مارچ۱۹۲۹ ء مطابق۱۳۴۸ھ) میں اسے بھی جیل بھیج دیا گیا ۔(۷۴۸)

”جمعیة الاخوان“ کے ہنگاموں کاخاتمہ

”ابن بجاد “ کو شکست دینے کے بعد ابن سعود حجاز واپس آگیا اس وقت ابن بجاد جیل میں تھا ادہر دویش زخموں کی شدت سے موت کے قریب تھا لیکن اس کی جان بچ گئی اور وہ کویت اور احساء کی سرحدوں کی طرف چلا گیااس نے پھر ایک جماعت اکٹھا کر لی اور دوبارہ فتنہ و فساد شروع کر دیا اور وہ آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ اس منزل تک پہونچ گیا کہ ریاض اور مکہ کے درمیان مواصلاتی نظام ٹوٹنے ہی والا تھا چنا نچہ ابن سعود نے اس کو ختم کرنے کی دوبارہ ٹھان لی ایک سال تک دونوں میں پیغامات کا سلسلہ جاری رہا آخر کار جب دویش نے اپنے اندر مقاومت کی ہمت نہ پائی تو خود کو انگلینڈ کی فوج کے حوالہ کر دیا (کیونکہ وہاں کی فوجیں بھی اس بارے میں مداخلت کر چکی تھیں)اور انگلینڈ کی فوج نے اسے ابن سعود کے حوالہ کردےا چنانچہ اس تاریخ (یعنی۱۹۳۰ء ۱۳۴۹ھ)سے ”جمعیة الاخوان“ کے یہ فتنے مکمل طور سے ختم ہو گئے اور ”جمعیة الاخوان“کے تمام لوگ دوسرے تمام شھریوں کی طرح حکومت کے مطیع بن گئے اور سلطان عبد العزیز نے سکون کی سانس لی اور دوبارہ حکومتی نظام کی تعمیر شروع کردی شھروں کے درمیان فون ،وائرلیس کے رابطے بر قرار کئے ،مکہ و ریاض کے درمیان وائر لیس اور فون کا رابطہ برقرار کیا۔(۷۴۹)

ملک سعود (جانشین عبد العزیز بن سعود) کے دور میں ”جمعیة الاخوان“ کی کل تعداد بیس ہزار تھی جن میں سے دس ہزار افراد حجاز کے اندر اور بقیہ نجد وغیرہ کے علاقوں میں رہتے تھے یہ سب باقاعدہ مسلح ہوتے تھے اور حکو مت سے انھیں وظیفہ (تنخواہ) بھی ملتا تھا البتہ کچھ لوگ صرف اسلحہ ہی لیتے تھے ”جمعیة الاخوان“ کی کاکر دگی اب تک جاری ہے ۔(۷۵۰)

احمد امین کا بیان

مصر کے مشہور و معروف صاحب قلم احمد امین نے وہابیوں کے بارے میں تحقیق کرتے ہوئے جو بیان دیا ہے اس کا نقل کر نا بھی یہاں بیجا نہ ہوگا، موصوف کہتے ہیں کہ وہابیوں نے جدید تمدن اوراپنی خوا ہشات سے مشکلات کے بارے میں کبھی غور ہی نہیں کیا ،ان کے اکثر لوگ دوسرے مسلم ممالک کو صرف اس لئے کہ ان میں (ان کے عقیدہ کے مطابق)بدعتیں رائج ہیں مسلم ملک ہی نہیں مانتے ان کا یہ نظریہ تھاکہ دوسرے مسلم ممالک سے جھاد کرنا واجب ہے جب ابن سعود کوحکومت ملی تو اس کے سامنے دو طاقتیں تھیں جن کا ساتھ دینے کے لئے وہ مجبو ر تھا ایک دینی احکام کے زمام دار جو نجد میں رہتے تھے اور محمد بن عبد الوہاب کی تعلیمات کے سخت پیروتھے اور ہر نئی چیز کی مخالفت کرنا ان کے لئے ضروری تھا ،ٹلیفون ،وائرلیس کاریں گاڑیاں سائیکل جیسی ہر چیز کو بدعت اور دین کے خلاف قرار دیتے تھے۔

اور دوسری طاقت جدید تمدن کی موج تھی جس کے بعض وسائل کو حکومت کی سخت ضرورت تھی، لہٰذا حکومت نے ان دونوں طاقتوں کے درمیان کا راستہ اختیار کیا ،یعنی دوسرے اسلامی ممالک کو مسلمان مانا اور دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عصری اور دنیوی تعلیمات کو بھی رائج کیا اور حکومت کے نظام کو جدید نظام سے بھی ہم آہنگ کر کے اپنے ملک میں وائرلیس ،گاڑیاں ،جھاز وغیرہ لانے کی اجازت بھی دیدی ا سی طرح کے دوسرے اقدامات بھی کئے واقعاًعلمائے نجد اور رفتار زمانہ نیز صحرائی جھالت اور جدید تمدن کی خواہشات کے درمیان سازگاری پیدا کرنا کتنا مشکل کام تھا۔(۷۵۱)

____________________

۷۰۳. تاریخ المملکة السعودیة ج۲ ص۱۴۶ ۔

۷۰۴. علماء کے خط کا مکمل متن اور ابن سعودکا بیان، صلاح الدین مختار نے ذکر کیا ہے، (ج۲،ص۱۴۹)

۷۰۵. محمد بن عبد الوہاب کا قول ہے (رسالہ الفرقہ الناجیہ ص ۲۸)کہ ہر مسلمان پر بلاد شرک سے بلا د اسلام کی طرف ہجرت کرنا قیامت تک واجب ہے ۔

۷۰۶. تاریخ نجد، ص ۳۰۵تا۳۰۸ سے اقتباس۔

۷۰۷. سید ابراہیم رفاعی کابیان ہے کہ”جمعیة الاخوان“عوام النا س کا ایک گروہ ہے اور جیسا کہ مجھے معلوم ہواہے ان میں سے کوئی بھی قرآن پڑھنے پر قادر نھیںھے ،اور قاری قرآن سے کہا جاتا ہے ،کہ تم قرآن پڑھو، ہم تم کو اسکی تفسیر بتائیں گے۔ (رسالةالاوراق البغدادیہ، ص۲ مطبوعہ بغداد ۔ )

۷۰۸. جزیرةالعرب فی القرن العشرین ص۳۱۳ ۔

۷۰۹. جزیرة العرب فی القرن العشرین، ص ۳۱۴، ۳۱۵۔

۷۱۰. تاریخ نجد ص۳۵۷۔

۷۱۱. حافظ وھبہ ص ۳۱۶۔

۷۱۲. اس سے مراد سنٹ جَون فیلبی ہے جو ابن سعود کا قریبی دوست ہے اور اس نے اظھار اسلام کیا اور اپنا نام عبداللہ رکھ لیا پہلے بھی خلافت شریف حسین کے ذیل میں اسکا مختصر سا تذکرہ گذر چکا ہے۔

۷۱۳. جزیرة العربفی القرن العشرین، ص۳۰۸۔

۷۱۴. جزیرة العرب ص۳۰۹۔

۷۱۵. جزیرةالعرب ص۳۰۷۔

۷۱۶. جزیرة العرب ص۳۰۹۔

۷۱۷. تاریخ نجد، فیلبی، ص ۳۵۶۔

۷۱۸. منجملہ چیچک کا ٹیکہ لگانے کی مخالفت کی۔ (حافظ وھبہ ص۳۰۶۔

۷۱۹. فیلبی ص۴۱۵۔

۷۲۰. جزیرة العرب فی القرن العشرین ص ۳۱۷، اب ”جمعیة الاخوان“ کی وہ شدت پسندی اور ہٹ دہر می ختم ہوچکی ہے اور سعودیہ میں آج ہر طرح کی جدیدترین ٹکنالوجی موجود ہے بلکہ اب تو سعودیہ امریکی فوجوں کے لئے بہترین میزبان اور مغربی ممالک کے قیمتی اسلحوں کی ایک بڑی منڈی ہے اور اسی طرح اسلامی دولت سے عیسائیوں اور یہودیوں کی عیاشی کا سامان مھیا ہورہا ہے کیونکہ جس اسلامی تحریک کی ابتداء ایسی ہوگی تو اس کا انجام بھی بخوبی معلوم ہے۔

۷۲۱. جیسا کہ ہم انشاء اللہ بعد میں بیان کریں گے کہ محمل کا مسئلہ صدیوں پرانا ہے اور مختلف مقامات سے یہ محمل لائی جاتی تھی جن میں سب سے اہم محمل مصر کی ہوتی تھی جس کو ایک خاص اہتمام کے ساتھ مکہ معظمہ لایا جاتا تھا۔ سب سے پہلے وہابیوں نے مکہ میں محمل کے آنے پر۱۲۲۱ھ میں پابندی لگائی، کیونکہ اس زمانہ میں مکہ معظمہ پر ان لوگوں کا قبضہ تھا، جیسا کہ تفصیل بیان ہوچکی ہے۔

۷۲۳. تین اصول دین سے ان کا مطلب یہ ہے کہ ہر شخص اپنے خدا ،دین اور پیغمبر کو پہچانیں، جیسا شیخ محمد بن عبد الوہاب نے اپنے رسالہ ”عقیدة الفرقة الناجیہ“ ص ۹ پر تحریر کیا ہے۔

۷۲۴. حافظ وھبہ ص۳۱۲،۳۱۷،۳۲۱، جیسا کہ معلوم ہے کہ سعود یہ میں احساء اور قطیف دونوں علاقوں میں شیعہ کثرت کے ساتھ آباد ہیں آقای جوادمغنیہ کے بقول جب علامہ محسن امین نے کتاب کشف الارتیاب تالیف کی اور اس میں وہابیوں کے اعتراضات کا علمی جواب دیا تو پھر وہابی احساء اور قطیف کے شیعوں کے بارے میں نرم پڑگئے (ہذی ہی الوہابیہ ص۶)

۷۲۵. مرآة الحرمین ج۲ص۳۰۴، چنانچہ معمول یہ تھا کہ محمل کو سال میں دو مرتبہ گہم ایا جاتا تھا ایک مرتبہ ماہ رجب میں اور دوسری مرتبہ ماہ شوال میں ، اور اس کے لئے محفلوں کا انعقاد کیا جاتا تھا اور جس راستہ سے محمل کا گذر ہوتا تھا اس راستہ کو سجایا جاتا تھا اور اس کی ناکہ بندی کی جاتی تھی اور وہاں کے لوگ اس کو دیکھنے کے لئے جمع ہوجایا کرتے تھے۔ (مرآة ج۲ ص۳۰۹)

۷۲۶. رحلہ ابن بطوطة، جلد اول ص ۲۶۔

۷۲۷. مرآة الحرمین ج۲ ص ۳۰۴۔

۷۲۸. احسن التواریخ ج۱۱ ص۵۱۸۔

۷۲۹. دسویں اور گیارہوں صدی ہجری میں محمل کے احترامات و رسومات کے بارے میں مزید اطلاع کے لئے کتاب بدایع الزہور ابن ایاس ج۴،۵بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔

۷۳۰. یہاں پر تبع سے مراد ”حمیر “بادشاہوں کے سلسلہ کے اسعد ابو کرب ہیں، جو ہجرت سے دو صدی پہلے ہوا کرتے تھے، چنانچہ ان تمام بادشاہوں کو تبع کہا جاتا تھا۔

۷۳۱. اخبار مکہ ج۱،اقتباس از صفحہ ۲۴۹،۲۵۰،لیکن اس سلسلہ میں جناب فاسی صاحب کہتے ہیں کہ خانہ کعبہ پر سب سے پہلے غلاف حضرت اسماعیل (ع)نے چڑھایا ہے، (شفاء الغرام، جلد اول ص ۱۲۱۔ )

۷۳۲. اخبار مکہ معظمہ ص ۲۵۰، ۲۵۱۔

۷۳۳. اخبار مکہ خلاصہ از ص۲۵۲تا۲۵۹۔

۷۳۴. دوسری اور تیسری ہجری میں یہ دیبا کا کپڑا شوشتر (ایران کا ایک شھر)میں تیا ر ہوتا تھا اور ابو علی مسکویہ (تجارب الامم ج۶ص۴۰۷)کے بقول عضد الدولہ دیلمی یہ غلاف بھیجا کرتا تھا۔

۷۳۵. اقتباس از شفاء الغرام، جلد اول ص ۱۲۲۔

۷۳۶. مرآة الحرمین، جلد اول ص ۲۸۴۔

۷۳۷. سلطان سلیمان کے وقف نامہ کی عبارت مرآة الحرمین، جلد اول ص ۲۸۵ پر موجود ہے۔

۷۳۸. ابن بشر، جلد اول۱۲۱۸ھ سے۱۲۲۹ھ کے واقعات کے ضمن میں ۔

۷۳۹. مرآة الحرمین ج۱ ص۲۸۴۔ اور جب ۱۲۲۸ھ میں مصر اور حجاز پر عثمانی بادشاہوں نے قبضہ کر لیا تو پھر یہ ہونے لگا کہ کعبہ کا اندرونی غلاف اور حجرہ پیغمبر کا کپڑا عثمانی بادشاہ بھیجتے تھے اور کعبہ کا بیرونی غلاف حسب معمول مصر سے آتا تھا۔

۷۴۰. محمل کا واقعہ یہ ہے کہ ہر سال مصری حجاج جب منیٰ میں وقوف کرتے تھے تو محمل کے چاروں طرف میوزک بجایا کرتے تھے ،اس سال جب سعودی کارندوںنے انھیں منع کیا تو جھگڑے اور خونریزی کا خطرہ ہوگیا تھا، لیکن خود بادشاہ نے آکر اس کو ختم کرادیا۔

۷۴۱. تاریخ کعبہ ،ص۲۶۲ کااقتباس۔

۷۴۲. تاریخ القویم لمکة وبیت اللہ الکریم، ج۴ ص ۲۲۱ تا ۲۲۴۔

۷۴۳. تاریخ القویم لمکة وبیت اللہ الکریم، ج۴ ص ۲۳۲، ۲۳۳۔

۷۴۴. مرآة الحرمین جلد اول ص ۴۵۹، پرمرقوم ہے: ابن بطوطہ نے کہا کہ ہمارے زمانہ میں عبداللہ غرناطی نے اپنے کو لڑائی جھگڑوں سے بچنے کی خاطر روضہ رسول کے خادموں اورموذنوں میں شامل کرلیا ۔ (ج۱ص۷۴)

۷۴۵. بنی شیبہ کے بارے میں جو کعبہ کے کلید دار تھے ”ابن سعود “ کے حالات زندگی میں تفصیل بیان کی جاچکی ہے۔

۷۴۶. مدتوں سے خانہ کعبہ کے غسل کے لئے ایرانی بہترین گلاب بھیجا جاتا ہے۔

۷۴۷. اریخ کعبہ ص۳۲۶تا۳۲۸،ان دنوں کعبہ کے اندرونی حصہ کا غسل ۶ذی الحجہ کو کاشان (ایران) کےآب گلاب سے ہوتا ہے۔

۷۴۸. جزیرة العرب فی القرن ا لعشرین، ص۳۲۱۔

۷۴۹. جزیرة العرب فی القرن العشرین خلاصہ ۳۲۵، ہم نے ”جمعیة الاخوان“ کے بارے میں اکثر مطالب اسی کتاب سے اخذ کئے ہیں، یہ کتاب ۱۳۴۵ ھ میں تالیف ہو ئی ہے اس کا مولف حافظ وھبہ سعودی عرب کا ایک سیاسی اور با اطلاع انسان تھا جو ان واقعات میں اکثر جگہ خود موجود ہونے کے علاوہ ان کے اندر مداخلت بھی کرتا تھا۔

۷۵۰. مملکة العربیہ السعودیہ کما عرفتھا ص۸۸،نقل از ملک سعود۔

۷۵۱. ز عماء الاصلاح فی العصر الحدیث ص۲۰و۲۱۔

۳ ۔ کس طرح بغیر دیکھے خدا پر ایمان لائیں ؟

خدا پرستوں پر مادیوں کا ایک بیہودہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کس طرح ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئے جس کو اس نے اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو یا اپنے حواس سے درک نہ کیا ہو، تم کہتے ہو کہ خدا کا نہ جسم ہے اور نہ اس کے رہنے کے لئے کوئی جگہ، نہ زمان درکار ہے اور نہ کوئی رنگ و بووغیرہ تو ایسے وجودکو کس طرح درک کیا جاسکتاہے اور کس ذریعہ سے پہچانا جاسکتا ہے؟لہٰذا ہم تو صرف اسی چیز پر ایمان لاسکتے ہیں کہ جس کو اپنے حواس کے ذریعہ درک کرسکیں اور جس چیز کو ہماری عقل درک نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے“۔

جواب :اس اعتراض کے جواب میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی جاسکتی ہے:

۱ ۔ معرفت خدا کے سلسلہ میں مادیوں کی مخالفت کے اسباب :

ان کا علمی غرور اور ان کا تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دینا ، اور اسی طرح ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ قرار دینا ہے، نیز اس بات کا قائل ہونا کہ طبیعی اور مادی چیزوں کے ذریعہ ہی کسی چیز کو درک کیا جاسکتا ہے، (یہ سخت بھول ہے۔)

کیونکہ ہم اس مقام پر ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ سائنس کے سمجھنے اور پرکھنے کی کوئی حد ہے یا نہیں؟!

واضح ہے کہ اس سوال کا جواب مثبت ہے کیونکہ سائنس کے حدود دوسری موجودات کی طرح محدود ہیں ۔

تو پھر کس طرح لامحدود موجود کو طبیعی چیزوں کے ذریعہ درک کیا جاسکتا ہے؟۔

لہٰذا بنیادی طور پر خداوندعالم، اور موجودات ِماورائے طبیعت ،سائنس کی رسائی سے باہر ہیں، اورجو چیزیں ماورائے طبیعت ہوں ان کو سائنس کے آلات کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، ”ماورائے طبیعت “سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس کے ذریعہ ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سے ہر شعبہ کے لئے ایک الگ میزان و مقیاس ہوتا ہے جس سے دوسرے شعبہ میں کام نہیں لیا جاسکتا، نجوم شناسی، فضا شناسی اور جراثیم شناسی میں ریسرچ کے اسباب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔

کبھی بھی ایک مادی ماہر اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایک منجم سے کہا جائے کہ فلاں جرثومہ کو ستارہ شناسی وسائل کے ذریعہ ثابت کرو، اسی طرح ایک جراثیم شناس ماہر سے اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آلات کے ذریعہ ستاروں کے بارے میں خبر دے ، کیونکہ ہر شخص اپنے علم کے لحاظ سے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکتا ہے، اور اپنے دائرے سے باہر نکل کر کسی چیز کے بارے میں ”مثبت“ یا ”منفی“ نظریہ نہیں دے سکتا۔

لہٰذا ہم کس طرح سائنس کو اس بات کا حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے دائرے سے باہر بحث و گفتگو کرے ، حالانکہ اس کے دائرے کی حد عالم طبیعت اور اس کے آثار و خواص ہیں؟!

ایک مادی ماہر کو یہ حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ”ماورائے طبیعت“ کے سلسلہ میں خاموش ہوں، کیونکہ یہ میرے دائر ے سے باہر کی بات ہے، نہ یہ کہ وہ ماورائے طبیعت کا انکار کرڈالے، یہ حق اس کو نہیں دیا جاسکتا۔

جیسا کہ اصولِ فلسفہ حسی کا بانی ” ا گسٹ کانٹ“ اپنی کتاب ”کلماتی در پیرامون فلسفہ حسی“ میں کہتا ہے:”چونکہ ہم موجودات کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں لہٰذا اپنے زمانہ سے پہلے یا اپنے زمانہ کے بعد آنے والی موجودات کا انکار نہیں کرسکتے، جس طرح سے ان کو ثابت بھی نہیں کرسکتے،(غور کیجئے گا)

خلاصہ یہ کہ حسی فلسفہ ، جہل مطلق کے ذریعہ کسی بھی طرح کا نظریہ نہیں دےتا، لہٰذا حسی فلسفہ کے فرعی علوم کو بھی موجوات کے آغاز اور انجام کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے ، یعنی ہم خدا کے علم و حکمت ، او راس کے وجود کا انکار نہ کریں اور اس کے بارے میں نفی و اثبات کے سلسلہ میں بے طرف رہیں ،(نہ انکار کریں اور نہ اثبات) “

ہمارے کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ”ماورائے طبیعت دنیا“ کو سائنس کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاسکتا، اصولی طور پر وہ خدا جس کو مادی اسباب کے ذریعہ ثابت کیا جائے خدا نہیں ہوسکتا۔

دنیا بھر کے خداپرستوں کے عقائد کی بنیاد یہ ہے کہ خدا ،مادہ اور مادہ کی خاصیت سے پاک و منزہ ہے، اور اسے کسی بھی مادی وسیلہ سے درک نہیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس دنیا کو خلق کرنے والے کو آسمان کی گہرائیوں میں میکروسکوپ ( Microscope ) یا ٹلسکوپ کے ذریعہ تلاش کیا جاسکتا ہے، یہ خیال بیہودہ اور بےجا ہے۔

۲ ۔ اس کی نشانیاں

دنیا کی ہر چیز کی پہچان کے لئے کچھ آثار اور نشانیاں ہوتی ہیں ، لہٰذا اس کی نشانیوں کے ذریعہ ہی اس کو پہچانا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں اور دوسرے حواس کے ذریعہ جن چیزوں کو درک کرتے ہیں در حقیقت ان کو بھی آثار اور نشانیوں کے ذریعہ ہی پہچانتے ہیں، (غور کیجئے )

کیونکہ کوئی بھی چیز ہمارے فکر و خیال میں داخل نہیں ہوسکتی اور ہمارا مغز کسی بھی چیز کے لئے ظرف واقع نہیں ہوسکتا۔

مثال کے طور پر: اگر آپ آنکھوں کے ذریعہ کسی جسم کو تشخیص دینا چاہیں اور اس کے وجود کو درک کرنا چاہیں تو شروع میں اس چیز کی طرف دیکھیں گے اس کے بعد نور کی شعائیں اس پر پڑتی ہیں اور آنکھ کی پتلی میں نورانی لہریں ”شبکیہ“ نامی آنکھ کے پردہ پر منعکس ہوتی ہیں تو بینائی اعصاب نور کو حاصل کرکے مغز تک پہنچاتے ہیں او ر پھر انسان اس کو سمجھ لیتا ہے۔

اور اگر لمس کے ذریعہ (یعنی چھوکر) کسی چیز کو درک کریں تو کھال کے نیچے کے اعصاب انسان کے مغز تک اطلاع پہنچاتے ہیں اور انسان اس کو درک کرتا ہے، لہٰذا کسی جسم کو درک کرنا اس کے اثر (رنگ، آواز اور لمس وغیرہ ) کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور کبھی بھی وہ جسم ہمارے مغز میں قرار نہیں پاتا، اور اگر اس کا کوئی رنگ نہ ہو اور اعصاب کے ذریعہ اس کا ادراک نہ کیا جاسکتا ہو تو ہم اس چیز کو بالکل نہیں پہچان سکتے۔

مزید یہ کہ کسی چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا ایک نشانی کا ہونا کافی ہے، مثلاً اگر ہمیں یہ معلوم کرنا ہوکہ دس ہزار سال پہلے زمین کے فلاں حصہ میں ایک آبادی تھی اور اس کے حالات اس طرح تھے، تو صرف وہاں سے ایک مٹی کا کوزہ یا زنگ زدہ اسلحہ برآمد ہونا کافی ہے، اور اسی ایک چیز پر ریسرچ کے ذریعہ ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائیں گی۔

اس بات کے پیش نظر ہر موجود چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی اس کو اثر یا نشانی کے ذریعہ ہی پہچانا جاتا ہے اور یہ کہ ہر چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا نشانی کا ہونا کافی ہے، تو کیا پوری دنیا میں عجیب و غریب اور اسرار آمیز چیزوں کو دیکھنا خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے لئے کافی نہیں ہے؟!

آپ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے ایک اثر پر کفایت کرلیتے ہیں اور ایک مٹی کے کوزہ کے ذریعہ چند ہزار سال پہلے زندگی بسر کرنے والوں کے بعض حالات کا پتہ لگاسکتے ہیں، جبکہ خدا کی شناخت کے لئے ہمارے پاس لاتعداد آثار، لاتعداد موجودات اور بے کراں نظم ، جیسی چیزیں موجود ہیں کیا اتنے آثار کافی نہیں ہیں؟! دنیا کے کسی بھی گوشہ پر نظر ڈالیں خدا کی قدرت اور اس کے علم کی نشانیاں ہر جگہ موجود ہیں، پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اپنے کانوں سے نہیں سنا، تجربہ اور ٹلسکوپ کے ذریعہ نہیں دیکھ سکے، توکیا ہر چیز کو صرف آنکھوں سے دیکھا جاتاہے؟!

۳ ۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے والی چیزیں:

خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بہت سی ایسی چیزیں بناڈالی ہیں کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے اس کوقبول نہیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے: اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ہونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ہیں جن کو دیکھا اوردرک نہیں کیا جاسکتا، عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ہیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، اور ان کے مقابلہ میں درک ہونے والی چیزیں صفر شمار ہوتی ہیں!

نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ علم فیزکس کہتا ہے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، لیکن ان کے ماوراء ہزاروں رنگ پائے جاتے ہیں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ہیں۔

اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ نور کی لہروں کے ذریعہ رنگ پیدا ہوتے ہیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ہوکر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ہے اور جب جسم پر پڑتا ہے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ہضم کرلیتا ہے اور بعض کو واپس کرتا ہے جن کو واپس کرتا ہے وہ وہی رنگ ہوتا ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں، لہٰذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، دوسری طرف نور کی موجوں کی لہروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور رنگ بدلتے رہتے ہیں، یعنی اگر نور کی لہروں کی شدت فی سیکنڈ ۴۵۸ ہزار ملیارڈ تک پہنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ہے اور ۷۲۷ ہزار ملیارڈ لہروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ہے ، اس سے زیادہ لہروں یا کم لہروں میں بہت سے رنگ ہوتے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھ پاتے ۔

۲ ۔ آواز کی موجیں ۱۶/ مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ۰۰۰/۲۰ مرتبہ فی سیکنڈ تک ہمارے لئے قابل فہم ہیں اگر اس سے کم یا زیادہ ہوجائے تو ہم اس آواز کو نہیں سن سکتے۔

۳ ۔ امواجِ نور کی جن لہروں کو ہم درک کرسکتے ہیں انھیں ۴۵۸ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ سے ۷۲۷ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ہونا چاہئے اس سے کم یا زیادہ چاہے فضا میں کتنی ہی آوازیں موجود ہوں ہم ان کو درک نہیں کرسکتے۔

۴ ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں (وائرس اور بیکٹریز) کی تعدادانسان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں، اور بغیر کسی دوربین کے دیکھے نہیں جاسکتے ، اور شایداس کے علاوہ بہت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ہیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ہو۔

۵ ۔ ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ہوتی ہے جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نہیں ہے، حالانکہ دنیاکی ہر چیز ایٹم سے بنتی ہے، اور ہوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرہ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ہیں۔

گزشتہ دانشور وں نے جو کچھ ایٹم کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا وہ صرف تھیوری کی حد تک تھا لیکن کسی نے بھی ان کی باتوں کو نہیں جھٹلایا۔(۱)

خلاصہ یہ کہ ہمارے حواس اور دوسرے وسائل کا دائرہ محدود ہے لہٰذا ان کے ذریعہ ہم عالَم کو بھی محدود مانیں۔(۲)

لہٰذا اگر کوئی چیز غیر محسوس ہے تو یہ اس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، آپ دیکھئے دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں بھری پڑی ہیں جو غیر محسوس ہیں جن کو ہمارے حواس درک نہیں کرسکتے!

جیسا کہ ایٹم کے کشف سے پہلے یا ذرہ بینی (چھوٹی چھوٹی چیزوں) کے کشف سے پہلے کسی کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ ان کا انکار کرے، اور ممکن ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے لحاظ سے مخفی ہوں اور ابھی تک سائنس نے ان کو کشف نہ کیا ہو بلکہ بعد میں کشف ہوں تو ایسی صورت میں ہماری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان شرائط (علم کا محدود ہونا اور مختلف چیزوں کے درک سے عاجز ہونے) کے تحت ہم ان چیزوں کے بارے میں نظریہ پیش کریں کہ وہ چیزیں ہیں یا نہیں ہیں۔

البتہ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ دعویٰ کرناچاہتے ہیں کہ جس طرح سے الکٹرون ، پروٹون یا دوسرے رنگ سائنس نے کشف کئے ہیں تو سائنس مزید ترقی کرکے بعض مجہول چیزوں کو کشف کرلے گا، اور ممکن ہے کہ ایک روز ایسا آئے کہ اپنے ساز و سامان کے ذریعہ ”عالم ماورائے طبیعت“ کو بھی کشف کرلے!

جی نہیں، اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ ”ماورائے طبیعت“ اور ”ماورائے مادہ “ کو مادی وسائل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا، اور یہ کام مادی اسباب و سازو سامان کے بس کی بات نہیں ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض چیزوں کے کشف ہونے سے پہلے ان کے بارے میں انکار کرنا جائز نہیں تھا اور ہمیں اس بات کا حق نہیں تھا کہ یہ کہتے ہوئے انکار کریں کہ فلاں چیز کوچونکہ ہم نہیں دیکھتے؛ جن چیزوں کو دنیاوی سازو سامان کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ، یاوہ سائنس کے ذریعہ ثابت نہیں ہیں لہٰذا ان کا کوئی وجود نہیں ہے، اسی طرح سے ”ماورائے طبیعت“ کے بارے میں یہ نظریہ نہیں دے سکتے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے، لہٰذا اس غلط راستہ کو چھوڑنا ہوگا اور خدا پرستوں کے دلائل کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اس کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا حق ہوگا اس لئے کہ اس صورت میں واقعی طور پر اس کا نتیجہ مثبت ہوگا(۳)

____________________

(۱) منجملہ ان چیزوں کے جو محسوس نہیں ہوتی لیکن کسی بھی دانشور نے ان کا انکار نہیں کیا ہے زمین کی حرکت ہے یعنی ۸کرہ زمین گھومتی ہے، اور یہ وہی ”مدو جزر“(پھیلنا اورسکڑنا ) ہے جو اس زمین پر رونما ہوتا ہے، اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے، جس کو نہ کبھی ہم نے دیکھا، اور نہ کبھی اس کااحساس کیا، یہ زمین دن میں دو بار ۳۰ cm اوپر آتی ہے

انھیں چیزوں میں سے ہوا بھی ہے جوہمہ وقت ہمارے چاروں طرف موجود رہتی ہے اوراس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے لہٰذا اس دباؤ کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جبکہ کوئی بھی انسان یہ تصور نہیں کرتا کہ ہوا اس قدر وزنی ہے، ”گلیلیو“ اور ”پاسکال“ سے پہلے کسی کو ہوا کے وزن کا علم نہیں تھا، اور اب جبکہ سائنس نے اس کے وزن کی صحت کی گواہی دے دی پھر بھی ہم اس کا احساس نہیں کرتے انھیں غیر محسوس چیزوں میں سے ”اٹر“ ہے کہ بہت سے دانشوروں نے ریسرچ کے بعد اس کااعتراف کیا ہے، اور ان کے نظریہ کے مطابق یہ شئے تمام جگہوں پر موجود ہے اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے، بلکہ بعض دانشور تو اس کو تمام چیزوں کی اصل مانتے ہیں، اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ”اٹر“ ایک بے وزن اوربے رنگ چیز ہے اور اس کی کوئی بو بھی نہیں ہوتی جو تمام ستاروں اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے اور تمام چیزوں کے اندر نفوذ کئے ہوئے ہے، لیکن ہم اسے درک کرنے سے قاصر ہیں

۲) مذکورہ بالا مطلب کی تصدیق کے لئے ”کامیل فلامارین“ کی کتاب ”اسرار موت“ سے ایک اقتباس آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر تے ہیں:

”لوگ جہالت ونادانی کی وادی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور انسان یہ نہیں جانتا کہ اس کی یہ جسمانی ترکیب اس کو حقائق کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتی ہے، اور اس کویہ حواس خمسہ ،کسی بھی چیز میں دھوکہ دے سکتے ہیں، صرف انسان کی عقل و فکر اور علمی غور و فکر ہی حقائق کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں“! اس کے بعد ان چیزوں کو بیان کرنا شروع کرتا ہے جن کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے، اوراس کے بعد مولف کتا ب ایک ایک کرکے بیان کرتا ہے اور پھر ہر ایک حس کی محدودیت کو ثابت کرتا ہے یہاں تک کہ کہتا ہے:”لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عقل اور سائنس کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ بہت سی حرکات ، ذرات، ہوا ، طاقتیں اور دیگر چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے، اور ان حواس میں سے کسی ایک سے بھی ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے اطراف میں بہت سی ایسی چیزیں ہوں جن کا ہم احساس نہیں کرتے ، بہت سے ایسے جاندار ہوں جن کو ہم نہیں دیکھتے، جن کا احساس نہیں کرتے، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ”ہیں“ بلکہ ہم یہ کہیں : ”ممکن ہے کہ ہوں“ کیونکہ گزشتہ باتوں کا نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے حواس تمام موجودات کو ہمارے لئے کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ بلکہ یہی حواس بعض اوقات تو ہمیں فریب دیتے ہیں ،اور بہت سی چیزوں کو حقیقت کے بر خلاف دکھاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ تمام موجودات کی حقیقت صرف وہی ہے جس کو ہم اپنے حواس کے ذریعہ درک کرلیں، بلکہ ہمیں اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ بہت سی موجودات ہوں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، جیسا کہ ”جراثیم“ کے کشف سے پہلے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ”لاکھوں جراثیم“ ہر چیزکے چاروں طرف موجود ہوں گے، اور ان جراثیم کے لئے ہر جاندار کی زندگی ایک میدان کی صورت رکھتی ہوگی

نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے یہ ظاہری حواس اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ موجودات کی حقیقت اور ان کی واقعیت کا صحیح پتہ لگاسکیں، مکمل طور پر حقائق کو بیان کرنے والی شئے ہماری عقل اور فکر ہوتی ہے“ (نقل از علی اطلال المذہب المادی، تالیف فرید وجدی ، جلد ۴)

(۳) آفریدگار جہان، آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کی بحثوں کا مجموعہ، صفحہ ۲۴۸

۵ ۔ دین کس طرح فطری ہے؟

فطرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعض حقائق کو بغیر کسی استدلال اور برہان کے حاصل کرلیتا ہے، (چاہے وہ پیچیدہ اور مشکل استدلال ہو اور چاہے واضح اور روشن استدلال ہوں) اور وہ حقائق اس پر واضح و روشن ہوتے ہیں ان کو وہ قبول کرلیتا ہے، مثلاً انسان کسی خوبصورت اور خوشبو دار پھول کو دیکھتا ہے تو اس کی ”خوبصورتی“ کا اعتراف کرتا ہے اور اس اعتراف کے سلسلہ میں کسی بھی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، انسان اس موقع پر کہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ خوبصورت ہے، اس میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا کی شناخت اور معرفت کے سلسلہ میں بھی فطرت کاکردار یہی ہے جس وقت انسان اپنے دل و جان میں جھانکتا ہے تو اس کو ”نور حق“ دکھائی دیتا ہے، اس کے دل کو ایک آواز سنائی دیتی ہے جو اس کو اس دنیا کے خالق اور صاحب علم و قدرت کی طرف دعوت دیتی ہے، اس مبداء کی طرف بلاتی ہے جو ”کمالِ مطلق“اور ”مطلقِ کمال“ ہے، اور اس درک اور احساس کے لئے اسی خوبصورت پھول کی طرح کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا پر ایمان کے فطری ہونے پر زندہ ثبوت:

سوال :ممکن ہے کوئی کہے: یہ صرف دعویٰ ہے، اور خدا شناسی کے سلسلہ میں اس طرح کی فطرت کو ثابت کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں،کیو نکہ میں تواس طرح کا دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میرے دل و جان میں اس طرح کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کو قبول نہ کرے تو اس کو کس طرح قانع کرسکتا ہوں؟

جواب :ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جن کے ذریعہ توحید خدا کو فطری طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے اور یہ شواہد انکار کرنے والوں کا منہ توڑ جواب بھی ہیں چنا نچہ ان قرائن کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔ تاریخی حقائق :

ان تا ریخی حقا ئق کے سلسلہ میں دنیا کے قدیم ترین مورخین نے جو تحقیق اور جستجو کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم و ملت میں کوئی دین نہیں تھا؟بلکہ ہر انسان اپنے لحاظ سے عالم ہستی کے مبدا علم و قدرت کا معتقد تھا اور اس پر ایمان رکھتا تھا اور اس کی عبادت کیا کرتا تھا، اگر یہ مان لیں کہ اس سلسلہ میں بعض اقوام مستثنیٰ تھیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا (کیونکہ ہر عام کے لئے نادر مقامات پر استثنا ہوتا ہے)

”ویل ڈورانٹ“ مغربی مشہور مورخ اپنی کتاب ”تاریخ تمدن“ میں بے دینی کے بعض مقامات ذکر کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: ”ہمارے ذکر شدہ مطالب کے باوجود ”بے دینی“ بہت ہی کم حالات میں رہی ہے ، اور یہ قدیم عقیدہ کہ دین ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں تقریباً سبھی افراد شامل رہے ہیں، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے، یہ بات ایک فلسفی کی نظر میں بنیاد ی تاریخی اور علم نفسیات میں شمار ہوتی ہے، وہ اس بات پر قانع نہیں ہوتا کہ تمام ادیان میں باطل و بیہودہ مطالب تھے بلکہ وہ اس بات پر توجہ رکھتا ہے کہ دین قدیم الایام سے ہمیشہ تاریخ میں موجود رہا ہے“(۱)

یہی مولف ایک دوسری جگہ اس سلسلہ میں اس طرح لکھتا ہے: ”اس پرہیزگاری کا منبع و مرکزکہاں قرار پاتا ہے جو کسی بھی وجہ سے انسان کے دل میںختم ہونے والی نہیں ہے“(۲)

”ویل ڈورانٹ“ اپنی دوسری کتاب ”درسہای تاریخ“ میں ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیظ و غضب اور ناراحتی کی حالت میں کہتا ہے کہ ”دین کی سو جانیں ہوتی ہیں اگر اس کو ایک مرتبہ مار دیا جائے تو دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے!“( ۲)

اگر خدا اور مذہب کا عقیدہ ، عادت، تقلید ، تلقین یا دوسروں کی تبلیغ کا پہلو رکھتا ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا اس طرح عام طور پر پا یا جاتا اور ہمیشہ تاریخ میں موجود رہتا، لہٰذا یہ بہترین دلیل ہے کہ دین فطری ہے۔

۲ ۔ آثار قدیمہ کے شواہد :

وہ آثار اور علامتیں جو ماقبل تاریخ (لکھنے کے فن اختراع سے پہلے اور لوگوں کے حالات زندگی تحریر کرنے سے پہلے) میں ایسے آثار و نشانیاں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ مختلف قومیں اپنے اپنے لحاظ سے دین و مذہب رکھتی تھیں، ”خدا “ اور مرنے کے بعد ”معاد“ پر عقیدہ رکھتی تھی، کیونکہ ان کی من پسند چیزیں مرنے کے بعد ان کے ساتھ دفن کی گئی ہیں تاکہ وہ مرنے کے بعد والی زندگی میں ان سے کام لے سکیں! مردوں کے جسموں کو گلنے اور سڑنے سے بچانے کے لئے ”مومیائی“ کرنا ،یا ”اہرام مصر“ جیسے مقبرے بنانا تاکہ طولانی مدت کے بعد بھی باقی رہیں یہ تمام چیزیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ماضی میں زندگی بسر کرنے والے افراد بھی خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے تھے۔

اگرچہ ان کاموں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں مذہبی عقائد میں بہت سے خرافات بھی پائے جاتے تھے ، لیکن یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصلی مسئلہ یعنی مذہبی ایمان ماقبل تاریخ سے پہلے موجود تھا جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

۳ ۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق اور ان کے انکشافات:

انسانی روح کے مختلف پہلووں اور اس کی اصلی خواہشات پر ریسرچ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذہبی اعتقاد اور دین ایک فطری مسئلہ ہے۔

چار مشہور و معروف احساس (یا چار بلند خواہشات) اور انسانی روح کے بارے میں نفسیاتی ماہرین نے جو چار پہلو بیان کئے ہیں: ( ۱ ۔ حس دانائی، ۲ ۔ حس زیبائی، ۳ ۔ حس نیکی، ۴ ۔ حس مذہبی،) ان مطالب پر واضح و روشن دلیلیں ہیں۔(۴)

انسان کی حس مذہبی یا روح انسان کا چوتھا پہلو ، جس کو کبھی ”کمال مطلق کا لگاؤ“ یا ”دینی اور الٰہی لگاؤ“ کہا جاتا ہے یہ وہی حس اور طاقت ہے جو انسان کو مذہب کی طرف دعوت دیتی ہے ، اور بغیر کسی خاص دلیل کے خدا پر ایمان لے آتی ہے، البتہ ممکن ہے کہ اس مذہبی ایمان میں بہت سے خرافات پائے جاتے ہوں، جس کا نتیجہ کبھی بت پرستی ، یا سورج پرستی کی شکل میں دکھائی دے، لیکن ہماری گفتگو اصلی سرچشمہ کے بارے میں ہے۔

۴ ۔ مذہب مخالف پروپیگنڈے کا ناکام ہوجانا

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چند آخری صدیوں میں خصوصاً یورپ میں دین مخالف پروپیگنڈے بہت زیادہ ہوئے ہیں جو ابھی تک وسیع اور ہمہ گیروسائل کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔

سب سے پہلے یورپ کی علمی تحریک (رنسانس)کے زمانہ سے جب علمی اور سیاسی معاشرہ

گرجاگھر کی حکومت کے دباؤ سے آزاد ہوا تو اس وقت اس قدر دین کے خلاف پروپیگنڈہ ہوا جس سے الحادی نظریہ یورپ میں وجود میں آیا ہے اور ہرجگہ پھیل گیا( البتہ یہ مخالفت عیسائی مذہب کے خلاف ہوئی چونکہ یہی دین وہاں پر رائج تھا ) اس سلسلہ میں فلاسفہ اور سائنس کے ماہرین سے مدد لی گئی تاکہ مذہبی بنیاد کو کھوکھلا کردیا جائے یہاں تک کہ گرجاگھر کی رونق جاتی رہی، اور یورپی مذہبی علماگوشہ نشین ہوگئے، یہی نہیں بلکہ خدا ، معجزہ، آسمانی کتاب اور روز قیامت پر ایمان کا شمار خرافات میں کیا جانے لگا، اور بشریت کے چار زمانہ والا فرضیہ ( قصہ و کہانی کا زمانہ، مذہب کا زمانہ، فلسفہ کا زمانہ اور علم کا زمانہ) بہت سے لوگوں کے نزدیک قابل قبول سمجھا جانے لگا ، اور اس تقسیم بندی کے لحاظ سے مذہب کا زمانہ بہت پہلے گزرچکا تھا!

عجیب بات تو یہ ہے کہ آج کل کی معاشرہ شناسی کی کتابوں میں جو کہ اسی زمانہ کی ترقی یافتہ کتابیں ہیں ان میں اس فارمولہ کو ایک اصل کے عنوان سے فرض کیا گیا ہے کہ مذہب کا ایک طبیعی سبب ہے چاہے وہ سبب ”جہل“ ہو یا ”خوف“ یا ”اجتماعی ضرورتیں“ یا ”اقتصادی مسائل“ اگرچہ ان کے نظریہ میں اختلاف پایا جاتا ہے!!۔

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس وقت رائج مذہب یعنی گرجا گھر نے ایک طویل مدت تک اپنے ظلم و ستم اور عالمی پیمانہ پر لوگوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا اور خاص کرسائنسدانوں پر بہت زیادہ سختیاں کیں نیز اپنے لئے بہت زیادہ مرفہ اور آرام طلب اور دکھاوے کی زندگی کے قائل ہوئے اور غریب لوگوں کو بالکل بھول گئے لہٰذا انھیں اپنے اعمال کی سزا تو بھگتنا ہی تھی ، لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ صرف پاپ اور گرجا کا مسئلہ نہ تھا بلکہ دنیا بھر کے تمام مذاہب کی بات تھی۔

کمیونسٹوں نے مذہب کو مٹانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردی اور تمام تر تبلیغاتی وسائل اور فلسفی نظریات کو لے کر میدان میں آئے اور اس پروپیگنڈہ کی بھر پور کوشش کی کہ ”مذہب معاشرہ کے لئے ”افیون“ ہے!

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی اس شدید مخالفت کے باوجود وہ لوگوں کے دلوں سے مذہب کی اصل کو نہیں مٹاسکے، اور مذہبی جوش و ولولہ کو نابود نہ کرسکے، اس طرح سے کہ آج ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ مذہبی احساسات پر پھر سے نکھار آرہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں بڑی تیزی سے مذہب کی باتیں ہورہی ہیں، اور میڈیا کی ہر خبر میں ان ممالک کے حکام کی پر یشانی کوبیان کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر مذہب خصوصاً اسلام کی طرف لوگوں کا رجحان روز بزور بڑھتا جارہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں کہ جہاں ابھی تک مذہب مخالف طاقتیں بیہودہ کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ، وہاں پر بھی مذہب پھیلتا ہوا نظرآتا ہے۔

ان مسائل کے پیش نظر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذہب کا سرچشمہ خود انسان کی ”فطرت“ ہے، لہٰذا وہ شدید مخالفت کے باوجود بھی اپنی حفاظت کرنے پر قادر ہے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مذہب کبھی کا مٹ گیا ہوتا۔

۵ ۔ زندگی کی مشکلات میں ذاتی تجربات:

بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی میں اس بات کا تجربہ کیا ہے کہ جس وقت بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بلاؤں اور مصیبتوں کا طوفان آتا ہے جہاں پر ظاہری اسباب دم توڑدیتے ہیں، اور انسان کی گردن تک چھری پہنچ جاتی ہے، تو اس طوفانی موقع پر اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک امید پیدا ہوتی ہے اور انسان اس مبداکی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کی تمام مشکلات کو دور کرسکتا ہے، لہٰذا انسان اسی سے لَو لگاتا ہے اور اسی سے مدد مانگتا ہے، یہاں تک کہ معمولی افراد جو عام حالات میں دینی رجحان نہیں رکھتے وہ بھی اس مسئلہ سے الگ نہیں ہیں بلکہ وہ بھی شدید مشکلات یا لاعلاج بیماری کے وقت اس طرح کا روحانی نظریہ رکھتے ہیں۔

(قارئین کرام!) یہ تمام چیزیں اس حقیقت پر واضح شاہد ہیں کہ دین ایک فطری شئے ہے ، چنا نچہ قرآن مجید نے اس سلسلہ میں بہت پہلے ہی خبر دی ہے

جی ہاں انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنے اندر ایک آواز کو سنتا ہے جو محبت اور پیار سے لبریز ہوتی ہے اور وہ مستحکم و واضح ہوتی ہے اور اس کو ایک عظیم حقیقت یعنی عالم و قادر کی طرف دعوت دیتی ہے جس کا نام ”اللہ“ یا ”خدا“ ہے ، ممکن ہے کوئی شخص دوسرے نام سے پکارے ، نام سے کوئی بحث نہیں ہے، بلکہ اس حقیقت پر ایمان کا مسئلہ ہے۔

مفکر شعراء کرام نے بھی اپنے دلچسپ اور بہترین اشعار میں اس مطلب کو بیان کیا ہے:

شورش عشق تو در ہیچ سری نیست کہ نیست

منظر روی تو زیب نظری نیست کہ نیست!

نہ ہمین از غم تو سینہ ما صد چاک است

داغ تو لالہ صفت، بر جگری نیست کہ نیست؟؟

ایک دوسرا شاعر کہتا ہے:

در اندرون من خستہ دل ندانم کیست؟

کہ من خموشم و او در فغان و در غوغاست

”میں نہیں جانتا کہ میرے خستہ دل میں کون ہے کہ میں تو خاموش ہوں لیکن وہ نالہ و فریاد کررہا ہے“۔

۶ ۔مذہب کے فطری ہونے پر دانشوروں کی گواہی

”معرفت خدا“ کے مسئلہ کا فطری ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں صرف قرآن و احادیث نے بیان کیا ہو ،بلکہ غیر مسلم فلاسفہ ،دانشوروں اور نکتہ فہم شعرا کی گفتگو سے بھی یہ مسئلہ واضح ہے۔

چند نمونے:

اس سلسلہ میں ”اینشٹائن“ ایک مفصل بیان کے ضمن میں کہتا ہے: ” بغیر کسی استثنا کے سبھی لوگوں میں ایک عقیدہ اور مذہب پایا جاتا ہے اور میں اس کا نام ”مذہب کی ضرورت کا احساس “ رکھتا ہوں چنانچہ انسان دنیوی چیزوں کے علاوہ جن چیزوں کا احساس کرتا ہے اس مذہب کے تحت انسان تمام اہداف اور عظمت و جلال کو حقیر سمجھتا ہے ، وہ اپنے وجود کو ایک قید خانہ سمجھتا ہے، گویا اپنے بدن کے پنجرے سے پرواز کرنا چاہتا ہے اور تمام ہستی کو ایک حقیقت کی شکل میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔(۵)

اس طرح مشہور و معروف دانشور ”پاسکال“ کہتا ہے:

”دل کے اندر ایسے دلائل ہوتے ہیں جن تک عقل نہیں پہنچ سکتی“!(۶)

”ویلیم جیمز “ کہتا ہے:”میں اس بات کو اچھی طرح مانتاہوں کہ مذہبی زندگی کا سرچشمہ ”دل“ ہے، اور اس بات کو بھی قبول کرتا ہوں کہ فلسفی فارمولے اور دستور العمل اس ترجمہ شدہ مطلب کی طرح ہیں جس کی اصلی عبارت کسی دوسری زبان میں ہو“۔(۷)

”ماکس مولر“ کہتا ہے:”ہمارے بزرگ اس وقت خدا کی بارگاہ میں سرجھکاتے تھے کہ اس وقت خدا کا نام بھی نہیں رکھا گیا تھا۔(۸)

ماکس ایک دوسری جگہ اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: ”اس نظریہ کے برخلاف، جس میں کہا جاتا ہے کہ دین پہلے سورج چاند وغیرہ اور بت پرستی سے شروع ہوا ہے اس کے بعد خدائے واحد کی پرستش تک پہنچا ہے، آثار قدیمہ کے ما ہرین نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی سب سے قدیم دین ہے“۔(۹)

مشہور و معروف مورخ ”پلوتارک“ لکھتا ہے:

”اگر آپ دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو بہت سی ایسی جگہ دیکھیں گے جہاں پر نہ کوئی آبادی ہے نہ علم و صنعت اور نہ سیاست و حکومت، لیکن کوئی جگہ ایسی نہیں ملے گی جہاں پر ”خدا“ نہ ہو“!(۱۰)

”ساموئیل کنیگ“ اپنی کتاب ”جامعہ شناسی“ میں کہتا ہے: ”دنیا میں تمام انسانی جماعتوں کا کوئی نہ کوئی مذہب تھا، اگرچہ سیاحوں اور پہلے (عیسائی) مبلغین نے بعض گروہوں کا نام لیا ہے جن کا کوئی مذہب نہیں تھا، لیکن بعد میں معلوم یہ ہوا ہے کہ اس کی رپورٹ کا کوئی حوالہ نہیں ہے، اور ان کا یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے تھا کہ ان کے گمان کے مطابق ان کا مذہب بھی ہماری طرح کا کوئی مذہب ہونا چاہئے تھا“۔(۱۱)

(قارئین کرام!) ہم اپنی بحث کو مشہور و معروف دور حا ضر کے مورخ ”ویل ڈورانٹ“ کی گفتگو پر ختم کرتے ہیں، وہ کہتا ہے:

”اگر ہم مذہب کے سرچشمہ کو ماقبل تاریخ تصور نہ کریں تو پھر مذ ہب کو صحیح طور پر نہیں پہچان سکتے“۔(۱۲) (۱۳)

____________________

(۱و ۲) ”تاریخ تمد ن ، ویل ڈورانٹ“ ، جلد اول، صفحہ ۸۷ و۸۹.

(۳) ”فطرت“ شہید مطہری، صفحہ۱۵۳.

(۴) ”حس مذہبی یا بعد چہارم روح انسانی“ میں ”کونٹائم“ کے مقالہ کی طرف رجوع فرمائیں،( ترجمہ مہندس بیانی)

(۵) ”دنیائی کہ من می بینم“ (باتلخیص) صفحہ ۵۳

(۶) ”سیر حکمت در اروپا“ ، جلد ۲، صفحہ ۱۴

(۷) ”سیر حکمت در اروپا“ ، جلد ۲، صفحہ ۳۲۱

(۸) مقدمہ نیایش صفحہ

(۹) ”فطرت “شہید مطہری ، صفحہ

(۱۰) مقدمہ نیایش ، صفحہ ۳۱

(۱۱) ”جامعہ شناسی،ساموئیل کنیگ“ صفحہ

(۱۲) تاریخ تمدن ، جلد اول، صفحہ ۸۸.

(۱۳) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۳، صفحہ ۱۲۰

۳ ۔ کس طرح بغیر دیکھے خدا پر ایمان لائیں ؟

خدا پرستوں پر مادیوں کا ایک بیہودہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ ”انسان کس طرح ایک ایسی چیز پر ایمان لے آئے جس کو اس نے اپنی آنکھ سے نہ دیکھا ہو یا اپنے حواس سے درک نہ کیا ہو، تم کہتے ہو کہ خدا کا نہ جسم ہے اور نہ اس کے رہنے کے لئے کوئی جگہ، نہ زمان درکار ہے اور نہ کوئی رنگ و بووغیرہ تو ایسے وجودکو کس طرح درک کیا جاسکتاہے اور کس ذریعہ سے پہچانا جاسکتا ہے؟لہٰذا ہم تو صرف اسی چیز پر ایمان لاسکتے ہیں کہ جس کو اپنے حواس کے ذریعہ درک کرسکیں اور جس چیز کو ہماری عقل درک نہ کرسکے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ در حقیقت اس کا کوئی وجود ہی نہیں ہے“۔

جواب :اس اعتراض کے جواب میں مختلف پہلوؤں سے بحث کی جاسکتی ہے:

۱ ۔ معرفت خدا کے سلسلہ میں مادیوں کی مخالفت کے اسباب :

ان کا علمی غرور اور ان کا تمام حقائق پر سائنس کو فوقیت دینا ، اور اسی طرح ہر چیز کو سمجھنے اور پرکھنے کا معیار صرف تجربہ اور مشاہدہ قرار دینا ہے، نیز اس بات کا قائل ہونا کہ طبیعی اور مادی چیزوں کے ذریعہ ہی کسی چیز کو درک کیا جاسکتا ہے، (یہ سخت بھول ہے۔)

کیونکہ ہم اس مقام پر ان لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ سائنس کے سمجھنے اور پرکھنے کی کوئی حد ہے یا نہیں؟!

واضح ہے کہ اس سوال کا جواب مثبت ہے کیونکہ سائنس کے حدود دوسری موجودات کی طرح محدود ہیں ۔

تو پھر کس طرح لامحدود موجود کو طبیعی چیزوں کے ذریعہ درک کیا جاسکتا ہے؟۔

لہٰذا بنیادی طور پر خداوندعالم، اور موجودات ِماورائے طبیعت ،سائنس کی رسائی سے باہر ہیں، اورجو چیزیں ماورائے طبیعت ہوں ان کو سائنس کے آلات کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، ”ماورائے طبیعت “سے خود ظاہر ہوتا ہے کہ سائنس کے ذریعہ ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، جیسا کہ سائنس کے مختلف شعبوں میں سے ہر شعبہ کے لئے ایک الگ میزان و مقیاس ہوتا ہے جس سے دوسرے شعبہ میں کام نہیں لیا جاسکتا، نجوم شناسی، فضا شناسی اور جراثیم شناسی میں ریسرچ کے اسباب ایک دوسرے سے بہت مختلف ہوتے ہیں ۔

کبھی بھی ایک مادی ماہر اس بات کی اجازت نہیں دے گا کہ ایک منجم سے کہا جائے کہ فلاں جرثومہ کو ستارہ شناسی وسائل کے ذریعہ ثابت کرو، اسی طرح ایک جراثیم شناس ماہر سے اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ اپنے آلات کے ذریعہ ستاروں کے بارے میں خبر دے ، کیونکہ ہر شخص اپنے علم کے لحاظ سے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکتا ہے، اور اپنے دائرے سے باہر نکل کر کسی چیز کے بارے میں ”مثبت“ یا ”منفی“ نظریہ نہیں دے سکتا۔

لہٰذا ہم کس طرح سائنس کو اس بات کا حق دے سکتے ہیں کہ وہ اپنے دائرے سے باہر بحث و گفتگو کرے ، حالانکہ اس کے دائرے کی حد عالم طبیعت اور اس کے آثار و خواص ہیں؟!

ایک مادی ماہر کو یہ حق ہے کہ وہ یہ کہے کہ میں ”ماورائے طبیعت“ کے سلسلہ میں خاموش ہوں، کیونکہ یہ میرے دائر ے سے باہر کی بات ہے، نہ یہ کہ وہ ماورائے طبیعت کا انکار کرڈالے، یہ حق اس کو نہیں دیا جاسکتا۔

جیسا کہ اصولِ فلسفہ حسی کا بانی ” ا گسٹ کانٹ“ اپنی کتاب ”کلماتی در پیرامون فلسفہ حسی“ میں کہتا ہے:”چونکہ ہم موجودات کے آغاز و انجام سے بے خبر ہیں لہٰذا اپنے زمانہ سے پہلے یا اپنے زمانہ کے بعد آنے والی موجودات کا انکار نہیں کرسکتے، جس طرح سے ان کو ثابت بھی نہیں کرسکتے،(غور کیجئے گا)

خلاصہ یہ کہ حسی فلسفہ ، جہل مطلق کے ذریعہ کسی بھی طرح کا نظریہ نہیں دےتا، لہٰذا حسی فلسفہ کے فرعی علوم کو بھی موجوات کے آغاز اور انجام کے سلسلہ میں کوئی فیصلہ نہیں کرنا چاہئے ، یعنی ہم خدا کے علم و حکمت ، او راس کے وجود کا انکار نہ کریں اور اس کے بارے میں نفی و اثبات کے سلسلہ میں بے طرف رہیں ،(نہ انکار کریں اور نہ اثبات) “

ہمارے کہنے کا مقصد بھی یہی ہے کہ ”ماورائے طبیعت دنیا“ کو سائنس کی نگاہوں سے نہیں دیکھا جاسکتا، اصولی طور پر وہ خدا جس کو مادی اسباب کے ذریعہ ثابت کیا جائے خدا نہیں ہوسکتا۔

دنیا بھر کے خداپرستوں کے عقائد کی بنیاد یہ ہے کہ خدا ،مادہ اور مادہ کی خاصیت سے پاک و منزہ ہے، اور اسے کسی بھی مادی وسیلہ سے درک نہیں کیا جاسکتا۔

لہٰذا یہ نہیں سوچنا چاہئے کہ اس دنیا کو خلق کرنے والے کو آسمان کی گہرائیوں میں میکروسکوپ ( Microscope ) یا ٹلسکوپ کے ذریعہ تلاش کیا جاسکتا ہے، یہ خیال بیہودہ اور بےجا ہے۔

۲ ۔ اس کی نشانیاں

دنیا کی ہر چیز کی پہچان کے لئے کچھ آثار اور نشانیاں ہوتی ہیں ، لہٰذا اس کی نشانیوں کے ذریعہ ہی اس کو پہچانا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ آنکھوں اور دوسرے حواس کے ذریعہ جن چیزوں کو درک کرتے ہیں در حقیقت ان کو بھی آثار اور نشانیوں کے ذریعہ ہی پہچانتے ہیں، (غور کیجئے )

کیونکہ کوئی بھی چیز ہمارے فکر و خیال میں داخل نہیں ہوسکتی اور ہمارا مغز کسی بھی چیز کے لئے ظرف واقع نہیں ہوسکتا۔

مثال کے طور پر: اگر آپ آنکھوں کے ذریعہ کسی جسم کو تشخیص دینا چاہیں اور اس کے وجود کو درک کرنا چاہیں تو شروع میں اس چیز کی طرف دیکھیں گے اس کے بعد نور کی شعائیں اس پر پڑتی ہیں اور آنکھ کی پتلی میں نورانی لہریں ”شبکیہ“ نامی آنکھ کے پردہ پر منعکس ہوتی ہیں تو بینائی اعصاب نور کو حاصل کرکے مغز تک پہنچاتے ہیں او ر پھر انسان اس کو سمجھ لیتا ہے۔

اور اگر لمس کے ذریعہ (یعنی چھوکر) کسی چیز کو درک کریں تو کھال کے نیچے کے اعصاب انسان کے مغز تک اطلاع پہنچاتے ہیں اور انسان اس کو درک کرتا ہے، لہٰذا کسی جسم کو درک کرنا اس کے اثر (رنگ، آواز اور لمس وغیرہ ) کے ذریعہ ہی ممکن ہے اور کبھی بھی وہ جسم ہمارے مغز میں قرار نہیں پاتا، اور اگر اس کا کوئی رنگ نہ ہو اور اعصاب کے ذریعہ اس کا ادراک نہ کیا جاسکتا ہو تو ہم اس چیز کو بالکل نہیں پہچان سکتے۔

مزید یہ کہ کسی چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا ایک نشانی کا ہونا کافی ہے، مثلاً اگر ہمیں یہ معلوم کرنا ہوکہ دس ہزار سال پہلے زمین کے فلاں حصہ میں ایک آبادی تھی اور اس کے حالات اس طرح تھے، تو صرف وہاں سے ایک مٹی کا کوزہ یا زنگ زدہ اسلحہ برآمد ہونا کافی ہے، اور اسی ایک چیز پر ریسرچ کے ذریعہ ان کی زندگی کے حالات کے بارے میں معلومات حاصل ہوجائیں گی۔

اس بات کے پیش نظر ہر موجود چاہے وہ مادی ہو یا غیر مادی اس کو اثر یا نشانی کے ذریعہ ہی پہچانا جاتا ہے اور یہ کہ ہر چیز کی پہچان کے لئے ایک اثر یا نشانی کا ہونا کافی ہے، تو کیا پوری دنیا میں عجیب و غریب اور اسرار آمیز چیزوں کو دیکھنا خدا کی شناخت اور اس کی معرفت کے لئے کافی نہیں ہے؟!

آپ کسی چیز کو پہچاننے کے لئے ایک اثر پر کفایت کرلیتے ہیں اور ایک مٹی کے کوزہ کے ذریعہ چند ہزار سال پہلے زندگی بسر کرنے والوں کے بعض حالات کا پتہ لگاسکتے ہیں، جبکہ خدا کی شناخت کے لئے ہمارے پاس لاتعداد آثار، لاتعداد موجودات اور بے کراں نظم ، جیسی چیزیں موجود ہیں کیا اتنے آثار کافی نہیں ہیں؟! دنیا کے کسی بھی گوشہ پر نظر ڈالیں خدا کی قدرت اور اس کے علم کی نشانیاں ہر جگہ موجود ہیں، پھر بھی لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھا اور اپنے کانوں سے نہیں سنا، تجربہ اور ٹلسکوپ کے ذریعہ نہیں دیکھ سکے، توکیا ہر چیز کو صرف آنکھوں سے دیکھا جاتاہے؟!

۳ ۔ دیکھنے اور نہ دیکھنے والی چیزیں:

خوش قسمتی سے آج سائنس نے ترقی کر کے بہت سی ایسی چیزیں بناڈالی ہیں کہ ان کے وجود سے مادیت اور اس کے نتیجہ میں مادی اور الحادی نظریہ کی تردید ہوجاتی ہے، قدیم زمانہ میں تو ایک دانشور یہ کہہ سکتا تھا کہ جس چیز کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے اس کوقبول نہیں کیا جاسکتا، لیکن آج سائنس کی ترقی سے یہ بات ثابت ہوچکی ہے: اس دنیا میں دیکھی جانے والی اور درک ہونے والی چیزوں سے زیادہ وہ چیزیں ہیں جن کو دیکھا اوردرک نہیں کیا جاسکتا، عالم طبیعت میں اس قدر موجودات ہیں کہ انھیں حواس میں سے کسی کے بھی ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا، اور ان کے مقابلہ میں درک ہونے والی چیزیں صفر شمار ہوتی ہیں!

نمونہ کے طور پر چند چیزیں آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں:

۱ ۔ علم فیزکس کہتا ہے کہ رنگوں کی سات قسموں سے زیادہ نہیں ہیں جن میں سے پہلا سرخ اور آخری جامنی ہے، لیکن ان کے ماوراء ہزاروں رنگ پائے جاتے ہیں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، اور یہ گمان کیا جاتا ہے کہ بعض حیوانات ان بعض رنگوں کو دیکھتے ہیں۔

اس کی وجہ بھی واضح اور روشن ہے ، کیونکہ نور کی لہروں کے ذریعہ رنگ پیدا ہوتے ہیں، یعنی آفتاب کا نور دوسرے رنگوں سے مرکب ہوکر سفید رنگ کو تشکیل دیتا ہے اور جب جسم پر پڑتا ہے تو وہ جسم مختلف رنگوں کو ہضم کرلیتا ہے اور بعض کو واپس کرتا ہے جن کو واپس کرتا ہے وہ وہی رنگ ہوتا ہے جس کو ہم دیکھتے ہیں، لہٰذا اندھیرے میں جسم کا کوئی رنگ نہیں ہوتا، دوسری طرف نور کی موجوں کی لہروں کی شدت اور ضعف کی وجہ سے رنگوں میں اختلاف پیدا ہوتا ہے اور رنگ بدلتے رہتے ہیں، یعنی اگر نور کی لہروں کی شدت فی سیکنڈ ۴۵۸ ہزار ملیارڈ تک پہنچ جائے تو سرخ رنگ بنتا ہے اور ۷۲۷ ہزار ملیارڈ لہروں کے ساتھ جامنی رنگ دکھائی دیتا ہے ، اس سے زیادہ لہروں یا کم لہروں میں بہت سے رنگ ہوتے ہیں جن کو ہم نہیں دیکھ پاتے ۔

۲ ۔ آواز کی موجیں ۱۶/ مرتبہ فی سیکنڈ سے لے کر ۰۰۰/۲۰ مرتبہ فی سیکنڈ تک ہمارے لئے قابل فہم ہیں اگر اس سے کم یا زیادہ ہوجائے تو ہم اس آواز کو نہیں سن سکتے۔

۳ ۔ امواجِ نور کی جن لہروں کو ہم درک کرسکتے ہیں انھیں ۴۵۸ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ سے ۷۲۷ ہزار ملیارڈ فی سیکنڈ تک کی حدود میں ہونا چاہئے اس سے کم یا زیادہ چاہے فضا میں کتنی ہی آوازیں موجود ہوں ہم ان کو درک نہیں کرسکتے۔

۴ ۔ یہ بات سب جانتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے جانداروں (وائرس اور بیکٹریز) کی تعدادانسان کی تعداد سے کہیں زیادہ ہیں، اور بغیر کسی دوربین کے دیکھے نہیں جاسکتے ، اور شایداس کے علاوہ بہت سے ایسے چھوٹے جاندار پائے جاتے ہیں جن کو سائنس کی بڑی بڑی دوربینوں کے ذریعہ ابھی تک نہ دیکھا گیا ہو۔

۵ ۔ ایک ایٹم اور اس کی مخصوص باڈی اور الکٹرون کی گردش نیز پروٹن کے ذریعہ ایک ایسی عظیم طاقت ہوتی ہے جو کسی بھی حس کے ذریعہ قابل درک نہیں ہے، حالانکہ دنیاکی ہر چیز ایٹم سے بنتی ہے، اور ہوا میں بمشکل دکھائی دینے والے ایک ذرہ غبار میں لاکھوں ایٹم پائے جاتے ہیں۔

گزشتہ دانشور وں نے جو کچھ ایٹم کے بارے میں نظریہ پیش کیا تھا وہ صرف تھیوری کی حد تک تھا لیکن کسی نے بھی ان کی باتوں کو نہیں جھٹلایا۔(۱)

خلاصہ یہ کہ ہمارے حواس اور دوسرے وسائل کا دائرہ محدود ہے لہٰذا ان کے ذریعہ ہم عالَم کو بھی محدود مانیں۔(۲)

لہٰذا اگر کوئی چیز غیر محسوس ہے تو یہ اس کے نہ ہونے پر دلیل نہیں ہے، آپ دیکھئے دنیا میں ایسی بہت سی چیزیں بھری پڑی ہیں جو غیر محسوس ہیں جن کو ہمارے حواس درک نہیں کرسکتے!

جیسا کہ ایٹم کے کشف سے پہلے یا ذرہ بینی (چھوٹی چھوٹی چیزوں) کے کشف سے پہلے کسی کو اس بات کا حق نہیں تھا کہ ان کا انکار کرے، اور ممکن ہے کہ بہت سی چیزیں ہمارے لحاظ سے مخفی ہوں اور ابھی تک سائنس نے ان کو کشف نہ کیا ہو بلکہ بعد میں کشف ہوں تو ایسی صورت میں ہماری عقل اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ان شرائط (علم کا محدود ہونا اور مختلف چیزوں کے درک سے عاجز ہونے) کے تحت ہم ان چیزوں کے بارے میں نظریہ پیش کریں کہ وہ چیزیں ہیں یا نہیں ہیں۔

البتہ یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ہم یہ دعویٰ کرناچاہتے ہیں کہ جس طرح سے الکٹرون ، پروٹون یا دوسرے رنگ سائنس نے کشف کئے ہیں تو سائنس مزید ترقی کرکے بعض مجہول چیزوں کو کشف کرلے گا، اور ممکن ہے کہ ایک روز ایسا آئے کہ اپنے ساز و سامان کے ذریعہ ”عالم ماورائے طبیعت“ کو بھی کشف کرلے!

جی نہیں، اس بات کا کوئی امکان نہیں ہے جیسا کہ ہم نے کہا کہ ”ماورائے طبیعت“ اور ”ماورائے مادہ “ کو مادی وسائل کے ذریعہ نہیں سمجھا جاسکتا، اور یہ کام مادی اسباب و سازو سامان کے بس کی بات نہیں ہے۔

مطلب یہ ہے کہ جس طرح بعض چیزوں کے کشف ہونے سے پہلے ان کے بارے میں انکار کرنا جائز نہیں تھا اور ہمیں اس بات کا حق نہیں تھا کہ یہ کہتے ہوئے انکار کریں کہ فلاں چیز کوچونکہ ہم نہیں دیکھتے؛ جن چیزوں کو دنیاوی سازو سامان کے ذریعہ درک نہیں کیا جاسکتا ، یاوہ سائنس کے ذریعہ ثابت نہیں ہیں لہٰذا ان کا کوئی وجود نہیں ہے، اسی طرح سے ”ماورائے طبیعت“ کے بارے میں یہ نظریہ نہیں دے سکتے کہ اس کا کوئی وجود نہیں ہے، لہٰذا اس غلط راستہ کو چھوڑنا ہوگا اور خدا پرستوں کے دلائل کا بغور مطالعہ کرنا ہوگا اس کے بعد اپنی رائے کے اظہار کا حق ہوگا اس لئے کہ اس صورت میں واقعی طور پر اس کا نتیجہ مثبت ہوگا(۳)

____________________

(۱) منجملہ ان چیزوں کے جو محسوس نہیں ہوتی لیکن کسی بھی دانشور نے ان کا انکار نہیں کیا ہے زمین کی حرکت ہے یعنی ۸کرہ زمین گھومتی ہے، اور یہ وہی ”مدو جزر“(پھیلنا اورسکڑنا ) ہے جو اس زمین پر رونما ہوتا ہے، اور اس کا اثر یہ ہوتا ہے کہ ہمارے پاؤں تلے کی زمین دن میں دو بار ۳۰ سینٹی میٹر اوپر آتی ہے، جس کو نہ کبھی ہم نے دیکھا، اور نہ کبھی اس کااحساس کیا، یہ زمین دن میں دو بار ۳۰ cm اوپر آتی ہے

انھیں چیزوں میں سے ہوا بھی ہے جوہمہ وقت ہمارے چاروں طرف موجود رہتی ہے اوراس قدر وزنی ہے کہ ہر انسان ۱۶ ہزار کلوگرام کے برابر اس کو برداشت کرسکتا ہے، اور ہمیشہ عجیب و غریب دباؤ میں رہتا ہے البتہ چونکہ یہ دباؤ (اس کے اندرونی دباؤ کی وجہ سے) ختم ہوتا رہتا ہے لہٰذا اس دباؤ کا ہم پر کوئی اثر نہیں پڑتا، جبکہ کوئی بھی انسان یہ تصور نہیں کرتا کہ ہوا اس قدر وزنی ہے، ”گلیلیو“ اور ”پاسکال“ سے پہلے کسی کو ہوا کے وزن کا علم نہیں تھا، اور اب جبکہ سائنس نے اس کے وزن کی صحت کی گواہی دے دی پھر بھی ہم اس کا احساس نہیں کرتے انھیں غیر محسوس چیزوں میں سے ”اٹر“ ہے کہ بہت سے دانشوروں نے ریسرچ کے بعد اس کااعتراف کیا ہے، اور ان کے نظریہ کے مطابق یہ شئے تمام جگہوں پر موجود ہے اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے، بلکہ بعض دانشور تو اس کو تمام چیزوں کی اصل مانتے ہیں، اور اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ یہ ”اٹر“ ایک بے وزن اوربے رنگ چیز ہے اور اس کی کوئی بو بھی نہیں ہوتی جو تمام ستاروں اور تمام چیزوں میں پائی جاتی ہے اور تمام چیزوں کے اندر نفوذ کئے ہوئے ہے، لیکن ہم اسے درک کرنے سے قاصر ہیں

۲) مذکورہ بالا مطلب کی تصدیق کے لئے ”کامیل فلامارین“ کی کتاب ”اسرار موت“ سے ایک اقتباس آپ حضرات کی خدمت میں پیش کر تے ہیں:

”لوگ جہالت ونادانی کی وادی میں زندگی بسر کررہے ہیں اور انسان یہ نہیں جانتا کہ اس کی یہ جسمانی ترکیب اس کو حقائق کی طرف رہنمائی نہیں کرسکتی ہے، اور اس کویہ حواس خمسہ ،کسی بھی چیز میں دھوکہ دے سکتے ہیں، صرف انسان کی عقل و فکر اور علمی غور و فکر ہی حقائق کی طرف رہنمائی کرسکتی ہیں“! اس کے بعد ان چیزوں کو بیان کرنا شروع کرتا ہے جن کو انسانی حواس درک نہیں کرسکتے، اوراس کے بعد مولف کتا ب ایک ایک کرکے بیان کرتا ہے اور پھر ہر ایک حس کی محدودیت کو ثابت کرتا ہے یہاں تک کہ کہتا ہے:”لہٰذا نتیجہ یہ ہوا کہ ہماری عقل اور سائنس کا یہ قطعی فیصلہ ہے کہ بہت سی حرکات ، ذرات، ہوا ، طاقتیں اور دیگر چیزیں ایسی ہیں جن کو ہم نہیں دیکھتے، اور ان حواس میں سے کسی ایک سے بھی ان کو درک نہیں کیا جاسکتا، لہٰذا یہ بھی ممکن ہے کہ ہمارے اطراف میں بہت سی ایسی چیزیں ہوں جن کا ہم احساس نہیں کرتے ، بہت سے ایسے جاندار ہوں جن کو ہم نہیں دیکھتے، جن کا احساس نہیں کرتے، ہم یہ نہیں کہتے ہیں کہ ”ہیں“ بلکہ ہم یہ کہیں : ”ممکن ہے کہ ہوں“ کیونکہ گزشتہ باتوں کا نتیجہ یہی ہے کہ ہمارے حواس تمام موجودات کو ہمارے لئے کشف کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ بلکہ یہی حواس بعض اوقات تو ہمیں فریب دیتے ہیں ،اور بہت سی چیزوں کو حقیقت کے بر خلاف دکھاتے ہیں، لہٰذا ہمیں یہ تصور نہیں کرنا چاہئے کہ تمام موجودات کی حقیقت صرف وہی ہے جس کو ہم اپنے حواس کے ذریعہ درک کرلیں، بلکہ ہمیں اس کے برخلاف عقیدہ رکھنا چاہئے اور کہنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ بہت سی موجودات ہوں جن کو ہم درک نہیں کرسکتے، جیسا کہ ”جراثیم“ کے کشف سے پہلے کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ ”لاکھوں جراثیم“ ہر چیزکے چاروں طرف موجود ہوں گے، اور ان جراثیم کے لئے ہر جاندار کی زندگی ایک میدان کی صورت رکھتی ہوگی

نتیجہ یہ ہوا کہ ہمارے یہ ظاہری حواس اس بات کی صلاحیت نہیں رکھتے کہ موجودات کی حقیقت اور ان کی واقعیت کا صحیح پتہ لگاسکیں، مکمل طور پر حقائق کو بیان کرنے والی شئے ہماری عقل اور فکر ہوتی ہے“ (نقل از علی اطلال المذہب المادی، تالیف فرید وجدی ، جلد ۴)

(۳) آفریدگار جہان، آیت اللہ العظمی مکارم شیرازی کی بحثوں کا مجموعہ، صفحہ ۲۴۸

۵ ۔ دین کس طرح فطری ہے؟

فطرت کا مطلب یہ ہے کہ انسان بعض حقائق کو بغیر کسی استدلال اور برہان کے حاصل کرلیتا ہے، (چاہے وہ پیچیدہ اور مشکل استدلال ہو اور چاہے واضح اور روشن استدلال ہوں) اور وہ حقائق اس پر واضح و روشن ہوتے ہیں ان کو وہ قبول کرلیتا ہے، مثلاً انسان کسی خوبصورت اور خوشبو دار پھول کو دیکھتا ہے تو اس کی ”خوبصورتی“ کا اعتراف کرتا ہے اور اس اعتراف کے سلسلہ میں کسی بھی استدلال کی ضرورت نہیں ہوتی، انسان اس موقع پر کہتا ہے کہ یہ بات ظاہر ہے کہ خوبصورت ہے، اس میں کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا کی شناخت اور معرفت کے سلسلہ میں بھی فطرت کاکردار یہی ہے جس وقت انسان اپنے دل و جان میں جھانکتا ہے تو اس کو ”نور حق“ دکھائی دیتا ہے، اس کے دل کو ایک آواز سنائی دیتی ہے جو اس کو اس دنیا کے خالق اور صاحب علم و قدرت کی طرف دعوت دیتی ہے، اس مبداء کی طرف بلاتی ہے جو ”کمالِ مطلق“اور ”مطلقِ کمال“ ہے، اور اس درک اور احساس کے لئے اسی خوبصورت پھول کی طرح کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔

خدا پر ایمان کے فطری ہونے پر زندہ ثبوت:

سوال :ممکن ہے کوئی کہے: یہ صرف دعویٰ ہے، اور خدا شناسی کے سلسلہ میں اس طرح کی فطرت کو ثابت کرنے کے لئے کوئی راستہ نہیں،کیو نکہ میں تواس طرح کا دعویٰ کرسکتا ہوں کہ میرے دل و جان میں اس طرح کا احساس پایا جاتا ہے، لیکن اگر کوئی اس بات کو قبول نہ کرے تو اس کو کس طرح قانع کرسکتا ہوں؟

جواب :ہمارے پاس بہت سے ایسے شواہد موجود ہیں جن کے ذریعہ توحید خدا کو فطری طور پر ثابت کیا جا سکتا ہے اور یہ شواہد انکار کرنے والوں کا منہ توڑ جواب بھی ہیں چنا نچہ ان قرائن کو پانچ حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

۱ ۔ تاریخی حقائق :

ان تا ریخی حقا ئق کے سلسلہ میں دنیا کے قدیم ترین مورخین نے جو تحقیق اور جستجو کی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی بھی قوم و ملت میں کوئی دین نہیں تھا؟بلکہ ہر انسان اپنے لحاظ سے عالم ہستی کے مبدا علم و قدرت کا معتقد تھا اور اس پر ایمان رکھتا تھا اور اس کی عبادت کیا کرتا تھا، اگر یہ مان لیں کہ اس سلسلہ میں بعض اقوام مستثنیٰ تھیں تو اس سے کوئی نقصان نہیں پہنچتا (کیونکہ ہر عام کے لئے نادر مقامات پر استثنا ہوتا ہے)

”ویل ڈورانٹ“ مغربی مشہور مورخ اپنی کتاب ”تاریخ تمدن“ میں بے دینی کے بعض مقامات ذکر کرنے کے بعد اس بات کا اعتراف کرتے ہوئے کہتا ہے: ”ہمارے ذکر شدہ مطالب کے باوجود ”بے دینی“ بہت ہی کم حالات میں رہی ہے ، اور یہ قدیم عقیدہ کہ دین ایک ایسا سلسلہ ہے جس میں تقریباً سبھی افراد شامل رہے ہیں، یہ بات حقیقت پر مبنی ہے، یہ بات ایک فلسفی کی نظر میں بنیاد ی تاریخی اور علم نفسیات میں شمار ہوتی ہے، وہ اس بات پر قانع نہیں ہوتا کہ تمام ادیان میں باطل و بیہودہ مطالب تھے بلکہ وہ اس بات پر توجہ رکھتا ہے کہ دین قدیم الایام سے ہمیشہ تاریخ میں موجود رہا ہے“(۱)

یہی مولف ایک دوسری جگہ اس سلسلہ میں اس طرح لکھتا ہے: ”اس پرہیزگاری کا منبع و مرکزکہاں قرار پاتا ہے جو کسی بھی وجہ سے انسان کے دل میںختم ہونے والی نہیں ہے“(۲)

”ویل ڈورانٹ“ اپنی دوسری کتاب ”درسہای تاریخ“ میں ایسے الفاظ میں بیان کرتا ہے جن سے معلوم ہوتا ہے کہ غیظ و غضب اور ناراحتی کی حالت میں کہتا ہے کہ ”دین کی سو جانیں ہوتی ہیں اگر اس کو ایک مرتبہ مار دیا جائے تو دوبارہ زندہ ہوجاتا ہے!“( ۲)

اگر خدا اور مذہب کا عقیدہ ، عادت، تقلید ، تلقین یا دوسروں کی تبلیغ کا پہلو رکھتا ہوتا تو یہ ممکن نہیں تھا اس طرح عام طور پر پا یا جاتا اور ہمیشہ تاریخ میں موجود رہتا، لہٰذا یہ بہترین دلیل ہے کہ دین فطری ہے۔

۲ ۔ آثار قدیمہ کے شواہد :

وہ آثار اور علامتیں جو ماقبل تاریخ (لکھنے کے فن اختراع سے پہلے اور لوگوں کے حالات زندگی تحریر کرنے سے پہلے) میں ایسے آثار و نشانیاں ملتی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ مختلف قومیں اپنے اپنے لحاظ سے دین و مذہب رکھتی تھیں، ”خدا “ اور مرنے کے بعد ”معاد“ پر عقیدہ رکھتی تھی، کیونکہ ان کی من پسند چیزیں مرنے کے بعد ان کے ساتھ دفن کی گئی ہیں تاکہ وہ مرنے کے بعد والی زندگی میں ان سے کام لے سکیں! مردوں کے جسموں کو گلنے اور سڑنے سے بچانے کے لئے ”مومیائی“ کرنا ،یا ”اہرام مصر“ جیسے مقبرے بنانا تاکہ طولانی مدت کے بعد بھی باقی رہیں یہ تمام چیزیں اس بات کی شاہد ہیں کہ ماضی میں زندگی بسر کرنے والے افراد بھی خدا اور قیامت پر ایمان رکھتے تھے۔

اگرچہ ان کاموں سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ان کے یہاں مذہبی عقائد میں بہت سے خرافات بھی پائے جاتے تھے ، لیکن یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اصلی مسئلہ یعنی مذہبی ایمان ماقبل تاریخ سے پہلے موجود تھا جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔

۳ ۔ ماہرین نفسیات کی تحقیق اور ان کے انکشافات:

انسانی روح کے مختلف پہلووں اور اس کی اصلی خواہشات پر ریسرچ بھی اس بات کی واضح دلیل ہے کہ مذہبی اعتقاد اور دین ایک فطری مسئلہ ہے۔

چار مشہور و معروف احساس (یا چار بلند خواہشات) اور انسانی روح کے بارے میں نفسیاتی ماہرین نے جو چار پہلو بیان کئے ہیں: ( ۱ ۔ حس دانائی، ۲ ۔ حس زیبائی، ۳ ۔ حس نیکی، ۴ ۔ حس مذہبی،) ان مطالب پر واضح و روشن دلیلیں ہیں۔(۴)

انسان کی حس مذہبی یا روح انسان کا چوتھا پہلو ، جس کو کبھی ”کمال مطلق کا لگاؤ“ یا ”دینی اور الٰہی لگاؤ“ کہا جاتا ہے یہ وہی حس اور طاقت ہے جو انسان کو مذہب کی طرف دعوت دیتی ہے ، اور بغیر کسی خاص دلیل کے خدا پر ایمان لے آتی ہے، البتہ ممکن ہے کہ اس مذہبی ایمان میں بہت سے خرافات پائے جاتے ہوں، جس کا نتیجہ کبھی بت پرستی ، یا سورج پرستی کی شکل میں دکھائی دے، لیکن ہماری گفتگو اصلی سرچشمہ کے بارے میں ہے۔

۴ ۔ مذہب مخالف پروپیگنڈے کا ناکام ہوجانا

جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ چند آخری صدیوں میں خصوصاً یورپ میں دین مخالف پروپیگنڈے بہت زیادہ ہوئے ہیں جو ابھی تک وسیع اور ہمہ گیروسائل کے لحاظ سے بے نظیر ہیں۔

سب سے پہلے یورپ کی علمی تحریک (رنسانس)کے زمانہ سے جب علمی اور سیاسی معاشرہ

گرجاگھر کی حکومت کے دباؤ سے آزاد ہوا تو اس وقت اس قدر دین کے خلاف پروپیگنڈہ ہوا جس سے الحادی نظریہ یورپ میں وجود میں آیا ہے اور ہرجگہ پھیل گیا( البتہ یہ مخالفت عیسائی مذہب کے خلاف ہوئی چونکہ یہی دین وہاں پر رائج تھا ) اس سلسلہ میں فلاسفہ اور سائنس کے ماہرین سے مدد لی گئی تاکہ مذہبی بنیاد کو کھوکھلا کردیا جائے یہاں تک کہ گرجاگھر کی رونق جاتی رہی، اور یورپی مذہبی علماگوشہ نشین ہوگئے، یہی نہیں بلکہ خدا ، معجزہ، آسمانی کتاب اور روز قیامت پر ایمان کا شمار خرافات میں کیا جانے لگا، اور بشریت کے چار زمانہ والا فرضیہ ( قصہ و کہانی کا زمانہ، مذہب کا زمانہ، فلسفہ کا زمانہ اور علم کا زمانہ) بہت سے لوگوں کے نزدیک قابل قبول سمجھا جانے لگا ، اور اس تقسیم بندی کے لحاظ سے مذہب کا زمانہ بہت پہلے گزرچکا تھا!

عجیب بات تو یہ ہے کہ آج کل کی معاشرہ شناسی کی کتابوں میں جو کہ اسی زمانہ کی ترقی یافتہ کتابیں ہیں ان میں اس فارمولہ کو ایک اصل کے عنوان سے فرض کیا گیا ہے کہ مذہب کا ایک طبیعی سبب ہے چاہے وہ سبب ”جہل“ ہو یا ”خوف“ یا ”اجتماعی ضرورتیں“ یا ”اقتصادی مسائل“ اگرچہ ان کے نظریہ میں اختلاف پایا جاتا ہے!!۔

یہ بات اپنی جگہ مسلم ہے کہ اس وقت رائج مذہب یعنی گرجا گھر نے ایک طویل مدت تک اپنے ظلم و ستم اور عالمی پیمانہ پر لوگوں کے ساتھ بے رحمانہ سلوک کیا اور خاص کرسائنسدانوں پر بہت زیادہ سختیاں کیں نیز اپنے لئے بہت زیادہ مرفہ اور آرام طلب اور دکھاوے کی زندگی کے قائل ہوئے اور غریب لوگوں کو بالکل بھول گئے لہٰذا انھیں اپنے اعمال کی سزا تو بھگتنا ہی تھی ، لیکن مشکل یہ ہے کہ یہ صرف پاپ اور گرجا کا مسئلہ نہ تھا بلکہ دنیا بھر کے تمام مذاہب کی بات تھی۔

کمیونسٹوں نے مذہب کو مٹانے کے لئے اپنی پوری طاقت صرف کردی اور تمام تر تبلیغاتی وسائل اور فلسفی نظریات کو لے کر میدان میں آئے اور اس پروپیگنڈہ کی بھر پور کوشش کی کہ ”مذہب معاشرہ کے لئے ”افیون“ ہے!

لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دین کی اس شدید مخالفت کے باوجود وہ لوگوں کے دلوں سے مذہب کی اصل کو نہیں مٹاسکے، اور مذہبی جوش و ولولہ کو نابود نہ کرسکے، اس طرح سے کہ آج ہم خود اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں کہ مذہبی احساسات پر پھر سے نکھار آرہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں بڑی تیزی سے مذہب کی باتیں ہورہی ہیں، اور میڈیا کی ہر خبر میں ان ممالک کے حکام کی پر یشانی کوبیان کیا جا رہا ہے کہ وہاں پر مذہب خصوصاً اسلام کی طرف لوگوں کا رجحان روز بزور بڑھتا جارہا ہے، یہاں تک کہ خود کمیونسٹ ممالک میں کہ جہاں ابھی تک مذہب مخالف طاقتیں بیہودہ کوشش جاری رکھے ہوئے ہیں ، وہاں پر بھی مذہب پھیلتا ہوا نظرآتا ہے۔

ان مسائل کے پیش نظر یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مذہب کا سرچشمہ خود انسان کی ”فطرت“ ہے، لہٰذا وہ شدید مخالفت کے باوجود بھی اپنی حفاظت کرنے پر قادر ہے، اور اگر ایسا نہ ہوتا تو مذہب کبھی کا مٹ گیا ہوتا۔

۵ ۔ زندگی کی مشکلات میں ذاتی تجربات:

بہت سے لوگوں نے اپنی زندگی میں اس بات کا تجربہ کیا ہے کہ جس وقت بہت زیادہ مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور بلاؤں اور مصیبتوں کا طوفان آتا ہے جہاں پر ظاہری اسباب دم توڑدیتے ہیں، اور انسان کی گردن تک چھری پہنچ جاتی ہے، تو اس طوفانی موقع پر اس کے دل کی گہرائیوں سے ایک امید پیدا ہوتی ہے اور انسان اس مبداکی طرف متوجہ ہوتا ہے جو اس کی تمام مشکلات کو دور کرسکتا ہے، لہٰذا انسان اسی سے لَو لگاتا ہے اور اسی سے مدد مانگتا ہے، یہاں تک کہ معمولی افراد جو عام حالات میں دینی رجحان نہیں رکھتے وہ بھی اس مسئلہ سے الگ نہیں ہیں بلکہ وہ بھی شدید مشکلات یا لاعلاج بیماری کے وقت اس طرح کا روحانی نظریہ رکھتے ہیں۔

(قارئین کرام!) یہ تمام چیزیں اس حقیقت پر واضح شاہد ہیں کہ دین ایک فطری شئے ہے ، چنا نچہ قرآن مجید نے اس سلسلہ میں بہت پہلے ہی خبر دی ہے

جی ہاں انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے اپنے اندر ایک آواز کو سنتا ہے جو محبت اور پیار سے لبریز ہوتی ہے اور وہ مستحکم و واضح ہوتی ہے اور اس کو ایک عظیم حقیقت یعنی عالم و قادر کی طرف دعوت دیتی ہے جس کا نام ”اللہ“ یا ”خدا“ ہے ، ممکن ہے کوئی شخص دوسرے نام سے پکارے ، نام سے کوئی بحث نہیں ہے، بلکہ اس حقیقت پر ایمان کا مسئلہ ہے۔

مفکر شعراء کرام نے بھی اپنے دلچسپ اور بہترین اشعار میں اس مطلب کو بیان کیا ہے:

شورش عشق تو در ہیچ سری نیست کہ نیست

منظر روی تو زیب نظری نیست کہ نیست!

نہ ہمین از غم تو سینہ ما صد چاک است

داغ تو لالہ صفت، بر جگری نیست کہ نیست؟؟

ایک دوسرا شاعر کہتا ہے:

در اندرون من خستہ دل ندانم کیست؟

کہ من خموشم و او در فغان و در غوغاست

”میں نہیں جانتا کہ میرے خستہ دل میں کون ہے کہ میں تو خاموش ہوں لیکن وہ نالہ و فریاد کررہا ہے“۔

۶ ۔مذہب کے فطری ہونے پر دانشوروں کی گواہی

”معرفت خدا“ کے مسئلہ کا فطری ہونا کوئی ایسا مسئلہ نہیں ہے کہ جس کے بارے میں صرف قرآن و احادیث نے بیان کیا ہو ،بلکہ غیر مسلم فلاسفہ ،دانشوروں اور نکتہ فہم شعرا کی گفتگو سے بھی یہ مسئلہ واضح ہے۔

چند نمونے:

اس سلسلہ میں ”اینشٹائن“ ایک مفصل بیان کے ضمن میں کہتا ہے: ” بغیر کسی استثنا کے سبھی لوگوں میں ایک عقیدہ اور مذہب پایا جاتا ہے اور میں اس کا نام ”مذہب کی ضرورت کا احساس “ رکھتا ہوں چنانچہ انسان دنیوی چیزوں کے علاوہ جن چیزوں کا احساس کرتا ہے اس مذہب کے تحت انسان تمام اہداف اور عظمت و جلال کو حقیر سمجھتا ہے ، وہ اپنے وجود کو ایک قید خانہ سمجھتا ہے، گویا اپنے بدن کے پنجرے سے پرواز کرنا چاہتا ہے اور تمام ہستی کو ایک حقیقت کی شکل میں حاصل کرنا چاہتا ہے۔(۵)

اس طرح مشہور و معروف دانشور ”پاسکال“ کہتا ہے:

”دل کے اندر ایسے دلائل ہوتے ہیں جن تک عقل نہیں پہنچ سکتی“!(۶)

”ویلیم جیمز “ کہتا ہے:”میں اس بات کو اچھی طرح مانتاہوں کہ مذہبی زندگی کا سرچشمہ ”دل“ ہے، اور اس بات کو بھی قبول کرتا ہوں کہ فلسفی فارمولے اور دستور العمل اس ترجمہ شدہ مطلب کی طرح ہیں جس کی اصلی عبارت کسی دوسری زبان میں ہو“۔(۷)

”ماکس مولر“ کہتا ہے:”ہمارے بزرگ اس وقت خدا کی بارگاہ میں سرجھکاتے تھے کہ اس وقت خدا کا نام بھی نہیں رکھا گیا تھا۔(۸)

ماکس ایک دوسری جگہ اپنے عقیدہ کا اظہار کرتے ہوئے کہتا ہے: ”اس نظریہ کے برخلاف، جس میں کہا جاتا ہے کہ دین پہلے سورج چاند وغیرہ اور بت پرستی سے شروع ہوا ہے اس کے بعد خدائے واحد کی پرستش تک پہنچا ہے، آثار قدیمہ کے ما ہرین نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ خدا پرستی سب سے قدیم دین ہے“۔(۹)

مشہور و معروف مورخ ”پلوتارک“ لکھتا ہے:

”اگر آپ دنیا پر ایک نظر ڈالیں تو بہت سی ایسی جگہ دیکھیں گے جہاں پر نہ کوئی آبادی ہے نہ علم و صنعت اور نہ سیاست و حکومت، لیکن کوئی جگہ ایسی نہیں ملے گی جہاں پر ”خدا“ نہ ہو“!(۱۰)

”ساموئیل کنیگ“ اپنی کتاب ”جامعہ شناسی“ میں کہتا ہے: ”دنیا میں تمام انسانی جماعتوں کا کوئی نہ کوئی مذہب تھا، اگرچہ سیاحوں اور پہلے (عیسائی) مبلغین نے بعض گروہوں کا نام لیا ہے جن کا کوئی مذہب نہیں تھا، لیکن بعد میں معلوم یہ ہوا ہے کہ اس کی رپورٹ کا کوئی حوالہ نہیں ہے، اور ان کا یہ فیصلہ صرف اس وجہ سے تھا کہ ان کے گمان کے مطابق ان کا مذہب بھی ہماری طرح کا کوئی مذہب ہونا چاہئے تھا“۔(۱۱)

(قارئین کرام!) ہم اپنی بحث کو مشہور و معروف دور حا ضر کے مورخ ”ویل ڈورانٹ“ کی گفتگو پر ختم کرتے ہیں، وہ کہتا ہے:

”اگر ہم مذہب کے سرچشمہ کو ماقبل تاریخ تصور نہ کریں تو پھر مذ ہب کو صحیح طور پر نہیں پہچان سکتے“۔(۱۲) (۱۳)

____________________

(۱و ۲) ”تاریخ تمد ن ، ویل ڈورانٹ“ ، جلد اول، صفحہ ۸۷ و۸۹.

(۳) ”فطرت“ شہید مطہری، صفحہ۱۵۳.

(۴) ”حس مذہبی یا بعد چہارم روح انسانی“ میں ”کونٹائم“ کے مقالہ کی طرف رجوع فرمائیں،( ترجمہ مہندس بیانی)

(۵) ”دنیائی کہ من می بینم“ (باتلخیص) صفحہ ۵۳

(۶) ”سیر حکمت در اروپا“ ، جلد ۲، صفحہ ۱۴

(۷) ”سیر حکمت در اروپا“ ، جلد ۲، صفحہ ۳۲۱

(۸) مقدمہ نیایش صفحہ

(۹) ”فطرت “شہید مطہری ، صفحہ

(۱۰) مقدمہ نیایش ، صفحہ ۳۱

(۱۱) ”جامعہ شناسی،ساموئیل کنیگ“ صفحہ

(۱۲) تاریخ تمدن ، جلد اول، صفحہ ۸۸.

(۱۳) تفسیر پیام قرآن ، جلد ۳، صفحہ ۱۲۰


8

9

10

11

12