خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں16%

خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب
صفحے: 349

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 349 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 134554 / ڈاؤنلوڈ: 3993
سائز سائز سائز
خواہشیں ! احادیث اہل بیت  کی روشنی میں

خواہشیں ! احادیث اہل بیت کی روشنی میں

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

نہ نوازا ہوتا تو وہ کبھی بھی حجت اور دلیل نہیں بن سکتی تھی اور اسکے مطابق فیصلہ ممکن نہیں تھا۔

یہی وجہ ہے کہ روایات میں آیا ہے کہ خداوند عالم عقل کے مطابق ہی جزا یا سزا دیگا۔

۲۔اطاعت خدا

جب فہم وادراک اورنظری معرفت کے میدان میں عقل کی اس قدر اہمیت ہے۔۔۔تو اسی نظری معرفت کے نتیجہ میں عملی معرفت پیدا ہوتی ہے جسکی بنا پر انسان کیلئے کچھ واجبات کی ادائیگی اور محرمات سے پرہیز واجب ہوجاتا ہے ۔

چنانچہ جس نظری معرفت کے نتیجہ میںعملی معرفت پیدا ہوتی ہے اسکا مطلب یہ ہے کہ انسان خداوند عالم کے مقام ربوبیت والوہیت کو پہچان لے اور اس طرح اسکی عبودیت اور بندگی کے مقام کی معرفت بھی پیدا کرلے اورجب انسان یہ معرفت حاصل کرلیتاہے تو اس پر خداوند عالم کے احکام کی اطاعت وفرمانبرداری واجب ہوجاتی ہے۔

یہ معرفت ،عقل کے خصوصیات میں سے ایک ہے اور یہی وہ معرفت ہے جو انسان کو خدا کے اوامر کی اطاعت اور نواہی سے پرہیز (واجبات و محرمات )کا ذمہ دار اور انکی ادائیگی یا مخالفت کی صورت میں جزاوسزا کا مستحق قرار دیتی ہے اور اگر معرفت نظری کے بعد یہ معرفت عملی نہ پائی جائے تو پھر انسان کے اوپر اوامر اور نواہی الٰہیہ نافذ(لاگو)نہیں ہوسکتے یعنی نہ اسکے اوپر کوئی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور نہ ہی اسکو جزااور سزا کا مستحق قرار دیا جاسکتا ہے۔

اسی بیان کی طرف مندرجہ ذیل روایات میں اشارہ موجود ہے:

۸۱

امام محمد باقر نے فرمایا ہے:

(لماخلق ﷲ العقل استنطقه ثم قال له أقبل فأقبل،ثم قال له أدبرفأدبر،ثم قال له:وعزّتی وجلا لی ماخلقت خلقاً هوأحب لیّ منک،ولااکملک الافیمن احبأمانی یّاک آمرو یّاکأنهیٰ ویّاک اُعاقب ویّاک أثیب )( ۱ )

''یعنی جب پروردگار عالم نے عقل کو خلق فرمایا تو اسے گویا ہونے کاحکم دیا پھر اس سے فرمایا سامنے آ،تو وہ سامنے آگئی اسکے بعد فرمایا پیچھے ہٹ جا تو وہ پیچھے ہٹ گئی تو پروردگار نے اس سے فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم میں نے تجھ سے زیادہ اپنی محبوب کوئی اور مخلوق پیدا نہیں کی ہے اور میں تجھے اسکے اندر کامل کرونگا جس سے مجھے محبت ہوگی۔یاد رکھ کہ میں صرف اور صرف تیرے ہی مطابق کوئی حکم دونگا اور تیرے ہی مطابق کسی چیز سے منع کرونگا اور صرف تیرے مطابق عذا ب کرونگا اور تیرے ہی اعتبار سے ثواب دونگا''

امام جعفر صادق نے فرمایا:

(لماخلق ﷲ عزوجل العقل قال له ادبرفادبر،ثم قال اقبل فاقبل،فقال وعزتی وجلالی ماخلقت خلقاً احسن منک،یّاک آمرویّاک انهی،یّاک اُثیب ویّاکاُعاقب )( ۲ )

''جب ﷲ تعالی نے عقل کو پیدا کیا تو اس سے فرمایا واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی اسکے بعد فرمایا سامنے آ ،تو وہ آگئی تو ارشاد فرمایا کہ میری عزت وجلالت کی قسم : میں نے تجھ سے زیادہ حسین و جمیل کوئی مخلوق پیدا نہیں کی ہے لہٰذا صرف اور صرف تیرے ہی مطابق امرونہی کرونگا اور صرف اورصرف تیرے ہی مطابق ثواب یا عذاب دونگا''

بعینہ یہی مضمون دوسری روایات میں بھی موجود ہے ۔( ۳ )

ان روایات میں اس بات کی طرف کنایہ واشارہ پایا جاتا ہے کہ عقل، خداوند عالم کی مطیع

____________________

(۱)اصول کافی ج۱ص۱۰۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۹۶۔

(۳)بحارالانوار ج۱ ص ۹۷ ۔

۸۲

وفرمانبردار مخلوق ہے کہ جب اسے حکم دیا گیا کہ سامنے آ، تو سامنے آگئی اور جب کہا گیا کہ واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ۔

روایات میں اس طرح کے اشارے اورکنائے ایک عام بات ہے۔

علم وعمل کے درمیان رابطہ کے بارے میں حضرت علی کا یہ ارشاد ہے:

(العاقل اذا علم عمل،واذا عمل اخلص )( ۱ )

'' عاقل جب کوئی چیز جان لیتا ہے تو اس پر عمل کرتا ہے اور جب عمل کرتا ہے تو اسکی نیت خالص رہتی ہے''

ﷲ تعالیٰ کی اطاعت وبندگی اور اسکے احکامات کی فرمانبرداری میں عقل کیا کردار ادا کرتی ہے اسکے بارے میں اسلامی کتابو ں میں روایات موجود ہیں جنمیں سے ہم نمونے کے طورپر صرف چند روایات ذکر کر رہے ہیں۔

رسول اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم :

(العاقل من أطاع ﷲ )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو خدا کا فرمانبردار ہو''

روایت ہے کہ نبی اکرمصلى‌الله‌عليه‌وآله‌وسلم سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟

قال :(العمل بطاعة الله،ان العمال بطاعة الله هم العقلاء )

''فرمایا :حکم خدا کے مطابق عمل کرنا، بیشک اطاعت خدا کے مطابق چلنے والے ہی صاحبان عقل ہیں''( ۳ )

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۱۰۱۔

(۲)بحارالانوارج۱ص۱۶۰۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۱۔

۸۳

امام جعفر صادق سے سوال کیا گیا کہ عقل کیا ہے؟تو آپ نے فرمایا :

''جس سے خداوند عالم (رحمن)کی عبادت کی جائے اور جنت حاصل کی جائے''راوی کہتا ہے کہ میںنے عرض کیا کہ پھر معاویہ کے اندر کیا تھا؟فرمایا:وہ چال بازی اور شیطنت تھی''( ۱ )

حضرت علی :(اعقلکم اطوعکم )( ۲ )

''سب سے بڑا عاقل وہ ہے جو سب سے زیادہ اطاعت گذار ہو''

امام جعفر صادق :

(العاقل من کان ذلولاً عند اجابة الحق )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو دعوت حق کو لبیک کہتے وقت اپنے کو سب سے زیادہ ذلیل سمجھے''

۳۔خواہشات کے مقابلہ کے لئے صبروتحمل(خواہشات کا دفاع)

یہ وہ تیسری فضیلت ہے جس سے خداوند عالم نے انسانی عقل کو نوازا ہے ۔اور یہ عقل کی ایک بنیادی اور دشوار گذار نیزاہم ذمہ داری ہے جیسا کہ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ اسکی یہ ذمہ داری اطاعت الٰہی کا ہی ایک دوسرا رخ تصور کی جاتی ہے بلکہ در حقیقت(واجبات پر عمل اور محرمات سے پرہیز)ہی اطاعت خدا کے مصداق ہیں اور ان کے درمیان صرف اتنا فرق ہے کہ پہلی صورت میں واجبات پر عمل کرکے اسکی اطاعت کی جاتی ہے اور دوسری صورت میں اسکی حرام کردہ چیزوں سے پر ہیز کرکے خواہشات سے اپنے نفس کو روک کر اوران پر صبرکر کے اسکی فرمانبرداری کیجاتی ہے اس بنا پر عقل کی یہ ذمہ داری اور ڈیوٹی ہے کہ وہ خواہشات نفس کواپنے قابو میں رکھے اورانھیں اس طرح اپنے ماتحت رکھے کہ وہ کبھی اپنا سر نہ اٹھا سکیں۔

____________________

(۱)بحارالانوارج۱ص۱۱۶۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۷۹۔

(۳)بحارالانوار ج۱ص۱۳۰۔

۸۴

خواہشات نفس کوکنڑول کرنے کے بارے میں عقل کی اس ڈیوٹی کے سلسلہ میں بیحد تاکید کی گئی ہے۔نمونہ کے طور پر حضرت علی کے مندرجہ ذیل اقوال حاضر خدمت ہیں:

٭(العقل حسام قاطع )( ۱ )

''عقل (خواہشات کو)کاٹ دینے والی تیز شمشیر ہے''

٭ (قاتل هواک بعقلک )( ۲ )

''اپنی عقل کے ذریعہ اپنی خواہشات سے جنگ کرو''

٭ (للنفوس خواطرللهویٰ،والعقول تزجر وتنهیٰ )( ۳ )

''نفس کے اندر ہویٰ وہوس کی بنا پر مختلف حالات پیدا ہوتے رہتے ہیں اور عقل ان سے منع کرتی ہے''

٭ (للقلوب خواطر سوء والعقول تزجرمنها )( ۴ )

''دلوں پر برے خیالات کا گذر ہوتا ہے تو عقل ان سے روکتی ہے''

٭ (العاقل من غلب هواه،ولم یبع آخرته بدنیاه )( ۵ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی خواہش کا مالک ہو اور اپنی آخرت کو اپنی دنیا کے عوض فروخت نہ کرے''

٭ (العاقل من هجرشهوته،وباع دنیاه بآخرته )( ۶ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت سے بالکل دور ہوجائے اور اپنی دنیا کو اپنی آخرت کے عوض

____________________

(۱)نہج البلاغہ ۔

(۲)گذشتہ حوالہ۔

(۳)تحف العقول ص۹۶۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۱۲۱۔

(۵)غررالحکم ج۱ ص ۰۴ ۱ ۔

(۶)غررالحکم ج۱ص۸۶۔

۸۵

فروخت کرڈالے''

٭ (العاقل عدولذ ته والجاهل عبد شهوته )( ۱ )

''عاقل اپنی لذتوں کا دشمن ہوتا ہے اور جاہل اپنی شہوت کا غلام ہوتا ہے''

٭ (العاقل من عصیٰ هواه فی طاعة ربه )( ۲ )

''عاقل وہ ہے جو اطاعت الٰہی کے لئے اپنی خواہش نفس (ہوس)کی مخالفت کرے''

٭ (العاقل من غلب نوازع أهویته )( ۳ )

''عاقل وہ ہے جو اپنے خواہشات کی لغزشوں پر غلبہ رکھے''

٭ (العاقل من أمات شهوته،والقوی من قمع لذته )( ۴ )

''عاقل وہ ہے جو اپنی شہوت کو مردہ بنادے اور قوی وہ ہے جو اپنی لذتوں کا قلع قمع کردے''

لہٰذا عقل کے تین مرحلے ہیں:

۱۔معرفت خدا

۲۔واجبات میں اسکی اطاعت

۳۔جن خواہشات نفس اور محرمات سے ﷲ تعالی نے منع کیا ہے ان سے پرہیز کرنا۔

اس باب (بحث)میں ہماری منظور نظر عقل کا یہی تیسراکردارہے یعنی اس میں ہم خواہشات کے مقابلہ کا طریقہ ان پر قابو حاصل کرنے نیز انھیں کنٹرول کرنے کے طریقے بیان کرینگے ۔لہٰذا اب آپ نفس کے اندر عقل اور خواہشات کے درمیان موجود خلفشار اور کشمکش کی تفصیل ملاحظہ فرمائیں:

____________________

(۱)غررالحکم ج۱ص۲۸۔

(۲)غررالحکم ج۲ص۸۷۔

(۳)غررالحکم ج۲ص۱۲۰۔

(۴)غررالحکم ج۲ص۵۸۔

۸۶

عقل اور خواہشات کی کشمکش اور انسان کی آخری منزل کی نشاندہی

عقل اور خواہشات کے درمیان جو جنگ بھڑکتی ہے اس سے انسان کے آخری انجام کی نشاندہی ہوجاتی ہے کہ وہ سعادت مند ہونے والا ہے یا بد بخت ؟

یعنی نفس کی اندرونی جنگ دنیاکے تمام لوگوں کو دو الگ الگ حصوں میں تقسیم کردیتی ہے :

۱۔متقی

۲۔فاسق وفاجر

اس طرح بشری عادات و کردار کی بھی دوقسمیں ہیں:

۱۔تقویٰ وپرہیزگاری(نیک کردار)

۲۔فسق وفجور ( بد کردار)

تقویٰ یعنی خواہشات کے اوپر عقل کی حکومت اورفسق وفجور اور بد کرداری یعنی عقل کے اوپر خواہشات کا اندھا راج ،لہٰذا اسی دوراہے سے ہر انسان کی سعادت یا بدبختی کے راستے شمال و جنوب کے راستوں کی طرح ایک دوسرے سے بالکل جدا ہوجاتے ہیںاور اصحاب یمین (نیک افراد) اور اصحاب شمال (یعنی برے لوگوں)کے درمیان یہ جدائی بالکل حقیقی اور جوہری جدائی ہے جس میں کسی طرح کا اتصال ممکن نہیں ہے۔اور یہ جدائی اسی دو راہے سے پیدا ہوتی ہے کیونکہ کچھ لوگ اپنی خواہشات پر اپنی عقل کو حاکم رکھتے ہیں لہٰذا وہ متقی،صالح اور نیک کردار بن جاتے ہیں اور کچھ اپنی عقل کی باگ ڈوراپنی خواہشات کے حوالہ کردیتے ہیں لہٰذا وہ فاسق وفاجر بن جاتے ہیں اس طرح اہل دنیا دوحصوں میں بٹے ہوئے ہیں کچھ کا راستہ خدا تک پہنچتا ہے اور کچھ جہنم کی آگ کی تہوں میں پہونچ جاتے ہیں۔

۸۷

امیر المومنین نے اس بارے میں ارشاد فرمایا ہے:

(من غلب عقله هواه افلح،ومن غلب هواه عقله افتضح )( ۱ )

''جس کی عقل اسکی خواہشات پر غالب ہے وہ کامیاب وکامران ہے اور جسکی عقل کے اوپر اسکے خواہشات غلبہ پیدا کرلیں وہ رسواو ذلیل ہوگیا''

آپ نے ہی یہ ارشاد فرمایا ہے:

(العقل صاحب جیش الرحمٰن،والهویٰ قائد جیش الشیطان والنفس متجاذبة بینهما،فأیهمایغلب کانت فی حیّزه )( ۲ )

''عقل لشکر رحمن کی سپہ سالارہے اور خواہشات شیطان کے لشکر کی سردار ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان کشمکش اور کھنچائو کا شکاررہتا ہے چنانچہ ان میں جو غالب آجاتا ہے نفس اسکے ماتحت رہتا ہے''

اس طرح نفس کے اندر یہ جنگ جاری رہتی ہے اور نفس ان دونوں کے درمیان معلق رہتا ہے جب انمیں سے کوئی ایک اس جنگ کو جیت لیتا ہے تو انسان کا نفس بھی اسکی حکومت کے ماتحت چلاجاتا ہے اب چاہے عقل کامیاب ہوجائے یا خواہشات۔

حضرت علی :

(العقل والشهوة ضدان، مؤید العقل العلم،مزین الشهوة الهویٰ،والنفس متنازعة بینهما،فأیهما قهرکانت فی جانبه )( ۳ )

''عقل اور شہوت ایک دوسرے کی ضد ہیں عقل کا مددگار علم ہے اور شہوت کو زینت بخشنے والی چیز

____________________

(۱)غررالحکم ج۲ص۱۸۷۔

(۲)غررالحکم ج۱ص۱۱۳۔

(۳)گذشتہ حوالہ ۔

۸۸

ہوس اور خواہشات ہیں اور نفس ان دونوں کے درمیان متذبذب رہتا ہے چنانچہ انمیں سے جوغالبآجاتا ہے نفس بھی اسی کی طرف ہوجاتا ہے''

یعنی نفس کے بارے میں عقل اور خواہشات کے درمیان ہمیشہ جھگڑا رہتا ہے ۔چنانچہ انمیں سے جوغالب آجاتا ہے انسان کا نفس بھی اسی کا ساتھ دیتا ہے۔

ضعف عقل اورقوت ہوس

شہوت(خواہشات)اور عقل کی وہ بنیادی لڑائی جسکے بعد انسان کی آخری منزل (سعادت وشقاوت) معین ہوتی ہے اس میں خواہشات کا پلڑاعقل کے مقابلہ میں کافی بھاری رہتا ہے جسکی وجہ یہ ہے کہ عقل فہم وادراک کا ایک آلہ ہے جبکہ خواہشات جسم کے اندر انسان کو متحرک بنانے والی ایک مضبوط طاقت ہے۔

اور یہ طے شدہ بات ہے کہ عقل ہرقدم سوچ سمجھ کر اٹھاتی ہے لیکن اس کے باوجود بھی اسکو نفس کی قوت محرکہ نہیں کہاجاتا ہے۔

جبکہ خواہشات کے اندر انسان کو کسی کام پر اکسانے بلکہ بھڑکانے کے لئے اعلیٰ درجہ کی قدرت وطاقت وافرمقدار میں پائی جاتی ہے۔

حضرت علی نے فرمایا:

(کم من عقل اسیرعند هویٰ امیر )( ۱ )

''کتنی عقلیں خواہشات کے آمرانہ پنجوںمیں گرفتار ہیں''

خواہشات انسان کو لالچ اور دھوکہ کے ذریعہ پستیوں کی طرف لیجاتی ہیں اور انسان بھی ان کے ساتھ پھسلتا چلا جاتا ہے ۔جبکہ عقل انسان کو ان چیزوںکی طرف دعوت دیتی ہے جن سے اسے نفرت ہے اور وہ انھیں پسند نہیں کرتا ہے۔

____________________

(۱)نہج البلاغہ حکمت۲۱۱

۸۹

امیر المومنین فرماتے ہیں:

(اکره نفسک علی الفضائل،فان الرذائل انت مطبوع علیها )( ۱ )

''نیک کام کرنے کے لئے اپنے نفس کے اوپر زور ڈالو،کیونکہ برائیوں کی طرف تو تم خود بخودجاتے ہو''

کیونکہ خواہشات کے مطابق چلتے وقت راستہ بالکل مزاج کے مطابق گویاڈھلان دار ہوتا ہے لہٰذاوہ اسکے اوپر بآسانی پستی کی طرف اتر تا چلاجاتا ہے لیکن کمالات اور اچھائیوں میں کیونکہ انسان کا رخ بلند یو ںکی طرف ہوتا ہے لہٰذا اس صورت میںہر ایک کو زحمت اور مشقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ عقل اور شہوت کے درمیان جو بھی جنگ چھڑتی ہے اس میں شہوتیں اپنے تمام لائو لشکر اور بھر پور قدرت وطاقت اور اثرات کے ساتھ میدان میں اترتی ہیں اوراسکے سامنے عقل کمزور پڑجاتی ہے۔

اور اکثر اوقات جب عقل اور خواہشات کے درمیان مقابلہ کی نوبت آتی ہے تو عقل کو ہتھیار ڈالنا پڑتے ہیں کیونکہ وہ اسکے اوپر اس طرح حاوی ہوجاتی ہیں کہ اسکو میدان چھوڑنے پر مجبور کردیتی ہیں اور اسکا پورا کنٹرول اپنے ہاتھ میں لیکر اسے بالکل لاچار بنادیتی ہیں۔

____________________

(۱)مستدرک وسائل الشیعہ ج ۲ ص۳۱۰۔

۹۰

عقل کے لشکر

پروردگار عالم نے انسان کے اندر ایک مجموعہ کے تحت کچھ ایسی قوتیں ، اسباب اور ذرائع جمع کردئے ہیں جو مشکل مرحلوں میں عقل کی امداد اور پشت پناہی کا فریضہ انجام دیتے ہیں اور نفس کے اندر یہ خیروبرکت کا مجموعہ انسان کی فطرت ،ضمیر اورنیک جذبات (عواطف)کے عین مطابق ہے اور اس مجموعہ میں خواہشات کے مقابلہ میں انسان کو تحریک کرنے کی تمام صلاحیتیں پائی جاتی ہیں

اور یہ خواہشات اور ہوس کو روکنے اور ان پر قابو پانے اور خاص طور سے ہوی وہوس کو کچلنے کے لئے عقل کی معاون ثابت ہوتی ہیں۔

کیونکہ(جیسا کہ ہم بیان کرچکے ہیںکہ) عقل تو فہم وادراک اور علم ومعرفت کا ایک آلہ ہے۔ جو انسان کو چیزوں کی صحیح تشخیص اور افہام وتفہیم کی قوت عطا کرتا ہے اور تنہااسکے اندر خواہشات کے سیلاب کو روکنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ہے۔لہٰذا ایسے مواقع پر عقل خواہشات کو کنٹرول کرنے اور ان پر قابو پانے کے لئے ان اسباب اور ذرائع کا سہارا لیتی ہے جوخداوند عالم نے انسان کے نفس کے اندر ودیعت کئے ہیںاور اس طرح عقل کیلئے خواہشات کا مقابلہ اورانکا دفاع کرنے کی قوت پیدا ہوجاتی ہے لہٰذاان اسباب کے پورے مجموعہ کو اسلامی اخلاقیات اور تہذیب و تمدن کی زبان میں عقل کے لشکروں کا نام دیا گیا ہے۔جو ہر اعتبار سے ایک اسم بامسمّیٰ ہے۔

نمونہ کے طور پر اسکی چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں:

کبھی کبھی انسان مال و دولت کی محبت کے جذبہ کے دبائو میں آکر غلط اور نا جا ئز راستوں سے دولت اکٹھا کرنے لگتا ہے ۔کیونکہ ہر انسان کے اندر کسی نہ کسی حد تک مال و دولت کی محبت پائی جاتی ہے مگر بسا اوقات وہ اس میں افراط سے کام لیتا ہے ۔ایسے مواقع پر انسانی عقل ہر نفس کے اندر موجود ''عزت نفس ''کے ذخیرہ سے امداد حا صل کرتی ہے چنا نچہ جہاں تو ہین اور ذلت کا اندیشہ ہو تا ہے عزت نفس اسے وہاں سے دولت حاصل کرنے سے روک دیتی ہے اگر چہ اس میں کو ئی شک و شبہ نہیں ہے کہ جس جگہ بھی تو ہین اور ذلت کا خطرہ ہو تا ہے عقل اسکو اس سے اچھی طرح آگاہ کر دیتی ہے لیکن پھر بھی ایسے مو اقع پر مال و دو لت سمیٹنے سے روکنے کے لئے عقل کی رہنما ئی تنہا کا فی نہیں ہے بلکہ اسے عزت نفس کا تعا ون درکارہوتاہے جسکو حاصل کرکے وہ حب مال کی ہوس اور جذبہ کا مقابلہ کرتی ہے ۔

۹۱

۲۔جنسی خو ا ہشات انسان کے اندر سب سے زیادہ قوی خو ا ہشات ہو تی ہیں اوران کے دبائو کے بعد انسان اپنی جنسی جذبات کی تسلی کے لئے طرح طرح کے غلط اور حرام راستوں پردوڑتا چلا جاتا ہے اور اس میں بھی کو ئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ ایسے اکثر حالات میں عقل جنسی بے راہ روی کے غلط مقامات کا بخوبی مقابلہ نہیں کر پاتی اور اسے صحیح الفطرت انسان کے نفس کے اندر مو جود ایک اور فطری طاقت یعنی عفت نفس (پاک دامنی )کی مدد حا صل کرنا پڑتی ہے ۔چنانچہ جب انسان کے سامنے اس کی عفت اور پاکدا منی کا سوال پیدا ہو جاتا ہے تو پھر وہ اس بری حرکت سے رک جاتا ہے ۔

۳۔کبھی کبھی انسان کے اندرسربلندی ،انانیت اور غرور وتکبر کا اتنا مادہ پیدا ہوجاتا ہے کہ وہ اپنے سامنے دوسروں کو بالکل ذلیل اور پست سمجھنے لگتا ہے اور یہ ایک ایسی صفت ہے جس کو عقل ہر اعتبار سے برا سمجھتی ہے اسکے باوجود جب تک عقل، نفس کے اندر خداوند عالم کی ودیعت کردہ قوت تواضع سے امداد حاصل نہ کرے وہ اس غرور و تکبر کا مقابلہ نہیں کرسکتی ہے۔

۴۔کبھی کبھی انسان اپنے نفس کے اندر موجود ایک طاقت یعنی غیظ وغضب اور غصہ کا شکار ہوجاتا ہے جسکے نتیجہ میں وہ دوسروں کی توہین اور بے عزتی کرنے لگتا ہے۔چنانچہ یہ کام عقل کی نگاہ با بصیرت میں کتنا ہی قبیح اور براکیوں نہ ہواسکے باوجود عقل صرف اورصرف اپنے بل بوتے پر انسان کے ہوش وحواس چھین لینے والی اس طاقت کا مقابلہ کرنے سے معذور ہے لہٰذا ایسے مواقع پر عقل، عام طور سے انسان کے اندر موجود ،رحم وکرم کی فطری قوت وطاقت کو سہارا بناتی ہے۔کیونکہ اس صفت (رحم وکرم)میں غصہ کے برابر یا بلکہ اس سے کچھ زیادہ ہی قوت اور صلاحیت پائی جاتی ہے یہی وجہ ہے کہ انسان غصہ کی بنا پر کوئی جرم کرنا چاہتا ہے تو رحم وکرم کی مضبوط زنجیر یں اسکے ہاتھوں کو جکڑلیتی ہیں۔

۵۔اسی طرح انسان اپنی کسی اور خواہش کے اشارہ پر چلتا ہواخداوند عالم کی معصیت اور گناہ کے راستوں پر چلنے لگتا ہے تب عقل اسکو''خوف الٰہی''کے سہارے اس گناہ سے بچالیتی ہے۔

اس قسم کی اور بے شمار مثالیں موجود ہیں جن میں سے مذکورہ مثالیں ہم نے صرف وضاحت کے لئے بطور نمونہ پیش کردی ہیں ان کے علاوہ کسی وضاحت کے بغیر کچھ اورمثالیں ملاحظہ فرمالیں۔

جیسے نمک حرامی کے مقابلہ میں شکر نعمت، بغض و حسد کے مقابلہ کے لئے پیار ومحبت اورمایوسی کے مقابلہ میں رجاء وامید کی مدد حاصل کرتی ہے۔

۹۲

لشکر عقل سے متعلق روایات

معصومین کی احادیث میں نفس کے اندر موجود پچھتّر صفات کو عقل کا لشکر کہا گیا ہے جن کا کام یہ ہے کہ یہ ان دوسری پچھتّر صفات کا مقابلہ کرتی ہیں جنہیں خواہشات اور ہوس یاحدیث کے مطابق جہل کا لشکر کہا جاتا ہے ۔

چنانچہ نفس کے اندر یہ دونوں متضاد صفتیں درحقیقت نفس کے دو اندرونی جنگی محاذوں کی صورت اختیار کرلیتے ہیں جن میں ایک محاذ پر عقل کی فوجوںاور دوسری جانب جہل یا خواہشات کے لشکروں کے درمیان مسلسل جنگ کے شعلے بھرکتے رہتے ہیں۔

علامہ مجلسی (رح)نے اپنی کتاب بحارالانوار کی پہلی جلدمیں اس سے متعلق امام جعفرصادق اور امام موسی کاظم سے بعض روایات نقل کی ہیںجن کو ہم ان کی سند کے ساتھ ذکر کررہے ہیں تاکہ آئندہ ان کی وضاحت میں آسانی رہے۔

پہلی روایت

سعد اور حمیری دونوں نے برقی سے انھوں نے علی بن حدید سے انھوں نے سماعہ سے یہ روایت نقل کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں کہ :میں امام جعفر صادق کی خدمت موجود تھا اور اس وقت آپ کی خدمت میں کچھ آپ کے چاہنے والے بھی حاضر تھے عقل اور جہل کا تذکرہ درمیان میں آگیا تو امام جعفر صادق نے ارشاد فرمایاکہ: عقل اور اسکے لشکر کواور جہل اور اسکے لشکر کو پہچان لو تو ہدایت پاجائوگے۔ سماعہ کہتے ہیں کہ:میںنے عرض کی میں آپ پر قربان، جتنا آپ نے ہمیں سکھا دیا ہے ہم تو اتنا ہی جانتے ہیں تو امام جعفر صادق نے فرمایا کہ خداوند عالم نے اپنی روحانی مخلوقات میں اپنے نور کے عرش کے دائیں حصہ سے جس مخلوق کو سب سے پہلے پیدا کیا ہے وہ عقل ہے۔پھر اس سے فرمایا سامنے آ:تو وہ سامنے حاضر ہوگئی پھر ارشاد فرمایا:واپس پلٹ جا تو وہ واپس پلٹ گئی ،تو ارشاد الٰہی ہوا، میں نے تجھے عظیم خلقت سے نوازا ہے اور تجھے اپنی تمام مخلوقات پر شرف بخشا ہے پھر آپ نے فرمایا:کہ پھر خداوند عالم نے جہل کو ظلمتوں کے کھار ی سمندرسے پیدا کیا اور اس سے فرمایا کہ پلٹ جا تو وہ پلٹ گیا پھر فرمایا : سامنے آ:تو اس نے اطاعت نہیں کی تو خداوند عالم نے اس سے فرمایا : تو نے غرور وتکبر سے کام لیا ہے؟پھر(خدانے) اس پر لعنت فرمائی ۔

۹۳

اسکے بعد عقل کے پچھتّر لشکر قرار دئے جب جہل نے عقل کے لئے یہ عزت و تکریم اور عطا دیکھی تو اسکے اندر عقل کی دشمنی پیدا ہوگئی تو اس نے عرض کی اے میرے پروردگار، یہ بھی میری طرح ایک مخلوق ہے جسے تو نے پیدا کرکے عزت اور طاقت سے نوازا ہے۔اور میں اسکی ضد ہوں جبکہ میرے پاس کوئی طاقت نہیں ہے لہٰذا جیسی فوج تو نے اسے دی ہے مجھے بھی ایسی ہی زبردست فوج عنایت فرما۔تو ارشاد الٰہی ہوا :بالکل ( عطاکرونگا)لیکن اگر اسکے بعد تونے میری نا فرمانی کی تومیں تجھے تیرے لشکر سمیت اپنی رحمت سے باہر نکال دونگا اس نے کہا مجھے منظور ہے تو خداوند عالم نے اسے بھی پچھتّر لشکر عنایت فرما ئے ۔چنانچہ عقل اورجہل کو جو الگ الگ پچھتّر لشکر عنایت کئے گئے انکی تفصیل یہ ہے:

خیر، عقل کا وزیرہے اور اسکی ضد شر کو قرار دیا جو جہل کا وزیر ہے ۔

ایمان کی ضد کفر

تصدیق کی ضد انکار

رجاء (امید)کی ضد مایوسی

عدل کی ضد ظلم وجور

رضا(خشنودی )کی ضد ناراضگی

شکرکی ضد کفران(ناشکری)

لالچ کی ضد یاس

توکل کی ضدحرص

رافت کی ضدغلظت؟

رحمت کی ضد غضب

علم کی ضد جہل

فہم کی ضد حماقت

عفت کی ضد بے غیرتی

زہد کی ضد رغبت(دلچسپی)

قرابت کی ضدجدائی

خوف کی ضد جرائت

۹۴

تواضع کی ضد تکبر

محبت کی ضدتسرع (جلد بازی)؟

علم کی ضد سفاہت

خاموشی کی ضد بکواس

سر سپردگی کی ضد استکبار

تسلیم(کسی کے سامنے تسلیم ہونا)کی ضدسرکشی

عفوکی ضد کینہ

نرمی کی ضد سختی

یقین کی ضد شک

صبر کی ضدجزع فزع (بے صبری کا اظہار کرنا)

خطا پر چشم پوشی (صفح)کی ضد انتقام

غنیٰ کی ضد فقر

تفکر کی ضد سہو

حافظہ کی ضد نسیان

عطوفت کی ضد قطع(تعلق)

قناعت کی ضد حرص

مواسات کی ضد محروم کرنا (کسی کا حق روکنا)

مودت کی ضد عداوت

وفا کی ضد غداری

اطاعت کی ضد معصیت

خضوع کی ضد اظہارسر بلندی

سلامتی کا ضد بلائ

حب کی ضد بغض

۹۵

صدق کی ضد کذب

حق کی ضد باطل

امانت کی ضد خیانت

اخلاص کی ضد ملاوٹ

ذکاوت کی ضد کند ذہنی

فہم کی ضد ناسمجھی

معرفت کی ضد انکار

مدارات کی ضد رسوا کرنا

سلامت کی ضد غیب

کتمان کی ضد افشا(ظاہر کر دینا)

نماز کی ضد اسے ضائع کرنا

روزہ کی ضد افطار

جہاد کی ضد بزدلی(دشمن سے پیچھے ہٹ جانا)

حج کی ضد عہد شکنی

راز داری کی ضدفاش کرنا

والدین کے ساتھ نیکی کی ضد عاق والدین

حقیقت کی ضد ریا

معروف کی ضد منکر

ستر(پوشش)کی ضد برہنگی

تقیہ کی ضد ظاہر کرنا

انصاف کی ضدحمیت

ہوشیاری کی ضد بغاوت

صفائی کی ضدگندگی

۹۶

حیاء کی ضد بے حیائی

قصد (استقامت )کی ضد عدوان

راحت کی ضدتعب(تھکن)

آسانی کی ضد مشکل

برکت کی ضدبے برکتی

عافیت کی ضد بلا

اعتدال کی ضد کثرت طلبی

حکمت کی ضد خواہش نفس

وقار کی ضد ہلکا پن

سعادت کی ضد شقاوت

توبہ کی ضد اصرار (برگناہ)

استغفار کی ضداغترار(دھوکہ میں مبتلارہنا)

احساس ذمہ داری کی ضد لاپرواہی

دعا کی ضدیعنی غرور وتکبر کا اظہار

نشاط کی ضد سستی

فرح(خوشی)کی ضد حزن

الفت کی ضد فرقت(جدائی)

سخاوت کی ضد بخل

پس عقل کے لشکروں کی یہ ساری صفتیں صرف نبی یا نبی کے وصی یا اسی بندئہ مومن میں ہی جمع ہوسکتی ہیں جس کے قلب کا اللہ نے ایمان کے لئے امتحان لے لیا ہو!البتہ ہمارے بقیہ چاہنے والوں میں کوئی ایسا نہیں ہے جسمیںان لشکروں کی بعض صفتیںنہ پائی جائیں یہاں تک کہ جب وہ انہیں اپنے اندر کامل کرلے اور جہل کے لشکر سے چھٹکارا پا لے تو وہ بھی انبیاء اوراوصیاء کے اعلیٰ درجہ میں پہونچ جائے گا ۔بلا شبہ کامیابی عقل اور اسکے لشکر کی معرفت اور جہل نیز اس کے لشکر سے دوری کے ذریعہ حاصل ہوتی ہے ۔

۹۷

خداوند عالم ہمیں اور خصوصیت سے تم لوگوں کو اپنی اطاعت اور رضا کی توفیق عطا فرمائے ۔( ۱ )

دوسری روایت

ہشام بن حکم نے یہ روایت امام موسیٰ کاظم سے نقل کی ہے اور شیخ کلینی (رہ)نے اسے اصول کافی میں تحریر کیا ہے اور اسی سے علامہ مجلسی (رہ)نے اپنی کتاب بحارالانوار میں نقل کیاہے۔( ۲ )

یہ روایت چونکہ کچھ طویل ہے لہٰذا ہم صرف بقدر ضرورت اسکااقتباس پیش کر رہے ہیں:

امام موسی کاظم نے فرمایا :اے ہشام عقل اور اسکے لشکروں کو اور جہل اور اسکے لشکروں کو پہچان لو اور ہدایت یافتہ لوگوں میں سے ہوجائو:ہشام نے عرض کی ہمیں تو صرف وہی معلوم ہے جوآپ نے سکھادیا ہے تو آپ نے فرمایا :اے ہشام بیشک خداوند عالم نے عقل کو پیدا کیا ہے اور ﷲ کی سب سے پہلی مخلوق ہے۔۔۔پھر عقل کے لئے پچھتّر لشکر قرار دئے چنانچہ عقل کو جو پچھتّر لشکر دئے گئے وہ یہ ہیں:

خیر ،عقل کا وزیر اور شر، جہل کا وزیر ہے

ایمان، کفر

تصدیق، تکذیب

اخلاص ،نفاق

رجا ئ،ناامیدی

عدل،جور

خوشی ،ناراضگی

____________________

(۱)بحار الانوار ج۱ ص۱۰۹۔۱۱۱ کتاب العقل والجہل۔

(۲)اصول کافی جلد۱ص۱۳۔۲۳،بحارالانوار جلد۱ص۱۵۹۔

۹۸

شکر، کفران(ناشکری)

طمع رحمت ،رحمت سے مایوسی

توکل،حرص

نرم دلی،قساوت قلب

علم، جہل

عفت ،بے حیائی

زہد،دنیا پرستی

خوش اخلاقی،بد اخلاقی

خوف ،جرائت

تواضع ،کبر

صبر،جلدبازی

ہوشیاری ،بے وقوفی

خاموشی،حذر

سرسپردگی، استکبار

تسلیم،اظہار سربلندی

عفو، کینہ

رحمت، سختی

یقین ،شک

صبر،بے صبری (جزع)

عفو،انتقام

استغنا(مالداری) ، فقر

تفکر،سہو

حفظ،نسیان

۹۹

صلہ رحم، قطع تعلق

قناعت ،بے انتہالالچ

مواسات ،نہ دینا (منع)

مودت ،عداوت

وفاداری ،غداری

اطاعت، معصیت

خضوع ،اظہار سربلندی

صحت ،(سلامتی )بلائ

فہم ،غبی ہونا(کم سمجھی)

معرفت، انکار

مدارات،رسواکرنا

سلامة الغیب ،حیلہ وفریب

کتمان (حفظ راز)،افشائ

والدین کے ساتھ حسن سلوک ،عاق ہونا

حقیقت،ریا

معروف ،منکر

تقیہ،ظاہر کرنا

انصاف ،ظلم

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

تعارف تفسیر

تفسیر ابن کثیر منھج اور خصوصیات

ڈاکٹر محمد اکبر ملک،

لیکچررشعبہ اسلامیات، گورنمنٹ ایس ای کالج بہاول پور

عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بن کثیر ۷۰۱ہجری(۱) میں شام کے شہر بصریٰ کے مضافات میں ”مجدل“ نامی بستی میں پیدا ہوئے۔(۲) اور دمشق میں تعلیم و تربیت پائی۔ آپ نے اپنے عہد کے ممتاز علماء سے استفادہ کیا

____________________

۱۔الداؤی شمس الدین محمد بن علی، طبقات المفسرین/۱/۱۱۲، دارالکتب العلمیه، بیروت لبنان، الطبعة الاولیٰ، ۱۴۰۳ه/۱۹۸۳ء ۔ بعض مورخین نے ابن کثیر کا سن ولادت ۷۰۰ھ قرار دیا ہے۔ ملاحظہ ہو،شذرات الذهب لابن العماد، ۶/۲۳۱، ذیل طبقات الحفاظ لجلال الدین السیوطی، صفحه ۳۶۱، مطبعة التوفیق بد مشق، ۱۳۴۷ه، عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر لاحمد محمد شاکر، ۱/۲۲، دارالمعارف القاهرة، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۶ء اسماعیل پاشابغدادی، امام ابن کثیر کا زمانہ ولادت ۷۰۵ھ بیان کرتے ہیں۔ ملاحظہ ہو۔هدیة العارفین، اسماء المولفین و آثار المصنیفین، ۱/۲۱۵، وکالة المعارف، استانبول، ۱۹۵۵ء ۔ امام صاحب کے سن ولادت کے بارے میں اسماعیل پاشا البغدادی کا بیان درست معلوم نہیں ہوتا کیونکہ امام صاحب کے والد ۷۰۳ھ میں فوت ہوئے۔ امام ابن کثیر کا اپنا بیان ہے کہ میں اپنے والد کی وفات کے وقت تقریباً تین سال کا تھا۔ ملاحظہ ہو،البدایه والنهایه لابن کثیر، ۱۴/۳۲ خود امام ابن کثیر اپنی کتاب”البدایه والنهایه“ میں ۷۰۱ھ کے واقعات بیان کرنے کے بعد لکھتے ہیں”وفیها ولد کا تبه اسماعیل بن عمر بن کثیر القرشی“ (البدایه والنهایه، ۱۴/۲۱)

۲۔ احمد محمد شاکر، عمدہ التفسیر، ۱/۲۲، بعض ماخذ کے مطابق ابن کثیر دمشق کے مضافات میں مشرقی بصریٰ کی ایک بستی”مجدل القریة“ میں پیدا ہوئے۔ (ملاحظہ ہو، ذیلتذکره الحفاظ لابی المحاسن شمس الدین الحسینی، صفحه ۵۷، مطبعة التوفیق، دمشق، ۱۳۴۷ه) جبکہ مطبوعہ”البدایه والنهایه“ میں”مجیدل القریة“ منقول ہے(البدایه والنهایه ابن کثیر، ۱۴/۳۱) عمر رضا کحالہ نے مقام ولادت ”جندل" تحریر کیا ہے۔(معجم المئولفین، ۳/۲۸۴، مطبعة الترقی بد مشق، ۱۳۷۶ه /۱۹۵۷ء)

۱۸۱

اور تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تاریخ، علم الرجال اور نحو عربیت میں مہارت حاصل کی۔(۳) آپ نے ۷۷۴ہجری میں دمشق میں وفات پائی اور مقبرہ صوفیہ میں مدفون ہوئے۔(۴) امام ابن کثیر بحیثیت مفسر، محدث، مورخ اور نقاد ایک مسلمہ حیثیت کے حامل ہیں۔ آپ نے علوم شرعیہ میں متعدد بلند پایہ کتب تحریر کیں۔”تفسیر القرآن العظیم“ اور ضخیم تاریخ”البدای والنهای“ آپ کی معروف تصانیف ہیں جن کی بدولت آپ کو شہر ت دوام حاصل ہوئی۔ زیر نظر مضمون اول الذکر کتاب کے تذکرہ پر مشتمل ہے۔

__________________

۳۔الذهبی، شمس الدین، تذکرة الحفاظ، ۴/۱۵۰۸، مطبعة مجلس دائرة المعارف العثمانیه، حید ر آباد دکن الهند، ۱۳۷۷ه ۱۹۵۸ء، ابن العماد، شذرات الذهب، ۶/۲۳۱، الشوکانی محمد بن علی، البدر الطالع بمحاسن من بعد القرآن السابع، مطبعة السعادة القاهرة، الطبعة الاولیٰ، ۱۳۴۸ه

۴۔النعیمی، عبدالقادر بن محمد، الدارس فی تاریخ المدارس، ۱/۳۷، مطعبة الترقی، دمشق، ۱۳۶۷ء۷۰ه

۱۸۲

تعارف تفسیر:

علامہ ابن کثیر نے قرآن کی جو تفسیر لکھی وہ عموماً تفسیرابن کثیر کے نام سے معروف ہے اور قرآن کریم کی تفاسیر ماثورہ میں بہت شہرت رکھتی ہے۔ اس میں مولف نے مفسرین سلف کے تفسیری اقوال کو یکجا کرنے کا اہتمام کیا ہے اور آیات کی تفسیر احادیث مرفوعہ اور اقوال و آثار کی روشنی میں کی ہے۔ تفسیر ابن جریر کے بعد اس تفسیر کو سب سے زیادہ معتبر خیال کیا جاتا ہے۔ اس کا قلمی نسخہ کتب خانہ خدیو یہ مصر میں موجود ہے۔ یہ تفسیر دس جلدوں میں تھی۔ ۱۳۰۰ء میں پہلی مرتبہ نواب صدیق حسن خان کی تفسیر ”فتح البیان“ کے حاشیہ پر بولاق، مصر سے شائع ہوئی۔ ۱۳۴۳ء میں تفسیر بغوی کے ہمراہ نو جلدوں میں مطبع المنار، مصر سے شائع ہوئی۔ پھر ۱۳۸۴ء میں اس کو تفسیر بغوی سے الگ کر کے بڑے سائز کی چار جلدوں میں مطبع المنار سے شائع کیا گیا۔ بعدازاں یہ کتاب متعدد بار شائع ہوئی ہے۔ احمد محمد شاکر نے اس کو بحذف اسانید شائع کیا ہے۔ محققین نے اس پر تعلیقات اور حاشیے تحریر کیے ہیں۔ سید رشید رضا کا تحقیقی حاشیہ مشہور ہے۔ علامہ احمد محمد شاکر (م۱۹۵۸) نے ”عمدة التفسیر عن الحافظ ابن کثیر“ کے نام سے اس کی تلخیص کی ہے۔ اس میں آپ نے عمدہ علمی فوائد جمع کیے ہیں۔ لیکن یہ نامکمل ہے۔ اسکی پانچ جلدیں طبع ہو چکی ہیں اور اختتام سورة انفال کی آٹھویں آیت پر ہوتا ہے۔

محمد علی صابونی نے ”تفسیر ابن کثیر“ کو تین جلدوں میں مختصر کیا اور ”مختصرتفسیر ابن کثیر“ کے نام سے اسے ۱۳۹۳ء میں مطبع دارالقرآن الکریم، بیروت سے شائع کیا بعد ازاں محمد نسیب رفاعی نے اس کو چار جلدوں میں مختصر کیا اور اسے ”تیسرالعلی القدیر لاختصار تفسیر ابن کثیر“ کے نام سے موسوم کیا۔ یہ ۱۳۹۲ء میں پہلی مرتبہ بیروت سے شائع ہوئی۔

ماخذ :

علامہ ابن کثیر نے اپنی ”تفسیر“ کی ترتیب و تشکیل میں سینکڑوں کتب سے استفادہ کیا ہے اور بے شمار علماء کے اقوال و آراء کو اپنی تصنیف کی زینت بنایا ہے۔ چند اہم ماخذ کے نام یہ ہیں۔

۱۸۳

تفاسیر قرآن :

طبری، قرطبی، رازی، ابن عطیة، ابو مسلم الاصفهانی، واحدی، زمخشری، وکیع بن جراح، سدی، ابن ابی حاتم، سنید بن داؤد، عبد بن حمید، ابن مردویة وغیرہ۔

علوم قرآن :

فضائل القرآن ابوعبیدة القاسم، مقدمة فی اصول تفسیر ابن تیمیة وغیرہ۔

کتب حدیث:

صحاح ستة، صحیح ابن حبان، صحیح ابن خزیمة، مؤطا امام مالک، مستدرک حاکم، سنن دارقطنی، مسند امام شافعی، مسند دارمی، مسند ابویعلی الموصلی، مسند عبد بن حمید، مسند ابو بکر البزار، معجم کبیر طبرانی وغیرہ۔

کتب تراجم اور جرح و تعدیل:

التاریخ الکبیر امام بخاری، مشکل الحدیث ابو جعفر الطحاوی، الجرح والتعدیل ابن ابی حاتم، الاستیعاب فی معرفة الاصحاب ابن عبدالبر، الموضوعات ابن الجوزی وغیرہ۔

کتب سیرت و تاریخ:

سیرة ابن اسحاق، سیرة ابن هشام، مغازی سعید بن یحییٰ اموی، مغازی واقدی، دلائل نبوة بیهقی، الروض الانف سهیلی، التنویرفی مولد السراج المنیر عمر بن وحیه الکلبی، تاریخ ابن عساکر وغیره ۔

۱۸۴

فقہ و کلام:

کتاب الام امام شافعی، الارشادفی الکلام امام الحرمین، کتاب الاموال ابوعبیدالقاسم، الاشراف علی مذاهب الاشراف ابن هبیره وغیرہ۔

لغات:

الصحاح ابونصر جوهری، معانی القرآن ابن زیاد الفراء وغیره

ان مصادر کے علاوہفضائل شافعی ابن ابی حاتم، کتاب الآثار و الصفات بیهقی، کشف الغطاء فی تبیین الصلوٰ ة الوسطیٰ و میاطی، کتاب التفکر والا اعتبار ابن ابی الدنیا، السر المکتوم رازی اور دیگر متعدد کتب کے حوالے بھی ہمیں زیر بحث کتاب میں ملتے ہیں، جن سے ابن کثیر کے وسعت مطالعہ اور تحقیقی میدان میں دلچسپی کا اندازہ ہوتا ہے۔

حافظ ابن کثیر نے اپنی کئی تصانیف کے حوالے بھی ”تفسیر“ میں دئیے ہیں، مثلاًالبدایه والنهایه کتاب السیرة الاحکام الکبیر صفته النار، احادیث الاصول، جزء فی ذکر تطهیر المساجد، جزء فی الصلوٰة الوسطیٰ، جزء فی ذکر فضل یوم عرفه، جزء فی حدیث الصور وغیره ۔(۵) ۔

____________________

۵۔ ابن کثیر، عماد الدین اسماعیل بن عمر، تفسیر القرآن العظیم، ملاحظہ کیجئے بالترتیب: ۱/۳۶۳،۳/۴۷۸، ۱/۷۹، ۳۲۷،۴۵۷،۴/۵۴۳،۱/۵۵۵،۳/۲۹۲،۱/۲۹۴،۱/۲۴۳،۲/۱۴۹، امجد اکیڈمی لاہور،الباکستان، ۱۴۰۳ھ /۱۹۸۲ء۔

۱۸۵

منھج:

تفسیرکے اصولوں کا التزام :

علامہ ابن کثیر نے زیر تبصرہ کتاب کا نہایت مفصل مقدمہ تحریر کیا ہے اور تفسیر کے درج ذیل اصول متعین کیے ہیں:تفسیر القرآن بالقرآن تفسیر القرآن بالسنة تفسیر القرآن باقوال الصحابة تفسیر القرآن باقوال التابعین (۶)

یہ مرکزی اور بنیادی اصول تفسیر ابن کثیر میں یکساں طور پر بالترتیب نظر آتے ہیں۔ امام موصوف سلیس اور مختصرعبارت میں آیات کی تفسیر کرتے ہیں ایک آیت کے مفہوم کو واضح کرنے کے لیے کئی قرآنی آیات یکے بعد دیگرے پیش کرتے ہیں اور اس سے متعلق جملہ معلوم احادیث ذکر کرتے ہیں، بعدازاں صحابہ،تابعین اور تبع تابعین کے اقوال و آثاردرج کرتے ہیں۔ اس انداز میں مثالیں ان کی تفسیر میں بکثرت پائی جاتی ہیں۔ سورة المومنون کی آیت۵۰ :

( وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَاُمَّه اٰیٰةً وَّ اٰوَیْنٰهُمَآ اِلٰی رَبْوَةٍ ذَاتِ قَرَارٍ وَّمَعِیْنٍ )

کی تفسیر میں متعددروایات و اقوال نقل کیے ہیں اور مختلف مفاہیم بیان کیے ہیں۔ ایک مفہوم کو ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں۔

”یہ مفہوم زیادہ ”واضح اور ظاہر ہے، اس لیے کہ دوسری آیت میں بھی اس کا تذکرہ ہے، اور قرآن“ کے بعض حصے دوسرے حصوں کی تفسیر کرتے ہیں اور یہی سب سے عمدہ طریقہ تفسیرہے، اس کے بعد صحیح حدیثوں کا اور ان کے بعد آثار کا نمبر آتا ہے۔"(۷)

____________________

۶۔ تفصیل کیلئے دیکھئیے، تفسیر ابن کثیر ۱/۳۔ ۶

۷۔ ایضاً۳/۲۴۶۔

۱۸۶

نقد و جرح:

حافظ ابن کثیر ایک بلند پایہ محدث تھے، اس لیے انہوں نے محدثانہ طریق پر یہ کتاب مرتب کی ہے اور نہایت احتیاط سے صحیح حدیثوں کے انتخاب کی کوشش کی ہے۔ وہ دوران بحث جرح و تعدیل کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے صحیح روایات کو نکھار کر پیش کرتے ہیں،بعض روایات کو ضعیف قرار دیتے ہیں جبکہ غلط اور فاسد روایتوں کی تردید کرتے ہیں، مثلاً آیت( یَوْمَ نَطْوِی السَّمَآءَ کَطَیِّ السِّجِلِّ لِلْکُتُبِ ) (الانبیاء: ۱۰۴) کے بارے میں ابن عمر سے روایت ہے کہ سجل آنحضور کے ایک کاتب کا نام تھا۔ اس پر تنقید کرتے ہوئے ابن کثیر تحریر کرتے ہیں:

”یہ منکر روایت ہے اور یہ قطعاً صحیح نہیں۔ ابن عباس سے بھی جو روایت بیان کی جاتی ہے، وہ ابوداؤد میں ہونے کے باوجود غلط ہے۔ حفاظ کی ایک جماعت نے اس کی وضعیت پر ایک مستقل رسالہ تحریر کیا ہے اور ابن جریر نے بھی اس کا نہایت پر زور رد کیا ہے۔ اس روایت کے ضعیف ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ رسول اللہ کے تمام کاتبین وحی نہایت مشہور لوگ ہیں ان کے نام معروف ہیں۔ صحابہ میں بھی کسی کا نام سجل نہ تھا۔"(۸)

علامہ ابن کثیر مختلف روایتوں کے متعدد طرق و اسناد کا ذکر کے روات پر بھی جرح کرتے ہیں مثلاً سورة البقرة کی آیت ۱۸۵:

( هُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰاتٍ مِّنَ الْهُدٰی )

کے تحت ابومعشر نجیح بن عبد الرحمن المدنی کو ضعیف قرار دیا ہے(۹)

____________________

۸۔ ایضاً۳/۲۰۰۔ خود ابن کثیر نے بھی حدیث سجل کے رد میں ایک جزء تحریر کیا ہے جس کا حوالہ انہوں نے اپنی تفسیر میں دیا ہے، ملاحظہ ہو صفحہ مذکور۔

۹۔ ابن کثیر، تفسیر، ۱/۲۱۶۔

۱۸۷

اسی طرح سورہ مذکورہ کی آیت ۲۵۱:

( وَ لَوْلَا دَفْعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعْضَهُمْ بِبَعْضٍ لَّفَسَدَتِ الْاَرْضُ )

کی تفسیر میں مختلف طرق سے ایک روایت بیان کی ہے اور یحییٰ بن سعید کو ضعیف قرار دیا ہے۔(۱۰)

سورة نساء کی آیت۴۳:

( یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوٰةَ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا )

کی تفسیر میں سالم بن ابی حفصہ کو متروک اور ان کے شیخ عطیہ کوضعیف قرار دیا ہے۔(۱۱) اسی سورت کی آیت ۹۳:

( وَمَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مَُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُه جَهَنَّمُ الخ ) کے سلسلے میں فرماتے ہیں۔ ابن مردویہ میں حدیث ہے کہ جان بوجھ کر ایمان دار کو مار ڈالنے والا کافر ہے یہ حدیث منکر ہے اور اس کی اسناد میں بہت کلام ہے۔(۱۲) ابن کثیر نے حدیث کے ساتھ ساتھ آثار صحابہ اور اقوال تابعین بھی کثرت سے نقل کئے ہیں لیکن ان کی صحت جانچنے کے لئے یہاں بھی انہوں نے بحث وتنقید کا معیار برقرار رکھا ہے اور ان کی تائید وتردید میں اپنی معتبر رائے کا اظہار کیا ہے مثلاً سورة النساء کی آیت ۴۱:

( فَکَیْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ کُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِیْدٍ الخ )

کی تفسیر میں ابوعبداللہ قرطبی کی کتاب ”تذکرہ“ کے حوالے سے حضرت سعید بن مسّیب کا قول نقل کرتے ہیں اور پھرفرماتے ہیں۔ ”یہ اثر ہے اور اس کی سند میں انقطاع ہے۔ اس میں ایک راوی مبُہم ہے، جس کا نام ہی نہیں نیز یہ سعید بن مسیب کا قول ہے جو حدیث مرفوع بیان ہی نہیں کرتے۔ "(۱۳)

____________________

۱۰۔ ایضاً، ۱/۳۰۳۔ ۱۱۔ ایضاً،۱/۵۰۱ ۱۲۔ ایضاً ۱/۵۳۶۔ ۱۳۔ ایضاً،۱/۴۹۹

۱۸۸

جرح وقدح کے ضمن میں ابن کثیر تاریخ غلطیوں اور حوالوں کی بھی تردید کرتے ہیں،مثلاً

( واذا تتلیٰ علیهم اْٰیٰتناٰ قالو اقد سمعنا لونشآ ء لقلنا مثل هذا ) (الانفال: ۳۱)

کے تحت لکھتے ہیں: ”حضور نے بدر کے روز تین قیدیوں کے قتل کا حکم دیا تھا۔ (۱) عقبہ بن ابی معیط (۲) طعیمہ بن عدی (۳) نضر بن حارث۔ سعید بن جبیر نے ایک روایت میں طعیمہ کی بجائے مطعم بن عدی کا نام بتایا ہے۔ یہ بات غلط ہے، کیونکہ مطعم بن عدی تو بدر کے روز زندہ ہی نہیں تھا، اس لیے اس روز حضور نے فرمایا تھا کہ اگر آج مطعم بن عدی زندہ ہوتا اور ان مقتولین میں سے کسی کا سوال کرتا میں تو اس کو وہ قیدی دے دیتا۔ آپ نے یہ اس لیے فرمایا تھاکہ مطعم نے آنحضرت کو اس وقت تحفظ دیا تھا جب آپ طائف کے ظالموں سے پیچھا چھڑا کر مکہ واپس آرہے تھے۔"(۱۴)

شان نزول کا بیان:

اگر کسی سورة یا آیت کا شان نزول ہے تو اما م ابن کثیر اپنی ”تفسیر“ میں اس کا تذکرہ کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرة کی آیت ۱۰۹:

( ودکثیر من اهل الکتاب لویر دونکم من بعد ایمانکم )

کے تحت لکھتے ہیں: ”ابن عباس سے روایت ہے کہ حی بن اخطب اور ابویا سر بن اخطب دونوں یہودی مسلمانوں کے سب سے زیادہ حاسد تھے اور وہ لوگوں کو اسلام سے روکتے تھے، ان کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔ زہری کہتے ہیں کہ کعب بن اشرف شاعر تھا اور وہ اپنی شاعری میں نبی کی ہجو کیا کرتا تھا۔ اس کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی۔"(۱۵) سورة اخلاص کا شان نزول اس طرح بیان کیا ہے:

____________________

۱۴۔ ایضاً۲/۳۰۴ ۱۵۔ ایضاً۱/۱۵۳۔

۱۸۹

”مسند احمد میں ہے کہ مشرکین نے حضور سے کہا اپنے رب کے اوصاف بیان کرو اس پر یہ آیت اتری اور حافظ ابویعلی موصلی کہتے ہیں کہ ایک اعرابی نے رسول کریم سے یہ سوال کیا اس کے جواب میں یہ سورہ اتری۔(۱۶)

فقہی احکام کا بیان :

ابن کثیر احکام پر مشتمل آیات کی تفسیر کرتے ہوئے فقہی مسائل پر بحث کرتے ہیں اور اس سلسلے میں فقہا کے اختلافی اقوال و دلائل بیان کرتے ہیں، مثلاً سورة بقرہ کی آیت

( قد نری تقلب وجهک فی السماء الخ )

کے تحت لکھتے ہیں: ”مالکیہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نمازی حالت نماز میں اپنے سامنے اپنی نظر یں رکھے نہ کہ سجدہ کی جگہ جیسا کہ شافعی، احمد اور ابو حنیفہ کا مسلک ہے، اس لیے کہ آیت کے لفظ یہ ہیں۔

( فول و جهک شطر المسجد الحرام )

یعنی مسجد حرام کی طرف منہ کرو اور اگرسجدے کی جگہ نظر جمانا چاہے گا تو اسے قدرے جھکنا پڑے گا اور یہ تکلف خشوع کے خلاف ہو گا۔ بعض مالکیہ کایہ قول بھی ہے کہ قیام کی حالت میں اپنے سینے پر نظر رکھے۔ قاضی شریح کہتے ہیں کہ قیام میں سجدے کی جگہ نظر رکھے جیسا کہ جمہور علماء کا قول ہے اس لیے کہ اس میں پورا پورا خشوع وخضوع ہے۔ اس مضمون کی ایک حدیث بھی موجود ہے اور رکوع کی حالت میں اپنے قدموں کی جگہ نظر رکھے اور سجدے کے وقت ناک کی جگہ اور قعدہ کی حالت میں اپنی آغوش کی طرف۔(۱۷)

____________________

۱۶۔ ایضاً،۵۶۵

۱۷۔ ایضاً،۱/۱۹۳

۱۹۰

( فمن شهد منکم الشهر ) (البقرة: ۱۸۵)

کی تفسیر میں مولف نے چار مسائل کا ذکر کر کے اس بارے میں علما ء کے مختلف مسالک اور ان کے براہین و دلائل بیان کیے ہیں۔(۱۸)

سورہ نساء کی آیت ۴۳ کے تحت تیمم کے مسائل اور احکام ذکر کیے گئے ہیں۔(۱۹)

( لایواخذکم اللّٰه باللغوفی ایمانکم ) (سورة المائدہ:۸۹)

کے تحت قصداً قسم کے سلسلے میں کفارہ ادا کرنے کے مسائل بیان کئے گئے ہیں(۲۰) امام ابن کثیر فقہی مسائل میں عموماً شافعی مسلک کی تائید کرتے ہیں۔

روایات و قول میں تطبیق:

ابن کثیر مختلف و متضاد روایات میں جمع و تطبیق کی کوشش کرتے ہیں اور ان کے مابین محاکمہ کرتے ہیں۔ مثلاً سورة آلِ عمران کی آیت ۱۶۹

( ولاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل الله امواتاً بل احیاً ء عند ربهم یرزقون ) کی تفسیر میں لکھتے ہیں : صحیح مسلم میں ہے، مسروق کہتے ہیں ہم نے عبد اللہ ابن مسعود سے اس آیت کا مطلب پوچھا تو حضرت عبداللہ نے فرمایا کہ ہم نے رسول اللہ سے اس آیت کا مطلب دریافت کیا: آپ نے فرمایا: شہیدوں کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور ان کیلئے عرش کی قند یلیں ہیں۔ وہ ساری جنت میں جہاں کہیں چاہیں، کھائیں پےئیں اور قندیلیوں میں آرام کریں۔

___________________

۸۱۔ ایضاً،۱/۲۱۶۔ ۲۱۷ ۱۹۔ ایضاً، ۱/۵۰۵،۴،۵ ۲۰۔ ایضاً،۲/۸۹۔ ۹۱

۱۹۱

لیکن مسند احمد میں ہے کہ شہید لوگ جنت کے دروازے پر نہر کے کنارے سبز گنبد میں ہیں۔ صبح و شام انہیں جنت کی نعمتیں پہنچ جاتی ہیں۔ دونوں حدیثوں میں تطبیق یہ ہے کہ بعض شہداء وہ ہیں جن کی روحیں پرندوں کے قالب میں ہیں اور بعض و ہ ہیں جن کا ٹھکانہ یہ گنبد ہے۔ اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ وہ جنت میں سے پھرتے پھراتے یہاں جمع ہوتے ہوں اور پھر انہیں یہیں کھانے کھلائے جاتے ہوں۔” والله اعلم‘‘ (۲۱)

آپ مختلف تفسیری اقوال میں بھی تطبیق دیتے ہیں مثلاً سورة قصص کی آیت (۸۵) ”لر آدک الیٰ معاد“ کے بارے میں حضرت عبداللہ بن عباس کے تین قول نقل کیے ہیں (۱) موت (۲) جنت (۳) مکہ۔ ان تینوں اقوال میں یوں تطبیق دی ہے کہ مکہ کا مطلب فتح مکہ ہے جوحضوراکرم کی موت کی قربت کی دلیل ہے اور روز قیامت مراد لینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ بہر حال موت کے بعد ہی ہو گا اور جنت اس لیے کہ تبلیغ رسالت کے صلہ میں آپ کا ٹھکانہ وہی ہو گا۔(۲۲)

قرآنی آیات کا ربط و تعلق:

ابن کثیر قرآن مجید کے ربط و نظم کے قائل تھے۔ وہ اپنی ”تفسیر" میں آیات کے باہمی تعلق اور مناسبت کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قرآن پاک ایک مربوط منظم کتاب نظر آتی ہے، اس سلسلے میں متعدد مثالیں ”تفسیر ابن کثیر“ میں نظر آتی ہیں مثلاً آیت

( انما الصدٰقٰت للفقرآء والمساکین ) (سورہ توبہ: ۶۰) کے سلسلے میں رقمطر از ہیں۔

___________________

۲۱۔ ایضاً،۱/۴۲۶۔ ۴۲۷

۲۲۔ ایضاً،۳/۴۰۳

۱۹۲

”سورة توبہ کی آیت ۵۸( ومنهم من یلمزک فی الصدقت )

میں ان جاھل منافقوں کا ذکر تھا جو ذات رسول پر تقسیم صدقات کے سلسلے میں اعتراض کرتے تھے۔ اب یہاں اس آیت میں فرمایا کہ تقسیم زکوةٰ پیغمبر کی مرضی پر موقوف نہیں بلکہ ہمارے بتلائے ہوئے مصارف میں ہی لگتی ہے، ہم نے خود اس کی تقسیم کر دی ہے، کسی اور کے سپرد نہیں کی۔"(۲۳) ( اولئٓک یجزون الغرفة بما صبروا ) (سورہ الفرقان: ۷۵،۷۶) کے متعلق فرماتے ہیں۔ ’چونکہ خدائے رحمن نے اس سے پہلی آیات میں اپنے مومن بندوں کے پاکیزہ اوصاف اور عمدہ طور طریقوں کا ذکر کیا تھا، اس لیے اس کی مناسبت سے اس آیت میں ان اجزا کا ذکر کیا ہے۔"(۲۴)

قرآن مجید میں بعض مقامات پر مومن اور باطل فرقوں کیلئے اسلوب تقابل اختیار کیا گیا ہے جو اس کے منظم و مربوط ہونے کی بہت بڑی دلیل ہے علامہ ابن کثیر نے یہاں بھی آیتوں کی مناسبت اور ان کا باہمی ربط بیان کیا ہے، مثلاً

( وبشرالذین امنوا وعملو الصٰالحٰتِ ) (سورةالبقرة :۲۵)

کے بارے میں تحریر کرتے ہیں۔ ”چونکہ اللہ تعالی نے پہلے اپنے دشمنوں یعنی بدبخت کفار کی سزا اور رسوائی کا تذکرہ کیا تھا، اس لیے اب اس کی مناسبت سے یہاں اس کے مقابلہ میں اپنے دوستوں یعنی خوش قسمت ایماندار، صالح و نیک لوگوں کے اجر کا ذکر کر رہا ہے اور صحیح قول کے مطابق قرآن مجید کے مثالی ہونے کا یہی مطلب ہے کہ ایمان کے ساتھ کفر اور سعادتمندوں کے ساتھ بدبختوں یا اس کے برعکس یعنی کفر کے ساتھ ایمان اور بدبختوں کے ساتھ سعادتمندوں کا تذکرہ کیا جائے۔ اس بحث کا حاصل یہ ہے کہ اگر کسی چیز کے ساتھ اس کے مقابل کا ذکر کیا جائے تو یہ مثانی کہلائے گا اور اگر کسی چیز کے ساتھ اسکے امثال و نظائر کا تذکرہ کیا جائے تو یہ متشابہ ہو گا۔"(۲۵)

__________________

۲۳۔ ایضاً،۲/۳۶۴ ۲۴۔ ۲/۳۶۴ ۲۴۔ ایضاً، ۳/۳۳۰ ۲۵۔ ایضاً، ۱/۶۲

۱۹۳

حروف مقطعات پر بحث:

حروف مقطعات کے بارے میں امام ابن کثیر کا نقطہ نظریہ ہے:

”جن جاہلوں کا یہ خیال ہے کہ قرآن کی بعض چیزوں کی حیثیت محض تعبدی ہے، وہ شدید غلطی پر ہیں۔ یہ تو بہر حال متعین ہے کہ ان حروف (مقطعات ) کے کوئی نہ کوئی معنی ضرور ہیں، خدا نے ان کو عبث نازل نہیں فرمایا، اگر ان کے متعلق نبی کریم سے کوئی بات ثابت ہو گی تو ہم اسے بیان کرینگے اور اگر حدیث سے کوئی بات معلوم نہ ہو گی تو ہم توقف کریں گے اور یہ کہیں گے کہ (امنابہ کل من عندہ ربنا )۔ حروف مقطعات کے متعلق علمائے امت کا کسی ایک قول اور مفہوم پر اجماع نہیں ہے بلکہ اختلافات ہیں، اس لیے اگر کسی دلیل سے کسی کے نزدیک مفہوم زیادہ واضح ہے تو اس کو وہ مفہوم اختیار کر لینا چاہیے، ورنہ حقیقت حال کے انکشاف تک توقف کرنا چاہیے۔"(۲۶)

ابن کثیر نے زیر بحث کتاب میں حروف مقطعات پر عمدہ بحث کی ہے اس سلسلے میں وہ مختلف مفسرین کے اقوال کی روشنی میں ان کے معانی ومفاہیم متعین کرنے کی کوشش کرتے ہیں(۲۷)

فضائل السورآیات:

”تفسیر ابن کثیر“ میں سورتوں اور آیتوں کے فضائل و خصوصیات، آنحضور کا ان پر تعامل اور امت کو ترغیب و تلقین کا تذکرہ پایاجاتا ہے۔ اس سلسلے میں ابن کثیر نے اہم کتب احادیث کے علاوہ امام نسائی کی معروف تصنیف”عمل الیوم واللیلة“ اور امام بیہقی کی”کتاب الخلافیات“ سے بھی استفادہ کیا ہے۔ زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں سورة البقرہ اور سورة آلِ عمران کے فضائل کا مفصل بیان ہے۔ اسی طرح آیت( ولقد اتیناک سبعاً من المثانی ) (سورہ الحجر: ۸۷)

___________________

۲۶۔ ایضاً، ۱/۳۷ ۲۷۔ ایضاً، ۱/۳۵۔ ۳۸

۱۹۴

کے تحت سبع مثانی کی تفسیر میں سات مطول سورتوں بشمول سورة البقرہ وآلِ عمران کے فضائل و خصائص تحریر کیے گئے ہیں۔(۲۸)

امام ابن کثیر سورہ حشر کی آخری تین آیتوں کے متعلق فرماتے ہیں:

”مسند احمد کی حدیث میں ہے کہ جو شخص صبح کو تین مرتبہ

اعوزبالله السمیع العلیم من الشیطان الرجیم

پڑھ کر سورة حشر کی آخری تین آتیوں کو پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کیلئے ستر ہزار فرشتے مقرر کرتا ہے جو شام تک اس پر رحمت بھیجتے ہیں اور اگر اسی دن اس کا انتقال ہو جائے تو شہادت کا مرتبہ پاتا ہے اور جو شخص ان کی تلاوت شام کے وقت کرے، وہ بھی اسی حکم میں ہے“(۲۹) امام صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں کہ ”جادو کو دور کرنے اور اس کے اثر کو زائل کرنے کیلئے سب سے اعلیٰ چیز معوذ تان یعنی سورة الفلق اور سورة الناس ہیں۔ حدیث میں ہے کہ ان جیسا کوئی تعویذ نہیں۔ اسی طرح آیت الکرسی بھی شیطان کو دفع کرنے میں اعلیٰ درجہ کی چیز ہے۔"(۳۰)

اشعار سے استشھاد:

ابن کثیر نے اپنی تفسیر میں ایک انداز یہ بھی اختیار کیا ہے کہ وہ کسی آیت کے معنی و مفہوم کو واضح کرنے کیلئے حسب موقع عربی اشعار پیش کرتے ہیں۔ یہ طرز غالباً انہوں نے طبری سے حاصل کیا ہے۔ آیت( قل متاع الدنیا قلیل وًالاخرة خیر لمن اتقیٰ ) ۔ (النساء : ۷۷) کی تفسیر بیان کرتے ہوئے موصوف نے ابومصہر کے یہ اشعار بیان کیے ہیں۔

____________________

۲۸۔ ایضاً، ۱/۳۲۔ ۳۵ نیز ملاحظہ کیجئے ۲/۵۵۷ ۲۹۔ ایضاً، ۴/۳۴۴ ۳۰ ایضاً، ۱/۱۴۸

۱۹۵

ولاخیر فی الدنیا لمن لم یکن له

من اللّٰه فی دارالمقام نصیب

فان تعجب الدنیا رجالا فانها

متاع قلیل والزوال قریب(۳۱)

(اس شخص کیلئے دنیا میں کوئی بھلائی نہیں جس کو اللہ کی طرف سے آخرت میں کوئی حصہ ملنے والا نہیں۔ گو یہ دنیا بعض لوگوں کو پسندیدہ معلوم ہوتی ہے، لیکن دراصل یہ معمولی سافائدہ ہے۔ اور وہ بھی ختم ہونے والا ہے)۔

( وَإِنِّي لَأَظُنُّكَ يَا فِرْعَوْنُ مَثْبُورًا ) (سورہ بنی اسرائیل : ۱۰۲)

میں لفظ ”مثبور“ کے معنی ہلاک ہونا۔ ابن کثیر کہتے ہیں کہ یہ معنی عبداللہ بن زبعریٰ کے اس شعر میں بھی ہیں:۔

”اذا جار الشیطٰین فی سنن الغی

ومن مال میله مثبور"(۳۲)

جب شیطان سرکشی کے طریقوں پر چلتا ہے

اور پھر جو لوگ بھی سکے طریقے پر چلیں تو وہ ہلاک ہو جاتے ہیں۔

____________________

۳۱۔ ایضاً، ۱/۵۲۶ ۳۲۔ ایضاً، ۳/۶۷

۱۹۶

لغت عرب سے استدلال:

ابن کثیر تفسیر میں لغت سے بھی استدلال کرتے ہیں اور اقوال عرب کو نظائر و شواہد کے طور پر پیش کرتے ہوئے آیت کی تشریح و توضیح کرتے ہیں مثلاً( فقلیلا مایوٴمنون ) (البقرة : ۸۸) کے متعلق لکھتے ہیں : ”اس کے ایک معنی یہ ہیں کہ یہ بالکل ایمان نہیں رکھتے ہیں، جیسے عرب کہتے ہیں۔(فلما رأیت مثل هذاقط ) مطلب یہ ہے کہ میں نے اس جیسا بالکل نہیں دیکھا۔"(۳۳)

( يَسْأَلُونَكَ مَاذَا أُحِلَّ لَهُمْ ۖ قُلْ أُحِلَّ لَكُمُ الطَّيِّبَاتُ ۙ وَمَا عَلَّمْتُم مِّنَ الْجَوَارِحِ مُكَلِّبِينَ ) (سورةالمائدة : ۴)

کی تفسیر میں لفظ ”جوارح“ کو زیر بحث لاتے ہیں اور لکھتے ہیں: ”شکاری حیوانات کو جوارح اس لیے کہا گیا ہے کہ جرح سے مراد کسب اور کمائی ہے، جیسے کہ عرب کہتے ہیں”فلان جرح اهله خیراً“ یعنی فلاں شخص نے اپنے اہل و عیال کیلئے بھلائی حاصل کر لی ہے۔ نیز عرب کا ایک قول یہ بھی ہے”فلاں لا جارح له" یعنی فلاں شخص کا کوئی کمانے والانہیں۔"(۳۴)

جمہور مفسرین اور ابن کثیر:

ابن کثیر اپنی ”تفسیر" میں متقد مین علمائے تفسیر کے مختلف اقوال کا قدر مشترک تلاش کر کے اس کو ہم معنی ثابت کرتے ہیں اور اکثر جمہور علماء اہل سنت والجماعت کے نقطہء نظر سے اتفاق کرتے ہیں مثلاً آیت

( وَمَن كَانَ مَرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ ) (سورةالبقرة ۱۸۵) کے تحت ابن کثیر قضاء روزوں کے مسئلہ پر جمہور کا یہ مسلک اختیار کرتے ہیں کہ قصاء روزے پے در پے رکھنا واجب نہیں بلکہ یہ مرضی پر منحصر ہے کہ ایسے روزے الگ الگ دنوں میں رکھے جائیں یا متواتر دنوں میں(۳۵)

___________________

۳۳۔ ایضاً،۱/۱۲۴ ۳۴۔ ایضاً، ۲/۱۶ ۳۵۔ ایضاً، ۱/۲۱۷۔

۱۹۷

ابن کثیر نقل و روایت میں مقلد جامدنہ تھے بلکہ ان کی تنقید و تردید بھی کرتے تھے، اس لیے وہ سلف کی تفسیروں کے پابند ہونے کے باوجود بعض اوقات ان کی آراء سے اختلاف بھی کرتے ہیں مثلاً آیت

( فَلَمَّا آتَاهُمَا صَالِحًا جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا ۚ فَتَعَالَى اللَّـهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ) (الاعراف : ۱۹۰)

کی تفسیر میں ابن عباس کی روایت بیان کی ہے کہ حضرت حوا کی جو اولاد پیدا ہوتی تھی وہ ان کو اللہ تعالیٰ کی عبادت کیلئے مخصوص کر دیتی تھیں اور ان کا نام عبد اللہ، عبیداللہ وغیرہ رکھتی تھیں۔ یہ بچے مر جاتے تھے، چنانچہ حضرت آدم وحوا کے پاس ابلیس آیا اور کہنے لگا کہ اگر تم اپنی اولاد کا نام کوئی اور رکھو گے تو وہ زندہ رہے گا اب حوا کا جو بچہ پیدا ہوا تو ماں باپ نے اس کا نام عبدالحارث رکھا۔ اسی بناء پر اللہ نے فرمایا:

( جَعَلَا لَهُ شُرَكَاءَ فِيمَا آتَاهُمَا )

اللہ کی دی ہوئی چیز میں وہ دونوں اللہ کے شریک قرار دینے لگے۔

پھر ابن کثیر لکھتے ہیں: ”اس روایت کو ابن عباس سے ان کے شاگردوں مجاہد، سعید بن جبیر، عکرمہ اور طقبہ ثانیہ کے فتادہ اور سدی وغیرہ نے نقل کیا ہے۔ اسی طرح سلف سے خلف تک بہت سے مفسرین نے اس آیت کی یہی تفسیر کی ہے،لیکن ظاہر یہ ہے یہ واقعہ اہل کتاب سے لیا گیا ہے، اس کی ایک بڑی دلیل یہ ہے کہ ابن عباس اس واقعہ کو ابی بن کعب سے روایت کرتے ہیں، جیسے کہ ابن ابی حاتم میں ہے۔ میرے نزدیک یہ اثر ناقابل قبول ہے۔"(۳۶)

____________________

۳۶۔ ایضاً، ۲/۲۷۵

۱۹۸

سورة حج کی آیت ۵۲ :

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّىٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِهِ ) کے متعلق ابن کثیر کو جمہور کے نقطہ نظر سے اتفاق نہیں ہے، چنانچہ تحریر فرماتے ہیں:

”یہاں پر اکثر مفسرین نے غرانیق کا قصہ نقل کیا ہے اور یہ بھی کہ اس واقعہ کی وجہ سے اکثر مہاجرین حبشہ یہ سمجھ کر کہ اب مشرکین مکہ مسلمان ہو گئے ہیں، واپس مکہ آگئے لیکن یہ سب مرسل روایتیں ہیں جو میرے نزدیک مستند نہیں ہیں۔ ان روایات کو محمد بن اسحاق نے سیرت میں نقل کیا ہے، لیکن یہ سب مرسل اور منقطع ہیں۔ امام بغوی نے بھی اپنی تفسیر میں ابن عباس اور محمد بن کعب قرظی سے اس طرح کے اقوال نقل کرنے کے بعد خود ہی ایک سوال وارد کیا ہے کہ جب رسول کریم کی عصمت کا محافظ خود خدا تعالیٰ ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ؟ پھر اس کے کئی جوابات دےئے ہیں، جن میں سب سے صحیح اور قرین قیاس جواب یہ ہے کہ شیطان نے یہ الفاظ مشرکین کے کانوں میں ڈالے، جس سے ان کو یہ وہم ہو گیا کہ یہ الفاظ آنحضور کے منہ سے نکلے ہیں۔ حقیقت میں ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف شیطانی حرکت تھی، رسول کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔"(۳۷)

علم القراة اور لغوی تحقیق:

ابن کثیر قرآنی آیات کی تفسیر کرتے ہوئے حسب موقع اختلاف قرات و اعراب، صرفی و نحوی ترکیب اور الفاظ کی لغوی تحقیق کے علاوہ ان کے مصادر، تثنیہ، جمع اور اصطلاحی مفہوم بیان کرتے ہیں مثلاً آیت( وَلَقَدْ مَكَّنَّاكُمْ فِي الْأَرْضِ وَجَعَلْنَا لَكُمْ فِيهَا مَعَايِشَ ۗ قَلِيلًا مَّا تَشْكُرُونَ ) (الاعراف: ۱۰) میں لفظ ”معائش“ کی وضاحت اس طرح کرتے ہیں لفظ ”معایش“ کو سب لوگ (ی) کے ساتھ پڑھتے ہیں

___________________

۳۷۔ ایضاً، ۳/۳۲۹۔ ۳۳۰

۱۹۹

یعنی ہمزہ کے ساتھ ”مَعَائِش“ نہیں پڑھتے، لیکن عبدالرحمن بن ہرمز اس کو ہمزہ کے ساتھ پڑھتے ہیں اور صحیح تو یہی ہے۔ جو اکثر کا خیال ہے یعنی بلاہمزہ، اس لیے کہ ”معایش“ جمع معیشتہ کی ہے۔ یہ مصدر ہے، اس کے افعال ”عاش، یعیش مَعِیشَة ہیں اس مصدر کی اصلیت ہے ” معیشة“ کسرہ (ی) پر ثقیل تھا، اس لیے عین کی طرف منتقل کر دیا گیا ہے اور لفظ ”معیشة" معیشہ بن گیا ہے پھر اس واحد کی جب جمع بن گئی تو(ی) کی طرف حرکت پھر لوٹ آئی کیونکہ اب ثقالت باقی نہیں رہی، چنانچہ کہا گیا کہ مَعَایِش کا وزن مفاعل ہے اس لئے کہ اس لفظ میں (ی) اصل ہے بخلاف مدائن، صحائف اور بصائر کے کہ یہ مدنة صحیفة اور بصیرة کی جمع ہیں، چونکہ (ی) اس میں زائد ہے، لہذا جمع بروزن فعائل ہو گی اور ہمزہ بھی آئے گا۔(۳۸)

( وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّكَ لَيَبْعَثَنَّ عَلَيْهِمْ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ مَن يَسُومُهُمْ سُوءَ الْعَذَابِ ۗ إِنَّ رَبَّكَ لَسَرِيعُ الْعِقَابِ ۖ وَإِنَّهُ لَغَفُورٌ رَّحِيمٌ ) (سورہ الاعراف: ۱۶۷)

میں لفظ ”تَاَذَّنَ“ پر اس طرح بحث کرتے ہیں۔ ”تاذن بروزن تفعل“ اذان سے مشتق ہے یعنی حکم دیا یا معلوم کرایا اور چونکہ اس آیت میں قوت کلام کی شان ہے، اس لیے لیبعثن کا (ل) معنائے قسم کا فائدہ دے رہا ہے، اس لیے(ل) ے بعد ہی یبعثن لا یا گیاھم کی ضمیر یہود کی طرف ہے۔"(۳۹)

لغوی بحث کی عمدہ مثال ہمیں زیر تبصرہ کتاب کے آغاز میں تعوذ، تسمیہ اور سورة الفاتحہ کی تفسیر میں نظر آتی ہے۔ ابن کثیر لفظ ”صلوٰة" کی تحقیق فرماتے ہیں: ’عربی لغت میں (صلوٰة ) کے معنی دعا کے ہیں۔ اعشیٰ کا شعر ہے۔

____________________

۳۸۔ ایضاً، ۲/۲۰۲

۳۹۔ ایضاً، ۲/۲۵۹

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349