خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں0%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

مؤلف: آیة اللہ محمد مہدی آصفی
زمرہ جات:

صفحے: 349
مشاہدے: 113300
ڈاؤنلوڈ: 2555

تبصرے:

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 113300 / ڈاؤنلوڈ: 2555
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

۱

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۲

نام کتاب : خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مصنف : آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی مد ظلہ

مترجم : سید کمیل اصغر زیدی

تصحیح: سید منظر صادق زیدی

نظر ثانی: سید احتشام عباس زیدی

پیشکش: معاونت فرہنگی ادارۂ ترجمہ

ناشر : مجمع جہانی اہل بیت

کمپوزنگ: سید حسن اصغرنقوی

طبع اول: ۱۴۲۷ ھ ۲۰۰۶ ئ

تعداد ۳۰۰۰

مطبع : اسراء

۳

بِسْمِ ﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ

بنام خدائے رحمان ورحیم

قُلْ أَعُوذُبِرَبِّ النَّاسِ٭مَلِکِ النَّاسِ٭

اے رسول کہہ دیجئے کہ میں انسانوں کے پروردگار کی پناہ چاہتا ہوںجو تمام لوگوں کا مالک و بادشاہ

اِلٰهِ النَّاسِ٭مِنْ شَرِّالوَسْوَاسِ الخَنَّاسِ٭الَّذِی

اور سارے انسانوں کا معبود ہے شیطانی وسواس کے شر سے جو نام خدا سن کر پیچھے ہٹ جاتا ہے

یُوَسْوِسُ فِی صُدُورِالنَّاسِ٭مِنَ الجِنَّةِوَالنّاسِ٭

اور جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کراتا ہے وہ جنات میں سے ہو یا انسانوں میں سے۔

۴

بسم اللہ الرحمن الرحیم

حرف اول

جب آفتاب عالم تاب افق پر نمودار ہوتا ہے کائنات کی ہر چیز اپنی صلاحیت و ظرفیت کے مطابق اس سے فیضیاب ہوتی ہے حتی ننھے ننھے پودے اس کی کرنوں سے سبزی حاصل کرتے اور غنچے و کلیاں رنگ و نکھار پیدا کرلیتی ہیں تاریکیاں کافور اور کوچہ و راہ اجالوں سے پرنور ہوجاتے ہیں، چنانچہ متمدن دنیا سے دور ،عرب کی سنگلاخ وادیوں میں قدرت کی فیاضیوں سے جس وقت اسلام کا سورج طلوع ہوا، دنیا کی ہر فرد اور ہر قوم نے اپنی قوت و قابلیت کے اعتبار سے فیض اٹھایا۔

اسلام کے مبلغ و موسس سرورکائنات حضرت محمد مصطفیصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم غار حراء سے مشعل حق لے کر آئے اور علم و آگہی کی پیاسی اس دنیا کو چشمۂ حق و حقیقت سے سیراب کردیا، آپ کے تمام الٰہی پیغامات ایک ایک عقیدہ اور ایک ایک عمل فطرت انسانی سے ہم آہنگ ارتقائے بشریت کی ضرورت تھا، اس لئے ۲۳ برس کے مختصر عرصے میں ہی اسلام کی عالمتاب شعاعیں ہر طرف پھیل گئیں اور اس وقت دنیا پر حکمراں ایران و روم کی قدیم تہذیبیں اسلامی قدروں کے سامنے ماند پڑگئیں، وہ تہذیبی اصنام جو صرف دیکھنے میں اچھے لگتے ہیں اگر حرکت و عمل سے عاری ہوں اور انسانیت کو سمت دینے کا حوصلہ، ولولہ اور شعور نہ رکھتے ہوں تو مذہبِ عقل و آگہی سے روبرو ہونے کی توانائی کھودیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ایک چوتھائی صدی سے بھی کم مدت میں اسلام نے تمام ادیان و مذاہب اور تہذیب و روایات پر غلبہ حاصل کرلیا۔

۵

اگرچہ رسول اسلامصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم کی یہ گرانبہا میراث کہ جس کی اہلبیت علیہم السلام اور ان کے پیرووں نے خود کو طوفانی خطرات سے گزار کر حفاظت و پاسبانی کی ہے، وقت کے ہاتھوں خود فرزندان اسلام کی بے توجہی اور ناقدری کے سبب ایک طویل عرصے کے لئے تنگنائیوں کا شکار ہوکر اپنی عمومی افادیت کو عام کرنے سے محروم کردی گئی تھی، پھر بھی حکومت و سیاست کے عتاب کی پروا کئے بغیر مکتب اہلبیت علیہم السلام نے اپنا چشمۂ فیض جاری رکھا اور چودہ سو سال کے عرصے میں بہت سے ایسے جلیل القدر علماء و دانشور دنیائے اسلام کو تقدیم کئے جنہوں نے بیرونی افکار و نظریات سے متاثر اسلام و قرآن مخالف فکری و نظری موجوں کی زد پر اپنی حق آگین تحریروں اور تقریروں سے مکتب اسلام کی پشت پناہی کی ہے اور ہر دور اور ہر زمانے میں ہر قسم کے شکوک و شبہات کا ازالہ کیا ہے، خاص طور پر عصر حاضر میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ساری دنیا کی نگاہیں ایک بار پھر اسلام و قرآن اور مکتب اہلبیت علیہم السلام کی طرف اٹھی اور گڑی ہوئی ہیں، دشمنان اسلام اس فکری و معنوی قوت واقتدار کو توڑنے کے لئے اور دوستداران اسلام اس مذہبی اور ثقافتی موج کے ساتھ اپنا رشتہ جوڑنے اور کامیاب و کامراں زندگی حاصل کرنے کے لئے بے چین وبے تاب ہیں،یہ زمانہ علمی اور فکری مقابلے کا زمانہ ہے اور جو مکتب بھی تبلیغ اور نشر و اشاعت کے بہتر طریقوں سے فائدہ اٹھاکر انسانی عقل و شعور کو جذب کرنے والے افکار و نظریات دنیا تک پہنچائے گا، وہ اس میدان میں آگے نکل جائے گا۔

(عالمی اہلبیت کونسل) مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام نے بھی مسلمانوں خاص طور پر اہلبیت عصمت و طہارت کے پیرووں کے درمیان ہم فکری و یکجہتی کو فروغ دینا وقت کی ایک اہم ضرورت قرار دیتے ہوئے اس راہ میں قدم اٹھایا ہے کہ اس نورانی تحریک میں حصہ لے کر بہتر انداز سے اپنا فریضہ ادا کرے، تاکہ موجودہ دنیائے بشریت جو قرآن و عترت کے صاف و شفاف معارف کی پیاسی ہے زیادہ سے زیادہ عشق و معنویت سے سرشار اسلام کے اس مکتب عرفان و ولایت سے سیراب ہوسکے، ہمیں یقین ہے عقل و خرد پر استوار ماہرانہ انداز میں اگر اہلبیت عصمت و طہارت کی ثقافت کو عام کیا جائے اور حریت و بیداری کے علمبردار خاندان نبوتصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم و رسالت کی جاوداں میراث اپنے صحیح خدو خال میں دنیا تک پہنچادی جائے تو اخلاق و انسانیت کے دشمن، انانیت کے شکار، سامراجی خوں خواروں کی نام نہاد تہذیب و ثقافت اور عصر حاضر کی ترقی یافتہ جہالت سے تھکی ماندی آدمیت کو امن و نجات کی دعوتوں کے ذریعہ امام عصر (عج) کی عالمی حکومت کے استقبال کے لئے تیار کیا جاسکتا ہے۔

۶

ہم اس راہ میں تمام علمی و تحقیقی کوششوں کے لئے محققین و مصنفین کے شکر گزار ہیں اور خود کو مؤلفین و مترجمین کا ادنیٰ خدمتگار تصور کرتے ہیں، زیر نظر کتاب، مکتب اہلبیت علیہم السلام کی ترویج و اشاعت کے اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے، فاضل علّامہ آیة اللہ شیخ محمد مہدی آصفی مد ظلہ کی گرانقدر کتاب ( الہویٰ فی حدیث اہل البیت )کوسید کمیل اصغر زیدی نے اردو زبان میںاپنے ترجمہ سے آراستہ کیا ہے جس کے لئے ہم دونوں کے شکر گزار ہیں اور مزید توفیقات کے آرزومند ہیں، اسی منزل میں ہم اپنے ان تمام دوستوں اور معاونین کا بھی صمیم قلب سے شکریہ ادا کرتے ہیں کہ جنھوں نے اس کتاب کے منظر عام تک آنے میں کسی بھی عنوان سے زحمت اٹھائی ہے، خدا کرے کہ ثقافتی میدان میں یہ ادنیٰ جہاد رضائے مولیٰ کا باعث قرار پائے۔

والسلام مع الاکرام

مدیر امور ثقافت، مجمع جہانی اہلبیت علیہم السلام

۷

مقدمہ ٔ مؤلف

آپ کے سامنے اس حدیث قدسی سے متعلق کچھ فکری کا وشوں کا نتیجہ حاضر خدمت ہے جو خواہشات نفس،ان کی پیروی اور مخالفت نیز انسانی زندگی میں ان کے آثار کے بارے میں وارد ہوئی ہے۔

یہ فکری کوشش درحقیقت ا ن یا دداشتوں کا مجموعہ ہے جنہیں میں نے حوزہ علمیہ قم کے کچھ طلاب کے درمیان درس کے عنوان سے بیان کیا تھا ،اور اب خداوند عالم نے انہیں اس شکل وصورت میںمرتب اور نشر کرنے کی توفیق عنایت فرمادی ہے ۔

ان تمام عنایتوں پر اسکی حمد ہے ۔اور ﷲتعالی سے دعا ہے کہ اسے مومنین کے لئے مفید بنادے اور اسکے صاحب تحریر کے لئے بھی اس دن فائدہ مند قرار دے کہ جس دن مال واولاد کچھ کام نہ آئیںگے۔

محمد مہدی آصفی

قم مقدسہ

۲۸شوال ۱۴۱۲ھ

۸

بِسْمِ ﷲ الرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ

حدیث قدسی

عن الامام الباقرعليه‌السلام :عن رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم قال:یقول ﷲ عزوجل:

''وعزتی،وجلالی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعُلُوّی،وارتفاعِ مکانی، لایؤثرعبد هواه علیٰ هوای لاشتّتُ أمره،ولبّست علیه دنیاه،وشغلت قلبه بها،ولم أوته منهالاماقدّرت له وعزتی،وجلالی،وعظمتی،وکبریائی،ونوری،وعُلُوّی،وارتفاع مکانی، لایؤثرعبد هوای علیٰ هواه لااستحفظته ملا ئکتی،وکفّلت السماوات والارض رزقه،وکنت له من وراء تجارةکل تاجر،وأتته الدنیاوهی راغمة''( ۱ )

____________________

(۱)عدةالداعی:ص۷۹۔اصول کافی :ج۲ص۳۳۵۔بحارالانوار:ج۷۰ص۷۸۔بحار الانوار ج۷۰ ص۸۵ و ۸۶۔الجواہر السنیةفی الاحادیث القدسیة:ص۳۲۲۔اور شیخ محمد مدنی نے تقریباً انہیں الفاظ میں اسے :الاتحافات السنیةفی الاحادیث القدسیہ:ص۳۷پر نقل کیا ہے ۔

۹

بِسْمِ ﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحیمِ

حدیث قدسی

امام محمد باقر سے روایت ہے کہ رسول ﷲصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے فرمایا کہ خداوند عالم کاارشاد ہے :

''میری عزت و جلالت ،عظمت وکبریائی ،نور ورفعت اور میرے مقام ومنزلت کی بلندی کی قسم کوئی بندہ بھی اپنی ہویٰ وہوس کو میری مرضی اور خواہش پر ترجیح نہیں دیگا مگر یہ کہ میں اسکے امور کو درہم برہم کردونگا اسکے لئے دنیا کو بنا سنوار دونگا ۔اسکے دل کو اسی کا دلدادہ بنا دونگا اور اسکو صر ف اسی مقدار میں عطا کرونگاجتنا پہلے سے اسکے مقدر میں لکھ دیا ہے''

''اورمیری عزت وجلالت،عظمت وکبریائی،نورورفعت اورمقام ومنزلت کی بلندی کی قسم کوئی بندہ میری مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح نہیں دیگامگر یہ کہ ملائکہ اسکی حفاظت کرینگے ۔آسمان اور زمین اسکے رزق کے ذمہ دار ہیں اور ہر تاجر کی تجارت کی پشت پرمیں اسکے ساتھ موجود ہوں گااور دنیا اسکے سامنے ذلت و رسوائی کے لبادہ میں حاضر ہوگی''

یہ حدیث شریف ان روایات میں سے ہے جن کی شہرت کتب فریقین میں مستفیضہ ہونے کی حد تک ہے ۔

ہم نے اس حدیث کو مختلف سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے جن میں سے بعض سندیں ہمارے نزدیک صحیح ہیں ۔

اس حدیث کی تشریح تین فصلوں میں پیش کی گئی ہے۔

پہلی فصل:ہوائے نفس کی تعریف ،اس کے عوارض کی تشخیص ،اسکے علاج اور اس پر قابو پانے کے راستے پر مشتمل ہے یہ فصل در حقیقت اس کتاب (حدیث کی تشریح)کا مقدمہ ہے ۔

دوسری فصل:اپنی خواہش کو خداوند عالم کی مرضی پر ترجیح دینے والوں کے ذکر میں ہے ۔

تیسری فصل:خداوند عالم کی مرضی کو اپنی خواہش پر ترجیح دینے والوں کے ذکر میں ہے ۔

۱۰

پہلی فصل

خواہش

قرآن وسنت کی روشنی میں

''ہویٰ'' (خواہش)قرآن وحدیث

کی روشنی میں

ہویٰ (خواہش )ایک اسلامی اصطلاح ہے جو قرآن و حدیث سے ماخوذہے ۔اسلامی تہذیب میں اسکے اپنے ایک خاص معنیٰ مراد لئے جاتے ہیں۔

یہ لفظ قرآن اور احادیث میں کثرت سے استعمال ہوا ہے جیسا کہ ﷲ تعالی کا ارشاد ہے :

( أرایت من اتخذإلٰهه هواه أفأنت تکون علیه وکیلا ) ( ۱ )

''کیا آپ نے اس شخص کو دیکھا ہے جس نے اپنی خواہشات ہی کو اپنا خدا بنالیا ہے کیا آپ اس کی بھی ذمہ داری لینے کے لئے تیار ہیں ''

دوسرے مقام پر ارشاد ہوتاہے:( وأما من خاف مقام ربه ونهی النفس عن الهویٰ فإن الجنة هی المأویٰ ) ( ۲ )

''اور جس نے رب کی بار گاہ میں حاضری کا خوف پیدا کیا ہے اور اپنے نفس کو خواہشات سے روکا ہے تو جنت اس کا ٹھکانا اور مرکز ہے ''

____________________

(۱)سورئہ فرقا ن آیت ۴۳۔

(۲)سورئہ نازعات آیت۴۰۔۴۱۔

۱۱

سید رضی نے مولائے کائنات حضرت علی کا یہ قول نہج البلاغہ میں نقل کیا ہے:

(إن أخوف ماأخاف علیکم إثنان:إتباع الهویٰ وطول الأمل )

''مجھے تمہارے بارے میں سب سے زیادہ دو چیزوں کاخوف رہتا ہے :خواہشات کی پیروی اورآرزووںکا طولانی ہونا ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم اور امام جعفر صادق دونوں سے ہی یہ حدیث نقل ہوئی ہے کہ آپ حضرات نے فرمایا :

(حذرواأهوائکم کماتحذرون أعدائکم،فلیس شی أعدیٰ للرجال من اتباع أهوائهم وحصائدألسنتهم )( ۱ )

'' اپنی خواہشات سے اسی طرح ڈرتے رہو جس طرح تم اپنے دشمنوں سے ڈرتے ہو۔ کیونکہ انسان کیلئے خواہشات کی پیروی اور زبان کے نتائج سے بڑاکوئی دشمن نہیں ہے۔''

اور امام جعفر صادق ہی سے یہ بھی منقول ہے کہ:

(لاتدع النفس وهواها،فن هواهارداها )( ۲ )

'' نفس اور اسکی خواہشات کو ہرگز یونہی نہ چھوڑدینا کیونکہ نفسانی خواہشیں ہی اسکی پستی کا باعث ہیں''

بنیادی محرکات

انسانی زندگی میں نفس اور''خواہشات ''کیا کردار ادا کرتے ہیں اسکے لئے یہ جاننا ضروری ہے کہ خداوند عالم نے ہر انسان کو متحرک وفعال رکھنے اور علم وکمال کی جانب گامزن کرنے کے لئے

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۳۳۵۔

(۲)گذشتہ حوالہ اسکے وجودمیں کچھ بنیادی محرکات رکھے ہیں اور انسان کی تمام ارادی اور غیر ارادی حرکات نیز اسکی مادی و معنوی ترقی ا نھیں بنیادی محرکات کی مرہون منت ہے یہ چھ محرکات ہیں اور ان میںبھی سب سے اہم محرک ''ہویٰ''یعنی خواہشات نفس ہے۔

۱۲

۱۔فطرت:

اس کے ذریعہ خداوند عالم نے اپنی معرفت نیز وفاء ، عفت ،رحمت،اور کرم جیسے اخلاقی اقدارکی طرف رجحان کی قوت ودیعت فرمائی ہے۔

۲۔عقل :

یہ انسانی وجودمیں حق و باطل کے درمیان تشخیص اور تمیز دینے کی ذمہ دار ہے۔

۳۔ارادہ:

کسی کام کو کرنے یا نہ کرنے کا انحصار اسی پر ہوتاہے اور شخصیت کا استقلال اسی سے وابستہ ہے۔

۴۔ضمیر:

عدل و انصاف پر مبنی درونی و باطنی آوازہے جس کا کام انسان کو صحیح فیصلہ سے آگاہ اور غلط باتوں پر اسکی توبیخ کرنا ہے تاکہ انسان حد اعتدال پر قائم رہے ۔

۵۔قلب ،صدر،:

آیات قرآنی کے مطابق علم ومعرفت کا ایک اور دروازہ ہے۔ اسی پر خداوند عالم کی جانب سے علم ومعرفت کی تجلی ہوتی ہے ۔

۶۔ہویٰ(خواہشیں):

وہ خواہشات اور جذبات جو انسان کے نفس میں پائے جاتے ہیںاور ہر حال میں انسان سے اپنی تکمیل کامطالبہ کرتے ہیں اور ان کی تکمیل کے دور ان انسان لذت محسوس کرتاہے انسان کو متحر ک رکھنے اور اسے علم ومعرفت سے مالا مال کرنے کے یہ اہم ترین محرکات ہیںجنہیںاللہ تعالیٰ نے انسانی وجود میںودیعت فرمایاہے ۔سردست ان کی تعداداورتفصیلات کے بارے میں کسی قسم کی علمی اور تفصیلی گفتگو مقصودنہیں ہے ۔

۱۳

نفسیات کے اس گوشہ پر ابھی اسلامی نقطہ نظر سے مزید غور وفکر اور بحث وجستجو کی ضرورت ہے۔ خدا کرے کہ کو ئی ایسا بلند پایہ مفکر سامنے آجائے جو آیات و روایات کی روشنی میں اس گوشے سے متعلق فکری جولانیاں دکھا سکے۔۔فکر اسلامی کا یہ گوشہ نہایت شاداب ہونے کے ساتھ ساتھ اچھوتابھی ہے اور یہی دونوں خصوصیات علماء و مفکرین کے اشہب فکر کو مہمیز کرنے کیلئے کافی ہیں۔

لہٰذا خدا وند کریم سے یہ دعا ہے کہ جو شخص اسلامی علوم کے خزانوں کے سہارے اس مہم کو سر کرنے کا بیڑا اٹھا ئے وہ اسکے لئے ہر طرح کی آسانیاں فراہم کردے ۔

فی الحال اس کتاب میں ہویٰ کے معنی ،اسکی تعریف ،اور انسانی زندگی میں اسکے کردار نیز اسکے خصوصیات ،اثرات ،اس سے مقابلہ کا طریقہ اور اس سے متعلق دوسرے امور کا جائزہ لینا مقصودہے لہٰذا ہم انسانی وجود میں موجود دوسرے محرکات سے صرف نظر کرکے صرف اور صرف''ہویٰ''خواہشوںکے بارے میں گفتگوکریںگے ۔

''ہویٰ'' کی اصطلاحی تعریف

جب ہم اسلامی علوم میں ہویٰ کے معانی تلاش کرتے ہیں تو ہم کو یہ معلوم ہوتا ہے کہ اسلامی تہذیب وتمدن میں ہویٰ ''انسان کے اندر پو شیدہ ان خواہشات اور تمنائوں کو کہا جاتا ہے جو انسان سے اپنی تکمیل کے خواہاں ہوتے ہیں ۔''

انسان کی شخصیت میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے کیونکہ یہ انسان کو متحرک بنانے اوراسے آگے بڑھانے کا ایک بنیادی سبب نیز اسکی تمام ارادی اور غیرارادی حرکتوں کی اہم کنجی ہیں ۔

''ہویٰ''کے خصوصیات

انسانی زندگی کی تعمیر یا بربادی میں اسکی نفسانی خواہشوں کے مثبت اور منفی کردارسے وا قفیت کے لئے سب سے پہلے ان کی اہم خصوصیات کوجاننا ضروری ہے لہٰذا ہم آئندہ صفحات میں اسلامی نقطۂ نگاہ سے خواہشات نفس کے اہم خصوصیات کا جائز ہ لیں گے ۔

۱۴

۱۔چاہت میںشدت

اپنی چاہت کی تکمیل میں بالکل آزاد اور بے لگام ہونا انسانی خواہشات کی سب سے پہلی اور اہم ترین خصوصیت ہے البتہ سیر ہو نے یانہ ہونے کے اعتبار سے اس کے مختلف درجات ہیں کیونکہ کچھ خواہشات تو ایسی ہو تی ہیں جن سے کبھی سیری نہیںہو پاتی اور چاہے جتنا بھی اس کی تکمیل کی جائے اس کی طلب اور چاہت میں کمی نہیںآتی ۔جبکہ کچھ خواہشات ایسی ہیں جو وقت کے ساتھ سردتو پڑجاتی ہیں مگر بہت دیر کے بعد۔مختصر یہ کہ ان تمام خواہشات کے درمیان اعتدال اور توازن کے بجائے شدت طلبی ایک مشترکہ صفت ہے۔

جیسا کہ رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے ارشاد فرمایا ہے :

(لَوْکَانَ لِاِبْنِ آدَم وادٍمن مال لابتغیٰ لیه ثانیاً،ولوکان له وادیان لابتغیٰ لهماثالثاً،ولایملأ جوف ابن آدم لاالتراب )( ۱ )

''اگرفرزند آدم کے پاس مال ودولت کی ایک وادی ہو تی تو وہ دوسری وادی کی تمنا کرتا اور اگر اس کے پاس ایسی ہی دو وادیاں ہو تیں تب بھی اس کو تیسری وادی کی تمنا رہتی اور اولاد آدم کا پیٹ مٹی کے علا وہ کسی اور چیزسے نہیں بھر سکتا ہے ''

پیغمبر اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے :

(لوکان لابن آدم وادیان من ذهب لابتغیٰ وراء هما ثالثاً )( ۲ )

''اگر آدمی کو سونے کی دو وادیاں مل جائیں تو بھی اسے تیسری وادی کی تلاش رہے گی ''

جناب حمزہ بن حمران کہتے ہیں کہ ایک شخص نے حضرت امام جعفر صادق کی خدمت میں یہ شکایت کی کہ مجھے جس چیز کی خواہش ہو تی ہے وہ مجھے مل جاتی ہے تب بھی میرا دل اس پرقانع نہیں ہوتا ہے اور مزیدکی خواہش باقی رہتی ہے ،لہٰذا مجھے کو ئی ایسی چیز تعلیم فر مائیے جس سے میرے اندر قناعت پیدا ہو جائے اور مزیدکی خواہش نہ رہے توامام نے فرمایا:

____________________

(۱)الجامع الصغیرللسیوطی بشرح المناوی۔ ج۲ص۲۲۰ط ۱۳۷۳۔

(۲)مجموعۂ ورام ص۱۶۳۔

۱۵

''جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ تمھیں مستغنی بنا دے تو دنیا میں جو کچھ موجود ہے اس کا معمولی سا حصہ بھی تمھیں مستغنی بنا نے کے لئے کافی ہے اور جو چیز تمہارے لئے کافی ہے اگر وہ بھی تمہیں مستغنی نہ بنا سکے تو پھر پوری دنیا پاکر بھی تم مستغنی نہیں ہو سکتے ہو ''( ۱ )

امیرالمو منین فرمایا کرتے تھے :

''اے فرزندآدم، اگر تجھے دنیا صرف اتنی مقدار میںدرکارہو جو تیری ضروریات کے لئے کافی ہو سکے تو اس کا معمولی ساحصہ بھی تیرے لئے کافی ہے اور اگر تجھے وہ چیزبھی درکار ہے جو تیرے لئے ضروری نہیںتو پوری دنیا بھی تیرے لئے ناکا فی ہے ''( ۲ )

مذکورہ روایات میں خواہشات کی مزید طلب برقراررہنے سے مراد یہ نہیں ہے کہ کبھی ان کی تکمیل ممکن ہی نہیں ہے بلکہ ان کی شدت طلب کو بتانا مقصود ہے اور یہ کہ عموماًخواہشات حد اعتدال پر قائم نہیں رہتے ۔ورنہ بعض خواہشات ایسی ہو تی ہیں جو زند گی کے آخری مرحلہ میں بالکل کمزور پڑجاتی ہیں حالانکہ کچھ ایسی خواہشات بھی ہیں جوانسان کے آخری سانس تک بالکل جوان رہتی ہیں اور ان میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہو تی ہے ۔( ۳ )

____________________

(۱)اصول کافی ج۲ص۱۳۹۔

(۲)بحار الانوار ج ۷۳ ص ۱۷۰۔

(۳)انس نے رسول سے (جامع صغیر سیوطی حر ف (ی)ج۲ص۳۷۱)پر روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا ہے ٔ''فرزند آدم بالکل بوڑھا پھوس ہوجاتا ہے مگر اس کے ساتھ دو چیزیں باقی رہ جاتی ہیں لالچ اور آرزو ۔''

۱۶

میں خداوند عالم کے ایک ایسے بندہ ٔصالح کو پہچانتاہوںجس نے توفیق الٰہی کے سہارے جوانی میں ہی اپنے نفس پر غلبہ حاصل کرلیا تھا۔ جب ان کی عمر ۹۰سال کے قریب ہوئی توان سے ملاقات ہوتی رہتی تھی وہ فرمایا کرتے تھے کہ بنیادی طور پر صرف تین خواہشات ہیں : ۱۔جنسیات ۲۔مال ۳۔عہدہ پہلی دو خواہشات کو تو میں نے اپنی جوانی میںہی رام کرکے ان پر غلبہ حاصل کرلیاتھا لیکن تیسری خواہش اب بھی میرے دل میں مسلسل ابھرتی رہتی ہے اور مجھے اس کی بنا پر شرک میں پڑنے کا خطرہ لاحق رہتاہے۔

۲۔خواہشات میں تحرک کی قوّت

خواہشات، انسان کی حرکت و فعالیت کا سب سے اہم اور طاقتور ذریعہ ہیں اور ان کے اندر پائی جانے والی قوت متحرکہ کے بارے میں صرف اتنا کہناکافی ہے کہ خواہشات نفس و ہ تنہا سبب ہیں جوجاہلانہ تہذیب و تمدن کو پروان چڑھاتے رہے ہیں اورتاریخی نیز جغرافیائی لحاظ سے یہی جاہلانہ تمدن روئے زمین کے بیشتر حصوں پر حکم فرمارہاہے ۔اس جاہلانہ تمدن میں فطرت،ضمیراورعقل کی حکم فرمائی کا سرے سے انکار تو نہیں کیا جاسکتاہے لیکن یہ طے شدہ ہے کہ اس تمدن کی پیشرفت میں خواہشات ہی سب سے بڑاعامل اور سبب ہیں چاہے وہ جنگ و صلح کے معاملات ہو ں یا اقتصاد اور علو م وفنون کے میدان یا دیگر جرائم سب اسی کی کوکھ سے جنم لیتے رہے ہیں ۔

انسانی تاریخ کے بیشتر ادوارمیںجاہلیت کی حکمفرمائی دیکھنے کے بعد خواہشات میں پائی جانے والی قوت متحرکہ کی وسعت کا بآسانی اندازہ لگایا جاسکتاہے۔روایت میں ہے کہ جناب زیدبن صوحان نے امیر المومنین سے سوال کیا :

(ای سلطان اغلب وأقویٰ) '' کس بادشاہ کا کنٹرول اور غلبہ سب سے زیادہ ہوتا ہے تو آپ نے فرمایا : (الھوی)'' خواہشات کا ۔''( ۱ ) اسی طرح قرآن مجید نے عزیز مصر کی بیوی کا یہ اقراری جملہ نقل کیا ہے :

( إن النفس لأمارة بالسوء إلامارحم ربی ) ( ۲ )

''نفس تو برائیوں کی طرف ہی اکسا تاہے مگر یہ کہ جس پرخدا رحم وکرم کردے (وہی اس سے ۔

____________________

(۱)بحارالانوار ج۷۰ص۷۶حدیث۶۔

(۲)سورئہ یوسف آیت ۵۳۔علمائے نحو کے بقول اس جملے میں نحوی اعتبارسے اتنی تاکیدیں پائی جاتی ہیں جو بہت کم جملوں میں ہوتی ہیں جیسے یہ جملہ اسمیہ ہے اور اسکی ابتداء میں انّ پھرا مارہ صیغۂ مبالغہ اور اسکے شروع میں لام تاکید یہ سب کثرت تاکید کی علامتیں ہیں۔

۱۷

محفوظ رہ سکتا ہے)''یہ مختصر سا جملہ انسانی زندگی پر خواہشات کے مستحکم کنڑول کی ایک مضبوط سند ہے ۔

اور امیر المومنین سے منقول ہے کہ آپ نے فرمایا:

(الخطایا''الشهوات''خیل شُمُس حُمِل علیهاأهلها،وخُلِعَت لُجُمها،فتقحمت بهم فی النار،ألاوان التقویٰ مطایاذُلُلُ،حُمِل علیهاأهلها،واُعطواأزِمّتها،فأوردتهم الجنة )( ۱ )

'' خطائیں اور''خواہشات'' وہ سرکش گھوڑے ہیں جن پر کسی کو سوار کرکے انکی لگام اتاردی جائے اور وہ اپنے سوار کو لیکر جہنّم میں پھاند پڑیں لیکن تقویٰ وہ رام کی ہوئی سواریاں ہیں جن پر صاحبان تقویٰ کو سوار کرکے ان کی لگام انکے ہاتھ میں دیدی جائے اور وہ ان کو جنّت میں پہونچادیں ''

شمس در اصل شموس کی جمع ہے اور شموس اس سرکش اور اڑیل گھوڑے کو کہتے ہیں جو کسی کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیتا اورنہ ہی سوار کا تابع رہتاہے۔گویاسوار اسے لگام لگائے بغیر اس پر سوار ہوگیا تووہ اسکے قابو میں نہیںرہتااور وہ سوار کو لے اڑتاہے اور سواربھی اسے اپنے کنٹرول میں نہیں رکھ پاتا ۔یہی حال خواہشات کا بھی ہوتا ہے جو اپنے اسیرانسان کوہر طرف لئے پھرتی ہیں اور وہ ان خواہشات کو صحیح جہت نہیں دے پاتا اور ان پر اپنا قابو اسی طرح کھو بیٹھتا ہے جس طرح ایک سرکش گھوڑا بے قابو رہتا ہے۔

اسکے برخلاف تقویٰ انسان کو اسکے خواہشات نفس اور ہوی وہوس پر قابو رکھنے کی قوت عطا کرتا ہے اور نفس کو اسکا مطیع اور فرمانبردار بنا دیتا ہے جسکے بعدانسان جدھر چاہے انکا رخ موڑ سکتا ہے اورانہیں خواہشات کے ذریعہ وہ جنت میں پہنچ سکتا ہے ۔

۳۔خواہشات اور لالچ کی بیماری

طمع اور لالچ خواہشات کی تیسری خصوصیت ہے جس کی بنا پر خواہشات کی طلب میں

____________________

(۱)نہج البلاغہ خطبہ ۱۵۔

۱۸

اوراضافہ ہوجاتا ہے اور اسکی خواہش بڑھتی رہتی ہے ۔جبکہ دیگر مطالبات میں معاملہ اسکے بالکل بر عکس ہوتاہے کیونکہ جب انسان کسی اور مطالبہ کو پورا کرتا ہے تو اسکی گذشتہ شدت اور کیفیت و کمیت باقی نہیں رہتی بلکہ شدت میں کمی آتی ہے اورسیرابی کا احساس ہوتاہے ۔

لیکن خواہشات( ۱ ) کامعاملہ یہ ہے کہ اگر ان کے مطابق عمل کرتے رہیں تو ان کی طلب میں اضافہ ہوتاجاتاہے ،ان کی چاہت کا لاوا مزید ابلنے لگتاہے ۔جسکے بعد دھیرے دھیرے ان پر انسان کا کنٹرول نہیں رہ جاتا لیکن اگر معقول ضابطہ کے تحت ،اعتدال کے دائرہ میںرہ کر ان خواہشات کو پورا کیا جائے تو پھر ان کے مطالبات خود بخود سردپڑجاتے ہیںاورانسان بخوبی انکے او پر غلبہ حاصل کرلیتاہے۔

مختصر یہ کہ بالکل آگ کی طرح ہوتی ہیں کہ اس میں جتنی زیادہ پھونک ماری جاتی ہے اسکے شعلے مزیدبھڑکنے لگتے ہیں اسکی لپٹیںاور بلند ہو جا تی ہیں ۔لہٰذا شرعی حدود میں رہ کر مناسب اور معقول انداز میں ان خواہشات کو پورا کرناان کو آزاد اور بے لگام چھوڑدینے سے بہتر ہے کیونکہ اگر بلاقید و شرط ان کی پیروی کی جائے تو ہر قدم پر تشنگی کا احساس ہوتارہے گااور خواہشات پر انسان کا اختیاربالکل ختم ہو جائے گا ۔

ان دونوں ہی باتوں کی طرف روایات میں اشارہ موجود ہے۔

۱۔خواہشات کی بلاقید و شرط تکمیل سے ان کی شدت میں اور اضافہ ہوتاہے اور ان کے مطالبات بڑھتے ہی رہتے ہیں اور اسکے برعکس اگر صرف شرعی حدود کے دائرہ میںان کی تکمیل ہوتو سیرابی حاصل ہوتی ہے ۔جیسا کہ مولائے کائنات نے فرمایا ہے:

(ردالشهوة أقضی لها،وقضاؤهاأشدّلها )( ۲ )

____________________

(۱)خواہشات سے ہماری مراد تمام چاہتیں نہیں ہیں ۔کیونکہ بعض چاہتیں ایسی ہیں جن کے بارے میں یہ قاعدہ درست نہیں ہے ۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۳۸۰۔

۱۹

''شہوت اور خواہش کو ٹھکرادینا ہی اسکے ساتھ بہترین انصاف ہے اور اسکو پورا کرنا اسے مزید بڑھاوا دینا ہے۔''

یہاں خواہش کو ٹھکرادینے سے مراد محدود اور معقول پیمانہ پر ان کی تکمیل ہے ۔اور تکمیل سے مراد انہیںبے لگام چھوڑدینا اور ان کی تکمیل میں کسی قاعدہ و قانون کا لحاظ نہ رکھناہے۔

۲۔خواہشات کی بے جاتکمیل اور اس راہ میں افراط کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ ان خواہشات کے سامنے انسان اتنابے بس اور مجبورہو جاتا ہے کہ اپنی خواہشات پر اس کا کوئی اختیار نہیں رہ جاتااوروہ ان کاغلام اور نوکر بن کر رہ جاتا ہے لیکن اس کے برخلاف اگر انسان واقعاً کسی اصول وضابطہ کے مطابق محدود پیمانہ پران کی تکمیل کرے تو پھر اپنی خواہشات پر اسکا مکمل اختیار رہتا ہے اور وہ انہیں جدھر چاہے موڑسکتاہے۔

امام محمد باقر کا ارشاد ہے :

(مثل الحریص علی الدنیاکمثل دود القز،کلماازدادت من القزعلی نفسها لفّاًکان أبعد لها من الخروج حتیٰ تموت )( ۱ )

دنیا کے لالچی انسان کی مثال ریشم کے اس کیٹرے جیسی ہے کہ جو اپنے اوپر جتنا ریشم لپیٹا جاتاہے اسکے نکلنے کا راستہ اتنا ہی تنگ ہوتاجاتا ہے اور آخر کا روہ موت کے منھ میں چلا جاتا ہے۔

____________________

(۱)بحار الانوارج۷۳ص۲۳۔

۲۰