خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134541 / ڈاؤنلوڈ: 3990
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

جنم لیتی ہیں مثلاًاگر آنکھیں شہوت کا ایک دروزہ اور کان دوسرا دروازہ ہے تومعدہ ( پیٹ ) شہوت کی پیدا ئش کاپہلامرکز اور شرم گاہ دوسرا مرکزہے ۔

لہٰذا جب انسان کے اندر شرم وحیاء پیدا ہوجاتی ہے تو پھر ذہن ودماغ کے برے خیالات (سر کے وسوسے )اور پیٹ کی شہوت کے سارے راستے خود بخود بندہوجاتے ہیں اور انسان ان کے شر سے محفوظ ہوجاتا ہے ۔

آپ ہی سے مروی ہے :

(مِن أفضل الورع أن لاتبدی فی خلواتک ما تستحی من اظهاره فی علانیتک )( ۱ )

''سب سے بڑا ورع اور پارسائی یہ ہے کہ جس کام کو تم کھلم کھلا کرنے سے شرماتے ہو اسے تنہائی میں بھی انجام نہ دو''

بارگاہ خدا میں قلت حیا کی شکایت

متعدد دعائوں میں یہ ملتا ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں اس سے حیاکی قلت کی شکایت کرتا ہے جو ایک بہت ہی لطیف اور عجیب بات ہے کہ انسان خداوند عالم کی بارگاہ میں یہ شکایت کرے کہ اسکے اندر خود ذات پروردگار سے شرم وحیاء کی قلت پائی جاتی ہے جس میں خدا قاضی ہے کیونکہ اسکا فیصلہ اسی کے اوپر چھوڑدیاگیا ہے شکایت کرنے والا خود انسان (انا،میں )ہے اور جس کے خلاف شکایت کی گئی ہے وہ نفس ہے اور شکایت (مقدمہ) کا خلاصہ یہ ہے کہ یہ نفس اس خدا کے سامنے بے حیائی پر اتر آیا ہے جو خود اس مقدمہ میں قاضی ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گویا انسان خدا کی بارگاہ میں اپنے نفس کی یہ شکایت کررہا ہے کہ وہ خود خدا سے حیاء نہیں کرتا ہے بطورنمونہ دعائے

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۲۵۳۔

۱۴۱

ابوحمزہثمالی(رح) کے یہ جملات ملاحظہ فرمائیں:

(أنا یاربّ الذی لم أستحیک فی الخلائ،ولم اُراقبک فی الملأ،أناصاحب الدواهی العظمیٰ،أناالذی علیٰ سیده اجتریٰاناالذی سترت علیّ فمااستحییت،وعملت بالمعاصی فتعدّیت،واسقطتنی من عینیک فما بالیت )( ۱ )

''پروردگارا !میں وہی ہوں جس نے تنہائی میں تجھ سے حیا نہیں کی اور مجمع میں تیرا خیال نہیںکیا میرے مصائب عظیم ہیں میں نے اپنے مولا کی شان میں گستاخی کی ہے ۔۔۔میں وہی ہوں ۔۔۔ جس کی تونے پردہ پوشی کی تو میں نے حیا نہیں کی، گناہ کئے ہیں تو بڑھتا ہی چلا گیا اور تو نے نظروں سے گرا دیا تو کوئی پروا نہیں کی ''

امام زین العابدین کی مناجات شاکین(شکایت اور فریاد کرنے والوں کی مناجات ) میں بھی خداوند عالم کی بارگاہ میں اپنے نفس اور گناہوں سے پرہیز نہ کرنے کی شکایت ان الفاظ میں کی گئی ہے:

(الٰهی أشکوالیک نفساًبالسوء أمّارة،والیٰ الخطیئة مبادرة، وبمعا صیک مولعة،ولسختک متعرّضة )( ۲ )

''خدایا میں تجھ سے اس نفس کی شکایت کر رہا ہوں جو برائیوں کا حکم دیتا ہے اور خطائوں کی طرف تیزی سے دوڑ تا ہے اور تیری معصیتوں پر حریص ہے اور تیری ناراضگی کی منزل میں ہے ''۔

____________________

(۱)دعا ئے ابو حمزہ ثمالی۔

(۲)مفاتیح الجنان: مناجات الشاکین ۔

۱۴۲

دوسری فصل

جو شخص اپنی ہویٰ وہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیتا ہے۔

۱۔ہوی وہوس کے معنی

۲۔اسکے خصائل اور صفات

۳۔اسکا طریقہ ٔ علاج

حدیث شریف کے پہلے فقرے کی وضاحت کے بعد اب ہم آپ کے سامنے اس حدیث کے دوسرے اور تیسرے جملے ''جو شخص خداوند عالم کی مرضی پر اپنی خواہش اور ہوس کو مقدم کرتا ہے'' اور اسکے برخلاف ''جو انسان مرضی خدا کو اپنی مرضی اوراپنی خوشی پرفوقیت اور ترجیح دیتا ہے '' کی وضاحت پیش کر رہے ہیں۔

جو شخص اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر فوقیت دیتا ہے۔ اس (دوسرے)جملہ کی وضاحت متعلقہ حدیث قدسی میں کچھ اس طرح کی گئی ہے۔

عن رسول ﷲ یقو ل ﷲ تعالیٰ :

(وعزّتی وجلا لی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعلوّی،وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هواه علیٰ هوای لّا شتّت أمره،ولبّست علیه دنیاه،وشغلت قلبه بها،ولم اُوته منها لاماقدّرت له)(۱)

____________________

(ا)عدةالداعی ص۷۹۔اصول کافی ج۲ص۲۳۵۔ان دونوںسے علامہ مجلسی (رح)نے بحارالانوار ج۷۰ص۷۸حدیث۱۴ اور ج۷۰ص۸۵نیزص۸۶پر اس حدیث کو نقل کیاہے۔اس سے پہلے بھی ہم نے کتاب کے مقدمہ میں اس حدیث کے بعض حوالے نقل کئے ہیں۔

۱۴۳

''میری عزت وجلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم ،کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے معاملات کودرہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا اور اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے''

حدیث قدسی کے اس فقرہ میں تین اہم نکات پائے جاتے ہیں:

۱۔جو لوگ اپنی خواہش کو مرضی خدا پر ترجیح دینگے انہیں خداوند عالم تین قسم کی سزائیں دیگا:

الف۔ان کے معاملات مشتبہ اوردرہم برہم ہوجائیں گے۔

ب۔ دنیاان کی نگاہ میں آراستہ ہوجائے گی۔

ج۔ان کادل، دنیا کا دیوانہ ہوکر رہ جائے گا۔

۲۔مذکورہ سزائوںکے تذکرہ سے پہلے اس حدیث شریف میں متعدد طرح کی عظیم قسمیں کھائی گئی ہیں(جیسے میری عزت،جلالت،عظمت،کبریائی، نوراور میرے مقام و منزلت کی رفعت کی قسم) جن سے اُس بات کی اہمیت کابخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے جسکا تذکرہ ان کے بعد کیا گیا ہے۔

۳۔حدیث شریف میں جس طرز کلام کا انتخاب کیا گیا ہے اس سے دائرہ کلام بالکل محصور اور محدودہوجاتا ہے کیونکہ پہلے جملہ یعنی (لایؤثرعبدھواہ۔۔۔الاشتت أمرہ) میں نفی اور دوسرے جملہ(الاشتت أمرہ) میں اثبات کا لہجہ موجود ہے لہٰذا اس حصر کے معنی یہ ہیں کہ جب کبھی بھی انسان اپنی ہوس کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دیگا تو وہ کسی بھی طرح خداوند عالم کی ان سزائوں سے نہیں بچ سکتا ہے اب آپ حدیث قدسی میں مذکور، ان تینوں سزائوں کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

۱۔اسکے امور کو درہم برہم کردوںگا

جو لوگ خوداپنی مرضی کے مطابق چلتے ہیں اور خداوند عالم کی مرضی کاکوئی خیال نہیں کرتے ہیں ان کو خداوند عالم سب سے پہلی سزا یہ دیتا ہے کہ ان کے معاملات درہم برہم کردیتا ہے اور ان کے ہر کام میں بے ثباتی ،تزلزل اور بے ترتیبی آجاتی ہے کیونکہ وہ ان سے طریقۂ کار، راہ وروش، مقصد اور وسیلہ کی یکسانیت اور یکسوئی کو سلب کرلیتا ہے۔جسکے نتیجہ میں وہ ہوا میں کٹی پتنگ یا کسی تنکے کی طرح ہر طر ف اڑتے رہتے ہیں اور ہوا کا ہر جھونکا انکو ایک نئی سمت کی طرف ڈھکیل دیتا ہے۔کیونکہ لوگ عام طور سے دو طرح کے ہوتے ہیں:

۱۴۴

۱۔منظم اور ٹھوس شخصیت کے مالک۔

۲۔بے نظم اوربے ترتیب

ٹھوس شخصیت

ٹھوس اور مستحکم شخصیت ایسی شخصیتوں کو کہا جاتا ہے جو کسی ایک حاکم کے ماتحت رہتی ہیں جب کہ متزلزل ،مضطرب اور بد حواس قسم کے افراد متعدد اسباب وعوامل کے آلۂ کار بنے رہتے ہیں۔

چنانچہ پہلے طریقۂ کار کو توحیدی طریقہ اور دوسرے طریقہ کوشرک کا نتیجہ کہا جاتاہے کیونکہ جو شخص توحید الٰہی کا نمونہ ہوتا ہے۔وہ ہر اعتبار سے خداوند عالم کے ارادہ ،حکمت اور اسکے احکام کا تابع ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے اسی کی مشیت اور مرضی کے سامنے سرتسلیم خم کئے رہتا ہے۔

اسی طرح ہرخوشی اور مصیبت میں وہ حکم الٰہی کا پابند رہتا ہے اور خداوند عالم کی خو شنودی ہی اسکا اصل مقصد ہے اور اسکے علاوہ اسے کسی دوسری چیز کی خواہش نہیں ہوتی اور وہ ہرطرح سے اس کے فرمان کے سامنے سر تسلیم خم کئے رہتا ہے اوراسکی نظر صرف اپنے اس پاک مقصد پر مرکوز رہتی ہے اور وہ اسکی طرف رواں دواں رہتا ہے ۔اور کیونکہ احکام الٰہی کا نظام صرف ایک ہی مرکز سے متصل ہے اور اس میں مکمل طور سے یکسانیت پائی جاتی ہے لہٰذا اس پر عمل کر نے کے بعد ہر انسان کی شخصیت مقدس ہو جا تی ہے اور اس میں یکسوئی پیدا ہو جا تی ہے یعنی کبھی مختلف قسم کی سیاسی یا سما جی ردو بدل اور اتھل پتھل کی وجہ سے جنگ اور لڑائی کی نوبت آجاتی ہے جسکی بناپرانہیں اسلحہ اٹھا نا پڑ تاہے ۔اور کبھی صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ اسلحہ کو زمین پر رکھنا پڑتا ہے مگرحالات کے اس پورے اتار چڑھائو کے باوجود انسان کی شخصیت کے اندر کسی طرح کا اختلاف یا ردو بدل پیدا نہیں ہوتی اور اسکی شخصیت کی یکسا نیت اور توحید کے سرچشمہ سے پیدا ہو نے والی ترتیب ویگانگت پر کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور اسی کو (توحید عملی ) کہا جاتا ہے جو توحید نظری کے مقابلہ میں بولی جاتی ہے کیونکہ یہ صورت حال دراصل انسان کی زندگی میں توحید نظری کے پر توکاہی نتیجہ ہے ۔

۱۴۵

توحید عملی کی اس منزل پر پہنچنے کے بعد انسان اپنے نفس کے اندر اور باہر موجودتمام حاکمو ں جیسے ہوی وہو س اور طاغوت وغیرہ کی ماتحتی سے خارج ہو جاتا ہے اور احکام الٰہی کے دائر ہ حکومت میں داخل ہوجاتا ہے اس طرح تنہا حکم الٰہی ہی اسکے ہر عمل کا حاکم ومختار ہوتا ہے اور اسکی رفتار وگفتار اور کردار وعمل میں ہر جگہ توحید ی رنگ نظر آتا ہے اور وہ پیغمبرصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی اس حدیث شریف کا مصداق بن جاتا ہے :

(لایؤمن أحدکم حتیٰ یکون هواه تبعاً لما جئت به )( ۱ )

''تم میں سے کو ئی شخص بھی اس وقت تک مو من نہیں ہو سکتا جب تک اس کی ہر خو ا ہش اس دین کی تا بع نہ بن جا ئے جو میں لیکر آیا ہوں ''

جبکہ شر ک کی صورتحال اس کے برخلاف ہو تی ہے کیونکہ شرک آجا نے کے بعد انسان سوفیصد خدا وند عالم کے احکام کا پا بند نہیں رہتا بلکہ وہ خدا کے ساتھ ساتھ خوا ہش نفس اور طاغوت وغیرہ کی پیروی بھی شروع کر دیتا ہے اور جب انسان تو حید کے قلعہ کی چار دیواری سے با ہر نکل جاتا ہے توپھر ہوس اور طا غوت اس کے سر پر سوار ہو جا تے ہیں اس کی بنیا دوںکو ہلا کر رکھ دیتے ہیں اور گویااسے با لکل تباہ و بر باد کر ڈالتے ہیں اس با رے میں قرآنی تعبیرات ملاحظہ فر ما ئیے :

( ﷲ ولی الذین آمنوا والذین کفرواأولیاؤهم الطاغوت) (۲)

____________________

(۱)جا مع الکبیرطبری ۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۲۵۷۔

۱۴۶

''ﷲ صاحبان ایمان کا سرپرست ہے ۔۔۔اور جو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں''

جسکا مطلب یہ ہے کہ جو لوگ مومن ہیں ان کا صرف ایک ولی وسرپرست ہے ایک ذریعہ اور ایک ہی سرچشمہ ہے اور صرف اسی سے ان کو نسبت ہے لیکن مشرکین مختلف لیڈروں اور حاکموں کے آلہ کار اور تابع ہوتے ہیں انہیںجو ذریعہ اور وسیلہ بھی نظر آجاتا ہے وہ اسی کے پیچھے لگ لیتے ہیں اسی لئے ان کے واسطے جمع کا صیغہ استعمال کیاگیا ہے :

( والذین کفروا أولیاؤهم الطاغوت )

''اورجو لوگ کافر ہیں ان کے سرپرست طاغوت ہیں ''(اس میں لفظ اولیاء جمع ہے )

یہاں تک یہ بالکل واضح ہوگیا کہ جو شخص ،ٹھوس شخصیت کا مالک ہوتا ہے اس پر صرف شرعی قانون کی حکومت چلتی ہے اور وہ مرضی خدا کا پابند ہوتا ہے ایسے افراد کسی غوروفکر ،شرم وحیا اور خوف وہراس کے بغیر اپنی شرعی ذمہ داریوںپر عمل کرتے ہیں کیونکہ یہ خوف وہراس ،شرمندگی اور اضطرابی حالت انسان کی اندرونی کشمکش اور تذبذب کی دلیل ہے جو نفس کے اندرونی یا بیرونی اسباب کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے لہٰذا جب انسان کسی ایک طاقت کا پابنداور پیرو ہوتا ہے اور اسکی نظر ہمیشہ ایک ہی مرکز پر رہتی ہے تو اس پر ان چیزوں کا اثرنہیں پڑتا ہے ۔

ایسے افراد کی پہچان یہ ہے کہ وہ ثقہ، قابل اطمینان، ثابت قدم ،ٹھوس رائے ،پاکیزہ نفس صاف وشفاف ضمیر کے مالک ،شجاع اورتنہائی یا چاہنے والوں اور مددگاروں کی قلت اور دشمنوں کی کثرت کے باوجود اپنے موقف پر اٹل رہتے ہیں ۔امیر المومنین نے فرمایا ہے :

(لایزیدنی کثرة الناس عزّة،ولاتفرُّقهم عنی وحشة )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب۳۶۔

۱۴۷

''لوگوں کی کثرت سے نہ میری عزت اوراستحکام میں اضافہ ہوتا ہے اور نہ ان کے متفرق ہوجانے سے مجھے کوئی وحشت ہوتی ہے ''دوسرے یہ کہ ان لوگوں کے ان خصائل اور صفات پر وقتی سکون واطمینان ،زحمت ومشکلات رزم وبزم ،فتح ونصرت یا ناکامی اورشکست کا کوئی اثر نہیں پڑتا ہے اور وہ پرچم توحید کے سایہ میں سدا بہار رہتے ہیں ۔

عماربن یاسر

خداوند عالم جناب عمار یاسر پر رحمتیں نازل فرمائے وہ ایک مثالی ،ٹھوس اور عظیم شخصیت کے مالک تھے ۔جنگ صفین میں آپ نے حضرت علی کی رکاب میں اس وقت معاویہ سے جنگ کی تھی جب آپ کی عمر ،نوے برس سے زیادہ تھی آپ نڈر،بہادر،ثابت قدم، جنگ کے شعلوں میں کودجانے والے اورامام کے ایسے جانثار ساتھی تھے جن کے دل میں حضرت علی کی حقانیت اور معاویہ کے ناحق اور باطل ہونے کے بارے میں ایک لمحہ کے لئے بھی شک پیدا نہیں ہوا۔

یہی وجہ ہے کہ صفین کی جنگ کے دوران ہی حضرت علی کے سامنے آپ نے پروردگار عالم سے یہ دعا کی:

(اللّٰهم انکتعلم أنی لوأعلم أن رضاک فی أن اقذف بنفسی فی هذاالبحرلفعلت،اللّٰهم انک تعلم أنی لوأعلم انّ رضاک أن أضع ضُبّةسیفی فی بطنی ثم أنحنی علیها حتیٰ یخرج من ظهری لفعلت،اللّٰهم وانی أعلم مماعلّمتنی أنی لاأعمل الیوم عملاًهو أرضیلک من جهاد هؤلاء الفاسقین،ولوأعلم الیوم عملاً أرضیٰلک منه لفعلت )( ۱ )

____________________

(۱)صفین:نصربن مزاحم ۳۱۹۔۳۲۰تحقیق ڈاکٹر عبدالسلام ہارون۔

۱۴۸

''بارالٰہاتوجانتاہے کہ اگر مجھے یہ معلوم ہوجائے کہ اس سمندر میں کودجانے میں تیری خوشنودی ہے تو میں یقینا کودجائوں گا۔بارالٰہا تو جانتا ہے کہ اگر مجھے معلوم ہوجائے کہ تیری خوشی اس میں ہے کہ میں اپنی تلوار اپنے پیٹ پر رکھکر اس کے اوپر اتنا جھک جائوں کہ وہ میری کمر کے پار نکل جائے تو میں یہ کرنے کے لئے تیار ہوں ۔۔۔بارالٰہا تونے مجھے جو علم دیا ہے اسکی بنا پر مجھے معلوم ہے کہ آج تجھے ان فاسقین سے جہاد کرنے سے زیادہ میرا کوئی عمل پسند نہیں ہے (لہٰذا میں ان سے جہاد کررہا ہوں)اور اگر مجھے اس سے زیادہ تیراپسندیدہ عمل معلوم ہوجائے تو میں اسکو ضرورانجام دونگا''

اسماء بن حکم فزاری کا بیان ہے کہ ہم صفین کے میدان میں حضرت علی کے لشکر میں جناب

عمار یاسر کی سپہ سالاری میں دو پہر کے وقت سرخ چادر کے سائے میں بیٹھے ہوئے تھے ۔اس وقت ایک شخص(جو سب کے چہرے غورسے دیکھ رہاتھا)آیا اور اس نے کہا کیا تمہارے درمیان عمار یاسر ہیں ؟

جناب عمار نے کہا :میں عمار ہوں ۔

اس نے کہا! ابوالیقظان؟

جواب دیا :جی ہاں۔

پھر اس نے کہا :کہ مجھے آپ سے کچھ کام ہے ،فرمائیے یہیں سب کے سامنے عرض کروں یا تنہائی میں،جناب عمار بولے جو تم چاہو۔اس نے کہا ٹھیک ہے سب کے سامنے ہی عرض کئے دیتا ہوںجناب عمار نے کہا بتائو کیا کام ہے ؟

کہا! میں جب اپنے گھر سے نکلا تھا تو مجھے اپنی حقانیت اور اس قوم(لشکر معاویہ)کی گمراہی کے بارے میں کوئی شک و شبہہ نہیں تھااور مسلسل میری یہی کیفیت تھی مگر آج رات عجیب اتفاق ہوا کہ جب صبح ہوئی تو ہمارے مؤذن نے(اشهد أن لاالٰهَ الاﷲ وأن محمداًرسول ﷲ )کی صدا بلند کی اور ان کے موذن نے بھی اسی طرح اذان دی جب نماز شروع ہوئی تو ہم سب نے ایک ہی طرح نماز پڑھی ایک ہی طرح دعا کی،ایک ہی کتاب (قرآن مجید )کی تلاوت کی اور ہمارے رسولصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم بھی ایک ہیں، یہیں سے میرے دل میں کچھ شک پیدا ہوا ۔چنانچہ خداہی بہتر جانتا ہے کہ میں نے بقیہ وقت کیسے گذارا ہے، صبح ہوئی تو میں امیر المومنین کے پاس گیا اور ان کی خدمت میں پورا ماجرا بیان کردیا تو انھوں نے فرمایا :کیا تم عمار بن یاسر سے ملے ہو؟میں نے عرض کی نہیں، فرمایا جائو ان سے ملاقات کرو اور جو کچھ وہ کہیں اس پر عمل کرنا ۔

۱۴۹

لہٰذا اسی کام کے لئے میں آپ کی خدمت حاضر ہوا ہوں تو جناب عمار یاسر(رح) نے اس سے کہا: کیا تم ہمارے مقابلہ میں موجود اس سیاہ پرچم والے لشکر کے سپہ سالار کوجانتے ہو؟وہ عمروبن عاص ہے، رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے ساتھ رہ کر میں نے اس سے تین بارجنگ کی ہے اور آج اس سے یہ میری چوتھی جنگ ہے ۔اور یہ جنگ ان جنگوں سے کچھ بہتر نہیں ہے بلکہ بدتر ہی ہے بلکہ اس کا شروفساد ان سب سے زیادہ ہے ،کیا تم بدر واحد اور حنین میں تھے یا تمہارے والد ان میں موجود تھے کہ انھوں نے تم سے ان جنگوں کے کچھ حالات بتائے ہوں؟اس نے کہا نہیں آپ نے کہا کے بدرواحد وحنین کے دن ہم سب رسول ﷲکے پرچم تلے جمع تھے اور وہ لوگ، مشرکین کے جھنڈے کے نیچے اکٹھا تھے۔کیا تم اس لشکر اوراہل لشکرکو دیکھ رہے؟خدا کی قسم ! معاویہ کے ساتھ یہ جتنے لوگ حضرت علی کے مقابلہ میںہم سے لڑنے آئے ہیں ۔ یہ سب ایک تھیلی کے چٹے بٹے ہیں اور میرادل تویہ چاہتا ہے کہ ان سب کو ایک ساتھ ٹکڑے ٹکڑے کرڈالوں۔

خدا کی قسم ان سب کا خون ایک چڑیا کے خون سے زیادہ حلال ہے ۔کیا تم چڑیا کا خون بہانا حرام سمجھتے ہو؟اس نے کہا :نہیں بلکہ حلال ہے تو جناب عمار نے کہا بس سمجھ لو کہ ان کا خون بھی اسی طرح حلال ہے ۔کیا میری بات تمہارے لئے واضح ہوگئی؟اس نے کہا :جی ہاں آپ نے درست وضاحت فرمائی جناب عمار نے کہا: لہٰذا اب جسے چاہومنتخب کرسکتے ہوپھرجب وہ شخص واپس چلنے لگا تو جناب عمار نے اسے واپس بلایا اور اس سے یہ کہا کہ ان لوگوں نے ہم پر اپنی تلوارکا وارکیا تو تم میں سے بعض افراد شک وشبہ کا شکار ہوگئے اور یہ کہنے لگے کہ اگر یہ لوگ حق پر نہ ہوتے تو ہمارے خلاف جنگ کے لئے نہ نکلتے ،خدا کی قسم ان کے پاس مکھی کے ایک آنسوکے برابر بھی حق موجود نہیں ہے ۔

۱۵۰

ﷲ کی قسم اگر وہ ہم پر اپنی تلوار وں سے حملہ کریں یہاں تک کہ وہ ہمیںسعفات ہجر (ایک مقام کانام)تک پہونچادیں تب بھی مجھے یہی معلوم ہوگا کہ میں حق پر ہوں اور وہ باطل پر ہیں اور خدا کی قسم اس وقت تک امن وامان قائم نہیں ہوسکتا ہے جب تک فریقین میں سے کوئی ایک فریق اپنے حق ہونے کا منکر نہ ہواور وہ یہ گواہی نہ دے کہ اسکا مخالف فریق بر حق ہے ا ور ان کے مقتولین اور مردے جنّتی ہیں اور دنیا کے دن اس وقت تک پورے نہیں ہوسکتے جب تک وہ یہ اقرار نہ کرلیں کہ ان کے مردے اور مقتولین جہنمی اور زندہ رہنے والے اہل باطل ہیں۔( ۱ )

کھوکھلااوربے ہنگم انسان(شخصیت )

کھوکھلے اور بے ہنگم لوگوں کے نفس میں اندرونی کشمکش اور بیقراری کا آغاز سب سے پہلے عقل اور خواہشوں کی خانہ جنگی سے ہوتا ہے کیونکہ خواہشیں انسان کے نفس کو اسکی عقل کی ماتحتی اور کنٹرول سے باہر نکالنے کی در پے رہتی ہیں جس سے آدمی کا نفس دو متصادم دھڑوں میں تقسیم ہوجاتا ہے ۔

اس داخلی جنگ کے نتیجہ میں انسان کی مشکلات اور زحمتیں بہت زیادہ ہوجاتی ہیں کیونکہ انسان کے اوپراسکے ضمیر، فطرت اور عقل کی حکومت بہت مستحکم ہوتی ہے اور یہ اسباب اسکے اندر ہوس کے نفوذ(داخلے)کاسختی سے مقابلہ کرتے ہیں اور انکی مسلسل یہ کوشش رہتی ہے کہ وہ انسان کی شخصیت کوتقویت دیکراسے اسکی پہلی حالت اور فطرت کی طرف لوٹا دیں اس مرحلہ میں انسانی نفس کے اندر ایک خلفشار اور خانہ جنگی کی صورت حال رہتی ہے جسکی بنا پر اسے سخت زحمتوں اور مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے

جب انسا ن کی عقل اس کی رفتار وکردار کو کنڑول کرنے اور اسے استقامت عطا کرنے سے عاجز ہوجاتی ہے اور انسان کے لئے اسکے نفس کااندرونی خلفشار اور خانہ جنگی بھی ناقابل برداشت

____________________

(۱)صفین،نصربن مزاحم ص۳۲۲۳۲۱

۱۵۱

ہوجاتے ہیں تو پھر وہ اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرنے لگتا ہے جو ان مشکلات کا منفی اور غلط راہ حل ہے بلکہ اسکا صحیح راہ حل تویہ ہے کہ اپنی عقل وفطرت کو پھر سے زندہ کرکے اسے استحکام بخشے اور اسکے احکامات کے مطابق عمل کرے۔

لیکن اسکے بجائے صورتحال یہ ہوجاتی ہے کہ انسان خواہشات کی سلطنت کے سامنے سپر ڈال دیتا ہے اور ان مشکلات سے نجات پانے کے لئے اپنی فطرت سے فرار کی کوشش کرتا ہے ؟اور نشہ،جو ا،جرائم یا جنسیات کے دامن میں پناہ تلاش کرتا ہے ۔

مزید تعجب کی بات تویہ ہے کہ انسان اپنی ہوس سے اپنی ہوس ہی کی طرف فرار کرتا ہے اور ایک جرم سے دوسرے جرم کی طرف بھاگتا ہے ورنہ اگر وہ اپنی ہوس کے برخلاف قدم اٹھائے اور خواہش نفس اور ہوس سے خدا کی طرف آگے بڑھے توبآسانی ان سے نجات پاکرسکون حاصل کرسکتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے ان الفاظ میںمتوجہ کیا ہے :

(ففرّوا الیٰ ﷲ انی لکم منه نذیرمبین )( ۱ )

''لہٰذا اب خدا کی طرف دوڑپڑو کہ میں کھلا ہوا ڈرا نے والا ہوں''

لہٰذا جب تک انسان خداوند عالم کی پناہ حاصل نہ کرلے وہ اپنی ہوس کے سامنے لاچار اور مجبور ہی رہتا ہے اسی لئے وہ مشکلات اور زحمتوں نیز اپنی زندگی کے دردسر سے نجات پانے کے لئے نشے اور جنسیات کارخ کرتا ہے جنکے بارے میں قرآن کریم کی یہ تعبیر کتنی صحیح ہے کہ :

(نسوا ﷲ فأنساهم أنفسهم )( ۲ )

''انھوں نے خدا کو بھلاڈالاتو خدا نے خود ان کو بھی نظر انداز کردیا''

کیونکہ جو لوگ اپنی فطرت اور ضمیر سے فرار کرکے شراب یا جوئے وغیرہ کی طرف بھاگتے

____________________

(۱)سورئہ ذاریات آیت ۵۰۔

(۲)سورئہ حشر آیت ۱۹۔

۱۵۲

ہیں در اصل وہ اپنے کو بھلادینا چاہتے ہیں اور انسان کا یہ فرار ذکر(یاد)سے نسیان (بھول)کی طرف ہے جو خود فرار سے بدترہے ۔

بالآخرانسان کے نفس اور اسکی شخصیت کے اندر ہوی وہوس کا مقابلہ کرنے والی آخری طاقت کا نام ضمیر ہے جو حتی الامکان اپنی کوشش بھر انسان کواسکی ہوس اور شیطان کے خونخوار پنجوں سے

بچانے کی کوشش کرتا ہے چنانچہ جب ضمیر بھی خواہشات کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے تو پھر انسانی وجود کے اندر اسکے خواہشات کا مقابلہ کرنے والا آخری قلعہ بھی منہدم ہوجاتا ہے اور یہی اس جنگ کا پہلا مرحلہ ہے جسکے بعد انسان دائمی دردسر اور تشنج کا شکار ہوجاتا ہے ۔

جب خواہشات ہر اعتبار سے فتح یاب ہوجاتے ہیں اور انسان کے اوپر ان کی سلطنت کا نفوذ ہوجاتا ہے اور وہ پورے طورپر ان کے دائرہ اختیار کے اندرآجاتا ہے ۔۔۔تب بھی اسے اپنے خیالات کے برخلاف اس اندرونی خلفشاراور خانہ جنگی سے نجات نہیں مل پاتی بلکہ نفس کے اندرہی خود ان خواہشات کے درمیان ایک اور خانہ جنگی اور خلفشار شروع ہوجاتا ہے بلکہ اس بار اسکا انداز اورزیادہ خطرناک اور سخت ہوتا ہے کیونکہ انسان اس مرحلہ میں مختلف قسم کے خواہشات نفس (اور ہوس)کے درمیان تذبذب کاشکاررہتاہے لہٰذا اسکا خلفشار پہلے مرحلہ کی بہ نسبت کہیں زیادہ ہوجاتا ہے اور اگر اسکی دردسر ی اورذہنی پریشانی گذشتہ مرحلہ سے زیادہ نہ ہو تو بہر حال اس سے کم ہرگز نہیں ہوتی ہے کیونکہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مرحلہ کی طرح اسکے معاملات بالکل متفرق اوردرہم برہم ہوجاتے ہیں البتہ ان دونوں کے درمیان یہ فرق ضرورہوتا ہے کہ پہلے مرحلہ میں انسان کی مشکلات کے دوران اسکی عقل اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو ہواتھا لیکن اس مرحلہ میں خوداسکی خواہشات اور ہوس کے درمیان ٹکرائورہتا ہے کیونکہ اسکی ہر خواہش (ہوس)دوسری خواہشات کے مقابلہ میںآگے بڑھنے کی کوشش کرتی ہے اسی لئے ان کے درمیان یہ جنگ جاری رہتی ہے ۔

اس سلسلہ میں چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں :

۱۵۳

۱۔جب کبھی انسان جذبۂ انتقام اورغصہ یا محبت دنیا اور عہدہ کی محبت کے درمیان تذبذب کا شکار ہوتا ہے تو حکومت ،عہدہ اور پوسٹ کا تقاضا یہ ہوتا ہے کہ دشمنوں کے ساتھ نرم رویہ سے پیش آئے مگر جذبۂ انتقام یہ چاہتا ہے کہ وہ اپنے مقابلہ میں آنے والے ہردشمن کا قلع قمع کردے ۔۔۔اور ہمیں بخوبی یہ معلوم ہے کہ یہ نرمی اور مدارات ،حلم کی قسم نہیں ہے (جو عقل کے لشکروں میں سے ہے)بلکہ یہ درحقیقت ایک ہوس کودوسری ہوس پر ترجیح دینے کا نتیجہ ہے ۔

۲۔کبھی عہدہ یا حکومت کی لالچ اور سماجی مقام یاعظمت ووقار جیسے دو جذبات اور خواہشات کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوجاتا ہے کیونکہ انسان کی سماجی عزت ووقار اس سے کچھ خاص اقدار وآداب کی پابندی کا مطالبہ کرتے ہیں جبکہ دوسرے خواہشات ان سے کنارہ کشی کے خواہاں ہوتے ہیں جیسے جنسی خواہش،لہٰذا ان سیاسی یا سماجی عہدوں اور کرسیوں تک پہونچنے کے لئے اپنے جنسیات پر کنٹرول کرنا، یہ کسی عفت کی بنا پر نہیں ہے ۔بلکہ یہ ایک خواہش(ہوس) کو دوسری ہوس پر ترجیح دی گئی ہے۔یہی وجہ ہے کہ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جنسی ہوس دوسرے خواہشات (عہدہ کی لالچ)پر غالب آجاتی ہے جسکے نتیجہ میں ارباب حکومت کے یہاںبھی جنسی اسکینڈل رونما ہوجاتے ہیں اور انہیں بد نام کرکے رکھ دیتے ہیں ۔

۳۔کبھی انسان کسی عہدے کی محبت اوراپنی جان کے خوف کا نوالہ بن کر رہ جاتا ہے کیونکہ عہدہ کی تمنا اس سے دوسروں پر حملہ کرنے انہیں قتل وغارت کرنے اور خطرات میں کو د پڑنے کا مطالبہ کرتی ہے لیکن جان کا خطرہ اس کو حفاظتی انتظامات اور احتیاطی تدابیر اور پھونک پھونک کر قدم اٹھانے پر اکساتا ہے ۔

۱۵۴

دومختلف قسم کی خواہشات کی بناء پر انسانی نفس کے اندرونی خلفشار اور خانہ جنگی کی یہ تین مثالیں آپکے سامنے حاضرہیںان کے علاوہ بھی مختلف خواہشات کے درمیان نہ جانے ایسے کتنے حادثات ہر روز رو نما ہوتے رہتے ہیں جوانسانی زندگی کے لئے ایک عام بات ہیں اور اس میں متعدد خواہشات اور جذبات ایک دوسرے سے ٹکراکر اسے اپنی سمت کھینچنا چاہتے ہیں اور انسان خوف اور لالچ ، حب جاہ ،بخل وحسد ،جنسیات اور غصہ و انتقام نیز حب مال جیسے خواہشات کے کھنچائو کی بناپر،تتر بتر ہو کر رہ جاتا ہے جسکے بعد وہ اپنے ذہنی بوجھ اور مشکلات کے دلدل میں اور زیادہ دردسری کاشکار ہوجاتا ہے جیسا کہ خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّما یریدﷲ لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیاوتزهق أنفسهم وهم کافرون ) ( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر ہی میں ان کی جان نکل جائے ''

یہی معاملات کادرہم برہم ہوناہے جس کی طرف حدیث قدسی میں اشارہ کیا گیا ہے ۔

ہوس کے عذاب

جب انسان اپنی ہوس کا شکار ہو جاتا ہے تو اسکے خواہشات کا ٹکرائو بھی اسکے لئے وبال جان بن جاتا ہے جبکہ اس کے پنجوں میں پھنسے کے بعد انسان جس دوسرے دردسر اور زحمت میں مبتلا ہو تا ہے وہ ایسا نہیں ہوتا بلکہ وہ عذاب خود اس ہوس سے مربوط ہوتا ہے لہٰذا انسان کی ہوس اور خواہش جیسی ہوگی اسکا ویسا ہی عذاب اور دردسر سامنے آئے گاجیسے حرص ،لالچ اورحسد جیسے خواہشات اگر ہمارے نفس کے اندر جگہ بنالیں تو ان کی خواہش ہمیں ایک الگ مصیبت میں مبتلا کردے گی اوریہ طے شدہ بات ہے کہ جو شخص اپنے معاملات کو ان خواہشات کے حوالے کردیگا وہ ان مصائب سے نجات نہیں پاسکتا ہے ۔

خواہشات کے چنگل میں رہ کر انسان جس عذاب اور وبال جان میں مبتلا ہوتا ہے اسکی طرف اس روایت میں اشارہ موجود ہے جسے شیخ مفید علیہ الرحمہ نے اپنی کتاب الارشاد(۲) میں امیرالمو منین سے نقل کیا ہے :

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۲)ارشاد مفیدص ۱۵۹ ۔

۱۵۵

(ماأعجب أمرالانسان،ان سنح له الرجاء أذلّه الطمع،وان هاج به الطمع هلکه الحرص،وان ملکه الیأس قتله الأسف،وان سعد نسی التحفظ،وان ناله خوف حیّره الحذر،وان اتسع له الامن أسلمته الغرّة''الغفلة''وان أصابته ۔۔۔)

''اس انسان کے معاملات کتنے تعجب آور ہیں کہ اگر اسے امید کی کرن نظر آنے لگے تو طمع اسکو ذلیل کر دیتی ہے اور اگر اسکی لا لچ بھڑک اٹھے توحرص اسے ہلاک کر ڈا لتی ہے اور اگر اس پر نا امیدی کا غلبہ ہوجائے تو افسوس اسے قتل کردیتا ہے اور اگر وہ کامیاب اورخوشحال ہوجائے تو پھر (دین کی)پابندی کو بھول جاتا ہے ،اگر اسے خوف لاحق ہوجائے تو دہشت متحیر وسرگردان کردیتی ہے اور اگر ہر طرف امن وسکو ن رہے تو غفلت (دھوکہ)میں گرفتارہوجاتاہے اگر کسی مصیبت میں مبتلا ہوجائے تو بے صبری اور آہ وفریاد ذلیل کردیتی ہے اگر کہیں سے مال مل جائے تودولت اسے باغی بنادیتی ہے اگر وہ فاقہ کے چنگل میں پھنس جائے توبلائیں اسکے شامل حال ہوجاتی ہیں اور اگر بھوک لاغر بنادے تو کمزوری نڈھال کردیتی ہے اور اگر کھانے پینے میں افراط کر بیٹھے تو پرخوری سے اس کا سانس رک جاتا ہے ۔مختصر یہ کہ اسکے لئے ہر تقصیر مضر ہے اور ہر زیادہ روی (افراط)مفسد ہے اور اس (افراط)کے بعد ہر خیر شر بن جاتا ہے اور ہر شر اسکے لئے ایک آفت ہے ''

مختصر یہ کہ دنیا کے بارے میں پرامیدہونا ہر انسان کو طمع کی ذلت کے حوالہ کردیتا ہے اور طمع (لالچ)ہلاکتوں کے سپردکردیتی ہے کسی چیز سے مایوسی کے بعد وہ کف افسوس ہی ملتا رہتا ہے اور کوئی خوف پیدا ہوجائے تو وہ دہشت کے منھ میں جھونک دیتا ہے اس طرح ہرخواہش اور ہوس ایک نئی خواہش اور ہوس کے حوالے کردیتی ہے اور آخر کار وہ ہلاکت کے منھ میں پہونچ جاتا ہے ۔

۱۵۶

دنیا اپنے خواہشمند کے لئے ایک وبال جان

انسان کے دنیا وی عذاب کا پہلا رخ اور پہلا مرحلہ تو اسکے خواہشات (ہوس)ہیں مگر دوسری منزل میں خود یہ دنیا اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے اسکی وجہ یہ ہے کہ دنیا خواہشات (ہوس) کا کھلا میدان،ان کی آخری منزل، انکے حصول کا سرچشمہ،ان کی آماجگاہ اور انکو ابھارنے اور ان کی پرورش کی جگہ ہے

لہٰذا جب خداوند عالم کسی انسان کو خواہشات نفس کی پیروی کرنے کی وجہ سے عذاب میں مبتلا کرتا ہے تواس پر یہ عذاب لا محالہ، طلب دنیا کے ذریعہ ہی ہوتا ہے کیونکہ انسانی ہوس اور دنیا طلبی کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے بلکہ یہ ایک مسلم حقیقت ہے اور اسلامی افکار کے اہم مسائل کا حصہ ہے جس کی ہم یہاںوضاحت کر رہے ہیں ۔

اگر کوئی انسان اپنے ضروریات زندگی اور ضروریات دین اور تکامل کے لئے دنیا حاصل کرے تو اس حصول دنیا اور حتی دنیا میںکوئی چیزشر اور عذاب نہیں ہے جس کی تصدیق اسلام میں موجود ہے کیونکہ اسلام کا یہ کہنا ہے کہ اس دنیا میں کوئی چیز شر نہیں ہے بلکہ سب خیر ہی خیر ہے اسی لئے اس نے دنیا حاصل کرنے اور رزق تلاش کرنے کے لئے دوڑدھوپ کرنے کو شریعت کا جزء قرار دیا ہے کیونکہ اسلام کی نگاہ میں دنیا اولیاء خدا کا میدان تجارت (منڈی)اور اسکے محبین کی مسجد ہے :

(متجرأولیاء ﷲ،ومسجدأحبّاء ﷲ )( ۱ )

''(دنیا)اللہ کے اولیاء کا میدان تجار ت اور اسکے محبین کی مسجد ہے''

لہٰذا یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ دنیا شر اور عذاب ہو

اس دنیا میں محنت ومشقت کرنا اور رزق تلاش کرنا شریعت اسلامیہ کاجزہے جس کی تائید کے لئے قرآن مجید کی اس آیت میں مہر تصدیق ثبت ہے :

(فاذاقضیت الصلوٰة فانتشروا فی الارض وابتغوا من فضل ﷲ )( ۲ )

''جب نماز تمام ہوجائے تو روئے زمین پر پھیل جائو اور فضل الٰہی تلاش کرو ''

لہٰذاجب یہ سب خیر ہے تو شر اور عذاب کا وجود کہاں رہے گا؟

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۱۳۱۔

(۲)سورئہ جمعہ آیت ۱۰۔

۱۵۷

لہٰذا جب تک یہ دنیا خداوند عالم تک پہونچنے کا ذریعہ اور اسکی مرضی حاصل کرنے کاوسیلہ ہو اور اس سے بڑھ کر خودخدا تک جانے کا ارادہ ہو تو یہ پوری دنیا اور اس میں ہونے والی ہر کوشش خیر ہی خیر ہے۔۔۔

لیکن اگر انسان کی محنت و مشقت اوراسکی حرکت کا رخ خداوند عالم اور اسکی مرضی حاصل کرنے کے بجائے دنیا کی طرف مڑجائے تو یہ اسلام کی نظر میں ناقابل برداشت بات ہے ۔اور اسے اس نے شر قرار دیا ہے اور اسی کو خداوند عالم انسان کے لئے عذاب دنیا بنا دیتاہے جس کی وجہ یہ ہے کہ جب یہ دنیا انسان کی نظر میں خدا تک پہونچنے کا ایک ذریعہ اور وسیلہ ہونے کے بجائے خودایک مستقل مقصد میں تبدیل ہوجائے تو پھر انسان اپنی گمراہی کی وجہ سے خدا کی طرف جانے کے بجائے دنیا کی طرف چل دیتا ہے اور اسکی نظر یںذات خدا کے بجائے دنیا کی رنگینیوں پر ٹکی رہتی ہیں اور جب وہ دنیا میں گھرارہ جائے تو اسکا ہر عمل باطل اور محنت بیکارنیز اسکی ترقی اور تکامل معطل ہوکر رہ جاتی ہے اور وہ آہستہ آہستہ تنزلی ،لغزش اور خسارہ کا شکار ہوجاتا ہے ۔

بلکہ کبھی کبھی انسان خداوند عالم سے منحرف ہوکر اس حد تک آگے بڑھ جاتا ہے کہ وہ خداوندعالم سے جنگ کی ٹھان لیتا ہے اور کھلم کھلا خدا ورسول کی دشمنی کا اعلان کرتا ہے ۔

بہر حال چاہے جو کچھ بھی ہواگر یہ دنیا انسان کے لئے خدا تک پہونچنے کا وسیلہ ہونے کے بجائے منزل مقصود میں تبدیل ہوجا ئے اور انسان کی کل دوڑدھوپ دنیا طلبی تک محدودرہے تو پھر یہی دنیاانسان کیلئے دردسر اور عذاب جان بن جاتی ہے ۔

جودنیا، انسان کی خواہشمند ہوتی ہے اور جس دنیا کا خواہشمند انسان ہوتا ہے ان دونوں کے درمیان یہی فرق ہے کہ انسان کی خواہشمند دنیا اسے خدا تک پہونچاتی ہے لیکن جب انسان دنیا کے پیچھے بھاگتا ہے تو یہی دنیاخدا تک پہونچنے کا راستہ ہونے کے بجائے اس کے لئے سنگ راہ بن کر عذاب اور وبال جان بن جاتی ہے ۔

۱۵۸

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے روایت ہے :

(لما خلق ﷲ الدنیا أمرها بطاعة ربّها،فقال لها خالفی مَنْطلبکِ ووافقی من خالفک،فهی علیٰ ماعهد الیها ﷲ وطبعهاعلیه )( ۱ )

''جب خداوند عالم نے دنیا کو خلق فرمایا تو اس سے ارشاد فرمایا کہ جو تجھے طلب کرے (تیرا خواہشمند ہو )اسکی مخالفت کرنا اور جو تیرامخالف ہو اسکی موافقت کرنا لہٰذایہ دنیا خداوند عالم سے کئے ہوئے عہد کے مطابق اپنی طبیعت پر باقی ہے ''

روایت میں بطور کنایہ اس طرف اشارہ ہے کہ جو شخص فکر دنیا میں پڑجائے اور اسی کو اپنا سب کچھ سرمایہ اور مقصد قرار دیدے توخداوند عالم اسی دنیا کو اسکے لئے عذاب بنا دیتا ہے اور جو شخص دنیا سے دل نہ لگائے اور اسکی مخالفت کرتا رہے تو پروردگار اسکے لئے دنیا کو چین اور سکون میں بدل دیتا ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(أوحیٰ ﷲالیٰ الدنیا:اخدمی من خدمنی،وا تعبی من خدمک )( ۲ )

''ﷲ تعالی نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی جو میری خدمت کرے اسکی خدمت گذار بننا اور جو تیری خدمت کرے اسکے لئے عذاب بن جانا''

اس روایت میں بھی گذشتہ روایت کی طرح یہ کنایہ موجود ہے کہ اگر انسان کا مقصد خداوندعالم کو خوش کرنا ہو،تو یہ دنیا اسکی خدمت کے لئے خلق کی گئی ہے لیکن جب اسکا مقصد خدا کے بجائے دنیا ہوجائے تو پھر اسکے لئے دنیا کی خدمت کرنا ضروری ہے اور دنیا کی خدمت کرنا کسی عذاب

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۳۱۵۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ص۲۰۳۔

۱۵۹

اور درد سر سے کم نہیں ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ہی یہ بھی روایت ہے :

(ان ﷲ جل جلاله أوحیٰ(الیٰ)الدنیا أن اتعبی منخد مک واخدمی من رفضکِ )( ۱ )

''خداوند عالم نے دنیا کی طرف یہ وحی فرمائی کہ جو تیری خدمت کرے اسے عذاب میں مبتلا کردینا اور جو تجھے چھوڑدے اسکی خدمت کرنا''

اس روایت کا بھی انداز اور لہجہ بعینہ وہی ہے بلکہ اگر کوئی روایات کے اندازبیان سے واقف ہوتو اسے بخوبی محسوس ہوگا کہ اس روایت میں گذشتہ روایات کے بالمقابل کچھ زیادہ صراحت موجود ہے ۔

حضرت علی سے مروی ہے :

(من خدم الدنیا استخدَ متْه ومن خدم ﷲخد مه )( ۲ )

'' جو شخص دنیا کی خدمت کریگا وہ اسے اپنا نو کر بنائے رکھے گی اور جو شخص خداوند عالم کی خدمت(اطاعت)کریگا تو خداوند عالم دنیا کواس کا خدمت گذار بنادیگا''

ﷲ تعالی نے جناب موسیٰ کی طرف یہ وحی فرمائی :

(ما من خلقی أحد عظّمها(۳)فقرّت عینه ،ولم یحقّرها أحد الا انتفع بها )( ۴ )

''یعنی میری مخلوقات کے درمیان کوئی ایک شخص بھی ایسا نہیں ہے کہ جس نے دنیا کو بڑا سمجھا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۱۔

(۲)غرر الحکم ج۲ ص۲۳۷۔

(۳)یعنی دنیا۔

(۴)بحارالانوارج۷۳ص۱۲۱۔

۱۶۰

ہو اور اسکی آنکھوں کو ٹھنڈک نصیب ہوئی ہو اور کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جس نے اسکو ذلیل سمجھا ہو اور اس نے اس سے فائدہ نہ اٹھایا ہو''

کتب احادیث میں اس قسم کی روایات بہت زیادہ ہیں مگر یہ دوسری بات ہے کہ ان روایات میں کا ئنات کے بارے میںالہی سنتوںکی وضاحت جس انداز میںپیش کی گئی ہے اگر کوئی اس سے واقف نہ ہوتو یہ روایات اسکے لئے کچھ مبہم ہیں لیکن جولوگ زبان وبیان حدیث سے واقفیت رکھتے ہیں انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ ان روایات میں جس عذاب کا تذکرہ کیا گیا ہے اس سے مراد وہ عذاب ہے جو خدا سے روگردانی کرنے اور دنیا سے دل لگالینے کی صورت میں اسکے سامنے آتا ہے یعنی یہ دنیا ہی اسکے لئے عذاب بن جاتی ہے لیکن اگر اسکا دل خداوند عالم کی طرف متوجہ رہے اور وہ دنیا کو خداوند عالم تک رسائی حاصل کرنے کے ذریعہ کے علاوہ کچھ اور خیال نہ کرے اور اسی نیت سے دنیاکا ہر کام کرتار ہے اور اپنا رزق کمائے تو دنیا اسے نقصان نہیں پہونچاسکتی بلکہ وہ اسکے لئے فائدہ مند اور خدمت گذارہی ثابت ہوگی۔

خواہشات کی پیروی کے بعد انسان کی دوسری مصیبت

گذشتہ صفحات میں ہم نے دنیا داری اور خواہشات کے نتیجہ میں پیدا ہونے والے پہلے عذاب کا تذکرہ کیا ہے جس میں انسان کے معاملاتِ زندگی بکھرکر رہ جاتے ہیں اوراسکی خواہشات کے آپسی ٹکرائو کی بناء پر اسکا نفس عجیب وغریب اندرونی خلفشار کا شکار ہوجاتا ہے ۔

مگر اس تذبذب اور خلفشار کے بعد بھی یہ خواہشات انسان کو چین سے نہیں رہنے دیتیں بلکہ جب انسان خدا سے اپنا منھ پھیرکر انہیں خواہشات کے مطابق چلتا ہے تو وہ حرص اور لالچ کے عذاب میں بھی پھنس جاتا ہے کیونکہ اگر انسان کی توجہ خدا کے بجائے دنیا کی طرف ہوتو وہ کسی چیز سے سیر نہیں ہوپاتا اور اسے چاہے جس مقدار میںدنیا مل جائے یا اسکے برعکس وہ اس سے منھ پھیرے رہے تب بھی اسکی طمع کا وہی حال رہے گا کیونکہ یہ ایک نفسیاتی بات ہے اور مال ودولت وغیرہ کی کمی یا زیادتی سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ اکثر تو ایسا ہوتا ہے کہ انسان کو جتنی زیادہ فراوانی کے ساتھ دولت ملتی ہے اسکے اندر دنیا کی محبت اور لالچ اتنی ہی زیادہ بڑھ جاتی ہے اور انسان دنیا کے پیچھے دیوانہ بنا رہتا ہے اور اسکا پیٹ کبھی بھی نہیں بھر پاتا اور اسکے سینہ میں محبت دنیا کی آگ پہلے کی طرح ہی جلتی رہتی ہے اور وہ کبھی سردنہیں پڑتی ہے ۔

۱۶۱

دنیا انسان کا ایک سایہ

جب انسان اس دنیا کو اپنا مقصد حیات بنالے تو پھر اس دنیا کے بارے میں وہی مثال مناسب ہے جو بعض روایات میں امیر المومنین سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا :

(مثل الدنیا کظلکِ،انْ وقفتَ وقفَ،وانْ طلبتَه بَعُدَ )( ۱ )

''دنیا کی مثال تمہارے سایہ کی طرح ہے کہ اگر تم رک جائو تو وہ بھی رک جائے گا اور اگر تم اسے پکڑنا چاہو تو وہ تم سے دور بھاگے گا''

آپ کا یہ جملہ دنیا سے انسان کے رابطہ اور انسان سے دنیا کے رابطہ کے بارے میں بہت ہی بلیغ ہے کیونکہ دنیا کی لالچ اور اس پر ٹوٹ پڑنے سے اسے اپنے نصیب سے زیادہ کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے کیونکہ دنیا بالکل سایہ کی طرح ہے کہ اگرہم اسکی طرف آگے بڑھیں گے تووہ ہم سے اتنا ہی آگے بڑھ جائے گا ۔گویا ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ اپناپیچھا کرنے والے سے فرار کرجاتا ہے ، لہٰذا اسکے پیچھے دوڑنے سے تھکن اور دردسر کے علاوہ اور کچھ ہاتھ آنے والا نہیں ہے ۔۔۔ اور بالکل یہی حال دنیا کا بھی ہے ۔

لہٰذا دنیا کو حاصل کرنے کا سب سے بہتر راستہ یہی ہے کہ طلب دنیا کی آرزو کو مختصر کردیا جائے اور دنیا کے اوپر جان کی بازی نہ لگائی جائے کیونکہ اس کے اوپر مرمٹنے سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ انسان اپنے لئے مزید مصیبت مول لے لیتا ہے ۔

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ ص۲۸۴۔

۱۶۲

روایات کی روشنی میں عذاب دنیا کے چند نمونے

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :(ما سکن حب الدنیاقلباً الا التاط بثلاث:شغل لاینفدْ عناؤه،وفقرلا ید رکغناه،وأمل لاینال مناه )( ۱ )

''دنیا کی محبت کسی دل میں نہیں آتی مگر یہ کہ وہ تین چیزوں میں مبتلاہوجاتاہے ایسی مصروفیت جو ختم ہونے کا نام نہیں لیتی،ایسی فقیری جو مالداری میں تبدیل نہیں ہوسکتی اور ایسی آرزو جو کبھی پوری نہیں ہوسکتی ہے ''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(من أصبح والدنیا أ کبرهمه،فلیس من ﷲ فی شی ئ،وألزمه قلبه أربع خصال:همّاً لا ینقطع أبداً،وشغلاً لاینفرج عنه أبداً،وفقراً لایبلغ غناه أبداً،وأملا ً لا یبلغ منتهاه ابداً )( ۲ )

''صبح ہوتے ہی جسے سب سے زیادہ دنیا کی فکر ہوا سے خدا سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں ہے بلکہ وہ اسکے دل میں چار خصلتوںکو راسخ کردے گا۔کبھی ختم نہ ہونے والا غم،ایسی مصروفیت جس سے کبھی چھٹکارانہ ملے،ایسی فقیری جو استغنا تک نہ پہونچ سکے ،ایسی آرزو جو کبھی اپنی آخری منزل نہ پا سکے''

حضرت علی :

(من لهج قلبه بحب الدنیاالتاط قلبه منهابثلاث:همّ لایغنیه، ومرض لایترکه،وأمل لایدرکه )( ۳ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج ۷۷ ص ۱۸۸ ۔

(۲)میزان الحکمت ج۳ص۳۱۹۔

(۳)شرح نہج البلاغہ ابی الحدیدج۱۹ص۵۲،بحارالانوار ج۷۳ص۱۳۰۔

۱۶۳

''جس شخص کا دل دنیا کی محبت کا دلدادہ ہوجائے اسکا دل تین چیزوں میں پھنس کررہ جاتا ہے ۔ ایسا غم جس سے افاقہ ممکن نہیںایسی بیماری جو اسے کبھی نہ چھوڑے گی ایسی آرزو جسے وہ کبھی نہیں پاسکتا''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا اکبر همّه،طال شقاؤه وغمه )( ۱ )

''جسکے لئے دنیا سب کچھ ہوگی اسکی بدبختی اور غم طولانی ہوجائینگے''

حضرت علی :

(من کانت الدنیا همّته اشتدت حسرته عند فراقها )( ۲ )

''جسکا سب سے بڑا مقصد، دنیا ہو تو اس سے دوری کے وقت اس کی حسرت شدید ہوجاتی ہے ''

حضرت علی :

(المتمتّعون من الدنیا تبکی قلوبهم وان فرحوا،ویشتد مقتهم لانفسهم وان اغتبطواببعض مارزقوا )( ۳ )

''دنیا سے لطف اندوز ہونے والے اگر چہ بظاہر خوش نظر آتے ہیں مگر ان کے دل روتے ہیں اور وہ خود اپنے نفس سے بیزار رہتے ہیں چاہے لوگ ان کے رزق سے غبطہ ہی کیوں نہ کریں''

امام جعفر صادق :

(من تعلّق قلبه بالدنیا تعلّق قلبه بثلاث خصال:همّ لایُغنی،وأمل لایُدرک، ورجاء لایُنال )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ص۸۱۔

(۲) بحارالانوار ج۷۱ ص۱۸۱۔

(۳)بحارالانوارج۷۸ص۲۱۔

(۴)بحار الانوار جلد ۷۳ص۲۴۔

۱۶۴

''جسکا دل دنیا سے وابستہ ہوجائے اسکے دل کے اندر تین خصلتیں پیدا ہوجاتی ہیں:لازوال غم ،پو ری نہ ہونے والی آرزو،ہاتھ نہ آنے والی امید''

یہ رنگ برنگے عذاب ،دنیا کے ان عذابوں کا کچھ حصہ ہیں جو خداوند عالم نے خواہشات کی پیروی کرنے والوں کے لئے آخرت سے پہلے اسی دنیا میں معین فرمادئے ہیں مثلاً اہل ثروت کو اپنے اقرباء یا دور والوں سے اپنے مال کے بارے میں جو خوف اور پریشانی لا حق رہتی ہے یہ ان کے لئے دنیاوی عذاب کا صرف ایک حصہ ہے ۔

آخرت میں انسان کی سرگردانی وپریشا ں حالی

حدیث قدسی میں انسان کی جس پریشان حالی (افتراق اوردرہم برہم ہوجانے )کا تذکرہ ہے اسکا تعلق صرف دنیا سے ہی نہیںہے بلکہ دنیا کی طرح اسے آخرت میں بھی اسی صورتحال سے دوچارہونا پڑے گا ۔

آخرت میں یہ افتراق اور بیقراری سب سے پہلے اپنے خواہشات نفس اور ہوی وہوس کے پیچھے چلنے والوں کے درمیان ہی دکھائی دینگے کیونکہ وہ دنیا میں جسمانی اعتبار سے بظاہر متحدضرور تھے مگر ان سب کی تمنائیں اور ہوس ایک دوسرے سے الگ تھیں نیزانھوں نے اپنے جواختلافات دنیا میں چھپارکھے تھے وہ سب آخرت میں کھل کر سامنے آجائیں گے خداوند عالم نے قرآن مجید میں اہل جہنم کے حالات کی یوںتصویر کشی کی ہے :

(کلّما دخلت اُمة لعنت اُختها )( ۱ )

''جہنم میں داخل ہونے والی ہر جماعت اپنی دوسری برادری پر لعنت کرے گی''

اس اختلاف اور انتشار یا خانہ جنگی کی دوسری صورت اس وقت سامنے آئے گی کہ جب

انسان خدا سے اپنے جرائم چھپانا چاہے گا اور اسی وقت اس کے اعضاء اسکے جرائم کے بارے میں

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۳۸

۱۶۵

گواہی دینے لگیں گے تو وہ ان پر غصہ ہو گااوراسی وقت اسکے یہی ہاتھ پیر اور کھال وغیرہ اسے ذلیل و رسوا کرکے رکھ دینگے تووہ اپنے اعضاء سے یہ کہے گا:

(وقالوا لجلود هم لم شهد تم علینا قالوا أنطقنا ﷲ الذی أنطق کلّ شیئ )( ۱ )

''اور وہ (اہل جہنم )اپنے اعضاء سے کہیں گے کہ تم نے ہمارے خلاف کیسے شہادت دیدی تو وہ جواب دینگے کہ ہمیں اسی خدا نے گویا بنایا ہے جس نے ہر چیز کو گویائی عطا کی ہے ''

بلکہ روایات میں تو یہاں تک ہے کہ روز قیامت اپنی خواہشات کی پیروی کرنے والے گنہگاروں کے بعض اعضاء ان سے اظہار نفرت کرینگے اور ایک دوسرے پر لعنت کرتے دکھائی دینگے اور یہ بعینہ وہی صورتحال ہے جو دنیا میں خواہشات کی پیروی کی بنا پر انسان کے اندر دکھائی دیتی ہے ۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(کُفّ أذاک عننفسک،ولا تتابع هواهافی معصیةاللّٰه،اذتخاصمک یوم القیامة،فیلغی بعضک بعضاً،الا أن یغفرﷲو یستر برحمته )( ۲ )

''اپنے نفس کو اذیت نہ دواور معصیت خدا میں اپنے نفس کے خواہشات کی پیروی نہ کرو کیونکہ وہ روز قیامت تم سے جھگڑا کریگا اور اسکا بعض حصہ دوسرے حصہ کو برا بھلاکہے گا ۔مگر یہ کہ خدا وند کریم تمہیں معاف فرمادے اور اپنی رحمت کے پردے ڈال دے ''

____________________

(۱)سورئہ فصلت آیت ۲۱۔

(۲)محجةالبیضاء فیض کاشانی ج۵ص۱۱۱۔

۱۶۶

۲۔اسکی دنیا کو اسکے لئے مزین کردوںگا

دنیا کا ظاہر اور باطن

خواہشات کی پیروی کرنے والے کی دوسری سزا یہ ہے کہ اسکے لئے دنیا مزین کردی جاتی ہے اور دنیا کے مزین ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ظاہری لحاظ سے دنیا اس پرفریب انداز میں اس کے سامنے آتی ہے کہ وہ اسے دیکھ کر دھوکہ میں پڑا رہتا ہے جبکہ وہ دنیا کی واقعی شکل نہیں ہو تی ہے اور انسان اسی ظاہری صورت سے فریب کھا جاتا ہے کیونکہ اس کی جن ظاہری صورتوں کو دیکھ کر وہ فریب خوردہ رہتا ہے وہ وقتی ہیں اور ان میں بہت جلد تبدیلی آجاتی ہے لیکن دنیا کی واقعی شکل و صورت جو اسکے بالکل برخلاف ہے وہ درحقیقت یہ ہے کہ یہ دنیاانسان کے لئے مقام عبرت اور چشم بصیرت حاصل کرنے نیز زہد وتقوی اختیار کرنے کا سرچشمہ اور مرکز ہے ۔

یہی وجہ ہے کہ جن افراد کو خداوند عالم نے چشم بصیرت عنایت فرمائی ہے ان کی نگاہیں دنیاکے وقتی اور اوپری خول کے اندر گھس کر اس کی حقیقت کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں اسی لئے وہ اس میں زہد سے کام لیتے ہیں اور اس سے عبرت اور نصیحت حاصل کرتے رہتے ہیںلیکن جو لوگ خداوندعالم کی عطا کردہ بصیرت کو ضائع کردیتے ہیں وہ زندگانی دنیا کو اسی ظاہری نگاہ سے دیکھتے ہیں اور ان کی نگاہیں اس کے باطن اور حقیقت تک نہیں پہونچ پاتی ہیں لہٰذا ان کے دل اس کے دھوکہ میں پڑے رہتے ہیں ۔

مختصر یہ کہ دنیا کے دو روپ ہیں :

۱۔ظاہری

۲۔ باطنی

اسی اعتبار سے اہل دنیا کی بھی دو قسمیں ہیں :

۱۔کچھ وہ لوگ ہیں جن کی نگاہیں دنیا کے ظاہرسے آگے نہیں بڑھتی ہیں ۔

۲۔ کچھ ایسے افراد ہیں جن کی نظر یںدنیا کے باطن کو بخوبی دیکھ لیتی ہیں ۔

۱۶۷

اس تقسیم کی طرف قرآن مجید نے اس آیت میں اشارہ کیا ہے ۔

(یعلمون ظاهراًمن الحیاة الدنیا وهم عن الآخرة هم غافلون )( ۱ )

''یہ لوگ صرف زندگانی دنیا کے ظاہر کو جانتے ہیں اور آخرت کی طرف سے بالکل غافل ہیں ''

لیکن جن لوگوں کو خداوند عالم نے فہم وبصیرت عطا فرمائی ہے ان کے سامنے دنیاکا ظاہر وباطن ایک دوسرے سے مشتبہ نہیں ہوتا ہے ۔البتہ جب خداوند عالم کسی سے غضبنا ک ہوجاتا ہے تو اس کی بصیرت سلب کرلیتا ہے اور پھر اسکے سامنے دنیا کا ظاہر وباطن مخلوط ہو کر رہ جاتا ہے اور وہ اسکے ظاہری خول اور اسکی واقعی حقیقت کے درمیان تمیزنہیں کرپاتا لہٰذا دنیا کی ظاہری رنگینیاں اسے دھوکہ دیدیتی ہیں اور وہ بھی اس دنیا کوفریب خوردہ نگاہ سے دیکھتا ہے جسکی طرف قرآن مجید نے یوں اشارہ کیا ہے :

(زُیّن للذ ین کفروا الحیاة الدنیا )( ۲ )

''اصل میں کافروں کے لئے زندگانی دنیا آراستہ کردی گئی ہے ''

لہٰذا کیونکہ وہ اسکے پرفریب ظاہر کو دیکھتا ہے اس لئے اسکی نگاہوں میں دنیا سجی رہتی ہے لیکن اگر اسکے باطن پر نگاہ رکھی جائے تو پھر کبھی اسکی رنگینی نظر نہ آئے گی۔

مختصر یہ کہ زندگانی دنیا کے دو روپ اور دوچہرے ہوتے ہیں :

ا۔باطنی حقیقت (اصلی چہرہ)

ب۔ظاہری چہرہ

أ ۔دنیا کا باطنی چہرہ (اصل حقیقت)

جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کہ دنیاکی واقعی شکل و صورت صرف اہل بصیرت کو دکھائی دیتی

____________________

(۱)سورئہ روم آیت ۷۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت۲۱۲۔

۱۶۸

ہے اوراسکی اس شکل میں کسی قسم کا دھوکہ اور فریب نہیں ہے بلکہ وہ منزل عبرت ونصیحت ہے جیسا کہ قرآن کریم نے بھی دنیا کے اس پہلو کی نہایت دقیق تعریف و توصیف فرمائی ہے جسکے بعض نمونے ملاحظہ فرمائیں :

۱۔دنیا ایک پونجی ہے :ارشاد الٰہی ہے :

(وماالحیاة الدنیا فی الآخرة الامتاع )( ۱ )

''اور آخرت میں زندگانی دنیا کی حقیقت مختصر پونجی کے علاوہ اور کیا ہے ''

متاع ،وقتی لذت کو کہا جاتا ہے جبکہ اس کے بالمقابل آخرت کی لذتیں دائمی اور باقی رہنے والی ہیں جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

(فما متاع الحیاة الدنیا فی الآخرة الا قلیل )( ۲ )

''پس آخرت میں اس متاع زندگانی دنیا کی حقیقت بہت قلیل ہے ''

۲۔دنیا عارضی ہے ۔ارشاد الٰہی ہے :

(تریدون عرَضَ الد نیاوﷲ یرید الآخرة )( ۳ )

''تم لوگ صرف مال دنیا چاہتے ہو جبکہ اللہ آخرت چاہتا ہے ''

یا ارشا د ہے :

(تبتغون عَرَضَ الحیاة الدنیا فعند ﷲ مغانم کثیرة )( ۴ )

''اس طرح تم زندگانی دنیا کا چند روزہ سرمایہ چاہتے ہو اور خدا کے پاس بکثرت فوائد پائے جاتے ہیں''

____________________

(۱)سورئہ رعد آیت ۲۶۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۳۸۔

(۳)سورئہ انفال آیت ۶۷۔

(۴)سورئہ نساء آیت ۹۴۔

۱۶۹

(یأخذون عَرَضَ هذا الادنیٰ و یقولون سَیُغْفَرلنا )( ۱ )

''لیکن وہ دنیا کا ہر مال لیتے رہے اور یہ کہتے رہے کہ عنقریب ہمیں بخش دیا جائے گا ''

عارضی چیز اسکو کہتے ہیں جو بہت جلد تبدیل ہوکر ختم ہوجائے اور کیونکہ دنیا کی لذتیں تبدیل ہوکر ختم ہو جاتی ہیں اور کسی کے لئے بھی باقی رہنے والی نہیںہیںاسکے باوجود بھی یہ لوگوںکو بری طرح فریب میں مبتلا کردیتی ہیں۔

گویادنیا کی دوصفتیں ہیں :

۱۔وہ صفت جس سے انسان زاہد دنیا بن جاتا ہے ۔

۲۔وہ صفت جو انسان کو فریب میں مبتلا کردیتی ہے ۔(جس سے انسان دھوکہ کھاجاتاہے )

وہ صفت جس کی بنا پر انسان زاہد بن جاتا ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا عارضی، زوال پذیر اور بہت جلد ختم ہوجانے والی ہے ۔(لہٰذا وہ اس سے دل نہیں لگاتا)

لیکن اسکا پر فریب رخ یہ ہے کہ یہ نرم لقمہ ہے نچلی سطح پر جلد ہاتھ آجاتی ہے ۔

اور کیونکہ لوگ عام طورسے عجلت پسند ہوتے ہیں لہٰذاوہ جلد ہاتھ آنے والی چٹپٹی چیزوں کو دیر سے ملنے والی دائمی نعمتوں پر ترجیح دیتے ہیں جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

(لوکان عرضاً قریباً وسفراً قاصد اً لا تّبعوک )( ۲ )

''پیغمبر،اگر کوئی قریبی فائدہ یا آسان سفر ہوتا تو یہ ضرور تمہارا اتباع کرتے ''

اس طرح انسان کی طبیعت اور فطرت میں ہی جلدبازی پائی جاتی ہے ۔

۳۔دنیا دھوکہ اور فریب کا اڈہ ہے ۔

ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ اعراف آیت ۱۶۹۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۴۲۔

۱۷۰

(فلا تغرّنّکم الحیاة الدنیا ولایغرّنّکم بﷲ الغرور )( ۱ )

''لہٰذا تمہیں زندگانی دنیا دھوکہ میں نہ ڈال دے اور خبردار کوئی دھوکہ دینے والا بھی تمہیں دھوکہ نہ دے سکے''

۴۔اور دنیا متاع غرور ہے: یہ دو الفاظ کی ترکیب ہے جن کو قرآن مجید نے دنیا کے لئے الگ الگ اور ایک ساتھ دونوں طرح استعمال کیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

(وماالحیاةالدنیاالامتاع الغرور )( ۲ )

''اور زندگانی دنیا تو صرف دھوکہ کا سرمایہ ہے ''

اس فریب کی اصل بنیاد دنیا کی وقتی اور ختم ہوجانے والی پونجی ہے ۔

دنیا اورآخرت کا تقابلی جائزہ

اگر ہم قرآن مجید پر ایک اور نظر ڈالیں تو اسکے بیان کردہ اوصاف کی روشنی میں دنیا و آخرت کا موازنہ کرنا بہت آسان ہے جیسا کہ ہم عرض کرچکے ہیں کے قرآن مجید کی نگاہ میں یہ دنیا وقتی ،بہت جلد قابل زوال اور ایسی پونجی ہے جو کسی کے لئے دائمی (اور باقی رہنے والی)نہیں ہے لیکن آخرت سکون واطمینان کی ایک دائمی جگہ ہے ۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( یاقوم انماهذه الحیاة الدنیامتاع وانّ الآخرة هی دارالقرار ) ( ۳ )

''قوم والو،یاد رکھو کہ یہ حیات دنیا صرف چند روزہ لذت ہے اور ہمیشہ رہنے کا گھر صرف آخرت کا گھر ہے ''

____________________

(۱)سورئہ لقمان آیت ۳۳سورئہ فاطر آیت ۵۔

(۲)سورئہ آل عمران آیت ۱۸۵سورئہ حدید آیت ۲۰ ۔

(۳)سورئہ غافر آیت۳۹۔

۱۷۱

دنیا ایک کھیل تماشہ ہے لیکن آخرت دائمی حیات کا گھر ہے اور وہی حقیقی زندگی ہے اور وہ زندگی کھیل تما شہ نہیں ہے ۔

جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

(وماهذه الحیاةالدنیاالالهوولعب وان الدارالآخرة لهی الحیوان لوکانوایعلمون )( ۱ )

''اور یہ دنیاوی زندگی تو کھیل تماشہ کے سوا کچھ نہیں اور اگر یہ لوگ سمجھیں بو جھیں تو اس میں شک نہیں کہ ابدی زندگی (کی جگہ)تو بس آخرت کا گھر ہے ''

کلا م امیر المومنین میں دنیاکا تذکرہ

مولائے کائنات نے اپنے اقوال میں دنیا کی حقیقت کو بالکل آشکار کر دیا ہے اور اس کے چہرہ سے دھوکہ اور فریب کی نقاب نوچ لی ہے جس کے بعد ہر شخص دنیا کی اصلی شکل و صورت کو بآسانی پہچان سکتا ہے۔

لہٰذا دنیا کے بارے میں آپ کے چند اقوال ملاحظہ فرمائیں :

۱۔(وﷲ مادنیاکم عندی الاکسَفْرٍعلیٰ منهل حلّوا،اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا،ولالذاذاتُهافی عینی الاکحمیم أشربُه غسّاقا،وعلقم أتجرع به زُعافا،وسمّ أفعاةٍ دِهاقاً،وقَلادةٍ من نار )( ۲ )

''خدا کی قسم تمہاری دنیا میرے نزدیک ان مسافروں کی طرح ہے جو کسی چشمہ پر اترے ہوں ،اور جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں ،اور اسکی لذتیں میری نگاہ میں اس گرم اور

____________________

(۱)سورئہ عنکبوت آیت ۶۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۷ص۳۵۲۔

۱۷۲

گندے پانی کی طرح ہیں جسے مجبوراً پینا پڑے اور وہ کڑوی چیز ہے جسے مردنی کی حالت میں زبردستی گلے سے نیچے اتارا جائے اور وہ اژدہے کے زہر سے بھرا ہوا پیالہ اور آگ کا طوق ہے''

اس دنیا کا جو رخ لوگوں کو دکھائی دیتا ہے وہ اسی بھرے ہوئے چشمہ کی طرح ہے جس پر قافلہ ٹھہراہو '' سفرعلی منھل حلوا''اور یہ اسکا وہی ظاہری رخ ہے جس کے اوپر وہ ایک دوسرے کو مرنے اور مارنے کو تیار رہتے ہیں ۔جبکہ مولائے کائنات نے اس کو زود گذر قرار دیا ہے جو کہ دنیا کا واقعی چہرہ ہے :

(اذصاح بهم سائقهم فارتحلوا )''جیسے ہی قافلہ سالار آواز لگائے وہ چل پڑیں''

یہی وجہ ہے کہ دنیا کی جن لذتوں کیلئے لوگ ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کرتے ہیں وہ مولائے کائنات کی نگاہ میں گرم، بدبوداراور سانپ کے زہر کے پیالہ کی طرح ہے ۔

''جب معاویہ نے جناب ضرار بن حمزہ شیبانی(رح) سے امیر المومنین کے اوصاف و خصائل و معلوم کئے تو آپ نے کہا کہ بعض اوقات میں نے خوددیکھا ہے کہ آپ رات کی تاریکی میں محراب عبادت میں کھڑے ہیں اور اپنی ریش مبارک ہاتھ میںلئے ہوئے ایک بیمار کی طرح تڑپ رہے ہیں اور ایک غمزدہ کی طرح گریہ کررہے ہیںاس وقت آپ کی زبان مبارک پر یہ الفاظ جاری رہتے ہیں :

(یادنیاالیک عنی،أبی تعرّضتِ؟أم الیّ تشوّقتِ؟هیهات!!غرّی غیری لا حاجة لی فیکِ،قدطلقتک ثلاثاً،لارجعة فیها:فعیشک قصیر،وخطرک کبیر،واملک حقیر،آه من قلّة الزاد،وطول الطریق )( ۱ )

''اے دنیا مجھ سے دورہوجا کیا تو میرے سامنے بن ٹھن کر آئی ہے اور کیا واقعاً میری مشتاق بن کر آئی ہے بہت بعید ہے جا میرے علاوہ کسی اور کو دھوکا دینا مجھے تیری کوئی ضرورت نہیں ہے ۔میں تجھے تین بار طلاق دے چکا ہوں جسکے بعد رجوع ممکن نہیں ہے تیری زندگی بہت مختصر، تیری حیثیت

____________________

(۱) نہج البلاغہ حکمت ۷۷وبحارالانوار ج۷۳ص۱۲۹۔

۱۷۳

بہت معمولی ،تیری آرزوئیں حقیر ہیں ،آہ، زاد راہ کس قدر کم اور راستہ کتنا طولانی ہے ''

آپ نے دنیاکے ان تینوں حقائق کو اس سے فریب کھانے والے شخص کے لئے واضح کردیا ہے کہ اسکی زندگی بہت مختصر اسکے خطرات زیادہ اور اسکی آرزوئیں حقیر ہیں ۔

اس بارے میں آپ کے یہ ارشادات بھی ہیں ۔

۱۔(ألاوان الدنیا دارغرّارة،خدّاعة، تنکح فی کل یوم بعلاً،وتقتل فی کل لیلة أهلاً،وتُفرّق فی کل ساعة شملاً )( ۱ )

''یاد رکھو یہ دنیا بہت پر فریب گھر ہے اور بیحد دھوکے باز(عورت کے مانند ہے جو) ہر روز ایک نئے شوہر سے نکاح کرتی ہے اوہر رات اپنے گھر والوں کوہلاک کرڈالتی ہے اور ہرساعت ایک قوم کو متفرق کرڈالتی ہے ''

۲۔(ان اقبلت غرّت،وان أدبرت ضرّت )( ۲ )

''اگریہ دنیا تمہاری طرف رخ کرے گی تو تمہیں فریب میں مبتلا کردیگی اور اگروہ تمہارے ہاتھ سے نکل گئی تونقصان دہ ہے ''

۳۔(الدنیا غرورحائل،وسراب زائل،وسنادمائل )( ۳ )

''دنیابدل جانے والا فریب، زائل ہوجانے والا سراب اور خم شدہ ستون ہے ''

۴۔دنیا کے ظاہر وباطن کی نقشہ کشی آپ نے ان الفاظ میں کی ہے :

(مثل الد نیا مثل الحیّة مسّها لیّن،وفی جوفهاالسم القاتل،یحذرها الرجال ذووالعقول،ویهوی الیهاالصبیان بأید یهم )( ۴ )

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۷ص۳۷۴۔

(۲)بحارالانوارج۷۸ ص۲۳۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۱۰۹۔

(۴) بحارالانوارج۷۸ص۳۱۱۔

۱۷۴

''یہ دنیا بالکل سانپ کی طرح ہے جو چھونے میں بہت نرم ہے مگراسکے اندر مہلک زہر بھرا ہوا ہے اہل عقل اس سے ڈرتے رہتے ہیں اور بچے اسے ہاتھ میں اٹھانے کیلئے جھک جاتے ہیں ''

اس قول میں امام نے بہت ہی حسین وجمیل انداز میں دنیا کے ظاہروباطن کو ایک دوسرے سے جدا کردیا ہے کہ اسکا ظاہر سانپ کی طرح جاذب نظراور چھونے پر بہت نرم معلوم ہوتا ہے لیکن اسکے باطن میں دھوکہ اور زوال ہی زوال ہے جیسے ایک سانپ کے منھ میں مہلک زہر بھرا رہتا ہے ۔

اسی طرح اس دنیا کی طرف دیکھنے والے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہیں :

اہل عقل اور صاحبان بصیرت اس سے خائف رہتے ہیں جس طرح انہیں سانپ سے خوف محسوس ہوتاہے ۔لیکن ان کے علاوہ بقیہ لوگ اس سے اسی طرح دھوکہ کھاجاتے ہیں جس طرح زہریلے سانپ کی چمکیلی اور نرم کھال دیکھ کر بچے دھوکہ کھاتے ہیں ۔

آپ کے ایک خطبہ کا ایک حصہ

''یہ ایک ایسا گھر ہے جو بلائوں میں گھرا ہوا ہے اور اپنی غداری میں مشہور ہے نہ اس کے حالات کو دوام ہے اور نہ اس میں نازل ہونے والوں کے لئے سلامتی ہے ۔

اسکے حالات مختلف اور اسکے طورطریقے بدلنے والے ہیں اس میں پر کیف زندگی قابل مذمت ہے اور اس میں امن وامان کا کہیں دو ر دور تک پتہ نہیں ہے ۔۔۔اسکے باشندے وہ نشانے ہیں جن پر دنیا اپنے تیر چلاتی رہتی ہے اور اپنی مدت کے سہارے انھیں فنا کے گھاٹ اتارتی رہتی ہے ۔

۱۷۵

اے بندگان خدا ،یاد رکھو اس دنیا میں تم اور جو کچھ تمہارے پاس ہے سب کا وہی راستہ ہے جس پر پہلے والے چل چکے ہیں جن کی عمریں تم سے زیادہ طویل اور جن کے علاقے تم سے زیادہ آبادتھے ان کے آثار بھی دور دور تک پھیلے ہوئے تھے لیکن اب ان کی آوازیں دب گئیں ہیں ان کی ہوائیں اکھڑگئیں ہیں ان کے جسم بوسیدہ ہوگئے ہیں ۔ان کے مکانات خالی ہوگئے ہیں اور ان کے آثار مٹ چکے ہیں وہ مستحکم قلعوں اور بچھی ہوئی مسندوں کو پتھروں اور چنی ہوئی سلوں اور زمین کے اندرقبروں میں تبدیل کرچکے ہیں جن کے صحنوں کی بنیاد تباہی پر قائم ہے اور جن کی عمارت مٹی سے مضبوط کی گئی ہے ۔ان قبروں کی جگہیں تو قریب قریب ہیں لیکن ان کے رہنے والے سب ایک دوسرے سے اجنبی اور بیگانہ ہیں ایسے لوگوں کے درمیان ہیں جو بوکھلائے ہوئے ہیں اور یہاں کے کاموں سے فارغ ہوکر وہاں کی فکر میں مشغول ہوگئے ہیں ۔نہ اپنے وطن سے کوئی انس رکھتے ہیں اور نہ اپنے ہمسایوں سے کوئی ربط رکھتے ہیں ۔حالانکہ بالکل قرب وجوار اور نزدیک ترین دیار میں ہیں ۔ اور ظاہر ہے اب ملاقات کا کیاامکان ہے جبکہ بوسیدگی نے انہیں اپنے سینہ سے دباکر پیس ڈالا ہے اور پتھروں اور مٹی نے انہیں کھاکر برابر کردیا ہے اور گویا کہ اب تم بھی وہیں پہونچ گئے ہو جہاں وہ پہونچ چکے ہیں اور تمہیں بھی اسی قبر نے گروی رکھ لیا ہے اور اسی امانت گا ہ نے جکڑلیا ہے ۔

ذرا سوچو اس وقت کیا ہوگا جب تمہارے تمام معاملات آخری حد تک پہنچ جائیںگے اور دوبارہ قبروں سے نکال لیا جائے گا اس وقت ہر نفس اپنے اعمال کا خود محاسبہ کرے گا اور سب کو مالک برحق کی طرف پلٹادیا جائے گا اور کسی پر کوئی افترا پر دازی کام آنے والی نہ ہوگی۔( ۱ )

سید رضی نے نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے کہ حضرت امیر المومنین نے شریح بن حارث سے فرمایا:

(بلغنی انّک ابتعت داراً بثمانین دیناراً،وکتبت لهاکتاباً، وأشهدت فیه شهوداً؟!)

مجھے اطلاع ملی ہے کہ تم نے اسی (۸۰) دینا ر میں ایک گھر خریدا ہے اور اسکے لئے باقاعدہ ایک بیع نامہ لکھ کر لوگوں کی گواہی بھی درج کی ہے ۔تو شریح نے عرض کی :اے امیر المومنین ۔جی ہاں: ایسا ہی ہے ۔تو آپ نے ان کی طرف غصہ بھری نظر وں سے دیکھ کرکہا ۔اے شریح عنقریب تمہارے پاس ایسا شخص آنے والا ہے جو نہ تمہارے اس بیع نامہ کو دیکھے گا اور نہ گواہوں کے بارے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۲۲۶۔

۱۷۶

میں تم سے کچھ سوال کرے گا اور وہ تمہیں اس گھر سے نکال کر تن تنہا تمہاری قبر کے حوالے کردیگا لہٰذا ۔ اے شریح۔کہیں ایسا نہ ہوکہ تم نے اس گھر کو اپنے مال سے نہ خریدا ہو اور ناجائز طریقے سے اسکے دام ادا کئے ہوں۔اگر ایسا ہواتو تم دنیا اورآخرت دونوں جگہ گھاٹے میں ہو ۔کاش تم یہ گھر خریدنے سے پہلے میرے پاس آجاتے تو میں تمہارے لئے ایک دستاویز تحریر کردیتا تو تم ایک درہم میں بھی یہ گھر نہ خریدتے ۔

میں اسکی دستاویز اس طرح لکھتا :

یہ وہ مکان ہے جسے ایک بندئہ ذلیل نے اس مرنے والے سے خریداہے جسے کوچ کے لئے آمادہ کردیا گیا ہے ۔یہ مکان پر فریب دنیا میں واقع ہے جہاں فنا ہونے والوں کی بستی ہے اور ہلاک ہونے والوں کا علاقہ ہے ۔اس مکان کے حدود اربعہ یہ ہیں ۔

ایک حد اسباب آفات کی طرف ہے اور دوسری اسباب مصائب سے ملتی ہے تیسری حد ہلاک کردینے والی خواہشات کی طرف ہے اور چوتھی گمراہ کرنے والے شیطان کی طرف اور اسی طرف سے گھر کا دروازہ کھلتا ہے ۔

اس مکان کو امیدوں کے فریب خوردہ نے اجل کے راہ گیر سے خریدا ہے جس کے ذریعہ قناعت کی عزت سے نکل کر طلب وخواہش کی ذلت میں داخل ہوگیا ہے ۔اب اگر اس خریدار کو اس سودے میں کوئی خسارہ ہوتو یہ اس ذات کی ذمہ داری ہے جو بادشاہوں کے جسموں کو تہ وبالا کرنے والا، جابروں کی جان لینے والا،فرعونوں کی سلطنت کوتباہ کردینے والا،کسریٰ وقیصر ،تبع وحمیر اور زیادہ سے زیادہ مال جمع کرنے والوں،مستحکم عمارتیں بناکر انھیں سجانے والوں،ان میں بہترین فرش بچھانے والوں اور اولاد کے خیال سے ذخیرہ کرنے والوں اور جاگیریں بنانے والوں کو فناکے گھاٹ اتار دینے والا ہے ۔کہ ان سب کو قیامت کے میدان حساب اور منزل ثواب و عذاب میں حاضر کردے جب حق وباطل کا حتمی فیصلہ ہوگا اور اہل باطل یقیناخسارہ میں ہونگے۔

۱۷۷

اس سودے پر اس عقل نے گواہی دی ہے جو خواہشات کی قید سے آزاد اور دنیا کی وابستگیوں سے محفوظ ہے ''( ۱ )

دنیا کے بارے میںآپ نے یہ بھی فرمایا ہے :

یاد رکھو:اس دنیا کا سرچشمہ گندہ اور اسکا گھاٹ گندھلاہے ،اسکا منظر خوبصورت دکھائی دیتا ہے لیکن اندر کے حالات انتہائی درجہ خطرناک ہیں ،یہ ایک فنا ہوجانے والا فریب، بجھ جانے والی روشنی ،ڈھل جانے والا سایہ اور ایک گر جانے والا ستون ہے ۔جب اس سے نفرت کرنے والا مانوس ہوجاتا ہے اور اسے برا سمجھنے والا مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اچانک اپنے پیروں کو پٹکنے لگتی ہے اور عاشق کو اپنے جال میں گرفتار کرلیتی ہے اور پھر اپنے تیروں کا نشانہ بنالیتی ہے انسان کی گردن میں موت کا پھندہ ڈال دیتی ہے اور اسے کھینچ کر قبر کی تنگی اور وحشت کی منزل تک لے جاتی ہے جہاں وہ اپنا ٹھکانہ دیکھ لیتا ہے اور اپنے اعمال کا معاوضہ حاصل کرلیتا ہے اور یوں ہی یہ سلسلہ نسلوں میں چلتا رہتا ہے کہ اولاد بزرگوں کی جگہ پر آجاتی ہے نہ موت چیرہ دستیوں سے بازآتی ہے اور نہ آنے والے افراد گناہوں سے باز آتے ہیں پرانے لوگوں کے نقش قدم پر چلتے رہتے ہیں اور تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل انتہا ء وفنا کی طرف بڑھتے رہتے ہیں ۔( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایا ہے :

''میں اس دار دنیاکے بارے میں کیا بیان کروں جسکی ابتداء رنج وغم اور انتہا فنا ونابودی ہے

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۳۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ۸۳۔

۱۷۸

اسکے حلال میں حساب ہے اور حرام میںعذاب،جو اس میں غنی ہوجائے وہ آزمائشوں میں مبتلا ہوجائے ۔ اور جو فقیر ہوجائے وہ رنجیدہ و افسردہ ہوجائے ۔جو اسکی طرف دوڑلگائے اسکے ہاتھ سے نکل جائے اور جو منھ پھیر کر بیٹھ رہے اسکے پاس حاضر ہوجائے جو اسکو ذریعہ بناکر آگے دیکھے اسے بینابنادے اور جو اسے منظور نظر بنالے اسے اندھا بنادے ''( ۱ )

اپنے دور خلافت سے پہلے آپ نے جناب سلمان فارسی کو اپنے ایک خط میں یہ بھی تحریر فرمایا تھا ۔اما بعد :اس دنیا کی مثال صرف اس سانپ جیسی ہے جو چھونے میں انتہائی نرم ہوتا ہے لیکن اسکا زہر انتہائی قاتل ہوتا ہے اس میں جو چیز اچھی لگے اس سے بھی کنارہ کشی اختیار کرو۔کہ اس میں سے ساتھ جانے والا بہت کم ہے ۔اسکے ہم وغم کو اپنے سے دور رکھو کہ اس سے جدا ہونا یقینی ہے اور اسکے حالات بدلتے ہی رہتے ہیں ۔اس سے جس وقت زیادہ انس محسوس کرو اس وقت زیادہ ہوشیار رہو کہ اسکا ساتھی جب بھی کسی خوشی کی طرف سے مطمئن ہوجاتا ہے تو یہ اسے کسی ناخوشگواری کے حوالے کردیتی ہے اور انس سے نکال کرو حشت کے حالات تک پہونچادیتی ہے ۔والسلام ''( ۲ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

آگاہ ہوجائو دنیا جارہی ہے اور اس نے اپنی رخصت کا اعلان کردیا ہے اور اسکی جانی پہچانی چیزیں بھی اجنبی ہوگئی ہیں وہ تیزی سے منھ پھیر رہی ہے اور اپنے باشندوں کو فنا کی طرف لی جارہی ہے اور اپنے ہمسایوں کو موت کی طرف ڈھکیل رہی ہے اسکی شیرینی تلخ ہوچکی ہے اور اسکی صفائی ہوچکی ہے اب اس میں صرف اتنا ہی پانی باقی رہ گیا ہے جو، تہ میں بچاہوا ہے اور وہ نپا تلا گھونٹ رہ گیا ہے جسے پیاسا پی بھی لے تو اسکی پیاس نہیں بجھ سکتی ہے لہٰذا بند گان خدا اب اس دنیا سے کوچ کرنے کا ارادہ کرلو جسکے رہنے والوں کا مقدر زوال ہے اور خبردار: تم پر خواہشات غالب نہ آنے پائیں اور اس

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۸۲۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب۶۸۔

۱۷۹

مختصر مدت کو طویل نہ سمجھ لینا''( ۱ )

دنیا کے بارے میں آپ نے یہ بھی فرمایاہے :

میں تم لوگوں کو دنیا سے ہوشیار کر رہا ہوں کہ یہ شیریں اور شاداب ہے لیکن خواہشات میں گھری ہو ئی ہے اپنی جلد مل جانے والی نعمتوں کی بنا پر محبوب بن جاتی ہے اور تھوڑی سی زینت سے خوبصورت بن جاتی ہے یہ امیدوں سے آراستہ ہے اور دھوکہ سے مزین ہے۔نہ اس کی خو شی دائمی ہے اور نہ اس کی مصیبت سے کو ئی محفوظ رہنے والا ہے یہ دھوکہ باز ،نقصان رساں ،بدل جانے والی ،فنا ہو جانے والی ،زوال پذیراور ہلاک ہو جانے والی ہے ۔یہ لوگوں کو کھا بھی جاتی ہے اور مٹا بھی دیتی ہے ۔

جب اسکی طرف رغبت رکھنے والوں اور اس سے خوش ہو جانے والوںکی خواہشات انتہاء کو پہونچ جاتی ہے تویہ بالکل پروردگار کے اس ارشاد کے مطابق ہو جاتی ہے :

(کمائٍ أنزلناه من السماء فاختلط به نبَات الأرض فأصبح هشیماً تذروه الریاح وکان ﷲ علیٰ کل شیئٍ مقتدرا )( ۲ )

''یعنی دنیا کی مثال اس پانی کے جیسی ہے جسے ہم نے آسمان سے نازل کیا اور اسکے ذریعہ زمین کے سبزہ مخلوط(ہوکر روئیدہ)ہوئے وہ سبزہ سوکھ کر ایسا تنکا ہوگیا جسے ہوائیں اڑالے جاتی ہیں اور اللہ ہر شئے پر قدرت رکھنے والا ہے ''

اس دنیا میں کو ئی شخص خوش نہیں ہوا ہے مگر یہ کہ اسے بعد میں آنسو بہانا پڑے اور کوئی اس کی خوشی کو آتے نہیں دیکھتا ہے مگر یہ کہ وہ مصیبت میں ڈال کر پیٹھ دکھلا دیتی ہے اور کہیں راحت وآرام کی ہلکی بارش نہیں ہوتی ہے مگر یہ کہ بلائوں کا دو گڑا گرنے لگتا ہے ۔اس کی شان ہی یہ ہے کہ اگر صبح کو کسی طرف سے بدلہ لینے آتی ہے تو شام ہوتے ہوتے انجان بن جاتی ہے اور اگر ایک طرف سے

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۵۲۔

(۲)سورئہ کہف آیت۴۵۔

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349