خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 113307
ڈاؤنلوڈ: 2557

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113307 / ڈاؤنلوڈ: 2557
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

جانے والے !تو اسی سے دھوکا بھی کھاتا ہے اور اسکی مذمت بھی کرتا ہے ؟یہ بتائو کہ تجھے اس پر الزام لگانے کا حق ہے یا اسے تجھ پر الزام لگانے کا حق ہے ؟آخر اس نے کیا تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟کیا تیرے آبا ء و اجداد کی کہنگی کی بناء پر گرنے سے دھوکا دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیر خاک خواب گاہ سے دھوکا دیا ہے ؟کتنے بیمار ہیںجن کی تم نے تیمار داری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے انکا علاج کیا ہے اور چاہاکہ وہ شفا یاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے ۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچارہا تھا۔نہ تمہاری ہمدردی کسی کوکوئی فائدہ پہنچاسکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہوسکا اور نہ تم موت کو دفع کرسکے۔اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمھیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا (لیکن تمھیں ہوش نہ آیا)یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر اور سمجھ دار کے لئے امن وعافیت کی منزل اور نصیحت حاصل کرنے والے کیلئے نصیحت کا مقام ہے ۔یہ دوستان خدا کے لئے سجود کی منزل اور ملائکہ ٔ آسمان کا مصلی ہے یہیں وحی الٰہی کانزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیںجس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں کسے حق ہے کہ اسکی مذمت کرے جبکہ اس نے اپنی جدائی کا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاسے ان کے ابتلا کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرور سے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے ۔اسکی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میںرغبت بھی پیدا ہو اور خوف بھی ۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے ۔کچھ لوگ ندامت کی صبح اسکی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اسکی تعریف کریں گے۔جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انھوںنے اسے قبول کرلیا اس نے حقائق بیان کئے تو اسکی تصدیق کردی اور موعظہ کیا تو اسکے موعظہ سے اثر لیا''

۲۶۱

۹۔دنیا بازار ہے

حضرت امام علی نقی نے فرمایا ہے :

(الدنیا سوق ربح فیها قوم وخسرآخرون )( ۱ )

''دنیا ایک بازار ہے جہاںایک قوم فائدہ میں ہے اوردوسری قوم خسارہ میں ''

۱۰۔دنیا آخرت کے لئے مددگار ہے ۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(نعم العون الد نیا علیٰ الآخرة )( ۲ )

''دنیا آخرت کے لئے بہترین مددگار ہے ''

۱۱۔دنیا ذخیرہ (خزانہ )ہے ۔

امیر المومنین کا ارشاد ہے :

(الدنیا ذخر والعلم دلیل )( ۳ )

''دنیا خزانہ ہے اور علم رہنما''

۱۲۔دنیا دارالمتقین ہے ۔

قول پروردگار ''ولنعم دارالمتقین''کی تفسیر کے ذیل میںامام محمد باقر نے فرمایا کہ:

''اس سے مراد ''دنیا ''ہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۳۶۶۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۷۔

(۳)غررالحکم۔

۲۶۲

۱۳۔دنیاکا ماحصل آخرت ۔

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(بالدنیا تحرز الآخرة)( ۱ )

'' دنیاکے ذریعہ آخرت حاصل کی جاتی ہے''

اس طرح اسلام کی نگاہ میں دنیا قابل مدح وستائش، اولیائے الٰہی کی محل تجارت ،محبان خدا کی مسجد ،آخرت تک رسائی کا ذریعہ اور مومنین کے لئے زاد آخرت حاصل کرنے کا مقام ہے لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ جب دنیا سے عبرت و نصیحت حاصل کی جائے لیکن اگر دنیا کومنظورنظر بنا لیا جائے تو پھر یہی دنیا انسان کو اندھا بنا دیتی ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

منقول ہے کہ جب آپ نے یہ فرمایا :

(أیهاالذام الدنیا أنت المتجرّم علیها أم هی المتجرّمه علیک؟قال قائل: بل أناالمتجرّم علیهایاامیرالمؤمنین فقال:''فلم ذممتها؟ألیست دارصدق لمن صدقها؟ )( ۲ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے!تو نے اسکے اوپر تہمت لگائی ہے یا اس نے تیرے اوپر تہمت لگائی ہے ؟''تو اس شخص نے کہا :اے امیر المومنین میں نے اس پر تہمت لگائی ہے! تو آپ نے فرمایا :

''تو پھرتم دنیا کی کیوں مذمت کرتے ہو؟کیا یہ دنیا تصدیق کرنے والوں کیلئے دار صدق نہیں ہے ''

____________________

(۱) بحارالانوارج ۶۷ص۶۷۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ ص۷ ۱۔

۲۶۳

ج۔اسکے دل کو اسکا دلدادہ بنا دونگاجرم اور سزا کے درمیان تبادلہ

''اور اسکے دل کو دنیا سے وابستہ کردوں گا'' یہ ان لوگوں کی تیسری سزا ہے جو خدا سے منھ موڑ کر اپنی خواہشات کی جانب دوڑتے ہیں یہاں سزا اور جرم ایک ہی طرح کے ہیں ۔اور جب جرم وسزا کی نوعیت ایک ہوتی ہے تو وہ کوئی قانونی سزا نہیں بلکہ''تکوینی''سزا ہوتی ہے اور تکوینی سزا زیادہ منصفانہ ہوتی ہے اور اس سے بچنے کا امکان بھی نہیں ہوتا ۔ جرم یہ ہے کہ انسان خدا کو چھوڑکر خواہشات سے دل لگارہاہے اور سزا بھی ایسی ہی ہے یعنی خدا بندہ کو دنیا میں ہی مشغول کردیتا ہے ''واشغلت قلبہ بھا ''

اس طرح جرم و سزا میںدو طرفہ رابطہ ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں خدا کو چھوڑکر''خواہشات میں الجھنے''کی سزا ''دنیا میں الجھنا ''ہے اس سزا سے جرم میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جرم میں اضافہ ،مزید سزا کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ سزا وہی ملتی ہے جو جرم کیا ہے بلکہ خود سزا جرم کو بڑھاتی ہے اور اسے شدید کردیتی ہے نتیجتاً انسان کچھ اورشدید سزا کا مستحق ہوجاتا ہے ۔

انسان جب پہلی مرتبہ جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسکے پاس گناہوں سے اجتناب اور سقو ط وانحراف سے بچانے والی خدا داد قوت مدافعت کا مکمل اختیارہوتا ہے لیکن جب گناہوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور انسان اپنے نفس کو نہیں روکتا تو خدا بھی سزا کے طورپراسے اسی جرم کے حوالہ کردیتا ہے اوراس سے گناہوں سے اجتناب کرنے اور نفس پر تسلط قائم رکھنے کی فطری اور خدا داد صلاحیت کوسلب کرلیتا ہے ۔

اور سزا کا درجہ جتنا بڑھتا جاتا ہے انسان اتنا ہی جرم کے دلدل میں پھنستا رہتا ہے ،اپنے نفس پر اسکی گرفت کمزور ہوتی رہتی ہے اور گناہوں سے پرہیز کی صلاحیت دم توڑتی جاتی ہے یہاں تک کہ خداوند عالم اس سے گناہوں سے اجتناب کی فطری صلاحیت اور نفس پر تسلط و اختیار کو مکمل طریقہ سے سلب کرلیتا ہے ۔

۲۶۴

اس مقام پر یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہئیے کہ جب مجرم کے پاس نفس پر تسلط اور گناہوں سے اجتناب کی صلاحیت بالکل ختم ہوگئی اور گویا اسکا اختیار ہی ختم ہوگیا تو اب سزا کیسی ؟یہ خیال ناروا ہے اس لئے کہ ابتداء میں مجرم نے جب جرم کا ارتکاب کیا تھا اس وقت تواسکے پاس یہ صلاحیت اور نفس کے اوپر تسلط بھرپور طریقہ سے موجودتھا اور وہ مکمل اختیار کا مالک تھا جو شخص اپنے ہاتھوں دولت اختیار ضائع کردے اسے بے اختیار نہیں کہاجاتا جیسے بلندی سے کود نے والا گرنے کے بعد یقینابے اختیار ہوجاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص خود جان بوجھ کربلندی سے چھلانگ لگائے تو اسکے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بے اختیار ہے اوراسکے پاس بچنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔

دنیاداری کے دورخ یہ بھی!

جب انسان دنیا داری میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس کا پہلا اثر اور ایک رخ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سارا ہم وغم اسکی دنیا ہی ہوتی ہے اور یہ کیفیت ایک خطرناک بیماری کی شکل اختیار کرکے قلب انسانی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک دعا میں منقول ہے :

(اللّهم أقسم لنامن خشیتک مایحول بیننا وبین معاصیک،ولاتجعل الدنیا أکبرهمنا،ولامبلغ علمنا )( ۱ )

''پروردگارا! ہمیںوہ خوف وخشیت عطا فرما جو ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل

____________________

(۱)بحارالانوارج۹۵ص۳۶۱۔

۲۶۵

ہوجائے اور ہمارے لئے دنیا کو سب سے بڑا ہم وغم اور ہمارے علم کی انتہا قرار مت دینا ''

اگرانسان دنیاوی معاملات کو اہمیت دے تواس میں کوئی قباحت نہیں لیکن دنیا کو اپنا

سب کچھ قرار دینااور اسکو اپنے قلب کا حاکم اور زندگی کا مالک تسلیم کرلینا غلط ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنے اشاروں پر انسان کو نچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ صورت حال قلب کے لئے بیمار ی کا درجہ رکھتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ کے نا م اپنی وصیت میں فرمایاہے :

(ولا تکن الدنیا أکبرهمک )( ۱ )

''دنیا تمہارا سب سے بڑا ہم وغم نہ ہونے پائے ''

دنیا داری میں مشغول ہونے کامنفی رخ یہ ہے کہ خدا سے انسان کا تعلق ختم ہوجاتا ہے ۔ معاملات دنیا میں کھوجانے کا مطلب خدا سے قطع تعلق کرلینا ہے اورفطری بات ہے کہ جب انسان کا ہم وغم اسکی دنیا ہوگئی تو پھر انسان کے ہر اقدام کا مقصد دنیا ہوگی نہ کہ رضائے الٰہی ،اس طرح انسانی قلب پر دنیا کے دریچے جس مقدار میں کھلتے جائیں گے اسی مقدار میں الٰہی دریچے بند ہوتے جائیں گے لہٰذا اگر انسان کی نگاہ میںدنیاوی کاموں کی سب سے زیادہ اہمیت ہوگی تو خدا کی جانب تو جہ کمترین درجہ تک پہونچ جائے گی ۔اور جب سب ہم وغم اور فکر وخیال دنیا کے لئے ہوجائے گا تو یہ کیفیت در حقیقت گذشتہ صورت حال کا نتیجہ اور قلب انسانی کی بدترین بیماری ہے ۔

قرآن کریم نے اس خطرناک بیماری کو متعدد مقامات پر مختلف عناوین کے ذریعہ بیان کیا ہے ۔ہم یہاں پر آیات قرآن کے ذیل میں چند عناوین کا تذکرہ کررہے ہیں :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۴۲ص۲۰۲۔

۲۶۶

دل کے اوپر خدائی راستوں کی بندش کے بعض نمونے

۱۔غبار اور زنگ

( کلا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۱ )

''نہیں نہیں بلکہ انکے دلو ں پر انکے (برے )اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ''

راغب اصفہانی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ''ان کے دلوں کی چمک دمک زنگ آلودہوگئی لہٰذا وہ خیروشرکی پہچان کرنے سے بھی معذورہوگئے ہیں۔

۲۔الٹ،پلٹ

یہ ایک طرح کا عذاب ہے جس میں خدا، غافل دلوں کو اپنی یاد سے دور کردیتا ہے جیسا کہ ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

( صرف ﷲ قلو بهم بأنهم قوم لایفقهون ) ( ۲ )

''تو خدا نے بھی انکے قلوب کو پلٹ دیا ہے کہ وہ سمجھنے والے لوگ نہیں ہیں ''

۳۔زنگ یامُہر

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( ونطبعُ علیٰ قلوبهم فهم لایسمعون ) ( ۳ )

''ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں اور پھر انھیں کچھ سنائی نہیں دیتا ''

____________________

(۱)سورئہ مطففین آیت۱۴۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۱۲۷۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۱۰۰۔

۲۶۷

یعنی ان کو غیر خدائی ر نگ میںرنگ دیاہے اور وہ ہویٰ وہوس اور دنیا کا رنگ ہے ۔

۴۔مہُر

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( ختم ﷲ علیٰ قلوبهم وعلیٰ سمعهم وعلیٰ أبصارهم غشاوة ) ( ۱ )

''خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر بھی پر دے پڑگئے ہیں ''

ختم(مہر)طبع (چھاپ لگنے)سے زیادہ محکم ہوتی ہے کیونکہ کسی چیز کومُہر کے ذریعہ سیل بند کردینے کو ''ختم''کہتے ہیں ۔

۵۔قفل

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( أفلا یتد بّرون القرآن أم علیٰ قلوب أقفالها ) ( ۲ )

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ''

۶۔غلاف

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( وقالوا قلوبنا غُلْف بل لعنهم ﷲ بکفرهم ) ( ۳ )

''اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بیشک ان کے کفر کی بنا

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۷۔

(۲) سورئہ محمدآیت ۲۴۔

(۳)سورئہ بقرہ آیت ۸۸۔

۲۶۸

پر، ان پر ﷲکی مار ہے ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہے :

( وقولهم قلوبناغلف بل طبع ﷲ علیهابکفرهم ) ( ۱ )

''اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلو ں پر فطرتا غلاف چڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ خدانے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے ''

۷۔پردہ

ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

( وقالوا قلوبنافی أکنّة مماتدعونا الیه وفی آذاننا وقر ) ( ۲ )

''اور وہ کہتے ہیں کہ تم جن باتوں کی طرف دعوت دے رہے ہو ہمارے دل ان کی طرف سے پردہ میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بہرا پن ہے ''

دوسری جگہ ارشاد ہے :

( وجعلناعلیٰ قلوبهم أکنّة أن یفقهوه وفی آذانهم وقراً ) ( ۳ )

''لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پرد ے ڈال دئے ہیں ۔وہ سمجھ نہیں سکتے ۔اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے ''

۸۔سختی

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ نساء آیت ۱۵۵۔

(۲)سورئہ فصلت آیت ۵۔

(۳)سورئہ انعام آیت ۲۵۔

۲۶۹

( ربنا اطمس علیٰ أموالهم واشد د علیٰ قلوبهم ) ( ۱ )

''خدا یا ان کے اموال کو برباد کردے اوران کے دلوں پر سختی فرما''

۹۔قساوت

( فویل للقاسیة قلوبهم من ذکرﷲ ) ( ۲ )

''افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا ( کینہ کرنے )سے سخت ہوگئے ہیں ''

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( فطال علیهم الأمد فقست قلوبهم ) ( ۳ )

''تو ایک عرصہ گذرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے ''

یہ انسانی دل کے اتار،چڑھائو،اور بند ہونے یا ذکر خدا سے روگرداںہونے کی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن مجید نے مختلف انداز سے ذکر کیا ہے ۔

دنیا قید خانہ کیسے بنتی ہے ؟

جب قلب انسانی پر الٰہی راستہ مکمل طریقہ سے بند ہوجائے تو یہی دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے انسان پر ہوس اس طرح غالب آجاتی ہے کہ اس کے لئے رہائی حاصل کرنا ممکن نہیں رہ جاتا ۔کیونکہ قیدخانہ کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نکلنا ممکن نہیںہوتا اور اسکی حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں یہی حالت اس وقت ہوتی ہے کہ جب دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے کہ انسان اسی میں مقید ہوکررہ جاتا ہے حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں اور اس سے ہرطرح کی آزادی سلب ہوجاتی ہے اور وہ اسکے

____________________

(۱)سورئہ یونس آیت ۸۸۔

(۲)سورئہ زمر آیت ۲۲۔

(۳)سورئہ حدیدآیت۱۶۔

۲۷۰

لئے اہتمام اوراسکی حرص ولالچ کی بناپر خداوند عالم سے بالکل الگ ہوجاتا ہے ۔یہی تفصیلات روایات میں بھی وارد ہو ئی ہیں۔حضرت امام محمد باقر کی دعا کا فقرہ ہے:

(ولاتجعل الدنیا علیّ سجناً )( ۱ )

'' دنیا کو میرے لئے قید خانہ قرارمت دینا ''

حضرت امام جعفر صادق کی دعا ہے :

(ولاتجعل الدنیاعلیّ سجناً،ولا تجعل فراقها لی حزناً )( ۲ )

''دنیا کو میرے لئے قید خانہ اور اس کے فراق کو میرے لئے حزن و ملال کا باعث مت قرار دینا ''

یہ بالکل عجیب و غریب بات ہے کہ قیدی پر قیدخانہ کا فراق گراں گذر رہا ہے اور وہ رہائی پانے کے بعد حزن و ملال میں مبتلا ہے ؟اس کا راز یہ ہے کہ یہ قید خانہ دو سرے قید خانوں کے مانند نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ایسا قید خانہ ہے کہ انسان اس سے انس و الفت کی وجہ سے خود اپنے آپ کوقیدی بناتا ہے چونکہ خود قید کو اختیار کرتا ہے لہٰذا وہ اس سے جدائی گوارا نہیں کرتا اور اگر اسے قید سے جدا کردیا جائے تواس رہا ئی سے اسے حزن وملال ہوتا ہے اور قید کا فراق اس کیلئے دشوار اور باعث زحمت ہو تا ہے ۔

جب انسان اپنا اختیار دنیا کے حوالے کر دیتا ہے تو دنیا اسے کیکڑے کے مانند اپنے چنگل میں د بوچ کر اس کے ہاتھ اور پیر وںکوجکڑ دیتی ہے اور اس کی حرکتوں کو مقید و محدود کرکے اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد گرا می ہے :

(ان الدنیا کالشبکة تلتفّ علیٰ من رغب فیها )

''دنیا جال کے مانند ہے جو اس کی طرف راغب ہو گا اسی میںالجھتا جا ئے گا ''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۹۷ص۳۷۹۔

(۲)بحارالانوار ج۹۷ص۳۳۸۔

(۳)غررالحکم۔

۲۷۱

آپ کا یہ قول ہمارے سامنے ایک بار پھر قید خانہ اور قیدی کے تعلق اور رابطہ کو اجا گر کرتا ہے ''تلتف علیٰ من رغب فیھا ''جو اسکی طرف راغب ہوا وہ اسی پر لپٹتا چلاجائے گا۔

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(من أحبّ الدینار والدرهم فهوعبد الدنیا )( ۱ )

''جو درہم و دینار سے محبت کرتا ہے وہ دنیا کا غلام ہے ''

اہل دنیا

کچھ افراد دنیا دارہو تے ہیں اور کچھ '' اہل آخرت ''دنیا داروہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی کو دائمی زندگی سمجھ کراسی کے دلداہ ہو تے ہیںاور دنیا کی فرقت انھیں اسی طرح نا گوار ہو تی ہے جیسے انسان کو اپنے اہل و عیال کی جدائی برداشت نہیں ہو تی ہے ۔

اہل آخرت ،دنیا میں اسی طرح رہتے ہیں جیسے دوسرے رہتے ہیں ۔اوردنیا کی حلال لذتوں سے ایسے ہی لطف اندوز ہو تے ہیں جیسے دوسرے ان سے مستفیدہو تے ہیں بس فرق یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو دا ئمی زند گی مان کر اس سے دلبستگی کا شکار نہیں ہو تے ۔ایسے افراد درحقیقت '' اہل ﷲ '' ہو تے ہیں ۔

اہل آخرت اوردنیا داروںکے صفات ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔چنانچہ حدیث معراج میں دنیا داروںکے صفات یوں نظر آتے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

ٔهل الدنیا من کثر أ کله وضحکه ونومه وغضبه،قلیل الرضا،لایعتذر الیٰ من أساء الیه،ولایقبل معذرة من اعتذرالیه،کسلان عند الطاعة ۔)( ۲ )

'' دنیاداروں کی غذا ،ہنسی ، نیند ،اور غصہ زیادہ ہو تا ہے ۔یہ لوگ بہت کم راضی ہو تے ہیں،

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۳ ص۲۲۵ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۷ص ۲۴۔

۲۷۲

جس کے ساتھ ناروابرتائو کرتے ہیں اس سے معذرت نہیں کرتے ۔کو ئی ان سے معذرت کاخواہاں ہو تو اس کی معذرت کو قبول نہیں کرتے، اطاعت کے مو قع پر سست اور معصیت کے مقام پر بہادر ہو تے ہیں ان کے یہاں امن مفقود اور موت نزدیک ہو تی ہے ۔کبھی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے ، ان کے یہاں منفعت برائے نام ،باتیں زیادہ اور خوف کم ہو تا ہے یقینادنیا دارنہ آسا ئشوں میں شکر خدا کرتے ہیں اور نہ ہی مصیبت کی گھڑی میں صبر ۔جو کام انجام نہیں دیتے اس پر اپنی تعریف کرتے ہیں ، جو صفا ت ان میں نہیں پائے جاتے ان کے بھی مد عی ہوتے ہیں،جو دل میں آتا ہے بول دیتے ہیں لوگوں کے عیوب تو ذکر کرتے ہیں مگر ان کی خوبیاںبیان نہیں کرتے ''

دنیادار دنیا سے سکون حاصل کرتے ہیں اسی سے مانوس ہو تے ہیں اور اسی کو اپنا دائمی مستقر سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا ''دارالقرار ''نہیں ہے ۔چنانچہ جب کوئی انسان اس سے مانوس ہوکر تسکین قلب حاصل کرلے تو وہ فریب دنیا کے شرک میں مبتلاہوجاتا ہے کیونکہ وہ اسے دارالقرار سمجھتے ہیں جبکہ وہ ایسی نہیں ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی فر ماتے ہیں :

(واعلم انک انماخُلقت للآخرة لا للدنیا،وللفناء لاللبقائ،وللموت لاللحیاة،وأنک فی منزل قلعة وداربلغة،وطریق الیٰ الآخرة وایاک أن تغترّبما تریٰ من اخلادأهل الدنیاالیها،وتکالبهم علیها،فقدنبّأک ﷲعنها،ونَعَتْلک نفسها،وتکشّفت لک عن مساویها )( ۱ )

''۔۔۔اوربیٹا!یادرکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایاگیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ،تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۷۳

لئے نہیں تم اس گھر میں ہوجہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے اور تم آخرت کے راستہ پر ہو ۔۔۔اور خبر داردنیاداروں کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پر مرتے دیکھ کر تم دھوکے میں نہ آجاناکہ پروردگار تمہیں اسکے بارے میں بتاچکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سناچکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کرچکی ہے ۔۔۔''

دنیا کابہروپ

یہ ایک بہروپ ہی ہے کہ انسان دنیا کو دارالقرار سمجھ کر اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور اس سے دل لگا بیٹھتا ہے حالانکہ دنیا صرف ایک گذر گاہ ہے ۔نہ خوددنیا کو قرار ہے اورنہ ہی دنیا میںکسی کیلئے قرار ممکن ہے ۔یہاں انسان کی حیثیت مسافر کی سی ہے کہ جہاں چند دن گذار کر آخرت کے لئے روانہ ہوجاتا ہے تعجب ہے کہ اس کے باوجودبھی انسان اسی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور اسے دائمی قیام گاہ مان لیتا ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(کن فی الدنیاکانک غریب،أوکأنک عابرسبیل )( ۱ )

''دنیا میںایک مسافر کی طرح رہو جیسے کہ راستہ طے کر رہے ہو ''

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(أیهاالناس انّماالدنیادارمجاز،والآخرةدارقرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم )( ۲ )

'' اے لوگو !یہ دنیا ایک گذرگاہ ہے قرار کی منزل آخرت ہی ہے لہٰذا اسی گذرگاہ سے وہاں کا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ ص۹۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۳۔

۲۷۴

سامان لے کر آگے بڑھو جو تمہارا دار قرار ہے ''

اس مسئلہ پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔جو انسان راستہ سے گذر تار ہے وہ کبھی راستہ کا ہو کر نہیں رہ جاتا اسکے برخلاف گھر میں رہنے والے انسان کو گھر سے محبت ہو تی ہے اور آدمی گھر کا ہوتا ہے اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا ایک معرکة ا لآرا جملہ نقل کیا جاتا ہے حضرت عیسیٰ نے فر مایا ہے :

(من ذا الذی یبنی علیٰ موج البحرداراً،تلکم الدنیا فلا تتخذوها قراراً )( ۱ )

''سمندر کی لہروں پر کون گھر بناتا ہے ؟دنیا کا بھی یہی حال ہے لہٰذا دنیا کو قرار گاہ مت بنائو ''

جیسے سمند ر کی لہروں کو قرار و بقا نہیں ہے ایسے ہی دنیا بھی ہے۔توپھر نفس اس سے کیسے سکون حاصل کر سکتا ہے اوراسے کیسے دائمی تسلیم کر سکتا ہے کیا واقعا کو ئی انسان سمندر کی لہروں کے اوپراپنا گھر بنا سکتا ہے ؟

روایت ہے کہ جناب جبرئیل نے حضرت نوح سے سوال کیا :

(یا أطول الانبیاء عمراً،کیف وجدت الدنیا؟قال:کدار لها بابان،دخلت من أحدهما،وخرجت من الآخر )( ۲ )

''اے طویل ترین عمر پانے والے نبی خدا، آپ نے دنیا کو کیسا پایا ؟حضرت نوح نے جواب دیا ''ایک ایسے گھر کی مانند جس میں دو دروازے ہوں کہ میں ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے باہر نکل آیا ''

عمر کے آخری حصہ میں شیخ الانبیائ(حضرت نوح ) کا دنیا کے بارے میں یہ احساس در اصل اس شخص کا صادقانہ احساس ہے کہ جو فریب دنیا سے محفوظ رہا ہو ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۲۶۔

(۲)میزان الحکمت ج۳ ص۳۳۹۔

۲۷۵

لیکن اگر انسان دنیا سے مانوس ہو جا ئے اور دنیا اس کے لئے وجہ سکون بن جائے تو پھر یہ احساس تبدیل ہو جاتا ہے اور دنیا اس کو اپنے جال میں الجھا لیتی ہے انسان فریب دنیا کا شکار ہو کر شرک دنیا میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔یہ '' ان دنیا داروں''کا حال ہو تا ہے جن کے خیال خام میں دنیا دارالقرار اور وجہ سکون ہے۔

۲۷۶

تیسری فصل

جو شخص خداوند عالم کی مرضی کو

اپنی خواہشات کے اوپر ترجیح دیتا ہے

گذشتہ فصل میں ہم نے ''اپنی خواہش کو خدا کی مرضی کے اوپر ترجیح دینے والے شخص کے بارے میں ''تفصیلی گفتگو کی ہے اور اب انشاء ﷲ''خدا کی مرضی کو اپنی مرضی پر ترجیح دینے والے کے بارے میں ''گفتگو کریں گے ۔لیکن اصل بحث چھیڑنے سے پہلے ہم ان تمام روایات کوان کے حوالوں کے ساتھ بیان کر رہے ہیں جن میں اس حدیث قدسی کا تذکرہ ہے ۔

شیخ صدوق(رح)نے اپنی کتاب''خصال''میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا کہ :

(ان ﷲعزوجل یقول:بجلالی وجمالی وبهائی وعلا ئی وارتفاعی لایؤثر عبد هوای علیٰ هواه الاجعلت غناه فی نفسه،وهمّه فی آخرته،وکففت عنه ضیعته،وضمنت السموات والارض رزقه،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر )( ۱ )

خداوند عالم کا ارشاد ہے :''میرے جلال وجمال،حسن ،ارتفاع اوربلندی کی قسم کوئی بندہ اپنی خواہش پر میری مرضی کو ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اسکے نفس کے اندر استغناپیدا کردوںگا اور اسکی پونجی کا ذمہ دار رہوں گا۔زمین وآسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میں اسکے لئے ہر تاجر کی تجارت سے بہتر ہوں''

شیخ صدوق نے ''ثواب الاعمال''میں امام زین العابدین سے یہ روایت مع سند نقل کی ہے

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۰ ص۷۵ ۔

۲۷۷

(انّ ﷲعزّوجل یقول:وعزّتی وعظمتی وجلالی و بهائی وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه الاجعلت همه فی آخرته،وغناه فی قلبه،وکففت علیه ضیعته،وضمنت السمٰوات والارض رزقه،وأتته الدنیا وهی راغمة )( ۱ )

''آپ نے فرمایا کہ خداوند عزوجل ارشاد فرماتا ہے: میری عزت،عظمت،جلالت،جمال، رفعت اور میرے مکان کی بلندی اور ارتفاع کی قسم کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اس کی کل فکر اس کی آخرت کے لئے قرار دیدونگااوراسکے قلب میں استغنا پیدا کر دونگااور اس کی پونجی کا ذمہ دار رہونگا ۔ آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور اسکے سامنے جب دنیا آئے گی تو اسکی ناک رگڑی ہوئی ہوگی''

ابن فہد حلی(رح)نے اپنی کتاب ''عدةالداعی''میں رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے :کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

(وعزّتی وجلالی وعظمتی وکبریائی ونوری وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه،الا استحفظته ملا ئکتی وکفّلت السمٰوات والارض رزقة،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر،وأتته الدنیا وهی راغمة )( ۲ )

''میری عزت ،جلالت،عظمت،کبریائی،نور،بلندی اور رفیع مقام کی قسم کوئی بندہ میری (خواہش )مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ ملائکہ اسکی حفاظت کرینگے ۔آسمان اور زمین اسکے رزق کے ذمہ دار ہیں اور ہر تاجر کی تجارت کے پس پشت میں اسکے ساتھ موجود ہوں اور دنیا اسکے سامنے ذلت و رسوائی کے ساتھ حاضر ہوگی''

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۰ص۷۷از ثواب الاعمال۔

(۲)بحارالانوار ج۷۰ص۷۸۔

۲۷۸

شیخ کلینی نے اصول کافی میں سند کے ساتھ یہ روایت امام محمد باقر سے یوںنقل کی ہے :

(۔۔۔الاکففت علیہ ضیعتہ وضمنت السموات والارض رزقہ،وکنت لہ وراء تجارةکل تاجر)( ۱ )

''مگر یہ کہ میں اسکے ضروریات زندگی (پونجی)کا ذمہ دارہوں اور آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میںہر تاجر کی تجارت کے پس پشت اسکے ساتھ ہوں ''

مرضی خدا کو اپنی خواہش پر ترجیح دینا

اس ترجیح دینے کے معنی یہ ہیں کہ انسان خداوند عالم کے ارادہ کو اپنی خواہشات کے اوپر حاکم بنالے اور احکام الٰہیہ کے مطابق اپنے نفس کو اسکی خواہش سے روکتا رہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

( وأما من خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهویٰ فان الجنة هی الماوی ٰ ) ( ۲ )

''اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا، جنت اسکا ٹھکانہ اور مرکز ہے ''

تقویٰ اور فسق وفجور (برائیوں)کے راستے جس نقطہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں وہ نقطہ وہی ہے جہاں خداوند عالم کی خواہش (اسکا حکم اور قول)اور انسان کی خواہش (ہوس)کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوتا ہے ۔چنانچہ جب انسان خدا کی خواہش (مرضی )کو اپنی خواہش کے اوپر ترجیح دیتا ہے تو وہ تقوے کے راستہ پر چلنے لگتاہے اور جب اپنی خواہشوں کو خداکی مرضی کے اوپر ترجیح دینے لگتا ہے تو فجور(برائیوں)کے راستے پر لگ لیتا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۰ص۷۹۔

(۲)سورئہ نازعات آیت ۴۰۔۴۱۔

۲۷۹

۱۔جعلت غناہ فی نفسہ

''اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوں گا''

لوگوں کے درمیان عام تاثر یہ ہے کہ فقر وغنی ٰکا تعلق سونے اور چاندی اور زروجواہرات سے ہے اور نفس و قلب سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسلام میں فقرو غنیٰ کا مفہوم اسکے برعکس ہے اسلام کی نگاہ میں فقر اور غنیٰ کا تعلق نفس سے ہے نہ کہ مال ودولت سے، لہٰذا ہوسکتاہے کہ ایک ایساانسان غنی ہوجومالی اعتبار سے فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کوئی انسان فقیر ہوچاہے وہ مالی اعتبار سے ثروتمند ہی کیوں نہ ہو ۔

امام حسین کی دعائے عرفہ میں وارد ہواہے:

(اللّٰهم اجعل غنای فی نفسی،والیقین فی قلبی،والاخلاص فی عملی، والنور فی بصری،والبصیرة فی دینی )

''پروردگار میرے نفس کو غنی بنادے ،میرے قلب کو یقین،عمل میں اخلاص ،آنکھوں میں نور اور دین میں بصیرت عطافرما''

آخر فقر و غنی کا مفہوم مال ودولت کے بجائے نفس سے متعلق کیسے ہوتاہے؟اسکاراز کیا ہے ؟ در حقیقت تبدیلی کا یہ راز دین اسلام کے پراسرار عجائبات میں شامل ہے۔ہمیں گاہے بگاہے اسکے بارے میں غوروخوض کرنا چاہئے۔

افکار کی تبدیلی میں اسلامی اصطلاحات کا کردار

''فقر''اور''استغنا''دواسلامی اصطلاحیں ہیں اور اسلام اپنی اصطلاحات کے لئے بہت اہمیت کا قائل ہے اسی لئے اسلام نے دور جاہلیت کی کچھ اصطلاحوں کو کا لعدم قرار دیا ہے اور انکی جگہ پر بہت سی نئی اصطلاحات پیش کی ہیں اور انھیں اصطلاحات کے ذریعہ فکروخیال میں تبدیلی کی ہے اور قدروقیمت کا نیا نظام پیش کیاہے۔دورجاہلیت میں اقدار کے اصول جدا تھے جبکہ اسلام کے اصول الگ ہیں۔

۲۸۰