خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں11%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134627 / ڈاؤنلوڈ: 3998
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

جانے والے !تو اسی سے دھوکا بھی کھاتا ہے اور اسکی مذمت بھی کرتا ہے ؟یہ بتائو کہ تجھے اس پر الزام لگانے کا حق ہے یا اسے تجھ پر الزام لگانے کا حق ہے ؟آخر اس نے کیا تجھ سے تیری عقل کو چھین لیا تھا اور کب تجھ کو دھوکہ دیا تھا؟کیا تیرے آبا ء و اجداد کی کہنگی کی بناء پر گرنے سے دھوکا دیا ہے یا تمہاری مائوں کی زیر خاک خواب گاہ سے دھوکا دیا ہے ؟کتنے بیمار ہیںجن کی تم نے تیمار داری کی ہے اور اپنے ہاتھوں سے انکا علاج کیا ہے اور چاہاکہ وہ شفا یاب ہوجائیں اور اطباء سے رجوع بھی کیا ہے ۔اس صبح کے ہنگام جب نہ کوئی دوا کام آرہی تھی اور نہ رونا دھونافائدہ پہنچارہا تھا۔نہ تمہاری ہمدردی کسی کوکوئی فائدہ پہنچاسکی اور نہ تمہارا مقصد حاصل ہوسکا اور نہ تم موت کو دفع کرسکے۔اس صورت حال میں دنیا نے تم کو اپنی حقیقت دکھلادی تھی اور تمھیں تمہاری ہلاکت سے آگاہ کردیا تھا (لیکن تمھیں ہوش نہ آیا)یاد رکھو کہ دنیا باورکرنے والے کے لئے سچائی کا گھر اور سمجھ دار کے لئے امن وعافیت کی منزل اور نصیحت حاصل کرنے والے کیلئے نصیحت کا مقام ہے ۔یہ دوستان خدا کے لئے سجود کی منزل اور ملائکہ ٔ آسمان کا مصلی ہے یہیں وحی الٰہی کانزول ہوتا ہے اور یہیں اولیاء خدا آخرت کا سودا کرتے ہیںجس کے ذریعہ رحمت کو حاصل کرلیتے ہیں اور جنت کو فائدہ میں لے لیتے ہیں کسے حق ہے کہ اسکی مذمت کرے جبکہ اس نے اپنی جدائی کا اعلان کردیا ہے اور اپنے فراق کی آواز لگادی ہے اور اپنے رہنے والوں کی سنانی سنادی ہے اپنی بلاسے ان کے ابتلا کا نقشہ پیش کیا ہے اور اپنے سرور سے آخرت کے سرور کی دعوت دی ہے ۔اسکی شام عافیت میں ہوتی ہے تو صبح مصیبت میں ہوتی ہے تاکہ انسان میںرغبت بھی پیدا ہو اور خوف بھی ۔اسے آگاہ بھی کردے اور ہوشیار بھی بنادے ۔کچھ لوگ ندامت کی صبح اسکی مذمت کرتے ہیں اور کچھ لوگ قیامت کے روز اسکی تعریف کریں گے۔جنہیں دنیا نے نصیحت کی تو انھوںنے اسے قبول کرلیا اس نے حقائق بیان کئے تو اسکی تصدیق کردی اور موعظہ کیا تو اسکے موعظہ سے اثر لیا''

۲۶۱

۹۔دنیا بازار ہے

حضرت امام علی نقی نے فرمایا ہے :

(الدنیا سوق ربح فیها قوم وخسرآخرون )( ۱ )

''دنیا ایک بازار ہے جہاںایک قوم فائدہ میں ہے اوردوسری قوم خسارہ میں ''

۱۰۔دنیا آخرت کے لئے مددگار ہے ۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(نعم العون الد نیا علیٰ الآخرة )( ۲ )

''دنیا آخرت کے لئے بہترین مددگار ہے ''

۱۱۔دنیا ذخیرہ (خزانہ )ہے ۔

امیر المومنین کا ارشاد ہے :

(الدنیا ذخر والعلم دلیل )( ۳ )

''دنیا خزانہ ہے اور علم رہنما''

۱۲۔دنیا دارالمتقین ہے ۔

قول پروردگار ''ولنعم دارالمتقین''کی تفسیر کے ذیل میںامام محمد باقر نے فرمایا کہ:

''اس سے مراد ''دنیا ''ہے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ص۳۶۶۔

(۲)بحارالانوار ج۷۳ص۱۲۷۔

(۳)غررالحکم۔

۲۶۲

۱۳۔دنیاکا ماحصل آخرت ۔

حضرت علی نے فرمایا ہے :

(بالدنیا تحرز الآخرة)( ۱ )

'' دنیاکے ذریعہ آخرت حاصل کی جاتی ہے''

اس طرح اسلام کی نگاہ میں دنیا قابل مدح وستائش، اولیائے الٰہی کی محل تجارت ،محبان خدا کی مسجد ،آخرت تک رسائی کا ذریعہ اور مومنین کے لئے زاد آخرت حاصل کرنے کا مقام ہے لیکن یہ سب کچھ اس صورت میں ہے کہ جب دنیا سے عبرت و نصیحت حاصل کی جائے لیکن اگر دنیا کومنظورنظر بنا لیا جائے تو پھر یہی دنیا انسان کو اندھا بنا دیتی ہے جیسا کہ امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے :

منقول ہے کہ جب آپ نے یہ فرمایا :

(أیهاالذام الدنیا أنت المتجرّم علیها أم هی المتجرّمه علیک؟قال قائل: بل أناالمتجرّم علیهایاامیرالمؤمنین فقال:''فلم ذممتها؟ألیست دارصدق لمن صدقها؟ )( ۲ )

''اے دنیا کی مذمت کرنے والے!تو نے اسکے اوپر تہمت لگائی ہے یا اس نے تیرے اوپر تہمت لگائی ہے ؟''تو اس شخص نے کہا :اے امیر المومنین میں نے اس پر تہمت لگائی ہے! تو آپ نے فرمایا :

''تو پھرتم دنیا کی کیوں مذمت کرتے ہو؟کیا یہ دنیا تصدیق کرنے والوں کیلئے دار صدق نہیں ہے ''

____________________

(۱) بحارالانوارج ۶۷ص۶۷۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ ص۷ ۱۔

۲۶۳

ج۔اسکے دل کو اسکا دلدادہ بنا دونگاجرم اور سزا کے درمیان تبادلہ

''اور اسکے دل کو دنیا سے وابستہ کردوں گا'' یہ ان لوگوں کی تیسری سزا ہے جو خدا سے منھ موڑ کر اپنی خواہشات کی جانب دوڑتے ہیں یہاں سزا اور جرم ایک ہی طرح کے ہیں ۔اور جب جرم وسزا کی نوعیت ایک ہوتی ہے تو وہ کوئی قانونی سزا نہیں بلکہ''تکوینی''سزا ہوتی ہے اور تکوینی سزا زیادہ منصفانہ ہوتی ہے اور اس سے بچنے کا امکان بھی نہیں ہوتا ۔ جرم یہ ہے کہ انسان خدا کو چھوڑکر خواہشات سے دل لگارہاہے اور سزا بھی ایسی ہی ہے یعنی خدا بندہ کو دنیا میں ہی مشغول کردیتا ہے ''واشغلت قلبہ بھا ''

اس طرح جرم و سزا میںدو طرفہ رابطہ ہے اور دونوں ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں خدا کو چھوڑکر''خواہشات میں الجھنے''کی سزا ''دنیا میں الجھنا ''ہے اس سزا سے جرم میں مزید اضافہ ہوتا رہتا ہے اور جرم میں اضافہ ،مزید سزا کا مطالبہ کرتا ہے اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہتا ہے اس طرح نہ صرف یہ کہ سزا وہی ملتی ہے جو جرم کیا ہے بلکہ خود سزا جرم کو بڑھاتی ہے اور اسے شدید کردیتی ہے نتیجتاً انسان کچھ اورشدید سزا کا مستحق ہوجاتا ہے ۔

انسان جب پہلی مرتبہ جرم کا مرتکب ہوتا ہے تو اس وقت اسکے پاس گناہوں سے اجتناب اور سقو ط وانحراف سے بچانے والی خدا داد قوت مدافعت کا مکمل اختیارہوتا ہے لیکن جب گناہوں کا سلسلہ مسلسل جاری رہتا ہے اور انسان اپنے نفس کو نہیں روکتا تو خدا بھی سزا کے طورپراسے اسی جرم کے حوالہ کردیتا ہے اوراس سے گناہوں سے اجتناب کرنے اور نفس پر تسلط قائم رکھنے کی فطری اور خدا داد صلاحیت کوسلب کرلیتا ہے ۔

اور سزا کا درجہ جتنا بڑھتا جاتا ہے انسان اتنا ہی جرم کے دلدل میں پھنستا رہتا ہے ،اپنے نفس پر اسکی گرفت کمزور ہوتی رہتی ہے اور گناہوں سے پرہیز کی صلاحیت دم توڑتی جاتی ہے یہاں تک کہ خداوند عالم اس سے گناہوں سے اجتناب کی فطری صلاحیت اور نفس پر تسلط و اختیار کو مکمل طریقہ سے سلب کرلیتا ہے ۔

۲۶۴

اس مقام پر یہ تصور ذہن میں نہیں آنا چاہئیے کہ جب مجرم کے پاس نفس پر تسلط اور گناہوں سے اجتناب کی صلاحیت بالکل ختم ہوگئی اور گویا اسکا اختیار ہی ختم ہوگیا تو اب سزا کیسی ؟یہ خیال ناروا ہے اس لئے کہ ابتداء میں مجرم نے جب جرم کا ارتکاب کیا تھا اس وقت تواسکے پاس یہ صلاحیت اور نفس کے اوپر تسلط بھرپور طریقہ سے موجودتھا اور وہ مکمل اختیار کا مالک تھا جو شخص اپنے ہاتھوں دولت اختیار ضائع کردے اسے بے اختیار نہیں کہاجاتا جیسے بلندی سے کود نے والا گرنے کے بعد یقینابے اختیار ہوجاتا ہے لیکن اگر کوئی شخص خود جان بوجھ کربلندی سے چھلانگ لگائے تو اسکے بارے میں یہ نہیں کہا جاسکتا کہ یہ بے اختیار ہے اوراسکے پاس بچنے کی صلاحیت ہی نہیں تھی۔

دنیاداری کے دورخ یہ بھی!

جب انسان دنیا داری میں مشغول ہوجاتا ہے تو اس کا پہلا اثر اور ایک رخ یہ ہوتا ہے کہ انسان کا سارا ہم وغم اسکی دنیا ہی ہوتی ہے اور یہ کیفیت ایک خطرناک بیماری کی شکل اختیار کرکے قلب انسانی کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے ایک دعا میں منقول ہے :

(اللّهم أقسم لنامن خشیتک مایحول بیننا وبین معاصیک،ولاتجعل الدنیا أکبرهمنا،ولامبلغ علمنا )( ۱ )

''پروردگارا! ہمیںوہ خوف وخشیت عطا فرما جو ہمارے اور گناہوں کے درمیان حائل

____________________

(۱)بحارالانوارج۹۵ص۳۶۱۔

۲۶۵

ہوجائے اور ہمارے لئے دنیا کو سب سے بڑا ہم وغم اور ہمارے علم کی انتہا قرار مت دینا ''

اگرانسان دنیاوی معاملات کو اہمیت دے تواس میں کوئی قباحت نہیں لیکن دنیا کو اپنا

سب کچھ قرار دینااور اسکو اپنے قلب کا حاکم اور زندگی کا مالک تسلیم کرلینا غلط ہے کیونکہ ایسی صورت میں وہ اپنے اشاروں پر انسان کو نچاتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ صورت حال قلب کے لئے بیمار ی کا درجہ رکھتی ہے ۔

امیر المومنین حضرت علی نے اپنے فرزند امام حسن مجتبیٰ کے نا م اپنی وصیت میں فرمایاہے :

(ولا تکن الدنیا أکبرهمک )( ۱ )

''دنیا تمہارا سب سے بڑا ہم وغم نہ ہونے پائے ''

دنیا داری میں مشغول ہونے کامنفی رخ یہ ہے کہ خدا سے انسان کا تعلق ختم ہوجاتا ہے ۔ معاملات دنیا میں کھوجانے کا مطلب خدا سے قطع تعلق کرلینا ہے اورفطری بات ہے کہ جب انسان کا ہم وغم اسکی دنیا ہوگئی تو پھر انسان کے ہر اقدام کا مقصد دنیا ہوگی نہ کہ رضائے الٰہی ،اس طرح انسانی قلب پر دنیا کے دریچے جس مقدار میں کھلتے جائیں گے اسی مقدار میں الٰہی دریچے بند ہوتے جائیں گے لہٰذا اگر انسان کی نگاہ میںدنیاوی کاموں کی سب سے زیادہ اہمیت ہوگی تو خدا کی جانب تو جہ کمترین درجہ تک پہونچ جائے گی ۔اور جب سب ہم وغم اور فکر وخیال دنیا کے لئے ہوجائے گا تو یہ کیفیت در حقیقت گذشتہ صورت حال کا نتیجہ اور قلب انسانی کی بدترین بیماری ہے ۔

قرآن کریم نے اس خطرناک بیماری کو متعدد مقامات پر مختلف عناوین کے ذریعہ بیان کیا ہے ۔ہم یہاں پر آیات قرآن کے ذیل میں چند عناوین کا تذکرہ کررہے ہیں :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۴۲ص۲۰۲۔

۲۶۶

دل کے اوپر خدائی راستوں کی بندش کے بعض نمونے

۱۔غبار اور زنگ

( کلا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۱ )

''نہیں نہیں بلکہ انکے دلو ں پر انکے (برے )اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ''

راغب اصفہانی نے اس آیت کی تفسیر میں کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ ''ان کے دلوں کی چمک دمک زنگ آلودہوگئی لہٰذا وہ خیروشرکی پہچان کرنے سے بھی معذورہوگئے ہیں۔

۲۔الٹ،پلٹ

یہ ایک طرح کا عذاب ہے جس میں خدا، غافل دلوں کو اپنی یاد سے دور کردیتا ہے جیسا کہ ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

( صرف ﷲ قلو بهم بأنهم قوم لایفقهون ) ( ۲ )

''تو خدا نے بھی انکے قلوب کو پلٹ دیا ہے کہ وہ سمجھنے والے لوگ نہیں ہیں ''

۳۔زنگ یامُہر

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( ونطبعُ علیٰ قلوبهم فهم لایسمعون ) ( ۳ )

''ہم ان کے دلوں پر مہر لگا دیتے ہیں اور پھر انھیں کچھ سنائی نہیں دیتا ''

____________________

(۱)سورئہ مطففین آیت۱۴۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۱۲۷۔

(۳)سورئہ اعراف آیت ۱۰۰۔

۲۶۷

یعنی ان کو غیر خدائی ر نگ میںرنگ دیاہے اور وہ ہویٰ وہوس اور دنیا کا رنگ ہے ۔

۴۔مہُر

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( ختم ﷲ علیٰ قلوبهم وعلیٰ سمعهم وعلیٰ أبصارهم غشاوة ) ( ۱ )

''خدا نے ان کے دلوں اور کانوں پر مہر لگا دی ہے اور انکی آنکھوں پر بھی پر دے پڑگئے ہیں ''

ختم(مہر)طبع (چھاپ لگنے)سے زیادہ محکم ہوتی ہے کیونکہ کسی چیز کومُہر کے ذریعہ سیل بند کردینے کو ''ختم''کہتے ہیں ۔

۵۔قفل

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( أفلا یتد بّرون القرآن أم علیٰ قلوب أقفالها ) ( ۲ )

''تو کیا یہ لوگ قرآن میں ذرا بھی غور نہیں کرتے ہیں یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ''

۶۔غلاف

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( وقالوا قلوبنا غُلْف بل لعنهم ﷲ بکفرهم ) ( ۳ )

''اور یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں بیشک ان کے کفر کی بنا

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت۷۔

(۲) سورئہ محمدآیت ۲۴۔

(۳)سورئہ بقرہ آیت ۸۸۔

۲۶۸

پر، ان پر ﷲکی مار ہے ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہے :

( وقولهم قلوبناغلف بل طبع ﷲ علیهابکفرهم ) ( ۱ )

''اور یہ کہتے ہیں کہ ہمارے دلو ں پر فطرتا غلاف چڑھے ہوئے ہیں حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ خدانے ان کے کفر کی بنا پر ان کے دلوں پر مہر لگادی ہے ''

۷۔پردہ

ﷲتعالی کا ارشاد ہے :

( وقالوا قلوبنافی أکنّة مماتدعونا الیه وفی آذاننا وقر ) ( ۲ )

''اور وہ کہتے ہیں کہ تم جن باتوں کی طرف دعوت دے رہے ہو ہمارے دل ان کی طرف سے پردہ میں ہیں اور ہمارے کانوں میں بہرا پن ہے ''

دوسری جگہ ارشاد ہے :

( وجعلناعلیٰ قلوبهم أکنّة أن یفقهوه وفی آذانهم وقراً ) ( ۳ )

''لیکن ہم نے ان کے دلوں پر پرد ے ڈال دئے ہیں ۔وہ سمجھ نہیں سکتے ۔اور ان کے کانوں میں بھی بہراپن ہے ''

۸۔سختی

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)سورئہ نساء آیت ۱۵۵۔

(۲)سورئہ فصلت آیت ۵۔

(۳)سورئہ انعام آیت ۲۵۔

۲۶۹

( ربنا اطمس علیٰ أموالهم واشد د علیٰ قلوبهم ) ( ۱ )

''خدا یا ان کے اموال کو برباد کردے اوران کے دلوں پر سختی فرما''

۹۔قساوت

( فویل للقاسیة قلوبهم من ذکرﷲ ) ( ۲ )

''افسوس ان لوگوں کے حال پر جن کے دل ذکر خدا ( کینہ کرنے )سے سخت ہوگئے ہیں ''

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( فطال علیهم الأمد فقست قلوبهم ) ( ۳ )

''تو ایک عرصہ گذرنے کے بعد ان کے دل سخت ہوگئے ''

یہ انسانی دل کے اتار،چڑھائو،اور بند ہونے یا ذکر خدا سے روگرداںہونے کی وہ صورت حال ہے جس کو قرآن مجید نے مختلف انداز سے ذکر کیا ہے ۔

دنیا قید خانہ کیسے بنتی ہے ؟

جب قلب انسانی پر الٰہی راستہ مکمل طریقہ سے بند ہوجائے تو یہی دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے انسان پر ہوس اس طرح غالب آجاتی ہے کہ اس کے لئے رہائی حاصل کرنا ممکن نہیں رہ جاتا ۔کیونکہ قیدخانہ کا مطلب یہ ہے کہ اس سے نکلنا ممکن نہیںہوتا اور اسکی حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں یہی حالت اس وقت ہوتی ہے کہ جب دنیا انسان کے لئے قید خانہ بن جاتی ہے کہ انسان اسی میں مقید ہوکررہ جاتا ہے حرکتیں محدود ہو جاتی ہیں اور اس سے ہرطرح کی آزادی سلب ہوجاتی ہے اور وہ اسکے

____________________

(۱)سورئہ یونس آیت ۸۸۔

(۲)سورئہ زمر آیت ۲۲۔

(۳)سورئہ حدیدآیت۱۶۔

۲۷۰

لئے اہتمام اوراسکی حرص ولالچ کی بناپر خداوند عالم سے بالکل الگ ہوجاتا ہے ۔یہی تفصیلات روایات میں بھی وارد ہو ئی ہیں۔حضرت امام محمد باقر کی دعا کا فقرہ ہے:

(ولاتجعل الدنیا علیّ سجناً )( ۱ )

'' دنیا کو میرے لئے قید خانہ قرارمت دینا ''

حضرت امام جعفر صادق کی دعا ہے :

(ولاتجعل الدنیاعلیّ سجناً،ولا تجعل فراقها لی حزناً )( ۲ )

''دنیا کو میرے لئے قید خانہ اور اس کے فراق کو میرے لئے حزن و ملال کا باعث مت قرار دینا ''

یہ بالکل عجیب و غریب بات ہے کہ قیدی پر قیدخانہ کا فراق گراں گذر رہا ہے اور وہ رہائی پانے کے بعد حزن و ملال میں مبتلا ہے ؟اس کا راز یہ ہے کہ یہ قید خانہ دو سرے قید خانوں کے مانند نہیں ہے بلکہ یہ دنیا ایسا قید خانہ ہے کہ انسان اس سے انس و الفت کی وجہ سے خود اپنے آپ کوقیدی بناتا ہے چونکہ خود قید کو اختیار کرتا ہے لہٰذا وہ اس سے جدائی گوارا نہیں کرتا اور اگر اسے قید سے جدا کردیا جائے تواس رہا ئی سے اسے حزن وملال ہوتا ہے اور قید کا فراق اس کیلئے دشوار اور باعث زحمت ہو تا ہے ۔

جب انسان اپنا اختیار دنیا کے حوالے کر دیتا ہے تو دنیا اسے کیکڑے کے مانند اپنے چنگل میں د بوچ کر اس کے ہاتھ اور پیر وںکوجکڑ دیتی ہے اور اس کی حرکتوں کو مقید و محدود کرکے اسے اپنا اسیر بنا لیتی ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد گرا می ہے :

(ان الدنیا کالشبکة تلتفّ علیٰ من رغب فیها )

''دنیا جال کے مانند ہے جو اس کی طرف راغب ہو گا اسی میںالجھتا جا ئے گا ''

____________________

(۱)بحارالانوارج ۹۷ص۳۷۹۔

(۲)بحارالانوار ج۹۷ص۳۳۸۔

(۳)غررالحکم۔

۲۷۱

آپ کا یہ قول ہمارے سامنے ایک بار پھر قید خانہ اور قیدی کے تعلق اور رابطہ کو اجا گر کرتا ہے ''تلتف علیٰ من رغب فیھا ''جو اسکی طرف راغب ہوا وہ اسی پر لپٹتا چلاجائے گا۔

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(من أحبّ الدینار والدرهم فهوعبد الدنیا )( ۱ )

''جو درہم و دینار سے محبت کرتا ہے وہ دنیا کا غلام ہے ''

اہل دنیا

کچھ افراد دنیا دارہو تے ہیں اور کچھ '' اہل آخرت ''دنیا داروہ لوگ ہیں جو دنیاوی زندگی کو دائمی زندگی سمجھ کراسی کے دلداہ ہو تے ہیںاور دنیا کی فرقت انھیں اسی طرح نا گوار ہو تی ہے جیسے انسان کو اپنے اہل و عیال کی جدائی برداشت نہیں ہو تی ہے ۔

اہل آخرت ،دنیا میں اسی طرح رہتے ہیں جیسے دوسرے رہتے ہیں ۔اوردنیا کی حلال لذتوں سے ایسے ہی لطف اندوز ہو تے ہیں جیسے دوسرے ان سے مستفیدہو تے ہیں بس فرق یہ ہے کہ وہ دنیا کی زندگی کو دا ئمی زند گی مان کر اس سے دلبستگی کا شکار نہیں ہو تے ۔ایسے افراد درحقیقت '' اہل ﷲ '' ہو تے ہیں ۔

اہل آخرت اوردنیا داروںکے صفات ایک دوسرے سے الگ ہیں ۔چنانچہ حدیث معراج میں دنیا داروںکے صفات یوں نظر آتے ہیں جیسا کہ پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

ٔهل الدنیا من کثر أ کله وضحکه ونومه وغضبه،قلیل الرضا،لایعتذر الیٰ من أساء الیه،ولایقبل معذرة من اعتذرالیه،کسلان عند الطاعة ۔)( ۲ )

'' دنیاداروں کی غذا ،ہنسی ، نیند ،اور غصہ زیادہ ہو تا ہے ۔یہ لوگ بہت کم راضی ہو تے ہیں،

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۰۳ ص۲۲۵ ۔

(۲)بحارالانوارج ۷۷ص ۲۴۔

۲۷۲

جس کے ساتھ ناروابرتائو کرتے ہیں اس سے معذرت نہیں کرتے ۔کو ئی ان سے معذرت کاخواہاں ہو تو اس کی معذرت کو قبول نہیں کرتے، اطاعت کے مو قع پر سست اور معصیت کے مقام پر بہادر ہو تے ہیں ان کے یہاں امن مفقود اور موت نزدیک ہو تی ہے ۔کبھی اپنے نفس کا محاسبہ نہیں کرتے ، ان کے یہاں منفعت برائے نام ،باتیں زیادہ اور خوف کم ہو تا ہے یقینادنیا دارنہ آسا ئشوں میں شکر خدا کرتے ہیں اور نہ ہی مصیبت کی گھڑی میں صبر ۔جو کام انجام نہیں دیتے اس پر اپنی تعریف کرتے ہیں ، جو صفا ت ان میں نہیں پائے جاتے ان کے بھی مد عی ہوتے ہیں،جو دل میں آتا ہے بول دیتے ہیں لوگوں کے عیوب تو ذکر کرتے ہیں مگر ان کی خوبیاںبیان نہیں کرتے ''

دنیادار دنیا سے سکون حاصل کرتے ہیں اسی سے مانوس ہو تے ہیں اور اسی کو اپنا دائمی مستقر سمجھتے ہیں حالانکہ دنیا ''دارالقرار ''نہیں ہے ۔چنانچہ جب کوئی انسان اس سے مانوس ہوکر تسکین قلب حاصل کرلے تو وہ فریب دنیا کے شرک میں مبتلاہوجاتا ہے کیونکہ وہ اسے دارالقرار سمجھتے ہیں جبکہ وہ ایسی نہیں ہے ۔

امیر المو منین حضرت علی فر ماتے ہیں :

(واعلم انک انماخُلقت للآخرة لا للدنیا،وللفناء لاللبقائ،وللموت لاللحیاة،وأنک فی منزل قلعة وداربلغة،وطریق الیٰ الآخرة وایاک أن تغترّبما تریٰ من اخلادأهل الدنیاالیها،وتکالبهم علیها،فقدنبّأک ﷲعنها،ونَعَتْلک نفسها،وتکشّفت لک عن مساویها )( ۱ )

''۔۔۔اوربیٹا!یادرکھو کہ تمہیں آخرت کے لئے پیدا کیا گیا ہے دنیا کے لئے نہیں اور فنا کے لئے بنایاگیا ہے دنیا میں باقی رہنے کے لئے نہیں ،تمہاری تخلیق موت کے لئے ہوئی ہے زندگی کے

____________________

(۱)نہج البلاغہ مکتوب ۳۱۔

۲۷۳

لئے نہیں تم اس گھر میں ہوجہاں سے بہر حال اکھڑنا ہے اور صرف بقدر ضرورت سامان فراہم کرنا ہے اور تم آخرت کے راستہ پر ہو ۔۔۔اور خبر داردنیاداروں کو دنیا کی طرف جھکتے اور اس پر مرتے دیکھ کر تم دھوکے میں نہ آجاناکہ پروردگار تمہیں اسکے بارے میں بتاچکا ہے اور وہ خود بھی اپنے مصائب سناچکی ہے اور اپنی برائیوں کو واضح کرچکی ہے ۔۔۔''

دنیا کابہروپ

یہ ایک بہروپ ہی ہے کہ انسان دنیا کو دارالقرار سمجھ کر اس سے مانوس ہو جاتا ہے اور اس سے دل لگا بیٹھتا ہے حالانکہ دنیا صرف ایک گذر گاہ ہے ۔نہ خوددنیا کو قرار ہے اورنہ ہی دنیا میںکسی کیلئے قرار ممکن ہے ۔یہاں انسان کی حیثیت مسافر کی سی ہے کہ جہاں چند دن گذار کر آخرت کے لئے روانہ ہوجاتا ہے تعجب ہے کہ اس کے باوجودبھی انسان اسی کو سب کچھ سمجھ لیتا ہے اور اسے دائمی قیام گاہ مان لیتا ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :

(کن فی الدنیاکانک غریب،أوکأنک عابرسبیل )( ۱ )

''دنیا میںایک مسافر کی طرح رہو جیسے کہ راستہ طے کر رہے ہو ''

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(أیهاالناس انّماالدنیادارمجاز،والآخرةدارقرار،فخذوامن ممرّکم لمقرّکم )( ۲ )

'' اے لوگو !یہ دنیا ایک گذرگاہ ہے قرار کی منزل آخرت ہی ہے لہٰذا اسی گذرگاہ سے وہاں کا

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۳ ص۹۹۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۲۰۳۔

۲۷۴

سامان لے کر آگے بڑھو جو تمہارا دار قرار ہے ''

اس مسئلہ پر زیادہ توجہ کی ضرورت ہے ۔جو انسان راستہ سے گذر تار ہے وہ کبھی راستہ کا ہو کر نہیں رہ جاتا اسکے برخلاف گھر میں رہنے والے انسان کو گھر سے محبت ہو تی ہے اور آدمی گھر کا ہوتا ہے اس سلسلہ میں حضرت عیسیٰ بن مریم کا ایک معرکة ا لآرا جملہ نقل کیا جاتا ہے حضرت عیسیٰ نے فر مایا ہے :

(من ذا الذی یبنی علیٰ موج البحرداراً،تلکم الدنیا فلا تتخذوها قراراً )( ۱ )

''سمندر کی لہروں پر کون گھر بناتا ہے ؟دنیا کا بھی یہی حال ہے لہٰذا دنیا کو قرار گاہ مت بنائو ''

جیسے سمند ر کی لہروں کو قرار و بقا نہیں ہے ایسے ہی دنیا بھی ہے۔توپھر نفس اس سے کیسے سکون حاصل کر سکتا ہے اوراسے کیسے دائمی تسلیم کر سکتا ہے کیا واقعا کو ئی انسان سمندر کی لہروں کے اوپراپنا گھر بنا سکتا ہے ؟

روایت ہے کہ جناب جبرئیل نے حضرت نوح سے سوال کیا :

(یا أطول الانبیاء عمراً،کیف وجدت الدنیا؟قال:کدار لها بابان،دخلت من أحدهما،وخرجت من الآخر )( ۲ )

''اے طویل ترین عمر پانے والے نبی خدا، آپ نے دنیا کو کیسا پایا ؟حضرت نوح نے جواب دیا ''ایک ایسے گھر کی مانند جس میں دو دروازے ہوں کہ میں ایک سے داخل ہوا اور دوسرے سے باہر نکل آیا ''

عمر کے آخری حصہ میں شیخ الانبیائ(حضرت نوح ) کا دنیا کے بارے میں یہ احساس در اصل اس شخص کا صادقانہ احساس ہے کہ جو فریب دنیا سے محفوظ رہا ہو ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۱۴ص۳۲۶۔

(۲)میزان الحکمت ج۳ ص۳۳۹۔

۲۷۵

لیکن اگر انسان دنیا سے مانوس ہو جا ئے اور دنیا اس کے لئے وجہ سکون بن جائے تو پھر یہ احساس تبدیل ہو جاتا ہے اور دنیا اس کو اپنے جال میں الجھا لیتی ہے انسان فریب دنیا کا شکار ہو کر شرک دنیا میں مبتلا ہو جاتا ہے ۔یہ '' ان دنیا داروں''کا حال ہو تا ہے جن کے خیال خام میں دنیا دارالقرار اور وجہ سکون ہے۔

۲۷۶

تیسری فصل

جو شخص خداوند عالم کی مرضی کو

اپنی خواہشات کے اوپر ترجیح دیتا ہے

گذشتہ فصل میں ہم نے ''اپنی خواہش کو خدا کی مرضی کے اوپر ترجیح دینے والے شخص کے بارے میں ''تفصیلی گفتگو کی ہے اور اب انشاء ﷲ''خدا کی مرضی کو اپنی مرضی پر ترجیح دینے والے کے بارے میں ''گفتگو کریں گے ۔لیکن اصل بحث چھیڑنے سے پہلے ہم ان تمام روایات کوان کے حوالوں کے ساتھ بیان کر رہے ہیں جن میں اس حدیث قدسی کا تذکرہ ہے ۔

شیخ صدوق(رح)نے اپنی کتاب''خصال''میں اپنی سند کے ساتھ امام محمد باقر سے روایت نقل کی ہے آپ نے فرمایا کہ :

(ان ﷲعزوجل یقول:بجلالی وجمالی وبهائی وعلا ئی وارتفاعی لایؤثر عبد هوای علیٰ هواه الاجعلت غناه فی نفسه،وهمّه فی آخرته،وکففت عنه ضیعته،وضمنت السموات والارض رزقه،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر )( ۱ )

خداوند عالم کا ارشاد ہے :''میرے جلال وجمال،حسن ،ارتفاع اوربلندی کی قسم کوئی بندہ اپنی خواہش پر میری مرضی کو ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اسکے نفس کے اندر استغناپیدا کردوںگا اور اسکی پونجی کا ذمہ دار رہوں گا۔زمین وآسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میں اسکے لئے ہر تاجر کی تجارت سے بہتر ہوں''

شیخ صدوق نے ''ثواب الاعمال''میں امام زین العابدین سے یہ روایت مع سند نقل کی ہے

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۰ ص۷۵ ۔

۲۷۷

(انّ ﷲعزّوجل یقول:وعزّتی وعظمتی وجلالی و بهائی وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه الاجعلت همه فی آخرته،وغناه فی قلبه،وکففت علیه ضیعته،وضمنت السمٰوات والارض رزقه،وأتته الدنیا وهی راغمة )( ۱ )

''آپ نے فرمایا کہ خداوند عزوجل ارشاد فرماتا ہے: میری عزت،عظمت،جلالت،جمال، رفعت اور میرے مکان کی بلندی اور ارتفاع کی قسم کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ میں اس کی کل فکر اس کی آخرت کے لئے قرار دیدونگااوراسکے قلب میں استغنا پیدا کر دونگااور اس کی پونجی کا ذمہ دار رہونگا ۔ آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور اسکے سامنے جب دنیا آئے گی تو اسکی ناک رگڑی ہوئی ہوگی''

ابن فہد حلی(رح)نے اپنی کتاب ''عدةالداعی''میں رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے یہ روایت نقل کی ہے :کہ خداوند عالم ارشاد فرماتا ہے :

(وعزّتی وجلالی وعظمتی وکبریائی ونوری وعلوّی وارتفاع مکانی لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه،الا استحفظته ملا ئکتی وکفّلت السمٰوات والارض رزقة،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر،وأتته الدنیا وهی راغمة )( ۲ )

''میری عزت ،جلالت،عظمت،کبریائی،نور،بلندی اور رفیع مقام کی قسم کوئی بندہ میری (خواہش )مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ ملائکہ اسکی حفاظت کرینگے ۔آسمان اور زمین اسکے رزق کے ذمہ دار ہیں اور ہر تاجر کی تجارت کے پس پشت میں اسکے ساتھ موجود ہوں اور دنیا اسکے سامنے ذلت و رسوائی کے ساتھ حاضر ہوگی''

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۰ص۷۷از ثواب الاعمال۔

(۲)بحارالانوار ج۷۰ص۷۸۔

۲۷۸

شیخ کلینی نے اصول کافی میں سند کے ساتھ یہ روایت امام محمد باقر سے یوںنقل کی ہے :

(۔۔۔الاکففت علیہ ضیعتہ وضمنت السموات والارض رزقہ،وکنت لہ وراء تجارةکل تاجر)( ۱ )

''مگر یہ کہ میں اسکے ضروریات زندگی (پونجی)کا ذمہ دارہوں اور آسمان و زمین اسکے رزق کے ضامن ہیں اور میںہر تاجر کی تجارت کے پس پشت اسکے ساتھ ہوں ''

مرضی خدا کو اپنی خواہش پر ترجیح دینا

اس ترجیح دینے کے معنی یہ ہیں کہ انسان خداوند عالم کے ارادہ کو اپنی خواہشات کے اوپر حاکم بنالے اور احکام الٰہیہ کے مطابق اپنے نفس کو اسکی خواہش سے روکتا رہے جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

( وأما من خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهویٰ فان الجنة هی الماوی ٰ ) ( ۲ )

''اور جس نے رب کی بارگاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا، جنت اسکا ٹھکانہ اور مرکز ہے ''

تقویٰ اور فسق وفجور (برائیوں)کے راستے جس نقطہ سے ایک دوسرے سے جدا ہوتے ہیں وہ نقطہ وہی ہے جہاں خداوند عالم کی خواہش (اسکا حکم اور قول)اور انسان کی خواہش (ہوس)کے درمیان ٹکرائو پیدا ہوتا ہے ۔چنانچہ جب انسان خدا کی خواہش (مرضی )کو اپنی خواہش کے اوپر ترجیح دیتا ہے تو وہ تقوے کے راستہ پر چلنے لگتاہے اور جب اپنی خواہشوں کو خداکی مرضی کے اوپر ترجیح دینے لگتا ہے تو فجور(برائیوں)کے راستے پر لگ لیتا ہے ۔

____________________

(۱)بحار الانوار ج۷۰ص۷۹۔

(۲)سورئہ نازعات آیت ۴۰۔۴۱۔

۲۷۹

۱۔جعلت غناہ فی نفسہ

''اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوں گا''

لوگوں کے درمیان عام تاثر یہ ہے کہ فقر وغنی ٰکا تعلق سونے اور چاندی اور زروجواہرات سے ہے اور نفس و قلب سے اسکا کوئی تعلق نہیں ہے لیکن اسلام میں فقرو غنیٰ کا مفہوم اسکے برعکس ہے اسلام کی نگاہ میں فقر اور غنیٰ کا تعلق نفس سے ہے نہ کہ مال ودولت سے، لہٰذا ہوسکتاہے کہ ایک ایساانسان غنی ہوجومالی اعتبار سے فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کوئی انسان فقیر ہوچاہے وہ مالی اعتبار سے ثروتمند ہی کیوں نہ ہو ۔

امام حسین کی دعائے عرفہ میں وارد ہواہے:

(اللّٰهم اجعل غنای فی نفسی،والیقین فی قلبی،والاخلاص فی عملی، والنور فی بصری،والبصیرة فی دینی )

''پروردگار میرے نفس کو غنی بنادے ،میرے قلب کو یقین،عمل میں اخلاص ،آنکھوں میں نور اور دین میں بصیرت عطافرما''

آخر فقر و غنی کا مفہوم مال ودولت کے بجائے نفس سے متعلق کیسے ہوتاہے؟اسکاراز کیا ہے ؟ در حقیقت تبدیلی کا یہ راز دین اسلام کے پراسرار عجائبات میں شامل ہے۔ہمیں گاہے بگاہے اسکے بارے میں غوروخوض کرنا چاہئے۔

افکار کی تبدیلی میں اسلامی اصطلاحات کا کردار

''فقر''اور''استغنا''دواسلامی اصطلاحیں ہیں اور اسلام اپنی اصطلاحات کے لئے بہت اہمیت کا قائل ہے اسی لئے اسلام نے دور جاہلیت کی کچھ اصطلاحوں کو کا لعدم قرار دیا ہے اور انکی جگہ پر بہت سی نئی اصطلاحات پیش کی ہیں اور انھیں اصطلاحات کے ذریعہ فکروخیال میں تبدیلی کی ہے اور قدروقیمت کا نیا نظام پیش کیاہے۔دورجاہلیت میں اقدار کے اصول جدا تھے جبکہ اسلام کے اصول الگ ہیں۔

۲۸۰

کبھی اسلام دور جاہلیت کی قدروں کو مکمل طریقہ سے ختم کرتا ہے اور ان کی جگہ پر سماجی زندگی کے جدید اقدار کوروشناس کراتاہے ۔زمانہ جاہلیت میں جس چیز کو سیاسی،اخلاقی اورسماجی زندگی میں بے قیمت سمجھاجاتاتھا اسلام نے اسی چیز کو سیاسی،سماجی اور اخلاقی طور پر بیش قیمت بناکر پیش کیاہے۔

مثلاً دور جاہلیت میں عورت کی کوئی حیثیت اور قدروقیمت نہیں تھی لوگ لڑکیوں کے وجودکو ننگ وعار سمجھتے تھے لیکن اسلام نے اسی بے قیمت سمجھی جانے والی چیز کو عظیم ترین بلندی عطا کی۔

قدروقیمت کا اختلاف در اصل قدروقیمت کے نظام میں اختلاف کی بنیاد پر سامنے آتاہے کیونکہ تمام اقدار حقیقتاًکسی نہ کسی اصول اورنظام کی بنیاد پر استوار ہوتے ہیں جن کی معرفت کے بغیر اقدار کی معرفت ممکن نہیں ہے ۔

دین اسلام نے اپنی اصطلاحات کے ذریعہ اقدار کے اصول ونظام کو تبدیل کیا ہے جسکے نتیجہ میں اقدار خودبخود تبدیل ہوجاتے ہیں اورسماج میں تبدیلی آجاتی ہے بطور نمونہ فقط اس تبدیلی کی جانب اشارہ کردینا کافی ہے جو اسلام نے فقروغنی کے معیار میں کی ہے جس کے نتیجہ میں ان کے مفہوم میں بھی تبدیلی پیدا ہوگئی ہے۔

فقرواستغنا اور اقدار کے اسلامی اصول

عام طورسے لوگوں کے درمیان فقر وغنی کا مطلب مال ودولت کی قلت وکثرت ہے۔یعنی جسکے پاس زیادہ سونا چاندی نہ ہو وہ فقیرہے اور جس کے پاس سونا چاندی و افر مقدار میں ہوا سے غنی کہاجاتاہے اور مالداری کے درجات بھی مال کی مقدارسے طے ہوتے ہیں۔یعنی جس شخص کی قوت خرید جتنی زیادہ ہوتی ہے وہ اتنا ہی بڑا مالدار شمار کیا جاتا ہے اسکے برخلاف جس کے پاس روپے پیسوں کی قلت ہووہ اتناہی غریب سمجھاجاتاہے۔اس طرح عام لوگوں کے خیال میں فقر واستغنا کا تعلق کمیّت''مال کی مقدار'' سے ہے۔

۲۸۱

دور جاہلیت کا نظام قدروقیمت

فقرواستغناکے ان معنی میں بذات خود کوئی خرابی نہیں ہے اور اگر بات یہیں تمام ہوجاتی تو اسلام اسکی مخالفت نہ کرتا لیکن حقیقت یہ نہیں ہے بلکہ جاہلیت کے نظام کے تحت ثروتمندی سے سماجی اور سیاسی اقدار بھی جڑجاتے ہیں اور ثروتمندانسان معززو محترم کہلاتاہے اسکی سماجی حیثیت اوراسکے سیاسی نفوذ میں اضافہ ہوجاتاہے وہ لوگوں کا معتمدبن جاتاہے وغیرہ۔۔۔اس طرح نظام جاہلیت میں واضح طور پر کمیت( Quantity )کیفیت( Quality )میں تبدیلی ہوجاتی ہے۔

جب بھی ہم غور کریں گے تو ہمیں صاف محسوس ہوگاکہ یہاں زروجواہر کی مقدارو کمیت ( Quantity )سماجی اور سیاسی کیفیت میں تبدیلی ہوگئی ہے بلاشبہ اجتماعی اور سماجی زندگی میں مقداروکمیت( Quantity )اور کیفیت میں براہ راست تعلق پایاجاتا ہے اور اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنایا اسکا انکار ناممکن ہے اور اسلام بھی اس تعلق اور رابطہ کو ختم کرنا نہیں چاہتابلکہ اس رابطہ کو الٹ دینا چاہتا ہے یعنی کمیت اور مقدار کو کیفیت کا تابع قرار دیتا ہے نہ کہ کیفیت کو کمیت کا۔

مثلاًاقتصادی اور کاروباری معاملات کی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئے اور اسی بنیاد پر کاروبار کو وسعت دینا چاہیے یا سیاسی میدان میں بھی ہرچیزکی بنیاد صداقت اور تقویٰ ہوناچاہئیے اوراسی بنیاد پرووٹ حاصل کرنا چاہیے کہ یہی چیزیںصحتمند معاشرے کی پہچان ہیں۔

۲۸۲

لیکن اگر معاملہ اس کے برعکس ہو اور سماجی یا سیاسی زندگی میں کمیت ومقدار معیار بن جائے تو سماج میں پائے جانے والے اقدار و اصول کا وجود خطرہ میں پڑجاتاہے۔دور جاہلیت میں بعینہ یہی صورت حال موجود تھی کہ مادیت پرروحانیت کی حکومت ہونے کے بجائے مادیت،روحانیت پر حاکم ہوگئی تھی اور قدروقیمت کا تعیّن مادیت سے ہوتاتھا نہ کہ معنویت سے۔

اسلامی فتوحات کا دائرہ وسیع ہونے کے ساتھ ساتھ یہی صورت حال مسلمانوں کے سامنے بھی آئی اسلام نے قدروقیمت کا ایسا نظام پیش کیا تھا کہ جو دور جاہلیت کے پروردہ لوگوں کے لئے نامانوس تھا۔ اس نظام میں اسلام نے قدروقیمت اورمنزلت کا معیار روحانیت کو قرار دیا تھا اور مادیت کو روحانیت کا تابع بنایاتھا۔لیکن جب فتوحات کا سلسلہ شروع ہوا اور قیصر و کسریٰ کے خزانے مسلمانوں کے ہاتھ آئے اور سرحدوں کی وسعت کے ساتھ دولت میں بھی بے پناہ اضافہ ہواتو مادیت غالب آگئی اور قدروقیمت کا نظام پس پشت چلاگیا۔اور دوبارہ زروجواہر ہی تمام اقدار کا معیار بن گئے اور انکی حالت اس عہد کی سی ہوگئی جس میں خداوند عالم نے رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کو مبعوث کیا تھا اور آپ کو قائدوپیشوا اور رسول بنا کر بھیجاتھا۔

عثمان بن عفان کے بعد امیر المومنین حضرت علی بن ابی طالب جب حاکم مسلمین ہوئے تو آپ نے محسوس کیا کہ اسلامی معاشرہ اس طرح منقلب ہوچکا ہے کہ جیسے کوئی اس طرح الٹا لباس پہن لے جسکا اندرونی حصہ باہر،اور ظاہری حصہ اندر ،اوپری حصہ نیچے اور نچلا حصہ اوپر ہوگیا ہو۔ چنانچہ امیر المومنین بنی امیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:

(ولُبس الاسلام لُبسَ الفرومقلوباً )( ۱ )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۰۸۔

۲۸۳

''اسلام یوں الٹ دیا جائے گا جیسے کوئی الٹی پوستین پہن لے''

جیسا کہ آپ نے ان الفاظ میں اسکی عکاسی کی ہے :

(ألا وان بلیّتکم قدعادت کهیئتها یوم بعث اللّٰه نبیکم،والّذی بعثه بالحقّ لتبلبلنّ بلبلةً ولتغربلنّ غربلةً،ولَتساطُنّ سَوطَ القدرحتّی یعود اسفلکم أعلاکم )( ۱ )

''یاد رکھو! تمہارا امتحان بالکل اسی طرح ہے جس طرح پیغمبر کی بعثت کے دن تھا اس ذات کی قسم جس نے رسول کو حق کے ساتھ بھیجا تم بری طرح تہ وبالا کئے جائو گے اور اس طرح چھانے جائو گے جس طرح چھنّی سے کسی چیز کو چھانا جاتا ہے اور اس طرح خلط ملط کئے جائو گے جس طرح پتیلی کے کھانے کو پلٹاجاتا ہے یہاں تک کہ تمہارے ادنیٰ اعلیٰ اور اعلیٰ ادنیٰ ہوجائیںگے ''۔

امیر المومنین فرماتے ہیں کہ عنقریب یہ قوم اسلامی اقدار ومفاہیم اور اصول کو چھوڑ کر ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہونے والی ہے اور اسکی وہ حالت ہوجائے گی جو کھولتے ہوئے شوربہ کی ہوتی ہے کہ اوپر کا حصہ نیچے اور نیچے کا حصہ اوپر ہوجاتاہے۔

فتوحات کی وسعت اور خدا کی جانب سے رزق میں فراوانی کے باعث امت اسلامیہ کی یہی حالت ہوگئی تھی جیسا کہ مال و نعمت کی زیادتی کے باعث عہد جاہلیت کی بھی یہی افسوسناک حالت تھی۔

دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرنے اور اس سے مقابلہ کرنے کے لئے اسلام نے فقر اوراستغنا کی نئی اصطلاحیں ایجاد کیں اور انہیں نئی اصطلاحوں اور نئے مفاہیم کے ذریعہ دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کردیا۔

قدروقیمت کا اسلامی نظام

لفظ غنی یا استغنا کے معنی کو دو طرح سے بیان کیا جاتا ہے ۔ایک بیان کے مطابق استغنا کا

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۶۔

۲۸۴

مطلب ہے ''انسان کے پاس زر وجواہر کا بکثرت موجود ہونا''اس طرح غنی کے معنی کا تعلق عالم محسوسات سے ہے اور یہ مطلب لفظ ''ثروتمند''کے مترادف ہے۔

دوسرے بیان کے مطابق حقیقتاً استغنا سے مراد''دل کا مستغنی ہونا'' ہے جو کہ ﷲ تعالیٰ پر ایمان اور توکل سے حاصل ہوتا ہے اور اس معنی کا مال کے ہونے یا نہ ہونے سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عین ممکن ہے کہ انسان کے پاس بے پناہ مال ودولت ہو مگر پھر بھی وہ فقیر ہو اور ہوسکتا ہے کہ مال ودولت بالکل نہ ہو پھر بھی انسان غنی ہو۔

فقر واستغنا کے یہ معنی،لغوی اور رائج معنی سے بالکل مختلف ہیں۔اور ان معنی کے لحاظ سے استغنا کا تعلق نفس انسانی سے ہے نہ کہ مال ودولت اور خزانہ سے۔

دین اسلام لفظ فقر واستغنا کو نئے معنی و مفاہیم دے کر در اصل دور جاہلیت کے نظام قدروقیمت کو تبدیل کرکے اسکے مقابلہ میں جدید نظام پیش کرنا چاہتا ہے۔

اسکی مزید وضاحت کے لئے ہم استغنا اور فقر کے بارے میں اسلامی روایات کی روشنی میں پہلے لفظ استغنا کا مطلب بیان کریں گے اور پھر اس جدید نظام کی وضاحت کریں گے جو اسلام نے قدروقیمت کے سلسلہ میں پیش کیا ہے۔

اسلامی روایات میں استغنا کا مفہوم

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:

(لیس الغنیٰ عن کثرة العرَض،ولکن الغنیٰ غنیٰ النفس )( ۱ )

''مال ومتاع کی کثرت کانام استغنانہیں بلکہ استغناکا مطلب نفس کا مستغنی ہونا ہے''

____________________

(۱)تحف العقول ص۴۶۔

۲۸۵

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(الغنیٰ فی القلب،والفقر فی القلب )( ۱ )

''استغنا بھی دل میں ہوتا ہے اور فقر بھی دل ہی میں ہوتا ہے''

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا ہے:

(الغنی من استغنیٰ بالقناعة )( ۲ )

''غنی وہ ہے جو قناعت کے باعث مستغنی ہو''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(لاکنز اغنیٰ من القناعة )( ۳ )

''غنی(ہونے)کے لئے قناعت سے بڑھکر کوئی خزانہ نہیں ہے''

نیز آپ نے فرمایا ہے:

(طلبت الغنیٰ فماوجدت الّاالقناعة،علیکم بالقناعة تستغنوا )( ۴ )

''میں نے استغنا کو تلاش کیا تو مجھے قناعت کے علاوہ کچھ نظر نہ آیا۔ تم بھی قناعت اختیار کروتو مستغنی ہوجائوگے''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے:

(لا فقرکفقرالقلب،ولا غنیٰ کغنیٰ القلب )( ۵ )

____________________

(۱) بحارالانوار ج۷۲ص۶۸۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۶۲۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۳۷۱۔

(۴)سفینةالبحارج۲ص۸۷ ،الحیات جلد ۳ ص ۳۴۲۔

(۵)تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۸۶

''دل کی فقیری جیسا کوئی فقر نہیں ہے اور دل ہی کے استغناجیسی کوئی مالداری بھی نہیں ہے''

امام ہادی کا ارشاد ہے:

(الغنیٰ قلّة تمّنِیکَ،والرضا بمایکفیک )( ۱ )

''استغناکا مطلب یہ ہے کہ تمہاری خواہشات کم ہوں اور جتنا تمہارے لئے کافی ہے اسی پر راضی رہو''( خواہشات کا کم ہونا اور' بقدر کافی 'پر راضی ہوجانااستغناہے۔)

اس طرح اسلام نے استغنا کا تعلق سونے چاندی ،زمین جائداد سے ختم کر دیا اور اسے نفس کے متعلق قرار دیا ہے بلکہ اسلامی رو ایات تو اس سے بڑھ کریہاں تک بیان کرتی ہیں کہ جو افراد مال ودولت کے لحاظ سے ثروتمند ہوتے ہیں اکثر وہ افراد دل کے چھوٹے اور فقیر ہوتے ہیں۔

عموماًجب انسان دنیاوی لحاظ سے مالدار ہوتا ہے تو دل کا چھوٹا اور فقیر ہوتا ہے ایسا نہیں ہے کہ ثروتمند ہونے اور نفس وقلب کے اعتبار سے چھوٹے اور فقیر ہونے میں کوئی معکوس رابطہ ہو۔نہیں ہرگز نہیں ان دونوں باتوں میں کوئی معکوس رابطہ نہیں ہے۔در حقیقت ایسی صورت حال ان عوارض کے باعث پیدا ہوتی ہے کہ جو عموماًمعاشرہ میں رائج ثروتمند ی کے ساتھ پائے جاتے ہیں۔

امیر المومنین حضرت علی سے روایت ہے:

(۔۔۔وغنِیّها(الدنیا)فقیر )( ۲ )

'' ۔۔۔اور دنیا کا غنی فقیر ہوتا ہے''

حضرت امام زین العابدین نے فرمایا :

____________________

(۱)بحارالانوار ج۸۷ص۳۶۸۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۱۴۔

۲۸۷

(من اصاب الدنیا اکثر،کان فیها أشَدّ فقراً )( ۱ )

''جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگا''

جسے دنیازیادہ نصیب ہوجائے گی وہ دنیا میں زیادہ فقیر ہوگایہ لازم و ملزوم کیوں ہیں ؟ ثروتمندی اور استغنا دونوں لفظ غنی کے ہی معنی ہیں مگر ان کے درمیان معکوس رابطہ کیوں پایا جاتا ہے؟اس سوال کا جواب اوراس رابطہ کا سبب ہمیں امیر المومنین حضرت علی کی اس حدیث سے بخوبی معلوم ہو جائے گا آپ نے فرمایا :

(الغَنِیّ الشَّرِهُ فقیر )( ۲ )

''لالچی مالدار فقیر ہوتا ہے''

اس حدیث مبارک میں غنی سے مراد ثروتمند ہے اور فقیر سے مراد نفس و قلب کے اعتبار سے فقیر ہے اور اس حدیث میں جو لفظ''شرہ''حریص آیا ہے وہ اس معکوس رابطہ کو بیان کرتا ہے اس لئے کہ عام لوگوں کے لحاظ سے جس کے یہاں استغنا پایا جاتا ہے جو ثروتمند ہوتا ہے وہ عموماًحریص بھی ہوتا ہے اور عموماًجتنا مال ودولت میں اضافہ ہوتا جاتا ہے آدمی کی حرص و ہوس میں بھی اضافہ ہوتا رہتا ہے اور یہ طے شدہ ہے کہ جب حرص و طمع میں اضافہ ہوگا تو انسان کی اذیت و پریشانی میں اضافہ ہوگا انھیں دونوں حقیقتوں کی جانب قرآن کریم نے اس آیت میںاشارہ کیا ہے ارشاد رب العزت ہے:

(انما یرید اللّٰه لیعذّبهم بها فی الحیاة الدنیا وتزهق انفسهم وهم کافرون )( ۳ )

''بس ﷲکا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت

____________________

(۱)خصال صدوق ج ۱ صفحہ ۶۴۔

(۲)بحارالانوار ج۷۸ص۲۲۔

(۳) سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

۲۸۸

کفرہی میں ان کی جان نکل جائے ''

دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے:

(انما یرید اللّٰه أن یعذّبهم بها فی الدنیا )( ۱ )

''بس اللہ کا ارادہ یہ ہے کہ انہیں کے ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرے۔

حرص وطمع اسی وقت پایا جاتا ہے جب انسان قلب کے لحاظ سے فقیر ہو ۔نفس جتنا خالی ہو اور فقیر ہوگا حرص وہوس کا اظہار اتنا ہی شدید ہوگا ۔حضرت دائو د کے دور میں لوگوں کی یہی حالت تھی چنانچہ خداوند عالم نے انھیں تو بہ کرنے اور بارگاہ الٰہی میںواپس آنے کا حکم دیا۔

حرص و ہوس کس منزل تک پہونچ سکتے ہیں سورئہ ص کی یہ آیت اسکی بخوبی نشاندہی کرتی ہے:

(انّ هذا أخی له تسع وتسعون نعجة ولیَ نعجةً واحدة فقال:أکفلنیها و عزّنی فی الخطاب )( ۲ )

''یہ ہمارا بھائی ہے اسکے پاس ننّانوے دنبیاں ہیں اور میرے پاس صرف ایک ہے یہ کہتا ہے وہ بھی میرے حوالے کردے اور اس بات میں سختی سے کام لیتا ہے ''

اقدار کے نظام میں انقلاب

اس طرح اسلام نے استغنا کے نئے معنی پیش کئے اور استغناکا تعلق زروجواہر اور مال و

دولت سے ختم کرکے اسے نفس اور قلب سے جوڑدیا ہے اس طرح قدروقیمت کا معیار مال وثروت کے بجائے نفس کو قرار دیا ۔

اسلام کی نگاہ میں انسان کی قدروقیمت اسکے مال ودولت اور منقولہ وغیر منقولہ جائیداد سے

____________________

(۱) سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

(۲)سورئہ ص آیت۲۳۔

۲۸۹

نہیں طے کی جاسکتی جیسا کہ جاہل افراد آج بھی یہی سوچتے ہیں بلکہ اسلام کی نگاہ میں انسانی قدروقیمت کی بنیاد ﷲپرایمان ،تقویٰ ،علم اور دیگر اخلاقی اقدار ہیں ۔اسلام لفظ ثروتمندی اور فقر کے اصل معنی کا منکر نہیں ہے بلکہ اسلام نے اس معنی کے مفہوم میں اضافہ کیا ہے کہ قدروقیمت کے تعیّن کے وقت بے نیازی اور فقر کے معاشی رخ کو ملحوظ نہ رکھاجائے قدروقیمت کا معیار فقروغنی ہی ہیں مگر اس مفہوم میں کہ جو اسلام نے پیش کیا ہے ۔

امیر المومنین کا ارشاد ہے :

(لیس الخیرأن یکثرمالک،ولکن الخیرأن یکثرعلمک،وأن یعظم حلمک،وأن تباهی الناس بعبادة ربک،فان أحسنت حمدت ﷲ،وأن أسأت استغفرت ﷲ )( ۱ )

''بھلائی یہ نہیں ہے کہ تمہارا مال زیادہ ہو بلکہ حقیقی نیکی یہ ہے کہ تمہارا علم زیادہ ہو۔حلم عظیم ہو اور عبادت پروردگار کو فخر ومباہات کا معیار قرار دو چنانچہ اگر تم نے اچھی طرح عبادت انجام دی ہوتو حمد خدا کرو اور اگر عبادت میں کمی کی ہوتو بارگاہ الٰہی میں استغفار کرو ''

چنانچہ جب قدروقیمت کا نظام بدل جائے گا تو خود بخود لوگوں کی سماجی اور سیاسی حیثیت میں بھی فرق آجائے گا اس لئے کہ کسی بھی تہذیب میں اگر اقدار ایک جانب اپنے نظام سے جڑے ہوتے ہیں تو دوسری جانب انکا تعلق سماجی ،سیاسی معاشی اور علمی حیثیت و منزلت سے بھی ہوتا ہے ۔

اگر آج ہمیں جاہلیت زدہ مغربی تہذیب میں یہ نظر آتا ہے کہ اس تہذیب میں سرمایہ داری کا دخل کتنا ہے ،سیاست ،معاشیات اور پروپیگنڈہ پر سرمایہ کا کتنا تسلط اور غلبہ ہے ،صدراور حکومت کے انتخابات میں سرمایہ داری کا کتنا اہم کردار ہے میڈیا یہاں تک کہ سیاسی روابط سبھی کچھ سرمایہ داری

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۹۴۔

۲۹۰

کے تابع ہیں! ہماری نگاہ میں اسکا سبب یہ ہے کہ اس تہذیب کی بنیاد مادیت پر ہے نہ کہ اخلاقی اور روحانی اقدار پر۔ اسکے برخلاف اسلام کی نگاہ میں ان چیزوں کی بنیاد اخلاقی و روحانی اقدار ، بندہ کا اللہ سے رابطہ ،عدالت وتقوی اور علم پر استوار ہے ۔ارشاد پروردگار ہے:

( انّما یخشیٰ ﷲ من عباده العلمائُ ) ( ۱ )

''ﷲ سے ڈرنے والے اسکے بندوں میں صرف صاحبان معرفت ہیں ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( اِنّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰهِ اَتْقیٰکُمْ ) ( ۲ )

''بیشک تم میں سے خدا کے نزدیک زیادہ محترم وہی ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے ''

اسلام ،قائدا و رہبرمسلمین کے لئے تقویٰ اور عدالت کو ضروری قرار دیتا ہے اسی طرح قاضی،پیش نماز اورامین (جس کے پاس لوگ امانتیں رکھواتے ہیں) بہ الفاظ دیگر ان تمام افراد کے لئے تقوی و عدالت کو لازمی شرط قرار دیتا ہے جو سماج اور معاشرہ میں کسی بھی عنوان سے مقام ومنزلت کے مالک ہوں۔اسی لئے جب نظام اقدار میں تبدیلی آئے گی توخود بخودمعاشرہ کی سماجی،سیاسی،معاشی،علمی،دینی حیثیتوں میں تبدیلی ناگزیر ہے ۔

اس طرح تین مرحلوں میں یہ عمل انجام پاتا ہے :

۱۔نظام اقدار میں تبدیلی

۲۔اقدار میں تبدیلی

۳۔سماجی اور سیاسی حیثیت میں تبدیلی

____________________

(۱)سورئہ فاطر آیت ۲۸۔

(۲)سورئہ حجرات آیت ۱۳۔

۲۹۱

اب جبکہ استغنا سے متعلق اسلامی نظریہ واضح ہو گیا اور لوگوں کی زندگی میں اس کے کردار کی اہمیت کا بھی اندازہ ہوگیا تو اب ہم نفس کے استغنا اور بے نیازی کے بارے میں کچھ بیان کرسکتے ہیں جس کے بارے میں حدیث شریف کے الفاظ یہ ہیں ''جعلت غناہ فی نفسہ ''

نفس کی بے نیازی

سوال یہ کہ نفس کی بے نیازی ہے کیا ؟اور ہم اپنے اندر یہ بے نیازی کیسے پیدا کرسکتے ہیں ؟

در اصل نفس کی بے نیازی اس میں مضمر ہے کہ انسان مادیات اور دنیا پر اعتماد نہ کرے بلکہ اللہ پر بھروسہ رکھے اس لئے کہ دنیا فانی ہے اور ذات الٰہی دائمی ، ما دیات محدود ہیں اور خدا کی سلطنت لا محدود ۔

لہٰذا جب انسان اللہ پر توکل اور بھروسہ کے سہارے مستغنی اور بے نیاز ہوگا تو کبھی بھی کمزوری اور نا توانی محسوس نہیں کرے گا ۔حالات کتنے ہی منقلب کیوں نہ ہو جا ئیں ،آسانیاں سختیوں میں تبدیل کیوں نہ ہو جا ئیں اللہ پر توکل کرنے والے کے پائے ثبات متزلزل نہ ہوں گے کیونکہ ایسی بے نیازی نفس سے تعلق رکھتی ہے اور کسی بھی عالم میں نفس سے جدا نہیں ہو سکتی ہے ۔

مو لائے کائنات متقین کے صفات کا تذکرہ کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں :

(فی الزلازل وقور،وفی المکاره صبور )( ۱ )

''(متقین)مصائب وآلام میں با وقار اور دشواریوں میں صابر ہوتے ہیں''

اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کی بے نیازی نفس کی گہرائیوں میں پوشیدہ ہے اور کو ئی بھی پریشانی یا سختی اس بے نیازی کو ان سے جدا نہیں کر سکتی اور یہ بے نیازی اللہ پر ایمان ،اعتماد ،توکل اور اس کی رضا پر راضی رہنے سے حاصل ہو تی ہے ۔در اصل بے نیازی یہی ہے اوراس سے بڑھکر کو ئی بے نیازی

۔____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۳۔

۲۹۲

نہیں ہو سکتی ہے اور حالات کی تبدیلی اس پر اثر انداز نہیں ہو تی ہے ۔

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کاارشاد گرامی ہے :

(یا أباذراستغنِ بغنیٰ ﷲ تعالیٰ،یغنک ﷲ )( ۱ )

''ا ے ابوذراللہ کی بے نیازی کے ذریعہ مستغنی بنو اللہ (واقعاً)بے نیاز بنا دے گا ''

مولائے کائنات کا ارشاد ہے :

(الغنیٰ باللّٰه أعظم الغنیٰ،والغنیٰ بغیرﷲ أعظم الفقروالشقائ )( ۲ )

''اللہ کے ذریعہ استغناسب سے بڑا استغنا ہے اور اللہ کے بغیر استغنا سب سے بڑا فقر اور شقاوت ہے ''

اس معیار کے بموجب اللہ پر جتنا زیادہ توکل اور بھروسہ ہوگا انسان اتنا ہی زیادہ مستغنی ہوگا

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرا می ہے:

(مَن أحبّ أن یکون أغنیٰ الناس فلیکن بما فی ید اللّٰه أوثق منه مما فی یده )( ۳ )

''جو سب سے بڑا مستغنی ہو نا چا ہتا ہے اسے چاہئیے کہ جو کچھ اس کے پاس ہے ا س سے زیادہ اس پر بھروسہ کرے جو خدا کے پاس ہے ''

یہ بھی ملحوظ رہے کہ اللہ پر توکل کا مطلب مادی اسباب کو نظر انداز کرنا نہیں ہے مادی اسباب کو نظر انداز کرنا سنت الٰہی سے انحراف ہے اور اسلام اس بات کی اجازت نہیں دیتا ہے ۔بلکہ توکل کا مطلب ہے غیر کے بجائے صرف اور صرف ذات پروردگار پر اعتماد و اعتبار کرنا ۔اگر یہ اعتماد ہے تو اپنے مقصود تک پہونچنے کے لئے کسی بھی طرح کے اسباب ووسائل اختیار کرنا توکل کے خلاف نہ ہوگا۔

____________________

(۱)مکارم الاخلاق ص ۵۳۳۔

(۲)غرر الحکم ج۱ ص۹۱۔۹۲۔

(۳)تحف العقول ص۲۶۔

۲۹۳

بے نیازی(استغنا)کے ذرائع

جن چیزوں کے ذریعہ انسان بے نیازی حاصل کرسکتا ہے ان کی تعداد بہت زیادہ ہے ہم یہاں پر ان میں سے صرف اہم ترین عوامل کا تذکرہ کریں گے ۔

۱۔یقین:

ذات پروردگار پر یقین بے نیازی کا اعلیٰ ترین درجہ ہے اس لئے کہ اگر انسان کو یہ یقین ہو کہ خدا اپنے بندوں پر مہربان رہتا ہے لطف و کرم کرتا ہے ان کی دعائیں قبول کرتا ہے اوریہ بھی یقین ہوکہ وہی رازق ہے رئووف ورحیم ہے ۔اسکی رحمت وعنایت کا سلسلہ کبھی ختم ہونے والانہیں ہے اسکے خزانہ میں کوئی کمی واقع ہونے والی نہیں ہے اور کثرت عطا سے اسکے جود وکرم میں کمی کے بجائے اضافہ ہی ہوتا ہے تو انسان کبھی بھی فقرواحتیاج کا احساس نہیں کرسکتا۔

فقرواحتیاج کا احساس اسی وقت ہوتا ہے کہ جب انسان کے پاس ایسا یقین مفقود ہو اور ایمان، یقین کی منزل تک نہ پہونچاہو۔یقین ہی ایمان کا سب سے بلند درجہ ہے بندوں کو ملنے والا سب سے بہترین رزق یقین ہے ۔

مولائے کائنات کا ارشاد گرامی ہے :

(مفتاح الغنیٰ الیقین )( ۱ )

''یقین بے نیازی کی کنجی ہے ''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(کفیٰ بالیقین غنیً،وبالعبادة شغلاً )( ۲ )

''بے نیازی کے لئے یقین کافی ہے اورعبادت بہترین مشغلہ ہے ''

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۸ ص۹۔

(۲)اصول کافی ج۲ص۸۵۔

۲۹۴

۲۔تقویٰ:

بے نیازی کے اسباب وعوامل میں تقویٰ بھی اہم ترین عامل ہے ۔انسان جب احکام خداکا پابند ہوگا اور حدود الٰہیہ کا خیال رکھے گا تواللہ اس کے دل کو بے نیاز بنادے گا اور اس کے فقرواحتیاج کوختم کردے گا ۔

پیغمبر اکرم ْصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے :

(کفیٰ بالتقیٰ غنیٰ )( ۱ )

''مستغنی ہونے کے لئے تقویٰ کافی ہے ''

امام محمد باقر نے فرمایا:

(یاجابر ان أهل التقویٰ هم الأغنیائ،أغناهم القلیل من الدنیا،فمؤنتهم یسیرة،ان نسیت الخیرذکّروک،وان عملت به أعانوک،أخّرواشهوا تهم و لذّا تهم خلفهم،وقدّموا طاعة ربّهم أمامهم )( ۲ )

''اے جابر صاحبان تقویٰ ہی مالدار ہیں ان میں بھی سب سے بڑا غنی وہ ہے دنیاجس کا میں تھوڑاحصہ ہو ان کے اسباب معیشت بہت مختصر ہوتے ہیں اگر تم عمل خیر کوبھول جائوتو یہ تمہیں یاد آوری کریں گے اگر تم عمل خیر کروگے تو تمہارے معاون ومددگار ہوںگے وہ اپنے خواہشات کو موخر اور لذتوں کو پس پشت رکھتے ہیں ان کے پیش نظر صرف اطاعت پروردگار ہوتی ہے اور وہ اسی کو مقدم رکھتے ہیں ''

ایک اور حدیث میں امام جعفر صادق سے مروی ہے :

(من أخرجه ﷲ تعالیٰ من ذل المعاصی الیٰ عزّ التقویٰ،أغناه ﷲبلا مال،

____________________

(۱)تحف العقول ص۳۰۔

(۲) تحف العقول ص۲۰۸۔

۲۹۵

وأعزّه بلا عشیرة،وآنسه بلا أنیس )( ۱ )

''خداجسے گناہوں کی ذلت سے نکال کر تقویٰ کی عزت سے سرافراز کرتاہے اسے بغیر مال کے غنی ،بغیر خاندان و قبیلہ کے عزیز اور ساتھیوں کے بغیر تسکین قلب اور انسیت عطا کردیتا ہے''

اس حدیث شریف میں نفس کی بے نیازی کے بعینہ وہی معنی پائے جائے ہیں جو ہم نے بیان کئے ہیں کہ نفس مال وثروت کے بغیر بھی غنی ہوسکتا ہے بغیر خاندان کے صاحب عزت بن سکتا ہے ہم نوا اور مونس کے بغیر بھی اپنی وحشتناک تنہائی کا مداوا کرسکتا ہے ۔اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ بے نیازی کا منبع و سرچشمہ تقویٰ الٰہی ہے اسی تقوے کے ذریعہ نفس انسانی اپنے اندر عزت وانس کا احساس کرتا ہے اس لئے کہ جب انسان متقی اور حدود و احکام الٰہیہ کا پابند ہوگا تواللہ بھی اسکے نفس کو غنی بنادے گا اور اس سے فقروذلت اور وحشت کو دور رکھے گا۔

جس حدیث قدسی کے بارے میں ہم گفتگو کر رہے ہیں اس کے الفاظ یہ ہیں:

(لایؤثرهوای علیٰ هواه الاجعلت غناه فی نفسه )

''کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہشات پر ترجیح نہیں دے گا مگر یہ کہ میں اسکے نفس میں استغنا پیدا کردوںگا''

اور مخالفت نفس کا ہی نام تقویٰ ہے جس کا دوسرا نام اطاعت پروردگار ہے ۔

۳۔شعور :

یقین و تقویٰ اگر بے نیازی اور استغنا کی کنجی ہیں تو فہم و شعور یقین و تقویٰ کی کنجی اور ان تک پہونچنے کا راستہ ہے انسان فقط جہالت کے باعث ہی تقویٰ اور یقین سے محروم ہو سکتا ہے یہاں فہم و شعور سے ہماری مراد تدبر و تعقل ہے اسلامی روایات میں یہ معنی کثرت سے پائے جاتے ہیں ۔

____________________

(۱)وسائل الشیعہ ج۱۱ص۱۹۱۔

(۲)عدّةالداعی،ابن فھد حلی۔

۲۹۶

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(لاغنیٰ مثل العقل )( ۱ )

''عقل کے مانند کو ئی بے نیازی نہیں ہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

(ان أغنیٰ الغنیٰ:العقل )( ۲ )

''سب سے بڑی بے نیازی عقل ہے ''

نیز آپ نے فرمایا ہے :

(غنیٰ العاقل بعلمه،وغنی الجاهل بماله )( ۳ )

''عاقل اپنے علم اور جا ہل اپنے مال کے ذریعہ مستغنی ہوتا ہے''

مشہور و معروف حدیث کے مطابق امام مو سیٰ کاظم نے اپنے صحابی ہشام بن حکم سے فرمایا :

(یاهشام:من أراد الغنیٰ بلا مال،وراحة القلب من الحسد،والسلامة فی الدین،فلیتضرّع الیٰ ﷲ فی مسألته بأن یکمل عقله )( ۴ )

''اے ہشام جو انسان مال کے بغیر بے نیازی کا خواہاں ہو،اپنے قلب کو حسد سے محفوظ رکھنا چاہتا ہو ،دین کی سلامتی چاہتا ہو اس کو تضرع و زاری کے ساتھ بارگاہ خداوندی میں دعا کرنا چاہئے کہ خداوند عالم اس کی عقل کو سالم کردے ''

____________________

(۱)تحف العقول ص۱۴۲۔

(۲)نہج البلاغہ حکمت ۳۸۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۴۷۔

(۴)تحف العقول ص۲۸۶۔

۲۹۷

حیات انسانی میں بے نیازی کے آثار

انسانی زندگی میں نفس کی بے نیازی کے بہت فائدے ہیں چونکہ پروردگار جس کے نفس کو بے نیازی عطا کرتا ہے وہ ہمیشہ اپنے خدا سے رابطہ کا احساس کرتا ہے اسے ہر وقت یہ احساس رہتا ہے کہ اللہ اس کے ساتھ ہے اور ہر وقت تائید و عنایت الٰہی اس کے شامل حال ہے لہٰذا وہ تائید و عنایت الٰہی کے باعث سکون و اطمینان کی زندگی بسرکرتا ہے اسے یہ یقین ہوتا ہے کہ میرا خدا مجھے کبھی تنہا نہیں چھوڑے گا اور نہ ہی کبھی مجھے میرے نفس کے حوالے کرے گا ۔

اس طرح اس کی زندگی میں مکمل اعتماد و اعتبار، اطمینان ،ثبات قدم اورسکون قلب تو نظر آتا ہے مگر کبھی بھی حرص و ہوس ،حسد ،لالچ اوراضطراب و پریشانی نظر نہیں آتی اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ تمام نفسانی بیماریاں نفس کی کمزوری اور فقر سے پیدا ہوتی ہیںجس کی طرف ابھی ہم نے حضرت امام مو سیٰ کاظم کی حدیث کے ذیل میں اشارہ کیا تھا ۔

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(أغنیٰ الغنیٰ من لم یکن للحرص أسیراً )( ۱ )

''سب سے بڑا غنی وہ ہے جو حرص و ہوس کا اسیر نہ ہو ''

امیر المو منین حضر ت علی کا ارشاد ہے :

(أشرف الغنیٰ،ترک المنیٰ )( ۲ )

''شریف ترین بے نیازی ، خواہشات کا ترک کرناہے ''

آپ ہی کا ارشاد ہے :

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ ص۳۱۶۔

(۲)اصول کافی ج۸ ص ۲۳۔

۲۹۸

(الغنیٰ الاکبر:الیأس عمّافی أیدی الناس )( ۱ )

''سب سے بڑی بے نیازی یہ ہے کہ انسان اس کا امید وار نہ ہو جو لوگوں کے پاس ہے ''

اور جب مال نفس کو بے نیاز نہ بنا سکے تو پھر وہ اضطراب و بے چینی کا سبب بن جاتا ہے اور انسان کے حرص و طمع اور مشکلات میں اضافہ کرتا رہتا ہے ۔اس سلسلہ میں خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( انّمایریداللّٰه لیعذبهم بهافی الحیاة الدنیا وتزهق أنفسهم ) ( ۲ )

''پس اللہ کا ارادہ یہی ہے کہ انھیں(اموال واولاد) کے ذریعہ ان پر زندگانی دنیا میں عذاب کرے اور حالت کفر میں ہی ان کی جان نکلے ''

( انّما یرید اللّٰه أن یعذبهم بها فی الدنیا و تزهق أنفسهم ) ......( ۳ )

''اور خداان کے(اموال واولاد) ذریعہ ان پر دنیا میں عذاب کرنا چاہتا ہے اور چاہتا ہے کہ کفر کی حالت میں ان کا دم نکلے ''

۲۔ضمنت السمٰوات:

''زمین و آسمان اسکے رزق کے ضامن ہیں''

یہ جملہ ان لوگوںکی دوسری جزا ہے جو ﷲکے احکام کو اپنے خواہشات پر مقدم رکھتے ہیں اور اپنے خواہشات کو حکم وارادئہ الٰہی کا تابع بنا لیتے ہیں۔ایسے لوگوں کو خدا جزا وانعام سے نواز تا ہے ان کی پہلی جزا تو یہ تھی کہ خدا ان کے نفس کو غنی بنادیتا ہے جس کے بارے میں ہم تفصیل سے گفتگو کرچکے ہیں اور ان کی دوسری جزا اور انعام یہ ہے کہ آسمان وزمین ان کے رزق کے ضامن ہوتے ہیں۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت ۳۴۲۔

(۲)سورئہ توبہ آیت ۵۵۔

(۳)سورئہ توبہ آیت ۸۵۔

۲۹۹

واضح سی بات ہے کہ اس جملہ کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان رزق حاصل کرنے کی کوشش ہی نہ کرے بلکہ اس سے مراد یہ ہے کہ ﷲاس کی سعی کو کامیاب بنادیتا ہے اور اسے توفیق عطا کرتا ہے۔

توفیق

ﷲنے توفیق کی بنا پر زمین وآسمان کو ضامن بنایا ہے کیونکہ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ انسانی کوشش رائیگاںچلی جاتی ہے اور اس سے کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا بسا اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ انسان برسوں ہاتھ پیر مارتا ہے جد وجہد کرتا ہے لیکن اپنے مقصود تک نہیں پہونچ پاتا اسکے برخلاف کبھی تھوڑی سی جدو جہد ہی نیک اور با برکت ثمرات کا سبب بن جاتی ہے یہ صرف حسن توفیق اور بے توفیقی کی بات ہے۔اور یہ طے ہے کہ خدا ہی توفیق دینے والا ہے۔

مومن اپنے خواہشات پراحکام خدا کو ترجیح دیتا ہے توخداوند عالم بطورجزازمین و آسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادیتا ہے ۔تو یہ بھی توفیق کی بنیاد پر ہے ۔یہاں توفیق کا مطلب یہ ہے کہ خداوندعالم اسکی سعی وکوشش کو مفید وکارآمد جگہ پر لگادیتا ہے جس سے یہ سعی وکوشش نتیجہ خیزبن جاتی ہے بالکل اسی طرح جیسے زرخیززمین پر بارش ہوتی ہے البتہ کبھی بارش ہوتی ہے مگر زمین سے دانہ نہیں اگتاہے اور بارش کا پانی ضائع ہوجاتا ہے لیکن اگر زرخیز زمین پر تھوڑی سی بارش مناسب موقع پر ہوجائے تو خیر کثیر کا باعث بن جاتی ہے اور سبزہ لہلہانے لگتا ہے۔ توفیق ایک الگ چیز ہے اسکا انسان کی کوشش اور جد وجہد سے کوئی تعلق نہیں ہے انسان جدوجہد کرسکتا ہے مگر توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ تھوڑے اسباب توفیق انسان کے ہاتھ میں ہیں لیکن جو اسباب توفیق اسکے اختیار میں نہیں ہیں انکی تعداد کئی گنا زیادہ ہے جو سب کے سب خداکے ہاتھ میں ہیں ۔خدا جب کسی بندہ کو توفیق سے نوازتا ہے تو اسکی زندگی اور جدوجہد بابرکت بن جاتی ہے جیسا کہ قرآن مجید نے جناب عیسیٰ کی ز بانی نقل کیا ہے:

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349