خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں11%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134540 / ڈاؤنلوڈ: 3990
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

عصمتوں کے بارے میں مزید گفتگو

کچھ عرصہ پہلے میں نے عصمت کے بارے میں چند صفحات قلمبند کئے تھے جو ہماری اس بحث سے مربوط ہیں لہٰذا مناسب سمجھا کہ اسکے کچھ مفید اقتباسات اس مقام پر شامل کردئے جائیں تاکہ گذشتہ گفتگو تشنہ ٔ تشریح نہ رہ جائے ۔

ہم نے عرض کیا تھا کہ انسان کے اوپر اسکی خواہشات کی حکومت بہت مضبوط اور مستحکم ہوتی ہے جسکی وجہ سے اسکے نقصانات بھی بیحد خطرناک ہوتے ہیں لہٰذا جب تک انسان اپنی خواہشات کو اچھی طرح اپنے قابو میں کرکے متعادل اور محدود نہ بنادے وہ زندگی میں خواہشات کے خطرات سے کبھی بھی محفوظ نہیں رہ سکتا ہے چنانچہ ہر انسان کے سرپر یہ خطرات ہمیشہ منڈلاتے رہتے ہیں لہٰذا کوئی نہ کوئی ایسا اخلاقی اور تربیتی نظام درکار ہے جو انسان کو اسکی انفرادی اور سماجی زندگی میں ہر جگہ خواہشات کے طوفان کا مقابلہ کرنے اور انہیں قابو میں رکھنے نیزاسکے نقصانات سے بچنے کی صلاحیت عطا کردے ۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ وہ نظام تربیت کیا ہے ؟جسکی پابندی کے بعد انسان اپنے خواہشات کے فریب سے محفوظ رہ سکتا ہے؟

اہل دنیا کے درمیان اس بارے میں چند نظریات پائے جاتے ہیں :

پہلا نظریہ رہبانیت کا ہے جس میں خواہشات کے مقابلہ کا یہ طریقہ بتایا گیا ہے کہ خواہشات کو نفس کے اندر اس طرح کچل دیا جائے کہ وہ اس میں گھٹ کر رہ جائیں اور اسکے ساتھ ساتھ حقیقی زندگی کے حصول کی خاطر فتنہ انگیز اور بھڑکانے والی باتوں سے کنارہ کشی اختیار کرلی جائے ۔ رہبانیت میں یہ نظریہ بالکل عام ہے اور اسکی جڑیں ان کی قدیم تاریخ کے اندر دور دور تک پھیلی ہوئی ہیں ۔

اس مکتب فکر (نظریہ)کا خلاصہ یہ ہے کہ خواہشات کوہر قسم کے فتنہ سے دور رکھاجائے اور دنیاوی لذت وآرام سے پرہیز کرکے ان سے دوری اختیار کی جائے ۔کیونکہ انسان کاخاصہ یہ ہے کہ وہ برائی پر اصرارکرتاہے اورچونکہ خواہشات اور فتنوں کے درمیان رابطہ پایا جاتاہے اور انسان کی سلامتی اسی میں ہے کہ اسے فتنوں سے دور کردیا جائے ۔

لہٰذا خواہشات سے دوری اور دنیاکے فریبوں اور لذتوں سے کنارہ کشی میں ہی انسانیت کی بھلائی ہے اور اس نظام کا ماحصل یہ ہے کہ خواہشات اور لذتوں کو بالکل ترک کرکے دنیا سے ایک دم کنارہ کشی اختیار کرلی جائے اور اسے ترک کئے بغیر اس مقصدتک رسائی ممکن نہیں ہے ۔

تہذیب و تمدن کے افکار کے درمیان یہ ایک مشہور و معروف نظریہ ہے جس کے اثرات موجودہ دور کی باقی ماندہ مسیحیت میں بھی پائے جاتے ہیں ۔

۱۲۱

لیکن اسلام نے اس طرز تفکر کی بہت سختی سے مخالفت کی ہے کیونکہ اسکی نگاہ میں خواہشات کو کچل دینا یا دنیا کی لذتوں سے کنارہ کشی اختیارکرلیناانسانی مشکلات کا حل نہیں ہے ۔

بلکہ خداوند عالم نے اسکی خلقت کے وقت اسکی جو فطرت بنادی ہے وہ اسی کے مطابق آگے قدم بڑھاتا ہے جس کی مزید وضاحت کے لئے قرآن مجید کی مندرجہ ذیل آیات ملاحظہ فرمائیں :

( یابنی آدمَ خذوازینتکم عندکل مسجدٍ،وکلواواشربواولاتُسرفواانّه لا یُحبّ المسرفین ) ( ۱ )

''اے اولاد آدم ہر نماز کے وقت اور ہر مسجد کے پاس زینت ساتھ رکھو اور کھائو پیو مگر اسراف

نہ کرو کہ خدا اسراف کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا ہے ''

دوسری آیۂ کریمہ :

( قل من حرّم زینةَ ﷲ التی أخرج لعباده والطیبات من الرزق قل هی للذین آمنوافی الحیاةالدنیاخالصةً یومَ القیامةِکذلک نفصّل الآیات لقوم یعلمون٭قل نّما حرّم ربّیَ الفواحشَ ماظهرَمنها ومابطنَ وال ثمَ والبغیَ بغیرالحقِّ وأن تشرکوا باللّهِ مالم یُنزّل به سلطاناً وأن تقولواعلیٰ ﷲ مالا تعلمون ) ( ۲ )

''پیغمبر آپ پوچھئے کہ کس نے اس زینت کو جس کو خدا نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیا ہے اور پاکیزہ رزق کو حرام کردیا ۔اور بتائیے کہ یہ چیزیں روز قیامت صرف ان لوگوں کے لئے ہیں جو زندگانی دنیا میں ایمان لائے ہیں ہم اسی طرح صاحبان علم کے لئے مفصل آیات بیان کرتے ہیں۔کہہ دیجئے کہ ہمارے پروردگار نے صرف بدکاریوں کو حرام کیا ہے چاہے وہ ظاہری ہوں یا باطنی اور گناہ اور ناحق ظلم اور بلا دلیل کسی چیز کو خدا کا شریک بنانے اور بلاجانے بوجھے کسی بات کو خدا کی طرف منسوب کرنے کو حرام قرار دیا ہے ''

مختصر یہ کہ یہ آیۂ کریمہ:

( یابنی آدم خذوا زینتکم عندکل مسجد وکلوا واشربوا ولا تسرفوا )

ہر انسان کو یہ دعوت دے رہی ہے کہ وہ دنیاوی لذتوں سے خوب فائدہ اٹھائے بس شرط یہ

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۳۱۔

(۲)سورئہ اعراف آیت ۳۲۔۳۳۔

۱۲۲

ہے کہ اسراف نہ کرے۔ اسکے بعد دوسری آیت میں ان لوگوں کی مذمت ہے جنھوں نے خداوند عالم کی حلا ل کردہ پا ک و پاکیزہ چیزوں کو حرام (ممنوع)کردیا ہے جیسا کہ ارشاد ہے :

( قل من حرّم زینة ﷲ التی أخرج لعباده والطیباتِ من الرزق )

آیت میں اس بات کی طرف بھی اشارہ پایا جاتا ہے کہ دنیا اور اسکی تمام نعمتیں اور سہولتیں در اصل مومنین کے لئے ہیں لیکن غیر مومنین کو بھی ان سے استفادہ کی اجازت دیدی گئی ہے لیکن آخرت کی تمام نعمتیں صرف اور صرف مومنین کے لئے ہیں ۔جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( قل هی للذین آمنوا فی الحیاة الدنیا خالصةً یوم القیامة )

آیت نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ خداوند عالم نے صرف اس دنیا کی پوشیدہ اور آشکار تمام برائیوںاور گناہوں سے منع کیا ہے اور اسکے علاوہ ہر چیز جائزقراردی ہے ۔

لہٰذاا سلام ،دنیا سے قطع تعلق کرنے والے نظریات کوٹھکراکر خداکی حلال اور پاکیزہ نعمتوں سے لطف اندور ہونے کا حکم دیتا ہے اور جن لوگوں نے دنیا سے اپنا ناطہ توڑکر خدا کی حلال کردہ اور پاکیزہ روزی کو حرام کررکھا ہے ان کے اس عمل کی سخت مذمت کرتا ہے۔ ﷲکی انہیں پاک وپاکیزہ نعمتوں میں سے ایک نعمت امتحان و آزمائش بھی ہے ۔جس کے ذریعہ وہ اپنے بندوں کو آزماتا رہتا ہے ۔اسکے باوجود خداوند عالم کی طرف سے یہ اجازت ہرگز نہیں ہے کہ ہم ان چیزوں سے بالکل کنارہ کشی اختیار کرلیں اور یا ان سے بالکل دور ہوجائیں بلکہ حکم الٰہی تو یہ ہے کہ صرف برائیوں سے محفوظ رہیں اور حدودالٰہی سے آگے قدم نہ بڑھائیں۔

چنانچہ روایت میں ہے کہ ایک بار ایک آدمی یہ کہہ رہا تھا:

(أللهم انّی أعوذ بک من الفتنة )

''بارالٰہا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں''

اس جگہ حضرت علی بھی موجود تھے جب آپ نے اس کی زبان سے یہ کلمات سنے تو فرمایا مجھے محسوس ہورہا ہے کہ تم اپنی اولاداور مال سے بھی خدا کی پناہ مانگ رہے ہو کیونکہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

(نما أموالکم وأولادکم فتنة )

''بیشک تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں''

۱۲۳

لہٰذا یہ نہ کہو کہ میں فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں بلکہ اس طرح کہا کرو۔

(أللهم انّی أعوذبک من مضلاّت الفتن )( ۱ )

''بارالٰہامیں گمراہ کن فتنوں سے تیری پناہ چاہتا ہوں''

مولائے کائنات کا یہ ارشاد گرامی ہے :

(لایقولَنَّ أحدکم:اللهم انّی أعوذبک من الفتنة،لأنه لیس أحد الاّٰ و هو مشتمل علیٰ فتنة،ولکن من استعاذ فلیستعذ من مضلات الفتن،فان ﷲ سبحانه یقول: ( واعلموا أنّما أموالکم وأولادکم فتنة ) ( ۲ )

'' تم یہ ہرگز نہ کہو ! بارالٰہا میں فتنہ سے تیری پناہ چاہتا ہوں کیونکہ تمہارے درمیان کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جسکا دار ومدار فتنہ پرنہ ہو لہٰذا جس کو خدا سے پناہ چاہئے وہ گمراہ کن فتنوں سے اللہ کی پناہ طلب کرے ''کیونکہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :

''یاد رکھو!بیشک تمہارے اموال اور اولاد فتنہ ہیں''

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خواہشات کو قابو میں رکھنے اور کنٹرول کرنے کے بارے میں اسلام نے جو حکم دیا ہے اس کا نتیجہ کیا ہے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام نے اس کے ذریعہ خواہشات کو کنٹرول کرنے کے لئے ایک جدیدنظریہ اور نظام تربیت پیش کیا ہے اور اس نظریہ کو عصمتوں کا نظام کہا جاتا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۹۳ص۲۳۵۔

(۲)سورئہ انفال آیت ۲۸۔

۱۲۴

کیونکہ عصمتوں (بچانے والی خصلتوں)کی مثال ایسی ہی ہے جیسے بجلی یا آگ کا کام کرتے وقت ہم دستانے یا واٹرپروف کپڑے پہن لیتے ہیں اور کسی خطرے کے بغیر بڑی آسانی سے اسکا ہر کام کرلیتے ہیں اسی طرح اگر انسان چاہے توعصمتوں کے سہارے دنیا کی رنگینیوں اور فتنوں کے درمیان بڑی آسانی سے زندگی گذار سکتا ہے اور ان کی موجودگی میں اسے کوئی نقصان بھی نہیں پہنچے گا ۔ لہٰذا جس طرح صرف آگ کی حرارت یا بجلی کے کرنٹ کے خطرات کی بناء پر ان کا استعمال ترک کردینا صحیح نہیں ہے اور دوسروں کو اس سے منع کرنا بھی غلط ہے کیونکہ دستانے اور واٹر پروف لباس وغیرہ کے سہارے ان سے ہر کام لیا جاسکتا ہے ۔اسی طرح لوگوں کو دنیا کی آزمائشوں سے دور رکھنا صحیح نہیں ہے کیونکہ ان کے مال واولاد بھی ایک قسم کی آزمائش اور فتنہ ہیں لہٰذا ہر شخص کے لئے یہ ضروری ہے کہ وہ ان گمراہ کن اور آزمائش طلب مقامات پر ان عصمتوںسے اچھی طرح استفادہ کرے جو اسے ان سے محفوظ رکھیں ۔کیونکہ اگر یہ عصمتیں کسی کی ذاتی یا سماجی زندگی میں تکامل کی منزل تک پہنچ جائیں تو پھر انسان اپنی خواہشات اور ہوی وہوس کا مختار کل بن جاتا ہے جس کی طرف روایت میں صریحاً اشارہ موجود ہے کہ دنیا میں دو طرح کے انسان پائے جاتے ہیں کچھ وہ ہیں جن کی خواہش اور ہوی وہوس ان پر غالب ہے اور کچھ لوگ ایسے ہیں جن کی خواہشات پر ان کا مکمل کنٹرول ہے لہٰذا کیونکہ خواہشات پر کنٹرول کرنا ممکن ہے اسی لئے اسلام میںدنیا کے راحت و آرام سے منع نہیں کیا گیا ہے البتہ اتنا ضروری ہے کہ جسے دنیا سے دل چسپی ہے وہ خواہشات اور ہوی و ہوس پر مکمل کنٹرول کرلے اسکے بعد چاہے جس نعمت دنیا کو استعمال کرے ،ہدایت اور ہوائے نفس کے درمیان یہی معیار اور حد فاصل ہے ۔

امام جعفر صادق :(منملک نفسه اذا غضب،واذا رهب،واذا اشتهیٰ،حرّم ﷲجسده علیٰ النار )( ۱ ) ''جو شخص غصہ،خوف اور خواہشات ابھر نے کی حالت میں اپنے نفس کو

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۸ص۲۴۳۔

۱۲۵

قابو میں رکھے گاخداوندعالم اسکے جسم کو جہنم پر حرام کردیگا''

(منملک نفسه اذا رغب،واذا رهب،واذا اشتهیٰ،واذا غضب،واذا رضی حرّم ﷲجسده علیٰ النار )( ۱ )

''جو شخص رغبت،خوف اور خواہشات ابھرنے اورغصہ یا خوشی کی حالت میں اپنے نفس کو قابو میں رکھے خداوندعالم اسکے جسم کو جہنم پر حرام کردیگا''

عصمتوں کی قسمیں

ہر انسان کے اندر تین طرح کی عصمتیں پائی جاتی ہیں:

۱۔کچھ عصمتیں ایسی ہیں جن کو خداوند عالم نے انسانی فطرت کی تکوینی خلقت اور تربیت کی گہرائیوں میں ودیعت فرمایا ہے جیسے حیا، عفت اوررحم دلی وغیرہ۔۔۔یہی وجہ ہے کہ انسان اور حیوان دونوں کے اندریکساں طور پر جنسی خواہشات موجود ہیں البتہ ان کے درمیان اتنا فرق ضرورہے کہ حیوانوں میں یہ جذبہ بالکل ہی واضح اورظاہرہے جبکہ انسان کے اس جذبہ کے اوپر حیاء وعفت کے پردے پڑے ہوئے ہیں یہی وجہ ہے کہ حیوانوں کو اسکی تسکین میں کوئی پریشانی نہیں ہوتی لیکن انسان کو اسکی تسکین سے بہت ساری جگہوں پرپرہیز کر ناپڑتاہے ۔ظاہرہے کہ یہ انسان کی جنسی کمزوری کی بناء پر نہیںہے ۔ بلکہ حیاء وشرم وعفت جیسی عصمتیں اسکے لئے مانع ہوجاتی ہیں کیونکہ یہ جنسی خواہش کو متعادل،لطیف اور کمزوربنادیتی ہیں اور اس پر روک لگاکر اسے مختلف طریقوں سے ابھرنے نہیں دیتیں۔

اسی طرح جذبۂ رحمت(رحم دلی)سے کافی حد تک انسان کا غصہ ٹھنڈا ہوجاتا ہے یہی وجہ

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۱ص۳۵۸

۱۲۶

ہے کہ اگرچہ انسان اور حیوان دونوں کے اندر ہی غصہ کا مادہ پایا جاتا ہے مگر حیوان کے اندر اسکے آگے کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی لیکن انسان کے یہاں اسکے اوپر رحمت (رحم دلی)کا سائبان ہے جس سے وہ بآسانی معتدل ہوجاتا ہے۔

۲۔کچھ عصمتیں وہ ہیں جن کو انسان اپنی ذاتی صلاحیت اور محنت سے حاصل کرتا ہے اور ہر انسان کی زندگی میں اسکی تربیت ان عصمتوں کے حصول میں اہم کردار ادا کرتی ہیں ۔جیسے ذکر الٰہی ، نماز ،روزہ ،تقویٰ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ نماز برائی سے روکتی ہے ،ذکر الٰہی سے شیطان دور ہوجاتا ہے روزہ جہنم کی سپر ہے۔اور تقویٰ ایسا لباس ہے جو انسان کو گناہوں اور برائیوں کے مہلک ڈنک سے محفوظ رکھتا ہے۔اسی لئے قرآن مجید میں ارشاد ہے:

( ولباس التقوی ذٰلک خیر ) ( ۱ )

''لیکن تقویٰ کا لباس سب سے بہتر ہے ''

۳۔عصمتوں کی تیسری قسم وہ ہے جسے خداوند عالم نے انسان کی معاشرتی زندگی میں ودیعت کیا ہے جیسے دیندار سماج اور معاشرہ یاشادی بیاہ وغیرہ ۔۔۔کیونکہ دیندار سماج اور معاشرہ بھی انسان کو برائیوں سے محفوظ رکھتا ہے۔اور شادی (شوہر اور زوجہ )دونوں کو بے شمار برائیوں سے بچالیتی ہے۔

فی الحال ہم آپ کے سامنے نفس کے اندر اللہ کی ودیعت کردہ ان عصمتوں کے دو نمونوں (خوف وحیا)کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

خوف الٰہی

خداوند عالم نے انسان کے اندر جو عصمتیں ودیعت فرمائی ہیں ان کے درمیان خوف الٰہی

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۲۶۔

۱۲۷

سب سے اہم اور بڑی عصمت ہے جس کو حدیث میں عقل کاایک لشکر قرار دیا گیا ہے اوریہ خواہشات کو کنٹرول کرنے کاسب سے بہترین ذریعہ ہے ۔

جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے:

( وأ مّا من خاف مقام ربّه ونهیٰ النفس عن الهویٰ فانّ الجنة هی المأویٰ ) ( ۱ )

''اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکاجنت اسکا ٹھکانا اور مرکز ہے''

اس آیۂ کریمہ سے بالکل صاف روشن ہے کہ خوف الٰہی اورنفس کو خواہشات سے روکنے کے درمیان ایک قریبی رابطہ پایا جاتا ہے۔

اسی آیت کے بارے میں امام صادق سے روایت ہے کہ:

(من علم أن ﷲ یراه ویسمع مایقول،ویعلم مایعمله من خیر أو شر، فیحجزه ذ لک عن القبیح،فذلک الذی خاف مقام ربّه،ونهیٰ النفس عن الهویٰ )( ۲ )

''یعنی جسے یہ علم ہوجائے کہ خداوند عالم اسے دیکھ رہا ہے اور اسکی ہر بات سنتا ہے اور اسکے ہر اچھے یا برے عمل پر اسکی نظر ہے تو یہی خیال اسکو برائی سے روک دیگا اور اسی انسان کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ اپنے رب سے خوفزدہ ہوگیا اور اس نے اپنے نفس کو اپنی ہوس(خواہشات ) سے باز رکھا''

امیر المومنین :

(الخوف سجن النفس من الذنوب،ورادعها عن المعاصی )( ۳ )

____________________

(۱)سورئہ نازعات آیت۴۰،۴۱۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۷۱۔

(۳)میزان الحکمت ج۳ص۱۸۳۔

۱۲۸

''خوف الٰہی انسان کے نفس کو گناہوں اور برائیوں سے بچانے والا حصار ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

سبعةیظلّهم الله یو م لاظل الاظله،الامام العادل،وشاب نشأ بعبادةاللّٰ ہ

عزوجل،ورجل قلبه معلّق فی المساجد ،ورجلان تحابّا فی اللّٰه عزوجل اجتمعا علیه وتفرقاعلیه،ورجل تصدّق بصدقة فأخفاها حتی لاتعلم شماله ماتنفق یمینه، ورجل ذکر الله خالیاً ففاضت عیناه،ورجل دعته امرأة ذات منصب وجمال فقال انّی أخاف ﷲعزّوجل )( ۱ )

'' سات افرادکے اوپر اس دن رحمت الٰہی سایہ فگن ہوگی جس دن اسکے علاوہ اور کوئی سایہ موجود نہ رہے گا:۱۔امام عادل۔۲۔وہ جوان جسکی نشو و نماعبادت الٰہی میں ہوئی ہو۔۳۔جسکا دل مسجدوں سے وابستہ ہو۔ ۴۔خداوند عالم کے لئے ایک دوسرے سے محبت کرنے والے جو اسی کے نام پر جمع ہوں اور اسکی وجہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوجائیں(یعنی ان کی ہر محبت اور دشمنی خدا کے لئے ہو) ۔۵۔جوشخص اس طرح چھپا کر صدقہ دے کہ اگر ایک ہاتھ سے دے تو دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہو۔۶۔جو گوشۂ تنہائی میں ذکر الٰہی کرے اور اسکی آنکھ سے آنسو نکل آئیں۔۷۔وہ مرد جسے کوئی حسین وجمیل اور صاحب منصب عورت اپنی طرف دعوت دے اور وہ اس سے یہ کہدے کہ مجھے خدا سے ڈرلگتا ہے''۔

گویا خوف الٰہی ایک ایسی چیز ہے جو انسان کو اسکی سب سے خطرناک خواہش اور ہوس یعنی جنسی جذبہ سے بھی روک دیتی ہے اور انسان گناہوں اور برائیوں سے بچ جاتا ہے

حضرت علی :

(العجب ممن یخاف العقاب فلم یکف،ورجیٰ الثواب

____________________

(۱)صحیح بخاری بحث وجوب نماز جماعت باب ۸،بحث وجوب زکات باب ۱۸کتاب رقاق باب ۲۳ کتاب محاربین باب ۴ ،صحیح مسلم در کتاب زکات باب ۳۰ اور ابوالفرج نے بھی اپنی کتاب ذم الہوی میں ص۲۴۳پر اس روایت کو نقل کیا ہے۔

۱۲۹

فلم یتب ویعمل )( ۱ )

''اس شخص پر حیرت ہے جسے سزا کا خوف ہومگر پھر بھی برائی سے نہ رکے اور ثواب کی امید رکھتا ہو اوراسکے باوجودتوبہ کرکے نیک عمل انجام نہ دے ''

امام محمد باقر :

(لاخوف کخوف حاجز ولارجاء کرجاء معین )( ۲ )

''برائیوں سے روکنے والے خوف سے بہتر کوئی خوف نہیں اور نیکیوں میں معاون ثابت ہونے والی امید سے بہتر کوئی امید نہیں ہے ''

مولائے کائنات :

(نعم الحاجزمن المعاصی الخوف )( ۳ )

''برائیوں سے روکنے والی سب سے بہترین چیز کانا م خوف ہے''

خوف ایک پناہ گاہ

یہ کتنی عجیب بات ہے کہ جو خوف اورڈر،اضطراب سے پیدا ہوتا ہے اسی خوف سے اضطراب پیدا ہوجاتا ہے اوراگرچہ یہ امن وامان کے مقابل میں بولا جاتا ہے مگراس کو اسلام نے انسان کے لئے امان اور ڈھال بنادیا ہے ۔کیونکہ خوف ،انسان کو گناہوں اور برائیوں سے نہیں روکتا بلکہ در حقیقت یہ اسے ہلاکت اور بربادی سے بچانے والی ڈھال کا نام ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس خوف

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۲۳۷۔

(۲)بحارالانوار ج ۷۸ص۱۶۴۔

(۳)میزان الحکمت ج۳ص۱۸۳۔

۱۳۰

کوانسان پہلی نظر میں خطرناک محسوس کرتا ہے وہی خوف انسان کی زندگی کو امن وامان عطا کرنے والی ایک نعمت ہے ۔

اسی بارے میں حضرت علی کا ارشاد ہے :

۱۔(الخوف امان )( ۱ )

''خوف ایک امان ہے''

۲۔(ثمرة الخوف الامان )( ۲ )

''خوف کا پھل امان ہے''

۳۔(خف ربک وارج رحمته، یؤ منک مماتخاف،وینلک مارجوت )( ۳ )

''خدا سے ڈرتے رہو اور اسکی رحمت کی امید رکھو تو جس سے بھی تم خوفزدہ ہو گے وہ تمہیں اس سے بچائے رکھے گا اور جس کی امید ہے وہ تمہیں حاصل ہوجائے گا''

(لاینبغی للعاقل ان یقیم علی الخوف اذا وجد الی الأمن سبیلا )( ۴ )

''کسی صاحب عقل وخرد کے لئے یہ ہرگز مناسب نہیں ہے کہ امن وامان کا راستہ مل جانے کے بعد خوف کی منزل میں پڑا رہے''

روایا ت میں جس خوف کا تذکرہ ہے اس سے مرادعذاب الٰہی سے امان ہے،اور امان سے مراد ،عذاب خداکا خوف ہے اور یہ اسلامی تہذیب و تمدن کے ایک متقابل اور حسین معنی ہیں ۔جس کا

____________________

(۱)میزان الحکمت ج۳ص۱۸۶۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)گذشتہ حوالہ۔

(۴)گذشتہ حوالہ۔

۱۳۱

مطلب یہ ہے کہ دنیا کا خوف آخرت کے لئے امن وامان ہے اور دنیا کا امن وامان اور بے فکری آخرت میں خوف بن جائے گا۔

امیر المومنین نے یہ مفہوم پیغمبر اسلام کے کبھی خشک نہ رہنے والے چشمۂ فیاض سے اخذفرمایا ہے جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے کہ خداوند عالم کا ارشاد گرامی ہے :

(وعزتی وجلالی لاأجمع علی عبدی خوفین ولاأجمع له امنین،فاذاامننی فی الدنیااخفته یوم القیامة،واذاخافنی فی الدنیاآمنته یوم القیامة)(۱)

''میری عزت وجلالت کی قسم میںاپنے کسی بندے کو دو خوف یا دو امان (ایک ساتھ)نہ دونگا پس اگر وہ دنیا میں مجھ سے امان میں رہا تو قیامت میں اسے خوف میں مبتلا کردونگا اور اگر وہ دنیا میں مجھ سے خوفزدہ رہا تو آخرت میں اسے امن وامان عطا کردونگا''

____________________

(۱)کنز العمال ،متقی ھندی حدیث ۵۸۷۸۔

۱۳۲

چند واقعات

ہر انسان کو برائیوں اور گناہوں سے بچانے میں خوف الٰہی کیا کردار ادا کرتاہے؟ اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم چند واقعات پیش کر رہے ہیں جن میں سے بعض واقعات روایات میں بھی موجود ہیں۔

۱۔ابن جوزی کا بیان ہے کہ مجھ سے عثمان بن عا مرتیمی نے بیان کیا ہے کہ ان سے ابو عمر یحیی بن عاص تیمی نے بیان کیا تھا کہ :''حی''نامی ایک جگہ کا ایک آدمی حج کے لئے گھر سے نکلا ایک رات پانی کے ایک چشمہ پر اس نے ایک عورت کو دیکھا جسکے بال اسکے کاندھوںپربکھرے ہوئے تھے وہ کہتے ہیں کہ میں نے اس کی طرف سے اپنا منھ پھیر لیا تو اس نے کہا کہ تم نے میری طرف سے منھ کیوں پھرلیا؟میں نے جواب دیا کہ مجھے خداوند عالم سے ڈرلگتا ہے ۔چنانچہ اس نے اپنا آنچل سر پر ڈال کر کہا:تم بہت جلدی خوف زدہ ہوگئے جبکہ تم سے زیادہ تو اسے ڈرنا چاہئیے جو تم سے گناہ کا خواہشمند ہے ۔

پھر جب وہ وہاں سے واپس پلٹی تو میں اسکے پیچھے پیچھے ہولیا اور وہ عرب دیہاتیوںکے کسی خیمے میں چلی گئی چنانچہ جب صبح ہوئی تو میں اپنی قوم کے ایک بزرگ کے پاس گیا اور ان سے پورا ماجرا بیان کرتے ہوئے کہا کہ اس جوان لڑکی کا حسن وجمال اور چال ڈھال ایسی تھی:تو وہیں ایک بوڑھا آدمی بیٹھا تھا وہ فوراًبول پڑا خدا کی قسم وہ میری بیٹی ہے۔میں نے کہا کیا آپ اس سے میری شادی کرسکتے ہیں؟اس نے جواب دیا اگرتم اسکے کفوہوئے توضرور کردونگا۔میںنے کہا: خداکا ایک مرد ہوں اس نے کہا نجیب کفوہے چنانچہ وہاں سے چلنے سے پہلے ہی میں نے اس سے شادی کرلی اور ان سے یہ کہدیا کہ جب میں حج سے واپس پلٹوں گا تو اسے میرے ساتھ رخصت کردینا چنانچہ جب میں حج سے واپس پلٹاتو اسے بھی اپنے ساتھ کوفہ لے آیا اور اب وہ میرے ساتھ رہتی ہے اور اس سے میرے چند بیٹے اور بیٹیاں ہیں۔( ۱ )

۲۔مکہ میں ایک حسین وجمیل عورت اپنے شوہر کے ساتھ رہتی تھی اس نے ایک دن آئینہ میں اپنی صورت دیکھ کر اپنے حسن وجمال کی تعریف کرتے ہوئے اپنے شوہر سے کہا ،ذرا بتائے آپ کی نظر میں کیا کوئی ایسا ہے جو اس حسن وجمال کو دیکھ کر نہ بہکنے پائے؟

____________________

(۱)ذم الہوی لا بن جوزی ص۲۶۴۔۲۶۵۔

۱۳۳

شوہر نے کہا ہاں کیوں نہیں، پوچھا کون ہے؟جواب دیا عبید بن عمیر، عورت نے کہا: اگر تم مجھے اجازت دوتو میں آج اسے بہکاکردکھائووں گی؟ کہا :جائو تمہیں اجازت ہے۔چنانچہ وہ گھر سے نکلی اور مسئلہ پوچھنے کے بہانے اسکے پاس پہونچی اس نے اسے مسجد الحرام کے اندر تنہائی میں ملنے کا موقع دے دیا ،تو اس نے اسکے سامنے چاند کی طرح چمکتے ہوئے اپنے چہرہ سے نقاب الٹ دی، تو اس

نے کہا: اے کنیز خدا ،عورت بولی: میں آپ کے اوپر فریفتہ ہوگئی ہوں لہٰذااس معاملہ میں آ پ کی رائے کیا ہے؟اس نے کہا میں تم سے چند سوال کرنا چاہتا ہوں اگر تم نے میری تصدیق کردی تو میں تمھیں اپنی رائے بتادوں گا، وہ بولی جو کچھ تم پوچھوگے میں سچ سچ جواب دوںگی۔ کہا:ذرا یہ بتائو اگر ملک الموت تمہاری روح قبض کرنے کے لئے آئیں تو اس وقت تمہیں اچھا لگے گا کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا ہرگز نہیں۔کہا :تم نے سچ کہا ہے۔پوچھا اگر تمہیں تمہاری قبر میں اتار دیا جائے اور سوال کرنے کے لئے بٹھایا جائے تو اس وقت تمہیں اچھا معلوم ہوگا کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟وہ بولی بخدا نہیں،کہا تم نے سچ جواب دیا۔پھر پوچھا یہ بتائوکہ جب روز قیامت تمام لوگوں کے ہاتھ میں نامۂ اعمال دئے جا رہے ہوں گے اور تم کو یہ معلوم نہ رہے کہ تمہارا نامہ عمل دائیں ہاتھ میں دیا جائے گا یا بائیں ہاتھ میں(یعنی نامۂ عمل خراب ہے یا اچھا)اس وقت کیا تم یہ پسند کروگی کہ میں تمہاری یہ حاجت پوری کردوں؟بولی بخدا نہیں۔پھر سوال کیا بتائو جب سب کو میزان کے اوپر کھڑاکیا جارہا ہوگا اور تمھیں یہ معلوم نہ ہو کہ تمہارا نامۂ عمل وزنی ہے یا ہلکا تو کیا تمہیں اس وقت خوشی ہوگی کہ میں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں؟بولی بخدا نہیں۔کہا تم نے صحیح جواب دیا۔پھر پوچھا اگر تمھیں سوال اور جواب کے لئے خدا کے سامنے کھڑا کیا جائے اورمیں تمہاری یہ تمنا پوری کردوں توکیا اس وقت تم کو اچھا لگے گا؟بولی بخدا نہیں۔کہا تم نے سچ کہا ہے، تواس نے کہا: اے کنیز خدا ،ذرا خدا سے ڈرو اس نے تم کویہ نعمت دے کر تمہارے اوپر احسان کیا ہے یہ سن کر وہ اپنے گھر واپس آگئی شوہر نے پوچھا کہو کیا کرکے آئی ہو؟وہ بولی تم فضول ہو اور ہم سب کے سب فضول ہیں اور اسکے بعد وہ مستقل نماز ، روزہ اور عبادت میں مشغول ہوگئی وہ کہتا ہے کہ اسکا شوہر یہ کہتا رہتا تھا کہ بتائو عبید بن عمیر سے میری کیا دشمنی تھی ؟

۱۳۴

جس نے میری بیوی کو برباد کردیا وہ کل تک تو ایک بیوی کی طرح تھی اوراب اس نے اسے راہبہ بناڈالا۔( ۱ )

۳۔ابو سعد بن ابی امامہ نے روایت کی ہے ایک مرد ایک عورت سے محبت کرتا تھا ،اور وہ بھی اسے چاہنے لگی ایک دن یہ دونوں کسی جگہ ایک دوسرے سے ملے تو عورت نے اسے اپنی طرف دعوت دی ، اس نے جواب دیا :میری موت میرے قبضہ میں نہیں ہے اور تمہاری موت بھی تمہارے بس سے باہر ہے ایسا نہ ہو کہ ابھی موت آجائے اور ہم دونوں گناہکار اور مجرم کی صورت میں خداوند عالم کے دربار میں پہونچ جائیں، بولی: تم سچ کہہ رہے ہو، چنانچہ اسی وقت دونوں نے توبہ کرلی اور اسکے بعد دونوں راہ راست پرآگئے۔( ۲ )

۴۔خارجہ بن زید کا بیان ہے کہ بنی سلیمہ کے ایک شخص نے مجھ سے اپنایہ ماجرا بیان کیا ہے کہ میں ایک عورت کا عاشق ہوگیاتھااور جب بھی وہ مسجد سے نکل کر جاتی تھی میں بھی اسکے پیچھے چل دیتا تھا اور اسے بھی میری اس حرکت کا علم ہوگیا۔چنانچہ اس نے ایک رات مجھ سے کہا تمھیں مجھ سے کچھ کا م ہے؟ میں نے کہا ہاں۔بولی: کیا کام ہے؟میں نے جواب دیا تمہاری محبت ۔اس نے کہا کہ اسے گھاٹے والے دن (روز قیامت) پر چھوڑدو، اسکابیان ہے کہ :خداکی قسم اس نے مجھے رلادیا جسکے بعد میں نے پھر یہ حرکت نہ کی۔( ۳ )

۵۔بنی عبد القیس کے ایک بزرگ کی روایت ہے ،وہ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے قبیلہ والوں سے سنا ہے کہ ایک شخص نے ایک عورت کو اپنی طرف دعوت دی تو وہ بولی تم نے حدیث سنی ہے اور قرآن پڑھا ہے تم پڑھے لکھے ہو،پھر مرد نے عورت سے کہا کہ :محل کے دروازے بند کردو، تو اس نے دروازے بند کردئے مگر جب وہ مرد اسکے نزدیک ہوا تو وہ عورت بولی کہ ابھی ایک دروازہ کھلارہ گیا

____________________

(۱)ذم الہوی لابن جوزی ص۲۶۵۔۲۶۶۔

(۲)ذم الہوی لا بن جوزی ص۲۶۸۔

(۳)ذم الہوی لا بن جوزی ص ۲ ۲۷۔

۱۳۵

ہے جو مجھ سے بند نہیں ہوسکا۔اس نے کہا کون سا دروازہ ؟جو اب دیا:وہ دروازہ جو تمہارے اور تمہارے پروردگار کے درمیان کھلا ہے یہ سن کر اس نے اسے ہاتھ بھی نہیں لگایا۔( ۱ )

۶۔ابن جوزی کا بیان ہے کہ ہمیں یہ اطلاع ملی کے بصرہ کی زاہدہ وعابدہ خاتون ایک مہلّبی مرد( ۲ ) کے چنگل میں پھنس گئی ہے،کیونکہ وہ بہت خوبصورت تھی اور جو کوئی اسے شادی کا پیغام دیتا تھاتو وہ منع کردیتی تھی چنانچہ مہلّبی کو یہ خبر ملی کے وہی عورت حج کرنے جاری ہے ،تو اس نے تین سو اونٹ خریدے اور یہ اعلان کردیا کہ جو حج کرنے کا ارادہ رکھتا ہے وہ مجھ سے اونٹ کرائے پرلے سکتا ہے۔چنانچہ اس عورت نے بھی اس سے کرایہ پرایک اونٹ لے لیا۔ایک دن راستہ میں وہ رات کے وقت اسکے پاس آیا اور کہا یاتم مجھ سے شادی کرو، ورنہ !عورت نے جواب دیا :تم پروائے ہو ذرا خدا کا خوف کرو، تو اس نے کہا:ذرا کان کھول کر سنو، خدا کی قسم میں کوئی اونٹوں کاساربان ( اونٹ والا)نہیں ہوں بلکہ میں تو اس کام کے لئے صرف اور صرف تمہاری وجہ سے نکلا ہوں، لہٰذا جب عورت نے اپنی آبرو خطرے میں دیکھی تو کہا کہ اچھا جائو یہ دیکھو کہ کوئی جاگ تو نہیں رہا ہے؟ اس نے کہا کوئی نہیں جاگ رہا ہے وہ پھر بولی ایک بار اور دیکھ آئو چنانچہ وہ گیا اور جب واپس پلٹ کرآیا تو کہا: ہاں سب کے سب سوچکے ہیں تو عورت نے کہا: تجھ پروائے ہو،کیا رب العالمین کوبھی نیند آگئی ہے؟( ۳ )

حیاء

عقل کے لشکرکی ایک اور صفت ''حیائ''بھی ہے یہ بھی انسان کو تباہی اور بربادی سے بچانے میں اہم کردار کرتی ہے۔چنانچہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ اگرکسی شخص کو خداوند عالم یا اسکے بندوں کی حیاء نہ ہوتووہ گناہوں میں مبتلا ہوجاتاہے اور اسے اسکی عقل بھی نہیں روک پاتی ہے ۔ایسے حالات میں

____________________

(۱)ذم الہوی لا بن جوزی ص۲۷۴۔

(۲،۳) مہلّب :ایک ثروت مند قبیلہ کا نام ،ذم الہویٰ لا بن جوزی ص۲۷۷۔

۱۳۶

صرف حیاء ہی اسکو گناہ سے بچاتی ہے۔

حیاء (چاہے جس مقدار میں ہو اس) کے اندر عصمت کے مختلف درجات پائے جاتے ہیں جیسے اعزاء و اقرباء سے شرم وحیاء میں جو عصمت پائی جاتی ہے وہی غیروں سے حیاء کے وقت ایک درجہ اور بڑھ جاتی ہے اسی طرح انسان جس کا احترام کرتا ہے اور اسکی تعظیم کا قائل ہے اسکے سامنے حیاء کی وجہ سے اسکے اندر اس سے اعلیٰ درجہ کی عصمت پیدا ہوجاتی ہے۔

آخر کار پروردگار عالم سے حیاء کرنے کی وجہ سے انسان عصمت کے سب سے بلند درجہ کا مالک ہوجاتا ہے ۔لہٰذا اگر انسان اپنے نفس کے اندر خداوند عالم کی حیاء پیدا کرلے اور اس کو اچھی طرح اپنے وجود میںراسخ کرلے اور خدااور اسکے فرشتوں کو ہمیشہ اپنے اوپر حاضر وناظر سمجھے تواس احساس کے اندر اتنی اعلیٰ درجہ کی عصمت پائی جاتی ہے جو اس کو ہر طرح کی نافرمانی، گناہ اور لغزشوںسے بچاسکتی ہے۔

ﷲ تعالیٰ سے حیائ

یہ کیسے ممکن ہے کہ کسی انسان کے دل میں خداوند عالم کا خیال موجود ہواور وہ اسے حاضر وناظر بھی سمجھ رہا ہو اور اسے یہ بھی یاد ہو کہ خداوند عالم کے علاوہ اسکے معین کردہ فرشتے بھی اس سے اتنا نزدیک ہیں کہ خداوند عالم نے ان سے اسکا جو عمل پوشیدہ رکھتا ہے اسکے علاوہ اسکا کوئی عمل ان سے پوشیدہ نہیں ہے اورپھر بھی وہ گناہ کا مرتکب ہوجائے چنانچہ پیغمبر اکرم صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے جناب ابوذر کو جو وصیت فرمائی تھی اس میں یہ بھی ہے کہ اے ابوذر خدا وند عالم سے شرم وحیاء کرو اس ذات کی قسم جس کے قبضہ ٔ قدرت میں میری جان ہے میرا حال تو یہ ہے کہ جب میں بیت الخلاء کے لئے جاتا ہو ں تو اپنے دونوں فرشتوں سے شرم وحیاء کی بناپر اپنے چہرے پر کپڑاڈال لیتا ہوں۔

حیاء کا وہ ارفع و اعلیٰ درجہ جو خداوند عالم نے اپنے رسول کو عنایت فرمایا ہے وہ دنیا میں بہت کم افراد کو نصیب ہوا ہے۔ مختصر یہ کہ جب انسان کے نفس کے اندر اور اسکے شعور و ادراک میں اچھی طرح حیائے الٰہی جلوہ فگن ہوجاتی ہے تو پھر اسے گناہوں، برائیوں نیزہوس کے مہلک خطرات کے سامنے سپر انداختہ نہیں ہونے دیتی ہے ۔

۱۳۷

جب اپنے جیسے دوسرے انسانوں سے شرم وحیاء کی بناء پرانسان نہ جانے کتنے ایسے کام نہیں کرتا ہے جنہیں ان کی عدم موجودگی یا تنہائی میں انجام دے لیتا ہے تواگر اسکے اندرخداوند عالم سے حیاء کا مادہ پیدا ہوجائے تو پھر خداوند عالم کی ناپسندیدہ چیزوں سے وہ بدرجۂ اولیٰ پرہیز کریگا اور اسکے لئے ملاء عام (علی الاعلان)اور گوشہ تنہائی میں کوئی فرق نہ رہ جائے گا۔ اس لئے کہ خداوند عالم ہرجگہ حاضر وناظر ہے ۔اور یہ تو ممکن ہے کہ کوئی شخص ،بندوں سے کوئی بات پوشیدہ رکھ لے لیکن خداوندعالم سے اسکی کوئی بات ہرگز پوشیدہ نہیں رہ سکتی ہے۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(یاأباذراستح من ﷲ،فأنی والذی نفسی بیده لأظل حین أذهب الیٰ الغائط متقنّعاًبثوبی استحی من المَلکین الذین معی )( ۱ )

''اے ابوذر،خداوند عالم سے حیاء کرو،کیونکہ اس ذات کی قسم جسکے قبضہ میں میری جان ہے میں جب بھی بیت الخلاء کے لئے جاتاہوں تو اپنے ہمراہ دونوں فرشتوںسے شرم وحیاء کی وجہ سے اپنے چہرہ کو ڈھانپ لیتاہوں''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(استحِ من ﷲاستحیاء ک من صالح جیرانک،فان فیهازیادةالیقین )( ۲ )

''خداوند عالم سے اس طرح شرم وحیاء کرو جس طرح تم اپنے نیک اور صالح پڑوسی سے

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۷ص۸۳وکنز العمال ح۵۷۵۱۔

(۲) بحارالانوار ج۷۸ص۲۰۰۔

۱۳۸

شرماتے ہو کیونکہاس سے یقین میں اضافہ ہوتا ہے''

آپ ہی سے یہ بھی مروی ہے :

(لیستحِ أحدکم من ملکیه الذین معه،کمایستحی من رجلین صالحین من جیرانه،وهمامعه باللیل والنهار )( ۱ )

''اپنے فرشتوں سے تم اسی طرح شرم وحیا کیا کرو جس طرح تم اپنے دو صالح اور نیک پڑوسیوں سے شرماتے ہو کیونکہ یہ فرشتے رات دن تمہارے ساتھ رہتے ہیں''

خداوند عالم سے ہر حال میں شرم وحیا کے بارے میں امام کاظم سے نقل ہوا ہے:

(استحیوا من ﷲ فی سرائرکم،کما تستحون من الناس فی علانیتکم )( ۲ )

''تنہائی میں خداوند عالم سے اسی طرح شرم وحیا کیاکرو جس طرح لوگوں کے سامنے تمھیں حیا آتی ہے''

مختصر یہ کہ اگر کسی کے اندر خداوند عالم سے حیاکا عرفان پیدا ہوجائے تو وہ عصمت کے بلند ترین درجہ پر فائز ہوسکتا ہے اور اسکے لئے ملا ء عام یاگوشۂ تنہائی میں کوئی فرق نہیں ہے اسکے لئے روایات میں مختلف تعبیرات ذکر ہوئی ہیں۔

حضرت علی :

(الحیاء یصدّ عن الفعل القبیح )( ۳ )

''حیا برائیوں سے روک دیتی ہے ''

آپ ہی نے یہ بھی فرمایا ہے:

____________________

(۱)میزان الحکمت ج۲ص۵۶۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۳۰۹۔

(۳)میزان الحکمت ج۲ص۵۶۴۔

۱۳۹

(علیٰ قدرالحیاء تکون العفة )( ۱ )

''حیا کی مقدار کے برابرہی عفت بھی ہوتی ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(استحیوا من ﷲحق الحیائ،فقیل یارسول ﷲ:ومن یستحی من ﷲحق الحیائ؟فقال:من استحییٰ من ﷲحق الحیاء فلیکتب أجله بین عینیه،ولیزهد فی الدنیاوزینتها،ویحفظ الرأس وماحویٰ والبطن وماوعیٰ )

''خداوند عالم سے ایسی حیا کروجو حیا کر نے کا حق ہے سوال کیا گیا خداوند عالم سے حیا کرنے کا جوحق ہے اسکا کیا طریقہ ہوگا؟آپ نے فرمایا کہ جو خداوند عالم سے واقعاً حیا کرنا چاہتا ہے وہ اپنی موت کو اپنی دونوں آنکھوں کے سامنے مجسم کرلے (اپنی پیشانی پر لکھ لے )اور دنیا اور اس کی زینتوںسے اجتناب کرے اور اپنے سر اور جو کچھ اس میں ہے اور اپنے پیٹ اور جو اسکے اندر بھرا ہے ان سے محفوظ رہے''( ۲ )

امام موسیٰ کاظم :

(رحم ﷲ من استحییٰ من الله حق الحیائ،فحفظ الرأس وماحویٰ،والبطن وماوعیٰ )( ۳ )

''ﷲ تعا لی اس بندے پر رحم کرے جسکو اس سے واقعا حیا آتی ہو اور اسی لئے وہ اپنے سر کے وسوسوں اور پیٹ کی شہوتوں سے اپنے کو محفوظ رکھے''

روایت میں سر اور معدہ کا تذکرہ اس لئے کیا گیا ہے کہ اکثر شہوتیں انہیں دونوں جگہوں سے

____________________

(۱)گذشتہ حوالہ۔

(۲)بحارالانوار ج۷۰ص۳۰۵۔

(۳)بحارالانوار ج۷۰ص۳۰۵۔

۱۴۰

جنم لیتی ہیں مثلاًاگر آنکھیں شہوت کا ایک دروزہ اور کان دوسرا دروازہ ہے تومعدہ ( پیٹ ) شہوت کی پیدا ئش کاپہلامرکز اور شرم گاہ دوسرا مرکزہے ۔

لہٰذا جب انسان کے اندر شرم وحیاء پیدا ہوجاتی ہے تو پھر ذہن ودماغ کے برے خیالات (سر کے وسوسے )اور پیٹ کی شہوت کے سارے راستے خود بخود بندہوجاتے ہیں اور انسان ان کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔

آپ ہی سے مروی ہے :

(مِن أفضل الورع أن لاتبدی فی خلواتک ما تستحی من اظهاره فی علانیتک )( ۱ )

''سب سے بڑا ورع اور پارسائی یہ ہے کہ جس کام کو تم کھلم کھلا کرنے سے شرماتے ہو اسے تنہائی میں بھی انجام نہ دو''

بارگاہ خدا میں قلت حیا کی شکایت

متعدد دعائوں میں یہ ملتا ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں اس سے حیاکی قلت کی شکایت کرتا ہے جو ایک بہت ہی لطیف اور عجیب بات ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ شکایت کرے کہ اسکے اندر خود ذات پروردگار سے شرم وحیاء کی قلت پائی جاتی ہے جس میں خدا قاضی ہے کیونکہ اسکا فیصلہ اسی کے اوپر چھوڑدیاگیا ہے شکایت کرنے والا خود انسان (انا،میں )ہے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے وہ نفس ہے اور شکایت (مقدمہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نفس اس خدا کے سامنے بے حیائی پر اتر آیا ہے جو خود اس مقدمہ میں قاضی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گویا انسان خدا کی بارگاہ میں اپنے نفس کی یہ شکایت کررہا ہے کہ وہ خود خدا سے حیاء نہیں کرتا ہے بطورنمونہ دعائے

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۲۵۳۔

۱۴۱

ابوحمزہثمالی(رح) کے یہ جملات ملاحظہ فرمائیں:

(أنا یاربّ الذی لم أستحیک فی الخلائ،ولم اُراقبک فی الملأ،أناصاحب الدواهی العظمیٰ،أناالذی علیٰ سیده اجتریٰاناالذی سترت علیّ فمااستحییت،وعملت بالمعاصی فتعدّیت،واسقطتنی من عینیک فما بالیت )( ۱ )

''پروردگارا !میں وہی ہوں جس نے تنہائی میں تجھ سے حیا نہیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نہیںکیا میرے مصائب عظیم ہیں میں نے اپنے مولا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔۔۔میں وہی ہوں ۔۔۔ جس کی تونے پردہ پوشی کی تو میں نے حیا نہیں کی، گناہ کئے ہیں تو بڑھتا ہی چلا گیا اور تو نے نظروں سے گرا دیا تو کوئی پروا نہیں کی ''

امام زین العابدین کی مناجات شاکین(شکایت اور فریاد کرنے والوں کی مناجات ) میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے نفس اور گناہوں سے پرہیز نہ کرنے کی شکایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:

(الٰهی أشکوالیک نفساًبالسوء أمّارة،والیٰ الخطیئة مبادرة، وبمعا صیک مولعة،ولسختک متعرّضة )( ۲ )

''خدایا میں تجھ سے اس نفس کی شکایت کر رہا ہوں جو برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خطائوں کی طرف تیزی سے دوڑ تا ہے اور تیری معصیتوں پر حریص ہے اور تیری ناراضگی کی منزل میں ہے ''۔

____________________

(۱)دعا ئے ابو حمزہ ثمالی۔

(۲)مفاتیح الجنان: مناجات الشاکین ۔

۱۴۲

دوسری فصل

جو شخص اپنی ہویٰ وہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیتا ہے۔

۱۔ہوی وہوس کے معنی

۲۔اسکے خصائل اور صفات

۳۔اسکا طریقہ ٔ علاج

حدیث شریف کے پہلے فقرے کی وضاحت کے بعد اب ہم آپ کے سامنے اس حدیث کے دوسرے اور تیسرے جملے ''جو شخص خداوند عالم کی مرضی پر اپنی خواہش اور ہوس کو مقدم کرتا ہے'' اور اسکے برخلاف ''جو انسان مرضی خدا کو اپنی مرضی اوراپنی خوشی پرفوقیت اور ترجیح دیتا ہے '' کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

جو شخص اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر فوقیت دیتا ہے۔ اس (دوسرے)جملہ کی وضاحت متعلقہ حدیث قدسی میں کچھ اس طرح کی گئی ہے۔

عن رسول ﷲ یقو ل ﷲ تعالیٰ :

(وعزّتی وجلا لی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعلوّی،وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هواه علیٰ هوای لّا شتّت أمره،ولبّست علیه دنیاه،وشغلت قلبه بها،ولم اُوته منها لاماقدّرت له)(۱)

____________________

(ا)عدةالداعی ص۷۹۔اصول کافی ج۲ص۲۳۵۔ان دونوںسے علامہ مجلسی (رح)نے بحارالانوار ج۷۰ص۷۸حدیث۱۴ اور ج۷۰ص۸۵نیزص۸۶پر اس حدیث کو نقل کیاہے۔اس سے پہلے بھی ہم نے کتاب کے مقدمہ میں اس حدیث کے بعض حوالے نقل کئے ہیں۔

۱۴۳

''میری عزت وجلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم ،کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے معاملات کودرہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا اور اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے''

حدیث قدسی کے اس فقرہ میں تین اہم نکات پائے جاتے ہیں:

۱۔جو لوگ اپنی خواہش کو مرضی خدا پر ترجیح دینگے انہیں خداوند عالم تین قسم کی سزائیں دیگا:

الف۔ان کے معاملات مشتبہ اوردرہم برہم ہوجائیں گے۔

ب۔ دنیاان کی نگاہ میں آراستہ ہوجائے گی۔

ج۔ان کادل، دنیا کا دیوانہ ہوکر رہ جائے گا۔

۲۔مذکورہ سزائوںکے تذکرہ سے پہلے اس حدیث شریف میں متعدد طرح کی عظیم قسمیں کھائی گئی ہیں(جیسے میری عزت،جلالت،عظمت،کبریائی، نوراور میرے مقام و منزلت کی رفعت کی قسم) جن سے اُس بات کی اہمیت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسکا تذکرہ ان کے بعد کیا گیا ہے۔

۳۔حدیث شریف میں جس طرز کلام کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے دائرہ کلام بالکل محصور اور محدودہوجاتا ہے کیونکہ پہلے جملہ یعنی (لایؤثرعبدھواہ۔۔۔الاشتت أمرہ) میں نفی اور دوسرے جملہ(الاشتت أمرہ) میں اثبات کا لہجہ موجود ہے لہٰذا اس حصر کے معنی یہ ہیں کہ جب کبھی بھی انسان اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیگا تو وہ کسی بھی طرح خداوند عالم کی ان سزائوں سے نہیں بچ سکتا ہے اب آپ حدیث قدسی میں مذکور، ان تینوں سزائوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

۱۔اسکے امور کو درہم برہم کردوںگا

جو لوگ خوداپنی مرضی کے مطابق چلتے ہیں اور خداوند عالم کی مرضی کاکوئی خیال نہیں کرتے ہیں ان کو خداوند عالم سب سے پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ ان کے معاملات درہم برہم کردیتا ہے اور ان کے ہر کام میں بے ثباتی ،تزلزل اور بے ترتیبی آجاتی ہے کیونکہ وہ ان سے طریقۂ کار، راہ وروش، مقصد اور وسیلہ کی یکسانیت اور یکسوئی کو سلب کرلیتا ہے۔جسکے نتیجہ میں وہ ہوا میں کٹی پتنگ یا کسی تنکے کی طرح ہر طر ف اڑتے رہتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا انکو ایک نئی سمت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔کیونکہ لوگ عام طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں:

۱۴۴

۱۔منظم اور ٹھوس شخصیت کے مالک۔

۲۔بے نظم اوربے ترتیب

ٹھوس شخصیت

ٹھوس اور مستحکم شخصیت ایسی شخصیتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی ایک حاکم کے ماتحت رہتی ہیں جب کہ متزلزل ،مضطرب اور بد حواس قسم کے افراد متعدد اسباب وعوامل کے آلۂ کار بنے رہتے ہیں۔

چنانچہ پہلے طریقۂ کار کو توحیدی طریقہ اور دوسرے طریقہ کوشرک کا نتیجہ کہا جاتاہے کیونکہ جو شخص توحید الٰہی کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ ہر اعتبار سے خداوند عالم کے ارادہ ،حکمت اور اسکے احکام کا تابع ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے اسی کی مشیت اور مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہتا ہے۔

اسی طرح ہرخوشی اور مصیبت میں وہ حکم الٰہی کا پابند رہتا ہے اور خداوند عالم کی خو شنودی ہی اسکا اصل مقصد ہے اور اسکے علاوہ اسے کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں ہوتی اور وہ ہرطرح سے اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتا ہے اوراسکی نظر صرف اپنے اس پاک مقصد پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اسکی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔اور کیونکہ احکام الٰہی کا نظام صرف ایک ہی مرکز سے متصل ہے اور اس میں مکمل طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا اس پر عمل کر نے کے بعد ہر انسان کی شخصیت مقدس ہو جا تی ہے اور اس میں یکسوئی پیدا ہو جا تی ہے یعنی کبھی مختلف قسم کی سیاسی یا سما جی ردو بدل اور اتھل پتھل کی وجہ سے جنگ اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے جسکی بناپرانہیں اسلحہ اٹھا نا پڑ تاہے ۔اور کبھی صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ اسلحہ کو زمین پر رکھنا پڑتا ہے مگرحالات کے اس پورے اتار چڑھائو کے باوجود انسان کی شخصیت کے اندر کسی طرح کا اختلاف یا ردو بدل پیدا نہیں ہوتی اور اسکی شخصیت کی یکسا نیت اور توحید کے سرچشمہ سے پیدا ہو نے والی ترتیب ویگانگت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اسی کو (توحید عملی ) کہا جاتا ہے جو توحید نظری کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے کیونکہ یہ صورت حال دراصل انسان کی زندگی میں توحید نظری کے پر توکاہی نتیجہ ہے ۔

۱۴۵

توحید عملی کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد انسان اپنے نفس کے اندر اور باہر موجودتمام حاکمو ں جیسے ہوی وہو س اور طاغوت وغیرہ کی ماتحتی سے خارج ہو جاتا ہے اور احکام الٰہی کے دائر ہ حکومت میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح تنہا حکم الٰہی ہی اسکے ہر عمل کا حاکم ومختار ہوتا ہے اور اسکی رفتار وگفتار اور کردار وعمل میں ہر جگہ توحید ی رنگ نظر آتا ہے اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث شریف کا مصداق بن جاتا ہے :

(لایؤمن أحدکم حتیٰ یکون هواه تبعاً لما جئت به )( ۱ )

''تم میں سے کو ئی شخص بھی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ہر خو ا ہش اس دین کی تا بع نہ بن جا ئے جو میں لیکر آیا ہوں ''

جبکہ شر ک کی صورتحال اس کے برخلاف ہو تی ہے کیونکہ شرک آجا نے کے بعد انسان سوفیصد خدا وند عالم کے احکام کا پا بند نہیں رہتا بلکہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ خوا ہش نفس اور طاغوت وغیرہ کی پیروی بھی شروع کر دیتا ہے اور جب انسان تو حید کے قلعہ کی چار دیواری سے با ہر نکل جاتا ہے توپھر ہوس اور طا غوت اس کے سر پر سوار ہو جا تے ہیں اس کی بنیا دوںکو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور گویااسے با لکل تباہ و بر باد کر ڈالتے ہیں اس با رے میں قرآنی تعبیرات ملاحظہ فر ما ئیے :

( ﷲ ولی الذین آمنوا والذین کفرواأولیاؤهم الطاغوت) (۲)

____________________

(۱)جا مع الکبیرطبری ۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۲۵۷۔

۱۴۶

''ﷲ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے ۔۔۔اور جو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں''

جسکا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مومن ہیں ان کا صرف ایک ولی وسرپرست ہے ایک ذریعہ اور ایک ہی سرچشمہ ہے اور صرف اسی سے ان کو نسبت ہے لیکن مشرکین مختلف لیڈروں اور حاکموں کے آلہ کار اور تابع ہوتے ہیں انہیںجو ذریعہ اور وسیلہ بھی نظر آجاتا ہے وہ اسی کے پیچھے لگ لیتے ہیں اسی لئے ان کے واسطے جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے :

( والذین کفروا أولیاؤهم الطاغوت )

''اورجو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں ''(اس میں لفظ اولیاء جمع ہے )

یہاں تک یہ بالکل واضح ہوگیا کہ جو شخص ،ٹھوس شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس پر صرف شرعی قانون کی حکومت چلتی ہے اور وہ مرضی خدا کا پابند ہوتا ہے ایسے افراد کسی غوروفکر ،شرم وحیا اور خوف وہراس کے بغیر اپنی شرعی ذمہ داریوںپر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہ خوف وہراس ،شرمندگی اور اضطرابی حالت انسان کی اندرونی کشمکش اور تذبذب کی دلیل ہے جو نفس کے اندرونی یا بیرونی اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا جب انسان کسی ایک طاقت کا پابنداور پیرو ہوتا ہے اور اسکی نظر ہمیشہ ایک ہی مرکز پر رہتی ہے تو اس پر ان چیزوں کا اثرنہیں پڑتا ہے ۔

ایسے افراد کی پہچان یہ ہے کہ وہ ثقہ، قابل اطمینان، ثابت قدم ،ٹھوس رائے ،پاکیزہ نفس صاف وشفاف ضمیر کے مالک ،شجاع اورتنہائی یا چاہنے والوں اور مددگاروں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باوجود اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں ۔امیر المومنین نے فرمایا ہے :

(لایزیدنی کثرة الناس عزّة،ولاتفرُّقهم عنی وحشة )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب۳۶۔

۱۴۷

''لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت اوراستحکام میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ان کے متفرق ہوجانے سے مجھے کوئی وحشت ہوتی ہے ''دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے ان خصائل اور صفات پر وقتی سکون واطمینان ،زحمت ومشکلات رزم وبزم ،فتح ونصرت یا ناکامی اورشکست کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور وہ پرچم توحید کے سایہ میں سدا بہار رہتے ہیں ۔

عماربن یاسر

خداوند عالم جناب عمار یاسر پر رحمتیں نازل فرمائے وہ ایک مثالی ،ٹھوس اور عظیم شخصیت کے مالک تھے ۔جنگ صفین میں آپ نے حضرت علی کی رکاب میں اس وقت معاویہ سے جنگ کی تھی جب آپ کی عمر ،نوے برس سے زیادہ تھی آپ نڈر،بہادر،ثابت قدم، جنگ کے شعلوں میں کودجانے والے اورامام کے ایسے جانثار ساتھی تھے جن کے دل میں حضرت علی کی حقانیت اور معاویہ کے ناحق اور باطل ہونے کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک پیدا نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ صفین کی جنگ کے دوران ہی حضرت علی کے سامنے آپ نے پروردگار عالم سے یہ دعا کی:

(اللّٰهم انکتعلم أنی لوأعلم أن رضاک فی أن اقذف بنفسی فی هذاالبحرلفعلت،اللّٰهم انک تعلم أنی لوأعلم انّ رضاک أن أضع ضُبّةسیفی فی بطنی ثم أنحنی علیها حتیٰ یخرج من ظهری لفعلت،اللّٰهم وانی أعلم مماعلّمتنی أنی لاأعمل الیوم عملاًهو أرضیلک من جهاد هؤلاء الفاسقین،ولوأعلم الیوم عملاً أرضیٰلک منه لفعلت )( ۱ )

____________________

(۱)صفین:نصربن مزاحم ۳۱۹۔۳۲۰تحقیق ڈاکٹر عبدالسلام ہارون۔

۱۴۸

''بارالٰہاتوجانتاہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس سمندر میں کودجانے میں تیری خوشنودی ہے تو میں یقینا کودجائوں گا۔بارالٰہا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری خوشی اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار اپنے پیٹ پر رکھکر اس کے اوپر اتنا جھک جائوں کہ وہ میری کمر کے پار نکل جائے تو میں یہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔بارالٰہا تونے مجھے جو علم دیا ہے اسکی بنا پر مجھے معلوم ہے کہ آج تجھے ان فاسقین سے جہاد کرنے سے زیادہ میرا کوئی عمل پسند نہیں ہے (لہٰذا میں ان سے جہاد کررہا ہوں)اور اگر مجھے اس سے زیادہ تیراپسندیدہ عمل معلوم ہوجائے تو میں اسکو ضرورانجام دونگا''

اسماء بن حکم فزاری کا بیان ہے کہ ہم صفین کے میدان میں حضرت علی کے لشکر میں جناب

عمار یاسر کی سپہ سالاری میں دو پہر کے وقت سرخ چادر کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اس وقت ایک شخص(جو سب کے چہرے غورسے دیکھ رہاتھا)آیا اور اس نے کہا کیا تمہارے درمیان عمار یاسر ہیں ؟

جناب عمار نے کہا :میں عمار ہوں ۔

اس نے کہا! ابوالیقظان؟

جواب دیا :جی ہاں۔

پھر اس نے کہا :کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے ،فرمائیے یہیں سب کے سامنے عرض کروں یا تنہائی میں،جناب عمار بولے جو تم چاہو۔اس نے کہا ٹھیک ہے سب کے سامنے ہی عرض کئے دیتا ہوںجناب عمار نے کہا بتائو کیا کام ہے ؟

کہا! میں جب اپنے گھر سے نکلا تھا تو مجھے اپنی حقانیت اور اس قوم(لشکر معاویہ)کی گمراہی کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں تھااور مسلسل میری یہی کیفیت تھی مگر آج رات عجیب اتفاق ہوا کہ جب صبح ہوئی تو ہمارے مؤذن نے(اشهد أن لاالٰهَ الاﷲ وأن محمداًرسول ﷲ )کی صدا بلند کی اور ان کے موذن نے بھی اسی طرح اذان دی جب نماز شروع ہوئی تو ہم سب نے ایک ہی طرح نماز پڑھی ایک ہی طرح دعا کی،ایک ہی کتاب (قرآن مجید )کی تلاوت کی اور ہمارے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایک ہیں، یہیں سے میرے دل میں کچھ شک پیدا ہوا ۔چنانچہ خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں نے بقیہ وقت کیسے گذارا ہے، صبح ہوئی تو میں امیر المومنین کے پاس گیا اور ان کی خدمت میں پورا ماجرا بیان کردیا تو انھوں نے فرمایا :کیا تم عمار بن یاسر سے ملے ہو؟میں نے عرض کی نہیں، فرمایا جائو ان سے ملاقات کرو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا ۔

۱۴۹

لہٰذا اسی کام کے لئے میں آپ کی خدمت حاضر ہوا ہوں تو جناب عمار یاسر(رح) نے اس سے کہا: کیا تم ہمارے مقابلہ میں موجود اس سیاہ پرچم والے لشکر کے سپہ سالار کوجانتے ہو؟وہ عمروبن عاص ہے، رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہ کر میں نے اس سے تین بارجنگ کی ہے اور آج اس سے یہ میری چوتھی جنگ ہے ۔اور یہ جنگ ان جنگوں سے کچھ بہتر نہیں ہے بلکہ بدتر ہی ہے بلکہ اس کا شروفساد ان سب سے زیادہ ہے ،کیا تم بدر واحد اور حنین میں تھے یا تمہارے والد ان میں موجود تھے کہ انھوں نے تم سے ان جنگوں کے کچھ حالات بتائے ہوں؟اس نے کہا نہیں آپ نے کہا کے بدرواحد وحنین کے دن ہم سب رسول ﷲکے پرچم تلے جمع تھے اور وہ لوگ، مشرکین کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا تھے۔کیا تم اس لشکر اوراہل لشکرکو دیکھ رہے؟خدا کی قسم ! معاویہ کے ساتھ یہ جتنے لوگ حضرت علی کے مقابلہ میںہم سے لڑنے آئے ہیں ۔ یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور میرادل تویہ چاہتا ہے کہ ان سب کو ایک ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں۔

خدا کی قسم ان سب کا خون ایک چڑیا کے خون سے زیادہ حلال ہے ۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو؟اس نے کہا :نہیں بلکہ حلال ہے تو جناب عمار نے کہا بس سمجھ لو کہ ان کا خون بھی اسی طرح حلال ہے ۔کیا میری بات تمہارے لئے واضح ہوگئی؟اس نے کہا :جی ہاں آپ نے درست وضاحت فرمائی جناب عمار نے کہا: لہٰذا اب جسے چاہومنتخب کرسکتے ہوپھرجب وہ شخص واپس چلنے لگا تو جناب عمار نے اسے واپس بلایا اور اس سے یہ کہا کہ ان لوگوں نے ہم پر اپنی تلوارکا وارکیا تو تم میں سے بعض افراد شک وشبہ کا شکار ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ اگر یہ لوگ حق پر نہ ہوتے تو ہمارے خلاف جنگ کے لئے نہ نکلتے ،خدا کی قسم ان کے پاس مکھی کے ایک آنسوکے برابر بھی حق موجود نہیں ہے ۔

۱۵۰

ﷲ کی قسم اگر وہ ہم پر اپنی تلوار وں سے حملہ کریں یہاں تک کہ وہ ہمیںسعفات ہجر (ایک مقام کانام)تک پہونچادیں تب بھی مجھے یہی معلوم ہوگا کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پر ہیں اور خدا کی قسم اس وقت تک امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ہے جب تک فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنے حق ہونے کا منکر نہ ہواور وہ یہ گواہی نہ دے کہ اسکا مخالف فریق بر حق ہے ا ور ان کے مقتولین اور مردے جنّتی ہیں اور دنیا کے دن اس وقت تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ ان کے مردے اور مقتولین جہنمی اور زندہ رہنے والے اہل باطل ہیں۔( ۱ )

کھوکھلااوربے ہنگم انسان(شخصیت )

کھوکھلے اور بے ہنگم لوگوں کے نفس میں اندرونی کشمکش اور بیقراری کا آغاز سب سے پہلے عقل اور خواہشوں کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے کیونکہ خواہشیں انسان کے نفس کو اسکی عقل کی ماتحتی اور کنٹرول سے باہر نکالنے کی در پے رہتی ہیں جس سے آدمی کا نفس دو متصادم دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔

اس داخلی جنگ کے نتیجہ میں انسان کی مشکلات اور زحمتیں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں کیونکہ انسان کے اوپراسکے ضمیر، فطرت اور عقل کی حکومت بہت مستحکم ہوتی ہے اور یہ اسباب اسکے اندر ہوس کے نفوذ(داخلے)کاسختی سے مقابلہ کرتے ہیں اور انکی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ انسان کی شخصیت کوتقویت دیکراسے اسکی پہلی حالت اور فطرت کی طرف لوٹا دیں اس مرحلہ میں انسانی نفس کے اندر ایک خلفشار اور خانہ جنگی کی صورت حال رہتی ہے جسکی بنا پر اسے سخت زحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جب انسا ن کی عقل اس کی رفتار وکردار کو کنڑول کرنے اور اسے استقامت عطا کرنے سے عاجز ہوجاتی ہے اور انسان کے لئے اسکے نفس کااندرونی خلفشار اور خانہ جنگی بھی ناقابل برداشت

____________________

(۱)صفین،نصربن مزاحم ص۳۲۲۳۲۱

۱۵۱

ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرنے لگتا ہے جو ان مشکلات کا منفی اور غلط راہ حل ہے بلکہ اسکا صحیح راہ حل تویہ ہے کہ اپنی عقل وفطرت کو پھر سے زندہ کرکے اسے استحکام بخشے اور اسکے احکامات کے مطابق عمل کرے۔

لیکن اسکے بجائے صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ انسان خواہشات کی سلطنت کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے اور ان مشکلات سے نجات پانے کے لئے اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرتا ہے ؟اور نشہ،جو ا،جرائم یا جنسیات کے دامن میں پناہ تلاش کرتا ہے ۔

مزید تعجب کی بات تویہ ہے کہ انسان اپنی ہوس سے اپنی ہوس ہی کی طرف فرار کرتا ہے اور ایک جرم سے دوسرے جرم کی طرف بھاگتا ہے ورنہ اگر وہ اپنی ہوس کے برخلاف قدم اٹھائے اور خواہش نفس اور ہوس سے خدا کی طرف آگے بڑھے توبآسانی ان سے نجات پاکرسکون حاصل کرسکتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میںمتوجہ کیا ہے :

(ففرّوا الیٰ ﷲ انی لکم منه نذیرمبین )( ۱ )

''لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑپڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرا نے والا ہوں''

لہٰذا جب تک انسان خداوند عالم کی پناہ حاصل نہ کرلے وہ اپنی ہوس کے سامنے لاچار اور مجبور ہی رہتا ہے اسی لئے وہ مشکلات اور زحمتوں نیز اپنی زندگی کے دردسر سے نجات پانے کے لئے نشے اور جنسیات کارخ کرتا ہے جنکے بارے میں قرآن کریم کی یہ تعبیر کتنی صحیح ہے کہ :

(نسوا ﷲ فأنساهم أنفسهم )( ۲ )

''انھوں نے خدا کو بھلاڈالاتو خدا نے خود ان کو بھی نظر انداز کردیا''

کیونکہ جو لوگ اپنی فطرت اور ضمیر سے فرار کرکے شراب یا جوئے وغیرہ کی طرف بھاگتے

____________________

(۱)سورئہ ذاریات آیت ۵۰۔

(۲)سورئہ حشر آیت ۱۹۔

۱۵۲

ہیں در اصل وہ اپنے کو بھلادینا چاہتے ہیں اور انسان کا یہ فرار ذکر(یاد)سے نسیان (بھول)کی طرف ہے جو خود فرار سے بدترہے ۔

بالآخرانسان کے نفس اور اسکی شخصیت کے اندر ہوی وہوس کا مقابلہ کرنے والی آخری طاقت کا نام ضمیر ہے جو حتی الامکان اپنی کوشش بھر انسان کواسکی ہوس اور شیطان کے خونخوار پنجوں سے

بچانے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ جب ضمیر بھی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پھر انسانی وجود کے اندر اسکے خواہشات کا مقابلہ کرنے والا آخری قلعہ بھی منہدم ہوجاتا ہے اور یہی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے جسکے بعد انسان دائمی دردسر اور تشنج کا شکار ہوجاتا ہے ۔

جب خواہشات ہر اعتبار سے فتح یاب ہوجاتے ہیں اور انسان کے اوپر ان کی سلطنت کا نفوذ ہوجاتا ہے اور وہ پورے طورپر ان کے دائرہ اختیار کے اندرآجاتا ہے ۔۔۔تب بھی اسے اپنے خیالات کے برخلاف اس اندرونی خلفشاراور خانہ جنگی سے نجات نہیں مل پاتی بلکہ نفس کے اندرہی خود ان خواہشات کے درمیان ایک اور خانہ جنگی اور خلفشار شروع ہوجاتا ہے بلکہ اس بار اسکا انداز اورزیادہ خطرناک اور سخت ہوتا ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں مختلف قسم کے خواہشات نفس (اور ہوس)کے درمیان تذبذب کاشکاررہتاہے لہٰذا اسکا خلفشار پہلے مرحلہ کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوجاتا ہے اور اگر اسکی دردسر ی اورذہنی پریشانی گذشتہ مرحلہ سے زیادہ نہ ہو تو بہر حال اس سے کم ہرگز نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مرحلہ کی طرح اسکے معاملات بالکل متفرق اوردرہم برہم ہوجاتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان یہ فرق ضرورہوتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں انسان کی مشکلات کے دوران اسکی عقل اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو ہواتھا لیکن اس مرحلہ میں خوداسکی خواہشات اور ہوس کے درمیان ٹکرائورہتا ہے کیونکہ اسکی ہر خواہش (ہوس)دوسری خواہشات کے مقابلہ میںآگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اسی لئے ان کے درمیان یہ جنگ جاری رہتی ہے ۔

اس سلسلہ میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

۱۵۳

۱۔جب کبھی انسان جذبۂ انتقام اورغصہ یا محبت دنیا اور عہدہ کی محبت کے درمیان تذبذب کا شکار ہوتا ہے تو حکومت ،عہدہ اور پوسٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ نرم رویہ سے پیش آئے مگر جذبۂ انتقام یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقابلہ میں آنے والے ہردشمن کا قلع قمع کردے ۔۔۔اور ہمیں بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ نرمی اور مدارات ،حلم کی قسم نہیں ہے (جو عقل کے لشکروں میں سے ہے)بلکہ یہ درحقیقت ایک ہوس کودوسری ہوس پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے ۔

۲۔کبھی عہدہ یا حکومت کی لالچ اور سماجی مقام یاعظمت ووقار جیسے دو جذبات اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ انسان کی سماجی عزت ووقار اس سے کچھ خاص اقدار وآداب کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے خواہشات ان سے کنارہ کشی کے خواہاں ہوتے ہیں جیسے جنسی خواہش،لہٰذا ان سیاسی یا سماجی عہدوں اور کرسیوں تک پہونچنے کے لئے اپنے جنسیات پر کنٹرول کرنا، یہ کسی عفت کی بنا پر نہیں ہے ۔بلکہ یہ ایک خواہش(ہوس) کو دوسری ہوس پر ترجیح دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جنسی ہوس دوسرے خواہشات (عہدہ کی لالچ)پر غالب آجاتی ہے جسکے نتیجہ میں ارباب حکومت کے یہاںبھی جنسی اسکینڈل رونما ہوجاتے ہیں اور انہیں بد نام کرکے رکھ دیتے ہیں ۔

۳۔کبھی انسان کسی عہدے کی محبت اوراپنی جان کے خوف کا نوالہ بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ عہدہ کی تمنا اس سے دوسروں پر حملہ کرنے انہیں قتل وغارت کرنے اور خطرات میں کو د پڑنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن جان کا خطرہ اس کو حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر اکساتا ہے ۔

۱۵۴

دومختلف قسم کی خواہشات کی بناء پر انسانی نفس کے اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی یہ تین مثالیں آپکے سامنے حاضرہیںان کے علاوہ بھی مختلف خواہشات کے درمیان نہ جانے ایسے کتنے حادثات ہر روز رو نما ہوتے رہتے ہیں جوانسانی زندگی کے لئے ایک عام بات ہیں اور اس میں متعدد خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے ٹکراکر اسے اپنی سمت کھینچنا چاہتے ہیں اور انسان خوف اور لالچ ، حب جاہ ،بخل وحسد ،جنسیات اور غصہ و انتقام نیز حب مال جیسے خواہشات کے کھنچائو کی بناپر،تتر بتر ہو کر رہ جاتا ہے جسکے بعد وہ اپنے ذہنی بوجھ اور مشکلات کے دلدل میں اور زیادہ دردسری کاشکار ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّما یریدﷲ لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیاوتزهق أنفسهم وهم کافرون ) ( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے ''

یہی معاملات کادرہم برہم ہوناہے جس کی طرف حدیث قدسی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

ہوس کے عذاب

جب انسان اپنی ہوس کا شکار ہو جاتا ہے تو اسکے خواہشات کا ٹکرائو بھی اسکے لئے وبال جان بن جاتا ہے جبکہ اس کے پنجوں میں پھنسے کے بعد انسان جس دوسرے دردسر اور زحمت میں مبتلا ہو تا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ عذاب خود اس ہوس سے مربوط ہوتا ہے لہٰذا انسان کی ہوس اور خواہش جیسی ہوگی اسکا ویسا ہی عذاب اور دردسر سامنے آئے گاجیسے حرص ،لالچ اورحسد جیسے خواہشات اگر ہمارے نفس کے اندر جگہ بنالیں تو ان کی خواہش ہمیں ایک الگ مصیبت میں مبتلا کردے گی اوریہ طے شدہ بات ہے کہ جو شخص اپنے معاملات کو ان خواہشات کے حوالے کردیگا وہ ان مصائب سے نجات نہیں پاسکتا ہے ۔

خواہشات کے چنگل میں رہ کر انسان جس عذاب اور وبال جان میں مبتلا ہوتا ہے اسکی طرف اس روایت میں اشارہ موجود ہے جسے شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الارشاد(۲) میں امیرالمو منین سے نقل کیا ہے :

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۲)ارشاد مفیدص ۱۵۹ ۔

۱۵۵

(ماأعجب أمرالانسان،ان سنح له الرجاء أذلّه الطمع،وان هاج به الطمع هلکه الحرص،وان ملکه الیأس قتله الأسف،وان سعد نسی التحفظ،وان ناله خوف حیّره الحذر،وان اتسع له الامن أسلمته الغرّة''الغفلة''وان أصابته ۔۔۔)

''اس انسان کے معاملات کتنے تعجب آور ہیں کہ اگر اسے امید کی کرن نظر آنے لگے تو طمع اسکو ذلیل کر دیتی ہے اور اگر اسکی لا لچ بھڑک اٹھے توحرص اسے ہلاک کر ڈا لتی ہے اور اگر اس پر نا امیدی کا غلبہ ہوجائے تو افسوس اسے قتل کردیتا ہے اور اگر وہ کامیاب اورخوشحال ہوجائے تو پھر (دین کی)پابندی کو بھول جاتا ہے ،اگر اسے خوف لاحق ہوجائے تو دہشت متحیر وسرگردان کردیتی ہے اور اگر ہر طرف امن وسکو ن رہے تو غفلت (دھوکہ)میں گرفتارہوجاتاہے اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو بے صبری اور آہ وفریاد ذلیل کردیتی ہے اگر کہیں سے مال مل جائے تودولت اسے باغی بنادیتی ہے اگر وہ فاقہ کے چنگل میں پھنس جائے توبلائیں اسکے شامل حال ہوجاتی ہیں اور اگر بھوک لاغر بنادے تو کمزوری نڈھال کردیتی ہے اور اگر کھانے پینے میں افراط کر بیٹھے تو پرخوری سے اس کا سانس رک جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ اسکے لئے ہر تقصیر مضر ہے اور ہر زیادہ روی (افراط)مفسد ہے اور اس (افراط)کے بعد ہر خیر شر بن جاتا ہے اور ہر شر اسکے لئے ایک آفت ہے ''

مختصر یہ کہ دنیا کے بارے میں پرامیدہونا ہر انسان کو طمع کی ذلت کے حوالہ کردیتا ہے اور طمع (لالچ)ہلاکتوں کے سپردکردیتی ہے کسی چیز سے مایوسی کے بعد وہ کف افسوس ہی ملتا رہتا ہے اور کوئی خوف پیدا ہوجائے تو وہ دہشت کے منھ میں جھونک دیتا ہے اس طرح ہرخواہش اور ہوس ایک نئی خواہش اور ہوس کے حوالے کردیتی ہے اور آخر کار وہ ہلاکت کے منھ میں پہونچ جاتا ہے ۔

۱۵۶

دنیا اپنے خواہشمند کے لئے ایک وبال جان

انسان کے دنیا وی عذاب کا پہلا رخ اور پہلا مرحلہ تو اسکے خواہشات (ہوس)ہیں مگر دوسری منزل میں خود یہ دنیا اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا خواہشات (ہوس) کا کھلا میدان،ان کی آخری منزل، انکے حصول کا سرچشمہ،ان کی آماجگاہ اور انکو ابھارنے اور ان کی پرورش کی جگہ ہے

لہٰذا جب خداوند عالم کسی انسان کو خواہشات نفس کی پیروی کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرتا ہے تواس پر یہ عذاب لا محالہ، طلب دنیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے کیونکہ انسانی ہوس اور دنیا طلبی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے اور اسلامی افکار کے اہم مسائل کا حصہ ہے جس کی ہم یہاںوضاحت کر رہے ہیں ۔

اگر کوئی انسان اپنے ضروریات زندگی اور ضروریات دین اور تکامل کے لئے دنیا حاصل کرے تو اس حصول دنیا اور حتی دنیا میںکوئی چیزشر اور عذاب نہیں ہے جس کی تصدیق اسلام میں موجود ہے کیونکہ اسلام کا یہ کہنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز شر نہیں ہے بلکہ سب خیر ہی خیر ہے اسی لئے اس نے دنیا حاصل کرنے اور رزق تلاش کرنے کے لئے دوڑدھوپ کرنے کو شریعت کا جزء قرار دیا ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دنیا اولیاء خدا کا میدان تجارت (منڈی)اور اسکے محبین کی مسجد ہے :

(متجرأولیاء ﷲ،ومسجدأحبّاء ﷲ )( ۱ )

''(دنیا)اللہ کے اولیاء کا میدان تجار ت اور اسکے محبین کی مسجد ہے''

لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا شر اور عذاب ہو

اس دنیا میں محنت ومشقت کرنا اور رزق تلاش کرنا شریعت اسلامیہ کاجزہے جس کی تائید کے لئے قرآن مجید کی اس آیت میں مہر تصدیق ثبت ہے :

(فاذاقضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل ﷲ )( ۲ )

''جب نماز تمام ہوجائے تو روئے زمین پر پھیل جائو اور فضل الٰہی تلاش کرو ''

لہٰذاجب یہ سب خیر ہے تو شر اور عذاب کا وجود کہاں رہے گا؟

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۱۳۱۔

(۲)سورئہ جمعہ آیت ۱۰۔

۱۵۷

لہٰذا جب تک یہ دنیا خداوند عالم تک پہونچنے کا ذریعہ اور اسکی مرضی حاصل کرنے کاوسیلہ ہو اور اس سے بڑھ کر خودخدا تک جانے کا ارادہ ہو تو یہ پوری دنیا اور اس میں ہونے والی ہر کوشش خیر ہی خیر ہے۔۔۔

لیکن اگر انسان کی محنت و مشقت اوراسکی حرکت کا رخ خداوند عالم اور اسکی مرضی حاصل کرنے کے بجائے دنیا کی طرف مڑجائے تو یہ اسلام کی نظر میں ناقابل برداشت بات ہے ۔اور اسے اس نے شر قرار دیا ہے اور اسی کو خداوند عالم انسان کے لئے عذاب دنیا بنا دیتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ دنیا انسان کی نظر میں خدا تک پہونچنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہونے کے بجائے خودایک مستقل مقصد میں تبدیل ہوجائے تو پھر انسان اپنی گمراہی کی وجہ سے خدا کی طرف جانے کے بجائے دنیا کی طرف چل دیتا ہے اور اسکی نظر یںذات خدا کے بجائے دنیا کی رنگینیوں پر ٹکی رہتی ہیں اور جب وہ دنیا میں گھرارہ جائے تو اسکا ہر عمل باطل اور محنت بیکارنیز اسکی ترقی اور تکامل معطل ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تنزلی ،لغزش اور خسارہ کا شکار ہوجاتا ہے ۔

بلکہ کبھی کبھی انسان خداوند عالم سے منحرف ہوکر اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خداوندعالم سے جنگ کی ٹھان لیتا ہے اور کھلم کھلا خدا ورسول کی دشمنی کا اعلان کرتا ہے ۔

بہر حال چاہے جو کچھ بھی ہواگر یہ دنیا انسان کے لئے خدا تک پہونچنے کا وسیلہ ہونے کے بجائے منزل مقصود میں تبدیل ہوجا ئے اور انسان کی کل دوڑدھوپ دنیا طلبی تک محدودرہے تو پھر یہی دنیاانسان کیلئے دردسر اور عذاب جان بن جاتی ہے ۔

جودنیا، انسان کی خواہشمند ہوتی ہے اور جس دنیا کا خواہشمند انسان ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان یہی فرق ہے کہ انسان کی خواہشمند دنیا اسے خدا تک پہونچاتی ہے لیکن جب انسان دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے تو یہی دنیاخدا تک پہونچنے کا راستہ ہونے کے بجائے اس کے لئے سنگ راہ بن کر عذاب اور وبال جان بن جاتی ہے ۔

۱۵۸

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے :

(لما خلق ﷲ الدنیا أمرها بطاعة ربّها،فقال لها خالفی مَنْطلبکِ ووافقی من خالفک،فهی علیٰ ماعهد الیها ﷲ وطبعهاعلیه )( ۱ )

''جب خداوند عالم نے دنیا کو خلق فرمایا تو اس سے ارشاد فرمایا کہ جو تجھے طلب کرے (تیرا خواہشمند ہو )اسکی مخالفت کرنا اور جو تیرامخالف ہو اسکی موافقت کرنا لہٰذایہ دنیا خداوند عالم سے کئے ہوئے عہد کے مطابق اپنی طبیعت پر باقی ہے ''

روایت میں بطور کنایہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص فکر دنیا میں پڑجائے اور اسی کو اپنا سب کچھ سرمایہ اور مقصد قرار دیدے توخداوند عالم اسی دنیا کو اسکے لئے عذاب بنا دیتا ہے اور جو شخص دنیا سے دل نہ لگائے اور اسکی مخالفت کرتا رہے تو پروردگار اسکے لئے دنیا کو چین اور سکون میں بدل دیتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(أوحیٰ ﷲالیٰ الدنیا:اخدمی من خدمنی،وا تعبی من خدمک )( ۲ )

''ﷲ تعالی نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی جو میری خدمت کرے اسکی خدمت گذار بننا اور جو تیری خدمت کرے اسکے لئے عذاب بن جانا''

اس روایت میں بھی گذشتہ روایت کی طرح یہ کنایہ موجود ہے کہ اگر انسان کا مقصد خداوندعالم کو خوش کرنا ہو،تو یہ دنیا اسکی خدمت کے لئے خلق کی گئی ہے لیکن جب اسکا مقصد خدا کے بجائے دنیا ہوجائے تو پھر اسکے لئے دنیا کی خدمت کرنا ضروری ہے اور دنیا کی خدمت کرنا کسی عذاب

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۵۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ص۲۰۳۔

۱۵۹

اور درد سر سے کم نہیں ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہی یہ بھی روایت ہے :

(ان ﷲ جل جلاله أوحیٰ(الیٰ)الدنیا أن اتعبی منخد مک واخدمی من رفضکِ )( ۱ )

''خداوند عالم نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی کہ جو تیری خدمت کرے اسے عذاب میں مبتلا کردینا اور جو تجھے چھوڑدے اسکی خدمت کرنا''

اس روایت کا بھی انداز اور لہجہ بعینہ وہی ہے بلکہ اگر کوئی روایات کے اندازبیان سے واقف ہوتو اسے بخوبی محسوس ہوگا کہ اس روایت میں گذشتہ روایات کے بالمقابل کچھ زیادہ صراحت موجود ہے ۔

حضرت علی سے مروی ہے :

(من خدم الدنیا استخدَ متْه ومن خدم ﷲخد مه )( ۲ )

'' جو شخص دنیا کی خدمت کریگا وہ اسے اپنا نو کر بنائے رکھے گی اور جو شخص خداوند عالم کی خدمت(اطاعت)کریگا تو خداوند عالم دنیا کواس کا خدمت گذار بنادیگا''

ﷲ تعالی نے جناب موسیٰ کی طرف یہ وحی فرمائی :

(ما من خلقی أحد عظّمها(۳)فقرّت عینه ،ولم یحقّرها أحد الا انتفع بها )( ۴ )

''یعنی میری مخلوقات کے درمیان کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے دنیا کو بڑا سمجھا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۱۔

(۲)غرر الحکم ج۲ ص۲۳۷۔

(۳)یعنی دنیا۔

(۴)بحارالانوارج۷۳ص۱۲۱۔

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349