خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 113194
ڈاؤنلوڈ: 2553

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113194 / ڈاؤنلوڈ: 2553
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

خود سے دور کرنا،حسد

صفائی، گندگی

حیاء ،وقاحت

میانہ روی، اسراف

راحت وآسانی،زحمت(تھکن)

سہولت ،مشکل

عافیت ،بلا

اعتدال، کثرت طلبی

حکمت ،ہویٰ

وقار ،ہلکا پن

سعادت ،شقاوت

توبہ،اصراربرگناہ

اصرار ،خوف

۱۰۱

دعا،غروروتکبر کی بناپر (دعاسے)دور رہنا

نشاط ،سستی

خوشی، حزن

الفت ،جدائی

سخاوت ،بخل

خشوع ،عجب

سچائی ،چغلخوری

استغفار،اغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

زیرکی ،حماقت

اے ہشام! یہ خصلتیں صرف اور صرف کسی نبی یا وصی اور یا اس بندئہ مومن کے دل میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کو خداوند عالم نے ایمان کے لئے آز ما لیا ہولیکن دوسرے تمام مومنین میں کوئی ایسا نہیں ہے جس میں عقل کے لشکروں کے بعض صفات نہ پائے جاتے ہو ں اوراگر وہ اپنی عقل کوکامل کرلے اور جہل کے لشکروں سے چھٹکارا حاصل کرلے تو پھر وہ بھی انبیاء اور اوصیا ئے الٰہی کے درجہ میں پہونچ جائے گا ﷲ ہم اور تم کو بھی اپنی اطاعت کی توفیق عنایت فرمائے۔

روایت کی مختصر وضاحت:

عقل وجہل کی مذکورہ روایات میں متعدد غورطلب نکات پائے جاتے ہیں جن میں سے بعض نکات کی وضاحت کی جا رہی ہے۔

۱۔ان روایات کو دیکھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ قرآن واحادیث کی طرح ان روایات میں بھی کنایہ دار اور رمزیہ زبان استعمال ہوئی ہے خاص طور سے انسان کی خلقت کے بارے میں کنایات واشارات کا پہلو بہت ہی زیادہ روشن ہے لہٰذا روایات اور ان کے معانی ومفاہیم کو سمجھنے کے لئے حدیث فہمی کے ذوق سلیم کی ضرورت ہے۔

۱۰۲

۲۔دونوں روایات سے ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب خداوند عالم نے واپس پلٹنے (ادبار) کا حکم دیا تو عقل و جہل دونوں نے اسکی اطاعت کرلی ۔لیکن جب خداوند عالم نے سامنے آنے کا حکم دیا تواس موقع پر صرف اور صرف عقل نے اطاعت کی اور جہل نے حکم خدا سے سرپیچی کرتے ہوئے سامنے آنے سے انکار کردیا۔

اِن روایات میںجہل سے مراد خواہشات نفس ہیں جیسا کہ ان دونوںروایات سے یہی اندازہ ہوتا ہے کیونکہ ان دونوں میں ہی جہل کو عقل کی ضد قرار دیا گیا ہے۔

میرا خیال تو یہ ہے(اگر چہ خدا بہتر جانتا ہے)کہ یہاں(ادبار)واپس جانے کے حکم سے مراد حکم تکوینی ہے جس کی طرف اس آیۂ کریمہ میں اشارہ موجود ہے:

( واذا قضیٰ أمراً فانما یقول له کن فیکون ) ( ۱ )

''اور جب کسی امر کا فیصلہ کرلیتا ہے تو صرف '' کن'' کہتا ہے اور وہ چیز ہوجاتی ہے ''

اس حکم الٰہی کی پیروی اور پابندی میں عقل اور خواہشات حتی کہ پوری کائنات سبھی اس

اعتبار سے مشترک ہیںکہ جب خداوند عالم کوئی حکم دیتا ہے تو وہ سبھی اسکی اطاعت کرتے ہیں۔

( إنما قولنا لشیء إذا أردناه أن نقول له کن فیکون ) ( ۲ )

''ہم جس چیز کا ارادہ کرلیتے ہیں اس سے فقط اتنا کہتے ہیں کہ ہوجا اوروہ ہوجاتی ہے ''

( سبحانه إذا قضیٰ أمراً فإنّما یقول له کن فیکون ) ( ۳ )

''دہ پاک وبے نیاز ہے جب کسی بات کا فیصلہ کرلیتا ہے تو اس سے کہتا ہے کہ ہوجا اور وہ چیز ہوجاتی ہے ''

چنانچہ جس طرح عقل اوراسکے لشکر خداوند عالم کے حکم تکوینی کی اطاعت کرتے ہیں اسی طرح خواہشات نفس نے بھی اسکے حکم کے مطابق عمل کیا ہے۔لیکن سامنے آنے کا حکم اوراسکے مقابلہ میں ادبار (واپس جانے)کا حکم اور ہوائے نفس کا اس معاملہ میں عقل کی مخالفت کرنا یہ دونوں اس بات کا قرینہ ہیں کہ اس حکم سے احکام(اوامر)تشریعی مراد ہیں اور یہی وہ احکام شرعی ہیںجن میں عقل

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۱۱۷۔

(۲)سورئہ نحل آیت۴۰۔

(۳)سورئہ مریم آیت۳۵۔

۱۰۳

اطاعت کرتی ہے اور ہوائے نفس انکی مخالفت کرتی ہے۔

۳۔ان دونوں روایا ت سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ عقل اور خواہشات کو دو الگ الگ مادوں سے بنایا گیا ہے ۔

جیسا کہ روایات میں بھی ہے کہ عقل خدا کی روحانی مخلوق ہے جس کو خداوند عالم نے اپنے نور اور عرش کے دائیں حصہ سے خلق کیا ہے جبکہ جہل (خواہشوں)کو خداوند عالم نے تاریکیوں کے کھاری سمندر سے پیدا کیاہے اگر چہ حتمی طور پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے ہیں کہ عقل اور خواہشات کا پہلا مادہ (عنصراولیہ) کیا ہے۔کیونکہ اسکا علم تو صرف انھیں ہستیوں کے پاس ہے جنھیں خداوند عالم نے تاویل احادیث کا علم ودیعت فرمایا ہے۔لیکن پھر بھی ان دونوں روایات کے مطابق اس بات میں کوئی شک وشبہ باقی نہیں رہ جاتا کہ عقل کا اصل مواد اور عنصر (پہلا میٹیریل) فہم وادراک اور معرفت سے مشتق ہے جو کہ ﷲتعالی کا ہی ایک نو ر ہے خواہشات کا اصل مواد اور عنصر اس فہم وادراک اور معرفت سے خالی ہے۔بلکہ خواہشات تو حاجتوں اور مطالبات کی تاریکیوں کا ایک ایسا مجموعہ ہیں جن کے درمیان سے فہم وادراک کا گذر نہیں ہوپاتا جبکہ عقل تہ درتہ فہم اور فراستوں کے مجموعہ کا نام ہے اور یہ دونوں خداوند عالم کی طرف سے انسان کی شخصیت کے بنیادی محور قرار دئے گئے ہیں؟

۴۔روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ جب عقل نے دونوں احکام کی اطاعت کرلی تو خداوند عالم نے اسکا احترام کیا اور اسے عزت بخشی لیکن جہل نے کیونکہ خدا کے حکم کی مخالفت کی تھی لہٰذا اللہ تعالی نے اس پر لعنت فرمائی اور لعنت یعنی رحمت خدا سے دور ہوجانا اور اسکی بارگاہ سے جھڑک دیا جانا ،گویا روایت یہ بتارہی ہے کہ انسان کی شخصیت کے دو بنیادی محور اور مرکز ہیں انمیں سے ایک اسے خداوند عالم سے قریب کرتا ہے تو دوسرا محور اسکو خدا سے دور کردیتا ہے اور یہ دونوں محور اور مرکز یعنی عقل اور خواہشات انسان کو بالکل دو متضاد زاویوں (راستوں اورمقاصد )کی طرف کھینچتے ہیں کیونکہ خدا نے انکو اسی طرح پیداکیا ہے ۔چنانچہ عقل انسان کو خدا کی طرف لیجاتی ہے ۔اور خواہشات اسے خداوند عالم سے دور کرتے رہتے ہیں ۔

۵۔دونوں روایات میں اس بات کا تذکرہ ہے کہ جب خداوند عالم نے عقل کو ۷۵لشکر عنایت فرمائے اور جہل نے بارگاہ الٰہی میں اپنی کمزور ی کی فریاد کی تو خداوند عالم نے اسے بھی اتنے ہی لشکر عنایت فرمادئے لیکن اس کے بعد اس سے یہ فرمایا :

(فانْ عصیت بعدذلک أخرجتک وجندک من رحمتی )

''اب اگر اسکے بعد تو نے میری نافرمانی کی تو میں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت کے دائرہ سے باہر نکال دونگا''

۱۰۴

ہم اپنے قارئین کو ایک بار پھر یاد دلانا چاہتے ہیں کہ ان روایات میں اشارہ اور کنایہ کی زبان استعمال ہوئی ہے ۔لہٰذا ضروری نہیں ہے کہ یہ گفتگو واقعاً خداوند عالم اور عقل وجہل کے درمیان ہوئی ہو بلکہ ہم تو صرف اتنا کہہ سکتے ہیں کہ یہ روایت اسلامی نظریہ کے مطابق خواہشات کی قدروقیمت اور اہمیت پر عمیق روشنی ڈالتی ہے ۔یعنی روایت میں جہاں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ عقل کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ خداوند عالم سے قریب کرتی ہے اور خواہشات خدا سے دور کرتے ہیں۔۔۔وہیں روایت میں یہ صراحت بھی موجود ہے کہ اگر خواہشات، خدا کی معصیت نہ کریں تو وہ خدا کی رحمت کے مستحق رہتے ہیں لیکن جب یہ انسان کو خدا کی نافرمانی اور معصیت پر لگادیتے ہیں تو رحمت خدا سے محروم ہوجاتے ہیں ۔

لہٰذا اسلام تمام خواہشات کو برا نہیں سمجھتا ہے ۔اور نہ ان کو انسان کے اوپر عذاب الٰہی قرار دتیا ہے بلکہ جب تک انسان خداوند عالم کی نافرمانی اور گناہ نہ کرلے یہ بھی عقل کی طرح انسان کے لئے ایک رحمت الٰہی ہے ۔البتہ جب یہ انسان کو خداوند عالم کی اطاعت کے حدود سے باہر نکال دیں اوراسے اسکی معصیت پر لگادیں تو پھر یہی رحمت اسکے لئے عذاب زندگی میں تبدیل ہوجاتی ہے ۔

چنانچہ دین کی طرف جو یہ نسبت دی جاتی ہے کہ وہ خواہشات ،لذتوں اور شہوتوں کا مخالف ہے ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ اس کے بالکل برعکس اسلام نے ہویٰ(خواہشات ) اور اسکے لشکر کو اس عظمت اور شرف سے نوازا کہ انہیں رحمت الٰہی کا مستحق قرار دیدیا ہے اور جب تک انسان گناہ کا مرتکب نہ ہو اسکے لئے اپنے خواہشات کی تسلی اور ان کی تکمیل جائز ہے اور یہ کوئی قبیح چیز نہیں ہے ۔بلکہ اسلامی نظریہ تو یہ ہے کہ اگر شرافت کے دائرے کے اندراور قاعدہ و قانون کے تحت رہ کران شہوتوں اور خواہشات کو پورا کیا جاتارہے تو یہی انسانی زندگی کی ترقی اور کمال کا بہترین ذریعہ بن جاتے ہیں ۔

۶۔روایات میں اس بات کی طرف بھی اشارہ موجو د ہے کہ عقل کے دورخ (مرحلے )ہیں۔

۱۰۵

پہلے مرحلے میں وہ کسی چیز کا ادراک کرتی ہے ۔اور دوسرے مرحلے میں اس کو عملی جامہ پہناتی ہے لہٰذا جتنی زیادہ مقدار میں عقل کے ساتھ اسکے لشکر اور صفات جمع ہوتے رہتے ہیں اسکی عملی شکل میں اضافہ ہوتارہتا ہے لیکن جو ں جوںاسکے خصائل اور لشکروں کی تعداد گھٹتی رہتی ہے اسکے عمل کی رفتار بھی اسی طرح کم ہوجاتی ہے ۔اور خواہشات پر اسکا کنٹرول بھی ڈھیلا پڑجاتا ہے ۔

روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ ''یہ تمام صفات ایک ساتھ صرف کسی نبی ،وصیِ نبی یا اس مومن کے اندر جمع ہو سکتے ہیں جس کے دل کا امتحان خدا لے چکا ہے ۔لیکن دوسرے تمام مومنین کرام کے اندر انمیں سے کچھ نہ کچھ صفات ضرور پائے جاتے ہیں مگر ان بعض صفات سے کوئی فائدہ نہیں ہے بلکہ جب تک وہ اپنے کو ان تمام صفات کا حامل نہ بنالیں اور جہل کے لشکر وںسے مکمل نجات حاصل نہ کرلیں تب تک وہ مومن کا مل نہیں ہو سکتے ہیں اور جس دن وہ اسمیں کامیاب ہوجائیں گے توانھیں بھی انبیاء واولیاء کے ساتھ جنت کے ا علی درجات میں سکونت نصیب ہوگی ''

اس میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے کہ عقل کے تنفیذ ی ر خ کی تکمیل کا اثر اسکے دوسرے رخ پر پڑتا ہے اور اسکی فہم وفراست اور بصارت وبصیرت کی تکمیل ہو جاتی ہے۔

اس طرح اس سلسلہ کی تینوں کڑیاں مکمل ہو جا ئینگی کہ:

جب انسان اپنے اندر عقل کے تمام لشکر اور صفات جمع کر لے تو پھر عقل عملی منزل میں قدم رکھنے اور خواہشات کا مقابلہ کر نے کی قوت پیدا کرلیتی ہے اور اسی سے اسکی فہم وفراست اور بصارت وبصیرت بھی کامل ہوجاتی ہے ۔اور نتیجہ ً انسان انبیاء اور اولیاء کے درجہ میں پہونچ جاتا ہے( جسکی طرف روایت نے اشارہ کیا ہے )اور یہی راستہ اور طریقہ جسکو روایت نے محدود اور مشخص کر دیا ہے یہی اسلام کی نگاہ میں تربیت کی بہترین اساس اوربنیاد نیز کردارو عمل کی تقویت کا باعث ہے ۔کیونکہ عقل،بصیرت اور تنفیذ کا نام ہے اور بصیرت کی کمزوری عقل کی تنفیذی قوت کی بنا پر پیدا ہوتی ہے اور یہ (قوت تنفیذ) عقل کی خصلتوں کی کمزوری کی وجہ سے کمزور رہتی ہے لہٰذا جب انسان اپنے نفس کے اندر ان تمام خصلتوں کو مکمل کر لیتا ہے تو بصیرت اور تنفیذ دونوں ہی لحاظ سے اسکی شخصیت مکمل ہوجاتی ہے۔

۷۔ان روایات نے بشری کرداروں کو دو مشخص اور معین حصوں میں تقسیم کردیا ہے :

۱۔تقوی(باعمل)

۲۔فسق وفجور(بے عملی)

۱۰۶

تقویٰ اسے کہتے ہیں جس میں عقل کی پیروی کی جائے اور ہر قدم اسی کی مرضی کے مطابق اٹھے،اور فسق وفجور کا مطلب یہ ہے کہ خواہشات اور جہل کے لشکروں کے اشاروں پر ہر عمل انجام پائے اور اسکے اوپر انہیں کا قبضہ ہو ،لہٰذا قرب خداکی منزل تک پہنچنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ انسان جہالت کے لشکروں سے نجات حاصل کرلے اور خواہشات کی سرحدوں کو روند کر عقل کی حکومت میں داخل ہوجائے اور اسکے ہر طرز عمل اور رفتار وکردار پر عقل کی حکمرانی ہو۔

۸۔مذکورہ فہرست میں بشری طرز عمل اور کردار کے طورطریقہ کے پچھترجوڑوں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن میں سے ہر جوڑا دو متضاد اعمال سے مل کر بناہے ۔یعنی ان میں سے ایک عقل کے طرز عمل کی فہرست میں شامل ہے اور دوسرا شہوت کے طریقۂ کار کی فہرست کے دائرہ میں آتا ہے ۔لہٰذا اس فہرست میں پچھتر عقل کے طریقۂ کار اور پچھتر شہوت کے کرتوت ذکر ہیں جن میں پہلے باترتیب عقل کے لشکر کے صفات ذکر ہوئے ہیں اور اسکی ہر صفت کے بعد اسی کی مخالف ،جہل کی صفت کا تذکرہ ہے

۹۔بشریت کے طرز عمل اور آداب وکردار کے صفات کی ان دونوں فہرستوں کو دیکھنے کے بعدیہ اندازہ ہوتا ہے کہ خداوند عالم نے انسان کے نفس میں ہر آرزو کو پورا کرنے کے لئے اور اسے ہویٰ و ہوس سے بچانے کے لئے ایک دفاعی طاقت بھی رکھی ہے ۔اور کیونکہ انسان کے تکامل اور تحرک کے لئے اسکے نفس میں خواہشات کا وجود ضروری ہے اسی لئے خداوندعالم نے ہر خواہش کو روکنے اور اسکا مقابلہ کرنے کے لئے اسمیں ایک صفت (قوت مدافعت) ودیعت فرمائی ہے تاکہ ان کا تعادل ہمیشہ برقرار رہ سکے۔

۱۰۔ایسا نہیں ہے کہ بشری طرز عمل کے جویہ ایک سو پچاس صفات ہیں یہ ایک عام اور معمولی صفت یا سر سری خصوصیات ہوں جو کبھی کبھی اسکے نفس پرطاری ہوجاتے ہوں بلکہ انسان کے تمام اعمال کی بنیادیں بہت گہری اور انکی جڑیں بہت وسیع حد تک پھیلی ہوئی ہیں لہٰذا انسان جو اچھائی یا برائی کر تا ہے اسکا تعلق نفس کے باطن سے ضرورہوتا ہے ۔جس کی طرف قرآن مجید کی اس آیت میں اشارہ موجود ہے :

( فا ٔلهمها فجورها وتقواها ) ( ۱ )

''اور پھر اسے بدی اور تقوی کی ہدایت کردی''

لہٰذا تقوی اور بدی میں سے ہر ایک کا سر چشمہ نفس ہی ہے اور یہ انسان کے طرز عمل میں کہیں باہر سے نہیں آتا ہے

۱ ۔ عقل کے لشکر (صفات )کی فہرست میں غورو فکرسے کام لینے والا شخص بآسانی ان کی دو قسمیں کر سکتا ہے :

____________________

(۱)سورئہ شمس آیت۸۔

۱۰۷

۱۔اکسا نے اور مہمیز کرنے والی صفات ۔

۲۔روکنے والے قواعد(ضوابط )

اکسانے والے صفات ،نفس کو نیک اعمال پر ابھارنے اور مہمیز کر نے والے صفات کوکہا جاتا ہے ۔جیسے ایمان ،معرفت ،رحمت اورصداقت ۔

ضوابط وہ اسباب ہیں جن کے ذریعہ نفس کے اندر رکنے اور بازر ہنے کی صلاحیت پیدا ہوتی ہے ۔ جیسے عفت ،زہد ،صبر ،قناعت اورحیاء ۔

اکسانے والے صفات ان تمام عادات وصفات کا مجموعہ ہیںجو انسان کی شخصیت میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور کسی بھی کارخیریا رحمت ومعرفت میں اسے جو ضرورت ہوتی ہے وہ اس کوپورا کرتے ہیں

لیکن ضوابط (قواعد )انسان کی شخصیت کو پستی میں گر نے سے محفوظ رکھتے ہیں اسطرح یہ مہمیز کرنے اور بچانے والے صفات ایک ساتھ مل کر ہی انسان کی شخصیت کی تعمیر اوراسکی حفاظت کا کام انجام دیتے ہیں اور اس سلسلہ میں عقل کے مدد گار ثابت ہوتے ہیں ۔

اب اسکی مزید تفصیل ملاحظہ فرمائیں :

انسانی زندگی میں عقل دوقسم کے عمل انجام دیتی ہے ۔

۱۔انسان کو ان مقاصد اور منزلوں کی طرف تحریک اور مہمیز کرنا جو اس کی ترقی اورتکامل کے لئے ضروری ہیں ۔

۲۔پرخطر جگہوں پر انسان کو لغزشوں سے محفوظ رکھنا ۔مثال کے طور پر انسان خدا وندعالم کی طرف سیر وسلوک کی منزلیں طے کرتاہوامنزل سعادت وکمال تک پہونچتا ہے ایسے مرحلہ میں عقل کا اہم کردار یہ ہوتا ہے کہ وہ انسان کو ذکرو عبادت الٰہی اور اسکی محبت کی دعوت دیتی ہے اور اپنی انا نیت سے خدا وندعالم کی طرف یہ سفر اور حرکت انسانی زندگی کی ایک اہم بنیادی ضرورت ہے۔

اس طرح مو منین کی آپسی محبت اور اخوت وبرادر ی کے ذریعہ انسان کی شخصیت کو چار چاند لگ جاتے ہیں جس کو اسلام نے ولاء ،اخوت و برادری اورپیار ومحبت کا نا م دیاہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اسلامی معاشر ے میں تمام مومنین ایک دوسرے سے میل محبت رکھیں اور ایک دوسرے کا تعاون کریں اور ہر شہروالے دوسرے شہروالوںکے کام آئیں تنہائی اور انفرادیت سے سما جیات اور معاشرہ کی طرف قدم اٹھا نا بھی انسان کی ایک اہم ضرورت ہے ۔

۱۰۸

یہ دونوں مثالیں تو عقل کے مثبت کاموں کے بارے میں تھیں مگر انسان ان دونوں راستوں میں خطا ولغزش کا شکار ہوتا رہتا ہے ۔چنا نچہ وہ انانیت (ذاتیات )سے خدا کی طرف بلند پر وا زی کے دوران اچانک اوپر سے نیچے کی طرف یعنی (خدا سے ذاتیات )کی طرف گرنا شروع کردیتا ہے اور یہ سب گناہ کرنے نیزخواہشات اور شیطانی وسوسو ں اور ہوس کے جال میں پھنسنے کی وجہ سے ہوتا ہے

اسی طرح کبھی کبھی انسان اپنے ذاتی مفادجیسے خود پسند ی یادوسروں سے بغض وحسد یا کسی چیز کی لالچ کی بنا پر سماج اورمعاشر ے پر فدا رہنے اورا سکے لئے بے شمار قربانیاں پیش کرنے کے باوجودقوم اور معاشرے پر اپنی ذات کو فوقیت دینے لگتا ہے ،ایسے مواقع پر عقل بہت موثر کردارکرتی ہے یعنی:

۱۔ ذاتیات اورانانیت سے اللہ کی طرف اور انفرادیت (تنہائی)سے سماج اور معاشرے کی طرف انسانی حرکت اور سفر میں ۔

۲۔اللہ سے انانیت کی طرف اور امت اورقوم میں غرق رہنے کے بجائے ذاتیات (شخصی فوائد )کی جانب اسی طرح ایثار سے استیثارو خود پسندی کی طرف واپسی کے تمام مراحل میں بھی عقل انسان کو خواہشات کی پیروی اور ان کے ساتھ پھسل جانے اور گمراہ ہونے سے روکتی رہتی ہے ۔

جب انسان آزاد انہ طورپر خواہشات کی پیروی کرتے ہوئے ان کے دھارے میں بہہ کر خدا کی طرف جانے کے بجائے انانیت کی طرف جاتاہے،قوم کے لئے قربانی پیش کرنے کے بجائے ذاتی مفادات اور ایثار کے بجائے اپنی ذات کی طرف واپس پلٹنے لگتا ہے تبھی عقل اسکا راستہ روک لیتی ہے اگرچہ یہ دوسری بات ہے کہ تنہا عقل کے اندر اتنی صلاحیت اور طاقت نہیں ہے کہ وہ خدا اور قوم وملت کی طرف انسانی حرکت یا انانیت اورذاتیات کی وجہ سے گمراہ ہوتے وقت اپنے بل بوتے پر تنہا ان دونوں مرحلوں کو سر کرلے لہٰذاوہ مجبوراً ان صفات اور عادات کا سہارا لیتی ہے جن کو خداوند عالم نے انسان کی عقل کی پشت پناہی اور امداد کے لئے نفس کے اندر ودیعت فرمایا ہے ۔

۱۰۹

ان صفتوں اور عادتوں کی دو قسمیں:ہیں کچھ صفات وہ ہیں جو انانیت سے خدا کی طرف اور ذاتی مفادات سے قوم وملت پر فدا ہونے تک انسانی سفراور حرکت کے دوران اس کی شخصیت کی معاون ومددگار ہوتی ہیں اوربعض دوسرے صفات اس کو خواہشات نفس کا مقابلہ کرنے اور ان پر قابو پانے کی قوت وطاقت عطا کرتے ہیں ۔ جیسے خدا سے فطری لگائو اسی طرح محبت خدا اور ذکرو عبادت الٰہی سے فطری لگائو اوریہ جذبہ انسان کو خدا کی طرف اسی طرح کھینچتا ہے جس طرح سماجیات اور قوم وملت سے دلچسپی اور ان کی محبت اور بھائی چارگی کاجذبہ انسان کو قوم وملت کی طرف لیجاتا ہے ۔

عقل کی ان عادتوں کوکسی کام پر ''ابھارنے یااکسا نے اور مہمیز کرنے والی طاقت ''کہا جاتا ہے جبکہ ان کے علاوہ کچھ ایسی صفات بھی ہیں جو انسان کی عقل کو ان معاملات میں کنٹرول کرنے اور اسے باز رکھنے والی طاقتیں کہی جاتی ہیں۔جیسے حیاء انسان کو بد کرداری سے روکتی ہے یا علم و برد باری اسے غصہ سے باز رکھتا ہے تو عفت اور پاکدامنی ،جنسی بے راہ روی کا سد باب کرتی ہے ۔اور قناعت ، حرص اور لالچ سے محفوظ رکھتی ہے ۔وغیرہ غیرہ ۔۔۔

انہیں صفات کے مجموعہ کو انسانی حیات کے آداب (رفتار وگفتار اورکردار)میں ضوابط کانام دیا جاتا ہے ۔

یہی ضوابط ،عصم (بچا نے اور محفوظ کرنے والے ) صفات بھی کہے جاتے ہیں کیونکہ یہ انسان کو گمراہی وغیرہ سے محفوظ رکھتے ہیں اور اگر یہ عصمتیں (بچا نے والی قوتیں )انسان کے اندر نہ ہوتیں تو عقل کسی طرح بھی اپنے بل بوتے پر خواہشات نفس کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی اور ان عصم (بچانے والی صفات )کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ ان کی قوتیں اور صلاحتیں مختلف ہیں جن کے متعدد اسباب ہیں اسکی تفصیل ہم انشاء ﷲآئندہ بیان کر ینگے ۔

۱۱۰

۱۲۔جن صفات اور خصوصیات کو ہم نے عقل کا لشکر قرار دیا ہے اور وہ عقل کی پشت پناہی کا کردار کرتے ہیں ان کاصحیح فائدہ اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب یہ عقل اور دین کے تابع ہوں لیکن اگر خدا نخواستہ یہ عقل اور دین کی حکومت سے باہر نکل جائیں تو پھر یہ انسان کے لئے مفید ہونے کے جائے نقصان دہ ہوجاتے ہیں جیسے رحم دلی انسان کے لئے ایک اچھی اور بہترین صفت ہے لیکن جب یہی صفت عقل اور دین کے دائرہ سے باہر نکل جائے تو یہی نقصان دہ ہوجاتی ہے جیسے مجرمین کے ساتھ رحم دلی سے پیش آنے کو عقل اور دین دونوں نے منع کیا ہے جیسا کہ ارشا دالٰہی ہے :

( ولا تأخذکم بهما رأفة ) ( ۱ )

'' اور تمہیں ان کے اوپر ہر گز ترس نہ آئے ''

اسی طرح ا نفاق ایک اچھی صفت ہے مگرجب یہ عقل اور دین کے راستے سے منحرف ہوجا تی ہے تو تعمیر کے بجائے تخریب کرنے لگتی ہے اسی لئے دین اور عقل دونوں نے ہی ایسے مواقع پر اس سے منع کیا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

( ولا تبسطهاکل البسط فتقعد ملوماً محسوراً ) ( ۲ )

''اور نہ اپنے ہا تھوں کو بالکل کھلا ہواچھوڑدوکہ آخر میں ملول اور خالی ہاتھ بیٹھے رہ جائو''

۱۳۔جہل کے لشکر چاہے جتنے قوی کیو ں نہ ہوں مگر اسکے باوجود وہ انسان کے اراد ہ کے او پر

____________________

(۱)سورہ نورآیت۲۔

(۲)سورہ اسراء آیت ۲۹۔

۱۱۱

غلبہ حاصل نہیں کرسکتے ہیں اورا س سے اسکی قوت اراد ی نہیں چھین سکتے ہیں اور بالآ خر کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے فیصلہ کا اختیار اسکے ارادہ کے ہی اختیار میں رہتا ہے البتہ کل ملا کرجہل کی فوجیںاتنا کر سکتی ہیںکہ وہ انسان کے ارادہ کے اوپر کسی طرح کا دبائو ڈال دیں اور وہ دبائو اتنا زیادہ ہو

جو اس اراد ہ کو عمل کے لئے تحریک کردے ، لیکن پھر بھی یہ انسان سے اس کی قوت ارادہ اوراسکی آزاد ی واختیارکو سلب نہیں کرسکتے ہیں ۔۔۔اگر چہ اس میں بھی کوئی شک وشبہہ نہیں ہے کہ عقل یا جہل کے صفات سے ارادہ کسی حدتک متاثر ضرور ہوتا ہے ۔

۱۴۔یہ ایک بنیاد ی مسئلہ ہے کہ عقل کے لشکر وں کی قوت وطاقت یا کمزوری کا تعلق انسان کی اچھی یا بری تربیت سے ہوتا ہے اگر واقعاً کسی کی اچھی تربیت ہو اور وہ متقی انسان ہوجائے تو عقل کی یہ خصلتیں قوی ہوجاتی ہیں اور خواہش نفس اورشہوتیں خود بخود کمزور پڑجاتی ہیں ۔

اسی طرح اسکے برعکس یہ بھی ممکن ہے کہ خواہشات کی اندھی پیر و ی اور غلط تربیت یا سماج کی وجہ سے جب انسان بگڑ جاتاہے توشہوتوںمیںمزیداضافہ ہوتا ہے اور عقل کے لشکر(صفات) کمزور پڑجاتے ہیں ۔

یہی وجہ ہے کہ اسلام نے بعض حلال خواہشات کی تکمیل سے بھی اکثر منع کیا ہے تا کہ انسان ان لذ تو ں (اور خواہشات)کے بہائو کے ساتھ غلط راستوں پر نہ بہنے پائے جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے اسی بارے میں یہ ارشادفرما یا ہے:

(من أکل مایشتهی لم ینظرﷲ الیه حتیٰ ینزع أویترک )( ۱ )

''جو شخص اپنی دل پسندچیز کھاتا رہے تو جب تک اسے ترک نہ کر دے یا اس سے دور نہ ہو جائے خداوند عالم اسکی طرف نظر بھی نہیںکرتا ہے''

اسکی وجہ یہ ہے کہ اگر انسان کھانے پینے میں اپنی ہر خواہش پوری کرتا رہے اور اپنے پیٹ

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۰ ،ص ۷۸۔ ح ۱۰۔

۱۱۲

کے اوپر کنڑ ول نہ رکھے تو حلال کھاتے کھاتے ایک نہ ایک دن وہ حرام کھانا شروع کر دیگا۔(کیونکہ وہ اپنی پسند کا بندہ ہے )اور حرام خوری کرنے والے انسان پر رحمت الٰہی نازل نہیں ہوتی اور خدا اس کی طرف نظر اٹھا کر نہیں دیکھتا ہے ۔

علما ء اخلاق نے خواہشات کو لطیف اور سبک بنانے کے لئے کچھ طریقے بیان کئے ہیں جیسا کہ ابراھیم خو اص نے کہا ہے کہ دل کی پانچ دوائیں ہیں :

ا۔ قرآت قرآن ۔ ۲۔خالی پیٹ (رہنا ) ۳۔نماز شب ۔

۴۔سحرکے ہنگام گریہ وبکا (تضرع ) ۵۔صالحین کی ہم نشینی ۔

کسی اور کا یہ قول ہے کہ خداوندعالم نے دلوں کو اپنے ذکر کا مسکن (گھر )بنا یاتھا ۔مگر وہ شہوتوںکا اڈہ بن گئے اور دلوں کے اندر سے یہ خواہشات انسان کوہلاکر رکھ دینے والے خوف یا تڑپادینے والے شوق کے بغیر نہیں نکل سکتی ہیں۔( ۱ )

خواہشات کو نرم ولطیف اور کمزور کرنے اور عقل کے لشکر وں کی امداد کرنے والی اس صفت کی طرف امیر المو منین نے خطبہ ٔ متقین میں یہ ارشاد فرمایا ہے:(قدأحیا عقله وأمات نفسه )

''اس نے اپنی عقل کوزندہ کر دیا اور اپنے نفس کومردہ بنا دیا''

اسلام میں تربیت وہی ہے جس کی طرف مولائے کائنات نے اشارہ فرمایا ہے کہ: اس کے ذریعہ خواہشات کی بڑی سے بڑی خصلتیں مختصراور لطیف ہوجاتی ہیں جن کی تعداد روایات میں ۷۵ بیان کی گئی ہے ۔ اسکے علاوہ اس کا فائدہ یہ ہے کہ وقت ضرورت یہ عقل کی ۷۵ صفتوں اور خصلتوں کی امداد اور پشت پناہی بھی کرتی رہتی ہے ۔

۱۵۔جب عقل کو اپنی خصلتوں کی جانب سے مکمل پشت پناہی حاصل ہوجاتی ہے تو پھر

____________________

(۱)ذم الہویٰ لابن الجوزی ص۷۰ ۔

۱۱۳

خواہشات کے اوپر عقل کا کنٹرول اور حکومت قائم ہوجاتی ہے اور وہ ان کے اوپر اچھی طرح تسلط قائم کرلیتی ہے اور انسان کو محفوظ کر کے خواہشات کی طاقت کو بالکل ناکارہ بنادیتی ہے جیسا کہ حضرت علی نے فرمایا ہے :

(العقل الکامل قاهرللطبع السوئ )( ۱ )

''عقل کامل بری طبیعتوں پر غالب رہتی ہے''

اس طرح عام لوگوں کے خیالات کے بر خلاف انسان در حقیقت صرف اپنی خواہشوں پر کنٹرول کر کے ہی قوی اور طاقتور ہوتا ہے جبکہ عام لوگ تو خواہشات اور ہویٰ و ہوس کی حکومت اور غلبہ کو طاقت اور قوت سمجھتے ہیںمگر اسلام کی نگاہ میںخواہشات کو اپنے ماتحت رکھنے کا نام غلبہ اورقوت و طاقت ہے اور خواہشات کی حکومت اور اسکی ماتحتی میں چلے جانے کو طاقت اور غلبہ نہیں کہا جاتا۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(لیس الشدید من غلب الناس،ولکن الشدید من غلب نفسه )( ۲ )

''طاقتور وہ نہیں ہے جو لوگوں کے اوپر غلبہ حاصل کرلے بلکہ طاقتور وہ ہے جو نفس کو اپنے قابو میں رکھے''

آپصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے :

(لیس الشدید بالصرعة،انما الذی یملک نفسه عندالغضب )( ۳ )

''کشتی اور پہلوانی کے ذریعہ انسان طاقتور نہیں بنتا ہے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے نفس پر اختیار رکھے''

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۸ص۹۔

(۲)ذم الہوی ۳۹۔

(۳)مسنداحمد وبیہقی۔

۱۱۴

آپ ہی کا یہ ارشاد گرامی ہے :

(أشجع الناس من غلب هواه )( ۱ )

''سب سے زیادہ بہادر وہ ہے جو اپنی خواہشات پر غلبہ حاصل کرلے''

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۰ ص ۷۶ ح۵۔

۱۱۵

عقل کامل کے فوائداور اثرات

جب خواہشات کے اوپر ہر اعتبار سے عقل کا تسلط قائم ہوجاتا ہے اوراسے انسان کی رہنمائی اور ہدایت کے تمام اختیارات حاصل ہوجاتے ہیں تویہی عقل بے شمار فوائد اور برکتوں کے سرچشمہ میں تبدیل ہوجاتی ہے اور یہیں سے انسانی زندگی میں بے شمارانقلابات پیدا ہوتے ہیں اب انسانی حیات میں عقل کے فوائدکیا ہیںان کو ہم یہاں روایات کے ذیل میں اختصار کے ساتھ بیان کر رہے ہیں اور ان کی تفصیلات کو ترک کر رہے ہیں ۔

۱۔حق کے اوپر استقامت

حضرت علی :(ثمرة العقل الاستقامة )( ۲ )

''عقل کا پھل استقامت (ثابت قدمی )ہے''

(ثمرةالعقل لزوم الحق )( ۳ )

''عقل کا پھل حق کے ساتھ دائمی وابستگی ہے ''

۲۔دنیا سے دشمنی رکھناکامل عقل کا ثمر ہے

حضرت علی :

____________________

(۲)غررالحکم ج۱ص۳۲۰۔

(۳)گذشتہ حوالہ۔

۱۱۶

(ثمرة العقل مقت الدنیا،وقمع الهویٰ )( ۱ )

''عقل کا پھل دنیا کو نا پسندرکھنااور خواہشات کو اکھاڑ پھینکنا ہے''

۳۔خواہشات پر مکمل تسلط

حضرت علی :

(اذاکمل العقل نقصت الشهوة )( ۲ )

''جب عقل کامل ہوجاتی ہے تو خواہشیں مختصر ہوجاتی ہیں ''

(من کمل عقله استهان بالشهوات )( ۳ )

''جسکی عقل مکمل ہوجاتی ہے وہ خواہشوں کو حقیر بنادیتا ہے ''

(العقل الکامل قاهرللطبع السوئ )( ۴ )

''عقل کامل بری طبیعتوں پر کنٹرول رکھتی ہے ''

۴۔حسن عمل اورسلامتی کردار

(من کمل عقله حسن عمله )( ۵ )

''جسکی عقل مکمل ہوگئی اسکا عمل حسین ہوگیا''

عصمتیں

روایات کے ذیل میں عقل کے صفات (لشکروں)کی وضاحت کے بعد اب ہم خواہشات

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۳۲۳۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۲۷۹۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۸۰۔

(۴)بحارالانوار ج۷۸ص۹۔

(۵)گذشتہ حوالہ۔

۱۱۷

کا مقابلہ کرنے کے طریقہ کے علاوہ ان کے علاج کا طریقہ بھی بیان کرینگے ۔

جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ عقل کے اندر اتنی قوت اور صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے کہ وہ تن تنہاخواہشات کا مقابلہ کرسکے۔اور اگر کبھی ایسا موقع آجائے تو عقل کو ان کے سامنے بہر حال گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہونا پڑیگا۔لیکن چونکہ خداوند عالم نے خواہشات کا مقابلہ کرنے کے لئے عقل کو اسکے معاون ومددگار صفات (اور لشکروں)سے نوازا ہے لہٰذا عقل کو ان کا مقابلہ کرنے یا انہیں کنٹرول کرنے میں کسی قسم کی زحمت کا سامنا نہیں ہوتا ہے اور یہ لشکر خود بخود بڑھ کر خواہشات کا راستہ روک لیتے ہیں اور ان کو بے راہ روی سے بچائے رکھتے ہیں ۔

جن صفات اور لشکروں کی امداد کے سہارے عقل خواہشات پر کنٹرول کرکے انہیں اپنے قابو میں رکھتی ہے انھیں اخلاقی دنیا میں عصم (محافظین عقل) کہا جاتا ہے ۔ لہٰذا عقل کے ان صفات کی صحیح تعلیم وتربیت اور پرورش اور نفس کے اندر ان کی بقاء و دوام ہی خواہشات نفس کے مقابلہ اور علاج کا سب سے بہترین اسلامی ،اخلاقی اورتربیتی طریقۂ کار ہے ۔

کیونکہ ان عصمتوں (محافظوں)کا فریضہ یہ ہے کہ وہ انسان کو گناہوں میں آلودہ نہ ہونے دیں اور اسے حتی الامکان خواہشات کے چنگل سے محفوظ رکھیں۔ چنانچہ اگر نفس کے اندر خداوند عالم کے عطا کردہ یہ محافظ (عصمتیں)نہ ہوتے تو عقل تن تنہا کبھی بھی خواہشات کے حملوں کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی،لیکن اب چونکہ اسکے ساتھ ان محافظین کی کمک اورپشت پناہی موجود ہے لہٰذا وہ آسانی کے ساتھ انسانی خواہشات کے اوپر ہر لحاظ سے قابو پالیتی ہے اور ان کو اپنے کنٹرول میں رکھتی ہے ۔

یہ عصمتیں (محافظین عقل) مختلف حالات سے گذرتی رہتی ہیں یعنی کبھی یہ قوی ہوجاتی ہیں اور کبھی بالکل کمزور پڑجاتی ہیں ۔چنانچہ جب یہ بالکل طاقتور ہوتی ہیں تو انسان کو ہر قسم کی برائی سے بچائے رکھتی ہیں اور اسے گناہ نہیں کرنے دیتیں لیکن اگر خدا نخواستہ یہ کمزور ہوجائیں تو پھر انسان کی ہوس اور خواہشات نفسانی اس پر غالب آجاتے ہیں اور وہ انھیں کا ہوکر رہ جاتا ہے ۔

یہ عصمتیں تقویٰ کے ذریعہ مضبوط ہوتی ہیں اور گناہوں اور برائیوں کی وجہ سے کمزور پڑجاتی ہیں بلکہ گناہوں کا اثر ان کے اوپر اس حدتک ہوتا ہے کہ یہ بالکل چاک چاک اور پارہ پارہ ہوکر رہ جاتی ہیں جسکے بعدانسانی خواہشات اسکے اوپر اس طرح ٹوٹ پڑتے ہیں کہ وہ بالکل بے یارومددگار ہوجاتاہے اور کوئی اسکا بچانے والا محافظ اور نگہبان باقی نہیں رہ جاتا ۔جیساکہ دعائے کمیل کے اس جملہ میں اسکی طرف اشارہ موجودہے :

(اللّهم اغفر لی الذنوب التی تهتک العصم )

''بارالٰہا میرے ان گناہوں کو بخش دے جو عصمتوں کو چاک چاک کردیتے ہیں ''

۱۱۸

دوسری بات یہ کہ تقویٰ اور عصمتوں کے درمیان جو آپسی رابطہ ہے وہ طرفینی (دوطرفہ رابطہ)ہے یعنی اگر تقویٰ سے ان عصمتوں کو مدد ملتی ہے تو دوسری جانب یہ عصمتیں تقویٰ کی تقویت میں مددگار ثابت ہوتی ہیں۔

اس طرح گناہوں اور عصمتوں کے درمیان بھی دو طرفہ اثرات پائے جاتے ہیں یعنی جس طرح گناہ ،عصمتوں کوکمزور یا پارہ پارہ کردیتے ہیں اسی طرح اگر عصمت باقی نہ رہ جائے تو انسان بڑی آسانی کے ساتھ خواہشات کے چنگل میں گرفتار ہوجاتا ہے ۔

یہ عصمتیں نفس کے اندر ہی پیدا ہوتی ہیں اور ان کی بنیادیں اور جڑیں فطرت کی تہوں میں اتری ہوتی ہیں اور خداوند عالم نے انسان کے نفس اور اسکی فطرت کے اندر ان (عصمتوں)کے خزانے جمع کر رکھے ہیں جو خداوند عالم کی طرف سے معین کردہ فریضہ کی ادائیگی میں عقل کو سہارا دیتے ہیں ۔

جبکہ کچھ ماہرین سماجیات کا یہ خیال ہے کہ یہ عصمتیں نفس کے اندر پہلے سے موجود نہیں تھیں بلکہ جس سماج اور معاشرے میں انسان زندگی بسر کرتا ہے وہ انہیں سے یہ عصمتیں بھی سیکھتا ہے اور درحقیقت یہ سماج ہی کے ذریعہ اسکے نفس کے اندر منتقل ہوتی ہیں یہی وجہ ہے کہ مختلف قسم کے سماج اور معاشروں کے اعتبار سے انکی قوت وطاقت اورمقدار کم یا زیادہ ہوتی رہتی ہے ۔

اس نظریہ میں اتنی کمزوریاں پائی جاتی ہیں جن کا کوئی بھی جواب ممکن نہیں ہے ۔کیونکہ ذاتی خصلتوں ( اور اعمال)کا تعلق فطرت کی گہرائیوں سے ہوتا ہے البتہ ان کے اوپرمعا شرتی اور سماجی ماحول اثر انداز ضرور ہوتا ہے ا ور ان کو معاشرہ یا سماج سے جدا کردینا ممکن نہیں ہے ۔مگریہ سوچنا بالکل غلط ہے کہ ذاتی عادات و اطوار سماجیات سے بالکل الگ ہوتے ہیںیعنی ہم دوسری قسم کو سماج پر اثر انداز ہونے والے کے عنوان سے قبول کرلیں اور انھیں کے لئے پہلی خصلت کو چھوڑدیں کیونکہ ذاتی خصوصیات کو بالکل کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا اور نہ ہی کسی بھی اچھے یا برے معاشرے سے ان کو جدا کیا جاسکتا ہے ۔

ان دونوںصلاحتیوں اور صفات (اور طرز تفکر)کے درمیان یہ فرق ہے کہ ذاتی صلاحتیں ہر دوراورہر تمدن میں تمام انسانوں کے درمیان بالکل یکساں طورپر دکھائی دینگی جبکہ سماجی رسم ورواج ہرروز پیدا ہوتے رہتے ہیں اورمختلف اسباب کی بنا پر کچھ دن کے بعد ختم ہوجاتے ہیں حتی کہ بعض علاقوںیاملکوں میں کچھ ایسے رسم ورواج پائے جاتے ہیں جن کو دوسرے ممالک میں کوئی جانتا بھی نہیں ہے ۔

۱۱۹

مثال کے طورپر خداوند عالم پر ایمان رکھناہر انسان کے اندر ایک ذاتی اور فطری چیز ہے جبکہ کفر والحاد ایک سماجی پیداوار ہے جو فطرت ایمان اور حتی خداوند عالم کے خلاف سرکشی اور بغاوت کے بعدپیدا ہوتاہے ۔

اگر چہ ایما ن اور کفر دونوں ہی کا وجود تقریباتاریخ انسانیت کے ساتھ ساتھ پایا جاتا ہے۔لیکن اسکے باوجود ان کے درمیان بے حد فرق ہے کیونکہ ایمان خدا کا وجود تو انسانی تمدن ،تاریخ اور زندگی میں ہر جگہ مل جائے گااور کوئی بشری تاریخ بھی اس سے ہرگز خالی نہیں ہے ۔حتی کے سورج،چاند ،اور بتوںکی عبادت کا سرچشمہ بھی در اصل یہی ایمان ہے ۔یہ اور بات ہے کہ ان کا رخ صحیح فطرت کی طرف ہونے کے بجائے کسی دوسری طرف ہوگیا ہے ۔

لیکن الحاد کاوجود کسی تہذیب یافتہ سماج کے اندر نہیں دکھائی دیتا چنانچہ نہ جانے انسان کے اوپر ایسے کتنے دور گذرے ہیں جن میںالحا دکا باقاعدہ کہیں کوئی وجود اورسراغ نہیںپایا جاتا جس کو کسی تہذیب و تمدن اور عقل و منطق کی پشت پناہی بھی حاصل رہی ہو۔

لیکن ایمان کا وجود آپ کو پوری کائنات میں ہر جگہ نظر آئے گا مگرالحاد کبھی کبھی کچھ عرصہ تک ادھر ادھر اپنا سر ابھارتا ہے اور ایک دن خود بخود نابود ہوجاتا ہے ۔جیسا کہ سیاست اور تہذیب و تمدن نیز فکر انسانی کی تاریخ میں اس کا سب سے زیادہ عروج مارکسیسم کے دور میں ہوا جب باقاعدہ ایک سپر پاور حکومت کی پشت پناہی نے اس نظریہ کو عام کرنے کی کوشش کی مگر دنیا نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا کہ اچانک اس کے غبارے کی ہوانکل گئی اور اب کوئی شخص مارکس کا نام لینے والا بھی نہیں ہے ۔

لیکن خداوند عالم پر ایمان کی صورتحال ایسی نہیں ہے ۔لہٰذا جو شخص خداوند عالم پر ایمان اور الحاد(اسکے انکار)کے درمیان فرق محسوس نہ کرسکے اس نے خود اپنے نفس کو دھوکہ میں ڈال رکھا ہے ۔

۱۲۰