خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں11%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134630 / ڈاؤنلوڈ: 3999
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

( وجعلنی مبارکاً أینماکنت ) ( ۱ )

''اور مجھے مبارک قرار دیا ہے چاہے میں جہاں رہوں ''

جب تک ﷲ کسی بندہ کو توفیق کرامت نہ فرمائے یا اسکے لئے بھلائی کا ارادہ نہ کرے تو بندہ

اپنی جدوجہد اور عقل کے ذریعہ تھوڑے سے اسباب خیر ہی حاصل کرسکتا ہے۔

( لاینفع اجتهاد بغیرتوفیق ) ( ۲ )

''کوئی بھی کوشش توفیق کے بغیر مفید نہیں ہوتی ''

اورجب پروردگار عالم کسی بندہ کی بھلائی چاہتا ہے تو اس کو توفیق مرحمت کرتا ہے اور اسکی سعی و کوشش کو فلاح و کامیابی کے راستہ پر لگادیتا ہے جس سے اسکی سعی وکوشش نتیجہ بخش ہوجاتی ہے۔

حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(خیرالاجتهاد ما قارنه التوفیق )( ۳ )

''بہترین کوشش وہ ہے جو توفیق کے ساتھ ہو''

دوسری حدیث میں وارد ہو ا ہے:

(التوفیق أشرف الحظّین )( ۴ )

''توفیق دواشر ف واعلی حصو ںمیں سے ایک ہے''

اس سے مراد یہ ہے کہ انسان کے پاس کچھ ایسے اسباب خیروسعادت ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنی عقل اور جدوجہد کے سہارے حاصل کرتا ہے یا وہ وسائل و ذرائع ہوتے ہیں جوﷲ نے اسے عطا

____________________

(۱)سورئہ مریم آیت ۳۱۔

(۲)غررالحکم ج۲ ص۳۴۵۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۳۵۱۔

(۴)غررالحکم ج۱ص۸۲۔

۳۰۱

کئے ہیں یہ بھی نتیجہ تک پہونچنے میں شریک ہیں مگر ان کا حصہ اور ان کی منزلت کم ہے۔دوسرا جز اور حصہ خیروبرکت کے وہ غیبی اسباب ہیں جنہیں ﷲ اپنے بندہ کے شامل حال کرتا ہے یا جب بندہ کو اس کی سعی وکوشش سے اسباب خیر میسر نہیں ہوتے تواللہ اسے خیر و سعادت کی راہ پر لگادیتا ہے یہ دوسرا حصہ ہے جو حدیث کے مطابق زیادہ مخفی ہوتا ہے۔

بلا شبہ توفیق جوایک غیبی سبب ہے اور انسان کو خیروبرکت کی راہ دکھاتا ہے ۔انسان کے پاس

موجود دیگر عقلی اور فطری امکانات اور قوتوںسے جدا ایک چیز ہے اگر چہ یہ قوتیں اورصلاحتیں بھی عطائے پروردگار ہیں لیکن تنہا یہ صلاحتیں انسان کو خیروسعادت کی منزل تک پہونچانے کے لائق نہیں ہیں یعنی صرف انھیں کے سہارے انسان شر سے محفوظ نہیںرہ سکتا ہے بلکہ پروردگار جب کسی بندہ کے لئے خیرکا ارادہ کرتا ہے تو اسکی سعی وکوشش اور صلاحیتوں کو خیر کے صحیح راستوں پر بروئے کار لانے میں اسکی مدد کرتا ہے۔مندرجہ ذیل حدیث اس حقیقت کی صاف وضاحت کرتی ہے۔

روایت میں ہے کہ ایک شخص نے امام جعفر صادق سے سوال کیا:

(یا بن رسول ﷲ! ألست أنا مستطیعاً لماکُلِّفْتُ؟فقال له عليه‌السلام :(ما الاستطاعة عندک؟) قال:القوةعلیٰ العمل،قال له عليه‌السلام :(قد اُعطیت القوة،ان اُعطیت(المعونة)،قال له الرجل:فما المعونة ؟ قال عليه‌السلام :(التوفیق)،قال(الرجل):فلم اِعطائُ التوفیق؟ قال(الامام) عليه‌السلام : هل تستطیع بتلک القوةدفع الضررعن نفسک،وأخذالنفع الیهابغیرالعون من ﷲ تبارک وتعالیٰ؟)قال:لا، قال عليه‌السلام :(فَلمَ تنتحل مالا تقدرعلیه؟)ثم قال:(أین أنت من قول العبد الصالح:(وما توفیقی الا بﷲ) ( ۱ )

____________________

(۱)بحار الانوارج۵ ص۴۲۔''وماتوفیقی الابﷲعلیه توکّلت والیه اُنیب'' ''میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے اسی پر میرا اعتماد ہے اور اسکی طرف میں توجہ کر رہاہوں''سورئہ ہو دآیت۸۸۔

۳۰۲

''فرزند رسول ﷲ !جب مجھے مکلف بنایاگیا ہے تو کیا میں مستطیع نہیں ہوں؟امام نے فرمایا:استطاعت سے تمہاری مراد کیاہے؟اس نے جواب دیا کہ عمل بجالانے کی قوت وطاقت''امام نے فرمایا:یہ درست ہے کہ تمہیں قوت دی گئی ہے مگر کیا تمہیں''معونہ''بھی نصیب ہوا ہے؟اس شخص نے سوال کیا:یہ معونہ کیاہے؟امام نے فرمایا:توفیق! اس شخص نے(تعجب سے)پوچھا:توفیق عطا کرنے کی کیا ضرورت ہے؟امام نے فرمایا کہ:کیا تم اللہ کی مددکے بغیر صرف اپنی قوت کے ذریعہ اپنے کو نقصانات سے محفوظ ر کھ سکتے ہو اور فائدے حاصل کرسکتے ہو؟اس نے جواب دیا ہرگز نہیں:پھر امام نے دریافت فرمایا:پھرتم عبدصالح کے اس جملہ کا کیا مطلب سمجھتے ہوکہ' 'میری توفیق صرف اللہ سے وابستہ ہے ''

اس روایت کے مطابق انسانی زندگی میں تین طرح کی قوتیں اور عوامل کار فرما ہیں:

۱۔وہ طبیعی اور سماجی قوانین جو انسان کو خیریا شرکی جانب لے جاتے ہیں۔

۲۔وہ قوتیں اور صلاحتیں جو پروردگار عالم نے انسانی وجود میں رکھی ہیں اور جنہیں انسان طبیعت یا سماج میں خیروشر تک رسائی حاصل کرنے کے لئے استعمال کرتا ہے۔

۳۔توفیق و امداد الٰہی جس کے ذریعہ پروردگار اپنے بندوں کو اسباب خیر تک پہونچاتا ہے اور ان مخفی اسباب کے لئے بندوں کی مدد کرتا ہے جو عام لوگوں کی نگاہوں سے اوجھل تھے یا جن تک رسائی ممکن نہ تھی اس آخری سبب کے بغیر خیر تک پہونچنا ممکن نہیں ہے۔

کراجکی نے اپنی کتاب'' کنز ''میں روایت کی ہے کہ امام جعفر صاد ق نے فرمایا:

(ماکلّ من نویٰ شیئاً قدرعلیه،وما کل من قدر علیٰ شیٔ وُفّق له ۔۔۔)( ۱ )

''ایسا نہیں ہے کہ ہر انسان ہر اس چیز پر قدرت بھی رکھتا ہو جس کی اس نے نیت کی ہے اور نہ ہی ایسا ہے کہ جو مقدور ہو اسکی توفیق بھی حاصل ہواور نہ ہی ایسا ہے کہ جسکی توفیق حاصل ہو وہ شئے خود

____________________

(۱)بحارالانوار ج۵ص۲۰۹۔۲۱۰۔

۳۰۳

حاصل بھی ہوجائے۔جب نیت ، قدرت اورتوفیق کے ساتھ وہ چیزبھی حاصل ہوجائے تو سعادت مکمل کہلاتی ہے''

توفیق ،معرفت پروردگار کا بہت وسیع باب ہے اگر چہ ﷲ کی معرفت کے تین راستے ہیں:

۱۔فطرت

۲۔عقل (عقلی دلیلوںکے ذریعہ)

۳۔تعامل مع اللہ(اللہ کے ساتھ تجارت اور معاملہ)

''تعامل مع ﷲ'' معرفت کاایک وسیع در وازہ ہے لیکن اس دروازہ میں صرف صاحبان بصیرت داخل ہوسکتے ہیں اوراسکے ذریعہ انسان کو ایمان، اعتبارواطمینان اور توکل کاوہ درجہ حاصل ہوتا ہے جو فطرت اورعقل کے ذریعہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم کے ساتھ معاملہ اور اس کی عطا کے ساتھ لین دین اور اللہ تعالیٰ کے قرب اور اس کی معیت کی وجہ سے ہی تائید خداوندی اوراس کی تو فیق ہر حال میں انسان کے شامل حال ہو تی ہے ۔

توفیق الٰہی یونہی کسی انسان کے شامل حال نہیں ہوجاتی بلکہ توفیق نازل ہونے کے اپنے اسباب و قوانین اور اصول ہیں۔ جسے پروردگار نے توفیق جیسی نعمت عطا کی ہے یقینا وہ اس لائق تھا کہ ایسی رحمت الٰہی اس کو نصیب ہو اور جو توفیق سے محروم ہے یقینا اس نے اس عظیم نعمت کے نزول و حصول کے مواقع ضرورگنوائے ہیں ورنہ رحمت الٰہی میں بخل و کنجو سی کا دخل نہیں ہے اور نہ ہی اسکا خزانہ ٔ رحمت ختم ہونے والا ہے ۔یہ عظیم نعمت اسی کے حصہ میں آتی ہے جس کے شامل حال خدا کی توفیق ہوتی ہے اور اس نعمت سے محروم صرف وہی ہوتا ہے کہ جسے توفیق نصیب نہ ہو۔ توفیق جیسی نعمت پانے والے افراد بھی برابر نہیں ہوتے بلکہ استحقاق، صلاحیت ،لیاقت اور ظرف کے اعتبار سے ان کی توفیق کے مراتب ودرجات بھی الگ الگ ہوتے ہیں ۔

۳۰۴

اسکی بارگاہ سے رحمت،توفیق کی شکل میں بے حساب نازل ہوتی رہتی ہے البتہ اس سے صرف وہی لوگ محروم رہتے ہیں جن کا نفس بد اعمالیوں کے باعث گھاٹے میں ہے اور جنھوںنے اپنے آپ کو اوراپنے باطن اور ظرف کواسکے حصول کے قابل نہیں بنا یاہے جبکہ ان کے برخلاف صاحبان ایمان اپنی استعداد اورظرف کے مطابق اس نعمت سے بہرہ مند ہوتے رہتے ہیں۔( ۱ )

رزق اگر چہ عالم ظاہر و شہودکا معاملہ ہے لیکن آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ مسئلہ رزق سے غیبی اسباب کا کتنا گہرا تعلق ہے ۔

عالم غیب اور عالم شہود(ظاہر)کے درمیان رابطہ

مسئلہ''غیب''اور''غیب وشہود کا تعلق''جیسے مسائل اسلامی نظریات کے بنیادی مسائل میں شمار ہوتے ہیںاور اس سلسلہ میں لوگوں کے درمیان شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔کچھ ایسے افراد بھی ہیں جو سرے سے غیب کے منکر ہیں کچھ شہود کے مقابل غیب کا اقرار تو کرتے ہیں لیکن ان دونوں کے درمیان رابطہ کے منکر ہیں۔

اسلام''غیب''کو صرف تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ''غیب''پر ایمان کی دعوت دیتا ہے اور ''ایمان بالغیب''کو اسلام کی سب سے پہلی شرط قرار دیتا ہے۔

( الم ٭ذٰلک الکتاب لاریب فیه هدیً للمتقین٭الذین یؤمنون بالغیب ویقیمون الصلاة و مما رزقناهم ینفقون ) ( ۲ )

''یہ وہ کتاب ہے جس میں کسی طرح کے شک وشبہ کی گنجائش نہیں ہے یہ صاحبان تقویٰ اور پرہیزگارلوگوں کیلئے مجسم ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں پابندی سے پورے اہتمام کے ساتھ

____________________

(۱)مؤلف کی کتاب ''المذہب التاریخی فی القرآن الکریم ، سے اقتباس ،معمولی تبدیلی کے ساتھ صفحہ ۴۰۔۴۹۔

(۲)سورئہ بقرہ آیت ۱۔۳۔

۳۰۵

نماز ادا کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے رزق دیا ہے اس میں سے ہماری راہ میں خرچ بھی کرتے ہیں ''

( الذین یخشون ربهم بالغیب وهم من الساعة مشفقون ) ( ۱ )

''جو از غیب اپنے پروردگار سے ڈر نے والے ہیں اور قیامت کے خوف سے لرزاں ہیں''

( انما تنذر من اتبع الذکر وخشی الرحمٰن بالغیب ) ( ۲ )

''آپ صرف ان لوگوں کو ڈر ا سکتے ہیں جو نصیحت کا اتباع کریں اور بغیر دیکھے ازغیب خدا سے ڈر تے رہیں ''

اسلام عالم غیب اور عالم شہود کے درمیان ربط کا بھی قائل ہے اس کا یہ نظریہ ہے کہ ان دونوں وسیع افقوں کوجوڑنے والے بہت سے پل بھی پائے جاتے ہیں ان تمام باتوں سے بڑھکر اسلام کا عقیدہ ہے کہ دونوں عالم ایک دوسرے پر اثر انداز ہوتے ہیں یعنی عالم غیب ،عالم ظاہر و محسوس پر اثر انداز ہوتا ہے اور عالم محسوس و ظاہر غیب پر ،اگر انسان متقی وپرہیزگار ہے۔ایمان بالغیب کے باعث دل میں خشیت الٰہی پائی جاتی ہے اور وہ گناہوں سے کنارہ کش رہتا ہے تو یہ چیزیں براہ راست انسان کی مادی زندگی پر اثر انداز ہوتی ہیں۔معاش حیات کی سختیاں آسانیوں میں تبدیل ہوجاتی ہیں اور رزق کے دروازے اسکے لئے کھل جاتے ہیں۔ارشاد پروردگار ہے:

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لا یحتسب ) ( ۳ )

''اور جو بھی ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے ،اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جسکا وہ گمان بھی نہیں کرتا ہے ''

____________________

(۱)سورئہ انبیاء آیت۴۹ ۔

(۲)سور ئہ یٰس آیت۱۱۔

(۳)سورئہ طلاق آیت ۲۔۳۔

۳۰۶

( ومن یتّق اللّٰه یجعل له من أمره یسرا ) ( ۱ )

اور جو ﷲ سے ڈرتا ہے ﷲ اسکے امرمیں آسانی پیدا کردیتا ہے ''

یہ تو تھا عالم ظاہر و محسوس کا عالم غیب سے تعلق۔ اسکے برخلاف عالم غیب کا بھی عالم ظاہر سے

تعلق پایا جاتا ہے۔

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے:

(لولا الخبزماصلّینا )( ۲ )

''اگر روٹی کا مسئلہ نہ ہوتا تو ہم نماز نہ پڑھتے''

آپ ہی سے منقول ہے:(وبہ (الخبز)صمتم)( ۳ )

''تم لوگوں کے روزے اسی روٹی کیلئے ہیں''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(فلولاالخبزماصلّیناولاصمنا،ولا أدّینافرائض ربناعزّوجلّ )( ۴ )

''اگر روٹی (کی بات) نہ ہوتی تو نہ ہم نماز پڑھتے اور نہ روزہ رکھتے اور نہ ہی اپنے پروردگار کے احکام بجالاتے''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۴۔

(۲)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

(۳)اصول کافی ج۶ ص۳۰۳۔

(۴)اصول کافی ج۵ص۷۳۔

۳۰۷

حرکت تاریخ کے سلسلہ میں غیبی عامل کا کردار

عالم غیب اور عالم محسوس میں اسی رابطہ کی بنا پر قرآن کریم ''غیب''کو حرکت تاریخ کا اہم سبب شمار کرتا ہے اور تاریخ کے پیچھے مادی سبب کو بھی تسلیم نہیں کرتا چہ جائیکہ مادیت کو تاریخ کا تنہا محرک مانا جائے بلکہ بسا اوقات ایسا بھی دکھائی دیتا ہے کہ تاریخ مادی عوامل کے تقاضوں کے برخلاف حرکت کرتی ہوئی نظر آتی ہے۔

ذرا قرآن کریم کی ان آیات میں غور وخوض کیجئے:

( لقدنصرکم ﷲ فی مواطن کثیرة ویوم حنینٍ اذ أعجبتکم کثرتکم فلم تغنِ عنکم شیئاً وضاقت علیکم الارض بمارحبت ثم ولّیتم مدبرین٭ثم أنزل ﷲ سکینته علیٰ المؤمنین وأنزل جنوداً لم تروها وعذّب الذین کفروا وذٰلک جزاء الکافرین ) ( ۱ )

''بیشک اللہ نے اکثر مقامات پر تمہاری مدد کی ہے اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس(کثرت) نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایا اور تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوں سمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعد تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے ،پھر اسکے بعد اللہ نے اپنے رسول اور صاحبان ایمان پر سکون نازل کیا اور وہ لشکر بھیجے جنہیں تم نے نہیں دیکھااور کفر اختیار کرنے والوں پر عذاب نازل کیاکہ یہی کافرین کی جزا اور ان کا انجام ہے''

ان آیات کریمہ سے پہلا نتیجہ یہ برآمد ہوتا ہے کہ فتح و کامرانی عطا کرنے والا خدا ہے۔

مادی اسباب و وسائل صرف ذریعہ ہیں کامیابی دینے والا اصل میں خدا ہے۔ تاریخ کی حرکت کو سمجھنے کے لئے بنیادی نقطہ یہی ہے اور یہیں سے اسلامی نظریہ،مادیت کے نظریہ سے جدا ہوجاتا ہے۔

آیات کریمہ میں دوسرا اہم تذکرہ لشکر اسلام کی کثرت کے باوجود حنین کی جنگ کا نقشہ منقلب ہونا ہے حالانکہ مادی نگاہ رکھنے والوں کے نزدیک افرادکی کثرت فتح کا سبب ہوتی ہے۔ ''اور حنین کے دن بھی جب تمہیں اپنی کثرت پر ناز تھا لیکن اس نے تمہیں کوئی فائدہ نہیں پہونچایااور

____________________

(۱)سورئہ توبہ آیت۲۵۔۲۶۔

۳۰۸

تمہارے لئے زمین اپنی وسعتوںسمیت تنگ ہوگئی اور اسکے بعدتم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔

آیات کریمہ میں تیسرا تذکرہ ﷲ کی جانب سے اپنے رسول اور مومنین پرعین میدان جنگ میں سکینہ نازل ہونا ہے۔اسی سکینہ کے باعث شدت کے لمحات میں انہیں اطمینان و سکون حاصل ہوا

اور وہ میدان جنگ میں ثابت قدم رہ سکے اور ان کے دلوں سے خوف واضطراب زائل ہوایہ سکینہ فقط خدا کی جانب سے تھا ﷲ نے فرشتوں کا نہ دکھائی دینے والالشکر نازل کیا جو لشکر کفار کو ہزیمت پر مجبور کر رہا تھا ان کی صفوں میں رعب پھیلا رہا تھا اسکے بر خلاف دشمن سے مقابلہ کے لئے مومنین کے دلوں کو تقویت عطا کررہا تھا۔

اب ہم سورئہ آل عمران کی ان آیات کو پڑھیں:

( بلیٰ ان تصبروا وتتّقوا ویأ توکم من فورهم هذا یُمددکم ربّکم بخمسة آلاف من الملا ئکةمسوّمین٭ وما جعله ﷲ الابشریٰ لکم ولتطمئنّ قلوبکم به وما النصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) ( ۱ )

'' یقینا اگر تم صبر کروگے اور تقویٰ اختیار کروگے اور دشمن فی الفورتم تک آجائیں تو خدا پانچ ہزار فرشتوں سے تمہاری مددکریگا جن پر بہادری کے نشان لگے ہوںگے ۔اور اس امداد کو خدانے صرف تمہارے لئے بشارت اور اطمینان قلب کا سامان قرار دیا ہے ورنہ مدد تو صرف خدائے عزیز و حکیم کی طرف سے ہوتی ہے ''

جنگ کی شدت اور سختیوں کے دوران پانچ ہزار ملائکہ کے ذریعہ غیبی امداد نے فیصلہ مسلمانوں کے حق میں کرادیا۔ﷲ نے ملائکہ کے ذریعہ مومنین کے دلو ں کو سکون واطمینان عطا کیا اور اس طرح سخت ترین لمحات میں انہیں اسطرح بشارت وخوش خبری سے نواز ا۔ اسی آیہ شریفہ میں اس

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۲۵۔۱۲۶۔

۳۰۹

بنیادی نقطہ کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جو نقطہ تاریخ کی حرکت کے بارے میں اسلام اور مادیت کے درمیان حدفاصل ہے( وماالنصرالا من عندﷲ العزیزالحکیم ) فتح وکامرانی صرف اور صرف ﷲ کی جانب سے ہے جنگ احد میں جیتی ہوئی جنگ کا نقشہ پلٹ جانے کے بعد مومنین کو سکھائے گئے

اسباق سورئہ آل عمران میں موجود ہیں:

( ولا تهنواولا تحزنواوأنتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ) ( ۱ )

''خبر دار سستی نہ کرنا مصائب پر محزون نہ ہونا،اگر تم صاحب ایمان ہوتو سربلندی تمہارے ہی لئے ہے ''

میدان جنگ میں یہ برتری خدا پر ایمان سے پیدا ہوتی ہے۔ایمان کے بعد پھر کہیں ان مادی اسباب و عوامل کی باری آتی ہے جنکی ضرورت میدان جنگ میں پڑتی ہے۔

سورئہ اعراف میں بھی یہی مضمون نظر آتا ہے:

( ولوأنّ أهل القریٰ آمنوا وا تّقوا لفتحنا علیهم برکاتٍ من السماء والارض ولکن کذّبوا فأخذناهم بماکانوا یکسبون ) ( ۲ )

''اور اگر اہل قریہ ایمان لے آتے اور تقویٰ اختیار کرلیتے تو ہم ان کے لئے زمین وآسمان سے برکتوں کے دروازے کھول دیتے لیکن انھوں نے تکذیب کی تو ہم نے ان کو ان کے اعمال کی گرفت میں لے لیا۔''

''پروردگار عالم اپنے بندوں پر زمین و آسمان کی برکات کے دروازے کھول دیتا ہے'' یہ چیز ایمان وتقوے سے ہی حاصل ہوتی ہے۔اسکے ساتھ ضمنی طورپرمادی و سائل بھی درکار ہوتے ہیں۔

یہ تصویر کا ایک رخ تھا جو کہ مثبت رخ تھا کہ کس طرح میدان جنگ میں ایمان اور تقوی ٰسے

____________________

(۱)سورئہ آل عمران آیت۱۳۹۔

(۲)سورئہ اعراف آیت۹۶۔

۳۱۰

فتح و کامرانی ملتی ہے معاشی زندگی میں وسعت رزق ،آسانیاں اور خوشیاں میسر ہوتی ہیں۔ اسکے برخلاف عالم غیب اور عالم محسوس کا یہی تعلق اور رابطہ غلطیوں اورگناہوںمیں مبتلاہونے اور حدود الٰہی سے تجاوز ،تہذیبوں کے خاتمہ اور امتوں کی تباہی و بربادی کا سبب بھی ہوتا ہے۔

سورئہ انعام کی ان آیات کو غور سے پڑھئے:

( ألم یرواکم أهلکنامن قبلهم من قَرنٍ مکنّاهم فی الارض مالم نمکّن لکم وأرسلنا السماء علیهم مدراراً وجعلنا الانهارتجری من تحتهم فأهلکناهم بذنوبهم وأنشأنا من بعدهم قرناً آخرین ) ( ۱ )

''کیا انھوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے ان سے پہلے کتنی نسلوں کو تباہ کردیا ہے جنہیں تم سے زیادہ زمین میں اقتدار دیا تھا اور ان پر موسلادھار پانی بھی برسایا تھا ان کے قدموں میں نہر یں بھی جاری تھیں پھر ان کے گناہوں کی بناپر انہیں ہلاک کردیا اور ان کے بعد دوسری نسل جاری کردی ''

یہ ہلاکت و بربادی بے عملی، عصیان اور گناہوں کی وجہ سے تھی مادیت کو تاریخ کا محرک سمجھنے والوں کی نگاہ میں ان اسباب کی کوئی حیثیت ہی نہیں ہے جبکہ قرآن بد اعمالیوں کو بھی بربادی کا سبب مانتا ہے ۔

اسی سورئہ مبارکہ کی یہ آیات کریمہ بھی ملاحظہ فرمائیں جن میں قرآن مجید نے تسلسل کو مکمل طور پر پیش کردیا ہے ۔جیسا کہ ارشاد ہے :

( ولقد ارسلنالیٰ امم منقبلک فاخذناهم بالبأسآء والضرّآء لعلهم یتضرعون٭ فلولااذجاء هم بأسنا تضرّعوا ولکن قست قلوبهم و زیّن لهم الشیطان ماکانوا یعملون٭فلمانسوا ما ذکّروا به فتحناعلیهم أبواب کل شیٔ حتّٰی اذا فرحوابما اُوتوا أخذنٰهم بغتة ً فاذا هم مبلسون٭فقطع )

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۶۔

۳۱۱

( دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۱ )

''ہم نے تم سے پہلے والی امتوں کی طرف بھی رسول بھیجے ہیں اسکے بعد انہیں سختی اور تکلیف

میں مبتلا کیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں۔پھر ان سختیوں کے بعد انہوں نے کیوں فریاد نہیں کی ؟بات یہ ہے کہ ان کے دل سخت ہوگئے ہیں اور شیطان نے ان کے اعمال کو ان کے لئے آراستہ کردیا ہے ۔پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہر چیز کے دروازے کھول دئے ،یہاں تک کہ جب وہ ان نعمتوں سے خوشحال ہوگئے تو ہم نے اچانک انہیں اپنی گرفت میں لے لیا ،اور وہ مایوس ہوکر رہ گئے، پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیاگیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

تمام امتوں کے آغاز سے لیکر ان کے انجام تک تین مرحلے ہیں جن کی طرف ان آیات کریمہ میںاشارہ پایا جاتا ہے اسی طرح ان تینوں مرحلوں میں عالم غیب اور عالم محسوس کے درمیان رابطہ کی وضاحت پائی جاتی ہے۔

پہلا مرحلہ

یہ آزمائش کا مرحلہ ہے اس مرحلہ میں پروردگار امتوں کو نعمتوں اور صلاحتیوں سے نواز تا ہے۔اس مرحلہ میں گناہ و معصیت نزول بلا اور بارگاہ خداوندی میں تضرع وزاری بلائوں سے نجات کا ذریعہ بنتی ہے۔

( فأخذناهم بالبأساء والضرّاء لعلّهم یتضرّعون )

''اسکے بعد ہم نے انہیں سختی اور تکلیف میں مبتلاکیا کہ شاید ہم سے گڑگڑائیں''

گناہ سے بلائووں کانازل ہونا اور تضرع وزاری سے بلائووں کا برطرف ہونا یہ در اصل عالم

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت۴۲۔۴۵۔

۳۱۲

غیب اور عالم محسوس کے رابطہ کو بیان کرتا ہے اوراس نقطہ تک مادی فکرکی رسائی نہیں ہوسکتی ہے یہ بات ہمیںکتاب خدا سے معلوم ہوئی ہے۔

دوسرا مرحلہ

مہلت اور چھوٹ کا مرحلہ ہے ۔اس مرحلہ میں بھی عالم غیب و محسوس کا تعلق نمایاں ہے اس لئے کہ برائیوں اور گناہوں میں غرق ہوجانے اور آزمائش کے مرحلہ میں مصائب و مشکلات کو نظر انداز کرتے رہنے کے باوجود کبھی کبھی امت پر نعمت کا دروازہ بند نہیں ہوتا لیکن اس مرحلہ میں رزق،نعمت نہیںبلکہ عذاب ہوتا ہے اور ﷲ اس طرح انہیں ان کی سرکشی میں چھوٹ دیکر ان کی رسی درازکردیتا ہے تاکہ پھراچانک ایک دم پوری سختی وقوت کے ساتھ انہیں جکڑلے:

( فلما نسواماذکّروا به فتحنا علیهم أبواب کلّ شیٔ ) ( ۱ )

''پھر جب وہ ان نصیحتوں کو بھول گئے جو انہیں یاد دلائی گئی تھیں تو ہم نے امتحان کے طورپر ان کے لئے ہرچیز کے دروازے کھول دئے ''

تیسرا مرحلہ

بربادی اور نابودی کا مرحلہ ہے:

( فقطع دابرالقوم الذین ظلموا والحمد ﷲ ربّ العالمین ) ( ۲ )

''پھر ظالمین کا سلسلہ منقطع کردیا گیا اور ساری تعریف اس ﷲکے لئے ہے جو رب العالمین ہے ''

حمد خدا یہاں عذاب پر ہے نعمت پرنہیں۔ یعنی نعمت حیات کے بجائے ''سرکش افراد کی '' نابودی اورہلاکت پر حمد وثنا ئے الٰہی کی جارہی ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ انعام آیت ۴۴۔

(۲)سورئہ انعام آیت۴۵۔

۳۱۳

عالم غیب ومحسوس کا رابطہ اس مرحلہ میں بھی گذشتہ مراحل سے جدا نہیں ہے کیونکہ جب افراد قوم اکڑتے ہیں روئے زمین پر سرکشی اور تکبر کا مظاہرہ کرتے ہیں اور ان چیزوں میں فرحت محسوس کرتے ہیں تو ان پر ایسا عذاب نازل ہوتا ہے کہ پوری قوم نیست ونابود ہوجاتی ہے۔

لہٰذامعلوم ہوا کہ اسلام کی نظر میں غیبی عامل ،حرکت تاریخ کا اہم عنصر ہے۔

غیبی عامل،مادی عوامل کا منکر نہیں

اگر چہ اسلام کی نگاہ میں حرکت تاریخ کا اہم عنصر غیبی عامل ہے مگراسکا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے

کہ اسلام انسانی زندگی میں مادی عوامل کو تسلیم ہی نہیں کرتا بلکہ در حقیقت حرکت تاریخ کا عامل، کسی ایک چیز کو ماننے کے بجائے اسلام متعدداور مشترکہ عوامل کا قائل ہے یعنی غیبی اور مادی عوامل ایک ساتھ مل کر تاریخ کو آگے بڑھاتے ہیں ۔اور ان میں سے صرف کوئی ایک عامل تاریخ کا محرک نہیں ہے وہ مادی عامل ہو یا معنوی۔ اسلام کی نگاہ میںزندگی بسر کرنے کے لئے ان دونوں عوامل کوبروئے کار لانا ضروری ہے۔

تقویٰ اور رزق کا تعلق

جب عالم غیب اور عالم محسوس کا تعلق اور ربط واضح ہوگیا ''تو آیئے ایک نگاہ ،حدیث قدسی کے اس فقرہ پر ڈالتے ہیں:

(لا یؤثرعبد هوای علی هواه الاضمنت السمٰوات والارض رزقه )

''کوئی بندہ اگر اپنی خواہشات پرمیرے احکام اورمرضی کو ترجیح دے گا تو میں زمین وآسمان کو اسکے رزق کا ضامن بنادوں گا'' عالم غیب و عالم محسوس کے درمیان تعلق کی گذشتہ توضیح کے پیش نظر غیب اور معنویت سے تعلق رکھنے والے ''تقویٰ''اور عالم غیب وعالم محسوس وشہود سے تعلق رکھنے والے ''رزق' ' کے درمیان ربط کی وضاحت کی کوئی خاص ضرورت نہیں رہ جاتی ۔

۳۱۴

اسلامی تہذیب میں یہ نظریہ بالکل واضح وروشن ہے اس لئے کہ تقویٰ بھی رحمت الٰہی کا وسیع دروازہ ہے تقوے کے ذریعہ انسان ﷲ سے رزق نازل کراسکتا ہے ۔تقوے سے ہی باران رحمت نازل ہوتی ہے اور مشکلات بر طرف ہوتی ہیں تقوے کے سہارے ہی ﷲ کی جانب سے فتح وکامیابی میسر ہوتی ہے۔اسی کے طفیل بند دروازے کھل جاتے ہیں تقوے کی ہی بدولت خداوند عالم زندگی کے مشکلات میں لوگوں کے لئے آسانیاں فراہم کرتا ہے۔جیسا کہ ارشادالٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعلْ له مخرجاً٭ویرزقه من حیث لایحتسب ومن یتوکّل علی ﷲ فهوحسبه انّ ﷲ بالغ أمره قد جعل ﷲ لکلّ شی ء قدْرا )

''اور جو بھی ﷲسے ڈرتا ہے ﷲاس کے لئے نجات کی راہ پیدا کردیتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جس کا خیال بھی نہیں ہوتا ہے اور جو خدا پر بھروسہ کریگا خدا اسکے لئے کافی ہے بیشک خدا اپنے حکم کا پہنچانے والا ہے اس نے ہر شے کے لئے ایک مقدار معین کردی ہے ۔ ''( ۱ )

جیسا کہ ارشاد الٰہی ہے :

( ومن یتّق ﷲ یجعل له من أمره یُسراً ) ( ۲ )

''اور جو خدا سے ڈرتا ہے خدا اسکے معاملات میں آسانی پیدا کردیتا ہے''

پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد گرامی ہے:

( لوأن السمٰوات والارض کانتا رتقاً علیٰ عبد ثم اتقیٰ ﷲ لجعل ﷲله منهما فرجاً ومخرجاً ) ( ۳ )

''اگر کسی بندے پر زمین وآسمان کے دروازے بالکل بند ہوجائیں پھر وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکو زمین وآسمان میں کشادگی اور آسانیاں عطا کردے گا ''

____________________

(۱)سورئہ طلاق آیت۲۔۳۔

(۲)سورئہ طلاق آیت ۴۔

(۳)بحارالانوار ج۷۰ص ۲۸۵۔

۳۱۵

روایت کے مطابق جب حضرت ابوذر(رح) ربذہ کے لئے جلا وطن کئے گئے توان سے امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا:

(یاأباذر؛انک غضبت ﷲ فارجُ من غضبت له،ولوأن السمٰوات والارض کانتاعلیٰ عبد رتقاً ثم اتقیٰ ﷲلجعل منهمافرجاًومخرجاً )( ۱ )

''اے ابوذر تمہاری ناراضگی اور غضب ﷲ کے لئے تھا لہٰذا اسی کی ذات سے لولگائے رکھنا۔اگر زمین وآسمان کے راستے کسی بندہ پر بند ہوجائیں اور وہ تقوائے الٰہی اختیار کرے تو ﷲ اسکے لئے زمین وآسمان میں آسانیاں فراہم کردے گا ''

مولائے کائنات حضرت علی کا ارشاد گرامی ہے:

(من أخذ بالتقویٰ عزبت(غابت)عنه الشدائد بعد دنوّها،واحلولت له الاموربعد مرارتها،وانفرجت عنه الامواج بعد تراکمها،وأسهلت له الصعا ب بعد انصابها )( ۲ )

''جوتقویٰ اختیار کرے گا شدائد و مصائب اس سے نزدیک ہونے کے بعد دور ہو جائیں گے تلخیوں کے بعد حلاوت محسوس کرے گا۔ امواج بلا اسکے گرد جمع ہونے کے بعد پراکندہ ہوجائیں گی مشکلات پڑنے کے بعد آسانیوں میں تبدیل ہوجائیں گی ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے:

(من اعتصم بﷲ بتقواه عصمه ﷲ،ومن أقبل ﷲ علیه وعصمه لم یبال لوسقطت السماء علیٰ الارض،وان نزلت نازلة علیٰ أهل الارض فتشملهم بلیة،کان فی حرزﷲ بالتقویٰ من کل بلیة،ألیس ﷲ تعالیٰ یقول:ان المتقین فی مقام أمین )

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ۱۳۰۔

(۲)نہج البلاغہ خطبہ ۱۹۸۔

۳۱۶

''جو تقوائے الٰہی کی پناہ میں آئے گا ﷲ اسے محفوظ رکھے گا اور جس کی طرف ﷲ کی توجہ ہوجائے اور ﷲ اسے محفوظ رکھے توچاہے آسمان، زمین پر گرجائے اسے کوئی پرواہ نہیں ہوتی اگر تمام اہل زمین پرکوئی بلا نازل ہوتو وہ تقوے کے باعث امان خدا میں رہے گا ۔کیا خدا کایہ قول نہیں ہے:

(ان المتقین فی مقام أمین )( ۱ )

''بیشک متقین امن کے مقام پر ہیں''

امام جعفرصادق سے مروی ہے کہ:

(ان ﷲ قد ضمن لمن اتّقاه أن یحوّله عمایکره الیٰ مایحب ویرزقه من حیث لایحتسب )( ۲ )

''ﷲ نے متقی کی ضمانت لی ہے کہ اسکے ناپسند یدہ امور کو پسندیدہ امور میںتبدیل کردے گا اور اسے ایسے راستہ سے رزق عطا کرے گا جس کا اسے گمان بھی نہ ہوگا''

امام محمد تقی نے سعد الخیرکو تحریر فرمایا:

(ان ﷲ عزّوجل یقی بالتقویٰ عن العبد ماغرب عنه عقله،ویجلّی بالتقویٰ عماه وجهله،وبالتقویٰ نُجّی نوح ومن معه فی السفینة،وصالح ومن معه من الصاعقة،وبالتقویٰ فازالصابرون ونجت تلک العصب من المهالک )( ۳ )

''پروردگار عالم، تقویٰ کے ذریعہ اپنے بندہ سے ان چیزوں کومحفوظ رکھتا ہے جو اسکی عقل سے مخفی تھیں اور تقویٰ کے ذریعہ اسے مکمل بینائی عطا کردیتا ہے اور ان چیزوں کو بھی دکھادیتا ہے جو جہالت کے باعث اس سے پوشیدہ تھیں۔تقویٰ کے باعث ہی نوح اور کشتی میں سوار ان کے ساتھیوں

____________________

(۱)بحارالانوارج۷۰ ص۲۸۵۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)فروع کافی ج۸ص۵۲۔

۳۱۷

نے نجات پائی ،صالح اور ان کے ساتھی آسمانی بجلی سے محفوظ رہے۔ تقویٰ کی بناء پر ہی صبر کرنے والے بلند درجات پر فائز ہوئے اور ہلاکت خیز مشکلات سے نجات حاصل کرسکے''

خلاصۂ کلام یہ کہ جو لوگ ﷲ کی مرضی اور احکام کو اپنی خواہشات پر ترجیح دیتے ہیں اور حکم خدا کے سامنے اپنی ضرورتوں ،خواہشوں اور ترجیحات کو اہمیت نہیں دیتے ہیں تو خداوند عالم زمین وآسمان کو ان کے رزق کا ضامن بنادیتا ہے۔ان کے امور کا خود ذمہ دار ہوجاتا ہے اور انھیں ان کے نفسوں کے حوالہ نہیں کرتا اور انکی سعی وکوشش میں توفیق و برکت عطا کرتا ہے۔

یہاں پھرسے یہ بیان کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان باتوں کایہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ تقوی کے بعدرزق حاصل کرنے کے لئے سعی وجستجو کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔حصول رزق کے لئے صرف تقویٰ کوکافی سمجھ لینا اسلامی نظریہ نہیں ہے البتہ اتنا ضرور ہے کہ تقویٰ کے ذریعہ بندہ پر رزق نازل ہوتا ہے اوراس طرح آسانی کے ساتھ مختصر زحمت سے ہی رزق حاصل ہوجاتا ہے۔

تقویٰ کی بنا پر نجات پانے والے تین لوگوں کا واقعہ

نافع نے ابن عمر سے نقل کیا کہ پیغمبر اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا:تین آدمی چلے جار ہے تھے کہ بارش ہونے لگی تو وہ لوگ پہاڑکے دامن میں ایک غار میں چلے گئے اتنے میں پہاڑ کی بلندی سے ایک بڑا سا پتھر گرااور اسکی وجہ سے غار کا دروازہ بند ہوگیا۔تو ان لوگوں نے آپس میں کہا:اپنے اپنے اعمال صالحہ پر نظر دوڑائو اور انھیں کے واسطہ سے خدا سے دعاکرو شائد خدا کوئی آسانی پیداکردے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ میرے والدین بہت بوڑھے تھے اورمیرے بچے بھی بہت چھوٹے چھوٹے تھے۔ میں بکریاں چراکر ان کا پیٹ پالتا تھا واپس آکر بکریوں کا دودھ نکالتا تو پہلے والدین کے سامنے پیش کرتا اس کے بعد اپنے بچوں کودیتا۔

۳۱۸

اتفاقاً میں ایک دن صبح سویرے گھر سے نکل گیا اور شام تک واپس نہ آیا۔جب میں واپس پلٹا تومیرے والدین سوچکے تھے میں نے روزانہ کی طرح دودھ نکالا اور دودھ لے کر والدین کے سرہانے کھڑا ہوگیا مجھے یہ گوارہ نہ ہوا کہ انھیںبیدار کروں اور نہ ہی یہ گوارہ ہوا کہ والدین سے پہلے بچی کو دودھ پیش کروں حالانکہ بچی بھوک کی وجہ سے رو رہی تھی اور میرے قدموں میں بلبلا رہی تھی مگر میری روش میں تبدیلی نہ آئی یہاں تک کہ صبح ہوگئی پروردگار ا!اگر تو یہ جانتا ہے کہ یہ عمل میں نے صرف تیری رضا کے لئے انجام دیا ہے تو اسی عمل کے واسطہ سے اتنی گنجائش پیدا کردے کہ ہم آسمان کو دیکھ سکیں ﷲ نے اتنی گنجائش پیدا کردی اور ان لوگوں کو آسمان دکھائی دینے لگا۔

دوسرے نے کہا:میرے چچاکی ایک لڑکی تھی میں اس سے ایسی شدید محبت کرتا تھا جیسے کہ مرد عورتوں سے کرتے ہیں میں نے اس سے مطلب برآری کی خواہش کی اس نے سودینار کی شرط رکھی میں نے کوشش کرکے کسی طرح سودینار جمع کئے انھیں ساتھ لے کر اسکے پاس پہونچ گیا۔اور جب شیطانی مطلب پورا کرنے کی غرض سے اس کے نزدیک ہو ا تو اس نے کہا''اے بندئہ خدا ﷲ سے ڈرو اور ناحق میرا لباس مت اتارو''یہ بات سن کر میں نے اسے چھوڑدیا۔پروردگار اگر میرا یہ عمل تیرے لئے ہے تو تھوڑی گنجائش اور مرحمت کردے۔اللہ نے تھوڑی سی گنجائش اور عطا کردی۔

تیسرے آدمی نے کہا میں نے ایک شخص کوتھوڑے چا ول کی اجرت پراجیرکیا جب کام مکمل ہوگیا تو اس نے اجرت کا مطالبہ کیا میں نے اجرت پیش کردی لیکن دہ چھوڑ کر چلا گیا میں اسی سے کاشت کرتا رہا یہاں تک کہ اسکی قیمت سے بیل اور اسکا چرواہاخرید لیا۔ایک دن وہ مزدور آیا اور مجھ سے کہا:خدا سے ڈرو اور میرا حق مجھے دے دو۔میں نے کہا جائووہ بیل اور چرواہا لے لو اس نے پھر کہا خدا سے ڈرو اور میرا مذاق مت اڑائو۔میں نے کہا میں ہرگز مذاق نہیں کررہا ہوں یہ بیل اور چرواہا لے لو۔چنانچہ وہ لے کر چلاگیا۔پروردگار میرا یہ عمل اگر تیرے لئے تھاتوہمارے لئے بقیہ راستہ کھول دے ۔ ﷲ نے راستہ کھول دیا۔( ۱ )

____________________

(۱)صحیح بخاری،کتاب الادب،باب اجابةدعاء من بَرّوالدیہ ج۵ ص۴۰ط؛مصر۱۲۸۶ھ ق۔فتح الباری للعسقلانی ج۱۰ص۳۳۸شرح القسطلانی ج۹ص۵۔صحیح مسلم کتاب الرقاق باب قصةاصحاب الغار الثلاثةوالتوسّل بصالح الاعمال ج۸ص۸۹ط؛دارالفکر۔ وشرح النووی ج۱۰ص۳۲۱وذم الہوی لابن الجوزی ص۲۴۶

۳۱۹

۳۔کففت علیہ ضیعتہ

اس جملہ کے دو معنی ہوسکتے ہیں کیونکہ''کف'' جمع کرنے اوراکٹھاکرنے کے معنی میں بھی ہے اور یہی لفظ منع کرنے اورروکنے کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے لہٰذاپہلے معنی کے لحاظ سے اس جملہ'' و کففت علیہ ضیعتہ''کے معنی یہ ہوں گے ''میں اس کے درہم برہم امور کو جمع کردوں گا اس کے سامان واسباب کانگہبان ،اسکے امور کا ذمہ دار اور اسکی معیشت کا ضامن ہوں''ابن اثیر اپنی کتاب ''النہایة''میں ''کف''کے معنی کے بارے میں تحریر کرتے ہیں کہ احتمال ہے کہ یہ لفظ ''جمع کرنے ''کے معنی میں ہو جیسے کہ حدیث میں آیا ہے:

(المؤمن أخ المؤمن یکفّ علیه ضیعته )( ۱ )

''ایک مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے جو اسکے سرمایہ کو اسکے لئے اکٹھاکرکے رکھتا ہے ''

اسکے دوسرے معنی منع کرنا،روکنا اور دفع کرنا ہیں جیسے :

(کفّه عنه فکفّ، أی دفعه وصرفه ومنعه،فاندفع وانصرف،وامتنع )

اس نے اسکو روکا یعنی اسکا دفاع کیا منع کیا اور واپس پلٹایا تو وہ دفع ہوگیا ،پلٹ گیا اور رک گیا اس معنی کے لحاظ سے مذکورہ حدیث کے معنی یہ ہونگے :

''میں نے اسکی بربادی کو دفع کردیا اور اسکی بربادی اور اسکے درمیان حائل ہوگیا اور اسے ہدایت دیدی اور راستے کے تمام نشانات واضح و روشن کردئے''( ۲ )

علامہ مجلسی(رح)نے اس فقرہ کی تفسیر میں اپنی کتاب بحار الانوار میں تحریر کیا ہے :کہ اس جملہ میں چند احتمالات پائے جاتے ہیں :۱۔وہ معنی جو ابن ثیر نے نہایہ میں ذکر کئے ہیں یعنی اسکے درہم

____________________

(۱)النہایة لا بن ا لاثیرج۴ص۹۰۔

(۲)اقرب المواردج۲ص۱۰۹۳۔

۳۲۰

برہم معاملات معیشت کو سمیٹ دو نگااور اسمیں ''علیٰ''کے ذریعہ جو تعدیہ ہے اسکی بنا پر،برکت اور شفقت و غیرہ کے معنی میں ہے یا''علیٰ ''الیٰ کے معنی میں ہے جسکی طرف نہایہ میں اشارہ موجود ہے البتہ اس صورت میں برکت وغیرہ کے معنی مراد نہ ہونگے''

۲۔''کف''منع کرنے اور ''علیٰ ''،''فی'' کے معنی میں ہو اور'' ضیعہ''ضائع اوربربادہونے کے معنی ہو یعنی اس نے اسکی جان،مال ،محنت او ر اسکی تمام متعلقہ چیزوں کو ضائع ہونے سے بچالیا اسکی تائید اس فقرہ ''وکففت عنہ ضیعتہ''سے بھی ہوتی ہے جو شیخ صدوق(رح)کی روایت کے ذیل میں آئندہ ذکر ہوگا۔

ہمیں یہ دوسرے معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں جو حدیث کے سیاق کے مطابق اور اس سے مشابہ بھی ہیں خاص طور سے جب ہمیں یہ بھی معلوم ہوگیا کہ شیخ صدوق (رح) نے بعینہ اسی روایت میں ''وکففت عنہ ضیعتہ''نقل کیا ہے جس میں علیٰ کی جگہ عن سے تعدیہ آیا ہے اور جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے کہ کف دفع یا منع کرنے اور پلٹانے کے معنی میں ہے جو کہ رفع کے معنی سے مختلف ہیں کیونکہ دفع کے معنی ،کسی چیز کے وجود میں آنے سے پہلے اسے روک دینا ہیں اور رفع کے معنی کسی چیز کے وجودمیں آجانے کے بعد اسے زائل کردینا یا ختم کردینا ہیں یا دوسرے الفاظ میں یہ سمجھ لیں کہ رفع علاج کی طرح ہوتا ہے اور دفع بیماری آنے سے پہلے اسے روک دینے کی طرح ہے ۔

اور کف ،دفع کے معنی میں ہے نہ کہ رفع کے معنی میں جسکے مطابق اسکے معنی یہ ہونگے خداوند عالم نے اسکو ضائع نہیں ہونے دیا ،یاوہ اسکی بربادی کے لئے راضی نہ ہوا اور یہ بھی ایک قسم کی ہدایت ہے کیونکہ ہدایت کی دو قسمیںہیں :

۱۔گمراہی کے بعد ہدایت

۲۔گمراہی سے پہلے ہدایت

ان دونو ںکو ہی ہدایت کہا جاتا ہے لیکن پہلی والی ہدایت اس وقت ہوتی ہے جب انسان گمراہی اور تباہی میں مبتلا ہوچکا ہو لیکن دوسری قسم کی ہدایت اسکی گمراہی اور بربادی سے پہلے ہی پوری ہوجاتی ہے اور یہ قسم پہلی قسم سے زیادہ بہتر ہے ۔

حدیث میں (کف ضیعتہ)بربادی سے حفاظت کا تذکرہ ہے نہ کہ ہدایت کا اور بربادی سے حفاظت ،

ہدایت کا نتیجہ ہے اس لئے یہ منزل مقصود تک پہونچانے کے معنی میں ہے نہ کہ راستہ دکھانے اور یاد دہانی کے معنی میں ۔

۳۲۱

ہدایت کے معنی

لفظ ہدایت دو معنی میں استعمال ہوتا ہے ۔ہدایت کے ایک معنی منزل مقصود تک پہونچانا ہیں اور دوسرے معنی راستہ بتا نا ،راہنمائی کرناہیں جیسا کہ خداوند عالم کے اس قول :

( انک لاتهدی من أحببت ولکن ﷲ یهدی من یشائ ) ( ۱ )

''پیغمبر بیشک آپ جسے چا ہیں ہدایت نہیں دے سکتے بلکہ اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیدیتا ہے ''

میں یہ لفظ پہلے معنی میں استعمال ہوا ہے ۔طے شدہ بات ہے کہ یہاں جس ہدایت کی نفی کی جارہی ہے وہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ہے کہ یہ چیز صرف پروردگار عالم سے مخصوص ہے ورنہ راستہ دکھانا رہنمائی کرنا تو پیغمبر اسلام کا فریضہ اورآپ کی اہم ترین ذمہ داری ہے اس معنی میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کے لئے ہدایت کا انکار کرکے اسے صرف پروردگا ر سے مخصوص کردینا ممکن نہیں ہے کیونکہ خداوند عالم پیغمبر کے بارے میں فرماتا ہے :

( وانک لتهدی الی صراطٍ مستقیم ) ( ۲ )

''اور بیشک آپ لوگوں کو سیدھے راستہ کی ہدایت کررہے ہیں ''

اسی معنی میں قرآن کریم میں مومن آل فرعون کا یہ جملہ ہے :

____________________

(۱)سورئہ قصص آیت ۵۶۔

(۲)سورئہ شوریٰ آیت۵۲۔

۳۲۲

( یا قوم اتّبعون أهدکم سبیل الرشاد ) ( ۱ )

''اے قوم والو :میرا اتباع کرو،میں تمھیں ہدایت کا راستہ دکھا دوں گا ''

یہاں پر بھی ہدایت ،راہنمائی اور راستہ دکھانے کے معنی میں ہے نہ کہ منزل مقصود تک پہنچانے کے معنی میں ۔۔۔اس حدیث شریف میں بھی ہدایت کے پہلے معنی (منزل تک پہنچانا) ہی زیادہ مناسب ہیںاس لئے کہ دوسرے معنی کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ انسان ضائع نہ ہو بلکہ ایصا ل الی المطلوب ہی انسان کو ضائع ہونے سے بچاتا ہے اور انسان کو قطعی طور پر اللہ تک پہنچانے کا ضامن ہے

سیاق وسباق سے بھی یہی معنی زیادہ مناسب معلوم ہوتے ہیں اس لئے کہ یہ گفتگو ان لوگوں پرخصوصی فضل الٰہی کی ہے کہ جو اپنے خواہشات پر ﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہیں لہٰذا فضل وعنایت کاخصوصی تقاضا یہ ہے کہ انھیں منزل مقصود تک پہنچا یا جائے ورنہ رہنمائی اور راستہ دکھا ناتو خدا کی عام عنایت ورحمت ہے جوصرف مومنین سے یا ان لوگوں سے مخصوص نہیں ہے کہ جوﷲ کی مرضی کو مقدم کرتے ہوں بلکہ یہ عنایت تو ان لوگوں کے شامل حال بھی ہے کہ جو اپنی خواہشات کو ﷲ کی مرضی پر مقدم کرتے ہیں ۔

ﷲ بندہ کو بربادی اورضائع ہونے سے کیسے بچاتا ہے ؟

درحقیقت یہ کام بصیرت کے ذریعہ ہوتا ہے ۔بصیر ت کے اعلیٰ درجات پر فائز انسان قطعی طور پر ضائع ہونے سے بچ جاتا ہے ۔

لہٰذا جب خداوندعالم کسی بندہ کیلئے خیر کا ارادہ کرتا ہے اور اسے بربادی سے بچانا چا ہتا ہے تو اسے بصیرت مرحمت کر دیتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ نجات پاجاتا ہے اور خدا تک اس کی رسائی قطعی ہوجاتی ہے یہ بصیرت اس منطقی دلیل وبرہان سے الگ ہے کہ جس کے ذریعہ بھی انسان خدا تک پہنچتا

____________________

(۱)سورئہ غافرآیت ۳۸۔

۳۲۳

ہے اور اسلام اس کا بھی منکر نہیں ہے بلکہ اسے اپنا نے اوراختیار کرنے کی تاکید کرتا ہے وہ اسے ہر شخص کے دل کی گہرائیوں میں اتارنا چاہتا ہے اس لئے کہ انسانوں کی بہت بڑی تعداد عقل و منطق کے سہارے ہی خدا تک پہنچتی ہے ۔

بصیرت کا مطلب حق کا مکمل طریقہ سے واضح دکھائی دینا ہے ۔ایسی رویت منطقی استدلال کا نتیجہ بھی ہو سکتی ہے اور صفائے نفس اور پاکیزگی ٔ قلب کے ذریعہ بھی حاصل ہو سکتی ہے یعنی انسان کسی ایک راستہ سے اس بلند مقام تک پہنچ سکتا ہے یا عقلی اور منطقی دلائل کے ذریعہ یا پاکیزگی ٔ نفس کے راستہ ۔

اسلام ان میں سے کسی ایک کو کافی قرار نہیں دیتا بلکہ اسلامی نقطۂ نظر سے انسان کے اوپر دونوں کو اختیار کرنا ضروری ہے ۔یعنی عقلی روش کو اپنانا بھی ضروری ہے اور نفس کو پاکیزہ بنانا بھی ۔اس آیۂ شریفہ میں قرآن مجید نے دونوں باتوں کی طرف ایک ساتھ اشارہ کیا ہے:

( هوالذی بعث فی الامیّین رسولاً منهم یتلوا علیهم آیاته ویزکّیهم و یعلّمهم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبلُ لفی ضلالٍ مبینٍ ) ( ۱ )

'' اس خدا نے مکہ والوں میں ایک رسول بھیجا جو انھیں میں سے تھا کہ ان کے سامنے آیات کی تلاوت کرے ،ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے''

تزکیہ کا مطلب صفائے قلب اور پاکیزگیٔ نفس ہے جس سے معرفت الہی کے بے شمار دروازے کھلتے ہیں ۔

معرفت کا دوسرا باب (تعلیم )ہے بہر حال بصیر ت چاہے عقل ومنطق کا ثمرہ ہویا تزکیہ وتہذیب نفس کا یہ طے ہے کہ حیات انسانی میں بصیرت کا سر چشمہ پروردگار عالم ہی ہے اسکے علاوہ کسی اور جگہ سے بصیرت کا حصول ممکن نہیں ہے اور اس تک رسائی کا دروازہ عقل وتزکیۂ نفس ہے ۔

____________________

(۱)سورئہ جمعہ آیت۲۔

۳۲۴

بصیرت اور عمل

ایک بار پھر اس بات کی وضاحت کردیں کہ اسلام بصیرت کیلئے ''علم ''اور تزکیہ یا''عقل اور صفائے قلب ''دونوں کو تسلیم کرتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ ان میں سے ایک ،دوسرے سے بے نیاز نہیں کرسکتا لیکن یہ بھی طے ہے کہ حصول بصیرت کیلئے تزکیہ زیادہ اہم اور موثر ہے اسی لئے قرآنِ کریم نے آیہ ٔ بعثت میں تزکیہ کو علم پر مقدم رکھا ہے :

( یزکّیهم ویعلّمهم الکتاب والحکمة ) ( ۱ )

''ان کے نفوس کو پاک کرے اور انھیں کتاب و حکمت کی تعلیم دے''

مناسب ہوگا کہ چند لمحے ٹھہرکر ہم خود (تزکیہ )کے بارے میں بھی غور کریں اور دیکھیں کہ تزکیۂ نفس کیسے ہوتا ہے ؟

رہبا نیت کے قائل مذاہب میں تزکیہ کا مطلب یہ ہے کہ گوشہ نشینی کی زندگی بسر کی جائے اور حیات دنیوی سے فرار اختیار کیا جائے اس طرح تزکیہ کا خواہشمند انسان جب اپنی ہویٰ وہوس اور خواہشات نفسانی اور فتنوں سے پرہیز کرے گا تو اسکا نفس پاکیزہ ہوجا ئے گا لیکن اسلامی طریقہ ٔ تربیت میں صور تحال اس کے بالکل برعکس ہے ۔اسلام تزکیہ کے خواہشمندکسی بھی مسلمان کو ہر گزیہ نصیحت نہیں کرتا کہ فتنوں سے فرار کرے خواہشات اور ہویٰ وہوس کو کچل دے بلکہ اسلام فرار کے بجائے فتنوں سے مقابلہ اور خواہشات کو کچل کر ختم کر نے کے بجائے انھیں حدا عتدال میں رکھنے کی دعوت دیتاہے ۔

اسلام کا طریقۂ تربیت ،عمل کو تزکیہ کی بنیاد قرار دیتا ہے نہ کہ گوشہ نشینی ،رہبا نیت اور محرومی کو ۔اور یہی عمل بصیرت میں تبدیل ہوجاتا ہے جس طرح بصیرت عمل میں ظاہر ہوتی ہے لہٰذا

____________________

(۱)سورئہ جمعہ آیت۲

۳۲۵

دیکھنا یہ ہوگا کہ عمل کیا ہے ؟بصیرت کسے کہتے ہیں ؟اور ان دونوں میں کیا رابطہ ہے ؟

بصیرت اور عمل کا رابطہ

بصیرت کے بارے میں اجمالی طور پرگفتگو ہوچکی ہے ۔۔یہاں عمل سے مراد ہروہ سعی و کو شش ہے جس کو انسان رضائے الہی کی خاطر انجام دیتا ہے اس کے دورخ ہوتے ہیں ایک مثبت ،یعنی اوا مرخدا کی اطاعت اور دوسرا سلبی یعنی اپنے نفس کو حرام کا موں سے محفوظ رکھنا ۔ اس طرح عمل سے مرادیہ ہے کہ خوشنودی پر وردگار کی خاطر کوئی کام کرے چاہے کسی کام کو بجا لا یا جائے اور چا ہے کسی کام سے پر ہیز کیا جائے ۔بصیرت اور عمل کے درمیان دوطرفہ رابطہ ہے ۔ بصیرت عمل کا سبب ہوتی ہے اور عمل ،بصیرت کا ۔۔۔اور دونوں کے آپسی اور طرفینی رابطے سے خود بخود بصیرت اور عمل میں اضافہ ہوتا رہتا ہے عمل صالح سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اور بصیرت میں زیادتی عمل صالح میں اضافہ کا سبب بنتی ہے اس طرح انمیں سے ہر ایک دوسرے کے اضافہ کا موجب ہوتا ہے یہاں تک کہ انسان انھیں کے سہارے بصیرت وعمل کی چوٹی پر پہونچ جاتا ہے ۔

۱۔ عمل صالح کا سرچشمہ بصیرت

بصیرت کا ثمر ہ عمل صالح ہے ۔اگر دل وجان کی گہرائیوں میں بصیرت ہے تو وہ لامحالہ عمل صالح پر آمادہ کر ے گی بصیرت کبھی عمل سے جدا نہیں ہوسکتی ہے روایات اس چیز کو صراحت سے بیان کرتی ہیں کہ انسان کے عمل میں نقص اورکوتاہی دراصل اس کی بصیرت میں نقص اورکوتاہی کی وجہ سے ہوتی ہے ۔اس سلسلہ میں چند روایات ملا حظہ فرما ئیں ۔

۳۲۶

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے جبرئیل امین سے نقل فرما یا ہے :

(الموقن یعمل ﷲکأنه یراه،فان لم یکن یریٰ ﷲ فان ﷲ یراه )( ۱ )

''درجۂ یقین پر فائز انسان ﷲ کیلئے اس طرح عمل انجام دیتا ہے جیسے وہ ﷲکو دیکھ رہا ہے اگر وہ ﷲکو نہیں دیکھ رہا ہے تو کم از کم ﷲ تو اس کو دیکھ رہا ہے ''

مولائے کائنات سے منقول ہے :

(یُستدل علیٰ الیقین بقصرالامل،واخلاص العمل،والزهد فی الدنیا )( ۲ )

''آرزووں کی قلت، اخلاص عمل اور زہد، یقین کی دلیلیں ہیں''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(التقویٰ ثمرةالدین،وأمارةالیقین )( ۳ )

''تقویٰ دین کا ثمر ہ اور یقین کا سردار ہے''

نیز آپ سے مروی ہے:

(من یستیقن،یعملْ جاهداً )( ۴ )

''صاحب یقین بھر پور جدوجہد کے ساتھ عمل انجام دیتا ''

امام جعفر صادق کا ارشاد ہے :

(ان العمل الدائم القلیل علیٰ الیقین،أفضل عندﷲ من العمل الکثیرعلیٰ غیریقین )( ۵ )

____________________

(۱)بحارالانوارج ۷۷ص۲۱ ۔

(۲)غرر الحکم ج ۲ص ۳۷۶۔

(۳)غررالحکم ج۱ص۸۵۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۶۶۔

(۵)اصول کافی ج۲ص۵۷۔

۳۲۷

''یقین کے ساتھ مسلسل تھوڑا عمل کرناﷲکے نزدیک یقین کے بغیربہت زیادہ عمل سے افضل ہے ''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے:

(لاعمل الابیقین،ولایقین الابخشوع )( ۱ )

''یقین کے بغیر عمل اور خشوع کے بغیر یقین بے فا ئدہ ہے ''

آپ نے ارشاد فرمایا :

(العامل علیٰ غیربصیرةکالسائر علیٰ سراب بقیعة لا یزیده سرعةالسیر الابعدا )( ۲ )

''بصیرت کے بغیر عمل انجام دینے والا ایسا ہے جیسے سراب کے پیچھے دوڑنے والا کہ اسکی تیزی اسے منزل سے دور ہی کرتی جاتی ہے ''

صادق آل محمد کا ہی یہ بھی فرمان ہے :

(انکم لا تکونون صالحین حتیٰ تعرفوا،ولا تعرفون حتیٰ تصدقوا ولاتصدقون حتیٰ تسلموا )( ۳ )

''تم اس وقت تک صالح نہیں ہو سکتے جب تک معرفت حاصل نہ کرلو اور یقین کے بغیر معرفت اور تسلیم کے بغیر تصدیق حاصل نہ ہو گی ''یعنی تصدیق معرفت اور معرفت، عمل صالح کاذریعہ ہے

امام جعفر صادق سے مروی ہے :

____________________

(۱)تحف العقول ص۲۳۳۔

(۲)وسائل الشیعہ ج ۱۸ ص ۱۲۲ح۳۶۔

(۳)بحارالانوار ج ۶۹ ص۱۰۔

۳۲۸

(لایقبل عمل الا بمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،فمن عرف دلّته المعرفة علیٰ العمل )( ۱ )

''معرفت کے بغیر کو ئی عمل قابل قبول نہیں ہے اور عمل کے بغیر معرفت بھی نہیں ہو سکتی جب معرفت حاصل ہو جاتی ہے تو معرفت خود عمل پر ابھارتی ہے ''

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(لایقبل عمل الابمعرفة،ولامعرفة الا بعمل،ومن عرف دلّته معرفته علیٰ العمل ،ومن لم یعرف فلا عمل له )( ۲ )

''معرفت کے بغیر عمل قبول نہیں ہوتا اور عمل کے بغیر معرفت حاصل نہیں ہوتی جب معرفت حاصل ہوجاتی ہے تووہ خود انسان کو دعوت عمل دیتی ہے جس کے پاس معرفت نہیں ہے اس کے پاس عمل بھی نہیں ہے''

۲۔بصیرت کی بنیاد عمل صالح

ابھی آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ عمل صالح کی بنیاد بصیرت ہے اسی کے با لمقابل بصیرت کا سرچشمہ عمل صالح ہے ۔دوطرفہ متبادل رابطوں کے ایسے نمونے آپ کواسلامی علوم میں اکثر مقامات پر نظر آئیں گے ۔

قرآن کریم عمل صالح اور بصیرت کے اس متبادل اور دوطرفہ رابطہ کا شدت سے قائل ہے اور بیان کرتا ہے کہ بصیرت سے عمل اور عمل صالح سے بصیرت حاصل ہوتی ہے اور عمل صالح کے ذریعہ ہی انسان خداوندعالم کی جانب سے بصیرت کا حقدار قرار پاتا ہے ۔

( والذین جاهدوا فینا لنهدینّهم سُبُلَنا وان ﷲ لمع المحسنین ) ( ۳ )

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ ص۴۴۔

(۲)تحف العقول ص۲۱۵۔

(۳)سورئہ عنکبوت ۶۹۔

۳۲۹

''اور جن لوگوں نے ہمارے حق میں جہاد کیا ہے انھیں اپنے راستوں کی ہدایت کریں گے اور یقیناﷲحسن عمل والوں کے ساتھ ہے ''

آیت واضح طورپر بیان کر رہی ہے کہ جہاد (جوخود عمل صالح کا بہترین مصداق ہے )کے ذریعہ انسان ہدایت الہی کو قبول کرنے اور حاصل کرنے کے لائق ہوتا ہے ۔

( لنهدینّهم سبلنا ) ( ۱ )

''ہم انہیں اپنے راستوں کی ہدایت کرینگے ''

حدیث قدسی میں پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے مروی ہے :

(لایزال عبدی یتنفّل لی حتیٰ اُحبّه ، فاذا أحببته کنت سمعه الذی به یسمع، وبصره الذی یبصر به،و یده التی بها یبطش )( ۲ )

''میرا بندہ مجھ سے نزدیک ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس سے محبت کر نے لگتا ہو ں اور جب میں اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ سنتا ہے اسکی

____________________

(۱)خداوند عالم ہمارے شیخ جلیل مجاہد راہ خدا شیخ عباس علی اسلامی پر رحمت نازل کرے میں ان سے اکثر یہ سنا کرتا تھا :کہ انسان کو ہر حرکت کے لئے دو چیزوں کی ضرورت ہو تی ہے جن کا بدل ممکن نہیں ہے ایک تو وہ اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو تحرک میں اس کی مدد کر ے اور حرکت کی تکان کو ہلکا کردے اور اسے ایسی طاقت و قوت عطا کرے جس سے وہ اپنی حرکت کو جاری رکھ سکے اور دوسرے اس چیز کا محتاج ہوتا ہے جو اسے صحیح راستہ کی رہنمائی کرتی رہے تا کہ وہ راستہ سے بھٹکنے نہ پائے یعنی اسے ایسی قوت وطاقت کی ضرورت ہو تی ہے جو ہدایت اور بصیرت کے مطابق اس کی حرکت کا راستہ معین کرے تاکہ وہ صراط مستقیم پر چلتا رہے اور انہیں دونوں چیزوں کا وعدہ ہم سے پروردگار عالم نے سورئہ عنکبوت کی آخری آیت میں فر مایا ہے :(والذین جاھدوافینالنھدینھم سبلناوانّ اللّٰہ لمع المحسنین )پس جو لوگ خدا کی راہ میں جہاد کرتے ہیں پروردگار عالم ان کو پہلے تو پشت پناہی اور قوت و طاقت عطا کرتا ہے اور یہی خدا کی معیت ہے '' انّ اللّٰہ لمع المحسنین) اور دوسرے ان کوبصیرت و ہدایت عطا کرتا ہے جیسا کہ ارشاد ہے (لنهدینهم سبلنا

(۲)اصول کافی ج۲ص۳۵۲۔

۳۳۰

آنکھیں بن جاتا ہوں جنکے ذریعہ وہ دیکھتا ہے اسی کے ہاتھ بن جاتا ہوں جن کے ذریعہ وہ چیزوں کو چھوتا ہے ''

یہ بہت ہی مشہور ومعروف حدیث ہے تمام محدثوں ،معتبرراویوں اور مشایخ حدیث نے اس حدیث قدسی کو نقل کیا ہے نقل مختلف ہے مگر الفاظ تقریباً ملتے جلتے ہیں اور روایت صحیح ہے اوروضاحت کے ساتھ بیان کرتی ہے کہ عبادت ،معرفت ویقین کا دروازہ ہے اور بندہ قرب الٰہی کی منزلیں طے کرتارہتا ہے یہاں تک کہ ﷲ اسے بصیرت عطا کردیتا ہے پھر وہ ﷲ کے ذریعہ سنتا ہے دیکھتا ہے اور ادراک حاصل کرتا ہے ۔۔۔اور ظاہر ہے کہ جو ﷲ کے ذریعہ یہ کام انجام دے گا تو اسکی سماعت بصارت اور معرفت میں خطا کا کوئی امکان نہیں ہے ۔

دوسرا رخ

عمل اور بصیرت کے درمیان دوطرفہ رابطہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ کس طرح بصیرت سے عمل اور عمل سے بصیرت میں اضافہ ہوتا ہے اسی کے ساتھ ساتھ اس رابطہ کا دوسرا رخ بھی ہے جس کے مطابق برے اعمال اورکردارکی خرابی بصیرت میں کمی ،اندھے اور بہرے پن کا سبب ہوتے ہیں اس کے برعکس یہ چیزیں بے عملی اور گناہ وفساد کا باعث ہوتی ہیں ۔

گذشتہ صفحات میں ہم نے روایات کی روشنی میں عمل اور بصیرت کے درمیان مثبت رابطہ کی وضاحت کی تھی اسی طرح اس رابطہ کے دوسرے رخ کو بھی احادیث کی روشنی میں ہی پیش کررہے ہیں ۔

۳۳۱

بے عملی سے خاتمۂ بصیرت

اسلامی روایات سے یہ صاف واضح ہوجاتا ہے کہ برے اعمال سے بصیرت ختم ہوتی رہتی ہے قرآن کریم نے بھی متعدد مقامات پراس حقیقت کا اظہار واعلان کیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :

( أفرأیت من اتّخذ الٰهه،هواه وأضلّه ﷲ علیٰ علمٍ وختم علیٰ سمعه وقلبه وجعل علیٰ بصره غشاوةً فمن یهدیه من بعد ﷲ ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو بھی دیکھا جس نے اپنی خواہش ہی کو خدا بنالیا اور خدا نے اسی حالت کو دیکھ کراسے گمراہی میں چھوڑ دیا اور اسکے کان اوردل پرمہرلگا دی ہے اور اسکی آنکھ پر پردے پڑے ہوئے ہیں اور خدا کے بعد کون ہدایت کر سکتا ہے ''

جن لوگوں نے خدا کو چھوڑکر کسی دوسرے معبود کی عبادت کرکے شرک اختیار کیا ﷲ ان سے بصیرت سلب کرلیتا ہے اور ان کے کانوں اور دلوں پر مہر لگادیتا ہے آنکھوں پر پردے ڈال دیتا ہے اور طے ہے کہ جب ﷲ کسی بندہ سے بصیرت سلب کرلے تو پھر اسے کون ہدایت دے سکتا ہے؟ اسی کو قرآن مجیدان الفاظ میں بیان کرتا ہے :

( کذلک یُضلّ ﷲ الکافرین ) ( ۲ )

''ﷲاسی طرح کافروں کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''یہ جملہ دراصل گذشتہ تفصیل کا اجمالی بیان ہے

( کذلک یُضل ﷲ من هومسرف مرتاب ) ( ۳ )

'' اسی طرح خدا زیادتی کرنے والے اور شکی مزاج انسانوں کو انکی گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے''

اس لئے کہ اسراف گمراہی کی طرف لے جاتا ہے

اسی طرح ارشاد ہوتا ہے :

( وما یُضلّ به الا الفاسقین ) ( ۴ )

''اور گمراہی صرف انکا حصہ ہے جو فاسق ہیں ''

____________________

(۱) سورئہ جاثیہ آیت۲۳۔

(۲)سورئہ غافرآیت۷۴۔

(۳)سورئہ غافرآیت ۳۴۔

(۴)سورئہ بقرہ آیت۲۶ ۔

۳۳۲

یا :( ویُضلّ ﷲ الظالمین ) ( ۱ )

''ﷲ ظالمین کو گمراہی میں چھوڑدیتا ہے ''

اس کا مطلب یہ ہے کہ فسق اورظلم ،گمراہی کی طرف لے جاتے ہیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( کَلا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۲ )

''نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے ''

انسان جب گنا ہوں اور معصیتوںکا مرتکب ہوتا ہے تو اس کے یہی اعمال ایک ٹیلہ کی شکل میں جمع ہو کر اس کے قلب کے سامنے رکاوٹ بن جاتے ہیں اور پھر خدا اور حق اسے نظر نہیں آتے ۔ خدا وند عالم کا ارشاد ہے :

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی القَوْم َ الظَّالِمِیْنَ ) ( ۳ )

''ﷲ ظالموں کی ہدایت نہیں کرتا ''

( ان ﷲ لا یهدی القوم الکافرین ) ( ۴ )

''ﷲکافروں کی ہدایت نہیں کرتا ''

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی القَوْمَ الْفاسقین ) ( ۵ )

''یقینا ﷲ بدکار لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا ''

____________________

(۱)سورئہ ابراہیم آیت۲۷۔

(۲)سورئہ مطففین آیت۱۴۔

(۳)سورئہ قصص آیت۰ ۵۔

(۴)سورئہ مائدہ آیت ۶۷۔

(۵)سورئہ منافقون آیت۶۔

۳۳۳

( انَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِ ی من هوَ مُسْرِف کَذَّا ب ) ( ۱ )

''بیشک ﷲ کسی زیادتی کرنے والے اور جھوٹے کی ہدایت نہیں کرتا ''

( انَّ اللّٰهَ لَایَهْدِی من هُوکاذب کفار ) ( ۲ )

''ﷲ کسی بھی جھوٹے اور نا شکری کرنے والے کی ہدایت نہیں کرتا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کا ارشاد ہے :

(لولا تکثیر فی کلامکم ،وتمزیج فی قلوبکم، لرأیتم ما أریٰ و سمعتم ما اسمع )( ۳ )

''اگر تمہارے کلام میں کثرت نہ ہو تی اور قلوب آلودہ نہ ہوتے تو تم بھی وہی دیکھتے جو میں دیکھتا ہوں اور وہی سنتے جومیں سنتاہوں ''

امیر المو منین حضرت علی کا ارشاد ہے :

(کیف یستطیع الهدیٰ من یغلبه الهویٰ )( ۴ )

''جس پرہویٰ وہوس غالب ہو وہ کیسے ہدایت پاسکتا ہے ؟''

آپ کا ہی ارشاد ہے :

(انکم ان أمّرْتُم علیکم الهویٰ أصمّکم وأعماکم وأرداکم )( ۵ )

''اگر تم نے اپنے اوپر ہویٰ وہوس کوغالب کرلیاتو وہ تمہیں بہرا،اندھا اور پست بنادیں گی ''

اس سے معلوم ہوا کہ مسلسل باطل اور فضول باتیں کرنااور دلوں میں حق و باطل کا گڈمڈہونایہ

____________________

(۱)سورئہ غافرآیت۲۸۔

(۲)سورئہ زمرآیت۳۔

(۳)المیزان ج۵ص۲۹۲۔

(۴)غرر الحکم ج۲ ص ۹۴۔

(۵)غررالحکم ج۱ص۲۶۴۔

۳۳۴

آنکھوں کو اندھا اور کانوں کو بہرابنا دیتا ہے ۔

امام محمد باقر نے فرمایا :

(مامن عبد الا وفی قلبه نکتة بیضائ،فاذا أذنب خرج فیتلک النکتة،نکتة سودائ،فاذا تاب ذهب ذٰلک السواد،وان تمادیٰ فی الذنوب زادذلک السواد حتیٰ یغطّی البیاض،فاذا غطّیٰ البیاض لم یرجع صاحبه الیٰ خیرأبداً،وهو قول ﷲ عزّوجل: ( بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوا یکسبون ) ( ۱ )

''ہر انسان کے دل میں ایک سفیدی ہوتی ہے انسان جب کوئی گناہ کرتا ہے تو اس سفیدی میںایک سیاہ نقطہ نمودار ہوجاتا ہے اگر گناہگار تو بہ کرلیتا ہے تو وہ سیاہی زائل ہوجاتی ہے لیکن اگر گناہوں کا سلسلہ جاری رہے تو سیاہی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے یہاں تک کہ یہ سیاہی دل کی سفیدی کو ڈھانپ لیتی ہے اور جب سفیدی پوشیدہ ہوجاتی ہے تو ایسا انسان کبھی خیر کی جانب نہیں پلٹ سکتا ۔ یہی خدا وند عالم کے قول(بل ران علیٰ قلوبھم ماکانوا یکسبون)'نہیں نہیں بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال کا زنگ لگ گیا ہے'کے معنی ہیں''

یہی سیاہی جب قلب پر چھاجاتی ہے تو اسکے لئے حجاب بن جاتی ہے جس کے نتیجہ میں انسان سے بصیرت سلب ہوجاتی ہے بہ الفاظ دیگر انسان جب گناہوں کا مرتکب ہوتا ہے تو بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(ماشیء أفسد للقلب من الخطیئة،ان القلب لیواقع الخطیئة فماتزال به حتیٰ تغلب علیه فیصیر أسفله أعلاه،وأعلاه أسفله ،قال رسول ﷲ صلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم ( ۲ )

____________________

(۱)نوررالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

۳۳۵

''خطا سے بڑھ کر قلب کو فاسد کرنے والی کوئی شئے نہیں ہے ،بیشک جب دل میں کوئی برائی پیدا ہو جاتی ہے اور وہ اسی میں باقی رہ کر اس پر غلبہ حاصل کر لیتی ہے تو اسکا نچلا حصہ اوپر اور اوپری حصہ نیچے ہو جاتا ہے''

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا :(انّ المؤمن اذا أذنب کانت نکتة سوداء فی قلبه،فاذا تاب ونزع واستغفرصقل قلبه، وان ازداد زادت فذلک الرین الذی ذکره ﷲتعالیٰ فی کتابه ( کلّا بل ران علیٰ قلوبهم ماکانوایکسبون ) ( ۱ )

''مومن جب گناہ کرتا ہے تو اس کے دل میں ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے اگر تو بہ واستغفارکرلے تو اسکا قلب صیقل ہوجاتا ہے لیکن اگر گناہوں میں زیادتی ہوتی رہے تو یہی (رین) یعنی زنگ بن جاتا ہے جسے خدا نے آیت (کلاّبل ران علیٰ قلوبھم)میں فرمایا ہے ''

امیر المومنین حضرت علی کا ارشاد ہے:

(انْ أطعت هواک اصمک وأعماک )( ۲ )

''اگر تم ہویٰ وہوس کی اطاعت کروگے تو وہ تمہیں بہرا اور اندھا بنادے گی''

فقدان بصیرت برے اعمال کا سبب

جس طرح برائیوں اور گناہوں سے گمراہی پیدا ہوتی ہے اسی کے برعکس ضلالت و گمراہی بھی گناہ اور بد عملی کاسبب ہوتی ہے اور اس طرح جہالت و ضلالت اور فقدان بصیرت کے باعث شقاوت و بدبختی ظلم واسراف جیسے برے اعمال وجود میں آتے ہیں ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( قالوا ربّنا غلبت علیناشِقوتنا وکنّا قوما ضالّین ) ( ۳ )

____________________

(۱)نورالثقلین ج۵ص۵۳۱۔

(۲)غررالحکم۔

(۳)سورئہ مومنون آیت ۱۰۶۔

۳۳۶

''وہ لوگ کہیں گے کہ پروردگار ہم پر بدبختی غالب آگئی تھی اور ہم لوگ گمراہ ہوگئے تھے''

امیر المومنین حضرت علی نے فرمایا :

(لاورع مع غیّ )( ۱ )

''گمراہی کے بعد کوئی پارسائی نہیں رہتی ''

مولائے کائنات نے،معاویہ بن ابی سفیان کواپنے خط میں تحریر فرمایاہے:

(امریء لیس له بصر یهدیه،ولا قائد یرشده،قد دعاه الهویٰ فأجابه،وقاده الضلال فاتّبعه، فهجرلاغطاً،وضلّ خابطاً )( ۲ )

''(مجھے تیرا جوخط ملا ہے )یہ ایک ایسے شخص کا خط ہے جس کے پاس نہ ہدایت دینے والی بصارت ہے اور نہ راستہ بتانے والی قیادت ۔اسے خواہشات نے پکارا تو اس نے لبیک کہدی اور گمراہی نے کھینچا تو اسکے پیچھے چل پڑا اور اسکے نتیجہ میں اول فول بکنے لگا اور راستہ بھول کر گمراہ ہوگیا''

آپ ہی کا ارشاد گرامی ہے :

(من زاغ ساء ت عنده الحسنة،وحسنت عنده السیئة،وسکرسکرالضلالة )( ۳ )

''جوکجی میں مبتلا ہوا،اسے نیکی برائی اور برائی نیکی نظر آنے لگتی ہے اور وہ گمراہی کے نشہ میں چور ہوجاتا ہے ''

لہٰذا معلوم ہوا کہ بصیرت اور عمل میں دوطرفہ مستحکم رابطہ ہے یہ رابطہ مثبت انداز میں بھی

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۳۴۵۔

(۲)نہج البلاغہ مکتوب ۷۔

(۳)نہج البلاغہ حکمت ۳۱۔

۳۳۷

ہے اور منفی صورت میں بھی ۔جسے اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے ۔

۱۔بصیرت ،عمل صالح کی طرف لے جاتی ہے ۔

۲۔عمل صالح، بصیرت و ہدایت کا سبب ہوتا ہے ۔

۳۔ضلالت اور فقدانِ بصیرت، ظلم وجور جیسے دیگر برے اعمال اور گناہوںکا سبب ہوتی ہے ۔

۴۔برے اعمال اورظلم وجور سے بصیرت ختم ہوجاتی ہے ۔

خلاصۂ کلام

حدیث شریف کے فقرہ ''کففت علیہ ضیعتہ''کے بارے میں جو گفتگو ہوئی ا س سے یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ انسان جب خواہشات نفس کی مخالفت کرکے اپنے خواہشات کو ارادئہ الٰہی کا تابع بنادیتا ہے اور مالک کی مرضی کا خواہاں ہوتا ہے تو خدا اسے نور ہدایت اور بصیرت عنایت فرمادیتا ہے اور تاریک راستوںمیں اسکا ہاتھ تھام لیتا ہے ۔

خداوند عالم کا ارشاد ہے :

( یاأیّها الذین آمنوا اتقوا ﷲ وآمنوا برسوله یُؤتکم کِفلین من رحمته ویجعلْ لکم نوراً تمشون به ) ( ۱ )

''اے ایمان والو! ﷲسے ڈرو اور رسول پر واقعی ایمان لے آئو تا کہ خدا تمہیں اپنی رحمت کے دوبڑے حصے عطا کردے اور تمہارے لئے ایسا نور قرار دیدے جس کی روشنی میں چل سکو ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتا ہے :

( یاأیّها الذین آمنوا انْ تتّقوا ﷲ یجعلْ لکم فرقاناً ) ( ۲ )

____________________

(۱)سورئہ حدید آیت۲۸۔

(۲)سورئہ انفال آیت۲۹۔

۳۳۸

''ایمان والو! اگر تم تقوائے الٰہی اختیار کروگے تو وہ تمہیں حق وباطل میں فرق کرنے کی صلاحیت عطا کردے گا ''

( واتّقوا ﷲ و یعلمکم ﷲ ) ( ۱ )

'' اوراللہ سے ڈرو تاکہ اللہ تمہیں علم عطاکرے''

حضرت علی سے مروی ہے :

(هُدی من أشعر قلبه التقویٰ )( ۲ )

''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے تقویٰ کو اپنے دل کا شعار بنالیا ''

(هُدی من تجلبب جلباب الدّین )( ۳ )

''وہ ہدایت یافتہ ہے جس نے دین کا لباس اوڑھ لیا''

(من غرس أشجارالتُقیٰ،جنیٰ ثمار الهدیٰ)(۴)

''جس نے تقویٰ کے درخت بوئے وہ ہدایت کے پھل کھائے گا''

والحمد للہ رب العالمین

محمد مہدی آصفی

۱۰ ذی القعدہ ۱۴۱۲ قم

____________________

(۱)سورئہ بقرہ آیت ۲۸۲۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۳۱۱۔

(۳)گذشتہ حوالہ۔

(۴)غررالحکم ج۲ ص۲۴۵۔

۳۳۹

فہرست

حرف اول ۵

مقدمہ ٔ مؤلف ۸

حدیث قدسی ۹

حدیث قدسی ۱۰

پہلی فصل ۱۱

''ہویٰ'' (خواہش)قرآن وحدیث ۱۱

کی روشنی میں ۱۱

بنیادی محرکات ۱۲

۱۔فطرت: ۱۳

۲۔عقل : ۱۳

۳۔ارادہ: ۱۳

۴۔ضمیر: ۱۳

۵۔قلب ،صدر،: ۱۳

۶۔ہویٰ(خواہشیں): ۱۳

''ہویٰ'' کی اصطلاحی تعریف ۱۴

''ہویٰ''کے خصوصیات ۱۴

۱۔چاہت میںشدت ۱۵

۲۔خواہشات میں تحرک کی قوّت ۱۷

۳۔خواہشات اور لالچ کی بیماری ۱۸

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349